مشکوٰة شر یف

اجارہ کا بیان

اجارہ کا بیان

٭٭ اجارہ کے معنی ہیں کسی چیز کو کرایہ پر دینا اور اصطلاح شریعت میں اجارہ کا مفہوم ہے اپنی کسی چیز کی منفعت کا کسی کو مالک بنا۔ فقہی طور پر قیاس تو یہ کہتا ہے کہ اجارہ میں چونکہ منفعت معدوم ہوتی ہے اس لئے اجارہ جائز ہونا چاہئے لیکن شریعت نے لوگوں کی احتیاج و ضرورت کے پیش نظر اس کو جائز قرار دیا ہے چنانچہ اجارہ حدیث و آثار سے ثابت ہے۔

اجارہ کا جواز

حضرت عبداللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ حضرت ثابت بن ضحاک نے یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مزارع سے منع فرمایا ہے اور اجارہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں مضائقہ نہیں ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 مزارعت سے منع فرمایا ہے میں مزارعت سے مراد مزارعت کی وہ صورتیں ہیں جس کا عدم جواز معلوم و متعین ہے اور جن کا تذکرہ گزشتہ باب کی حدیث نمبر٣ میں (جو حضرت حنظلہ بن قیس سے منقول ہے) کیا گیا ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ بھری ہوئی سیں گی کھچوائی اور سیں گی کھینچنے والے کو اجرت عطاء فرمائی نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ناک میں دوا ڈالی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شاخ کشی (سینگی کھینچنے) کا پیشہ اور اجارہ مباح ہے اور علاج کرنا جائز ہے۔

سرکار دو عالم نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں

اور حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی نبی مبعوث نہیں کیا ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بکریاں چرائی ہیں فرمایا ہاں میں چند قیراط کی اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا (بخاری)

 

تشریح

 

 منصب نبوت کے فریضہ کی ادائے گی جن اوصاف و خصوصیات کی حامل ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ نبی کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے معاشرہ اور سماج سے جو قریبی ربط و تعلق رکھنا پڑتا تھا اس کے لئے چونکہ یہ ضروری تھا کہ دعوت و تبلیغ اور اصلاح اور رہنمائی کے کسی بھی موڑ پر پورے معاشرے کے افراد اور نبی کے درمیان اجنبیت اور غیریت کی دیوار حائل نہ رہے اس لئے قدرت کی طرف سے ابتداء میں نبی کو ایک ایسے تربیتی اور آزمائشی دور سے گزارا جاتا تھا جسکے بعض مرحلے بظاہر تو بہت نچلی سطح کے معلوم ہوتے تھے لیکن نتائج و اثرات کے اعتبار سے وہی مرحلے بہت ہی دور رس اور کار آمد ثابت ہوتے تھے۔ ایسا ہی ایک مرحلہ بکریوں کا چرانا بھی ہے جو اگرچہ بہت معمولی درجہ کی چیز معلوم ہوتی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہی بکریوں کا چرانا محبت و شفقت محنت و مشقت باہمی ربط و تعلق اور عام خیر خواہی و نگہداشت کا ایک بہترین سبق ہے جو کسی رہبر و مصلح کی حیات کا ایک بنیادی وصف ہے چنانچہ ہر نبی اسی لئے بکریاں چراتا تھا تاکہ اس تجربہ سے گزرنے کے بعد امت کی نگہبانی و شفقت اور معاشرے سے ربط و تعلق کا حقیقی جذبہ پوری زندگی میں سرایت کئے رہے اور قوم کی طرف سے پیش آنے والی ہر سختی و  شفقت پر صبر و تحمل کی قوت حاصل رہے نیز اس ذریعے سے وہ حقیقی خلوت وتنہائی بھی حاصل ہو جاتی تھی جو نبی کی ابتدائی زندگی کا ایک مطلوب ہوتی تھی۔ مذکورہ بالا نکتہ زیادہ واضح ہو جاتا ہے اگر یہ تجزیہ پیش نظر ہو کہ ایک رہبر اور ایک بادشاہ اپنی قوم یا اپنی رعایا کے ساتھ وہی نسبت و تعلق رکھتا ہے جو ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ رکھتا ہے۔

مزدور کو اس کی مزدوری نہ دینے والے کے لئے وعید

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اسکو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی) (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں ایسے تین اشخاص کی نشان دہی کی گئی ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا خاص طور سے نشانہ ہوں گے ان میں سے پہلا شخص تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر یعنی اس کی قسم کھا کر کوئی عہد و معاہدہ کرتا ہے اور پھر اس کو توڑ ڈالتا ہے یوں تو عہد معاہدہ کی پاسداری بہرصورت ایک ضروری چیز ہے کیونکہ انسان کی شرافت و انسانیت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ جو عہد و معاہدہ کے نام پر کیا جاتا ہے تو پھر اس کی تکمیل کہیں زیادہ ضروری ہو جاتی ہے اس لیے جو شخص اللہ کے نام پر کئے ہوئے عہد و معاہدہ کو توڑتا ہے وہ بجا طور پر غضب خداوندی کا مستحق ہے۔

