آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں جب بارہ سال کی عمر کو پہنچے توجناب ابو طالب نے تجارت کے لئے ملک شام جانے کا ارادہ کیا اور اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ بصرہ شہر کے قریب ایک بحیرہ راہب (پادری) رہتا تھا (جس کا نام جرجیس اور لقب بحیرہ تھا)۔ وہ اپنے گرجا سے باہر نکل آیا اور اس قافلہ کی میزبانی کی۔ اس راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر بادل کو سایہ کرتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور قافلہ والوں کو بتایاکہ یہ دونوں جہاں کے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں رحمت عالم بنا کر بھیجیں گے۔ جناب ابو طالب نے اس سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے جواب دیا: جب تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو انہیں سجدہ کرنے کے لئے نہ جھکا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اور ان کی صفات ہماری آسمانی کتب (تورات اور انجیل) میں بھی موجود ہیں ۔قافلہ کی مہمان نوازی کے بعد بحیرہ راہب نے جناب ابوطالب سے کہا کہ آپ انہیں ملک شام لے کر نہ جائیں کیوں کہ وہاں انہیں یہود سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ چنانچہ جناب ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چند غلاموں کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھیج دیا۔ (ترمذی۔عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ )