مشکوٰة شر یف

آداب کا بیان

آداب کا بیان

ادب کے معنی ہیں وہ قول و فعل جس کو اچھا اور قابل تعریف کہا جائے یا ادب کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو درستی و اچھائی کے ساتھ اچھے موقع پر کہا جائے اور ہر کام کو احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ انجام دیا جائے۔

بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ادب کا مطلب یہ ہے کہ نیکی، بھلائی کی راہ کو اختیار کیا جائے اور گناہ و برائی کے راستہ سے اجتناب کیا جائے۔ بعض حضرات کے نزدیک ادب کے معنی یہ ہیں کہ اپنے بڑے بزرگ کی عزت و توقیر کی جائے اور اپنے سے چھوٹے کے ساتھ شفقت و محبت اور نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔

ادب اپنے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے چونکہ انسانی زندگی اور تہذیب و معاشرت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق احادیث نقل کی جائے گی۔

سلام کا بیان

سلام کے معنی ہیں نقائص و عیوب سے برات و نجات پانا۔سلام اللہ تعالیٰ کا ایک اسم پاک ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو ہر عیب و آفت اور تغیر و فنا سے پاک اور محفوظ ہے۔

سلام اسلامی تہذیب و معاشرت کا ایک خاص رکن ہے اس کے لیے جو الفاظ مقرر کیے گئے وہ السلام علیک ہے اس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیرے حال سے واقف ہے لہذا غفلت اختیار نہ کر، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسم پاک کا تجھ پر سایہ ہے یعنی اللہ کی حفاظت و نگہبانی میں ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اللہ معک۔ یعنی اللہ تیرے ساتھ ہے اکثر علماء کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر سلامتی ہو یعنی تو مجھ سے سلامتی میں ہے اور مجھ کو بھی اپنے سے سلامتی میں رکھ۔ اس صورت میں سلام سلم سے مشتق ہو گا جس کے معنی مصالحت کے ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہو گا کہ تو مجھ سے حفظ و امان میں رہ اور مجھ کو بھی حفظ و امان میں رکھ۔ منقول ہے کہ سلام کرنے کا طریقہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مشروع ہوا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی علامت کو رائج کرنا تھا جس کے ذریعہ مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جا سکے تاکہ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے تعرض نہ کرے گویا اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور پھر یہ طریقہ مستقل طور پر مشروع قرار پایا۔

فرشتوں کو حضرت آدم کا سلام

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ گز کی تھی جب خدا نے ان کو بنایا تو ان سے فرمایا جاؤ اور اس جماعت کو سلام کرو اور وہ جماعت فرشتوں کی تھی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھی پھر سنو کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتی ہے وہ جو جواب دے گا وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا جواب ہے۔چنانچہ حضرت آدم اس حکم خداوندی کی تعمیل میں فرشتوں کی اس جماعت کے پاس گئے اور کہا کہ السلام علیکم فرشتوں نے جواب دیا۔ السلام علیک و رحمۃ اللہ (یعنی تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو) آنحضرت نے فرمایا کہ گویا آدم کے سلام کے جواب میں و رحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا پھر آپ نے فرمایا کہ پس جو شخص جنت میں داخل ہو گا وہ آدم کی صورت پر ہو گا بایں طور پر کہ اس کی لمبائی ساٹھ گز کی ہو گی یعنی جنت میں جانے والے حضرت آدم کے قد کی مذکورہ بلندی اور ان کے حسن و جمال کے ساتھ وہاں داخل ہوں گے۔ پھر حضرت آدم کے بعد لوگوں کی ساخت برابر کم ہوتی رہی یہاں تک کہ موجودہ مقدار کو پہنچی۔ (بخاری ، مسلم)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا۔ اس ارشاد گرامی کے معنی میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی احادیث صفات میں سے ہے جس کے حقیقی مفہوم و مطلب تک رسائی ممکن نہیں ہے اس لیے اس بارے میں کوئی تاویل و توجہیہ کرنے کے بجائے سکوت ہی بہتر ہے جیسا کہ اس قسم کے ان اقوال و ارشادات کے بارے میں سکوت اختیار کیا جاتا ہے جو متشابہات کہلاتے ہیں علماء سلف اسی قول کی طرف مائل ہیں جب کہ بعض دوسرے حضرات اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں جن سے مشہور تاویل یہ ہے کہ فلاں معاملہ کی صورت مسئلہ یہ ہے یا صورت حال یوں ہے ظاہر ہے کہ جس طرح کسی مسئلہ یا حال کی کوئی ظاہر صورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صورت کا لفظ استعمال کر کے حقیقت میں اس مسئلہ یا حال کی صفت و کیفیت مراد ہوتی ہے اس طرح یہاں اللہ کی صورت کا لفظ سے مراد اللہ کی صفت جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صفت پر بنایا اور ان کو صفات کے ساتھ موصوف کیا جو صفات کریمہ باری تعالیٰ کا پر تو ہے چنانچہ اللہ نے ان کو، حیّ،عالم، قادر، مرید، متکلم، سمیع اور بصیر بنایا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف، شرف و عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ جیسا کہ روح اللہ اور بیت اللہ میں روح اور بیت کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس لطیف و جمیل صورت پر پیدا کیا جو اسرار و لطائف پر مشتمل ہے اور جس کو اس نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ اپنے پاس سے عطا کیا۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ صورتہ کی ضمیر حضرت آدم کی طرف راجع ہے یعنی اللہ نے آدم کو انہی کی صورت پر بنایا مطلب یہ ہے کہ وہ ابتداء آفرینش سے ہی شکل پر تھے دوسرے انسانوں کی طرح ان کی تخلیق اس تدریجی طور پر نہیں ہوئی تھی کہ پہلے وہ نطفہ تھے پھر مضغہ ہوئے پھر جنین ، پھر طفل ، پھر صبی اور پھر پورے مرد ہوئے بلکہ وہ ابتداء ہی میں تمام اعضاء و جوارح، کامل شکل و صورت اور ساٹھ گز کے قد کے پورے انسان بنائے گئے تھے لہذا اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا سے مراد آدم کی تخلیق و پیدائش کی حقیقت کو واضح کرنا ہے اور چونکہ دیگر صفات کے برخلاف قد کی لمبائی ایک غیر معروف چیز تھی اس لیے اس کو خاص طور پر ذکر کیا اسی طرح چونکہ لمبائی پر چوڑائی بھی قیاس کی جا سکتی ہے اور اجمالی طور پر اس کا تصور ذہن میں آ سکتا ہے لہذا چوڑائی کو ذکر نہیں کیا۔

و رحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا اس کے ذریعہ سلام کے جواب کے سلسلے میں ایک تہذیب و شائستگی اور ادب فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا چنانچہ افضل طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص السلام علیک کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا جائے اسی طرح اگر کوئی السلام علیک ورحمۃ اللہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا جائے ایک روایت میں و رحمۃ اللہ کے بعد و مغفرۃ کا لفظ بھی منقول ہے حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام کے جواب میں وعلیک السلام کے بجائے السلام علیک کہنا بھی درست ہے کیونکہ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک افضل یہی ہے کہ جواب میں وعلیک السلام یا وعلیکم السلام ہی کہا جائے رہی یہ بات کہ فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں وعلیک کے بجائے السلام علیک کیوں کہا تو ہو سکتا ہے کہ ملائکہ نے بھی یہ چاہا ہو گا کہ سلام کرنے میں وہ خود ابتداء کریں ،جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب دو آدمی ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سلام میں ابتداء کرنا چاہتا ہے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے السلام علیک یا السلام علیک یا السلام علیکم کہتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ جواب کے درست و صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جواب سلام کے بعد واقع ہو نہ کہ دونوں ایک ساتھ واقع ہوں جیسا کہ فاستمع مایحیونک سے واضح ہوتا ہے چنانچہ فاسمتع میں حرف فاتعقیب کے لیے ہے جو مذکورہ وضاحت کی دلیل ہے عام طور پر لوگ اس مسئلہ سے بہت غافل ہیں اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر دو شخص ملیں اور دونوں ایک ہی ساتھ السلام علیکم کہیں تو دونوں میں سے ہر ایک پر جواب دینا واجب ہو گا۔

حدیث کا آخری جملہ، تقدیم و تاخیر، پر دلالت کرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم کا قد ساٹھ گز تھا ان کے بعد لوگوں کے قد بتدریج کوتاہ ہوتے گئے پھر جنت میں داخل ہوں گے تو سب کے قد دراز ہو جائیں گے جیسا کہ حضرت آدم کا قد تھا۔

افضل اعمال

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم سے دریافت کیا کہ اہل اسلام کی کون سی خصلت بہتر ہے آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر شناسا و ناشناسا کو سلام کرنا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اور دو اوصاف کی تخصیص، سائل کے حال کے مناسبت سے ہے لہذا مختلف اوقات میں مختلف اعمال کو افضل فرمانا کہ کسی موقع پر کسی عمل کو افضل فرمایا اور کسی موقع پر کسی کو، سائل کے احوال کے اختلاف و تفاوت پر مبنی ہوتا تھا دریافت کرنے والا جس مزاج و احوال کا آدمی ہوتا تھا اور اس کا رجحان جس نیک خصلت کی ضد کی طرف ہوتا اس کے سامنے اسی نیک خصلت کو افضل قرار دیا جاتا تھا مثلاً کسی شخص نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟اور آپ جانتے تھے کہ اس شخص کے مزاج میں بخل ہے تو اس سے فرماتے کہ کھانا کھلانا، سب سے بہتر ہے لہذا یہاں جس شخص نے سوال کیا تھا آپ نے اس کے احوال کے مناسبت سے اس سے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور ہر آشنا و ناآشنا کو سلام کرنا بہتر عمل ہے۔

لفظ تقری (تا کے پیش کے ساتھ) اقراء سے مشتق ہے اور اس کے معنی پڑھوانے کے ہیں یہ لفظ تاء کے زبر کے ساتھ منقول ہے جو قرأت سے مشتق ہے اور جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اگر موخر الذکر صورت میں مفہوم زیادہ بہتر طور پر واضح نہیں ہوتا لہذا اس کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ سلام کرنے والا چونکہ مسلم علیہ (جس کو سلام کیا گیا ہے) کے جواب دینے کے باعث ہوتا ہے اس لیے گوایا وہ اس کی زبان سے وہ کلمہ پڑھواتا ہے جس کا تعلق سلام اور اس کے جواب سے ہے۔

اس حدیث یہ بات واضح ہوئی کہ سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کیے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ آگے آنے والی حدیث سے واضح ہو گا۔

ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کیا حقوق ہیں؟

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمان پر مسلمان کے چھ حق ہیں (ایک تو یہ ہے کہ) جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کرے دوسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان مر جائے تو دوسرا مسلمان اس کی نماز جنازہ میں شریک ہو تیسرے یہ کہ جب کوئی مسلمان کھانے پر بلائے تو بلایا جانے والا مسلمان اس کی دعوت کو قبول کرے (بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔ جیسے کہ اس دعوت میں باجا گاجا وغیرہ ہو یا اس دعوت کا تعلق اظہار فخر و ریا کاری سے ہو۔چوتھے یہ کہ جب کوئی مسلمان ملے تو اس کو سلام کرے پانچویں یہ کہ جب کوئی مسلمان چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اس کا جواب دے یعنی یرحمک اللہ کہے اور اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہو گا۔ اور چھٹے یہ کہ ایک مسلمان کی ہر حالت میں خیر خواہی کرے خواہ وہ حاضر ہو یا غائب اور مشکوۃ کے مولف کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو نہ تو صحیحین(بخاری و مسلم) میں پایا ہے اور حمیدی کی کتاب میں، البتہ اس کو صاحب جامع الاصول نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 خیر خواہی کرے  کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں ایک دوسرے کے خیر خواہ و ہمدرد ہیں جو مسلمان سامنے ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کی جائے اور جو نظروں سے دور ہے اس کے ساتھ بھی خیر خواہی کریں، یہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے کہ جب کسی مسلمان کے سامنے آئیں تو اس کے ساتھ تملق یعنی خوشامد چاپلوسی کا رویہ اپنائیں اور جب وہ سامنے نہ ہو تو غیبت کریں یہ خالص منافقانہ رویہ ہے اور منافقوں کی خاصیت ہے۔

