مشکوٰة شر یف

استغفار و توبہ کا بیان

استغفار و توبہ کا بیان

استغفار کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ سے اپنی بخشش چاہنا اور چونکہ استغفار کے ضمن میں جس طرح  توبہ  بھی آ جاتی ہے اسی طرح کبھی  توبہ  استغفار کے ضمن میں نہیں بھی آتی اس لئے باب کا عنوان قائم کرتے ہوئے بطور خاص والتوبۃ کا ذکر کیا گیا ہے یا پھر والتوبہ کو الگ سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ استغفار تو زبان سے متعلق ہے کہ بندہ اپنی زبان کے ذریعہ خدا سے بخشش و مغفرت مانگتا ہے جب کہ توبہ کا تعلق دل سے ہے کیونکہ کسی گناہ پر ندامت و شرمندگی اور پھر خدا کی طرف رجوع اور آئندہ اس گناہ میں ملوث نہ ہونے کا عہد دل ہی سے ہوتا ہے۔

  توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا گناہوں سے طاعت کی طرف، غفلت سے ذکر کی طرف اور غیبت سے حضور کی طرف۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کی بخشش کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کے گناہوں کو دنیا میں بھی ڈھانکے بایں طور کہ کسی کو اس کے گناہ کا علم نہ ہونے دے اور آخرت میں اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے بایں طور کہ اس کو ان گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ کرے۔

 سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ  توبہ کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ گناہ کو فراموش کر دینا یعنی توبہ کرنے کے بعد گناہ کی لذت کا احساس بھی دل سے اس طرح ختم ہو جائے گویا وہ جانتا ہی نہیں کہ گناہ کیا ہوتا ہے!!۔

 اور سہیل تستری سے پوچھا گیا کہ حضرت! توبہ کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ تم گناہوں کو فراموش نہ کرو یعنی گناہ کو بھول مت جاؤ تاکہ عذاب الٰہی کے خوف سے آئندہ کسی گناہ کی جرات نہ ہو۔

 اللہ تعالیٰ کے اس حکم آیت (توبوا الی اللہ جمیعا)۔ تم سب اللہ کی طرف رجوع کرو۔ کے مطابق استغفار یعنی طلب بخشش و مغفرت اور توبہ کرنا ہر بندہ پر واجب ہے کیونکہ کوئی بندہ بحسب اپنے حال و مرتبہ کے گناہ یا بھول چوک سے خالی نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے تمام گزشتہ گناہوں سے توبہ کرے۔ طلب بخشش و مغفرت کرے آئندہ تمام گناہوں سے بچتا رہے اور صبح و شام توبہ و استغفار کو اپنا معمول بنا لے تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کا کفارہ ہوتا رہے خواہ وہ گناہ قصداً کئے ہوں یا خطاء و سہواً سرزد ہوئے ہوں اور گناہوں کی نحوست کی وجہ سے طاعت کی توفیق سے محروم نہ رہے نیز گناہوں پر اصرار کی ظلمت دل کو پوری طرح گھیر کر خدا نخواستہ کفر و دوزخ تک نہ پہنچا دے۔

 توبہ کے صحیح اور قبول ہونے کے لئے چار باتیں ضروری ہیں اور شرط کے درجہ میں ہیں: ایک تو یہ کہ محض خدا کے عذاب کے خوف سے اور اس کے حکم کی تعظیم کے پیش نظر ہی توبہ کی جائے، درمیان میں توبہ کی کوئی اور غرض نہ ہو مثلاً لوگوں کی تعریف و مدح کا حصول اور ضعف و فقر کی وجہ، توبہ کی غرض میں داخل نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ گزشتہ گناہوں پر واقعی شرمندگی و ندامت ہو۔ تیسرے یہ کہ آئندہ ہر ظاہری و باطنی گناہ سے اجتناب کرے۔ اور چوتھے یہ کہ پختہ عہد اور عزم بالجزم کرے کہ آئندہ ہرگز کوئی گناہ نہیں کروں گا۔

 توبہ کی کیفیت اور اثر آئندہ گناہ کرنے کے عزم کا صحیح ہونا یہ ہے کہ توبہ کرنے والا اپنے بلوغ کی ابتداء سے توبہ کرنے کے وقت تک پورے عرصہ کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ اس سے کیا کیا گناہ سرزد ہوئے ہیں تاکہ ان میں سے ہر ایک گناہ کا تدارک کرے چنانچہ اگر اس عرصہ میں وہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر فرائض ترک ہوئے ہوں تو ان کی قضاء کرے اور اپنے اوقات کو نفل یا فرض کفایہ عبادتوں میں مصروف رکھ کر ان فرائض کو قضا کرنے میں سستی نہ کرے۔

 اسی طرح اس عرصہ میں اگر ممنوع حرام چیزوں کا ارتکاب کیا ہے مثلاً شراب پی ہے یا اور کوئی ممنوع و قبیح فعل کیا ہے۔ تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ان سے توبہ و استغفار کرے اور اس کے ساتھ ساتھ خدا کے نام پر غرباء و مساکین میں اپنا مال خرچ کرے اور صدقہ و خیرات کرتا رہے تاکہ اس کی توبہ باب قبولیت تک پہنچے اور حق تعالیٰ کی طرف سے اسے بخشش و مغفرت سے نوازا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر یقین رکھے کہ انشاء اللہ توبہ قبول ہو گی اور مغفرت کی جائے گی، چنانچہ خود حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ آیت (ھوالذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ویعفوا عن السیأت)۔ وہ ایسا رحیم و کریم ہے کہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرتا ہے۔

 یہ تو اس توبہ کی بات تھی جو ان گناہوں سے کی جائے جو محض اللہ تعالیٰ کے گناہ ہوں یعنی جن کا تعلق صرف حق اللہ سے ہو اور اگر اپنے اوپر وہ گناہ ہوں جن کا تعلق حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی تلفی یا ان کے نقصان سے ہو تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے بھی اپنی بخشش و مغفرت چاہے کیونکہ اس کی نافرمانی کی اور ان بندوں سے بھی ان کا تدارک کرے جن کی حق تلفی ہوئی ہے۔

 چنانچہ اگر حق تلفی کا تعلق مال سے ہو تو یا صاحب حق کو وہ مال ادا کرے یا اس سے معاف کرائے اور اگر اس کا تعلق مال سے نہ ہو جیسے غیبت یا اور کوئی ذہنی و جسمانی تکلیف جو اسے پہنچی ہو تو اس سے معافی چاہے۔ اگر حق تلفی کا تعلق کسی ایسی کوتاہی یا قصور سے ہو کہ اگر معاف کراتے وقت اس کا تذکرہ کسی فتنہ و فساد کا سبب بنتا ہو تو ایسی صورت میں اس قصور کا ذکر کئے بغیر اس شخص سے مطلقاً قصور معاف کرائے مثلاً اس سے یوں کہے کہ مجھ سے جو بھی قصور ہو گیا ہو اسے معاف کر دیجئے اور اگر اس طرح معاف کرانے میں بھی فتنہ و فساد کا خوف ہو تو پھر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرے۔ اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرے، اچھے کام کرے اور صدقہ و خیرات کرتا رہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو اور اس شخص کو جس کا قصور ہوا ہے آخرت میں اپنے فضل و کرم کے تحت اپنے پاس سے اجر دے کر اسے راضی کرائے، اگر صاحب حق مر چکا ہو تو اس کے وارث اس کے قائم مقام ہیں اس لئے مردہ کا حق ان سے معاف کرائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے نیز مردہ کی طرف سے بھی صدقہ خیرات کرے۔

 ایک مومن مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس سے توبہ کرنے میں بالکل سستی اور تاخیر نہ کرے نیز نفس کے مکر اور شیطان کے وسوسہ میں مبتلا ہو کر یہ نہ سوچے کہ میں توبہ پر قائم تو رہ سکوں گا نہیں اس لئے توبہ کیسے کروں کیونکہ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اس لئے اگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر گناہ سرزد نہ ہو جائے تو پھر توبہ کرے چاہے دن میں کئی مرتبہ ایسا ہو بشرطیکہ توبہ کے وقت اس کے دل میں یہ خیال نہ ہو کہ میں پھر گناہ بھی کروں گا اور توبہ بھی کر لوں گا بلکہ توبہ کرتے وقت یہی احساس رہے کہ شاید پھر گناہ کرنے سے پہلے مر جاؤں اور یہ توبہ میری آخری توبہ ثابت ہو۔

