آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی کنیز سیدنا ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا، ان کے بعد سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا۔
عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی آب و ہوا کی خاطر دودھ پلانے والی دیہاتی عورتوں کے سپردکر دیا کرتے تھے تاکہ ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوں اور وہ خالص عربی زبان سیکھ سکیں ۔ اسی دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سیدہ حلیمہ بنت ابی ذُوَیْب رضی اللہ عنہا (جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا) کے سپرد کیا گیا۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبدا لعُزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی۔ اس طرح حارث کے بچے اور بچیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بہن بھائی ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں عبداللہ، ا نیسہ اور حذافہ(ان کا لقب شیما تھا) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں کھلایا کرتی تھیں ۔ رضاعت کے دوران حلیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ وہ حیرت زدہ رہ گئیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قحط سالی کے دنوں میں ہمارے پاس ایک کمزور گدھی تھی جس سے تیز چلا نہیں جاتا تھا اورایک اونٹی تھی جو بہت ہی کم دودھ دیتی تھی۔ میرے ہاں بھی غربت کی و جہ سے دودھ بہت کم آتا تھا جس کی و جہ سے میرا بچہ بے قراری سے بلکتا اور روتا رہتا تھا۔ جب میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مکہ پہنچی تو میرے ساتھ روانہ ہونے والی عورتیں مجھ سے پہلے مکہ پہنچ کر دودھ پلانے کے لئے نومولود بچے حاصل کر چکی تھیں ۔ مجھے پتا چلا کہ اب ایک ہی نومولود بچہ باقی ہے اور وہ بھی یتیم ہے۔ میں نے اسے غنیمت سمجھ کر لینے کا ارادہ کر لیا۔ جب میں نے جا کر اس بچہ کو دیکھا تو وہ اتنا خوبصورت لگاکہ اس جیسا بچہ میں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے اسے گود میں لیا اور جیسے ہی میں نے اسے اپنے سینہ سے لگایا تو مجھے اتنا سکون ملا جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔جب میں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو لے کر واپس لوٹی تو وہ میری کمزور سی گدھی اتنی تیز چلنے لگی کہ پورے قافلہ سے آگے نکل گئی اور کوئی بھی سواری اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ میرے شوہر نے جب اونٹنی کے تھنوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ میرے سینہ میں بھی اتنا دودھ بھر گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوب پیٹ بھر کر پیا اور میرے دوسرے بیٹے نے بھی جی بھر کر پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں لانے کے بعد میری بکریوں نے بھی بہت زیادہ دودھ دینا شروع کر دیاجو کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو سال گزار لئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے سپرد کرنے کے لئے اس حال میں گھر سے روانہ ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب نے جب ان کی یہ حالت دیکھی توپوچھا: کیا تم میرے بچہ کو کچھ دن اور اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو؟ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ جی ہاں ‘‘ اگر آپ کچھ مزید عرصہ انہیں میرے پاس رہنے دیں تو آپ کی مہربانی ہو گی۔ میری اس درخواست پر انہوں نے خوشی سے مجھے اس کی اجازت دے دی۔
سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی مرتبہ آمد ہی سے میرے گھر میں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول تھا، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ تشریف لانے سے میرا گھر خیر وبرکات کے اعتبار سے تمام قبیلہ والوں کے لئے توجہ کا مرکز بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید دو سال تک حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے۔
سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی ماں ہونے کی و جہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کے قبیلہ والوں کا ہرطرح سے خیال رکھتے۔ غزوئہ حنین کے موقع پر جب حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے قبیلہ کے کچھ لوگ گرفتار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے انہیں رہا فرما دیا۔