حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ إِذَا مَاتَ، وَيُحِبُّ لَهُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَالْبَرَاءِ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں، (۱) جب اس سے ملاقات ہو تو اسے سلام کرے، (۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے، (۳) جب اسے چھینک آئے (اور وہ «الحمد لله» کہے) تو«يرحمك الله» کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے، (۴) جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے، (۵) جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ(قبرستان) جائے، (۶) اور اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۳- بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے، ۴- اور اس باب میں ابوہریرہ، ابوایوب، براء اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱ (۱۴۳۳) (تحفة الأشراف : ۱۰۰۴۴) ، و مسند احمد (۱/۸۹) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۵ (۲۶۷۵) (صحیح) (حارث بن عبداللہ أعور ضعیف راوی ہے، اور ابواسحاق سبیعی مدلس اور مختلط راوی ہیں، مؤلف نے حارث بن عبداللہ أعور کی تضعیف کا ذکر کیا ہے، اور شواہد کا بھی ذکر ہے، اور اسی لیے حدیث کی تحسین کی ہے، اور صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة ۱۸۳۲، اور دیکھئے اگلی حدیث)
وضاحت: ۱؎ : یہ حقوق ایسے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے باہمی اخوت و محبت کی رسی مضبوط ہوتی ہے ، حدیث میں بیان کردہ حقوق بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن انجام اور نتیجے کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلْمُؤْمِنِ عَلَى الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ: يَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَشْهَدُهُ إِذَا مَاتَ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَنْصَحُ لَهُ إِذَا غَابَ أَوْ شَهِدَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن کے مومن پر چھ حقوق ہیں، (۱) جب بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرے، (۲) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو، (۳) جب دعوت کرے تو قبول کرے، (۴) جب ملے تو اس سے سلام کرے، (۵) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، (۶) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کا خیرخواہ ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اور ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/السلام ۳ (۲۱۶۳) (تحفة الأشراف : ۱۳۰۶۶) ، و مسند احمد (۲/۳۲۱، ۳۷۲، ۴۱۲، ۵۴۰) (صحیح) (و ورد عند صحیح البخاری/ (الجنائز ۲/ح ۱۲۴۰) ، وم (السلام ۳/ح ۲۱۶۲) بلفظ ’’ خمس ‘‘)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا حَضْرَمِيٌّ مَوْلَى آلِ الْجَارُودِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَلَيْسَ هَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا، أَنْ نَقُولَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ الرَّبِيعِ.
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» یعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: کہنے کو تو میں بھی «الحمدللہ والسلام علی رسول اللہ» کہہ سکتا ہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، کہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۶۴۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دوسرے مقامات پر ایسا کہا کرتا ہوں لیکن اس کا یوں کہنے کا یہ مقام نہیں ہے ، بلکہ اس جگہ اللہ کے رسول نے ہمیں «الحمد لله على كل حال» کہنے کا حکم دیا ہے۔ ۲؎ : صحیح بخاری (کتاب الادب باب ۱۲۶)میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت میں صرف «الحمد لله» کا ذکر ہے ، حافظ ابن حجر نے متعدد طرق سے یہ ثابت کیا ہے کہ حمد و ثنا کے جو بھی الفاظ اس بابت ثابت ہیں کہے جا سکتے ہیں جیسے «الحمد لله رب العالمين» کا اضافہ بھی ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ دَيْلَمَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: " كَانَ الْيَهُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَهُمْ: " يَرْحَمُكُمُ اللَّهُ، فَيَقُولُ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تو یہ امید لگا کر چھینکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے «يرحمكم الله» "اللہ تم پر رحم کرے" کہیں گے۔ مگر آپ (اس موقع پر صرف) «يهديكم الله ويصلح بالكم» "اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کر دے" فرماتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوایوب، سالم بن عبید، عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۰۱ (۵۰۳۸) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۸۷ (۲۳۲/م) (تحفة الأشراف : ۹۰۸۲) ، و مسند احمد (۴/۴۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کی چھینک کے جواب میں صرف «يهديكم الله ويصلح بالكم» کہا جائے۔ اور «یرحکم اللہ» (اللہ تم پر رحم کرے) نہ کہا جائے کیونکہ اللہ کی رحمت اخروی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ، فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ، إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا.
سالم بن عبید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا: «السلام عليكم»(اس کے جواب میں) سالم رضی الله عنہ نے کہا: «عليك وعلى وأمك» (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوار معلوم ہوئی تو سالم نے کہا: بھئی میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا «السلام عليكم»تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: «عليك وعلى أمك» ، (تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے «الحمدللہ رب العالمین» کہنا چاہیئے۔ اور جواب دینے والا «یرحمک اللہ» اور (چھینکنے والا) «يغفر الله لي ولكم» کہے، (نہ کہ «السلام عليك» کہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۹ (۵۰۳۱) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۸۶ (۲۲۵) (تحفة الأشراف : ۳۷۸۶) ، و مسند احمد (۶/۷، ۸) (ضعیف) (ہلال بن یساف اور سالم بن عبید کے درمیان سند میں دو راویوں کا سقط ہے، عمل الیوم واللیلة کی روایت رقم: ۳۲۸-۲۳۰ سے یہ سقط ظاہر ہے، اگلی روایت صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَلْيَقُلِ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَقُلْ هُوَ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ "،
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله على كل حال» (تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے۔ اور جو اس کا جواب دے وہ «يرحمك الله» کہے، اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہے «يهديكم الله ويصلح بالكم» (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرما دے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۸۲ (۲۱۳) (تحفة الأشراف : ۳۴۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، قَالَ: هَكَذَا رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى يَضْطَرِبُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ: أَحْيَانًا: عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ أَحْيَانًا: عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح شعبہ نے یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے ابن ابی لیلیٰ نے ابوایوب کے واسطہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۲- ابن ابی لیلیٰ کو اس حدیث میں اضطراب تھا، کبھی کہتے: ابوایوب روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور کبھی کہتے: علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الثَّقَفِيُّ المروزي، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْأَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار اور محمد بن یحییٰ ثقفی مروزی نے، دونوں کہتے ہیں: بیان کیا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اور یحییٰ بن سعید قطان نے ابن ابی لیلیٰ سے، ابن ابی لیلیٰ نے اپنے بھائی عیسیٰ سے، عیسیٰ نے عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے علی رضی الله عنہ سے اور علی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ "، فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمك الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ»کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۲۳ (۶۲۲۱) ، صحیح مسلم/الزہد ۹ (۲۹۹۱) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۰۲ (۵۰۳۹) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۲۰ (۱۷۱۳) (تحفة الأشراف : ۸۷۲) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۳۱ (۲۷۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق «الحمدللہ» کہے وہی دعائے خیر کا مستحق ہے «الحمداللہ» نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں ، یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُكَ اللَّهُ " ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا رَجُلٌ مَزْكُومٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يرحمك الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) پھر اسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا: "اسے تو زکام ہو گیا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزہد ۹ (۲۹۹۳) ، سنن ابی داود/ الأدب ۱۰۰ (۵۰۳۷) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۲۰ (۱۷۱۴) (تحفة الأشراف : ۴۵۱۳) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۳۲ (۲۷۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک یا دو سے زیادہ بار چھینک آنے پر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ: " أَنْتَ مَزْكُومٌ "، قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
محمد بن بشار نے مجھ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا عکرمہ بن عمار نے اور عکرمہ نے ایاس بن سلمہ سے، ایاس نے اپنے باپ سلمہ سے اور سلمہ رضی الله عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی، مگر اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: "تمہیں تو زکام ہو گیا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ابن مبارک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ هَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْعِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، نَحْوَ رِوَايَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَقَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ: " أَنْتَ مَزْكُومٌ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ.
اور شعبہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار سے یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح روایت کیا ہے۔ بیان کیا اسے ہم سے احمد بن حکم بصریٰ نے، انہوں نے کہا: بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے عکرمہ بن عمار سے ابن مبارک کی روایت کی طرح روایت کی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اس سے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: "تمہیں زکام ہو گیا ہے"۔ اسے بیان کیا مجھ سے اسحاق بن منصور نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۲؎ : ان تمام روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ " تیسری بار چھینکنے پر جواب نہ دینے " کی روایت ہی زیادہ صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْيَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ الدَّالانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أَبِيهَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا، فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْهُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُهُ مَجْهُولٌ.
عبید بن رفاعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھینکنے والے کی چھینک کا جواب تین بار دیا جائے گا، اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیار ہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند مجہول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۰۰ (۵۰۳۶) (تحفة الأشراف : ۹۷۴۶) (ضعیف) (سند میں ’’ یزید بن عبد الرحمن ابو خالدالدالانی ‘‘ بہت غلطیاں کر جاتے تھے، اور ’’ عمر بن اسحاق بن ابی طلحہ ‘‘ اور ان کی ماں ’’ حمیدہ یا عبیدہ ‘‘ دونوں مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّى وَجْهَهُ بِيَدِهِ أَوْ بِثَوْبِهِ وَغَضَّ بِهَا صَوْتَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے، اور اپنی آواز کو دھیمی کرتے۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۸ (۵۰۲۹) (تحفة الأشراف : ۱۲۵۸۱) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھینک آتے وقت دوسروں کا خیال رکھا جائے ، ایسا نہ ہو کہ ناک سے نکلے ہوئے ذرات دوسروں پر پڑیں ، اس لیے ہاتھ یا کپڑے منہ پر رکھ لینا چاہیئے ، اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے تہذیب و شائستگی کے ساتھ ساتھ نظافت پربھی زور دیا ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُطَاسُ مِنَ اللَّهِ، وَالتَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَهُ عَلَى فِيهِ، وَإِذَا قَالَ: آهْ آهْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِهِ، وَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ: آهْ آهْ إِذَا تَثَاءَبَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔ جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیئے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے، اور جب جمائی لینے والا آہ، آہ کرتا ہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستا ہے۔ اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی لینے کو ناپسند کرتا ہے۔ تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۸۲ (۲۱۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۴۲ (۹۶۹) ، وانظر مایاتي بعدہ (تحفة الأشراف : ۱۳۰۱۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَقٌّ عَلَى كُلِّ مَنْ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ: هَاهْ هَاهْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلَانَ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَى بَعْضَهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَى بَعْضُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ، فَجَعَلْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند، پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ «الحمد للہ» کہے تو ہر مسلمان کے لیے جو اسے سنے «یرحمک اللہ» کہنا ضروری ہے۔ اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے، اسے چاہیئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے، اور شیطان اس سے ہنستا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اور یہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۳- ابن ابی ذئب: سعید مقبری کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں، ۴- میں نے ابوبکر عطار بصریٰ سے سنا ہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔ اور بعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔ تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہو گئیں۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی روایتوں کو سعید کے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کر دی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۸۹) ، والأدب ۱۲۵ (۶۲۲۳) ، و ۲۶ (۶۲۶۲) ، صحیح مسلم/الزہد ۹ (۲۹۹۵) ، سنن ابی داود/ الأدب ۹۷ (۵۰۲۸) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۲۲) ، و مسند احمد (۲/۲۶۵، ۴۲۸، ۵۱۷) وانظر ما تقدم برقم ۳۷۰ (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، رَفَعَهُ قَالَ: " الْعُطَاسُ وَالنُّعَاسُ وَالتَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ، وَالْحَيْضُ وَالْقَيْءُ وَالرُّعَافُ مِنَ الشَّيْطَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قُلْتُ لَهُ: مَا اسْمُ جَدِّ عَدِيٍّ ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعِينٍ قَالَ: اسْمُهُ دِينَارٌ.
ثابت کے باپ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نماز میں چھینک، اونگھ، جمائی، حیض، قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت «عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ» کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کا کیا نام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا، لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نام دینار ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۴۲ (۹۶۹) (تحفة الأشراف : ۳۵۴۳) (ضعیف) (سند میں ’’ ثابت انصاری ‘‘ مجہول، اور ’’ ابوالیقظان ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/السلام ۱۱ (۲۱۷۷) (تحفة الأشراف : ۷۵۴۱) ، وانظر مایأتي (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ "، قَالَ: وَكَانَ الرَّجُلُ يَقُومُ لِابْنِ عُمَرَ فَلَا يَجْلِسُ فِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے"۔ راوی سالم کہتے ہیں: ابن عمر رضی الله عنہما کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو جاتا تھا لیکن وہ (اس ممانعت کی وجہ سے) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ اور پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۶۹۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِوَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ وَهْبِ بْنِ حُذَيْفَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الرَّجُلُ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ، وَإِنْ خَرَجَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ عَادَ فَهُوَ أَحَقُّ بِمَجْلِسِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
وہب بن حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے، اگر وہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ، ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۱۷۹۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِهِمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَامِرٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَيْضًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیدا کرے مگر ان کی اجازت سے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو عامر احول نے عمرو بن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۲۴ (۴۸۴۴، ۴۸۴۵) (تحفة الأشراف : ۸۶۵۶) ، و مسند احمد (۲/۲۱۳) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ بیٹھے ہوئے دو آدمیوں کے درمیان بغیر اجازت کسی کا بیٹھنا صحیح نہیں ، اگر وہ دونوں اجازت دے دیں تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ وَسْطَ حَلْقَةٍ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: " مَلْعُونٌ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ، أَوْ لَعَنَ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مِجْلَزٍ اسْمُهُ لَاحِقُ بْنُ حُمَيْدٍ.
ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا، تو حذیفہ نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ (دائرہ) کے بیچ میں جا کر بیٹھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۷ (۴۸۲۶) (تحفة الأشراف : ۳۳۸۹) ، و مسند احمد (۵/۳۸۳، ۴۰۱) (ضعیف) (ابو مجلز اور حذیفہ رضی الله عنہ کے درمیان سند میں انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد وہ آدمی ہے جو مجلس کے کنارے نہ بیٹھ کر لوگوں کی گردنوں کو پھاندتا ہوا بیچ حلقہ میں جا کر بیٹھے ، اور لوگوں کے درمیان حائل ہو جائے ، البتہ ایسا آدمی جس کا انتظار اسی بنا پر ہو کہ وہ مجلس کے درمیان آ کر بیٹھے تو وہ اس لعنت میں داخل نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں یعنی (صحابہ) کو رسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں: (لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً) کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، قَالَ: خَرَجَمُعَاوِيَةُ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْهُ، فَقَالَ: اجْلِسَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
ابومجلز کہتے ہیں کہ معاویہ رضی الله عنہ باہر نکلے، عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراماً) کھڑے ہو گئے۔ تو معاویہ رضی الله عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے با ادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اور ابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۱۶۵ (۵۲۲۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۴۴۸) ، و مسند احمد (۴/۱۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ ادب و تعظیم کی خاطر کسی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ ہے ، البتہ کسی معذور شخص کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ، نیز اگر کسی آنے والے کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کو لے کر مجلس میں آئے اور بیٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ فاطمہ رضی الله عنہا رسول اللہ کے لیے کرتی تھی۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَلْوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الِاسْتِحْدَادُ، وَالْخِتَانُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎، (۱) شرمگاہ کے بال مونڈنا، (۲) ختنہ کرنا، (۳)مونچھیں کترنا، (۴) بغل کے بال اکھیڑنا، (۵) ناخن تراشنا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۶۳ (۵۸۸۹) ، و۶۴ (۵۸۹۱) ، والاستئذان ۵۱ (۶۶۹۷) ، صحیح مسلم/الطہارة ۱۶ (۲۵۷) ، سنن ابی داود/ الترجل ۱۶ (۴۱۹۸) ، سنن النسائی/الطہارة ۹ (۹) ، و ۱۰ (۱۰) ، والزینة ۵۳ (۵۰۴۶) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۸ (۲۹۲) (تحفة الأشراف : ۱۳۲۸۶) ، وط/صفة النبی اکرم ﷺ ۳ (۴) (موقوفا) و مسند احمد (۲/۲۲۹، ۲۴۰، ۲۸۴، ۴۱۱، ۴۸۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی انبیاء کی وہ سنتیں ہیں جن کی اقتداء کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ یہ ساری شریعتوں میں تھیں ، کیونکہ یہ فطرت انسانی کے اندر داخل ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ، قَالَ زَكَرِيَّا، قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ "، قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: انْتِقَاصُ الْمَاءِ: الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا(۳) مسواک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹)پانی سے استنجاء کرنا، زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کلی کرنا ہو"، «انتقاص الماء» سے مراد پانی سے استنجاء کرنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عمار بن یاسر، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۶ (۲۶۱) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۲۹ (۵۳) ، سنن النسائی/الزینة ۱ (۵۰۴۳) ، سنن ابن ماجہ/الطہارة ۸ (۲۹۳) (تحفة الأشراف : ۸۸ا۱۶) ، و مسند احمد (۶/۱۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پچھلی حدیث میں پانچ کا ذکر ہے ، اور اس میں دس کا ، دونوں میں کوئی تضاد نہیں ، پانچ دس میں داخل ہیں ، یا پہلے آپ کو پانچ کے بارے میں بتایا گیا ، بعد میں دس کے بارے میں بتایا گیا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى أَبُو مُحَمَّدٍ صَاحِبُ الدَّقِيقِ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ وَقَّتَ لَهُمْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً تَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ وَأَخْذَ الشَّارِبِ وَحَلْقَ الْعَانَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے مدت متعین فرما دی ہے کہ ہر چالیس دن کے اندر ناخن کاٹ لیں۔ مونچھیں کتروا لیں۔ اور ناف سے نیچے کے بال مونڈ لیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۱۶ (۲۵۸) ، سنن ابی داود/ الترجل ۱۶ (۴۲۰۰) ، سنن النسائی/الطھارة ۱۴ (۱۴) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۸ (۲۹۲) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۰) ، و مسند احمد (۳/۱۲۲، ۲۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، وَنَتْفِ الْإِبْطِ، أَنْ نَتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا "، قَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِالْحَافِظِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف کے بال لینے، اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرما دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- صدقہ بن موسیٰ (جو پہلی حدیث کی سند میں) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ چالیس دن سے اوپر نہ ہو ، یہ مطلب نہیں ہے کہ چالیس دن کے اندر جائز نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِهِ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ يَفْعَلُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۱۱۷) (ضعیف الإسناد) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں بہت اضطراب ہوتا ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِهِ فَلَيْسَ مِنَّا "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍبِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اپنی مونچھوں کے بال نہ لیے (یعنی انہیں نہیں کاٹا) تو وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطھارة ۱۳ (۱۳) ، والزینة ۲ (۵۰۵۰) (تحفة الأشراف : ۳۶۶۰) ، و مسند احمد (۴/۳۶۶، ۳۶۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی وہ ہماری سنت اور ہمارے طریقے کا مخالف ہے ، کیونکہ مونچھیں بڑھانا کفار و مشرکین کا شعار ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا "، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَسَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ: مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، لَا أَعْرِفُ لَهُ حَدِيثًا لَيْسَ لَهُ أَصْلٌ، أَوْ قَالَ: يَنْفَرِدُ بِهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا " لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، وَرَأَيْتُهُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَمِعْتُ قُتَيْبَةَ، يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ هَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ، وَكَانَ يَقُولُ: الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ، قَالَ: سَمِعْتُ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَى أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ قُتَيْبَةُ: قُلْتُ لِوَكِيعٍ: مَنْ هَذَا ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی لمبائی اور چوڑائی سے لیا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے: عمر بن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔ میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو، یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں، سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ڈاڑھی کے طول و عرض سے کچھ لیتے تھے۔ میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتا ہوں۔ میں نے انہیں (یعنی بخاری کو عمر بن ہارون) کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایا ہے، ۳- میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔ اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، ۴- قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثور بن یزید سے بیان کیا ثور بن یزید سے اور ثور بن یزید روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق نصب کر دیا۔ قتیبہ کہتے ہیں میں نے (اپنے استاد) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ (جن کا آپ نے ابھی روایت میں «عن رجل» کہہ کر ذکر کیا ہے) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمر بن ہارون ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۶۶۲) (موضوع) (سند میں ’’ عمر بن ہارون ابو جوین العبدی ‘‘ متروک الحدیث ہے)
وضاحت: ۱؎ : امام ترمذی نے وکیع بن جراح کے واسطہ سے جو حدیث منجنیق روایت کی ہے ، تو اس کا مقصد یہ ہے کہ وکیع بن جراح جیسے ثقہ راوی نے عمر بن ہارون سے روایت کی ہے ، گویا عمر بن ہارون کی توثیق مقصود ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۶۴ (۵۸۹۲) ، و ۶۵ (۵۸۹۳) ، صحیح مسلم/الطھارة ۱۶ (۲۵۹) ، سنن النسائی/الطھارة ۱۵ (۱۵) ، والزینة ۲ (۵۰۴۸) ، و ۵۶ (۵۲۲۸) (تحفة الأشراف : ۷۹۴۵) ، و مسند احمد (۲/۵۲) وانظر مایأتي (صحیح)
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَنَا بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ هُوَ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ ثِقَةٌ، وَعُمَرُ بْنُ نَافِعٍ ثِقَةٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ يُضَعَّفُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مونچھیں کٹوانے اور ڈاڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عمر رضی الله عنہما کے آزاد کردہ غلام ابوبکر بن نافع ثقہ آدمی ہیں، ۳- عمر بن نافع یہ بھی ثقہ ہیں، ۴-عبداللہ بن نافع ابن عمر رضی الله عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں اور حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الخاتم ۱۶ (۴۱۹۹) (تحفة الأشراف : ۸۵۴۲) ، وط/الشعر ۱ (۱) وانظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ان دونوں لفظوں کے ساتھ اس حدیث کو روایت کرنے والے ابن عمر رضی الله عنہما جن کی سمجھ کی داد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے ، اور جو اتباع سنت میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بیٹھا کر پیشاب کیا تھا وہاں آپ بلا ضرورت بھی اقتداء میں بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے تو یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ آپ جو ایک مٹھی سے زیادہ اپنی داڑھی کو کاٹ دیا کرتے تھے یہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے ؟ بات یہ نہیں ہے ، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کا یہ فعل حدیث کے خلاف نہیں ہے ، «توفیر» اور «اعفاء» کا مطلب ایک مٹھی سے زیادہ کاٹنے پر بھی حاصل ہو جاتا ہے ، آپ از حد متبع سنت صحابی ہیں نیز عربی زبان کے جانکار ہیں ، آپ سے زیادہ فرمان رسول کو کون سمجھ سکتا ہے ؟ اور کون اتباع کر سکتا ہے ؟۔ اس لیے جو اہل علم داڑھی کو ایک قبضہ کے بعد کاٹنے کا فتوی دیتے ہیں ان کی بات میں وزن ہے اور یہ ان مسائل میں سے ہے جس میں علماء کا اختلاف قوی اور معتبر ہے ، «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْعَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مُسْتَلْقِيًا فِي الْمَسْجِدِ وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ.
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹے ہوئے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۵ (۴۷۵) ، واللباس ۱۰۳ (۵۹۶۹) ، والاستئذان ۴۴ (۶۲۸۷) ، صحیح مسلم/اللباس ۲۲ (۲۱۰۰) ، سنن ابی داود/ الادب ۳۶ (۴۸۶۶) ، سنن النسائی/المساجد ۲۸ (۷۲۲) (تحفة الأشراف : ۵۲۹۸) ، وط/السفر ۲۴ (۸۷) ، و مسند احمد (۴/۳۹، ۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ خِدَاشٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اسْتَلْقَى أَحَدُكُمْ عَلَى ظَهْرِهِ فَلَا يَضَعْ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى " هَذَا حَدِيثٌ، رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَلَا يُعْرَفُ خِدَاشٌ هَذَا مَنْ هُوَ، وَقَدْ رَوَى لَهُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ غَيْرَ حَدِيثٍ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ کے بل لیٹے تو اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر نہ رکھے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو کئی راویوں نے سلیمان تیمی سے روایت کیا ہے۔ اور خداش (جن کا ذکر اس حدیث کی سند میں ہے) نہیں جانے جاتے کہ وہ کون ہیں؟ اور سلیمان تیمی نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۰ (۲۰۸۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۳۶ (۴۸۶۵) (تحفة الأشراف : ۲۷۰۲) ، و مسند احمد (۳/۲۹۷، ۳۲۲، ۳۴۹) وانظر مابعدہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب بےپردگی کا خوف ہو ، اگر ایسا نہیں ہے مثلاً آدمی پائجامہ اور شلوار وغیرہ میں ہے تو ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، جیسا کہ پچھلی حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان ہوا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَأَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى وَهُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَى ظَهْرِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں صماء ۱؎ اور احتباء ۲؎ کرنے اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کر چت لیٹنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۱۰۷ (۵۳۴۴) (تحفة الأشراف : ۲۹۰۵) ، و مسند احمد (۳/۲۹۳، ۳۲۲، ۳۳۱، ۳۴۴، ۳۴۹) وانظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «اشتمال صمّاء» : یہ ہے کہ کپڑا اس طرح جسم پر لپیٹے کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں ، اور حرکت کرنا مشکل ہو۔ ۲؎ : «احتباء» : یہ ہے کہ آدمی دونوں سرینوں (چوتڑوں) کے اوپر بیٹھے اور دونوں پنڈلیوں کو کھڑی کر کے پیٹ سے لگا لے اور اوپر سے ایک کپڑا ڈال لے ، اس صورت میں شرمگاہ کھلنے کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ اور اگر اچانک اٹھنا پڑ جائے تو آدمی جلدی سے اٹھ بھی نہیں سکتا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُضْطَجِعًا عَلَى بَطْنِهِ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ ضَجْعَةٌ لَا يُحِبُّهَا اللَّهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ طِهْفَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْيَعِيشَ بْنِ طِهْفَةَ، عَنْ أبيهِ، وَيُقَالُ طِخْفَةُ وَالصَّحِيحُ طِهْفَةُ، وَقَالَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ، الصَّحِيحُ طِخْفَةُ، وَيُقَالُ طِغْفَةُ، يَعِيشُ هُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے پیٹ کے بل (اوندھے منہ) لیٹا ہوا دیکھا تو فرمایا: "یہ ایسا لیٹنا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے روایت کی ہے اور ابوسلمہ نے یعیش بن طہفہ کے واسطہ سے ان کے باپ طہفہ سے روایت کی ہے، انہیں طخفہ بھی کہا جاتا ہے، لیکن صحیح طہفہ ہی ہے۔ اور بعض حفاظ کہتے ہیں: طخفہ صحیح ہے۔ اور انہیں طغفہ اور یعیش بھی کہا جاتا ہے۔ اور وہ صحابہ میں سے ہیں، ۲- اس باب میں طہفہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۰۴۱ و ۱۵۰۵۴) وانظر مسند احمد (۲/۳۰۴) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ: " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ، قَالَ: إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَافْعَلْ، قُلْتُ: وَالرَّجُلُ يَكُونُ خَالِيًا ؟ قَالَ: فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَجَدُّ بَهْزٍ اسْمُهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ، وَقَدْ رَوَى الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ وَالِدُ بَهْزٍ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے اور کس قدر چھپانا ضروری ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر کسی سے اپنی شرمگاہ کو چھپاؤ"، انہوں نے کہا: آدمی کبھی آدمی کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے"، میں نے کہا: آدمی کبھی تنہا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اللہ تو اور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بہز کے دادا کا نام معاویہ بن حیدۃ القشیری ہے۔ ۳- اور جریری نے حکیم بن معاویہ سے روایت کی ہے اور وہ بہز کے والد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطھارة ۹۹ (تعلیقا في الباب) سنن ابی داود/ الحمام ۳ (۴۰۱۷) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۸ (۱۹۲۰) ، ویأتي برقم ۲۷۹۴) (تحفة الأشراف : ۱۱۳۸۰) (حسن)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ الْكُوفِيُّ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ عَلَى يَسَارِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ "، وَلَمْ يَذْكُرْ عَلَى يَسَارِهِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بائیں جانب تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس حدیث کو کئی اور نے بطریق: «إسرائيل عن سماك عن جابر بن سمرة» روایت کی ہے،(اس میں ہے) وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا، لیکن انہوں نے «علی یسارہ» اپنی بائیں جانب تکیہ رکھنے کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۴۵ (۴۱۴۳) (تحفة الأشراف : ۲۱۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی کے حدود اقتدار و اختیار میں اس کی اجازت کے بغیر امامت نہیں کرائی جا سکتی، اور نہ ہی کسی شخص کے گھر میں اس کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جا سکتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۳۵ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ، يَقُولُ: " بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ وَمَعَهُ حِمَارٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ارْكَبْ، وَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْتَ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِكَ إِلَّا أَنْ تَجْعَلَهُ لِي، قَالَ: قَدْ جَعَلْتُهُ لَكَ قَالَ: فَرَكِبَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلے جا رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص جس کے ساتھ گدھا تھا آپ کے پاس آیا۔ اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ سوار ہو جائیے، اور خود پیچھے ہٹ گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اپنی سواری کے سینے پر یعنی آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہو الاّ یہ کہ تم مجھے اس کا حق دے دو۔ یہ سن کر فوراً اس نے کہا: میں نے اس کا حق آپ کو دے دیا۔ "پھر آپ اس پر سوار ہو گئے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس باب میں قیس بن سعد بن عبادۃ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجھاد ۶۵ (۲۵۷۲) (تحفة الأشراف : ۱۹۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کس قدر متواضع تھی ، آپ کسی دوسرے کے حق کو لینا پسند نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ وہ خود آپ کو یہ حق دینے پر راضی نہ ہو جاتا ، یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی شخصیت میں ہمیشہ انصاف پسندی اور حق کا اظہار شامل تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ لَكُمْ أَنْمَاطٌ ؟ قُلْتُ: وَأَنَّى تَكُونُ لَنَا أَنْمَاطٌ ؟ قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَكُونُ لَكُمْ أَنْمَاطٌ "، قَالَ: فَأَنَا أَقُولُ لِامْرَأَتِي أَخِّرِي عَنِّي أَنْمَاطَكِ، فَتَقُولُ: أَلَمْ يَقُلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهَا سَتَكُونُ لَكُمْ أَنْمَاطٌ، قَالَ: فَأَدَعُهَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس «انماط» (غالیچے) ہیں؟" میں نے کہا: غالیچے ہمارے پاس کہاں سے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: "تمہارے پاس عنقریب «انماط» (غالیچے) ہوں گے"۔ (تو اب وہ زمانہ آ گیا ہے) میں اپنی بیوی سے کہتا ہوں کہ تم اپنے «انماط»(غالیچے) مجھ سے دور رکھو۔ تو وہ کہتی ہے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ کہا تھا کہ تمہارے پاس «انماط» ہوں گے، تو میں اس سے درگزر کر جاتا ہوں"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۶۳۱) ، واللباس ۶۲ (۵۱۶۱) ، صحیح مسلم/اللباس ۷ (۲۰۸۳) ، سنن ابی داود/ اللباس ۴۵ (۴۱۴۵) ، سنن النسائی/النکاح ۸۳ (۳۳۸۸) (تحفة الأشراف : ۳۰۲۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ نے جو پیشین گوئی کی تھی کہ مسلمان مالدار ہو جائیں گے ، اور عیش و عشرت کی ساری چیزیں انہیں میسر ہوں گی بحمد اللہ آج مسلمان آپ کی اس پیشین گوئی سے پوری طرح مستفید ہو رہے ہیں ، اس حدیث سے غالیچے رکھنے کی اجازت کا پتا چلتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ هُوَ الْجُرَشِيُّ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَقَدْ قُدْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ عَلَى بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ، حَتَّى أَدْخَلْتُهُ حُجْرَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا قُدَّامُهُ وَهَذَا خَلْفُهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہباء نامی خچر کو جس پر آپ، اور حسن و حسین سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کے پاس(صحن میں) لیتا چلا گیا، یہ (حسن) آپ کے آگے اور وہ (حسین) آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس میں ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۸ (۲۴۲۳) (تحفة الأشراف : ۵۱۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سواری پر تین آدمیوں کے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ، اور اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ حسن اور حسین رضی الله عنہما کے ساتھ ایک ہی سواری پر بیٹھے ، منع کی صورت اس حالت سے متعلق ہے جب سواری کمزور ہو اور اگر طاقتور ہے تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظْرَةِ الْفُجَاءَةِ " فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرٍو اسْمُهُ هَرِمٌ.
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کسی اجنبیہ عورت پر) اچانک پڑ جانے والی نظر سے متعلق پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا: "تم اپنی نگاہ پھیر لیا کرو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأدب ۱۰ (۲۱۵۹) ، سنن ابی داود/ النکاح ۴۴ (۲۱۴۸) (تحفة الأشراف : ۳۲۳۷) ، و مسند احمد (۴/۳۵۸، ۳۶۱) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۱۵ (۲۶۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ کسی مقصد و ارادہ کے بغیر اگر اچانک کسی اجنبی عورت پر نگاہ پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، حرج اور گناہ تو اس میں ہے کہ اس پر باربار نگاہ مقصد و ارادہ کے ساتھ ڈالی جائے ، اور یہ کہ اچانک نگاہ کو بھی فوراً پھیر لیا جائے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، رَفَعَهُ قَالَ: " يَا عَلِيُّ، لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.
بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "علی! نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ، کیونکہ تمہارے لیے پہلی نظر (معاف) ہے اور دوسری(معاف) نہیں ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ النکاح ۴۴ (۲۱۴۹) (تحفة الأشراف : ۲۰۰۷) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اگر اچانک پہلی مرتبہ تمہاری نگاہ کسی پر پڑ گئی تو یہ معاف ہے ، لیکن تمہارا دوبارہ دیکھنا قابل گرفت ہو گا (اور پہلی والی بھی فوراً ہٹا لینی ہو گی)۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّأُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَيْمُونَةَ، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجِبَا مِنْهُ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ هُوَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں اور میمونہ رضی الله عنہا بھی موجود تھیں، اسی دوران کہ ہم دونوں آپ کے پاس بیٹھی تھیں، عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور آپ کے پاس پہنچ گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمیں پردے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں ان سے پردہ کرو"، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟ اور نہ ہمیں پہچان سکتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں انہیں دیکھتی نہیں ہو؟" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۳۷ (۴۱۱۲) (تحفة الأشراف : ۱۸۲۲۲) ، و مسند احمد (۶/۲۹۶) (ضعیف) (سند میں ’’ نبھان ‘‘ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ’’ میں حبشی لوگوں کا کھیل دیکھتی رہی … ‘‘ کے مخالف ہے، الإرواء ۱۸۰۶)
وضاحت: ۱؎ : یعنی فتنہ کو اپنا سر ابھارنے کے لیے مرد و عورت میں سے کسی کا بھی ایک دوسرے کو دیکھنا کافی ہو گا ، اب جب کہ تم دونوں انہیں دیکھ رہی ہو اس لیے فتنہ سے بچنے کے لے پردہ ضروری ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَرْسَلَهُ إِلَى عَلِيٍّ يَسْتَأْذِنُهُ عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَأُذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، سَأَلَ الْمَوْلَىعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَوْ نَهَى أَنْ نَدْخُلَ عَلَى النِّسَاءِ بِغَيْرِ إِذْنِ أَزْوَاجِهِنَّ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے انہیں علی رضی الله عنہ کے پاس (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس ۱؎ سے ملاقات کی اجازت مانگنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے اجازت دے دی، پھر جب وہ جس ضرورت سے گئے تھے اس سے کہہ سن کر فارغ ہوئے تو ان کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) نے ان سے (اس کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں سے اجازت لیے بغیر جانے سے منع فرمایا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عقبہ بن عامر، عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۷۵۲) (صحیح) (سند میں مولی عمرو بن العاص مبہم راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : پہلے یہ جعفر طیار کی بیوی تھیں ، پھر ان سے ابوبکر رضی الله عنہ نے شادی کی ، ان کے بعد ان سے علی رضی الله عنہ نے شادی کی۔ ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوسرے کی بیوی کے پاس کسی شرعی ضرورت کی تکمیل کے لیے اس وقت جانا جائز ہو گا جب اس کے شوہر سے اجازت لے لی گئی ہو ، اجازت کے بغیر اس کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الثِّقَاتِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ: عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ غَيْرُ الْمُعْتَمِرِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
اسامہ بن زید اور سعید بن زید رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی ثقہ لوگوں نے بطریق: «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت کی ہے۔ اور انہوں نے اس سند میں «عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل» کا ذکر نہیں کیا، ۳- ہم معتمر کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے «عن أسامة بن زيد وسعيد بن زيد» (ایک ساتھ) کہا ہو، ۴- اس باب میں ابوسعید رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۸ (۵۰۹۶) ، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۲۶ (۲۷۴۰) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۹ (۳۹۹۸) (تحفة الأشراف : ۹۹، و۴۴۶۲) ، و مسند احمد (۵/۲۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مرد عورتوں کے حسن و عشق کا شکار ہو کر اپنا دین و دنیا سب تباہ اور حکومت و اقتدار سب گنوا بیٹھتے ہیں۔ اسی فتنے کو استعمال کر کے عیسائیوں اور یہودیوں نے ملت کو پارہ پارہ کر دیا اور مسلمانوں کو غلام اور زیرنگیں کر لیا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابن عمر رضی الله عنہما نے بسند «سفيان عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن أسامة بن زيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَبِالْمَدِينَةِ يَخْطُبُ يَقُولُ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ هَذِهِ الْقُصَّةِ وَيَقُولُ: " إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَهَا نِسَاؤُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ.
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی الله عنہ کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان زائد بالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور آپ کہتے تھے: "جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہو گئے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے معاویہ رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۶۸) ، واللباس ۸۳ (۵۹۳۲) ، صحیح مسلم/اللباس ۳۳ (۲۱۲۷) ، سنن ابی داود/ الترجل ۵ (۴۱۶۷) ، سنن النسائی/الزینة ۲۱ (۵۰۹۵) ، و۶۸ (۵۲۴۹-۵۲۵۰) (تحفة الأشراف : ۱۱۴۰۷) ، وط/الشعر ۱ (۲) ، و مسند احمد (۴/۹۵، ۹۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ مزید بال لگا کر بڑی چوٹی بنانا یہ فتنہ کا باعث ہے ، ساتھ ہی یہ زانیہ و فاسقہ عورتوں کا شعار بھی ہے ، بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ شعار اپنایا تو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہو گئے ، اور نتیجۃ ہلاک و برباد ہو گئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَنَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، مُبْتَغِيَاتٍ لِلْحُسْنِ مُغَيِّرَاتٍ خَلْقَ اللَّهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ، عَنْ مَنْصُورٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی خاطر چہرے سے بال اکھاڑنے والی اور اکھیڑوانے والیوں پر اور اللہ کی بناوٹ (تخلیق) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو شعبہ اور کئی دوسرے ائمہ نے بھی منصور سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر الحشر ۴ (۴۸۸۶) ، واللباس ۸۲ (۵۹۳۱) ، ۸۴ (۵۹۳۹) ، و ۸۵ (۵۹۴۳) ، و ۸۶ (۵۹۴۴) ، و ۸۷ (۵۹۴۸) ، صحیح مسلم/اللباس ۳۳ (۲۱۲۵) ، سنن ابی داود/ الترجل ۵ (۴۱۶۹) ، سنن النسائی/الزینة ۲۴ (۵۱۰۲) ، و ۲۶ (۵۱۱۰) ، ۷۲ (۵۲۵۴) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۲ (۱۹۸۹) (تحفة الأشراف : ۹۴۵۰) ، و مسند احمد (۱/۴۰۹، ۴۱۵، ۴۳۴، ۴۴۸، ۴۵۴، ۴۶۲، ۴۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَعَنَ اللَّهُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ، وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ "، قَالَ نَافِعٌ: الْوَشْمُ فِي اللِّثَةِ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ يَحْيَى قَوْلَ نَافِعٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی لعنت ہو بالوں کو جوڑنے والی اور جوڑوانے والی پر اور گودنا گودنے اور گودنا گودوانے والی پر"، نافع کہتے ہیں: گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، معقل بن یسار، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن سعید نے وہ کہتے ہیں: ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی (مذکورہ) روایت کی طرح روایت کی۔ مگر یحییٰ نے اس روایت میں نافع کا قول ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۷۵۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : گودائی ہاتھ ، پاؤں اور جسم کے مختلف حصوں پر ہوتی ہے ، ممکن ہے نافع نے اپنے زمانہ کے رواج کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی ہو کہ گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَهَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهَاتِ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَاءِ مِنَ الرِّجَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جو مرد عورتوں کی طرح اور عورتیں مردوں کی طرح وضع قطع اور بات چیت کا لہجہ اور انداز اختیار کرتی ہیں ، ان پر لعنت ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، وَأَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی زنانے (مخنث) مردوں پر، اور مردانہ پن اختیار کرنے والی عورتوں پر۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۵۱ (۵۸۸۵) ، سنن ابی داود/ اللباس ۳۱ (۴۰۹۷) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۲ (۱۹۰۴) (تحفة الأشراف : ۶۱۸۸) ، و مسند احمد (۱/۲۵۱، ۳۳۰) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۲۱ (۲۶۹۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَةَ الْحَنَفِيِّ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ، وَالْمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةً "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الترجل ۷ (۴۱۷۳) ، سنن النسائی/الزینة ۳۵ (۵۱۲۹) (تحفة الأشراف : ۹۰۲۳) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : ہر آنکھ زنا کار ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ آنکھ جو کسی اجنبی عورت کی طرف شہوت سے دیکھے وہ زانیہ ہے ، اور خوشبو لگا کر کسی مجلس کے پاس سے گزرنے والی عورت اس لیے زانیہ ہے کیونکہ وہ لوگوں کی نگاہوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا سبب بنی ہے ، اس لیے وہ برابر کی شریک ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طِيبُ الرِّجَالِ مَا ظَهَرَ رِيحُهُ وَخَفِيَ لَوْنُهُ، وَطِيبُ النِّسَاءِ مَا ظَهَرَ لَوْنُهُ وَخَفِيَ رِيحُهُ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیل رہی ہو اور رنگ چھپا ہوا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو لیکن مہک اس کی چھپی ہوئی ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ النکاح ۵۰ (۲۱۷۴) ، سنن النسائی/الزینة ۳۲ (۵۱۲۰، ۵۱۲۱) (تحفة الأشراف : ۱۵۸۶) ، و مسند احمد (۲/۵۴۱) (حسن) (سند میں ’’ رجل ‘‘ مبہم راوی ہے، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو صحیح الترغیب رقم: ۴۰۲۴)
وضاحت: ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ مرد ایسی خوشبو لگائیں جس میں بو ہو اور رنگ نہ ہو ، جیسے عطر اور عود وغیرہ ، اور عورتیں ایسی چیزوں کا استعمال کریں جس میں رنگ ہو خوشبو نہ ہو مثلاً زعفران اور مہندی وغیرہ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ الطُّفَاوِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِلَّا أَنَّ الطُّفَاوِيَّ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ، وَحَدِيثُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَتَمُّ وَأَطْوَلُ.
ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے جریری سے، جریری نے ابونضرہ سے، ابونضرہ نے طفاوی سے اور طفاوی نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم طفاوی کا ذکر صرف اسی حدیث میں سن رہے ہیں ہم ان کا نام بھی نہیں جانتے، اسماعیل بن ابراہیم کی حدیث «اتم» (مکمل) اور «اطول»(لمبی) ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن)
وضاحت: ۲؎ : مولف نے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کی روایت یہ بتانے کے لیے پیش کی ہے کہ سفیان کی روایت میں مبہم راوی «رجل» طفاوی ہی ہیں ، اور یہ مجہول ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ خَيْرَ طِيبِ الرَّجُلِ مَا ظَهَرَ رِيحُهُ وَخَفِيَ لَوْنُهُ، وَخَيْرَ طِيبِ النِّسَاءِ مَا ظَهَرَ لَوْنُهُ وَخَفِيَ رِيحُهُ، وَنَهَى عَنْ مِيثَرَةِ الْأُرْجُوَانِ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "مرد کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیلے اور اس کا رنگ چھپا رہے، اور عورتوں کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور خوشبو چھپی رہے"، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زین کے اوپر انتہائی سرخ ریشمی کپڑا ڈالنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۸۰۵) ، و مسند احمد (۴/۴۴۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ أَنَسٌ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ، وَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ثمامہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ خوشبو (کی چیز) واپس نہیں کرتے تھے، اور انس رضی الله عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو کو واپس نہ کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۹ (۲۵۸۲) ، واللباس ۸۰ (۵۹۲۹) ، سنن النسائی/الزینة ۷۴ (۵۲۶۰) (تحفة الأشراف : ۷۴۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہدیہ اگر خوشبو جیسی چیز آتی تو آپ اسے بھی واپس نہیں کرتے تھے ، اس لیے سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ہدیہ کی ہوئی خوشبو کو واپس نہیں کرنا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ: الْوَسَائِدُ، وَالدُّهْنُ، وَاللَّبَنُ الدُّهْنُ، يَعْنِي بِهِ الطِّيبَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مُسْلِمِ بْنِ جُنْدَبٍ وَهُوَ مَدَنِيٌّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین چیزیں (ہدیہ و تحفہ میں آئیں) تو وہ واپس نہیں کی جاتی ہیں: تکئے، دہن، اور دودھ، دہن (تیل) سے مراد خوشبو ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- عبداللہ یہ مسلم بن جندب کے بیٹے ہیں اور مدنی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۴۵۳) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلِيفَةَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بَصْرِيٌّ، وَعَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ حَنَانٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْطِيَ أَحَدُكُمُ الرَّيْحَانَ فَلَا يَرُدَّهُ فَإِنَّهُ خَرَجَ مِنَ الْجَنَّةِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُ حَنَانًا إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَقَدْ أَدْرَكَ زَمَنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَرَهُ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ.
ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو خوشبو دی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیونکہ وہ جنت سے نکلی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- حنان (نام کے) راوی کو ہم صرف اسی حدیث میں پاتے ہیں،۳- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو پایا لیکن انہیں آپ کا دیدار نصیب نہ ہوا اور نہ ہی آپ سے کوئی حدیث سن سکے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المراسیل ۹۷ (تحفة الأشراف : ۱۸۹۷۵) (ضعیف) (اولاً یہ مرسل ہے کیوں کہ ابو عثمان النھدی تابعی ہیں، دوسرے اس کا راوی ’’ حنان ‘‘ لین الحدیث ہے)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ حَتَّى تَصِفَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت عورت سے نہ چمٹے یہاں تک کہ وہ اسے اپنے شوہر سے اس طرح بیان کرے گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۱۱۸ (۵۲۴۰) ، سنن ابی داود/ النکاح ۴۴ (۲۱۵۰) (تحفة الأشراف : ۹۲۵۲) ، و مسند احمد (۱/۳۸۷، ۴۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اگر عورت اپنے شوہر سے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف بیان کرے تو اس سے اس کا شوہر فتنہ اور زناکاری میں مبتلا ہو سکتا ہے ، شریعت نے اسی فتنہ کے سد باب کے لیے کسی دوسری عورت کے جسمانی اوصاف کو بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا تَنْظُرُ الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ، وَلَا يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مرد مرد کی شرمگاہ اور عورت عورت کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے، اور مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں ننگا ہو کر نہ لیٹے اور عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن، غریب صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۲۱ (۱۴۳۷) ، سنن ابی داود/ الحمام ۳ (۴۰۱۸) (تحفة الأشراف : ۴۱۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دو مرد یا دو عورتیں ایک ہی کپڑا اوڑھ کر ننگے بدن نہ لیٹ جائیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْهَا وَمَا نَذَرُ ؟ قَالَ: " احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ ؟ قَالَ: " إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَاهَا "، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا ؟ قَالَ: " فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے نبی! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری؟ آپ نے فرمایا: "تم اپنی شرمگاہ اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر ایک سے چھپاؤ"، میں نے پھر کہا: جب لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں (تو ہم کیا اور کیسے کریں؟) آپ نے فرمایا: "تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونا چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے"، میں نے پھر کہا: اللہ کے نبی! جب آدمی تنہا ہو؟ آپ نے فرمایا: "لوگوں کے مقابل اللہ تو اور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۷۶۹ (حسن)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ جَرْهَدٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ جَدِّهِ جَرْهَدٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَرْهَدٍ فِي الْمَسْجِدِ وَقَدِ انْكَشَفَ فَخِذُهُ، فَقَال: " إِنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ مَا أَرَى إِسْنَادَهُ بِمُتَّصِلٍ.
جرہد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جرہد کے پاس (یعنی میرے پاس سے) سے گزرے (اس وقت) ان کی ران کھلی ہوئی تھی تو آپ نے فرمایا: "ران بھی ستر (چھپانے کی چیز) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۲ (تعلیقاً في الترجمة) ، سنن ابی داود/ الحمام ۲ (۴۰۱) (تحفة الأشراف : ۳۲۰۶) ، و مسند احمد (۳/۴۷۸) (ویأتي بعد حدیث) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جَرْهَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ كَاشِفٌ عَنْ فَخِذِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَطِّ فَخِذَكَ فَإِنَّهَا مِنَ الْعَوْرَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
جرہد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی ران کھولے ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اپنی ران ڈھانپ لو کیونکہ یہ ستر (چھپانے کی چیز) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۴۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْفَخِذُ عَوْرَةٌ ".
جرہد اسلمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ران ستر (چھپانے کی چیز) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں علی اور محمد بن عبداللہ بن جحش سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور عبداللہ بن جحش اور ان کے بیٹے محمد رضی الله عنہما دونوں صحابی رسول ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۷۹۵ (صحیح)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَرْهَدٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْفَخِذُ عَوْرَةٌ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ، وَلِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ صُحْبَةٌ، وَلِابْنِهِ مُحَمَّدٍ صُحْبَةٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ران بھی ستر (چھپانے کی چیز) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ، وَيُقَالْ ابْنُ إِيَاسٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ، جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ، فَنَظِّفُوا، أُرَاهُ قَالَ: أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ "، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍفَقَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " نَظِّفُوا أَفْنِيَتَكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَخَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ يُضَعَّفُ، وَيُقَالُ ابْنُ إِيَاسٍ.
صالح بن ابی حسان کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کو کہتے ہوئے سنا: اللہ طیب (پاک) ہے اور پاکی (صفائی و ستھرائی) کو پسند کرتا ہے۔ اللہ مہربان ہے اور مہربانی کو پسند کرتا ہے۔ اور اللہ سخی و فیاض ہے اور جود و سخا کو پسند کرتا ہے، تو پاک و صاف رکھو۔ (میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس سے آگے کہا) اپنے گھروں کے صحنوں اور گھروں کے سامنے کے میدانوں کو، اور یہود سے مشابہت نہ اختیار کرو"۔ (صالح کہتے ہیں) میں نے اس (روایت) کا مہاجر بن مسمار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے اس کو عامر بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ البتہ مہاجر نے «نظفوا أفنيتكم» کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- خالد بن الیاس ضعیف سمجھے جاتے ہیں اور انہیں خالد بن ایاس بھی کہا جاتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۸۹۴) (ضعیف) (سند میں مہاجر بن سمار لین الحدیث ہیں، لیکن ’’ نظفوا أفنيتكم … الخ ‘‘ اور ’’ جواد يحب الجواد ‘‘ کے ٹکڑے متابعات کی بنا پر صحیح ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے: الصحیحة رقم: ۱۶۲۷)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ، فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لَا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْغَائِطِ، وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَحْيُوهُمْ وَأَكْرِمُوهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو مُحَيَّاةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ يَعْلَى.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ ننگے ہونے سے بچو، کیونکہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہوتے ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے۔ وہ تو صرف اس وقت جدا ہوتے ہیں جب آدمی پاخانہ جاتا ہے یا اپنی بیوی کے پاس جا کر اس سے ہمبستر ہوتا ہے۔ اس لیے تم ان (فرشتوں)سے شرم کھاؤ اور ان کی عزت کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۳۱۸) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، دیکھیے: الارواء رقم: ۶۴)
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْطَاوُسٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدْخُلِ الْحَمَّامَ بِغَيْرِ إِزَارٍ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُدْخِلْ حَلِيلَتَهُ الْحَمَّامَ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ طَاوُسٍ، عَنْ جَابِرٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ صَدُوقٌ، وَرُبَّمَا يَهِمُ فِي الشَّيْءِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، لَيْثٌ لَا يُفْرَحُ بِحَدِيثِهِ، كَانَ لَيْثٌ يَرْفَعُ أَشْيَاءَ لَا يَرْفَعُهَا غَيْرُهُ فَلِذَلِكَ ضَعَّفُوهُ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ تہہ بند باندھے بغیر غسل خانہ(حمام) میں داخل نہ ہو، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی بیوی کو غسل خانہ (حمام) میں نہ بھیجے، اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اس سند سے جانتے ہیں، ۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں، لیکن بسا اوقات وہ وہم کر جاتے ہیں، ۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں: لیث کی حدیث سے دل خوش نہیں ہوتا۔ لیث بعض ایسی حدیثوں کو مرفوع بیان کر دیتے تھے جسے دوسرے لوگ مرفوع نہیں کرتے تھے۔ انہیں وجوہات سے لوگوں نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الغسل ۲ (۴۰۱) (بعضہ) (تحفة الأشراف : ۲۲۸۴) ، و مسند احمد (۳/۳۳۹) (حسن) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، الإروائ: ۱۹۴۹، غایة المرام ۱۹۰)
وضاحت: ۱؎ : یہ حمامات عمومی غسل خانے ہوا کرتے تھے ، جس میں مرد اور عورتیں سب کے سب ننگے نہاتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو تہہ بند باندھ کر نہانے کی اجازت دی ، جب کہ عورتوں کو اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے ، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر وہ مجلس جہاں نشہ آور اور حرام چیزوں کا دور چل رہا ہو اس میں شریک ہونا درست نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي عُذْرَةَ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ عَنِ الْحَمَّامَاتِ ثُمَّ رَخَّصَ لِلرِّجَالِ فِي الْمَيَازِرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَائِمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کو حمامات (عمومی غسل خانوں) میں جا کر نہانے سے منع فرمایا۔ پھر مردوں کو تہہ بند پہن کر نہانے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند ویسی مضبوط نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحمام ۱ (۴۰۰۹) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۸ (۳۷۴۹) (تحفة الأشراف : ۱۷۷۹۸) ، و مسند احمد (۶/۱۷۹) (ضعیف) (سند میں ابو عذرہ مجہول تابعی ہیں، صحابی نہیں ہیں: غایة المرام رقم ۱۹۰)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَال: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ الْهُذَلِيِّ، أَنَّ نِسَاءً مِنْ أَهْلِ حِمْصَ، أَوْ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ دَخَلْنَ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: أَنْتُنَّ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ نِسَاؤُكُنَّ الْحَمَّامَاتِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنَ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا هَتَكَتِ السِّتْرَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ اہل حمص یا اہل شام کی کچھ عورتیں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم وہی ہو جن کی عورتیں حمامات(عمومی غسل خانوں) میں نہانے جایا کرتی ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے سوا اپنے کپڑے کہیں دوسری جگہ اتار کر رکھتی ہے وہ عورت اپنے اور اپنے رب کے درمیان سے حجاب کا پردہ اٹھا دیتی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحمام ۱ (۴۰۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۸ (۳۷۵۰) (تحفة الأشراف : ۱۷۸۰۴) ، و مسند احمد (۶/۱۹۹) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۲۳ (۲۶۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وعبد بن حميد، وغير واحد، واللفظ للحسن بن علي، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا طَلْحَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو، اور نہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں جاندار مجسموں کی تصویر ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۷ (۳۲۲۵، ۳۲۲۶) ، و۱۷ (۳۳۲۲) ، سنن ابی داود/ المغازي ۱۲ (۴۰۰۲) ، واللباس ۸۸ (۵۹۴۹) ، و ۵۲ (۵۹۵۸) ، صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۶) ، سنن ابی داود/ اللباس ۴۸ (۴۱۵۳) ، سنن النسائی/الصید والذبائح ۱۱ (۴۲۸۷) ، والزینة ۱۱۱ (۵۳۴۹) ، سنن ابن ماجہ/اللباس ۴۴ (۳۶۴۹) (تحفة الأشراف : ۳۷۷۹) ، و مسند احمد (۴/۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایسے کتے جو کھیت اور و جائیداد کی نگرانی نیز شکار کے لیے ہوں وہ مستثنیٰ ہیں ، اسی طرح تصویر سے بے جان چیزوں کی تصویریں مستثنیٰ ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّرَافِعَ بْنَ إِسْحَاق أَخْبَرَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أبِي طَلْحَةَ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ نَعُودُهُ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍأَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ: " الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ تَمَاثِيلُ أَوْ صُورَةٌ "، شَكَّ إِسْحَاق لَا يَدْرِي أَيُّهُمَا قَالَ: قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی ہے: "فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے ہوں یا تصویر ہو"، (اس حدیث میں اسحاق راوی کو شک ہو گیا کہ ان کے استاد نے «تماثیل» اور «صورة» دونوں میں سے کیا کہا؟ انہیں یاد نہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۰۳۱) وانظر موطا امام مالک/الاستئذان ۳ (۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَتَيْتُكَ الْبَارِحَةَ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَكُونَ دَخَلْتُ عَلَيْكَ الْبَيْتَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فِي بَابِ الْبَيْتِ تِمْثَالُ الرِّجَالِ، وَكَانَ فِي الْبَيْتِ قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ، وَكَانَ فِي الْبَيْتِ كَلْبٌ، فَمُرْ بِرَأْسِ التِّمْثَالِ الَّذِي بِالْبَابِ فَلْيُقْطَعْ، فَلْيُصَيَّرْ كَهَيْئَةِ الشَّجَرَةِ، وَمُرْ بِالسِّتْرِ فَلْيُقْطَعْ، وَيُجْعَلْ مِنْهُ وِسَادَتَيْنِ مُنْتَبَذَتَيْنِ يُوطَآَنِ، وَمُرْ بِالْكَلْبِ فَيُخْرَجْ، فَفَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ ذَلِكَ الْكَلْبُ جَرْوًا لِلْحَسَنِ أَوْ الْحُسَيْنِ تَحْتَ نَضَدٍ لَهُ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي طَلْحَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس جبرائیل علیہ السلام نے آ کر کہا: "کل رات میں آپ کے پاس آیا تھا لیکن مجھے آپ کے پاس گھر میں آنے سے اس بات نے روکا کہ آپ جس گھر میں تھے اس کے دروازے پر مردوں کی تصویریں تھیں اور گھر کے پردے پر بھی تصویریں تھیں۔ اور گھر میں کتا بھی تھا، تو آپ ایسا کریں کہ دروازے کی «تماثیل» (مجسموں) کے سر کو اڑوا دیجئیے کہ وہ مجسمے پیڑ جیسے ہو جائیں، اور پردے پھڑوا کر ان کے دو تکیے بنوا دیجئیے جو پڑے رہیں اور روندے اور استعمال کیے جائیں۔ اور کتے کو نکال بھگائیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ اور وہ کتا ایک پلا تھا حسن یا حسین کا ان کی چارپائی کے نیچے رہتا تھا، چنانچہ آپ نے اسے بھگا دینے کا حکم دیا اور اسے بھگا دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ اور ابوطلحہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۴۸ (۴۱۵۸) ، سنن النسائی/الزینة ۱۱۵) (۵۳۸۰) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۴۵) ، و مسند احمد (۲/۳۰۵، ۳۰۸، ۴۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: " مَرَّ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَحْمَرَانِ فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُمْ كَرِهُوا لُبْسَ الْمُعَصْفَرِ، وَرَأَوْا أَنَّ مَا صُبِغَ بِالْحُمْرَةِ بِالْمَدَرِ، أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مُعَصْفَرًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص سرخ رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے گزرا۔ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس حدیث سے اہل علم کے نزدیک مراد یہ ہے کہ وہ زرد رنگ میں رنگا ہوا کپڑا پہننا مکروہ سمجھتے ہیں۔ اور جو کپڑا گیروے رنگ وغیرہ میں رنگا جائے اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب کہ وہ کسم کا نہ ہو (یعنی زرد رنگ کا نہ ہو)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۲۰ (۴۰۶۹) (تحفة الأشراف : ۸۹۱۸) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو یحییٰ القتات لین الحدیث ہیں، مگر دیگر روایات سے اس کا معنی ثابت ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ بْنُ أَبِي طًالِبٍ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ، وَعَنِ الْقَسِّيِّ، وَعَنِ الْمِيثَرَةِ، وَعَنِ الْجِعَةِ "، قَالَ أَبُو الْأَحْوَصِ: وَهُوَ شَرَابٌ يُتَّخَذُ بِمِصْرَ مِنَ الشَّعِيرِ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے (مردوں کو) سونے کی انگوٹھی پہننے سے، قسی کے (ریشم ملے ہوئے) کپڑے پہننے سے، زین پر رکھنے والی ریشمی گدیلے سے اور جَو کی نبیذ سے۔ ابوالا ٔحوص کہتے ہیں «جعه» ایک شراب ہے جو مصر میں جَو سے بنائی جاتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۲۶۴ (تحفة الأشراف : ۱۰۳۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ، وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ، أَمَرَنَا: بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ، وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَإِجَابَةِ الدَّاعِي، وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ، وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ، وَرَدِّ السَّلَامِ، وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ: عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ، أَوْ حَلْقَةِ الذَّهَبِ، وَآنِيَةِ الْفِضَّةِ، وَلُبْسِ الْحَرِيرِ، وَالدِّيبَاجِ، وَالْإِسْتَبْرَقِ، وَالْقَسِّيِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ هُوَ أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ سُلَيْمُ بْنُ الْأَسْوَدِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات چیزوں کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں کے کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جنازے کے ساتھ جائیں۔ مریض کی عیادت کریں، چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دیں۔ دعوت دینے والے کی دعوت قبول کریں، مظلوم کی مدد کریں، اور قسم کھانے والے کی قسم پوری کرائیں، اور سلام کا جواب دیں کا، اور سات چیزوں سے آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے سونے کی انگوٹھی پہننے، یا سونے کے چھلے استعمال کرنے سے، اور چاندی کے برتنوں سے اور حریر، دیباج، استبرق اور قسی کے پہننے سے (یہ سب ریشمی کپڑے ہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اشعث بن سلیم: یہ اشعث بن ابوشعثاء ہیں، ابوشعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۷۶۰ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَسُوا الْبَيَاضَ فَإِنَّهَا أَطْهَرُ، وَأَطْيَبُ، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ پاکیزہ اور عمدہ لباس ہیں، اور انہیں سفید کپڑوں کا اپنے مردوں کو کفن دو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/اللباس ۵ (۳۵۶۷) (تحفة الأشراف : ۴۶۳۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندگی میں سفید لباس بہتر ، پاکیزہ اور عمدہ ہے ، اس لیے کہ سفید کپڑے میں ملبوس شخص کبر و غرور اور نخوت سے خالی ہوتا ہے ، جب کہ دوسرے رنگوں والے لباس میں متکبر ین یا عورتوں سے مشابہت کا امکان ہے ، اپنے مُردوں کو بھی انہی سفید کپڑوں میں دفنانا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الْأَشْعَثِ وَهُوَ ابْنُ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا(کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اشعث کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۲۲۰۸) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں، انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا سنن الدارمی/ ہے، براء بن عازب کی روایت رقم ۱۷۲۴ پر گزر چکی ہے)
وضاحت: ۱؎ : بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں ، ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔
وَرَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةً حَمْرَاءَ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں اور ابواسحاق نے براء بن عازب سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر سرخ جوڑا دیکھا، ہم سے بیان کیا اسی طرح محمود بن غیلان نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا وکیع نے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا سفیان نے اور انہوں نے روایت کیا ابواسحاق سے۔
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق بِهَذَا، وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، قَالَ: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا، قُلْتُ لَهُ: حَدِيثُ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ أَصَحُّ، أَوْ حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ؟ فَرَأَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحًا، وَفِي الْبَابِ، عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ.
مجھ سے بیان کیا محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیا شعبہ نے اور انہوں نے روایت کی اسی طرح ابواسحاق سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں اس سے زیادہ کلام ہے۔ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا، میں نے کہا: ابواسحاق کی حدیث جو براء سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے یا جابر بن سمرہ کی؟ تو انہوں نے دونوں ہی حدیثوں کو صحیح قرار دیا، ۲- اس باب میں براء اور ابوجحیفہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ إِيَادٍ، وَأَبُو رِمْثَةَ التَّيْمِيُّ يُقَالُ اسْمُهُ حَبِيبُ بْنُ حَيَّانَ، وَيُقَالُ اسْمُهُ رِفَاعَةُ بْنُ يَثْرِبِيٍّ.
ابورمثہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو سبز کپڑے استعمال کئے ہوئے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عبیداللہ بن ایاد کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- ابورمثہ تیمی کا نام حبیب بن حیان ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا نام رفاعہ بن یثربی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللباس ۱۹ (۴۰۶۵) ، والترجل ۱۸ (۴۲۰۶) ، سنن النسائی/العیدین ۱۶ (۱۵۷۱) ، والزینة ۹۶ (۵۳۳۴) (تحفة الأشراف : ۱۳۰۳۶) ، و مسند احمد (۲/۲۲۶، ۲۲۷، ۲۲۸) ، و (۴/۱۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے، اس وقت آپ کالے بالوں کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۶ (۲۰۸۱) ، وفضائل الصحابة ۹ (۲۴۲۴) (تحفة الأشراف : ۱۷۸۵۷) ، و مسند احمد (۶/۱۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ الصَّفَّارُ أَبُو عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَسَّانَ، أَنَّهُ حَدَّثَتْهُ جَدَّتَاهُصَفِيَّةُ بِنْتُ عُلَيْبَةَ، وَدُحَيْبَةُ بِنْتُ عُلَيْبَةَ حَدَّثَتَاهُ، عَنْ قَيْلَة بِنْتِ مَخْرَمَةَ، وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْهَا، وَقَيْلَةُ جَدَّةُ أَبِيهِمَا أُمُّ أُمِّهِ، أَنَّهَا قَالَتْ: " قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتِ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ حَتَّى جَاءَ رَجُلٌ وَقَدِ ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، وَعَلَيْهِ تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَالُ مُلَيَّتَيْنِ كَانَتَا بِزَعْفَرَانٍ وَقَدْ نَفَضَتَا، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَسِيبُ نَخْلَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ قَيْلَةَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَّانَ.
قیلہ بنت مخرمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے پھر انہوں نے پوری لمبی حدیث بیان کی (اس میں ہے کہ) ایک شخص اس وقت آیا جب سورج چڑھ آیا تھا۔ اس نے کہا: «السلام علیک یا رسول اللہ» ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وعلیک السلام ورحمة اللہ» ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کے جسم) پر دو پرانے کپڑے تھے۔ وہ زعفران سے رنگے ہوئے تھے، اور کثرت استعمال سے ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا ۱؎ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کی ایک شاخ تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: قیلہ کی حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن حسان کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الخراج والإمارة ۳۶ (۳۰۷۰) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۴۷) (حسن) (ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۳۹۲)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : زعفران کا اثر ختم ہو چکا تھا ، اس لیے یہ حدیث اگلی حدیث کے منافی نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: . ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْحَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مردوں کو) زعفرانی رنگ کے استعمال سے منع فرمایا ہے، مردوں کے لیے زعفران کے استعمال کی کراہت کا مطلب یہ ہے کہ مرد زعفران کی خوشبو نہ لگائیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۳۳ (۵۸۴۶) ، صحیح مسلم/اللباس ۲۳ (۲۱۰۱) ، سنن ابی داود/ الترجل۸ (۴۱۷۹) ، سنن النسائی/الحج ۴۳ (۲۷۰۷) ، وا الزینة ۷۳ (۵۲۵۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۱۱) (صحیح)
وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ التَّزَعْفُرِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا آدَمُ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى كَرَاهِيَةِ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ يَعْنِي أَنْ يَتَطَيَّبَ بِهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو زعفرانی رنگ کے استعمال سے روکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُرَّةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ رَجُلًا مُتَخَلِّقًا، قَالَ: " اذْهَبْ فَاغْسِلْهُ ثُمَّ اغْسِلْهُ ثُمَّ لَا تَعُدْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدِ اخْتَلَفَ بَعْضُهُمْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ عَلِيٌّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَنْ سَمِعَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَدِيمًا فَسَمَاعُهُ صَحِيحٌ، وَسَمَاعُ شُعْبَةَ، وَسُفْيَانَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ صَحِيحٌ، إِلَّا حَدِيثَيْنِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، قَالَ شُعْبَةُ: سَمِعْتُهُمَا مِنْهُ بِآخِرَةٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: يُقَالُ إِنَّ عَطَاءَ بْنَ السَّائِبِ كَانَ فِي آخِرِ أَمْرِهِ قَدْ سَاءَ حِفْظُهُ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَمَّارٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَأَنَسٍ، وَأَبُو حَفْصٍ هُوَ أَبُو حَفْصِ بْنُ عُمَرَ.
