احصار کے معنی لغت کے اعتبار سے تو روک لیا جانا ہیں اور اصطلاح فقہ میں احرام باندھ لینے کے بعد حج یا عمرہ سے روکا جانا احصار کہلاتا ہے۔
جس شخص پر ایسا واقعہ پیش آ جائے یعنی جس شخص نے احرام باندھا اور پھر جس کام کے واسطے یعنی حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا تھا اس کے ادا کرنے سے وہ رکا گیا تو اس کو محصر کہتے ہیں۔
حنفی مسلک کے مطابق احصار کی کئی صورتیں ہیں جو اس چیز کی ادائیگی سے کہ جس کا احرام باندھا ہے یعنی حج یا عمرہ، حیققۃً یا شرعاً مانع ہو جاتی ہیں، ان صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ کسی دشمن کا خوف ہو! دشمن سے مراد عام ہے خواہ کوئی آدمی ہو یا درندہ جانور۔ مثلاً یہ معلوم ہو کہ راستہ میں کوئی دشمن بیٹھا ہے جو حجاج کو ستاتا ہے یا لوٹتا ہے یا مارتا ہے آگے نہیں جانے دیتا، یا ایسے ہی کسی جگہ شیر وغیرہ کی موجودگی کا علم ہو۔
۲۔ بیماری! احرام باندھنے کے بعد ایسا بیمار ہو جائے کہ اس کی وجہ سے آگے نہ جا سکتا ہو یا آگے جا تو سکتا ہے مگر مرض کے بڑھ جانے کا خوف ہو۔
۳۔ عورت کا محرم نہ رہے! احرام باندھنے کے بعد عورت کا محرم یا اس کا خاوند مر جائے، یا کہیں چلا جائے یا آگے جانے سے انکار کر دے۔
۴۔ خرچ کم ہو جائے! مثلاً احرام باندھنے کے بعد مال و اسباب چوری ہو جائے، یا پہلے ہی سے خرچ کم لے کر چلا ہو اور اب آگے کی ضروریات کے لئے روپیہ پیسہ نہ رہے۔
۵۔ عورت کے لئے عدت! احرام باندھنے کے بعد عورت کا شوہر مر جائے یا طلاق دے دے جس کی وجہ سے وہ پابند عدت ہو جائے تو یہ احصار ہو جائے گا۔ ہاں اگر وہ عورت اس وقت مقیم ہے اور اس کے جاء قیام سے مکہ بقدر مسافت سفر نہیں ہے تو احصار نہیں سمجھا جائے گا۔
۶۔ راستہ بھول جائے اور کوئی راہ بتانے والا نہ مل سکے
۷۔ عورت کو اس کا شوہر منع کر دے! بشرطیکہ اس نے حج کا احرام اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر باندھا ہو، حج فرض کے روکنے اور حج نفل میں اجازت دینے کے بعد روکنے کا اختیار شوہر کو نہیں ہے۔
۸۔ لونڈی یا غلام کو اس کا مالک منع کر دے۔
احصار کی یہ تمام صورتیں حنفیہ کے مسلک کے مطابق ہیں، بقیہ تینوں ائمہ کے ہاں احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خود ہے، چنانچہ ان حضرات کے نزدیک دیگر صورتوں میں احصار درست نہیں ہوتا بلکہ احرام کی حالت برقرار رہتی ہے۔
جس محرم کو احصار کی مندرجہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اگر مفرد ہو تو ایک ہدی کا جانور مثلاً ایک بکری اور اگر قارن ہو تو دو ہدی کے جانور مثلاً دو بکری کسی شخص کے ذریعہ حرم میں بھیج دے تاکہ وہ اس کی طرف سے وہاں ذبح ہو۔ یا قیمت بھیج دے کہ وہاں ہدی کا جانور خرید کر ذبح کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی ذبح کا دن اور وقت بھی متعین کر دے یعنی جس شخص کے ذریعہ جانور حرم بھیج رہا ہو اس کو یہ تاکید کر کے کہ یہ جانور وہاں فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کیا جائے پھر وہ اس متعین دن اور وقت کے بعد احرام کھول دے، سر منڈانے یا بال کتروانے کی ضرورت نہیں! اور پھر آئندہ سال اس کی قضا کرے بایں طور کہ اگر اس نے احصار کی وجہ سے حج کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور ایک عمرہ کرے اور قران کا احرام اتارا ہے تو اس کے بدلہ ایک حج اور دو عمرے کرے جب کہ عمرہ کا احرام اتارنے کی صورت میں صرف ایک عمرہ کیا جائے گا۔
