مشکوٰة شر یف

آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان

موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان

٭٭ جسمانی تکلیف و مصیبت اور دنیاوی ضرر نقصان مثلاً مرض، تنگدستی اور دوسری بلاء و پریشانیوں کی وجہ سے موت کی آرزو کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ بے صبری اور تقدیر الٰہی پر راضی نہ ہونے کی علامت ہے۔

 دیدار الٰہی کے شوق و محبت، اس سرائے فانی اور اس کی محبت سے نجات، دارالبقاء پہنچنے کی خواہش اور وہاں کی نعمتوں کی تمنا میں موت کی آرزو ایمان اور کمال ایمان کی نشانی ہے۔ اسی طرح دینی ضرر و نقصان کے خوف سے بھی موت کی آرزو کرنا مکروہ نہیں ہے۔

  موت کو یاد رکھنا  دراصل کنایہ ہے اس بات سے کہ اللہ رب العز کا خوف قلب میں جاگزین ہو اس کی رضا و خوشنودی کا حصول اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہمہ وقت پیش نظر ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل ہو، توبہ و استغفار کا ورد ہو اور دنیا وی نفع نقصان پر آخرت کے نفع و نقصان کو مقدم رکھا جائے۔ ورنہ تو محض موت کو یاد رکھنا اور یاد کرنا اور عملی طور پر بے راہ روی اختیار کرنا چنداں فائدہ مند نہیں ہے بلکہ قساوت قلب کا سبب ہے جیسا کہ غفلت کے ساتھ اللہ رب العزت کو یاد کرنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نسأل اللہ العافیۃ۔

موت کی آرزو نہ کرو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے (کیونکہ) اگر وہ (یعنی موت کی آرزو کرنے والا) نیکو کار ہے تو ہو سکتا ہے کہ (اس کی عمر دراز ہونے کی وجہ سے) اس کے نیک اعمال میں زیادتی ہو جائے اور اگر بدکار ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ (توبہ کر کے اور لوگوں کے حقوق ادا کر کے) اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل کر لے (بخاری)

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی شخص نہ (تو دل سے) موت کی آرزو کرے اور (زبان سے) موت کی دعا مانگے قبل اس کے کہ اس کی موت آئے۔ کیونکہ انسان جب مر جاتا ہے تو (بھلائی کی زیادتی کے لئے) اس کی امیدیں منقطع ہو جاتی ہیں اور مؤمن کی عمر کی درازی اس کی بھلائی ہی میں زیادتی کرتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ظاہر ہے کہ جب انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے تو نیکی و بھلائی کی راہیں بھی منقطع ہو جاتی ہیں کیونکہ اگر زندگی ہو گی تو اعمال نیک ہوں گے اور جب اعمال نیک ہوں گے تو سعادت بھلائی میں زیادتی ہی زیادت ہو گی اسی لئے فرمایا گیا کہ بندہ مؤمن کی زندگی جب دراز ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے اس کی بھلائی و سعادت میں زیادتی ہوتی ہے کیونکہ بندہ مؤمن بلاء و مصیبت پر صبر کرتا ہے نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے، تقدیر الٰہی سے راضی رہتا ہے اور خدا تعالیٰ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام کی فرمانبرداری کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ثواب بڑھتا ہی جاتا ہے۔

دنیاوی تکلیف و نقصان کی وجہ سے موت کی آرزو کرنے کی ممانعت

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی شخص (جسمانی و مالی) ضرر و تکلیف کی وجہ سے کہ جو اسے پہنچے موت کی آرزو نہ کرے اور اگر اس قسم کی آرزو ضروری ہی ہے تو پھر یہ دعا مانگے دعا (اللہم احینی ما کانت الحیاۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی۔ اے اللہ! مجھ کو اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی (موت سے) بہتر ہو اور مجھے موت دے اس وقت دے جب کہ میرے لئے موت (زندگی سے) بہتر ہو۔

 

تشریح

 

نووی رحمۃ اللہ نے فتویٰ دیا ہے کہ دینی فتنہ و فساد کے خوف سے موت کی آرزو کرنا مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت امام شافعی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہما اللہ و غیرھما کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان حضرات نے دینی فتنہ و فساد کے خوف سے موت کی آرزو کی تھی اسی طرح راہ خدا میں شہادت کی آرزو کرنی بھی مستحب ہے اس لیے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ثابت و منقول ہے بلکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو یہاں تک منقول ہے کہ انہوں نے طاعون عمواس کے وقت موت کی آرزو کی تھی اس لیے معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اگرچہ وہ از قسم طاعون وغیرہ ہی کیوں نہ ہو مستحب ہے۔

 مسلم میں یہ روایت منقول ہے کہ جس شخص نے صدق دل سے اور خلوص نیت کے ساتھ شہادت کی تمنا کی تو اسے شہادت کا ثواب دیا جاتا ہے (اگرچہ اسے شہادت حاصل نہ ہو سکے)

 مدینہ میں موت کی آرزو کرنا مستحب ہے کیونکہ بخاری میں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دعا مانگی تھی۔  دعا (اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد رسولک) اے اللہ! اپنی راہ میں مجھے شہادت نصیب فرما اور اپنے رسول کے شہر میں مجھے موت دے۔

