مشکوٰة شر یف

اجازت حاصل کرنے کا بیان

اجازت حاصل کرنے کا بیان

اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ گھر والوں سے اجازت حاصل نہ کر لو اور ان کو سلام نہ کر لو۔

اس بارے میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر اہل خانہ کو مخاطب کر کے یوں کہا جائے کہ السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔

دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کرنے کے بعد بھی گھر میں سے جواب نہ ملے تو واپس ہو جاؤ

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس ایک شخص کو بھیج کر مجھے بلا بھیجا ہے جب میں حسب طلب ان کے دروازے پر پہنچا اور اندر آنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے تین مرتبہ سلام کیا تو مجھ کو سلام کا جواب نہیں ملا چنانچہ میں واپس چلا آیا پھر بعد میں ملاقات ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ میرے پاس آنے سے تمہیں کس چیز نے روکا تھا میں نے کہا کہ میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ کے دروازے پر کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی آپ کے کسی خادم ہی نے جواب دیا لہذا میں واپس آ گیا کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اس کو اجازت نہ ملے تو چاہیے کہ واپس چلا جائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ اس حدیث کے گواہ لاؤ یعنی اس حدیث کے صحیح ہونے پر گواہ پیش کرو کہ یہ نبی کا ارشاد گرامی ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑا ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر گواہی دی۔

 

تشریح

 

حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے سامنے مذکورہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ یہ حدیث چونکہ آپ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہے اس لیے میرے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلیے اور ان کے سامنے گواہی دیجیے چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور یہ گواہی دی کہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جو حدیث بیان کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گواہ طلب کرنا محض احتیاط کے طور پر تھا کہ دوسرے لوگوں کو حدیث بیان کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے اور خاص طور پر وہ جھوٹے لوگ جو من گھڑ حدیثیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا چاہیں ان کو اس بات کی جرات نہ ہو سکے ورنہ متفقہ طور پر یہ بات ہے کہ خبر واحد مقبول ہے خاص طور پر اس صورت میں جب کہ راوی حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ جیسا صحابی ہو جو کبار صحابہ میں سے ہیں۔

دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار سلام اس لیے کرنا چاہیے کہ ایک سلام تو تعارف کے لیے ہو گا دوسرا سلام تامل کے لیے اور تیسرا سلام اجازت کے لیے ہو گا یعنی اہل خانہ پہلا سلام سن کر اس شخص کو پہچانیں گے کہ یہ کون شخص ہے اور دوسرا سلام سن کر وہ یہ سوچیں گے کہ آیا اس شخص کو اندر آنے کی اجازت دی جائے یا نہیں اور تیسرا سلام سننے کے بعد اندر آنے کی اجازت دیں گے۔

خاص اجازت

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میری طرف سے تمہیں یہ اجازت ہے کہ تم پردہ اٹھاؤ اور میری باتیں سنو تاآنکہ میں تمہیں منع نہ کروں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے آستانہ اقدس کے دروازے پر جو پردے پڑے ہوئے تھے وہ بوریے کے تھے۔ حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے اندر آنے کی مخصوص اجازت حاصل تھی وہ دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت حاصل کرنے کے پابند نہیں تھے، چنانچہ آپ نے ان سے فرما دیا کہ میرے پاس تمہارے آنے کی اجازت کی علامت بس یہی ہے کہ تم پردہ اٹھا کر دیکھو اگر میں سامنے موجود ہوں یا تمہیں یہ معلوم ہو کہ میں ہوں تو اندر چلے آؤ خواہ میں مخصوص لوگوں سے خفیہ بات ہی کیوں نہ کر رہا ہوں تمہیں اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ اگر کسی وقت میں تمہارا اند آنا مناسب نہیں سمجھوں گا اس وقت تمہیں اندر آنے سے منع کر دوں گا اس سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مرتبہ کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں نگاہ نبوت میں کس قدر محبوبیت حاصل تھی اور ان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کتنی زیادہ رعایت تھی آپ نے ان کو اپنا اتنا مقرب قرار دیا کہ گویا وہ گھر ہی کے ایک فرد ہو گئے تھے اور جب چاہتے گھر میں چلے آتے۔ لیکن واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ مخصوص اجازت اس صورت سے متعلق تھی جب کہ حجرہ مبارکہ میں عورتوں کے آنے کا وقت نہیں رہتا تھا یا گھر میں عورتیں موجود نہیں ہوتی تھیں، خاص طور سے پردہ کی آیت نازل ہونے کے بعد تو یہ قید ضرور عائد ہوئی ہو گی۔

