اخلاقِ حسنہ

محمد رفیع مفتی

تکبر کی مناہی

ریشم اور آلاتِ موسیقی کی حرمت

(٦٧)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الْأَشْعَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِیُّ وَاللَّهِ مَا کَذَبَنِی سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ۔ (بخاری، رقم ٥٥٩٠)

''عبد الرحمن بن غنم اشعری کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو عامر یا ابو مالک اشعری نے بیان کیا اور خدا کی قسم انھوں نے مجھ سے جھوٹ نہیں کہا کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں (ایک زمانے میں )۔ لازماً ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا کرنے، ریشم پہننے، شراب پینے اور گانے بجانے کو (اپنے لیے)۔ حلال ٹھہرا لیں گے۔''

 

توضیح:

اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کییہ پیش گوئی بیان ہوئی ہے کہ ایک زمانے میں آپ کی امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنے لیے حرام چیزوں کو حلال ٹھہرا لیں گے اور پھر وہ ان میں بہت اطمینان کے ساتھ مشغول ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اطمینان کی اس حالت میں سرکشی اپنی انتہائی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس حدیث میں جن چیزوں کو حلال ٹھہرانے کا ذکر ہے وہ زنا، ریشم، شراب اور گانا بجانا ہے۔ قرآن و حدیث سے جو حرمت زنا اور شراب کے لیے ثابت ہے، وہ ریشم کے لیے ثابت نہیں کیونکہ اسے عورتوں کے لیے حرام قرار نہیں دیا گیا اور بیماری کی صورت میں اس کا استعمال بعض صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے اور آلات موسیقی کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں انھیں حرام قرار دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جن حرام چیزوں کے ساتھ ان کا ذکر ہوا ہے، اُن میں ملوث لوگ اِن کا بھی وہ استعمال کرتے تھے جو حرام ہوتا تھا۔ مثلاً شرابی اور زانی لوگوں کا بغیر کسی عذر کے محض نمود و نمائش کے لیے ریشم پہننااور ایسی موسیقی سننا جو اپنے اندر فحش اور غیر اخلاقی پہلو رکھتی ہو۔اس صورت میںیہ دونوں چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔''

 

مقدر آزمائش

(٦٨)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنْ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنَّی وَتَشْتَهِی وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ کُلَّهُ وَيُکَذِّبُهُ۔ (بخاری، رقم ٦٢٤٣)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی (کی آزمائش)۔ کے لیے زنا میں سے اُس کا حصہ طے کر دیا ہے، جس سے وہ (اضطراراً یا ارادۃً)۔ لازماً دوچار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیدہ بازی آنکھوں کی زنا ہے اور لگاوٹ کی بات چیت زبان کی زنا ہے۔ پھر دل و دماغ خواہش کرتے ہیں اور شرم گاہ کبھی اس سب کی تصدیق کرتی اور کبھی اسے جھٹلا دیتی ہے۔''

 

(٦٩)۔ عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنْ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْکَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَی وَيَتَمَنَّی وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُکَذِّبُهُ۔ (مسلم، رقم ٦٧٥٤)

''ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی (کی آزمائش)۔ کے لیے زنا میں اُس کا حصہ طے کر دیا ہے۔ جس سے وہ (اضطراراً یا ارادۃً)۔ لازماً دوچار ہوتا ہے۔ چنانچہ دیدہ بازی آنکھوں کی زنا ہے، لگاوٹ کی بات چیت سے لذت لینا کانوں کی زنا ہے، اِس طرح کی باتیں کرنا زبان کی زنا ہے، ہاتھ لگانا اور اِس کے لیے چلنا ہاتھ پاؤں کی زنا ہے۔ پھر دل و دماغ خواہش کرتے ہیں اور شرم گاہ کبھی اُس کی تصدیق کرتی اور کبھی جھٹلا دیتی ہے۔''

 

توضیح:

خدا نے انسان میں جہاں اور بہت سے داعیات رکھے ہیں وہاں اُس کے اندر جنس کا ایک مضبوط داعیہ بھی رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس داعیے کو اُس کے لیے ایسی مستقل آزمائش بنا دیا ہے کہ اس میں مکمل طور پر پاک رہنا ممکن نہیں۔ اسی بات کو آپ نے اس حدیث میں اِن الفاظ سے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کی آزمائش کے لیے زنا میں سے اُس کا حصہ طے کر رکھا ہے، جس سے وہ ارادۃًیا اضطراراً دوچار ہو کے رہتا ہے۔

 

اِس کی وضاحت یہ ہے کہ غیر محرم کو دیکھنا، اس سے لگاوٹ کی بات چیت کرنا اور سننا، اُسے ہاتھ لگانا اور اُس کی طرف چل کر جانا یہ سب اپنے اپنے درجے میں زنا ہی کے زُمرے میں شمار ہوتے ہیں، اگر آدمی ان سے پیچھے ہٹ جاتا اور توبہ کر لیتا ہے تو گویا اُس کی شرم گاہ نے ان کی تکذیب کر دی اور انھیں بطور مقدمات زنا قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس صورت میں آدمی گناہ سے بچ جاتا ہے اور اگر وہ ان میں آگے بڑھتے بڑھتے زنا میں ملوث ہو جاتا ہے تو گویا اس کی شرم گاہ نے ان کی تصدیق کر دییعنی انھیں بطور مقدمات زنا قبول کر لیا، چنانچہ اس صورت میں آدمی گناہ گار ہو جاتا ہے۔

 

متکبر کی جنت سے محرومی

(٧٠)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔ (مسلم، رقم ٢٦٥)

''عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی غرور ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ اُس کا لباس عمدہ ہو اور اُس کا جوتا عمدہ ہو (کیایہ سب غلط ہے؟)آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خود بھی خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔''

 

(٧١)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرِيَاء۔ (مسلم، رقم ٢٦٦)

''عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ (ہمیشہ کے لیے)۔ دوزخ میں داخل نہیں ہو سکتا اور جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

 

توضیح:

تکبر کا اظہار دو طریقوں سے ہوتا ہے ایکیہ کہ انسان دوسروں کو اپنے سے حقیر جانے اور دوسرا یہ کہ وہ حق کو محض حق ہونے کی بنا پر قبول نہ کرے۔

 

یہ دونوں رویے اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ شخص اپنے دل میں نہ خدا کی عظمت کا کوئی تصور رکھتا ہے اور نہ خدا کی بندگی کا کوئی شعور ہی اس میں پایا جاتا ہے۔ ورنہ جس دل میں خدا کی عظمت کا تصور اور اُس کی بندگی کا شعور موجود ہو، اُس پر تواضع اور فروتنی کی حالت طاریرہتی ہے۔ ایسا شخص خدا ہی کے بنائے ہوئے دوسرے انسانوں کو کبھی اپنے مقابل میں حقیر نہیں سمجھ سکتا اور نہ وہ کبھی کسی سچائی اور حق کو تسلیم کرنے سے اعراض کر سکتا ہے، کیونکہ خدا سب سے بڑا حق ہے، اسے سچے دل سے ماننے والا انسان ہر حق کو فوراً قبول کرتا ہے۔

 

تکبر درحقیقت خدا پر حقیقی ایمان ہی کی نفی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ نے فرمایا، جس شخص کے دل میں ذرہ بھر غرور ہو گا، وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا اور جس کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہو گا وہ (ہمیشہ کے لیے)۔ دوزخ میں نہیں جائے گا۔

 

عزت اور بزرگی کا حقیقی مالک

(٧٢)۔ عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ وَأَبِی هُرَيْرَةَ قَالَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْعِزُّ إِزَارُهُ وَالْکِبْرِيَاء ُ رِدَاؤُهُ فَمَنْ يُنَازِعُنِی عَذَّبْتُهُ۔ (مسلم، رقم ٦٦٨٠)

'' ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عزت اللہ کی ازار اور بزرگی اُس کی ردا ہے، چنانچہ (وہ فرماتا ہے کہ)۔ جو اِن میں میرا مقابلہ کرے گا، میں اُسے عذاب دوں گا۔''

 

توضیح:

حقیقی عزت، بزرگی، بڑائی اور عظمت صرف اور صرف خدا کے لیے ہے، وہی ان کا اصل حق دار اور مالک ہے۔ اس کے علاوہ جس کسی کو بھی کچھ عزت اور بڑائی حاصل ہے اُس کی عطا کردہ ہے۔ لہذا جو شخص خدا کے مقابل میں عزت دار بنتا اور بزرگی کو اپنا حق سمجھتا ہے، وہ اپنے اس رویےسے گویا خدا کی ملکیت کو اُس سے چھینتا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ ایسے شخص کو عذاب دے گا۔

 

اظہارِ تکبر کی مناہی

(٧٣)۔ عَنْ ابْنِ أَبِی لَيْلَی قَالَ خَرَجْنَا مَعَ حُذَيْفَةَ وَذَکَرَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِی آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا تَلْبَسُوا الْحَرِيرَ وَالدِّيبَاجَ فَإِنَّهَا لَهُمْ فِی الدُّنْيَا وَلَکُمْ فِی الْآخِرَةِ۔ (بخاری، رقم ٥٦٣٣)

'' ابن ابی لیلی سے روایت ہے کہ ہم حذیفہ کے ساتھ نکلے، تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ آپ نے فرمایا ہے: سونے اور چاندی کے برتن میں نہ پیا کرو اور ریشم و دیبا نہ پہنا کرو، کیونکہیہ چیزیں اُن (کفار)۔ کے لیے دنیا میں ہیں اور تمھارے لیے آخرت میں ہوں گی۔''

 

(٧٤)۔ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَانَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْرَبَ فِی آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَأَنْ نَأْکُلَ فِيهَا وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَأَنْ نَجْلِسَ عَلَيْهِ۔ (بخاری، رقم ٥٨٣٧)

''حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے روکا ہے اور آپ نے ہمیں ریشم اور دیباج کے کپڑے پہننے اور ان (کی بنی ہوئی گدیوں وغیرہ)۔ پر بیٹھنے سے بھی روکا ہے۔''

 

(٧٥)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ شَرِبَ فِی إِنَاء ٍ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ فَإِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِی بَطْنِهِ نَارًا مِنْ جَهَنَّم۔ (مسلم، رقم ٥٣٨٧)

''ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سونے یا چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے، وہ تو بس جہنم کی آگ کو اپنے پیٹ میں غٹ غٹ اتار رہا ہے۔''

 

توضیح:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے جن سے امارت کینمائش ہوتی ہو یا وہ بڑائی مارنے، شیخی بگھارنے اور دوسروں پر رعب جمانے کا ذریعہ بنتی ہوں۔چنانچہ آپ نے سونے اور چاندی کے قیمتی برتنوں میں کھانے سے منع فرمایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ جو شخص ان برتنوں میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھرتا ہے۔ نیز آپ نے یہ بتایا کہ یہ برتن دنیا میں کفار کے لیے ہیں، لیکن آخرت میںیہ مومنین کے لیے ہوں گے۔

 

اعمالِ تواضع کا حکم اور اعمالِ تکبر کی مناہی

(٧٦)۔ عَنْ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعِ الْجِنَازَةِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِی وَإِفْشَاء ِ السَّلَامِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِيمِ الذَّهَبِ وَعَنْ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّةِ - أَوْ قَالَ آنِيَةِ الْفِضَّةِ - وَعَنْ الْمَيَاثِرِ وَالْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْإِسْتَبْرَقِ۔ (بخاری، رقم ٥٦٣٥)

''براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے۔آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہونے، چھینک کے جواب میںیرحمک اللہ کہنے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے، سلام کو پھیلانے، مظلوم کی مدد کرنے اور قسم کھانے والے کو قسم پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی میں پینےیا (فرمایا)۔ چاندی کے برتنوں میں پینے سے، (زینیا کجاوے پر)۔ ریشم کا گدا استعمال کرنے سے، وہ مصری کپڑا استعمال کرنے سے جس میں ریشم کے دھاگے بھی ہوتے ہیں اور ریشم و دیبا اور استبرق کے لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔''

 

(٧٧)۔ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: أَمَرَنَا بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ أَوْ الْمُقْسِمِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِی وَإِفْشَاء ِ السَّلَامِ وَنَهَانَا عَنْ خَوَاتِيمَ - أَوْ عَنْ تَخَتُّمٍ بِالذَّهَبِ - وَعَنْ شُرْبٍ بِالْفِضَّةِ وَعَنْ الْمَيَاثِرِ وَعَنْ الْقَسِّیِّ وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالْإِسْتَبْرَقِ وَالدِّيبَاجِ - عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِی الشَّعْثَاءِ - وَعَنْ الشُّرْبِ فِی الْفِضَّةِ فَإِنَّهُ مَنْ شَرِبَ فِيهَا فِی الدُّنْيَا لَمْ يَشْرَبْ فِيهَا فِی الْآخِرَِ۔ (مسلم، رقم ٥٣٨٨، ٥٣٩٠)

''معاویہ بن سوید بن مقرن سے روایت ہے کہ میں براء بن عازب کے پاس آیا تو میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے روکا ہے۔آپ نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے میں شامل ہونے، چھینک کے جواب میںیرحمک اللہ کہنے، قسم کو پورا کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے اور سلام کو پھیلانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیاں پہننے سے، چاندی (کے برتنوں )۔ میں پینے سے، (زینیا کجاوے پر)۔ ریشم کا گدا استعمال کرنے سے، وہ مصری کپڑا استعمال کرنے سے جس میں ریشم کے دھاگے بھی ہوتے ہیں اور ریشم و دیبا اور استبرق کے لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔ --- اس روایت میں اشعث بن ابی شعثا راوی سے یہ اضافہ منقول ہے کہ آپ نے چاندی کے برتنوں میں پینے سے روکا ہے، کیونکہ جو شخص دنیا میں ان میں پیئے گا و ہ آخرت میں اِن میں پینے سے محروم رہے گا۔''

 

توضیح:

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو وہ سات اعمال صالحہ بجا لانے کا حکم دیا جو تواضع کا اظہار ہیں اور ان سات اعمال سے منع فرمایا جو تکبر کا اظہار ہیں۔

 

وہ اعمال جنھیں بجا لانے کا آپ نے حکم دیا، وہ درج ذیل ہیں :

١۔ بیمار کی عیادت کرنا

٢۔ جنازے میں شامل ہونا

٣۔ چھینک کے جواب میںیرحمک اللہ کہنا،

٤۔ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا

٥۔ سلام کو پھیلانا

٦۔ مظلوم کی مدد کرنا

٧۔ اپنی قسم کو پورا کرنا

 

وہ اعمال جن سے آپ نے روکا:

١۔ سونے کی انگوٹھیاں پہننا

٢۔ چاندی کے برتنوں میں پینا

٣۔ ریشم کا گدا استعمال کرنا

٤۔ ریشم کے دھاگوں والا کپڑا استعمال کرنا

٥۔ ریشم کا لباس پہننا

٦۔ دیبا کا لباس پہننا

٧۔ استبرق کا لباس پہننا

 

نیز آپ نے ہمیںیہ بتایا کہ جو شخص دنیا میں سونے اور چاندی کے برتنوں میں پیئے گا وہ آخرت میں ان میں پینے سے محروم رہے گا۔

