مشکوٰة شر یف

آداب سفر کا بیان

آداب سفر کا بیان

اس باب میں احادیث نقل ہوں گی جن سے سفر کے آداب اور طور طریقے معلوم ہوں گے، سفر خواہ جہاد کا ہو یا حج کا یا ان کے علاوہ اور کسی طرح کا۔

واضح رہے کہ  سفر کے آداب  بہت ہیں بعض تو اس طرح کے ہیں کہ ان کا تعلق سفر سے شروع کرنے سے پہلے سے ہے اور بعض آداب اس نوعیت کے ہیں کہ ان کا لحاظ سفر کے دوران ہونا چاہئے اور بعض آداب ایسے ہیں جو سفر سے واپس آنے پر ملحوظ رہنے چاہئیں، ان میں سے کچھ کے بارے میں اس باب میں منقول احادیث اور ان کی تشریحات سے معلوم ہو گا لیکن اس کی سب سے عمدہ تفصیل احیاء العلوم میں مذکور ہے۔

جہاد کے لئے جمعرات کے دن نکلنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک پسندیدہ تھا

حضرت کعب ابن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم غزوہ تبوک کے لئے جمعرات کے دن روانہ ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو پسند فرماتے تھے کہ جہاد کے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے کریں۔  (بخاری)

 

تشریح

 

  تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ اور دمشق کے درمیانی راستہ پر خیبر اور العلاء کے خط پر واقع ہے، یہ پہلے شام کے علاقہ میں تھا حجاز کی حدود میں ہے۔ مدینہ سے اس کا فاصلہ ٤٦٥میل ہے، اس وقت یہ جگہ مدینہ سے ایک مہینہ کی مسافت کے بقدر تھی،

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ٩ھ میں اس جگہ پر فوج لے کر گئے تھے اسی کو غزوہ تبوک کہا جاتا ہے، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری غزوہ تھا۔

ابوداؤد نے حضرت کعب ابن مالک کی جو روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ  ایسا کم ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کے لئے اپنے سفر کی ابتداء جمعرات کے دن سے نہ کرتے ہوں۔ 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کے سفر میں جمعرات ہی کے دن روانہ ہونا کیوں پسند کرتے تھے ؟ اس میں کئی احتمال ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ بندوں کے نیک اعمال جمعرات ہی کے دن سے اللہ تعالیٰ تک اٹھائے جاتے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ چاہا کرتے تھے کہ جہاد کا عمل آج ہی اللہ تعالیٰ تک اٹھایا جائے کہ وہ افضل اعمال ہے اور دوسرے یہ کہ  خمیس  لشکر کو بھی کہتے ہیں (اور جمعرات کا دن بھی یوم الخمیس کہلاتا ہے) لہٰذا آپ جمعرات کے دن سفر جہاد کی ابتداء کر کے یہ فال نیک لیتے تھے کہ جس لشکر کے مقابلہ پر جا رہے ہیں اس پر فتح حاصل ہو گی۔

بہر کیف اس سلسلے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق جو چیز ہے وہ یہی ہے کہ جب جہاد کے لئے سفر اختیار کیا جائے تو جمعرات کے دن روانگی عمل میں لائی جائے لیکن اصل مدار استخارہ اور تفویض اور توکل پر ہے۔

یہ واضح رہے کہ سلف( صحابہ) سے یہ قطعاً منقول نہیں ہے کہ وہ سفر کی ابتداء کرنے کے سلسلے میں نجوم کا اتباع کرتے ہوں اور روانگی سفر کے لئے وہی ساعت اختیار کرتے ہوں جو حوتش کا حساب ظاہر کرتا ہو ! حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ تم سفر میں فلاں روز جانا، فلاں روز روانہ نہ ہونا، یہ سن کر حضرت علی نے اس شخص سے فرمایا کہ اگر اس وقت میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو میں (اتنی غلط اور خلاف اسلام بات کہنے پر) تمہاری گردن اڑا دیتا، ہم حضرت ابو القاسم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں (برابر) حاضر رہا کرتے تھے، ہم نے تو کبھی بھی آپ کی مجلس میں یہ ذکر ہوتے نہیں سنا کہ فلاں روز سفر کرنا چاہئے اور فلاں روز سفر نہ کرنا چاہئے۔

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے  قمر در عقرب  اور  محاق  کے سلسلے میں جو کچھ روایت کیا جاتا ہے وہ پایہ صحت کو پہنچا ہوا نہیں ہے۔

تنہا سفر کرنے کی ممانعت

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر لوگ اس چیز کو جو  تنہا سفر کرنے سے پیش آتی ہے اتنا جان لیں جتنا میں جانتا ہوں تو کوئی سوار رات میں کبھی سفر (کرنے کی ہمت) نہ کرے۔  (بخاری)

 

تشریح

 

  اس چیز سے  دینی اور دنیاوی نقصانات  مراد ہیں۔ چنانچہ دینی نقصان تو یہ ہے کہ تنہائی کی وجہ سے نماز کی جماعت میسر نہیں ہوتی اور دنیوی نقصان یہ ہے کہ کوئی غم خوار و مددگار نہیں ہوتا کہ اگر کوئی ضرورت یا کوئی حادثہ پیش آئے تو اس سے مدد مل سکے۔  سوار  اور  رات کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ سوار کو پیادہ کی بہ نسبت زیادہ خطرہ رہتا ہے اور خصوصاً رات میں۔

جس قافلہ میں کتا اور گھنٹال ہوتا ہے اس کے ساتھ رحمت کے رشتے نہیں ہوتے

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس قافلہ کے ساتھ فرشتے نہیں ہوتے جس میں کتا اور گھنٹال ہو۔  (مسلم)

 

تشریح

 

  فرشتے  سے کتبہ یعنی اعمال لکھنے والے فرشتے اور حفظ یعنی حفاظت کرنے والے مراد نہیں ہیں بلکہ رحمت کے فرشتے مراد ہیں۔ کتے سے مراد وہ کتا ہے جو پاسبانی کے لئے نہ ہو، لہٰذا پاسبانی اور مویشیوں کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا مباح ہے۔

