اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

صلہ رحمی و قطع رحمی

صلہ رحمی

(٤١)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمَنِ فَقَالَ اللَّهُ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ۔ (بخاری، رقم ٥٩٨٨)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (رحم سے)۔ فرمایا ہے کہ جو تجھے ملاتا ہے، میں اسے (اپنے ساتھ)۔ ملاتا ہوں اور جو تجھے کاٹتا ہے، میں اسے (اپنے آپ سے)۔ کاٹتا ہوں۔''

 

(٤٢)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّی إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِهِ قَالَتْ الرَّحِمُ هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنْ الْقَطِيعَةِ قَالَ نَعَمْ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلَی يَا رَبِّ قَالَ فَهُوَ لَكِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَاقْرَء ُوا إِنْ شِئْتُمْ، (فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ)۔ (بخاری، رقم٥٩٨٧)، (مسلم، رقم ٦٥١٨)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو تخلیق کیا۔ پھر جب وہ تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم (عرش کا پایہ پکڑ کر)۔ کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ اس کی جگہ ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ چاہتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں، کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ میں اس سے تعلق رکھوں گا جو تیرے تعلق کو جوڑے گا اور اس سے بے تعلق رہوں گا جو تیرے تعلق کو کاٹے گا۔ رحم نے کہا کہ کیوں نہیں اے میرے رب (میں راضی ہوں )۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم کو یہ (مقام و مرتبہ)۔ دیا گیا۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو (پس اگر تم نے منہ پھیرا تو اس کے سوا تم سے کچھ متوقع نہیں کہ زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رحمی رشتوں پر چھری چلاؤ۔ )''

 

(٤٣)۔ عَنْ أَبِی أَيُّوبَ الْأَنْصَارِیِّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِی الْجَنَّةَ فَقَالَ الْقَوْمُ مَا لَهُ مَا لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَهُ، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِی الزَّکَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْهَا، قَالَ کَأَنَّهُ کَانَ عَلَی رَاحِلَتِهِ۔ (بخاری، رقم٥٩٨٣)

''ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے۔ لوگ (اسے دیکھ کر)۔ کہنے لگے اسے کیا ہو گیا ہے، اسے کیا ہو گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھئی اسے ہونا کیا ہے، ( اسے ضرورت ہے اس لیے پوچھ رہا ہے)، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کی طرف متوجہ ہو کر)۔ کہا : تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کا اہتمام کرو، زکوۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ (تمھارا مسئلہ حل ہوا، اب)۔ اس (اونٹی کی لگام) کو چھوڑ دو، ایسا لگتا ہے کہ اس وقت آپ اپنی سواری پر تھے۔''

 

(٤٤)۔ عَنْ أَبِی أَيُّوبَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِی سَفَرٍ فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ أَوْ بِزِمَامِهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوْ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِی بِمَا يُقَرِّبُنِی مِنْ الْجَنَّةِ وَمَا يُبَاعِدُنِی مِنْ النَّارِ قَالَ فَکَفَّ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَظَرَ فِی أَصْحَابِهِ ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ وُفِّق أَوْ لَقَدْ هُدِی قَالَ: کَيْفَ قُلْت قَالَ فَأَعَادَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِی الزَّکَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ دَعْ النَّاقة۔ (مسلم، رقم ١٠٤)

''ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران میں ایک بدو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا اور آپ کی اونٹنی کی رسییا نکیل پکڑ لی۔ پھر اُس نے کہا، اے اللہ کے رسول! یا کہا اے محمد! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور دوزخ سے دور کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ (یہ سن کر )۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اور پھر اپنے صحابہ پر نظر ڈالی اور کہا کہ اسے توفیق دی گئی ہے، یایہ کہا کہ یہ ہدایت دیا گیا ہے۔ آپ نے اُس سے فرمایا (پھر سے کہو)۔ تم نے کیا پوچھا تھا۔ تو اُس نے اپنی بات دوہرا دی، تو آپ نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ، نماز کا اہتمام کرو، زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اونٹی (کی لگام )کو چھوڑ دو۔''

 

توضیح:

