مشکوٰۃ کے اکثر نسخوں میں یہاں صرف باب لکھ کر عنوان قائم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باب متعلقات قرآن کے بیان میں ہے مگر بعض نسخوں میں اس موقع پر یہ عنوان لکھا ہوا ہے باب اختلاف القرآن و جمع القرآن یعنی اختلافات قرأت و لغات اور قرآن جمع کرنے سے مراد ہے کتابت قرآن یعنی اس کا مصحف میں لکھا جانا۔
امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن جب) میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ سورہ فرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھ رہے ہیں جس طریقہ کے مطابق میں پڑھتا ہوں اور جس طریقہ سے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ سورت پڑھائی تھی تو قریب تھا کہ میں ان کی طرف جھپٹ پڑوں یعنی قرأت ختم کرنے سے پہلے ہی میں ان سے لڑ پڑوں مگر پھر میں نے ان کو اتنی مہلت دی کہ وہ پڑھنے سے فارغ ہوئے اس کے بعد میں نے ان کی چادر ان کی گردن میں ڈالی اور انہیں کھینچتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے سنا ہے کہ یہ سورت فرقان اس طریقہ کے خلاف پڑھتے ہیں جس طریقہ سے آپ نے مجھے وہ سورت پڑھائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عمر! انہیں چھوڑ دو۔ پھر ہشام سے کہا کہ تم پڑھو، پھر ہشام نے اسی طریقے سے پڑھا جس طریقے سے میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی قرأت سن کر فرمایا کہ یہ سورت اسی طرح اتاری گئی ہے۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ اب تم پڑھو۔ چنانچہ میں نے پڑھا (تو آپ نے میری قرأت بھی سن کر فرمایا کہ یہ سورت اس طرح اتاری گئی ہے یاد رکھو کہ یہ قرآن سات طریقہ پر اتارا گیا ہے لہٰذا ان میں سے جس طریقہ سے ہو سکے پڑھو!(اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ مسلم کے ہیں)
تشریح
اس حدیث کے معنی و مفہوم میں علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے چنانچہ اس کی تشریح و وضاحت کے سلسلے میں تقریباً چالیس اقوال منقول ہیں ان میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے جس کے معنی پورے بسط کے ساتھ کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اختلاف قرأت اگرچہ سات طریقوں سے زائد منقول ہے لیکن وہ تمام اختلاف سات وجہوں کی طرف راجع ہیں اور سات وجہیں یہ ہیں۔ (١) اختلاف کی پہلی وجہ کلمہ کی ذات میں یعنی کلمہ کی کمی و زیادت کا اختلاف ہونا (٢) دوسری وجہ صیغہ جمع و واحد کے ساتھ متغیر ہونا۔ (٣) تیسری وجہ مذکر و مونث کا اختلاف (٤) چوتھی وجہ حروف کا صرفی اختلاف یعنی تخفیف وتشدید، فتح وکسرہ اور ضمہ اختلاف جیسے مَیِّت بھی پڑھا جاتا ہے اور مَیْت بھی ایسے یَقْنِطُ اور یَقْنُطُ یا یَعْرِشُ اور یَعْرُشُ وغیرہ (٥) پانچویں وجہ حرکات کا اختلاف (٦) وجہ حروف کا اختلاف جیسے لکن الشیاطین کہ بعض تو اسے نون کی تشدید کے ساتھ پڑھتے ہیں اور بعض نون کی تخفیف کے ساتھ (٧) ساتویں وجہ ادائیگی لغات کا اختلاف جیسے تفخیم اور امالہ۔
کتاب العم (مظاہر حق جدید جلد اول باب علم) میں اس باب کو یہاں کی بہ نسب زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سنا کہ آپ کی قرأت اس شخص کی قرأت سے مختلف تھی چنانچہ میں اس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صورت حال بیان کی (کہ اس شخص کی قرأت آپ کی قرأت سے مختلف ہے) پھر میں نے محسوس کیا کہ (میرے جھگڑے اور اختلاف کی وجہ سے) آپ کے چہرہ اقدس پر ناگواری کے آثار نمایاں ہیں بہر کیف آپ نے فرمایا تم دونوں صحیح اور اچھا پڑھتے ہو (دیکھو) آپس میں اختلاف نہ کرو کیونکہ وہ لوگ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (یعنی پہلی امتوں کے لوگ) وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہو گئے یعنی وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (بخاری)
تشریح
یہاں اختلاف سے مراد قرآن کے ان وجوہ میں سے کسی ایک وجہ کا انکار ہے کہ جن کے مطابق قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی جتنی بھی قرأتیں منقول اور رائج ہیں وہ سب برحق ہیں ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی ایک قرأت کا بھی انکار کیا تو گویا اس نے قرآن کریم ہی کا انکار کیا اس موقع پر یہ تفصیل بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ بعض قرأتیں تو متواتر ہیں اور بعض آحاد متواتر وہ سات قرأتیں ہیں جو پڑھی جاتی ہیں۔
٭٭ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص وہاں آیا اور نماز پڑھنے لگا اس نے نماز ہی میں یا نماز کے بعد ایسی قرأت پڑھی (یعنی ایسے لہجے میں قرآن شریف پڑھا) کہ میں نے اسے درست نہیں سمجھا پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرأت پڑھی جب ہم سب نماز سے فارغ ہو چکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس(مسجد ہی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کی جگہ یا آپ کے حجرہ مبارک میں) حاضر ہوئے میں نے عرض کیا کہ حضرت! اس شخص نے ایسی قرأت پڑھی جسے میں نے درست نہیں سمجھا اس کے بعد یہ دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کے خلاف طریقہ سے قرأت پڑھی ! نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر دونوں کو اپنے سامنے قرآن پڑھنے کا حکم دیا ان دونوں نے پڑھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کی قرأت کی تحسین و توثیق کی یہ دیکھ کر میرے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ پیدا ہو گیا ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں پیدا نہیں ہوا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری یہ کیفیت دیکھی جو مجھ پر طاری تھی یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہوا کہ میرے دل میں تردد و شبہ پیدا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دست مبارک میرے سینے پر مارا تاکہ اس کی برکت سے وسوسہ ختم ہو جائے چنانچہ میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور خوف کی وجہ سے میری ایسی حالت ہو گئی کہ گویا میں خدا کو دیکھ رہا ہوں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ ابی! جب قرآن نازل ہوا تو میرے پاس حضرت جبرائیل کے ذریعہ سے یہ حکم بھیجا گیا کہ میں ایک طریقہ یعنی ایک قرأت پر یا ایک لغت پر قرآن پڑھوں میں نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ میری امت پر آسانی عطا فرمائی جائے تاکہ آسانی ہو بایں طور کہ ایک ہی قرأت میں قرآن پڑھنا مشکل ہے اس لیے کئی قرأتوں کے مطابق پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ آسانی ہو چنانچہ دوسری مرتبہ مجھے حکم یہ دیا گیا کہ میں دو قرأتوں پر قرآن پڑھوں! میں نے پھر درخواست پیش کی کہ میری امت کو مزید آسانی عطا فرمائی جائے چنانچہ تیسری مرتبہ مجھے یہ حکم دیا گیا کہ میں قرآن کریم کو سات طریقوں سے یعنی سات لغات یا سات قرأت کے مطابق پڑھوں اور یہ بھی فرمایا کہ جتنی مرتبہ ہم نے آپ کو حکم دیا ہے اتنی ہی مرتبہ آپ ہم سے دعا مانگئے ہم اسے قبول کریں گے چنانچہ میں نے بارگاہ الوہیت میں دو مرتبہ یہ دعا کی کہ اے اللہ میری امت میں سے کبیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اے اللہ میری امت میں سے صغیرہ گناہ کرنے والوں کو بخش دے اور تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے رکھ چھوڑی ہے جس دن مخلوق مجھ سے سفارش و شفاعت کی خواہش کرے گی یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی مجھ سے شفاعت کی خواہش کریں گے۔ (مسلم)
تشریح
میرے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہو گیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں قرأتوں کی تحسین وتوثیق کی تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ کے دل میں اس بات کی تکذیب کا وسوسہ اور شبہ اس لئے پیدا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو دونوں قرأتوں کو اچھا کہا حالانکہ قرآن کریم چونکہ اللہ رب العزت کا کلام ہے اس لیے وہ کسی ایک خاص طریقہ کے مطابق ہی پڑھا جانا چاہئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی کلام کوئی شخص کئی طریقہ سے پڑھیں اور ان سب کا پڑھنا درست ہو؟
ایسا وسوسہ اور شبہ جو ایام جاہلیت میں بھی پیدا نہیں ہوا تھا۔ کا مطلب یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں چونکہ میرا قلب و دماغ ایمان یقین کی روشنی سے منور نہیں تھا۔ اس لئے اس حالت میں بڑے سے بڑا وسوسہ اور شبہ بھی اتنا بعید اور بڑا معلوم نہیں ہوتا تھا لیکن اب جب خدا کے فضل سے قلب و دماغ ایمان واسلام کے نور سے منور ہیں اور یقین و معرفت کی دولت حاصل ہے تو یہ وسوسہ اور شبہ بھی بہت ہی زیادہ بڑا اور سنگین معلوم ہوا۔
جتنی مرتبہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا الخ۔ اس ارشاد ربانی کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے آپ کو تین مرتبہ حکم دیا یعنی ایک مرتبہ تو ایک قرأت کے مطابق دوسری مرتبہ دو قرأت کے مطابق اور تیسری مرتبہ سات قرأت کے مطابق قرآن پڑھنے کا حکم دیا اب آپ ان تینوں مرتبہ کے عوض ہم سے تین سوال کیجئے تاکہ ہم تینوں کو پورا کریں۔ چنانچہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تینوں سوال اپنی امت کی مغفرت کے لئے ہی کئے کیونکہ اصل چیز تو مغفرت ہی ہے اگر مغفرت نہ ہو تو کسی کی نجات ممکن نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ آیت (وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین) (اے اللہ اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو بلاشبہ ہم ٹوٹا پانے والوں میں سے ہونگے)
لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر مغفرت کو تین زمروں میں تقسیم کیا دو مغفرت تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی امت کے لئے یعنی گناہ کبیرہ اور صغیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے چاہی اور تیسری مغفرت کو تمام ہی مخلوق کے لئے قیامت کے دن پر چھوڑا اسی کو شفاعت کبریٰ کہتے ہیں یعنی قیامت کے دن جب سب ہی نفسی نفسی کہتے ہوں گے اور کوئی بھی نبی و پیغمبر مخلوق خدا کی شفاعت کی جرات نہیں کر پائے گا تو آخر کار شافع محشر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پروردگار کے حضور مخلوق خدا کی شفاعت کیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سب کی شفاعت کریں گے اسی طرح وہ تیسری دعا جس کی قبولیت کا وعدہ بارگاہ رب العزت سے اس وقت کیا گیا تھا اور جسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آج کے لئے رکھ چھوڑا تھا وہ اس موقع پر کام آئے گا۔
اگرچہ پوری مخلوق یہاں تک کہ تمام ہی انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شفاعت کی آرزو و خواہش کریں گے لیکن اس جگہ حضرت ابراہیم کا نام بطور خاص اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم تمام انبیاء میں آنحضر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے افضل ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلی مرتبہ مجھے ایک قرأت یعنی ایک لہجہ پر قرآن پڑھایا پھر میں نے اپنی امت کی آسانی کے لئے خدا کی طرف مراجعت کی اور میں آسانی میں برابر زیادتی طلب کرتا رہا جس کے نتیجہ میں مجھے زیادہ آسانی حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی اور یہ آخری فیصلہ دے دیا گیا کہ قرآن کریم سات لغات پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابن شہاب زہری (تابعی) رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ تک تحقیق طور پر پہنچی ہے کہ قرأت کے یہ سات طریقے دینی احکام و امور میں متفق و متحد ہیں حلال و حرام میں ان سے کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اختلاف قرأت سے قرآن کریم میں مذکور احکام و مسائل میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ قرآن کی کوئی آیت اگر ایک قرأت سے پڑھی جائے اور اس آیت میں