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک زندگی موت سے بہتر ہے جب تک کہ گناہ کے مقابلہ میں طاعات زیادہ ہوں اور زمانہ دینی فتنہ و فساد سے خالی ہو۔ ہاں جب صورت حال بالکل برعکس ہو۔ بایں طور کہ طاعات کے مقابلہ میں گناہ زیادہ ہوں اور زمانہ دینی فتنہ و فساد سے خالی نہ ہو تو پھر جینے سے مر جانا ہی بہتر ہے۔

لقاء مولیٰ اور مت

حضرت عبادہ بن صامت راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند نہیں کرتا ہے (یہ سن کر) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی اور زوجہ مطہرہ نے عرض کیا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (یہ مراد) نہیں بلکہ (مراد یہ ہے کہ) جب مؤمن کی موت آتی ہے تو اس بات کی خوشخبری دی جاتی ہے کہ خدا اس سے راضی ہے اور اسے بزرگ رکھتا ہے چنانچہ وہ اس چیز سے جو اس کے آگے آنے والی ہے (یعنی اللہ کے ہاں اپنے اس فضیلت و مرتبہ سے) زیادہ کسی چیز(یعنی دنیا اور دنیا کی چمک دمک) کو محبوب نہیں رکھتا، اس لیے بندہ مؤمن اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کو موت آتی ہے تو اسے (قبر میں) خدا کے عذاب اور (دوزخ کی سخت ترین) سزا کی خبر دی جاتی ہے۔ چنانچہ وہ اس چیز سے جو اس کے آگے آنے والی ہے (یعنی عذاب و سزا) سے زیادہ کسی اور چیز کو ناپسند نہیں کرتا اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے (یعنی اسے اپنی رحمت اور مزید نعمت سے دور رکھتا ہے) اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں منقول ہے کہ  موت اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے پہلے ہے۔

 

تشریح

 

مشہور تو یہی ہے کہ لقاء مولیٰ (یعنی خدا کی ملاقات) سے مراد موت ہے، لیکن اس بارے میں تحقیقی بات یہ ہے کہ لقاء مولیٰ سے  موت مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آخرت کی طرف متوجہ ہونا، حق تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اور اس کی رضا و خوشنودی کا طالب ہونا، دنیا کی طرف مائل نہ ہونا اور دنیا و آخرت کی محبت میں گرفتار نہ ہونا۔ لہٰذا جس شخص نے دنیا ترک کی اور دنیا اور اس کی چیزوں کو ناپسند کیا اس نے گویا لقاء مولیٰ کو پسند کیا! اور جس شخص نے دنیا کو اختیار کیا، دنیا کی چیزوں کی محبت میں گرفتار ہوا اور دنیا کی طرف اپنا میلان رکھا اس نے گویا لقاء مولیٰ کو ناپسند رکھا! یہی وجہ ہے کہ لقاء مولیٰ کا اشتیاق موت کی محبت اور اس کے اشتیاق کو لازم ہے یعنی جو شخص لقاء مولیٰ کو پسند کرے گا وہ موت کو بھی پسند کرے گا کیونکہ لقاء مولیٰ کے لیے موت وسیلہ ہے۔

 ام المؤمنین چونکہ یہی سمجھیں تھیں کہ لقاء مولیٰ سے مراد موت ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد  لیس الامر کذالک کے ذریعہ وضاحت فرمائی کہ لقاء مولیٰ سے مراد موت نہیں ہے اور نہ یہ مراد ہے کہ بتقاضائے جبلت طبعی موت سے محبت ہو اور بالفعل موت کی آرزو کرنی چاہئے بلکہ مراد یہ ہے کہ جو شخص رضا حق کا طالب ہو اور لقاء مولیٰ کا شائق ہوتا ہے وہ لقاء مولیٰ کے لیے وسیلہ ہونے کی وجہ سے موت کو ہمیشہ عقلی طور پر محبوب رکھتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب زندگی کا وقت پورا ہونے لگتا ہے اور موت کا وقت قریب آتا ہے اور اسے حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خوشخبری دیدی جاتی ہے تو پھر اس وقت وہ موت کو طبعی طور پر پسند کرتا ہے اور لقاء مولیٰ کا اشتیاق اس کی طبعی خواہش کی آواز بن جاتا ہے چنانچہ حدیث کے الفاظ ولکن المؤمن الخ (یعنی جب مؤمن کو موت آتی ہے تو اس بات کی خوشخبری دی جاتی ہے کہ خدا اس سے راضی ہے الخ) اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ  موت اللہ کی ملاقات سے پہلے ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار موت سے پہلے ممکن نہیں ہے بلکہ موت کے بعد ہی یہ شرف حاصل ہوتا ہے یا پھر یہ مراد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے وہ موت کو بھی پسند کرتا ہے کیونکہ اس عظیم شرف و سعادت کا حصول موت کے ذریعہ سے ممکن ہے اور یہ کہ لقاء الٰہی کا وجود موت کے وجود سے پہلے متصور نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ لقاء الٰہی اور موت دنوں ایک چیز نہیں ہیں بلکہ دونوں الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں۔

مؤمن کی موت خود اس کی راحت کا ذریعہ ہے اور فاجر کی موت دنیا والوں کی راحت کا سبب ہے

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ راحت پانے والا ہے، یا یہ کہ اس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوئی؟ صحابہ نے عرض کیا کہ راحت پانے والا کون ہے؟ اور وہ کون ہے جس سے دوسروں کو راحت نصیب ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا  بندہ مؤمن اپنی موت کے ذریعہ دنیا کے رنج و ایذاء سے راحت پاتا ہے اور خدا کی رحمت کی طرف جاتا ہے اور بندہ فاجر (یعنی گنہگار) کی موت کے ذریعہ اس کے شر فساد سے بندے، شہر، درخت اور جانور (سب ہی) راحت پاتے ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب بندہ مؤمن وفات پاتا ہے تو وہ دنیا کے رنج سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ دنیا میں اعمال و احوال کی وجہ سے وہ جس مشقت و محنت میں مبتلا تھا اس سے نجات مل جاتی ہے اور دنیا کی ایذاء سے بایں طور راحت پاتا ہے کہ وہ دنیاوی تکلیف و پریشانی مثلاً گرمی سردی، تنگدستی و مفلسی وغیرہ سے یا یہ کہ اہل دنیا کی ایذاء رسانی سے اسے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ اسی لیے مسروق رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ مجھے کسی چیز پر بھی کسی چیز کے سبب اتنا رشک نہیں آتا جتنا رشک اس مؤمن پر آتا ہے جو قبر میں سلا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے عذاب سے مامون ہو جاتا ہے اور دنیا سے راحت و سکون پا لیتا ہے۔ نیز ابوداؤد رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے رب کے پاس جانے کے شوق میں موت کو پسند کرتا ہوں۔ گناہ کے کفارہ کے لیے مرض کو پسند کرتا ہوں۔ اور اپنے رب کے سامنے تواضع و انکساری کی خاطر فقر کو پسند کرتا ہوں۔

 جب بندہ فاجر یعنی گنہگار مرتا ہے تو اس سے بندے تو یوں راحت پاتے ہیں کہ جب وہ اپنی زندگی میں خلاف شرع باتیں کرتا اور لوگ اسے منع کرتے تو وہ انہیں ایذاء پہنچاتا اور اگر سکوت و خاموشی اختیار کرتے تو اپنے دین اور اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتے۔ اور جب وہ گنہگار مر گیا تو لوگوں نے اس سے چھٹکارا پایا۔ اور شہر و درخت وغیرہ اس کے مرنے سے بایں طور راحت پاتے ہیں کہ گناہ و ظلم ہونے کی وجہ سے عالم میں فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ ارکان دین میں خلل واقع ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گنہگار و ظالم کو مبغوض رکھتا ہے لہٰذا اس کی وجہ سے زمین اور وہ تمام چیزیں جو زمین میں ہیں نقصان اٹھاتی ہیں پھر یہ کہ اس کی شومی گناہ کے سبب اللہ تعالیٰ بارش نہیں برساتا، اب جب کہ مرا تو بادلوں نے اپنے منہ کھول دیئے اور زمین کا شجر و پودا ہرا بھرا ہو گیا اور اس طرح سب ہی نے راحت پائی۔

دنیا میں مسافر بلکہ راہ گیر کی طرح رہو

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (پہلے تو) میرا مونڈھا پکڑا (تاکہ میں متنبہ ہو جاؤں) پھر فرمایا  تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر بلکہ راہ گیر ہو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ (اس کے بعد لوگوں سے) فرمایا کرتے تھے کہ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو، نیز اپنی صحت کو بیماری سے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے غنیمت سمجھو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

یہاں حدیث میں لفظ بمنکنی حرف یا کے سکون کے ساتھ بصیغہ مفرد نقل کیا گیا ہے جبکہ مشکوٰۃ کے ایک دوسرے نسخہ میں حرف یا کے تشدید کے ساتھ بصیغہ تثنیہ منقول ہے۔

 فانک غریب (گویا تم مسافر ہو) کا مطلب یہ ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت نہ رکھو اس لیے کہ تم اس دنیا سے آخرت کی طرف سفر کرنے والے ہو، لہٰذا تم اس دنیا کو اپنا وطن نہ بناؤ، دنیا کی لذتوں کے ساتھ الفت نہ رکھو اور دنیا دار لوگوں سے اور ان کے اختلاط سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ تم ان سب لوگوں سے جدا ہونے والے ہو، اس دنیا میں اپنی بقا کو وہم و گمان میں بھی نہ رکھو، ان امور سے قطعاً اجتناب کرو جن سے ایک مسافر غیر وطن میں اجتناب کرتا ہے اور ان چیزوں سے مشغول نہ رہو جن میں وہ مسافر کہ جو اپنے اہل و عیال اور اپنے وطن کی طرف جانے کا ارادہ رکھتا ہے، مشغول نہیں ہوتا، گویا کہ تم کلیۃ اس دنیا میں بالکل اسی طرح رہو جس طرح کہ ایک مسافر اپنے وطن اور اپنے اہل و عیال سے دور غیر وطن میں رہتا ہے۔