جرس( گھنٹال) ان گھنٹیوں اور گھنگھروؤں کو کہتے ہیں جو جانوروں کے گلے میں باندھی جاتی ہے۔ اس (جرس) کے ممنوع ہونے کا سبب یہ ہے کہ وہ ناقوس کی مشابہت رکھتا ہے یا اس لئے ممنوع ہے کہ یا ان کے لٹکانے والی چیزوں میں سے ہے جن کی آواز کی ناپسندیدگی و کراہت کی وجہ سے ان کا لٹکانا ممنوع ہے۔ چنانچہ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو آگے آ رہی ہے اور جس میں جرس کو مزامیر الشیطان  کہا گیا ہے۔ نیز شرح السنۃ میں یہ روایت مذکور ہے کہ ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک لڑکی آئی جس کے پاؤں میں جھانجھیں یا گھنگرو تھے، حضرت عائشہ نے کہا کہ میرے پاس سے وہ چیز ہٹاؤ جو ملائکہ کو دور کرنے والی ہے  نیز منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہر جرس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔

گھنگرو اور گھنٹیاں شیطانی باجہ ہیں

اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  جرس (یعنی گھنگرو اور گھنٹی) مزامیر شیطان (یعنی شیطانی باجہ) ہے۔  (مسلم)

 

تشریح

 

  مزامیر  دراصل  مزمار  کی جمع ہے اور مزمار  بانسری  کو کہتے ہیں جو بجائی جاتی ہے، نیز  زمر  اور  تزمیر  بانسری کے ساتھ گانے کو کہتے ہیں۔ مزامیر بلفظ جمع اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس کی آواز میں اس طرح کا تسلسل ہوتا ہے کہ وہ منقطع نہیں ہوتی گویا اس آواز کی ہر لے اور ہر سلسلہ ایک مزمار ہے۔ نیز  جرس  کو مزامیر شیطان اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ وہ انسان کو ذکر و استغراق اور مشغولیت عبادت سے باز رکھتا ہے۔

اونٹ کے گلے میں تانت کا پٹا باندھنے کی ممانعت

اور حضرت ابو بشیر انصاری سے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے، تو (وہ بیان کرتے ہیں کہ اس سفر کے موقع پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو قافلہ کے اندر اس حکم کا اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں کمان کی تانت کے قلادے (پٹے) کو باقی نہ رکھا جائے۔ فرمایا کہ قلادے کو باقی نہ رکھا جائے بلکہ کاٹ ڈالا جائے۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  یا یہ فرمایا کہ  یہ دراصل راوی کا شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (قلادۃ من وتر) یعنی کمان کی تانت کا قلادہ فرمایا تھا یا صرف  قلادہ  فرمایا تھا۔

قلادے کاٹ دینے کا حکم اس لئے فرمایا کہ لوگ اس میں گھنگرو اور گھنٹیاں باندھ دیتے تھے اور یہ چیز  مزامیر الشیطان ہے جیسا کہ پچھلی حدیث میں گزرا، یا اس لئے منع فرمایا کہ بعض کمزور عقیدہ لوگ کمان کی تانت میں منکے (مالے کے دانے) وغیرہ باندھ کر اور اس کا قلادہ (پٹا) بنا کر جانوروں کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے اور یہ گمان رکھتے تھے کہ اس کے ذریعہ جانور آفات وغیرہ سے محفوظ رہیں گے، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس چیز سے منع فرمایا کیونکہ ایسا کوئی بھی ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ اور تقدیر کے لکھے کو ٹال نہیں سکتا۔

جانوروں پر سفر کرنے کے بارے میں چند ہدایات

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم ارزانی کے زمانے میں (اونٹوں پر) سفر کرو تو ان اونٹوں کو ان کا زمین (سے کھانے) کا حق دو (یعنی گھاس کھانے کا موقع دو بایں طور کہ سفر کے دوران ان کو تھوڑی دیر کے بعد چرنے کے لئے چھوڑ دیا کرو تاکہ وہ پیٹ بھر کر چریں اور تیز چلیں) اور جب تم قحط سالی کے زمانے میں سفر کرو تو ان پر جلدی سفر کرو (یعنی سفر کے دوران راستہ میں تاخیر نہ کرو تاکہ اونٹ پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ضعف و نقاہت میں مبتلا ہونے سے پہلے تمہیں منزل مقصود پر پہنچائیں) نیز جب تم کہیں رات میں پڑاؤ ڈالو تو راستے پر پڑاؤ نہ ڈالو کیونکہ ان پر چوپائے چلتے ہیں اور وہ موذی (زہریلے) جانوروں (جیسے سانپ و بچھو وغیرہ) کا مسکن اور ان کی گزر گاہیں ہیں)  اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب تم قحط سالی کے زمانے (اونٹوں پر) سفر کرو تو تیزی کے ساتھ سفر طے کرو جب کہ اونٹوں میں گودا (یعنی بدن کی طاقت) موجود ہو۔  (مسلم)

ضرورت مند رفیق کی خبر گیری کرو

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک موقع پر جب کہ ہم ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اچانک ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اونٹ پر آیا اور اونٹ کو دائیں بائیں پھیرنے موڑنے لگا، چنانچہ یہ (دیکھ کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جس شخص کے پاس (اپنی ضرورت سے) زائد سواری ہو اس کو چاہئے کہ وہ سواری اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور اس شخص کے پاس اپنی ضرورت سے زائد کھانے پینے کا سامان ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ کھانے پینے کا سامان اس شخص کو دے جس کے پاس کھانے پینے کا سامان نہیں ہے۔  راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مال اور چیزوں کی اقسام کو ذکر کیا (یعنی آپ نے چیزوں کا نام لے کر فرمایا کہ جس کے پاس فلاں چیز اور فلاں چیز جیسے کپڑا وغیرہ اپنی حاجت سے زائد ہو تو اس کو اس شخص پر خرچ کیا جانا چاہئے جس کے پاس وہ چیز نہ ہو) یہاں تک کہ (آپ کی ترغیب و نصیحت سے) ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم میں سے کسی کا اپنی اس چیز پر کوئی حق نہیں ہے جو اس کے پاس اس کی ضرورت سے زائد ہے (بلکہ اس چیز کا حقیقی مستحق وہ شخص ہے جو اس وقت اس چیز سے محروم ہے۔  (مسلم)