 

متکبرانہ وضع قطع کی مناہی

(٧٨)۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَالِفُوا الْمُشْرِکِينَ وَفِّرُوا اللِّحَی وَأَحْفُوا الشَّوَارِب وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا حَجَّ أَوْ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلَی لِحْيَتِهِ فَمَا فَضَلَ أَخَذَهُ۔ (بخاری، رقم ٥٨٩٢)

''ابن عمر رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کترواؤ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جب حج یا عمرہ کرتے تو اس موقع پر ڈاڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر اضافی بال کاٹ دیتے تھے۔''

 

توضیح:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مشرکین اپنی مونچھیں بڑھا اور ڈاڑھی منڈھا کر بڑی متکبرانہ شکل بنایا کرتے ہیں، تو آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم اپنے چہرے کی وضع قطع میں ان مشرکین کی مخالفت کرو، اپنی مونچھیں چھوٹی اور ڈاڑھی بڑی رکھو، کیونکہیہ ڈاڑھی اور مونچھیں رکھنے کی متواضع صورت ہے۔

 

متکبرانہ لباس پہننے پر عذاب

(٧٩)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِی الدُّنْيَا أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا۔ (ابن ماجه، رقم ٣٦٠٧)

''عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا میں اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے کوئی لباس پہنا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا اور پھر اُس میں آگ بھڑکا دی جائے گی۔''

 

توضیح:

تکبر اپنی حقیقت میں بندگی کی نفی ہے۔ اِس کا اظہار خواہ کسی صورت میں بھی ہو، خدا کو سخت ناپسندیدہ ہے۔ انسان خدا کا بندہ ہے، اس کے لیےیہی زیبا ہے کہ وہ اُس کی زمین پر اُس کا بندہ بن کر جیئے۔

 

اظہارِ تکبر کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ انسان فاخرانہ لباس کے ذریعے سے دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔ اس حدیث میں ہمیںیہ بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جو شخص دوسروں پر اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کا کوئی فاخرانہ لباس پہنے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ایسا لباس پہنائے گا جو دوسروں کی نگاہ میں اُس کی ذلت کا باعث ہو گا اور پھر اُس لباس کے اندر آگ بھڑکا دی جائے گی تاکہ وہ اپنے جرم کا پورا پورا بدلہ پائے۔

 

ازار لٹکانے کی مناہی

(٨٠)۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَی مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاء۔ (بخاری، رقم ٥٧٨٣)

'' ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اُس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا جو غرور سے اپنا تہ بند گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو۔''

 

(٨١)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الَّذِی يَجُرُّ ثِيَابَةُ مِنْ الْخُيَلَاء ِ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ (مسلم، رقم ٥٤٥٥)

'' ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص غرور سے اپنا تہ بند گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔''

 

(٨٢)۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاء َ لَمْ يَنْظُرْ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ إِنَّ أَحَدَ شِقَّیْ ثَوْبِی يَسْتَرْخِی إِلَّا أَنْ أَتَعَاهَدَ ذَلِكَ مِنْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ لَسْتَ تَصْنَعُ ذَلِكَ خُيَلَاء۔ (بخاری، رقم ٣٦٦٥)

''عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا زمین پر گھسیٹ کر چلے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے کپڑے کی ایک طرف لٹک جایا کرتی ہے سوائے اس کے کہ میں ہر وقت اُس کا دھیان رکھوں۔ آپ نے فرمایا: تم تکبر کی وجہ سے تھوڑا ہییہ کرتے ہو۔

 

توضیح:

تکبر کے اظہار کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لباس یا اپنے ازار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتا ہے۔ اس حدیث میں ہمیںیہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص اظہارِ تکبر کے لیے ایسا کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اتنا ناراض ہو گا کہ وہ اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا، حالانکہ اس دن ہر شخص خدا کی نظر کرم کا انتہائی محتاج ہو گا۔