مشکوٰة شر یف

احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان

احرام باندھنے اور لبیک کہنے کا بیان

احرام کے معنی ہیں حرام کر دینا  چونکہ حج کرنے والے پر کئی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں لہٰذا اس اظہار کے واسطے کہ اس وقت یہ چیزیں حرام ہو گئی ہیں ایک لباس جو صرف ایک چادر اور تہبند ہوتا ہے۔ بہ نیت حج یا عمرہ باندھا جاتا ہے جس کو احرام کہتے ہیں۔

 تلبیہ یعنی لبیک کہنے سے مراد یہ عبارت پڑھنا ہے۔

لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک

احرام میں خوشبو لگانے کا مسئلہ

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احرام کے لیے احرام باندھنے سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احرام سے نکلنے کے لیے طواف کعبہ سے پہلے خوشبو لگاتی تھی اور ایسی خوشبو لگتی تھی جس میں مشک ہوتا تھا گویا میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام باندھے ہوئے ہیں یعنی وہ چمک گویا میری آنکھوں تلے پھرتی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب احرام کا ارادہ کرتے تو احرام باندھنے سے پہلے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشبو لگاتی اور وہ خوشبو ایسی ہوتی جس میں مشک بھی ہوتا تھا۔ لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر خوشبو احرام سے پہلے لگائی جائے اور اس کا اثر احرام کے بعد بھی باقی رہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ خوشبو کا احرام کے بعد استعمال کرنا ممنوعات احرام سے ہے نہ کہ احرام سے پہلے۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے کہ احرام کے بعد خوشبو استعمال کرنا ممنوع ہے احرام سے پہلے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے ہاں احرام سے پہلے بھی ایسی خوشبو لگانا مکروہ ہے جس کا اثر احرام باندھنے کے بعد بھی باقی رہے۔

 ولحلہ قبل ان یطوف بالبیت (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احرام سے نکلنے کے لئے الخ) کا مفہوم سمجھنے سے پہلے یہ تفصیل جان لینی چاہے کہ بقر عید کے روز (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) حاجی مزدلفہ سے منیٰ میں آتے ہیں اور وہاں رمی جمرہ عقبہ (جمرہ عقبہ پر کنکر مارنے) کے بعد احرام سے نکل آتے ہیں یعنی وہ تمام باتیں جو حالت احرام میں منع تھیں اب جائز ہو جاتی ہیں البتہ رفث (جماع کرنا یا عورت کے سامنے جماع کا ذکر اور شہوت انگیز باتیں کرنا) جائز نہیں ہوتا یہاں تک کہ جب مکہ واپس آتے ہیں اور طواف افاضہ کر لیتے ہیں تو رفث بھی جائز ہو جاتا ہے۔ لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس جملہ کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب احرام سے نکل آتے یعنی مزدلفہ سے منیٰ آ کر رمی جمرہ عقبہ سے فارغ ہو جاتے لیکن ابھی تک مکہ آ کر طواف افاضہ نہ کر چکے ہوتے تو میں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشبو لگاتی تھی۔

تلبید و تلبیہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلبیہ اس طرح بآواز بلند کہتے سنا اور اس وقت آپ تلبید کیے ہوئے تھے۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ یعنی حاضر ہوں میں تیری خدمت میں اے اللہ! حاضر ہوں تیری خدمت میں، میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، حاضر ہوں میں تیری خدمت میں بے شک تمام تعریف اور ساری نعمت تیرے ہی لئے ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کلمات سے زیادہ نہیں کہتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 تلبید کرنا یہ کہ محرم (احرام باندھنے والا) اپنے سر کے بالوں میں گوند یا خطمی یا مہندی یا اور کوئی چیز لگا لیتا ہے تاکہ بال آپس میں یکجا رہیں اور چپک جائیں ان میں گرد و غبار نہ بیٹھے اور جوؤں سے محفوظ رہیں۔