اگر ہدی کا جانور بھیجنے کے بعد احصار جاتا رہے اور یہ ممکن ہو کہ اگر محصر روانہ ہو جائے تو قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے پہنچ جائے گا اور حج بھی مل جائے گا تو اس پر واجب ہو گا کہ وہ فوراً روانہ ہو جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس پر فوراً جانا واجب نہیں ہو گا۔ تاہم اگر وہ حج کو روانہ ہو جائے اور وہاں اس وقت پہنچے جب کہ ہدی کا جانور بھی ذبح ہو چکا ہو اور حج کا وقت بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے۔
حج فوت ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص حج کے لئے گیا، اس نے احرام بھی باندھ لیا تھا مگر کوئی ایسی بات پیش آ گئی کہ عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے بقر عید کی صبح تک کے عرصہ میں ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کر سکا، (یاد رہے کہ وقوف عرفات کا وقت عرفہ کے دن زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور بقر عید کی فجر طلوع ہوتے ہی ختم ہو جاتا ہے اس عرصہ میں وقوف عرفات فرض ہے۔ خواہ ایک منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو تو اس صورت میں حج فوت ہو جائے گا اور جس شخص کا حج فوت ہو جاتا ہے اسے فائت الحج کہتے ہیں۔
جس شخص کا حج فوت ہو جائے اس کو چاہئے کہ عمرہ کر کے یعنی خانہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد احرام کھول دے، اگر مفرد ہو تو ایک عمرہ کرے اور اگر قارن ہو دو عمرے کرے اور اس کے بعد سر منڈوا دے یا بال اتروا دے اور پھر سال آئندہ میں اس حج کی قضا کرے۔
جس شخص کا حج فوت ہو رہا ہو اس کے بارے میں ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں بقر عید کی رات کے بالکل آخری حصہ میں اس حال میں پہنچے کہ اس نے ابھی تک عشاء کی نماز نہ پڑھی ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ اگر عرفات جاتا ہوں تو عشاء کی نماز جاتی رہے اور اگر عشاء کی نماز میں مشغول ہوتا ہوں تو وقوف عرفات ہاتھ نہیں لگے گا، اس صورت میں وہ کیا کرے؟ اس کے متعلق بعض، حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ اسے عشاء کی نماز میں مشغول ہونا چاہئے اگرچہ وقوف عرفات فوت ہو جائے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ عشاء کی نماز چھوڑ دے اور عرفات چلا جائے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی کتاب درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ اگر عشاء کا وقت بھی تنگ ہو اور وقوف عرفات بھی نکلا جا رہا ہو تو اس صورت میں نماز چھوڑ کر عرفات چلے جانا چاہئے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عمرہ سے روکا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا سر منڈوا یا اور احرام کھولنے کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے ہم بستر ہوئے اور اپنی ہدی کا جانور ذبح کیا، پھر اگلے سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا عمرہ ادا کیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
روکا گیا کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ کو روانہ ہوئے مگر حدیبیہ کے مقام پر مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مع رفقاء کے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ نہ کر سکے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں احرام کھول دیا۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہدایہ کے ان الفاظ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ محصر ہدی کا جانور ذبح ہونے سے پہلے احرام نہیں کھولتا اسی لئے یہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی محصر نے ہدی کا جانور حرم روانہ کیا اور اس جانور کو لے جانے والے سے یہ تاکید کی کہ اس جانور کو فلاں دن اور فلاں وقت ذبح کر دینا اور پھر اس نے اس متعین دن میں یہ سمجھ کر کہ اب جانور ذبح ہو گیا ہو گا اپنے کو احرام سے باہر سمجھ لیا اور کوئی ایسا فعل کیا جو حالت احرام میں ممنوع ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ہدی کا وہ جانور اس متعین دن ذبح نہیں ہوا تھا یا ذبح تو اسی دن ہوا تھا مگر حرم میں ذبح ہونے کی بجائے حرم سے باہر ذبح ہو گیا تھا تو اس صورت میں اس نے خلاف احرام جس قدر فعل کئے ہوں گے ہر فعل کے عوض جزاء دینی پڑے گی۔