کسی دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع کرو تو نام بتاؤ

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں ایک قرض کے معاملہ میں جو میرے باپ پر تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپنی آمد کی اطلاع دینے کے لیے دروازے کو کھٹکھٹایا، آپ نے اندر سے پوچھا کون ہے؟میں نے کہا میں ہوں، آپ نے یہ سن کر فرمایا کہ میں ہوں، میں ہوں، گویا آپ نے میرے اس طرح جواب دینے کو برا سمجھا۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

قرض کا وہ معاملہ جس سلسلے میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے یہ تھا کہ ان کے والد حضرت عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور اپنے ذمہ کچھ قرض چھوڑ گئے تھے، جب قرض خواہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور ان کو تنگ کرنا شروع کر دیا تو وہ مدد چاہنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ اس قرض کی ادائیگی کا کوئی انتظام ہو اور قرض خواہوں سے نجات مل جائے اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ملکیت میں تھوڑی سی کھجوروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا لیکن اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ ظاہر ہوا کہ ان کھجوروں میں برکت ہوئی اور اتنی برکت ہوئی کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان کھجوروں سے پورا قرض ادا کر دیا اور اس کے بعد بھی وہ جوں کی توں باقی رہیں ان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

 میں ہوں کہنے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لیے برا سمجھا کہ اس جملہ کے ذریعہ ابہام کا ازالہ نہیں ہوتا اور صاحب خانہ پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ کون شخص ہے گویا یہ کہنے سے اس صورت میں صاحب خانہ کا یہ سوال کہ کون ہے جوں کا توں باقی رہتا ہے لہذا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چاہیے تھا کہ وہ نام لقب، یا کنیت بتاتے تاکہ یہ معلوم ہو جاتا کہ باہر دروازے پر کون شخص ہے اگرچہ بعض اوقات محض آواز پہچان لینے سے بھی شخصیت واضح ہو جاتی ہے خاص طور سے اس صورت میں جب کہ میں ہوں کہنے والا شخص ایسا ہو جس کے ساتھ ہر وقت اٹھنا بیٹھنا ہو یا اس سے راہ و رسم ہو، چنانچہ ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میں ہوں کی آواز سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی آواز کو پہچان لیا ہو گا مگر اس کے باوجود آپ نے اپنی ناگواری کا اظہار حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اس ادب کی تعلیم کے طور پر کیا کہ کسی کے دروازے پر پہنچ کر اپنی آمد کی اطلاع دو صاف طرح سے اپنا نام بتاؤ محض یہ کہنے پر اکتفا نہ کرو کہ  میں ہوں۔ یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس طرح کہنے کو اس لیے برا سمجھا کہ انہوں نے سلام کرنے کے ذریعہ اجازت حاصل کرنے کے طریقہ کو ترک کیا جو مسنون ہے۔

آنحضرت کا میں ہوں، میں ہوں، دو بار کہنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس جواب کو قبول کرنے سے انکار کے طور پر تھا اور اس کا مفہوم گویا یوں تھا کہ میں ہوں میں ہوں کیا کہتے ہو، اپنا نام کیوں نہیں بتاتے۔

بلانے والے کے دروازے پر بھی رک کر اندر آنے کی اجازت مانگنی چاہیے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ آپ کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نے گھر میں ایک دودھ کا پیالہ رکھا ہوا پایا آپ نے مجھ سے فرمایا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اہل صفہ کے پاس جاؤ اور ان کو میرے پاس بلا لاؤ چنانچہ میں ان کے پاس جا کر ان کو بلا لایا جب وہ لوگ آئے تو دروازے پر رک کر اندر آنے کی اجازت چاہی آپ نے ان کو اجازت دی تو وہ اندر آ گئے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