 تلبیہ یعنی لبیک کہنے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک احرام کے صحیح ہونے کے لئے تلبیہ شرط ہے، حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ تلبیہ واجب نہیں ہے لیکن تلبیہ ترک کرنے کی وجہ سے دم (جانور ذبح کرنا) لازم آتا ہے اور حضرت امام شافعی کے ہاں تلبیہ سنت ہے اس کو ترک کرنے کی صورت میں دم لازم نہیں ہوتا۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تلبیہ میں اکثر اتنے ہی الفاظ کہتے تھے کیونکہ اور روایتوں میں تلبیہ کے الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ بھی منقول ہیں چنانچہ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ تلبیہ کے جو الفاظ یہاں حدیث میں نقل کئے گئے ہیں، ان میں کمی کرنا تو مکروہ ہے زیادتی مکروہ نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

حدیث سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو گیا کہ تلبیہ بآواز بلند ہونا چاہئے چنانچہ تمام علماء کے نزدیک بلند آواز سے لبیک کہنا مستحب ہے۔

تلبیہ کب کیا جائے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اپنے پاؤں رکاب میں ڈالے اور اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب تلبیہ کیا (یعنی بآواز بلند لبیک کہی) (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر رخت سفر باندھا اور ظہر کی نماز مدینہ میں پڑھ کر روانہ ہوئے۔ عصر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی جو اہل مدینہ کے لئے میقات ہے رات وہیں گزاری اور پھر صبح کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اور اونٹ کے کھڑے ہو جانے کے بعد لبیک کہی جب ایک دوسری روایت میں یہ منقول ہے کہ احرام کے لیے بہ نیت نفل دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد لبیک کہی نیز ایک روایت یہ بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیداء پہنچ کر جو ایک بلند جگہ کا نام ہے لبیک کہی اس طرح لبیک کہنے کے وقت کے سلسلہ میں تین طرح کی روایتیں منقول ہیں۔ چنانچہ حضرت امام شافعی نے تو پہلی روایت پر کہ جو یہاں نقل کی گئی ہے عمل کرتے ہوئے کہا کہ اونٹ پر (یا جو بھی سواری ہو اس پر) بیٹھ کر لبیک کہی جائے، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد نے دوسری روایت کو اختیار کیا ہے۔ لہٰذا ان تینوں ائمہ کے ہاں مستحب یہ ہے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھنے کے بعد احرام کی نیت کی جائے اور پھر وہیں مصلیٰ پر بیٹھے ہی ہوئے لبیک کہے تو یہ جائز ہے لیکن نماز کے بعد ہی لبیک کہنا افضل ہے۔

اب ان تینوں روایتوں کے تضاد کو اس تطبیق کے ساتھ دور کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھ کر مصلےٰ پر بیٹھے ہوئے لبیک کہی پھر جب اونٹنی پر بیٹھے تو اس وقت بھی لبیک کہی اور اس کے بعد جب مقام بیداء پر پہنچے تو وہاں بھی لبیک کہی چنانچہ علماء نے اسی لیے لکھا ہے کہ حالت وقت اور جگہ کے تغیرات کے وقت لبیک کی تکرار مستحب ہے۔

بہر کیف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرح تین مرتبہ لبیک کہی اور جس راوی نے جہاں لبیک کہتے سنا وہ یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہیں سے لبیک کہنی شروع کی ہے اس لئے ہر ایک راوی نے اپنے سننے کے مطابق ذکر کر دیا۔ اس تطبیق و توجیہ کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جسے شیخ عبدالحق نے اشعۃ اللمعات میں شرح کتاب خرقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

تلبیہ کا ذکر اور حج کی قسمیں

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر حج میں اس طرح روانہ ہوئے کہ ہم حج کے لئے چلاتے تھے (یعنی حج کے لئے بآواز بلند لبیک کہتے تھے) (مسلم)

 

تشریح

 