احصار کی ہدی کے علاوہ باقی ہدایا کے بارے میں تو حنفیہ اور شوافع کا اتفاق ہے کہ وہ حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائیں مگر حج یا عمرہ کے احصار کی ہدی کہاں ذبح کی جائے؟ اس بارے میں دونوں کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ احصار کی ہدی اسی جگہ ذبح کی جائے جہاں احصار کی صورت پیش آئی ہو جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی ہدی حرم میں بھیجی جائے اور وہاں ذبح ہو، حرم کے علاوہ اور کہیں ذبح نہ کی جائے، کیونکہ خاص دنوں میں اور خاص موقع پر ہدی کا ذبح ہونا عبادت ہے۔ اور جب یہ بات ہے کہ ایک خاص وقت اور خاص جگہ ہدی کا ذبح کرنا عبادت شمار کیا جاتا ہے تو اگر اس کے خلاف کیا گیا یعنی اس ہدی کو ذبح کرنے کی جو خاص جگہ یعنی حرم ہے اگر وہاں یہ ہدی ذبح نہ کی گئی تو عبادت کہاں رہی اور جب عبادت نہ رہی تو اس کی وجہ سے حلال ہونا یعنی احرام کھولنا کس طرح درست ہو گا۔
حضرت امام شافعی کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے اپنی ہدی حدیبیہ میں ذبح کی جو حل میں یعنی حرم سے باہر ہے۔ اس کا جواب حنفیہ کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ اس موقع پر ہدی کے جانوروں کا حرم میں پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا اس مجبوری کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور صحابہ نے اپنی ہدی وہیں ذبح کر دی۔ نیز بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ تو حل میں ہے اور کچھ حصہ حرم میں ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ نے ہدی کے جانور حدیبیہ کے اس حصہ میں ذبح کئے ہوں جو حرم میں شامل ہے۔
جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب احصار کی وجہ سے عمرہ ادا نہ کر سکے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آئندہ سال یعنی۷ھجری میں اس عمرہ کو پورا کیا چنانچہ اس عمرہ کو عمرۃ القضاء کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر کوئی محصر ہو جائے یعنی اسے حج یا عمرہ سے روک دیا جائے تو وہ اس کی قضاء کرے اس لئے حنبفیہ کے مسلک میں اس کی قضا واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں محصر پر اس کی قضا واجب نہیں ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ٧ھجری میں جو عمرہ کیا اس کا نام عمرۃ القضا ہونا حنفیہ کے مسلک کی تائید کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ عمرے کے لئے گئے تو کفار قریش نے ہمیں خانہ کعبہ پہنچنے سے پہلے حدیبیہ میں روک دیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہدی کے جانور وہیں ذبح کئے اور سر منڈوایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رفقاء میں سے کچھ نے بال کتروائے اور کچھ نے سر منڈوائے۔ (بخاری)
تشریح