 

تشریح

 

  دائیں بائیں پھیرنے موڑنے لگا  کا مطلب یہ تو یہ ہے کہ اس کا اونٹ اتنا تھک گیا تھا یا پوری خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اتنا لاغر ہو گیا تھا کہ وہ شخص اس اونٹ کو کسی ایک جگہ پر کھڑا کر دینے پر قادر نہیں ہو رہا تھا بلکہ کبھی اس کو دائیں موڑ دیتا تھا اور کبھی بائیں گھما دیتا تھا۔ یا مطلب ہے کہ وہ شخص اپنی آنکھوں کو چاروں طرف پھیرتا تھا اور ان کو دائیں بائیں گھما کر یہ دیکھتا تھا کہ کہیں سے اس کو وہ چیزیں مل جائیں جو اس کی ضرورت اور حاجتوں کو پورا کر دیں۔ اس صورت میں حاصل یہ ہو گا کہ اس شخص کے پاس نہ تو سواری کے لئے کوئی مناسب انتظام تھا اور نہ اس کے ساتھ کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے کا کوئی سامان تھا، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اس بے سر و سامانی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور پھر ترغیب دلائی کہ وہ اس ضرورت مند اور درماندہ کی خبر گیری کریں۔

مقصد سفر پورا ہو جانے پر گھر لوٹنے میں تاخیر نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  سفر عذاب کے ایک ٹکڑا ہے جو تمہیں نہ تو (آرام و راحت سے) سونے دیتا ہے اور نہ (ڈھنگ سے) کھانے پینے دیتا ہے، لہذا جب تم میں سے کوئی شخص (کہیں سفر میں جائے اور) اپنے سفر کی غرض کو پورا کرے (یعنی جس مقصد کے لئے سفر کیا ہے وہ مقصد پورا ہو جائے) تو اس کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس آ جانے میں جلدی کرے۔   (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے  کا مطلب یہ ہے کہ سفر اپنی صورت کے اعتبار سے جہنم کے عذاب کے انواع میں سے ایک نوع ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (سارھقہ صعودا)۔

جیسے بھی جسمانی تکلیف اور روحانی اذیت کے اعتبار سے کسی شخص کے حق میں سفر، پریشانیوں اور صعوبتوں کا ذریعہ ہونے سے کم نہیں ہوتا۔ خصوصاً اس دور میں جب کہ آج کی طرح سفر کے تیز رفتار اور اطمینان بخش ذرائع نہیں تھے، لوگ سفر کے دوران کیسی کیسی مشقتیں برداشت کرتے تھے۔ اور کیسی کیسی مصیبتوں سے دو چار ہوتے تھے اس کا اندازہ بھی آج کے دور میں نہیں لگایا جا سکتا۔

حدیث میں سفر کی بطور خاص دو پریشانیوں کا جو ذکر کیا گیا ہے کہ سفر کے دوران نہ تو وقت پر اور طبیعت کے موافق کھانا پینا ملتا ہے اور نہ آرام و چین کی نیند نصیب ہوتی ہے وہ محض مثال کے طور پر ہے ورنہ سفر میں تو نہ معلوم کتنے ہی دینی اور دنیاوی امور فوت ہوتے ہیں جیسے جمعہ و جماعت کی نماز سے محرومی رہتی ہے، اہل بیت اور دیگر قرابت داروں کے حقوق بروقت ادا نہیں ہوتے اور گرمی سردی کی مشقت و تکلیف اور اسی طرح کی دوسری پریشانیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔

مسافر کا اپنے گھر واپس آنے پر بچوں کے ذریعہ استقبال

اور حضرت عبداللہ ابن جعفر کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سفر سے تشریف لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کے بچوں کے ذریعہ آپ کا استقبال کیا جاتا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت اپنے بچوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے جاتے) چنانچہ (ایک روز) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر سے واپس تشریف لائے (اور مدینہ کے قریب پہنچے) تو مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اٹھا لیا اور اپنے آگے سوار کر لیا پھر حضرت فاطمہ کے دونوں بیٹوں میں سے ایک بیٹے (یعنی حضرت حسن یا حضرت حسین کو لایا گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور پھر (اس طرح ہم تینوں ایک جانور پر (سوار) مدینہ میں داخل ہوئے۔  (مسلم)

 

 

 اور حضرت انس سے روایت ہے کہ وہ (انس) اور حضرت طلحہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (خیبر کے سفر سے) واپس آئے تو اس موقع پر حضرت صفیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔  (بخاری)

 

تشریح

 

 یہ خیبر سے واپس ہونے کے وقت کا واقعہ ہے کہ حضرت صفیہ خیبر کے مال غنیمت میں سے تھیں اور پہلے حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ لگی تھیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو لے لیا اور پھر انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور سواری پر اپنے ساتھ بٹھا کر مدینہ لائے۔

سفر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی کا وقت

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر والوں کے پاس (سفر سے) رات کے وقت واپس نہیں آیا کرتے تھے بلکہ دن کے ابتدائی حصہ میں یعنی صبح کے وقت، یا آخری حصہ میں یعنی شام کے وقت (گھر میں) داخل ہوا کرتے تھے۔  (بخاری، مسلم)

رات کے وقت سفر سے واپس نہ آنے کی ہدایت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی غیر حاضری کا عرصہ طویل ہو جائے (یعنی اس کو سفر میں زیادہ دن لگ جائیں) تو وہ (سفر سے واپسی کے وقت) اپنے (گھر میں) رات کے وقت داخل نہ ہو۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 شرح السنۃ میں ایک یہ روایت منقول ہے کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اس ممانعت کے بعد (کا واقعہ ہے کہ) دو آدمیوں نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر عمل نہیں کیا اور) اپنے سفر سے واپسی پر گھر میں داخل ہونے کے لئے رات ہی کا وقت اختیار کیا تو (جب وہ اپنے اپنے گھر میں داخل ہوئے تو وہاں) ان میں سے ہر ایک نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر مردوں کو پایا۔