 صرف حج ہی کا ذکر اس لئے کیا کہ حج ہی اصل اور مقصود اعظم ہے اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بات راوی نے اپنے بارے میں کہی ہے زیادہ سے زیادہ اس کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہو سکتا ہے جو راوی کی طرح صرف حج کے لئے تلبیہ کرتے تھے۔ یا زیادہ وضاحت سے یوں کہئے کہ یہ حدیث صرف ان لوگوں کا حال بیان کر رہی ہے جنہوں نے افراد کا احرام باندھا تھا۔ جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں یہ حدیث ساکت ہے کہ اس کی وضاحت دوسری روایت سے ہو گی اس لئے یہ روایت روایت آئندہ کے منافی نہیں ہے۔

 

 

٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سواری پر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور اکثر صحابہ دونوں چیزوں یعنی حج و عمرہ کے لئے چلاتے تھے۔ (یعنی بآواز بلند کہتے تھے) (بخاری)

 

 

تشریح

 

 اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قران افضل ہے چنانچہ حنفیہ کا یہی مسلک ہے۔ اس حدیث کو مستدل قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف عمل کرنا کب گوارا کر سکتے تھے۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قران کیا ہو گا اس لئے اکثر صحابہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع ہی میں قران کیا۔ قران کے معنی اگلی حدیث میں بیان کئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع کے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے چنانچہ ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کے لئے احرام باندھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی صرف حج کا احرام باندھا تھا لہٰذا جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تو حلال ہو گیا یعنی احرام سے باہر ہو گیا اور جنہوں نے صرف حج کا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا وہ حلال نہیں ہوتے یہاں تک کہ قربانی کا دن آیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حج کرنے والوں کی قسمیں ہیں۔ (١) مفرد (٢) قارن(٣) متمتع۔ مفرد اسے کہتے ہیں جو صرف حج کا احرام باندھے چنانچہ صرف حج کا احرام باندھنے اور صرف حج پر اکتفا کرنے کو  افراد  کہتے ہیں۔ قارن اسے کہتے ہیں جو حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ کر پہلے عمرہ کرے اور پھر حج کرے چنانچہ حج اور عمرہ دونں کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ اور پھر حج کرنے کو قران کہتے ہیں۔ متمتع اسے کہتے ہیں جو حج کے مہینوں میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور عمرہ کے افعال ادا کرے پھر اگر ہدی (قربانی کا جانور) ساتھ لایا ہو تو احرام باندھے رہے اور اگر ہدی ساتھ نہیں لایا ہے تو احرام سے نکل آئے اور مکہ میں مقیم رہے، جب حج کے دن آئیں تو حج کا احرام حرم سے باندھے اور حج کرے چنانچہ حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ کرنا اور عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد وطن جانے سے پہلے بغیر احرام کھولے (اگر قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے) یا احرام کھول کر پھر حج کے دنوں میں حرم سے حج کا احرام باندھ کر حج کرنے کو  تمتع  کہتے ہیں۔ یہاں اجمالی طور پر صرف تعریفات بیان کر دی گئی ہیں۔ تفصیلی احکام انشاء اللہ آگے آئیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں کس قسم کے لئے احرام باندھا تھا، آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مفرد تھے یا قارن اور یا متمتع؟ علماء لکھتے ہیں کہ اس بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں، بعض حدیثوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مفرد تھے چنانچہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے یہ بھی انہیں میں سے ہے، اکثر احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قارن تھے۔ اور بعض احادیث سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متمتع تھے۔

