جامع ترمذی

احوال قیامت ، رقت قلب اور ورع

قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان

حد یث نمبر - 2415

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَنْظُرُ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقِيَ وَجْهَهُ حَرَّ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۴۹ (۶۵۳۹) ، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۳) ، و۳۶ (۷۵۱۲) ، صحیح مسلم/الزکاة ۲۰ (۱۰۱۶) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۳ (۱۸۵) ، والزکاة ۲۸ (۱۸۴۳) (تحفة الأشراف : ۹۸۵۲) ، و مسند احمد (۴/۲۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے ، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے ، اور نیک عمل کرتا رہے ، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔

 

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ يَوْمًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَرَغَ وَكِيعٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَلْيَحْتَسِبْ فِي إِظْهَارِ هَذَا الْحَدِيثِ بِخُرَاسَانَ،‏‏‏‏ لِأَنَّ الْجَهْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ هَذَا اسْمُ أَبِي السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمِ بْنِ خَالِدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ الْكُوفِيُّ.

ابوسائب کہتے ہیں کہ ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔

امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیونکہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۲؎۔ ابوسائب کا نام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (صحیح)

وضاحت: ۲؎ : جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔

قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان

حد یث نمبر - 2416

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ:‏‏‏‏ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي بَرْزَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم «عن ابن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور حسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں ابوبرزہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۳۴۶) (صحیح) (سند میں حسین بن قیس ضعیف ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم: ۹۴۶)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کے مطابق جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہو گا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے ، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے ، کیونکہ اس کا حساب دینا ہے ، جوانی میں انسان اپنے آپ کو محرمات سے بچائے ، اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہو گا ، اسی طرح مال کے سلسلہ میں اسے کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کا ڈر دامن گیر رہے ، علم کے مطابق عمل کی بابت سوال ہو گا ، اس سے معلوم ہوا کہ دین و شریعت کا علم حاصل کرے ، کیونکہ یہی اس کے لیے مفید اور نفع بخش ہے۔

قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان

حد یث نمبر - 2417

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ هُوَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ مَوْلَى أَبِي بَرْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَرْزَةَ اسْمُهُ:‏‏‏‏ نَضْلَةُ بْنُ عُبَيْدٍ.

ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن عبداللہ بن جریج بصریٰ ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، ابوبرزہ کا نام نضلہ بن عبید ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۵۹۷) (صحیح)

قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان

حد یث نمبر - 2418

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ ؟ " قَالُوا:‏‏‏‏ الْمُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: "کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟" صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم و دینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی، کسی پہ تہمت باندھی ہو گی، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو گا، اور کسی کو مارا ہو گا، پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی، پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۸۱) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۷۳) ، و مسند احمد (۲/۳۰۳، ۳۳۴، ۳۷۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کی ساری نیکیاں آخرت میں چھین لی جائیں ، اس سے بدلہ لینے والے باقی رہ جائیں ، اور اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں ، یہی حقیقی مفلس ہے ، باقی وہ دنیاوی مفلس جو مال و دولت کی کمی کی وجہ سے مفلس و بے چارگی کی زندگی گزارتا ہے ، تو یہ ایسا ہے کہ اس کی زندگی کے سدھر نے کا امکان ہے ، اور اگر نہیں بھی سدھری تو اس کا یہ معاملہ اس کی موت تک ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد اسے ایک نئی زندگی ملنے والی ہے۔

قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان

حد یث نمبر - 2419

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " رَحِمَ اللَّهُ عَبْدًا كَانَتْ لِأَخِيهِ عِنْدَهُ مَظْلَمَةٌ فِي عِرْضٍ أَوْ مَالٍ فَجَاءَهُ فَاسْتَحَلَّهُ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ حَمَّلُوا عَلَيْهِ مِنْ سَيِّئَاتِهِمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ایسے بندے پر رحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یا مال میں کوئی بدلہ ہو، پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آ کے دنیا ہی میں اس سے معاف کرا لے کیونکہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہو گا اور نہ ہی درہم، پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیا جائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سر پر ڈال دیئے جائیں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سعید مقبری کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- مالک بن انس نے «عن سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۹۵۸) (صحیح) (الصحیحة ۳۲۶۵)

قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان

حد یث نمبر - 2420

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقُ إِلَى أَهْلِهَا حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ "،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(قیامت کے دن) حقداروں کو ان کا پورا پورا حق دیا جائے گا، یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوذر اور عبداللہ بن انیس رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۸۲) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۷۴) ، و مسند احمد (۲/۲۳۵، ۳۰۱، ۳۲۳، ۴۱۱) (صحیح)

قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان

حد یث نمبر - 2421

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَاالْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوِ اثْنَيْنِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُلَيْمٌ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي أَيَّ الْمِيلَيْنِ عَنَى، ‏‏‏‏‏‏أَمَسَافَة الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَتَصْهَرُهُمُ الشَّمْسُ فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى عَقِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حِقْوَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ أَيْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ.

مقداد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کر دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یا دو میل کے فاصلے پر ہو گا"۔ راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی میل مراد لی ہے،(زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی)، "پھر سورج انہیں پگھلا دے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، بعض ایڑیوں تک، بعض گھٹنے تک، بعض کمر تک اور بعض کا پسینہ منہ تک لگام کی مانند ہو گا ۱؎"، مقداد رضی الله عنہ کا بیان ہے: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنة ۱۵ (۲۸۶۴) (تحفة الأشراف : ۱۱۵۴۳) ، و مسند احمد (۶/۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : سائنسی تحقیق کے مطابق سورج زمین سے نو کروڑ میل کے فاصلے پر ہے ، قیامت کے دن جب یہ صرف ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا تو اس کی حرارت کا کیا عالم ہو گا ؟ یہ اللہ کے علاوہ کون زیادہ جان سکتا ہے ، انسان کا حال پسینے میں یہ ہو گا ، اللہ تعالیٰ ہم پر اپنا رحم فرمائے آمین۔

قیامت کے دن حساب اور قصاص کا بیان

حد یث نمبر - 2422

حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ وَهُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ:‏‏‏‏ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: «يوم يقوم الناس لرب العالمين» "جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے" (المطففین: ۶)، اور کہا: "اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کانوں تک ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۴۷ (۶۵۳۱) ، وتفسیر المطففین (۴۹۳۸) ، صحیح مسلم/الجنة ۱۵ (۲۸۶۲) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۳ (۴۲۷۸) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المطففین (۳۳۳۵) (تحفة الأشراف : ۷۵۴۲) ، و مسند احمد (۲/۱۲، ۱۹، ۳۱، ۶۴، ۷۰، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۲۵، ۱۲۶) (صحیح)

 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۷۷۴۳) (صحیح)

حشر و نشر کا بیان

حد یث نمبر - 2423

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا كَمَا خُلِقُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ:‏‏‏‏ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى مِنَ الْخَلَائِقِ إِبْرَاهِيمُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُؤْخَذُ مِنْ أَصْحَابِي بِرِجَالٍ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ أَصْحَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ:‏‏‏‏ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سورة المائدة آية 118 ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» "جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے" (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں، تو کہا جائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں نکالیں، اور جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہو یہ لوگ ہمیشہ دین سے پھرتے رہے ہیں ۱؎، تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو (اللہ کے) نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہی تھی: «إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم» "اگر تو انہیں عذاب دے تو یقیناً یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقیناً تو غالب اور حکمت والا ہے" (المائدہ: ۱۱۸)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۴۹) ، و ۴۸ (۳۴۴۷) ، وتفسیر المائدة ۱۴ (۴۶۲۵) ، ۱۵ (۴۶۲۶) ، تفسیر الأنبیاء ۲ (۴۲۸۴۰) ، والرقاق ۴۵ (۶۵۲۴-۶۵۲۶) ، صحیح مسلم/الجنة ۱۴ (۲۸۶۰) ، سنن النسائی/الجنائز ۱۱۸ (۲۰۸۳) ، و ۱۱۹ (۲۰۸۹) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الأنبیاء (۳۱۶۷) (تحفة الأشراف : ۵۶۲۲) ، و مسند احمد (۱/۲۲۰، ۲۲۳، ۲۲۹، ۲۵۳، ۳۹۸) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۸۲ (۲۸۴۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے ، اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا ، اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر انسان کا ایمان و عمل درست نہ ہو تو وہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں رہا ہو ، کسی دوسری ہستی پر مغرور ہو کر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہو سکتی ہے ، بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتار ہیں ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اس سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

حشر و نشر کا بیان

حد یث نمبر - 2424

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ "،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "تم لوگ میدان حشر میں پیدل اور سوار لائے جاؤ گے اور اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جاؤ گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب کے میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۹۱) (صحیح)

قیامت کے دن کی پیشی کا بیان

حد یث نمبر - 2425

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرْضَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الْعَرْضَةُ الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي، ‏‏‏‏‏‏فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَلَا يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَلَا يَصِحُّ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي مُوسَى.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دو بار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے، اور تیسری بار ان لوگوں کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے ہو گا اور کوئی بائیں ہاتھ میں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ حسن کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو «عن علي الرفاعي عن الحسن عن أبي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے، ۳- یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ حسن کا سماع ابوموسیٰ اشعری سے بھی ثابت نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۵۰) (ضعیف) (حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے)

قیامت کے دن پیشی اور حساب سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 2426

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ "، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ:‏‏‏‏ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ‏‏‏‏ 8 ‏‏‏‏ سورة الانشقاق آية 7-8 قَالَ:‏‏‏‏ " ذَلِكَ الْعَرْضُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ أَيُّوبُ أَيْضًا عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس سے حساب و کتاب میں سختی سے پوچھ تاچھ ہو گئی وہ ہلاک ہو جائے گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «فأما من أوتي كتابه بيمينه فسوف يحاسب حسابا يسيرا» : "جس شخص کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا" (الانشقاق: ۷)۔ آپ نے فرمایا: "اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲- ایوب نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۳۶ (۱۰۳) ، وتفسیر سورة الانشقاق (۴۹۳۹) ، والرقاق ۴۹ (۶۵۳۶) ، صحیح مسلم/الجنة ۱۸ (۲۸۷۶) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر الانشقاق (۳۳۳۷) (تحفة الأشراف : ۱۶۲۵۴) ، و مسند احمد (۶/۴۸) (صحیح)

قیامت کے دن حساب اور پیشی سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 2427

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " يُجَاءُ بِابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ:‏‏‏‏ أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاذَا صَنَعْتَ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ فَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيُمْضَى بِهِ إِلَى النَّارِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْحَسَنِ قَوْلَهُ وَلَمْ يُسْنِدُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن آدم کو قیامت کے روز بھیڑ کے بچے کی شکل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: میں نے تجھے مال و اسباب سے نواز دے، اور تجھ پر انعام کیا اس میں تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا اے میرے رب! میں نے بہت سارا مال جمع کیا اور اسے بڑھایا اور دنیا میں اسے پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، سو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج! تاکہ میں ان سب کو لے آؤں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، جو کچھ تو نے عمل خیر کیا ہے اسے دکھا، وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے بہت سارا مال جمع کیا، اسے بڑھایا اور دنیا میں پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا، مجھے دوبارہ بھیج تاکہ میں اسے لے آؤں، یہ اس بندے کا حال ہو گا جس نے خیر اور بھلائی کی راہ میں کوئی مال خرچ نہیں کیا ہو گا، چنانچہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جہنم میں ڈال دیا جائے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی روایت کئی لوگوں نے حسن بصری سے کی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ان کا قول ہے، اسے مرفوع نہیں کیا، ۲- اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں، ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۳۱، و۱۱۴۱) (ضعیف) (سند میں اسماعیل بن مسلم بصری ضعیف راوی ہیں)

قیامت کے دن حساب اور پیشی سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 2428

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ أَبُو مُحَمَّدٍ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُؤْتَى بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا وَسَخَّرْتُ لَكَ الْأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ وَتَرَكْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي يَوْمَكَ هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أَتْرُكُكَ فِي الْعَذَابِ هَكَذَا فَسَّرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الْآيَةَ فَالْيَوْمَ نَنْسَاهُمْ سورة الأعراف آية 51،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّمَا مَعْنَاهُ الْيَوْمَ نَتْرُكُهُمْ فِي الْعَذَابِ.

ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن ایک بندے کو لایا جائے گا، باری تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے کان، آنکھ مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ اور چوپایوں اور کھیتی کو تیرے تابع کر دیا تھا، اور قوم کا تجھے سردار بنا دیا تھا جن سے بھرپور خدمت لیا کرتا تھا، پھر کیا تجھے یہ خیال بھی تھا کہ تو آج کے دن مجھ سے ملاقات کرے گا؟ وہ عرض کرے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج میں بھی تجھے بھول جاتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھول گیا تھا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح غریب ہے، ۲- اللہ تعالیٰ کے فرمان: «اليوم أنساك» کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دن میں تجھے عذاب میں ویسے ہی چھوڑ دوں گا جیسے بھولی چیز پڑی رہتی ہے۔ بعض اہل علم نے اسی طرح سے اس کی تفسیر کی ہے، ۳- بعض اہل علم آیت کریمہ «فاليوم ننساهم» کی یہ تفسیر کی ہے کہ آج کے دن ہم تمہیں عذاب میں بھولی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دیں گے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۰۱۳، ۱۲۴۵۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مراد یہ ہے جب تجھے دنیا میں میری یاد نہ رہی تو میں تجھے کیسے یاد رکھوں گا ، اس لیے تو آج سے ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم کی عذاب میں پڑا رہے گا۔

قیامت کے دن انسانی اعمال پر گواہیوں کا بیان

حد یث نمبر - 2429

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْسَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا سورة الزلزلة آية 4،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُهَا ؟ "،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَإِنَّ أَخْبَارَهَا:‏‏‏‏ أَنْ تَشْهَدَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَى ظَهْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَقُولَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَذِهِ أَخْبَارُهَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «يومئذ تحدث أخبارها» کی تلاوت کی اور فرمایا: "کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی خبریں کیا ہوں گی؟" صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: "اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر مرد اور عورت کے خلاف گواہی دے گی، جو کام بھی انہوں نے زمین پر کیا ہو گا، وہ کہے گی کہ اس نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا"، آپ نے فرمایا: "یہی اس کی خبریں ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر إذا زلزلت (۳۳۵۳) (تحفة الأشراف : ۱۳۰۷۶) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان لین الحدیث راوی ہیں)

صور کا بیان

حد یث نمبر - 2430

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا الصُّورُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا: «صور» کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- کئی لوگوں نے سلیمان تیمی سے اس حدیث کی روایت کی ہے، اسے ہم صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ السنة ۲۴ (۴۷۴۲) (تحفة الأشراف : ۸۶۰۸) ، و مسند احمد (۲/۱۶۲، ۱۹۲) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۷۹ (۲۸۴۰) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر سورة القیامة (۳۳۳۹) (صحیح)

صور کا بیان

حد یث نمبر - 2431

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتَى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ "، ‏‏‏‏‏‏فَكَأَنَّ ذَلِكَ ثَقُلَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُمْ:‏‏‏‏ قُولُوا:‏‏‏‏ " حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ،‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں کیسے آرام کروں جب کہ صور والے اسرافیل علیہ السلام «صور» کو منہ میں لیے ہوئے اس حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم صادر ہو اور اس میں پھونک ماری جائے، گویا یہ امر صحابہ کرام رضی الله عنہم پر سخت گزرا، تو آپ نے فرمایا: "کہو: «حسبنا الله ونعم الوكيل على الله توكلنا» یعنی "اللہ ہمارے لیے کافی ہے کیا ہی اچھا کار ساز ہے وہ اللہ ہی پر ہم نے توکل کیا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث عطیہ سے کئی سندوں سے ابو سعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر سورة الزمر (۳۲۴۳) (تحفة الأشراف : ۴۱۹۵) ، و مسند احمد (۳/۷، ۷۳) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: ۱۰۷۹)

پل صراط کا بیان

حد یث نمبر - 2432

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " شِعَارُ الْمُؤْمِنِ عَلَى الصِّرَاطِ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہو گا: «رب سلم سلم» میرے رب! مجھے سلامت رکھ، مجھے سلامت رکھ"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق (واسطی ہی) کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۵۳۳) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں اور عبد الرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف)

پل صراط کا بیان

حد یث نمبر - 2433

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " أَنَا فَاعِلٌ " قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ "، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں، آپ نے فرمایا:"ضرور کروں گا"۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ آپ نے فرمایا: "سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈنا"، میں نے عرض کیا: اگر پل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکے، تو فرمایا: "تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈنا"، میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہو سکے تو؟ فرمایا:"اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈنا، اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۲۴) (صحیح)

قیامت کے دن کی شفاعت کا بیان

حد یث نمبر - 2434

أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي، ‏‏‏‏‏‏وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَيَبْلُغُ النَّاسُ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَحْتَمِلُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ؟ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ:‏‏‏‏ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوحٌ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ عِيسَى:‏‏‏‏ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، ‏‏‏‏‏‏نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، ‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، ‏‏‏‏‏‏اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُقَالَ:‏‏‏‏ " يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، ‏‏‏‏‏‏سَلْ تُعْطَهْ، ‏‏‏‏‏‏وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْفَعُ رَأْسِي "،‏‏‏‏ فَأَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏يَا رَبِّ أُمَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ " يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ "، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى "،‏‏‏‏ وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ:‏‏‏‏ هَرِمٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، اس میں سے آپ کو دست کا گوشت دیا گیا جو کہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کر کھایا، پھر فرمایا: "قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیا تم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہر نگاہ والا دیکھ سکے گا، سورج ان سے بالکل قریب ہو گا جس سے لوگوں کا غم و کرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کر سکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہٰذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، آپ کے اندر اپنی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، یقیناً اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرا رب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کر لیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکا ہوں (ابوحیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گود ہی میں کلام کیا، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کر دیجئیے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہو گا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہا کہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، (آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) "پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتنا کسی پر نہیں کھولا ہو گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ اے محمد! اپنے سر کو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیا جائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کر لیں، جن پر کوئی حساب و کتاب نہیں ہے، اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دو پٹ کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان فاصلہ ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، انس، عقبہ بن عامر اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۳ (۳۳۴۰) ، و ۹ (۳۳۶۱) ، وتفسیر سورة الإسراء ۵ (۴۷۱۲) ، صحیح مسلم/الإیمان ۸۴ (۱۹۴) ، سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۲۸ (۳۳۰۷) (وتقدیم مفصلا برقم ۱۸۳۷) (تحفة الأشراف : ۱۴۹۲۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شفاعت کا بیان ہے جب سارے انبیاء اپنی اپنی بعض لغزشوں کے حوالے سے شفاعت کرنے سے معذرت کریں گے ، چونکہ انبیاء علیہم السلام ایمان و تقویٰ کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں ، اس لیے ان کی معمولی غلطی بھی انہیں بڑی غلطی محسوس ہوتی ہے ، اسی وجہ سے وہ بارگاہ الٰہی میں پیش ہونے سے معذرت کریں گے ، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے سفارش فرمائیں گے ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، آپ کی شفاعت مختلف مرحلوں میں ہو گی ، آپ اپنی امت کے حق میں شفاعت فرمائیں گے ، جو مختلف مرحلوں میں ہو گی ، اس حدیث میں پہلے مرحلہ کا ذکر ہے ، جس میں آپ کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں لے جانے کی اجازت دے گا جن پر حساب نہیں ہو گا۔

امت محمدیہ کے اہل کبائر کی شفاعت کا بیان

حد یث نمبر - 2435

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن جَابِرٍ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۸۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی میری امت کے جو اہل کبائر ہوں گے اور جو اپنے گناہوں کی سزا جہنم میں بھگت رہے ہوں گے ، ایسے لوگوں کی بخشش کے لیے میری مخصوص شفاعت ہو گی ، باقی رفع درجات کے لیے انبیاء ، اولیاء ، اور دیگر متقی و پرہیزگار لوگوں کی شفاعت بھی ہو گی جو سنی جائے گی۔

امت محمدیہ کے اہل کبائر کی شفاعت کا بیان

حد یث نمبر - 2436

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي "،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ:‏‏‏‏ فَقَالَ لِي جَابِرٌ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ الْكَبَائِرِ فَمَا لَهُ وَلِلشَّفَاعَةِ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہو گی"۔ محمد بن علی الباقر کہتے ہیں: مجھ سے جابر رضی الله عنہ نے کہا: محمد! جو اہل کبائر میں سے نہ ہوں گے انہیں شفاعت سے کیا تعلق؟

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جعفر الصادق بن محمد الباقر کی روایت سے حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۷ (۴۳۱۰) (تحفة الأشراف : ۲۶۰۸) ، و مسند احمد (۳/۲۱۳) (صحیح)

ستر ہزار مسلمان بلا حساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے

حد یث نمبر - 2437

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيِّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا، نہ ان کا حساب ہو گا اور نہ ان پر کوئی عذاب، (پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے، اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۴ (۴۲۸۶) (تحفة الأشراف : ۴۹۲۴) ، و مسند احمد (۵/۲۵۰، ۲۶۸) (صحیح)

ستر ہزار مسلمان بلا حساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے

حد یث نمبر - 2438

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ رَهْطٍ بِإِيلِيَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ "، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ سِوَاكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " سِوَايَ "، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَامَ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا ابْنُ أَبِي الْجَذْعَاءِ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏أَبِي الْجَذْعَاءِ، ‏‏‏‏‏‏هُوَ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ.

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا، ان میں سے ایک آدمی نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:"میری امت کے ایک فرد کی شفاعت سے قبیلہ بنی تمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے"، کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، میرے علاوہ ہو گا"، پھر جب وہ (راوی حدیث) کھڑے ہوئے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ ابن ابی جذعاء رضی الله عنہ ہیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابن ابی جذعاء رضی الله عنہ کا نام عبداللہ ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث مشہور ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۷ (۴۳۱۶) (تحفة الأشراف : ۵۲۱۲) (صحیح)

ستر ہزار مسلمان بلا حساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے

حد یث نمبر - 2439

حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ الْكُوفِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ جِسْرٍ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يَشْفَعُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمِثْلِ رَبِيعَةَ،‏‏‏‏ وَمُضَرَ ".

حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عثمان بن عفان رضی الله عنہ قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر، لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولایوجد في اکثر نسخ السنن) (ضعیف مرسل) (حسن بصری تابعی اور مدلس ہیں)

ستر ہزار مسلمان بلا حساب کتاب اور مزید لوگ شفاعت سے داخل جنت ہوں گے

حد یث نمبر - 2440

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعَصْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْهُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کا کوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا، کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا، اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا، یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۱۹۷) (ضعیف) (سند میں ’’ عطیہ عوفی ‘‘ ضعیف ہیں)

صرف موحد ہی شفاعت نبوی کا مستحق ہو گا

حد یث نمبر - 2441

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا "،‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَجُلٍ آخَرَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.