ایک دوسری حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ اہل صفہ اندر آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سامنے دودھ کا وہ پیالہ پیش کیا اور آپ کے معجزہ کے سبب سے ان سب نے اس پیالہ کے دودھ کو خوب سیر ہو کر پیا۔ واضح رہے کہ اہل صفہ ان صحابہ کی جماعت کو کہا جاتا تھا جو مدینہ میں نہ تو گھر بار رکھتی تھی اور نہ کوئی سلسلہ معاش بلکہ اپنے فقر و افلاس کے ساتھ مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر جمع رہتی تھی اور ہمہ وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر رہ کر اکتساب فیض کرتی تھی ان صحابہ کا تعلق انصار سے بھی تھا اور مہاجرین سے بھی یوں تو مدینہ کے عام مسلمان اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے رہتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بذات خود اکثر و پیشتر ان سب کو اپنے پاس سے کھلاتے پلاتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو بلانا، اجازت حاصل کرنے کو ساقط نہیں کرتا یعنی اگر کوئی شخص کسی کے بلانے پر اس کے گھر جائے تو اس کو بھی چاہیے کہ وہ دروازہ پر آ کر پہلے اجازت طلب کرے اور پھر گھر اندر جائے الاّ یہ کہ بلانے اور آنے میں زیادہ وقت کا فرق نہ ہو۔ آگے حدیث آ رہی ہے جس میں فرمایا گیا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو بلایا جائے اور وہ شخص اس کے ہمراہ آ جائے جو بلانے گیا تھا تو اس کے ساتھ آنا ہی اس کے لیے اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث میں مطابقت نہیں رکھتی اس لیے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لیے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت ہے یعنی اس کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے چونکہ بظاہر یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث سے مطابقت نہیں رکھتی اس لیے ان دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لیے علماء نے لکھا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بلا کر لانے والے کے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ اہل صفہ نے اسی لیے اجازت چاہی تھی کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی چلے آتے تو ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی یا یہ کہ وہ لوگ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہی ساتھ آئے تھے اس صورت میں ان کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت یا حاجت نہیں تھی لیکن چونکہ ان لوگوں پر ادب حیا کا انتہائی غلبہ تھا اس لیے ان لوگوں نے اجازت حاصل کرنا ہی بہتر سمجھا یا ان لوگوں کو وہاں کوئی ایسی چیز محسوس ہوئی ہو گی جو اجازت حاصل کرنے کی مقتضی تھی یا یہ کہ ان لوگوں کو یہ حدیث ہی نہیں پہنچی ہو گی اس لیے انہوں نے اجازت حاصل کی۔ واللہ اعلم۔

اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں نہ جاؤ

حضرت کلدہ ابن حنبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑی بھیجی اور اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ کے بالائی کنارہ پر جس کو معلی کہتے ہیں قیام پذیر تھے کلدہ کہتے ہیں کہ میں آپ کی خدمت میں یونہی چلا گیا تو میں نے آپ کی قیام گاہ میں داخل ہونے سے پہلے سلام کیا اور نہ اندر آنے کی اجازت چاہی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا واپس جاؤ یعنی یہاں سے نکل کر دروازہ پر جاؤ اور وہاں کھڑے ہو کر کہو السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔

بلا کر لانے والے کے ساتھ آنے کی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو بلایا جائے اور وہ اسی کے ساتھ چلا آئے جو اس کو بلانے گیا ہے تو اس کے ساتھ آنا ہی اس کے لیے اجازت ہے۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کسی شخص کا کسی شخص کو بلانے کے لیے آدمی بھیجنا ہی اس کی طرف سے اجازت ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا آدمی بھیج کر کسی کو اپنے گھر بلائے اور وہ بلا کر لانے والے ہی کے ساتھ چلا آئے تو اس صورت میں اس کو اس بات کی ضرورت نہیں ہو گی کہ وہ دروازہ پر کھڑے ہو کر پہلے اجازت مانگے اور پھر گھر میں داخل ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کسی کے گھر جاتے تو اجازت مانگنے کے لیے دروازے پر کس طرح کھڑے ہوتے

اور حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی گھر جانے کے لیے اس کے دروازہ پر پہنچتے تو دروازہ کی طرف منہ کر کے کھڑے نہ ہوتے۔ بلکہ دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے اور پھر اجازت مانگنے کے لیے فرماتے، السلام علیکم، السلام علیکم، اور دروازہ کے سامنے نہ کھڑے ہونے کی وجہ یہ ہوا کرتی تھی کہ اس زمانہ میں دروازوں پر پردے نہ پڑے ہوئے تھے۔ اور انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت قال علیہ الصلوٰۃ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ باب الضیافۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