فقہ حنفی کی کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد تو یہ کہتے ہیں کہ محصر کے لئے سر منڈوانا یا بال کتروانا ضروری نہیں ہے کیونکہ حلق سر منڈوانا تقصیر بال کتروانا اسی صورت میں عبادت شمار کیا جاتا ہے جب کہ افعال حج کی ترتیب میں ہو لہٰذا جب حج کے افعال ادا ہی نہ ہوں تو ان کو عبادت شمار نہیں کر سکتے جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور صحابہ نے حلق یا تقصری اس مقصد سے کیا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ بس اب واپسی کا پختہ ارادہ ہو گیا ہے اور عمرہ کی ادائیگی کی صورت نہیں رہی ہے حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک محصر کو اگرچہ سر منڈوانا یا کتروانا چاہئے لیکن اگر وہ سر نہ منڈوائے یا بال نہ کتروائے تو اس صورت میں بھی احرام سے باہر ہو جائے گا اور بطور جزاء اس پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔
٭٭ حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا سر منڈوانے سے پہلے ہدی کا جانور ذبح کیا، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کو بھی اس بات کا حکم دیا کہ وہ سر منڈوانے سے پہلے اپنی ہدی کے جانور ذبح کریں۔ (بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ سنت یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی کافی نہیں کہ اگر تم میں سے کوئی شخص حج سے روکا جائے یعنی اس کو کوئی ایسا عذر پیش آ جائے جو حج کے رکن اعظم یعنی وقوف عرفات سے مانع ہو اور طواف و سعی سے مانع نہ ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر کے ہر چیز سے حلال ہو جائے یعنی اس کے بعد اس کے لئے ہر وہ چیز حلال ہو جائے گی جو احرام کی حالت میں ممنوع تھی تآنکہ وہ اگلے سال حج کرے اور ہدی ذبح کرے اور اگر وہ ہدی ذبح نہ کر سکتا ہو تو روزہ رکھے۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں احصار کا حکم بیان کیا گیا ہے ! کچھ لوگوں نے اس بارے میں خلاف سنت طرز عمل اختیار کیا ہو گا، اس لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں متنبہ فرمایا اور کہا کہ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت یہ ہے کہ اگر کسی کو حج میں حصر و حبس کی صورت پیش آ جائے تو وہ عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور سال آئندہ اس حج کی قضا کرے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ فائت الحج اور محصر کے حکم میں تھوڑا سا فرق ہے فائت الحج کے لئے تو یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو یعنی اس نے صرف حج کا احرام باندھا ہو تو طواف و سعی کر کے احرام کھول دے اس پر صرف سال آئندہ اس حج کی قضا واجب ہے، عمرہ اور ہدی اس کے لئے واجب نہیں ہے۔
محصر کے لئے یہ حکم ہے کہ اگر وہ مفرد ہو اور اسے حرم پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں احصار کی کوئی صورت پیش آ جائے تو وہ پہلے ہدی کا جانور حرم بھیجے جب وہ جانور حرم میں پہنچ کر ذبح ہو جائے تو وہ احرام کھول دے اور آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور اس کے ساتھ ہی ایک عمرہ بھی کرے۔
لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس پر سال آئندہ صرف حج کرنا ہی واجب ہو گا عمرہ کرنا ضروری نہیں ہو گا، کیونکہ وہ صرف حج سے محصر ہوا ہے اور چونکہ ہدی کا جانور بھیج کر اس نے احرام کھولا تھا تو بس اس کے بدلہ اس کے ذمہ صرف حج ہی ہے، عمرہ نہیں ہے۔
اور اگر محصر قارن ہو (یعنی اس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا ہو) تو وہ بھی ہدی کا جانور حرم میں بھیجے اور وہاں اس جانور کے ذبح ہو جانے کے بعد احرام کھول دے، لیکن سال آئندہ اس پر اس حج کی قضا اور اس کے ساتھ دو عمرے واجب ہوں گے، اس پر ایک حج اور دو عمرے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک حج اور عمرہ تو اصلی حج وعمرہ کے بدلہ ادا کرنا ہو گا، اور دوسرا عمرہ اس واسطے کہ اس سے حج اور عمرہ فوت ہوا اس لئے اس کی جزاء کے طور پر ایک عمرہ ادا کرنا ہو گا۔