کسی چیز کے حلال ہونے کا ذکر موجود ہو اور پھر جب وہی آیت دوسری قرأت سے پڑھی جائے تو اس اختلاف قرأت سے حکم میں تغیر ہو جائے اور وہی چیز جو پہلی قرأت سے حلال ثابت ہو رہی تھی اب دوسری قرأت کی بنا پر حرام ہو جائے ایسا نہیں بلکہ ایک قرأت سے کسی چیز کے حلال ہونے کا حکم ثابت ہوتا ہے تو دوسری قرأت سے بھی اس چیز کے حلال ہونے ہی کا حکم ثابت ہوتا ہے حاصل یہ کہ اختلاف قرأت کا تعلق صرف الفاظ لہجہ اور صوت سے ہے احکام و معانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات کی اور ان سے فرمایا کہ جبریل! میں ایک ناخواندہ قوم کی طرف بھیجا گیا ہوں میری قوم میں بوڑھی عورتیں اور بڑے بوڑھے مرد ہیں لڑکے اور لڑکیاں ہیں اور اس قوم میں ایسا شخص بھی ہے جس نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی، حضرت جبرائیل نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم! قرآن کریم سات طرح پر یعنی سات لغات یا سات قرأت پر اتارا گیا ہے لہٰذا جسے جو قرأت آسان معلوم ہو اس کے مطابق قرآن کریم پڑھے۔ (ترمذی)
اور احمد و ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت جبرائیل نے (لفظ) حرف کے بعد آخر میں یہ بھی کہا کہ ان سات میں سے ہر قرأت شافی ہے یعنی (کفر و شرک اور ظلم و جہل کے روگ کو دفع کرتی ہے) اور کافی ہے یعنی نبی کی صداقت دین اسلام کی حقانیت اور منکرین دین کے رد کے لئے کافی ہے۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جبرائیل و میکائیل میرے پاس آئے جبریل تو میرے طرف بیٹھ گئے۔ اور میکائیل میرے بائیں طرف۔ اس کے بعد جبرائیل نے کہا کہ ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھو۔ یہ سن کر میکائیل نے مجھ سے کہا کہ ایک قرأت سے زیادہ کی طلب کیجئے یعنی اللہ تعالیٰ سے درخواست کیجئے کہ اور قرأتوں کے مطابق بھی پڑھنے کا حکم دیا جائے یا جبرائیل سے کہئے کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے آسانی دلائیں چنانچہ میں زیادتی کرتا رہا اور مجھے زیادہ قرأتوں کی اجازت حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی لہٰذا ان میں سے ہر قرأت شافی اور کافی ہے۔
تشریح
ناخواندہ قوم کی طرف، کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک ایسی قوم میں بھیجا گیا ہوں جس میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اچھی طرح پڑھنا نہیں جانتے اگر میں ان کو کسی ایک کے مطابق قرآن کریم پڑھاؤں تو وہ اس پر قادر نہیں ہو سکتے کیونکہ مثال کے طور پر ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی زبان صرف امالہ یا فتح پر چلتی ہے اور بعض لوگ ایسے ہیں جن کی زبان پر ادغام یا اظہار غالب ہوتا ہے پھر یہ کہ قوم میں بوڑھی عورتیں بھی ہیں اور بوڑھے مرد بھی ہیں اور صغیر السن بچے بھی ہیں ان کے لئے ناممکن ہے کہ وہ اپنے بڑھاپے یا اپنی کم عمری کی وجہ سے کوئی مخصوص قرأت سیکھ سکیں لہٰذا ان کے لئے ضروری ہے کہ کئی قرأتیں ہوں تاکہ جسے جو آسان معلوم ہو اور جو جس قرأت پر قادر ہو اس کے مطابق قرآن کریم پڑھا کرے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن کریم پڑھتا تھا اور لوگوں سے بھیک مانگتا تھا حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر انتہائی تکلیف کے ساتھ کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کیونکہ یہ بدعت اور علامت قیامت میں سے ہے پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قرآن پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے ذریعہ اللہ ہی سے مانگے اور وہ وقت آنے والا ہے جب لوگ قرآن کریم پڑھیں گے اور اس کے ذریعہ دوسروں کے آگے دست سوال دراز کریں گے۔ (احمد و ترمذی)
تشریح
اس حدیث میں ان لوگوں کے لئے تنبیہ اور وعید ہے جو قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں یوں تو یہ بات بطور خود انسانی شرف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دست سوال دراز کرے اور اسے حاجت رو قرار دے چہ جائیکہ اس قبیح فعل کے لئے قرآن کریم کو ذریعہ بنایا جائے اسی لئے فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن پڑھ کر صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کرو۔ اپنے اخروی و دنیوی امور میں سے جو چاہو صرف اسی سے مانگو لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ کیونکہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں وہ تمہاری کیا حاجت پوری کریں گے تلاوت قرآن کے وقت خدا سے مانگنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جب آیت رحمت یا جنت کے ذکر پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور جنت کا طلب گار ہوا ور جب آیت عذاب اور ذکر دوزخ پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔
یا پھر یہ کہ قرأت سے فارغ ہونے کے بعد وہ دعائیں مانگے جو ماثورہ ہیں نیز اس موقع پر ایسی دعا مانگنا لائق ہے جس کا تعلق آخرت کی باتوں اور دین و دنیا میں مومنین کی بہتری و بھلائی سے ہو۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم اس لئے پڑھے کہ اس کے ذریعہ لوگوں سے کمائے (یعنی قرآن کریم کو دنیاوی فائدہ کے لئے وسیلہ بنائے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھ کر آئے گا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈی ہو گا اس پر گوشت نہیں ہو گا۔ (بیہقی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک سورت سے دوسری سورت کا فرق نہیں کر پاتے تھے یہاں تک کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نازل ہوئی۔ (ابو داؤد)
تشریح
یہ حدیث وضاحت کے ساتھ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن کی ایک آیت ہے جو دو سورتوں کے درمیاں فرق و امتیاز کو ظاہر کرنے کے لئے نازل فرمائی گئی جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔
حضرت علقمہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ہم حمص میں کہ (جو ایک شہر کا نام ہے) مقیم تھے وہیں ایک مرتبہ ابن مسعود نے سورت یوسف کی قرأت کی تو ایک شخص نے ان کی قرأت سن کر کہا کہ یہ سورت اس طرح نازل نہیں کی گئی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں نے یہ سورۃ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں پڑھی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے سن کر فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ وہ شخص جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے گفتگو کر رہا تھا تو اچانک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کے منہ سے آتی ہوئی شراب کی بو محسوس کی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا تم شراب پیتے ہو؟ یعنی قرآن کے خلاف عمل کرتے ہو اور اس پر طرہ یہ کہ قرآن کریم کو یعنی اس کی قرأت کو یا قرأت کے لہجہ و طرز ادائیگی کو جھٹلاتے بھی ہو۔ پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس پر حد جاری کی یعنی شراب پینے کی سزا کے طور پر اسے کوڑے مارے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اگر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت، قرأت مشہورہ (یعنی متواترہ) تھی تو اس شخص نے اس قرت کی تکذیب کر کے کتاب اللہ کی تکذیب کی لہٰذا اس کے اس انکار اور تکذیب نے یقیناً اسے کفر کی حد میں داخل کر دیا تھا اور اگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت قرأت شاذ تھی تو ان کی اس قرأت کی تکذیب کتاب اللہ کی تکذیب کو مستلزم نہیں تھی اس لئے کہا جائے گا کہ اس صورت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس شخص سے یہ کہنا کہ تم کتاب اللہ کی تکذیب کرتے ہو۔ تغلیظاً اور تہدیداً تھا اور بظاہر یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کہ اس موقع پر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کسی قرأت شاذ کے مطابق سورت یوسف پڑھ رہے تھے یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے مرتد ہو جانے کا حکم نہیں لگایا تھا بلکہ صرف شراب کی حد جاری کر دینے ہی پر اکتفا کیا۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی یہ بات تغلیظاً ہی کہی کیونکہ قرأت و قرآن کے اصل کلمہ کا انکار اور جھٹلانا کفر ہے نہ کہ لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کفر کو مستلزم ہے۔
حاصل یہ کہ اس شخص نے لہجہ اور ادائیگی کلمات کا انکار کیا تھا اصل قرآن یا اصل قرأت کا انکار نہیں کیا تھا اسی لئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس پر صرف شراب کی حد جاری کی مرتد ہونے کی حد جاری نہیں کی۔
حدیث کے ظاہری مفہوم سے ایک اور مسئلہ پر روشنی پڑ رہی ہے اور وہ یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو شراب پینے کی سزا دی یعنی اس پر حد جاری کر دی جب کہ شراب نوشی کا بظاہر واحد ثبوت اس کے منہ سے آنے والی بو تھی چنانچہ علماء کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے یعنی ان کے نزدیک شراب نوشی کا جرم منہ سے شراب کی بو آنے سے بھی ثابت ہو جاتا ہے لیکن حنفیہ اور شوافع دونوں کا مسلک یہ ہے کہ شراب نوشی کا جرم محض منہ سے شراب کی بو آنے سے ثابت نہیں ہوتا اور نہ کسی ایسے شخص پر شراب کی حد جاری کی جا سکتی ہے جس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی ہو اور اس کے علاوہ اس کی شراب نوشی کا اور کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ترش سیب اور امرود کی بو بعض شراب کی بو کے مشابہ ہوتی ہے۔
جہاں تک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں ان حضرات کی طرف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے خود شراب نوشی کا اقرار کیا ہو گا یا اس کی شراب نوشی پر گواہ قائم ہو گئے ہوں گے اس وجہ سے انہوں نے حد جاری کی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن دنوں اہل یمامہ کا قتل ہوا انہیں دنوں کی بات ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کو میرے پاس مجھے بلانے کے لئے بھیجا میں ان کے پاس حاضر ہوا اور وہاں پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن کے قاریوں کی شہادت کا حادثہ یمامہ کے دن گرم ہو گیا (یعنی یمامہ کی لڑائی میں بہت سے قاری شہید ہو گئے ہیں) مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسی کثرت سے مختلف جنگوں میں قاریوں کی شہادت ہوتی رہی تو قرآن کا بہت بڑا حصہ جاتا رہے گا لہٰذا مجھے اسی میں بہتری اور مصلحت نظر آتی ہے کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دے دیں (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس کام کس طرح کرو گے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہیں کیا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ میں برابر مجھ سے گفتگو کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام (یعنی قرآن جمع کرنے) کے لیے میرا سینہ کھول دیا۔ اور مجھے بھی اس میں وہی مصلحت نظر آئی جو عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھی ہے حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ایک سمجھ دار نوجوان مرد ہو تمہاری نیک بختی اور سعادت کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے اور نقل کرنے کے سلسلے میں جھوٹ وغیرہ کا تم پر کوئی اتہام نہیں لگا سکتا کیونکہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وحی لکھا کرتے تھے لہٰذا تم قرآن کو تلاش کرو اور اس کو (مصحف میں) جمع کرو۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم! اگر پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو اٹھا کر منتقل کرنے کی خدمت میرے سپرد کی جاتی تو یہ خدمت میرے لئے اس خدمت سے زیادہ سخت اور بھاری نہ ہوتی جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قرآن جمع کرنے کی میرے سپرد فرمائی تھی۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بہر کیف میں نے یہ حکم سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا! کہ آپ وہ کام کسی طرح کریں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم! اس کام میں بھلائی اور بہتری ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرا بھی سینہ اس طرح کھول دیا جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں نے قرآن کو تلاش کرنا شروع کیا اس طرح کہ میں اس کو جمع کرتا تھا۔