 

 

اور حضرت جابر کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  اگر تم (سفر سے واپسی پر اپنے شہر و آبادی میں) رات کے وقت پہنچو تو اپنے گھر میں داخل نہ ہو جب تک کہ بیوی زیر ناف بالوں کو صاف نہ کر لے اور وہ بیوی کہ جس کے بال پراگندہ ہوں کنگھی چوٹی نہ کر لے۔   (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ان احادیث کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ سفر سے واپسی کے لئے رات کا وقت اختیار کرنا نا مناسب نہیں ہے بہتر یہ ہے کہ سفر سے واپسی کی ابتداء ایسے وقت کی جائے کہ اپنے گھر والوں کے پاس رات ہونے سے پہلے پہنچ جائے تاکہ رات کے وقت گھر پہنچنے کی وجہ سے گھر والے بے آرام نہ ہوں اور ان کی نیندوں میں خلل نہ پڑے، اور اگر اپنے شہر اور اپنی آبادی میں پہنچتے رات ہو جائے تو ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کے لئے اس وقت تک صبر و انتظار کرے جب تک کہ اس کی بیوی کو اس کا آنا معلوم نہ ہو جائے اور وہ بناؤ سنگار کے ذریعہ اپنے آپ کو آراستہ اور جنسی اختلاط کے لئے تیار نہ کر لے تاکہ شوہر جب اس کے پاس پہنچ جائے تو سفر کی تکان اور جدائی کی پژمردگی، جسمانی انبساط و نشاط میں تبدیل ہو جائے۔

نووی کہتے ہیں کہ یہ چیزیں (یعنی رات کے وقت سفر سے واپسی اور کچھ دیر انتظار و صبر کئے بغیر گھر میں داخل ہو جانا) اس شخص کے حق میں مکروہ ہیں جو لمبے سفر سے واپس آ رہا ہو، ہاں جو شخص کسی چھوٹے سفر سے واپس آ رہا ہو یا اس کے گھر والوں کو رات کے وقت اس کے پہنچنے کی اطلاع سے ہو تو اس کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر کی ایک حدیث (نمبر ١٢) سے واضح ہوا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی بڑے لشکر یا بڑے قافلہ میں ہو اور اس لشکر و قافلہ کی واپسی کی خبر مشہور ہو چکی ہو اور اس کی بیوی کو بھی اس کے آنے کا علم ہو (کہ وہ لشکر و قافلہ کے ساتھ فلاں رات میں آئے گا) تو اس کے لئے بھی رات کے وقت آنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس لئے کہ اصل مقصد تو بیوی کا اس کے آنے سے پہلے تیار و مستعد رہنا ہے سو وہ اس صورت حال میں حاصل ہے۔ لیکن ملا علی قاری کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی گھر پہنچ کر پہلے دروازہ کھٹکھٹانا اور جواب کا انتظار کرنا ضروری ہو گا۔

سفر سے واپس آنے پر دعوت کرنے مسنون ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ یا گائے ذبح کیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ سفر سے واپس آنے کے بعد ضیافت کرنا اور لوگوں کو اپنے یہاں کھانے وغیرہ پر مدعو کرنا مسنون ہے۔

آنحضرت کا سفر سے واپس آنے کا وقت

اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم چاشت کے وقت کے علاوہ اور کسی وقت سفر سے واپس نہیں آیا کرتے تھے، چنانچہ جب آپ (سفر سے) واپس آتے تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد یا چاشت کی) دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے وہاں بیٹھتے۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  چاشت کے وقت الخ  یہ اکثر کے اعتبار سے کہا گیا ہے یعنی چونکہ آپ اکثر و بیشتر چاشت ہی کے وقت واپس تشریف لاتے تھے اس لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاشت کے وقت کے علاوہ اور وقت واپس نہیں آتے تھے، ورنہ یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دن کے ابتدائی حصہ یعنی صبح اور آخری حصہ شام کے وقت ہی سفر سے آیا کرتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف صبح ہی کے وقت واپس نہیں آیا کرتے تھے بلکہ شام کے وقت بھی واپس آ جایا کرتے تھے۔

سفر واپس آنے پر پہلے مسجد میں جانے کا حکم

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں (ایک) سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھا، چنانچہ جب ہم مدینہ واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ  مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو۔  (بخاری)

 

تشریح

 

 مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کے پیش نظر مسافر کا سفر سے واپس آنے پر پہلے مسجد میں جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے فعلاً بھی ثابت ہوا اور قولاً بھی نیز مذکورہ بالا حکم میں نہ صرف شعائر اللہ کی تعظیم کی طرف اشارہ ہے بلکہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسجد گویا اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر ہے اور مسجد میں جانے والا گویا اللہ سبحانہ سے ملاقات کرنے والا ہے لہٰذا جو شخص سفر سے واپس آئے اس کے حق میں اس سے بہتر اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ کہ وہ سب سے پہلے اللہ کے گھر میں جائے اور اللہ سے ملاقات کرے جس نے اس کو سفر کی آفات سے محفوظ رکھ کر بعافیت اس کے اہل عیال کے درمیان واپس پہنچایا۔

امت کے حق میں صبح کے وقت کے لئے آنحضرت کی دعاء برکت

حضرت صخر بن وداعہ الغامدی کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا (یعنی یوں دعا فرمائی  اے اللہ ! میری امت کے لئے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت عطا فرما، یعنی اگر میری امت کے لوگ دن کے ابتدائی حصہ (صبح) میں طلب علم میں مشغول ہوں یا اپنے ذریعہ معاش میں منہمک اور یا سفر وغیرہ کریں تو اس میں انہیں برکت حاصل ہو۔  چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کوئی چھوٹا بڑا لشکر روانہ فرماتے تو اس کو دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ فرماتے۔ اور صخرہ جو ایک تاجر (سوداگر) تھے (اس دعا کی برکت حاصل کرنے کے پیش نظر) اپنا تجارتی مال دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ کرتے تھے، چنانچہ وہ مال دار ہوئے اور ان کے مال میں بہت اضافہ ہوا۔  (ترمذی، ابوداؤد، دارمی)