تعلق دوستی قائم کرنے کا بہترین ذریعہ سلام ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم جب تک کہ ایمان نہ لاؤ جنت میں داخل نہیں ہو سکو گے اور تمہارا ایمان اس وقت کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تم اللہ کی رضاء خوشنودی کے لیے آپس میں تعلق و دوستی قائم نہ کرو۔ نیز آپ نے فرمایا اور کیا میں تمہیں ایک ایسا ذریعہ نہ بتا دوں جس کو تم اختیار کرو تو آپس میں دوستی کا تعلق قائم ہو جائے اور وہ ذریعہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کا چلن عام کرو یعنی آشنا و ناآشنا سب کو سلام کرو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مشکوۃ کے ان صحیح و معتمد نسخوں میں کہ جو اونچے درجہ کے مشائخ کے سامنے پڑھے گئے ہیں لفظ ولاتومنوا نون کے حذف کے ساتھ ہے اور یہ حذف نون حتی تومنوا کے مجانست و مقارنت کی وجہ سے ہے تاہم بعض نسخوں میں یہ لفظ نون کے ساتھ یعنی ولاتومنون منقول ہے اور یہ نحوی قاعدہ کے مطابق ہے۔

مجلس ایسی جگہ منعقدہ کرنی چاہیے جو فراخ و کشادہ ہو

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہترین مجلس وہ ہے جو کشادہ و فراخ جگہ میں منعقد کی جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس وعظ و نصیحت منعقد کرنی ہو یا کسی بھی مباح تقریب کے موقع پر کسی جگہ لوگوں کو جمع کرنا ہو تو اس مقصد کے لیے ایسی جگہ اختیار کرنی چاہیے جو کشادہ و فراخ ہو تاکہ لوگوں کو بیٹھنے میں تنگی نہ ہو اور وہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں۔

مجلس میں الگ الگ نہ بیٹھو

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم گھر سے باہر نکل کر تشریف لائے جب کہ مسجد نبوی میں آپ کے صحابہ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان کو اس طرح بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو متفرق و منتشر بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

عزین اصل میں عزۃ کی جمع ہے جس کے معنی لوگوں کے جماعت کے ہیں لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہ دیکھا کہ صحابہ کی ایک جماعت اس طرف بیٹھی ہوئی ہے تو دوسری جماعت اس طرف کچھ لوگ اس کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں تو کچھ لوگ اس کونے میں تو چوں کی الگ الگ گروہوں میں بیٹھنا اور علیحدہ علیحدہ مجلسیں قائم کرنا آپس میں وحشت و بیگانگی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے سے علیحدگی و جدائی اختیار کرنے کا موجب ہوتا ہے اس لیے آپ نے مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ اس طرح متفرق و منتشر طور پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا اور متحدہ و مجتمع ہو کر بیٹھنے کی طرف راغب کیا کیونکہ ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنا دراصل باہمی یگانگت و اتحاد اور ایک دوسرے سے تعلق موانست کی علامت ہے۔ حاصل یہ کہ اگر کسی جگہ مسلمان جمع ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ علیحدہ علیحدہ جماعتیں بنا کر نہ بیٹھیں بلکہ سب لوگ ایک جگہ حلقہ بنا کر یا صف بندی کے ساتھ بیٹھیں۔

اس طرح نہ لیٹو کہ جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں رہے اور کچھ سایہ میں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو بایں طور کہ اس سایہ کی جگہ دھوپ آ جانے کی وجہ سے اس کے جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہاں سے اٹھ جائے اور ایسی جگہ جا کر بیٹھ جائے جو پوری طرح سایہ میں یا پوری طرح دھوپ میں کیونکہ جب کوئی شخص ایسی جگہ بیٹھا رہتا لیٹتا ہے کہ کچھ دھوپ میں ہو اور کچھ سایہ میں، تو اس کے جسم پر ایک ہی وقت میں دو متضاد چیزوں کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے اس کا مزاج بھی فساد و اختلال کا شکار ہو جاتا ہے۔ (ابوداؤد)

