جیسے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ قریب آتا جا رہا تھا عرب میں یہود ونصاریٰ کے مذہبی پیشوا اس بارے میں زیادہ باتیں کرنے لگے کیونکہ انہوں نے اپنی اپنی مذہبی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کچھ پڑھا تھا اس کے آثار دن بہ دن ان کی نگاہوں کے سامنے آتے جا رہے تھے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا ذکرہے :
فرمان الٰہی ہے :- (ترجمہ) ’’جو لوگ ایسے رسول اُ مّی نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جن کا ذکر وہ تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ وہ (رسول ) انہیں نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں ۔ وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام بتاتے ہیں اوران پرسے (پہلی شریعتوں کی سخت پابندیوں کا) بوجھ اتارتے ہیں اور ان بندشوں کو کھول دیتے ہیں جن میں لوگ جکڑے ہوئے ہیں ۔ چنانچہ جو لوگ اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاتے، ان کی حمایت اور مدد کرتے اور اس نور(قرآن) کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، ایسے لوگ ہی پوری طرح کامیاب ہونے والے ہیں ۔‘‘(الا عراف 7 : آیت 157)
سیدناعلی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے جتنے بھی انبیا علیہم السلام مبعوث فرمائے اُن سب سے یہ عہد لیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے زمانہ میں مبعوث ہو ں تو اُن پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا اور اپنی اپنی امتوں سے عہد بھی لیناکہ اگرتمہاری زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو ان پر ایمان لانا اوران کی مدد و اتباع بھی کرنا۔‘‘ (تفسیرطبری ) تمام انبیا علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تلقین فرمائی۔