یعلیٰ بن مرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خلوق لگائے ہوئے دیکھا ۱؎، تو آپ نے فرمایا: "جاؤ اسے دھو ڈالو۔ پھر دھو ڈالو، پھر (آئندہ کبھی) نہ لگاؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض لوگوں نے عطا بن سائب سے اس حدیث کی اسناد میں اختلاف کیا ہے، ۳- علی (علی ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے کہ جس نے عطاء بن سائب سے ان کی زندگی کے پرانے (پہلے) دور میں سنا ہے تو اس کا سماع صحیح ہے اور شعبہ اور سفیان ثوری کا عطاء بن سائب سے سماع صحیح ہے مگر دو حدیثیں جو عطاء سے زاذان کے واسطہ سے مروی ہیں تو وہ صحیح نہیں ہیں، ۴- شعبہ کہتے ہیں میں نے ان دونوں حدیثوں کو عطاء سے ان کی عمر کے آخری دور میں سنا ہے۔ (اور یہ حدیث ان میں سے نہیں ہے)، ۵- کہا جاتا ہے کہ عطاء بن سائب کا حافظہ ان کے آخری دور میں بگڑ گیا تھا، ۶- اس باب میں عمار، ابوموسیٰ، اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۳۴ (۵۱۲۴) (تحفة الأشراف : ۱۱۸۴۹) ، و مسند احمد (۴/۱۷۱، ۱۷۳) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو حفص مجہول راوی ہے)
وضاحت: ۱؎ : «خلوق» : ایک قسم کی خوشبو ہے جو عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي مَوْلَى أَسْمَاءَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ يَذْكُرُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَحُذَيْفَةَ، وَأَنَسٍ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ، وَقَدْ ذَكَرْنَاهُ فِي كِتَابِ اللِّبَاسِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، وَمَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ وَيُكْنَى أَبَا عَمْرٍو، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی الله عنہ کو یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دنیا میں «حریر»(ریشمی کپڑا) پہنا تو وہ اسے آخرت (یعنی جنت) میں نہ پہنے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث کئی سندوں سے اسماء بنت ابی بکر کے آزاد کردہ غلام ابوعمرو سے مروی ہے۔ ان کا نام عبداللہ اور ان کی کنیت ابوعمرو ہے، ان سے عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار نے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، حذیفہ، انس رضی الله عنہم اور دیگر کئی لوگوں سے بھی احادیث آئی ہیں، جن کا ذکر ہم کتاب اللباس میں کر چکے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۱ (۲۰۶۹) (تحفة الأشراف : ۱۰۵۴۲) ، و مسند احمد (۱/۲۰، ۲۶، ۳۶، ۳۹) (صحیح) (ھذا من مسند عمر رضی الله عنہ، وقد أخرجہ من مسند ابن عمر کل من: صحیح البخاری/الجمعة ۷ (۸۸۶، والعیدین ۱ (۹۳۸) ، والھبة ۲۷ (۲۶۱۲) ، والجھاد ۱۷۷ (۳۰۵۴) ، واللباس ۳۰ (۵۸۴۱) ، والأدب ۹ (۵۹۸۱) ، و ۶۶ (۶۰۸۱) ، وصحیح مسلم/المصدر المذکور (۲۰۶۸) ، و سنن ابی داود/ الصلاة ۲۱۹ (۱۰۷۶) ، واللباس ۱۰ (۴۰۴۰) ، سنن النسائی/الجمعة ۱۱ (۱۳۸۳) ، والزینة ۸۳ (۵۱۶۱) ، وسنن ابن ماجہ/اللباس ۱۶ (۳۵۹۱) ، وط/اللباس ۸ (۱۸) ، و مسند احمد (۲/۲۰، ۳۹، ۴۹) (بذکر قصة)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَسَمَ أَقْبِيَةً، وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا "، فَقَالَ مَخْرَمَةُ: يَا بُنَيَّ، انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، قَالَ: ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي، فَدَعَوْتُهُ لَهُ، فَخَرَج النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ قِبَاءٌ مِنْهَا، فَقَالَ: " خَبَأْتُ لَكَ هَذَا "، قَالَ: فَنَظَر إِلَيْهِ، فَقَال: " رَضِيَ مَخْرَمَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قبائیں تقسیم کیں، اور مخرمہ کو (ان میں سے) کچھ نہ دیا۔ مخرمہ رضی الله عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر چلو، تو میں ان کے ساتھ گیا۔ انہوں نے کہا: تم اندر جاؤ اور آپ کو میرے پاس بلا لاؤ، چنانچہ میں آپ کو ان کے پاس بلا کر لانے کے لیے چلا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر تشریف لائے۔ تو آپ کے پاس ان قباؤں میں سے ایک قباء تھی"، آپ نے فرمایا: "یہ میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی"۔ مسور کہتے ہیں: پھر مخرمہ نے آپ کو دیکھا اور بول اٹھے: مخرمہ اسے پا کر خوش ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن ابی ملیکہ کا نام عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة ۱۹ (۲۵۹۹) ، والشھادات ۱۱ (۲۱۲۷) ، والخمس ۱۱ (۳۱۲۷) ، واللباس ۱۲ (۵۸۰۰) ، و ۴۲ (۵۸۶۲) ، والأدب ۸۲ (۶۱۳۲) ، صحیح مسلم/الزکاة ۴۴ (۱۰۵۸) ، سنن ابی داود/ اللباس ۴ (۴۰۲۸) ، سنن النسائی/الزینة ۹۹ (۵۳۲۶) (تحفة الأشراف : ۱۱۲۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يُحِبَّ أَنْ يَرَى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوالاحوص کے باپ، عمران بن حصین اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۷۷۴) (صحیح) (یہ سند حسن درجے کی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جس کی جیسی اچھی حیثیت ہو اسی لحاظ سے وہ حدود شریعت میں رہتے ہوئے اچھا کھائے پیے اور اچھا پہنے خوشحالی کے باوجود پھٹیچر نہ بنا رہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَلْهَمِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، " أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُفَّيْنِ أَسْوَدَيْنِ سَاذَجَيْنِ، فَلَبِسَهُمَا ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ دَلْهَمٍ، وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ دَلْهَمٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نجاشی (شاہ حبشہ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کالے رنگ کے موزے بھیجے، آپ نے انہیں پہنا، پھر آپ نے وضو کیا اور ان دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ہم اسے صرف دلہم کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- محمد بن ربیعہ نے دلہم (راوی) سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطھارة ۵۹ (۱۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۸۴ (۵۴۹) ، واللباس ۳۱ (۳۶۲۰) (تحفة الأشراف : ۱۹۵۶) ، و مسند احمد (۵/۳۵۲) (حسن) (سند میں دلھم ضعیف ہیں، اور حجیر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۱۴۴)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ، وَقَالَ: إِنَّهُ نُورُ الْمُسْلِمِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کے (سفید) بال اکھیڑنے سے منع کیا، اور فرمایا ہے: "یہ تو مسلمان کا نور ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن حارث اور کئی دیگر لوگوں سے یہ حدیث عمر بن شعیب کے واسطہ سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأدب ۲۵ (۳۷۲۱) (تحفة الأشراف : ۸۷۸۸۳) (حسن صحیح) (الصحیحة ۱۲۴۳)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ داڑھی اور سر میں جو بال سفید ہو چکے ہیں انہیں نہیں اکھاڑنا چاہیئے ، اس لیے کہ یہ انسان کو غرور اور نفسانی شہوات میں مبتلا ہونے سے روکتے ہیں ، کیونکہ ان سے انسان کے اندر تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ شَيْبَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيِّ، وَشَيْبَانُ هُوَ صَاحِبُ كِتَابٍ وَهُوَ صَحِيحُ الْحَدِيثِ وَيُكْنَى أَبَا مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ: إِنِّي لَأُحَدِّثُ الْحَدِيثَ فَمَا أَدْعُ مِنْهُ حَرْفًا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشیر جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امانت دار ہونا چاہیئے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- متعدد لوگوں نے شیبان بن عبدالرحمٰن نحوی سے روایت کی ہے، اور شیبان، صاحب کتاب اور صحیح الحدیث ہیں، اور ان کی کنیت ابومعاویہ ہے، ۳- ہم سے عبدالجبار بن علاء عطار نے بیان کیا، انہوں نے روایت کی سفیان بن عیینہ سے وہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن عمیر نے کہا: جب میں حدیث بیان کرتا ہوں تو اس حدیث کا ایک ایک لفظ (یعنی پوری حدیث) بیان کر دیتا ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدٰیث رقم ۲۳۶۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے ، وہ مشورہ لینے والے کی نگاہ میں امانت دار سمجھاتا ہے ، اس لیے اس امانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ایمانداری سے مشورہ دے اور مشورہ دینے کے بعد مشورہ لینے والے کے راز کو دوسروں پر ظاہر نہ کرے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشیر یعنی جس سے مشورہ لیا جائے اس کو امین ہونا چاہیئے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حدیث ام سلمہ رضی الله عنہا کی روایت سے غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۲۹۹) (صحیح) (سند میں عبد الرحمن بن زید بن جدعان کی دادی (جدة) مجہول راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، وَحَمْزَةَ، ابني عبد الله بن عمر، عَنْ أَبِيهِمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ: فِي الْمَرْأَةِ، وَالْمَسْكَنِ، وَالدَّابَّةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ لَا يَذْكُرُونَ فِيهِ عَنْ حَمْزَةَ، إِنَّمَا يَقُولُونَ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نحوست تین چیزوں میں ہے (۱) عورت میں (۲) گھر میں (۳) اور جانور(گھوڑے) میں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ) اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے «عن حمزة» کا ذکر نہیں کرتے بلکہ «عن سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۴۷ (۲۸۵۸) ، والنکاح ۱۷ (۵۰۹۳، ۵۰۹۴) ، والطب ۴۳ (۵۷۵۳) ، صحیح مسلم/السلام ۳۴ (۲۲۵۵) ، سنن النسائی/الخیل ۵ (۳۵۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۶۶۹۹، ۶۸۲۶) ، موطا امام مالک/الاستئذان ۸ (۲۲) ، و مسند احمد (۲/۸، ۳۶، ۱۱۵، ۱۲۶) (صحیح) (اس روایت میں ’’ الشؤم في … ‘‘ کا لفظ شاذ ہے، صحیحین کے وہ الفاظ صحیح ہیں جو یہ ہیں ’’ إن كان الشؤم ففي … ‘‘ یعنی اگر نحوست کا وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں ہوتا، الصحیحة ۴۴۳، ۷۹۹، ۱۸۹۷)
وَهَكَذَا رَوَى لَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، وَحَمْزَةَ، ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یہ حدیث ابن ابی عمر نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے زہری سے، زہری نے عبداللہ بن عمر کے دونوں بیٹے سالم اور حمزہ سے اور ان دونوں نے اپنے والد عبداللہ سے اور عبداللہ بن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَمْزَةَ، وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ، لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، وَالْحُمَيْدِيَّ رَوَيَا عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَذَكَرَا عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: لَمْ يَرْوِ لَنَا الزُّهْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى مَالِكٌ بْنُ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ: عَنْ سَالِمٍ، وَحَمْزَةَ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِمَا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالْمَسْكَنِ ".