کھجور کی شاخوں میں سفید پتھروں میں سے اور لوگوں میں سے (یعنی حافظوں کے سینوں میں سے) یہاں تک کہ میں نے سورۃ توبہ کا آخری حصہ ابوخزیمہ انصاری کے پاس پایا اور یہ حصہ مجھے ان کے سوا اور کسی کے پاس سے نہیں ملا اور وہ حصہ یہ ہے آیت (لقد جاء کم رسول من انفسکم) الی آخر السورۃ، سورہ برات تک وہ صحیفے جو میں نے جمع اور نقل کئے تھے ان کی زندگی تک رہے اور پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہے۔ (بخاری)
تشریح
یمامہ ایک شہر کا نام ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر وہاں بھیجا۔ اور وہاں کے لوگوں سے خوب زوردار جنگ ہوئی جس میں مسیلمہ کذاب بھی مارا گیا مسلمانوں کے لشکر کا بھی بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ لشکر اسلام کے شہداء میں ان مقدس نفوس کی اکثریت بھی شامل تھی جن کے سینوں میں قرآن کریم محفوظ تھا۔ یعنی حفاظ اور قراء چنانچہ بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس جنگ میں شہداء کی تعداد سات سو تھی اور بعضوں نے بارے سو تک بتائی ہے۔
اس تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیال ہوا کہ قرآن کریم کی حفاظت کے معاملہ میں صرف ایک ہی ذریعہ یعنی حفاظ پر اعتماد اور بھروسہ کر لینا مناسب نہیں ہے بلکہ اس عظیم امانت کو حفاظ کے سینوں کے ساتھ ساتھ صفحہ قرطاس پر بھی محفوظ کرنے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا تذکرہ امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ تامل کے بعد اس رائے سے اتفاق کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس عظیم خدمت پر معمور کیا۔
تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وحی لکھا کرتے تھے۔ کا مطلب یہ ہے کہ تم اکثر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وحی لکھا کرتے تھے اکثر کی قید اس لئے لگائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس نازل ہونے والی وحی لکھنے والے چوبیس صحابہ تھے جن میں خلفاء اربعہ بھی تھے لہٰذا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ چونکہ تم کاتب وحی ہو اس لئے قرآن کو جمع کرنے اور لکھنے کے سلسلہ میں تمہاری امانت داری اور فرض شناسی مسلم اور متیقن ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں قرآن کریم یوں تو پورا لکھا ہوا تھا لیکن مصحف میں اور یک جا نہیں تھا بلکہ متفرق طور پر لکھا ہوا تھا چنانچہ کچھ حصہ کسی کے پاس کھجور کی شاخوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس پتھروں کے ٹکڑوں پر کچھ حصہ کسی کے پاس جھلی کے ٹکڑوں پر اور کچھ حصہ کسی کے پاس چوڑی ہڈیوں پر لکھا ہوا تھا کیونکہ قرآن کریم جیسے جیسے نازل ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کاتبوں سے مذکورہ بالا چیزوں میں جو چیز بھی دستیاب ہوتی اس پر قلم بند کرا لیا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی گئی قرآن کے ان متفرق حصوں کو یکجا اور جمع کیا لہٰذا یہ ایسا ہی ہوا کہ وہ اوراق کہ جن میں قرآن لکھا ہوا متفرق طور پر پائے جائیں اور پھر انہیں جمع کر دیا جائے۔
اسی طرح آج کل قرآن کریم سورتوں کی جس ترتیب کے ساتھ ہمارے سامنے ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں سورتوں کی ترتیب یہ نہیں تھی بلکہ سورتوں کی یہ ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد صحابہ کے اجتہاد سے عمل میں آئی ہے۔ ہاں آیتوں کی ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے رہی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق ہی عمل میں آ گئی تھی اور اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام حسب موقع کوئی آیت لاتے تو یہ بھی فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں آیت کے بعد رکھا جائے چنانچہ لوح محفوظ میں قرآن کریم آیتوں کی اس ترتیب کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ وہاں سے قرآن کریم آسمان دنیا پر لایا گیا۔ پھر وہاں سے حسب موقع اور حسب ضرورت حضرت جبرائیل علیہ السلام سورتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لاتے تھے۔ حاصل یہ کہ نزول قرآن کی ترتیب وہ نہیں تھی جو موجودہ ترتیب تلاوت ہے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سال رمضان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک مرتبہ پورے قرآن کا دور ترتیب نزول کے مطابق کیا کرتے تھے اور جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اس سال کے رمضان میں انہوں نے دو مرتبہ دور کیا۔
لم اجدھا مع احد غیرہ۔ کا مطلب یہ ہے کہ سورہ براۃ کا آخری حصہ میں نے ابوخزیمہ کے علاوہ اور کسی کے پاس لکھا ہوا نہیں پایا ویسے تو جس طرح پورا پورا قرآن حفاظ صحابہ کے سینوں میں محفوظ تھا اسی طرح سورۃ براۃ کا یہ آخری حصہ بھی ان کے سینوں میں محفوظ تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ ہی میں صحابہ مثلاً ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، اور ابودرداء وغیرہ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہٗ نے پورا کلام اللہ یاد کر لیا تھا۔
حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق جب قرآن کریم کو جمع کر لیا اور اس پر تمام صحابہ کا اتفاق بھی ہو گیا تو اسے متعدد صحیفوں یعنی اجزاء کی شکل میں منتقل کیا گیا ابھی تک وہ ایک مصحف کی شکل اختیار نہیں کر پایا تھا چنانچہ وہ صحیفے یا اجزاء حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ صحیفے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کی ان کی زندگی بھر رہے پھر ان کے بعد ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آ گئے۔ اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں یعنی پورے قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کیا اور کئی مصحف لکھا کر مملکت اسلام کے کئی شہروں میں بھیجے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کا ذکر آئے گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان حضرت عثمان غنی(رضی اللہ عنہما) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شام عراق کے آرمینیہ اور آذر بائیجان کی جنگوں کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی اور تیاری میں مصروف تھے حذیفہ کی قرأت کے بارے میں لوگوں کے اختلاف نے اضطراب میں اور خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ لوگ بے محابا آپس میں ایک دوسرے کی قرأت کا انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ امیرالمومنین اس امت کے بارے میں تدارک کی کوئی راہ نکالئے قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات سن کر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ آپ وہ صحیفے جو حضرت ابوبکر نے جمع کئے تھے ہمارے پاس بھیج دیجئے ہم ان کو نقل کرا کر یہ مصاحف آپ کے پاس بھیج دیں گے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ تمام صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انصار میں سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اور قریش میں عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو ان صحیفوں کو نقل کرنے پر مامور کیا چنانچہ ان سب ان صحیفوں کو مصاحف میں نقل کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قریش کے تینوں حضرات سے فرمایا کہ اگر قرآن کے لغات میں کسی جگہ تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو جائے تو وہاں لغت قریش کے مطابق لکھو کیونکہ کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے چنانچہ ان سب نے اس پر عمل کیا اور جب مصاحف میں صحیفے نقل کیے جا چکے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان صحیفوں کو تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیا اور ان مصاحف میں جو نقل کیے تھے ایک ایک مصحف (اسلامی مملکت میں) ہر جگہ بھیج دیا اس کے ساتھ ہی یہ حکم جاری فرمایا کہ ان مصاحف کے علاوہ ہر اس مصحف یا صحیفے کو جلا دیا جائے جس میں قرآن لکھا ہوا ہے۔
حدیث کے ایک راوی حضرت ابن شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے خارجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اپنے والد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس وقت کہ ہم (یعنی میں اور دونوں قریشی صحابہ سعید بن عاص اور عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ) قرآن کریم (مصحف عثمانی میں) نقل کر رہے تھے مجھے سورہ احزاب کی ایک آیت نہیں مل رہی تھی۔ حالانکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا کرتا تھا۔ چنانچہ تلاش وجستجو کے بعد مجھے یہ آیت حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس سے لکھی ہوئی ملی۔ اور وہ آیت یہ ہے۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیهِ) 33۔ الاحزاب:23)۔ پھر میں نے یہ آیت مصحف میں اس کی سورۃ یعنی سورہ احزاب کے ساتھ ملا دی۔ (بخاری)
تشریح
کرمانی رحمۃ اللہ نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ لفظ یغازی معنی کے اعتبار سے یغزی کے مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے گویا اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ : کان عثمان یجہز اہل الشام واہل العراق لغزوۃ ہاتین الناحیتین وفتحہما۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان دنوں اہل شام و اہل عراق کے لئے ان دونوں ملکوں کی جنگ اور ان کی فتح کی غرض سے سامان جہاد کی فراہمی میں مصروف تھے۔
لہٰذا حدیث میں اس لفظ کا ترجمہ بھی اسی وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے۔ نیز کرمانی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ نواح روم (بیز نطین) میں ایک علاقہ کا نام تھا اور آذربائیجان تبریز کے علاقوں میں سے ایک علاقہ تھا۔
ملا علی قاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کان کا اسم اور یغازی فاعل حذیفہ کو لکھا ہے نیز ملا علی قاری نے قاموس کے حوالہ سے بھی لکھا ہے کہ آرمینیہ اور آذربائیجان کا ایک علاقہ تھا لہٰذا اس طرح حدیث میں آذربائیجان تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
قبل اس کے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی طرح کلام اللہ میں اختلاف کرنے لگیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہود و نصاریٰ نے توریت و انجیل میں تغیر تبدل کیا اور اس طرح اپنی خواہشات کے مطابق کلام اللہ میں کمی و زیادتی کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی ایسا ہی کرنے لگیں۔ اور وہ اس فتنہ میں مبتلا ہو جائیں اس لئے اس فتنہ کے برپا ہونے سے پہلے ہی آپ کچھ تدبیر کیجئے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا جن کی تعداد اس وقت پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن پڑھنے والوں میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی قرأت سے اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا کفر کے بالکل قریب ہے! لوگوں نے عرض کیا کہ پھر آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے سدباب کے لئے آپ کیا چیز مناسب سمجھتے ہیں؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دوں تاکہ کوئی اختلاف ہی پیدا نہ ہو، لوگوں نے کہا کہ جس چیز کو آپ مناسب سمجھتے ہیں وہ بہت بہتر ہے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو ایک مصحفہ پر جمع کریں گے۔ چنانچہ حدیث میں فارسل عثمان الخ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا) سے اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
