اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے کوئی اور صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی شروع کی۔ جب انہوں نے قد قامت الصلوٰۃ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کے جواب میں) فرمایا، اَقَامَھَا اﷲ وَاَدَمَھَا یعنی اللہ تعالیٰ نماز کو قائم و دائم رکھے اور تکبیر کے بقیہ کلمات کے جوابات وہی فرمائے جس کا ذکر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان والی حدیث میں ہو چکا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اسی باب کی حدیث نمبر پانچ میں اذان کے کلمات اور ان کے جواب کو جس طرح ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر کے وقت مؤذن جو کلمات کہتا گیا۔ آپ بھی ویسے ہی کلمات کو دہراتے رہے البتہ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الابا اللہ اور قد قامت الصلوٰۃ کے جواب میں اَقَامَھَا اﷲوَاَدَمَھَاکہا۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اذان اور تکبیر کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد، الترمذی)
تشریح
یوں تو پروردگار عالم اپنی رحمت و شفقت کے ناطے ہر وقت ہی اپنے بندوں کی دعا قبول کرتا ہے اور ان کے دامن امید کو اپنے فضل و کرم کے موتیوں سے معمور کرتا ہے مگر اس ارشاد کے ذریعے مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت اتنا با برکت و با سعادت ہوتا ہے کہ اس وقت پروردگار عالم کے سامنے بندہ اپنی جس حاجت کے لیے بھی دامن پھیلاتا ہے اس کی مراد یقیناً پوری کی جاتی ہے اور مانگنے والا جو بھی دعا مانگتا ہے وہ ضرور قبول ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس وقت اپنی دینی اور دنیاوی فلاح و سعادت اور کامیابی و کامرانی کے لیے ضرور دعا مانگا کریں۔
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ دعاء خواہ اذان کے بعد متصلاً ہی مانگی جائے یا کچھ دیر کے بعد، ہر صورت میں قبول ہو گی مگر صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اذان کے فوراً بعد مانگ لینی چاہئے۔
٭٭اور حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں، یا فرمایا کہ کم رد کی جاتی ہیں۔ ایک تو وہ دعا جو اذان (ہونے کے بعد یا اذان شروع ہونے) کے وقت مانگی جاتی ہے ، اور دوسری وہ دعا جو (کفار کے ساتھ) جنگ میں مڈھ بھیڑ (یعنی آپس میں قتل و قتال) شروع ہو جانے کے وقت مانگی جاتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں (جنگ میں مڈھ بھیڑ کے بجائے) یہ منقول ہے کہ دوسری وہ دعا جو بارش میں (کھڑے ہو کر) مانگی جائے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی) مگر دارمی کی روایت میں تحت المطر منقول نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک صحابی نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! اذان دینے والے تو بزرگی میں ہم سے بڑھے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس طرح وہ فرماتے ہیں (ساتھ ساتھ) تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ اور جب (اذان کے جواب سے) فارغ ہو جاؤ تو جو چاہو مانگو، دیا جائے گا۔ (ابوداؤد)
تشریح
صحابی کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اذان دیتے ہیں وہ تو اذان دینے کی سعادت و برکت کی وجہ سے ہماری بہ نسبت زیادہ ثواب کے حقدار ہوتے ہیں اس لیے ہمیں بھی کوئی ایسا طریقہ بتا دیجئے جس پر چل کر ہم بھی ثواب میں ان کے ہم پلہ ہو جائیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ طریقہ بتا دیا کہ جب مؤذن اذان کے کلمات کہے تو تم بھی ان کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ (سوائے حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح کے کہ ان کے جواب میں لا حول ولاقوۃ الا باا اللہ کہنا چاہئے) اسی طرح تمہیں بھی ان کے اصل ثواب کی طرح ثواب ملے گا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دوسری چیز اذان کے جواب سے فراغت کے بعد دعاء مانگنے کو بتا کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اگر اذان کا جواب دینے کے بعد دعاء مانگی جائے تو فضیلت و بزرگی میں اور اضافہ ہو گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں موجود ہو تو اسے بھی اذان کے کلمات کا جواب دینا چاہئے۔ جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ اذان کے وقت مسجد میں موجود آدمی کو اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس وقت جب اجابت فعلی حاصل ہے تو اجابت قولی کی کیا ضرورت ہے۔ دل کو لگنے والی بات نہیں۔
٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جب شیطان نماز کی اذان سنتا ہے تو بھاگتا ہے یہاں تک کہ مقام روحا تک پہنچ جاتا ہے۔ راوی کہتے روحا مدینہ سے چھتیں کوس کے فاصلے پر ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
شیطان سے مراد جنسی شیطان ہے یعنی اذان سن کر یا تو تمام شیطان بھاگ کھڑے ہوتے ہیں یا ان کا سردار بھاگ جاتا ہے اور صحیح یہی ہے۔ حدیث کے آخر جزو کا مطلب یہ ہے کہ اذان سن کر شیطان نماز پڑھنے والے سے اتنا دور ہو جاتا ہے جتنا دور مدینہ سے روحا ہے۔ راوی سے حضرت ابو سفیان، نافع ابن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذات مراد ہے جنہوں نے اس حدیث کو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔
٭٭اور حضرت علقمہ ابن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ان کے مؤذن نے اذان دی، چنانچہ مؤذن جس طرح کہتا تھا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی طرح (اس کے ساتھ ساتھ) کہتے رہے ، جب مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا لا حول و لا قوۃ الا باللہ جب مؤذن نے حی علی الفلاح کہا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لا حول و لاقوۃ الا باللہ العلی العظیم کہا اور اس کے بعد مؤذن جو کچھ کہتا رہا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہتے رہے۔ (پھر فارغ ہو کر) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تشریح
علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول و لاقوۃ الا باللہ کے بعد العلی العظیم کا اضافہ مرویات میں نادر ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور اذان کہنے لگے۔ جب وہ (اذان دے کر) خاموش ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس آدمی نے اسی طرح یقیناً (یعنی خلوص دل سے) کہا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (سنن نسائی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی یقین و اعتماد کی پوری قوت اور دل کے پورے خلوص کے ساتھ ان کلمات کو یا تو اذان میں کہے یا اذان کے جواب میں کہے یا مطلقاً کہے تو وہ جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو گا یا نجات پانے والوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہو گا۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب مؤذن کو شہادتین کہتے ہوئے سنتے تو فرماتے اور میں بھی اور میں بھی۔ (ابوداؤد)
تشریح
یعنی جب مؤذن اذان میں اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھدان محمدا رسول اللہ کہتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم شہادتین کے جواب میں دو مرتبہ فرماتے واناوانا (اور میں بھی اور میں بھی) یعنی جس طرح تم خدا کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ کی رسالت کی گواہی دے رہے ہو اسی طرح میں بھی وحدانیت الٰہی اور رسالت محمد کی گواہی دیتا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ تمام امت کی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ بھی اپنی رسالت کی گواہی دینے کے مکلف تھے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم امت کے افراد کی طرح اشھد ان محمد رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں) یہ کہہ کر گواہی دیتے تھے یا اشھد انی رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں) کہہ کر گواہی دیتے تھے؟ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ امت کے افراد کی طرح اپنی رسالت کی گواہی دیتے تھے جیسا کہ ابھی حدیث نمبر (۲۱) میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں گزرا ہے کہ انہوں اذان کے جواب میں اشھد ان محمداًرسول اللہ کہا
اور پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اذان کے جواب میں اشھد ان محمدا رسول اللہ ہی کہتے تھے)۔
اس طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اس روایت میں اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں چونکہ تعارض پیدا ہوتا ہے اس لیے کہا جائے گا کہ کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا اور کبھی اس طرح فرماتے ہوں گے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہاں بتا رہی ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی بارہ برس تک اذان دے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے اور اس کے اذان کے بدلے میں (اس کے نامہ اعمال میں) ہر روز(یعنی ہر اذان کے عوض) ساٹھ نیکیاں اور ہر تکبیر کے بدلہ میں تیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
اذان کی بہ نسبت تکبیر کا ثواب آدھا غالباً اس لیے ہوتا ہے کہ تکبیر خاص طور پر ان لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے ہوتی ہے جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں اور اذان کے ذریعہ عمومی طور پر حاضرین اور غائبین سب ہی کو مطلع کیا جاتا ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہو گی کہ اذان دینے میں زیادہ محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور اس کی بہ نسبت تکبیر میں کم محنت ہوتی ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مغرب کی اذان کے وقت دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (بیہقی)
تشریح
غالباً یہاں وہی مراد ہے جس کا تذکرہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث نمبر پانچ میں آ چکا ہے (یعنی اللھم ھذا اقبال لیلک و ادبار نھارک الخ)۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا آدمی تھے ، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دو مؤذن تھے ، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چنانچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لیے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لیے۔
حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لیے یا تہجد کے لیے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے ، چنانچہ اسی لیے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لیے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔
حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح ہو جانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہوا؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ صبح ہونے والی ہے اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بلال کی اذان تمہیں تمہاری سحری کھانے سے نہ رو کے (کیونکہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں) اور نہ فجر دراز (یعنی صبح کاذب) البتہ افق پر پھیلی ہوئی فجر (یعنی صبح صادق نمودار ہو جائے تو کھانا پینا چھوڑ دو) (صحیح مسلم) الفاظ جامع ترمذی کے ہیں۔
٭٭اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لیے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بڑا ہو، یا پھر اکبر (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضلیت کی شرط اذان میں نہیں ہے ، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کر سکتا ہو۔
٭٭اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تم مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھا کرو، اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دیا کرے اور جو تم میں بڑا ہو وہ امام بن جایا کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ امامت کا مستحق وہی آدمی ہو گا جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہو گا اور اگر علم و فضل کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو آدمی عمر میں سب سے بڑا ہو گا وہ امام بنے گا۔
عمر سے مراد وہ عمر ہے جو ایمان و اسلام کی حالت میں گزری ہو یعنی جس آدمی کو اسلام قبول کئے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہو وہ حکماً ان لوگوں سے بڑا قرار دیا جائے گا جو اس کے بعد ایمان و اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں خواہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ پہلے اسلام قبول کرنے والے آدمی کو دین و شریعت کا علم بعد میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آرام کرنے کے لیے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہو سکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آ گئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہاں سے روانہ ہو جاؤ! چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا، جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ) 20۔طہ :14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ (صحیح مسلم)
تشریح
خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے ، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہ کے سر رہا اور انہیں فاتح خبیر کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہو گئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔
(١) جب تک مسلمان چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہو گا۔
(٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔
بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔
اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا؟ چنانچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہو جائے اور نماز کے لیے وقت مکروہ نکل جائے۔
شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لیے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہو جائے) اس لیے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لیے نہیں فرمایا، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لیے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیسا کہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لیے بھی اذان کہنی چاہئے۔
بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لیے اذان کہی گئی تھی چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃالتعریس(یعنی مذکورہ رات) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔
شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوٰۃ کے معنی یہ ہیں کہ چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے اذان کے بعد تکبیر کہی۔
یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مطلع نہیں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں سو رہی تھی۔
اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہو گئے۔
٭٭اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا نہ دیکھ لو نماز کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
فقہاء نے لکھا ہے کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الصلوٰۃ کہے تو مقتدیوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی وقت اپنے حجرہ سے نکلتے ہوں گے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب نماز کی تکبیر ہو جائے تو تم (جماعت میں شامل ہونے کے لیے) دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ وقار و طمانیت کے ساتھ اپنی چال آؤ، جس قدر نماز تم کو (امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے (امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) اسے پوری کر لو (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کو (حکماً) نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔
تشریح
عام طور پریہ دیکھا گیا ہے کہ جب نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ لوگ جو دیر سے مسجد پہنچتے ہیں نماز میں شامل ہونے کے لیے اور خصوصاً اس وقت جب کہ امام رکوع میں چلا جاتا ہے بہت بے تکے طریقے سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور نماز میں شریک ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں کو اس حدیث سے متنبہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طریقہ سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہو جانے پر بھاگ کر آنا جائز نہیں ہے بلکہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا کمزوری عقل اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ نماز کے لیے مستعدی اور چستی اس طرح تو شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہو گی کہ اگر کسی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے یا کسی رکعت کے چھوڑ جانے کا خوف ہو تو وہ پہلے ہی جلدی کر لیا کرے اور جماعت شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرے۔ (حضرت شیخ عبدالحق)۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی آدمی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ دوڑتا ہوا آئے یا نہیں؟ چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا آدمی دوڑ کر آ سکتا ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بقیع میں تھے کہ انہوں نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف آئے۔
اور بعض علماء نے یہ مناسب قرار دیا ہے کہ ایسے آدمی کو اس حدیث کے پیش نظر وقار و طمانیت کے ساتھ ہی چل کر مسجد آنا چاہئے کیونکہ جو آدمی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہو گا جو نا دانستہ یا کسی مجبوری و معذوری کی بناء پر لیٹ ہو جائے ورنہ اگر کوئی آدمی دانستہ نماز میں آنے کے لیے دیر کرے تو وہ اس میں شامل نہیں۔
بہر حال اس سلسلے میں صحیح اور مناسب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تاخیر سے مسجد میں پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ جماعت میں شریک ہونے کے لیے وقار و طمانیت کے ساتھ تیز تیز چل کر آئے بالکل بے تکے طریقے سے دوڑتا ہوا نہ آئے تاکہ اس حدیث پر عمل بھی ہو جائے اور تکبیر اولیٰ کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسجد پہنچنے میں دیر ہو جائے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر جلدی نہ کی تو امام سلام پھیر دے گا اور میں نماز سے رہ جاؤں گا تو اسے تیزی سے آ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو جانا چاہئے۔
٭٭حضرت زید ابن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ کے راستے میں (آرام کرنے کے لیے) آخر رات میں ٹھہرے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ (صبح کی) نماز کے لیے سب کو جگا دیں اور جب سب لوگ سو گئے۔ (تھوڑی دیر کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ (پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے بعد) تمام لوگ اس وقت جاگے جب کہ آفتاب طلوع ہو چکا تھا۔ سب لوگ(نماز قضاء ہو جانے کی وجہ سے) گھبرا گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اس جنگل سے باہر نکل چلیں اور فرمایا کہ یہ ایک ایسا جنگل ہے جس پر شیطان مسلط ہے چنانچہ سب لوگ سوار ہو کر اس جنگل سے نکل آئے۔ (ایک جگہ پہنچ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (یہاں) اتر جاؤ اور وضو کر لو۔ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کے لیے اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے ساتھ (صبح کی) نماز (قضاء با جماعت) پڑھی جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا تو (تسلی دینے کے لیے) فرمایا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ نے (سونے کے وقت) ہماری روحیں قبض کر لی تھیں اگر وہ چاہتا تو ہماری روحوں کو دوسرے وقت (یعنی آفتاب طلوع ہونے سے پہلے) واپس کر دیتا۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی نماز کے وقت غافل سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے اور (اس غفلت و نسیان سے) گھبرائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو اسی طرح (یعنی اذان و تکبیر اور جماعت کے ساتھ نیز نماز کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے) پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا اور انہیں (کجاوے کا) سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور جس طرح بچوں کو (سلانے کے لیے) تھپکی دی جاتی ہے شیطان انہیں تھپکتا رہا۔ یہاں تک کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نیند طاری ہو گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ویسا ہی بیان کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان سن کر فرمایا)، کہ میں اس بات کی (پوری یقین کے ساتھ) گواہی دیتا ہون کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ روایت امام مالک نے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مرسلاً نقل کی ہے۔)
تشریح
اس قسم کا ایک واقعہ حدیث نمبر پانچ میں ذکر کیا جا چکا ہے مگر بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ سے الگ کوئی دوسرا واقعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ تو مدینہ اور خیبر کے راستے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان رونما ہوا تھا۔
حدیث کے الفاظ ینادی للصلوۃ او یقیم میں لفظ او جمع کا مفہوم ادا کر رہا ہے جیسا کہ حرف واو دو چیزوں کو جمع کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان اور تکبیر کہنے کا حکم دیا، یا پھر لفظ او اپنے حقیقی مفہوم یعنی شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان یا تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ مگر صحیح اور اولیٰ پہلے ہی معنی ہیں کیونکہ اس کی تائید ابوداؤد کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں الحدیث (اَنَّہُ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ و سلم اَمَرَ بِلاَ لاً بِالَا ذَانِ وَالْاَ قَامَۃِ) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا)۔
فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا (وہ اس نماز کو اس طرح پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا) یہ الفاظ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر جہری نماز قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا میں جہر ہی کے ساتھ پڑھائی جائے اور اگر سری نماز قضا ہوئی ہے تو اس کی قضا بھی سری ہی کے ساتھ پڑھ دی جائے۔ مگر بعض حنفی علماء نے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قضاء نماز کو بہر صورت سر یعنی خاموشی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔
اَضْجَحَہُ اسندہ کے مفہوم میں ہے یعنی شیطان نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرح سہارا دیا کہ ان پر غفلت طاری ہو گئی، جیسا کہ پہلے واقعہ کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کجاوے سے سہارا لگا کر سو گئے تھے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قضاء نماز پڑھنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے ان اللہ قبض ارواحنا (اللہ تعالیٰ نے ہماری روحیں قبض کر لی تھیں) فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ ہم سب کا اس موقعہ پر سو جانا درحقیقت تقدیر الہٰی کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس طرح غفلت کی نیند مسلط کر دی کہ ہم نماز کے وقت جاگ نہ سکے۔ مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیش آمدہ صورت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے نیند کی اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی کہ شیطان نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ غافل ہو کر سوئے رہے اور وقت پر نہ اٹھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ سوتے رہے اور نماز قضاء ہو گئی۔ تو اس سے بظاہر دونوں باتوں میں تعارض نظر آتا ہے کہ پہلے تو غفلت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی پھر بعد میں اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف کی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خلق افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اندر نسیان اور غفلت پیدا کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ اس نے شیطان کو اس بات پر قادر کر دیا کہ مذکورہ طریقوں یعنی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تھپکنے وغیرہ سے لوگوں کو غفلت کی نیند میں مبتلا کر دے۔
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اعجاز شان کی زبردست غمازی کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معجزے کے طور پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سو جانے کی پوری حقیقت و کیفیت بیان کر دی باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ظاہری آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشھد انک رسول اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی اعجاز شان کی تصدیق فرمائی۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مسلمانوں کی دو چیزیں مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی ہیں۔ ایک تو ان کے روزے اور دوسری ان کی نمازیں۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو اہم اور بنیادی اعمال ایسے ہیں جو مؤذن پر موقوف ہیں یعنی مؤذن ان اعمال کی صحت و تکمیل کے ذمہ دار ہیں۔ پہلی چیز تو روزہ ہے کہ مسلمان مؤذنوں کی اذان ہی پر اعتماد کرتے ہوئے افطار کرتے ہیں۔ اور دوسری چیز نماز ہے جس کی ادائیگی مؤذنوں کی اذان کے تحت ہوتی ہے۔
بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مؤذنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عظیم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بڑے احتیاط کے ساتھ اور اوقات کی پوری رعایت کرتے ہوئے اذان کہا کریں تاکہ مسلمانوں کے ان دونوں اعمال میں خلل واقع نہ ہو۔
یہاں نماز کے مقامات سے جگہیں مراد ہیں جہاں جہاں نماز پڑھنا مکروہ یا غیر مکروہ ہے۔ چنانچہ ایسے مقامات کی وضاحت آئندہ احادیث میں کی جائے گی۔ مساجد کی فضائل و برکات کے سلسلہ میں بہت زیادہ احادیث منقول ہیں ان میں سے جن احادیث کو صاحب مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے وہ اس عنوان کے تحت نقل کی جائیں گی البتہ وہ احادیث جنہیں صاحب مشکوٰۃ نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ حدیث کی دوسری کتابوں میں نقل ہیں حصول سعادت و برکت کی خاطر ان میں بعض کے ترجمے یہاں نقل کئے جاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے ذہنوں میں مساجد کی عظمت و فضیلت کا احساس جاگزیں ہو جس کی وجہ سے وہ خدائے تعالیٰ کی عبادت کے لئے مسجد میں جانے کو دینی اور دنیاوی فلاح و کامرانی کا ذریعہ سمجھیں۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، میرے بیٹے ! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہئے ، کیونکہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں لہٰذا جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت و رحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ضامن ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان سے بچنے کے لیے مسجد ایک مضبوط قلعہ ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ مساجد زمین کے اوپر اللہ تعالیٰ کا گھر ہیں اور جس کی زیارت کی گئی ہے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی زیارت کرنے والے کا اعزاز و اکرام کرتا ہے یعنی جو آدمی مسجد میں جاتا ہے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرتا ہے۔ اس طرح مسجد میں جانے والا بندہ تو زیارت کرنے والا ہوا اور جس کی زیارت کی گئی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوئی۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندوں کا اعزاز و اکرام کرتا ہے اور انہیں اپنے فضل و کرم کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب کوئی آدمی مسجد میں نماز پڑھنے یا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے جگہ پکڑتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت و شفقت کی نظر فرماتا ہے جس طرح اس آدمی کے اہل خانہ جو مدت کے بعد اپنے گھر لوٹا ہو اس کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ جن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں جگہ پکڑنا ممنوع ہے تو اس کی شکل یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی مسجد میں کسی مخصوص جگہ کو ایسا اختیار کرتا ہے کہ اس جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ نہیں بیٹھتا تو یہ ممنوع ہے خواہ اس کا کسی مخصوص جگہ کو اختیار کرنا نماز پڑھنے اور ذکر اللہ ہی کے لیے کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح ریا و نمائش کا شبہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔
اور اس قسم کی وہ احادیث جن سے مسجد میں جگہ پکڑنے کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے اس بات پر محمول ہیں کہ مسجد کو کسی دنیاوی غرض و منفعت سے قطع نظر محض نماز پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے کی نیت سے جائے قیام قرار دیا جائے۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم بیت اللہ میں داخل ہوئے تو اس کے چاروں کونوں میں جا کر دعا کی اور بغیر نماز پڑھے باہرنکل آئے اور پھر باہر آکر کعبہ کے سامنے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری)
صحیح مسلم نے اس روایت کو عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔
تشریح
کعبہ کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ یہی قبلہ ہے اس بات کا اعلان کرنا تھا کہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دائمی طور پر ہو گیا ہے اور یہ قبلہ معین و مقرر ہو چکا ہے جو اب کسی حالت میں منسوخ نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ قبلہ اسی اگلی سمت ہے دوسری سمتوں سے اس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے اور نہ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف باہر کی سمت سے قبلہ کی طرف متوجہ ہونا معتبر ہے اندر کے حصہ میں نماز درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ قبلہ کے اندر فرض نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ کعبہ کے اندر نفل پڑھنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک جائز ہے کیونکہ آگے آنے والی حضرت عبداللہ بن عمر فاروق کی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔
البتہ فرض پڑھنے کے سلسلہ میں علماء کے یہاں اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں مگر حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کعبہ کے اندر فرض نماز کی ادائیگی سے منع کرتے ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے روز) سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم، اسامہ ابن زید، عثمان ابن طلحہ حجبی اور بلال ابن رباح رضی اللہ عنہم خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور حضرت بلال یا حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے اندر سے دروازہ بند کر لیا (تاکہ لوگ ہجوم نہ کریں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھوڑی دیر تک اندر (دعا وغیرہ میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب کہ وہ یا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) خانہ کعبہ سے باہر آئے تو پوچھا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (خانہ کعبہ کے اندر) کیا کر رہے تھے؟ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ایک ستون آپ کے بائیں طرف تھا، دو داہنی طرف تھے تین پیچھے تھے ان دنوں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے (اور اب تین ستون ہیں)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی تھی مگر اس سے پہلے اس مضمون کی حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ جو حدیث گزری ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خانہ کعبہ کے اندر نماز نہیں پڑھی تھی۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اسی طرح ہو گی کہ یہ کہا جائے گا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ یہ حضرات خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کر لیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دعا مانگتے ہوئے دیکھ کر حضرت اسامہ بھی کسی دوسرے کو نہ میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس کو نہ میں کھڑے تھے وہاں سے حضرت اسامہ تو دور تھے مگر حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ہی تھے اس لیے حضرت بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور چونکہ حضرت اسامہ اول تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فاصلہ پر تھے دوسرے وہ خود بھی نماز میں مشغول تھے ، پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ نماز بھی جلد ہی پڑھ لی تھی۔ اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔
پھر اس کے علاوہ یہ بھی منقول ہے کہ بیت اللہ کی دیواروں سے تصویریں مٹانے کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت اسامہ کو پانی لانے کے لیے باہر بھیج دیا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ جس وقت وہ باہر گئے ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عرصے میں نماز پڑھ لی ہو۔ بہر حال حضرت اسامہ اور حضرت بلال دونوں نے اپنے علم و مشاہدہ کے مطابق خبر دی ہے اور بہر صورت ادائیگی نماز کو ثابت کرنا ہی مختار ہے اس کی نفی نہیں۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میری اس مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں نماز پڑھنا دوسری مسجدوں میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مسجد حرام کو مستثنیٰ اس لیے کیا گیا ہے کہ مسجد حرام نہ صرف یہ کہ دوسری مساجد کے مقابلے میں زیادہ بابرکت ہے بلکہ اپنی عظمت و برکت اور فضیلت کے اعتبار سے مسجد نبوی سے بھی افضل ہے چنانچہ منقول ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔
اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ حرم شریف میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں نماز ادا کرنے پر اتنا ثواب ملتا ہے ، چنانچہ پہلا قول یہ ہے کہ کوئی متعین جگہ نہیں ہے بلکہ پورا حرام اس فضیلت و برکت کا حامل ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جس جگہ جماعت ہوتی ہے۔ علماء حنفیہ کے اقوال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی قول کو بعض شافعی علماء نے بھی اختیار کیا ہے۔ علماء حنفیہ کے نزدیک ثواب کی اس زیادتی کی فضیلت خاص طور پر فرائض سے متعلق ہے نوافل سے نہیں۔
تیسرا قول یہ ہے کہ وہ جگہ خانہ کعبہ ہے۔ یہ چوتھا قول ان چاروں اقوال میں سب سے ضعیف ہے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تین مسجدوں کے علاوہ (کسی دوسری جگہ کے لیے) تم اپنے کجاووں کو نہ باندھو (یعنی سفر نہ کرو) مسجد حرام، مسجد اقصی، (یعنی بیت المقدس اور میری مسجد (یعنی مسجد نبوی)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث سے ظاہری طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کہ خدا نے ان کی عظمت و بزرگی کی زیادتی کے سبب انہیں ایک امتیازی شان عطا فرمائی ہے۔ کیس دوسری جگہ کا سفر جائز نہیں ہے لیکن یہ سمجھ لیجئے کہ اس ممانعت اور نہی کا تعلق تقرب و عبادت سے ہے یعنی تقرب الی اللہ اور عبادت سمجھ کر ان تینوں جگہوں کے علاوہ اور کسی جگہ کا سفر نہ کرنا چائے۔
ہاں اگر کسی دوسری جگہ تحصیل علم، ادائے حقوق ، تجارت یا ایسی ہی کسی دوسری ضرورت کی بناء پر سفر کرنا ہو تو یہ الگ چیز ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے البتہ اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر جانے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ چنانچہ بعض حضرات نے تو اسے مباح قرار دیا ہے اور بعض حضرات کی رائے ہے کہ یہ حرام ہے یعنی محض اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کرنے اور متبرک مقامات پر پہنچ کر حصول برکت کی خاطر مستقل سفر کرنا مطلقاً جائز نہیں ہے۔
بعض حضرات نے اس حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ نذر و منت کی نیت سے سفر کا قصد کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی دوسری جگہ پہنچنے کی نذر مانی جائے تو اس نذر کو پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس نہی کا تعلق صرف مساجد سے ہے یعنی حصول برکت اور زیارت کے ارادے سے ان تینوں مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں مساجد کے علاوہ دیگر مقامات خارج از مفہوم ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تینوں مقامات کے علاوہ دوسری جگہوں کا سفر کرنا درست نہیں ہے۔ بلکہ اس ارشاد کا مقصد دراصل ان تینوں مساجد کی اہمیت و عظمت اور فضیلت اور انکے لیے سفر کرنے کی سعادت و خوش بختی ظاہر کرنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا مطمح نظریہ ہے کہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اگر وہ سفر کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان تینوں مساجد کی زیارت کے لیے سفر کریں یہ مساجد سب سے زیادہ با عظمت و فضیلت اور متبرک ترین مقامات ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری جگہ کا سفر کرنا کوئی فلاح و سعادت کی بات نہیں ہے بلکہ بے فائدہ صعوبت و پریشانیوں کو برداشت کرنا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور معرکۃ الآر تصنیف حجۃ اللہ البالغۃ میں اس حدیث کی وضاحت کے دوران تحریر فرمایا ہے کہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کچھ مقامات کو اپنے گمان و خیال کے مطابق با عظمت و بابرکت تصور کر کے وہاں کا سفر کرتے تھے اور ان مقامات کی زیارت کرنے کو سعادت و برکت کے حصول کا ذریعہ جانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح اپنے وہم و گمان کے مطابق کسی جگہ اور مقام کو باعث برکت و فضیلت سمجھنا اور پھر خاص طور پر اس کی زیارت کے لیے وہاں جانا نہ صرف یہ کہ حقیقت سے انحراف اور عقیدہ اور ذہن و فکر کی کمزوری کی علامت ہے بلکہ فتنہ و فساد کا سبب بھی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقیدہ و عمل کو راہ راست پر قائم رکھنے کی خاطر اس غلط طریقے کو بند فرما دیا تاکہ اسلامی شعائر کے ساتھ غیر شعائر جمع نہ ہو جائیں اور یہ طریقہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا سبب نہ بن جائے ، چنانچہ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مزارات اولیاء اللہ کی عبادت کرنے کی جگہیں یہاں تک کہ کوہ طور پر یہ سب اس سلسلہ میں برابر ہیں کہ خاص طور پر زیارت یا حصول برکت و سعادت کے جذبہ سے ان مقامات کا سفر کرنا مناسب نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میرے مکان اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض (یعنی حوض کوثر) کے اوپر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی میرے مکان اور (مسجد نبوی میں) میرے منبر کے درمیان واقع جگہ پر عبادت کرے گا تو اسے اس عظیم سعادت کے صلے میں جنت کا ایک باغ ملے گا اور جو آدمی میرے منبر کے نزدیک عبادت میں مشغول رہے گا تو قیامت کے دن وہ حوض کوثر سے سیراب ہو گا۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ روضہ کے معنی ٹکرے کے ہیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مکان و منبر کے درمیان کی جگہ وہ ٹکڑا ہے جو جنت سے زمین پر اس جگہ منتقل کیا گیا ہے اور یہ ٹکڑا زمین کے دوسرے حصوں کی طرح قیامت کے روز فنا نہیں ہو گا بلکہ جوں کا توں جنت میں واپس چلا جائے گا۔
علامہ تور پشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے منبر اور حجرہ رسول کے درمیان کی جگہ کو روضہ اس لیے کہا گیا ہے کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربت مبارک کی زیارت کرنے والے ، وہاں کے حاضر باش ملائکہ اور جن و انس ہمیشہ عبادت اور ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں ایک جماعت جاتی ہے تو دوسری جماعت آ جاتی ہے اس طرح لگاتار وہاں عبادت کرنے والوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے اس جگہ کو روضہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ذکر کے حلقوں کو ریاض جنت فرمایا گیا ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہفتے کو پیدل یا سواری پر مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
قبا ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تین کوس کے فاصلے پر واقع ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے وقت مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے قیام فرمایا تھا اور یہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مسجد بنائی تھی جو مسجد قبا کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کی فضیلت بہت زیادہ ہے ، چنانچہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ صریح ارشاد منقول ہے کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرہ ادا کر نے کے مانند ہے۔
جلیل القدر اور با عظمت صحابی حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بیت المقدس میں دو مرتبہ حاضری دینے سے زیادہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھوں اور اگر لوگ جان لیں کہ مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا کتنا ثواب ہے تو وہ سفر کی مصیبت و مشقت جھیل کر دور دراز سے اس مسجد میں آنے لگیں۔
بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر ہفتے کے روز مسجد قبا جاتے تھے اور اس میں دو رکعت تحیۃ المسجد یا کوئی دوسری نماز جو تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہوتی ہو گی پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس مبارک عمل سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہفتے کے روز علماء، صلحاء اور بزرگوں سے ملاقات کرنا سنت ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اللہ کے نزدیک تمام شہروں میں محبوب و پسندیدہ مقامات مساجد ہیں اور بدترین و ناپسندیدہ مقامات بازار ہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مسجدیں اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مساجد محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں ہوتا ہے رب قدوس اس پر اپنی رحمت کا سایہ کرتا ہے اور اسے خیر و بھلائی کی سعادت سے نوازتا ہے اس کے مقابلے میں بازار وہ جگہ ہے جہاں شیطان کا سب سے زیادہ تسلط رہتا ہے۔ حرص و طمع، خیانت و بددیانتی، جھوٹ اور اللہ کی یاد سے غفلت وہ چیزیں ہیں جو بازار کا جزو لاینفک اور شیطان کی خوشی کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ اللہ کے نزدیک بازار بد ترین و ناپسندیدہ مقامات ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی اپنی ناگزیر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ محض سیر و تفریح کی غرض سے بازاروں میں رہتا ہے اس پر محرومی و برائی کا سایہ رہتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوتا ہے۔
یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ بت خانے ، شراب خانے اور چکلے وغیرہ تو بازار سے بھی بد ترین ہیں پھر انہیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ اور مبغوض ترین مقامات کیوں نہیں کہا گیا ہے؟ بازار کو کیوں کہا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بازاروں کو قائم کرنے کا حکم شارع کی جانب سے ہے اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن کو بنانے اور رکھنے کا حکم شارع کی جانب سے نہیں ہے لہٰذا ارشاد کا مطلب یہ ہے جن مقامات کو بنانا اور قائم رکھنا جائز ہے ان میں سے بد ترین اور ناپسندیدہ مقام بازار ہے۔
٭٭اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی اللہ کے لیے مسجد بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اللہ کے لیے مسجد بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا حاصل کرنے کے لیے مسجد بناتا ہے ، نہ کہ لوگوں کو دکھانے سنانے کے لیے اور اپنا نام پیدا کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس آدمی کے لیے جنت میں مکان بنا دیتا ہے اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ جو آدمی مسجد بنا کر اس پر اپنا نام لکھتا ہے تاکہ تشہیر کا ذریعہ بنے تو یہ اس کے عدم اخلاص کی دلیل ہے۔
لفظ مسجداً میں تنکیر (عمومیت) تقلیل کے لیے ہے۔ یعنی اگرچہ کوئی آدمی مسجد کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ بنائے اسے اس کا بدلہ اسی طرح دیا جائے گا۔ جس طرح کسی بڑی اور عالی شان مسجد بنانے والے کو۔ چنانچہ روایت میں یہ الفاظ ہیں اگرچہ وہ مسجد بیٹر کے گھونسلے کی مانند ہو۔