اور ہم سے سعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان نے بیان کیا: سفیان نے زہری سے، زہری نے سالم سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سعید بن عبدالرحمٰن نے «عن حمزة» کا ذکر اس حدیث میں نہیں کیا، سعید کی روایت «اصح» (صحیح تر) ہے اس لیے کہ علی ابن مدینی اور حمیدی دونوں نے سفیان سے، سفیان نے زہری سے، زہری نے سالم کے واسطہ سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر) سے روایت کی ہے۔ ان دونوں نے سفیان کے واسطے سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں: ہم سے یہ حدیث زہری نے سالم ہی کے واسطے سے روایت کی ہے اور سالم نے (اپنے باپ) ابن عمر سے روایت کی ہے، ۲- مالک نے یہ حدیث زہری سے روایت کرتے ہوئے «عن سالم وحمزة ابني عبد الله بن عمر عن أبيهما» کہا، ۳- اس باب میں سہل بن سعد، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو وہ عورت، جانور اور گھر میں ہوتی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: * تخريج : (صحیح)(روایات میں یہی لفظ زیادہ صحیح ہے کما تقدم فی الہامش)
وضاحت: ۱؎ : عورت کی نحوست یہ ہے کہ عورت زبان دراز یا بدخلق ہو ، گھوڑے کی نحوست یہ ہے کہ وہ لات مارے اور دانت کاٹے اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ پڑوسی اچھے نہ ہوں ، یا گرمی وسردی کے لحاظ سے وہ آرام دہ نہ ہو۔ : اور اسی لفظ سے یہ حدیث محفوظ ہے ، باقی الفاظ میں اختلاف ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، قَال: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا شُؤْمَ، وَقَدْ يَكُونُ الْيُمْنُ فِي الدَّارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْيَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
حکیم بن معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کسی بھی چیز میں) کوئی نحوست نہیں ہے اور خیر و برکت گھر میں، عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔ ہم سے اس کی روایت علی بن حجر نے کی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا اسماعیل بن عیاش نے اور اسماعیل نے سلمان سے، سلیمان بن سلیم نے یحییٰ بن جابر طائی سے، یحییٰ نے معاویہ بن حکیم سے معاویہ نے اپنے چچا حکیم بن معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۵ (۱۹۹۳) (تحفة الأشراف : ۳۴۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، وَقَالَ سُفْيَانُ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ، فَإِنَّ ذَلِكَ يُؤْذِي الْمُؤْمِنَ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَكْرَهُ أَذَى الْمُؤْمِنِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم تین آدمی ایک ساتھ ہو، تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی نہ کریں"، سفیان نے اپنی روایت میں «لا يتناجى اثنان دون الثالث فإن ذلك يحزنه» کہا ہے، یعنی "تیسرے شخص کو چھوڑ کر دو سرگوشی نہ کریں کیونکہ اس سے اسے دکھ اور رنج ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: "ایک کو نظر انداز کر کے دو سرگوشی نہ کریں، کیونکہ اس سے مومن کو تکلیف پہنچتی ہے، اور اللہ عزوجل مومن کی تکلیف کو پسند نہیں کرتا ہے"، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۴۵ (۶۲۸۸) ، و ۴۷ (۶۲۹۰) ، صحیح مسلم/السلام ۱۵ (۲۱۸۴) ، سنن ابی داود/ الأدب ۲۹ (۴۸۵۱) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۵۰ (۳۷۷۵) (تحفة الأشراف : ۹۲۵۳) ، وط/السلام ۶ (۱۳) ، و مسند احمد (۱/۴۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْيَضَ قَدْ شَابَ، وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ، وَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ قَلُوصًا، فَذَهَبْنَا نَقْبِضُهَا فَأَتَانَا مَوْتُهُ فَلَمْ يُعْطُونَا شَيْئًا، فَلَمَّا قَامَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ فَلْيَجِئْ، فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَمَرَ لَنَا بِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ هَذَا الْحَدِيثَ بِإِسْنَادٍ لَهُ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، نَحْوَ هَذَا وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ، وَلَمْ يَزِيدُوا عَلَى هَذَا.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورا چٹا دیکھا، آپ پر بڑھاپا آ چلا تھا حسن بن علی رضی الله عنہما (شکل و صورت میں) آپ کے مشابہ تھے۔ آپ نے تیرہ (۱۳) جوان اونٹنیاں ہم کو عنایت کرنے کے لیے حکم صادر فرمایا، ہم انہیں لینے کے لیے گئے ہی تھے کہ اچانک آپ کے انتقال کی خبر آ گئی، چنانچہ لوگوں نے ہمیں کچھ نہ دیا، پھر جب ابوبکر رضی الله عنہ نے مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہوں نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس کسی کا بھی کوئی عہد و پیمان ہو تو وہ ہمارے پاس آئے (اور پیش کرے) چنانچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور انہیں آپ کے حکم سے آگاہ کیا، تو انہوں نے ہمیں ان اونٹنیوں کے دینے کا حکم فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- مروان بن معاویہ نے یہ حدیث اپنی سند سے ابوجحیفہ رضی الله عنہ کے واسطے سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- کئی اور لوگوں نے بھی اسماعیل بن ابوخالد کے واسطہ سے ابوجحیفہ سے روایت کی ہے، (اس روایت میں ہے) وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے حسن بن علی رضی الله عنہما آپ کے مشابہ تھے۔ اور انہوں نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۴۴) ، صحیح مسلم/الفضائل ۲۹ (۲۳۴۳) (تحفة الأشراف : ۱۱۷۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِهُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، نَحْوَ هَذَا. وَفِي الْبَابِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُهُ وَهْبٌ السُّوَائِيُّ.
ابوجحیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، حسن بن علی رضی الله عنہما آپ کے مشابہ تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح کئی ایک نے اسماعیل بن ابوخالد سے اسی جیسی روایت کی ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- ابوجحیفہ رضی الله عنہ کا نام وہب سوائی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ أَبَوَيْهِ لِأَحَدٍ غَيْرَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے اپنے ماں باپ کو جمع کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۸۰ (۲۹۰۵) ، والمغازي ۱۸ (۴۰۵۸، ۴۰۵۹) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۵۱ (۲۴۱۱) ، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۷۷ (۱۹۰-۱۹۴) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۱ (۱۲۹) ، وانظر رقم ۲۸۳۰ (تحفة الأشراف : ۱۰۱۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی «فداک ابی امی» " میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں " ایسا سعد بن ابی وقاص کے سوا کسی کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا ، سعد کے لیے استعمال سے ثابت ہوا کہ اور کسی کے لیے بھی یہ جملہ کہا جا سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعَا سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، يَقُولُ: قَالَ عَلِيٌّ: " مَا جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَاهُ وَأُمَّهُ لِأَحَدٍ إِلَّا لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ لَهُ يَوْمَ أُحُدٍ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، وَقَالَ لَهُ: ارْمِ أَيُّهَا الْغُلَامُ الْحَزَوَّرُ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد اور اپنی ماں کو سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے سوا کسی کے لیے جمع نہیں کیا۔ جنگ احد میں آپ نے ان سے کہا: "تیر چلاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں"، اور آپ نے ان سے یہ بھی کہا: "اے بہادر قوی جوان! تیر چلاتے جاؤ"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث علی سے متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے، ۳- اس حدیث کو متعدد لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے، یحییٰ نے سعید بن مسیب سے، سعید بن مسیب نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو یکجا کر دیا۔ آپ نے فرمایا: "تیر چلائے جاؤ، تم پر ہمارے ماں باپ قربان ہوں"، ۴- اس باب میں زبیر اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، اور ان کی روایت میں ’’ الغلام الحزور ‘‘ کا لفظ صحیح نہیں ہے، بقیہ حدیث صحیح کے متابعات و شواہد صحیحین میں موجود ہیں)
وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: " جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ، قَالَ: ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَااللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: " جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ "، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَكِلا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی لڑائی کے دن میرے لیے «فداك أبي وأمي» کہہ کر اپنے ماں باپ کو یکجا کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل الصحابة ۱۵ (۳۷۲۵) ، والمغازي ۱۸ (۴۰۵ ¤ ۵- ۴۰۵۷) ، صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۵۱ (۲۴۱۲) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۱ (۱۳۰) (تحفة الأشراف : ۳۸۵۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ شَيْخٌ لَهُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: " يَا بُنَيَّ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَعُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَنَسٍ، وَأَبُو عُثْمَانَ هَذَا شَيْخٌ ثِقَةٌ، وَهُوَ الْجَعْدُ بْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ ابْنُ دِينَارٍ وَهُوَ بَصْرِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَشُعْبَةُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «يا بني» "اے میرے بیٹے" کہہ کر پکارا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس سند کے علاوہ کچھ دیگر سندوں سے بھی انس سے روایت ہے، ۳- ابوعثمان یہ ثقہ شیخ ہیں اور ان کا نام جعد بن عثمان ہے، اور انہیں ابن دینار بھی کہا جاتا ہے اور یہ بصرہ کے رہنے والے ہیں۔ ان سے یونس بن عبید اور کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے، ۴-اس باب میں مغیرہ اور عمر بن ابی سلمہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الآداب ۶ (۲۱۵۱) ، سنن ابی داود/ الأدب ۷۳ (۴۹۶۴) (تحفة الأشراف : ۵۱۴) ، و مسند احمد (۳/۲۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے ثابت ہوا کہ اپنے بیٹے کے علاوہ بھی کسی بچے کو " اے میرے بیٹے ! " کہا جا سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، حَدَّثَنِي عَمِّي يَعْقُوبُ بْنُ إِبَرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَ بِتَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ يَوْمَ سَابِعِهِ وَوَضْعِ الْأَذَى عَنْهُ وَالْعَقِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن نومولود بچے کا نام رکھنے اس اور اس کا عقیقہ کر دینے کا حکم دیا۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۷۹۰) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نومولود بچے کا نام اس کی پیدائش کے ساتویں دن رکھا جائے ، بچے کی پیدائشی آلائش صاف کر کے یعنی اس کے سر کے بال اتروا کر بچے کو نہلایا جائے اور ساتویں روز اس کا عقیقہ کیا جائے ، یہ افضل ہے ، ایسے عائشہ رضی الله عنہا کے فرمان کے مطابق چودھویں یا اکیسویں کو بھی ایسا کیا جا سکتا ہے (حاکم)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْوَرَّاقُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الآداب ۱ (۲۱۳۲) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۰ (۳۷۲۸) (تحفة الأشراف : ۷۷۲۰) ، وحإ (۲/۲۴، ۱۲۸) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۶۰ (۲۷۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ لفظ «عبد» لگا کر رکھے جانے والے نام اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہیں۔
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْن عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ " هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۷۷۲۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْهَيَنَّ أَنْ يُسَمَّى رَافِعٌ، وَبَرَكَةُ، وَيَسَارٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا رَوَاهُ أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ، وَرَوَاهُ غَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو أَحْمَدَ ثِقَةٌ حَافِظٌ، وَالْمَشْهُورُ عِنْدَ النَّاسِ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ فِيهِ عَنْ عُمَرَ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ) رافع، برکت اور یسار نام رکھنے سے منع کر دوں گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسی طرح اسے ابواحمد نے سفیان سے ابوسفیان نے ابوزبیر سے ابوزبیر نے جابر سے اور انہوں نے عمر سے روایت کی ہے۔ اور ابواحمد کے علاوہ نے سفیان سے سفیان نے ابوزبیر سے اور ابوزبیر نے جابر سے جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- ابواحمد ثقہ ہیں حافظ ہیں، ۴- لوگوں میں یہ حدیث «عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم» مشہور ہے اور اس حدیث میں «عن عمر» (عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے) کی سند سے کا ذکر نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۱ (وراجع صحیح مسلم/الآدب ۲ (۲۱۳۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۴۲۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُسَمِّ غُلَامَكَ رَبَاحٌ وَلَا أَفْلَحُ وَلَا يَسَارٌ وَلَا نَجِيحٌ "، يُقَالُ: أَثَمَّ هُوَ ؟ فَيُقَالُ: " لَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے غلام کا نام رباح، افلح، یسار اور نجیح نہ رکھو (کیونکہ) پوچھا جائے کہ کیا وہ یہاں ہے؟ تو کہا جائے گا: نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الآداب ۲ (۲۱۳۷) ، سنن ابی داود/ الأدب ۷۰ (۴۹۵۸، ۴۹۵۹) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۱ (۳۷۳۰) (تحفة الأشراف : ۴۶۱۲) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۶۱ (۲۷۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «رباح» فائدہ دینے والا «افلح» فلاح والا «یسار» آسانی «نجیح» کامیاب رہنے والا ، ان ناموں کے رکھنے سے اس لیے منع کیا گیا کیونکہ اگر کسی سے پوچھا جائے : کیا «افلح» یہاں ہے اور جواب میں کہا جائے کہ نہیں تو لوگ اسے بدفالی سمجھ کر اچھا نہ سمجھیں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تَسَمَّى بِمَلِكِ الْأَمْلَاكِ "، قَالَ سُفْيَانُ: شَاهَانْ شَاهْ، وَأَخْنَعُ يَعْنِي أَقْبَحُ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر نام اس شخص کا ہو گا جس کا نام«ملک الاملاک» ہو گا"، سفیان کہتے ہیں: «ملک الاملاک» کا مطلب ہے: شہنشاہ۔ اور «اخنع» کے معنی «اقبح» ہیں یعنی سب سے بدتر اور حقیر ترین۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۱۴ (۶۲۰۵) ، صحیح مسلم/الآداب ۴ (۲۱۴۳) ، سنن ابی داود/ الأدب ۷۰ (۴۹۶۱) (تحفة الأشراف : ۱۳۶۷۲) ، و مسند احمد (۲/۲۴۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ، وَقَالَ: أَنْتِ جَمِيلَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا أَسْنَدَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ مُرْسَلًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ، وَعَائِشَةَ، وَالْحَكَمِ بْنِ سَعِيدٍ، وَمُسْلِمٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ، وَشُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَخَيْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عاصیہ» کا نام بدل دیا اور کہا (آج سے) تو «جمیلہ» یعنی: "تیرا نام جمیلہ ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان نے مرفوع بیان کیا ہے۔ یحییٰ نے عبیداللہ سے عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے، اور بعض راویوں نے یہ حدیث عبیداللہ سے، عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے عمر سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، عبداللہ بن سلام، عبداللہ بن مطیع، عائشہ، حکم بن سعید، مسلم، اسامہ بن اخدری، ہانی اور عبدالرحمٰن بن ابی سبرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الآداب ۳ (۳۱۳۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۷۰ (۴۹۵۲) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۳۲ (۳۷۳۳) (تحفة الأشراف : ۸۱۵۵) ، و مسند احمد (۲/۱۸) ، وسنن الدارمی/الاستئذان ۶۲ (۲۷۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ ایسے نام جو برے ہوں انہیں بدل کر ان کی جگہ اچھا نام رکھ دیا جائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْمَ الْقَبِيحَ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ بْنُ رَافِعٍ، وَرُبَّمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، فِي هَذَا الْحَدِيثِ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برا نام بدل دیا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کے راوی ابوبکر بن نافع کہتے ہیں کہ کبھی تو عمر بن علی (الفلاس) نے اس حدیث کی سند میں کہا: «هشام بن عروة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» یعنی مرسلاً روایت کی اور اس میں «عن عائشة» کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۱۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِيَ الْكُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے کئی نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں وہ ماحی ہوں جس کے ذریعہ اللہ کفر کو مٹاتا ہے، میں وہ حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگ جمع کیے جائیں گے ۱؎ میں وہ عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہ پیدا ہو گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حذیفہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۱۷ (۳۵۳۲) ، وتفسیر سورة الصف ۱ (۴۸۹۶) ، صحیح مسلم/الفضائل ۳۴ (۲۳۵۴) (تحفة الأشراف : ۳۱۹۱) ، و مسند احمد (۴/۸۰، ۸۱، ۸۴) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۵۹ (۲۸۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی میدان حشر میں لوگ میرے پیچھے ہوں گے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى أَنْ يَجْمَعَ أَحَدٌ بَيْنَ اسْمِهِ وَكُنْيَتِهِ وَيُسَمِّيَ مُحَمَّدًا أَبَا الْقَاسِمِ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَجْمَعَ الرَّجُلُ بَيْنَ اسْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْيَتِهِ، وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ بَعْضُهُمْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم مکروہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور آپ کی کنیت ایک ساتھ رکھے۔ لیکن بعض لوگوں نے ایسا کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۱۴۳) ، و مسند احمد (۲/۴۳۳) (صحیح) (وراجع ماعند صحیح البخاری/ في الأدب (۶۱۸۸)
وضاحت: ۱؎ : اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ آپ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی ، آپ کے بعد آپ کا نام اور آپ کی کنیت رکھنا درست ہے ، بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے ، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے ، پہلا قول راجح ہے (دیکھئیے اگلی دونوں حدیثیں)۔
رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ: سَمِعَ رَجُلًا فِي السُّوقِ يُنَادِي: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال: لَمْ أَعْنِكَ، فَقَال النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدُلُّ عَلَى كَرَاهِيَةِ أَنْ يُكَنَّى أَبَا الْقَاسِمِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بازار میں ابوالقاسم کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ تو اس نے کہا: میں نے آپ کو نہیں پکارا ہے۔ (یہ سن کر) آپ نے فرمایا: "میری کنیت نہ رکھو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ابوالقاسم کنیت رکھنا مکروہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَمَّيْتُمْ بِاسْمِي فَلَا تَكْتَنُوا بِي "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میرے نام پر نام رکھو تو میری کنیت نہ رکھو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۶۸۶) (صحیح) (وأخرج أبوداود من طریق ھشام عن أبي الزبیر عنہ بہ (برقم: ۴۹۶۶) ، بزیادة ’’ ومن تکنی بکنیتی فلا یتسمی باسمي ‘‘ وھذہ الزیادة منکرة، لأنہ من روایة أبي الزبیر المدلس ولیس لہ متابع أو شاہد)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ، حَدَّثَنِي مُنْذِرٌ وَهُوَ الثَّوْرِيُّ، عَنْمُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ وُلِدَ لِي بَعْدَكَ أُسَمِّيهِ مُحَمَّدًا وَأُكَنِّيهِ بِكُنْيَتِكَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَانَتْ رُخْصَةً لِي "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کے انتقال کے بعد میرے یہاں لڑکا پیدا ہو تو کیا میں اس کا نام محمد اور اس کی کنیت آپ کی کنیت پر رکھ سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں"۔ (ایسا کر سکتے ہو) علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: یہ صرف میرے لیے رخصت و اجازت تھی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۷۶ (۴۹۶۷) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِنَّمَا رَفَعَهُ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، وَرَوَى غَيْرُهُ عَنِ ابْنِ أَبِي غَنِيَّةَ هَذَا الْحَدِيثَ مَوْقُوفًا، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَفِي الْبَابِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَكَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۲۱۳) (حسن صحیح)
وضاحت: امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ، ۲- اسے ابوسعید اشج نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے مرفوع روایت کیا ہے۔ اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے اسے موقوف روایت کیا ہے ، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے ، ۴- اس باب میں ابی بن کعب ، ابن عباس ، عائشہ ، بریدہ ، اور عمرو بن عوف مزنی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حُكْمًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۵ (۵۰۱۱) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۴۱ (۳۷۵۶) ، (تحفة الأشراف : ۶۱۰۶) ، و مسند احمد (۱/۲۶۹، ۳۰۹، ۳۱۳) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُومُ عَلَيْهِ قَائِمًا، يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ مَا يُفَاخِرُ أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسان رضی الله عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہو کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔ یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرماتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرائیل) کے ذریعہ فرماتا ہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے فخر کرتے یا آپ کا دفاع کرتے ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ اور یہ حدیث ابن ابی الزناد کی روایت سے ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۵ (۵۰۱۵) (تحفة الأشراف : ۱۶۳۵۱، و۱۷۰۲۰) (حسن)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْبَرَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ.
