فقرا فقیر کی جمع ہے جس کے معنی ہی مفلس، محتاج، غریب اور فضیلت سے مراد اجر و ثواب کی کثرت ہے۔ لہٰذا فقرا کی فضیت کے بیان کا مطلب ان احادیث کو نقل کرنا ہے جن سے یہ واضح ہو گا کہ جو لوگ اپنی غربت و افلاس اور محتاجگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے متعلقین کی معاشی زندگی کی سختیوں کو صبر و سکون کے ساتھ جھیلتے ہیں اور تمام مشکلات کا مقابلہ نہایت عزم و استقلال کے ساتھ کرتے ہوئے توکل و قناعت اختیار کرتے ہیں اور تقدیر الٰہی پر راضی و شاکر رہتے ہیں ان کو کتنا زیادہ اجر و ثواب ملتا ہے اور وہ آخرت میں کتنا بڑا درجہ پائیں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معاشی زندگی' سے مراد آپ کے کھانے پینے، رہن سہن اور بسر اوقات کا وہ معیار اور طور طریقہ ہے جو غربا اور فقرا کا ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ جس کو کفات (بقدر ضرورت) کہا جا سکتا ہے، عنوان بالا میں فقرا کی فضیلت اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معاشی زندگی کو ایک ساتھ ذکر کرنے اور دونوں سے متعلق احادیث و مضمون کو ایک باب میں نقل کرنے میں جو خاص حکمت ہے وہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اکثر انبیا اولیا کی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معیار زندگی اور بسر اوقات بھی غربا و فقرا کی طرح تھا، یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوشحال زندگی اختیار کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود اپنی زندگی اس طرح بسر کرتے تھے جس طرح کوئی غریب و مفلس شخص بسر کرتا ہے اور اپنے متعلقین کی کفالت اسی تنگی اور سخت کوشی و جانکاہی کے ساتھ کرتے تھے جو غریب و نادار لوگوں کا معمول ہے، چنانچہ غریب و نادار مومن کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے یہی بات بہت کافی ہے۔
واضح رہے کہ اس بارے میں علما کے اختلافی اقوال ہیں کہ صبر و رضا اختیار کرنے والا غریب و مفلس سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا شکر گزار غنی و خوشحال شخص؟ چنانچہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ شکر گزار غنی زیادہ فضیلت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ سے اکثر وہ چیزیں عمل میں آتی ہیں جو صدقہ و خیرات اور مالی انفاق و ایثار یعنی زکوٰۃ قربانی اور نیک کاموں میں خرچ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ قرب و نزدیکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں نیز حدیث میں بھی اغنیا کی تعریف میں یوں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آیت(ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشا) یعنی یہ مال و دولت اللہ تعالی کا فضل ہے، جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اکثر حضرات یہ فرماتے ہیں کہ صبر کرنے والا غریب و مفلس زیادہ فضیلت رکھتا ہے جس کی ایک سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ خود حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معیار زندگی اغنیا کے مطابق نہیں تھا بلکہ غربا اور مفلسوں کی طرح تھا نیز اس باب میں جو احادیث منقول ہوں گی وہ سب بھی ان حضرات کے قول کی دلیل ہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ اس اختلافی اقوال کا تعلق دراصل مطلق فقر اور غنا کی حقیقت و ماہیت سے ہے اور اس کا اعتبار بھی وجوہ کے مختلف ہونے پر ہے۔
چنانچہ ایک شخص کے حق میں کبھی تو غنا یعنی دولتمندی، خیر و بھلائی کا باعث بن سکتی ہے اور کبھی اس کا فقیر و مفلس ہونا ہی اس کے حق میں بہتر ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ پر مہربان ہوتا ہے تو اس کو وہی چیز دیتا ہے جو اس کے حق میں صلاح و فلاح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ خواہ فقر ہو یا غنا، اور خواہ صحت ہو یا تندرستی! یہی حکم کہ اختلاف وجوہ کی بنا پر ایک ہی چیز کبھی افضل ہو سکتی ہے اور کبھی مفضول ان تمام صفات کا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
حضرت شیخ المشائخ سید محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ صبر کرنے والا مفلس بہتر ہے یا شکر گزار دولتمند؟ تو انہوں نے فرمایا کہ شکر گزار فقیر دونوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے اس جواب کے ذریعہ گویا فقر و افلاس کی فضیلت کی طرف اشارہ فرمایا کہ فقر افلاس درحقیقت ایک نعمت ہے کہ اس پر شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ وہ کوئی مصیبت و بلا ہے جس پر صبر کیا جائے، شیخ عالم عارف ربانی اور ولی اللہ حضرت عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ اپنے شیخ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ انہوں نے جب تک ہم سے فقر و افلاس کی فضیلت کا اقرار و اعتراف نہیں کرا لیا اس وقت تک ہمیں بیعت نہیں کیا، چنانچہ فرمایا کہ اس طرح کہو الفقر افضل من الغنا فقر و افلاس، غنا سے بہتر ہے جب ہم نے اس بات کو دہرایا تب انہوں نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہمیں مرید کہا۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ اصلاح شریعت میں فقیر کا وہ مفہوم مراد نہیں ہوتا جو عام طور پر معروف ہے یعنی گدا گر بھکاری اور منگتا، بلکہ اس لفظ سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جس کو عرف عام میں غریب و مفلس کہا جاتا ہے اور جو مال و اسباب سے تہی دست ہوتا ہے اسلام کی مذہبی کتابوں اور احکام و مسائل میں ایسے شخص کے لئے عام طور پر دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک تو فقیر دوسرے مسکین، چنانچہ بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ فقیر کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو نصاب یعنی اس قدر مال و اسباب کا مالک نہ ہو جس کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ و فطرہ واجب ہوتا ہو، یا اس شخص کو فقیر کہا جاتا ہے جو بس ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر مال و اسباب رکھتا ہو اور اس سے زائد اس کے پاس اور کچھ نہ ہو جب کہ مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جو نہ صرف یہ کہ نصاب کا مالک نہ ہو بلکہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو یہاں تک کہ وہ ایک دن کی غذائی ضروریات کے بقدر بھی مال و اسباب نہ رکھتا ہو، اور بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے۔ بہرحال عنوان میں جو لفظ فقرا استعمال کیا گیا ہے اس سے فقیر اور مسکین دونوں مراد ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بظاہر تو پرا گندہ بال اور غبار آلود (یعنی نہایت خستہ حال اور پریشان صورت) نظر آتے ہیں جن کو (ہاتھ یا زبان کے ذریعہ) دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے لیکن وہ (خدا کے نزدیک اتنا اونچا درجہ رکھتے ہیں کہ) اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم کھا لیں تو اللہ ان کی قسم کو یقیناً پورا کرے۔ (مسلم)
تشریح
جن کو دروازوں سے دھکیلا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ واقعتاً دنیا داروں کے دروازوں پر جاتے ہیں ان کو وہاں سے دھکیلا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ خدا کے لئے دنیا کی ظاہری زینت و عزت کی چیزوں سے دور رہتے ہیں، ان کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ کوئی ایسا کام کریں گے جس سے ذلت اٹھانا پڑے، بلکہ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ اولیا اللہ کی روحانی عظمتوں کا راز ان کی شکستہ حالی میں پوشیدہ ہوتا ہے اور ان کا ظاہر، ان کے باطن کا اس حد تک سرپوش ہوتا ہے کہ اگر بالفرض وہ کسی کے گھر جانا چاہیں تو لوگوں کی نظر میں ان کی کوئی قدر و منزلت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دروازہ ہی پر روک دیا جائے مکان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ جب وہ دروازوں سے دھکیلے جا سکتے ہیں تو ان کو مجلسوں اور محفلوں میں آنے سے بطریق اولی روکا جا سکتا ہے اور اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ ان کی حقیقت لوگوں پر ظاہر ہو اور وہ ایسی حالت میں رہیں جس سے لوگ ان کی طرف مائل و ملتفت ہوں، تاکہ ان کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے کوئی انس و رغبت نہ ہو۔ پس حقیقت میں اللہ تعالی ان پاک نفس بندوں کو دنیا داروں اور ظالموں کے دروازوں پر کھڑے رہنے اور ان کے حرام مال کے کھانے پینے سے محفوظ رکھتا ہے، جیسا کہ کوئی شخص اپنے مریض کو اب و ہوا اور نقصان دہ غذاؤں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ لوگ اپنے مولیٰ کے در کے علاوہ اور کسی دروازے پر حاضری نہیں دیتے اور اپنے کمال استغنا اور بے نیازی کی وجہ سے اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔
اور اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اللہ پر اعتماد کر کے اور اس کی قسم کھا کر یہ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا یا فلاں کام نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا کرتا ہے بایں طور کہ ان کے کہنے کے مطابق اس کام کو کرتا ہے یا نہیں کرتا، جیسا کہ باب الدیت میں اس کے متعلق ایک روایت گزر چکی ہے حاصل یہ کہ وہ لوگ اگرچہ اپنی ظاہری حالت کی وجہ سے دنیا داروں کی نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے مگر حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ اتنا بلند اور اس کی بارگاہ میں ان کی عزت و مقبولیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو سچا کرتا ہے اور ان کی قسم پوری کرتا ہے یعنی وہ بات پوری ہو کر رہتی ہے۔
حضرت مصعب بن سعد تابعی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ (میرے والد) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے بارہ میں یہ گمان کیا کہ وہ اس شخص سے افضل ہیں جو ان سے کمتر ہے (یعنی ضعیف و ناتواں شخص یا فقیر و مفلس، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان کا یہ گمان ختم کرنے اور دوسروں کو آگاہ کرنے کے لئے) فرمایا۔ تمہیں (دشمنان دین کے مقابلہ پر) مدد و سہارا اور رزق کن لوگوں کی برکت سے ملتا ہے انہی کی برکت سے جو ضعیف و ناتواں اور غریب و نادار ہیں (بخاری)
تشریح
حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت سے اوصاف اور خوبیوں کے مالک تھے، مثلاً شجاعت (دلاوری) جود و کرم، اور سخاوت، فیاضی جیسے اعلیٰ اوصاف ان میں بدرجہ اتم تھے، چنانچہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ جو لوگ مجھ جیسی خصوصیات اور خوبیاں نہیں رکھتے ان کی بہ نسبت میں مسلمانوں کی زیادہ مدد و اعانت کرتا ہوں، اور اس اعتبار سے اسلام کے لئے میرا وجود زیادہ فائدہ مند ہے ذہن کی یہ بات زبان بھی آ گئی ہو گی، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے اس گمان سے ان کو باز رکھا اور واضح فرمایا کہ تمہارا اس انداز سے سوچنا غیر مناسب بات ہے تمہیں چاہئے کہ جو لوگ طاقت و قوت اور مال و دولت کے اعتبار سے تم سے کمتر ہیں ان کی عزت کرو، انہیں کمتر و حقیر نہ سمجھو اور ان کے تئیں تکبر و نخوت کا رویہ اختیار نہ کرو کیونکہ وہ لوگ بڑے شکستہ دل اور مسکین ہوتے ہیں، ان میں خلوص و سچائی کا جوہر ہوتا ہے، ان پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہوتی ہے اور تم انہی کی دعاؤں کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہو، خدا انہی کے طفیل تمہیں دشمنوں پر غالب کرتا ہے اور تمہارے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمانے لگے کہ میں (معراج کی رات، یا خواب میں، یا حالت کشف میں) جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تھا (میں نے دیکھا کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوئے ہیں ان میں زیادہ تعداد غریبوں کی ہے، اور مالداروں کو قیامت کے میدان میں روک رکھا گیا ہے۔ البتہ اصحاب نار یعنی کافروں کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا ہے اور جب میں دوزخ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو دیکھا کہ جو لوگ دوزخ میں ڈالے گئے ہیں ان میں زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
محبوسون کے معنی ہیں وہ لوگ جن کو جنت میں جانے سے روک دیا گیا ہے حاصل یہ کہ مومنین میں سے جو لوگ اس فانی دنیا میں مالداری و تمول، اور جاہ و منصب کی وجہ سے عیش و عشرت کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہیں ان کو جنت میں جانے سے اس وقت تک کے لئے روکا رکھا جائے گا، جب تک ان سے اچھی طرح حساب نہیں لیا جائے گا، چنانچہ اس وقت وہ لوگ اس بات سے سخت رنج و غم محسوس کریں گے کہ انہیں دنیا میں مال و زر کی کثرت اور جاہ و منصب کی وسعت کیوں حاصل ہوئی، اور وہ اپنی خواہشات نفس کے مطابق دنیاوی لذات و عشرت سے کیوں بہرہ مند ہوئے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر ان سے ان دنیاوی امور کا ارتکاب ہوا ہو گا جن کو حرام قرار دیا گیا ہے تو وہ عذاب کے مستوجب ہوں گے اور اگر انہوں نے محض ان چیزوں کو اختیار کیا ہو گا جن کو حلال قرار دیا گیا ہے تب بھی انہیں حساب و کتاب کے مرحلہ سے بہرحال گزرنا پڑے گا، جب کہ فقرا و مفلس لوگ اس سے بری ہوں گے کہ نہ تو ان سے حساب لیا جائے گا اور نہ انہیں جنت میں جانے سے روکا جائے گا بلکہ وہ مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں چلے جائیں گے اور ان کا مالداروں سے پہلے جنت میں جانا گویا ان نعمتوں کے عوض میں ہو گا جن سے وہ دنیا سے محروم رہے ہوں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر تعداد غریبوں اور نادار لوگوں کی نظر آئی اور دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی نظر آئی (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فقرا، مہاجرین قیامت کے دن جنت میں اغنیا (مال داروں) سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے (مسلم)
تشریح
چالیس سال سے مراد وہ عرصہ ہے جو ہماری اس دنیا کے شب و روز کے اعتبار سے چالیس سال کے بقدر ہوتا ہے اور اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق خاص طور پر انہی فقرا سے ہے جو مہاجرین میں سے تھے۔ اس طرح اغنیا سے مراد بھی اغنیائے مہاجرین ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہاں فقرا اور اغنیا کے ساتھ مہاجرین کی قید کیوں لگائی گئی ہے تو اس کی حقیقت دوسری فصل کی پہلی حدیث سے معلوم ہو گی۔ نیز جنت میں فقرا کے پہلے داخل ہونے کی وجہ ہو گی اغنیا تو حساب کی طوالت کی وجہ سے میدان حشر میں رکے رہیں گے، جب کہ فقرا حساب کے بغیر جنت میں داخل ہو کر وہاں کی سعادتوں اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونے لگیں گے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے ایک شخص گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر) اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جو شخص گزرا ہے اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، یعنی یہ کوئی اچھا شخص ہے یا برا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ شخص نہایت معزز اور شریف ترین لوگوں میں ہے، بخدا، اس شخص کی حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا پیغام بھیجے تو اس عورت سے اس کا نکاح ہو جائے، اور اگر (کسی حاکم و سردار سے کسی شخص کے بارے میں کوئی سفارش کرے تو اس کی سفارش مان لی جائے، راوی حضرت سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یہ جواب سن کر) خاموش رہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص سامنے سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسی شخص سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص نادار، قلاش مسلمانوں میں سے ہے، اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی وہ بات سننے پر کوئی تیار نہ ہو (یعنی یہ شخص اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے اتنی قدر و منزلت بھی نہیں رکھتا کہ کوئی شخص اس کی بات سننے پر آمادہ ہو جائے اور اس کی طرف التفات و توجہ کرے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سنا تو فرمایا۔ (نادان) یہ شخص (کہ جس کو تم نے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ایک بے حیثیت انسان سمجھا ہے) اس شخص جیسے لوگوں سے ہری زمین سے بھی کہیں بہتر ہے (جس کی تم نے تعریف کی ہے) (بخاری و مسلم)
تشریح
اس شخص جیسے لوگوں سے بھری زمین الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام روئے زمین اس شخص جیسے لوگوں سے بھر جائے جو پہلے یہاں سے گزرا تھا اور جس کی تعریف و توصیف میں تم رطب اللسان ہوئے تھے تو وہ ایک شخص کہ جو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے تمہاری نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے مرتبہ و فضیلت کے اعتبار سے اس تمام روئے زمین سے کہیں بہتر قرار پائے گا ۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں اشخاص کے بارے میں سوال کیا تھا وہ خود کوئی غنی اور مال دار شخص ہوں گے، لہٰذا ان کے ساتھ مذکورہ سوال و جواب گویا ان کے حق میں یہ تنبیہ تھی کہ غریب و نادار مسلمانوں کو بنظر حقارت نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ خدا کے نزدیک ان کو جو فضیلت حاصل ہے وہ بڑے بڑے مالداروں کو بھی حاصل نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مالدار مسلمانوں کے مقابلہ پر غریب و نادار مسلمان کی اس درجہ فضیلت کیوں بیان فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر غریب و نادار مسلمان کا دل بہت صاف ہوتا ہے اور اس کے سبب وہ حق کو بہت جلد قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی بہت زیادہ کرتا ہے، اس کے برخلاف غنی و مالدار لوگ عام طور پر بے حسی اور شقاوت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سرکشی وبے نیازی اور تکبر کا وہ مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو انہیں قبول حق اور احکام خداوندی کی پیروی سے باز رکھتا ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آیت(سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ) 7۔ الاعراف:146) اور اس حقیقت کا اندازہ علما کے شاگردوں اور صلحا و مشائخ کے مریدوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں وہ حق بات کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور جو لوگ صاحب ثروت و مالدار ہوتے ہیں وہ ہر بات میں حیل و حجت کرتے ہیں۔
حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پہلے گزرنے والا شخص بھی مالدار مسلمانوں میں سے تھا نہ کہ کوئی کافر تھا کیونکہ مفاضلہ (یعنی آپس میں ایک دوسرے کی اخروی فضیلت کو ظاہر کرنے) کا تعلق کفار و مسلمین کے مابین ہو ہی نہیں سکتا (یعنی کسی مسلمان اور کسی کافر کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ اخروی اجر و ثواب کے اعتبار سے ان میں سے کون شخص زیادہ افضل ہے) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار میں سے کسی بھی شخص کی طرف سرے سے خیر (یعنی اخروی سعادت و بھلائی کی نسبت کی ہی نہیں جا سکتی (اور ظاہر ہے کہ جس شخص میں خیر سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو سکتا ہو اس کی طرف اخروی فضیلت کی نسبت بھی کسی طرح نہیں کی جا سکتی چنانچہ بعض علما نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس مسلمان نے اپنی اپنی زبان سے یوں کہا کہ النصرانی خیر من الیہودی (یعنی عیسائی یہودی سے افضل ہے) تو اس کے بارے میں خوف ہے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل نہ ہو گیا ہو کیونکہ اس نے اس جملہ کے ذریعہ گویا ان لوگوں میں خیر کا وجود ثابت کیا جن میں سرے سے خیر کا وجود ہی نہیں ہو سکتا، تاہم اس پر کفر کا اطلاق، جزم کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بعض موقعوں پر لفظ کے ذریعہ (اخروی سعادت و بھلائی کے بجائے) حق کے زیادہ قریب کا مفہوم بھی مراد لے لیا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ مذکورہ جملہ ادا کرنے والے نے لفظ خیر کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات اور متعلقین) نے دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ بھرا ہو (چہ جائیکہ گیہوں کی روٹی سے) یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے (بخاری و مسلم)
تشریح
دو روز مسلسل سے یہ واضح ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اہل بیت کا معمول یہی تھا کہ اگر ایک دن پیٹ بھر کر کھایا تو دوسرے دن بھوکے رہے، اور یہ اس وجہ سے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوشحالی و ترفہ کی زندگی پر فقر و افلاس کی زندگی کو ترجیح دی تھی، اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دنیا بھر کے خزانوں کی پیش کش ہوئی اور حکم ہوا اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہیں تو مکہ کے پہاڑوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے سونے میں تبدیل کر دیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا بھر کے خزانوں اور سونے کے پہاڑوں کو تبدیل کرنے کے بجائے فقر اور تنگدستی ہی کو اختیار کیا اور فرمایا کہ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھروں اور ایک دن بھوکا رہوں، تاکہ جس دن پیٹ بھروں اس دن خدا کا شکر ادا کروں اور جس دن بھوکا رہوں اس دن صبر کروں۔
مذکورہ بالا حدیث سے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی زندگی کے آخری حصہ میں غنی و مالدار ہو گئے تھے، کیونکہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی آخری عمر میں واقعتاً غنی ہو گئے تھے تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس کہنے کے کیا معنی ہوں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات تک یہی معمول رہا کہ انہوں نے کبھی مسلسل دو دن تک جو کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا؟ ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آخری زمانہ نبوی میں اسلام کو طاقت اور غلبہ ملا اور مجاہدین اسلام نے مختلف علاقوں کو فتح کیا تو اس صورت میں مال غنیمت کا مقررہ حصہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی ملا، اور تھوڑا بہت مال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتا رہا مگر روایات صحیحہ شاہد ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مال کو بھی اپنے پاس کبھی نہیں رکھا، بلکہ جس طرح آتا اسی طرح اس کو اپنے پروردگار کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کر دیتے اور خود ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ جاتے، البتہ دل کا غنا اور بڑھ جاتا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت یہ تھی کہ مسلسل کئی کئی راتیں بھوک میں گزار دیتے تھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت کو رات کا کھانا میسر نہیں ہوتا تھا اور وقتاً فوقتاً کھانا میسر ہونے کی صورت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دسترخوان پر عام طور سے جس چیز کی روٹی ہوتی تھی وہ جو تھا۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے زمانہ کے غریب و نادار لوگوں اور فقرا میں سے کوئی بھی شخص اتنی سخت زندگی نہ تو گزاتا ہے اور نہ گزار سکتا ہے جتنی سخت زندگی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گزارتے تھے، اور یہ شان اس ذات گرامی کی تھی جو نہ صرف افضل البشر بلکہ افضل الانبیا ہے جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر دنیا بھر کی نعمتیں اس کے قدموں میں آ سکتی تھیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس طرز زندگی میں غریب و نادار مسلمانوں کے لئے بڑی تسلی و اطمینان کا سامان پوشیدہ ہے۔
واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اس قدر فقر و افلاس کی زندگی گزارنا اور بھوک کی صعوبت کو برداشت کرنا کوئی اضطرار و مجبوری کے درجہ کی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اپنے قصد و اختیار کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ دنیا کی لذات اور نعمتوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، قوت لایموت پر قناعت کرتے اور اپنی اور اپنے اہل بیت کی ضروریات پر فقرا و مساکین اور دیگر ضرورت مندوں کی ضروریات کو ترجیح دے کر ایثار نفس پر عمل پیرا تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی سخت زندگی گزارتے تھے۔
حضرت سعید مقبری تابعی رحمۃ اللہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے (جو ایک جگہ کھانے کے دسترخوان پر جمع تھے) اور ان کے سامنے بھنی ہوئی بھری بکری رکھی تھی۔ انہوں نے (کھانے کے لئے) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلایا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور (اپنے نہ کھانے کے عذر میں) فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کی روٹی سے بھی اپنا پیٹ نہیں بھرا لہٰذا یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے کہ میں بھنی بکری جیسی لذیذ غذا سے اپنا پیٹ بھروں جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پیٹ بھر جو کی روٹی بھی میسر نہ ہوتی تھی۔ (بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جو کی روٹی اور ایسی چربی لے کر آئے جو زیادہ دن رکھی رہنے کی وجہ سے بدبو دار ہو گئی تھی۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ایک مرتبہ) اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھ کر اس سے اپنے اہل بیت کے لئے کچھ جو لئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے نے یہ بھی بیان کیا کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہل بیت کی ایسی کوئی شام نہیں ہوتی تھی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا کوئی اور غلہ رہتا ہو جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نو بیویاں تھیں۔ (بخاری)
تشریح
روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اہل بیت کے لئے کسی رات میں آنے والے دن کے لئے کسی طرح کا غلہ رکھ چھوڑا ہو باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نو بیویاں تھیں اور ان کی غذائی ضروریات کے لئے تھوڑا بہت غلہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہاں رہنا چاہئے تھا۔
جہاں تک ایک یہودی سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرض لینے کی بات ہے تو اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مسلمان سے قرض لیتے تو مسلمان پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حال ظاہر ہوتا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کو ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ضروریات زندگی کا بار مسلمانوں کے کاندھوں پر پڑے اور وہ خواہ خوشی یا کسی گرانی کے ساتھ اور شرم حضوری میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ دیں۔ لیکن یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کسی مسلمان کی بجائے ایک یہودی سے قرض لینا دراصل اس بات سے انتہائی تنزہ اور کامل احتیاط کے پیش نظر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی امت کے لوگوں سے کسی اجر و معاوضہ کے طلب گار ہوں خواہ وہ اجر و معاوضہ کے اعتبار سے نہ ہو بلکہ محض صورۃً ہو جیسا کہ مثلاً قرض کی صورت، کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی مسلمان سے قرض لیتے تو اس پر اجر و معاوضہ کا اطلاق نہ ہوتا، مگر ممکن تھا کہ کسی نہ کسی درجہ میں نفع اٹھانے کی وجہ سے اس پر بھی صورتاً اجر و معاوضہ کا اطلاق ہو جاتا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احتیاطا اس کو بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی مسلمان سے قرض ہی کی صورت میں کوئی مالی فائدہ حاصل کریں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت(قل لا اسالکم علیہ من اجر ان اجری الاّ علی اللہ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس کامل احتیاط کی ایک نظیر ہمارے امام، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی زندگی میں بھی ملتی ہے، چنانچہ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی دیوار کے سایہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتے تھے جس پر ان کا کوئی قرض ہوتا تھا اور ان کی یہ احتیاط اس حدیث کے پیش نظر ہوتی تھی کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا (یعنی جو بھی قرض کوئی منفعت کھینچ کر لائے وہ سود ہے)۔
مذکورہ بالا حدیث کے ضمن میں ایک اشکال واضح ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بعض صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرات کے بقدر کفایت لازمی ضروریات کی بعض چیزیں ایک سال کے لئے اکٹھا بھروا کر رکھ دی تھیں، جب کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس سے اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے؟ اس کا جواب علما یہ بیان کرتے ہیں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ شروع میں بہت کافی عرصہ تک، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معاشی زندگی پر فقر کا زیادہ غلبہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس معمول پر قائم تھے کہ کبھی کسی چیز کا ایک دن کے لئے بھی ذخیرہ نہیں کیا، جس دن جو کچھ میسر ہو گیا وہ اس دن کی غذائی ضروریات میں کام آ گیا، اگلے دن کے لئے قناعت و توکل کے علاوہ کچھ پاس نہیں رہا، ہاں بعد میں جب معاشی حالت کچھ بہتر ہوئی اور آمدنی میں کچھ وسعت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ازواج مطہرت کے لئے ایک سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ کہ جو حد کفایت سے متجاوز نہیں تھا، اکٹھا بھروا دیا تھا۔ بعض حضرات نے ان دونوں طرح روایتوں میں اس طور پر مطابقت پیدا کی ہے کہ اٰل محمد میں لفظ آل زیادہ ہے جیسا کہ اہل عرب کے اسلوب کلام میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ (آل فلاں) بول کر اس کے لفظی معنی ((فلاں کے اہل بیت)) کے بجائے صرف اس فلاں کی ذات کو مراد لیتے ہیں مثلاً اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ آل زید (یعنی زید کے گھر والوں) کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں تو اس جملہ سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ خاص طور پر زید کے پاس چند روپے بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا یہ بات بعید از حقیقت نہیں ہو سکتی کہ کبھی بھی دو روز مسلسل جو کی روٹی سے پیٹ نہ بھرنے یا اگلے دن کے لئے غلہ وغیرہ جمع نہ رکھنے کی بات خاص طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مبارک سے تعلق رکھتی ہو یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلسل دو دن تک پیٹ بھر کر نہ کھایا ہو یا خاص اپنی ذات کے واسطے آنے والے ایک آدھ دن کے لئے رکھ چھوڑا ہو، ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کبھار ایسا کیا ہو کہ اپنی ازواج مطہرات کے لئے کچھ دنوں یا ایک آدھ سال کی غذائی ضروریات کے بقدر غلہ وغیرہ بھروا کر رکھ دیا ہو تو یہ اس بات کے منافی نہیں ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھجور کے پات کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن مبارک اور چٹائی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ نہیں تھا جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلوئے مبارک پر چٹائی نے بدھیاں ڈال دی تھیں، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مبارک کے نیچے جو تکیہ رک رکھا تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے (سرکار دو عالم کو اس حالت میں دیکھ کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ تعالیٰ سے دعا کیوں نہیں فرماتے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کو مالی وسعت و فراخی عطا فرمائے ؟ فارس اور روم کے لوگوں کو کس قدر وسعت و فراخی عطا کی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی نہیں کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابن خطاب! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ کیا تم ابھی تک اسی جگہ ہو (جہاں سے تم شروع میں چلے تھے اور اتنے عرصہ کے بعد بھی تمہارے انداز فکر اور سوچنے سمجھنے کا معیار اتنا آگے نہیں بڑھا جو تم حقیقت تک پہنچ سکو؟ یاد رکھو یہ اہل فارس و روم (اور تمام کفار) وہ لوگ ہیں جن کو تمام نعمتیں اور خوبیاں بس ان کی دنیاوی زندگی ہی میں دے دی گئی ہیں (جب کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی آخرت میں ان کو فقر و افلاس، ذلت و خواری اور خسران و نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ کیا تم اس پر راضی و مطمئن نہیں ہو کہ ان (اہل فارس و روم اور دیگر کفار) کو دنیا ملے (جو فنا ہو جانے والی ہے) اور ہمیں آخرت ملے (جو اپنی تمام تر نعمتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے یعنی وہی چٹائی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بستر تھا جس کو چارپائی پر ڈال کر اس پر آپ لیٹے ہوئے تھے یا وہ چٹائی زمین پر بچھی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی کھری چٹائی پر استراحت فرما رہے تھے، اور بعض عبارتوں سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جو چارپائی تھی وہی کھجور کی رسیوں سے بنی ہوئی تھی جیسا کہ چارپائیوں کو بان سے بنا جاتا ہے۔
رمال را کے پیش اور زبر دونوں کے ساتھ اصل میں رمل کی جمع ہے اور مرمول (یعنی بنے ہوئے کے) معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ مخلوق کے معنی میں خلق استعمال ہوتا ہے۔
لیف (لام کے زیر اور را کے جزم کے ساتھ) کھجور کی چھال کو کہتے ہیں! حاصل یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جو تکیہ مبارک تھا وہ چمڑے کا تھا اور اس میں روئی وغیرہ کے بجائے کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، چنانچہ جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں، روئی وغیرہ کا تکیہ بنانا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے وہ کھجور کی چھال کو کوٹ کر نرم کر لیتے ہیں اور اس کو تکیہ میں بھر لیتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امت کے حق میں مالی وسعت اور رزق کی فراخی کی دعا کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو درخواست کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فقر کو اختیار کر کے اتنی سخت زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو اس حال میں رکھے ہوئے تو انہوں نے سوچا کہ اگر پوری امت بھی اسی فقر و افلاس میں مبتلا رہی اور اس کو معاشی زندگی کی غرب و دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس امت کے وہ لوگ جو مضبوط عقیدہ و مزاج کے نہیں ہوں گے، اتنی سخت زندگی کی تاب نہیں رکھ پائیں گے اور ناقابل برداشت دشواریوں میں مبتلا ہو جائیں گے لہٰذا انہوں نے ایسے لوگوں کے مناسب حال یہی جانا کہ انہیں مالی وسعت و فراخی عطا ہو جائے۔
لیکن طیبی رحمۃ اللہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اصل مقصد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے لئے مالی وسعت و فراخی کی خواہش کرنا تھا، مگر انہوں نے اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان عظمت کے مناسب نہیں سمجھا کہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اس ادنی اور ناپاک دنیا کی طلب کو ظاہر کریں، جیسا کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک نہایت گرم اور تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں انہوں نے کوٹھڑی کے کونوں میں نظر دوڑائی تو دیکھا کہ بس چمڑے کے دو چار ٹکڑے اور ایک دو باسن پڑے ہوئے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غربت و خستہ حالی کا یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ ابن خطاب کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضور کی حالت دیکھ کر رو رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خدا کے رسول ہوتے ہوئے اس حالت میں پڑے ہوئے ہیں اور قیصر و کسری (جو خدا کے نافرمان و سرکش بندے ہیں) کس قدر ناز و نعم اور عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس کے بعد روایت کے وہی الفاظ ہیں جو او فی ہذا یا بن الخطاب سے آخرت، اوپر حدیث میں نقل ہوئے طیبی کی یہ وضاحت بھی اگرچہ حقیقت کے بہت زیادہ قریب ہے لیکن خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ فان فارس و روم قد وسع علیہم کے پیش نظر پہلی توضیح زیادہ مناسب ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر افراد کو دیکھا جن میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا کہ اس کے پاس کوئی چادر ہو (جس کو وہ دوسرے کپڑے کے اوپر اوڑھ لے یا کاندھوں پر ڈال لے، گویا ان کو صرف ایک کپڑے کے علاوہ اور کوئی کپڑا میسر نہیں تھا اور وہ کپڑا (بھی) یا تو تہبند تھا یا کملی تھی، جس کو وہ اپنی گردنوں میں باندھ لیتے تھے (اور اس کے ذریعہ اپنے جسم و ستر کو ڈھانکتے تھے) ان تہبند اور کملیوں میں سے بعض ایسے تھے جو صرف آدھی پنڈلیوں تک آتے تھے اور بعض ایسے تھے جو دونوں ٹخنوں تک پہنچ جاتے تھے، چنانچہ جب کوئی شخص سجدہ میں جاتا (یا گھٹنے اٹھا کر بیٹھتا) تو وہ اس خوف سے کہ کہیں اس کا ستر نہ کھل جائے اپنے اس تہبند یا کملی کو ہاتھ سے پکڑے رہتا تھا۔ (بخاری)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مالدار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر رنج و حسرت ہو، خدا کا شکر ادا کرنے میں سستی و کوتاہی واقع ہوتی ہو اور اس آدمی کے تئیں رشک و حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہوں) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈال لے جو اس سے کمتر درجہ کا ہے (تاکہ اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر خدا کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کر نے والے پروردگار سے خوش ہو۔ (بخاری)
تشریح
معاشرہ کے افراد کو دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشمت کے تئیں باہمی بغض و حسد، رشک و حسرت اور بددلی و مایوسی سے بچانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑا نفسیاتی طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ یہ انسان کی جبلت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ مالدار اور اپنے سے زیادہ اچھی حیثیت و حالت میں دیکھتا ہے تو یا اس کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو اس کو بد دل و مایوس، رنج خور و حسرت زدہ اور تقدیر الٰہی کا شاکی بتا دیتے ہیں یا پھر اس کے اندر حسد و جلن، اور ناروا مسابقت کا مادہ پید اکر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ جائز و ناجائز ہر طرح سے اپنے آپ کو اوپر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح معاشرہ میں عجیب قسم کی جنگ زرگری اور نقصان دہ سماجی و معاشی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس صورت حال سے بچنے کے لئے مذکورہ بالا ہدایت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے کہ جو اس سے زیادہ مالدار ہو، اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو، اس سے زیادہ جاہ و حشمت رکھتا ہو اور اس سے زیادہ اچھے لباس اور زیادہ اچھے مکان میں رہتا ہو، نیز وہ اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس آدمی کو حاصل شدہ، یہ تمام دنیاوی خوبیاں دراصل آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں وبال کا درجہ رکھتی ہیں کہ وہ انہی چیزوں کی وجہ سے آخرت میں مواخذہ و عذاب کا مستوجب ہو گا تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کی طرف نظر کرے جو مال و منال و شکل و صورت اور دنیاوی حیثیت و عزت کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہے، لیکن اپنے عقیدہ و خیال اور گفتار و کردار کے اعتبار سے آخرت میں درجہ عالی کا مستحق ہے۔ اس حدیث کے بین السطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ میں اکثریت ایسے افراد کی ہوئی ہے جو اقتصادی و سماجی طور پر اعتدال کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی نہ تو بہت زیادہ اونچے درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ بہت نیچے درجہ سے تعلق رکھتے ہیں (معروف اصطلاح میں ایسے لوگوں کو درمیانہ طبقہ کہا جاتا ہے) یہ اور بات ہے کہ وہ حالت اعتدال یکساں نوعیت نہ رکھتی ہو، بلکہ ایسا ہو کہ کوئی شخص کسی کی بہ نسبت معتدل حالت رکھتا ہو اور کوئی شخص کسی کی بہ نسبت۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے سے برتر کی طرف دیکھ کر اپنے سے کمتر کی طرف نظر ڈالی وہ یقیناً اچھی حالت کا حامل ہو گا۔
اس حدیث میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ بفرض محال کوئی شخص ہر حیثیت اور ہر اعتبار سے اپنے معاشرہ کے تمام ہی لوگوں پر فضیلت و برتری رکھتا ہو تو اس کے یہ مناسب نہیں ہو گا کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھے جو اس سے کمتر درجہ کے حامل ہیں، کیونکہ اس صورت میں بعید نہیں کہ اس کے اندر عجب و غرور اور اظہار فخر کا مادہ پیدا ہو جائے لہٰذا اس پر واجب یہ ہو گا کہ وہ جس خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے اور اپنی فضیلت و برتری کو اپنے بلند کردار کے ذریعہ تواضع و انکساری اور خدمت خلق کا ذریعہ بنا لے نیز جو شخص ایسا ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس سے زیادہ مفلس و قلاش اور اس سے زیادہ غریب و نادار نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے دنیا کے وبال میں مبتلا نہیں کیا اور دنیا داری کے بکھیڑوں اور اس کے غم و فکر سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ حضرت شبلی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب کسی دنیا دار کو دیکھتے تو (اس کے وبال کے خوف سے) بیساختہ ان کی زبان سے نکلتا۔ اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عفو عافیت کا طلب گار ہوں
غربت و افلاس کی تنگی و سختی اور فقر و فاقہ کی صعوبتیں حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس حکایت سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک دن ایک بہت بزرگ و ولی اور عارف باللہ اپنی مجلس میں حاضرین کو وعظ و نصیحت سے مستفید فرما رہے تھے کہ ایک نہایت مفلس و نادار شخص کھڑا ہوا اور شکوہ کرنے لگا کہ حضرت! میں نے اتنے طویل عرصہ سے نہ تو کسی کے سامنے اور نہ کسی سے چھپ کر کچھ کھایا پیا ہے اور نہایت اخلاص اور کمال استقامت کے ساتھ شدت بھوک کی صعوبتوں کو برداشت کر رہا ہوں۔ ان بزرگ نے فرمایا۔ ارے دشمن خدا! تو کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے؟ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شدت بھوک کی صعوبت میں اپنے انہی بندوں کو مبتلا کرتا ہے جو اس کے رسول، نبی اور ولی ہوتے ہیں اگر تو ایسے ہی بندگان خدا میں سے ہوتا تو اس پوشیدہ راز کو ہرگز ظاہر نہ کرتا اور خدا کی اس نعمت کو لوگوں سے چھپاتا۔
ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ مومن کو جب سلامتی طبع اور حسن استقلال کی دولت مل جاتی ہے اور اس کا دین ہر طرح کے نقصان و خلل سے محفوظ ہوتا ہے تو پھر وہ نہ مال و متاع کی پرواہ کرتا ہے اور نہ جاہ و حشمت سے محرومی اس کو ملول کرتی ہے نیز زمانہ حال یا مستقبل میں اس کو جن مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے وہ ان کو خدا کی طرف سے ایک ایسی نعمت سمجھ کر کہ جو اس کو آخرت کی سعادتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والی ہے، صبر و رضا اور شکر و اطمینان کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ منقول ہے کہ امام غزالی کے ایک مرید کو کسی نے مارا پیٹا اور قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا تو اس نے امام غزالی سے شکایت کی، انہوں نے فرمایا عزیزمن! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو بس اتنے ہی میں ٹل گئی ورنہ بلا تو کبھی اس سے زیادہ تکلیف دہ صورت میں نازل ہوتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہی مرید کچھ دوسرے لوگوں کے چکر میں پھنس گیا جنہوں نے اس کو ایک کنوئیں میں بند کر دیا۔ جب وہ کسی طرح سے نجات پا کر حضرت امام موصوف کی خدمت میں پہنچا اور ان سے اس حادثہ کی شکایت کی تو انہوں نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، پھر اتفاق کی بات کہ کچھ عرصہ کے بعد ایک یہودی کے چنگل میں جا پھنسا، اس یہودی نے یہ سلوک کیا کہ اس کو ایک زنجیر میں باندھ کر اپنے پاس ڈال لیا اور ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ایذا اس کو پہنچاتا رہا۔ اس مرتبہ اس شخص کو نہایت تکلیف و اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت دل گرفتہ ہوا کہ کیا دنیا بھر کی مصیبتیں میرے ہی لئے رہ گئی ہیں، آخرکار جب اس یہودی سے بھی نجات پا کر امام غزالی کی خدمت میں پہنچا، اور جن مصائب سے دوچار ہوا تھا ان کی شکایت کی، تو حضرت امام موصوف نے پہلے کی طرح پھر صبر و شکر کی تلقین کی! اب بات چونکہ اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تھی لہذا نہایت بیقراری کے عالم میں کہنے لگا کہ حضرت! اب تک جن اذیتوں اور تکلیفوں سے دوچار ہو چکا ہوں کیا ان سے بھی زیادہ سخت کوئی بلا باقی رہ گئی ہے؟ حضرت امام غزالی نے جواب دیا۔ ہاں! اس سے بھی سخت بلا ہے اور وہ یہ کہ (خدا نخواستہ) تمہاری گردن میں کفر کا طوق پڑ جائے۔ حاصل یہ کہ انسان کے لئے آلات اور بلاؤں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی آفت و بلا میں مبتلا ہو تو صرف یہ کہ اس کو اس آفت و بلا کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ خدا کا شکر بھی ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس سے بھی سخت کسی آفت و مصیبت میں مبتلا نہیں کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ فقرا جنت میں اغنیا سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے جو آدھے دن کے برابر ہے۔ (رواہ البخاری)
تشریح
آدھے دن سے مراد قیامت کا آدھا دن ہے مطلب یہ ہے کہ وہ پانچ سو سال قیامت کے آدھے دن کے برابر ہوں گے۔ اور قیامت کے دن کی مدت طوالت، دنیاوی شب و روز کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت(وان یوما عند ربک کالف سنۃ مماتعدون)، رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ یہ فرمایا ہے کہ آیت( فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ) 70۔ المعارج:4) اور جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا، تو جاننا چاہئے کہ پہلی آیت کہ جس سے قیامت کے دن کا ایک ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) عمومیت کی حامل ہے۔ جب کہ یہ دوسری آیت (کہ جس سے قیامت کے دن کا پچاس ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) ایک خاص نوعیت کی طرف اشارہ کرتی ہے! یعنی اصل بات تو یہی ہے کہ دنیاوی حساب کے اعتبار سے قیامت کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہو گا اور اسی کو پہلی آیت کے ذریعہ واضح فرمایا گیا ہے۔ لیکن وہ قیامت کے دن چونکہ سختیوں اور شدت کا دن ہو گا اور جو شخص دنیا میں دین و ہدایت سے جتنا دور ہو گا اس کو اس دن کی سختیار اسی قدر زیادہ محسوس ہو گی اس لئے کفار کے حق میں اس دن کی سختیاں اس قدر زیادہ ہوں گی کہ اپنی درازی و سختی کے اعتبار سے وہ دن ان کو پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہو گا! یہ دوسری آیت یہی مفہوم بیان کرتی ہے کہ قیامت کا دن (اگرچہ ایک ہزار سال کے برابر ہو گا مگر سختیوں اور شدائد کی بنا پر) کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہو گا جیسا کہ مومنین اور نیک کاروں کے حق میں وہ دن گویا لپیٹ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے برابر اس دن کی طوالت ان کو ایک ساعت کے بقدر معلوم ہو گی۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔آیت(فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ فَذٰلِكَ يَوْمَىِٕذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ ۙ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10 ) 74۔ المدثر:8
اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال یہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث بظاہر اس حدیث کے معارض ہے جو جنت میں فقرا کے پہلے داخل ہونے کی مدت کو چالیس سال ظاہر کرتی ہے؟ لہٰذا شارحین نے ان دونوں حدیثوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ بیان کیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ پچھلی حدیث میں اغنیا سے مراد اغنیا مہاجرین ہوں (جیسا کہ اس حدیث کی تشریح میں بھی اس طرف اشارہ کیا جا چکا ہے) اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ فقرا ان اغنیا سے کہ ان کا تعلق مہاجر صحابہ سے ہے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے، جب یہاں اس حدیث میں اغنیا سے مراد وہ اغنیا ہیں جو مہاجرین میں سے ہوں گے۔ اس وضاحت سے دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی تعارض و تضاد باقی نہیں رہتا۔ لیکن جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے درمیان مذکورہ تعارض کو ختم کرنے کے لئے یہ وضاحت زیادہ مناسب و موزوں ہے کہ دونوں عدد، یعنی چالیس اور پانچ سو سے مراد تحدید نہیں ہے۔ بلکہ مطلقاً اس زمانی فرق کو بیان کرنا مقصود ہے جو جنت میں داخل ہونے کے سلسلہ میں فقرا اور اغنیا کے درمیان ہو گا۔ چنانچہ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کہ فقرا جنت میں اغنیا سے پہلے جائیں گے از راہ تفنن کسی موقع پر تو چالیس سال فرمایا گیا ہے۔ اور کسی موقع پر پانچ سو سال کے الفاظ ذکر فرمائے گئے ہیں جب کہ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے یا یہ کہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بذریعہ وحی یہی معلوم ہوا ہو گا کہ جنت میں فقرا کے اغنیا سے پہلے جانے کی مدت چالیس سال ہو گی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وحی کے مطابق چالیس سال کا ذکر فرمایا، لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی برکت سے فقرا کے حال پر خصوصی فضل فرماتے ہوئے اور ان کی مزید تسلی کے لئے یہ خبر دی کہ فقرا کو جنت میں اغنیا سے پانچ سو سال پہلے داخل کیا جائے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب دوسری مرتبہ اس بات کا ذکر کیا تو اس میں پانچ سو سال کا ذکر فرمایا۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے مفہوم میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا تعلق دراصل خود فقرا کی ذات و شخصیت کی غیر یکسانیت سے ہے یعنی ظاہر ہے کہ ہر غریب و نادار اور ہر فقیر مسلمان ایک ہی حالت نہیں رکھتا، بعض فقرا تو ایسے ہوتے ہیں جو صبر و رضا اور شکر کے درجہ کمال پر ہوتے ہیں اور بعض فقرا وہ ہیں جن میں صبر و رضا اور شکر کا مادہ کم ہوتا ہے لہٰذا پانچ سو سال والی حدیث کا تعلق اول الذکر فقرا سے اور چالیس سال والی حدیث کا تعلق موخر الذکر فقرا سے۔ یہ تاویل زیادہ مناسب اور موزوں بھی ہے اور اس کی تائید جامع الاصول کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے جس میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جس حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کی خواہش رکھنے والا فقیر، حریص غنی سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہو گا اور جس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں و نعمتوں سے بالکل بے نیاز اور زاہد فقیر دنیا دار غنی سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو گا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ مجھ کو مسکین بنا کر زندہ رکھ، مسکینی ہی کی حالت میں مجھے موت دے اور مسکینوں ہی کے زمرہ میں میرا حشر فرما ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا تو کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسی دعا کیوں کرتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس لئے کہ مساکین اپنے دوسرے فضائل و خصوصیات اور حسن اخلاق و کردار کی وجہ سے آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں سے تو بہرہ ور ہوں ہی گے لیکن اس سے قطع نظر ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے! دیکھو عائشہ! کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا بلکہ ہر حالت میں اس کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا اگرچہ اس کو دینے کے لئے تمہارے پاس کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے دل میں مسکینوں کی محبت رکھ اور ان کو اپنی مجلسوں اور محفلوں کی قربت سے نواز یعنی ان کو حقیر کمتر جان کر اپنے یہاں آنے جانے سے مت روکو اگر تم ایسا کروگی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی قربت سے نوازے گا کیونکہ فقرا و مساکین کے ساتھ محبت ہمدردی کا برتاؤ کرنا اور ان کو اپنے قریب آنے دینا اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہونے کا ذریعہ ہے۔ ترمذی، بیہقی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے صرف زمرۃ المساکین تک نقل کیا ہے (یعنی ان کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوال و جواب اور حدیث کے باقی جملے نہیں ہیں
تشریح
مسکین لفظ مسکنت سے نکلا ہے جس کے معنی تواضع کمزوری اور مفلسی کے ہیں۔ ویسے یہ لفظوں سکون اور سکینۃ سے بھی مشتق قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے معنی وقار، اطمینان اور تقدیر الٰہی کے اقرار و قبول کے ہیں اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ شرعی اصطلاح میں مسکین اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو یا جس کے پاس اتنا نہ ہو جو اس کے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے۔
مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں امت کے لئے یہ تعلیم و تلقین ہے کہ فقرا و مساکین کی فضیلت کو پہچانا جائے، ان کے ساتھ محبت و ہمدردی کا برتاؤ کیا جائے اور ان کے ساتھ ہم نشینی و قربت اختیار کی جائے تاکہ ان کی برکت مسلمانوں کو پہنچے۔ نیز اس حدیث میں فقرا و مساکین کے لئے یہ بڑی تسلی پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے حالات کی تنگی و سختی سے بد دل و مایوس نہ ہوں بلکہ اپنے ان بلند درجات سے آگاہ ہو جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس فانی دنیا کی زوال پذیر نعمتوں اور لذتوں سے محرومی کے عوض ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والے جہاں یعنی آخرت کی زندگی کے لئے عطا فرما دئیے ہیں۔
رہی یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے حق میں مسکین بننے کی دعا کرنا کیا مفہوم رکھتا تھا، تو اس بارے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ اس دعا سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بس اتنی روزی دے جو گزارہ کے بقدر ہو اور جس سے زندگی کا وجود باقی رہے، نیز آپ کو دنیاوی مال و دولت اور اس کی نعمتوں و لذتوں میں مشغول نہ کرے، کیونکہ مال و دولت کی کثرت مقربین کے حق میں سخت وبال کا درجہ رکھتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کہیں جا رہا تھا کہ راستہ میں اس کا گزر فقرا و صالحین کی ایک جماعت پر ہوا، ان لوگوں نے بادشاہ کے تئیں کسی التفات کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے، بادشاہ کو یہ دیکھ کربڑی حیرت ہوئی، اس نے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے جواب میں جو بات کہی اس کو یہاں نقل کرنا مقصود ہے، انہوں نے کہا ہم وہ لوگ ہیں کہ جن کے ساتھ محبت، ترک دنیا کا سبب ہے اور جن کے ساتھ عداوت ترک عقبی کا سبب ہے بادشاہ نے یہ جواب سنا تو ان سے دارو گیر کئے بغیر آگے بڑھ گیا اور کہنے لگا کہ ہم نہ تمہاری محبت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ تمہارے ساتھ عداوت رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے حق میں مذکورہ دعا فرمانا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پوچھنے پر اس دعا کی یہ توجیہ فرمانا کہ میرا مقصد وہ فضل و شرف حاصل کرنا ہے جو قیامت کے دن فقرا کو حاصل ہو گا وہ دولتمندوں سے چالیس سال پہے جنت میں دخل ہوں گے، یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ فقرا بلا استثنا تمام دولتمندوں سے پہلے جنت میں جائیں گے خواہ وہ دولتمند انبیا ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن اس سلسلہ میں زیادہ قوی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مذکورہ دعا اور اس کی توجیہہ میں مذکورہ ارشاد کا اصل مقصد ایک تو محض فقرا و مساکین کے فضل و شرف کو ظاہر کرنا ہے اور دوسرے اپنی اس طلب و خواہش کو ظاہر کرنا ہے کہ مجھے تمام انبیا سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہو خواہ وہ انبیا دولتمند ہوں یا فقرا پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے بارے میں فقر و فاقہ کی زندگی کی دعا کرنا فقرا غیر انبیا سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے نہیں بلکہ ان انبیا سے پیچھے رہ جانے کے خوف کی بنا پر تھا جن کی زندگی فقر و فاقہ سے معمور تھی! اس وضاحت سے مذکورہ بالا وہم محل نظر ہو جاتا ہے۔
یا عائشہ الاّ تردی المسکین الخ (عائشہ کسی مسکین کو اپنے دروازہ سے ناامید نہ جانے دینا) کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ نصیحت فرمائی کہ جو مسکین و فقیر تمہارے پاس اپنی حاجت لے کر آئے اس کو کمتر و حقیر نہ جانو اور اس کو بے مراد واپس نہ کرو، بلکہ اس کے ساتھ محبت و نرمی سے پیش آؤ، ان کی حالت پر رحم کھاؤ اور جو کچھ میسر ہو اس کے دامن مراد میں ڈال دو، خواہ وہ کتنی ہی کمتر چیز کیوں نہ ہو، اور اگر تمہارے پاس ایسی کوئی بھی چیز نہ ہو جس کے ذریعہ تم اس کا سوال پورا کر سکو تو اس صورت میں نہایت نرمی و بھلائی کے ساتھ معذرت کرو اور اس کو اچھے انداز میں واپس کرو۔