یہ مسجد کی تنگی و اختصار میں مبالغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نیت کو دیکھتا ہے اگر کوئی آدمی دنیا کی شہرت اور نمائش کے جذبے سے بالا تر ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنودی کی غرض سے اور اپنی نیت کے پورے اخلاص کے ساتھ مسجد بناتا ہے تو وہ جنت میں اللہ کی طرف سے ایک مکان کا حقدار ہو گا اگرچہ اس کی بنائی ہوئی مسجد کتنی چھوٹی اور مختصر کیوں نہ ہو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی دن کے اول حصہ میں یا آخری حصہ میں مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے خواہ وہ صبح کو جائے یا شام کو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسجد گویا اللہ کا گھر ہے چنانچہ جو آدمی مسجد میں جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی زیارت کرنے والوں کی ضیافت کرتا ہے اور انہیں اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھتا۔ مسجد میں جانے کی بہت سی نیتیں ہو سکتی ہیں ان میں سے ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کی ابتداء میں حدیث انما الا اعمال بالنیات کے فائدہ کے ضمن میں نیت کے اس مسئلے اور اس کی اقسام کو مفصل طریقے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔
٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نماز کا سب سے زیادہ اجر اس آدمی کو ملتا ہے جو باعتبار مسافت کے سب سے زیادہ دور ہو (یعنی جس آدمی کا گھر مسجد سے جتنا دور ہو گا اور وہ گھر سے چل کر نماز کے لیے مسجد آئے گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا) اور جو آدمی نماز کے انتظار میں مسجد کے اندر (بیٹھا) رہتا ہے تاکہ امام کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کا ثواب اس آدمی سے زیادہ ہے جو (تنہا) اپنی نماز پڑھ کر سو جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
حدیث کے دوسرے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی نماز میں اس لیے تاخیر کرے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھ سکے تو اسے اس آدمی کے مقابلے میں جو انتظار کئے بغیر تنہا نماز پڑھ کر سو جائے اگرچہ وہ وقت مختار ہی میں نماز کیوں نہ پڑھ لے زیادہ ثواب ملتا ہے اسی طرح ایک آدمی تو وہ ہے جو چھوٹی اور مختصر جماعت کے ہمراہ نماز پڑھ لیتا ہے یا کسی امام کے ساتھ نماز ادا کر لیتا ہے جو درحقیقت امام بننے کا حق نہیں رکھتا اور دوسرا وہ آدمی ہے جو انتظار کے بعد بڑی جماعت کے ہمراہ نماز پڑھنا ہے یا ایسے امام کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے جو امامت کا حق رکھتا ہے تو اس دوسرے آدمی کو پہلے آدمی کے مقابلے میں خصوصاً جب وہ کسل و جلد بازی کے جذبہ سے ایسا کرتا ہے اسے زیادہ ثواب ملے گا۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کے قریب کچھ مکان خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ مسجد کے قریب آ جائیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو جب ان کے اس ارادے کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ تم مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! ہم نے یہی ارادہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بنو سلمہ! تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں تم اپنے مکانوں ہی میں رہو تمہارے قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
تشریح
بنو سلمہ انصار مدینہ کا ایک خاندان ہے اس خاندان کے افراد مسجد نبوی سے دور رہتے تھے۔ جب مسجد نبوی کے قریب رہنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہو جانے یا کسی دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے ان کے مکانات خالی ہوئے تو بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب رہنے کی سعادت حاصل کی غرض سے ان خالی مکانات میں منتقل ہونے کا ارادے کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے اس ارادہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اس وقت تم لوگ جہاں آباد ہو وہی جگہ سعادت و بھلائی کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے کیونکہ تم لوگ مسجد سے جتنا دور رہو گے مسجد آنے کے لیے تمہیں اتنا ہی چلنا پڑے گا اور نماز کے لیے تم جتنے زیادہ قدم اٹھاؤ گے تمہارے نامہ اعمال میں ان کے بدلے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا اس لیے بھلائی و بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی سابق جگہ آباد رکھو۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اس روز (یعنی قیامت کے دن) اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (١) انصاف کرنے والا حاکم۔ (٢) وہ جوان جو اپنی جوانی کو اللہ کی محبت میں صرف کر دے۔ (٣) وہ آدمی جو مسجد سے نکلتا ہے تو جب تک وہ دوبارہ مسجد میں نہیں چلا جاتا اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ (٤) وہ دو آدمی جو محض اللہ کے لیے آپس میں محبت رکھتے ہیں اگر یکجا ہوتے ہیں تو اللہ کی عبادت میں اور جدا ہوتے ہیں تو اللہ کی محبت میں یعنی حاضر و غائب خالص بوجہ اللہ محبت رکھتے ہیں۔ (٥) وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ (٦) وہ آدمی جس کو کسی شریف النسب اور حسین عورت نے (برے ارادے سے) بلایا اور اس نے (اس کی خواہش کے جواب میں) کہہ دیا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (٧) وہ آدمی جس نے اس طرح مخفی طور پر صدقہ دیا ہو کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہاں ان سات قسم کے خوش نصیب شخص کی وضاحت کی گئی ہے جو اپنے اعمال و کردار کی بناء پر قیامت کی روز میدان حشر میں اللہ کے سائے میں ہوں گے یعنی رب قدوس ان لوگوں کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ سایہ خداوندی سے مراد عرش کا سایہ ہے۔ یعنی قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمت خداوندی کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوں گے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ساتواں آدمی وہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال اتنی پوشیدگی سے خرچ کرتا ہے کہ جب وہ اپنے دائیں طرف کے آدمی کو کوئی چیز یعنی روپیہ پیسہ یا مال وغیرہ دیتا ہے تو اس کے بائیں طرف بیٹھے ہوئے آدمی کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی اور اس طرح اس کے چھپانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ریا اور نمائش کا جذبہ نہ پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے ثواب سے محرومی رہے۔
بعض علماء نے اس کے حقیقی معنی ہی مراد لیے ہیں یعنی وہ آدمی اتنے مخفی طریقے سے صدقہ و خیرات کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کس کو کیا دیا ہے؟ اس صورت میں یہ جملہ کمال پوشیدگی کے لیے کنایہ ہو گا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ آدمی کی نماز اس نماز سے جو گھر میں یا (تجارت وغیرہ کی مشغولیت کی بناء پر) بازار میں پڑھی جائے پچیس درجے فضیلت رکھتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اچھی طرح (یعنی آداب و شرائط کو ملحوظ رکھ کر) وضو کرتا ہے اور (کسی غرض کی وجہ سے نہیں بلکہ) صرف نماز ہی کے لیے مسجد آتا ہے تو وہ جو قدم اٹھاتا ہے اس کے ہر قدم کے عوض اس کے نامہ اعمال میں سے ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ کم ہو جاتا ہے (یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے) اور جب تک وہ نماز پڑھ کر اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے فرشتے برابر اس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں۔ اَلَّلھُمَّ صَلِّی عَلَیْہِ اَللَّھُمَّ اَرْحَمْہُ اے اللہ ! اس کی بخشش کر! اے اللہ اس پر رحم کر، جب تک تم میں سے کوئی نماز کے انتظار میں رہتا ہے تو اس کا وہ وقت نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کوئی مسجد میں گیا اور نماز ہی کی وجہ سے وہاں رک گیا (تو گویا وہ نماز ہی میں ہے) اور فرشتوں کی دعاء میں یہ الفاظ زیادہ ہیں اَلَّلھْمَّ اَغْفِرْلَہُ اَلَّلھْمَّ تَبْ عَلَیْہِ(یعنی اے اللہ ! اس بندے کی بخشش فرما، اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما) اور (یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی (مسلمان) کو (اپنی زبان یا ہاتھ سے) ایذاء نہ پہنچائے اور با وضو رہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچیس درجے زیادہ ثواب کی فضیلت اسی وقت حاصل ہو گی جب کہ نماز جماعت کے ساتھ اور مسجد میں پڑھی جائے۔ حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے نمازی کے حق میں خدا کی رحمت و برکت کی دعا اس وقت تک کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ مسلمان کو اپنے کسی عمل یا اپنے کسی قول سے ایذاء نہیں پہنچاتا۔ گویا فرشتوں کے دعا کرنے کے حق میں یہ حدیث معنوی ہے۔ اس کے بعد حدث ظاہری کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب تک نمازی با وضو رہے یعنی اگر کوئی نمازی کسی مسلمان کو ایذاء پہنچائے گا یا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا تو فرشتے اس کے لیے رحمت و برکت اور مغفرت کی دعا نہیں کریں گے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کی دعا کی فضیلت اسی وقت حاصل ہو گی جب کہ نمازی نماز پڑھ کر وہیں مصلٰی پر بیٹھا رہے اگر وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ جا بیٹھے گا تو یہ فضیلت حاصل نہیں ہو گی۔
بعض مشائخ اور بزرگ نماز پڑ کر ریاء و نمائش وغیرہ کے خوف سے مصلی سے اٹھ جاتے ہیں اور کسی گوشے وغیرہ میں بیٹھ کر ذکر و تسبیح میں مشغول ہو جاتے ہیں، گو ان کی نیت صحیح اور ان کا یہ طریقہ قابل جزاء و انعام ہے کہ انہیں ذکر و تسبیح کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر نماز پڑھ کر مصلی ہی پر بیٹھے رہنے کی جو فضیلت ہے وہ انہیں حاصل نہیں ہوتی۔
٭٭ اور حضرت ابو سید (حضرت ابو اسید مالک بن ربیعہ کے صاحبزادے اور ساعدی انصاری ہیں، بدری صحابہ میں شامل اور سب سے بعد میں ٦٠ھ میں بعمر ٧٨ سال وفات پائی ١٢۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو۔ تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہئے۔ اَلَّلھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَبَ رَحْمَتِکَ (اے اللہ اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے) اور جب مسجد سے نکلے تو یہ دعا پڑھ لیا کرے۔ اَلَّلھُمَّ اِنِّی اَسْلئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (اے اللہ ! میں تیرا ہی فضل چاہتا ہوں)۔ (صحیح مسلم)
تشریح
پہلی دعا کا مطلب تو یہ ہے کہ اے اللہ ! اس مقدس و محترم جگہ کی برکت سے یا اس مسجد میں نماز پڑھنے کی توفیق دینے کے سبب سے یا نماز کے حقائق ظاہر کرنے کے سبب سے مجھ پر اپنی رحمتوں، اپنی نوازشوں اور اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دے۔ دوسری دعا میں فضل سے مراد حلال رزق ہے کیونکہ نماز سے فارغ ہو کر بندہ اسباب معیشت ہی کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہ حدیث حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد یعنی مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے اس لیے کہ اس حدیث میں امر وجوب کے لیے ہے۔ حنفیہ کے نزدیک چونکہ تحیۃ المسجد واجب نہیں مستحب ہے اس لیے وہ حضرات کہتے ہیں کہ یہاں امر (حکم) وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔
٭٭اور حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم (کی عادت تھی کہ) جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو چاشت کے وقت آتے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھ کر (تھوڑی دیر تک) بیٹھے رہتے۔ (پھر مکان میں تشریف لے جاتے) (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
سفر سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر وہاں تھوڑی دیر تک اس لیے بیٹھے رہتے تھے تاکہ وہ صحابہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عدم موجودگی کی وجہ سے آپ کی صحبت سے محروم رہتے تھے۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف ملاقات اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی سعادت حاصل کر سکیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ سفر سے واپس آکر گھر جانے سے پہلے مسجد میں آکر نماز پڑھے اور تھوڑی دیر تک وہاں بیٹھا رہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی یہ سنے (یاد دیکھے) کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کوئی گم شدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہہ دے کہ اللہ کرے تیری گم شدہ چیز تجھے نہ ملے۔ اس لیے کہ مسجدوں کو اس لیے نہیں بنایا گیا ہے (کہ ان میں جا کر گم شدہ چیزوں کو تلاش یا دریافت کیا جائے۔ صحیح مسلم)
تشریح
اس سلسلہ میں بظاہر تو مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقعہ پر یہ کلمات اس آدمی کی تنبیہ و توبیخ کے لیے صرف زبان سے ادا کئے جائیں دل سے بد دعا نہ کی جائے اور نہ درحقیقت یہ خواہش ہو کہ ایک مسلمان کی گمشدہ چیز اسے واپس نہ ملے۔ اور اگر کوئی آدمی درحقیقت دلی خواہش پر یہی کھتا ہے کہ ایسے آدمی کو اس کی گم شدہ چیز نہ ملے تاکہ آئندہ کے لیے اسے عبرت ہو اور اپنے اس نا مناسب فعل کی سزا پائے اور یہ کہ پھر آئندہ وہ ایسی حرکت نہ کرنے پائے تو ایک حد تک یہ بھی صحیح ہو گا۔
اس سلسلہ میں مسجد کی عظمت و تقدس کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف گم شدہ چیز تلاش کرنے ہی کی تخصیص نہیں بلکہ ہر وہ چیز ممنوع ہے جس کو اختیار کرنا مسجد کی بناء غرض کے منافی ہو جیسے خرید و فروخت وغیرہ۔ چنانچہ عہد سلف کے بعض علماء اسی بناء پر کہ مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں اور کسی مقصد کی تکمیل کے لیے نہیں مسجد میں کسی سائل کو صدقہ وغیرہ دینا بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
٭٭اور حضرت سائب ابن خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی ہیں فرمایا۔ ایک آدمی جماعت کی نماز پڑھا رہا تھا اور اس نے قبلہ کی طرف تھوک دیا (اتفاق سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(اس کی طرف) دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے مقتدیوں سے فرمایا کہ آئندہ سے یہ آدمی تمہیں نماز نہ پڑھائے اس کے بعد اس آدمی نے جب ان کو نماز پڑھانی چاہی تو ان لوگوں نے اسے (امامت سے) روک دیا اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد بیان کر دیا وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں میں نے ہی لوگوں سے تمہیں امام نہ بنانے کے لیے کہا تھا اور راوی فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے (امامت سے روک دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے یہ بھی) فرمایا تھا کہ، تم نے (اس ممنوع فعل کا ارتکاب کر کے) اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے صبح کی نماز میں تشریف لانے میں (خلاف عادت اتنی) تاخیر فرمائی کہ قریب تھا کہ سورج نکل آئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جھپٹتے ہوئے تشریف لائے چنانچہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کے ہمراہ) نماز پڑھی (اس طرح کہ) نماز میں تخفیف کی (یعنی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد ہم سے بآواز بلند فرمایا کہ جس طرح تم لوگ بیٹھے ہو اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہوشیار! میں آج صبح کی نماز میں دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے) کہ میں نے آج رات (تہجد کی نماز کے لیے اٹھ کر وضو کیا اور جو کچھ میرے مقدر میں نماز تھی پڑھی اور نماز ہی میں مجھے اونگھ آ گئی یہاں تک کہ نیند مجھ پر غالب آ گئی (اس وقت) اچانک میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو اچھی صورت میں (یعنی اچھی صفت کے ساتھ) دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا، اے محمد! میں نے عرض کیا پروردگار میں حاضر ہوں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا (تمہیں معلوم ہے) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟میں نے عرض کیا کہ پروردگار نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اسی طرح پوچھا (اور میں یہی جواب دیتا رہا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ، میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی (جس کا اثر یہ ہوا کہ) میرے سامنے ہر شے ظاہر ہو گئی اور تمام باتیں جان گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! میں نے عرض کیا کہ پروردگار میں حاضر ہوں فرمایا (اب بتاؤ) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جماعت کے واسطے (مسجدوں میں) آ جانا اور نماز پڑھ کر (اور دعا وغیرہ کے لیے) مسجد میں بیٹھے رہنا، اور سختی کے ساتھ (جس وقت کہ سردی یا بیماری کی وجہ سے پانی کو استعمال کرنا تکلیف دہ معلوم ہو) اچھی طرح وضو کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجات کے بارے میں فرمایا وہ کیا ہیں میں نے عرض کیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نرم لہجے میں بات کرنا اور رات کو اس وقت (تہجد کی) نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا اب اپنے لیے جو چاہو دعا کرو۔ چنانچہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے ، برائیوں کے چھوڑنے ، مسکینوں کی دوستی، اپنی بخشش اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں گمراہی ڈالنا چاہئے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لے اور میں تجھ سے تیری محبت (یعنی یہ کہ میں تجھے دوست رکھوں یا تو مجھے دوست رکھے) اور اس آدمی کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے (یہ کہ میں اسے دوست رکھوں یا وہ مجھے دوست رکھے) اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت سے نزدیک کر دے گا سوال کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہم سے) فرمایا کہ یہ خواب بالکل سچ ہے لہٰذا تم اسے یاد کرو اور پھر لوگوں کو سکھلاؤ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمعیل سے اس حدیث کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)۔
تشریح
اس حدیث کی وضاحت اسی باب کی حدیث نمبر ٣٤ کی تشریح میں کی جا چکی ہے اس لیے یہاں اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے تاہم اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا اور یہ سوال و جواب حالت خواب ہی میں ہوئے تھے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ اعوذ باللہ العظیم وبوجھہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطن الرجیم یعنی میں اللہ عظمت والے بزرگ ذات والے اور ہمیشہ کی سلطنت والے کے ساتھ شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہونے کے وقت یہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان (اس آدمی کے بارے) میں کہتا ہے کہ یہ بندہ تمام دن میرے شر سے محفوظ رہا۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت عطاء ابن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (یعنی یہ دعا فرمائی) اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِی وَثَناً یُعْبَدُ یعنی : اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کی عبادت کرنے لگیں۔ (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) جن لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ان پر اللہ تعالیٰ کا شدید غضب (نازل) ہوا۔ (مالک رحمۃ اللہ مرسلاً)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ پروردگار ! تو میری قبر کو اس معاملے میں بتوں کی مانند نہ کر کہ میری امت کے لوگ میری قبر کی خلاف شرع تعظیم کرنے لگیں یا بار بار زیارت کے لیے میلے کے طور آنے لگیں، یا میری قبر کو سجدہ گاہ قرار دے کر اپنی پیشانیوں کو جو صرف تیری ہی چوکھٹ پر جھکنے کی سزا وار ہے اس پر جھکانے لگیں اور سجدے کرنے لگیں۔
اس حدیث کو اور اس دعا کو بار بار پڑھیے اور ذرا آج کے حالات پر اس کو منطبق کیجئے پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعا کا تعلق آنے والے زمانے سے تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عرفانی نگاہوں نے اس وقت دیکھ لیا تھا کہ وہ وقت آنے والا ہے۔ کہ جب کہ میری قبر تو الگ رہی اولیاء اللہ کے مزارات پر سجدہ ریزی ہو گی مقبروں پر میلے لگیں گے وہاں عرس قوالیاں ہوں گی، قبروں پر چادریں اور پھولوں کا چڑھاوا چڑھے گا۔ غرض کہ جس طرح ایک بت پرست قوم اللہ کی عبادت و فرمانبرداری سے سرکشی اور تمرد اختیار کر کے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے میری امت کے بد قسمت اور بد نصیب لوگ جو میرے نام کے شیدائی کہلائیں گے ، میرے محبت سے سرشاری کا دعوی کریں گے۔ میری لائی ہوئی پاک و صاف شریعت کی آڑ میں میرے دین کے نام پر وہی معاملہ قبروں کے ساتھ کریں گے لہٰذا آپ نے دعا فرمائی کہ اے پروردگار ! تو میری امت کو ایسی گمراہی میں مبتلا نہ کیجئے کہ وہ میری قبر کو پوجنے لگیں۔
جملہ اشتد غضب الخ کا تعلق دعا سے نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک الگ جملہ ہے گویا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا کی تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اشتد الخ یعنی میں اپنی امت پر انتہائی شفقت و مہربانی کے لیے یہ دعا کر رہا ہوں کہ مبادا یہ بھی اس لعنت میں مبتلا نہ ہو جائیں جس طرح کہ یہود وغیرہ اس لعنت میں مبتلا ہو کر اللہ ذوالجلال کے غضب میں گرفتار ہوئے۔
٭٭اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات حیطان میں نماز پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ اس حدیث کے بعض رایوں نے کہا ہے کہ حیطان سے مراد بساتین (یعنی باغات) ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے (کیونکہ) یہ روایت بجز حسن بن ابی جعفر کی سند کے اور کسی سند سے منقول نہیں ہے اور انہیں بھی یحیٰ ابن سعید وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
٭٭ اور حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، آدمی کی نماز اپنے گھر میں ایک ہی نماز کے برابر اور محلے کی مسجد میں اس کی پچیس نمازوں کے برابر اور اس مسجد میں جہاں جمعہ ہوتا ہے (یعنی جامع مسجد میں) اس کی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر اور مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس میں) اور میری مسجد (مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم) میں اس کی نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں اس کی نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث کے ذریعہ مساجد کے مراتب اور ان میں نماز پڑھنے کے ثواب کے فرق و درجات کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ سب سے کم تر درجہ تو خود کسی کے گھر کا ہے یعنی اگر کوئی آدمی مسجد کے بجائے اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو اسے صرف اسی ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی اپنے محلہ کی مسجد میں نماز ادا کرتا ہے تو اسے پچیس نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اسی طرح جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو اور بیت المقدس و مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز پڑھنے والے کو اس کی ایک نماز کے بدلے میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر کوئی آدمی مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کرے پھر تو اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں یعنی اسے ایک نماز کے عوض ایک لاکھ نمازوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔
٭٭اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ !زمین کے اوپر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسجد حرام میں نے عرض کی کہ پھر اس کے بعد؟ فرمایا، مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں مسجدوں (کی بناء) کے درمیان کتنا فرق تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ چالیس سال پھر اس کے بعد فرمایا، اب تو ساری زمین تمہارے لیے مسجد ہے (یعنی اس کا ہر حصہ مسجد کا حکم رکھتا ہے کہ) جہاں نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کعبۃ اللہ کو بنانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور بیت المقدس کی بناء رکھنے والے حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں اور تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک ہزار برس سے زیادہ کا فرق ہے لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کس اعتبار سے فرمایا کہ کعبۃ اللہ اور بیت المقدس کی بناء کے درمیان صرف چالیس سال کا فرق ہے۔ اس کے جواب میں علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ)
اس حدیث میں ان دونوں مسجدوں کی بناء اول کی طرف اشارہ ہے اور یہ ثابت ہے کہ کعبہ کے بانی اولیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں۔ اسی طرح بیت المقدس کے بھی بانی اولیٰ حضرت سلیمان نہیں ہیں بلکہ کعبہ کی بناء سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے رکھی ہے پھر حضرت آدم کے بعد ان کی اولاد تمام روئے زمین پر پھیل گئی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو اور ان دونوں کے درمیان چالیس سال کا فرق رہا ہو۔ پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو بنایا اور حضرت سلیمان نے بیت المقدس کی تعمیر کی۔
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ
مجھے اس حدیث کی توثیق علامہ ابن ہشام کے اس مقولہ سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کتاب التسبیحات میں لکھا ہے کہ
جب حضرت آدم کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہو گئے تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب بیت المقدس کی سیر کر کے اسے بناؤ چنانچہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل میں بیت المقدس بنایا اور اس میں عبادت کی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کی بناء پر چالیس سال کے عرصے کا فرق ہو۔
بعض علماء سے اس حدیث کی توجیہ یہ منقول ہے کہ
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ بنایا تو مسجد کی حد مقرر کر دی تھی اسی طرح بیت المقدس کی بھی حد مقرر کر دی ہو گی۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ انکی حدود کو مقرر کرنے کا درمیانی وقفہ چالیس سال کا ہو۔
نماز صحیح طور پر ادا ہونے کی جہاں اور بہت سی شرائط ہیں ان میں ایک شرط ستر (یعنی شرم) گاہ کا چھپانا بھی ہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ کے مصنف اس باب میں اسی سلسلہ کی حدیثیں بیان کریں گے اس کے علاوہ اس باب میں مصنف ان لباسوں کے بارے میں بھی احادیث نقل کریں گے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے نمازیں میں پڑھی ہیں۔
٭٭حضرت عمر ابن ابی سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو یاک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کپڑے کو اپنے جسم سے اس طرح لپیٹے ہوئے تھے کہ اس کے دونوں کنارے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں پر تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اشتمال اسے کہتے ہیں کہ کپڑے کا وہ کنارہ جو داہنے کندھے پر ہے بائیں ہاتھ کے نیچے سے نکالا جائے اور پھر وہ کنارا لے کر جو دائیں ہاتھ کے نیچے سے بائیں ہاتھ پر ڈالا گیا ہے دونوں کو ملا کر سینے پر گرہ لگائی جائے لیکن گرہ لگانے کی ضرورت صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ کپڑے کے کنارے لمبے نہ ہوں اور ان کے کھل جانے کا خون ہو، اگر کنارے لمبے ہوں تو پھر گرہ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ یمن کے سفیروں کے لباس سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض شارحین کی عبارتوں میں گرہ لگانے کی قید ذکر نہیں کی گئی ہے۔
ان احادیث میں مشتمل متوشح اور مخالف بین طرفیہ کے جو الفاظ آئے ہیں سب کے ایک ہی معنی ہیں اور سب کی ایک ہی مذکور بالا صورت ہوتی ہے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، تم میں کوئی آدمی ایک کپڑے میں (اس طرح) نماز نہ پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اشتمال کی صورت میں تو نماز پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ اس میں کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر ہوتا ہے اور اگر کندھے پر کپڑے کا کچھ حصہ بھی نہ ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہو گی اور اس کی حکمت علماء یہ لکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی کپڑا اگر ہو اور اسی کا تہ بند کر لیا جائے اور اس کا کچھ حصہ کندھوں پر ڈالا نہ جائے تو اس صورت میں ستر کھل جانے کا اندیشہ رہتا ہے اور پھر یہ کہ رب ذوالجلال کے دربار میں حاضری کا وقت ہونے کی وجہ سے یہ بے ادبی کی شکل ہے۔
حضرت امام اعظم، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ہے۔ چنانچہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی صرف ایک کپڑے میں اس طرح نماز پڑھے کہ اس کے کپڑے کا کچھ حصہ کندھوں پر نہ ہو مگر ستر چھپا ہوا ہو تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن کراہت کے ساتھ ہو گی۔ حضرت امام احمد اور دوسرے علماء سلف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اس آدمی کی نماز نہیں ہو گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ اس کپڑے کی دونوں طرفوں میں مخالفت رکھے (یعنی اشتمال کی جو صورت بیان کی گئی ہے وہی اختیار کرے۔)۔ (صحیح البخاری)
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس کے کنارے دوسرے رنگ کے تھے یا اس کے کناروں پر کچھ کام کیا ہوا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر کئے ہوئے کام کو دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابی جہم کے پاس لے جاؤ (اور اسے اس کے حوالہ کر کے) ابی جہم کی انبجانیہ لے آؤ کیونکہ اس چادر نے مجھے میری نماز میں حضوری قلب کی دولت سے باز رکھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں (یہ بھی منقول ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نماز کے دوران اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری نماز خراب نہ کر دے۔
تشریح
خمیصہ ایک چادر کو کہتے ہیں جو خز کی یا صوف کی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور دھاری دار ہوتی ہے لہٰذا جملہ لھا اعلام یا تو خمیصہ کی تاکید ہے یا اس کا بیان ہے۔ یہ چادر ایک صحابی حضرت ابوجہم نے تحفہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اس کو اوڑھ کر نماز پڑھی اور نماز کے آداب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی تو تو قلب مبارک میں کچھ فرق محسوس ہوا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو صحابہ سے فرمایا کہ اسے ابو جہم کو واپس کر آؤ، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خیال ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ اس چادر کو واپس کر دینے سے ایک مخلص صحابی کی دل شکنی ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرما دیا کہ اس کے بدلہ میں ان سے ابنجا نیہ لے آؤ۔ انبجان ایک شہر کا نام ہے اس شہر کی بنی ہوئی چاردیں بالکل سیاہ ہوتی تھیں۔ اس شہر کی مناسبت سے چادر کو انبجانیہ کہا جاتا تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظاہری نقش و نگار پاک نفوس اور صاف قلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہ تاثیر قلب کی انتہائی صفائی اور لطافت کی بناء پر ہوتی ہے جیسے کہ کسی صاف و شفاف اور سفید چادر پر ایک معمولی سیاہ سا نقطہ بھی پڑ جاتا ہے تو فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور ناگوار محسوس ہوتا ہے اور چادر جنتی زیادہ سفید ہوتی ہے وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہی حال ان نفوس قدسیہ کا ہے جس کے قلب و دماغ تعلق مع اللہ اور ریاضت و مجاہدہ کی بناء پر اتنے پاک و صاف ہو جاتے ہیں کہ گناہ و معصیت الگ ہے کسی معمولی مباح شے کا ادنی سا تصور بھی قلب و دماغ پر اثر انداز ہو جاتا ہے لیکن ان کے مقابلے پر آلود گان تیرہ باطن بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ پر بڑے بڑے گناہ کا بھی اثر نہیں ہوتا۔
ہمارا خیال ہے کہ اس حدیث کے ذریعے اصل امت کو یہ تعلیم دینا مقصد ہے کہ نماز کے سلسلے میں ایسی چیزوں سے احتیاط رکھنی چاہئے جو نماز میں دھیان بٹانے کا سبب بنتی ہوں۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک پردہ ڈال رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اس پردے کو ہمارے سامنے سے ہٹا لو کیونکہ اس کی تصویریں نماز میں برابر میری سامنے رہتی ہیں۔ (صحیح البخاری)
تشریح
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ پردہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیوار گیری کے طور پر دیوار پر لگا رکھا ہو گا مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ پردہ چھپر کھٹ کے طریقے پر تھا۔ بہرحال حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ پردہ اسی وقت سے لگا رکھا ہو گا جب تک کہ انہیں حدیث نہیں معلوم نہیں ہوئی ہو گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں منع فرما دیا تو انہوں نے وہ پردہ اتار ڈالا۔
٭٭اور حضرت عقبہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں کسی نے ایک ریشمی قبا تحفہ کے طور پر بھیجی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے پہن کر نماز پڑھ لی نماز پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قبا کو اس طرح اتار پھینکا جیسے کوئی بہت برا جانتا ہو پھر فرمایا کہ (ریشمی کپڑے شرک و کفر سے) بچنے والوں کے لائق نہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
فروج اس قبا کو کہتے ہیں جس میں پیچھے کی طرف چاک ہوتا ہے۔ یہ فروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اکیدر بادشاہ رومہ یا بادشاہ اسکندریہ نے تحفۃً بھیجی تھی۔ چونکہ اس وقت مردوں کو ریشمی کپڑا پہننا حرام نہیں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے زیب تن فرما لیا اور اس میں نماز پڑھ لی مگر یہ سوچ کر کہ ریشمی کپڑا پہننے سے رعونت پائی جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ناپسند فرما کر اتار دیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس عمل سے یہ ظاہر فرما دیا کہ اگرچہ اس کا پہننا مباح ہے لیکن اللہ کے نیک بندے اور متقی و پرہیز گار لوگ چونکہ عزیمت پر عمل کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ مناسب اور بہترین نہیں ہے کہ وہ ریشمی کپڑا پہنیں۔ پھر بعد میں ریشم کا پہننا تمام مسلمان مردوں کے لیے خواہ متقی ہوں یا غیر متقی، حرام ہو گیا ہے۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ یہ نہی اس حالت میں ہوئی ہو تو اس صورت میں متقی عن الشرک مراد ہو گا یعنی مسلمانوں کو یہ پہننا نہ چاہئے۔
٭٭اور حضرت سلمہ ابن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں ایک شکاری آدمی ہوں، کیا میں ایک ہی کرتے میں نماز پڑھ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں (پڑھ لیا کرو) لیکن اسے باندھ لیا کرو خواہ اسے کانٹے ہی سے کیوں نہ اٹکا لیا جائے۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)
تشریح
چونکہ شکاری لوگ شکار میں کم کپڑے پہنتے ہیں اور زیادہ کپڑے پہننے سے شکار کرنے میں رکاوٹ ہوتی ہے اس لیے اس صحابی کے سوال کا مقصد یہ تھا کہ میں چونکہ شکار کھیلنے والا آدمی ہوں اور شکار کے وقت عموماً صرف ایک کرتا ہی پہنے ہوئے ہوتا ہوں اس کے نیچے لنگی بھی نہیں ہوتی تاکہ شکار کے پیچھے دوڑنے میں آسانی رہے تو کیا میں صرف ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ لیا کروں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایک کرتہ ہی میں نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اس کرتے کا چاک اگر اتنا کھلا ہوا ہو کہ رکوع و سجود کے وقت ستر کھلنے کا اندیشہ رہے تو اس کے چاک کو باندھ لیا کرو۔ اگر اس وقت چاک بند کرنے کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس میں کانٹا لگا کر ہی اسے بند کر لیا کرو تاکہ ستر نہ کھلے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) اس سے فرمایا کہ، جاؤ اور وضو کرو! وہ آدمی جا کر وضو کر آیا۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس آدمی کو وضو کرنے کے لیے کیوں فرمایا؟ (حالانکہ وہ با وضو تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، وہ آدمی اپنا ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور جو آدمی ازار لٹکائے ہوے ہو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا۔ (ابوداؤد)
تشریح
اسبال اسے فرماتے ہیں کہ کوئی بھی کپڑا اتنا لمبا پہنا جائے کہ وہ ناز و تکبر کے طور پر نیچے زمین تک لٹکا ہوا ہو۔ گو یہ ازار ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا استعمال اکثر و بیشتر ازار ہی کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا پائجامہ، لنگی اور کرتا وغیرہ غرور تکبر کی بناء پر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مکروہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کو ازار لٹکائے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ جو آدمی ازار لٹکائے ہوئے ہوا اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا یعنی اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کو کمال قبول نہیں کرتا اور ثواب نہیں دیتا اگرچہ اصل نماز ہو جاتی ہے۔
باوجود اس کے کہ وہ آدمی با وضو تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے وضو کرنے کا حکم اس حکمت کی بناء پر دیا تاکہ وہ آدمی اس کا سبب معلوم کرنے میں غور و فکر کرے اور پھر اسے اس فعل شنیع کی برائی کا احساس ہو، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی برکت اور ظاہری طہارت یعنی وضو کی وجہ سے اس کا باطن غرور و تکبر کی آلائش سے پاک و صاف کر دے کیونکہ ظاہری طہارت باطنی صفائی و پاکیزگی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بالغہ عورت کی نماز بغیر دوپٹے کے (یعنی سر ڈھانکے بغیر) نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد ، جامع ترمذی)
تشریح
حائض سے مراد بالغہ عورت ہے جو حیض کی عمر کو پہنچ جائے خواہ اسے حیض آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کا سر اور اس کے بال ستر میں شامل ہیں لہٰذا اگر کوئی عورت ننگے سر نماز پڑھے گی تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر عورت اتنا باریک کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھے کہ اس کپڑے میں سے بال یا بدن کا رنگ دکھائی دیتا ہو تو اس کی نماز نہیں ہوتی لیکن یہ سمجھ لیں کہ یہ حکم آزاد عورت کا ہے لونڈی اس حکم میں داخل نہیں ہے تو اس کی نماز ننگے سر بھی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا سر ستر نہیں اس کا ستر مرد کی طرح ناف کے نیچے سے زانو کے نیچے تک نیز پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی۔
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اگر عورت کے پاس تہمد (یعنی پائجامہ وغیرہ) نہ ہو اور وہ صرف دوپٹہ اور کرتہ میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ہاں ہو جائے گی) بشرطیکہ کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس سے اس کے پاؤں کی پشت چھپ جاتی ہو۔ (ابوداؤد) اور ابوداؤد نے کہا کہ ایک جماعت نے اس روایت کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف قرار دیا ہے یعنی انہوں نے کہا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے۔
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے پاؤں کی پشت بھی ستر میں شامل ہے اس کو نماز میں ڈھانکنا واجب ہے۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں سدل کرنے اور مرد کو منہ ڈھانکنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)
تشریح
سدل کے معنی یہ ہیں کہ کپڑے کو اپنے سر یا کندھوں پر ڈال کر دونوں طرف سے اسے لٹکا دیا جائے چنانچہ کپڑا استعمال کرنے کا یہ طریقہ مطلقاً ممنوع ہے کیونکہ اس سے غرور و تکبر کی شان پیدا ہوتی ہے اور نماز میں تو یہ طریقہ بہت ہی برا ہے۔ اس طرح نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ سدل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی کپڑا اوڑھ کر اپنا ہاتھ اس کے اندر کرے اور اسی طرح رکوع و سجدہ کرتا رہے۔ چونکہ یہ طریقہ یہودیوں کا تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے
عرب میں پگڑی کے کونہ سے منہ پر ڈھاٹا باندھ لیتے تھے جس سے دہانہ چھپ جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز میں اس سے بھی منع فرمایا ہے کیونکہ اس طرح نہ تو قرأت اچھی طرح ہوتی ہے اور نہ سجدہ پورے طور پر ہوتا ہے۔ ہاں اگر نماز میں کسی کو ڈکار آئے یا منہ سے بدبو آئے تو اسے ہاتھ سے منہ ڈھانک لینا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت شداد ابن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، (جوتے اور موزے پہن کر نماز پڑھنے میں) یہودیوں کی مخالفت کرو کیونکہ وہ لوگ جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے۔ (ابوداؤد)
تشریح
یہودی جوتے اور موزے پہن کر نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ یہودیوں کی مخالفت کرو اور جوتے پہن کر (اگر وہ پاک و صاف ہوں) اور موزے پہن کر نماز پڑھ لیا کرو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہ لوگوں کی مخالفت ظاہر کرنے کی غرض سے کسی مباح چیز پر عمل کرنا بہتر ہے اور وجہ یہ ہے کہ اس طرح چونکہ گمراہ لوگوں کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے وہ مباح چیز بھی عزیمت یعنی اولویت کا حکم پیدا کر دیتی ہے۔
٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں طرف (دور ہٹا کر) رکھ لیے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پر کس چیز نے مجبور کر دیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے جوتے اتار ڈالے ہیں اس لیے ہم نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (اس لیے میں نے تو جوتے اس لیے اتارے تھے کہ) میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے (اس لیے میں نے جوتے اتار دئیے تھے) تم میں سے جو آدمی مسجد میں آئے تو پہلے وہ اپنے جوتے دیکھ لیا کرے۔ اگر ان میں نجاست لگی ہوئی معلوم ہو تو انہیں صاف کر لے (اور انہیں پہنے ہی پہنے) نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی)
تشریح
قذر (قاف کے زبر اور دال معجمہ کے ساتھ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے طبیعت مکروہ رکھے اس لفظ سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جوتے میں ایسی نجاست نہیں لگی ہو گی جس سے نماز درست نہ ہوتی ہو بلکہ کوئی گھناؤنی چیز جیسے رینٹھ وغیرہ لگی ہو گی کیونکہ اگر نجاست لگی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم از سر نو نماز پڑھتے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جتنی نماز پڑھ لی تھی نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا اعادہ کیا اور نہ از سر نو نماز پڑھی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا خبر دینا اور پھر اس خبر کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جوتوں کو اتار دینا اس لیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج اقدس میں چونکہ صفائی اور ستھرائی بہت زیادہ تھی اس لیے جوتوں پر اس گھناؤنی چیز کا لگا رہنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مزاج کے مناسب نہیں تھا اور بعض شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی نمازی کے کپڑے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو تو نماز ہو جاتی ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول قدیم ہے۔
بہرحال۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت واجب ہے کیونکہ صحابہ نے کوئی سبب پوچھے بغیر محض آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جوتے اتارتے دیکھ کر اپنے جوتے فوراً اتار ڈالے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسے جائز رکھا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہو گی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو تو اپنے جوتے کو نہ اپنی دائیں طرف رکھے اور نہ بائیں طرف ہی رکھے کیونکہ ادھر دوسرے آدمی کی دائیں جانب ہو گی۔ ہاں اگر کوئی بائیں جانب نہ ہو تو ادھر رکھ لے (ورنہ) اسے چاہئے انہیں اپنے دونوں پیروں کے درمیان (یعنی اپنے آگے پیروں کے پاس) رکھ لے اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ یا (اگر جوتے پاک ہوں تو ان کو اتارنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ) انہیں پہنے ہی پہنے نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
