عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ؛ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِآنِیَتِھِمْ فِیْھَا الْمَائُ فَمَا یُؤْتٰی بِاِنَائٍ إِلاَّ غَمَسَ یَدَہٗ فِیْہِ، فَرُبَمَا جَاؤُوْہُ فِی الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَہٗ فِیْھَا۔ (صحیح مسلم، الفضائل باب قرب النبي ﷺ من الناس وتبرکھم بہ: ۲۳۲۴۔ [السنۃ : ۳۶۷۷])
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب صبح کی نماز پڑھتے تو مدینے کے خدمت گار اپنے برتنوں میں پانی لے آتے پانی کا جو برتن بھی دیا جاتا تو آپﷺ اس میں ہاتھ ڈبو دیتے۔ بعض اوقات وہ ٹھنڈی فجر کے وقت بھی پانی اور برتن لے آتے تھے تو آپ ﷺ اس میں (برکت کے لیے) اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے۔
قَالَ اَبُوْ رِفَاعَۃَ : انْتَھَیْتُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ، وَھُوَ یَخْطُبُ، قَالَ : فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَجُلٌ غَرِیْبٌ جَائَ یَسْاَلُ عَنْ دِیْنِہٖ لَا یَدْرِيْ مَا دِیْنُہٗ، قَالَ: فَاَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَتَرَکَ خُطْبَتَہٗ، حَتَّی انْتَھٰی إِلَيَّ فَاُتِيَ بِکُرْسِيٍّ حَسِبْتُ قَوَائِمَہٗ حَدِیْدًا، قَالَ : فَقَعَدَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ وَجَعَلَ یُعَلِّمُنِيْ مِمَّا عُلِّمَہٗ، ثُمَّ اَتٰی خُطْبَتَہٗ فَاَتَمَّ آخِرَھَا۔ (صحیح مسلم، الجمعۃ باب التعلم فی الخطبۃ: ۸۷۶ )
سیدنا ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ! میں اجنبی آدمی ہوں۔ دین سیکھنے کے لیے آیا ہوں ، دین کے بارے میں کچھ جانتا نہیں ہوں۔ رسول اللہﷺ خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف لائے۔ ایک کرسی لائی گئی جس کے پائے لوہے کے تھے۔ آپ اس کرسی پر بیٹھ گئے اور مجھے دین کے بارے میں سکھاتے رہے۔ پھر اس کے بعد آپ نے جا کر خطبہ دیا اور اس کو اختتام تک پہنچایا۔
عَنِ ابْنِ اَبِيْ اَوْفٰی یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یُکْثِرُ الذِّکْرَ، وَیُقِلُّ اللَّغْوَ، وَیُطِیْلُ الصَّلَاۃَ وَیَقْصُرُ الْخُطْبَۃَ۔ وَکَانَ لَا یَاْنَفُ، وَلَا یَسْتَکْبِرُ اَنْ یَّمْشِيَ مَعَ الْاَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ فَیَقْضِيْ لَہٗ حَاجَتَہٗ۔ (النسائي(۳/۱۰۹ح ۱۴۱۵) من حدیث الفضل بن موسٰی بہ وصححہ ابن حبان:۲۱۲۹، ۲۱۳۰ والحاکم ۲/۶۱۴ علٰی شرط الشیخین ووافقہ الذھبي۔ )
سیدنا (عبداللہ) ابن ابی اوفیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کثرت سے ذکر کرتے، (دنیاوی) باتیں بہت کم کرتے ، لمبی نماز پڑھتے اور مختصر خطبہ دیتے تھے اور نہ آپﷺ بیواؤں اور غریبوں کے ساتھ ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلنے سے ہی ہچکچاتے تھے۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( لَوْ دُعِیْتُ إِلٰی کُرَاعٍ لَاَجَبْتُ وَلَوْ اُھْدِيَ إِلَيَّ ذِرَاعٌ لَقَبِلْتُ ))۔ (اخرجہ البخاري:۲۵۶۸، ۵۱۷۸ من حدیث الاعمش بہ۔ [السنۃ : ۱۶۰۹])
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مجھے بکری کے ہاتھ یا کندھے کی دعوت دے تو قبول کر لوں گا۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یُدْعٰی إِلٰی خُبْزِ الشَّعِیْرِ وَالْإِھَالَۃِ السَّخِنَۃِ فَیُجِیْبُ، وَلَقَدْ کَانَ لَہٗ دِرْعٌ عِنْدَ یَہُوْدِيٍّ؛ فَمَا وَجَدَ مَا یُفَکُّھَا حَتّٰی مَاتَ۔
( اخرجہ الترمذي فی الشمائل: ۳۳۲ )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو جو کی روٹی اور باسی چربی کی دعوت دی جاتی تو قبول کر لیتے تھے۔ آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس (مرہون) تھی۔ آپ اپنی وفات تک اس رہن کو چھڑا نہ سکے۔
عَنِ الْاَسْوَدِ قَالَ سَاَلْتُ عَائِشَۃَ: مَاکَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَصْنَعُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : یَکُوْنُ فِيْ مِھْنَۃِ اَھْلِہٖ یَعْنِيْ خِدْمَۃِ اَھْلِہٖ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ۔ (بخاري، الاذان باب من کان في حاجۃ اھلہ إلخ: ۶۷۶۔ [السنۃ : ۳۶۷۸])
اسود (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا نبی کریم ﷺ گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: گھر والوں کی مدد میں گھر کے کام کرتے رہتے تھے۔ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔
عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ : سَاَلَ رَجُلٌ عَائِشَۃَ، ھَلْ کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَعْمَلُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : نَعَمْ، کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَخْصِفُ نَعْلَہٗ، وَیَخِیْطُ ثَوْبَہٗ، وَیَعْمَلُ فِيْ بَیْتِہٖ کَمَا یَعْمَلُ اَحَدُکُمْ فِيْ بَیْتِہٖ۔ (صحیح، اخرجہ عبدالرزاق: ۲۰۴۹۶ وللحدیث شواھد منہا الحدیث السابق۔ [السنۃ : ۳۶۷۵])