اور شرح السنہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میں سے جو شخص سایہ میں بیٹھا ہو اور پھر وہ سایہ ختم ہو رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ وہاں سے اٹھ جائے کیوں کہ ایسی جگہ کہ کچھ سایہ میں ہو اور کچھ دھوپ میں، شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے اسی طرح جیسا کہ شرح السنۃ میں ہے معمر نے بھی اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے آنحضرت کا ارشاد گرامی نہیں ہے لیکن واضح رہے کہ یہ موقوف حکم کے اعتبار سے مرفوع حدیث کے ہی درجہ میں ہے کیونکہ دین کی جو بات اجتہاد قیاس کے ذریعہ ثابت ہونے والی نہیں ہوتی اور اس کو کوئی صحابی اپنے قول کے طور پر نقل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس صحابی نے وہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ضرور سنی ہے ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی صحابی دین کی کوئی ایسی بات نقل کرے جو اجتہاد قیاس سے باہر اور اس بات کو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ سنا ہو۔شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے کہ بارے میں بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے یعنی واقعۃً ایسا ہوتا ہے کہ شیطان اس جگہ بیٹھتا ہے جس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سایہ میں ہوتا ہے اس اعتبار سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا شیطان کا کام ہے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ ایسی جگہ کی نسبت شیطان کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ شیطان جس شیطان کو پریشان کرنا چاہتا ہے اس کو ایسی جگہ پر بیٹھنے یا لیٹنے کی طرف راغب کرتا ہے اور گویا اس جگہ پر کسی شخص کے بیٹھنے یا لیٹنے کا سبب شیطان بنتا ہے اور اس سے شیطان اپنے مقصد کہ وہ شخص تکلیف و دکھ میں مبتلا ہو کامیاب ہو جاتا ہے لہذا معلوم ہوا کہ شیطان جس طرح انسان کے دین کا دشمن ہے اسی طرح اس کے بدن کا بھی بدخواہ ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ کسی ایسی جگہ بھی بیٹھنا یا لیٹنا مکروہ ہے جو پوری طرح دھوپ میں ہو اگرچہ اس صورت میں ممانعت و کراہت کا سبب یہ نہیں ہو گا کہ ایسی جگہ شیطان کی نشست گاہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس لیے ممنوع ہو گا کہ کہ پوری طرح دھوپ میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو تعب و مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہے اور اگر جاڑے موسم ہو تو پھر دھوپ میں بیٹھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہو گا۔

عورتوں کو راستوں کے کناروں پر چلنے کا حکم

اور حضرت ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت جب کہ آپ مسجد سے نکل رہے تھے لوگوں سے دینی ہدایات و احکام شرعی مسائل بیان کرتے ہوئے سنا پھر راستہ میں مرد عورتوں سے مل گئے یعنی مرد اور عورتیں مخلوط ہو کر راستہ میں چلنے لگے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر عورتوں سے فرمایا کہ تم مردوں کے پیچھے چلو اور ان سے الگ رہو کیونکہ تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم راستہ کے کنارے پر چلا کرو۔چنانچہ عورتوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر اس طرح عمل کیا کہ وہ راستہ چلتیں تو دیواروں سے لگ کر چلا کرتیں یہاں تک کہ بعض اوقات ان کا کپڑا دیوار سے اٹک جاتا تھا۔ (ابوداؤد، بیہقی)

عورتوں کے درمیان نہ چلو

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو عورتوں کے درمیان چلنے سے منع فرمایا، یعنی مرد کو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

لفظ  یعنی راوی کا اپنا قول ہے جس سے الفاظ حدیث کی وضاحت مقصود ہے گویا راوی نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یمشی کا فاعل الرجل مراد لیا ہے حاصل یہ ہے کہ لفظ الرجل حدیث کے اصل متن کا جزء نہیں ہے بلکہ اس کو کسی راوی نے بطور وضاحت نقل کیا ہے اس طرح روایت کے درمیان یہ عبارت یعنی الرجل گویا جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد کو عورتوں کے درمیان چلنے سے اس لیے منع فرمایا کہ مرد عورت کا اختلاط نہ صرف یہ کہ مختلف قسم کی برائیوں کے فتنہ میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو شرم و حیا اور سنجیدگی و متانت کے تقاضوں کے خلاف سمجھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح عورتوں کے درمیان چلنا منع ہے اسی طرح راستہ میں کسی عورت کے ساتھ بھی چلنا منع ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے کسی فتنہ میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو۔

مجلس میں جہاں جگہ دیکھو وہاں بیٹھ جاؤ

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں ہم حاضر ہوتے تو ہم میں سے جو شخص جہاں جگہ دیکھتا اور آخر میں جو جگہ خالی ہوتی وہاں بیٹھ جاتا۔ (ابوداؤد) اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی دونوں حدیثیں یعنی ایک تو لایحل للرجل اور دوسری جو اس کے بعد ولا یجلس بین رجلین باب القیام میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دونوں روایتیں ہم انشاء اللہ باب اسماء النبی میں نقل کریں گے جن میں سے ایک تو کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذا مشی تکفا اور دوسری مارایت شیاء احسن من رسول اللہ ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مجلس میں ہر شخص مجلس نبوی کے آداب وقار کو ملحوظ رکھتا تھا اور اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ اس کو دوسروں کی بہ نسبت نمایاں اور برتر مقام ملے جہاں جگہ دیکھتا وہیں بیٹھ جاتا کیونکہ مجلس میں نمایا اور برتر جگہ پر بیٹھنے کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرنا دراصل اس نفس کا تقاضہ ہوتا ہے جو ہر موقع پر اپنے آپ کو بلا ضرورت نمایاں کرنے اور برتر ثابت کرنے کا متلاشی رہتا ہے اور یہ ان لوگوں کی شان ہے جو جاہ پسند اور دنیاوی عزت اور بڑائی کے حریص ہوتے ہیں جبکہ صحابہ اس طرح کے جذبات سے بالکل عاری تھے نہ ان کو اس چیز کے حصول کی خواہش ہوتی تھی اور نہ کسی بھی موقع پر برخاست نشست کے سلسلہ میں خواہ مخواہ کے تکلفات و اہتمام کے عادی تھے ان کے مزاج میں جو سادگی و خاکساری اور بے تکلفی اور روا داری تھی اس کی بناء پر بھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے بھی وہ مجلس نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں جہاں جگہ دیکھتے بیٹھ جاتے۔

