شریعت میں استبراء کا مطلب ہے لونڈی کے رحم کی حمل سے پاکی صفائی طلب کرنا اس کی فقہی تفصیل یہ ہے کہ جب کسی شخص کی ملکیت میں کوئی لونڈی آئے خواہ اس نے اس کو خریدا ہو یا کسی وصیت میں ملی ہو، یا کسی نے ہبہ کی ہو اور یا میراث میں ملی ہو تو اس شخص کو اس لونڈی سے اس وقت تک جماع کرنا یا مساس کرنا اور یا بوسہ لینا وغیرہ حرام ہے جب تک کہ استبراء نہ کر لے یعنی اس کے قبضہ میں آنے کے بعد ایک حیض نہ آ جائے اگر اس کو حیض آتا ہو یا نہ آنے کی صورت میں اس پر ایک مہینہ کی مدت نہ گزر جائے اور یا حاملہ ہونے کی صورت میں ولادت نہ ہو جائے اور یہ استبراء ہر حال میں کرنا ضروری ہے خواہ وہ باکرہ ہی کیوں نہ ہو یا اس کو کسی عورت نے کیوں نہ خریدا ہو یا وہ کسی محرم یا اپنے نابالغ بچہ کے مال سے بذریعہ وراثت وغیرہ کیوں نہ حاصل ہوئی ہو اگرچہ ان صورتوں میں قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ استبراء واجب نہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ استبراء میں حکمت یہ ہے کہ اس طریقہ سے اس کے رحم کا کسی غیر کے نطفہ سے پاک و نامعلوم ہو جائے تا کہ اس کے نطفہ کا کسی غیر کے نطفہ کے ساتھ اختلاط نہ ہو اور ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں کسی غیر کے نطفہ کا کوئی احتمال نہیں ہے لیکن چونکہ یہ صریح نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اوطاس کے غزوہ کے موقع پر حاصل ہونے والی لونڈیوں کے بارے میں فرمایا کہ خبردار حاملہ لونڈی سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب کہ اس کے ولادت نہ ہو جائے اور غیر حاملہ سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آ جائے اور ظاہر ہے کہ ان لونڈیوں میں باکرہ بھی ہوں گی اور ایسی لونڈیاں بھی ہوں گی جو باکرہ کی نطفہ کے اختلاط کا احتمال نہیں رکھتی ہوں گی اس لئے قیاس کو نظر انداز کر کے ان صورتوں میں بھی استبراء کو واجب قرار دیا ہے۔
استبراء کے بغیرلونڈی سے جماع کرنے والا لعنت کا مستحق ہے
حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک عورت کے قریب سے گزرے جس کے جلد ہی ولادت ہونے والی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا کہ یہ کوئی آزاد عورت ہے یا لونڈی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ فلاں شخص کی لونڈی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا وہ شخص اس سے صحبت کرتا ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے ارادہ کیا کہ اس شخص پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ قبر میں بھی جائے یعنی ایسی لعنت جو ہمیشہ رہے بایں طور کہ اس کا اثر اس کے مرنے کے بعد باقی رہے وہ کس طرح اپنے بیٹے سے خدمت کو کہے گا جب کہ بیٹے سے خدمت کے لیے کہنا یا اس کو غلام بنانا حلال نہیں ہے یا اس کو کس طرح اپنا وارث قرار دے گا جب کہ غیر کے بیٹے کو اپنا وارث بنانا حلال نہیں ہے (مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر لعنت کا ارادہ اس لئے فرمایا کہ جب اس نے ایک لونڈی سے جماع کیا جو حالت حمل میں اس کی ملکیت میں آئی تو اس استبراء کو ترک کیا حالانکہ وہ فرض ہے وہ کس طرح اپنے بیٹے سے خدمت کو کہے گا الخ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ ترک استبراء پر لعنت کے سبب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی لونڈی سے بغیر استبراء کے صحبت کرے گا اور پھر اس سے بچہ پیدا ہو گا تو اس بچہ کے بارے میں یا یہ احتمال ہو گا کہ وہ اس شخص کے نطفہ سے جس کی ملکیت