دوسرا شخص وہ ہے جو کسی آزاد انسان کو بیچ ڈالے شرف انسانی کی توہین اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک انسان اپنے ہی جیسے ایک دوسرے آزاد انسان کو ایک بازاری مال بنا دے اور اس کی کی خرید و فروخت کرے چنانچہ ایسے شخص کو بھی قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہونا پڑے گا۔

اس بارے میں یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں اس کا مول کھانے کی قید محض زیادتی تنبیہ کے لئے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی آزاد انسان کو فروخت کرنا ہی ایک بڑے گناہ کی بات ہے خواہ اس کا مول کھائے یا نہ کھائے۔ اگر اس کا مول نہیں کھائے گا تب بھی گنہگار ہو گا اور اس وعید میں داخل ہو گا۔

تیسرا شخص وہ ہے جو کسی مزدور کو اپنے کسی کام کی تکمیل کے لئے مزدوری پر لگائے اور اپنا وہ کام پورا کرانے کے بعد اس کی مزدوری نہ دے یہ ایک انتہائی قابل نفریں فعل ہے کسی شخص کی محنت اس کی زندگی کا ایک قیمتی اثاثہ ہوتا ہے جسے حاصل کر کے اس کی اجرت نہ دینا شیوؤ انسانیت کے خلاف ہے یہ کتنے ظلم کی بات ہے کہ کوئی غریب اپنا پیٹ بھرنے کے لئے اپنا خون پسینہ ایک کر کے کسی کے یہاں محنت کرائی مگر اس کی محنت کی اجرت اسے نہ دی جائے چنانچہ ایسے شخص کے بارے میں بھی کہ جو مزدور کی نہ دے اللہ تعالیٰ نے یہ آگاہی دی ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن اپنے اس انسانی ظلم کی ضرور سزا پائے گا۔

جھاڑ پھونک کرنے والا اپنے عمل کی اجرت لے سکتا ہے

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چنانچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنے والا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چنانچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورۃ فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کر لیا لہذا ان صحابی نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورۃ فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہو گیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے (بخاری)

ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔

 

تشریح

 

 لفظ (سلیم) اور لفظ (لدیغ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی سانپ کا ڈسا ہوا چنانچہ روایت کے الفاظ (لدیغ) أو (سلیم) میں او سلیم راوی کے لفظی شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی نے یہ دونوں لفظ نقل کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ مجھے یہ صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر لفظ لدیغ کہا گیا تھا یا لفظ سلیم اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ اکثر و بیشتر لفظ لدیغ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے بچھو کاٹ لے اور سلم کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے سانپ ڈس لے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس موقع پر راوی کو معنی کے اعتبار سے شک ہوا ہے کہ یا تو وہ شخص بچھو کا کاٹا ہوا تھا یا سانپ کا ڈسا ہوا تھا۔

بعض علماء نے لکھا ہے کہ جن صحابی نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا وہ حضرت ابو سعید خدری تھے اور صحابہ کی وہ جماعت تیس نفوس پر مشتمل تھی اسی اعتبار سے سورۃ فاتحہ پڑھنے والے صحابی نے تیس بکریاں لی تھیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان بکریوں میں اپنا حصہ لگانے کے لئے اس واسطے فرمایا تا کہ وہ صحابہ خوش بھی ہوں اور یہ بھی جان لیں کہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عوض حاصل ہونے والی بکریاں بلا شک و شبہ حلال ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیتوں اور ذکر اللہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز ہے چنانچہ عامل روحانیات یعنی قرآن کریم کی آیتوں اور دیگر منقول دعا و عملیات کے ذریعے علاج کرنے والے اپنے عمل یعنی تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی جو اجرت لیتے ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ تلاوت قرآن کی اجرت لینا جائز ہے کیونکہ ان دونوں میں فرق ہے اور وہ یہ کہ تلاوت قرآن ایک عبادت ہے اور عبادت کی قیمت لینا قطعاً جائز نہیں ہے اور کسی مریض و دکھی شخص پر قرآن پڑھ کر دم کرنا اور اس کی برکت سے شفاء حاصل ہو جانا عبادت نہیں ہے لہذا اس کی اجرت لینا جائز ہے۔