 پھر آگے زیادہ مبالغہ کے ساتھ فرمایا کہ  بلکہ ایک راہ گیر (راستہ چلنے والے) کی طرح رہو کیونکہ مسافر تو اپنے سفر کے دوران مختلف شہروں میں قیام بھی کر لیتا ہے بخلاف راستہ چلنے والے کے کہ وہ تو کسی جگہ قیام بھی نہیں کرتا۔ لہٰذا دنیا کو نہ صرف یہ کہ سفر گاہ سمجھنا چاہئے بلکہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ راستہ چل رہا ہوں نہ تو وطن میں ہوں اور نہ حالت سفر میں کہیں ٹھہرا ہوا ہوں۔

  جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو الخ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں نہ معلوم موت کا پنجہ کس وقت گردن آ دبوچے، ایک لمحے کے لیے بھی کسی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے صبح کے وقت کسی کو معلوم نہیں کہ شام کا وقت دیکھنا بھی نصیب ہو گا یا نہیں، شام کے وقت کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ صبح تک اس کی زندگی ضرور ہی باقی رہے گی حاصل یہ کہ صبح و شام ہر وقت تم موت کو اپنے سامنے حاضر سمجھو، زندگی کی آرزؤوں اور تمناؤں کو دراز نہ کرو، عمل خیر کرنے میں پیش روی اختیار کرو دن کی عبادات اور نیک اعمال کو رات پر اور رات کی عبادات و نیک اعمال کو دن پر اٹھا نہ رکھو کیونکہ

غنیمتے شمر اے شمع وصل پروانہ

ایں معاملہ تا صبح دم نہ خواہد ماند

  صحت کو بیماری سے غنیمت جانو کا مطلب یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرو تاکہ حالت بیماری میں جب تم نیک اعمال کرنے پر قادر نہ رہو گے ویسا ہی ثواب پا سکو۔

  اپنی زندگی کو موت سے غنیمت جانو یعنی تمہاری جتنی بھی زندگی ہے اس میں عمل ہی عمل کیے جاؤ تاکہ جب یہ زندگی اپنا وقت پورا کرے اور تم موت کی آغوش میں پہنچ جاؤ تو پھر اس کے بعد تمہاری زندگی کے انہیں اعمال کا ثواب تمہیں پہنچتا رہے۔

غنیمت داں جوانا دولت حسن جوانی را

نہ پنداری کہ ایام جوانی جاوداں باشد

 بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے الفاظ اذا امسیت۔ ۔ ۔ من حیاتک لموتک حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد موقوف ہے لیکن  احیاء العلوم میں اسے مرفوعاً یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم

خدا کی ذات سے رحمت ہی کی امید رکھو

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور بخشش پر کامل اعتقاد اور اس کے وعدہ رحم وکرم پر اعتقاد رکھنا چاہئے اور ہمہ وقت اس کے کرم اور اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہے۔ نیز یہ کہ ہر شخص اللہ کے ساتھ ہر وقت اچھا گمان رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ بد گمانی رحمت مایوسی کی حالت میں مر جائے اور وہ مبتلائے قہر خداوندی ہو۔

 علماء نے لکھا ہے کہ اخروی سعادت کی علامت یہ ہے کہ زندگی کے پورے عرصے میں خوف غالب رہے اور جب مرنے کے قریب پہنچے تو اس کی رحمت و بخشش کی امید غالب رہے۔

 علماء نے لکھا ہے کہ  اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھنے سے مراد نیک اعمال کرنا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میں اچھے اعمال کرنے چاہئیں تاکہ موت کے وقت خدا کے ساتھ اچھا گمان رہے کیونکہ جس کی زندگی خدا کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کی خاطر عبادات و نیک اعمال میں گزاری ہو گی۔ وہ مرنے کے وقت خدا کے ساتھ یہی نیک گمان قائم کیے رہے گا کہ انشاء اللہ میرے ساتھ اچھا ہی معاملہ ہو گا اس کے برخلاف جس کی زندگی خدا کی نافرمانی اور برے اعمال میں گزری ہو گی وہ موت کے وقت خدا کے ساتھ برا ہی گمان رکھے گا کیونکہ جب موت سر پر کھڑی ہو گی تو اسے اپنی زندگی کے برے اعمال یاد آئیں گے اس وقت اسے یہ خیال پیدا ہو گا کہ میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہو گا۔

 نیز علماء لکھتے ہیں کہ  امید کی حقیقت یہ ہے کہ عمل کرے اور امید رکھے خدمت مولیٰ کرے اور نظر اس کی عطا پر رکھے نہ کہ جھوٹی امید جو عمل سے باز رکھے اور گناہوں کا باعث ہو، یہ امید نہیں ہے بلکہ آرزو اور غرور ہے۔

 حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ کا یہ قول منقول ہے کہ  اگر تم میں سے کوئی شخص (جو بے عمل ہے) یہ کہتا ہے کہ میں اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہوں تو وہ جھوٹ کہتا ہے کیونکہ اگر وہ اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان رکھتا تو نیک عمل بھی کرتا۔