لہٰذا ان تمام احادیث میں تطبیق یوں کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رفقاء میں سے بعض تو احرام باندھتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صرف لبیک بحجۃ ہی سنا اور لفظ وعمرۃ نہ سنا لہٰذا انہوں نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مفرد تھے۔ بعض نے لبیک بحجۃ وعمرۃ سنا لہٰذا انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قارن تھے، اور بعض نے لبیک بعمرۃ سنا لہٰذا انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متمتع تھے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی تو لبیک بحجۃ کہا ہو کبھی لبیک بعمرۃ اور کبھی لبیک بحجۃ وعمرہ کہا ہو، لہٰذا جس نے جو کچھ سنا وہی روایت کیا نیز یہ کہ قران و تمتع کے افعال آپس میں چونکہ مشابہ ہیں اس لئے بعض صحابہ نے جانا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج قران کیا ہے انہوں نے اسی کو نقل کیا اور بعض صحابہ نے جانا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمتع کیا ہے اس لئے انہوں نے اسی کو نقل کیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس روایت میں  تمتع منقول ہے وہاں اس کے لغوی معنی مراد ہوں کیونکہ تمتع کے معنی ہیں نفع اٹھانا اور ظاہر ہے کہ یہ مفہوم قران سے بھی حاصل ہوتا ہے بایں طور کہ قارن عمرہ سے منتفع ہوتا ہے جو وہ حج کے ساتھ کرتا ہے۔

فاما من اہل بعمرۃ فحل الخ (لہٰذا جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تو حلال ہو گیا الخ) کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے حج سے پہلے صرف عمرہ کے لئے احرام باندھا تھا وہ طواف و سعی کرنے اور حلق یعنی سر منڈانے کے بعد عمرہ کے احرام سے باہر ہو گئے اور پھر انہوں نے حج کا احرام باندھا اور جن لوگوں نے صرف حج کا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوئے یہاں تک کہ نحر (قربانی) کا دن گزر گیا، نحر کے دن وہ بھی رمی جمرۃ العقبہ (جمرہ عقبہ پر کنکری مارنے اور حلق کے بعد احرام سے باہر آ گئے جس کے بعد تمام ممنوعات احرام ان کے لئے جائز ہو گئے علاوہ عورت کے ساتھ مباشرت کے کہ یہ طواف رکن (کہ جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں) کے بعد جائز ہوئی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حج

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج سے ملا کر تمتع کیا (یعنی فائدہ اٹھایا) بایں طور کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کے احرام سے ابتدا کی اور پھر حج کا احرام باندھا (اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج و عمرہ کو ملا دیا اور قارن ہو گئے۔ (بخاری و مسلم)

احرام کے کپڑے

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے احرام کے لئے ننگے ہوئے اور غسل کیا۔ (ترمذی، دارمی)

 

تشریح

 

  ننگے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلے ہوئے کپڑے اپنے بدن سے اتار دیئے اور تہمد باندھ کر چادر اوڑھ لی جو احرام کے کپڑے ہیں چنانچہ احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا مثلاً کرتا، پائجامہ، ٹوپی عبا، قبا اور موزہ وغیرہ پہننا منع ہے۔

 جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا احرام کے لئے غسل کرنا مسنون و افضل ہے، اگر غسل نہ ہو سکے تو پھر وضو پر اکتفا بھی جائز ہے حیض و نفاس والی عورت اور نابالغ بچوں کے لئے بھی غسل مسنون ہے۔

تلبید کا ذکر

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے سر کے بالوں کو ان چیزوں کے ذریعہ جمایا جن سے سر دھویا جاتا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 آپ نے احرام کے وقت اپنے سر کے بالوں کو گوند یا خطمی وغیرہ سے جما لیا تھا تاکہ وہ گرد و غبار سے محفوظ رہیں، اسی کو تلبید کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔

تلبیہ میں آواز بلند کرنے کا حکم

حضرت خلاد بن سائب اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے یہ امر کیا کہ میں اپنے صحابہ کو اس بات کا حکم دوں کہ وہ اہلال یا تلبیہ میں اپنی آوازیں بلند کریں۔ (مالک، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

 بالاہلا او التلبیۃ میں حرف اور راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یا تو بالاہلال فرمایا یا بالتلبیۃ کہا معنی دونوں کے ایک ہی ہیں یعنی لبیک کہنا۔

