قوم کے اندر پھیلی ہوئی خرافات اور برائیوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمزدہ رہنے لگے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ سوچنے لگے کہ انہیں کس طرح ہلاکت سے بچایا جائے یہ غم اور خواہش بڑھتی گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں (جبل نور پر واقع) غار حرا (جس کی لمبائی 4گز اور چوڑائی پونے 2گز ہے) میں جا کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مصروف ہو گئے اور مہینہ پورا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ تشریف لاتے، بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد اپنے گھر چلے جاتے۔ تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہاپھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آنا شروع ہو گئے پھر روشنی نظر آنے لگی اور بے جان چیزوں کی آواز سنائی دینے لگی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :- ’’میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو نبوت ملنے سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔‘‘ (مسلم)
تیسرے سال رمضان کے مہینہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن ہو گئی۔ 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق 10 اگست 610 عیسوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور کہا: ’’اِ قْرَاْ ‘‘آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پڑھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- ’’ مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ‘‘ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینہ سے لگا کر دبایا پھر کہا :
’’اِ قْرَأْ ‘‘ پڑھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وہی جواب دیا:- ’’ مَا اَنَا بِقَارِیٔ‘‘ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیسری بار سینہ سے لگا کر دبایا اور کہا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
(ترجمہ)’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے رب کا نام لے کر پڑھئے جس نے (پورے عالم کو) پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھئے آپ کا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے(انسان کو) علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسے علم نہ تھا۔‘‘ ( العلق 96 : آیات 1تا 5)
ان آیات کو سیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل گھبراہٹ کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:- ’’مجھے کمبل اُڑھادیجئے، مجھے کمبل اُڑھادیجئے۔‘‘ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اُڑھا دیا۔کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ ختم ہو ئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو غار والا پورا واقعہ سنایا اور کہا:- ’’مجھے اپنی جان کے بارے میں خوف محسوس ہو رہاہے۔‘‘ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے کہا:اللہ کی قسم، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رُسوا نہیں کرے گااس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رشتہ داروں سے) صلہ رحمی کرتے ہیں ، بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، تنگ دست لوگوں کی مدد کرتے ہیں ، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نَوفل کے پاس لے کر گئیں جو کہ عیسائی عالم تھے اور انجیل کا عبرانی زبان میں ترجمہ کر رہے تھے۔ اس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی جان، آپ اپنے بھتیجے کی باتیں سنیں ۔ ورقہ بن نَوفل نے کہا:’’اے بھتیجے، سناؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پورا واقعہ سنایا۔ اس واقعہ کو سنتے ہی انہوں نے کہا: یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا پھر کہنے لگے: کاش، میں اُس وقت تک زندہ رہوں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں (مکہ)سے نکال دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ واقعی میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا: ’’جی ہاں ‘‘ جب بھی کوئی رسول آپ جیسا پیغام لے کر آیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اگر میں نے تمہارا وہ(نبوت والا)زمانہ پا لیا تو ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدہی ورقہ وفات پا گئے اور کچھ عرصہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ بندہو گیا۔(بخاری،مسلم )