رات کے وقت سفر کرنے کا حکم

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم رات کے وقت چلنا اپنے لئے ضروری سمجھو کیونکہ رات کے وقت زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب تم کسی سفر کے لئے گھر سے نکلو تو محض دن کے وقت چلنے پر قناعت نہ کرو بلکہ تھوڑا سا رات کے وقت بھی چلا کرو کیونکہ رات میں سفر آسانی کے ساتھ طے ہوتا ہے اور اس خیال سے مسافر کی ہمت سفر پر کوئی بار نہیں ہوتا کہ ابھی میں نے بہت تھوڑا فاصلہ کیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ کافی فاصلہ طے کر چکا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اول تو رات کے وقت چلنے کے علاوہ اور کوئی شغل نہیں ہوتا دوسرے فاصلے کی علامات و نشانات پر نظر نہیں پڑتی اور یہ چیزیں راستہ چلنے والے کی نظر میں سفر کو بھاری کر دیتی ہے چنانچہ اسی مفہوم کو زمین کے لپیٹ دیئے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو کہ یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ دن کے وقت بالکل چلو ہی مت، چنانچہ دوسری احادیث میں یہ حکم بیان فرمایا گیا ہے کہ اپنا سفر دن کے ابتدائی حصہ اور آخری حصہ میں طے (کرنے کی کوشش) کرو اور کچھ حصہ رات کے وقت بھی چلو۔

سفر میں کم سے کم تین آدمیوں کا ساتھ ہونا چاہئے

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  ایک سوار ایک شیطان ہے، دو سوار دو شیطان ہیں اور تین سوار، سوار ہیں۔  (مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 تین سوار سوار ہیں کا مطلب یہ ہے کہ تین سوار اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو سوار کہا جائے کیونکہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ گویا اس طرح ایک یا دو سوار کو سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ سفر میں کم سے کم تین ساتھیوں کا ہونا ضروری ہے اس لئے کہ تنہا سفر کرنے میں ایک نقصان تو یہ ہے کہ جماعت فوت ہو جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اگر اس کو کوئی ضرورت و حادثہ پیش آ جائے تو اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا اور وہ ہر معاملے میں درماندہ رہتا ہے، اسی طرح اگر محض دو ساتھی سفر کریں تو اس صورت میں اگر خدانخواستہ یہ بات پیش آ جائے کہ ایک ساتھی بیمار ہو جائے یا مر جائے تو دوسرا ساتھی سخت مضطر اور پریشان ہو گا اور یہ چیز شیطان کی خوشی کا باعث ہے یا یہ مراد ہے کہ اگر کوئی شخص تنہا سفر کرے یا سفر کے دو ہی ساتھی ہوں تو شیطان کو بڑی آسانی کے ساتھ یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان کو گمراہ کرے اور برائی میں مبتلا کرے، اسی بات کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ایک سوار یا دو سوار کو شیطان فرما دیا گیا ہے۔

بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ سفر میں کم سے کم تین آدمی ہونے چاہئیں تاکہ اول تو وہ جماعت سے نماز ادا کریں اور دوسرے یہ کہ اگر ایک شخص کو دوران سفر کسی ضرورت سے کہیں جانا پڑے تو دو باقی رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی دلبستگی و اطمینان کا ذریعہ بنیں اور اگر اس شخص کے آنے میں تاخیر ہو جائے تو ان دونوں میں سے ایک اس کی خبر لینے اور تاخیر کا سبب جاننے کے لئے چلا جائے اور دوسرا سامان وغیرہ کی دیکھ بھال کرتا رہے۔

سفر میں ایک سے زائد لوگ ہونے کی صورت میں کسی ایک رفیق سفر کو امیر بنا لیا جائے

اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر (مثلاً سفر میں) تین شخص ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہئے۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 تین شخص  سے مراد جماعت ہے کہ جس کا ادنیٰ درجہ تین ہے، ویسے یہ حکم اس صورت کے متعلق بھی ہے جب کہ دو آدمی بھی ساتھ سفر کر رہے ہوں، یہاں تین کے ذکر پر اکتفا اس لئے کیا گیا ہے کہ پہلے ایک حدیث میں بیان فرمایا جا چکا ہے کہ دو سوار شیطان ہوتے ہیں۔ بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی سفر میں ایک سے زائد لوگ ہوں تو اس صورت میں ان میں سے ایک شخص کو اپنا امیر و سردار مقرر کر لیا جائے جو سب سے افضل ہو اور کسی کو امیر و سردار بنا لینے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اگر دوران سفر کسی معاملہ میں آپس میں کوئی نزاعی صورت پیدا ہو جائے تو اس امیر و سردار کی طرف رجوع کر لیا جائے اور وہ جو فیصلہ کرے اس کو تسلیم کر کے اپنے نزاع کو ختم کر دیا جائے۔ امیر وسردار کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ اپنے تمام رفقاء سفر کے حق میں خیر خواہ، مہربان اور غمگسار ہو اور اپنی سرداری کو اپنے لئے محض وجہ افتخار سمجھ کر کسی بڑائی میں مبتلا نہ ہو بلکہ حقیقی معنی میں اپنے آپ کو اس کا خادم سمجھے جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔حدیث (سید القوم فی السفر خادمہم) یعنی کسی جماعت کا سردار اصل میں اپنی جماعت کا خدمت گزار ہوتا ہے۔

بہترین رفقاء سفر

اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (مثلاً کسی سفر کے) بہترین لشکر وہ ہے جس میں چار سو (مجاہد ہوں ) اور بڑے لشکروں میں بہترین لشکر وہ ہے جس میں بارہ ہزار (مجاہد) ہوں اور بارہ ہزار (مجاہد) کم ہونے کی وجہ سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے  (ترمذی، ابو داؤد، دارمی) نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 چار رفقاء اور ساتھیوں کو  بہترین  اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ فرض کیجئے اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بیمار ہو جائے اور وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اپنے ان تین ساتھیوں میں سے کسی ایک ساتھی کو کوئی وصیت کرے تو باقی دو ساتھی اس کی وصیت کے گواہ ہو جائیں۔ ویسے علماء نے لکھا ہے پانچ ساتھی، چار ساتھیوں سے بہتر ہوتے ہیں بلکہ پانچ سے بھی جتنے زیادہ ہوں گے اتنے ہی بہتر ہوں گے اور یہاں حدیث میں چار کا ذکر کر کے گویا ادنیٰ درجہ بیان کیا گیا ہے۔