ایک سے زائد بار سلام کرنے کی وجہ یہ تھی تاکہ صاحب خانہ اچھی طرح سن لے اور اجازت دے سکے واضح رہے کہ یہاں السلام علیکم جو دو بار ذکر کیا گیا ہے تو اسے تعداد مراد ہے دو بار پر اقتصار مراد نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ کسی کے دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار سلام فرماتے تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ روایت کے آخری الفاظ دروازے کے سامنے نہ کھڑے ہونے کی وجہ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ اگر دروازے پر کواڑ ہوں یا اس پر پردے پڑے ہوئے ہوں تو اس صورت میں دروازے کے سامنے کھڑے ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اصل سنت رعایت کے پیش نظر اولی یہی ہے کہ اس صورت میں بھی دروازے کے سامنے سے ہٹ کر دائیں یا بائیں طرف کھڑا ہو، اور اس لیے بھی کہ بعض اوقات کواڑ یا پردہ کھولتے ہوئے دروازے کے سامنے کھڑے ہوئے شخص کی نظر اندر چلی جاتی ہے۔

اپنی ماں وغیرہ کے گھر میں بھی اجازت لے کر جاؤ

اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی ماں کے پاس جانے میں بھی اجازت طلب کروں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس کے جسم کے اعضاء کھلے ہوئے ہوں جو بیٹے کو بھی دیکھنا جائز نہیں ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے ساتھ ہی رہتا ہوں (یعنی میں اور میری ماں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اس صورت میں مجھے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے گویا اس شخص نے گمان کیا کہ اجازت حاصل کرنا اسی شخص کے لیے مشروع ہے جو بیگانہ ہو اور کبھی کبھار آتا جاتا ہو تو اجازت حاصل کر کے جاؤ اس نے کہا کہ میں اپنی ماں کا خادم ہوں۔ آپ نے فرمایا بہر صورت اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جاؤ اور فرمایا کیا تم پسند کرو گے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھو یعنی تم اگر بغیر اجازت حاصل کیے اچانک اس کے پاس چلے جاؤ تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس وقت وہ کسی وجہ سے برہنہ بیٹھی ہو اور تمہاری نظر اس پر پڑ جائے۔ اس شخص نے کہا کہ ہرگز نہیں آپ نے فرمایا تو پھر اجازت حاصل کر کے اس کے پاس جایا کرو اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس سلسلے میں ماں ہی کے حکم میں دیگر محارم بھی ہیں خواہ ان سے نسبی تعلق ہو یا دودھ کا اور خواہ سسرالی، حاصل یہ ہے کہ جن عورتوں سے پردہ کرنا شرعی طور پر ضروری نہیں ہے اور جن کو محارم کہا جاتا ہے اگر ان کے پاس بھی جائے تو اجازت حاصل کیے بغیر نہ جانا چاہیے البتہ بیوی اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔

اجازت کا ایک طریقہ

اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رات کو بھی اور دن کو بھی آیا جایا کرتا تھا چنانچہ جب میں رات کے وقت حاضر ہوتا تو آپ مجھے اجازت دینے کے لیے کھنکار دیتے تھے۔ (نسائی

 

تشریح

 

 اس سے معلوم ہوا کہ رات کے وقت اجازت دینے کی علامت کھنکارنا تھا رہی یہ بات کہ دن کے وقت حاضری کی صورت میں کون سی علامت مقرر تھی تو احتمال ہے کہ اس صورت کے لیے امر بالعکس مراد ہو یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کے وقت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھنکارتے تھے جو میرے لیے اجازت کے مترادف ہوتا اور جب دن میں حاضر ہوتا تو خود کھنکار کر اندر جاتا تھا۔

اس حدیث سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کا کھنکارنا اجازت کی علامت تھا لیکن ایک دوسری روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں کہ جب میں رات کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کھنکارتے تو میں واپس ہو جاتا اس لیے یہ واضح ہوتا ہے کہ کھنکارنا عدم اجازت کی علامت ہوتا ہے۔ لہذا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کھنکارنا صرف اجازت ہی کی علامت نہیں ہوتا بلکہ کوئی ایسا قرینہ ہو گا جس کے ذریعہ بعض اوقات تو کھنکارنا اجازت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بعض اوقات اس کو عدم اجازت کی علامت سمجھتے ہوں گے لہذا وہ قرینہ جس صورت اجازت یا عدم اجازت کو ظاہر کرتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی پر عمل کرتے۔

سلام نہ کرنے والے کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دو

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص سلام سے پہل نہ کرے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت نہ دو۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس آنا چاہے لیکن وہ سلام کے ذریعہ اندر آنے کی اجازت طلب نہ کرے یا تمہارے پاس پہنچ کر تمہیں سلام نہ کرے تو اس کو اپنے پاس آنے یا اپنے پاس بیٹھنے کی اجازت نہ دو بلکہ اس سے کہو کہ وہ دروازے پر واپس جا کر پہلے سلام کرے اور پھر اجازت پانے پر اندر آئے۔