بیٹھنے کا ایک ممنوع طریقہ

اور حضرت عمر بن شرید تابعی اپنے والد ماجد (حضرت شرید ثقفی رضی اللہ عنہ صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میرا بایاں ہاتھ تو میری پیٹھ کے پیچھے تھا اور انگوٹھے کی جڑ کے گوشت پر میں سہارا دیا ہوئے تھا آپ نے مجھ کو اس طرح بیٹھا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم اس ہیبت پر بیٹھے ہوئے جو ہیبت پر وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جن پر خدا کا غضب نازل ہوا سے مراد یہودی ہیں یہاں یہودیوں کا صراحت کے ساتھ ذکر کرنے کے بجائے مغضوب علیھم کے ذریعہ ان کی طرف اشارہ کرنے کی ایک وجہ تو اس بات سے اگاہ کرنا ہے کہ اس ہیبت پر بیٹھنا ان چیزوں میں سے جن کو حق تعالیٰ دشمن رکھتا ہے اور دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ ایک ایسی امت کا فرد ہے جس پر اللہ نے اپنی رحمت و نعمت فرمائی ہے اس لیے اس کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرے جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کیا اور ملعون قرار دیا ہے واضح رہے کہ قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ میں مغضوب علیھم کے ذریعہ جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے بھی یہی یہود مراد ہیں۔ بعض حضرات نے یہ کہا کہ حدیث میں مغضوب علھیم کا لفظ اپنے وسیع و عام مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے یعنی اس سے تمام کافر اور وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے بیٹھنے چلنے اور دیگر افعال میں غرور و تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔

پیٹ کے بل لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے

اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اپنے پیٹ کے بل یعنی اوندھا لیٹا ہوا تھا آپ نے یہ دیکھ کر اپنے پاؤں سے مجھے ٹھوکا دیا اور فرمایا جندب تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے۔

 

تشریح

 

جندب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا اصل نام ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر ان کی کنیت کے بجائے اصل نام سے مخاطب کیا کہ اس طرح لیٹنا دوزخیوں کا طریقہ ہے کے بارے میں دو احتمال ہیں ایک تو یہ کہ اس ارشاد گرامی سے آپ کی مراد یہ تھی کہ اس دنیا میں کفار و فجار اسی طرح لیٹتے ہیں دوسرے یہ کہ آپ نے اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا کہ کفار فجار دوزخ میں جس ہیبت پر لٹائے جائیں گے وہ یہی ہیبت ہو گی یعنی پیٹ کے بل۔

جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند فرماتا ہے لیکن جمائی لینے والے کو ناپسند فرماتا ہے لہذا تم میں سے جو شخص چھینکے اور اللہ کی تعریف کرے تو اس چھینک اور الحمدللہ کو سننے والے ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے رہی جمائی کی بات جمائی کا آنا شیطانی اثر ہے لہذا تم میں سے جب کسی کو جمائی آئے تو چا ہے کہ وہ حتی الامکان اس کو روکے واضح رہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے (بخاری)

 اور مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تو (چا ہے حتی الامکان اس جمائی کو روکے) کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص ہاء کہتا ہے یعنی جمائی لیتا ہے تو اس پر شیطان ہنستا ہے۔

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ چھینکنے کو پسند کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ چھینکنے کی وجہ سے چونکہ دماغ پر بوجھ ہٹ جاتا ہے اور فہم و ادراک کی قوت کا تزکیہ ہو جاتا ہے اور یہ چیز طاعت و حضوری قلب کا باعث و مددگار بنتی ہے اس لیے چھینکنا پسندیدہ ہے اس کے برخلاف جمائی کا آنا طبیعت کے امتلاء نفس کے بھاری پن اور جو اس کی کدورت کی وجہ سے ہوتا ہے اور یہ چیز غفلت و سستی و بد فہمی نیز طاعت و عبادت میں عدم نشاط کا باعث بنتی ہے اس لیے جمائی کا آنا شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہے اور اسی وجہ سے جمائی کے آنے کو شیطانی اثر قرار دیا ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ چھینکنے والے کو پسند کرنا، اور جمائی کو ناپسند کرنا ان کے نتیجہ میں و ثمرہ کے اعتبار سے ہے کہ چھینکنے کا نتیجہ عبادت و طاعت میں نشاط و تازگی کا پیدا ہونا ہے اور جمائی کا نتیجہ کسل و سستی کا پیدا ہو جانا ہے۔

اللہ کی تعریف کرے یعنی جب چھینک آئے تو الحمد للہ کہے اور اگر رب العالمین بھی بڑھا دے یعنی الحمد للہ رب العالمین کہے تو بہتر ہے جب کہ الحمد للہ علی کل حال کہنا بھی بہتر ہے ، نیز کتاب مصنف میں ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف یہ نقل کیا ہے کہ جس شخص کو چھینک آئے اور وہ یوں کہے ، الحمد للہ رب العالمین علی کل حال تو وہ داڑھ اور کان کے درد میں کبھی مبتلا نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ علماء نے چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی یہ حکمت بیان کی ہے چھینک دراصل دماغ کی صحت و صفائی اور مزاج طبعیت میں نشاط و توانائی کی علامت ہے اور یہ چیز جسمانی صحت و تندرستی کے اعتبار سے اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ظاہر ہے کہ حصول نعمت پر اللہ کی تعریف کرنا نہایت موزوں و مناسب چیز ہے۔