 مغلوب نہیں ہوتے  کا مطلب یہ ہے کہ بارہ ہزار مجاہدین کے لشکر کی طاقت ایک بڑی طاقت ہوتی ہے اتنے زیادہ مجاہدین دشمن کے مقابلے پر بھی مغلوب نہیں ہوں گے اور اگر مغلوب بھی ہوں گے تو تعداد کی کمی کی وجہ سے تو ہوں گے نہیں کیونکہ بارہ ہزار کا عدد کمی کی حد سے نکل گیا ہے البتہ کسی اور سبب سے مغلوب ہوں گے۔ جیسے اپنی تعداد وطاقت پر بیجا اتراہٹ اور غرور و تکبر وغیرہ۔

اپنے رفقاء سفر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (سفر کے دوران) چلتے وقت (تواضع و انکسار کی وجہ سے اور دوسروں کی مدد و خبر گیری کے پیش نظر قافلے سے) پیچھے رہا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کمزور (کی سواری) کو ہانکا کرتے (تاکہ وہ ہمراہیوں کے ساتھ مل جائے) اور جو کمزور وضعیف شخص سواری سے محروم ہونے کی وجہ سے پیدل چلتا ہو اس کو پیچھے سوار کر لیتے اور ان (قافلہ والوں) کے لئے دعا کرتے رہتے۔ (ابو داؤد)

منزل پر پہنچ کر تمام رفقاء سفر کو ایک جگہ ٹھہرنا چاہئے

اور حضرت ثعلبہ خشنی کہتے ہیں کہ (پہلے عام طور پر ایسا ہوتا تھا کہ لوگ یعنی صحابہ) جب کسی منزل پر اترتے تو الگ الگ ہو کر پہاڑی دروں اور وادیوں میں پھیل جاتے تھے (یعنی کوئی کہیں اترتا اور کوئی کہیں) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس طریقہ کو ختم کرنے کے لئے بایں طور پر فرمایا) کہ سمجھ لو تمہارا اس طرح ان دروں اور وادیوں میں الگ الگ ہو کر اترنا محض شیطان کی طرف سے ہے (یعنی یہ شیطان کے فریب کے سبب سے ہے کہ وہ تمہیں الگ الگ کر دینا چاہتا ہے تا کہ دشمن تم پر قابو پا لے اور تمہیں نقصان اور آزار پہنچائے اس ارشاد کے بعد لوگ جب بھی کسی منزل پر اترتے تو آپس میں اتنے پاس پاس ٹھہرتے کہ کہا جانے لگا کہ اگر ان سب پر ایک ہی کپڑا پھیلا دیا جائے تو وہ سب کو ڈھانک لے۔ (ابو داؤد)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال انکسار کا مظہر ایک واقعہ

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ بدر کے دن (یعنی جنگ بدر میں موقع پر) ہماری یہ حالت تھی کہ ہم میں سے ہر تین آدمی ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے  یعنی تین تین آدمیوں میں ایک اونٹ تھا کہ وہ تینوں باری باری ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے) اور ابو لبابہ اور حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اونٹ میں شریک سفر تھے !حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ صورت حال یہ تھی کہ جب (اس اونٹ پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اترنے کی باری آتی تو ابو لبابہ اور حضرت علی عرض کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بدلے ہم پیدل چلیں گے۔ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونٹ ہی پر سوار رہیں)  لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے کہ  نہ تو تم (اس دنیا کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتے ہو (کہ بس تم پیدل چلنے کی طاقت رکھتے ہو اور میں پیدل نہیں چل سکتا) اور نہ میں (آخرت کا) زیادہ ثواب حاصل کرنے میں تم سے بے پرواہ ہوں (یعنی میں آخرت کے اجر و ثواب کا تم سے کم محتاج نہیں ہوں۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کمال انکسار و تواضع کے کس بلند مقام پر تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رفقاء اور ساتھیوں کے حق میں کسی قدر مہربان اور خیرخواہ تھے کہ ان کی راحت کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے نبی اور رسول ہونے کی حیثیت سے معصوم عن الخطا تھے اور خدا کے محبوب بندے تھے مگر اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ الوہیت میں اپنی عبدیت کے اقرار کے طور پر خدا کی طرف سے اپنے احتیاج اور اس کے حضور میں اپنی مکمل بیچارگی کو ظاہر فرمایا کرتے تھے۔

سواری کے جانوروں کے بارے میں ایک حکم

اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لئے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ) جانی مشقت ومحنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے) یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے لہٰذا ان کو ایذاء پہنچانا روا نہیں ہے) اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے (اسی غرض سے) پیدا کیا ہے لہٰذا تم اس پر کاموں اور اپنی حاجتوں کو پورا کرو۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ  کا مطلب یہ ہے کہ باتیں کرنے کے لئے جانور کی پشت پر سوار ہو کے نہ کھڑے رہو بلکہ اگر کسی سے بات کرنی ہے تو اس کی پشت پر سے اتر کر اپنی حاجت پوری کرو اور پھر اس پر سوار ہو، لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ سواری کے علاوہ جانور کی اور کوئی حاجت یا اس کے ساتھ کوئی اور صحیح غرض متعلق نہ ہو، ہاں اگر اس جانور سے کوئی اور صحیح غرض متعلق ہو گو اس میں کوئی مضائقہ نہیں جیسا کہ کہ یہ ثابت ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس لئے پیدا کیا کہ تم اس پر اٹھو بیٹھو اور کھڑے ہو اور اس کے علاوہ اپنی ضرورتیں پوری کرو، لہٰذا اپنے کام زمین پر ہی کرو سواری کے جانور کی پشت پر سوائے سوار ہونے کے کہ وہ تمہیں منزل مقصود پر پہنچا دے اور کوئی کام نہ کرو۔