 جب کوئی شخص توبہ کرنا چاہے تو پہلے نہا دھو کر صاف کپڑے پہنے اور دو رکعت نماز حضور قلب کے ساتھ پڑھے اور سجدہ میں گر کر بہت ہی زیادہ تضرع و زاری کے ساتھ اپنے نفس کو ملامت کرے اور اپنے گزشتہ گناہوں کو یاد کر کے عذاب الٰہی کے خوف سے اپنے قلب کو لرزاں و  ترساں کرے اور شرمندگی و ندامت کے پورے احساس کے ساتھ توبہ و  استغفار کرے اور پھر ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الٰہی میں یوں عرض رسا ہو۔

 میرے پروردگار! تیرے در سے بھاگا ہوا یہ گنہگار غلام اپنے گناہوں کی پوٹ لئے پھر تیرے در پر حاضر ہوا ہے انتہائی ندامت و شرمندگی کے ساتھ اپنی لغزشوں اور اپنے گناہوں کی معذرت لے کر آیا ہے تیری ذات رحیم و کریم ہے تو ستار و غفار ہے اپنے کرم کے صدقے میرے گناہ بخش دے! اپنے فضل سے میری معذرت قبول فرما کر رحمت کی نظر سے میری طرف دیکھ نہ صرف یہ کہ میرے پچھلے گناہ بخش دے بلکہ آئندہ ہر گناہ و لغزش سے مجھے محفوظ رکھ کہ خیر و بھلائی تیرے ہی دست قدرت میں ہے اور اپنے گنہگار بندوں کو تو ہی بخشنے والا ہے اس کے بعد درود پڑھے اور تمام ہی مسلمانوں کے لئے بخشش و مغفرت چاہے۔

 یہ تو عوام کی توبہ ہے کہ جن کی زندگی اور گناہ کے درمیان کوئی بڑی حد فاصل نہیں ہوتی اور وہ گناہ و معصیت میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور ان کی یہ توبہ انہیں اس بشارت کا مستحق قرار دیتی ہے کہ آیت (ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین) لیکن خواص کہ جو خدا کے اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں جن کی زندگی معصیت وگناہ سے دور رہتی ہے اور اتباع شریعت کی حامل ہوتی ہے ان کی توبہ یہ ہے کہ وہ ان برے اخلاق سے کہ جن سے قلب کو پاک رکھنا واجب ہے توبہ کریں، اسی طرح عاشقین خدا کی توبہ یہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی وقت ان سے ذکر اللہ اور یاد الٰہی میں غفلت ہو جائے اور ماسوا اللہ میں مشغول ہو جائیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اپنی اس کوتاہی سے توبہ کریں۔

 یہ بات جان لینی چاہئے کہ گناہ کبیرہ کا صدور ایمان سے خارج نہیں کرتا لیکن فاسق و عاصی کر دیتا ہے گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کے متعلق (باب الکبائر وعلامات النفاق) مظاہر حق جدید جلد اول میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے اس موقع پر گناہ کی ان دونوں اقسام کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

 جہاں تک صغیرہ گناہوں کا تعلق ہے تو وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ایک عام زندگی کے لئے ان سے اجتناب بھی دشوار ہے چنانچہ مسلک مختار کے مطابق صغیرہ گناہ سے تقویٰ میں خلل نہیں پڑتا بشرطیکہ گناہ صغیرہ پر اصرار و دوام نہ ہو کیونکہ صغیرہ گناہ پر اصرار و دوام گناہ کبیرہ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا ہر مومن و مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں اور حتی المقدور صغیرہ گناہوں سے اجتناب بھی کرے اور جانے کہ اگرچہ گناہ ایمان سے خارج نہیں کر دیتے لیکن اس بات کا خوف ہے کہ گناہ کی زندگی رفتہ رفتہ انجام کار کفر اور دوزخ کی حد تک پہنچا دے۔

 

گناہوں سے بچنے کا علاج

 گناہوں سے بچنے کا ایک آسان علاج یہ ہے کہ ہر چیز میں  ضرورت  پر قناعت کی جائے یعنی جو ضروری اور حد ضرورت یہ ہے کہ اتنی غذا جو بھوک ختم کرنے کے لئے ضروری ہو اتنا کپڑا جس سے ستر پوشی ہو سکے، اتنا مکان جو گرمی سردی سے بچا سکے اور اتنے برتن باسن جو ضروری ہوں اور ایک بیوی۔

 لہٰذا یہ جان لینا چاہئے کہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے اور مباح میں وسعت اختیار کرنے کی وجہ سے انسان ان چیزوں میں مبتلا ہوتا ہے جو مشتبہ اور مکروہ ہوتی ہیں۔ اور جب وہ مکروہات میں مبتلا رہتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ حرام چیزوں کا ارتکاب بھی ہونے لگتا ہے اور یہ وہ نکتہ ہوتا ہے جہاں اسلام کی حد تو ختم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد کفر و آگ کا میدان شروع ہو جاتا ہے نعوذ باللہ منہ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی توبہ و استغفار

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اللہ کی میں دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی کثرت سے استغفار و توبہ اس لئے نہیں کرتے تھے کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گناہ میں مبتلا ہوتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معصوم تھے بلکہ اس کی

وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مقام عبدیت کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ شاید مجھ سے خدا کی بندگی و عبادت میں کوئی قصور ہو گیا ہو اور میں وہ بندگی نہ کر سکا ہوں جو رب ذوالجلال والاکرام کی شان کے لائق ہے۔ نیز اس سے مقصود امت کو استغفار و توبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باوجودیکہ معصوم اور خیرالمخلوقات تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دن میں ستر بار توبہ و استغفار کی تو گنہگاروں کو بطریق اولیٰ استغفار و توبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے۔

 حضرت علی کرم اللہ وجہ فرمایا کرتے تھے کہ روئے زمین پر عذاب الٰہی سے امن کی دو ہی پناہ گاہیں تھیں ایک تو اٹھ گئی دوسری باقی ہے لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ کو اختیار کرو، جو پناہ گاہ اٹھ گئی وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی تھی اور جو باقی ہے وہ استغفار ہے اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے۔ آیت (وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وماکان اللہ معذبہم وھم یستغفرون)۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان میں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔

 

 

٭٭ حضرت اغر مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بات ہے کہ میرے دل پر پردہ ڈالا جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے معنی و مفہوم اور اس کی وضاحت کرنے کے سلسلہ میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ اس بات کو محبوب رکھتے تھے کہ آپ کا قلب مبارک جناب باری تعالیٰ میں ہر وقت حاضر رہے کسی لمحہ بھی ادھر سے غافل نہ رہے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مباح چیزوں مثلاً کھانے پینے اور اپنی ازواج کے ساتھ اختلاط یا اسی قسم کے ان امور میں مشغول ہوتے تھے جن کی وجہ سے فی الجملہ جناب باری تعالیٰ سے غفلت ہوتی تھی تو اس مشغولیت کو اپنے طور پر ایک پردہ اور گناہ سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قلب مبارک لرزاں اور بے چین ہو جاتا تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی وجہ سے استغفار کرتے تھے اس حدیث کے سلسلہ میں سب سے اچھی بات وہی ہے جو بعض عارفین نے کہی ہے کہ یہ حدیث متشابہات میں سے ہے اس کے اصل معنی کا علم اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے اس کا کام تو صرف یہ ہے کہ اس حدیث پر ایمان رکھے اور اس کے معنی سمجھنے کے درپے نہ ہو۔

 

 

٭٭ حضرت اغر مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو، میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرتا ہوں (لہٰذا تمہیں تو بطریق اولیٰ چاہئے کہ ہر ساعت میں ہزار بار توبہ کرو) (مسلم)