 بآواز بلند لبیک کہنا مردوں کے لئے مستحب ہے لیکن آواز کو اتنا بلند نہ کرنا چاہئے جس سے تکلیف پہنچے، عورتیں اتنی آہستہ آواز سے لبیک کہیں کہ وہ خود ہی سن سکیں دوسروں تک ان کی آواز نہ پہنچے۔

لبیک کہنے والے کی فضیلت و عظمت

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جب کوئی بھی مسلمان لبیک کہتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں کی ہر چیز خواہ وہ پتھر ہو یا درخت اور یا ڈھیلے سب لبیک کہتے ہیں یہاں تک کہ اس طرف سے یعنی اس کی دائیں طرف کی ساری زمین اور اس طرف سے یعنی اس کی بائیں طرف کی ساری زمین اس میں شامل ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 یہ حدیث گویا لبیک اور لبیک کہنے والے کی عظمت و فضیلت کو ظاہر کر رہی ہے کہ جب کوئی بھی مسلمان لبیک کہتا ہے تو زمین کی تمام چیزیں لبیک کہنے والے کی ہمنوائی کرتی ہیں بایں طور کہ وہ بھی لبیک کہتی ہیں۔

احرام کے لئے دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (احرام باندھتے وقت) ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر جب ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر کھڑی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کلمات کو (یعنی لبیک کے مشہور کلمات کو جو پہلے گزر چکے ہیں) بآواز بلند کہتے اور (پھر) یہ کلمات (مزید) کہتے لبیک اللہم لبیک لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک لبیک والرغباء الیک والعمل۔ حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ! میں تیری خدمت میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیری خدمت میں اور نیک بختی حاصل کرتا ہوں تیری خدمت میں اور بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے حاضر ہوں تیری خدمت میں اور رغبت و توجہ تیری طرف ہے اور عمل تیرے ہی لئے ہے۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے لیکن الفاظ مسلم کے ہیں۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذوالحلیفہ پہنچتے تو وہاں پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت نماز بہ نیت نفل پڑھتے جو احرام کے لئے مسنون ہے اور ان دونوں رکعتوں میں آیت (قل یا ایہا الکافرون) اور (قل ہواللہ احد) کی قرأت کرتے پھر نیت کرتے اس کے بعد لبیک کہتے اور پھر جب آپ مسجد ذوالحلیفہ کے پاس اونٹنی پر سوار ہوتے اور اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر کھڑی ہوتی تو اس وقت بھی پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انہیں کلمات کے ذریعہ تلبیہ کرتے جو مشہور ہیں اور پھر لبیک کے مزید وہ کلمات کہتے جو حدیث میں نقل کئے گئے ہیں۔

تلبیہ کے بعد درود و دعا

حضرت عمارہ بن خزیمہ بن ثابت اپنے والد مکرم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب تلبیہ (یعی لبیک کہنے) سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی اور جنت مانگتے اور اس کی رحمت کے ذریعہ دوزخ کی آگ سے معافی کے خواستگار ہوتے۔ (شافعی)

 

 

تشریح

 

 حنفی علماء فرماتے ہیں کہ یہ مستحب ہے کہ جو شخص تلبیہ سے فارغ ہو تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود پڑھے اور درود پڑھتے وقت اپنی آواز تلبیہ کی آواز کی بہ نسبت پست و دھیمی رکھے نیز اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی اور جنت مانگے، دوزخ کی آگ سے اس کی پناہ چاہے اور اپنی جس دینی و دنیاوی فلاح و بھلائی کے لیے چاہے دعا مانگے۔

 یہ مسئلہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ تلبیہ کرنے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے ہاں اگر کوئی تلبیہ کرنے کی حالت میں سلام ہی کر لے تو اس کے سلام کو جواب دینا جائز ہے نیز حنفی علماء کے نزدیک ایک مرتبہ تلبیہ کرنا تو فرض ہے اور ایک مرتبہ سے زیادہ سنت ہے ایسی سنت کہ جس کو ترک کرنے والا  برا  سمجھا جاتا ہے۔

حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان عام

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب حج کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خبردار کیا (یعنی اعلان کرایا) چنانچہ لوگ جمع ہو گئے اور پھر جب بیداء کے میدان میں پہنچے تو احرام باندھا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 جب حج فرض ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دس ہجری میں اس فریضہ کی ادائیگی کا ارادہ فرمایا تو یہ اعلان عام کرا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج کا ارادہ رکھتے ہیں جن لوگوں پر حج فرض ہے وہ سفر حج کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ وقت مقررہ پر مدینہ میں مسلمانوں کی کثیر تعداد جمع ہو گئی اور آپ تمام رفقاء کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیداء کے میدان میں جو ذوالحلیفہ کے قریب ہے پہنچے تو احرام باندھا۔ اب اس موقع پر اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں احرام باندھنے سے مراد یہ ہے کہ بیداء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ لبیک کہہ کر اپنے محرم ہونے کا اظہار کیا، کیونکہ پہلے بتایا جا چکا ہے اور یہی ثابت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابتداء ً ذوالحلیفہ ہی میں احرام کے لئے دو رکعت نماز پڑھ کر احرام باندھ لیا تھا۔

مشرکوں کا تلبیہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مشرک لوگ جب تلبیہ کہتے اور یہ کلمات ادا کرتے لبیک لا شریک لک (حاضر ہیں تیری خدمت میں، تیرا کوئی شریک نہیں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے افسوس ہے تم پر! بس بس(یعنی بس اتنا ہی کہو اس سے زیادہ مت کہو، مگر مشرک کب ماننے والے تھے وہ پھر اس کے بعد یہ کہتے) الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک(یعنی تیرا کوئی شریک نہیں ہاں وہ بت تیرا شریک ہے جو تیری ملک میں ہے، تو اس کا مالک ہے وہ شریک تیرا مالک نہیں ہے۔ مشرک لوگ تلبیہ کے یہ کلمات خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مشرک بھی حج و عمرہ اور طواف وغیرہ کیا کرتے تھے نیز وہ خانہ کعبہ کی تعطیم بھی ہمیشہ کیا کرتے تھے اور اس کا احترام ملحوظ رکھتے مگر جب لبیک کہتے تو اپنے شریک کی وجہ سے اس طرح کہتے لبیک لا شریک لک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک یعنی وہ حق تعالیٰ سے شرک کی نفی تو کرتے مگر بتوں کا استثناء کرتے اور یہ کہتے کہ وہ بت خدا کے شریک ہیں لیکن اس کے مملوک ہیں اور خدا ان بتوں کا مالک ہے، چنانچہ وہ جب تلبیہ کہنا شروع کرتے اور یہ کہتے لبیک لاشریک لک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ یہاں تک تو ٹھیک بس تم اتنا ہی کہو کہ خدا کا کوئی شریک نہیں ہے، اس سے آگے نہ کہو مگر مشرکین کی عقلوں پر تو پردے پڑے ہوئے تھے وہ ہدایت کو کیسے مان لیتے اس لئے وہ آگے کے الفاظ کہنے سے باز نہیں آتے تھے، حالانکہ ان کے یہ کلمات الا شریکا ہولک الخ درحقیقت ان کی انتہائی حماقت اور بے وقوفی ہی کو ظاہر کرتے تھے کہ بتوں کو خدا کی ملکیت بھی بتاتے تھے اور پھر انہیں شریک بھی کہتے تھے حالانکہ اگر انہیں عقل سلیم کی ذرا بھی رہنمائی حاصل ہوتی تو وہ خود یہ سمجھ سکتے تھے کہ بھلا مملوک اپنے مالک کا شریک کیوں کر ہو سکتا ہے؟