ان احادیث میں بعض دوسری اہم باتوں کے ساتھ رحمی رشتہ و تعلق کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ فرمایا کہ جو شخص رحمی رشتوں کے حقوق ادا کرے گا، وہی اپنے ساتھ خدا کے تعلق کی امید کر سکتا ہے اور جو شخص انھیں کاٹے گا تو وہ یاد رکھے کہ اُسے خدا اپنے آپ سے کاٹ دے گا۔

 

قطع رحمی کی سزا

(٤٥)۔ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ۔ (بخاری، رقم ٥٩٨٤)

''جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہیں ہو گا۔''

 

(٤٦)۔ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ۔ (مسلم، رقم ٦٥٢١)

''جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔''

 

توضیح:

اِن احادیث میں قطع رحمی کے جرم کی سنگینی بیان کی گئی ہے۔ قطع رحمی سے یہ مراد نہیں کہ کسی آدمی سے صلہ رحمی کے حوالے سے کچھ کوتاہیاں ہو جائیں۔ بلکہ یہاں 'قطع رحمی کرنے والے' سے مراد وہ شخص ہے جس نے رحمی رشتوں کے حقوق کو پامال کیا،یہاں تک کہ اُسے خدا کی عدالت میں قطع رحمی کا باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا۔ ایسے شخص کے بارے میںیہ وعید ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

 

رحمی رشتوں کو توڑ دینا بڑی سنگ دلی کی بات ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیکیہ بہت بڑا جرم ہے اور اِس کا مرتکب جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

 

صلہ رحمی کی برکات

(٤٧)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِی رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِی أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔ (بخاری، رقم ٥٩٨٦)، (مسلم، رقم ٦٥٢٣)

''انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جسے یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔''

 

توضیح:

رزق میں فراخی اور عمر میں برکت کے الفاظ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی رحمت اور اُس کے فضل کو بیان تے ہیں۔ اس حدیث میںیہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے قرابت داروں کے حقوق کی نگہداشت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی نعمتوں میں اضافہ بھی کرتے اور اُسے ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتے ہیں۔

 

صلہ رحمی کا کمال

(٤٨)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِءِ وَلَکِنْ الْوَاصِلُ الَّذِی إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا۔ (بخاری، رقم ٥٩٩١)

''عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: صلہ رحمی (کا کمال)۔ یہ نہیں کہ آدمی بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ یہ ہے کہ آدمی قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرے۔''

 

توضیح:

''یہ بات درست ہے کہ اچھے رویے کے جواب میں اچھا رویہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ جیسے کہ ارشاد باری ہے:

نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے''۔ (الرحمن٥٥:٦٠)

 

لیکن اس رویے کو ہم کسی آدمی کی نیکی کا کمال نہیں کہہ سکتے۔ نیکی کا کمال یہ ہے آدمی برا سلوک کرنے والے کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

''اور بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں تم برائی کو اُس چیز (نیکی)سے ہٹاؤ جو زیادہ بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک گہرا دوست بن گیا ہے''۔ (حٰم السجدۃ٤١: ٣٤)

 

یقیناً نیکی کا کمال یہی ہے کہ آدمی برائی کے جواب میں بھی نیکیہی کرے۔

 

درج بالا حدیث میںیہ بتایا گیا ہے کہ صلہ رحمی کا کمال یہ نہیں کہ آدمی صرف انھی لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے جو اُس کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں، بلکہ اِس کا کمال تو یہ ہے کہ انسان اُن کے ساتھ بھی صلہ رحمی ہی کا برتاؤ کرے جو اُس کے ساتھ قطع رحمی کرتے ہیں۔

 

یتیم کی پرورش کا صلہ

(٤٩)۔ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَنَا وَکَافِلُ الْيَتِيمِ فِی الْجَنَّةِ هَکَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَی۔ (بخاری،رقم ٦٠٠٥)

''سھل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والے جنت میں اس طرح ہوں گے جیسےیہ، آپ نے اپنی دو انگلیوں انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔''

 

(٥٠)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: کَافِلُ الْيَتِيمِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ أَنَا وَهُوَ کَهَاتَيْنِ فِی الْجَنَّةِ وَأَشَارَ مَالِكٌ بِالسَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَی۔ (مسلم، رقم ٧٤٦٩)

'' ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا خواہ وہ یتیم اس کا رشتہ دار ہو یا غیر، جنت میں اس طرح ہوں گے، جیسےیہ دو انگلیاں۔ امام مالکؒ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرکے بتایا۔''

 

توضیح:

بچہ اپنی ہر ضرورت کے لیے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر وہ ماں باپ کے سہارے سے محروم ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ بے بس و بے کس شاید ہی اور کوئی ہو۔چنانچہ آپ نے بتایا کہ جو شخص کسییتیم کی ذمہ داری اٹھاتا اور اُس کی کفالت کرتا ہے وہ خدا کی نظر میں اتنا پسندیدہ عمل کرتا ہے کہ اسے جنت میں میراساتھ اس طرح میسر ہو گا جیسے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ساتھ ساتھ ہوتی ہیں۔

 

پڑوسی کے حقوق

(٥١)۔ عَنْ أَبِی شُرَيْحٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ قِيلَ وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الَّذِی لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُ۔ (بخاری، رقم ٦٠١٦)

''ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :خدا کی قسم، وہ مومن نہ ہو گا؛ خدا کی قسم،وہ مومن نہ ہو گا؛ خدا کی قسم،وہ مومن نہ ہو گا۔ لوگوں نے پوچھا : کون یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ ''

 

توضیح:

امن و امان ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ ہر پڑوسی پر اُس کے پڑوسی کا یہ حق باقی سب لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور آخرت پر سچے دل سے ایمان رکھنے والا کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اُس کے اس بنیادی حق ہی سے محروم کر دے اور اپنی شرارتوں سے اُس کو تنگ کرے۔

 

(٥٢)۔ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا زَالَ يُوصِينِی جِبْرِيلُ بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ۔ (بخاری، رقم ٦٠١٤)

''عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل نے مجھے پڑوسی کے حقوق کی اِس قدر تاکید کی کہ مجھے خیال ہوا، یہ تو عنقریب اسے وراثت میں حق دار بنا دیں گے۔''

 

توضیح:

اللہ تعالیٰ نے قریبی رشتہ داروں کی طرح پڑوسی کو انسان کی میراث میں حصہ دار تو نہیں بنایا، لیکنیہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ حسن سلوک کے پہلو سے پڑوسیوں کا حق انھی قریبی رشتہ داروں کی مثل ہے جنھیں انسان کی میراث میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔

 

میراث میں حصوں کی تقسیم کا اصول ''أيهم أقرب لکم نفعاً'' (النساء٤: ١١)ہے، یعنی رشتہ داروں میں سے بلحاظ منفعت کون زیادہ قریب ہے، چنانچہ منفعت کے لحاظ سے زیادہ قریبی رشتہ دار زیادہ حصہ پاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوسیوں کی منفعت رشتہ داروں کی منفعت جیسی نہیں ہوتی، جبھی تو انھیں میراث میں حصہ نہیں دیا گیا۔ لیکن خدا کے نزدیک پڑوس کا رشتہ ایسا اہم ہے کہ اِس کی بنا پر باہم خیر خواہی کی جو ذمہ داری بنتی ہے وہ انھیں حسن سلوک کے حوالے سے قریبی رشتہ داروں جیسے حقوق دلا دیتی ہے۔ چنانچہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑوسی کے حقوق کی اِس قدر تاکید کی کہ انھیں خیال ہوا، یہ انھیں کہیں وراثت ہی میں حق دار نہ بنا دیں۔

 

پڑوسیوں کی خبر گیری

(٥٣)۔ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ خَلِيلِی صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِی: إِذَا طَبَخْتَ مَرَقًا فَأَکْثِرْ مَاء هُ ثُمَّ انْظُرْ أَهْلَ بَيْتٍ مِنْ جِيرَانِكَ فَأَصِبْهُمْ مِنْهَا بِمَعْرُوفٍ۔ (مسلم، رقم ٦٦٨٩)

''ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نصیحت کی کہ جب تم شوربا پکاؤ تو اُس میں پانی بڑھا دیا کرو اور اپنے ہم سایوں کو دیکھو اور پھر (ان میں سے جس کو اس کی ضرورت ہو)۔ اسے اس میں سے کچھ دے دو۔''