رجوع الی اللہ کا حکم

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان حدیثوں کے سلسلہ میں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے تھے فرمایا کہ ایک حدیث قدسی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے یعنی میں ظلم سے پاک ہوں اور چونکہ ظلم میرے حق میں بھی ایسا ہے جیسے کہ تمہارے حق میں اس لئے میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں پس تم مجھ سے ہدایت چاہو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو (یعنی کھانے کے محتاج) علاوہ اس شخص کے جس کو میں کھلا دوں اور اسے رزق کی وسعت و فراخی بخشوں اور مستغنی بناؤں پس تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا اے میرے بندو! تم سب ننگے (یعنی ستر پوش کے لئے کپڑے کے محتاج ہو) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے پہننے کے لئے دیا پس تم سب مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم اکثر دن رات خطائیں کرتے ہو اور میں تمہاری خطائیں بخشتا ہوں پس تم سب مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخشوں گا۔ اے میرے بندو! تم ہرگز میرے ضرر کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور ہرگز میرے نفع کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے فائدہ پہنچا سکو (یعنی گناہ کرنے سے بار گاہ صمدیت میں کوئی نقصان نہیں اور اطاعت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ دونوں کا نقصان و فائدہ صرف تمہیں ہی پہنچتا ہے چنانچہ آگے اس کی تفصیل فرمائی کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر بھی تم میں سے کسی ایک نہایت پرہیزگار دل کی مانند ہو جائیں تو اس سے میری مملکت میں کوئی زیادتی نہیں ہو گی (یعنی اگر تم سب کے سب اتنے ہی پرہیز گار اور اتنے ہی نیک بن جاؤ جتنا کہ کوئی شخص پرہیزگار بن سکتا ہے مثلاً تم سب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی طرح پرہیزگار بن جاؤ کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے جس کی زندگی پر فسق و فجور اور گناہ معصیت کا ہلکا سا اثر بھی ہو تو اس سے میری سلطنت و میری ادنیٰ سی بھی زیادتی نہیں ہو گی) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے، تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرضیکہ سب کے سب) مل کر تم میں سے کسی ایک نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں (یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ) تو اس سے میری مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر تم میں سے نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ تو اس سے مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر کسی جگہ کھڑے ہوں اور مجھ سے پھر مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کے مانگنے کے مطابق (ایک ہی وقت میں اور ایک ہی جگہ) دوں تو میرا یہ دینا اس چیز سے جو میرے پاس ہے اتنا ہی کم کرتی ہے جتنا کہ ایک سوئی سمندر میں گر کر (اس کے پانی کو کم کرتی ہے) اے میرے بندو! جان لو میں تمہارے اعمال یاد رکھتا ہوں اور انہیں تمہارے لئے لکھتا ہوں، میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جو شخص بھلائی پائے (یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے) تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیونکہ اس سے گناہ کا سرزد ہونا نفس ہی کے تقاضہ سے ہوا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 کلکم ضال (تم سب گمراہ ہو) اس اعتبار سے فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ اس سے دنیا اور دین کا ہر کمال ہر سعادت اور تمام ہی بھلائیاں ہوں ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ کمی اور کوتاہی ضرور ہوتی ہے اور اگر کوئی دینی اور اخروی اعتبار سے اپنے اندر کوئی کمی اور کوتاہی و گمراہی رکھتا ہے تو کسی کے اندر دنیاوی امور کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی کمی اور کجی ہوتی ہے اس لئے فرمایا کہ تم سب گمراہ ہو یعنی دنیوی اور دینی دونوں اعتبار سے درجہ کمال سے ہٹے ہوئے ہوں۔

 الا من ہدیتہ (علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی مراد یہ ہے کہ اگر لوگوں کو ان کی اس حالت و کیفیت پر چھوڑ دیا جو ان کی طبیعت اور ان کے نفس کی بنیاد ہوتی ہے تو وہ خود رو درخت کی طرح جس طرح چاہیں بڑھیں اور جس سمت چاہیں چلیں، جس کا نتیجہ گمراہی اور بے راہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر وذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ گمراہی اور بے راہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر و ذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نفس صحیح راستہ پر چلتا ہے اور اس کی طبیعت نیکی ہی کی سمت بڑھتی ہے اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طور پر بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ خلق الخلق فی ظلمۃ ثم رش علیہم من نورہ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا چھینٹا دیا۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بات اس حدیث (کل مولود یولد علی الفطرۃ)۔ ہر بچہ فطرت (اسلام کی فطرت) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ کے منافی ہے کیونکہ فطرت سے مراد توحید ہے اور ضلالت یا عظمت سے مراد احکام ایمان کی تفصیل اور اسلام کے حدود و شرائط کا نہ جاننا ہے۔

 وانا اغفرالذنوب جمیعا میں تمہاری ساری خطائیں بخشتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ تم دن رات لغزشوں اور گناہوں میں مبتلا رہتے ہو لیکن اگر اپنے ان گناہوں پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار کرتے تو میں تمہارے سب گناہ بخش دیتا یا پھر یہ مراد ہے کہ ایک تو صرف ایسا گناہ ہے جس سے توبہ کئے بغیر بخشش ممکن نہیں ہاں اس کے علاوہ اور سب گناہ اگر میں چاہتا ہوں تو بغیر توبہ و استغفار کے بھی اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت خاص کے پیش نظر بخش دیتا ہوں۔

 جتنا کہ سوئی کم کر دیتی ہے۔ کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ سوئی کا سمندر میں گر کر اس کے پانی کو کم کر دینا نہ محسوس چیز ہے اور نہ عقل و شعور کی رسائی میں آنے والی بات بلکہ وہ کالعدم ہے اس لئے اس کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے ورنہ تو اللہ کے خزانے میں کسی ادنی سے ادنی درجہ کی کمی کا بھی کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔

 ابن ملک کہتے ہیں کہ اس بارے میں یا پھر کہا جائے کہ یہ جملہ بالفرض والتقدیر کی قسم سے ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کمی فرض بھی کی جائے تو وہ اس قدر ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہے

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بندہ (اپنے گناہ کا ندامت و شرمندگی کے ساتھ) اعتراف کرتا ہے اور پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی قوم میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر لوگوں سے یہ پوچھنے نکلا کہ اگر میں توبہ کر لوں تو وہ توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ ایک عابد و زاہد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس اتنے بڑے گناہ سے یا اس اتنے بڑے گناہ کرنے والے ہی کے لئے توبہ ہے؟ یعنی کیا اس کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ اس عابد و زاہد نے کہا کہ نہیں! اس شخص نے یہ سنتے ہی اس عابد و زاہد کو بھی قتل کر دیا اور پھر دوسرے لوگوں سے پوچھتا پھرنے لگا۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ تم فلاں بستی جاؤ وہ ایسی اور ایسی ہے (یعنی اس نے اس بستی کا نام لیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی بستی ہے وہاں ایک عالم رہتا ہے جو تمہیں تمہاری توبہ کے قبول ہونے کا فتویٰ دے گا چنانچہ وہ شخص اس بستی کی طرف چل کھڑا ہوا ابھی آدھے ہی راستے پر پہنچ پایا تھا کہ اچانک اسے موت نے آ دبوچا (چنانچہ اسے موت کی علامت محسوس ہوئیں) تو اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا اور پھر اس کی روح قبض کرنے کے وقت رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے (ملک الموت سے جھگڑنے لگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ توبہ کرنے جا رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت کے قریب آ جائے اور اس بستی کو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت سے دور ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر میت اس بستی کے قریب ہو گی جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ چنانچہ جب فرشتوں نے پیمائش کی تو وہ توبہ کے لئے جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے ایک بالشت قریب پایا گیا پس حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ابن ملک کہتے ہیں کہ جب ملک الموت نے اس شخص کی روح قبض کی تو رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں ملک الموت سے اس کی روح لینے کے لئے جھپٹنے لگے، رحمت کے فرشتے تو یہ کہتے تھے کہ چونکہ یہ شخص توبہ کے لئے اس بستی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر تائب تھا اس لئے ہم اسے رحمت خداوندی کی طرف لے جائیں گے اور عذاب کے فرشتے یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے چونکہ ایک سو آدمیوں کو ناحق قتل کیا ہے اور ابھی تک اس نے توبہ نہیں کی تھی اس لئے ہم اسے عذاب الٰہی کی طرف لے جائیں گے چنانچہ حق تعالیٰ نے اس کا فیصلہ جس طرح فرمایا وہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

 یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طالب توبہ کے لئے حق تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کسی قید اور حد کی پابند نہیں ہے اس کی بے پایاں رحمت خلوص قلب کے ساتھ اپنی طرف متوجہ ہونے والے بڑے سے بڑے سرکش اور گنہگار کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ قلب و نیت کے اخلاص کے ساتھ بارگاہ الوہیت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔

 یہ حدیث اس بات کی ترغیب دلا رہی ہے کہ توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے دامن کو گناہوں کی آلائش سے پاک وصاف رکھا جائے اور حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور ناامیدی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہ دیا جائے۔

 

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اٹھا لے اور تمہاری جگہ ایسے لوگ پیدا کر دے جو گناہ کریں اور خدا سے بخشش و مغفرت چاہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا مقصد مغفرت اور رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کو بیان کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک غفور کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے اتنا بخشش کرنے والا ہے اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ خدانخواستہ اس حدیث کے ذریعہ گناہ کی ترغیب مقصود ہی نہیں ہے کیونکہ گناہ سے بچنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اپنے پیغمبر رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو گناہ و معصیت کی زندگی سے نکال کر طاعت و عبادت کی راہ پر لگائیں۔

 

 