عوف بن مالک اشجعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوملیح نے ایک اور صحابی سے روایت کی ہے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، (لیکن) اس میں عوف بن مالک کا ذکر نہیں کیا، اس حدیث میں ایک طویل قصہ مذکور ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۹۲۰) (صحیح)

 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أبو عوانة، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

اس سند سے بھی عوف بن مالک رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے (اسی میں قصہ ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۹۲۰) (صحیح)

حوض کوثر کا بیان

حد یث نمبر - 2442

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ فِي حَوْضِي مِنَ الْأَبَارِيقِ بِعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک میرے حوض پر آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۵۳ (۶۵۸۰) ، صحیح مسلم/الفضائل ۹ (۲۳۰۳) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۶ (۴۳۰۵) (تحفة الأشراف : ۱۵۰۳) ، و مسند احمد (۳/۲۲۵، ۲۳۸) (صحیح)

حوض کوثر کا بیان

حد یث نمبر - 2443

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى الْأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ سَمُرَةَ وَهُوَ أَصَحُّ.

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہو گا، اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پر پانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں، اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر (اللہ کے فضل سے) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اشعث بن عبدالملک نے اس حدیث کو حسن بصری کے واسطے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں سمرہ کا ذکر نہیں کیا ہے، یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۶۰۳) (صحیح) (سند میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: ۱۵۸۹)

حوض کوثر کے برتنوں کے وصف کا بیان

حد یث نمبر - 2444

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنِ الْعَبَّاسِ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الْحَبَشِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ بَعَثَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ‏‏‏‏‏‏فَحُمِلْتُ عَلَى الْبَرِيدِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ شَقَّ عَلَى مَرْكَبِي الْبَرِيدُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا سَلَّامٍ مَا أَرَدْتُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ وَلَكِنْ بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ تُحَدِّثُهُ،‏‏‏‏ عَنْ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَوْضِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ تُشَافِهَنِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو سَلَّامٍ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَى عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكَاوِيبُهُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْهِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَهُمُ السُّدَدُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّى يَشْعَثَ وَلَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّى يَتَّسِخَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو سَلَّامٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ مَمْطُورٌ وَهُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ.

ابو سلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا، چنانچہ میں ڈاک سواری خچر پر سوار ہو کر آپ کے پاس پہنچا، میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا: ابو سلام! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان رضی الله عنہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حوض کوثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو، چنانچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں، ابو سلام نے کہا: ثوبان رضی الله عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اردن والے عمان تک کا فاصلہ ہے، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے، اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا، سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے، جن کے سر دھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے، جو ناز و نعم عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور نہ ان کے لیے جاہ و منزلت کے دروازے کھولے جاتے"۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: لیکن میں نے تو ناز و نعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ و منزلت کے دروازے بھی کھولے گئے، میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سر کو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہو جائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہو جائیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے «عن ثوبان عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ۳- ابو سلام حبشی کا نام ممطور ہے، یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۶ (۴۳۰۳) (تحفة الأشراف : ۲۱۲۹) (صحیح) (سند میں انقطاع ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر اس کا مرفوع حصہ صحیح ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحہ رقم: ۱۰۸۲)

حوض کوثر کے برتنوں کے وصف کا بیان

حد یث نمبر - 2445

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَآنِيَتُهُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِهَا فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ مُصْحِيَةٍ مِنْ آنِيَةِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ شَرِبَ مِنْهَا شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏عَرْضُهُ مِثْلُ طُولِهِ مَا بَيْنَ عُمَانَ إِلَى أَيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " حَوْضِي كَمَا بَيْنَ الْكُوفَةِ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ ".

ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً اس کے برتن تاروں سے بھی زیادہ ہیں اس تاریک رات میں جس میں آسمان سے بادل چھٹ گیا ہو، اور اس کے پیالے جنت کے برتنوں میں سے ہوں گے، اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا، اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے، اس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا عمان سے ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ بن یمان، عبداللہ بن عمرو، ابوبرزہ اسلمی، ابن عمر، حارثہ بن وہب اور مستورد بن شداد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے حوض کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کوفہ سے حجر اسود تک کا فاصلہ ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفضائل ۹ (۲۳۰۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۹۵۳) (صحیح)

قیامت کے دن شفاعت پر ایک اور حدیث

حد یث نمبر - 2446

حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَهُمُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَهُمْ أَحَدٌ حَتَّى مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا ؟ قِيلَ:‏‏‏‏ مُوسَى وَقَوْمُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَسِوَى هَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَدَخَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَسْأَلُوهُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ نَحْنُ هُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ قَائِلُونَ:‏‏‏‏ هُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَى الْفِطْرَةِ وَالْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ هُمُ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا مِنْهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا مِنْهُمْ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا، ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی، کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا، یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا، تو آپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے، آپ اپنے سر کو بلند کیجئے اور دیکھئیے: تو یکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اور نہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیر بیان کی، چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت اسلام پر پیدا ہوئیں۔ لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل آئے اور فرمایا: "یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑ پھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں، وہ صرف اپنے رب پر توکل و اعتماد کرتے ہیں"، اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی الله عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں"، (تم بھی انہی میں سے ہو) پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا: "عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کر لی" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۳۱ (۳۴۱۰) ، والطب ۱۷ (۵۷۰۵) ، و ۴۲ (۵۷۵۲) ، والرقاق ۲۱ (۶۴۷۲) ، و۵۰ (۶۵۴۱) ، صحیح مسلم/الإیمان ۹۴ (۲۲۰) (تحفة الأشراف : ۵۴۹۳) ، و مسند احمد (۱/۲۷۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد ، بھروسہ اور توکل کرتے ہیں ، جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پر اعتماد و توکل کی اعلی مثال ہے۔

دین سے دوری کی برائی کا بیان

حد یث نمبر - 2447

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كُنَّا عَلَيْهِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَيْنَ الصَّلَاةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " أَوَلَمْ تَصْنَعُوا فِي صَلَاتِكُمْ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں وہ چیزیں نہیں دیکھتا جن پر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کرتے تھے، راوی حدیث ابوعمران جونی نے کہا: کیا آپ نماز نہیں دیکھتے؟ انس رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم لوگوں نے نماز میں وہ سب نہیں کیا جو تم جانتے ہو؟ ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابوعمران جونی کی روایت سے غریب حسن ہے، ۲- یہ حدیث انس کے واسطے سے اس کے علاوہ اور کئی سندوں سے مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ۷ (۵۲۹، ۵۳۰) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی نماز کی پابندی اور اس کے اوقات میں اسے ادا کرنا اس سلسلہ میں تم لوگوں نے سستی اور کاہلی نہیں برتی ؟۔

دین سے دوری کی برائی کا بیان

حد یث نمبر - 2448

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنِي زَيْدٌ الْخَثْعَمِيُّ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ، قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.

اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "برا ہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ و برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو مظلوموں پر قہر ڈھائے اور ظلم و زیادتی کرے اور اللہ جبار برتر کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو لہو و لعب میں مشغول ہو اور قبروں اور ہڈیوں کے سڑ گل جانے کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اور موت کو بھول جائے، اور برا ہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے، اور برا ہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے، اور برا ہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے، اور برا ہے وہ بندہ جسے اس کا ہوائے نفسانی گمراہ کر دے اور برا ہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل و رسوا کر دے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۷۵۵) (ضعیف) (سند میں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2449

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَارُودِ الْأَعْمَىوَاسْمُهُ:‏‏‏‏ زِيَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْهَمْدَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَأَشْبَهُ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مومن بندہ کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کے پھل کھلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے «الرحيق المختوم» (مہر بند شراب) پلائے گا، اور جو مومن بندہ کسی ننگے بدن والے مومن کو کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبز جوڑے پہنائے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ حدیث عطیہ کے واسطے سے ابو سعید خدری سے موقوفا مروی ہے، اور ہمارے نزدیک یہی سند سب سے زیادہ اقرب اور صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الزکاة ۴۱ (۱۶۸۲) (تحفة الأشراف : ۴۲۰۱) ، و مسند احمد (۳/۱۳) (ضعیف) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف ہیں، نیز زیاد بن منذر بقول ابن معین: کذاب ہے، اور ابوداود کی سند میں نبیح لین الحدیث اور ابو خالد دالانی مدلس کثیر الخطأ ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2450

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ فَيْرُوزَ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ غَالِيَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللَّهِ الْجَنَّةُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو دشمن کے حملہ سے ڈرا اور شروع رات ہی میں سفر میں نکل پڑا وہ منزل کو پہنچ گیا ۱؎، آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان بڑی قیمت والا ہے، آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان جنت ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن، غریب ہے، اسے ہم صرف ابونضر ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۲۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ ایک مثل ہے جو ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جنہوں نے آخرت کے راستہ کو اپنا رکھا ہے ، اور اس پر گامزن ہیں ، کیونکہ شیطان ایسے لوگوں کے بہکانے کے لیے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ، اس لیے اس راہ پر چلنے والے اگر شروع ہی سے بیدار رہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عمل پر قائم رہے تو ایسے لوگ شیطان کے مکر اور اس کی چال سے محفوظ رہیں گے۔

باب

حد یث نمبر - 2451

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَقِيلٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُتَّقِينَ حَتَّى يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِهِ حَذَرًا لِمَا بِهِ الْبَأْسُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

عطیہ سعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بندہ متقیوں کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے، جس میں برائی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۴ (۴۲۱۵) (تحفة الأشراف : ۹۹۰۲) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن یزید دمشقی ضعیف راوی ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2452

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا عِمْرَانٌ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ.

حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث حنظلہ اسیدی کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سند کے علاوہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/التوبة ۴ (۲۷۵۰) (نحوہ في سیاق طویل وکذا) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۸ (۴۲۳۹) (تحفة الأشراف : ۳۴۴۸) ، و مسند احمد (۴/۳۴۶) ، ویأتي برقم ۲۵۱۴) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے ، آخرت یاد آتی ہے ، اور دنیا کی چاہت کم ہو جاتی ہے۔

زہد و ورع سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 2453

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَلْمَانَ أَبُو عُمَرَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَانَ صَاحِبُهَا سَدَّدَ وَقَارَبَ فَارْجُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أُشِيرَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فَلَا تَعُدُّوهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصَمَهُ اللَّهُ ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر چیز کی ایک حرص و نشاط ہوتی ہے، اور ہر حرص و نشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے، تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتار چلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو، اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کے بگاڑ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں، مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۸۷۰) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ہر کام میں شروع میں جوش و خروش ہوتا ہے ، اور عبادت و ریاضت کا بھی یہی حال ہے ، لہٰذا عابد و زاہد اگر اپنے عمل میں معتدل رہا اور افراط و تفریط سے بچ کر حق سے قریب رہا تو اس کے لیے خیر کی امید ہے ، اور اس کی عبادت کا چرچا ہوا تو شہرت کی وجہ سے اس کے فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہے ، معلوم ہوا کہ اعتدال کی راہ سلامتی کی راہ ہے اور شہرت کا انجام حسرت و ندامت ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2454