ابو الشیخ اور بیہقی نے حضرت عطا بن ابی رباح سے نقل کیا ہے انہوں نے مشہور صحابی حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! تمہاری تنگدستی و ناداری تمہیں اس بات پر نہ اکسانے پائے کہ تم اپنی روزی ناجائز وسائل و ذرائع سے حاصل کرنے کی طلب رکھنے لگو، (یعنی اگر خدا نے تمہیں تنگدستی و ناداری میں مبتلا کیا تو تم اپنی اس حالت پر صابر و شاکر رہ کر عزم و حوصلہ اور کردار کی پختگی کے ساتھ معاشی شدائد کا مقابلہ کرو، ایسا نہ ہو کہ روزی حاصل کرنے کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرو جو شرع احکام کے خلاف اور انسانی اخلاق و کردار کی عظمت کے منافی ہیں) کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے بارے میں یہ دعا فرماتے سنا ہے کہ اے اللہ! تو مجھے فقر و ناداری کی حالت میں موت دے، دولتمندی کی حالت میں موت نہ دے، اور میرا حشر مسکینوں کے زمرہ میں فرما پس یقیناً سب سے بڑا بد بخت وہ شخص ہے جو دنیا کے فقر و افلاس کا بھی شکار ہو اور آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پائے (یعنی جو شخص فقر و افلاس کی سختیوں سے گھبرا کر ناجائز طور پر اپنی روزی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اس سے بڑا بد نصیب اور کون ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے دنیا کی نعمتوں سے بھی محروم رہا اور حصول معاش کی راہ میں حرام ناجائز امور کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے آخرت کے عذاب کا بھی مستوجب قرار پایا۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اگر اس ارشاد گرامی کے علاوہ کوئی اور دلیل نہ بھی ہوتی تو یہی حدیث اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھی کہ صبر کرنے والا فقیر و مسکین، شکر گزار دولت مند سے افضل ہے۔
نیز ملاعی قاری رحمۃ اللہ نے اس موقع پر ان دو حدیثوں کا بھی ذکر کیا ہے جو فقر و ناداری کے سلسلہ میں عوام میں بہت مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث (الفقر فخری وبہ افتخر) ہے ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حفاظ جیسے علامہ عسقلانی وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ یہ حدیث بالکل بے اصل ہے اور اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ دوسری حدیث کادا لفقر ان یکون کفرا ہے اس کے بارے میں محدثین نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث اول تو یقینی طور پر ضعیف ہے دوسرے اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول قلبی فقر و افلاس ہے جو جزع و فزع، شکوہ شکایت، قضا و قدر پر بے اطمینانی اور خدا کی بنائی ہوئی قسمت پر اعتراض کرنے کے باعث ہوتا ہے، ورنہ جہاں تک معاشی فقر و افلاس کا تعلق ہے تو وہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ کی طرف سے انہی بندوں کو نصیب ہوتی ہے جن کو وہ آخرت میں بلند درجات پر پہنچانا چاہتا ہے اس لئے ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ الفقر شین عندالناس وزین عنداللہ یوم القیامہ (دیلمی) یعنی فقر و افلاس لوگوں کی نظر میں تو ایک عیب و برائی ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک زینت دینے والی چیز ہے۔
حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم لوگ مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو کیونکہ تمہیں رزق کا دیا جانا یا یہ فرمایا کہ تمہیں اپنے دشمن کے مقابلہ پر مدد کا ملنا انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں۔ (ابو داؤد)
تشریح
کمزور لوگوں سے مراد فقرا و مساکین اور نادار لوگ ہیں اور ان میں تلاش کرنے کا مطلب، ان لوگوں کی مدد و اعانت اور خبر گیری کے ذریعہ ان کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرنا ہے۔ یا کمزور لوگوں سے مراد مظلوم ہیں کہ اگرچہ وہ دولتمند ہی کیوں نہ ہوں اور مطلب ظلم کے پنجہ سے نکلنے میں ان کی ہر طرح کی مدد کرنا ہے۔ حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی ذریعہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ میری رضا مندی و خوشنودی کے طلب گار ہو تو اپنی مدد و اعانت اور حسن سلوک کے ذریعہ ان لوگوں کی خوشنودی حاصل کرو جو تم میں کمزور نادار ہیں۔
او تنصرون میں لفظ او تنویع کے لئے ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں او کے بجائے حرف واؤ ہے، تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ یہاں حرف او کے ذریعہ راوی کے شک کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یا تو لفظ ترزقون فرمایا تھا یا لفظ تنصرون چنانچہ اوپر ترجمہ میں اس احتمال کو مد نظر رکھا گیا ہے۔
انہی لوگوں کی برکت سے ہے جو تم میں کمزور ہیں کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کمزور و نادار نظر آتے ہیں اور ہر طرح کی دنیاوی طاقت و حیثیت سے خالی معلوم ہوتے ہیں، ان کا وجود پوری کائنات کے لئے خیر و برکت کا باعث اور ان کے ساتھ احسان و حسن سلوک تمام لوگوں کی بھلائی و بہتری کا ضامن ہوتا ہے کیونکہ ان لوگوں میں وہ بڑے بڑے اقطاب و اوتاد بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ دنیا داروں کی نظر میں اپنی اصل حیثیت کے ساتھ متعارف نہیں ہوتے مگر حقیقت میں سارے عالم کا نظم کائنات انہی کی وجہ سے استوار ہوتا ہے بلکہ بعض حالات میں مختلف علاقوں اور آبادیوں کا نظم و انصرام روحانی طور پر خدا کی طرف سے ان کے سپرد ہوتا ہے ان لوگوں کا در و بست ان کے ہاتھ میں رہتا ہے۔
ابن ملک رحمۃ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مذکورہ ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ (اگر مجھ کو پانا چاہتے ہو تو) مجھے اپنے کمزور نادار لوگوں میں تلاش کرو بایں طور کہ تمہارے اوپر ان کے حقوق عائد ہوتے ہیں، ان کی محافظت کرو اور ان کی دل جوئی میں مشغول رہو کیونکہ میں ان کے ساتھ بعض اوقات تو جسمانی طور پر ہوتا ہوں دل و جان سے تمام اوقات میں ہوتا ہوں لہٰذا جس شخص نے ان کا احترام کیا اس نے گویا میرا اکرام و احترام کیا اور جس شخص نے ان کو (خواہ جسمانی خواہ روحانی طور پر) تکلیف و ایذا پہنچائی اس نے گویا مجھ کو تکلیف و ایذا پہنچائی، اس کی تائید اس حدیث قدسی سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، حدیث(من عادلی ولیا فقد بارزنی بالحرب) یعنی جس شخص نے میرے ولی کے ساتھ عداوت دشمنی اختیار کی وہ گویا مجھ سے لڑنے کے لئے میدان میں آ گیا۔
حضرت امیہ رضی اللہ عنہ بن خالد بن عبداللہ بن اسید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (اللہ تعالیٰ سے کفار کے مقابلہ) فتح حاصل ہونے کے لئے درخواست کرتے تو فقرا مہاجرین کی برکت کے ذریعہ دعا مانگتے۔ (شرح السنہ)
تشریح
صعالیک صعلوک کی جمع ہے، جیسا کہ عصفور کی جمع عصافیر ہے، اور صعلوک کے معنی ہیں فقیر و مسکین اور کمزور و نادار۔
ملا علی قاری نے اس حدیث کا مطلب یہ لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کفار سے مقابلہ آرائی کے وقت اللہ تعالیٰ سے فتح حاصل ہونے کی جو درخواست کرتے اس میں فقرا و مہاجرین کا واسطہ اور ان کی دعاؤں کی برکت کا ذریعہ اختیار فرماتے۔ اس کے بعد انہوں نے ابن ملک رحمۃ اللہ سے یہ نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ سے فقرا مہاجرین کا واسطہ اختیار کر کے فتح کی درخواست فرماتے بایں طور کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرح دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انصرنا علی الاعدا بعبادک الفقرا المہاجرین۔
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ نے بھی یہ مطلب بیان کیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ یہ حدیث فقرا و نادار مسلمانوں کی اس عظمت و فضیلت کو ظاہر کرتی ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے لئے ثابت فرمائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ شرف صرف فقرا و مساکین کو عطا فرمایا کہ ان کی برکت کو واسطہ اور وسیلہ بنا کر اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی درخواست کرتے تھے ع
شاہان چہ عجب گر بہ نوازند گدارا
کافروں کی خوشحالی پر رشک نہ کرو
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی فاجر (یعنی کافر یا فاسق) کو دنیاوی نعمتوں یعنی جاہ و حشمت اور دولت سے مالا مال دیکھ کر اس پر رشک نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد قبر میں یا حشر میں اس کو کیا کیا پیش آنے والا ہے (یعنی وہ یہاں تو بے شک دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن اس کے برعکس آخرت میں طرح طرح کے عذاب اور سختیوں سے دوچار ہو گا اور یاد رکھو فاجر کے لئے خدا کے یہاں ایک ایسا قاتل ہے جس کو موت اور فنا نہیں ہے اور اس قاتل سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد آگ ہے۔ (شرح السنہ)
تشریح
ایک ایسا قاتل ہے الخ یعنی اللہ تعالیٰ نے کفار و فساق کے لئے ایک ایسی چیز تیار کر رکھی ہے جو ان کو سخت عذاب دے گی، ہلاک کرے گی اور طرح طرح کی اذیت ناکیوں میں مبتلا کرے گی، اور اس چیز کی شان یہ ہے کہ خود اس کو موت و فنا نہیں ہے۔ بلکہ ہمیشہ موجود رہے گی۔
یعنی النار کے الفاظ ان راوی کے ہیں جنہوں نے اس حدیث کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت کیا ہے اور ان کا نام نامی حضرت عبداللہ بن ابی مریم ہے، گویا انہوں نے ان الفاظ کے ذریعہ یہ وضاحت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لفظ قاتل کے ذریعہ جس چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ دوزخ کی آگ ہے۔
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کافر و فاسق کو دیکھ کر کہ جو زیادہ اولاد رکھتا ہے، یا زیادہ جاہ و حشمت کا مالک ہے یا مال و دولت کی فراوانی رکھتا ہے اور یا دوسری دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہے تو اس پر رشک نہ کیا جائے اور اس تمنا کو اپنے دل میں جگہ نہ دی جائے کہ کاش اسی طرح کی نعمتیں ہمیں بھی حاصل ہوں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور قحط ہے جب وہ مومن دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو گویا قید خانہ اور قحط سے نجات پاتا ہے۔ (شرح السنہ)
تشریح
قیدخانہ اور قحط کا مطلب یہ ہے کہ مومن یہاں ہمیشہ طرح طرح کی تنگی و سختی کا شکار رہتا ہے اور معاشی پریشان حالیوں میں بسر اوقات کرتا ہے اور اگر کسی مومن کو یہاں کی خوشحالی میسر بھی ہو تو ان نعمتوں کی نسبت کہ جو اس کو آخرت میں حاصل ہونے والی ہیں، یہ دنیا پھر بھی اس کے لئے قید خانہ اور قحط زدہ جگہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی یا یہ مراد ہے کہ مخلص و عبادت گزار مومن چونکہ اپنے آپ کو ہمیشہ طاعات و عبادات کے مشقتوں اور ریاضت و مجاہدہ کی سختیوں میں مشغول رکھتا ہے۔ عیش و راحت کو اپنی زندگی میں راہ نہیں پانے دیتا اور ہر لمحہ اس راہ شوق پر گامزن رہتا ہے کہ اس محنت و مشقت بھری دنیا سے نجات پا کر دارالبقا کی راہ پکڑے۔ اس اعتبار سے یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور قحط زدہ جگہ سے کم صبر آزما نہیں ہوتی، ایک روایت میں یوں فرمایا گیا لایخلو المومن من قلۃ او علۃ او ذلۃ وقد یجتمع للمومن الکامل جمیع ذلک یعنی ایسا کوئی مومن نہیں جو یا تو مال کی کمی، یا بیماری اور یا ذلت و خواری سے خالی ہو، اور بعض اوقات مومن کامل میں یہ سب چیزیں جمع ہو جاتی ہیں۔
حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کو دنیا سے بچاتا ہے جس طرح کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے مریض کو پانی سے بچاتا ہے۔ (احمد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہارا کوئی عزیز و متعلق جب کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جائے جس میں پانی کا استعمال سخت نقصان پہنچاتا ہے جیسے استسقا اور ضعف معدہ وغیرہ اور تمہیں اس کی زندگی پیاری ہوتی ہے تو تم اس بات کی پوری کوشش کرتے ہو کہ وہ مریض پانی کے استعمال سے دور رہے تاکہ صحتیابی سے جلد ہمکنار ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جس بندے کو اپنا محبوب بنانا اور اس کو آخرت کے بلند درجات پر پہنچانا چاہتا ہے اس کو دنیاوی مال و دولت، جاہ و منصب اور اسے ہر چیز سے دور رکھتا ہے جو اس کے دین کو نقصان پہنچانے اور عقبی میں اس کے درجات کو کم کرنے کا سبب بنے۔
اشرف رحمۃ اللہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو دنیاوی مال و جاہ اور یہاں کی کوئی ایسی چیز نہیں دیتا جو اس کی دینی و اخروی زندگی کی زینت و خوبی کو داغدار کر دے، تاکہ اس کا دل دنیا اور دنیا کی چیزوں کی محبت و خواہش کے مرض میں مبتلا نہ ہو۔
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دو چیزیں ایسی ہیں جن کو ابن آدم (انسان) ناپسند کرتا ہے (اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ دونوں چیزیں بہت اچھی ہیں چنانچہ) انسان ایک تو موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مومن کے لئے موت فتنہ سے بہتر ہے، دوسرے مال و دولت کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا موجب ہے۔ (احمد)
تشریح
فتنہ سے رماد ہے کفر و شرک، اور گناہوں میں گرفتار ہونا، ظالم و جابر لوگوں کا ایسے کام کرنے پر مجبور کرنا جو اسلامی عقائد و تعلیمات کے خلاف ہوں اور ایسے حالات سے دوچار ہونا جن سے دین و آخرت کی زندگی مجروح ہوتی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی اور زندہ رہنے کی تمنا تو اسی صورت میں خوب ہے جب کہ خدا اور خدا کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے طاعات و عبادات کی توفیق عمل حاصل رہے، راہ مستقیم پر ثابت قدم نصیب ہو، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ رخصت ہو۔ اگر یہ چیزیں حاصل نہ ہوں اور ایمان کی سلامتی نصیب نہ ہو تو پھر یہ زندگی کس کام ؟ ظالم و جابر لوگوں کی طرف سے جبر و اکراہ کی صورت میں اگرچہ دل، ایمان، عقیدہ پر قائم رہے مگر زبان سے ایسی بات کا ادا ہونا کہ جو ایمان عقیدہ کے مناسب و لائق نہیں ہے، یہ بھی ایک فتنہ ہی ہے ہاں اگر فتنہ کا تعلق کسی اور طرح کے دنیاوی ابتلا و مصائب، زندگی کی سختیوں اور نفس کی مشقت شدائد سے ہو تو اسی صورت میں زندگی سے نفرت اور موت کی تمنا درست نہیں ہو گی کیونکہ ایسا فتنہ گناہوں کے کفارہ اور اخروی درجات کی بلندی و رفعت کا سبب ہوتا ہے۔
وقلۃ المال اقل للحساب، کا مطلب یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت کی کمی، عذاب سے بعید تر اور ہر مسلمان کے لئے بہتر ہے۔ لہٰذا جو مسلمان تنگدست و غریب ہو اس کو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مال و دولت کی فراوانی کے وبال کی وجہ سے آخرت میں پیش آئیں گی۔