سے نکل کر یہ لونڈی بغیر استبراء کے صحبت کرنے والے کی ملکیت میں آئی ہے تو وہ اس صورت میں اگر وہ شخص کہ جس نے بغیر استبراء کے اس لونڈی سے جماع کیا ہے اس بچہ کے نسب کا اقرار کرے گا یعنی یہ کہے گا کہ یہ بچہ میرا ہے جب کہ حقیقت میں وہ اس کے نطفہ سے نہیں ہے تو وہ بچہ اس شخص کا وارث ہو گا لہذا اس طرح ایک دوسرے شخص کے بچہ کا اپنا وارث بنانا لازم آئے گا جو حرام ہے اور اس پر وہ لعنت کا مستحق ہو گا یا پھر یہ صورت ہو گی کہ وہ اس بچہ کے نسب سے انکار کر دے گا جب کہ اس احتمال کے مطابق حقیقت میں وہ بچہ اس کا بیٹا ہو گا لہذا اس طرح اپنے ہی بیٹے سے غلامی کرانا اور اپنا نسب منقطع کرنا لازم آئے گا اور یہ بھی لعنت کو مستحق کرنے والی صورت ہے لہذا ثابت ہوا کہ تحقیق حال کے لئے استبراء نہایت ضروری ہے۔
حضرت ابوسعید خدری نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ اوطاس میں گرفتار ہونے والی لونڈیوں کے بارے میں فرمایا کہ کسی حاملہ عورت سے اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کے ولادت نہ ہو جائے اور غیر حاملہ سے بھی اس وقت تک صحبت نہ کی جائے جب تک کہ اس کو ایک حیض نہ آ جائے (احمد ابوداؤد دارمی)
تشریح
اگر کسی غیر حاملہ کو اسکی کم عمری کی وجہ سے یا زیادہ عمر ہو جانے کے سبب سے حیض نہ آتا ہو تو اس کا استبراء یہ ہے کہ ایک مہینہ کی مدت تک اس کے پاس جانے سے اجتناب کرے جب ایک مہینہ گزر جائے تب اس سے جماع کر اس صورت کو اس حدیث میں اس لئے ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ یہ قلیل الوجود اور نادر ہے۔
لونڈی حیض کی حالت میں کسی کی ملکیت میں آئے تو استبراء میں اس حیض کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ دوسرے پورے حیض کا اعتبار کیا جائے گا۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ لونڈی کے لئے نئی ملکیت کا پیدا ہو جانا استبراء کو واجب کرتا ہے چنانچہ چاروں ائمہ کا یہی مسلک ہے نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دار الحرب سے کسی کافرہ کو بطور لونڈی کے پکڑ لانے سے اسکا پہلا نکاح ختم ہو جاتا ہے یعنی کفار سے جنگ وغیرہ کی صورت میں ان کی جو شادی شدہ عورتیں بطور لونڈی ہاتھ لگیں ان کے شوہروں سے ان کی زوجیت کا تعلق ختم ہو جائے گا) لیکن اس بارے میں حدیث کا ظاہر مفہوم مطلق ہے خواہ انکے خاوند بھی ان کے ساتھ نہ ہوں چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا مسلک یہی ہے جب کہ حضرت اما اعظم ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ پکڑ کر لائے جائیں تو اس صورت میں ان کا نکاح باقی رہتا ہے۔
اور حضرت رویفع ابن ثابت الانصاری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ حنین کے دن فرمایا کہ جو شخص خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسکے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے یعنی اس عورت سے جماع کرنا جو بطور باندی کے ہاتھ لگی ہے اور کسی دوسرے کے نطفہ سے حاملہ ہے جائز نہیں ہے اور جو شخص خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کفار سے جنگ میں گرفتار شدہ لونڈی سے اس وقت تک جماع کرے جب کہ ایک حیض آنے یا ایک مہینہ گزرنے کا انتظار کر کے اس کا استبراء نہ کر لے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ بھی درست نہیں ہے کہ وہ مال غنیمت کو بیچے جب تک وہ تقسیم نہ ہو جائے (یعنی مال غنیمت میں کسی قسم کا تصرف اور خیانت نہ کرے) ابوداؤد اور امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ زرع تک نقل کیا ہے۔