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي يَعْلَى، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، ‏‏‏‏‏‏وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا، ‏‏‏‏‏‏وَخَطَّ خَارِجًا مِنَ الْخَطِّ خَطًّا، ‏‏‏‏‏‏وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا ابْنُ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الْإِنْسَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذِهِ الْخُطُوطُ عُرُوضُهُ إِنْ نَجَا مِنْ هَذَا يَنْهَشُهُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ "،‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع خط (یعنی چوکور) لکیر کھینچی اور ایک لکیر درمیان میں اس سے باہر نکلتا ہوا کھینچی، اور اس درمیانی لکیر کے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیریں اور کھینچی، پھر فرمایا: "یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیر اس کی موت کی ہے جو ہر طرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور یہ درمیان والی لکیر انسان ہے (یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں، اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرقاق ۴ (۶۴۱۷) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۷ (۴۲۱۳) (تحفة الأشراف : ۹۲۰۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اگر ایک طرف آرزؤں سے بھری ہوئی ہے تو دوسری جانب اسے چاروں طرف سے حوادث گھیرے ہوئے ہیں ، وہ اپنی آرزؤں کی تکمیل میں حوادث سے نبرد آزما ہوتا ہے ، لیکن اس کے پاس امیدوں اور آرزؤں کا ایک وسیع اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ، اس کی آرزوئیں ابھی ناتمام ہی ہوتی ہیں کہ موت کا آہنی پنجہ اسے اپنے شکنجے میں کس لیتا ہے ، گویا موت انسان سے سب سے زیادہ قریب ہے ، اس لیے انسان کو اس سے غافل نہیں رہنا چاہیئے۔

باب

حد یث نمبر - 2455

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ "، ‏‏‏‏‏‏هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو خواہشیں جوان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۳۳۹ (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2456

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَهُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں، اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہو جائے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۱۵۰ (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2457

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏اذْكُرُوا اللَّهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ " مَا شِئْتَ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ الرُّبُعَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ "،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ النِّصْفَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَالثُّلُثَيْنِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ "،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّهَا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، کھڑکھڑانے والی آ گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے، موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے۔ موت اپنی فوج لے کر آ گئی ہے"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ (درود) پڑھا کرتا ہوں سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: "جتنا تم چاہو"، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: "جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے"، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: "جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟" آپ نے فرمایا: "جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟۔ آپ نے فرمایا: "اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰) ، وانظر مسند احمد (۵/۱۳۵) (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2458

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ " قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّا لَنَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَحْفَظَ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، ‏‏‏‏‏‏وَتَتَذَكَّرَ الْمَوْتَ وَالْبِلَى، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے" ۱؎، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے۔ ۲- اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۵۵۳) (حسن) (صحیح الترغیب ۳۳۳۷، ۱۶۳۸، ۱۷۲۵، ۱۷۲۴)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ سے پورا پورا ڈرو ، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ ۲؎ : یعنی اپنا سر غیر اللہ کے سامنے مت جھکانا ، نہ ریاکاری کے ساتھ عبادت کرنا ، اور نہ ہی اپنی زبان ، آنکھ اور کان کا غلط استعمال کرنا۔ ۳؎ : یعنی حرام کمائی سے اپنا پیٹ مت بھرو ، اسی طرح شرمگاہ ، ہاتھ ، پاؤں اور دل کی اس طرح حفاظت کرو ، کہ ان سے غلط کام نہ ہونے پائے۔

باب

حد یث نمبر - 2459

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،‏‏‏‏ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَعْنَى قَوْلِهِ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ:‏‏‏‏ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، ‏‏‏‏‏‏وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّى يُحَاسِبَ نَفْسَهُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَهُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُهُ وَمَلْبَسُهُ.

شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کر لے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور «من دان نفسه» کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کر لے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیا جائے، ۳- عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور «عرض الأكبر» (آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جو شخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب و کتاب آسان ہو گا، ۴- میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتا ہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۱ (۴۲۶۰) (تحفة الأشراف : ۴۸۲۰) (ضعیف) (سند میں ابوبکر بن ابی مریم ضعیف راوی ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2460

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ، عَنْعَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى، ‏‏‏‏‏‏فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ:‏‏‏‏ مَرْحَبًا وَأَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوِ الْكَافِرُ،‏‏‏‏ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ:‏‏‏‏ لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ:‏‏‏‏ فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلی پر تشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں، آپ نے فرمایا: "آگاہ رہو! اگر تم لوگ لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد رکھتے تو تم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے، سو لذتوں کو ختم کر دینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو، اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹی کا گھر ہوں، اور میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، پھر جب مومن بندے کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے مرحبا (خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہو گئی اور تو میری طرف آ گیا تو اب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی، پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا، اور جب فاجر یا کافر دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تو میرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں، پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تو میری طرف آ گیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا، پھر وہ اس کو دباتی ہے، اور ہر طرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کر کے فرمایا: "اللہ اس پر ستر اژدہے مقرر کر دے گا، اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک مار دے تو اس پر رہتی دنیا تک کبھی گھاس نہ اگے، پھر وہ اژدہے اسے حساب و کتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۲۱۳) (ضعیف جداً) (سند میں عبید اللہ وصافی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف راوی ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2461

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ فَرَأَيْتُ أَثَرَهُ فِي جَنْبِهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.

عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کا نشان آپ کے پہلو پر اثر کر گیا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، (وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ۲۵ (۲۴۶۸) ، والنکاح ۸۳ (۵۱۹۱) ، واللباس ۳۱ (۵۸۴۳) ، صحیح مسلم/الطلاق ۵ (۱۴۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۱ (۴۱۵۳) (کلہم في سیاق طویل في سیاق إیلاء النبی ﷺ نسائہ) (ویأتي برقم ۲۳۱۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۵۰۷) ، و مسند احمد (۱/۳۰۱، ۳۹۱) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2462

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَيُونُسَ،‏‏‏‏ عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعَتِ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَعَرَّضُوا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ "، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا فَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: "شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں"، لوگوں نے کہا جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "تمہارے لیے خوشخبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے، اللہ کی قسم! میں تم پر فقر و محتاجی سے نہیں ڈرتا ہوں، البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر کشادہ کر دی جائے، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کی گئی، پھر تم اس میں حرص و رغبت کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے حرص و رغبت کی، پھر دنیا تمہیں تباہ و برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان کو تباہ و برباد کیا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجزیہ ۱ (۳۱۵۸) ، والمغازي ۱۲ (۴۰۱۵) ، والرقاق ۷ (۶۴۲۵) ، صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۱) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۸ (۳۹۹۷) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۸۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال و اسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقر و تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے ، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا ، تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں ، لیکن افسوس صد افسوس مال و اسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کر دیا ، اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپ کو اندیشہ تھا ، حالانکہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھر سکتی ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2463

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ " سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " يَا حَكِيمُ،‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى "، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حَكِيمٌ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَى الْعَطَاءِ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ مِنْ هَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: "حکیم! بیشک یہ مال ہرا بھرا میٹھا ہے، جو اسے خوش دلی سے لے لے گا تو اسے اس میں برکت نصیب ہو گی، اور جو اسے حریص بن کر لے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہو گی، اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے"، حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں، پھر ابوبکر رضی الله عنہ، حکیم رضی الله عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے، ان کے بعد عمر رضی الله عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ عمر رضی الله عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتا ہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکیم رضی الله عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہو گئے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۴۷۲) ، والوصایا ۹ (۲۷۵۰) ، وفرض الخمس ۱۹ (۳۱۴۳) ، والرقاق ۱۱ (۶۴۴۱) ، صحیح مسلم/الزکاة ۳۲ (۱۰۳۵) ، سنن النسائی/الزکاة ۵۰ (۲۵۳۲) ، و ۹۳ (۲۶۰۲-۲۶۰۴) (تحفة الأشراف : ۳۴۲۶) ، وحإ (۳/۴۰۲، ۴۳۴) ، وسنن الدارمی/الزکاة ۲۲ (۱۶۶۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : حکیم بن حزام رضی الله عنہ کو یہ اندیشہ تھا کہ اگر لوگوں سے ان کے لیے ہوئے کو قبول کرنے لگا تو کہیں یہ عادت اس حد سے بڑھ نہ جائے جس کے لینے کی انہیں خواہش نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس چیز کا بھی انکار کر دیا جو ان کا حق بنتا تھا ، یہ دنیا سے بے رغبتی کی اعلی مثال ہے ، عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو گواہ اس لیے بنایا تاکہ لوگ ان کے بارے میں یہ نہ کہہ سکیں کہ حکیم رضی الله عنہ کے انکار کی حقیقت کو عمر رضی الله عنہ نہ جان سکے ، «واللہ اعلم»۔

باب

حد یث نمبر - 2464

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍقَالَ:‏‏‏‏ " ابْتُلِينَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالضَّرَّاءِ فَصَبَرْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ابْتُلِينَا بِالسَّرَّاءِ بَعْدَهُ فَلَمْ نَصْبِرْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکلیف اور تنگی میں آزمائے گئے تو اس پر ہم نے صبر کیا، پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کر سکے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۷۱۹) (صحیح الإسناد)

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب ہم بے انتہا مشقت و پریشانی کی زندگی گزار رہے تھے تو اس وقت ہم نے صبر سے کام لیا ، لیکن آپ کے بعد جب ہمارے لیے مال و اسباب کی کثرت ہو گئی تو ہم گھمنڈ و تکبر میں مبتلا ہو گئے اور اترا گئے۔

باب

حد یث نمبر - 2465

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ وَهُوَ الرَّقَاشِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهُ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَهُ ".

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء و بےنیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۷۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی جس کی نیت طلب آخرت ہو گی اللہ رب العالمین اسے معمولی زندگی پر بھی صابر و قانع بنا دے گا تاکہ وہ دنیا کا حریص اور اس کا طالب بن کر نہ رہے ، اس کے پراگندہ دنیاوی خیالات کو جمع کر دے گا ، اسے دل جمعی نصیب ہو گی ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آئے گی۔

باب

حد یث نمبر - 2466

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ:‏‏‏‏ " يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ هُرْمُزُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲ (۴۱۰۷) (تحفة الأشراف : ۱۴۸۸۱) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2467

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيرٍ فَأَكَلْنَا مِنْهُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ:‏‏‏‏ كِيلِيهِ فَكَالَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَوْ كُنَّا تَرَكْنَاهُ لَأَكَلْنَا مِنْهُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهَا شَطْرٌ تَعْنِي شَيْئًا.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جو تھی، پھر جتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا، پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا، تو اس نے تولا، پھر بقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہو گئے، لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہاں عائشہ رضی الله عنہا کے قول «شطر» کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۲۲۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار نے والوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اہل دنیا اور ان کو میسر آسائشوں کی طرف نہ دیکھیں ، بلکہ رسول اور ازواج مطہرات کی زندگیوں کو سامنے رکھیں ، اور فقر و فاقہ کی زندگی کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھیں ، یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے پینے کی چیزوں کو بلا تولے ناپے استعمال کیا جائے تو اس میں برکت ہوتی ہے ، اور جس حدیث میں "طعام" کے تولنے کے بارے میں ہے کہ " تولنے سے برکت ہوتی ہے " وہ طعام بیچنے کے موقع سے ہے ، کیونکہ اس وقت دو آدمیوں کے اپنے اپنے حقوق کی جانکاری کی بات ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2468

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ لَنَا قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ عَلَى بَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ " انْزَعِيهِ فَإِنَّهُ يُذَكِّرُنِي الدُّنْيَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَكَانَ لَنَا سَمَلُ قَطِيفَةٍ تَقُولُ عَلَمُهَا مِنْ حَرِيرٍ كُنَّا نَلْبَسُهَا،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں، پردہ میرے دروازے پر لٹک رہا تھا، جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: "اس کو یہاں سے دور کر دو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتا ہے"، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۷/۸۸) ، سنن النسائی/الزینة ۱۱۱ (۵۳۵۵) ، انظر أیضا: صحیح البخاری/المظالم ۳۲ (۲۴۷۹) ، واللباس ۹۱ (۵۹۵۴) ، والأدب ۷۵ (۶۱۰۹) ، وسنن النسائی/القبلة ۱۲ (۷۶۲) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۰۱) ، و مسند احمد (۶/۴۹، ۲۴۱) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2469