٭٭ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ہاتھ پھیلانا دراصل کنایہ ہے طلب کرنے سے چنانچہ جب کوئی شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ رات میں ہاتھ پھیلاتا ہے الخ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو توبہ کی طرف بلاتا ہے! بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ پھیلانا اس کی رحمت و مغفرت سے کنایہ ہے۔

 حدیث کے آخری الفاظ یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے طلب توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قرب قیامت میں سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلے کیونکہ جب آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا تو توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اس کے بعد پھر کسی کی توبہ قبول نہیں ہو گی

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص مغرب کی سمت سے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہٰذا اس وقت تک جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کر لی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہو گی اسی طرح توبہ قبول ہونے کی ایک حد شخصی ہوتی ہے جس کا تعلق ہر فرد سے ہوتا ہے اور وہ حالت غرغرہ (نزع) سے پہلے پہلے کا وقت ہے یعنی جو شخص حالت غرغر سے توبہ کر لے گا اس کی توبہ قبول ہو گی۔ حالت غرغرہ میں کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہو گی۔

اللہ تعالیٰ توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص سے جو اس کے سامنے توبہ کرتا ہے اتنا زیادہ خوش ہوتا ہے کہ جتنا تم میں وہ شخص بھی خوش نہیں ہوتا جس کی سواری بیچ جنگل بیابان میں ہو اور پھر وہ جاتی رہی ہو (یعنی گم ہو گئی ہو) اور اس سواری سے ناامیدی کی حالت میں انتہائی مغموم و پریشان لیٹ جائے اور پھر اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑے ہوئے دیکھ لے۔ چنانچہ وہ اس سواری کی مہار پکڑ کر انتہائی خوشی میں جذبات سے مغلوب ہو کر یہ کہہ بیٹے اے اللہ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ مارے خوشی کی زیادتی کے اس کی زبان سے یہ غلط الفاظ نکل جائیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی اس شخص کو اصل کہنا تو یہ تھا کہ اے اللہ! تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ مگر انتہائی خوشی کی وجہ سے شدت جذبات سے مغلوب اور مدہوش ہو کر یہ کہنے کی بجائے یہ کہہ بیٹھا ہے کہ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔

 اس ارشاد کا مقصد اس بات کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اس کی توبہ کو قبول فرما کر اپنی رحمت سے نواز دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس خوشی کو اس شخص کی خوشی کے ساتھ مشابہت دی جس کی سواری جنگل بیابان میں گم ہو جائے اور پھر اچانک اسے مل جائے۔

اللہ تعالیٰ بار بار توبہ قبول کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اسی امت میں سے یا گزشتہ امتوں میں سے ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر کہنے لگا اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کے گناہ پر مواخذہ کرتا ہے تو جان لو میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ کرنے سے باز رہا، اس کے بعد اس نے پھر گناہ کیا اور عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا یہ میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے؟ میں نے اس بندہ کو بخش دیا۔ وہ بندہ اس مدت تک کہ اللہ نے چاہا گناہ سے باز رہا اور اس کے بعد پھر اس نے گناہ کیا اور اس کے بعد پھر اس نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں نے گناہ کیا ہے تو میرے اس گناہ کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کیا میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے؟ میں نے اس بندہ کو بخش دیا پس جب تک وہ استغفار کرتا رہے جو چاہے کرے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ پس جو چاہے کرے۔ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بندہ جب تک گناہ کرتا رہے گا اور استغفار کرتا رہے گا اس کے گناہ بخشتا رہوں گا لہٰذا جملہ سے خدانخواستہ گناہ کی طرف رغبت دلانا مقصود نہیں ہے بلکہ استغفار کی فضیلت اور گناہوں کی بخشش میں استغفار کی تاثیر کو بیان کرنا مقصود ہے۔

کسی گناہ گار کو دوزخی نہ کہو

حضرت جندب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بیان فرمایا اس امت میں سے یا گزشتہ امتوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو میری قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کو نہیں بخشوں گا اور یہ جان لے کہ میں نے اس شخص کو بخش دیا اور تیرے عمل کو ضائع یعنی تیری قسم کو جھوٹا کیا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 کوئی شخص بہت زیادہ گناہ کرتا تھا اس کے بارے میں ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں بخشے گا اس نے یہ بات از راہ تکبر اس کو بہت گنہگار اور اپنے کو اس سے اچھا جان کر کہی۔ جیسا کہ بعض جاہل صوفیاء گنہگاروں کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے حالانکہ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع اور عام ہے اس کے گنہگار بندوں کو بھی اس کے دامن میں پناہ ملتی ہے اور وہی ان کو بخشتا ہے۔

 حاصل یہ کہ اس قسم کے کھانے والے نے اس کے نہ بخشے جانے کا جو یقین کیا تھا اس پر عتاب ہوا بایں طور کہ اس کی قسم کو جھوٹا کیا گیا اور اس شخص کو بخش دیا گیا۔ لہٰذا کسی بھی شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ کہنا کہ وہ جنتی ہے ! یا دوزخی ہے جائز نہیں ہے ہاں قرآن وحدیث نے وضاحت کے ساتھ جن لوگوں کو جنتی و دوزخی کہا ہے ان کو قطعی طور پر جنتی یا دوزخی کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

دعاء استغفار

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افضل استغفار یہ ہے کہ تم یوں دعا مانگو: اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں میں تیرے عہد پر ہوں۔ (یعنی عہد میثاق پر قائم ہوں اور تیرے وعدے پر ہوں یعنی تو نے حشر وغیرہ کے بارے میں جو وعدہ کیا ہے اس پر یقین کامل رکھتا ہوں میں اپنی طاقت کے بقدر اس برائی یعنی گناہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں جس میں میں مبتلا ہوا۔ میں تیری نعمتوں کو جو تو نے مجھے عنایت فرمائی اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں پس تو مجھے بخش دے۔ کیونکہ گناہوں کو تیرے علاوہ کوئی نہیں بخشتا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ان کلمات کو دن میں ان کے معنی پر یقین رکھ کر پڑھے اور پھر اسی دن شام سے پہلے مر جائے تو وہ جنتیوں میں سے ہے اور جو شخص ان کلمات کو رات میں ان کے معنی پر یقین رکھ کر پڑھے اور اسی رات صبح ہونے سے پہلے مر جائے تو وہ جنتیوں میں سے ہے۔ (بخاری)

اللہ تعالیٰ کی بخشش کی کوئی انتہاء نہیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا میں تجھے بخشوں گا تو نے جو برا کام بھی کیا ہو گا اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی یعنی تو چاہے کتنا ہی بڑا گنہگار ہو تجھے بخشنا میرے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں اور تو مجھ سے بخشش چاہے تو میں تجھ کو بخش دوں گا۔ اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی، اے ابن آدم! اگر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تیرے ساتھ گناہوں سے بھری ہوئی زمین ہو تو میں تیرے پاس بخشش مغفرت سے بھری ہوئی زمین کو لے کر آؤں گا۔ بشرطیکہ تو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ (یعنی شرک میں مبتلا نہ ہوا ہو) ترمذی اور احمد و دارمی نے اس روایت کو ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

مغفرت کا یقین رکھو

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا کرتے ہوئے کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس شخص نے یہ جانا کہ میں گناہوں کو بخشنے پر قادر ہوں تو اسے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی بشرطیکہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔ (شرح السنتہ)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ کو اس بات کا جاننا کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی مغفرت پر قادر ہے اس کی مغفرت و بخشش کا سبب ہے کیونکہ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کی بخشش پر قدرت رکھتا ہے وہ اس سے امید رکھتا ہے اور جو شخص کریم سے امید رکھتا ہے کریم اسے محروم نہیں رکھتا لہٰذا یہ حدیث قدسی اس حدیث قدسی انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندہ کے گمان کے قریب ہوں جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے کے مانند ہے۔

 منقول ہے کہ حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو حضرت حماد بن سلمہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے حضرت حماد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ کو اس بات کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ جیسے کو بخش دے گا؟ حضرت حماد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر مجھے اس بات کا اختیار دے دیا جائے کہ حساب کتاب کے لئے چاہے تو میں اپنے باپ کے سامنے پیش ہو جاؤں چاہے اللہ تعالیٰ کے سامنے تو میں اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دوں گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ باپ سے زیادہ مجھ پر رحم کرتا ہے۔ گویا حماد کے اس جواب کا مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کی امید رکھئے اس کی رحمت پر بھروسہ کیجئے کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے۔