حضرت امام مالک کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک حیض کے ذریعہ لونڈیوں کے استبراء کا حکم فرماتے تھے بشرطیکہ ان لونڈیوں کو حیض آتا ہو اور اگر کوئی لونڈی ایسی ہوتی تھی جس کو حیض نہیں آتا تھا تو اس کے لئے تین مہینہ مدت کے ذریعہ استبراء کا حکم دیتے تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم جاری فرمایا تھا کہ جن لونڈیوں کو حیض آتا ہے ان سے ان کے نئے مالک اس وقت تک جماع نہ کریں جب تک تین مہینہ کی مدت نہ گزر جائے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر کو اپنا پانی پلانے سے منع کیا۔
تشریح
حدیث کے آخری جملہ میں حاملہ لونڈی کے استبراء کا حکم ہے کہ اگر کوئی لونڈی حمل کی حالت میں اپنی ملکیت میں آئے تو اس سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہو جائے تاکہ اس لونڈی کے رحم میں جو ایک دوسرے شخص کے نطفہ کا حمل ہے اس سے اپنے نطفہ و نسب کا اختلاط نہ ہو۔
غیر حائضہ لونڈی کے بارے میں جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ جس لونڈی کو حیض نہ آتا ہو اس کا استبراء یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس وقت جماع کیا جائے جب کہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اس پر پورا ایک یا اس سے زائد عرصہ گزر جائے اور بعض حضرات نے اس حدیث کے پیش نظر یہ کہا ہے کہ غیر حائضہ کا استبراء یہ ہے کہ اس سے اس وقت جماع کیا جائے جب کہ اپنی ملکیت میں آنے کے بعد اس پر تین مہینے یا اس سے زائد عرصہ گزر جائے۔
اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی لونڈی جس سے جماع کیا جاتا تھا ہبہ کی جائے یا فروخت کی جائے یا آزاد کی جائے تو اس کو چاہئے کہ ایک حیض کے ذریعہ اپنے رحم کو پاک صاف کرے البتہ باکرہ کنواری کو پاک صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ دونوں روایتیں رزین نے نقل کی ہیں۔
تشریح
اس حدیث پر ابن شریح نے عمل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ باکرہ لونڈی کے لئے استبراء واجب نہیں ہے جب کہ جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اس کے لئے بھی استبراء واجب ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ اوطاس میں گرفتار ہونے والی لونڈیوں کے بارے میں استبراء کا جو حکم دیا تھا وہ عام ہے اس میں باکرہ کا کوئی استثناء نہیں ہے۔
ام ولد کی عدت: صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ جس ام ولد کا آقا مر جائے یا اس کو اس کا آقا آزاد کرے تو اس کی عدت کی مدت تین حیض ہیں اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو اس کی مدت تین مہینے ہو گی۔
اور علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ وہ ام ولد نہ تو حاملہ ہو نہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہو اور نہ کسی کی عدت میں ہو چنانچہ اگر وہ حاملہ ہو گی تو پھر اس کی عدت تاوضع حمل ہو گی اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہو گی یا کسی کی عدت میں ہو گی تو چونکہ ان صورتوں میں اس مولی کے ساتھ اس کے جنسی اختلاط کا کوئی سوال ہی نہیں اس لئے آقا کے آزاد کر دینے کی وجہ سے یا آقا کے مر جانے کے سبب سے اس پر عدت واجب نہیں ہو گی یہ حنفیہ کا مسلک ہے اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ آقا کی طرف سے آزاد کئے جانے یا آقا کے مر جانے کی صورت میں ام ولد کی عدت ایک حیض ہے حنفیہ میں سے حضرت امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