 

توضیح:

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہر حال میں اور ہر ممکن طریقے سے اپنے پڑوسیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔

 

(٥٤)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَا نِسَاء َ الْمُسْلِمَاتِ لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ۔ (بخاری، رقم ٦٠١٧)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : مسلمان بیویو، تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کے لیے کسی تحفے کو حقیر نہ سمجھے، اگر چہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو۔''

 

(٥٥)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ۔ (ترمذی، رقم٢١٣٠)

'' نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: باہم تحفے دیا کرو، کیونکہ تحفہ دل کے کینے اور غصے کو زائل کر دیتا ہے اور کوئی بی بی اپنی پڑوسن کے لیے کسی تحفے کو حقیر نہ سمجھے، اگرچہ وہ بکری کا ایک کُھر ہی کیوں نہ ہو۔ ''

 

توضیح:

پہلی بات یہ ہے کہ تحفہ خواہ قیمتی ہو یا حقیر بہرحال محبت کا اظہار ہوتا ہے اور دوسرییہ کہ پڑوسی ہمارے ان متعلقین میں سے ہے جو ہمارے لیے انتہائی قابلِ تکریم ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ واضح فرمایا کہ اگر کسی پڑوسی کے لیے اپنے پڑوسی کو دینے کے لیے کوئی چھوٹا سا تحفہ ہی کیوں نہ ہو، اسے وہ تحفہ حقیر جانتے ہوئے اپنے پڑوسی کو بھیجنے میں شرمانا اور ہچکچانا نہیں چاہیے۔

 

پڑوسی اور مہمان کا اکرام

(٥٦)۔ عَنْ أَبِی شُرَيْحٍ الْعَدَوِیِّ قَالَ سَمِعَتْ أُذُنَایَ وَأَبْصَرَتْ عَيْنَایَ حِينَ تَکَلَّمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ قَالَ وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ فَمَا کَانَ وَرَاء َ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ۔ (بخاری، رقم ٦٠١٩)

''ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا اور آنکھوں نے دیکھا ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے اور جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا (خاطر داری کے)۔ دستور کے مطابق اکرام کرے، لوگوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول دستور کے موافق کب تک، آپ نے فرمایا (خاطر داری)۔ ایک دن اور ایک رات تک اور میزبانی تین دن تک کیہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا، اورجو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔''

 

(٥٧)۔ عَنْ أَبِی شُرَيْحٍ الْکَعْبِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَامٍ فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِیَ عِنْدَهُ حَتَّی يُحْرِجَهُ- (وَ)۔ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ۔ (بخاری، رقم ٦١٣٥)

''ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے، اس کی خاطر داری بس ایک دن اور ایک رات کی ہے اور میزبانی تین دن تک ہے۔اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ صدقہ ہو گا۔ مہمان کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے پاس اتنے دن ٹھہر جائے کہ اُسے تنگ کر ڈالے۔ جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتاہے، اُسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔''

 

توضیح:

اس حدیث میںیہ باتیں بتائی گئی ہیں :

١۔ ہر صاحبِ ایمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی اور اپنے مہمان کی عزت کرے اور دستور کے مطابق مہمان کی خاطر داری کرے، کیونکہ قیامت کے دن اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

 

٢۔ دستور کے مطابق خاطر داری کی مدت ایک دن رات تک ہے۔ البتہ مہمانی کی مدت تین دن رات تک ہے۔

 

٣۔ اگر کوئی مہمان تین دن سے زیادہ قیام کرتا ہے تو پھر اس پر جو کچھ خرچ کیا جائے گا، وہ میزبان کی طرف سے صدقہ ہو گا۔

 

٤۔ کسی مہمان کے لیےیہ جائز نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اتنے دن قیام کرے کہ وہ اُس سے تنگ آ جائے۔

 

٥۔ ہر صاحب ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنے منہ سے اچھی بات نکالے، ورنہ خاموش رہے، کیونکہ اسے اپنے سب افعال و اعمال کے بارے میں خدا کو جواب دیناہے۔