قیامت کے دن خدا کا سب سے پہلا سوال

حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ہمیں مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ  اگر تم چاہو تو میں تمہیں وہ بات بتا دوں جو اللہ قیامت کے دن سب سے پہلے مؤمنین سے فرمائے گا اور وہ بات بھی بتا دوں جو سب سے پہلے مؤمنین اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے؟ ہم نے عرض کیا کہ  ہاں رسول اللہ ! (ہمیں ضرور بتا دیجئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرمائے گا کہ کیا تم میری ملاقات کو پسند کرتے تھے مؤمنین عرض کریں گے کہ ہاں! اے ہمارے رب (ہم تیری ملاقات کو پسند کرتے تھے) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ  تم میری ملاقات کو کیوں پسند کرتے تھے؟ مؤمنین عرض کریں گے  اس لیے کہ ہم تجھ سے معافی و درگزر اور تیری بخشش و مغفرت کی امید رکھتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارے لیے میری بخشش واجب ہو گئی۔ یہ روایت شرح السنۃ میں ابو نعیم نے حلیہ میں نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

ہو سکتا ہے کہ  ملاقات سے مراد  دار آخرت کی طرف رجوع کرنا  اور یہ بھی احتمال ہے کہ  ملاقات سے مراد حق تعالیٰ کا دیدار ہو۔

 ابن مالک رحمۃ اللہ نے کہا ہے حدیث میں لفظ لم کے بعد یہ الفاظ ہونے چاہئیں لای سبب اذنبتم یعنی حق تعالیٰ پھر فرمائے گا کہ تم نے کیوں گناہ کیے ہیں؟ لیکن صحیح یہی الفاظ ہیں لم احببتم لقائی یعنی میری ملاقات کو کیوں پسند کرتے تھے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔

موت کو کثرت سے یاد کرو

حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (دنیا کی) لذتوں کو کھو دینے والی چیز کو، کہ جو موت ہے کثرت سے یاد کرو۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

صحیح یہی ہے کہ لفظ  ہاذم ذال کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں قطع کرنے والا، چنانچہ جن لوگوں نے دال کے ساتھ یعنی لفظ  ہادم بمعنی ڈھالنے والا جو نقل کیا ہے صحیح نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس بارے میں کسی راوی سے چوک ہو گئی ہو۔

 بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنا چاہئے کیونکہ موت کو یاد کرنے سے غفلت جو نیک اعمال کے راستہ میں رکاوٹ بنتی ہے دور ہوتی ہے، موت کی یاد دنیا (کے برے کاموں) کی مشغولیت سے باز رکھتی ہے اور موت کو یاد کرنے والا طاعات و عبادات کی طرف متوجہ رہتا ہے جو توشہ آخرت ہے۔

 نسائی نے اس روایت میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ فانہ لا یذکر فی کثیر الا قللہ ولا فی قلیل الا کثرہ (ترجمہ) جب مال کی زیادتی میں موت یاد آتی ہے تو وہ مال کو کم کر دیتی ہے (یعنی موت یاد آ جانے کی وجہ سے مال کی طرف کوئی رغبت نہیں رہتی اور مال کو فانی سمجھنے لگتا ہے اس لیے اس وقت زیادہ مال بھی نظروں میں حقیر ہو جانے کی وجہ سے کم ہی محسوس ہوتا ہے) اور جب مال کی کمی میں موت یاد آ جاتی ہے تو وہ مال کو زیادہ کر دیتی ہے (یعنی جب موت یاد آتی ہے تو دنیا کو فانی سمجھ کر کم مال پر قناعت کرتا ہے اس لیے تھوڑا مال بھی زیادہ معلوم ہونے لگتا ہے۔

اللہ سے حیا کرنے کا حق

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ  اللہ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کا حق ہے (یعنی جس طرح اللہ سے حیا کرنی واجب ہے) اور جس حیا کا وہ لائق ہے اس حیا کا حق ادا کرو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا جو حق ہے اس حق کو ادا کرو) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ ! ہم بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں (بایں طور کہ فی الجملہ اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرتے ہیں) اور تعریف اللہ کے لیے ہے (یعنی خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ توفیق عطا فرمائی ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  حیا کا حق یہ نہیں ہے جسے تم یہ کہتے ہو کہ ہم خدا سے حیا کرتے ہیں بلکہ (حیا کا حق تو یہ ہے کہ) جو شخص اللہ سے حیا کرنے میں حیا کا حق ادا کرے تو اسے چاہئے وہ سر کی اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی محافظت کرے اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی محافظت کرے اور اسے چاہئے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے، اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتا ہے لہٰذا جس شخص نے یہ (مذکورہ بالا ہدایت پر عمل) اس نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی اور حق حیا ادا کیا  احمد و ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

سر کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ سر جسے خدا نے شرف مکرمت سے نوازا ہے خدا کے علاوہ کسی اور کے کام نہ آئے۔ سر کو جسے خدا نے انسانی تقدس عطا فرمایا ہے انسان کے ہاتھوں تراشے گئے فانی بتوں اور خود انسانوں کے سامنے سجدہ ریز کر کے ذلیل نہ کیا جائے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی دینداری کا سکہ جمانے کے لیے نماز نہ پڑھی جائے۔ سر کو خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جھکایا نہ جائے اور سر کو از راہ غرور و تکبر بلند نہ کیا جائے۔