٭٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں سرور کائنات کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بوریہ پر نماز پڑھ رہے ہیں اور اسی پر سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک کپڑا اوڑھے ہوئے جو اپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم پر لپٹا ہوا تھا نماز پڑھ رہے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز ہر اس چیز پر جائز ہے جو نمازی اور زمین کے درمیان حائل ہو خواہ وہ چیز بوریہ وغیرہ کی قسم سے ہو یا کپڑے اور صوف وغیرہ کی قسم سے۔ گو اس حدیث میں صرف بوریے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن علماء کے پاس اور دلائل ایسے ہیں جس کی رو سے وہ بوریے کے علاوہ کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا افضل ہے اس لیے کہ خشوع و خضوع نماز کی اصل روح ہے اور یہ چیزیں زمین پر نماز پڑھنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی مجبوری ہو مثلاً سردی یا گرمی کی وجہ سے بغیر کچھ بچھائے ہوئے زمین پر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر کچھ بچھا لینا ہی بہتر ہو گا۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جو چیزیں زمین سے اگی ہوئی نہ ہوں اس پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے یعنی بوری وغیرہ پر نماز پڑھنا تو افضل و بہتر ہے اور کپڑے وغیرہ پر نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت عمر و بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی ننگے پاؤں اور کبھی جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد)
٭٭اور حضرت محمد ابن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف تہبند باندھ کر جسے انہوں نے اپنی گدی کی طرف باندھ رکھا تھا نماز پڑھی حالانکہ ان کے کپڑے کھونٹی پر لٹکے ہوئے تھے ان سے کسی کہنے والے نے کہا کہ، آپ نے صرف تہبند میں نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ، میں نے یہ اس واسطے کیا تاکہ تم جیسا احمق مجھے دیکھے بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
مشجب کا عام فہم معنی کھونٹی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ مشجب اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کپڑے لٹکائے یا رکھے جاتے ہیں یا اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کبھی کبھی پانی ٹھنڈا ہونے کے لیے مشک لٹکا دی جاتی تھی۔
بہر حال حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے اس پر رکھ دیے تھے اور نماز صرف ایک کپڑے میں اس طرح پڑھ رہے تھے کہ اس کپڑے کا تہبند کر رکھا تھا اور اس کے کونے اوپر کے گلے میں باندھ رکھے تھے چنانچہ ایک آدمی نے اس طریقے کو خلاف سنت سمجھتے ہوئے برا خیال کیا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ اتنے سارے کپڑوں کی موجودگی میں بھی صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے ہیں تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں صرف ایک کپڑے میں نماز اس لیے پڑھ رہا ہوں تاکہ تم جیسا کم علم مجھے دیکھے اور جان لے کہ نماز صرف ایک کپڑے میں بھی پڑھی جا سکتی ہے یہ خلاف سنت نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی مقصد کے تحت اسے ڈانٹا اور کہا کہ احمق تو اسے برا کیوں سمجھ رہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زمانہ میں ہم میں سے وہ کون تھا جس کے پاس دو کپڑے تھے ، ہمارے پاس تو صرف ایک ایک کپڑا ہوتا تھا اسی میں ہم نماز پڑھتے تھے اور اسی کو دوسری ضرورتوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اس بارے میں علماء کا اتفاق ہے کہ دو کپڑوں میں نماز پڑھنا افضل ہے واجب نہیں ہے کیونکہ اس میں تنگی ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے ایک کپڑے میں نماز کبھی تو اس لیے پڑھی کہ ان کے پاس کپڑا ہی صرف ایک تھا اور کبھی بیان جواز کی خاطر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھ لی۔
الحاصل اگر کوئی آدمی ایک ہی کپڑے میں نماز اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کے پاس دوسرا کپڑا موجود نہیں ہے یا بیان جواز کی خاطر پڑھتا ہے تو جائز ہے۔ اور اگر کوئی آدمی سستی و کاہلی اور بہ نیت حقارت پڑھے گا تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ کسی کو صحابہ کے ترک سنت پر لعن و طعن کرنا نہیں چاہئے اور ان کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔ یعنی اگر کسی صحابی سے کوئی ایسا فعل صادر نظر آئے جو بظاہر خلاف سنت معلوم ہوتا ہے تو اس بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے کہ یہ بیان جواز کے لیے ہے یا پھر اس میں کوئی عذر ہو گا۔
٭٭اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا سنت ہے کیونکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہم اسی طرح نماز پڑھتے تھے اور ہمیں کوئی برا نہیں کہتا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا) اسی وقت تھا جب کہ کپڑوں کی قلت تھی اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے کپڑوں کے بارے میں وسعت بخش دی ہے تو دو کپڑوں میں ہی نماز پڑھنا بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)
لغت میں اذان کے معنی خبر دینا ہیں اور اصطلاح شریعت میں چند مخصوص الفاظ کے ساتھ اوقات مخصوصہ میں نماز کا وقت آنے کی خبر دینے کو اذان کہتے ہیں۔ اس تعریف سے وہ اذان خارج ہے جو نماز کے علاوہ دیگر امور کے لیے ہے مسنون کی گئی ہے جیسا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان کے کلمات اور بائیں کان میں اقامت کے کلمات کہے جاتے ہیں اور اسی طرح اس آدمی کے کان میں اذان کہنا مستحب ہے جو کسی رنج میں مبتلا ہو یا اسے مرگی وغیرہ کا مرض ہو یا وہ غصے کی حالت میں ہو، یا جس کی عادتیں خراب ہو گئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور۔ چنانچہ حضرت دیلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب: میں تمہیں غمگین دیکھ رہا ہوں لہٰذا تم اپنے اہل بیت میں سے کسی کو حکم دو کہ وہ تمہارے کان میں اذان کہے جس سے تمہارا غم ختم ہو جائے گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے تھے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد کے مطابق عمل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات صحیح ثابت ہوئی نیز اس روایت کو حضرت علی کرم اللہ وجہ تک نقل کرنے والے ہر راوی نے کہا ہے کہ ہم نے اس طریقے کو آزمایا تو مجرب ثابت ہوا۔ ایسے ہی حضرت دیلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس کی عادتیں خراب ہو گئی ہوں خواہ وہ انسان ہو یا جانور تو اس کے کان میں اذان کہو۔
بہر حال۔ فرائض نماز کے لیے اذان کہنا سنت موکدہ ہے تاکہ لوگ نماز کے وقت مسجد میں جمع ہوئیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں۔ اذان کی مشروعیت کے سلسلے میں مشہور اور صحیح یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت کی ابتداء عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خواب ہے جس کی تفصیل آئندہ احادیث میں آئے گی۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اذان کا خواب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی دیکھا تھا۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ دس صحابہ کرام کو خواب میں اذان کے کلمات کی تعلیم دی گئی تھی بلکہ کچھ حضرات نے تو کہا ہے کہ خواب دیکھنے والے چودہ صحابہ کرام ہیں۔
بعض علماء محققین کا قول یہ ہے کہ اذان کی مشروعیت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اجتہاد کے نتیجے میں ہوئی ہے جس کی طرف شب معراج میں ایک فرشتے نے رہنمائی کی تھی چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج میں جب عرش پر پہنچے اور سدرۃ المنتہیٰ تک جو کبریائی حق جل مجدہ کا محل خاص ہے پہنچے تو وہاں سے ایک فرشتہ نکلا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ فرشتہ کون ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے تمام مخلوق سے زیادہ قریب ترین درگاہ عزت سے میں ہوں لیکن میں نے پیدائش سے لے کر آج تک اس وقت کے علاوہ اس فرشتہ کو کبھی نہیں دیکھا ہے چنانچہ اس فرشتہ نے کہا اللہ اکبر اللہ اکبر یعنی اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے۔ پردے کے پیچھے سے آواز آئی کہ میرے بندہ نے سچ کہا انا اکبر انا اکبر (یعنی میں بہت بڑا ہوں میں بہت بڑا ہوں) اس کے بعد اس فرشتے نے اذان کے باقی کلمات ذکر کئے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذان کے کلمات صحابہ کرام کے خواب سے بھی بہت پہلے شب معراج میں سن چکے تھے۔ چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں محقق فیصلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کے کلمات شب معراج میں سن تو لیے تھے لیکن ان کلمات کو نماز کے لیے اذان میں ادا کرنے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں بغیر اذان کے نماز ادا کرتے رہے یہاں تک کہ مدینہ تشریف لائے اور یہاں صحابہ کرام سے مشورہ کیا چنانچہ بعض صحابہ کرام نے خواب میں ان کلمات کو سنا اس کے بعد وحی بھی آ گئی کہ جو کلمات آسمان پر سنے گئے تھے اب وہ زمین پر اذان کے لیے مسنون کر دیے جائیں۔ وا اللہ اعلم۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے (اذان کی مشروعیت سے پہلے نماز کے وقت کا اعلان کرنے کے سلسلے میں) آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ بعض لوگوں نے یہود و نصاریٰ کا ذکر کیا (کہ ان کی مشابہت ہو گی) پھر سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ اذان کے کلمات جفت کہیں (یعنی اذان کے شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہیں اور باقی کلمات سوائے آخری کلمہ (لاالہ الا اللہ) کے جو ایک مرتبہ کہا جاتا ہے وہ دو مرتبہ کہیں (اور تکبیر کے کلمات (سوائے اللہ اکبر کے) ایک ایک مرتبہ کہیں) شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (جو اس حدیث کے راوی اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ ہیں) فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ایوب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے (جو اس حدیث کے راوی ہیں اور جنہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا ہے) کیا تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ قدقامت الصلوٰۃ دو مرتبہ کہنا چاہئے (یعنی تکبیر کے اول و آخر میں اللہ اکبر کے علاوہ بقیہ کلمات ایک ایک مرتبہ ہیں اور لفظ قد قامت الصلوٰۃ دو مرتبہ ہے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کے لیے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہئے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع ہو جایا کرے تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہو جائیں اور جماعت سے نماز ہو سکے چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر آگ روشن کر دی جایا کرے تاکہ اسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں بعض نے رائے دی ناقوس بجانا چاہئے تاکہ اس کی آواز سن کر لوگ مسجد میں حاضر ہو جائیں۔
چند صائب الرائے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ان تجویزوں کے سلسلے میں عرض کیا کہ آگ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے روشن کرتے ہیں، اسی طرح ناقوس نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کے لیے بجاتے ہیں لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہ کرنے چاہئیں تاکہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم نہ آئے ، لہٰذا ان کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ سوچنا چاہئے۔
بات معقول تھی اس لیے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوئی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اپنے اپنے گھر آ گئے۔ ایک مخلص صحابی حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سلسلے میں بہت فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آتا تو بہت پریشان ہوئے ان کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی طرح جلد از جلد طے ہو جائے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فکر دور ہو جائے چنانچہ یہ اسی سوچ و بچار میں گھر آ کر سو گئے خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ شکل ان کے سامنے کھڑا ہو ا اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت میں بالکل سویا ہوا نہیں تھا بلکہ غنودگی کے عالم میں تھا اور بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر بدگمانی کا خوف نہ ہوتا تو میں کہتا کہ میں اس وقت سویا ہی نہیں تھا۔ اسی بناء پر بعض علماء کرام نے اس واقعہ کو حال اور کشف پر محمول کیا ہے جو ارباب باطن کو حالت بیداری میں ہوتا ہے۔
بہر حال حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح کو اٹھ کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بلاشبہ یہ خواب سچ ہے اور فرمایا کہ بلال کو اپنے ہمراہ لو، تم انہیں وہ کلمات جو تمہیں خواب میں تعلیم فرمائے گئے ہیں بتاتے رہو وہ انہیں زور سے ادا کریں گے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔
چنانچہ جب اس طرح دونوں نے اذان دی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں میں نے بھی خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات کو دس گیارہ یا چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔
ناقوس نصاریٰ کے ہاں عبادت کے وقت کی خبر دینے کے سلسلے میں استعمال ہوتا تھا اور اس کی شکل یہ ہوتی تھی کہ وہ لوگ ایک بڑی لکڑی کو کسی چھوٹی لکڑی پر مارتے تھے اس سے جو آواز پیدا ہوتی تھی وہی عبادت کے وقت کا اعلان ہوتی تھی۔
یہودیوں کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت کے وقت سینگ بجایا کرتے تھے چنانچہ آگ جلانے کا ذکر صرف حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اور کسی روایت میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں دو فرقے ہوں گے ایک فرقہ تو سینگ بجاتا ہو گا اور دوسرا فرقہ آگ جلاتا ہو گا۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کے کلمات (شروع میں اللہ اکبر کے علاوہ) تو جفت ہیں اور اقامت کے کلمات طاق ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام و تابعین عظام میں سے اکثر اہل علم اور امام زہری، امام مالک، امام شافعی، امام اوزاعی، امام اسحاق اور امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین کے نزدیک اذان و تکبیر دونوں کے کلمات جفت ہیں ان کی دلیل آگے آئے گی۔
٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپ کا اسم گرامی سمرہ بن معبر ہے اور ابومحذورہ کی کنیت سے مشہور ہیں۔ آپ نے ہجرت نہ کی آپ مؤذن تھے اور مکہ ہی میں انتقال کیا ١٢۔) راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے خود (بغیر واسطے کے) اذان سکھلائی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کہو! اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں (یعنی جانتا اور بیان کرتا ہوں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر فرمایا کہ دوبارہ کہو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں۔ آؤ نماز کی طرف آؤ نماز کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، آؤ فلاح کی طرف، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بڑا ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اللہ اکبر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس چیز سے بہت بلند و بالا ہے کہ کوئی آدمی اس کی کبریائی و عظمت کی حقیقت کو پہچانے۔ یا اللہ تعالیٰ اس حیثیت سے بہت بڑا ہے کہ اس کی ذات پاک کی طرف ان چیزوں کی نسبت کی جائے جو اس کی عظمت و بزرگی کے مناسب نہیں ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ رب العزت تمام چیزوں سے بہت بڑا ہے۔
اذان و تکبیر میں اللہ اکبر کی حرف را ساکن ہوتی ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور جمہور علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کے نزدیک یہ کلمہ اذان میں پہلی بار چار مرتبہ کہا جاتا ہے اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔
اس کلمہ کو چار مرتبہ کہنے میں یہ لطیف نکتہ ہے کہ گویا یہ حکم چار دانگ عالم میں جاری و حاوی ہے اور عناصر اربعہ سے مرکب نفس انسانی کی خواہشات کے تزکیہ میں بہت موثر ہے۔
حی علی الفلاح کے معنی یہ ہیں کہ تم ہر مکروہ چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے اور ہر مراد کے ملنے کی طرف آؤ۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ فلاح کے معنی بقا کے ہیں یعنی اس چیز کی طرف دوڑو جو عذاب سے چھٹکارے کا باعث، ثواب ملنے کا سبب اور آخرت میں بقاء کاذریعہ ہے اور وہ چیز نماز ہے۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اذان میں ترجیع یعنی شہادتین کو دو مرتبہ کہنا سنت ہے۔ ترجیع کی شکل یہ ہوتی ہے کہ پہلے شہادتیں کو دو مرتبہ پست آواز سے کہا جاتا ہے پھر دو مرتبہ بلند آواز سے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے۔
علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ یہ تکرار حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعلیم کے لیے تھا نہ کہ تشریع کے لیے۔ یعنی پہلی مرتبہ ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شہادتین کو پست آواز سے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ ان کلمات کو پھر ادا کرو اور بلند آواز سے ادا کرو چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابو محذورہ کی جو ایک دوسری روایت منقول ہے اس میں ترجیع نہیں ہے۔
نیز حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں بھی جو اذان کے باب میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے ترجیع نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو موذنوں کے سردار ہیں، نہ ان کی اذان میں اور نہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد نبوی میں اذان کہتے تھے اور نہ ہی حضرت سعد قرط رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان میں جو مسجد قبا کے موذن تھے ترجیع منقول ہے۔ پھر یہ کہ اس سلسلے میں حضرت ابی محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکرار شہادتین کی تعلیم کے لیے تھا۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ علنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اذان کے کلمات دو دو دفعہ اور تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ (کہے جاتے) تھے البتہ (تکبیر میں) قد قامت الصلوٰۃ بے شک نماز تیار ہے مؤذن دو مرتبہ کہتا تھا۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی ، دارمی)
تشریح
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو یہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانے میں اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں اللہ اکبر چار مرتبہ کہتے تھے اور آخر میں لاالہ الا اللہ ایک مرتبہ کہتے تھے ان دونوں کلمات کے علاوہ باقی کلمات دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔
اقامت میں جس طرح قد قامت الصلوٰۃ کا استثناء کیا گیا ہے اسی طرح تکبیر یعنی اللہ اکبر کو بھی مستثنی کرنا مناسب تھا کیونکہ تکبیر بھی بلا اختلاف اول و آخر میں مکرر ہے۔
٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اذان کے انیس کلمات اور تکبیر کے سترہ کلمات سکھلائے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی ، دارمی ، سنن ابن ماجہ)
تشریح
حنفی مسلک میں اذان کے پندرہ کلمات ہیں مگر اس حدیث میں انیس ذکر کئے گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کلمات ترجیع سمیت ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے اور حدیث نمبر دو کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک ترجیع تعلیم پر محمول ہے وہ مشروع نہیں ہے۔
تکبیر کے سترہ کلمات بتائے گئے ہیں بایں طور کہ ترجیع کے چار کلمات الگ کر کے اور دو کلمات قد قامت الصلوٰۃ کے بڑھا کر تکبیر کے کلمات سترہ ہوئے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے لہٰذا یہ حدیث اذان کے بارہ میں تو شوافع کے مسلک کی تائید کرتی ہے کہ ان کے ہاں اذان کے کلمات انیس ہوتے ہیں۔ اور تکبیر کے بارے میں حنفیہ کے مسلک کے موافق ہے کہ ان کے یہاں تکبیر کے کلمات سترہ ہوتے ہیں چنانچہ تکبیر کے کلمات کی تعیین میں حنفیہ کی جانب سے یہی حدیث بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔
اس سے پہلے والی حدیث میں جس میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے مطابق تکبیر کے کلمات کی تعداد گیارہ ثابت ہوتی ہے اگر صحیح ہے تو اس حدیث سے منسوخ ہے۔
٭٭اور حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اذان کا طریقہ سکھا دیجئے ! راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور پھر فرمایا کہ کہو اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ان کے ساتھ آواز بلند کرو، اور پھر کہو، اشھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد ارسول اللہ، اشھد ان محمد ارسول اللہ۔ انہیں آہستہ سے کہہ کر پھر بلند آواز سے شہادت کے کلمات کہو ا شھد ان لا الہ الا اللہ، اشھد ان لا الہ الا اللہ۔ اشھد ان محمد ارسول اللہ، اشھد ان محمدارسول اللہ، حی علی الصلوٰۃ، حی علی الصلوٰ، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح۔ اگر صبح نماز کے لیے اذان کہنا چاہو تو (اس کے بعد یہ کلمات کہو الصلوٰۃ خیر من النوم، الصلوٰۃ خیر من النوم۔ (یعنی نماز نیند سے بہتر ہے ، نماز نیند سے بہتر ہے ، اللہ اکبر ، اللہ اکبر۔ لا الہ الا اللہ۔ (ابوداؤد)
تشریح
فمسح مقدم راسہ کے معنی یا تو وہی میں جو ترجمہ سے ظاہر ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابومحذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا تاکہ اس کی برکت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دماغ کو پہنچے اور وہ دین کی باتوں کو یاد رکھ سکیں، چنانچہ ایک صحیح نسخہ میں یہ الفاظ اس طرح ہیں، فَمَسَحَ راسی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا، لہٰذا یہ الفاظ اس معنی کی تائید کرتے ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتفاقی طور پر اپنا دست مبارک خود اپنے سر اقدس پر پھیرا ہو گا۔ راوی نے پورا واقعہ نقل کرنے کی غرض سے اس کا تذکرہ بھی کر دیا۔
بہر حال اس پہلے ترجمہ کی جو توجیہ کی گئی تھی کہ جن احادیث میں اذان میں شہادتین کا تکرار ذکر کیا گیا تو یہ تو تعلیم پر محمول ہے تو وہ توجیہ بظاہر اس حدیث کے منافی ہے لہٰذا اولیٰ یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ اس سلسلے میں ہم نے ان کثیر روایتوں کو ترجیح دی ہے جن میں ترجیع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے نیز حضرت ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس سے ترجیع ثابت ہے وہ پہلے کی ہے اور وہ احادیث جن میں ترجیع مذکور نہیں ہے بعد کی ہیں اس لیے ابو محذورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ان روایتوں سے منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔
الصلوٰۃ خیر من النوم کا مطلب یہ ہے۔ ارباب ذوق شوق اور عشق خداوندی سے سرشار لوگوں کے نزدیک نماز کی لذت نیند کی لذت سے بدرجہا بہتر ہے۔