استغفار کی فضیلت اور اس کا اثر

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے۔ اور اسے ہر رنج و غم سے نجات دیتا ہے نیز اس کو ایسی جگہ سے پاک و حلال روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی گناہ سرزد ہو جائے یا کوئی آفت و مصیبت اور رنج و غم ظاہر ہو تو استغفار کرے! یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ استغفار پر مداومت و ہمیشگی اختیار کرے کیونکہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں انسان استغفار کا محتاج نہ ہو اس لئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے۔ طوبی لمن وجد فی صحیفتہ استغفارا کثیرا۔ خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں استغفار کی کثرت پائی۔

 حدیث میں مذکورہ بالا فضیلت کی بنیاد یہ ہے کہ جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم قرار دے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس کے قلب کا تعلق اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا اعتماد مستحکم وقوی ہوتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس کا شمار اللہ سے ڈرنے والوں اور اللہ کی ذات پر اعتماد کرنے والوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی بنیاد بھی ہے کہ۔ آیت (وَمَنْ یتَّقِ اللّٰهَ یجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجاً     ۝ۙ  وَّیرْزُقْهُ مِنْ حَیثُ لَا یحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ یتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ) 65۔ الطلاق:3-2)۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی بہم پہنچاتا ہے جہاں اس کو گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔

 استغفار کی فضیلت اور اس کا فائدہ مند ہونا اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ آیت (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّاراً  10۝ۙ  یرْسِلِ السَّمَاۗءَ عَلَیكُمْ مِّدْرَاراً   11۝ۙ  وَّیمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِینَ وَیجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّیجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰراً  12۝ۭ) 71۔ النوح:12-11-10)۔ پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیونکہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ تم پر بکثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال اور اولاد دے گا اور تمہارے لئے باغ بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔

 حضرت حسن بصری کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے ان سے قحط سالی کی شکایت کی تو انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجگی کا شکوہ کیا، اور ایک اور نے اولاد نہ ہونے کی، اور ایک اور نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی انہوں نے سب ہی سے کہا کہ استغفار کرو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی شخص آئے اور سب نے اپنی الگ الگ پریشانی ظاہر کی۔ مگر آپ نے سب ہی کو استغفار کرنے کا حکم دیا اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت۔ (فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّاراً) 71۔ نوح:10) پڑھی اور اس طرح انہیں بتایا کہ میں نے جن جن باتوں کے لئے استغفار کا حکم دیا ہے اس آیت سے وہ سب ثابت ہیں۔

استغفار کی فضیلت اور اس کا اثر

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے گناہ پر استغفار کیا اس نے اپنے گناہ پر اصرار نہیں کیا اگرچہ وہ دن میں ستر بار گناہ کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 گناہ پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ گناہ پر دوام کرنا یعنی بار بار اس گناہ کو کرنا، یوں تو خود گناہ کرنا کوئی کم بری بات نہیں ہے چہ جائیکہ اس پر اصرار کرنا تو یہ تو بہت ہی برا ہے کیونکہ صغیر گناہ پر اصرار کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر پہنچا دیتا ہے اور کبیرہ گناہ پر اصرار کفر کی حد تک لے جاتا ہے۔

 لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اپنے کسی گناہ پر شرمندہ ہوتا ہے اور اس سے استغفار کرتا ہے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ تو وہ حد اصرار سے خارج ہوتا ہے چاہے اس سے اس گناہ کا ارتکاب کتنی ہی مرتبہ کیوں نہ ہو کیونکہ گناہ پر ارتکاب کرنے والا تو اسی کو کہیں گے جو بار بار گناہ کرے مگر نہ تو وہ اس گناہ سے شرمندہ و نادم ہو اور نہ استغفار کرے۔

توبہ کرنے والوں کی فضیلت

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر انسان خطا کار ہے (یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے علاوہ انبیاء کرام کے کیونکہ وہ معصوم عن الخطا ہیں) اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

گناہ کی زیادتی قلب کو زنگ آلود کر دیتی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ ہو جاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل اس نقطہ سیاہ سے صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے پس یہ ران یعنی زنگ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ۔ آیت (کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون)۔ یوں ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر یہ اس چیز یعنی گناہ کا زنگ ہے جو وہ کرتے تھے یہاں تک کہ ان کے دلوں پر خیر و بھلائی بالکل باقی نہیں رہی۔ اس روایت کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

 

تشریح

 

 یہاں تک کہ وہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے، کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں گناہ میں زیادتی ہوتی جاتی ہے توں توں وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورے قلب پر حاوی ہو جاتا ہے اور قلب کے نور کو ڈھانپ لیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مومن دل کی بینائی سے محروم ہو جاتا ہے چنانچہ نہ تو نفع دینے والے علوم اور نفع دینے والے نیک اعمال ہی کی کوئی اہمیت اس کی نظروں میں باقی رہتی ہے اور نہ فائدہ مند عقل و حکمت کی باتوں کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے اس طرح وہ شفقت و رحمت کے حیات آفرین وصف سے خالی ہو جاتا ہے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ہے اور نہ دوسروں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرتا ہے اور آخر کار اس کے قلب میں ظلم و جہل اور شر و فتنہ کی تاریکی اپنا تسلط جما لیتی ہے جس کا نتیجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ گناہ پر اس کی جرات بڑھ جاتی ہے اور معصیت آمیز زندگی ہی اس پر چھا جاتی ہے۔

قبولیت توبہ کا آخری وقت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت نہ شروع ہو جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 غرغرہ، انسانی زندگی کا وہ آخری درجہ ہے جب جسم و روح کا تعلق اپنے انقطاع کے انتہائی نقطہ کے بالکل قریب ہوتا ہے جان پورے بدن سے کھنچ کر حلق میں آ جاتی ہے سانس اکھڑ کر صرف غرغر کی سی آواز میں تبدیل ہو جاتا ہے اور زندگی کی بالکل آخری امید بھی یاس و ناامیدی کے درجہ یقین پر پہنچ جاتی ہے۔

 لہٰذا اس ارشاد گرامی میں  جب تک کہ غرغرہ کی کیفیت شروع نہ ہو جائے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک موت کا یقین نہیں ہوتا اس وقت تک تو توبہ قبولیت سے نوازی جاتی ہے مگر جب موت کا بالکل یقین ہو جائے یعنی مذکورہ بالا کیفیت شروع ہو جائے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔

اس حدیث کے ظاہری اور واضح مفہوم سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے وقت مطلقاً توبہ صحیح نہیں ہوتی خواہ کفر سے توبہ ہو یا گناہوں سے یعنی اس وقت نہ تو کافر کا ایمان لانا صحیح و درست ہو گا اور نہ مسلمان کی گناہوں سے توبہ صحیح ہو گی چنانچہ قرآن کریم کی آیت (وَلَیسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِینَ یعْمَلُوْنَ السَّیاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْٰٔنَ وَلَا الَّذِینَ یمُوْتُوْنَ وَھُمْ كُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕكَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَاباً اَلِیماً) 4۔ النساء:18) سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ گناہوں سے توبہ تو صحیح ہو گی لیکن کفر سے توبہ صحیح نہیں ہو گی گویا ان حضرات کے نزدیک یاس و ناامید کا ایمان غیر مقبول ہے اور یاس کی توبہ مقبول ہے۔

 علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث مذکورہ بالا کے تحت جو حکم بیان کیا گیا ہے۔ اس کا تعلق گناہوں سے توبہ کرنے سے ہے کہ حالت غرغرہ میں توبہ قبول نہیں ہوتی لیکن ایسی حالت میں اگر کسی سے اس کا کوئی حق معاف کرایا جائے اور وہ صاحب حق معاف کر دے یہ صحیح ہو گا۔

مغفرت خداوندی کی وسعت

حضرت ابوسعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ قسم ہے تیری عزت کی اے میرے پروردگار! میں تیرے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرتا رہوں گا جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسم میں ہیں! پروردگار عزوجل نے فرمایا قسم ہے اپنی عزت اور بزرگی کی اور اپنے مرتبہ کی بلندی کی، میرے بندے جب تک مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی ہمیشہ ان کو بخشتا رہوں گا۔ (احمد)