اس سے ثابت ہو گیا کہ مصحف یعنی قرآن کریم کو کتابی صورت میں بیچنا اس کو خریدنا اجرت پر اس کی کتابت کرنا اور دین کی دوسری کتابوں کو مزدوری پر لکھنا جائز ہے۔ اسی طرح متاخرین یعنی بعد کے علماء نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا جائز ہے جب کہ متقدمین یعنی پہلے زمانے کے علماء جیسے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ وغیرہ نے تعلیم قرآن کی اجرت لینے کو حرام کہا ہے۔

جس طرح غیر شرعی جھاڑ پھونک ناجائز ہے اسی طرح اس کی اجرت بھی حرام ہے

حضرت خارجہ بن صلت اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ہمارا گزر عرب کے ایک قبیلے پر ہوا جس کے کچھ لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تم اس شخص (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے بھلائی (یعنی قرآن پاک اور ذکر اللہ) لے کر آئے ہو تو کیا تمہارے پاس کوئی دوا یا جھاڑ پھونک بھی ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں ایک شخص پاگل ہو گیا ہے جو بیڑیوں میں جکڑا پڑا ہے ہم نے کہا ہاں (ہمارے پاس ایسا عمل ہے جس سے ہم اس کا علاج کر سکتے ہیں) چنانچہ وہ اس پاگل کو بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پاس لائے اور میں نے اس پر تین دن تک صبح و  شام سورۃ فاتحہ اس طرح پڑھی کہ (پڑھتے وقت) اپنا تھوک جمع کرتا رہتا اور پھر (پڑھنے کے بعد) اس پر تھوک دیتا راوی کہتے ہیں کہ میرے چچا نے فرمایا کہ اس کے بعد (وہ اتنی جلدی اچھا ہو گیا) گویا اسے بندھی ہوئی رسی سے کھول دیا گیا ہے پھر انہوں نے مجھے اس کی اجرت کے طور پر کوئی چیز دی تو میں نے کہا کہ یہ چیز اس وقت تک نہیں کھاؤں گا جب تک کہ میں اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ پوچھ لوں چنانچہ (میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے اسے کھا لو کیونکہ قسم ہے اپنی زندگی کی جو شخص باطل منتر کی اجرت کھاتا ہے وہ برا کرتا ہے تم نے تو حق اور سچے منتر کی اجرت کھائی ہے (احمد ابو داؤد)

 

تشریح

 

 باطل منتر ایسی جھاڑ پھونک کو کہتے ہیں جس میں ستاروں اور ارواح خبیثہ جنات اور اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کا ذکر ہو اور ان میں سے مدد مانگی جاتی ہو چنانچہ ایسے عملیات جو غیر اللہ کے ذکر یا غیر اللہ سے مدد مانگنے کی وجہ سے غیر شرعی ہوں جس طرح ان کو اختیار کرنا ناجائز ہے اسی طرح ان کی اجرت کھانا بھی حرام ہے۔ حق منتر ایسی جھاڑ پھونک اور عملیات کو کہتے ہیں جن میں ذکر اللہ اور قرآن کریم کی آیتیں ہوں خواہ ان کا تعلق پڑھ کر دم کرنے سے ہو یا تعویذ وغیرہ لکھ کر دینے سے ہو۔

حدیث کے الفاظ فلعمری (یعنی قسم ہے اپنی زندگی کی) سے یہ اشکال واقع ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسری چیزوں کی قسم کھانا منع ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زندگی کی قسم کس طرح کھائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ فلعمری سے قسم مراد نہیں ہے بلکہ دراصل یہ اہل عرب کے کلام کا ایک خاص لفظ ہے جو اکثر و بیشتر دوران گفتگو ان کی زبان پر جاری ہوتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔

اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قسم کی قسمیں کھانے کی اجازت حاصل ہو لہذا اس کا تعلق ان چیزوں سے ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مختص ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے تو جائز تھیں دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے۔

مزدور کو اس کی مزدوری دینے میں تاخیر نہ کرو

اور حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو یعنی جب مزدور اپنا کام پورا کر چکے تو اس کی مزدوری فوراً دے دو اس میں تاخیر نہ کرو (ابن ماجہ)

 

 

٭٭ اور حضرت حسین بن علی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سائل کے بارے میں فرمایا کہ وہ بہرصورت دئیے جانے کا مستحق ہے اگرچہ گھوڑے پر آئے (احمد ابو داؤد) اور مصابیح میں کہا گیا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے)

 