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ،‏‏‏‏ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَتْ وِسَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَضْطَجِعُ عَلَيْهَا مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چمڑے کا ایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۶ (۲۰۸۲) (تحفة الأشراف : ۱۷۰۶۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ اس ذات گرامی کی سادہ زندگی کا حال تھا جو سید المرسلین تھے ، آج کی پرتکلف زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سادہ زندگی سے کس قدر مختلف ہے ، کاش ہم مسلمان آپ کی اس سادگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں ، اور اسے اختیار کریں۔

باب

حد یث نمبر - 2470

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا بَقِيَ مِنْهَا ؟ " قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَيْسَرَةَ هُوَ الْهَمْدَانِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا "اس میں سے کچھ باقی ہے؟" عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے، آپ نے فرمایا: "دستی کے سوا سب کچھ باقی ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۴۱۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ذبح کی گئی بکری کا جتنا حصہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ یہی صدقہ کیا ہوا مال درحقیقت باقی ہے ، رہا وہ حصہ جو تمہارے پاس ہے وہ باقی نہیں ہے ، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ رب العالمین کے اس فرمان کی طرف ہے ، «ماعندكم ينفد وما عند الله باق» " جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے ، اور رب العالمین کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی رہنے والا ہے "۔

باب

حد یث نمبر - 2471

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ " إِنْ كُنَّا آَلَ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلَّا الْمَاءُ وَالتَّمْرُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۷۲) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۰ (۴۱۴۴) (تحفة الأشراف : ۱۷۰۶۵) ، وراجع أیضا صحیح البخاری/الھبة ۱ (۲۵۶۷) ، والرقاق ۱۷ (۶۴۵۸، ۶۵۴۵۹) (تحفة الأشراف : ۱۷۰۶۵) ، و مسند احمد (۶/۵۰، ۷۱، ۸۶) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2472

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَهُ بِلَالٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلَالٍ مِنَ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُهُ تَحْتَ إِبْطِهِ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں، مجھ پر مسلسل تیس دن و رات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والا کھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپا لیتے تھے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ـاسحدیثمیںوہدنمرادہیںکہجبآپصلیاللہعلیہوسلماہلمکہسےبیزارہوکرمکہسےنکلگئےتھےاورساتھمیںبلالرضیاللهعنہتھے،انکےپاسکچھکھاناتھاجسےوہبغلمیںدبائےہوئےتھے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۱ (۱۵۱) (تحفة الأشراف : ۳۴۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے دین کے اظہار کے لیے آپ نے کس قدر جسمانی تکالیف برداشت کی ہیں ، اور اس پر مستزاد یہ کہ مسلسل کئی کئی دن گزر جاتے اور آپ بھوکے رہتے ، ظاہر ہے بلال نے اپنی بغل میں جو کچھ چھپا رکھا تھا وہ کب تک ساتھ دیتا ، اس حدیث میں داعیان حق کے لیے عبرت و نصیحت ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2473

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ " خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ وَقَدْ أَخَذْتُ إِهَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَهُ فَأَدْخَلْتُهُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي، ‏‏‏‏‏‏فَحَزَمْتُهُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَرْتُ بِيَهُودِيٍّ فِي مَالٍ لَهُ وَهُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَهُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْهِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ ؟ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّى أَدْخُلَ، ‏‏‏‏‏‏فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ حَسْبِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْتُهَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنَ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

علی بن ابی طالب کہتے ہیں کہ ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے، پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا، مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھا لیتا، چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا، راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہا تھا، اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیا بات ہے؟ کیا تو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں، اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندر آ جاؤں، اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہو گیا، اس نے مجھے اپنا ڈول دیا، پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تو وہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہا کہ اتنا میرے لیے کافی ہے، چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دو تین گھونٹ پانی پیا، پھر میں مسجد میں آیا اور وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موجود پایا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۳۳۸) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی کے استاذ راوی مبہم ہیں)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی زندگی کس قدر فقر و تنگ دستی سے دو چار تھی ، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی حالت تھی ، اس فقر و فاقہ کے باوجود کسب حلال کا راستہ اپناتے تھے ، اور جو کچھ میسر ہوتا اسی پر قانع ہوتے تھے۔

باب

حد یث نمبر - 2474

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ أَصَابَهُمْ جُوعٌ " فَأَعْطَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرَةً تَمْرَةً "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۱۲ (۴۱۵۷) (تحفة الأشراف : ۱۳۶۱۷) (شاذ) (مؤلف اور ابن ماجہ کے یہاں جو متن ہے وہ صحیح بخاری میں اسی سند سے مروی متن سے مختلف ہے، صحیح بخاری میں فی نفر سات سات کھجوریں ملنے کا تذکرہ ہے، دیکھیے: صحیح البخاری/الأطعمة ۲۳ (۵۴۱۱) ، و۳۹ (۵۴۴۰)

باب

حد یث نمبر - 2475

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین سو کی تعداد میں بھیجا، ہم اپنا اپنا زاد سفر اٹھائے ہوئے تھے، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ان سے کہا گیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، انہوں نے فرمایا: ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی، جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہو کر کھاتے رہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے، ۳- اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرکة ۱ (۲۴۸۳) ، والجھاد ۱۲۴ (۲۹۸۳) ، والمغازي ۶۵ (۴۳۶۰-۴۳۶۲) ، والأطعمة ۱۲ (۵۴۹۴) ، صحیح مسلم/الصید ۴ (۱۹۳۵) ، سنن النسائی/الصید ۳۵ (۴۳۵۶، ۴۳۵۹) ، سنن ابن ماجہ/الزھد ۱۲ (۴۱۵۹) (تحفة الأشراف : ۳۱۲۵) ، موطا امام مالک/صفة النبی ۱۰ (۲۴) ، وسنن الدارمی/الصید ۶ (۲۰۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ صحابہ کرام دنیا سے کس قدر بے رغبت تھے ، فقر و تنگدستی کی وجہ سے ان کی زندگی کس طرح پریشانی کے عالم میں گزرتی تھی ، اس کے باوجود بھوک کی حالت میں بھی ان کا جذبہ جہاد بلند ہوتا تھا ، کیونکہ وہ صبر و ضبط سے کام لیتے تھے۔

باب

حد یث نمبر - 2476

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي مَنْ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَهُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَى لِلَّذِي كَانَ فِيهِ مِنَ النِّعْمَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي هُوَ الْيَوْمَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَى وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ ؟ " قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَى الْمُؤْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَأَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى عَنْهُ وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَشُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز و نعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا حال ہو گا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تو دوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھا جائے گا تو دوسرا اٹھایا جائے گا، اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیسا کہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتا ہے؟ ۲؎"، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت و مشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یزید بن زیاد سے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے، اور(تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ۰التحفة: ۱۰۳۳۹) (ضعیف) (محمد بن کعب قرظی سے استاذ راوی مبہم ہیں)

وضاحت: ۱؎ : مصعب بن عمیر رضی الله عنہ جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں ، یہ اپنا سارا مال و متاع مکہ میں چھوڑ کر ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے ، عقبہ ثانیہ کے بعد آپ نے ان کو قرآن کی تعلیم دینے اور دین کی باتیں سکھانے کے لیے مدینہ بھیجا ، مدینہ میں ہجرت سے پہلے جمعہ کے لیے لوگوں کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف انہی کو حاصل ہے ، زمانہ جاہلیت میں سب سے زیادہ ناز و نعمت کی زندگی گزار نے والے تھے ، لیکن اسلام لانے کے بعد ان سب سے انہیں بے رغبتی ہو گئی۔ ۲؎ : یعنی ایک وقت ایسا آئے گا کہ مال ومتاع کی ایسی کثرت ہو جائے گی کہ صبح و شام کپڑے بدلے جائیں گے ، قسم قسم کے کھانے لوگوں کے سامنے ہوں گے ، لوگ اپنے مکانوں کی تزئین کریں گے ، گھروں میں عمدہ اور قیمتی کپڑوں کے پردے لٹکائیں گے ، جیسا کہ آج کل ہے۔ ۳؎ : امام ترمذی ان تین لوگوں کے درمیان فرق بیان کر رہے ہیں جو یزید کے نام سے موسوم ہیں : (۱)یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں ، جو اس حدیث کی سند میں مذکور ہیں (۲)یزید بن زیاد مشقی ہیں ، (۳)یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں۔

باب

حد یث نمبر - 2477

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ أَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَى بَطْنِي مِنَ الْجُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَى طَرِيقِهِمُ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِتَسْتَتْبِعَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا أَسْأَلُهُ إِلَّا لِيَسْتَتْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْحَقْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَضَى فَاتَّبَعْتُهُ وَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ هَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ أَهْدَاهُ لَنَا فُلَانٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ الْحَقْ إِلَى أَهْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ وَهُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَى أَهْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَاءَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا هَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَهْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُهُ إِلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَهُ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا عَسَى أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْهُ مَا يُغْنِينِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبَا هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِهِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُهُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّى يَرْوَى، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرُدُّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأُنَاوِلُهُ الْآخَرَ حَتَّى انْتَهَيْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رَوَى الْقَوْمُ كُلُّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ فَوَضَعَهُ عَلَى يَدَيْهِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَتَبَسَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَبَا هُرَيْرَةَ اشْرَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرِبْتُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اشْرَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ:‏‏‏‏ اشْرَبْ حَتَّى قُلْتُ:‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَهُ مَسْلَكًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَسَمَّى ثُمَّ شَرِبَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے، وہ مال اور اہل و عیال والے نہ تھے، قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تھا، ایک دن میں لوگوں کی گزرگاہ پر بیٹھ گیا، اس طرف سے ابوبکر رضی الله عنہ گزرے تو میں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا، پھر عمر رضی الله عنہ گزرے، ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا: "ابوہریرہ!" میں نے کہا: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "ساتھ چلو" اور آپ چل پڑے، میں بھی ساتھ میں ہو لیا، آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی، چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی، وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا، دریافت فرمایا: "یہ دودھ کہاں سے ملا؟" عرض کیا گیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ!" میں نے کہا: حاضر ہوں، آپ نے فرمایا: "جاؤ اہل صفہ کو بلا لاؤ"، یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، گھربار تھا نہ کوئی مال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی صدقہ آتا تھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے، اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے، اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلا بھیجتے، اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے، اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے، لیکن اس ذرا سے دودھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گزرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جو کچھ ہے انہیں دوں، مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا، حالانکہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا، چنانچہ میں ان سب کو بلا لایا، جب وہ سب آپ کے پاس آئے اور اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: "ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دے دو"، چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کو دینے لگا، جب ایک شخص پی کر سیر ہو جاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا، ساری قوم سیر ہو چکی تھی (یا سب لوگ سیر ہو چکے تھے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکرا کر فرمایا: "ابوہریرہ! یہ دودھ پیو"، چنانچہ میں نے پیا، پھر آپ نے فرمایا: "اسے پیو" میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجا ہے اب میں پینے کی گنجائش نہیں پاتا، پھر آپ نے پیالہ لیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دودھ پیا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۱۴ (۶۲۴۶) (مختصرا) والرقاق ۱۷ (۶۴۵۲) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۴۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل و عیال اور مال والے نہ ہوں ان کا خاص خیال رکھا جائے ، اصحاب صفہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اسی خاص خیال کا نتیجہ ہے ، آپ کے پاس جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے ، دودھ کی کثرت یہ آپ کے معجزہ کی دلیل ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کو مزید کھانے پینے کے لیے کہنا چاہیئے ، اور کھانے کی مقدار اگر کافی ہے تو خوب سیر ہو کر کھانا پینا بھی جائز ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2478

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى الْبَكَّاءُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " كُفَّ عَنَّا جُشَاءَكَ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن أَبِي جُحَيْفَةَ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا، تو آپ نے فرمایا: "تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأطعمة ۵۰ (۳۳۵۰، ۳۳۵۱) (تحفة الأشراف : ۸۵۶۳) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : ڈکار عموماً زیادہ کھانے سے آتی ہے ، اس لیے آپ نے اس آدمی سے یہ فرمایا اور اگر ڈکار گیس کی بیماری کی وجہ سے آئے تو اس ڈکار پر یہ حدیث صادق نہیں آئے گی ، کیونکہ یہ تو مجبوری کی حالت میں ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2479

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ " يَا بُنَيَّ لَوْ رَأَيْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصَابَتْنَا السَّمَاءُ لَحَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ ثِيَابَهُمُ الصُّوفُ فَإِذَا أَصَابَهُمُ الْمَطَرُ يَجِيءُ مِنْ ثِيَابِهِمْ رِيحُ الضَّأْنِ.