سیدنا عروہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ گھر کے کام (بھی) کرتے تھے انھوں نے کہا: جی ہاں ، رسول اللہﷺ اپنا جوتا گانٹھتے اور اپنا کپڑا سیتے تھے۔ جس طرح تم اپنے گھر کے کام کرتے ہو وہ بھی اپنے گھر کے کام کرتے تھے۔
(۳۸۹) عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّہَا سُئِلَتْ : مَا کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَصْنَعُ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ: مَا یَصْنَعُ اَحَدُکُمْ فِيْ بَیْتِہٖ یَخْصِفُ النَّعْلَ وَیَرْقَعُ الثَّوْبَ۔
(صحیح البخاري، الاذان باب من کان في حاجۃ اھلہ إلخ: ۶۷۶۔ [السنۃ : ۳۶۷۸])
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ گھر کے کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: جس طرح تم اپنے گھر کے کام کرتے ہو وہ جوتا گانٹھتے اور کپڑے کی مرمت کرتے تھے۔
عَنْ عَمْرَۃَ قَالَتْ : قِیْلَ لِعَائِشَۃَ : مَاذَا کَانَ یَعْمَلُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فِيْ بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ : کَانَ بَشَرًامِنَ الْبَشَرِ، یَفْلِيْ ثَوْبَہٗ، وَیَحْلِبُ شَاتَہٗ، وَیَخْدِمُ نَفْسَہٗ۔
(الترمذي فی الشمائل: ۳۴۱۔ [السنۃ : ۳۶۷۶])
سیدہ عمرہ (بنت عبدالرحمن، تابعیہ رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺ گھر میں کیا کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: آپﷺ انسانوں میں سے ایک انسان تھے۔ اپنے کپڑے میں سے جوئیں نکالتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی خدمت کرتے تھے۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَمْ یَکُنْ شَخْصٌ اَحَبَّ إِلَیْھِمْ رُؤْیَۃً مِنْ رَّسُوْلِ اللہِ ﷺ ، وَکَانُوْا إِذَا رَاَوْہُ لَمْ یَقُوْمُوْا لِمَا یَعْلَمُوْنَ مِنْ کَرَاھِیَتِہٖ لِذٰلِکَ (اخرجہ الترمذي: ۲۷۵۴ من حدیث عفان بہ وقال :’’ حسن صحیح۔ ‘‘)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کو دیکھنا پسند کرتے تھے اور جب وہ آپ کو دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ آپﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ وَاَبِيْ ذَرٍّ قَالَا: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ یَجْلِسُ بَیْنَ ظَھْرَانَيْ اَصْحَابِہٖ، فَیَجِيْئُ الْغَرِیْبُ وَلَا یَدْرِیْ اَیُّھُمْ ھُوَ حَتّٰی یَسْاَلَ، وَطَلَبْنَا إِلَی النَّبِيِّ ا اَنْ نَّجْعَلَ لَہٗ مَجْلِسًا یَعْرِفُہُ الْغَرِیْبُ إِذَا اَتَاہُ، قَالَ : فَبَنَیْنَا لَہٗ دُکَّانًا مِنْ طِیْنٍ، فَکَانَ یَجْلِسُ عَلَیْہِ، وَنَجْلِسُ بِجَانِبَیْہِ۔ ( ابوداود: ۴۶۹۸ من حدیث جریر بہ واصلہ في صحیح مسلم:۹)
سیدناابوہریرہ ؓ اور ابوذر ؓ (دونوں ) سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوتے تو کوئی اجنبی آتا تو اسے پتا نہیں چلتا تھا کہ آپ کون ہیں حتیٰ کہ اسے پوچھنا پڑتا۔ ہم نے نبی کریم ﷺ سے اجازت مانگی کہ ہم آپ کے لیے ایک خاص مقام بنا دیں تاکہ اجنبی بھی آپ کو پہچان لے۔ پھر ہم نے آپ کے لیے مٹی کا ایک چبوترا سا بنا دیا جس پر آپ بیٹھتے تھے اور ہم آپ کے ارد گرد بیٹھا کرتے تھے۔
عَنْ قُدَامَۃَ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمَّارِ الْکَلاَبِيِّ قَالَ : رَاَیْتُ النَّبِيَّ ﷺ یَرْمِی الْجَمْرَۃَ یَوْمَ النَّحْرِ عَلٰی نَاقَۃٍ صَھْبَائَ، لَیْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ، وَلَیْسَ قِیْلُ إِلَیْکَ إِلَیْکَ۔ (اخرجہ الشافعي فی الام ۶/۲۱۳، الترمذي:۹۰۳، ابن ماجہ:۳۰۳۵، النسائي:۳۰۶۳ من حدیث ایمن بن نابل بہ وقال الترمذي: ’’حسن صحیح‘‘ وصححہ ابن خزیمۃ ۴/۴۲۷۸ ح ۲۸۷۸۔[السنۃ : ۱۹۴۴])
سیدنا قدامہ بن عبداللہ بن عمار الکلابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا آپ قربانی والے دن سرخ زرد رنگ والی اونٹنی سے جمرۃ (عقبہ) کو (کنکریاں ) مار رہے تھے نہ آپ کے سامنے لوگوں کو مارا جاتا تھا اور نہ دھتکارا جاتا اور نہ یہ کہا جاتا کہ ہو ہو اپنے آپ کو بچاؤ۔
عَن اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ :اَنَّ النَّبِيَّ ا رَکِبَ حِمَارًا عَلَیْہِ إِکَافٌ، تَحْتَہٗ قَطِیْفَۃٌ فَدَکِیَّۃٌ، وَاَرْدَفَ وَرَائَ ہٗ اُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، وَھُوَ یَعُوْدُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِيْ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ۔ (بخاري:۶۲۵۴ من حدیث معمر، مسلم: ۱۷۹۸ من حدیث عبدالرزاق بہ۔ [شرح السنۃ : ۲۶۸۱])