اور اگر احصار کی صورت حرم پہنچنے سے پہلے راستہ میں پیش نہ آئے بلکہ حرم پہنچ کر پیش آئے کہ وہ کسی عذر کی وجہ سے وقوف عرفات سے تو عاجز رہے مگر طواف اور سعی کر سکتا ہو تو وہ طواف و سعی کرنے کے بعد یعنی عمرہ کے افعال ادا کر کے احرام کھول دے اور پھر آئندہ سال اس حج کی قضا کرے اور ہدی کا جانور ذبح کرے اور اگر ہدی کا جانور ذبح نہ کر سکتا ہو تو روزہ رکھے، مذکورہ حدیث میں یہی صورت بیان فرمائی گئی ہے۔
فائت الحج اگر قارن ہو تو پہلے وہ عمرہ کے لئے طواف و سعی کرے پھر حج فوت ہو جانے کے بدلہ میں طواف و سعی کرے اس کے بعد سر منڈائے یا بال کتروائے اور احرام کھول دے اس کے ذمہ سے قران کی قربانی ساقط ہو جائے گی۔ اور اگر وہ متمتع ہو گا تو اس کا تمتع باطل ہو جائے گا اور اس کے ذمہ سے تمتع کی قربانی بھی ساقط ہو جائے گی اگر وہ اس کی قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو تو اس کو جو چاہے کرے۔
جس طرح مفرد کا حج فوت ہو جانے کی صورت میں اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا ہی واجب ہوتی ہے اسی طرح قران اور تمتع کی صورت میں بھی اس پر آئندہ سال صرف حج کی قضا واجب ہو گی۔
عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا۔ اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ عمرہ فوت نہیں ہوا کرتا کیونکہ وہ تو سال میں کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے علاوہ یوم عرفہ، یوم عیدالاضحیٰ اور ایام تشریق کے، جب کہ حج کی ادائیگی تو اسی خاص زمانہ اور خاص وقت میں ہو سکتی ہے جو شریعت نے متعین کی ہے۔
٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حج کے لئے روانہ ہونے والے تھے تو اپنی چچا زاد بہن ضباعہ بنت زبیر کے ہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ شاید تم ہمارے ساتھ حج کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور ہماری بھی یہی خواہش ہے کہ تم ہمارے ساتھ حج کے لئے چلو، ضباعہ نے عرض کیا کہ جی ہاں، میرا ارادہ تو ہے لیکن خدا کی قسم! میں اپنے کو بیمار پاتی ہوں یعنی مرض کی بناء پر میں بڑا ضعف محسوس کر رہی ہوں اگر میں چلتی ہوں تو نہیں جانتی کہ حج پورا بھی کر سکوں گی یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم حج کا ارادہ کر لو، اور جب احرام باندھو تو یہ شرط کر لو یعنی یہ کہو کہ۔ اللہم محلی حیث حبستنی۔ اے اللہ! میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں بیماری کے سبب روک دی جاؤں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
میرے احرام سے نکلنے کی جگہ وہ ہے جہاں میں روک دی جاؤں، کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ مجھ پر مرض غالب ہو جائے اور وہاں سے میں خانہ کعبہ کی طرف آگے نہ چل سکوں اسی جگہ میں احرام کھول دوں گی۔
جن ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ احصار کی صرف ایک ہی صورت یعنی دشمن کا خوف ہے اور بیماری سے احصار نہیں ہوتا، ان کی دلیل یہی حدیث ہے کہ اگر مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ضباعہ کو مذکورہ بالا شرط کرنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ جب مرض کی وجہ سے احصار ہو ہی جاتا تو پھر شرط کا کیا فائدہ حاصل ہوتا۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ احصار مرض کی وجہ سے بھی ہو جاتا ہے اس لئے وہ حضرت حجاج بن عمرو انصاری کی حدیث کو اپنی دلیل قرار دیتے ہیں جو آگے آ رہی ہے، نیز ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر شرط کے منکر تھے جو لوگ شرط کے قائل تھے ان سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہی فرماتے تھے کہ کیا تمہارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کافی نہیں ہے؟ یعنی جب اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا واضح حکم موجود ہے تو پھر شرط کو اختیار کرنے کا کیا معنیٰ۔ اب رہی یہ بات کہ جب مرض کی وجہ سے احرام کھول دینا مباح تھا تو پھر حضرت ضباعہ کو شرط کا حکم دینا کس مقصد سے تھا اور اس کا کیا فائدہ تھا؟ حنفیہ کہتے ہیں کہ ضباعہ کے حق میں شرط کا فائدہ یہ تھا کہ وہ احرام کی پابندیوں سے جلد آزاد ہو جائیں، اس لئے کہ وہ اگر یہ شرط نہ کرتیں تو انہیں احرام سے نکلنے میں دیر لگتی بایں طور کہ جب ان کی ہدی کا جانور حرم پہنچ کر ذبح ہو جاتا تب ہی وہ احرام کھول سکتی تھیں، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ محرم کے لئے احرام کھلونا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ اس کی ہدی حرم میں ذبح نہ ہو جائے۔ ہاں اگر وہ احرام باندھتے وقت یہ شرط کر لے کہ جس جگہ بھی مجھے احصار کی صورت پیش آ جائے گی میں وہیں احرام کھول دوں گا تو وہ محض احصار کی صورت پیش آ جانے پر، ہدی کا جانور ذبح ہوئے بغیر احرام سے باہر ہو سکتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کو یہ حکم دیا کہ عمرۃ القضاء کے موقع پر اپنی ہدی کے ان جانوروں کے عوض ذبح کریں جو انہوں نے واقعہ حدیبیہ کے سال ذبح کئے تھے۔
تشریح
اس حکم گرامی کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ نے واقعہ حدیبیہ کے موقعہ پر عمرہ سے احصار کی صورت پیش آ جانے کی وجہ سے ہدی کے جو جانور ذبح کئے تھے سال آئندہ عمرۃ القضا کے موقع پر ان جانوروں کے بدلے دوسرے جانور حرم پہنچ کر ذبح کریں تاکہ ہدی کا حرم میں ذبح ہونا واقع ہو جائے کیونکہ احصار کی ہدی کا جانور حرم ہی میں ذبح کیا جاتا ہے جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ لیکن مذکورہ بالا حکم کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب کہ یہ بات ثابت ہو کہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر ہدی کے جانور حرم سے باہر ذبح کیے گئے تھے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ہدی کے وہ جانور حرم ہی میں ذبح ہوئے تھے کیونکہ حدیبیہ کا اکثر حصہ حدود حرم میں واقع ہے (جیسا کہ باب کی پہلی حدیث کی تشریح کے ضمن میں ایک قول نقل کیا گیا تھا) تو پھر واقعہ حدیبیہ کے موقع پر ذبح کیے گئے جانوروں کے عوض دوسرے جانور ذبح کرنے کے اس حکم کا تعلق صرف احتیاط اور حصول فضیلت سے ہو گا اور کہا جائے گا کہ یہ حکم محض استحباب کے طور پر ہے۔
مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ کالی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مؤلف مشکوٰۃ کو اس حدیث کے اصل ماخذ کی تحقیق نہیں ہو سکی تھی، لیکن ایک دوسرے نسخہ میں رواہ کے بعد ابوداؤد لاحق کیا گیا ہے یعنی اس روایت کو ابوداو نے نقل کیا ہے، نیز ایک اور نسخہ میں رواہ ابوداؤد کے بعد ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے۔ وفیہ قصۃ وفی سندہ محمد بن اسحق۔
حضرت حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا پاؤں ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا۔ یعنی اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے اور اپنے گھر واپس جائے لیکن آئندہ سال اس پر حج واجب ہو گا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ) ابوداؤد کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا وہ بیمار ہو جائے۔ نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے جب کہ بغوی نے مصابیح میں اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
تشریح