حضرت شیخ عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ نے اس موقع پر بڑی حکمت آمیز بات کہی ہے، انہوں نے ہر طاب حق کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ عزیز من! یہ سب ایمان کی شاخیں ہیں، جو شخص شارع علیہ السلام کے ارشادات کے مطابق ایمان کو صحیح درست رکھتا ہے وہ یقیناً جانتا ہے کہ شارع نے جو کچھ فرمایا ہے وہ برحق اور عین صداق ہے، اور اگر وہ شخص عقل سلیم اور صحیح تجربہ رکھتا ہو تو وہ اسی دنیا میں بھی جان لیتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی، اور اس مال و دولت کو حاصل کرنے اور جمع کرنے، نیز اس کے ساتھ تعلق و محبت رکھنے کے سلسلے میں جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس قدر ذلت و خواری کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور جتنی زیادہ محنت و مشقت اور ہر طرح کی ذلت و خواری سے بچنے ہی کا نہیں بلکہ) نفس کی پاکیزگی و صفائی اور اخروی حساب و عذاب سے بچنے نیز درجات کی بلندی و رفعت کا انحصار اس بات پر ہے کہ مال و دولت کی کثرت سے اپنا دامن بچایا جائے اس سے قطع کر کے اور قدر کفایت پر قناعت کر کے عزت نفس اور اخلاق و کردار کی بلندی و استقامت کو اختیار کیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے (بہت زیادہ) محبت رکھتا ہوں! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ یعنی اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ تم ایک بہت بڑی چیز کا دعویٰ کر رہے ہو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں اپنی بات پر پورا نہ اتر سکو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ خدا کی قسم! میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت رکھتا ہوں۔ اور تین بار اس جملہ کو ادا کیا! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم میری محبت کے دعوے میں سچے ہو تو پھر فقر کے لئے پاکھر تیار کر لو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے اس کو فقر و افلاس اس پانی کے بہاؤ سے بھی زیادہ جلد پہنچتا ہے جو اپنے منتہا کی طرف جاتا ہے اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
تجفاف کے معنی ہیں پاکھر اور پاکھر اس آہنی جھول کو کہتے ہیں جو میدان جنگ میں ہاتھی گھوڑے پر ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کا جسم زخمی ہونے سے بچا رہے جیسا کہ زرہ، سوار سپاہی کے جسم کو نیز و تلوار وغیرہ کے زخم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں حدیث میں پاکھر کے ذریعہ صبر و استقامت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح پاکھر ہاتھی گھوڑے کے جسم کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح صبر و استقامت اختیار کرنا، فقر و فاقہ کی زندگی کا سرپوش بنتا ہے حاصل یہ کہ صبر و استقامت کی راہ پر بہر صورت گامزن رہو، خصوصاً اس وقت جب کہ فقر و افلاس تمہاری زندگی کو گھیر لے تاکہ تمہیں مراتب و درجات کی بلندی و رفعت نصیب ہو۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے اس کو فقر و فاقہ کا جلد پہنچنا اور اس پر دنیاوی آفات و بلاؤں اور سختیوں کا کثرت سے نازل ہونا ایک یقینی امر ہے کیونکہ منقول ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ آفات شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انبیا ہیں ان کے بعد درجہ بدرجہ ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اعلیٰ مرتبہ کے ہوتے ہیں پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی انہی انبیا میں سے تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص پر واضح فرمایا کہ اگر واقعتاً تم میری محبت رکھو گے تو میرے تئیں تمہاری محبت جس درجہ کی ہو گی اسی درجہ کی دنیاوی سختیوں اور پریشانیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اصول ہے المرء مع من احب (یعنی جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے اسی جیسی حالت میں رہتا ہے
حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اس ارشاد فقر کے لئے پاکھر تیار کر لو کے ذریعہ بطور کنایہ اس امر کی تلقین فرمائی کہ فقر و فاقہ کے وقت صبر کی راہ پر چلنے کے لئے تیار رہو کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو فقر افلاس کی آفتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے، دینی و دنیاوی ہلاکت تباہی سے محفوظ رکھتا ہے، جزع و فزع اور شکوہ شکایت کی راہ سے دور رکھتا ہے اور غضب خداوندی سے بچاتا ہے حضرت شیخ آگے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کیے بغیر اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرز حیات پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت کا دعویٰ بالکل ناروا اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ حقیقت میں اسوہ نبوی کی اتباع اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور محبوب کی اتباع وپیروری کے بغیر محبت کا دعویٰ درست ہو ہی نہیں سکتا، ان المحب لمن یحب مطیع، تاہم واضح رہے کہ حب نبی کا یہ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے کہ کسی مسلمان کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسوہ حیات کی کامل اتباع کو اپنا شیوہ بنا لینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تئیں دعویٰ محبت میں بالکل سچا اور درجہ کمال کا حامل ہے۔ اگرچہ محبت کی حقیقت و ماہیت یہ ہے کہ انسان کا کسی کی طرف اندر سے کھنچنا، اور اس کے دل کا اس محبوب کی خوبیوں، اس کی ذات و صفات کی تحسین اور اس کی شکل و صورت اور عادات و اطوار کی تعریف و توصیف سے معمور ہو جانا کہ وہ اپنے محبوب کو سب سے اچھا دیکھنے اور سب سے اچھا جاننے لگے۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا تکمیل محبت کا انحصار، محبوب کی کامل اتباع اور پیروی پر ہے، اگر باطنی تعلق و محبت کے ساتھ عمل و اتباع کی دولت بھی نصیب ہو تو اصل اور کامل محبت وہی کہلائے گی ورنہ محض دل میں محبت کا ہونا اور زبان سے اس کا اعتراف و اقرار بھی کرنا، مگر عمل و اتباع کی راہ میں غفلت ٍو کوتاہی کا شکار ہونا، محبت کے ناقص ہونے کی دلیل ہے، جیسا کہ عمل کے بغیر ایمان درجہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کے دین کو ظاہر کرنے اور اس کی طرف لوگوں کو بلانے کی راہ میں جس قدر مجھ کو خوف و دہشت میں مبتلا کیا گیا اس قدر کسی اور کو خوف ودہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا، اور خدا کے دین کی راہ میں جتنی ایذا رسانیوں سے میں دوچار ہوا ہوں اتنی ایذا رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا ہے (یعنی ابتدا میں جب میں نے اسلام کی دعوت پیش کی اور خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اظہار و اعلان کیا تو اس وقت میں بالکل تنہا تھا، کوئی اور شخص میرے ساتھ نہیں تھا، چنانچہ اس راہ میں پیش آنے والے تمام تر مصائب و آلام اور ہر طرح کی دہشت انگیزی کو برداشت کرنے والا واحد شخص میں تھا) بلاشبہ مجھ پر متواتر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گزری ہیں جن میں میرے اور بلال کے لئے کھانے پینے کا ایسا کوئی سامان نہیں تھا جس کو کوئی جگردار (یعنی حیوان) کھاتا ہے (یعنی ان دنوں ہم دونوں کے پاس کھانے کی ان چیزوں میں سے بھی کوئی چیز نہیں تھی جس کو جانور کھاتے ہیں چہ جائیکہ آدمیوں کے کھانے پینے کی کوی چیز ہوتی) علاوہ اس نہایت معمولی سی چیز کے جس کو بلال اپنی بغل میں چھپائے رہتے تھے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کو انسان اپنی بغل میں دبا لے اس کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ باہر سے یہ نظر بھی نہ آئے کہ بغل میں کیا چیز ہے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو صورت حال بیان فرمائی ہے اس کا تعلق اس وقت سے ہے جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے نکلنے پر مجبور ہو گئے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ نیز حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس کھانے کی چیزوں میں سے صرف اتنا تھا جس کو وہ اپنی بغل میں دبائے رہتے تھے۔
تشریح
حدیث کے ابتدائی جملوں کی وضاحت طیبی نے وہی کی ہے جو ترجمہ میں (بین القوسین) نقل کی گئی ہے۔ لکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس قدر کسی اور کو خوف و دہشت میں مبتلا نہیں کیا گیا اور اتنی زیادہ ایذا رسانیوں سے کوئی اور دوچار نہیں ہوا سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ خدا کا دین پہنچانے کی راہ میں جس قدر خوف ودہشت میں مجھے مبتلا کیا گیا ہے اور جس قدر اذیتیں اور تکلیفیں میں نے برداشت کی ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مااوذی نبی مثل ما اوذیت (یعنی جتنی زیادہ ایذا مجھے پہنچائی گئی ہے اتنی زیادہ کسی اور نبی کو نہیں پہنچائی گئی) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل خدا کے دین کی راہ میں ایذا اور تکلیف کا پہنچانا ہر شخص کی ہمت و حیثیت اور مرتبہ کے مطابق ہوتا ہے، چونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہمت وحیثیت سب سے زیادہ بلند تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مرتبہ سب سے اونچا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صداقت و حقانیت سب سے زیادہ واضح تھی۔ اور ایمان کو پھیلانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کی تمنا و خواہش اور اس کے تئیں سعی تڑپ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تھی اس لئے اس راہ میں سب سے زیادہ ایذا رسانی اور مصائب کا سامنا بھی آپ ہی کو کرنا پڑا۔ آیت(ولقد اتت علی) الخ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے فقر و فاقہ کے انتہائی شدید و سخت دنوں کا ذکر جس انداز میں فرمایا اس سے ایک تو ان سخت مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جن سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دعوت اسلام کی راہ میں دوچار ہونا پڑا اور ظاہر ہے کہ فقر و فاقہ سے زیادہ سخت اور کوئی مشقت نہیں ہو سکتی، اور دوسرے اصل مقصد امت کے لوگوں کو تعلیم و تلقیں تھا کہ خدا کے دین کی راہ میں اگر بڑی سے بڑی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑے تو اس کو بطیب خاطر انگیز کیا جائے اور بہر صورت راہ استقامت پر گامزن رہا جائے۔
امام ترمذی نے جو یہ کہا ہے کہ اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیان فرمودہ صورت حال کا تعلق اس وقت سے نہیں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت فرمائی تھی کیونکہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت بلال نہیں تھے۔ بلکہ یہ واقعہ غالباً اس وقت کا ہے جب آپ ابتدائے اسلام میں مکہ سے طائف تشریف لے گئے تھے چنانچہ نبوت کا دسواں سال تھا اور شوال کا مہینہ کہ آپ کے چچا ابو طالب کی وفات ہو گئی۔ اور پھر تین دن بعد یا پانچ دن کے بعد ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں، یہ دونوں سانحے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے نہایت سخت تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا۔ قریش مکہ جو پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنا رہے تھے، اب ان دونوں، ہستیوں خصوصاً ابو طالب کی وفات کے بعد ان کو اپنی جابرانہ کاروائیوں کا موقع مل گیا، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایذا رسانی میں بڑی شدت پیدا کر دی، ادھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اہل مکہ کے قبول اسلام سے مایوسی کی صورت پیدا ہونے لگی تو اسی سال یعنی ١٠نبوی، آخر ماہ شوال میں آپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر پیادہ پا مکہ سے طائف تشریف ہے گئے، اور اہل طائف کو کلمہ حق کی طرف دعوت دی، اور متواتر ایک ماہ تک ان کی تبلیغ و ہدایت میں مصروف رہے، مگر انہوں نے آپ کی ایک بات نہیں سنی اور کسی ایک شخص کو بھی قبول حق کی توفیق نہیں ہوئی، بلکہ ظالموں نے اپنے بچوں اور اوباش لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے لگا دیا کہ جس قدر ہو سکے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایذا پہنچائیں چنانچہ ان بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے سردار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم شریف زخمی ہو جاتے تھے اور اتنا خون بہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نعلین مبارک اس سے بھر جاتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پتھر کے زخموں سے چور ہو کر گر پڑتے تھے تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں بازو پکڑ کر کھڑا کر دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے چلتے تو پھر پتھراؤ شروع کر دیتے تھے، اور خوش ہو کر تالیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جس طرف سے پتھر آتا ہوا دیکھتے اس طرف خود کھڑے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بچاتے اور پتھر کو اپنے سر پر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا سر بھی پتھروں کے زخم سے چور چور ہو گیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سایہ فگن ہو گیا اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک اور فرشتے کے ساتھ حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قوم کی ساری باتیں سنیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جو کچھ سلوک انہوں نے کیا ہے اس کو دیکھا، میرے ساتھ یہ وہ فرشتہ ہے جس کے سپرد پہاڑوں کی خدمت ہے، اللہ پاک کا اس کو حکم ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائیں تو طائف کے گرد کی دونوں پہاڑیاں باہم ٹکرا دی جائیں۔ اور ان دونوں کے درمیان اہل طائف کو اس طرح دل دیا جائے جس طرح چکی کے دو پاٹوں میں دانہ دل جاتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی انتقامی کاروائی کی اجازت دے دیتے، یہ کیسے ممکن تھا؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس امر کی اجازت نہیں دی اور بارگاہ رب العزت میں یوں گویا ہوئے۔ ارحم الراحمین! تو نے مجھ کو سخت دل اور انتقام کا خو گر نہیں بنایا، میں لوگوں پر تیرے عذاب نازل کرانے نہیں آیا ہوں، مجھے اپنی قوم کے ہلاک و تباہ ہونے کا سبب نہ بنا، اگر یہ نیست نابود ہو گئے تو اس سے مجھے کیا حاصل ہو گا، ہاں اگر یہ زندہ رہے تو امید ہے کہ شاید ان کی نسلوں میں سے وہ لوگ پیدا ہوں جو تیری وحدانیت کے ساتھ پرستش کریں، اور تیرے دین کا جھنڈہ بلند کریں! پروردگار یہ میرے مرتبہ سے ناواقف ہیں، ان کی آنکھوں پر جہل و نادانی کی پٹی بندھی ہوئی ہے، اگر تو ان کو وہ بینائی عطا فرما دے جس سے یہ میری شان پیغمبر دیکھ لیں تو امید ہے کہ ایمان سے مشرف ہو جائیں۔
بالآخر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ماہ بعد طائف سے اس طرح واپس ہوئے کہ فقر و فاقہ کے تعب اور ایذا رسانیوں کے زخم سے جسم نڈھال تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ٹخنے شریف لہو لہان تھے، مگر زبان پر حرف بد دعا کے بجائے دعائے ہدایت کے الفاظ تھے۔