  سر کے ساتھ کی چیزوں سے مراد ہیں۔ زبان، آنکھ، اور کان اور ان چیزوں کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ ان اعضاء کو گناہ سے بچایا جائے، جیسے زبان کو غیبت میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ جھوٹ بولا جائے آنکھ سے نامحرم اور گناہ کی چیزیں نہ دیکھی جائیں اور کان سے کسی کی غیبت اور جھوٹ مثلاً کہانی وغیرہ نہ سنی جائے۔

  پیٹ کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور مشتبہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔

  پیٹ کے ساتھ کی چیزوں سے جسم کے وہ حصے اور اعضاء مراد ہیں جو پیٹ سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ستر، ہاتھ پاؤں اور دل وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جسم کے ان اعضاء اور حصوں کو بھی گناہ سے محفوظ رکھا جائے مثلاً ستر کو حرام کاری میں مبتلا نہ کیا جائے، گناہ و فواحش کی جگہ جیسے میلے، تماشے، ناچ گانے میں نہ جایا جائے کہ اس طرح پاؤں معصیت سے محفوظ رہیں گے ہاتھوں سے کسی کو کسی بھی طرح کی ایذاء نہ پہنچائی جائے۔ جیسے نہ کسی کو مارے پیٹے، نہ کسی کا مال چوری کر کے یا چھین کر لے اور نہ نامحرم کو ہاتھ لگائے، اسی طرح دل کو برے عقیدوں، گندے خیالات اور خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی یاد سے پاک رکھا جائے۔

 آخر میں انسان کے جسم خاکی کے فانی ہونے کا احساس دلایا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا چاہئے کہ آخرت کا ایک نہ ایک دن اس دنیا سے تعلق ہو جائے گا اور یہ فانی جسم خواہ کتنا ہی حسین و جمیل اور با عظمت کیوں نہ ہو قبر کی آغوش میں سلا دیا جائے گا جہاں گوشت تو گوشت ہڈیاں  تک بوسیدہ و خاک ہو جائیں گی۔

 پھر اس کے بعد آیت (ومن اراد الآخرۃ) الخ فرما کر ایک ضابطہ بیان فرما دیا گیا ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ دنیا فانی ہے وہ دنیا اور دنیا کی لذات و خواہشات کو ترک کر دیتا ہے، نیز یہ کہ جو شخص آخرت کے ثواب اور وہاں کی ابدی نعمتوں اور سعادتوں کی خواہش رکھتا ہے وہ دنیا کی ظاہری زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں پورے کمال کے ساتھ کسی ایک شخص میں یہاں تک کہ اولیاء میں بھی جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس حدیث کو لوگوں کے سامنے زیادہ سے زیادہ بیان کرنا، اس کی اشاعت کرنا اور اس کے مفہوم و مطالب سے عوام کو باخبر کرنا بڑی سعادت اور فضیلت کی بات ہے، چنانچہ نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو کثرت کے ساتھ ذکر و بیان کرنا مستحب ہے۔

موت تحفۂ مومن ہے

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا  مومن کا تحفہ موت ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ مومن کے حق میں موت اللہ تعالیٰ کی جانب سے بمنزلہ تحفہ ہے، کیونکہ مومن موت کے ذریعہ آ کر کے اجر و ثواب اور وہاں کے بلند درجات کو پہنچتا ہے۔

پیشانی کے پسینے کے ساتھ مرنے کا مطلب اور اس کی حقیقت

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مومن پیشانی کے پسینے کے ساتھ مرتا ہے (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ  پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرنا  جان کنی کی شدت سے کنایہ ہے جس کے سبب سے مرنے والے کے گناہ دور ہوتے ہیں اور آخرت میں اس کے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ بعضوں نے کہا ہے کہ یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ مومن تا دم مرگ حلال روزی کی طلب میں مشقت و محنت اٹھاتا ہے اور عبادت میں ریاضت و مجاہدہ کرتا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ  مرنے کے وقت پیشانی پر پسینہ آنا  سعادت و بھلائی کی علامت ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ  اس سے مراد یہ ہے کہ موت مومن کے لیے مشقت و شدت اور کرب و تکلیف کا سبب نہیں ہے سوائے اس کے کہ صرف اس کی پیشانی عرق آلود ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔

ناگہانی موت

حضرت عبیداللہ بن خالد راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ناگہانی موت (اللہ کے) غضب کی پکڑ ہے۔ (ابوداؤد) بیہقی نے شعب الایمان میں اور رزین نے اپنی کتاب میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ  غضب کی پکڑ کافر کے لیے ہے۔ مگر مومن کے لیے رحمت ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ناگہانی موت غضب خداوندی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کیونکہ اچانک موت واقع ہو جانے کی صورت میں مرنے والے کو اتنی بھی مہلت نہیں ملتی کہ سفر آخرت کی تیاری کرے بایں طور کہ توبہ و استغفار کر کے اپنے گناہوں کی بخشش چاہے اور نیک و صالح اعمال کر کے بارگاہ رب العزت میں سرخروئی حاصل کرے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ یہ یعنی ناگہانی موت کو غضب کی پکڑ فرمانا کافروں کے لیے ہے اور ان لوگوں کے لیے ہے جو نیک راستہ پر نہیں ہیں جیسا کہ حدیث کے آخری الفاظ سے کہ جسے بیہقی اور رزین نے نقل کیا ہے معلوم ہوتا ہے۔ گویا حاصل کلام یہ ہوا کہ ناگہانی موت اچھے و نیک لوگوں کے لیے اچھی چیز ہے اور برے و بدکار لوگوں کے لیے بری چیز ہے۔