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو احرام باندھ لینے کے بعد دشمن کے خوف کے علاوہ بھی اور کوئی مانع پیش آ جائے اس کے لئے جائز ہے کہ وہ احرام کھول دے، چنانچہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کے خوف کے علاوہ احصار کی اور صورتیں بھی ہیں مثلاً بیماری وغیرہ جیسا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔
وفی المصابیح ضعیف کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو بغوی نے جس سند کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ سند ضعیف ہے لہٰذا بغوی کی سند ضعیف ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ترمذی وغیرہ کی سند بھی ضعیف ہو، اور اگر اس بارے میں تعارض تسلیم بھی کر لیا جائے تو ترمذی کے قول ہذا حدیث حسن (یہ حدیث حسن ہے) کو بغوی کے اس کہنے پر کہ یہ حدیث ضعیف ہے تو ترجیح حاصل ہو گی، پھر یہ کہ ایک نسخہ میں ترمذی کے قول میں لفظ حسن کے بعد لفظ صحیح بھی ہے نیز تور پشتی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ضعیف کہنا بالکل غلط ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن یعمر دیلی کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حج عرفہ ہے (یعنی حج کا سب سے بڑا رکن ذی الحجہ کی نو یا دس تاریخ میں قیام عرفات ہے) جس نے مزدلفہ کی رات یعنی ذی الحجہ کی دسویں رات میں طلوع فجر سے پہلے وقوف عرفات پا لیا اس نے حج کو پا لیا۔ منیٰ میں ٹھہرنے کے تین دن ہیں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں تیرہویں تاریخ جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں، ان دنوں میں منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے اور رمی جمار کی جاتی ہے پس جو شخص جلدی کرے اور دو ہی دن کے بعد چلا آئے اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تاخیر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
اس نے حج کو پا لیا کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حج فوت نہیں ہوا اور وہ حج میں کسی خرابی اور فساد سے مامون رہا بشرطیکہ اس نے احرام کا وقت پورا ہونے سے پہلے بیوی سے ہم بستری یا کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کیا ہو جو احرام کی حالت میں ممنوع ہے، اور یہ بات تو پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ جس شخص کا حج فوت ہو جائے یعنی وہ ذی الحجہ کی دسوویں رات کو طلوع فجر تک ایک منٹ کے لئے بھی وقوف عرفات نہ کر سکے تو اس پر یہ واجب ہو گا کہ وہ عمرہ کے افعال یعنی طواف و سعی کے بعد احرام کھول دے، آئندہ سال کے حج تک مسلسل احرام باندھے رہنا اس کے لئے حرام ہے۔
جو شخص جلدی کرے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو ظہر کے بعد تینوں مناروں پر کنکریاں مار کر مکہ چلا آئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا اور تیرہویں رات میں قیام منیٰ اور تیرہویں تاریخ کو کنکریاں مارنا اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گا۔ اسی طرح جو شخص تاخیر کرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بارہویں تاریخ کو رمی جمرات کے بعد منیٰ ہی میں ٹھہرا رہے تآنکہ تیرہویں رات کو بھی رمی جمرات کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، گویا جواز کے اعتبار سے تو دونوں صورتیں برابر ہیں، البتہ کثرت عبادت کے پیش نظر تاخیر افضل ہے۔
منقول ہے کہ اہل جاہلیت میں دو فریق تھے، ایک فریق تو تعجیل کو گناہ کہتا تھا اور دوسرا فریق تاخیر کو، چنانچہ یہ حکم نازل ہوا کہ تعجیل اور تاخیر دونوں برابر ہیں ان میں سے کسی میں کوئی گناہ نہیں ہے۔