تشریح

 اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ تعلیم دینا ہے کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کرنا چاہئے اگرچہ وہ گھوڑے پر چڑھ کر بھی مانگنے آئے تو اس کا سوال پورا کیا جائے۔ چنانچہ قاضی نے کہا ہے کہ سائل کو خالی نہ پھیرو اگرچہ ایسی حالت میں تمہارے پاس مانگنے آئے جو اس کے مستغنی ہونے پر دلالت کرے کیونکہ تمہیں یہ سوچنا چاہۓ کہ اگر اسے سوال کرنے کی حاجت نہ ہوتی تو وہ اپنا دست سوال دراز کر کے تمہارے آگے اپنے آپ کو ذلیل و خوار کیوں کرتا۔ یہ حدیث بظاہر اس باب سے کوئی مناسب نہیں رکھتی سوائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ سائل کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ گویا اس کے سوالی کی اجرت ہے لہذا اس مناسبت سے اس حدیث کو باب الاجرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث کی اسناد میں علاء نے نقل کیا ہے چنانچہ حضرت امام احمد نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے اور کہا ہے کہ یہ بازار میں گشت کرتی ہے۔ امام ابو داؤد نے البتہ اس بارے میں سکوت اختیار کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث قابل استدلال ہے مصابیح میں اس حدیث کو مرسل کہا گیا ہے لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ مسند ہے چنانچہ مصابیح کے بعض نسخوں میں لفظ مرسل مذکور بھی نہیں ہے۔

مزدوری کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر

حضرت عتبہ بن منذر کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے طسم پڑھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا کہ موسیٰ نے اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے اور پیٹ بھرنے کے لئے اپنے آپ کو آٹھ سال یا دس سال تک مزدوری میں دے رکھا تھا (احمد ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

 طسم یعنی سورہ قصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ مدین پہنچے وہاں حضرت شعیب علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی پھر ان کی صاحبزادی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نکاح ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے عوض میں اپنے آپ کو حضرت شعیب علیہ السلام کی مزدوری میں دیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس سورت کی تلاوت کے وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس تذکرہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا کلام ارشاد فرمایا۔

شرم گاہ بچانے سے مراد نکاح ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی سے اس معاہدہ پر نکاح کیا کہ میں آٹھ یا دس سال تک تمہاری بکریاں چراؤں گا گویا اتنی مدت تک بکریاں چرانے کو انہوں نے اپنی بیوی کا مہر قرار دیا چنانچہ ان کی شریعت میں یہ جائز تھا کہ آزاد شخص کی خدمت کو اس کی بیوی کا مہر قرار دیا جا سکتا تھا۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس معاملے میں یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کا مہر تو کچھ اور مقرر کیا ہو گا اور بکریاں چرانے کی یہ خدمت بطریق احسان قبول کی ہو گی۔

 

خاوند کی خدمت بیوی کا مہر ہو سکتا ہے یا نہیں؟

 اس بارے میں علماء کا فقہی اختلاف ہے چنانچہ حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے کہ کسی عورت کا نکاح اس چیز کے عوض کیا جائے کہ اس کا آزاد خاوند مثلاً ایک سال تک اس کی خدمت کریگا ہاں یہ جائز ہے کہ عورت کا نکاح اس چیز کے عوض میں کیا جائے کہ اس کے خاوند کا غلام مثلاً ایک سال تک اس کی خدمت کریگا۔ شافعی علماء کے نزدیک بعض کاموں کی مزدوری و خدمت کے عوض نکاح کرنا درست ہے جب کہ مستاجر لہ وہ (وہ کام جو اجیر وط مزدور انجام دے) اور مخدوم فیہ (وہ خدمت جو انجام دی جائے) معلوم و متعین چیز ہو

دین کی تعلیم دینے کی اجرت لینے کا مسئلہ

اور حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کر لینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چنانچہ اس کمان کے ذریعے راہ خدا (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کر لو (ابو داؤد ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 کمان کوئی مال نہیں ہے سے حضرت عبادہ کی یہ مراد تھی کہ کمان ایسی چیز نہیں ہے جسے مال یا اجرت شمار کیا جائے بلکہ یہ تو لڑائی کا ایک سامان ہے جسے میں خدا کی راہ میں استعمال کروں گا بایں طور کہ جہاد میں اس کے ذریعے تیر اندازی کروں گا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں متنبہ فرمایا کہ یہ کمان اگرچہ تمہیں کلام اللہ کی تعلیم کی اجرت کے طو پر نہیں ملی ہے اور نہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے اجرت شمار کیا جا سکے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ تمہارے اس اخلاص کو ختم کر دے گی جو تمہاری خدمت تعلیم کا محور تھا جس سے سرشار ہو کر تم نے ان لوگوں کو قرآن و دین کی تعلیم دی تھی لہذا تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم اسے قبول نہ کرو جو علماء قرآن و دین کی علیم دینے کی اجرت لینے کو حرام کہتے ہیں وہ اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے استدلال کرتے ہیں۔