موت کے وقت رحمت خداوندی کی امید

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جوان کے پاس تشریف لے گئے جو سکرات الموت میں مبتلا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  تم اپنے آپ کو کس حال میں پاتے ہو؟ (یعنی اس وقت آیا تمہارا دل رحمت خداوندی کی امید سے بھر پور ہے یا غضب خداوندی سے ہراساں و ترساں؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں (یعنی اپنے آپ کو رحمت خداوندی کا امید وار پاتا ہوں) لیکن اس کے باوجود اپنے گناہوں سے خوف زدہ (بھی) ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب ایسے وقت میں بندہ کے دل میں خوف و امید (دونوں) جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عنایت فرماتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے (یعنی اپنی رحمت) اور اسے اس چیز سے (یعنی عذاب سے) امن میں رکھتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے (ترمذی، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 ایسے وقت  سے مراد یا تو خاص طور پر سکرات الموت کا وقت ہے یا پھر ایسے اوقات بھی مراد ہیں جو سکرات الموت کے وقت کی طرح ہوتے ہیں جن میں انسان حکما بالکل موت کے کنارے پر ہوتا ہے جیسے لڑائی کا وقت یا قصاص کا وقت یا اسی قسم کے دوسرے اوقات۔

نیک اعمال میں زیادتی کے لیے درازی عمر باعث سعادت ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ جان کنی کا خوف سخت ہے، بیشک یہ نیک بختی ہے کہ بندہ کی عمر دراز ہو اور اللہ تعالیٰ اسے طاعات کی طرف پھیر دے (احمد)

 

تشریح

 

مطلع اس بلند جگہ کو کہتے ہیں جس پر چڑھ کر کسی چیز کو دیکھتے ہیں یہاں حدیث کے الفاظ میں  مطلع سے مراد سکرات الموت اور اس کی سختی ہے کہ پہلے انسان اس میں گرفتار ہوتا ہے پھر مرتا ہے۔

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ موت کی آرزو میں کوئی فائدہ اور نیک بختی نہیں ہے، جو شخص موت کی آرزو کرتا ہے وہ غم و آلام کی سختی دل شکستگی اور صبر و عزم کی کمی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے لہٰذا مرتے وقت اس کا غم اور اس کی دل شکستگی و مایوسی اور زیادہ ہو گی اور ایسے میں غضب خداوندی کا مستحق بھی ہو گا اس لیے موت کی آرزو سے کیا فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بے صبری اور دل شکستگی و مایوسی کی وجہ سے موت کی آرزو ممنوع ہے ہاں دیدار الٰہی کے اشتیاق و شوق اور عالم آخرت کی محبت کی وجہ سے موت کی آرزو جائز ہے۔

 حدیث کے الفاظ ان من السعادۃ سے آرزوئے موت کی ممانعت کی دوسری علت یہ بیان فرمائی جا رہی ہے کہ موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت تو خود ایک نہ ایک دن آنے ہی والی ہے، دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو غنیمت جانو اور اس زندگی میں آخرت کے لیے جو کچھ توشہ تیار کر سکتے ہو کر لو، یعنی نیک اعمال کئے جاؤ تاکہ جب موت آ ہی جائے اور تم اس دنیا سے دارالبقاء کو سدھارو تو تمہارا دامن نیک و صالح اعمال کی سعادت سے بھرپور ہو۔ الدنیا مزرع الآخرۃ یعنی یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، یہاں نیک اعمال کرو گے تو وہاں کام آئیں گے۔

نیک اعمال میں زیادتی کے لیے درازی عمر باعث سعادت ہے

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پند و نصیحت فرمائی اور (آخرت کا خوف دلا کر) ہمارے دلوں کو نرم کر دیا، چنانچہ حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بہت روئے اور پھر کہنے لگے کہ کاش میں بچپن ہی میں مر جاتا (تو گنہگار نہ ہوتا اور عذاب آخرت سے نجات پاتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ  سعد ! کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ الفاظ تین بار کہے اور پھر ارشاد فرمایا  سعد! اگر تم جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہو تو تمہاری عمر جس قدر دراز ہو گی اور جتنے اچھے اعمال ہوں گے اسی قدر تمہارے لیے بہتر ہو گا  (احمد)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کیا تم میرے سامنے موت کی آرزو کرتے ہو؟ کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد تو موت کی آرزو کے لیے کوئی وجہ ہو سکتی ہے مگر میرے ہوتے ہوئے موت کی آرزو کیسی؟ کیوں کہ میرے جمال با کمال کا دیدار اور میری صحبت کا شرف عظیم تمہارے لیے ہر نعمت سے بہتر اور اعلیٰ ہے اگرچہ میرے سامنے مرنے کے بعد تمہیں وہاں کے اعلیٰ مراتب اور نعمتیں ہی کیوں نہ حاصل ہوں، اور اس میں کیا شک کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روئے مقدس اور چہرہ مبارک کے دیدار کے مرتبہ عظیم کو اور کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی۔ ایک مرد عارف سے کسی شخص نے پوچھا کہ مؤمن کے لیے جینا بہتر ہے یا مرنا؟ اس نے عارفانہ جواب دیا  زمانہ نبوت میں جب کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال جہاں کے دیدار کی نعمت عظمیٰ حاصل تھی مومن کے لیے جینا بہتر تھا اور اب ان کے بعد تو مرنا ہی بہتر ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کے بعد دوسری شق ذکر نہیں فرمائی گئی ہے جو گویا یہاں محذوف ہے اور وہ یہ ہے کہ (وان کنت خلقت للنار فلا خیر فی موتک ولا یحسن السراع الیہ)۔ یعنی اور اگر تم (نعوذ باللہ) آگ کے لیے پیدا کیے گئے ہو تو جب بھی نہ مرنے میں بھلائی ہے اور نہ موت کے لیے جلدی کرنی اچھی بات ہے۔