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک ایسے گدھے پر سوار ہوئے جس پر زین کسی ہوئی تھی آپﷺ کے نیچے فدک کی ایک چادر تھی۔ آپ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور آپ بنو الحارث بن الخزرج میں سعد بن عبادہ کی بیمار پرسی کرنے جا رہے تھے۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ :کَانَ غلُاَمُ یَہُوْدِيٌّ یَخْدِمُ النَّبِيَّ ﷺ ؛ فَمَرِضَ فَاَتَاہُ النَّبِيُّ ﷺ یَعُوْدُہٗ فَقَعَدَ عِنْدَ رَاْسِہٖ، فَقَالَ لَہٗ: اَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلٰی اَبِیْہِ وَھُوَ عِنْدَہٗ، فَقَالَ : اَطِعْ اَبَا الْقَاسِمِ، فَاَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَھُوَ یَقُوْلُ : (( الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ اَنْقَذَہٗ مِنَ النَّارِ))۔ (بخاري، الجنائز باب إذا سلم الصبي ومات ھل یصلٰی إلخ : ۱۳۵۶)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بیمار ہو گیا تو نبی کریم ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سر کی طرف بیٹھ گئے آپ نے اس سے کہا: ’’مسلمان ہو جا‘‘ وہ اپنے والد کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا: ابوالقاسم کی بات مان لے تو وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔ پھر نبی کریم ﷺ وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلے: اس اللہ کی تعریفیں ہیں جس نے اس لڑکے کو آگ سے بچا لیا ہے۔
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ :کَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا جَاءَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِصِبْیَانِ اَھْلِ بَیْتِہٖ، وَاَنَّہٗ جَائَ مِنْ سَفَرٍ فَسُبِقَ بِيْ إِلَیْہِ، فَحَمَلَنِيْ بَیْنَ یَدَیْہِ، ثُمَّ جِيْئَ بِاَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَۃَ فَاَرْدَفَہٗ خَلْفَہٗ إِمَّا حَسَنٌ وَإِمَّا حُسَیْنٌ، فَدَخَلْنَا الْمَدِیْنَۃَ ثلَاَثَۃً عَلٰی دَابَّۃٍ۔ (مسلم، فضائل الصحابۃ، باب فضائل عبداللہ بن جعفر: ۲۴۲۸ من حدیث ابي معاویۃ الضریر بہ۔ [ شرح السنۃ : ۲۷۵۸)
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب سفر سے تشریف لاتے تو آپ کی ملاقات آپ کے خاندان کے چھوٹے بچوں سے کرائی جاتی تھی (ایک دفعہ) آپ سفر سے آئے تو مجھے اٹھا کر آپ کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے مجھے (سواری پر) اپنے آگے بٹھا لیا۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دو بیٹوں (حسن وحسین رضی اللہ عنہا ) میں سے ایک آیا تو آپ ﷺ نے اسے (سواری پر) پیچھے بٹھا لیا۔ ایک سواری پر ہم تینوں مدینے میں داخل ہوئے۔
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ :کُنَّا یَوْمَ بَدْرٍکُلُّ ثلَاَثَۃٍ عَلٰی بَعِیْرٍ، قَالَ : وَکَانَ اَبُوْ لُبَابَۃَ وَعَلِيُّ بْنُ اَبِيْ طَالِبٍ زَمِیْلَيْ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، قَالَ : وَکَانَتْ إِذَا جَاءَ تْ عُقْبَۃُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ قَالاَ : نَحْنُ نَمْشِيْ مِنْکَ، قَالَ: (( مَا اَنْتُمَا بِاَقْوٰی مِنِّيْ، وَمَا اَنَا بِاَغْنٰی عَنِ الْاَجْرِ مِنْکُمَا ))۔
(اخرجہ احمد ۱/ ۴۱۱ عن عفان بہ )
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تین تین آدمی بدر کے دن، ایک ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ ابو لبابہ اور علی بن ابی طالب، رسول اللہﷺ کے ساتھی تھے۔ جب رسول اللہﷺ کے (چلنے کی) باری آتی تو وہ دونوں کہتے: ہم (پیدل) چلیں گے۔ (آپ ﷺ ہی سوار رہیں ) تو آپﷺ فرماتے: تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں اور نہ میں تم سے زیادہ ثواب ملنے سے بے پروا ہوں۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍؓ : اَنَّہٗ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ حَدَّثَ: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ مَرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ))۔
(اخرجہ علي بن الجعد ۱۷۲۵ البخاري:۶۲۴۷ عن علي بن الجعد، مسلم:۲۱۶۸ من حدیث شعبۃ بہ )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(نبی ﷺ ) بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کہا۔ پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ بچوں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے ان کو سلام کہا تھا۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ : اَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَزُوْرُ الْاَنْصَارَ وَیُسَلِّمُ عَلٰی صِبْیَانِہِمْ وَیَمْسَحُ بِرُؤُوْسِھِمْ
(اخرجہ الترمذي: ۲۶۹۶ ب والنسائي فی الکبری:ٰ ۱۰۱۶۱ (عمل الیوم واللیلۃ:۳۲۹) عن قتیبۃ بہ)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ انصار کے پاس جاتے تو ان کے بچوں پر سلام کہتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ وَاَنَا مَعَ الصِّبْیَانِ، فَسَلَّمَ عَلَیْنَا، ثُمَّ اَخَذَ بِیَدِيْ فَاَرْسَلَنِيْ بِرِسَالَۃٍ۔ ( اخرجہ احمد ۳/۱۰۹ من حدیث حمید الطویل بہ مطولًا۔ [ السنۃ : ۳۳۰۷])
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ گزرے اور میں بچوں کے ساتھ (کھیل رہا) تھا تو آپ نے ہمیں سلام کہا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کسی کام کے لیے بھیج دیا۔
عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیْدَ : اَنَّ النَّبِيَّ ا مَرَّ بِنِسْوَۃٍ فَسَلَّمَ عَلَیْھِنَّ۔ (ابوداود:۵۲۰۴ وابن ماجہ:۳۷۰۱من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ وحسنہ الترمذي: ۲۶۹۷ )
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عورتوں کے پاس سے گزرے تو ان (عورتوں ) کو سلام کہا۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ جَائَ إِلَی السِّقَایَۃِ فَاسْتَسْقٰی، فَقَالَ عَبَّاسُ : یَا فَضْلُ! اذْھَبْ إِلٰی اُمِّکَ فَاْتِ رَسُوْلَ اللہِ بِشَرَابٍ مِنْ عِنْدِھَا، فَقَالَ :(( اسْقِنِيْ)) قَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّہُمْ یَجْعَلُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِیْہِ، قَالَ :(( اسْقِنِيْ)) فَشَرِبَ مِنْہُ، ثُمَّ اَتٰی زَمْزَمَ وَھُمْ یَسْقُوْنَ وَیَعْمَلُوْنَ فِیْھَا، فَقَالَ :(( اعْمَلُوْا فَإِنَّکُمْ عَلٰی عَمَلٍ صَالِحٍ)) ثُمَّ قَالَ: ((لَوْلَا اَنْ تُغْلَبُوْا لَنَزَلْتُ حَتّٰی اَضَعَ الْحَبْلَ عَلٰی ھٰذِہٖ)) وَاَشَارَ إِلٰی عَاتِقِہٖ۔
( صحیح البخاري، الحج باب سقایۃ الحاج: ۱۶۳۵ )
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پانی پینے کی جگہ کے پاس آئے اور پانی مانگا تو عباس نے کہا: اے فضل! اپنی ماں کے پاس جا اور رسول اللہﷺ کے لیے وہاں سے پانی لے آ۔ آپ نے فرمایا: مجھے پانی پلاؤ، (عباس نے) کہا: یارسو ل اللہﷺ ! لوگ اس (پانی) میں ہاتھ ڈال رہے ہیں ! آپ نے فرمایا: مجھے پانی پلا۔ پھر آپ نے اس سے پانی پیا پھر آپ زمزم کے پاس آئے (کچھ) لوگ پانی پلا رہے تھے اور (وہاں ) کام کر رہے تھے تو آ پ نے فرمایا: کام کر، تو اچھا کام کر رہا ہے، پھر فرمایا: اگر میرے مغلوب ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں اتر کر اپنی گردن پر رسی رکھ کر پانی نکالتا۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اَتَی النَّبِيَّ ا رَجُلٌ یُکَلِّمُہٗ فَاُرْعِدَ، فَقَالَ :(( ھَوِّنْ عَلَیْکَ فَلَسْتُ بِمَلِکٍ، إِنَّمَا اَنَا ابْنُ امْرَاَۃٍ مِّنْ قُرَیْشٍ کَانَتْ تَاْکُلُ الْقَدِیْدَ ))۔(اسنادہ ضعیف،ابن ماجہ: ۳۳۱۲ من حدیث إسماعیل بن أبی الحارث بہ، إسماعیل بن أبي خالد عنعن فی السند المتصل وصرح بالسماع فی السند المرسل ومع ذلک صححہ الحاکم علٰی شرط الشیخین ۳/۴۸ ووافقہ الذھبي )
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے پاس بات کرنے کے لیے ایک آدمی لایا گیا تو وہ کانپ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ڈرو نہیں میں بادشاہ نہیں ہوں میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھاتی تھی۔
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : مَا رُئِيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يأكل مُتَّكئًا قطُّ ، ولا يطأُ عقبَه رجلانِ۔ (صحیح ، اخرجہ ابو داؤد3770)
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی تکیہ لگا کر کھانا کھاتے نہیں دیکھا گیا اور نہ آپ ﷺ کے پیچھے دو پاؤں چلے ہیں (آپ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ کے پیچھے پیچھے اس طرح چلیں جیسا کہ لوگ بادشاہوں کے پیچھے چلتے تھے)۔
عَنْ اَبِيْ سَلَمَۃَ قَالَ : سَاَلْتُ اَبَاسَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی اللہ عنہ قَالَ : رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ یَسْجُدُ فِی الْمَائِ وَالطِّیْنِ، حَتّٰی رَاَیْتُ اَثَرَ الطِّیْنِ فِيْ جَبْھَتِہٖ۔ (بخاري، الاذان باب من لم یمسح جبھتہ وانفہ حین صلٰی: ۸۳۶، مسلم: ۲۱۶/۱۱۶۷ )
سیدنا ابوسلمہ(تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو مٹی اور پانی پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے حتیٰ کہ میں نے آپ ﷺ کی پیشانی پر مٹی کا اثر دیکھا ہے۔
عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : (( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ، إِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا عَبْدُاللہِ وَرَسُوْلُہٗ ))۔ (بخاري:۶۸۲۹ ومسلم:۱۶۹۱ من حدیث سفیان بن عیینۃ بہ مطولًا ومختصرًا۔ [السنۃ :۳۶۸۱])
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بارے میں (اس طرح) مبالغہ نہ کرنا جس طرح کہ نصرانیوں نے ابن مریم علیہا السلام کے بارے میں کیا ہے۔ میں تو صرف (اللہ کا) بندہ ہوں۔ پس کہو: اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : ((مَنْ قَالَ : اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی، فَقَدْ کَذَبَ))۔(بخاري، التفسیر سورۃ النساء باب قولہ تعالیٰ إنا اوحینا إلیک کما اوحینا إلٰی نوح: ۴۶۰۴ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے کہا کہ میں یونس بن متٰی علیہ السلام سے بہتر ہوں تو اس نے جھوٹ کہا۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ فَقَالَ : یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( ذٰلِکَ إِبْرَاھِیْمُ ))۔
(صحیح مسلم، الفضائل باب من فضائل إبراھیم الخلیل علیہ السلام: ۲۳۶۹ )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور کہا:
