حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ سَلَامَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ، أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ، أُوصِي امْرءًا بِأُمِّهِ ثَلَاثًا، أُوصِي امْرءًا بِأَبِيهِ، أُوصِي امْرءًا بِمَوْلَاهُ الَّذِي يَلِيهِ، وَإِنْ كَانَ عَلَيْهِ مِنْهُ أَذًى يُؤْذِيهِ".
ابن سلامہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے مولیٰ ۱؎ کے ساتھ جس کا وہ والی ہو اچھے سلوک اور برتاؤ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ اس کو اس سے تکلیف ہی کیوں نہ پہنچی ہو ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۰۵۴، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۱)(ضعیف) (سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی اور عبیداللہ بن علی دونوں ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: عربی میں مولیٰ کا لفظ آزاد کردہ غلام یا دوست یا رشتے دار یا حلیف سبھی معنوں میں مستعمل ہے، یہاں کوئی بھی معنی مراد لے سکتے ہیں۔ ۲؎: اگرچہ اس سے تکلیف پہنچے لیکن اس کے عوض میں تکلیف نہ دے جواں مردی یہی ہے کہ برائی کے بدلے نیکی کرے، اور جو اپنے سے رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑے جیسے دوسری حدیث میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: "أُمَّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "أُمَّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "أَبَاكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: "الْأَدْنَى فَالْأَدْنَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری ماں"، پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری ماں"، پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہارا باپ"، پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۹۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۲ (۵۹۷۱ تعلیقاً)، صحیح مسلم/البر والصلة ۱ (۲۵۴۸)، مسند احمد (۲/۳۹۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ، إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ، فَيُعْتِقَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتی مگر اسی صورت میں کہ وہ اپنے باپ کو غلامی کی حالت میں پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/العتق ۶ (۱۵۱۰)، سنن الترمذی/البر والصلة ۸ (۱۹۰۶)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْقِنْطَارُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفَ أُوقِيَّةٍ، كُلُّ أُوقِيَّةٍ خَيْرٌ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا، فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «قنطار» بارہ ہزار «اوقیہ» کا ہوتا ہے، اور ہر «اوقیہ» آسمان و زمین کے درمیان پائی جانے والی چیزوں سے بہتر ہے"۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: "آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا، پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہو گیا (حالانکہ ہمیں عمل کا کوئی موقع نہیں رہا) اس کو جواب دیا جائے گا: "تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۸۱۵، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۶۳،۵۰۹)، سنن الدارمی/فضائل القرآن ۳۲ (۳۵۰۷)(ضعیف) (سند میں عاصم بن بھدلة ضعیف ہیں، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے معروف ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِأُمَّهَاتِكُمْ ثَلَاثًا، إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِآبَائِكُمْ، إِنَّ اللَّهَ يُوصِيكُمْ بِالْأَقْرَبِ فَالْأَقْرَبِ".
مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کی وصیت کرتا ہے" یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا "بیشک اللہ تعالیٰ تم کو اپنے باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر جو تمہارے زیادہ قریب ہوں، پھر ان کے بعد جو قریب ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۵۶۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۱،۱۳۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا؟ قَالَ: "هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۳)(ضعیف) (سند میں علی بن یزید ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو، یا اس کی حفاظت کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/البر والصلة ۳ (۱۹۰۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۹۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۹۶،۱۹۷،۶/۴۴۵،۴۴۸،۴۵۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: درمیان میں جو دروازہ ہوتا ہے اس میں سے مکان میں جلدی پہنچ جاتے ہیں، تو والدین کو جنت میں جانے کا قریب اور آسان راستہ قرار دیا اگر آدمی اپنے والدین کو خوش رکھے جو کچھ مشکل نہیں تو آسانی سے جنت مل سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَسِيدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدٍمَوْلَى بَنِي سَاعِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ مَالِكِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا، قَالَ: "نَعَمْ، الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا، وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا، وَإِيفَاءٌ بِعُهُودِهِمَا مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا، وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا، وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا".
ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اتنے میں قبیلہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے والدین کی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی باقی ہے کہ ان کی وفات کے بعد میں ان کے لیے کر سکوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہاں، ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا، اور ان کے انتقال کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا، اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا، اور ان رشتوں کو جوڑنا جن کا تعلق انہیں کی وجہ سے ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۲۹ (۵۱۴۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۱۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۹۷،۴۹۸)(ضعیف) (سند میں عبد الرحمن بن سلیمان لین (ضعیف)، اور علی بن عبید مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَقَالُوا: لَكِنَّا وَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَأَمْلِكُ أَنْ كَانَ اللَّهُ قَدْ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ؟".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الفضائل ۱۵ (۲۳۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۶۸۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۱۷ (۵۹۹۳)، مسند احمد (۶/۷۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ، عَنْ يَعْلَى الْعَامِرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ يَسْعَيَانِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُمَا إِلَيْهِ، وَقَالَ: "إِنَّ الْوَلَدَ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ".
یعلیٰ عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) دونوں دوڑتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنے سینے سے چمٹا لیا، اور فرمایا: "یقیناً اولاد بزدلی اور بخیلی کا سبب ہوتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۸۵۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۷۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آدمی اولاد کی محبت میں مال خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، اور اولاد کے لئے مال چھوڑ جانا چاہتا ہے، اور جہاد سے سستی کرتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ، سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ".
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو ۱؎، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۸۲۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۷۵)(ضعیف) (علی بن رباح کا سماع سراقہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لئے سند میں انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مِسْعَرٍ، أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْصَعْصَعَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَأَعْطَتْهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً، ثُمَّ صَدَعَتِ الْبَاقِيَةَ بَيْنَهُمَا، قَالَتْ: فَأَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَتْهُ، فَقَالَ: "مَا عَجَبُكِ، لَقَدْ دَخَلَتْ بِهِ الْجَنَّةَ".
احنف کے چچا صعصعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی، تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں کو دی، اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کے درمیان تقسیم کر دی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۱۵۷، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۰ (۱۴۱۸)، الأدب ۱۸ (۵۹۹۵)، صحیح مسلم/البر والصلة ۴۶ (۲۶۲۹)، سنن الترمذی/البر والصلة ۱۳ (۱۹۱۵)، مسند احمد (۶/۳۳،۱۶۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اپنے بیٹوں کو پالنے، ان کو کھلانے پلانے اور اپنے کو بھوکے رہنے سے، وہ جنت کی حقدار ہو گئی، اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب شوہر مر جاتا ہے، اور عورت صاحب اولاد ہوتی ہے تو بیچاری عمر بھر محنت مزدوری کرتی ہے، اور جو ملتا ہے وہ اپنی اولاد کو کھلاتی ہے، اور وہ خود اکثر بھوکی رہتی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُشَانَةَ الْمُعَافِرِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ، وَأَطْعَمَهُنَّ، وَسَقَاهُنَّ، وَكَسَاهُنَّ مِنْ جِدَتِهِ، كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس کے پاس تین لڑکیاں ہوں، اور وہ ان کے ہونے پر صبر کرے، ان کو اپنی کمائی سے کھلائے پلائے اور پہنائے، تو وہ اس شخص کے لیے قیامت کے دن جہنم سے آڑ ہوں گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۹۲۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۵۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ فِطْرٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ تُدْرِكُ لَهُ ابْنَتَانِ، فَيُحْسِنُ إِلَيْهِمَا مَا صَحِبَتَاهُ أَوْ صَحِبَهُمَا، إِلَّا أَدْخَلَتَاهُ الْجَنَّةَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک (اچھا برتاؤ) کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۶۸۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۵،۳۶۳)(حسن) (سند میں ابو سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم:۳۸۲)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُمَارَةَ، أَخْبَرَنِي الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ، وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ اپنی اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور انہیں بہترین ادب سکھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۷۹)(ضعیف جداً) (سند میں حارث بن نعمان منکر الحدیث اور سعید بن عمارہ ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرٍ يُخْبِرُ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى جَارِهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹)، الرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، صحیح مسلم/الإیمان ۱۹ (۴۸)، سنن ابی داود/الأطعمة ۵ (۳۷۴۸)، سنن الترمذی/البر الصلة ۴۳ (۱۹۶۷،۱۹۶۸)،(تحفة الأشراف:۱۲۰۵۶)،وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صفة النبیﷺ ۱۰ (۲۲)، مسند احمد (۴/۳۱،۶/۳۸۴،۳۸۵)، سنن الدارمی/الأطعمة ۱۱ (۲۰۷۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صرف اچھی بات کہنے یا خاموش رہنے کی اس عمدہ نصیحت نبوی پر عمل کے سلسلے میں اکثر لوگ کوتاہی کا شکار ہیں، لوگوں کے جو جی میں آتا ہے کہہ ڈالتے ہیں، پھر پچھتاتے ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اگر اچھی بات ہو تو منہ سے نکالے، اور بری بات جیسے جھوٹ، غیبت، بہتان، فضول اور بیکار باتوں سے ہمیشہ بچتا رہے، عقلاء کے نزدیک کثرت کلام بہت معیوب ہے، تمام حکیموں اور داناوں کا اس پر اتقاق ہے کہ آدمی کی عقل مندی اس کے بات کرنے سے معلوم ہو جاتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ خوب سوچ سمجھ کر بولے کہ اس کی بات سے کوئی نقصان تو پیدا نہ ہو گا، پھر یہ سوچے کہ اس بات میں کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں، اس کے بعد اگر اس بات میں فائدہ ہو تو منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے، اگر خاموشی سے تھک جائے تو ذکر الہٰی یا تلاوت قرآن کرے، یا دینی علوم کو حاصل کرے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَعَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَااللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے جبرائیل علیہ السلام برابر پڑوس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۲۸ (۶۰۱۴)، صحیح مسلم/البر والصلة ۴۲ (۲۶۲۴)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۱)، سنن الترمذی/البروالصلة ۲۸ (۱۹۴۲)،(تحفة الأشراف:۱۷۹۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۹۱،۱۲۵،۲۳۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: پڑوس کا حق بہت ہے، اگرچہ کافر ہو لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک ضروری ہے، اگر وہ کوئی چیز عاریتاً مانگے تو اس کو دے، اگر بھوکا ہو تو اپنے کھانے میں سے اس کو کھلائے، اگر اس کو قرض کی ضرورت ہو تو دے، بہر حال خوشی اور مصیبت دونوں میں اس کا شریک رہے، اور اس کی ہمدردی کرتا رہے اس میں دین اور دنیا دونوں کے فائدے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا زَالَ جِبْرَائِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جبرائیل برابر پڑوسی کے بارے میں وصیت و تلقین کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ ہمسایہ کو وارث بنا دیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۳۵۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۹،۳۰۵،۴۴۵،۵۱۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَ صَاحِبِهِ، حَتَّى يُحْرِجَهُ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَهُوَ صَدَقَةٌ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے، اور یہ واجبی مہمان نوازی ایک دن اور ایک رات کی ہے، مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے، مہمان داری (ضیافت) تین دن تک ہے اور تین دن کے بعد میزبان جو اس پر خرچ کرے گا وہ صدقہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظر حدیث رقم:(۳۶۷۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ، فَلَا يَقْرُونَا فَمَا تَرَى فِي ذَلِكَ، قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ، فَأَمَرُوا لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ الَّذِي يَنْبَغِي لَهُمْ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: آپ ہم کو لوگوں کے پاس بھیجتے ہیں، اور ہم ان کے پاس اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، ایسی صورت میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: "جب تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لیے ان چیزوں کے لینے کا حکم دیں جو مہمان کو درکار ہوتی ہیں، تو انہیں لے لو، اور اگر نہ دیں تو اپنی مہمان نوازی کا حق جو ان کے لیے مناسب ہو ان سے وصول کر لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المظالم ۱۸ (۲۴۶۱)، الأدب ۸۵ (۶۱۳۷)، صحیح مسلم/اللقطة ۳ (۱۷۲۷)، سنن الترمذی/السیر ۳۲ (۱۵۸۹)، سنن ابی داود/الأطعمة ۵ (۳۷۵۲)،(تحفة الأشراف:۹۹۵۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب میزبان مہمان کی مہمانی نہ کرے تو اس کے عوض میں بقدر مہمانی کے میزبان سے نقد وصول کر سکتا ہے، اور یہ واجب مہمانی پہلی رات میں ہے کیونکہ رات میں مسافر کو نہ کھانا مل سکتا ہے نہ بازار معلوم ہوتا ہے، تو صاحب خانہ پر اس کے کھانے پینے کا انتظام کر دینا واجب ہے، بعض علماء کے نزدیک یہ وجوب اب بھی باقی ہے، جمہور کہتے ہیں کہ وجوب منسوخ ہوگیا، لیکن سنت ہونا اب بھی باقی ہے، تو ایک دن رات مہمانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، یعنی ضروری ہے اور تین دن مستحب ہے، اور تین دن بعد پھر مہمانی نہیں، اب مہمان کو چاہئے کہ وہاں سے چلا جائے یا اپنے کھانے پینے کا انتظام خود کر ے، اور میزبان پر بوجھ نہ بنے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمِقْدَامِ أَبِي كَرِيمَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْلَةُ الضَّيْفِ وَاجِبَةٌ، فَإِنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِهِ فَهُوَ دَيْنٌ عَلَيْهِ، فَإِنْ شَاءَ اقْتَضَى وَإِنْ شَاءَ تَرَكَ".
مقدام ابوکریمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کسی کے یہاں رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے، اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۵ (۳۷۵۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۶۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّجُ حَقَّ الضَّعِيفَيْنِ، الْيَتِيمِ وَالْمَرْأَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میں دو کمزوروں ایک یتیم اور ایک عورت کا حق مارنے کو حرام قرار دیتا ہوں"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۰۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳۹)(حسن)
وضاحت: ۱؎: بیوہ اور یتیم دونوں کا مال کھا جانا اور اس میں الٹ پھیر کرنا سخت گناہ ہے، اگرچہ اور کسی کا مال کھا جانا حرام اور گناہ ہے، مگر ان دونوں کا مال ناجائز طور پر کھانا نہایت سخت گناہ ہے، اس لئے کہ یہ دونوں ناتواں اور کمزور ہیں، روزی کمانے کی ان میں قدرت نہیں ہے، تو ان کو اور دینا چاہیے نہ کہ انہی کا مال لے لینا، بہت بدبخت ہیں وہ لوگ جو یتیم اور بیوہ کا مال ناحق کھا لیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي عَتَّابٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ، بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُحْسَنُ إِلَيْهِ، وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ، بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُسَاءُ إِلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمانوں میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم (پرورش پاتا) ہو، اور اس کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہو، اور سب سے بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۹۰۹، ومصباح الزجاجة:۲۸۲)(ضعیف) (سند میں یحییٰ بن سلیمان لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ عَالَ ثَلَاثَةً مِنَ الْأَيْتَامِ، كَانَ كَمَنْ قَامَ لَيْلَهُ، وَصَامَ نَهَارَهُ، وَغَدَا وَرَاحَ شَاهِرًا سَيْفَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَكُنْتُ أَنَا وَهُوَ فِي الْجَنَّةِ أَخَوَيْنِ كَهَاتَيْنِ أُخْتَانِ"، وَأَلْصَقَ إِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَى.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے تین یتیموں کی پرورش کی تو وہ ایسا ہی ہے جیسے وہ رات میں تہجد پڑھتا رہا، دن میں روزے رکھتا رہا، اور صبح و شام تلوار لے کر جہاد کرتا رہا، میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح بھائی بھائی ہو کر رہیں گے جیسے یہ دونوں بہنیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیانی اور شہادت کی انگلی کو ملایا (اور دکھایا)۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۸۸۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۳)(ضعیف) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم مجہول اور حماد کلبی ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَمْعَةَ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ الرَّاسِبِيِّ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ أَنْتَفِعُ بِهِ، قَالَ: "اعْزِلِ الْأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ".