٭٭اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ فجر کی نماز کے علاوہ اور کسی نماز میں تثویب نہ کرو۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ،) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (اس حدیث کے راوی) ابواسرائیل محدثین کے نزدیک قوی (یعنی قابل اعتبار) نہیں ہیں۔
تشریح
تثویب وہ اعلام ہوتا ہے جس سے پہلے کوئی اعلام ہو چکا ہو اور اس کی غرض اور اس سے پہلے کے اعلام کی غرض ایک ہو۔ مثلاً پہلے اعلام سے لوگوں کو نماز کے لیے بلانا مقصود ہو تو اس اعلام سے بھی یہی مقصود ہو۔ تثویب کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا، یہ تثویب اس لیے ہے کہ ایک مرتبہ تو حی علی الصلوٰۃ کہہ کر لوگوں کو نماز کے لیے بلایا گیا پھر دوبارہ الصلوٰۃ خیر من النوم سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ یہ تثویب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں رائج تھی اور مسنون یہی ہے پھر اس کے بعد کوفہ کے علماء نے اذان و تکبیر کے درمیانی وقفے میں حی علی الفلاح کہنا رائج کیا، اس کے بعد ہر فرقہ و طبقہ کے لوگوں نے اپنے اپنے عرف کے مطابق کچھ نہ کچھ طریقہ تثویب کے طور پر رائج کیا مگر یہ تمام تثویبیں فجر کی نماز ہی کے لیے رائج کی گئیں، کیونکہ فجر کا وقت نیند اور غفلت کا وقت ہو تا ہے۔
پھر آخر میں متاخرین علماء نے تمام نمازوں کے لیے تثویب رائج کی اور اسے بنظر استحسان دیکھا حالانکہ متقدمین کے نزدیک یہ مکروہ ہے کیونکہ یہ احداث ہے اور بدعت ہے چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے بھی اس کا انکار بایں طور منقول ہے کہ ایک آدمی تثویب کہتا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ اخر جوا ھذا المبتدع من المسجد یعنی اس بدعتی آدمی کو مسجد سے نکال باہر کرو!۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک دن جب کہ وہ مسجد میں موجود تھے موذن کو غیر فجر میں تثویب کرتے ہوئے سنا تو مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسروں سے بھی کہا کہ اس آدمی کے سامنے نہ رہو، باہر نکل آؤ کیونکہ یہ بدعتی ہے۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہا کرو اور جب تکبیر کہو تو جلدی جلدی کہا کرو اور اذان و تکبیر کے درمیان اتنا وقفہ کیا کرو کہ کھانے والا اپنے کھانے سے ، پینے والا پینے سے ، قضائے حاجت والا اپنی حاجت سے فارغ ہو جائے اور اس وقت تک نماز کے لیے کھڑے نہ ہو جب تک مجھے (نماز پڑھانے کے لیے آتا ہوا) نہ دیکھ لو۔ اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حدیث کو سوائے عبدالمنعم کے اور کسی سے نہیں جانتے اور اس کی سند مجہول ہے۔
تشریح
اذان کو ٹھہر ٹھہر کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے کلمات کو ایک دوسرے سے جدا جدا کر کے اور خفیف سے سکتہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرو۔
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں اتنی ڈھیل کرو کہ کلمات بغیر کھینچے ہوئے تاکہ حد سے تجاوز نہ ہو واضح واضح کہہ سکو۔ اسی وجہ سے مؤذنوں کے لیے تاکید ہے کہ وہ اذان کے کلمات کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لیں اور قواعد کے مطابق اذان کہیں تاکہ غلطیوں کا ارتکاب نہ ہو سکے کیونکہ بعض غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کو قصداً کرنے والا کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے جیسے اشھد کے الف کو مد کے ساتھ ادا کرنا کہ یہ استفہام ہو جاتا ہے اور جس کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ کیا میں گواہی دوں الخ؟ یا اللہ اکبر میں حرف با کو مد کے ساتھ کھیچ کر (اکبار) پڑھنا کہ یہ لفظ کبر کی جمع ہو جاتی ہے جس کے معنی اس طبلے کے آتے ہیں جس کا ایک منہ ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں ہوتا ہے یا اسی طرح لفظ الہ پر وقف کرنا اور اللہ سے ابتداء کرنا۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب موذن تکبیر کے لیے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لیے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہو جانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھانے کے لیے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے ہوں گے جب کہ موذن تکبیر شروع کر دیتا ہو گا اور جب موذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوٰۃ پر پہنچتا ہو گا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت محراب میں داخل ہوتے ہوں گے۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوٰۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہئے اور جب موذن قد قامت الصلوٰہ پر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔
٭٭حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فجر کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے اذان کہی، پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیر کہنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ صدائی کے بھائی نے اذان کہی تھی اور جو اذان کہے اسی کو تکبیر بھی کہنی چاہئے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
تشریح
اخاء صداء یعنی صدائی کے بھائی سے مراد زیاد ابن حارث صدائی ہیں، عرب میں قاعدہ تھا جو آدمی جس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اسے اس قبیلہ کا بھائی کہا جاتا ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اس حدیث کے مطابق غیر موذن کو تکبیر کہنا مکروہ ہے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ اکثر و بیشتر حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کہتے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تکبیر کہتے تھے۔ امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حدیث اس بات پر محمول ہے کہ اگر غیر موذن تکبیر کہنا چاہئے تو موذن سے اجازت لے لے۔ اگر موذن کو کسی دوسرے کی تکبیر کہنا ناگوار ہو تو پھر غیر موذن کو تکبیر کہنا مناسب نہیں ہے۔
٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان مدینہ میں آ کر جمع ہو گئے تو نماز کے لیے وقت اور اندازہ معین کرنے لگے (کیونکہ) کوئی آدمی نماز کے لیے بلانے والا نہ تھا (ایک روز) جب اس مسئلے پر گفتگو ہوئی تو بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ناقوس بنا لیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح سینگ بنا لیا جائے (یہ تمام تجاویز سن کر) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کر دیا جائے جو نماز کے لیے (لوگوں کو) بلا لیا کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! کھڑے ہو کر نماز کے لیے منادی دیا کرو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منادی کرنے کا جو حکم دیا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر الصلوٰۃ جامعۃ کہہ دیا کرو۔ یہ آواز سن کر لوگ نماز کے لیے حاضر ہو جایا کریں گے۔ لہٰذا منادی سے مراد نماز کے لیے محض اعلان کرنا ہے نہ کہ اس سے شرعی منادی یعنی اذان مراد ہے۔ اس توجیہ سے پہلی احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ پہلے ایک مجلس میں اس طرح اعلان کرنے کی تجویز پاس ہوئی پھر بعد میں جب دوسری مجلس میں اس پر بحث و مباحثہ ہوا تو حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کا خواب دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو وحی آ جانے کے بعد یا اپنے اجتہاد سے کام لے کر حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے مطابق اذان مشروع فرمائی۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن زید بن عبدربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بنائے جانے کا حکم دیا تاکہ نماز کی جماعت میں لوگوں کے حاضر ہونے کے لیے اسے بجایا جائے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی اپنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے (جاتا) ہے میں نے اس آدمی سے کہا کہ بندہ خدا! کیا تم یہ ناقوس بیچو گے؟اس آدمی نے کہا کہ تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ ہم اسے بجا کر لوگوں کو نماز (کی جماعت) کے لئے بلایا کریں گے۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا کہ ہاں ضرور بتاؤ! اس آدمی نے کہا کہ کہو اللہ اکبر تک اس نے اذان بتا کر پھر اسی طرح اقامت بھی بتائی، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (خواب سن کر) فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ خواب سچا ہے ، اب تم بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر جو کچھ خواب میں دیکھا ہے انہیں بتائے جاؤ اور وہ اذان کہیں کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں۔ چنانچہ میں بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں سکھلاتا گیا اور وہ اذان دیتے رہے۔ راوی فرماتے ہیں کہ ، حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے مکان میں اذان کی آواز سنی تو (جلدی کی بنا پر) اپنی چادر کھینچتے ہوئے مکان سے باہر نکلے اور یہ کہتے ہوئے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں) حاضر ہوئے کہ یا رسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ الحمد اللہ (یعنی سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں) یہ حدیث ابوداؤد ، دارمی، اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے مگر ابن ماجہ نے تکبیر کا ذکر نہیں کیا اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے لیکن انہوں نے ناقوس کے قصے کی تصریح نہیں کی۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزء کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بجانے کا حکم دے دیا تھا۔ بلکہ یہاں حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مشورہ کیا اور کوئی مناسب تجویز ذہن میں نہیں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ناقوس بجانے کا حکم دینے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ ابن زید کے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خواب کے ذریعے اس کی نوبت نہ آنے دی۔
یہ حدیث حنفیہ کے مسلک کی موید ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تکبیر اور اذان کے کلمات میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح اذان کے کلمات کو سوائے شروع میں اللہ اکبر اور آخر میں لا الہ الا اللہ کے دو دو مرتبہ کہا جاتا ہے اسی طرح تکبیر کے کلمات کو بھی دو مرتبہ کہا جاتا ہے البتہ تکبیر میں صرف قد قامت الصلوٰۃ کا اضافہ ہے جو اذان میں نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تصدیق فرمائی کہ یہ خواب سچا ہے اب اس تصدیق کا تعلق یا تو وحی سے ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس خواب کے سچا ہونے کی خبر دے دی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسے حق کہا یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اجتہاد کی بناء پر اس خواب کو سچا مانا۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انشاء اللہ کہنا برکت اور اظہار طمانیت کے طور پر تھا۔ نہ کہ شک کے لیے۔ اذان کی آواز سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جو یہ کہا کہ میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہو جب انہیں معلوم ہو گیا ہو کہ یہ اذان حضرت عبداللہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خواب کے نتیجے میں کہی گئی ہے یا پھر انہیں اس خواب کا علم مکاشفہ کے ذریعے ہو گیا ہو گا۔ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ موذن کا بلند آواز اور خوش گلو ہونا مستحب ہے۔
آخر میں اتنی بات اور جان لیجئے کہ اذان کی مشروعیت ٢ھ میں ہوئی ہے مگر کچھ علماء کی تحقیق یہ ہے کہ اذان ہجرت کے پہلے سال مشروع ہوئی ہے۔
٭٭ اور حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ صبح کی نماز کے لیے نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس آدمی کے پاس سے گزرتے تھے نماز کے لیے یا تو اسے آواز دیتے تھے یا اس کے پاؤں کو حرکت دے دیتے تھے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی نماز کے وقت سو رہا ہو تو اس کو نماز کے لیے جگانا جائز ہے خواہ آواز دے کر جگایا جائے خواہ اس کا پاؤں وغیرہ ہلا کر۔
٭٭ اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ موذن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر صبح کی نماز کے لیے انہیں خبردار کر دیتا تھا چنانچہ (ایک دن) مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا پایا تو کہا (الصلوٰۃ خیر من النوم۔ نماز نیند سے بہتر ہے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موذن کو حکم دیا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے۔ (موطا)
تشریح
بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کے کلمہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اضافہ کیا تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ فجر کی اذان میں یہ کلمہ کہنا تو شروع ہی سے مسنون تھا۔ اب اس حدیث کی توجیہات کی گئی ہیں لیکن زیادہ مناسب اور بہترین توجیہ یہ ہے کہ جب مؤذن نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوتا ہوا دیکھ کر یہ کلمہ کہا تو انہیں ناگوار ہوا اور فرمایا کہ یہ کلمہ صبح کی اذان میں شامل کیا جائے یعنی یہ کلمہ فجر کی اذان ہی میں کہنا سنت ہے اسی موقع پر تمہیں یہ کلمہ کہنا چاہئے اذان کے سوا سوتے ہوئے کو جگانے کے لیے یہ کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
٭٭ اور حضرت عبدالرحمن بن سعد بن عمار بن سعد موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد سعد نے اور انہوں نے اپنے والد عمار سے اور انہوں نے سعد کے دادا سے جن کا نام بھی سعد تھا سنا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ (اذان کہتے وقت) اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں کیونکہ اس سے آواز زیادہ بلند ہو جاتی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
تشریح
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مسجد قبا میں موذن تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک یہ اس مسجد میں اذان کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں اذان کہنا چھوڑ کر شام چلے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں مسجد قبا سے بلا کر مسجد نبوی میں اذان کہنے کی خدمت پر مامور فرمایا اور یہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس با سعادت خدمت کو انجام دیتے رہے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت عمار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی مقبول ہیں اور ان کے بیٹے یعنی حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے کا نام بھی سعد ہے اور ان کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن مسطور ہیں اس طرح عمار کے والد حضرت سعد ان کے لڑکے سعد کے دادا ہوئے۔
چنانچہ یہ حدیث حضرت عبدالرحمن نے اپنے دادا حضرت سعد سے نقل کی ہے اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمار سے نقل کی ہے جو تابعی ہیں اور انہوں نے اپنے والد مکرم حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے جو صحابیت کی سعادت سے مشرف ہیں۔ ابیہ اور جدہ دونوں کی ضمیریں لفظ ابی کی طرف راجع ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ آواز زیادہ سے زیادہ بلند ہو سکے اور اس میں شاید یہ حکمت ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھ لینے سے بلند آواز ہی موذن کے کان میں آئے گی اس لیے وہ اس کی کوشش کرے گا کہ جہاں تک ہو سکے۔ پورے زور سے چلا کر اذان کہے۔
٭٭اذان اللہ تعالیٰ کے اذکار میں ایک بہت بڑے رتبے کا ذکر ہے اس میں توحید اور رسالت کی شہادت اعلان کے ساتھ ہوتی ہے اس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اذان دینے کی فضیلت اور اس کا ثواب بہت زیادہ ہے چنانچہ اس عنوان کے تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ اذان دینا درحقیقت برکت و سعادت سے اپنا دامن بھرنا ہے۔
اب اس میں کلام ہے کہ آیا اذان کہنا زیادہ افضل ہے یا امامت کہنا؟ چنانچہ مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ یقین ہو کہ وہ امامت کے پورے حقوق بجا لائے گا تو اس کے لیے امامت کرنا افضل ہو گا ورنہ بصورت دیگر اس کے لیے اذان کہنا ہی افضل ہو گا۔
علماء کا اس معاملے میں اختلاف ہے کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اذان کہی ہے یا نہیں؟ گو ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کہی ہے مگر بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دے کر اذان کہلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے جیسے کہ محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ نے قلعہ بنایا ہے حالانکہ بادشاہ خود اپنے ہاتھ سے قلعہ نہیں بناتا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے حکم دے کر قلعہ بنوایا ہے۔ دار قطنی کی ایک روایت میں اس کی تصریح بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان کہنے کا حکم کیا تھا (نہ کہ خود اذان دی تھی) وا اللہ اعلم۔
اذان کا جواب دینا واجب ہے اگر کئی آدمی مل کر اذان دیں تو اس شکل میں حرمت اول کے لیے ہو گی یعنی اس کا جواب دینا چاہئے اور اگر کوئی آدمی کئی طرف سے یعنی مختلف محلوں کی مساجد سے اذان سنے تو صرف اپنی مسجد کے مؤذن کا جواب دینا واجب ہو گا اور اگر کوئی آدمی اذان کے وقت مسجد میں بیٹھا ہوا ہو تو اس کے لیے اذان کا جواب واجب نہیں ہے کیونکہ اس شکل میں تو اسے اجابت فعلی حاصل ہی ہے۔ اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن پڑھنے والا آدمی اذان کا جواب دے یا نہ دے !چنانچہ اس سلسلے میں مختار قول یہ ہے کہ وہ اذان کا جواب نہ دے۔
٭٭اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے روز لوگوں میں سے زیادہ اونچی گردنوں والے مؤذن ہوں گے۔
تشریح
اونچی گردن کے معنی کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ دنیا میں اذان دیتے تھے وہ قیامت کے روز بہت زیادہ ثواب والے اور مرتبے والے ہوں گے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ موذن قیامت کے روز سردار ہوں گے۔ کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں قیامت کے روز موذن بہت زیادہ ثواب کے امیدوار ہوں گے کیونکہ جو آدمی کسی چیز کے حصول کی امید رکھتا ہے وہ گردن اونچی کر کے اس چیز کو دیکھتا ہے ، اسی طرح میدان حشر میں جب کہ تمام لوگ حساب و کتاب کی بناء پر رنج و فکر میں ہوں گے۔ مؤذن آرام و راحت کے ساتھ اس بات کے منتظر ہوں گے کہ اب جنت میں داخلے کا حکم کیا جائے گا۔ بعض حضرات نے اس کے معنی یہ بھی بیان کئے ہیں کہ قیامت کے روز مؤذنوں کو باری تعالیٰ رب العزت کی بارگاہ میں مقام قرب و عزت حاصل ہو گا۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے ، جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر آتا ہے اور جس وقت تکبیر ہوتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے تاکہ انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرے چنانچہ (نمازی سے) کہتا ہے کہ فلاں چیز یاد کرو، فلاں بات یاد کرو (اس طرح نماز شروع کرنے سے پہلے مال و اولاد، حساب و کتاب اور خرید و فروخت کے سلسلے میں) جو باتیں نمازی کو یاد نہیں ہوتیں وہ یاد دلاتا ہے ، یہاں تک کہ آدمی (یعنی نمازی کو) کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
بعض فرماتے ہیں کہ شیطان کا گوز مارنا حقیقۃً ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی جسم رکھتا ہے اس لیے ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے چنانچہ جس طرح گدھے پر جب وزن رکھ دیا جاتا ہے تو وہ بوجھ کی زیادتی کی وجہ سے گوز مارتا ہے اسی طرح شیطان پر بھی اذان بہت بھاری ہوتی ہے اور وہ گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جب اذان شروع ہوتی ہے تو شیطان ایک آواز نکالتا ہے جو کان میں بھر جاتی ہے اور اس سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اذان نہ سن سکے۔ اس آواز کو اس کی برائی و خرابی بیان کرنے کے لیے یہاں گوز مارنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان اور اس کے دل کے درمیان خطرات پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نمازی اور اس کے دل کے درمیان وساوس و خطرات حائل کر دیتا ہے اور اس کے دل کو دنیا کی باتوں کی طرف لگا دیتا ہے تاکہ نماز میں حضوری قلب کی دولت میسر نہ آ سکے۔
اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ شیطان قرأت قرآن اور عظمت سے تو بھاگتا نہیں مگر اذان سے بھاگتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کے کلمات میں ایسی ہیبت اور عظمت رکھ دی ہے جو شیطان کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن اور یا جو بھی چیز وہ سب قیامت کے دن مؤذن (کے ایمان) کی گواہی دیں گے۔ (صحیح البخاری)
تشریح
مدی کے معنی انتہا یعنی اخیر ہیں۔ آواز کی انتہا یہ ہے کہ اس کی بھنک میں آ جائے اور یہ نہ معلوم ہو کہ آواز دینے والا کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں اگرچہ یہی معنی کافی تھا کہ موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے الخ لیکن مدی بمعنی انتہاء کو ذکر کر کے اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ جن کے کان میں اذان کی محض بھنک پڑ جائے گی جب وہ موذن کے ایمان کی گواہی دیں گے تو وہ لوگ تو بطریقی اولیٰ گواہ ہوں گے جو موذن کے قریب ہوں گے اور اذان کو قریب سے سنیں گے۔
علماء لکھتے ہیں کہ درحقیقت اس حدیث سے موذن کو ترغیب دلانی مقصود ہے کہ اذان نہایت بلند آواز سے کہا کریں تاکہ ان کے ایمان کی گواہی دینے والے زیادہ سے زیادہ ہوں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم موذن کی آواز سنو تو (اس کے جواب میں) اس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو کیونکہ جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اس کے بدلے میں اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لیے (اللہ سے) وسیلے کی دعا کرو۔ وسیلہ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو ملے گا اور مجھ کو امید ہے کہ وہ بندہ خاص میں ہوں گا لہٰذا جو آدمی میرے لیے وسیلے کی دعا کرے گا (قیامت کے روز) اس کی سفارش کرنا مجھ پر ضروری ہو جائے گی۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن اذان کہے تو تم بھی مؤذن کے ساتھ اذان کے کلمات دہراتے جاؤ البتہ چند کلمات ایسے ہیں جن کو بعینہ دہرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کے جواب میں دوسرے کلمات کہنے چاہیں جس کی تفصیل آئندہ حدیث میں آ رہی ہے چنانچہ فجر کی اذان میں جب موذن الصلوٰۃ خیر من النوم کہے تو اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ َو بِالْحَقِّ نَطَقْتَ (یعنی تم نے سچ کہا ہے اور خیر کثیر کے مالک ہوئے اور تم نے سچ بات کہی) کہنا چاہئے۔