باب توبہ

حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مغرب کی جانب ایک دروازہ بنایا ہے جو توبہ کے لئے ہے اور جس کا عرض ستر سال کی مسافت کے بقدر ہے اور یہ دروازہ اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک کہ آفتاب مغرب کی سمت سے نکلے یعنی مغرب کی سمت سے آفتاب کا نکلنا قبولیت توبہ کا مانع ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کہ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے ایمان نہیں لائی تھی کا یہی مطلب ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 جو توبہ کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرنے والوں کے لئے کھلا ہوا ہے یا یہ کہ وہ توبہ کے صحیح ہونے اور توبہ کے قبول ہونے کی علامت ہے ! حاصل یہ کہ جب آفتاب مغرب کی جانب سے نہیں نکلتا لوگوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جس کا جی چاہے اپنے شرک و کفر سے توبہ کرے اور جس کا جی چاہے اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اس دروازہ کے ذریعہ آخرت کی ابدی راحتوں اور سعادتوں کا مستحق ہو جائے۔ جب مغرب کی سمت سے آفتاب نکلے گا تو توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا حدیث میں جس آیت کریمہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ پوری یوں ہے۔ ۔ آیت (یوْمَ یاْتِی بَعْضُ ایٰٰتِ رَبِّكَ لَا ینْفَعُ نَفْساً اِیمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیٓ اِیمَانِهَا خَیراً) 6۔ الانعام:158)۔ اس دن آویں گی بعض نشانیاں تیرے پروردگار کی (یعنی قرب قیامت پروردگار بعض نشانیاں ظاہر کرے گا ان ہی میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ایک دن آفتاب مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو گا اس دن نہیں نفع دے گا کسی ایسی جان کو ایمان لانا جو پہلے سے (یعنی پروردگار کی نشانی ظاہر ہونے سے پہلے) ایمان لائی تھی اور اس جان کو کہ جس نے حالت ایمان بھلائی (یعنی توبہ) نہیں کی تھی (اس دن اس کی توبہ اس کو کوئی نفع نہیں دے گی)۔

 اس آیت کا حاصل یہی ہے کہ جس دن آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہو گا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا ایمان پر تو ہو گا مگر توبہ نہیں کی ہو گی اب نہ اس کا ایمان نفع پہنچائے گا نہ اس کی توبہ کوئی فائدہ پہنچائے گی۔

انقطاع قبولیت کی توبہ

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہجرت (یعنی گناہوں سے توبہ کی طرف رجوع) موقوف نہیں ہو گی تاوقتیکہ توبہ موقوف نہ ہو اور توبہ اس وقت تک موقوف نہیں ہو گی جب تک کہ آفتاب مغرب کی طرف سے نہ نکلے۔ (ابوداؤد، احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

 جب تک توبہ موقوف نہیں ہوتی یعنی جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی ہر شخص گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے اور جب توبہ موقوف ہو جائے گی تو کوئی شخص گناہوں سے پاک نہیں ہو سکے گا اور توبہ موقوف اسی وقت ہو گی جب کہ آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع ہو گا۔

 حاصل یہ کہ جب تک آفتاب مغرب کی سمت سے طلوع نہیں ہوتا اس وقت تک ہر شخص توبہ کر کے اپنے گناہوں سے پاک ہو سکتا ہے پھر اس کے بعد کسی کی توبہ کار گر ثابت نہیں ہو گی۔

کسی گناہ گار کو خدا کی رحمت سے مایوس نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بنی اسرائیل میں دو شخص تھے جو آپس میں دوست تھے ان میں سے ایک تو عبادت میں بہت ریاضت کرتا تھا اور دوسرا گناہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں گناہگار ہوں یعنی وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتا تھا۔ چنانچہ عبادت کرنے والے نے اس سے کہنا شروع کیا جس چیز میں تم مبتلا ہو یعنی گناہ میں اس سے باز آ جاؤ گنہگار اس کے جواب میں کہتا کہ تم میرے پروردگار پر چھوڑ دو! کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے وہ مجھے معاف کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن اس عابد نے اس شخص کو ایسے گناہ میں مبتلا دیکھا جسے وہ بہت بڑا گناہ سمجھتا تھا اس نے اس سے کہا کہ تم اس گناہ سے باز آ جاؤ گنہگار نے جواب دیا کہ تم مجھے میری پروردگار پر چھوڑ دو، کیا تم میرے داروغہ بنا کر بھیجے گئے ہو؟ (عابد نے یہ سن کر) کہا کہ خدا کی قسم! اللہ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا اس کے بعد حق تعالیٰ نے ان دونوں کے پاس فرشتہ بھیج کر ان کی روحیں قبض کرائیں اور پھر جب وہ دنوں یعنی ان کی روحیں حق تعالیٰ کے حضور برزخ میں یا عرش کے نیچے حاضر ہوئیں تو حق تعالیٰ نے گنہگار سے تو فرمایا کہ تو میری رحمت کے سبب جنت میں داخل ہو جا اور دوسرے سے فرمایا کہ کیا تو اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر دے؟ اس نے کہا کہ نہیں پروردگار پھر اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو جو دوزخ پر مامور ہیں فرمایا کہ اس کو دوزخ کی طرف لے جاؤ۔ (احمد)

 

تشریح

 

 چونکہ عبادت کرنے والے نے اپنی عبادت اور اپنے نیکی اعمال پر غرور و تکبر کا اعتماد کیا اور اس گنہگار کو اپنے سے حقیر جان کر اس سے یہ کہا کہ حق تعالیٰ تمہیں نہیں بخشے گا اس لئے اسے مستحق عذاب قرار دیا گیا اسی لئے کسی بزرگ کا قول ہے کہ جو گناہ اپنے کو حقیر و ذلیل سمجھنے کا باعث ہو وہ اس طاقت عبادت سے بہتر ہے جو غرور و تکبر اور نخوت میں مبتلا نہ کرے۔

گنہگار رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوں

حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔ آیت (قُلْ یٰعِبَادِی الَّذِینَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ یغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیعاً ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیمُ) 39۔ الزمر:53)۔ اے میرے وہ بندو جنہوں نے گناہ کرنے کے سبب اپنے نفس پر زیادتی کی ہے، رحمت خداوندی سے مایوس مت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشتا ہے (نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے کہ) اللہ تعالیٰ کو اس کی پرواہ نہیں کہ بندے کتنے ہی گناہ کرتے ہیں اور وہ سب کو بخش دیتا ہے امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے اور شرح السنۃ میں لفظ یقرہأ کی بجائے لفظ یقول ہے۔

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ سب گناہ بخشتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو توبہ کے ساتھ بخشتا ہے کہ اگر کوئی کافر اپنے کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان کی دولت قبول کر لے تو اسے حق تعالیٰ ابدی نجات و بخشش کا مستحق قرار دیتا ہے اور مومنین کو توبہ کے ساتھ بھی بخشتا ہے اور اپنے بے پایا فضل و کرم کی بنا پر اگر چاہتا ہے تو بغیر توبہ کے بھی بخش دیتا ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول الا اللمم کی تفسیر کے ضمن میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ شعر پڑھا۔

ان تغفر اللہم تغفر جما

وای عبدلک لا الما

اگر بخشے تو اے الٰہی ! تو بڑے سے گناہ بخش دے۔ اور تیرا کون سا بندہ ہے جس نے چھوٹے گناہ نہ کئے ہوں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

 

تشریح

 

 الا اللمم ایک آیت کا ٹکڑا ہے اور پوری آیت یہ ہے۔ آیت (اَلَّذِینَ یجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ ۭ اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ) 53۔ النجم:32)۔ اور (جن نیکو کاروں کا پیچھے ذکر ہوا) یہ وہ لوگ ہیں جو پرہیز کرتے ہیں بڑے گناہوں سے اور بے حیائی کی باتوں سے علاوہ چھوٹے گناہوں (کہ جن سے بچنا ممکن نہیں ہے) اور بے شک تیرا رب مغفرت کا وسیع کرنے والا ہے۔ پس آیت میں چھوٹے گناہوں کا جو استثناء کیا گیا ہے اسی کی دلیل کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ بالا شعر پڑھا کہ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی مومن صغیرہ گناہوں سے خالی نہیں ہوتا۔

 شعر کا حاصل یہ ہے کہ پروردگار تیری شان رحمت ایسی ہے اور تیرے فضل و کرم کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ اگر تو چاہے تو کبیرہ گناہوں کو بھی بخش دے چھوٹے گناہوں کی تو حقیقت ہی کیا ہے اور پھر تیرا کون سا بندہ ایسا ہے جو چھوٹے گناہ نہیں کرتا اور تو اسے نہیں بخشتا بلکہ تو ان چھوٹے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعہ جھاڑتا رہتا ہے اور اس طرح ان بندوں کو چھوٹے گناہوں کے بوجھ سے بچاتا ہے۔

 یہ شعر جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھا امیہ بن صلت کا ہے جو ایام جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے ہے امیہ اس وقت بھی بہت زیادہ عبادت کرتا تھا اور قیامت پر اعتقاد کرتا تھا اگرچہ اس نے اسلام کا زمانہ پایا ہے مگر مسلمان ہونے کی سعادت سے محروم رہا۔ امیہ چونکہ حکمت آمیز اشعار کہا کرتا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ صرف یہ کہ اس کے اشعار سنتے ہی تھے بلکہ کبھی کبھی خود انہیں پڑھا کرتے تھے۔