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس سے میں فائدہ اٹھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۵۹۴، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۴)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة ۳۶ (۲۶۱۸)، مسند احمد (۴/۴۲۰،۴۲۲،۴۲۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جیسے کانٹا اور کوڑا کرکٹ وغیرہ، اگر راستہ میں گڑھا ہو تو اس کو برابر کر دے یا اس پر روک لگا دے تاکہ کوئی آدمی اندھیرے میں اس میں گر نہ جائے، مفید عام کاموں کے ثواب میں یہ حدیث اصل ہے جیسے سڑک کا بنانا، سڑک پر روشنی کرنا، سرا ئے بنانا، کنواں بنانا، یہ سب اعمال اس قسم کے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كَانَ عَلَى الطَّرِيقِ غُصْنُ شَجَرَةٍ يُؤْذِي النَّاسَ، فَأَمَاطَهَا رَجُلٌ، فَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "راستے میں ایک درخت کی شاخ (ٹہنی) پڑی ہوئی تھی جس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، ایک شخص نے اسے ہٹا دیا (تاکہ مسافروں اور گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو) اسی وجہ سے وہ جنت میں داخل کر دیا گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۳۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۳۲ (۶۵۲)، المظالم ۲۸ (۲۴۷۲)، صحیح مسلم/البر الصلة ۳۶ (۱۹۱۴)، الإمارة ۵۱ (۱۹۱۴)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۲ (۵۲۴۵)، سنن الترمذی/البر والصلة ۳۸ (۱۹۵۸)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة ۲ (۶)، مسند احمد (۲/۴۹۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْيَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "عُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا حَسَنِهَا وَسَيِّئِهَا، فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُنَحَّى عَنِ الطَّرِيقِ، وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت کے اچھے اور برے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے ان میں سب سے بہتر عمل راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے، اور سب سے برا عمل مسجد میں تھوکنے، اور اس پر مٹی نہ ڈالنے کو پایا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد ۱۳ (۵۵۳)، مسند احمد (۵/۱۷۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "سَقْيُ الْمَاءِ".
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی پلانا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الزکاة ۴۱ (۱۶۷۹،۱۶۸۰)، سنن النسائی/الوصایا ۸ (۳۶۹۴)،(تحفة الأشراف:۳۸۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۵،۶/۷)(حسن)(تراجع الألبانی: رقم:۴۱۳)
وضاحت: ۱؎: جہاں پر لوگوں کو پانی کی حاجت ہو، وہاں سبیل لگانا، یا کنواں یا حوض بنا دینا، اسی طرح جہاں جس چیز کی ضرورت ہو، وہاں اسی کا صدقہ افضل ہو گا، حاصل یہ کہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہنچانے سے زیادہ ثواب کسی چیز میں نہیں، یہاں تک کہ جانوروں کو راحت پہنچانے میں بڑا اجر ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوفًا، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: أَهْلُ الْجَنَّةِ، فَيَمُرُّ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلَى الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: يَا فُلَانُ، أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُكَ شَرْبَةً، قَالَ: فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ، فَيَقُولُ: أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُكَ طَهُورًا، فَيَشْفَعُ لَهُ"، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: "وَيَقُولُ: يَا فُلَانُ، أَمَا تَذْكُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ كَذَا وَكَذَا، فَذَهَبْتُ لَكَ فَيَشْفَعُ لَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن لوگوں کی صف بندی ہو گی (ابن نمیر کی روایت میں ہے کہ اہل جنت کی صف بندی ہو گی) پھر ایک جہنمی ایک جنتی کے پاس گزرے گا اور اس سے کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ ایک دن تم نے پانی مانگا تھا اور میں نے تم کو ایک گھونٹ پانی پلایا تھا؟ (وہ کہے گا: ہاں، یاد ہے) وہ جنتی اس بات پر اس کی سفارش کرے گا، پھر دوسرا جہنمی ادھر سے گزرے گا، اور اہل جنت میں سے ایک شخص سے کہے گا: تمہیں یاد نہیں کہ میں نے ایک دن تمہیں طہارت و وضو کے لیے پانی دیا تھا؟ تو وہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔ ابن نمیر نے اپنی روایت میں بیان کیا کہ وہ شخص کہے گا: اے فلاں! تمہیں یاد نہیں کہ تم نے مجھے فلاں اور فلاں کام کے لیے بھیجا تھا، اور میں نے اسے پورا کیا تھا؟ تو وہ اس بات پر اس کی سفارش کرے گا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۸۷، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۶)(ضعیف) (سند میں یزید بن أبان الرقاشی، ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۹۳-۵۱۸۶)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي قَدْ لُطْتُهَا لِإِبِلِي، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ إِنْ سَقَيْتُهَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ".
سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹوں کے متعلق پوچھا کہ وہ میرے حوض پر آتے ہیں جس کو میں نے اپنے اونٹوں کے لیے تیار کیا ہے، اگر میں ان اونٹوں کو پانی پینے دوں تو کیا اس کا بھی اجر مجھے ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں! ہر کلیجہ والے جانور کے جس کو پیاس لگتی ہے، پانی پلانے میں ثواب ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۸۲۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۷۵)(صحیح) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۱۵۲)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ، عَنْجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ يُحْرَمْ الرِّفْقَ يُحْرَمْ الْخَيْرَ".
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص نرمی (کی خصلت) سے محروم کر دیا جاتا ہے، وہ ہر بھلائی سے محروم کر دیا جاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/البر والصلة ۲۳ (۱۵۹۲)، سنن ابی داود/الأدب ۱۱ (۴۸۰۹)،(تحفة الأشراف:۳۲۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۶۲،۳۶۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ حَفْصٍ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَيْهِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالیٰ مہربان ہے، اور مہربانی اور نرمی کرنے کو پسند فرماتا ہے، اور نرمی پر وہ ثواب دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۹۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: نرمی یہ ہے کہ اپنے نوکروں، خادموں، بال بچوں اور دوستوں سے آہستگی اور لطف و مہربانی کے ساتھ گفتگو کرے، ان پر غصہ نہ ہو جیسے نبی اکرم ﷺ کا حال تھا کہ انس رضی اللہ عنہ نے آپ کی دس برس خدمت کی لیکن آپ ﷺ نے کبھی نہ ان کو سخت لفظ کہا، نہ گھورا، نہ جھڑکا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ . ح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ نرمی کرنے والا ہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۵۲۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۵ (۶۰۲۴)، الاستئذان ۲۰ (۶۲۵۴)، الدعوات ۵۷ (۶۳۹۱)، صحیح مسلم/السلام ۴ (۲۱۶۵)، البر والصلة ۲۳ (۲۵۹۳)، سنن الترمذی/الاستئذان ۱۲ (۲۷۰۱)، مسند احمد (۶/۸۵)، سنن الدارمی/الرقاق ۷۵ (۲۸۳۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَأَلْبِسُوهُمْ مِمَّا تَلْبَسُونَ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ، اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الإیمان ۲۲ (۳۰)، صحیح مسلم/الأیمان ۱۰ (۱۶۶۱)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۳ (۵۱۵۸)، سنن الترمذی/البر والصلة ۲۹ (۱۹۴۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۵۸،۱۶۱،۱۷۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ أَكْثَرُ الْأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَيَتَامَى، قَالَ: "نَعَمْ، فَأَكْرِمُوهُمْ كَكَرَامَةِ أَوْلَادِكُمْ، وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ"، قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ: "فَرَسٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَمْلُوكُكَ يَكْفِيكَ، فَإِذَا صَلَّى فَهُوَ أَخُوكَ".