صحابہ کے نزدیک سواری کے جانوروں کی دیکھ بھال کی اہمیت

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب ہم (دوران سفر یا سفر کے بعد) کسی منزل اترتے تو اس وقت تک نفل نہ پڑھتے تھے جب کہ جانوروں پر سے سامان نہ کھول لیا جاتا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 سبحہ اور تسبیح کا اطلاق اکثر نفل نماز پر ہوتا ہے لیکن بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں نماز چاشت ہی مراد ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر منزلوں پر اترنے کا وقت یہی چاشت کا وقت ہوتا ہے تھا۔ بہرحال حدیث کا مطلب یہ بتانا ہے کہ باوجودیکہ صحابہ نماز کا بہت زیادہ اہتمام و خیال رکھتے تھے لیکن وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کے اہتمام کو بھی پہلے ملحوظ رکھتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حق شناسی

اور حضرت بریدہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ایک سفر میں) پیدل راستہ طے کر رہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک شخص اپنے گدھے کے ساتھ، یعنی اس پر سوار) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !(میرے گدھے پر) سوار ہو جایئے۔ اور (یہ کہہ کر) وہ شخص گدھے کی پشت پر) پیچھے سرک گیا (تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آگے بیٹھ جائیں) لیکن آپ نے فرمایا کہ میں آگے نہیں بیٹھوں گا کیونکہ (اپنی سواری کے) جانور پر آگے بیٹھنے کے تم ہی مستحق ہوا الاّ یہ کہ تم مجھے اس کا حقدار بنا دو (یعنی اگرچہ اس شخص کا پیچھے سرکنا اسی لئے تھا۔ کہ گویا اس نے آپ کو آگے بیٹھے رہنے کا حقدار بنا دیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کمال احتیاط کے پیش نظر اس پر واضح کیا کہ میں تمہاری سواری پر آگے اسی وقت بیٹھ سکتا ہوں جب کہ تم صریح الفاظ میں مجھ سے آگے بیٹھنے کے لئے کہو، اس شخص نے کہا کہ (میں صراحت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ) آپ کو میں نے اس کا حقدار بنا دیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (اس کے آگے بیٹھ گئے۔ (ترمذی، ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ احساس انصاف وحق شناسی ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت تک اس شخص کی سواری پر آگے بیٹھنے سے انکار کر دیا جب تک کہ اس نے صراحت کے ساتھ اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کے اپنے حق کو آپ کی طرف منتقل نہ کر دیا وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وصف تواضع و انکسار بھی پورے کمال کے ساتھ ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے پیچھے بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا اور اس پر راضی ہوئے۔

شیطانی اونٹ اور شیطانی گھر

اور حضرت سعید ابن ابو ہند (تابعی) حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (کچھ) اونٹ شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں اور (کچھ) گھر شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جو اونٹ شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ان کو میں نے دیکھا ہے (جیسے) تم سے کوئی شخص عمدہ قسم کی اونٹنیوں کو لے کر نکلتا ہے جن کو اس نے خوب فربہ کیا لیکن ان میں سے کسی اونٹ پر سوار نہیں ہوتا ہے اور جب (کسی سفر میں) اپنے اس مسلمان بھائی کے ساتھ راستہ طے کرتا ہے جو (اپنی کمزوری اور سواری سے محرومی کی وجہ سے) چلتے چلتے تھک گیا ہے تو اس کو (بھی) اس اونٹ پر سوار نہیں کرتا۔ اور جو گھر شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں ان کو میں نے نہیں دیکھا ہے۔ حدیث کے راوی حضرت سعید کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ وہ گھر (جو شیطانوں کے لئے ہو جاتے ہیں) وہ پنجرے ہیں جن کو لوگ ریشمی کپڑوں (کے پردوں سے) ڈھانکتے ہیں۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 جو اونٹ شیطانوں کے ہو جاتے ہیں الخ  کا حاصل یہ ہے کہ اونٹوں کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان کو سواری اور بار برداری کے مصرف میں لایا جائے اور خدا نے اس کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے ذریعہ اپنی بھی سفری ضروریات پوری کی جائیں اور دوسرے ضرورت مند مسلمانوں کو بھی ان سے نفع پہنچایا جائے، لیکن اگر کوئی شخص ان کو خوب موٹا تازہ کر کے محض اظہار تفاخر اور نام آوری کے لئے رکھتا ہے اور ان کو اپنے سفر میں اپنی یا اپنے کسی ضرورت مند مسلمان بھائی کے رفع احتیاج کے لئے نہیں بلکہ  کوتل  رکھتا ہے تو اس طرح اس نے اس اونٹ کو نہ تو اپنے مصرف میں لا کر اور نہ کسی تھکے ہوئے مسلمان بھائی کی راحت کا ذریعہ بنا کر گویا شیطان کی اطاعت کی اور شیطان کو خوش کیا اس لئے وہ اونٹ گویا شیطان کے لئے ہو گیا، اس سے معلوم ہوا کہ کوتل گھوڑا ممنوع ہے اور گویا وہ شیطانی گھوڑا ہوتا ہے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث کا جزء (فاما ابل الشیطین) (چنانچہ جو اونٹ شیطانوں کے لئے ہوتے ہیں الخ) دراصل حدیث کے راوی یعنی حضرت ابوہریرہ کے اپنے الفاظ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصل حدیث صرف ماقبل کی مجمل عبارت ہے یعنی حدیث (یکون ابل للشیاطین وبیوت للشیاطین) اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ (جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوا) اصل حدیث فلم ارھا (ان کو میں نے نہیں دیکھا ہے) تک ہے ! اسی قول کو ملا علی قاری نے بھی پسند کیا ہے۔

شیطانی گھروں سے مراد یا تو عماریاں اور ہودج ہیں جن کو بعض لوگ ریشمی کپڑوں سے آراستہ پراستہ رکھتے ہیں یا وہ گھر ہیں جن کو ریشمی کپڑوں کی دیوار گیریوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہو، ظاہر ہے جہاں خود ان ہودجوں یا گھروں کی ممانعت مقصود نہیں ہے بلکہ ان کو ریشمی کپڑوں کے ساتھ سجانے اور مزین کرنے کے سبب سے ان کی برائی بیان کی گئی ہے جس میں نہ صرف مال کی بربادی اور اسراف ہی ہے بلکہ اظہار تفاخر اور ریا بھی ہے۔