اے خیر البریہ! تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ ابراہیمؑ ہیں۔
عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ : اشْتَکٰی رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَصَلَّیْنَا وَرَائَ ہٗ وَھُوَ قَاعِدٌ، وَاَبُوْبَکْرٍ یُسْمِعُ النَّاسَ تَکْبِیْرَہٗ، قَالَ : فَالْتَفَتَ إِلَیْنَا فَرَآنَا قِیَامًا، فَاَشَارَ إِلَیْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّیْنَا بِصَلَاتِہٖ قُعُوْدًا، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ : (( إِنْ کِدْتُّمْ آنِفًا تَفْعَلُوْنَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّوْمِ، یَقُوْمُوْنَ عَلٰی مُلُوْکِھِمْ وَھُمْ قُعُوْدٌ، فلَاَ تَفْعَلُوْا، ائْتَمُّوْا بِاَئِمَّتِکُمْ، إِنْ صَلّٰی قَائِمًا فَصَلُّوْا قِیَامًا، وَإِنْ صَلّٰی قَاعِدًا فَصَلُّوْا قُعُوْدًا ))۔( صحیح مسلم، الصلٰوۃ باب ائتمام الماموم بالإمام: ۴۱۳ )
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ بیمار ہوئے تو ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو آپ کی تکبیر سنا رہے تھے۔ آپ نے ہمیں کھڑا ہوا دیکھا تو (بیٹھنے کا) اشارہ کیا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا: قریب تھا کہ تم وہ کام کرو جو فارسی اور رومی کرتے ہیں وہ اپنے بادشاہوں کے پاس کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسا نہ کرو، اپنے اماموں کی اقتدا کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھ لو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : ((اَنَّ عِفْرِیْتًا مِّنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ الْبَارِحَۃَ لِیَقْطَعَ عَلَيَّ صلَاَتِيْ، فَاَمْکَنَنِی اللّٰہُ مِنْہُ، فَاَخَذْتُہٗ، فَاَرَدْتُّ اَنْ اَرْبِطَہٗ عَلٰی سَارِیَۃِ مِنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ حَتّٰی تَنْظُرُوْا إِلَیْہِ کُلُّکُمْ، فَذَکَرْتُ دَعْوَۃَ اَخِيْ سُلَیْمَانَ : رَبِّ ھَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ، فَرَدَدْتُّہٗ خَاسِئًا ))۔
( صحیح البخاري، الانبیاء باب قول اللہ تعالٰی: ووھبنا لداود سلیمان نعم العبد إنہ اواب:۳۴۲۳ مسلم، المساجد باب جواز لعن الشیطان في إثناء الصلٰوۃ:۵۴۱۔ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنوں میں سے ایک (دیو ہیکل) عفریت نے گزشتہ رات مجھ پر حملہ کیا تاکہ میری نماز توڑ دے۔ پھر اللہ نے مجھے اس پر اختیار عطا فرمایا تو میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے ارادہ کیا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب (اپنی آنکھوں سے) اسے دیکھ سکو تو مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ
رَبِّ ھَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا یَنْبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ
’’اے اللہ !مجھے ایسی بادشاہی دے جو میرے بعد کسی اور کے لیے مناسب نہ ہو۔‘‘
پھر میں نے اسے ذلیل ورسوا کر کے چھوڑ دیا۔
دُنیا سے بے نیازی اور زُہد نبوی ﷺ
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ؓ قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ ، فَإِذَا ھُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی رِمَالٍ حَصِیْرٍ لَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہٗ فِرَاشٌ، قَدْ اَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِہٖ، مُتَّکِئًا عَلٰی وِسَادَۃٍ مِنْ آدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ فِيْ بَیْتِہٖ فَوَاللہِ مَا رَاَیْتُ شَیْئًا یَرُدُّ الْبَصَرَ غَیْرَ اَھَبَۃٍ ثَلاَثَۃٍ فَقُلْتُ : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ فَلْیُوَسِّعْ عَلٰی اُمَّتِکَ ، فَإِنَّ فَارِسًا وَالرُّوْمَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْھِمْ، وَھُمْ لَا یَعْبُدُوْنَ اللّٰہَ، فَقَالَ : (( اَوَ فِيْ ھٰذَا اَنْتَ یَاابْنَ الْخَطَّابِ اُولٰٓئِکَ قَوْمٌ عُجِّلُوْا طَیِّبَاتِھِمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا )) (بخاري، النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہ لحال زوجھا:۵۱۹۱۔ [السنۃ : ۴۰۷۰])