بندہ کی عبادت اور معصیت سے خدا کی خدائی میں کوئی اثر نہیں پڑتا

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! تم سب گم کردہ راہ علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے ہدایت بخشی پس تم سب مجھ سے ہدایت چاہو میں تمہیں ہدایت بخشوں گا۔ تم سب ظاہر و باطن میں محتاج ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے غنی بنا دیا پس تم سب مجھ سے روزی مانگو میں تمہیں (پاک و حلال) روزی دوں گا تم سب گنہگار ہو (یعنی سب ہی سے گناہ متصور ہے) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے بچا لیا ہو (یعنی انبیاء کرام) پس تم میں سے جس شخص نے جانا کہ میں بخشنے پر قادر ہوں اور پھر اس نے مجھ سے بخشش مانگی تو میں اس کو (یعنی اس کے سب گناہ) بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی اور اگر تمہارے پچھلے اگلے، تمہارے زندے، تمہارے مردے، تمہارے تر اور تمہارے خشک(یعنی تمہارے جوان و بوڑھے یا تمہارے عالم و جاہل اور یا تمہارے فرمانبردار گنہگار غرضیکہ ساری مخلوقات) میرے بندوں میں سب سے زیادہ متقی دل بندہ (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرح ہو جائیں تو اس سے یعنی تمام مخلوقات کے عابد ومتقی ہو جانے سے میری خدائی میں ایک مچھر کے برابر بھی زیادتی نہیں ہو گی اور اگر تمہارے اگلے تمہارے پچھلے، تمہارے زندے تمہارے مردے، تمہارے تر اور تمہارے خشک (غرضکہ ساری مخلوقات) میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت (شیطان لعین) کی طرح ہو جائیں تو اس سے میری خدائی میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہو گی اور اگر تمہارے اگلے تمہارے پچھلے، تمہارے زندے، تمہارے مردے تمہارے تر اور تمہارے خشک ایک جگہ جمع ہوں اور تم میں سے ہر شخص اپنی انتہائی آرزو و خواہش کے مطابق مانگے (یعنی اس کے دل میں جو بھی آرزو اور خواہش ہو مجھ سے مانگے) اور پھر تم میں سے ہر شخص کو (اس کی خواہش کے مطابق دوں) تو اس سے میری خدائی میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی (ہاں اگر بفرض محال کمی ہو بھی تو) وہ اسی قدر ہو گا جتنا کہ ایک سوئی پر پانی لگ جاتا ہے ورنہ حقیقت میں خدا کی خدائی میں کمی کے کسی بھی درجہ کا کیا سوال۔ وہ کتنا ہی دے اس کے ہاں ہرگز کمی نہیں ہوتی اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں بہت سخی ہوں۔ بہت دینے والا ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں (یعنی یہ تمام سخاوت اور کرم میرے ارادہ و اختیار کے ہی تحت ہے اس میں کسی بندے کے ارادے کو دخل نہیں ہے) میرا دینا صرف حکم کرنا ہے اور میرا عذاب دینا صرف حکم دینا ہے (یعنی یہ سب چیزیں صرف میرے ایک حکم سے ہو جاتی ہیں میں ذرائع اور اسباب کا محتاج نہیں ہوں اور میں کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہوں تو اس کے لئے میرا صرف اتنا ہی حکم ہے کہ میں کہہ دیتا ہوں ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

شرک سے بچنے والے کو بخشش کی بشارت

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (هُوَ اَهْلُ التَّقْوٰى وَاَهْلُ الْمَغْفِرَةِ) 74۔ المدثر:56) وہی صاحب تقویٰ ہے اور صاحب بخشش ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے کہ میری شان کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ میرے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے پرہیز کریں لہٰذا جو شخص شرک سے بچتا ہے تو پھر میرے لائق یہی ہوتا ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)

 مذکورہ بالا آیت کا مضمون اس آیت کے مضمون کی مانند ہے۔ آیت (اِنَّ اللّٰهَ لَا یغْفِرُ اَنْ یشْرَكَ بِهٖ وَیغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یشَاۗءُ) 4۔ النساء:116)۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اس شرک کے علاوہ ہر گناہ کو جس کے لیے چاہے معاف کر دیتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا استغفار وتوبہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم یہ شمار کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ کہا کرتے تھے۔ دعا (رب اغفر لی وتب علی انک انت التواب الغفور) میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بلاشبہ تو ہی بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

استغفار صدق دل سے کرو

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت بلال بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت یسار رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی جسے انہوں نے میرے دادا حضرت زید رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص یہ کہے دعا (استغفراللہ الذی لا الہ الاھوالحی القیوم واتوب الیہ) میں اللہ سے بخشش چاہتا ہوں وہ اللہ کہ نہیں کوئی معبود علاوہ اس کے جو زندہ ہے اور خبر گیری کرنے والا ہے تو اس کی بخشش کی جاتی ہے اگرچہ وہ جہاد سے بھاگا ہوا ہو (جو ایک بہت بڑا گناہ ہے) اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد کے نزدیک بلال بن یسال کی بجائے ہلال بن یسار ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

کوئی بھی دعا ہو، کوئی بھی ذکر اور کوئی بھی عمل ہو جب نیت و مقصد کا اخلاص اور دل کی تڑپ و لگن زبان کی ہمنوا نہ ہو اس دعا کا اثر ہوتا ہے اور نہ اس کا ذکر و عمل، اسی لئے علماء لکھتے ہیں کہ جب بھی استغفار پڑھا جائے تو صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ پڑھا جائے کیونکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ گناہ سے استغفار کرنے والا درآنحالیکہ وہ اس گناہ پر قائم ہو اپنے پروردگار سے ٹھٹھول کرنے والا ہے۔ (نعوذباللہ)

اپنے مرحومین کے لئے استغفار کرو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ عزوجل جنت میں اپنے نیک بخت و صالح کا درجہ بلند کرتا ہے تو وہ پوچھتا ہے میرے پروردگار مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہو؟ اللہ تعالیٰ فرماتا تیرے لئے تیرے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے۔ (احمد)

مردوں کے لئے بہترین ہدیہ استغفار

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبر میں مردہ کی حالت ایسی ہے جیسا کہ کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور کسی کو پکار رہا ہو کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی سے باہر نکالے چنانچہ وہ مردہ ہر وقت اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ اس کے باپ کی طرف سے یا اس کی ماں کی طرف سے یا اس کے بھائی کی طرف سے یا اس کے دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے پس جب اسے کسی کی طرف سے دعا پہنچتی ہے تو یہ دعا کا پہنچنا اس کے لئے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ قبر والوں کی طرف سے دعا کا ثواب پہاڑ کی مانند (یعنی بہت زیادہ ثواب اور رحمت و بخشش) پہنچاتا ہو اور زندوں کی طرف سے مردوں کے لئے بہترین ہدیہ استغفار ہے۔

استغفار کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خوش بختی ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار کی یعنی مقبول استغفار پایا ابن ماجہ اور نسائی نے اس روایت کو اپنی کتاب عمل یوم ولیلۃ میں نقل فرمایا ہے۔

 

تشریح

 

استغفار کی فضیلت کے سلسلہ میں یہ حدیث بھی بڑی ہی خوش کن ہے جسے بزاز نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع روایت کیا ہے کہ اعمال لکھنے والے دونوں فرشتے جب بندے کا اعمال نامہ لے کر اوپر جاتے ہیں تو حق تعالیٰ اس اعمال نامہ کے اول و آخر میں استغفار دیکھ کر فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندے کے وہ تمام گناہ بخش دئیے۔ جو اس نامہ اعمال کے دونوں کناروں کے درمیان ہیں۔ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص صبح وشام استغفار کرتا ہے اسے یہ فضیلت وسعادت حاصل ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک دعا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور برائی کریں تو استغفار کریں۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے بہت خوش ہوتا ہے