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اگر تم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے، جب اس پر بارش کا پانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۶ (۴۰۳۳) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ۴ (۳۵۶۲) (تحفة الأشراف : ۹۱۲۶) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس وقت اون کا کپڑا موٹا جھوٹا ہوتا تھا ، جیسا گڈریوں کا ہوتا ہے ، آج کل کا قیمتی اونی کپڑا مراد نہیں ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2480

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ الْبِنَاءُ كُلُّهُ وَبَالٌ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا أَجْرَ وَلَا وِزْرَ ".

ابوحمزہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں: گھر مکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے، میں نے کہا: اس مکان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جسے بنائے بغیر چارہ نہیں انہوں نے کہا: نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۴۱۴) (ضعیف الإسناد)

باب

حد یث نمبر - 2481

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الْإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا "،‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ حُلَلِ الْإِيمَانِ:‏‏‏‏ يَعْنِي مَا يُعْطَى أَهْلُ الْإِيمَانِ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ.

معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۰۲) (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2482

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " النَّفَقَةُ كُلُّهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَيْرَ فِيهِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏شَبِيبُ بْنُ بَشِيرٍ وَإِنَّمَا هُوَ شَبِيبُ بْنُ بِشْرٍ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نفقہ سب کا سب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھر بنانے میں صرف ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۰۱) (ضعیف) (سند میں زافر سخت وہم کے شکار ہو جاتے تھے، اور شبیب روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے)

باب

حد یث نمبر - 2483

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعَ كَيَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَقَدْ تَطَاوَلَ مَرَضِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَا تَمَنَّوْا الْمَوْتَ " لَتَمَنَّيْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " يُؤْجَرُ الرَّجُلُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا التُّرَابَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فِي الْبِنَاءِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی الله عنہ کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے، انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوا رکھے تھے، انہوں نے کہا: یقیناً میرا مرض بہت لمبا ہو گیا ہے، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ "موت کی تمنا نہ کرو"، تو میں ضرور اس کی تمنا کرتا، اور آپ نے فرمایا:"آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے"، یا فرمایا: "گھر بنانے میں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۷۰ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی جو اپنی ضرورت سے زائد عمارت پر خرچ ہوتا ہے اس پر کچھ بھی ثواب نہیں ملتا ، ویسے انسان کو سر چھپانے ، گرمی ، سردی کی شدت اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیے ایک مکان کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ یہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے ، حدیث میں مذکورہ وعید ایسی تعمیرات سے متعلق ہے جو ضرورت سے زائد ہوں یا جن پر اسراف سے خرچ کیا جائے۔

باب

حد یث نمبر - 2484

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِلسَّائِلِ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَتَصُومُ رَمَضَانَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتَ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نَصِلَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ ثَوْبًا،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا كَانَ فِي حِفْظِ مِنَ اللَّهِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آ کر ابن عباس رضی الله عنہما سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: تم نے سوال کیا اور سائل کا حق ہوتا ہے، بیشک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، چنانچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۴۰۹) (ضعیف) (سند میں خالد بن طہمان مختلط ہو گئے تھے)

باب

حد یث نمبر - 2485

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ:‏‏‏‏ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ:‏‏‏‏ " أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی "لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۴ (۱۳۳۴) ، والأطعمة ۱ (۳۲۵۱) (تحفة الأشراف : ۵۳۳۱) ، و مسند احمد (۵/۴۵۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2486

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْمَدَنِيُّ الْغِفَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجر و ثواب میں) صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصوم ۵۵ (۱۷۶۴، ۱۷۶۵) (تحفة الأشراف : ۱۳۰۷۲) ، و مسند احمد (۲/۲۸۳) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2487

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ،‏‏‏‏ فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غم خواری کرنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت و مشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہو گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو گے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی ، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا ، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت و مشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔

باب

حد یث نمبر - 2488

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَى النَّارِ ؟ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْهِ النَّارُ ؟ عَلَى كُلِّ قَرِيبٍ هَيِّنٍ سَهْلٍ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۳۴۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی جو اپنے حسن اخلاق اور حسن معاملہ سے لوگوں کے دلوں میں اور دنیاوی معاملات میں دوسروں کے ساتھ آسانی ، نرمی ، تواضع اور مشفقانہ طرز اپنانے والا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ حرام ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2489

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ عَائِشَةَ:‏‏‏‏ أَيُّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ " كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّى "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۴۴ (۶۷۶) ، النفقات ۸ (۵۳۶۳) ، والأدب ۴۰ (۶۰۳۹) (تحفة الأشراف : ۱۵۹۲۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے ، غرور و تکبر چھوڑنے اور اپنے اہل و عیال کی خدمت کرنے کی ترغیب ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2490

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَيْدٍ التَّغْلَبِيِّ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَصَافَحَهُ لَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُكْبَتَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا، اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے، جب تک کہ وہ خود اپنا رخ نہ پھیر لیتا، اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأدب ۲۱ (۳۷۱۶) (تحفة الأشراف : ۸۴۱) (ضعیف) (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، مگر مصافحہ والا ٹکڑا دیگر احادیث سے ثابت ہے)

باب

حد یث نمبر - 2491

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " خَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فِي حُلَّةٍ لَهُ يَخْتَالُ فِيهَا فَأَمَرَ اللَّهُ الْأَرْضَ فَأَخَذَتْهُ فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ يَتَلَجْلَجُ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے اگلی امتوں میں سے ایک شخص ایک جوڑا پہن کر اس میں اتراتا ہوا نکلا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا اور زمین نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا، پس وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلا جا رہا ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۶۴۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کا شکر گزار ہونا چاہیئے ، خود پسندی اور تکبر میں مبتلا ہو کر اپنی حیثیت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔

باب

حد یث نمبر - 2492

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيُسَاقُونَ إِلَى سِجْنٍ فِي جَهَنَّمَ يُسَمَّى بُولَسَ تَعْلُوهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ، ‏‏‏‏‏‏يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِينَةَ الْخَبَالِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متکبر (گھمنڈ کرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام «بولس» ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے «طينة الخبال» کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۸۸۰۰) (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2493

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ،‏‏‏‏ وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

معاذ بن انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے غصہ پر قابو پا لیا اس حال میں کہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا کہ وہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کر لے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۰۲۱ (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2494

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغِفَارِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ نَشَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَأَدْخَلَهُ جَنَّتَهُ، ‏‏‏‏‏‏رِفْقٌ بِالضَّعِيفِ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَقَةٌ عَلَى الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِحْسَانٌ إِلَى الْمَمْلُوكِ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْمُنْكَدِرِ هُوَ أَخُو مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین خصلتیں ایسی ہیں کہ یہ جس کے اندر پائی جائیں تو قیامت کے روز اللہ اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے گا، اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ (۱) ضعیفوں کے ساتھ نرم برتاؤ کرے (۲) ماں باپ کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاؤ کرے، (۳) لونڈیوں اور غلاموں پر احسان کرے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۱۴۶) (موضوع) (سند میں عبد اللہ بن ابراہیم کذاب، اور اس کا باپ مجہول راوی ہے)

باب

حد یث نمبر - 2495

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ " يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلُونِي الْهُدَى أَهْدِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَى الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أُبَالِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا زَادَ ذَلِك فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا عَلَى أَشْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمُ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُهُ فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْكُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيهِ إِبْرَةً ثُمَّ رَفَعَهَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيدُ عَطَائِي كَلَامٌ وَعَذَابِي كَلَامٌ إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْتُهُ أَنْ أَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْدِ يكَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي ذَرٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.

ابوذر غفاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، اور تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جسے میں غنی (مالدار) کر دوں، اس لیے تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں رزق دوں گا، اور تم سب گنہگار ہو، سوائے اس کے جسے میں عافیت دوں سو جسے یہ معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں پھر وہ مجھ سے مغفرت چاہتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں، اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار بندے کی طرح ہو جائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر اضافہ نہ ہو گا، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ شقی و بدبخت کی طرح ہو جائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر کمی نہ ہو گی، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے، تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک و تر سب ایک ہی زمین پر جمع ہو جائیں اور تم میں سے ہر انسان مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں اور میں تم میں سے ہر سائل کو دے دوں تو بھی میری سلطنت میں کچھ بھی فرق واقع نہ ہو گا مگر اتنا ہی کہ تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ میں سخی، بزرگ ہوں، جو چاہتا ہوں کرتا ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا، اور میرا عذاب صرف کہہ دینا ہے، کسی چیز کے لیے جب میں چاہتا ہوں تو میرا حکم یہی ہے کہ میں کہتا ہوں "ہو جا" بس وہ ہو جاتی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو بطریق: «عن شهر بن حوشب عن معدي كرب عن أبي ذر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۰ ۴۲۵۷۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۹۶۴) (ضعیف) (اس سیاق سے یہ حدیث ضعیف ہے، سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں راوی ضعیف ہیں، لیکن اس کے اکثر حصے صحیح مسلم میں موجود ہیں۔)

باب

حد یث نمبر - 2496

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ، عَنْسَعْدٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ حَدِيثًا، ‏‏‏‏‏‏لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ أَكَثَرَ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " كَانَ الْكِفْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَهُ فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَأَعْطَاهَا سِتِّينَ دِينَارًا عَلَى أَنْ يَطَأَهَا فَلَمَّا قَعَدَ مِنْهَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنَ امْرَأَتِهِ أُرْعِدَتْ وَبَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكِ أَأَكْرَهْتُكِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ وَلَكِنَّهُ عَمَلٌ مَا عَمِلْتُهُ قَطُّ وَمَا حَمَلَنِي عَلَيْهِ إِلَّا الْحَاجَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَفْعَلِينَ أَنْتِ هَذَا وَمَا فَعَلْتِهِ اذْهَبِي فَهِيَ لَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا أَعْصِي اللَّهَ بَعْدَهَا أَبَدًا، ‏‏‏‏‏‏فَمَاتَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَى بَابِهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْلِ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رَوَاهُ شَيْبَانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ الْأعْمَشِ فَلَمْ يَرْفَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَعْمَشِ فَأَخْطَأَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَتْ جَدَّتُهُ سُرِّيَّةً لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّازِيِّ عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ،‏‏‏‏ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْعِلْمِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے اگر میں نے اسے ایک یا دو بار سنا ہوتا یہاں تک کہ سات مرتبہ گنا تو میں اسے تم سے بیان نہ کرتا، لیکن میں نے اسے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ کے کرنے سے پرہیز نہیں کرتا تھا، چنانچہ اس کے پاس ایک عورت آئی، اس نے اسے ساٹھ دینار اس لیے دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا، لیکن جب وہ اس کے آگے بیٹھا جیسا کہ مرد اپنی بیوی کے آگے بیٹھتا ہے تو وہ کانپ اٹھی اور رونے لگی، اس شخص نے پوچھا: تم کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟ وہ بولی: نہیں، لیکن آج میں وہ کام کر رہی ہوں جو میں نے کبھی نہیں کیا اور اس کام کے کرنے پر مجھے سخت ضرورت نے مجبور کیا ہے، چنانچہ اس نے کہا: تم ایسا غلط کام کرنے جا رہی ہے جسے تم نے کبھی نہیں کیا، اس لیے تم جاؤ، وہ سب دینار بھی تمہارے لیے ہیں، پھر اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا، پھر اسی رات میں اس کا انتقال ہو گیا، چنانچہ صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا "بیشک اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا""۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے شیبان اور دیگر لوگوں نے اعمش سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے، اور بعض لوگوں نے اسے اعمش سے غیر مرفوع روایت کیا ہے، ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے لیکن اس میں غلطی کی ہے، اور «عن عبد الله بن عبد الله عن سعيد بن جبير عن ابن عمر» کہا ہے جو کہ غیر محفوظ ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۰۴۹) ، وانظر مسند احمد (۳/۲۳) (ضعیف) (سند میں سعد مولی طلحہ مجہول ہے، نیز اس کے مرفوع و موقوف ہونے میں اختلاف ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: الضعیفة رقم: ۴۰۸۳)