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدخلق شخص جو اپنے غلام اور لونڈی کے ساتھ بدخلقی سے پیش آتا ہو، جنت میں داخل نہ ہو گا"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ہمیں نہیں بتایا کہ اس امت کے اکثر افراد غلام اور یتیم ہوں گے؟ ۱؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیوں نہیں؟ لیکن تم ان کی ایسی ہی عزت و تکریم کرو جیسی اپنی اولاد کی کرتے ہو، اور ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو"، پھر لوگوں نے عرض کیا: ہمارے لیے دنیا میں کون سی چیز نفع بخش ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گھوڑا جسے تم جہاد کے لیے باندھ کر رکھتے ہو، پھر اس پر اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہو (اس کی جگہ)تمہارا غلام تمہارے لیے کافی ہے، اور جب نماز پڑھے تو وہ تمہارا بھائی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۶۱۸)، ومصباح الزجاجة:۱۲۸۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة ۲۹ (۱۹۴۶ مختصراً)، مسند احمد (۱/۱۲)(ضعیف) (سند میں فرقد السبخي ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم مومن نہ بن جاؤ، اور اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے ہو جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو تو تم میں باہمی محبت پیدا ہو جائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کو عام کرو اور پھیلاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «حدیث أبي معاویة تقد م تخریجہ في السنة برقم:(۶۸)، حدیث عبداللہ بن نمیر تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۴۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد۲/۳۹۱،۴۹۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنْ نُفْشِيَ السَّلَامَ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سلام کو عام کریں اور پھیلائیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفردبہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۲۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپس میں جب ایک دوسرے سے ملو تو السلام علیکم کہو خواہ اس سے تعارف ہو یا نہ ہو، تعارف کا سب سے پہلا ذریعہ سلام ہے، اور محبت کی کنجی ہے، اور ہر مسلمان کو ضروری ہے کہ جب دوسرے مسلمان سے ملے تو اس کے سلام کا منتظر نہ رہے بلکہ خود پہلے سلام کرے خواہ وہ ادنی ہو یا اعلی یا ہمسر، کمال ایمان کا یہی تعارف ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رحمن کی عبادت کرو، اور سلام کو عام کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأطعمة ۴۵ (۱۸۵۵)،(تحفة الأشراف:۸۶۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۰،۱۹۶)، سنن الدارمی/الأطعمة ۳۹ (۲۱۲۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے تین باتیں کیں اس نے ایمان اکٹھا کر لیا: ایک تو اپنے نفس سے انصاف، دوسرے ہر شخص کو سلام کرنا، تیسرے تنگی کے وقت خرچ کرنا۔ (صحیح بخاری تعلیقاً)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَصَلّ ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: "وَعَلَيْكَ السَّلَامُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آ کر سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «وعلیک السلام» (اور تم پر بھی سلامتی ہو)"۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظر حدیث رقم:(۱۰۶۰)،(تحفة الأشراف:۱۲۹۸۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّعَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: "إِنَّ جِبْرَائِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ"، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں" (یہ سن کر) انہوں نے جواب میں کہا: «وعليه السلام ورحمة الله» (اور ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو)۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۷)، فضائل الصحابة ۳۰ (۳۷۶۸)، الأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، الإستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)،۱۹ (۶۲۵۳)، صحیح مسلم/فضائل ۱۳ (۲۴۴۷)، سنن الترمذی/الإستئذان ۵ (۲۶۹۳)،سنن ابی داود/الآدب ۱۶۶ (۵۲۳۲)، سنن النسائی/عشرة النساء ۳ (۳۴۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۷۷۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۴۶،۱۵۰،۲۰۸،۲۲۴)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۰ (۲۶۸۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں غائبانہ سلام کے جواب دینے کے طریقے کا بیان ہے کہ جواب میں «وعلیکم» کے بجائے «علیہ السلام» ضمیر غائب کے ساتھ کہا جائے، یہاں اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما کی عظمت شان بھی معلوم ہوئی کہ سیدالملائکہ جبریل علیہ السلام نے ان