حضرت خباب کا واقعہ

حضرت حارثہ بن مضرب (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ (وہ بیمار تھے) اور انہوں نے اپنے بدن پر سات جگہ داغ لگوائے تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ  اگر میں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی نہ سنا ہوتا  تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ اپنے تئیں دیکھا ہے میں ایک درہم کا مالک بھی نہیں تھا اور اب یہ حال ہے کہ میرے گھر کے کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں حضرت حارثہ فرماتے ہیں پھر حضرت خباب کے پاس ان کا کفن لایا گیا (جو بہت اعلیٰ اور نفیس تھا) انہوں نے جب اسے دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا کہ اگرچہ یہ کفن جائز ہے (لیکن) حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو (پورا) کفن نہیں ملا صرف ایک سیاہ اور سفید دھاری والی چادر تھی اور (وہ بھی اتنی چھوٹی تھی) جب ان کے سر پر اوڑھائی جاتی تو پیر کھل جاتے تھے اور جب ان کے پیر پر ڈالی جاتی تھی تو سر کھل جاتا تھا۔ آخر کار اس چادر سے سر کو ڈھانک دیا گیا اور پیروں کو  اذخر سے چھپایا گیا  اس روایت کو احمد اور ترمذی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی نے ثم اتی بکفنہ سے آخر تک الفاظ نقل نہیں کیے ہیں۔

 

تشریح

 

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں پہلے اسلام لانے والوں میں شمار کیے جاتے تھے یہی وہ مرد حق آگاہ ہیں جنہوں کفار کے طلم و ستم کے اس خشمگین ماحول میں سب سے پہلے اپنے اسلام کا اظہار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے انتہا تکلیف و سختیوں اور ظلم ستم میں مبتلا کیے گئے حضرت خباب بدر اور دوسرے جہادوں میں شریک ہوئے ہیں اور ٤٣ھ میں واصل بحق ہوئے۔ رضی اللہ عنہ۔

  بدن پر داغ لگوانے اس زمانہ میں بہت سے امراض میں ایک معروف علاج تھا۔ ایک موقع پر اس سے منع فرمایا گیا ہے مگر بعض علماء نے وضاحت کی ہے کہ یہ ممانعت اس لیے فرمائی گئی تھی کہ اس طریقہ علاج کو اختیار کرنے والے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اس سے شفا ہوتی ہے لہٰذا اگر یہ صورت نہ ہو بلکہ اعتقاد یہ ہو کہ یہ طریقہ علاج تو صرف ایک ظاہر سبب کے درجہ میں ہے شفا دینے والا اللہ ہی ہے تو پھر اس طریقہ علاج کو اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یا یہ کہا جائے گا کہ یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب کہ فی الواقع اس طریقہ علاج کی ضرورت و حاجت نہ ہو۔

 حضرت خباب کی طرف سے آرزوئے موت یا تو اس لیے تھی کہ وہ اس مرض کی شدت سے کہ جس کے لیے انہوں نے داغ لگوائے تھے بہت زیادہ بے قرار و بےتاب تھے یا پھر اس کی وجہ ان کی تونگر اور مالداری تھی کہ ان کا یہ احساس تھا کہ مال و زر یہ افراط و بہتات کہیں میرے پائے استقامت میں کوئی لغزش پیدا نہ کر دے جس کی وجہ سے میں آخرت کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤں اور یہی وجہ زیادہ صحیح ہے کیونکہ ان کے یہ الفاظ ولقد رایتنی الخ اس پر دلالت کرتے ہیں۔

 حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ عبدالمطلب کے صاحبزادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا تھے، جنگ احد میں آپ نے شہادت پائی اور سیدالشہدا کے لقب سے یاد فرمائے گئے۔

  اذخر وہاں کی ایک گھاس کا نام ہے جو خوشبودار ہوتی ہے۔ یہ گھاس چھت کے تختوں پر بچھائی جاتی ہے اور دوسری بہت سی ضروریات میں بھی استعمال کی جاتی ہے۔

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر کرنے والا مفلس و تنگ دست، شکر کرنے والے مالدار سے افضل ہے کیونکہ حضرت خباب جیسے جلیل القدر صحابی نے اپنے حال پر کہ انہیں مالداری و تونگری حاصل تھی اور ظاہر ہے کہ ان کے شاکر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں تھا۔ تاسف کیا۔