آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے جنات آسمان سے قریب ہو کر فرشتوں کی باتیں بآسانی سن لیا کرتے تھے لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی تو وحی کو ان کی دخل اندازی سے محفوظ رکھنے کے لئے جنات کے آپکی باتیں سننے پر پابندی لگا دی گئی۔اب جو بھی شیطان باتیں سننے کی کوشش کرتا، اسے انگاروں سے مارا جاتا۔ جب جنات کے آسمانی باتیں سننے پر پابندی لگی تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ضرور زمین پر واقع ہونے والے کسی عظیم کام کا فیصلہ کیا ہے۔اس لئے وہ اس(عظیم کام) کی تلاش کے لئے زمین میں مختلف ٹولیوں کی صورت میں پھیل گئے۔ ان میں سے ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے قریب وادی نخلہ (جگہ کا نام) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایاتو وہ جماعت فوراً سمجھ گئی کہ یہی وہ عظیم کام ہے جس کی وجہ سے ہمارے آسمان پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لہٰذا یہ جماعت اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی تبلیغ کرنے لگی۔ ( بخاری،مسلم)
فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’اور (جنوں نے کہا)ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت پہرے داروں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا اوریہ کہ ہم(باتیں ) سننے کے لئے اس (آسمان ) میں جگہ جگہ بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو بھی (سننے کے لئے) کان لگاتا ہے تو وہ اپنے لئے گھات لگائے ہوئے شعلہ کوتیار پاتا ہے اور بلا شبہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لئے کسی برے معاملہ کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیاہے۔‘‘ (الجن 72 : آیا ت 8 تا 10)
اللہ ربّ العالمین کے فرشتے آسمانوں پر چوکیداری کرتے ہیں تاکہ شیاطین آسمان والوں کی باتیں نہ سن سکیں ۔ اب چوری چھپے جو شیاطین بھی آسمانی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں تو آسمان کے ستارے شعلہ بن کر ان پر گرتے ہیں چونکہ شیطان آسمانی باتیں سن کر کاہنوں کو بتلادیا کرتے تھے اور وہ (کاہن)اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔
فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’شیاطین اس (قرآن) کو لے کر نازل نہیں ہوئے اور نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ انہیں اس کی طاقت ہے بلکہ وہ تو سننے سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں ۔‘‘ ( الشعرآء 26 : آیات 210 تا 212)
وحی الٰہی کو شیطانی دراندازی(بدگوئی) سے بالکل محفوظ کر دیا گیا ہے کیونکہ شیاطین کا مقصد صرف شرو فساد اور شرک و بدعات کو پھیلانا ہوتا ہے، جب کہ قرآن مجید سرچشمہ ہدایت ہے اور اس کو نازل کرنے کا مقصد نیکی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ جب جنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سننے کا موقع ملا تو وہ بھی ایمان لائے بغیر رہ نہ سکے۔
فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے اسے(قرآن کو) غور سے سنا اور کہاکہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو صحیح راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس (قرآن) پر ایمان لاچکے۔ اب ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔‘‘ ( الجن 72 : آیات1تا 2)