یرحمک اللہ کہنا فرض یا واجب

حدیث کی یہ عبارت ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والا الحمدللہ کہے تو اس سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حنفی مسلک کے اعتبار سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہنا واجب علی الکفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والے کی حمد کو سننے والے ایک سے زائد ہوں تو وہاں موجود سب میں سے کسی ایک شخص کا یرحمک اللہ کہہ دینا سب کے ذمہ سے جواب کا وجوب ساقط کر دے گا۔ جب کہ ایک قول میں اس جواب کو مستحب کہا گیا ہے کہ اس کے برخلاف سفر السعادۃ میں مصنف نے یہ لکھا ہے کہ اس بارے میں منقول صحیح احادیث کا ظاہری مفہوم یہ واضح کرتا ہے کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا سننے والے ہر مسلمان پر فرض ہے اور وہاں موجودہ لوگوں میں سے کسی ایک کا جواب دے دینا اس فرض کو سب کے ذمہ سے ساقط نہیں کرتا۔چنانچہ اکابر علماء کی ایک جماعت کا مسلک اسی قول پر ہے۔شوافع کا مسلک یہ ہے کہ چھینکنے والے کا جواب دینا سنت علی الاکفایہ ہے لیکن افضل یہی ہے کہ حاضرین میں ہر شخص جواب میں یرحمک اللہ کہے حضرت امام مالک کے مسلک میں اختلافی قول ہیں کہ چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا آیا سنت ہے یا واجب؟ لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب چھینکنے والا الحمدللہ کہے اور اس کو حاضرین سنیں لہذا اگر چھینکنے والا الحمدللہ نہ کہے تو وہ جواب کا مستحق نہیں ہو گا اسی طرح اس نے الحمدللہ تو کہا لیکن اتنی آواز سے کہا کہ کسی ایک نے بھی نہیں سنا تو اس صورت میں بھی جواب دینا یعنی یرحمک اللہ کہنا لازم نہیں ہو گا۔چنانچہ لفظ سمعہ جو اس حدیث میں منقول ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے اور یہی حکم سلام اور تمام فرض کفایہ امور جیسے عیادت مریض، تجہیز میت اور نماز جنازہ وغیرہ کا بھی ہے۔

شرح السنہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ چھینکنے والے کو چا ہے کہ الحمد للہ بلند آواز سے کہے تاکہ اہل مجلس سن لیں اور وہ جواب کا مستحق ہو۔

یرحمک اللہ کہنے والے کے جواب میں کیا کہا جائے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چاہیے کہ وہ الحمدللہ کہے اور اس کے مسلمان بھائی یا یہ فرمایا کہ اس کے دوست کو چاہیے کہ وہ اس چھینکنے والے کے الحمد للہ کہنے کے جواب میں یرحمک اللہ کہے اور جب اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہے تو چھینکنے والے کو چاہیے یوں کہے ، یھدیکم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری ہدایت کرے۔ اور تمہارے دل و تمہارے احوال کو درست کرے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

یھدیکم اللہ  میں مخاطب کے لیے جمع کا صیغہ یا تو باعتبار غالب کے ہے کہ عام طور پر چھینکنے والے کے پاس کئی آدمی ہوتے ہیں لہذا مذکورہ دعا میں ان سب کو شریک ہونا چا ہے یا مخاطب کے لیے جمع کا صیغہ بطور تعظیم و تکریم کے ہے اور یہ کہ اس دعا میں مخاطب کے واسطے سے پوری امت مرحومہ کو شامل کرنا مراد ہوتا ہے۔

جو چھینکنے والا الحمد للہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کو چھینک آئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے ایک آدمی کی چھینک کا جواب نہیں دیا جس آدمی کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کو تو جواب دیا لیکن مجھے جواب نہیں دیا؟ آپ نے فرمایا اس آدمی نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی تھی جب کہ تم نے اللہ کی حمد نہیں کی (لہذا تم جواب کے مستحق نہیں ہوئے) بخاری و مسلم)۔

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص چھینکنے کے بعد الحمد للہ نہ کہے وہ اس بات کا مستحق نہیں ہوتا کہ اس کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہا جائے۔ حضرت مکحول بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کسی شخص نے مسجد کے کسی کونے میں چھینکا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس چھینک کو سنا تو فرمایا کہ یرحمک اللہ ان کنت حمدت اللہ یعنی اگر تو نے اللہ کی حمد کی ہے تو تجھ پر اللہ اپنی رحمت نازل کرے۔شعبی کہتے ہیں کہ اگر تمہارے کان میں دیوار کے پیچھے سے کسی چھینکنے اور الحمدللہ کہنے کی آواز آئے تو اس کو بھی جواب دو یعنی یرحمک اللہ کہو۔

جو چھینکنے والا الحمد للہ نہ کہے وہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص چھینکے اور اللہ کی حمد کرے یعنی چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں یعنی یرحمک اللہ کہو اور اگر وہ اللہ کی حمد نہ کرے تو اس کو جواب نہ دو۔ (مسلم)

جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اس کے جواب کا مسئلہ

اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شخص کی چھینک کا جواب دیتے سنا جو اس وقت آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا چنانچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا یرحمک اللہ پھر جب اس کو دوسری چھینک آئی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے اس شخص کو تیسری بار چھینکنے پر یہ فرمایا کہ اس شخص کو زکام ہو گیا ہے۔

 

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اس شخص کو چونکہ زکام ہو گیا ہے اس لیے یہ بار بار چھینکے گا اور الحمد للہ کہے گا لہذا اس کے جواب میں بار بار یرحمک اللہ کہنے کی ضرورت نہیں واضح رہے کہ ابوداؤد اور ترمذی کی ایک اور روایت میں یہ فرمایا گیا کہ جس شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے اور وہ الحمد للہ کہتا رہے تو تین چھینکوں تک جواب دیا جائے تیسری مرتبہ کے بعد اختیار ہو گا کہ چا ہے جواب دے چا ہے نہ دے۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ اگر کسی شخص کو لگاتار چھینک آتی رہے تو اس کے جواب میں تین چھینکوں تک یرحمک اللہ تو واجب یا سنت موکدہ ہے تیسری مرتبہ کے بعد سکوت اور جواب کے درمیان اختیار ہو گا کہ چا ہے تو تین مرتبہ کے بعد جواب نہ دے جو رخصت یعنی شریعت کی طرف سے آسانی اور چا ہے تین مرتبہ کے بعد بھی جواب دیتا رہے جو مستحب ہے گویا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ تین مرتبہ کے بعد جواب دینا کوئی نا جائز بات نہیں ہے لیکن واجب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔

جب جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لے

اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے کیونکہ شیطان اگر منہ کھلا ہوا پاتا ہے تو اس میں گھس جاتا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