بیان کیا مجھ سے اسماعیل بن موسیٰ اور علی بن حجر نے اور ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی الزناد نے بیان کیا اور ابن ابی الزناد نے اپنے باپ ابوالزناد سے، ابوالزناد نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور براء رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْهِ يَمْشِي وَهُوَ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ تَقُولُ الشِّعْرَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَلِّ عَنْهُ يَا عُمَرُ، فَلَهِيَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّزَّاقِ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَ هَذَا، وَرُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ، وَكَعْبُ بْنُ مَالِكٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لِأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ قُتِلَ يَوْمَ مُؤْتَةَ، وَإِنَّمَا كَانَتْ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ بَعْدَ ذَلِكَ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» "اے کفار کی اولاد! اس کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی" عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "انہیں کہنے دو، عمر! یہ اشعار ان (کفار و مشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں (یہ انہیں بوکھلا کر رکھ دیں گے)"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اور معمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے (اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔ اور عمرۃ القضاء اس کے بعد ہوا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۱۰۹ (۲۸۷۶) ، و ۱۲۱ (۲۸۹۶) (تحفة الأشراف : ۲۶۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حافظ ابن حجر نے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے ، کہتے ہیں : امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃ القضاء جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: قِيلَ لَهَا: هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَثَّلُ بِشَيْءٍ مِنَ الشِّعْرِ ؟ قَالَتْ: " كَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ وَيَتَمَثَّلُ وَيَقُولُ: وَيَأْتِيكَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِوَفِي الْبَابِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ان سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی شعر بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن رواحہ کا شعر بطور مثال پیش کرتے تھے، آپ کہتے تھے: «ويأتيك بالأخبار من لم تزود» ۱؎
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۲۸۷ (۹۹۷) (تحفة الأشراف : ۱۶۱۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پورا شعر اس طرح ہے : «ستبدى لك الأيام ماكنت جاهلا ويأتيك بالأخبار من لم تزود» " زمانہ تمہارے سامنے وہ چیزیں ظاہر اور پیش کرے گا جن سے تم ناواقف اور بیخبر ہو گے ، اور تمہارے پاس وہ آدمی خبریں اور اطلاعات لے کر آئے گا جس کو تم نے خرچہ دے کر اس کام کے لیے بھیجا بھی نہ ہو گا "۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَريكٌ، عَنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَشْعَرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَتْ بِهَا الْعَرَبُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ: أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُهُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عرب کا بہترین شعری کلام لبید کا یہ شعر ہے: «ألا كل شيء ما خلا الله باطل» "سن لو! اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسے ثوری اور ان کے علاوہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۴۱) ، والأدب ۹۰ (۶۱۴۷) ، والرقاق ۲۹ (۶۴۸۹) ، صحیح مسلم/الشعرح ۲ (۲۲۵۶) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۴۱ (۳۷۵۷) (تحفة الأشراف : ۱۴۹۷۶) ، و مسند احمد (۲/۲۴۸، ۳۹۱، ۳۹۳، ۴۴۴، ۴۵۸، ۴۷۰، ۴۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " جَالَسْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ، فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ وَيَتَذَاكَرُونَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَهُوَ سَاكِتٌ فَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ زُهَيْرٌ، عَنْ سِمَاكٍ أَيْضًا.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سو بار سے زیادہ بیٹھنے کا شرف حاصل ہے، آپ کے صحابہ شعر پڑھتے (سنتے و سناتے)تھے، اور جاہلیت کی بہت سی باتیں باہم ذکر کرتے تھے۔ آپ چپ بیٹھے رہتے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ مسکرانے لگتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے زہیر بھی نے سماک سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۱۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَمِّي يَحْيَى بْنُ عِيسَى الرَّمْلِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا يَرِيَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھر جانا جسے وہ گلا، سڑا دے، یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (و سینے) میں (کفریہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن عمر، اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۹۲ (۶۱۵۵) ، صحیح مسلم/الشعر ۷ (۲۲۵۷) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۴۲ (۳۷۵۹) (تحفة الأشراف : ۱۲۴۷۸) ، و مسند احمد (۲/۲۸۸، ۳۳۱، ۳۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پچھلے باب کی احادیث اور اس باب کی احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اشعار اگر توحید وسنت ، اخلاق حمیدہ ، وعظ و نصیحت ، پند و نصائح اور حکمت و دانائی پر مشتمل ہوں تو ان کا کہنا ، پڑھنا سب جائز ہے ، اور اگر کفریہ ، شرکیہ ، بدعت اور خلاف شرع باتوں پر مشتمل ہوں یا بازاری اور گندے اشعار ہوں تو ان کو اپنے دل وماغ میں داخل کرنا (یا ذکر کرنا) پیپ اور مواد سے زیادہ مکروہ اور نقصان دہ ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی شخص کے پیٹ کا بیماری کے سبب مواد سے بھر جانا بہتر ہے اس سے کہ وہ شعر سے بھرا ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الشعر ۸ (۲۲۵۸) ، سنن ابن ماجہ/الأدب ۴۲ (۳۷۶۰) (تحفة الأشراف : ۳۹۱۹) ، و مسند احمد (۱/۱۷۵، ۱۷۷، ۱۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پیپ مواد سے تو صرف تکلیف ہو گی لیکن (گندے) اشعار سے تو انسان کی عاقبت ہی خراب ہو کر رہ جائے گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَبْغَضُ الْبَلِيغَ مِنَ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِهِ كَمَا تَتَخَلَّلُ الْبَقَرَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ سَعْدٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ایسے مبالغہ کرنے والے شخص کو ناپسند کرتا ہے جو اپنی زبان ایسے چلاتا ہے جیسے گائے چلاتی ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں سعد رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأدب ۹۴ (۵۰۰۵) (تحفة الأشراف : ۸۸۳۳) ، وحإ (۲/۱۶۵، ۱۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جیسے گائے چارے کو اپنی زبان سے لپیٹ لپیٹ کر اپنی خوراک بناتی ہے اسی طرح چرب زبان آدمی بات کو لپیٹ لپیٹ کر بیان کرتا چلا جاتا ہے ، یہ صورت خاص کر غلط باتوں کے سلسلے ہی میں ہوتی ہے ، ایسی فصاحت و بلاغت ناپسندیدہ ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنَامَ الرَّجُلُ عَلَى سَطْحٍ لَيْسَ بِمَحْجُورٍ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عُمَرَ الأَيْلِيُّ يُضَعَّفُ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو سونے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن منکدر کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ جابر سے روایت کرتے ہیں، ۳- عبدالجبار بن عمر ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۵۳) (صحیح) (سند میں عبد الجبار بن عمر الأیلي ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہاں سے اخیر تک چند احادیث متفرق ابواب کی ہیں ، ان کا فصاحت و بیان سے کوئی تعلق نہیں۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ و نصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم پر اکتاہٹ طاری نہ ہو جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۱۱ (۶۸) ، و ۱۲ (۷۰) ، والدعوات ۶۹ (۶۴۱۱) ، صحیح مسلم/المنافقین ۱۹ (۲۸۲۱) (تحفة الأشراف : ۹۲۵۴) ، و مسند احمد (۱/۳۷۷، ۴۲۵، ۴۴۰، ۴۴۳، ۴۶۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ وعظ و نصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقرر کرنا چاہیئے ، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، قَال: سُئِلَتْ عَائِشَةُ، وَأُمُّ سَلَمَةَ أَيُّ كان أحب إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتَا: " مَا دِيمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوصالح سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ رضی الله عنہما سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پسند تھا؟، ان دونوں نے جواب دیا کہ وہ عمل جو گرچہ تھوڑا ہو لیکن اسے مستقل اور برابر کیا جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (التحة: ۱۶۰۷۲) ، و راجع ماعند صحیح البخاری/التھجد ۷ (۱۱۳۲) ، وصحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۴۱) (صحیح)
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا دِيمَ عَلَيْهِ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہشام بن عروہ سے مروی ہے، وہ اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پسند وہ عمل تھا جس پر مداومت برتی جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۱۷۰۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ شِنْظِيرٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمِّرُوا الْآنِيَةَ، وَأَوْكِئُوا الْأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ، وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتِ الْفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(رات میں) برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو اور مشکوں کے منہ باندھ دیا کرو، گھر کے دروازے بند کر دیا کرو، اور چراغوں کو بجھا دیا کرو کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ چوہیا چراغ کی بتی کھینچ لے جاتی ہے اور گھر والوں کو جلا ڈالتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے جابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۸۱۲ (تحفة الأشراف : ۲۴۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ فَأَعْطُوا الْإِبِلَ حَظَّهَا مِنَ الْأَرْضِ، وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي السَّنَةِ، فَبَادِرُوا بِنِقْيَهَا، وَإِذَا عَرَّسْتُمْ فَاجْتَنِبُوا الطَّرِيقَ، فَإِنَّهَا طُرُقُ الدَّوَابِّ وَمَأْوَى الْهَوَامِّ بِاللَّيْلِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَنَسٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم ہریالی اور شادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹ کو زمین سے اس کا حق دو(یعنی جی بھر کر چر لینے دیا کرو) اور جب تم خزاں و خشکی اور قحط کے دنوں میں سفر کرو اس کی قوت سے فائدہ اٹھا لینے میں کرو تو جلدی ۱؎ اور جب تم رات میں قیام کے لیے پڑاؤ ڈالو تو عام راستے سے ہٹ کر قیام کرو، کیونکہ یہ (راستے) رات میں چوپایوں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر اور انس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۵۴ (۱۹۲۶) ، سنن ابی داود/ الجھاد ۶۳ (۲۵۶۹) (تحفة الأشراف : ۱۲۷۰۶) ، و مسند احمد (۲/۳۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کوشش کر کے جلد منزل پر پہنچ جاؤ ، کیونکہ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے چارے کی کمی کے باعث اونٹ کمزور پڑ گیا تو تم پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