جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بیس سال ہوئی تو ذوالقعدۃ کے مہینہ میں عکاظ (مقام)میں ایک جنگ ہوئی جس میں ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل اور دوسری طرف قیس اور غیلان کے قبائل تھے۔ اس جنگ میں پہلے قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن بعد میں قریش کا پلہ بھاری ہو گیا۔ اس میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے لیکن بعد میں دونوں نے صلح کر لی اور جس گروہ کے زیادہ مقتول تھے، انہیں دوسرے گروہ نے ان مقتولوں کی دیت ادا کی۔ اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ شریک ہوئے اور انہیں تیر اٹھا اٹھا کر پکڑا رہے تھے۔ اس جنگ کو جنگِ فجار کہنے کی و جہ یہ ہے کہ اس میں حرم اور حرمت والے مہینہ(ذو القعدۃ) کی حرمت پامال کی گئی تھی جو ایک گناہ کا عمل تھا۔ اس جنگ کے فوراً بعدذو القعدۃ کے مہینہ میں ہی قریش کے پانچ قبائل کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ قبائل یہ تھے: بنو ہاشم، بنو مطلّب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم۔ اس معاہدہ کی وجہ یہ تھی کہ یمن کا ایک ز بید نامی آدمی سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے سامان خرید لیا لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس آدمی نے مختلف قبائل سے مدد کی درخواست کی لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ چنانچہ اس نے ابو قبیس پہاڑ پر چڑھ کر اپنی مظلومیت کے لئے آواز بلند کی اور لوگوں سے درخواست کی کہ اس کا حق دلانے کے لئے اس کی مدد کی جائے۔ اس کی آواز سن کر زبیر بن مطلب نے لوگوں میں اصلاح کی تحریک شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو گئے۔ ان تمام قبائل کے سردار قبیلہ بنو تمیم کے سردار عبداللہ بن جَدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور سب نے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ آج کے بعد مکہ میں کسی کا ظلم برداشت نہیں کیاجائے گا، ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی۔ چنانچہ اس معاہدہ کے بعد عاص بن وائل سے زبیدی کا حق لے کر اس کے حوالے کیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ ’’میں عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدہ (حلف الفضول) میں شریک ہوا کہ مجھے اس (شرکت معاہدہ)کے بدلہ میں سرخ اونٹ (قیمتی سے قیمتی چیز) بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں بھی مجھے ایسے معاہدہ کے لئے بلایا جائے تو میں یقیناً اسے قبول کروں گا۔‘‘ (بیہقی۔عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما )
{نوٹ ـ: اسے ’’حلف الفضول‘‘ کہنے کی و جہ یہ ہے کہ جن باتوں پر یہ معاہدہ ہو ا وہ تمام باتیں فضیلت والی تھیں }