منہ میں شیطان گھسنے سے مراد یا تو حقیقتاً گھسنا ہے یا مراد یہ ہے کہ جو شخص جمائی کے وقت اپنے منہ کو بند نہیں رکھتا شیطان اس پر اثر انداز ہونے اور اس کو وساوس و اوہام میں مبتلا کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔

چھینکتے وقت چہرہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب چھینکتے تو اپنے چہرہ مبارک پر اپنے ہاتھوں یا اپنے کسی کپڑے سے ڈھانک لیتے تھے اور اپنی چھینک کی آواز کو پست کر لیتے۔ اس روایت کو ترمذی، اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

چھینکتے وقت چہرے کو ڈھانک لینا اور بلند آواز سے نہ چھینکنا، یہ دونوں چیزیں تہذیب و شائستگی کی علامت بھی ہیں اور آداب شریعت کا تقاضہ بھی کیونکہ ایک تو چھینک کے ذریعہ عام طور پر دماغ کا فضلہ و بلغم وغیرہ ناک یا منہ سے نکل پڑتا ہے دوسرے چھینکتے وقت چہرہ کی ہیبت بگڑ جاتی ہے اس لیے چہرے کو ڈھانک لینا چاہیے اسی طرح زیادہ زور دار آواز کے ساتھ چھینکنے کی صورت میں بسا اوقات لوگ چونک اٹھتے ہیں اور ویسے بھی زیادہ بلند آواز اور بے ساختہ آواز کے ساتھ چھینکنا طبیعت کی سلامتی اور وقار کے خلاف سمجھا جاتا ہے لہذا ہلکی آواز کے ساتھ چھینکنا حسن ادب سمجھا گیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ چھینکنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اپنی چھینک کو پست رکھے اور الحمد للہ بلند آواز میں کہے تاکہ لوگ سن کر جواب دیں۔

یرحمک اللہ کہنے والے کے حق میں دعا

اور حضرت ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو چا ہے کہ وہ یوں کہے الحمد للہ علی کل حال۔ یعنی ہر حال میں خدا کی تعریف ہے اور وہ شخص جو اس کا جواب دے اس کو یوں چاہیے یرحمک اللہ اور پھر اس کے جواب میں چھینکنے والے کو یوں کہنا چاہیے ، یھدیکم اللہ ویصلح بالکم، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشے اور تمہارے دل یا تمہارے احوال کو درست فرمائے۔

یہودیوں کی چھینک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہوتے جان بوجھ کر چھینکتے اس امید میں کہ آپ ان کے جواب یرحمک اللہ کہیں گے لیکن آپ ان کی چھینک کر جواب میں محض یہ فرماتے یھدیکم اللہ ویصلح بالکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت بخشیں اور تمہارے قلوب یا تمہارے احوال کی اصلاح فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی چھینک کے جواب میں یرحمک نہ کہتے کیونکہ اللہ کی رحمت صرف مومن کے لیے مخصوص ہے البتہ آپ ان کے حسب حال ان کی ہدایت و اصلاح کی دعا فرماتے۔

چھینک کے وقت سلام

اور حضرت ہلال ابن یساف (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ جماعت میں سے ایک شخص کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا بایں گمان کے چھینک کے بعد الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہنا بھی جائز ہے حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے جواب میں کہا تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلام اس شخص نے گویا اپنے دل میں ان الفاظ (تمہاری ماں پر بھی سلام) کا برا مانا، حضرت سالم رضی اللہ عنہ نے اس کی ناگواری کو محسوس کیا اور کہا اس ناگواری کی کیا بات ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں نے وہی الفاظ کہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت ارشاد فرمائے تھے جب کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے چھینکا تھا اور اس نے الحمد للہ کے بجائے السلام علیکم کہا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اس کو چاہیے کہ الحمدللہ کہے اور جواب دینے والے کو چاہیے کہ یرحمک اللہ کہے اور پھر چھینکنے والے کو بطریق استحباب چاہیے کہ یغفرللہ لی ولکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری اور میری مغفرت فرمائے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے الفاظ کہنے چاہیے اس موقع پر حاضرین کو سلام کرنا نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ اس کی کوئی اصل ہے۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یرحمک اللہ کہنے کے جواب میں چھینکنے والے یغفراللہ لی ولکم کے ساتھ یھدیکم اللہ بھی کہنا اولیٰ اور افضل ہے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر چھینکنے والا الحمد للہ کے بجائے کوئی اور الفاظ کہے تو وہ چھینک کے جواب کا مستحق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ نہیں فرمایا البتہ اس شخص نے چونکہ آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، رہی یہ بات کہ آپ نے سلام کے جواب میں وعلی امک اور تمہاری ماں پر بھی سلام کے الفاظ کیوں فرمائے تو دراصل آپ نے اس لفظ کے ذریعہ دو باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ایک تو یہ کہ اس موقع پر سلام کرنا بے محل و بے موقع ہے اور یہ ایسا ہی جیسے کوئی شخص سلام تو تمہیں کرنا چا ہے مگر یہ ہے یوں کہ تم پر اور تمہاری ماں پر سلام۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی لفظ و کلام کا بے محل و بے موقع استعمال کرنا چاہیے اپنے آپ کو علم و تربیت اور مجلس کے آداب سے بے بہرہ ثابت کرنا ہے اور اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ میں اس شخص کی طرح ہوں جو کسی مرد دانا کی تربیت سے محروم اور محض ماں کی غیر موزوں تربیت کا حامل ہو اور جس کے دل و دماغ پر زنانہ ماحول اور زنانہ طور طریقوں کا اثر ہو، نیز علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس شخص کی نادانی کو ظاہر کیا گیا ہے جو اس میں ماں کے اوصاف کے سرایت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اسی اعتبار سے وہ اپنی ماں کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کا محتاج تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو کہ اللہ اس کو عقل کی دولت سے نوازے اور نادانی کے فتنہ سے محفوظ رکھے۔