سفر طائف کا یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ تاریخ و سیر کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے یہاں اس کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ روایت کے آخر میں اس طرف اشارہ ہے۔ رہی یہ بات کہ حدیث میں اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہونا مذکور ہے، جب کہ مذکورہ بالا واقعہ میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے تو ان دونوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں کیونکہ اغلب ہے کہ حضرت بلال اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما دونوں ہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہے ہوں گے، تاہم تاریخ و سیر کی کتابوں میں اس موقعہ پر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا ہی ہونا ذکر کیا جاتا ہے۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا دکھایا، (یعنی ہم میں سے ہر شخص نے بھوک کی شدت سے بیتاب ہو کر اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ رکھا تھا جس کو ہم نے اپنا پیٹ کھول کر حضور کو دکھایا) تب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا پیٹ کھول کر دکھایا تو اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
جب بھوک کی شدت ہوتی ہے اور پیٹ بالکل خالی ہوتا ہے تو اس صورت میں پیٹ پر پتھر باندھ لینا پیٹ معدہ اور آنتوں کو اس حد تک تقویت پہنچا دیتا ہے کہ آدمی اپنا کام کاج کرنے، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے پر تھوڑا بہت قادر ہو جاتا ہے، اور جب بھوک کی شدت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور ایک پتھر سے بھی کام نہیں چلتا تو پھر دو پتھر باندھنے پڑتے ہیں، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھوک کی شدت زیادہ طاری تھی اور ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زیادہ محنت و ریاضت کے عادی تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے شکم مبارک پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب فقرا صحابہ کو بھوک کی شدت نے پریشان کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور عطا فرمائی۔ (ترمذی)
تشریح
اس حدیث سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر فقر و افلاس اور کھانے پینے کی تنگی کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ بسا اوقات انہیں ایک ایک کھجور پر اکتفا کرنا پڑتا تھا۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاتی ہیں اس کو اللہ تعالیٰ شاکر و صابر قرار دیتا ہے ایک یہ جب وہ شخص دینی معاملہ یعنی اچھے اعمال وغیرہ میں ایسے آدمی کو دیکھے جو (علم و عمل، طاعات و عبادات، قناعت و استقامت اور ریاضت و مجاہدہ کے اعتبار سے) اس سے برتر ہو تو اس کی اقتدا کرے (یعنی اس میں دینی برتری و فضیلت سے اس طرح فیضان حاصل کرے کہ خود بھی علم و عمل کی راہ پر چلے، طاعات و عبادات کی محنت و مشقت اور برائیوں سے اجتناب پر صبر و استقامت اختیار کرے اور جو دینی و باطنی کمالات پہلے فوت ہو چکے ہیں ان پر تاسف کرے) اور دوسرے یہ کہ جب اپنی دنیا کے معاملہ میں اس آدمی کو دیکھے جو (مال و دولت اور جاہ و منصب کے اعتبار سے) اس سے کمتر ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور اس کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس آدمی پر اس کو فضیلت و برتری بخشی ہے پس اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر و شاکر قرار دیتا ہے (یعنی شاکر تو اس لئے کہ اس نے دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور صابر اس لئے کہ اس نے دینی اعتبار سے اپنے سے برتر شخص کو دیکھ کر اس سے رہنمائی اور فیضان حاصل کیا) اور جو شخص ایسا، ہو کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھے جو اس کے دینی (یعنی اعمال صالحہ وغیرہ) کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہو (تو اس کے تئیں رشک و حسد اور حرص و خواہش میں مبتلا ہو جائے اور) اس چیز (یعنی جاہ و مال پر رنج و غم کرے جس سے وہ محروم ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ شاکر قرار دیتا ہے اور نہ صابر۔ (ترمذی
اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت ابشرا یا معشر صعالیک المہاجرین الخ اس باب میں نقل کی جا چکی ہے جو فضائل قرآن کے باب کے بعد ہے۔
تشریح
موخرالذکر شخص کو نہ تو شاکر اور نہ صابر قرار دینے کا سبب یہ ہے کہ جن دو خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک صفت کو بھی اس نے اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے برخلاف اس نے خدا کی ناشکری کی اور زبان اور دل دونوں سے جزع و فزع او شکوہ شکایت کا مرتکب ہوا۔
حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر اور شاکر قرار دیتا ہے (تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو کامل مومن بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اس آیت آیت(اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ) 31۔لقمان:31) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صابر و شاکر کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے جو کامل مومن ہو، نیز ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایمان کے دو نصف ہیں۔ اس کا ایک نصف صبر ہے اور ایک نصف شکر ہے گویا اپنے آپ کو برائیوں سے روکنا صبر سے تعبیر ہے اور اعضا ظاہر کے ذریعہ طاعات کی بجا آوری شکر کے مفہوم میں ہے اور ظاہر ہے کہ جس بندے کی زندگی ان دونوں اجزا تکمیل سے معمور ہو وہ کامل مومن ہوتا ہے۔
حضرت ابو عبدالرحمن جبلی رحمۃ اللہ (جن کا اصل نام عبداللہ بن زید مصری ہے اور جن کا شمار ثقہ تابعین میں ہوتا ہے) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا، جب کہ ایک شخص نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ کیا ہم ان فقرا مہاجرین میں سے نہیں ہیں جن کے بارہ میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ دولتمندوں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے؟ حضرت عبداللہ نے یہ سن کر اس شخص سے پوچھا کہ کیا تم بیوی والے کہ جس کے پاس تمہیں سکون قرار ملتا ہو؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں پھر حضرت عبداللہ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مکان ہے جس میں تم رہائش اختیار کرو؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں مکان بھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو پھر تم دولتمندوں میں سے ہو (یعنی تم ان مہاجرین کی حیثیت کے آدمی ہو جو فقر و افلاس میں مبتلا نہیں تھے، فقرا مہاجرین میں تمہارا شمار نہیں ہو سکتا کیونکہ ان فقرا کے پاس نہ بیوی تھی نہ گھر بار تھا، یا اگر کسی کے پاس اس دونوں میں سے کوئی ایک چیز تھی تو دوسری چیز سے محروم تھا) اس شخص نے (جب یہ سنا کہ حضرت عبداللہ نے بیوی اور گھر والا ہونے کی وجہ سے اسے گویا دولتمند کہا ہے تو) کہا کہ میرے پاس ایک خادم بھی ہے (یعنی غلام یا لونڈی) حضرت عبداللہ نے فرمایا تب تو تم بادشاہوں میں سے ہو (یعنی اس صورت میں تو تمہارا شمار رئیسوں اور بادشاہوں میں ہونا چاہئے، تمہیں فقیر مفلس کہنا کسی طرح درست نہ ہو گا۔
حضرت ابو عبدالرحمن (راوی) نے یہ بھی بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تین آدمی آئے، اس وقت میں بھی ان کی خدمت میں حاضر تھا، ان تینوں نے کہا کہ اے ابو محمد! بخدا ہم کسی چیز کی استطاعت نہیں رکھتے، نہ تو خرچ کرنے کی (کہ حج کو جا سکتیں) نہ کسی جانور کی کہ جہاد میں شریک ہو سکیں اور نہ کسی دوسرے سامان کی کہ جس کو فروخت کرے اپنے ضروری مصارف پورا کر سکیں۔ حضرت عبداللہ نے ان کی بات سن کر فرمایا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہارے ساتھ معاونت کروں اور تمہیں اپنے پاس سے کچھ دوں تو تم لوگ پھر کسی وقت آنا میں تمہیں وہ چیز دوں گا جس کا خدا تمہارے لئے انتظام کر دے گا کیونکہ تمہیں دینے کے لئے اس وقت میرے پاس کچھ نہیں ہے اور اگر تم چاہو تو میں تمہاری حالت بادشاہ (امیر معاویہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کر دوں تمہیں اپنی عطا سے فارغ البال کر دیں گے۔ اور سب سے بہتر بات یہ ہے کہ اگر تم اہل کمال کا رتبہ حاصل کرنا چاہو تو صبر کرو یعنی اپنی اسی حالت فقر و افلاس پر استقامت اختیار کرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فقرا مہاجرین قیامت کے دن جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے جائیں گے۔ ان تینوں نے یہ حدیث سنی تو کہا کہ بے شک ہم صبر و استقامت ہی کی راہ اختیار کرنے کا عہد کرتے ہیں، اب ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے یا یہ کہ اب آئندہ ہم کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے اور فقرا مہاجرین کا حلقہ جما ہوا تھا کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے آئے اور فقرا کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع میں) فقرا کے قریب پہنچ کر ان کی طرف متوجہ ہو گیا (تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے جو کچھ فرمائیں، ان ملفوظات کو میں بھی سن سکوں) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ فقرا مہاجرین کو وہ بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کو مسرور و شادماں بنا دے، پس وہ بشارت یہ ہے کہ فقرا مہاجرین جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ بخدا میں نے دیکھا کہ یہ بشارت سن کر فقرا کے چہروں کا رنگ روشن و تاباں ہو گیا۔ پھر حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ یہ بشارت سن کر اور فقرا کے چہروں کی تابانی و شگفتگی دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی ان ہی جیسا ہوتا یعنی اس دنیا میں مجھ پر بھی فقر و افلاس طاری ہوتا اور میں اس جماعت فقرا میں شمار ہوتا) یا یہ کہ ان میں سے ہوتا (یعنی آخرت میں اس جماعت کے ساتھ اٹھتا اور انہی کے ساتھ میرا حشر ہوتا۔ (دارمی)
تشریح
بما یسر وجوہہم میں لفظ وجوہ سے مراد یا تو ذات ہے یا جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے یا یہ لفظ اپنے اصل معنی چہرے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ فقرا مہاجرین کو بشارت پہنچا دینی ضروری ہے جو ان کے دلوں کو خوش کر دے اور اس خوشی کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر و نمایاں ہو۔
اکون معہم او منہم میں حرف او تنویع کے لئے ہے اور اسی کے مطابق کا مطلب بھی بین القوسین بیان کر دیا گیا ہے یا یہ کہ یہ صرف راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عبداللہ نے یا تو ان اکون معہم فرمایا یا یہ کہ ان اکون منہم یعنی میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں بھی فقرا مہاجرین میں سے ایک ہوتا۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مجھ کو ساتھ باتوں کا حکم دیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ میں فقرا و مساکین سے محبت کروں اور ان سے قربت رکھوں۔ دوسرا حکم یہ کہ میں اس شخص کی طرف دیکھوں جو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے کمتر درجہ کا ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھوں جو جاہ و مال اور منصب میں مجھ سے بالا تر ہے، تیسرا حکم یہ دیا کہ میں کسی قرابتدار سے ناتے داری کو قائم رکھوں اگرچہ کوئی (قرابت دار) ناتے داری کو منقطع کرے، چوتھا حکم یہ دیا کہ میں کسی شخص سے کوئی چیز نہ مانگوں، پانچواں حکم یہ دیا کہ میں (ہر حالت میں) حق بات کہوں اگرچہ وہ سننے والے کو تلخ اور غیر خوش آئندہ معلوم ہو، چھٹا حکم یہ دیا کہ میں خدا کے دین کے معاملہ میں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں ملامت کرنے والے کی کسی ملامت سے نہ ڈروں اور ساتواں حکم یہ دیا کہ میں کثرت کے ساتھ لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ کا ورد رکھوں (پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ) پس یہ ساتوں باتیں اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے (اور جس سے فیوض و برکات نازل ہوتے ہیں) (احمد)
تشریح
فانہن کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ نے تو مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کی ہے جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوا لیکن ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے اس ضمیر کا مرجع صرف آخری بات یعنی لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ کو قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ الفاظ (یعنی لاحول الخ) دراصل اس گنج معنوی کا ایک حصہ ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے محفوظ رکھا گیا ہے اور گنج معنوی تک اس شخص کے علاوہ اور کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی جس کو خدا کی طرف سے حول وقوۃ یعنی قدرت و طاقت حاصل ہو۔ یا یہ معنی ہیں کہ یہ الفاظ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہیں۔ اس صورت میں عرش الٰہی کے نیچے کا مفہوم بھی بالکل واضح ہو گا کیونکہ عرش الٰہی، بالائے جنت ہے، نیز ملا علی قاری نے فرمایا ہے کہ جن شارحین نے انہن کی ضمیر مذکورہ ساتوں باتوں کی طرف راجع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ ساتوں باتیں اور عادتیں اس خزانہ کی ہیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے، ایک ایسا قول ہے جو حقیقت سے بعید ہے کیونکہ اس قول کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جب کہ انہن کی ضمیر کو صرف آخری بات یعنی لاحول الخ کی طرف راجع کرنے کی سب بڑی دلیل یہ ہے کہ صحاح ستہ اور دیگر مسند کتابوں میں کثیر طرق سے یہ روایت کیا گیا ہے کہ لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ان الفاظ کو جنت کا خزانہ کس اعتبار سے فرمایا گیا ہے تو اس سلسلہ میں علما کے مختلف اقوال ہیں، چنانچہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ان الفاظ کو خزانہ اس لئے کہا گیا ہے کہ جس طرح خزانہ، عالم لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسی طرح یہ الفاظ اپنی حقیقت و رفعت اور نفاست پاکیزگی کے اعتبار سے لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہیں۔ یا ان الفاظ کو اس لئے خزانہ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہ جنت کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ ہیں۔ اور یا یہ کہ جو شخص ان الفاظ کا ورد رکھتا ہے اس کے لئے نہایت اعلیٰ مرتبہ کا اجر و ثواب جنت میں محفوظ کر دیا جاتا ہے، اس اعتبار سے یہ الفاظ گویا جنت کا ایک خزانہ ہیں حضرت مسعود رضی اللہ عنہ ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے یہ کلمہ لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تم ان الفاظ کا حقیقی مفہوم بھی جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ہی بہتر جان سکتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ) اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے پھرنا اور بچنا صرف اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد پر منحصر ہے اور اللہ کی اطاعت عبادات پر قادر ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی قدرت و طاقت پر منحصر ہے۔
مشائخ شاذلیہ قدس اللہ اسرارہم نے طالبان حق اور رہر وان طریقت معرفت کو ان الفاظ لاحول ولاقوۃ الاّ باللہ کے ورد کی بہت وصیت کی ہے اور فرمایا ہے کہ توفیق عمل کی راہ میں اس سے زیادہ معین و مددگار اور کوئی چیز نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دنیا کی چیزوں میں سے تین چیزیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر میں نہایت پسندیدہ تھیں ایک تو کھانا (کہ جس کے ذریعہ جسم و بدن کو محفوظ و توانا رکھ کر دینی خدمات پر قدرت و طاقت حاصل کی جا سکے) دوسرے عورتیں (کہ جن کے ذریعہ نفس کو برے خیالات سے محفوظ رکھا جا سکے) اور تیسرے خوشبو (کہ جس کے ذریعہ دماغ کو نشاط و تقویت حاصل ہو، کیونکہ حکما کے قول کے مطابق عقل و فراست کا مخزن دماغ ہی ہے) چنانچہ ان تینوں چیزوں میں سے دو چیزیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (کثرت کے ساتھ) حاصل ہوئی اور ایک چیز (زیادہ) حاصل نہیں ہوئی یعنی ایک تو عورتیں آپ کو زیادہ ملیں (بایں طور کہ آپ نے نو شادیاں کیں اور دوسرے خارجی طور پر خوشبو آپ کو بہت ملی باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پسینہ مبارک ہی تمام طرح کی خوشبو سے زیادہ معطر اور خوشگوار تھا، لیکن تیسری چیز کھانا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (زیادہ) نہیں ملا۔ (احمد)
تشریح
کھانے پر نفی کا اطلاق بطور مبالغہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غذائی ضروریات جس تنگی و قلت کے ساتھ پوری ہوتی تھیں اور جتنا کم کھانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نصیب ہوتا تھا اس کی بنا پر اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ کھانا، نہ ملنے ہی کے برابر تھا، چنانچہ پہلے یہ روایت گزر چکی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ تا وفات ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلسل دو دن جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر کھائی ہو، اگرچہ کھانے کی یہ تنگی و قلت خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اختیار کردہ تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے لئے تنگی معیشت اور فقر و غربت کی زندگی کو ترجیح دی تھی اور حق تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لئے جو اس بات کو پسند کیا تو اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ تھیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خوشبو اور عورتیں میرے لئے پسندیدہ بنائی گئی ہیں اور میرا قلبی سکون و نشاط، نماز میں رکھا گیا ہے (احمد، نسائی) اور ابن جوزی نے اس ارشاد میں حبب الی کے بعد من الدنیا کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں۔
تشریح
میرا قلبی سکون و نشاط نماز میں رکھا گیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو جو ذوق و لذت، استغراق و حضور اور راحت و سرور نماز میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی عبادت میں میسر نہیں ہوتا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نماز کے تئیں اس لذت بے خودی اور اسی ذوق حضور کے نشاط کا یہ اثر تھا کہ جونہی نماز کا وقت آتا، تو نہایت شوق کے عالم میں فرماتے ارحنا یا بلال! جلدی اٹھو اور اذان کہو، تاکہ میں نماز پڑھنے لگوں اور دوسرے امور کی مشغولیت و فکرات سے دامن چھڑا کر مناجات حق میں مشغول ہو جاؤں۔
لفظ قرۃ یا تو قر سے مشتق ہے جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں اور چونکہ جب نگاہ کو محبوب کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے تو نہ صرف نظر کو قرار مل جاتا ہے کہ نگاہیں پھر کسی دوسرے کو دیکھنے کی روادار نہیں ہوتیں، بلکہ دل و دماغ کو بھی راحت واطمینان کی دولت مل جاتی ہے، جس طرح کہ محبوب کا دیدار نہ ہونے کی صورت میں نظریں پریشان اور دل بے قرار رہتا ہے، لہٰذا نگاہ ودل کے اسی قرار و سکون کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرۃ عینی سے تعبیر فرمایا۔ یا کہ یہ لفظ قرۃ اصل میں قر سے مشتق ہے، جس کے معنی اس ٹھنڈک اور خنکی و لذت کے ہیں جو کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کے دیدار اور مشاہدہ کے سرور سے آنکھوں کو حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جس طرح کسی دشمن اور قابل نفرت چیز کو دیکھ کر آنکھوں میں چنگاریاں سلگتی معلوم ہوتی ہیں اسی طرح اپنی کسی عزیز ترین چیز اور محبوب کو دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، اسی لئے بیٹے کو قرۃ العین کہا جاتا ہے۔
روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو جس طرح نقل کیا ہے اس میں شروع کا جملہ اس طرح ہے حبب الی من الدنیا الطیب الخ (یعنی دنیا کی جن چیزوں کو میرے لئے پسندیدہ بنایا گیا ہے، ان میں سے ایک تو خوشبو ہے اور دوسری عورت ہے) تاہم یہ بات واضح رہے کہ حدیث کے وہ الفاظ کہ جن کو امام احمد اور امام ترمذی نے متفقہ طور پر نقل کیا ہے، زیادہ صحیح وہی ہیں جو اوپر متن میں نقل کئے گئے ہیں چنانچہ طبرانی نے اپنے تینوں معاجم میں، خطیب نے تاریخ بغداد میں، اور ابن عدی نے کامل میں اس روایت کو انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، نیز حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں اسی طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے البتہ ان کی روایت میں جعلت کا لفظ نہیں ہے۔ ویسے نسائی کی ایک روایت میں بھی من الدنیا کا لفظ ایک دوسری وجہ سے منقول ہے ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض ناقلین حدیث کے ہاں اس روایت میں حبب الی من الدنیا کے بعد ثلث کا جو ایک اور لفظ نقل کیا جاتا ہے، تو جیسا کہ سخاوی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ تحقیق تفتیش کے باوجود یہ لفظ حدیث کی کسی کتاب میں اس روایت کے دوران نہیں ملتا، البتہ کتاب احیا العلوم اور کشاف کی تفسیر سورہ آل عمران میں یہ لفظ ضرور ملتا ہے، شیخ ابن حجر اور شیخ ولی الدین عراقی نے بھی یہی لکھا ہے کہ حدیث کی جس کتاب میں بھی یہ روایت ہے ثلث کا لفظ کہیں منقول نہیں ہے، لہٰذا یہ حدیث یہاں جن الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس کے مفہوم میں کوئی اشکال واقع نہیں ہوتا، اسی طرح ان دونوں لفظوں یعنی من الدنیا اور ثلث میں سے کوئی بھی ایک لفظ شامل روایت ہو تب بھی مفہوم بالکل واضح رہتا ہے، ہاں! اگر یہ دونوں لفظ ایک ساتھ شامل روایت ہوں تو اس صورت میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ نماز پر دنیاوی چیز کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ نماز دنیاوی امور میں سے نہیں ہے؟ لہٰذا جو ناقلین حدیث ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس روایت کو بیان کرتے ہیں ان کی طرف سے اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ دنیا سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد اس عالم کی حیات ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا یہ فرمایا کہ اس عالم میں تین چیزیں میری پسندیدہ ہیں جن میں سے دو چیزیں تو طبعی اور دنیاوی امور سے تعلق رکھتی ہیں یعنی خوشبو اور عورت، اور تیسری چیز یعنی نماز کا تعلق دینی امور سے ہے۔
آخر میں ایک بات اور، حدیث میں صلوۃ کا لفظ تقریباً تمام علما کے نزدیک نماز ہی پر محمول ہے، لیکن بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں صلوۃ کے لفظ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر (درود و سلام) مراد ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (قاضی بنا کر یمن بھیجا تو ان کو یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اپنے آپ کو راحت طلبی اور تن آسانی سے بچانا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندگان خاص آرام و آسائش کی زندگی نہیں گزارتے۔ (احمد)
تشریح
تنعم کا مفہوم ہے نفسانی خواہشات کی تکمیل میں زیادہ سے زیادہ اہتمام و انصرام کرنا، بہت زیادہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے درمیان رہنا اور کھانے پینے اور طبیعت و نفس کی مرغوبات کا حریص ہونا حاصل یہ کہ راحت طلبی وتن آسانی کی چیزوں میں پڑنا اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرنا، کافر و فاجر، غافل ونادان اور جاہل لوگوں کا خاصہ ہے، بندگان خاص کو ایسی زندگی سے کیا سروکار! چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت(ذرہم یاکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل فسوف یعلمون)۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ وہ خوب کھا لیں اور چین اڑا لیں، اور خیالی منصوبے دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ان کو ابھی حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔ اور فرمایا۔ آیت(والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لہم) دوسری آیت (انھم کانوا قبل ذالک مترفین)۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں اور جہنم ان لوگوں کا ٹھکانہ ہے۔ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے وہ کافر لوگ اس سے قبل دنیا میں بڑی خوشحال اور چین کی زندگی بسر کرتے تھے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص تھوڑے سے رزق پر اللہ سے راضی ہوتا ہے، (یعنی اپنی معاشی ضروریات کی قلیل مقدار پر قناعت کرتا ہے) توا للہ تعالیٰ اس سے (طاعات عبادات کے) تھوڑے سے عمل پر راضی ہو جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص بھوکا ہو، یا کسی چیز کا محتاج ہو اور اپنی اس بھوک و محتاجگی کو لوگوں سے چھپائے یعنی کھانے کی طلب میں کسی سے یہ نہ کہے کہ میں بھوکا ہوں اور نہ مدد چاہنے کے لئے کسی سے اپنی احتیاج و ضرورت کو بیان کرے تو اللہ تعالیٰ کا یہ یقینی وعدہ ہے کہ وہ اس شخص کو حلال طریقہ پر ایک سال کا رزق پہنچائے گا۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
بھوک سے مراد وہ بھوک ہے جس کو برداشت کرنا ممکن ہو، اور لوگوں سے اس کو چھپانان ناجائز نہ ہو، کیونکہ جو بھوک ناقابل برداشت حد تک پہنچائے اور اس کی وجہ سے ہلاکت کا خوف ہو تو ایسی بھوک کو چھپانا جائز نہیں ہے، اس لئے علما نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس حالت میں بھوک کی وجہ سے مرا جائے کہ نہ تو اس نے کسی کے سامنے اپنی بھوک کا انحصار کر کے کھانے پینے کے لئے کچھ مانگا ہو اور نہ اس نے ایسی کوئی چیز ہی کھائی ہو جس سے زندگی بچائی جا سکتی تھی، اور بحالت مجبوری جس چیز کے کھانے کی اجازت شریعت نے دی ہے کہ خواہ وہ مردار ہی کیوں نہ ہو تو اس شخص کی موت گنہگار کی موت ہو گی۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس مسلمان کو محبوب رکھتا ہے جو مفلس، پارسا اور عیالدار ہو۔ (ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان عیالدار، مفلس و نادار ہونے کا وجود اپنی اور اپنے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پات کو پورا کرنے کے لئے حرام و ناجائز اسباب و ذرائع سے اجتناب کرتا ہو اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بھی پرہیز کرتا ہو وہ کامل مسلمان ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس کو محبوب رکھتا ہے۔
حضرت زید بن اسلم تابعی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پینے کے لئے پانی مانگا تو ان کی خدمت میں جو پانی پیش کیا گیا اس میں شہد ملا ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پانی کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ اس میں شہد ملا ہوا ہے) فرمایا یقیناً یہ پانی پاک و حلال اور نہایت خوشگوار ہے لیکن میں اس کو نہیں پیوں گا، کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں (قرآن سے سنتا اور جانتا ہوں کہ اس نے ایک قوم کو خواہشات نفس کی اتباع کا ملزم گردانا اور بطور سرزنش و تنبیہ فرمایا۔ کہ تم نے اس دنیاوی زندگی میں اپنی لذتوں اور نعمتوں کو پا لیا اور ان سے پورا پورا فائدہ حاصل کر لیا (اب آخرت میں تمہارے لئے کیا رہ گیا ہے لہٰذا میں ڈرتا ہے کہ کہیں ہماری نیکیاں بھی ایسی نہ ہوں جن کا اجر و ثواب (دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کی صورت میں) جلد ہی اتنی دنیا میں ہمیں دے دیا جائے اور پھر آخرت میں محرومی کا منہ دیکھنا پڑے) چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہد ملا ہوا وہ پانی نہیں پیا۔ (رزین)
تشریح
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شہد ملا ہوا یہ پانی نہایت لذت آمیز اور بہت بڑی دنیاوی نعمت ہے جو نفس کو بھی نہایت مطلوب ہے، اگر میں اس پانی کو پیتا ہوں تو گویا بہت بڑی نعمت سے فائدہ اٹھاتا ہوں اور لذت کام و دہن سے نفس کو خوش کرتا ہوں تو اس صورت میں مجھے خوف ہے کہیں یہ لذت و نعمت ہمارے اعمال صالحہ کا وہ اجر و ثواب نہ قرار پائے جو ہمیں بس دنیا ہی میں چکا دیا جائے اور آخرت کے لئے کچھ نہ رہ جائے جیسا کہ کافروں کے بارے میں ہے کہ ان کے نیک عمل کا بدلہ، دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کی صورت میں ان کو اس دنیا میں مل جاتا ہے اور آخرت میں ان کو کچھ نصیب نہیں ہو گا۔
واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد نقل فرمایا ہے یعنی آیت(اذھبتم طیباتکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا)۔ یہ ایک آیت کا ٹکڑا ہے اس طرح ایک آیت یہ بھی ہے (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ) 17۔ الاسرا:18) یعنی جو شخص دنیا کے نفع کی نیت رکھے گا ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے جلدی اسی دنیا میں دے دیں گے۔ یہ دونوں آیتیں اگرچہ کفار کے حق میں ہیں لیکن اصل اعتبار تو الفاظ کی عمومیت کا ہے جس سے ہر شخص سبق حاصل کر سکتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا اعتبار ہونا چاہئے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھجوروں سے، کبھی پیٹ نہیں بھرا، یہاں تک کہ ہم نے خیبر کو فتح کر لیا جہاں کھجوریں بہت ہوتی تھیں تب ہمیں پیٹ بھر کھانے کو کھجوریں ملیں۔ (بخاری)