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ آپ بورے (یا کھجور اور شاخوں کی بنی ہوئی ننگی چارپائی) پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپﷺ کے اور اس بورے (چارپائی) کے درمیان بستر نہیں تھا۔ آپ کے جسم پر بورے (یا چار پائی) کی شکنوں کا اثر تھا۔ آپ نے چمڑے کے ایک سرہانے پر تکیہ لگا رکھا تھا جس میں کھجور کی شاخیں وغیرہ بھری ہوئی تھیں۔ میں نے گھر میں دیکھا تو اللہ کی قسم تین کھالوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں پایا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت کے لیے آسانی پیدا کرے۔ بے شک فارسیوں اور رومیوں کو (ہر طرح کی) آسانیاں دی گئی ہیں حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ تو آپ نے فرمایا: اے ابن الخطاب رضی اللہ عنہ تو بھی اس بارے میں بات کر رہا ہے؟ ان لوگوں کو ان کی سہولتیں دنیا کی زندگی میں ہی دے دی گئی ہیں۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( اللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا ))۔(صحیح مسلم، الزکاۃ باب فی الکفاف والقناعۃ:۱۰۵۵ البخاري، الرقائق باب کیف کان عیش النبي ﷺ واصحابہ:۶۴۶۰ من حدیث محمد بن فضیل بن غزوان بہ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ تو آل محمد کے لیے گزارے والا رزق بنا (تاکہ وہ آخرت سے غافل نہ ہو جائیں )۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ، نَامَ عَلٰی حَصِیْرٍ، وَقَامَ وَقَدْ اَثَّرَ فِيْ جَسَدِہٖ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! لَوْ اَمَرْتَنَا اَنْ نَّبْسُطَ لَکَ وَنَعْمَلَ، فَقَالَ : ((مَالِيْ وَلِلدُّنْیَا، وَمَا اَنَا وَالدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ؛ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَھَا ))۔
( الترمذي:۲۳۷۷ من حدیث زید بن حباب بہ وللحدیث شواھد۔ [السنۃ : ۴۰۳۴])
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک چٹائی پر سوگئے۔ جب آپ ﷺ اُٹھے تو اس چٹائی کا نشان آپﷺ کے جسم پر تھا تو آپ سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کے لیے کوئی (بہترین) چیز تیار کر کے بچھائیں آپ نے فرمایا: مجھے دنیا کی کیا پروا ہے میری اور دنیا کی مثال اس سوار کی ہے جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے رکا۔ (تھوڑی دیر) آرام کیا اور پھر اسے چھوڑ دیا (اور چل پڑا)۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: مَا شَبِعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنْ خُبْزٍ شَعِیْرٍ یَوْمَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؛ حَتّٰی قُبِضَ۔(اخرجہ الترمذي:۲۳۵۷ وفی الشمائل:۱۴۲، ۱۴۸، ابوداود الطیالسي:۱۳۸۹ مسلم: ۲۹۷۰ )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے وفات تک جو کی روٹی سے دو دن (بھی) پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ : اَنَّہٗ مَرَّ بِقَوْمٍ بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ شَاۃٌ مَصْلِیَّۃٌ، فَدَعَوْہُ فَاَبٰی اَنْ یَّاْکُلَ، وَقَالَ : خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مِنَ الدُّنْیَا وَلَمْ یَشْبَعْ مِنَ الْخُبْزِ الشَّعِیْرِ۔(بخاري، الاطعمۃ باب ما کان النبي ﷺ واصحابہ یاکلون: ۵۴۱۴)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سامنے بھنی ہوئی ایک بکری پڑی تھی۔ انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کھانے کی دعوت دی تو انھوں نے انکار کر دیا اور فرمایا: رسول اللہﷺ دنیا سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپ نے جو کی روٹی بھی سیر ہو کر نہیں کھائی۔
عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ : سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیْرٍؓ یَقُوْلُ : اَلَسْتُمْ فِيْ طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟ لَقَدْ رَاَیْتُ نَبِیَّکُمْ ؛ وَمَا یَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا یَمْلَاُ بَطْنَہٗ۔
(اخرجہ الترمذي:۲۳۷۲ وفی الشمائل:۱۵۱، مسلم: ۲۹۷۷ عن قتیبۃ بہ۔ [السنۃ : ۴۰۷۱])
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم جو کھانا اور پینا پسند کرتے ہو، کیا تمھیں مل نہیں رہا؟ میں نے (ہمارے اور) آپ کے نبی کریمﷺ کو دیکھا ہے آپ کو پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے لیے (کبھی) معمولی قسم کی کھجور تک نہیں ملتی تھی۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : لَقَدْ کَانَ یَاْتِيْ عَلَیْنَا الشَّھْرُ مَا نُوْقِدُ فِیْہِ نَارًا، وَمَا ھُوَ إِلاَّ الْمَائُ وَالتَّمْرُ، غَیْرَ اَنْ جَزَی اللّٰہُ نِسَائً مِنَ الْاَنْصَارِ جَزَاءً، کُنَّ رُبَمَا اَھْدَیْنَ لَنَا شَیْئًا مِنَ اللَّبَنِ۔
(اخرجہ مسلم الزھد باب ۱ ح ۲۹۷۲ من حدیث معمر، البخاري، الرقاق باب کیف کان عیش النبي ﷺ و اصحابہ: ۶۴۵۸ من حدیث ھشام بہ۔ [السنۃ : ۴۰۷۴])
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے اوپر ایسا مہینہ (بھی) آتا کہ ہم (اپنے گھر میں ) آگ (تک) نہیں جلاتے تھے۔ (ہمارا کھانا) صرف پانی اور کھجوریں ہوتیں۔ سوائے اس کے کہ اللہ انصار کی عورتوں کو جزائے خیر دے وہ کبھی کبھار ہمیں دودھ (وغیرہ) میں سے کچھ تحفہ بھیج دیتی تھیں۔
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ : مَا کَانَ یَفْضُلُ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ خُبْزُالشَّعِیْرِ (اخرجہ الترمذي: ۲۳۵۹ وفی الشمائل: ۱۴۳، قال الترمذي : ’’حسن صحیح غریب‘‘)
سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے گھر والوں کے پاس جو کی روٹی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:کَانَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَبِیْتُ اللَّیَالِيَ الْمُتَتَابِعَۃَ طَاوِیًا، وَاَھْلُہٗ لَا یَجِدُوْنَ عَشَاءً، وَکَانَ اَکْثَرُ خُبْزِھِمْ خُبْزَ الشَّعِیْرِ۔ (الترمذي: ۲۳۶۰ وفی الشمائل: ۱۴۴ ابن ماجہ: ۳۳۴۷ [السنۃ : ۴۰۷۷])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے گھر والے لگاتار کئی راتیں بھوکے رہتے تھے۔ کھانے کے لیے کچھ نہیں پاتے تھے۔ آپ کی روٹی عام طور پر جو کی ہوتی تھی۔
عَنْ اَبِيْ طَلْحَۃَ قَالَ : شَکَوْنَا إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ الْجُوْعَ وَ رَفَعْنَا عَنْ بُطُوْنِنَا عَنْ حَجَرٍ وَ رَفَعَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَنْ بَطْنِہٖ عَنْ حَجَرَیْنِ۔
(الترمذي: ۲۳۷۱ وفی الشمائل: ۱۳۳۔ [السنۃ : ۴۰۷۹])
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے پاس بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹوں سے (کپڑا) اٹھا کر ایک ایک پتھر دکھایا تو رسول اللہﷺ نے اپنے پیٹ سے (کپڑا) اٹھا کر دو پتھر دکھائے ( آپ نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے)۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : مَا اجْتَمَعَ لِرَسُوْلِ اللہِ ﷺ غَدَائٌ وَلَا عَشَائٌ إِلاَّ عَلٰی ضَفَفٍ
(اخرجہ الترمذي فی الشمائل:۳۷۷ من حدیث قتادۃ بہ وصرح بالسماع عند ابن سعد فی الطبقات ۱/۴۰۴ )
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر اور رات کا کھانا بہت ہی کم اکٹھا ہوا (آپ نے کبھی کبھار ہی ایک دن میں دو کھانے کھائے)۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : وَاللہِ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍا مِنْ خُبْزٍ بُرٍّ ثَلاَثَ لَیَالٍ وِلَائً، حَتّٰی قَبَضَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ، فَلَمَّا قَبَضَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ صَبَّ الدُّنْیَا عَلَیْنَا صَبًّا۔ (بخاري:۵۴۱۶، ۶۴۵۴ ومسلم: ۲۹۷۰ من حدیث إبراھیم النخعي بہ )
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کی قسم! آل محمدﷺ نے تین راتیں پے درپے گندم کی روٹی نہیں کھائی حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ فوت ہو گئے جب آپ فوت ہو گئے تو دنیا ہمارے اوپر امڈ پڑی۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : لَقَدْ مَشَیْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ مَرَّاتٍ بِخُبْزِ الشَّعِیْرِ وَإِھَالَۃٍ سَخِنَۃٍ، وَلَقَدْ سَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ : (( مَا اَصْبَحَ بِآلِ مُحَمَّدٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ)) وَإِنَّہُنَّ یَوْمَئِذٍ تِسْعٌ اَھْلِ بُیُوْتَاتٍ۔(ابن ماجہ: ۴۱۴۷ من حدیث قتادۃ بہ مختصرًا وللحدیث شواھد)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں کئی دفعہ باسی چربی اور جو کی روٹی لے کر رسول اللہﷺ کے پاس جاتا تھا۔ میں (انس رضی اللہ عنہ )نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آل محمد(ﷺ کی بیویوں ) کے پاس کھانے کا ایک صاع تک نہیں ہوتا تھا اور وہ ان دنوں نو گھر والیاں تھیں۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : اَتَتْ فَاطِمَۃُ النَّبِيَّ ﷺ بِکِسْرَۃِ خُبْزِ شَعِیْرٍ فَقَالَ : ((ھٰذَا اَوَّلُ طَعَامٍ اَکَلَہٗ اَبُوْکِ مُنْذُ ثلَاَثٍ ))۔
(احمد (۳/۲۱۳ وفی الزھد رضی اللہ عنہ ۳۹ ) عن عبدالصمد بہ بدون ذکر محمد بن سیرین ولہ طریق آخر عند ابن سعد ۱/۴۰۰ )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاطمہ، جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو فرمایا: یہ پہلا کھانا ہے جو تیرے ابا نے تین دنوں سے کھایا ہے۔
عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللہِﷺ : (( لَقَدْ اُخِفْتُ فِی اللہِ وَمَا یُخَافُ اَحَدٌ، وَلَقَدْ اُوْذِیْتُ فِي اللہِ وَمَا یُؤْذٰی اَحَدٌ، وَلَقَدْ اَتَتْ عَلَيَّ ثلَاَثُوْنَ مِنْ بَیْنِ لَیْلَۃٍ وَیَوْمٍ، وَمَالِيْ وَلِبلِاَلٍ طَعَامٌ یَاْکُلُہٗ ذُوْکَبِدٍ؛ إِلاَّ شَيْئٌ یُوَارِیْہِ إِبْطُ بلِاَلٍ ))۔ (اخرجہ الترمذي: ۲۴۷۲ صححہ ابن حبان: ۲۵۲۸۔ [السنۃ : ۴۰۸۰])
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ (پر ایمان لانے) سے ڈرایا گیا اور (آج کل) کسی کو بھی نہیں ڈرایا جاتا۔ مجھے اللہ (پر ایمان لانے) سے تکلیف دی گئی اور آج کسی کو بھی تکلیف نہیں دی جاتی۔ مجھ پر تیس دن و رات ایسے آئے کہ میرے اور بلال کے لیے ایسا کھانا نہیں ہوتا تھا جسے کوئی ذی روح کھائے سوائے اس چیز کے جسے بلال نے اپنی بغل میں چھپا رکھا ہوتا تھا۔
عَنْ عَمَرِو بْنِ الْحَارِثِ الْخُزَاعِيِّ اَخِيْ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتِ الْحَارِثِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَ: لَا وَاللہِ مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِیْنَارًا وَلَادِرْھَمًا، وَلَا عَبْدًا، وَلَا اَمَۃً، وَلَا شَیْئًا؛ اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَائَ وَسلِاَحًا وَاَرْضًا تَرَکَھَا صَدَقَۃً۔ (اخرجہ علي بن الجعد: ۲۵۳۷ البخاري، الوصایا باب ۱ ح ۲۷۳۹ من حدیث زھیر بن معاویۃ بہ)