وسیلہ اصل میں اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے مطلوبہ چیز کو خاص کیا جائے اور اس کے سبب سے مطلوبہ چیز کا قرب حاصل ہو چنانچہ جنت کے ایک خاص اور اعلیٰ درجے کا نام وسیلہ اسی لیے ہے کہ جو آدمی اس میں داخل ہوتا ہے اسے باری تعالیٰ عزاسمہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور اس کے دیدار کی سعادت میسر آتی ہے نیز جو فضیلت اور بزرگی اس درجے والے کو ملتی ہے وہ دوسرے درجے والوں کو نہیں ملتی۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارجو (یعنی مجھ کو امید ہے) فرمانا عاجزی اور انکساری کے طور پر ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام مخلوق سے افضل و بہتر ہیں تو یہ درجہ یقیناً آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لیے ہے۔ کوئی دوسرا اس درجے کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا اس لفظ کی تاویل یہ کی جائے گی کہ یہ یقین سے کنایہ ہے یعنی مجھے یہ یقین ہے کہ یہ درجہ مجھے ہی حاصل ہو گا۔
٭٭اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اللہ اکبر اللہ اکبر کہے ، پھر جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان لا الہ الاا اللہ کہے ، پھر جب اشھد ان محمد رسول اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر آدمی اشھد ان محمد ارسول اللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاحول ولاقوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو تم میں سے ہر آدمی لاھول ولاقوۃ الا باللہ کہے ، پھر جب مؤذن اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے تو تم میں سے ہر آدمی کہے اللہ اکبر، اللہ اکبر پھر جب مؤذن کہے لا الہ لا اللہ تو تم بھی کہو لا الہ لا اللہ جس نے (اذان کے جواب میں یہ کلمات) صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (صحیح مسلم)
تشریح
یہاں اللہ اکبر اختصار کی وجہ سے دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ سمجھانے کے لیے دو ہی مرتبہ کہنا کافی تھا اس لیے شہادتین یعنی اشھدان لا الہ الاا اللہ اور اشھد ان محمد ا رسول اللہ کو بھی صرف ایک ایک مرتبہ ہی ذکر کیا گیا ہے۔
لا حول ولاقوۃ الا باللہ کے معنی یہ ہیں، برائی سے بچنے اور نیک کام کرنے کی قوت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے ، جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ ، حی علی الفلاح کہتا ہے تو وہ لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواب میں یہ کلمہ کہنے والا گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک امر عظیم اور زبردست فرض کی ادائیگی کا معاملہ ہے میں ایک عاجز و کمزور بندہ ہوں۔ میری قوت و طاقت کی کیا مجال کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی متحمل ہو سکوں۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہی ہوتی ہے جو ہم اس امر عظیم کو پورا کرتے ہیں اور چونکہ نماز کے لیے آنے کی طاقت اور قوت اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوتی لہٰذا اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرماتا ہے تو ہم نماز کے لیے آتے ہیں۔
امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مؤذن جب اذان کہتا ہے تو اس کے کہے ہوئے کلمات کو اسی طرح دہرانا یعنی اس کا جواب دینا مستحب ہے البتہ حیعلتین یعنی حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول و لاقوۃ الا باللہ پڑھنا چاہئے۔ بعض مقامات پر کچھ حضرات حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں ما شاء اللہ کان ولم یشاء لم یکن فرماتے ہیں یہ غلط اور مسنون طریقے کے خلاف ہے۔
اذان کا جواب ہر سننے والے کو دینا چاہئے خواہ با وضو ہو یا بے وضو اور خواہ جنبی ہو یا حائض، بشرطیکہ جواب دینے میں کوئی چیز مانع نہ ہو مثلاً کوئی بیت الخلا میں ہو یا جماع کرتا ہوا، یا نماز پڑھ رہا ہو یا ایسے ہی کوئی دوسرا مانع ہو تو وہ اس وقت جواب نہ دے لیکن اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد اذان کے کلمات جواب میں کہے۔
صدق دل سے کہے کا تعلق یا تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے ہے کہ یہ کلمہ صدق دل سے کہا جائے یا پھر اس کا تعلق پوری اذان کے کلمات سے ہے کہ جواب میں تمام کلمات پورے خلوص اور صدق دل کے ساتھ کہے جائیں اور ظاہری طور پر بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پوری اذان سے ہے۔
جنت میں تو تمام مسلمان ہی داخل ہوں گے چا ہے وہ کسی عذاب کے بغیر داخل ہوں یا عذاب کے بعد داخل ہوں۔ لہٰذا یہاں جنت میں داخل ہونے سے مراد یہ ہے کہ ایسا آدمی جو اذان کا جواب صدق دل سے دیتا ہے یعنی زبان سے تو ان کلمات کو ادا کرتا ہے اور دل میں ان کلمات کی صداقت کا پورا اعتقاد رکھتا ہے تو وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہو گا۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے اذان سن کر (یعنی اذان ختم ہونے اور اس کا جواب دینے کے بعد) یہ دعا پڑھی تو قیامت کے روز مجھ پر اس کی شفاعت لازم ہو گی۔ دعا یہ ہے : اَللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَۃِ وَالصَّلٰوۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدنِ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابَعَثْہُ مَقَاماً مَّحْمُوْدَ نِ الَّذِیْ وَعَدْتَہُ اے اللہ ! مالک اس کامل دعا (اذان) کے اور پروردگار اس نماز قائمہ کے ہمارے سرادر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وسیلہ (جنت کا سب سے خاص و اعلیٰ درجہ) اور بزرگی عنایت فرما اور پہنچا ان کو مقام محمود پر جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس دعاء میں اذان کو دعا سے تعبیر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان لوگوں کو نماز اور اللہ کے ذکر کی طرف بلاتی ہے۔ نماز کو قائمہ اس لیے کہا گیا ہے کہ نماز ہمیشہ قیامت تک قائم و برقرار رہے گی۔ اس دعاء میں والفضیلۃ کے بعد والدرجۃ الرفیعۃ کے الفاظ بھی پڑھے جاتے ہیں مگر یہ کسی روایت میں مذکور نہیں ہیں۔
مقام محمود شفاعت عظمی کا مقام ہے اور یہ وہ مقام ہو گا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز عاصیوں کے لیے شفاعت کرنے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
میدان حشر میں جب ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہو گا اللہ کی مخلوق حساب و کتاب کی پریشانیوں میں مبتلا ہو گی اور تمام لوگ وہاں کی سختیوں کی بناء پر حیران و سرگرداں ہوں گے تو یکے بعد دیگرے تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کے پاس شفاعت کے لیے جائیں گے مگر وہ سب ہیبت و دہشت کی بنا پر شفاعت کی جرات نہ کر سکیں گے اور کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں، وہی اللہ کی مخلوق کی شفاعت کے حقدار ہیں۔ چنانچہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بارگاہ رب العزت میں حاضر ہو کر لوگوں کی شفاعت کریں گے۔ اس وقت ہر آدمی کی زبان پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف ہو گی اور حق تعالیٰ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کریں گے گویا شان محمدیت کا پورا پورا ظہور ہو گا۔ اور تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس عظمت و برتری کو رشک کی نگاہوں سے دیکھے گی۔
وعدتہ (جس کا تو نے وعدہ کیا ہے) اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔
آیت (عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً) 17۔ الاسراء:79)
امید ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا پروردگار آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو مقام محمود میں جگہ دے گا۔
خداوند کریم عنقریب آپ کو شافع محشر بنا کر مقام محمود پر کھڑا کرنے والا ہے۔ اور یہ وہ عزت و کرامت ہے جو بنی آدم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں اس لیے کہ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی پر عبادت اور شب کا سوز و گداز بھی فرض ہوا ہے۔
دلا بسوز کہ سوزے تو کارہا بکند
دعائے نیم شبی دفع صد بلا بکند
بیہقی کی روایت میں اس دعاء میں وَعَدْتہ کے بعد اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادِ (یعنی بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا) بھی مذکور ہے۔ بعض لوگ اس کے آگے یاارحم الرٰحمین بھی پڑھتے ہیں حالانکہ احادیث میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم (جب لشکر لے کر کسی جگہ جاتے تو) فجر ہو جانے پر (دشمن کے اوپر) حملہ کیا کرتے تھے اور فجر ہو جانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے (اس آبادی میں سے جس کا حملہ کر دیتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دشمن پر حملہ کے لیے جا رہے تھے تو ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو اللہ اکبر، اللہ اکبر کہتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ، یہ آدمی اسلام کے (طریقہ) پر ہے (کیونکہ اذان تو مسلمان ہی کہتا ہے) پھر اس آدمی نے کہ اشھدان لا الہ الا اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ تم شرک سے باز آ جانے کی وجہ سے دوزخ سے نکل گئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے (چاروں طرف دیکھ کر معلوم کرنا چاہا کہ اذان دینے والا کون ہے تو) دیکھا کہ وہ تو بکریاں چرانے والا ایک آدمی ہے)۔
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تو اس بات کا خیال رکھتے کہ صبح کا وقت ہو، تاکہ اس بات کا اچھی طرح پتہ چل جائے کہ جس آبادی پر حملہ کیا جائے گا اس میں مسلمان ہیں یا کافر ہی کافر رہتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (فجر ہو جانے پر) اذان کا انتظار کیا کرتے تھے چنانچہ جس آبادی پر حملہ مقصود ہوتا اس میں سے اگر اذان کی آواز آ جاتی تو یہ جان کر کہ اس آبادی میں مسلمان ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم حملے سے باز رہتے تھے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس آبادی پر حملہ کر دیتے تھے۔ اذان کا انتظار آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لیے کرتے تھے کہ مبادا اس آبادی میں مسلمان ہوں اور ان جانے میں وہ اسلامی لشکر کی زد میں آ جائیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذان کے ہونے اور نہ ہونے کو ایمان اور کفر کی علامت سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے روایت فقیہہ میں آتا ہے کہ جو لوگ اذان کو ترک کر دیں گے تو باوجودیکہ اذان سنت ہے ایسے لوگ مستحق قتال ہوں گے کیونکہ اذان اسلامی شعار میں سے ہے۔
٭٭ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ، جو آدمی مؤذن (کی اذان) کو سن کر یہ کہے کہ، اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ وَحْدَہُ لَا شَرَیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ رَضِیْتُ بِاﷲ رَبّاً وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً وَ بِا لَّاسْلَامِ دِیْناً میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی شریک ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے ، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں تو اس کے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس میں اختیار ہے کہ ان کلمات کو یا تو اس وقت پڑھا جائے جب مؤذن اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے یا اذان ختم ہو جانے کے بعد پڑھے۔ مناسب تو یہی ہے کہ اذان ختم ہونے کے بعد یہ کلمات پڑھے جائیں تاکہ اذان کے دوسرے کلمات کے جواب ترک نہ ہوں۔ اور ظاہر تو یہ ہے کہ مذکورہ ثواب اسی وقت ملے گا جبکہ اذان کے کلمات کا جواب دے کر بعد میں ان کلمات کو پڑھا گا۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے ، ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے اور پھر تیسری دفعہ میں یہ فرمایا کہ (یہ نماز) اس آدمی کے لیے ہے جو پڑھنا چاہئے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
دو اذانوں سے مراد اذان و تکبیر ہیں یعنی اذان اور تکبیر کے درمیان نماز پڑھنی فلاح و سعادت کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اذان و تکبیر کے درمیان نوافل پڑھنے کی رغبت دلانے کے لیے یہ جملہ مکرر سہ مکرر فرمایا کیونکہ اذان و تکبیر کے درمیان کا وقت بہت زیادہ با برکت اور فضیلت کا حامل ہوتا ہے اس لیے اس وقت نماز پڑھ کر جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بارگاہ احدیت سے رد نہیں کی جاتی ہے بلکہ قبولیت کا درجہ پاتی ہے اور پھر یہ کہ بابر کت اور با فضیلت وقت میں عبادت کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حاصل یہ کہ اذان و تکبیر کے درمیان میں نماز پڑھنی سنت ہے مگر آپ نے لمن شاء فرما کر اس طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ اس وقت نماز پڑھنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک مغرب میں اذان و تکبیر کے درمیان نفل پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ حضرت بریرہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مغرب کے علاوہ (بقیہ اوقات میں) دونوں اذانوں (یعنی اذان و تکبیر) کے درمیان دو دو رکعتیں (نماز) ہیں۔
٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا فرمائی) اے اللہ ! اماموں کی ہدایت دے (یعنی ان کو نیک علم، صالح علم اور صلاح و تقویٰ کی توفیق دے) اور مؤذنوں (سے اگر اذان کہنے میں کمی و زیادتی ہو جائے تو ان) کو بخش دے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی) اور امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دوسری روایت مصابیح کے ہم لفظ نقل کی ہے۔
تشریح
ضامن کا مطلب یہ ہے کہ امام دوسروں کی نماز کا ذمہ دار ہوتا ہے بایں طور پر کہ وہ مقتدیوں کے امور نماز مثلاً قرأت کا اور اگر مقتدی رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے تو قیام وغیرہ کا متکفل ہوتا ہے اسی طرح وہ سب کی نمازوں کے افعال و ارکان نیز رکعتوں کی تعداد پر نگاہ رکھتا ہے۔ مؤذنوں کے امانت دار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کے سلسلے میں اذان کی آوازوں پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہیں۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی (مزدوری و اجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کے لیے سات سال تک اذان دے تو اس کے لیے دوزخ سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
٭٭اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لیے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے۔ چنانچہ اللہ بزرگ و برتر (ملائکہ اور ارواح مقربین سے) فرماتا ہے۔ میرے اس بندے کی طرف دیکھو وہ اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے ، چنانچہ میں نے بھی اس بندے کے گناہ بخش دیے ہیں اور میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ (ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
یعنی وہ چرواہا جو لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اور دنیا کے علائق سے دست بردار ہو کر پہاڑ کی چوٹی پر بسیرا کئے ہوئے ہے جب نماز کا وقت آتا ہے تو اذان کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کا نام بلند کرتا ہے اور پابندی سے نماز ادا کر کے اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔
ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اذان دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کی اذان کے ذریعے ملائکہ اور جنات نماز کے وقت سے مطلع ہو جاتے ہیں، نیز یہ کہ اس کی اذان مخلوقات میں سے جو چیز بھی سنتی ہے قیامت کے روز اس کے ایمان کی گواہی دے گی اور سنت کی اتباع ہوتی ہے اور جماعت کے معاملے میں اسے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔
اذان سے اعلام عام یعنی اذان و تکبیر دونوں مراد ہیں۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسا آدمی جب اذان و تکبیر کہتا ہے تو ملائکہ اس کے ہمراہ نماز میں شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اسے جماعت کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ وا اللہ اعلم۔
مجھ سے ڈرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بندے کی عبادت کا مقصد نمائش و ریا نہیں ہے بلکہ وہ میرے عذاب سے چونکہ ڈرتا ہے اس لیے اذان بھی کہتا ہے اور نماز بھی پڑھتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اکیلے آدمی کو بھی اذان و تکبیر کہنا مستحب ہے۔
٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قیامت کے روز تین آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ (پہلا) وہ غلام جس نے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کر کے اپنے آقا کے حقوق بھی اداء کئے اور (دوسرا) وہ آدمی جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں اور (تیسرا) وہ آدمی جو رات دن(یعنی ہمیشہ) پانچوں وقت کے نماز کے لیے اذان کہتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
عبد سے مراد مملوک ہے خواہ غلام ہو یا لونڈی، امام سے لوگوں کو خوش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام سے اس وجہ سے مطمئن و راضی ہوتے ہیں کہ وہ نماز کے احکام و ارکان اور سنن و آداب کی پوری پوری رعایت کرتا ہے۔ اور قرأت اصول و قواعد کے مطابق نیز عمدہ آواز کے ساتھ کرتا ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں اعتبار اکثر لوگوں کا ہو گا جو کہ صاحب علم و فراست ہوں۔
بہر حال قیامت کے روز ان تینوں کو مشک کے ٹیلے اس لیے ملیں گے کہ یہ لوگ دنیا میں خواہشات نفسانی کی لذتوں کو اطاعت الہٰی اور فرمانبرداری رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سختیوں پر قربان کر دیں گے اس لیے پروردگار عالم اس کے صلہ میں انہیں خوشبو کی صورت میں عظیم انعام عطا فرمائے گا تاکہ دوسرے لوگوں پر ان کی عظمت و بزرگی ظاہر ہو سکے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اذان دینے والے کی بخشش اس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اس کے ایمان کے گواہ ہو جاتے ہیں۔ پچیس نمازوں کا ثواب (اس کے زائد اعمال میں) لکھا جاتا ہے اور نمازوں کے درمیان اس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور نسائی نے اس روایت کو کل رطب و یابس تک نقل کیا ہے ، اور یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ وَلَہُ مِثْلُ اَجْرٍ مَنْ صَلّٰی یعنی اور اسے نماز پڑھنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
تشریح
آواز کی انتہا کے مطابق بخشش کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن اذان کہتے وقت جس قدر آواز بلند کرتا ہے اس کی مغفرت اسی قدر ہوتی ہے اور اگر وہ آواز کو انتہائی درجے تک پہنچا دیتا ہے یعنی اس کی جتنی طاقت ہوتی ہے اتنی ہی آواز بلند کرتا ہے تو مغفرت بھی پوری ہی پاتا ہے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اگر گناہ کا جسم فرض کیا جائے اور وہ اتنے ہوں کہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے وہاں تک سما جائیں تو اس کے وہ سب گناہ بخشش دیے جاتے ہیں۔
رطب (تر) سے مراد وہ مخلوق ہیں جن میں نمو ہوتا ہے جیسے انسان اور نباتات وغیرہ اور یا بس (خشک) سے جمادات یعنی پتھر اور مٹی وغیرہ مراد ہیں۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ لفظ وَشَاھِدُ الصَّلٰوۃَ لفظ اَلْمُؤَذِنُ پر عطف کیا گیا ہے اس طرح پورے جملہ کے معنی یہ ہوں گے مغفرت کی جاتی ہے مؤذن کی اور ان لوگوں کی جو جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔
مگر ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ اس کا عطف کل رطب پر ہے اور اسے عطف خاص علیٰ عام کہا جاتا ہے یکتب لہ اور عنہ کی ضمیر یا تو شَاھِدُ کی طرف راجع ہے یا پھر مؤذن کی طرف راجع ہو گی۔
حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ مؤذن نمازیوں کا سا ثواب پاتا ہے کیونکہ یہ ان کو نماز کی طرف بلاتا ہے اور حدیث میں وارد ہے کہ جو آدمی بھلی بات کا باعث ہوتا ہے اسے اس بھلائی کے کرنے والے کی مانند ثواب ملتا ہے۔
٭٭اور حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم ان کے امام ہو (یعنی میں نے تمہیں تمہاری قوم کا امام مقرر کر دیا مگر یہ یاد رکھو کہ نماز پڑھانے میں) تم ان میں سے بہت زیادہ ضعیف و ناتواں کی اقتداء کرنا اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان کہنے کی مزدوری نہ لے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)
تشریح
ضعیفوں کی اقتداء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امامت میں ضعیف و کمزور لوگوں کی رعایت کی جائے یعنی قرأت اتنی لمبی نہ کی جائے اور ارکان نماز اس طرح ادا نہ کئے جائیں کہ لوگ تنگ و پریشان ہو جائیں اور جماعت سے نماز پڑھنا چھوڑ دیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام اور مؤذن کے لیے نماز پڑھانے اور اذان دینے کی اجرت حلال نہیں ہے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اذان اقامت اور تعلیم قرآن کے سلسلہ میں معاوضہ لینا جائز نہیں ہے۔ مگر علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر امام اور مؤذن بطور خود اپنی اجرت مقرر نہ کرائیں بلکہ لوگ ان کے پاس ان کی حاجت کے مطابق روپیہ پیسہ از خود بھیج دیا کریں تو یہ جائز و حلال ہو گا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ امام و مؤذن کی خبر گیری کریں اور ان کے پاس از خود اتنا روپیہ اور مال بھجوا دیا کریں جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ فتاوی قاضی خاں میں مرقوم ہے کہ جو مؤذن اوقات نماز وغیرہ کے سلسلہ میں علم نہیں رکھتا اسے اذان کہنے کا ثواب نہیں ملتا، اس لیے جو مؤذن اجرت لے گا اسے تو بطریق اولیٰ ثواب نہیں ملے گا۔
٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے سکھلایا تھا کہ میں مغرب کی اذان کے وقت یہ دعا پڑھ لیا کروں اَللَّھُمَّ ھَذَا اِقْبَالُ لَیْلِکَ وَاِدْبَارِ نَھَا رِکَ َواَصْوَاتُ دُعَا ئِکَ فَاغْفِرْلِیْ اے اللہ ! یہ وقت ہے تیری رات کے آنے کا اور تیرے دن کے واپس جانے کا اور تیرے پکارنے والوں (یعنی مؤذنوں) کی آوازوں کا!لہٰذا تو میری مغفرت فرما۔ (ابوداؤد، بیہقی)
تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا یا تو اذان کا جواب دینے کے دوران پڑھ لی جائے یا پھر جواب سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اذان کا وقت بارگاہ احدیت میں دعاء کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اس لیے ایسے وقت اپنے گناہوں کی معافی اور خیر و بھلائی کے راستہ پر چلنے کی توفیق کی زیادہ سے زیادہ دعا مانگنی چاہئے تاکہ قبولیت کے مرتبے کو پہنچ سکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص زمین کے ایک حصے جنگل میں کھڑا تھا کہ اس نے ابر میں سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر پھر وہ ابر ایک طرف چلا اور ایک جگہ پتھریلی زمین پر پانی برسانے لگا۔ اور وہ تمام پانی ان نالیوں میں سے کہ جو اس زمین میں تھیں ایک نالی میں جمع ہونے لگا پھر وہ پانی اس نالی کے ذریعے ایک طرف بہنے لگا تو وہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ تاکہ یہ دیکھے کہ جس شخص کے باغ میں یہ پانی جا رہا ہے وہ کون ہے؟ ناگہاں اس شخص نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے کھیت میں کھڑا بیلچہ کے ذریعے اس پانی کو باغ کے درختوں میں پھیلا رہا تھا اس شخص نے باغ والے سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے تمہارا کیا نام ہے؟؟ اس نے کہا کہ میرا فلاں نام ہے اور اس نے وہی نام بتایا جو اس ابر میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے پوچھا کہ بندہ خدا تم میرا نام کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا کہ میں اس لیے پوچھ رہا ہوں جس ابر کا یہ پانی ہے اس ابر میں میں نے ایک آواز سنی کہ کوئی کہنے والا اس ابر سے یہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کر اور وہ نام تمہارا ہی تھا اور اب مجھے یہ بتاؤ کہ تم اس باغ میں کیا بھلائی کرتے ہو جس کی وجہ سے تم اس فضیلت اور بزرگی سے نوازے گئے ہو باغ والے نے کہا کہ چونکہ اس وقت تم پوچھ رہے ہو اس لیے میں بھی تم سے بتائے دیتا ہوں کہ اس باغ کی جو کچھ پیدا وار ہوتی ہے پہلے میں اسے دیکھتا ہوں پھر اس میں سے ایک تہائی تو خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہوں۔ ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔ (مسلم)
تشریح
اگرچہ ابر کی آواز نے باغ والے کا نام صراحۃً لیا تھا جیسا کہ بعد میں ذکر بھی کیا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ قصہ سناتے ہوئے ابتدا میں اس کا صراحۃً نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں سے اس کے نام کو کنایۃً ذکر کیا۔
اسی طرح ابر کی آواز سننے والے شخص نے بھی ابر میں باغ والے کا نام صراحۃً سنا تھا مگر پھر اس نے باغ والے سے اس کا نام اس لیے پوچھا تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ واقعی یہ وہی شخص ہے جس کا نام ابر کی آواز نے لیا تھا۔ نیز جب باغ والے نے اس سے اپنا نام دریافت کرنے کا سبب پوچھا تو اس ابر کی آواز کی نقل کرتے ہوئے بھی اس کا نام نہیں لیا بلکہ لفظ فلاں کہا گویا اس نے ظاہر کیا کہ اگرچہ ابر کی آواز نے تمہارا نام صراحۃً لیا تھا مگر میں اس وقت تمہارے متعین نام کی بجائے لفظ فلاں ذکر کر رہا ہوں حاصل یہ کہ ہاتف غیبی نے باغ والے کا نام صراحۃً ذکر کیا تھا مگر سامع نے اس کے نام کو لفظ فلاں سے کنایۃً تعبیر کیا اور اسے بتا دیا کہ تمہارا نام میں نے سنا تھا۔ مگر اس کو لفظ فلاں سے تعبیر کیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ان میں ایک تو کوڑھی تھا دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانا چاہا کہ یہ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس ایک فرشتہ مسکین و فقیر کی صورت میں بھیجا وہ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ کوڑھی نے کہا کہ اچھا رنگ اور جسم کی بہترین جلد نیز یہ کہ مجھے اس چیز یعنی کوڑھ سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ یہ سن کر فرشتہ نے کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرا چنانچہ اس کا کوڑھ جاتا رہا۔ اسے بہترین رنگ و روپ اور بہترین جلد عطا کر دی گئی۔ پھر فرشتہ نے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ اونٹ یا کہا گائیں۔ (حدیث کے ایک راوی اسحٰق کو شک ہے کہ) گائے کے لیے کوڑھی نے کہا تھا یا گنجے نے کہا تھا بہرحال یہ طے ہے کہ ان میں سے ایک نے تو اونٹ کے لیے کہا تھا اور دوسرے نے گائے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اس شخص کو حاملہ اونٹنیاں عطا کر دی گئیں پھر فرشتے نے یہ دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر فرشتہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ گنجے نے کہا کہ بہترین قسم کے بال ، اور یہ کہ یہ چیز یعنی گنجے پن سے نجات پا جاؤں جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا گنج جاتا رہا نیز اسے بہترین قسم کے بال عطا کر دئیے گئے۔ پھر فرشتہ نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کونسا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس شخص نے کہا کہ گائیں چنانچہ اسے حاملہ گائیں عطا کر دی گئیں اور فرشتہ نے اسے دعا بھی دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اس مال میں برکت عطا فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ اس کے بعد پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اندھے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے میری بینائی دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فرشتہ نے اس اس پر ہاتھ پھیرا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس کی بینائی عطا فرما دی ، پھر فرشتے نے اس سے پوچھا کہ اب تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں چنانچہ اسے بہت سی بچے دینے والی بکریاں عنایت فرما دی گئیں اس کے کچھ عرصے کے بعد کوڑھی اور گنجے نے اونٹنیوں اور گائیوں کے ذریعے اور اندھے نے بکریوں کے ذریعے بچے حاصل کیے گویا خدا نے تینوں کے مال میں بے انتہا برکت دی یہاں تک کہ کوڑھی کے اونٹوں سے ایک جنگل بھر گیا گنجے کی گایوں سے ایک جنگل بھر گیا، اور اندھے کی بکریوں سے ایک جنگل بھر گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے بعد فرشتہ پھر کوڑھی کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا۔ اور اس سے کہنے لگا کہ میں ایک مسکین شخص ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے اس لیے آج منزل مقصود تک میرا پہنچنا ممکن نہیں ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ تو میری یہ مشکل آسان ہو جائے گی لہذا میں تم سے اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ، بہترین جلد اور مال عطا کیا ہے ایک اونٹ مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میرا سفر پورا ہو جائے اور میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں اس کوڑھی نے کہا کہ میرے اوپر حق بہت زیادہ ہیں (یعنی اس کوڑھی نے فرشتے کو ٹالنے کے لیے جھوٹ کہا کہ میرے اس مال کے حقدار بہت ہیں اس لیے تمہیں کوئی اونٹ نہیں مل سکتا) فرشتے نے کہا کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں کیا تم وہی کوڑھی نہیں ہو جس سے لوگوں کو گھن آتی تھی اور تم محتاج و قلاش تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین رنگ و روپ کے ساتھ صحت عطا فرمائی اور مال سے نوازا کوڑھی نے کہا کہ یہ بات نہیں ہے بلکہ یہ مال تو مجھے اپنے باپ دادا کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ تم جھوٹے ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف پھیر دے جس میں تم پہلے مبتلا تھے یعنی تمہیں پھر کوڑھی اور مفلس بنا دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ پھر فرشتہ گنجے کے پاس اپنی پہلی سی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی وہی کہا جو اس نے کوڑھی سے کہا تھا چنانچہ گنجے نے بھی وہی جواب دیا جو جواب کوڑھی نے دیا تھا فرشتے نے گنجے سے بھی یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو خدا تمہیں ویسا ہی کر دے جیسا کہ تم پہلے گنجے اور محتاج تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس اپنی اسی پہلی شکل و صورت میں آیا اور اس سے بھی یہی کہا کہ میں ایک مسکین انسان اور مسافر ہوں میرا تمام سامان سفر کے دوران جاتا رہا ہے۔ اس لیے آج منزل مقصود تک پہنچنا اس شکل میں ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی میرے شامل حال ہو جائے اور اس کے بعد تم اس کا ذریعہ بن جاؤ لہٰذا میں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہاری بینائی واپس کر دی تم سے ایک بکری مانگتا ہوں تاکہ اس کے ذریعے میں اپنا سفر پورا کر سکوں اندھے نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ کہا کہ بے شک پہلے میں ایک اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میری بینائی واپس کر دی ہے لہٰذا میری تمام بکریاں حاضر ہیں اس میں تم جو چاہو لے لو اور جو نہ چاہو اسے چھوڑ دو تم جو کچھ بھی لو گے میں خدا کی قسم تمہیں اس کو واپس کرنے کی تکلیف نہیں دوں گا۔ یہ سن کر فرشتے نے کہا کہ تمہیں تمہارا مال مبارک تم اپنا مال اپنے پاس رکھو مجھے تمہارے مال کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت تو صرف تمہیں آزمائش میں مبتلا کیا گیا تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا امتحان لیا تھا کہ آیا تمہیں اپنا پرانا حال یاد بھی ہے یا نہیں؟ اور تم خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہو یا نہیں؟ سو تم آزمائش میں پورے اترے چنانچہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور خوش ہوا اور تمہارے وہ دونوں بدبخت ساتھی یعنی کوڑھی اور گنجا ناشکرے ثابت ہوئے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض قرار پائے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اللہ تعالیٰ کی عنایت و مہربانی ہو جائے اور اس کے بعد تم ذریعہ بن جاؤ علماء کہتے ہیں کہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کے موقع پر یہ اسلوب اختیار کرنا جائز ہے کیونکہ اس طرح اصل سوال تو اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ مگر بندہ کو اس کا ذریعہ اور سبب بنایا جاتا ہے ایسا اسلوب اختیار کرنا کہ جس میں خدا کے ساتھ بندہ بھی حاجت روائی کا درجہ پا جائے مثلاً یوں کہا جائے کہ میں خدا سے اور تم سے سوال کرتا ہوں ، قطعاً درست نہیں ہے۔
حضرت ام مجید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! جب کوئی سائل میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتی جو اس کے ساتھ میں دے دو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ دے دو خواہ وہ جلا ہوا گھر ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد، ابوداؤد ، ترمذی) اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صدقہ و خیرات کے بارے میں یہ حکم گویا بطور مبالغہ ارشاد فرمایا کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس کرنے سے بہتر ہے کہ اس کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے خواہ وہ کتنی حقیر اور کم تر چیز کیوں نہ ہو۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پکے ہوئے گوشت کا ٹکڑا تحفہ کے طور پر آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گوشت بہت مرغوب تھا۔ اس لیے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی لونڈی سے فرمایا۔ کہ اس گوشت کو گھر میں حفاظت سے رکھ دو شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے تناول فرمائیں چنانچہ لونڈی نے وہ گوشت گھر کے ایک طاق میں رکھ دیا اتفاق اسی وقت ایک سائل نے دروازے پر کھڑے ہو کر صدا بلند کی کہ اے گھر والو خدا کی راہ میں کچھ عنایت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گھر والوں نے کہا اللہ تمہیں برکت دے یعنی سائل کو جواب دیا جیسا کہ ہمارے یہاں جب کسی سائل کو کچھ دینا نہیں ہوتا تو کہہ دیتے ہیں کہ بابا معاف کرو سائل واپس چلا گیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف لے گائے تو فرمایا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا تمہارے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز بھی ہے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہاں ! پھر انہوں نے لونڈی سے کہا جاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے وہ گوشت لے آؤ لونڈی گوشت لانے چلی گئی مگر طاق کے پاس پہنچ کر اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وہاں گوشت کا کہیں نام نہیں تھا۔ بلکہ گوشت کی جگہ سفید پتھر کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ تم نے سائل کو کچھ نہ دیا اور اسے خالی ہاتھ واپس کر دیا اس لیے یہ گوشت سفید پتھر کی شکل اختیار کر گیا۔ بیہقی نے اس روایت کو دلائل النبوۃ میں نقل کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ بتلاؤں کہ خدا کے نزدیک بااعتبار مرتبہ کے بدترین شخص کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جس سے خدا کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ اس سوال کو پورا نہ کرے۔ (احمد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ کوئی سائل کسی شخص سے خدا کے واسطے سے بایں طور سوال کرے کہ خدا کے نام پر مجھے کچھ عطا کرو اور اس کے باوجود وہ شخص سائل کو کچھ نہ دے تو وہ خدا کے نزدیک تمام لوگوں میں بااعتبار مرتبہ کے برا ہے ہاں اگر سائل مستحق نہ ہو یا سائل نے جس شخص سے سوال کیا اس کے پاس اس کی اپنی حاجت و ضرورت اور اس کے اہل و عیال کی ضرورت و حاجت سے زائد مال نہ ہو تو پھر اس سائل کا سوال پورا نہ کرنے کی صورت میں نہ تو وہ گنہگار ہو گا اور نہ وہ اس حدیث کے مطابق قابل مذمت اور گنہگار ہو گا جب کہ سائل اس کے مال کا مستحق ہو نیز یہ کہ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی ضروریات سے زائد ہو۔
حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے حاضری کی اجازت چاہی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دی جب وہ حاضر ہوئے تو اس وقت ان کے ہاتھ میں عصا تھا اسی موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے جو اس وقت وہاں موجود تھے فرمایا کہ کعب! کیا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا اور انہوں نے اپنے پیچھے بہت زیادہ مال چھوڑا ہے آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آیا ان کے مال کی بے انتہا کثرت و زیادتی ان کے کمال ایمان کے لیے مضرت تھی یا نہیں؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق یعنی زکوٰۃ صدقات وغیرہ ادا کرتے تھے تو ان کے بارے میں کسی خوف کی گنجائش نہیں یہ سنتے ہی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا عصا اٹھا کر حضرت کعب کو مارا اور کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر میرے پاس سونے کا یہ پہاڑ احد ہو اور میں اسے خدا کی راہ میں خرچ کروں تو باوجودیکہ وہ مقبول بھی ہو جائے میں اسے پسند نہیں کروں گا کہ میں اس چھ اوقیہ یعنی دو سو چالیس درہم بھی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔ پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم نے یہ ارشاد گرامی نہیں سنا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ تین مرتبہ فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں میں نے بھی یہ ارشاد گرامی سنا ہے۔ (احمد)
تشریح
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ صحابہ کی ایک جماعت میں سے تھے جس کا فقر و زہد امتیازی شان رکھتا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی فقر و زہد اور استغنا کے بارے میں پوری امت میں ایک مثالی حیثیت رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ رجحان و نظریہ تھا کہ اپنے پاس مال و زر کا ادنیٰ ترین حصہ بھی جمع نہ کیا جائے بلکہ جو کچھ بھی اپنے قبضے و قدرت میں آئے سب خدا کی راہ میں خرچ کر دیا جائے چنانچہ اس موقع پر بھی ان کا یہ جذبہ ان پر غالب آ گیا اور جب انہوں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے اپنے مزاج اور رجحان کے خلاف بات سنی تو انہیں مار بیٹھے۔
اس بارے میں جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے وہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جمہور علماء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر مال کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے تو اس کو جمع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے خواہ وہ مال کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی میں جملہ و یتقبل منیٰ بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اتنا زیادہ مال و زر خدا کی راہ میں خرچ کروں اس کے باوجود بھی کاش کہ قبول ہو جائے۔
لفظ اذر حذف ان کے ساتھ احب کا مفعول ہے گویا اس پورے جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر خدا اتنا زیادہ مال عطا فرما دے اور میں اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دو اور پھر وہ بارگاہ الوہیت میں قبول بھی ہو جائے تو جب بھی میں یہ گوارا نہیں کروں گا کہ اس مال میں سے کم از کم چھ اوقیہ ہی اپنے پیچھے چھوڑ جاؤں۔
حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیر چکے تو بڑی سرعت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی ازواج مطہرات کے بعض حجروں کی طرف چلے گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجرے سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کو اپنی سرعت پر متعجب دیکھا تو فرمایا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کی ایک چیز موجود ہے اور میں نے اسے ناپسند کیا کہ وہ مجھے مقام قرب سے روکے لہٰذا فوراً جا کر اہل بیت کو میں نے حکم دیا کہ سونے کی وہ چیز تقسیم کر دی جائے۔ (بخاری)
اور بخاری کی ہی ایک دوسری روایت میں الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں زکوٰۃ میں آیا ہوا سونے کا ایک ڈلا گھر میں چھوڑ آیا تھا جو تقسیم کرنے کے بعد بچ گیا تھا لہٰذا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ میں اسے ایک رات کے لیے بھی اپنے پاس رکھوں۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ما سو اللہ کی طرف التفات کرنا ان بندگان خدا کو بھی کہ جو مقربین بارگاہ الوہیت ہوتے ہیں مقام قرب سے باز رکھتا ہے یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی امت کے لیے بطور تعلیم و تنبیہ ہے کہ دنیا اور دنیا کی چیزوں کی رغبت اور خواہش نہیں ہونی چاہئے۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کے دوران میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی (عرب میں اس وقت رائج) چھ یا سات اشرفیاں تھیں لہٰذا آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری نے ان کو تقسیم کرنے سے باز رکھا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کی وجہ سے مجھے ان کو تقسیم کرنے کی مہلت ہی نہیں ملی) چنانچہ مجھ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر دریافت فرمایا کہ ان چھ یا سات اشرفیوں کا کیا ہوا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (کہتی ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ میں انہیں ابھی تقسیم نہیں کیا ہے۔ خدا کی قسم آپ کی بیماری نے مجھے اسے تقسیم کرنے سے باز رکھا ہے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان اشرفیوں کو منگوایا اور انہیں اپنے اپنے ہاتھوں پر رکھ کر فرمایا کہ کیا یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کا نبی اللہ عز و جل سے اس حال میں ملاقات کرے کہ یہ اشرفیاں اس کے پاس ہوں۔ (احمد)
تشریح
حدیث کے الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مقام نبوت کے منافی ہے کہ خدا کا نبی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے ملے تو اس کے گھر میں موجود مال و زر موجود ہو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس انداز سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنبیہ فرمائی کہ ان اشرفیوں کا گھر میں پڑے رہنا مجھے قطعی پسند نہیں ہے انہیں فوراً تقسیم کر دو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ ان کے نزدیک کھجوروں کا ڈھیر پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ بلال! یہ کیا ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ چیز ہے جسے میں نے کل (یعنی آئندہ پیش آنے والی اپنی ضرورت) کے لیے جمع کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کل قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں تم اس کا بخار دیکھو (پھر فرمایا) بلال اس ذخیرہ کو (خدا کی راہ) میں خرچ کر دو اور صاحب عرش سے فقر و افلاس کا خوف نہ کرو۔
تشریح
ارشاد گرامی اما تخشی ان تری لہ غدا الخ میں غد (کل) سے مراد قیامت کا دن ہے لہٰذا کہا جائے گا کہ اس جملے میں یوم القیامۃ کے الفاظ عند کی تاکید کے طور پر ارشاد فرمائے گئے ہیں بخار سے مراد اثر ہے مطلب یہ ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ قیامت کے دن اس کے سبب دوزخ کی آگ کا اثر تمہیں پہنچے ، گویا یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی دوزخ سے قریب ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اگر تم خدا پر توکل نہیں کرو گے اور فقر و افلاس کے خوف سے ذخیرہ اندوزی کرو گے تو اس کی وجہ سے دوزخ کے قریب ہو جاؤ گے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی نہ کرو۔ بلکہ جو جمع کیا ہے اسے خدا کے نام پر خرچ کر ڈالو، فقر و افلاس کا خوف نہ کرو بلکہ خدا پر اعتماد اور بھروسہ رکھ کیونکہ جس قادر مطلق نے عرش عظیم کو پیدا کیا ہے اور تمہاری تخلیق کی ہے وہی تمہیں روزی بھی پہنچائے گا۔
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال کو یہ حکم بطور تعلیم دیا کہ مقام کمال حاصل کرو جو توکل اور ذات حق پر کامل اعتماد ہے ورنہ تو جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے علماء لکھتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر ذخیرہ کرنا جائز ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سخاوت بہشت میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص سخی ہو گا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چنانچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک کہ اسے بہشت میں داخل نہ کرا دے (اگرچہ وہ آخر الامر ہو) اسی طرح بخل دوزخ میں ایک درخت ہے لہٰذا جو شخص بخیل ہو گا وہ اس کی ٹہنی پکڑ لے گا چنانچہ وہ ٹہنی اسے نہیں چھوڑے گی یہاں تک اسے دوزخ میں داخل نہ کرا دے۔ یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ سخاوت درخت کی مانند ہے گویا اس وصف کو درخت کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے کہ جس طرح درخت بڑا ہوتا ہے اور اس کی کتنی ہی شاخیں اور ٹہنیاں ہوتی ہیں اسی طرح سخاوت بھی ایک وصف عظیم ہے جس کی بہت زیادہ شاخیں اور قسمیں ہیں
وہ اس کی ٹہنی کو پکڑ لے گا کا مطلب یہ ہے کہ سخاوت کی جو قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم کو پکڑ لے گا۔