عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ : (( إِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیْھِمُ السَّقِیْمَ وَالضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِنَفْسِہٖ فَلْیُطَوِّلْ مَا شَاءَ)) (اخرجہ مالک فی الموطا (۱/۱۳۴ روایۃ ابي مصعب: ۳۳۶) البخاري:۷۰۳ من حدیث مالک بہ۔ [السنۃ : ۸۴۳])
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور بوڑھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور جب خود اکیلے نماز پڑھے تو جتنی چاہے لمبی پڑھے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِک ٍؓ حَدَّثَ : اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ : (( إِنِّيْ لَاَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنَا اُرِیْدُ إِطَالَتَھَا فَاَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِيِّ فَاَتَجَوَّزُ فِيْ صَلاَتِيْ مِمَّا اَعْلَمُ مِنْ شِدَّۃِ وَجْدِ اُمِّہٖ مِنْ بُکَائِہٖ ))۔
(بخاري، الاذان باب من اخف الصلٰوۃ عند بکاء الصبي : ۷۰۹ مسلم: ۴۷۰۔ [السنۃ : ۸۴۵])
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اوراسے لمبا کرنا چاہتا ہوں تو (کسی) بچے کا رونا سن لیتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں ، کیونکہ مجھے علم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ماں پر اس کے رونے سے سخت اثر ہوتا ہے۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ادْعُ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ۔ قَالَ : (( إِنِّيْ لَمْ اُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَۃً ))۔(مسلم، البر والصلۃ باب النھي عن لعب الدواب وغیرھا : ۲۵۹۹۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ مشرکوں کے لئے بددعا کریں ، تو آپ نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَبَّلَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ؛ وَعِنْدَہُ الْاَقْرَعُ بْنُ حَابِسِ التَّمِیْمِيُّ جَالِسٌ، فَقَالَ الْاَقْرَعُ : إِنَّ لِيْ عَشَرَۃً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْھُمْ اَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَیْہِ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَالَ : (( مَنْ لَّا یَرْحَمُ لَا یُرْحَمُ))
(صحیح البخاري، الادب باب رحمۃ الولد ومعانقتہ وتقبیلہ:۵۹۹۷، مسلم:۲۳۱۸۔[السنۃ : ۳۴۴۶])
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (ہی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا اور آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس التمیمی رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے تو اقرع نے کہا: میرے دس بچے ہیں میں نے ان کا کبھی بوسہ نہیں لیا تو رسول اللہﷺ نے اس کی طرف دیکھا پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : دَخَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ عَلٰی اَبِيْ سَیْفِ الْقَیْنِ، وَکَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاھِیْمَ ، فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (إِبْرَاھِیْمَ) فَقَبَّلَہٗ وَشَمَّہٗ۔ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَیْہِ بَعْدَ ذٰلِکَ وَإِبْرَاھِیْمُ یَجُوْدُ بِنَفْسِہٖ، فَجَعَلَتْ عَیْنَا رَسُوْلِ اللہِ ﷺ تَذْرِفَانِ، فَقَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ : وَاَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ :(( یَاابْنَ عَوْفٍ إِنَّھَا رَحْمَۃٌ ))۔ ثُمَّ اَتْبَعَھَا بِاُخْرٰی، فَقَالَ : (( إِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ یَحْزَنُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا یَرْضَی رَبَّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِکَ یَاإِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ))
(صحیح البخاري، الجنائز باب قول النبي ﷺ إنا بک لمحزونون:۱۳۰۳مسلم، الفضائل باب رحمتہ بالصبیان والعیال: ۲۳۱۵۔ [السنۃ : ۱۵۲۸] )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ابوسیف لوہار کے پاس گئے۔ وہ (آپﷺ کے بیٹے) ابراہیم کے رضاعی باپ تھے۔ تو رسول اللہﷺ نے ابراہیم کو (اٹھا) لیا پھر اس کا بوسہ لیا اور اسے منہ سے لگایا۔ پھر اس کے (کچھ عرصہ) بعد ہم اس کے پاس گئے تو ابراہیم کا سانس نکل رہا تھا رسو ل اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے شروع ہو گئے تو عبدالرحمن بن عوف نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ بھی (رو رہے ہیں )؟فرمایا: ’’اے ابن عوف، یہ رحمت ہے‘‘ پھر اس کے بعد فرمایا: بے شک آنکھ روتی ہے اور دل غمگین ہے اور ہم صرف وہی کہتے ہیں جس پر ہمارا رب راضی ہے اور اے ابراہیم! بے شک ہم تیری جدائی سے غمگین ہیں۔
عَنْ اَبِيْ قَتَادَۃَ السُّلَمِيِّ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ کَانَ یُصَلِّيْ وَھُوَ حَامِلٌ اُمَامَۃَ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَھَا، وَإِذَا قَامَ رَفَعَھَا (مالک فی الموطا(۱/۱۷۰ وروایۃ ابي مصعب: ۵۶۶) البخاري:۵۱۶، مسلم: ۵۴۳ من حدیث مالک بہ۔ [السنۃ : ۷۴۲]
سیدنا ابو قتادہ السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی چھوٹی نواسی) امامہ کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو اسے رکھ دیتے اور جب اٹھتے تو اسے اٹھا لیتے تھے۔