کلام اللہ لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا ہے یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ اصل میں تو قرآن کریم لغت قریش کے مطابق ہی نازل ہوا تھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی درخواست پر اس بات میں وسعت و فراخی عطا فرمائی گئی یعنی یہ اجازت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے۔ اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ یہ اختلاف لغت امت میں ایک زبردست انتشار اور دین میں ایک بڑے فتنہ کا باعث ہو رہا ہے تو انہوں نے حکم دیا کہ لغت قریش کے علاوہ اور تمام لغات منسوخ کر دی جائیں اور سب لوگ قرآن کریم لغت قریش کے مطابق پڑھیں چنانچہ حدیث میں مذکور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے الفاظ فاکتبوا بلسان قریش کا یہی مطلب ہے۔
سخاوی نے مصحف عثمانی میں قرآن کریم نقل کرتے وقت مذکورہ ناقلین کے درمیان واقع ہونے والے کچھ اختلافات کو بیان بھی کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک موقع پر لفظ تابوت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے تو کہا کہ اسے التابوہ لکھا جائے مگر دوسرے حضرات کا کہنا تھا کہ التابوت لکھنا چاہئے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو ت کے ساتھ لکھو یعنی التابوت ہی لکھو۔ کیونکہ لغت قریش میں یہ لفظ یوں ہی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے لم یتسن کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں ہ لکھو۔
اس مصحف کے علاوہ ہر اس صحیفہ یا مصحف کو جلا دیا جائے الخ۔ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ہر صحیفہ سے مراد تو وہ صحیفے ہیں۔ جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے اور مصحف سے مراد وہ صحیفے ہیں جو دیگر لوگوں نے جمع کئے تھے اور وہ ان کے پاس تھے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملہ فی کل صحیفۃ او مصحف میں لفظ او راوی کے شک کے اظہار کے لیے ہو۔
حدیث کے ظاہری مفہوم میں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو صحیفے تھے انہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایفاء وعدہ کے پیش نظر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا تھا مگر پھر انہیں بھی دوبارہ حاصل کر کے جلا ڈالا تھا۔ لیکن سخاوی نے اس بارے میں تفصیل لکھی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب مصحف عثمانی کی تکمیل سے فارغ ہوئے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے صحیفے واپس بھجوا دئیے ان صحیفوں اور اپنے مصحف کے علاوہ بقیہ تمام صحیفے انہوں نے نذر آتش کرا دئیے چنانچہ وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے جب مروان مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے وہ صحیفے جلانے کے لئے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوا بھیجے مگر انہوں نے دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد مروان نے وہ صحیفے ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منگا کر اس خوف سے جلا دئیے کہ یہ صحیفے اگر کبھی باہر آ گئے اور لوگوں نے دیکھا تو پھر اختلاف کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصحف تیار کر کے اطراف عالم میں بھیجے تھے ان کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں۔ مشہور یہ ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی۔ لیکن ابوداؤد کہتے ہیں کہ میں نے ابو حاتم سجستانی سے سنا کہ ان کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ بھیجا گیا (ایک شام ایک یمن ایک بحرین ایک بصرہ ایک کوفہ اور ایک مدینہ میں رکھا گیا۔
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ مصحف(قرآن کریم) کے ان پرانے اور بوسیدہ اوراق کا کیا جائے جن سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکتا ہو یعنی ان میں پڑھنا اور تلاوت کرنا ممکن نہ رہا۔ آیا انہیں جلا دینا اولی ہے یا دھو ڈالنا۔ چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ ان اوراق کو جلا دینا بہتر ہے کیونکہ جلا دینے کی صورت میں کلام اللہ کی ذلت و بے حرمتی کی کسی بھی صورت کے واقع ہونے کا مکان نہیں رہتا۔ بخلاف دھونے کہ اس کا دھوون زمین پر بہتا ہے اور پیروں کے نیچے پڑتا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ دھونا اولیٰ ہے اور اس کا دھوون پاک جگہ میں ڈالا جائے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ اس کا پانی پی لیا جائے کیونکہ وہ ہر مرض کی دوا اور سینہ کی علتوں کی شفاء ہے۔ ،
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف عثمانی کے علاوہ وہ بقیہ تمام صحیفوں کو جلا کیوں دیا۔ اس کا سیدھا سادھ سا جواب یہ ہے کہ اگر ان صحیفوں کو جلایا نہ جاتا اور اس طرح باقی رہنے دیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ پھر بعد میں لوگوں کے اختلاف و فتنہ کا باعث بن جاتا؟ لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس مصلحت کی بنا پر کہ اختلاف باقی نہ رہے ان صحیفوں کو جلا ڈالا۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو مورد طعن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ان پر طعن تو اس وقت وارد ہو جب کہیں بھی شریعت سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کے اوراق کو جلانا بے ادبی ہے۔ جب یہ بات ثابت ہی نہیں ہے اور پھر یہ کہ ان کا یہ فعل مصلحت پر مبنی تھا تو ان پر کوئی الزام وارد ہی نہیں ہو سکتا تھا۔
علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کا جمع ہونا تین مرتبہ واقع ہوا ہے ایک مرتبہ تو خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں لیکن اس وقت پورا قرآن کریم ایک مصحف میں مرتب طریقہ سے جمع نہیں ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے جمع ہوا گویا اول جامع قرآن حضرت ابوبکر صدیق ہی ہیں اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کیا۔ تیسری مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمع ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور ان کے مشورہ سے قرآن کریم مصاحف میں مرتب طور پر لغت قریش کے مطابق نقل کرایا اور پھر وہ مصاحف اطراف و جوانب میں بھیجے یہ بات ٢٥ہجری کی ہے۔
لہٰذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ دونوں کے قرآن جمع کرنے میں فرق یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو قرآن کو اس خوف سے جمع کیا کہ کہیں اس کے بغیر قران کا کچھ حصہ جاتا نہ رہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس لئے جمع کیا کہ امت میں اختلاف و انتشار کا فتنہ نہ پیدا کیا جائے اس طرح کہا جائے گا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حقیقت میں قرآن جمع نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے امت کو اختلاف و انتشار کی راہ سے بچا کر ایک لغت (لغت قریش) پر قائم و جمع کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے سورہ انفال کی جو مثانی میں ہے اور سورہ براۃ کو جو میئین میں سے ہے پاس پاس رکھا ہے اور دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر امتیاز بھی قائم نہیں کیا ہے پھر یہ کہ آپ نے سورہ انفال کو سات لمبی سورتوں کے درمیان رکھا ہے آخر اس کا سبب کیا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں وقت گزرتا رہتا تھا اور آیتوں والی سورتیں نازل ہوتی رہتی تھیں (یعنی قرآن کی آیتیں حسب موقع اور حسب ضرورت بتدریج اترتی تھیں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کی کوئی آیت یا اس کا کچھ حصہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتا تو آپ کاتبان وحی میں سے کسی کو یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ کو بلاتے اور فرماتے کہ اس آیت کو سورۃ میں شامل کر دو جس میں ایسا اور ایسا ذکر ہے یعنی کسی خاص موضوع مثلاً حیض و طلاق وغیرہ کا نام لیتے اور فرماتے کہ جس سورت میں اس کے بارے میں ذکر ہے اس آیت کو اسی میں شامل کر دو۔ اس کے بعد پھر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو اس کے بارے میں فرماتے کہ اسے اس سورت میں شامل کر دو اور جس میں ایسا اور ایسا ذکر ہے اور سورہ انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں جب کہ سورت برات قرآن کا وہ حصہ ہے جو آخر میں نازل ہوا ہے لیکن سورہ انفال میں مذکورہ باتیں سورۃ براۃ میں مذکورہ باتوں کے مشابہ ہیں یعنی دونوں سورتوں میں کافروں سے برسر پیکار ہونے اور عہد ختم کرنے کا بیان ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتا گئے کہ سورۃ برات انفال ہی کا حصہ ہے یا نہیں ؟ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نہ بتانے کے سبب اور دونوں سورتوں میں از روئے مفہوم معنی مماثلت و مشابہت ہونے کے باعث ہم نے دونوں سورتوں کو پاس پاس رکھا لیکن ہم نے دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر امتیاز قائم نہیں کیا اور پھر ہم نے ان دونوں سورتوں کو پاس پاس سات بڑی سورتوں کے درمیان رکھا لیکن ان دونوں کے فاصلہ رکھا یعنی دونوں کو الگ الگ رکھا کیونکہ جس طرح دونوں کے دو ہونے میں شبہ تھا اسی طرح دونوں کے ایک ہونے بھی شبہ تھا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
قرآن مجید کی سورتوں کو اسی طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ سوت بقرہ سے سورہ یونس تک کو طوال کہتے ہیں عربی میں طوال لمبے کو کہتے ہیں اور قرآن کی ابتدائی سات سورتیں چونکہ لمبی ہیں اس لئے اس مناسبت سے ان کا نام سبع طوال سالت لمبی سورتیں ہوا۔ سورہ یونس سے سورہ شعراء تک کی سورتوں کو میئین کہا جاتا ہے۔ میئین مأۃ کی جمع ہے اور عربی میں مأۃ سو کو کہتے ہیں اور یہ سورتیں چونکہ سو سو آیتوں سے زیادہ پر مشتمل ہیں یا سو کے قریب ہیں اس لئے ان سورتوں کو میئین کہتے ہیں اور سورت شعراء سے سورہ حجرات تک کی سورتیں مثانی کہلاتی ہیں یہ سورتیں سو سو آیتوں سے کم ہیں اور پھر یہ کہ ان سوتوں کے مضمون اور قصے مکرر ہیں اس لئے ان کو مثانی کہا جاتا ہے۔ سورہ حجرات سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں کیونکہ ان سورتوں کے درمیان بسم اللہ کا فاصلہ اتنا قریب ہے۔ یہ گویا تین قسمیں ہوئی پھر ان میں سے آخری قسم یعنی مفصل کی بھی تین قسمیں ہیں۔ (١) طوال (٢) اوساط(٣) قصار۔
سورہ حجرات سے (والسماء ذات البروج) تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں۔ ۔ والسماء ذات البروج سے لم یکن تک کی سورتوں کو اوساط مفصل کہتے ہیں اور سورۃ لم یکن سے آخر قرآن تک کی سورتوں کو قصار مفصل کہا جاتا ہے۔ اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر اب حدیث کے مفہوم کی طرف آئیے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ سورت انفال مثانی میں سے ہے کیونکہ وہ سو آیتوں سے کم ہے اور سوت براۃ میئین میں سے ہے کیونکہ وہ سو آیتوں سے زیادہ ہے لہٰذا آپ نے قرآن کو جمع اور نقل کراتے وقت ان دونوں سورتوں کو نزدیک نزدیک طوال میں کیوں رکھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ انفال مثانی رکھتے اور براۃ کو میئین میں آخر میں بھی ایک خلش کی بات یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی اس بات کا جواب دیا اس کا حاصل یہ ہے کہ ان دونوں سورتوں کے درمیان اشتباہ پیدا ہو گیا ہے ایک وجہ تو یہ کہ دونوں سورتیں ایک ہی سورت ہیں (جیسا کہ ترجمہ میں بیان کیا گیا) اس سبب سے ان کو طوال میں رکھنا اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھنا درست ہوا اور ایک وجہ سے یہ دونوں سورتیں الگ الگ دو سورتیں ہیں اس لئے ان کے درمیان فاصلہ رکھا گیا۔
الحمد للہ کتاب فضائل القرآن ختم ہوئی۔