حضرت حارث بن سوید رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں ایک تو انہوں نے رسول کریم سے نقل کی اور دوسری اپنی طرف سے بیان کی چنانچہ انہوں نے فرمایا مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور خوفزدہ ہو کہ پہاڑ اس کے اوپر نہ گر پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے اس مکھی کو جو اس کی ناک پر اڑے اور وہ اس کی طرف اس طرح یعنی اپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اور اسے اڑا دے حاصل یہ کہ مومن گناہ سے بہت ڈرتا ہے اور اسے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں میں اس گناہ کی پاداش میں پکڑا نہ جاؤں اس لئے اس کی نظر میں چھوٹے سے چھوٹے گناہ بھی وہی اہمیت رکھتے لیکن فاجر اپنے گناہوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اس کی نظر میں بڑے سے بڑے گناہ کی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنے سفر کے دوران کسی ایسے ہولناک میدان میں اترے جہاں سبزہ و درخت کا نام و نشان تک نہ ہو اور اس کے ساتھ جو سواری ہو اس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو پھر وہ استراحت کے لئے وہیں زمین پر سر رکھ کر ایک نیند سو گیا ہو اور جب جاگنے کے بعد اسے معلوم ہو کہ سامان سے لدی ہوئی اس کی سواری گم ہو گئی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ہو گیا ہو یہاں تک کہ گرمی کی تپش اور پیاس کی شدت اور گرمی اور پیاس کے علاوہ دوسری تکلیف اور پریشانی کی ان چیزوں نے جو اللہ کو منظور تھیں اس پر غلبہ پا لیا ہو تو اس نے کہا ہو کہ میں اپنی جگہ لوٹ چلوں جہاں میں سر رکھ کر سویا تھا وہیں سو جاؤں تاکہ نیند کی حالت میں میرا خاتمہ ہو جائے چنانچہ وہ اپنے بازو پر سر رکھ کر موت کے انتظار میں سورہا ہو کہ اس کی آنکھ کھل جائے اور اچانک وہ دیکھے کہ اس کی سواری اس کے سامنے موجود ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان موجود تھا پس اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جو اپنی سواری اور اپنے کھانے پینے کا سامان پا کر خوش ہوتا ہے۔ مسلم نے ان دونوں روایتوں میں سے صرف اس روایت کو نقل کیا ہے جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا (یعنی جس میں مومن بندہ کی توبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کا بیان ہے) اور اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے اور جس میں گناہ کے بارے میں مومن اور فاجر کے فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ اور بخاری نے اس روایت کو بھی نقل کیا ہے جسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے بیان کیا ہے حاصل یہ کہ حدیث مرفوع کو تو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے لیکن حدیث موقوف کو صرف بخاری نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 پہلی فصل میں بھی اس قسم کی حدیث گزر چکی ہے وہاں بھی بتایا گیا ہے کہ بندہ کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ سے راضی ہوتا ہے اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے گویا اس حدیث سے اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت (اِنَّ اللّٰهَ یحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیحِبُّ الْمُتَطَهِّرِینَ) 2۔ البقرۃ:222)۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔

 حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ ایک بہت بڑے عالم باعمل حضرت استاد ابی اسحٰق اسفرائی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے مسلسل تیس برس تک یہ دعا کی کہ مجھے توبہ نصوح کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی میں نے اپنے دل میں بہت تعجب کیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی پاک اور مستغنی ہے کہ میں نے تیس برس تک اپنی ایک خواہش کی تکمیل کی دعا کی لیکن وہ بارگاہ الوہیت میں قبولیت سے نہیں نوازی گئی کہ جب ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے تمہیں اس بات پر تعجب ہے کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ تم مانگ کیا رہے ہو ؟ تمہاری دعا کا حقیقی منشاء تو یہی ہے کہ اللہ تمہیں دوست اور محبوب نہ رکھے؟ تو کیا تم نے اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت نہیں سنی کہ آیت (ان اللہ یحب التوابین ویحت المتطہرین) لہٰذا اس خواہش کی تکمیل نہ صرف یہ کہ بہت ہی آسان ہے بلکہ اس کی بشارت بھی دی جا چکی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندہ مومن کو بہت دوست رکھتا ہے جو گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اور بہت زیادہ توبہ کرتا ہے۔

 

تشریح

 

 یہ منشاء نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اسے دوست رکھتا ہے جی نہیں بلکہ گناہوں پر نادم و شرمندہ ہونے سے اور توبہ کرنے کی وجہ سے دوست رکھتا ہے۔

آیت لاتقنطوا من رحمۃ اللہ کی فضیلت

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے میں اس آیت (قُلْ یٰعِبَادِی الَّذِینَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ) 39۔ الزمر:53) کے مقابلہ میں اپنے لئے تمام دنیا کا حصول بھی پسند نہیں کرتا ایک شخص نے پوچھا کہ جس شخص نے شرک کیا کیا وہ بھی اس آیت کی بشارت کا مستحق ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ دیر خاموشی اختیار فرمائی تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آنے کے بعد یا پھر غور و فکر کر کے جواب دیں پھر وحی آنے کے یا خود اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جان لو! جس شخص نے شرک کیا اور اپنی زندگی ہی میں اس سے توبہ کر لی اور پھر اس کی توبہ قبول بھی ہوئی تو وہ بھی اس آیت کی بشارت کا مستحق ہے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ فرمائی۔

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اگر اس آیت کریمہ کے مقابلہ میں مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزیں بھی دے دی جائیں اور میں دنیا کی ان تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں اور جن چیزوں سے لذت حاصل کی جا سکتی ہے ان سے لذت حاصل کروں تو بھی میں اسے پسند نہیں کروں گا کیونکہ اس آیت کریمہ میں گناہ سے مغفرت و بخشش کی سب سے عظیم سعادت کی بشارت دی گئی ہے جو اسی ایک دنیا نہیں بلکہ اس جیسی سینکڑوں دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ گراں قدر ہے۔ پوری آیت کریمہ یہ ہے۔ (قُلْ یٰعِبَادِی الَّذِینَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ) 39۔ الزمر:53)۔ اے میرے وہ بندو جنہوں نے گناہوں کے ذریعہ اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید و مایوس نہ ہو بلا شک اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخشتا ہے اور وہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

 اسی مضمون کو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان اشعار کے ذریعہ ادا کیا ہے۔

 ایا صاحب الذنب لاتقنطن

فان الالہ رؤوف رؤوف

 اے گنہگار شخص ناامید اور مایوس مت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ مہربان ہے بڑا ہی مہربان۔

 ولا ترحلن بلا عدۃ

فان الطریق مخوف مخوف

 بغیر زاد راہ کے کوچ نہ کر۔ کیونکہ راستہ بڑا دہشتناک ہے بڑا ہی دہشتناک

 اور پھر ایک شاعر نے اسی بات کو یوں کہا ہے

 غافل مرد کہ مرکب مردان مردرا

درسنگ لاخ بادیہ پیمابرفیدہ اند

 نومید ہم مباش کہ رنداں بادہ نوش

 ناگہ بیک خردش بمنزل رسیدہ اند

شرک، خدا کی رحمت اور بندہ کے درمیان پردہ ہے

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے گناہوں میں سے جنہیں چاہتا ہے ان کو بخشتا ہے جب تک بندہ اور رحمت حق کے درمیان پردہ حائل نہ ہو، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! پردہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کہ آدمی شرک کرتا ہے (یعنی مشرک مرے) مذکورہ بالا تینوں روایتیں امام احمد نے نقل کی ہیں۔ نیز یہ آخری روایت کتاب البعث  و النشور میں نقل کی ہے۔

بارگاہ حق میں شرک کے علاوہ ہر گناہ قبل عفو ہے

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص خدا سے اس حال میں ملاقات کرے (یعنی اس حال میں مرے) کہ وہ دنیامیں خدا کی مانند کسی کو نہ مانتا ہو (یعنی شرک میں مبتلا نہ ہو) تو اگر مرنے کے بعد اس کے اوپر پہاڑی کی مانند بھی گناہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو اس کے ان سب گناہوں کو بخش دے گا۔ (بیہقی)

توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی مانند ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا گناہوں سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ (بیہقی) بیہقی نے کہا ہے کہ اس روایت کو صرف نہروانی نے نقل کیا ہے سو وہ مجہول ہیں، نیز بغوی نے شرح السنۃ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت موقوف نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا گناہوں پر شرمندگی اور پشیمانی کا مطلب توبہ ہے اور توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ نہ کیا ہو۔

 

تشریح

 

 یہ بات جان لینی چاہئے کہ جب کوئی گنہگار شخص صدق دل کے ساتھ اپنے گناہ پر شرمندہ و نادم ہوتا ہے اور شرائط معتبرہ کے ساتھ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کیونکہ خود حق تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ۔ آیت (وھو الذی یقبل التبوۃ عن عبادہ)۔ اور اللہ ایسا ہے جو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔

 اور استغفار جو توبہ کے بغیر ہو اور جس کا تعلق خدا کے سامنے اپنے عجز و انکساری اور کسر نفسی کے اظہار سے ہو کبھی تو گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور کبھی نہیں مٹاتا لیکن اس پر بہر صورت ملتا ہے گویا اس کا انحصار مشیت ایزدی پر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے استغفار کے ذریعہ گناہ کو دور کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے دور نہیں کرتا لیکن ثواب دونوں صورتوں میں دیتا ہے۔