سیدنا عمرو بن الحارث بیان کرتے ہیں اللہ کی قسم !رسول اللہ ﷺ نے اپنی موت کے وقت نہ درہم چھوڑا نہ دینار، نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کوئی چیز چھوڑی سوائے سفید خچر اور اسلحہ کے اور (اُس) زمین کے جسے آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ : مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَبْدًا وَلَا اَمَۃً وَلَا شَاۃً وَلَا بَعِیْرًا۔
(اخرجہ مسلم، الوصیۃ باب ترک الوصیۃ لمن لیس لہ شئ یوصي فیہ: ۱۶۳۵ من حدیث الاعمش بہ۔ [السنۃ : ۳۸۳۶])
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے نہ کوئی غلام چھوڑا نہ لونڈی اور بکری چھوڑی نہ کوئی اونٹ۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : (( لَا یَقْتَسِمُ وَرَثَتِيْ دِیْنَارًا، مَا تَرَکْتُ بَعْدَ نَفَقَۃِ نِسَائِيْ وَمُؤْنَۃِ عَامِلِيْ فَھُوَ صَدَقَۃٌ ))۔ (اخرجہ مالک فی الموطا (۲/۹۹۳ وروایۃ ابي مصعب: ۲۰۹۷) البخاري:۲۷۷۶ ومسلم :۱۷۶۰ من حدیث مالک بہ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے ورثے میں دینار تقسیم نہیں ہوں گے۔ میں نے اپنی بیویوں کے نان نفقہ اور مزدوروں کی رقم کے علاوہ جو کچھ چھوڑا وہ صدقہ ہے۔
عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ :(( خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ اَوْلَیْلَۃٍ فَإِذَا ھُوَ بِاَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ قَالَ : مَا اَخْرَجَکُمَا مِنْ بُیُوْتِکُمَا ھٰذِہِ السَّاعَۃَ؟ قَالَا : الْجُوْعُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ : (( اَمَّا اَنَا وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَاَخْرَجَنِی الَّذِيْ اَخْرَجَکُمَا، قُوْمُوْا)) فَقَامُوْا مَعَہٗ، فَاَتٰی رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ، فَإِذَا ھُوَ لَیْسَ فِيْ بَیْتِہٖ فَلَمَّا رَاَتْہُ الْمَرْاَۃُ قَالَتْ: مَرْحَبًا وَاَھْلًا، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ : (( اَیْنَ فلُاَنٌ )) قَالَتْ: ذَھَبَ یَسْتَعْذِبُ مِنَ الْمَائِ اِذَا جَاءَ الْاَنْصَارِيُّ فَنَزَلَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ ﷺ وَصَاحِبَیْہِ ثُمَّ قَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ مَا اَجِدُ الْیَوْمَ اَکْرَمَ اَضْیَافًا مِنِّيْ، فَانْطَلقَ فَجَائَ ھُمْ بِعِذْقٍ فِیْہِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ : کُلُوْا مِنْ ھٰذِہٖ وَاَخَذَ الْمُدْیَۃَ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ (( إِیَّاکَ وَالْحَلُوْبَ)) فَذَبَحَ لَھُمْ فَاَکَلُوْا مِنَ الشَّاۃِ وَمِنْ ذٰلِکَ الْعِذْقِ، فَلَمَّا اَنْ شَبِعُوْا وَرَوُوْا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ا لِاَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ: (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَتُسْئَلُنَّ عَنْ ھٰذَا النَّعِیْم یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، اَخْرَجَکُمْ مِنْ بُیُوْتِکُمُ الْجُوْعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوْا حَتّٰی اَصَابَکُمْ ھٰذَا النَّعِیْمُ ))۔
(صحیح مسلم، الاشربۃ باب جواز استتباعہ غیرہ إلٰی دار من یثق برضاہ بذلک: ۲۰۳۸ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہﷺ باہر نکلے تو آپ ﷺ کی ملاقات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔آپ ﷺ نے پوچھا: آپ اس وقت کس وجہ سے باہر نکلے ہیں ؟انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے بھی تمھاری طرح بھوک ہی نے باہر نکالا ہے۔ اٹھو چلیں ، تو وہ دونوں بھی آپ کے ساتھ چلے۔ پھر آپ ایک انصاری آدمی کے پاس آئے۔ وہ (انصاری) اپنے گھر میں موجود نہیں تھے۔ جب آپ کو اس کی بیوی نے دیکھا تو کہا: خوش آمدید۔آپ نے فرمایا: فلاں کہاں ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے پانی لانے گئے ہیں۔ اتنے میں انصاری آ گئے تو نبی کریم ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھ کر کہا: الحمدللہ، آج میرے مہمانوں سے زیادہ عزت والے کوئی مہمان نہیں۔ پھر وہ گئے اور ٹہنی لے آئے جس میں گدرا اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہا: ’’اس میں سے کھائیں ‘‘ پھر چھری لے لی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دودھ دینے والی (بکری) ذبح نہ کرنا‘‘ اس نے بکری ذبح کی۔ آپﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے اس بکری اور ٹہنی میں سے کھایا۔ جب خوب سیر ہو گئے تو رسول اللہﷺ نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہماسے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ تمھیں گھروں سے بھوک نے نکالا اور پھر اس حالت میں لوٹے کہ یہ نعمتیں حاصل ہو گئیں۔