باب

حد یث نمبر - 2497

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ بِحَدِيثَيْنِ:‏‏‏‏ أَحَدِهِمَا عَنْ نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ " إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ فِي أَصْلِ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ وَقَعَ عَلَى أَنْفِهِ "،‏‏‏‏ قَالَ بِهِ هَكَذَا فَطَارَ.

حارث بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے دو حدیثیں بیان کیں، ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (یعنی ایک موقوف اور دوسری مرفوع) عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مومن اپنے گناہ کو ایسا دیکھتا ہے گویا وہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ ڈرتا ہے کہ اس پر وہ گر نہ پڑے ۱؎، اور فاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہوئی ہے، اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ اڑ گئی ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدعوات ۴ (۶۳۰۸) ، صحیح مسلم/التوبة ۱ (۲۷۴۴) (تحفة الأشراف : ۹۱۹۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے عذاب الٰہی کا پہاڑ اپنے سامنے نظر آتا ہے۔ ۲؎ : یعنی ایک فاجر شخص اپنے گناہ کے سلسلہ میں بےخوف ہوتا ہے اور اس کی نگاہ میں اس گناہ کی کوئی اہمیت نہیں ، نہ ہی اسے اس پر کوئی افسوس ہوتا ہے بلکہ اس کی حیثیت اس مکھی کی طرح ہے جو ناک پر بیٹھی ہو اور ہاتھ کے اشارہ سے بھاگ جائے ، اسی طرح اس کے عقل و فہم میں اس گناہ کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا یہ ابن مسعود کی موقوف روایت ہے ، (مرفوع کا ذکر آگے ہے)۔

باب

حد یث نمبر - 2498

وَقَالَ:‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ رَجُلٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍ دَوِيَّةٍ مَهْلَكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَا يُصْلِحُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَضَلَّهَا فَخَرَجَ فِي طَلَبِهَا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي الَّذِي أَضْلَلْتُهَا فِيهِ فَأَمُوتُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ فَاسْتَيْقَظَ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَ رَأْسِهِ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ وَمَا يُصْلِحُهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یقیناً اللہ تم میں سے ایک شخص کی توبہ پر اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بےآب و گیاہ چٹیل میدان میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا توشہ، کھانا پانی اور دیگر ضرورتوں کی چیز رکھی ہوئی ہے، پھر اس کی اونٹنی کھو جاتی ہے اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے: میں اسی جگہ لوٹ جاؤں جہاں سے میری اونٹنی کھو گئی تھی، اور وہیں مر جاؤں چنانچہ وہ لوٹ کر اسی جگہ پہنچتا ہے، اور اس پر نیند طاری ہو جاتی ہے، پھر جب بیدار ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی اونٹنی اس کے سر کے پاس موجود ہے اس پر اس کا کھانا پانی اور حاجت کی چیز بھی موجود ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، نعمان بن بشیر اور انس بن مالک رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2499

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ مَسْعَدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم صرف علی بن مسعدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۹ (۴۲۵۱) (تحفة الأشراف : ۱۳۱۵) (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2500

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وفي الباب عن عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ الْكَعْبِيِّ الْخُزَاعِيِّ وَاسْمُهُ:‏‏‏‏ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۸) ، صحیح مسلم/الإیمان ۱۹ (۱۴) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۲ (۳۹۷۶) (تحفة الأشراف : ۱۵۲۷۲) ، و مسند احمد (۲/۲۶۷، ۲۶۹، ۴۳۳، ۴۶۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے ، یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہو جائے۔

باب

حد یث نمبر - 2501

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ صَمَتَ نَجَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو خاموش رہا اس نے نجات پائی" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسے ہم صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۸۶۱) ، وانظر: مسند احمد (۲/۱۵۹، ۱۷۷) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۵ (۳۷۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : خاموشی آدمی کے لیے سکون اور آخرت کے لیے نجات کا ذریعہ ہے ، کیونکہ لوگوں سے زیادہ میل جول اور ان سے گپ شپ کرنا یہ دین کے لیے باعث خطرہ ہے ، اس لیے اپنے فاضل اوقات کو ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں صرف کرنا زیادہ بہتر ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2502

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ،‏‏‏‏ قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ حَكَيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يَسُرُّنِي أَنِّي حَكَيْتُ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ صَفِيَّةَ امْرَأَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ بِيَدِهَا:‏‏‏‏ هَكَذَا كَأَنَّهَا تَعْنِي قَصِيرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَقَدْ مَزَجْتِ بِكَلِمَةٍ لَوْ مَزَجْتِ بِهَا مَاءَ الْبَحْرِ لَمُزِجَ ".

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: "مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے"۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیشک صفیہ ایک عورت ہیں، اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، گویا یہ مراد لے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قد ہیں۔ آپ نے فرمایا: "بیشک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جائے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۴۰ (۴۸۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۳۲) ، و مسند احمد (۶/۱۸۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی نقل بھی غیبت میں شامل ہے ، اس لیے بطور تحقیر کسی کے جسمانی عیب کی نقل اتارنا یا تنقیص کے لیے اسے بیان کرنا سخت گناہ کا باعث ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2503

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حُذَيْفَةَ هُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيُقَالُ اسْمُهُ:‏‏‏‏ سَلَمَةُ بْنُ صُهَيْبَةَ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں یہ نہیں پسند کرتا کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2504

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ "،‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.

ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا گیا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوموسیٰ کی روایت سے اس سند سے صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۵ (۱۱) ، صحیح مسلم/الإیمان ۱۴ (۴۲) ، سنن النسائی/الإیمان ۱۱ (۵۰۰۲) (تحفة الأشراف : ۹۰۴۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : زبان سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کسی مسلمان کی طعن و تشنیع ، غیبت چغل خوری ، بہتان تراشی نہ کرے ، نہ ہی اسے گالی گلوج دے ، اور ہاتھ سے محفوظ رہنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے نہ کسی کو مارے ، نہ قتل کرے ، نہ ناحق کسی کی کوئی چیز توڑے ، اور نہ ہی باطل افکار پر مشتمل کوئی تحریر لکھے جس سے کہ لوگ گمراہ ہوں۔

باب

حد یث نمبر - 2505

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ " مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّهُ أَدْرَكَ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاتَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ غَيْرَ حَدِيثٍ.

معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنے کسی دینی بھائی کو کسی گناہ پر عار دلایا تو اس کی موت نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہو جائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اس کی سند متصل نہیں ہے، اور خالد بن معدان کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں ہے، خالد بن معدان سے مروی ہے کہ انہوں نے ستر صحابہ سے ملاقات کی ہے، اور معاذ بن جبل کی وفات عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی، اور خالد بن معدان نے معاذ کے کئی شاگردوں کے واسطہ سے معاذ سے کئی حدیثیں روایت کی ہے، ۳- احمد بن منیع نے کہا: اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ شخص توبہ کر چکا ہو۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۱۰) (موضوع) (خالد بن معدان کا سماع معاذ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد بن حسن کذاب راوی ہے، اسی نے یہ حدیث گھڑی ہوگی مگر سند متصل نہ کر سکا)

باب

حد یث نمبر - 2506

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَالِدٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، ح قَالَ:‏‏‏‏ وَأَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَاأُمَيَّةُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَذَّاءُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا تُظْهِرِ الشَّمَاتَةَ لِأَخِيكَ فَيَرْحَمَهُ اللَّهُ وَيَبْتَلِيكَ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمَكْحُولٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَكْحُولٌ شَامِيٌّ يُكْنَى:‏‏‏‏ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَكَانَ عَبْدًا فَأُعْتِقَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَكْحُولٌ الْأَزْدِيُّ بَصْرِيٌّ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ يَرْوِي عَنْهُ عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ تَمِيمِ بْنِ عَطِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ مَكْحُولًا يُسْئِلُ فَيَقُولُ نَدَانَمْ.

واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے بھائی کے ساتھ شماتت اعداء نہ کرو، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور تمہیں آزمائش میں ڈال دے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- مکحول کا سماع واثلہ بن اسقع، انس بن مالک اور ابوھند داری سے ثابت ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا سماع ان تینوں صحابہ کے علاوہ کسی سے ثابت نہیں ہے، ۳- یہ مکحول شامی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، یہ ایک غلام تھے بعد میں انہیں آزاد کر دیا گیا تھا، ۴- اور ایک مکحول ازدی بصریٰ بھی ہیں ان کا سماع عبداللہ بن عمر سے ثابت ہے ان سے عمارہ بن زاذان روایت کرتے ہیں۔ اس سند سے مکحول شامی کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ «ندانم» (میں نہیں جانتا) کہتے تھے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۷۴۹) (ضعیف) (سند میں حفص بن غیاث اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے)

باب

حد یث نمبر - 2507

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ:‏‏‏‏ كَانَ شُعْبَةُ يَرَى أَنَّهُ ابْنُ عُمَرَ.

یحییٰ بن وثاب نے ایک بزرگ صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی عدی نے کہا: شعبہ کا خیال ہے کہ شیخ صحابی (بزرگ صحابی) سے مراد ابن عمر رضی الله عنہما ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۲۳ (۴۰۳۲) (تحفة الأشراف : ۸۵۶۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : گویا لوگوں کے درمیان رہ کر جمعہ ، جماعت ، نیکی و بھلائی کے کام اور مجالس خیر میں شریک رہنا ، ضرورت مندوں کی خبرگیری ، مریضوں کی عیادت اور لوگوں کے دیگر مصالح کے لیے ان سے رابطہٰ و ضبط رکھنا ، اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے ، اور ان سے پہنچنے والی تکالیف و ایذاء پر صبر کرے تو اس سے بہتر مسلمان کوئی نہیں ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2508

حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " إِيَّاكُمْ وَسُوءَ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّهَا الْحَالِقَةُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَسُوءَ ذَاتِ الْبَيْنِ:‏‏‏‏ إِنَّمَا يَعْنِي الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلُهُ:‏‏‏‏ الْحَالِقَةُ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّهَا تَحْلِقُ الدِّينَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آپسی پھوٹ اور بغض و عداوت کی برائی سے اجتناب کرو کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی ہے ۱؎، آپسی پھوٹ کی برائی سے مراد آپس کی عداوت اور بغض و حسد ہے اور «الحالقة» مونڈنے والی سے مراد دین کو مونڈنے والی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۹۹۸) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپسی بغض و عداوت اور انتشار و افتراق سے اجتناب کرنا چاہیئے ، کیونکہ اس سے نہ یہ کہ صرف دنیا تباہ ہوتی ہے بلکہ دین بھی ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2509

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ ؟ " قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ ".

ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو درجہ میں صلاۃ، صوم اور صدقہ سے بھی افضل ہے، صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ ضرور بتائیے"، آپ نے فرمایا: "وہ آپس میں میل جول کرا دینا ہے ۱؎ اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈنے والی ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "یہی چیز مونڈنے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین کو مونڈ نے والی ہے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۵۸ (۴۹۱۹) (تحفة الأشراف : ۱۰۹۸۱) ، و مسند احمد (۶/۴۴۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ آپس میں میل جول کرا دینا یہ نفلی عبادت سے افضل ہے ، کیونکہ یہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار کے نہ ہونے کا ذریعہ ہے ، جب کہ آپسی رنجش و عداوت دینی بگاڑ کی جڑ ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2510

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ مَوْلَى الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمُ الْحَسَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، ‏‏‏‏‏‏أَفَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا يُثَبِّتُ ذَاكُمْ لَكُمْ ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنِ الزُّبَيْرِ.

زبیر بن عوام رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے، یہ مونڈنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو: تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یحییٰ بن ابی کثیر سے اس حدیث کے روایت کرنے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث: «عن يحيى بن أبي كثير عن يعيش بن الوليد عن مولى الزبير عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اس میں زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۶۴۸) (حسن) (سند میں مولی الزبیر مبہم راوی ہے، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، صحیح الترغیب والترہیب ۲۶۹۵)

باب

حد یث نمبر - 2511

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھا جائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۵۱ (۴۹۰۲) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۲۳ (۴۲۱۱) (تحفة الأشراف : ۱۱۶۹۳) ، و مسند احمد (۵/۳۸) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2512

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيهِ كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيهِ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏مَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَاقْتَدَى بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا فَضَّلَهُ بِهِ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَهُ اللَّهُ شَاكِرًا صَابِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِهِ إِلَى مَنْ هُوَ دُونَهُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاهُ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَاتَهُ مِنْهُ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا "

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر و شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا، پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے کو دیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔ اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پر نظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا، تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۷۷۸) (ضعیف) (سند میں مثنی بن صباح ضعیف راوی ہیں، ان کی تضعیف خود امام ترمذی نے کی ہے، اور عمرو بن شعیب بن محمد اور ان کے پردادا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کے درمیان انقطاع ہے، لیکن اگلی سند میں عن أبیہ کا ذکر ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفة ۶۳۳، ۱۹۲۴)

وضاحت: ۱؎ : گویا دینی معاملہ میں ہمیشہ اپنے سے بہتر اور سب سے زیادہ دین پر عمل کرنے والے شخص کو دیکھنا چاہیئے ، تاکہ اپنے اندر اسی جیسا دینی جذبہ پیدا ہو ، اور دنیا کے اعتبار سے ہمیشہ اپنے سے کم تر پر نگاہ رہے تاکہ رب العالمین کی جانب سے ہمیں جو کچھ میسر ہے اس پر ہم اس کا شکر گزار بندہ بن سکیں ، اور ہمارے اندر نعمت شناسی کی صفت پیدا ہو۔

باب

حد یث نمبر - 2512

أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَذْكُرْ سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ فِي حَدِيثِهِ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ.

اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- سوید بن نصر نے اپنی سند میں «عن أبيه» کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف) (تحفة الأشراف میں ترمذی کا قول ’’ حسن غریب ‘‘ موجود نہیں ہے)

باب

حد یث نمبر - 2513

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ،‏‏‏‏ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ "،‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے تم سے کم تر ہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں، اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو، جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۱ (۲۹۶۳/۹) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۹ (۴۱۴۲) ، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الرقاق ۳۰ (۶۴۹۰) ، وصحیح مسلم/الزہد (۲۹۶۳/۸) (تحفة الأشراف : ۱۲۴۶۷، و۱۲۵۱۴) ، و مسند احمد (۲/۲۵۴، ۴۸۲) (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2514

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ. ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْحَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَهُوَ يَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِهَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَى فُرُشِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے) ، وہ کہتے ہیں کہ میں ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزرا تو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے (بات یہ ہے) کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں، اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں، ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، چنانچہ ہم دونوں چل پڑے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "حنظلہ! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے، جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اور جنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں تو ان وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن جب ہم دنیاوی کاروبار اور اپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں، تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں، لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۴۵۲، ۲۵۱۴ (صحیح) (اور اس کے شاہد کے لیے ملاحظہ ہو: ۲۵۲۶)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں صحابہ کرام کے زہد و ورع اور تقویٰ کا ذکر ہے ، معلوم ہوا کہ انسان کی حالت و کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی ، بلکہ اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے ، اس لیے انسان جب بھی غفلت کا شکار ہو تو اسے بکثرت ذکر الٰہی کرنا چاہیئے ، اور اس حالت کو جس میں غفلت طاری ہو نفاق پر نہیں محمول کرنا چاہیئے ، کیونکہ انسان ہمیشہ ایک ہی حالت و کیفیت کا اپنے آپ کو مکلف بنا کر رکھے یہ ممکن نہیں ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خود ایک ہی آدمی کی ایمانی کیفیت وقتاً فوقتا گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2515

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص مومن کامل نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۷ (۱۳) ، صحیح مسلم/الإیمان ۱۷ (۴۵) ، سنن النسائی/الإیمان ۱۹ (۵۰۱۹) ، ۳۳ (۵۰۴۲) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۹ (۶۶) (تحفة الأشراف : ۱۲۳۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو باہم ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیئے ، اگر مسلمان اپنے معاشرہ کو خود غرضی رشوت ، بددیانتی ، جعل سازی ، لوٹ کھسوٹ وغیرہ سے پاک صاف رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اس حدیث کو اپنے لیے نمونہ بنا کر اس پر عمل کرنا ہو گا ، إن شاء اللہ جو بھی اخلاقی بیماریاں عام ہیں وہ ختم ہو جائیں گی ، ورنہ ذلت اور بداخلاقی سے ہمیشہ دو چار رہیں گے۔

باب

حد یث نمبر - 2516

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَابْنُ لَهِيعَةَ،‏‏‏‏ عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ. ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي، ‏‏‏‏‏‏قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ،‏‏‏‏ الْمَعْنَى وَاحِدٌ،‏‏‏‏ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا غُلَامُ،‏‏‏‏ " إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ:‏‏‏‏ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوِ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ "،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: "اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۴۱۵) ، وانظر: مسند احمد ۱/۲۹۳، ۳۰۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ اللہ کے فیصلہ کو کوئی نہیں بدل سکتا ، اللہ کے سوا کسی سے مدد مانگنا شرک ہے ، نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے ، بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ رہے تو اللہ اپنے اس بندے کا خیال رکھتا ہے۔

باب

حد یث نمبر - 2517

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ:‏‏‏‏ " اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ "،‏‏‏‏ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ:‏‏‏‏ قَالَ يَحْيَى:‏‏‏‏ وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: "اسے باندھ دو، پھر توکل کرو"۔ عمرو بن علی الفلاس کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث انس کی روایت سے غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ ۲- اسی طرح سے یہ حدیث عمرو بن امیہ ضمری کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۰۲) (حسن)

باب

حد یث نمبر - 2518

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ " وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَبُو الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ:‏‏‏‏ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوالحوراء شیبان سعدی کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن علی رضی الله عنہما سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا چیز یاد کی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد کیا ہے کہ "اس چیز کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے، سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے، اور جھوٹ دل کو بے قرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے" ۱؎، اور اس حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوالحوراء سعدی کا نام ربیعہ بن شیبان ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الأشربة ۵۰ (۵۷۱۴) (تحفة الأشراف : ۳۴۰۵) ، و مسند احمد (۱/۲۰۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ شک و شبہ والی چیزوں سے اجتناب کرو ، اور جس پر قلبی اطمینان ہو ، اس پر عمل کرو ، سچائی کو اپنا شعار بناؤ کیونکہ اس سے قلبی اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے ، جب کہ جھوٹ سے دل بے قرار اور پریشان رہتا ہے۔

 

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ بُرَيْدٍ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.

اس سند سے بھی حسن بن علی رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)

باب

حد یث نمبر - 2519

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نُبَيْهٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعِبَادَةٍ وَاجْتِهَادٍ وَذُكِرَ عِنْدَهُ آخَرُ بِرِعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا تَعْدِلْ بِالرِّعَةِ "،‏‏‏‏ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو عبادت و ریاضت میں مشہور تھا اور ایک دوسرے شخص کا ذکر کیا گیا جو ورع و پرہیزگاری میں مشہور تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی عبادت ورع و پرہیزگاری کے برابر نہیں ہو سکتی"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۷۸) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبد الرحمن بن نبیہ مجہول راوی ہیں)

باب

حد یث نمبر - 2520

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو زُرْعَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ مِقْلَاصٍ الصَّيْرَفِيِّ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَكَلَ طَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَمِلَ فِي سُنَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ "، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا الْيَوْمَ فِي النَّاسِ لَكَثِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " وَسَيَكُونُ فِي قُرُونٍ بَعْدِي "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ،‏‏‏‏

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص حلال کھائے، سنت پر عمل کرے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں، وہ جنت میں داخل ہو گا"، ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے لوگ تو اس زمانے میں بہت پائے جاتے ہیں؟"، آپ نے فرمایا: "ایسے لوگ میرے بعد کے زمانوں میں بھی ہوں گے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کو اسرائیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۰۷۲) (ضعیف) (سند میں ابو بشر مجہول راوی ہیں)

 

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بِشْرٍ.

اس سند سے بھی ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا وہ بھی یہ حدیث صرف اسرائیل ہی کی روایت سے جانتے تھے اور ابوبشر کا نام انہیں معلوم نہیں تھا۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف)

باب

حد یث نمبر - 2521

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ وَأَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَنْكَحَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَهُ "،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.

معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اللہ کی رضا کے لیے دیا اور اللہ کی رضا کے لیے روکا اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی، اور اللہ کی رضا کے لیے عداوت و دشمنی کی اور اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا تو یقیناً اس کا ایمان مکمل ہو گیا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۳۰۱) ، وانظر مسند احمد (۳/۳۳۸، ۴۴۰) (حسن) (امام ترمذی نے اسے منکر کہا ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم: ۳۸۰)

باب

حد یث نمبر - 2522

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ مُوْسَى، أخْبَرَنَا شَيْبَانٌ، عَنْ فَرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاْلَ:"أوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، وَالثَّانِيَّةُ عَلَى لَوْنِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍ فِى السَّمَائِ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ عَلَى كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُوْنَ حُلَّةً يَبْدُوْ مُخُّ سَاقِهَا مِنَ وَرَائِهَا". قَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنت میں جو پہلا گروہ داخل ہو گا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی صورت ہوں گے اور دوسرے گروہ کے چہرے اس بہتر روشن اور چمکدار ستارے کی طرح ہوں گے جو آسمان میں ہے، ان میں سے ہر شخص کو دو دو بیویاں ملیں گی، ہر بیوی کے بدن پر لباس کے ستر جوڑے ہوں گے، پھر بھی اس کی پنڈلی کا گودا باہر سے (گوشت کے پیچھے سے) دکھائی دے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأعادہ برقم ۲۵۳۵ (تحفة الأشراف : ۴۲۲۲) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے: الصحیحة رقم: ۱۷۳۶)