کہیں پڑاؤ ڈالو تو وہاں نہ زیادہ جگہ گھیرو اور نہ راستہ روکو

اور حضرت سہل ابن معاذ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ  ایک مرتبہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جہاد میں گئے (اور منزل پر قیام کیا) تو لوگوں نے (اس) منزل کی (ساری جگہوں) کو تنگ کر دیا اور راستہ کو کاٹ دیا (یعنی بعض لوگوں نے بلا ضرورت یا ضرورت سے زیادہ جگہوں پر قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو جگہ کی تنگی ہو گئی اس طرح راستہ بھی تنگ ہو گیا جس سے آنے جانے والوں کو پریشانی ہونے لگی (چنانچہ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک منادی کرنے والے کو لوگوں کے درمیان بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ جس شخص نے منزل کی (جگہوں) کو تنگ کیا یا راستے کو کاٹا تو لوگوں کو ضرر و تکلیف پہنچانے کی وجہ سے) اس کو جہاد کا ثواب نہیں ملے گا۔ (ابو داؤد)

سفر سے واپسی کا بہترین وقت

اور حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سفر سے واپس آنے والے مرد کے لئے اپنے گھر والوں کے پاس پہنچنے کا بہترین وقت رات کا ابتدائی حصہ ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 یہ اس صورت میں ہے جب کہ قریب کا سفر ہو چنانچہ پہلے جو یہ گزرا ہے کہ سفر سے واپسی میں رات کے وقت اپنے گھر نہ آنا چاہئے تو اس کا تعلق دور کے سفر سے ہے ! اور نووی یہ کہتے ہیں کہ اگر دور کا بھی سفر ہو اور اس کے آنے کی اطلاع اس کی گھر والوں کو دن میں مل چکی ہو تو رات کے وقت آنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ  گھر والوں کے پاس پہنچنے  سے گھر والی کے پاس آنا  یعنی جماع مراد ہے کیونکہ مسافر کا جنسی جذبہ بہت زیادہ بیدار ہو جاتا ہے لہٰذا جب وہ سفر سے واپس ہو کر رات کے ابتدائی حصہ ہی میں جماع سے فارغ ہو جائے گا تو پھر سکون و آرام کے ساتھ سوئے گا بھی اور بیوی کا حق بھی جلدی ادا ہو جائے گا۔

سفر کے دوران رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے آرام کرنے کی کیفیت

اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر میں ہوتے تو (کسی پڑاؤ پر) رات کے آخری حصہ میں (یعنی طلوع سحر سے) پہلے اترتے اور دائیں کروٹ پر لیٹے رہتے اور جب صبح سے کچھ پہلے اترتے تو اپنا (داہنا) ہاتھ کر کے اس کی ہتھیلی پر اپنا سر رکھ کر لیٹتے (یعنی کچھ دیر کے لئے اس انداز میں آرام فرماتے تا کہ نیند غالب نہ آ جائے۔ (مسلم)

صبح کے وقت سفر شروع کرنے کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن رواحہ (جہاد) کے لئے ایک چھوٹے لشکر کے ساتھ روانہ کیا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا جس( میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو جہاد کے لئے جانے کا حکم دیا تھا) چنانچہ ان کے ساتھی (یعنی لشکر کے لوگ) صبح کے وقت روانہ ہوئے لیکن عبداللہ نے (اپنے دل میں سوچا یا کسی ساتھی سے کہا کہ  میں بعد میں روانہ ہوں گا میں (پہلے یہاں مدینہ میں) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جمعہ کی نماز پڑھوں گا پھر لشکر والوں سے جا ملوں گا۔ جب عبداللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جمعہ کے نماز پڑھ چکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھا (کہ وہ ابھی یہاں ہی موجود ہیں) تو فرمایا کہ تمہیں صبح کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے کس چیز نے روکا ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے یہ چاہا (میں جمعہ کی نماز آپ کے ساتھ پڑھ لوں اور پھر اپنے ساتھیوں سے جا ملوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا  تم روئے زمین پر ساری چیزوں کو بھی خرچ کرو تو صبح کے وقت جانے والے اپنے ساتھیوں کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکو گے۔ (ترمذی)۔

چیتے کی کھال استعمال کرنا ممنوع ہے

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس قافلے کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں ہوتے جس میں چیتے کی کھال ہو۔

 

تشریح

 

 یعنی چیتے کی کھال پر سوار کو بیٹھنا یا اس کو استعمال کرنا ممنوع ہے کیونکہ اس سے تکبر کی شان پیدا ہوتی ہے۔ (ابو داؤد)

امیر سفر کو رفقاء سفر کا خادم ہونا چاہئے

اور حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سفر میں جماعت (یعنی سفر کرنے والوں) کا امیر و سردار ان کا خادم ہے۔ لہذا جو شخص ان (سفر کرنے والوں کی) خدمت میں سبقت لے گیا اس کے مقابلہ میں کوئی شخص شہادت کے علاوہ اور کسی عمل کے ذریعہ سبقت نہیں لے جا سکتا۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ امیر و حاکم کو چاہئے کہ وہ قوم کی خدمت کرے ان کے مصالح پر نظر رکھے ان کے ظاہری و باطنی حالات کی رعایت ملحوظ رکھے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ مراد یہ ہے کہ جو بھی شخص اپنی قوم اور اپنی جماعت کی خدمت میں لگا رہے۔ تو حقیقت میں وہی شخص کثرت ثواب کی بنا پر اس قوم و جماعت کا سردار ہے اگرچہ دیکھنے میں وہ پوری قوم و جماعت میں کتنی ہی کمتر حیثیت کا کیوں نہ ہو کیونکہ خدمت میں قوم کے علاوہ اور کوئی عمل افضل نہیں الاّ یہ کہ کوئی شخص خدا کی راہ میں لڑے اور شہادت کا درجہ پائے۔