لگاتار تین بار سے زائد چھینکنے والے کو جواب دینا ضروری نہیں ہے

اور حضرت عبید بن رفاعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ چھینکنے والے کی لگاتار تین چھینک تک جواب دیا جائے اور اگر کوئی تین بار سے زائد چھینکے تو اس صورت میں اختیار ہے کہ چا ہے اس کو جواب دیا جائے اور چا ہے نہ دیا جائے اس روایت کو امام ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

لگاتار تین بار سے زائد چھینکنے والے کو جواب دینا ضروری نہیں ہے

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اپنے مسلمان بھائی کی چھینک کا تین بار تک جواب دو اگر وہ اس سے زائد چھینکے تو سمجھو کہ اس کو زکام ہو گیا ہے اس روایت کو ابوداؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ حضرت ابوہریرہ نے رضی اللہ عنہ اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچایا ہے۔

 

تشریح

 

امام ابوداؤد کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے جس کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے اور اگر اس روایت کو حدیث موقوف یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول کہا جائے تو بھی یہ روایت حدیث مرفوع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کے حکم میں ہو گی کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین کے عدد کا تعین شارع علیہ السلام سے سنے بغیر نہیں کر سکتے۔

چھینک آنے پر الحمد کے ساتھ صلوۃ و سلام کے الفاظ غیر مستحب ہے

اور حضرت نافع (تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے برابر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے چھینکا اور پھر کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں بھی کہتا ہوں الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ، لیکن یوں ہے نہیں (یعنی نہ تو اس کا حکم دیا گیا اور نہ یہ مستحب اور آداب میں سے ہے کہ چھینک آنے پر الحمد للہ کے ساتھ سلام کے الفاظ ملائیں جائیں بلکہ اصل ادب اور حکم نبوی کے اتباع کا تقاضہ یہی ہے کہ چھینک آنے پر ہم بلا کسی کمی و زیادتی کے وہی کہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سکھایا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم یوں کہیں الحمدللہ علی کل حال یعنی ہر حال میں خدا کی تعریف ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہنسی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنا زیادہ ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کا منہ کھل گیا ہو اور مجھے آپ کے تالو یا حلق کا کوا یا مسوڑھا نظر آیا ہو بلکہ اکثر و بیشتر آپ کا ہنسنا مسکرانے کی حد تک رہتا تھا۔ (بخاری)

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہنسی

٭٭اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہی کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی مجھ کو منع نہیں کیا کہ اور جب آپ مجھ کو دیکھتے مسکرا دیتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مجھ کو منع نہیں کیا  سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی مجھ کو اپنے پاس آنے سے نہیں روکا میں جس وقت چاہتا آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا چا ہے کوئی خصوصی مجلس ہی کیوں نہ ہوتی بشرطیکہ مردانہ مجلس ہوتی یا یہ مراد ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آپ سے کوئی چیز مانگی ہو اور آپ نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جب مانگا اور جو کچھ بھی مانگا وہ مجھ کو عطا ہوا۔

صحابہ کی زبان سے زمانہ جاہلیت کی باتیں سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مسکرانا

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھا کہ آپ جس مصلے پر فجر کی نماز پڑھتے وہاں سے اس وقت تک نہیں اٹھتے تھے جب تک سورج اچھی طرح نہ نکل آتا جب سورج نکل آتا اور خاصا بلند ہو جاتا آپ اشراق کی نماز پڑھنے یا گھر میں تشریف لے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اس دوران صحابہ بطریق استہزاء مذمت زمانہ جاہلیت کی باتیں کرتے رہتے اور ہنسا کرتے ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی مسکراتے رہتے (مسلم) ترمذی کی روایات میں یوں ہے کہ اس دوران صحابہ کرام اشعار پڑھنے سننے میں لگے رہتے۔

 

تشریح

 

اشعار سے مراد وہ اشعار ہیں جو بیان توحید، منقبت رسالت اور ترغیب و ترہیب کے مضامین پر مشتمل ہوتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ جاہلیت کی باتیں کرنا اور ان پر ہنسنا جائز ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بہت مسکراتے تھے

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ کسی اور شخص کو مسکراتے نہیں دیکھا۔ (ترمذی)

صحابہ کے ہنسنے کا ذکر

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنسا کرتے تھے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں، حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا، اور حضرت بلال ابن سعد تابعی کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کو اس حال میں پایا کہ وہ دن میں تیر اندازی کی مشق کے وقت تیر کے نشانوں کے درمیان دوڑا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے مگر جب رات آتی تو وہ اللہ سے بہت ڈرنے والے ہو جاتے۔ (شرح السنہ)

 

 

تشریح

 

حالانکہ ان کے دلوں میں پہاڑ سے بھی بڑا ایمان تھا  کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب ہنسنے مسکرانے کا موقع ہوتا تو وہ ہنسا کرتے تھے لیکن اس طرح نہیں ہنستے تھے جیسے اہل غفلت اور دنیا دار لوگ ہنستے ہیں کیوں کہ ایسی ہنسی جو حد سے بڑھی ہوئی ہو دل کو غافل کر دیتی ہے اور نور ایمان میں خلل ڈالتی ہے چنانچہ صحابہ ہنسنے کی حالت میں شرعی آداب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے اور اپنے ایمان کو کامل درجہ پر باقی رکھتے تھے۔تو وہ اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے ہو جاتے کا مطلب یہ ہے کہ جب رات آتی تو صحابہ دنیا کے سارے کام کاج اور آرام و اراحت چھوڑ کر خدا کی عبادت میں مشغول ہو جاتے اور خوف الٰہی کے غلبہ سے روتے گڑگڑاتے اور مناجات و التجا میں مصروف رہتے۔