کو سلام پیش کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم (جواب میں صرف) «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۲۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإستئذان ۲۲ (۶۲۵۸)، استتابة المرتدین ۴ (۶۹۲۶)، صحیح مسلم/السلام ۴ (۲۱۶۳)، سنن ابی داود/الأدب ۱۴۹ (۵۲۰۷)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۵۸ (۳۳۰۱)، مسند احمد (۳/۱۴۰،۱۴۴،۱۹۲،۲۱۴،۲۴۳،۲۶۲،۲۸۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ: "وَعَلَيْكُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے، اور کہا: «السام عليك يا أبا القاسم» "اے ابوالقاسم تم پر موت ہو"، تو آپ نے (جواب میں صرف) فرمایا: «وعليكم» اور تم پر بھی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/السلام ۴ (۲۱۶۵)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۴۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد ۹۸ (۲۹۳۵)، والأدب ۳۵ (۶۰۲۴)، الاستئذان ۲۲ (۶۲۵۶)، الدعوات ۵۷ (۶۳۹۱)، الاستتابة المرتدین ۴ (۶۹۲۷)، سنن الترمذی/الاستئذان ۱۲ (۲۷۱)، مسند احمد (۶/۲۲۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ابو القاسم، رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے۔ ۲؎: یہ ان یہودیوں کی شرارت تھی کہ «سلام» کے بدلے «سام» کا لفظ استعمال کیا، «سام»کہتے ہیں موت کو تو «السام علیک» کے معنی یہ ہوئے کہ تم مرو، اور ہلاک ہو، جو بدعا ہے، آپ ﷺ نے جواب میں صرف «وعلیک» فرمایا، یعنی تم ہی مرو، جب کوئی کافر سلام کرے، تو جواب میں صرف «وعلیک» کہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي رَاكِبٌ غَدًا إِلَى الْيَهُودِ، فَلَا تَبْدَءُوهُمْ بِالسَّلَامِ، فَإِذَا سَلَّمُوا عَلَيْكُمْ، فَقُولُوا وَعَلَيْكُمْ".
ابوعبدالرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں کل سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۰۶۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۳۳)(صحیح) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اگر انہوں نے «سلام» کا لفظ ادا کیا تو «وعلیکم» کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر بھی «سلام» اور اگر شرارت سے «سام» کا لفظ کہا تو«سام» یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ صِبْيَانٌ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، (اس وقت) ہم بچے تھے تو آپ نے ہمیں سلام کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۸۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۱۵ (۶۲۴۷)، صحیح مسلم/السلام ۷ (۲۱۶۸)، سنن ابی داود/الأدب ۱۴۷ (۵۲۰۲)، سنن الترمذی/الاستئذان ۸ (۲۶۹۶)، مسند احمد (۳/۱۶۹)، سنن الدارمی/الاستئذان ۸ (۲۶۷۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: سَمِعَهُ مِنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْهُأَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ، قَالَتْ: "مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا".
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم عورتوں کے پاس گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۴۸ (۵۲۰۴)، سنن الترمذی/الاستئذان ۹ (۲۶۹۷)،(تحفة الأشراف:۱۵۷۶۶)، وقد أخرجہ:(حم ۶/۴۵۲،۴۵۷، سنن الدارمی/الإستئذان ۹ (۲۶۷۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اجنبی عورت کو سلام کرنا جائز ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کئی عورتیں ہوں، ہاں اگر عورت اکیلی ہو اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو تو فتنے کے خدشے کی وجہ سے سلام نہ کرنا بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّدُوسِيِّ،، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَنْحَنِي بَعْضُنَا لِبَعْضٍ؟ قَالَ: "لَا"، قُلْنَا: أَيُعَانِقُ بَعْضُنَا بَعْضًا؟ قَالَ: "لَا وَلَكِنْ تَصَافَحُوا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا (ملاقات کے وقت) ہم ایک دوسرے سے جھک کر ملیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں"، پھر ہم نے عرض کیا: کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کریں (گلے ملیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ مصافحہ کیا کرو" (ہاتھ سے ہاتھ ملاؤ)۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الإستئذان ۳۱ (۲۷۲۸)،(تحفة الأشراف:۸۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۹۸)(حسن) (سند میں حنظلہ ضعیف ہے، لیکن معانقہ کے جملہ کے بغیر یہ دوسری سند سے حسن ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة:۱۶۰)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ، إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَا".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور مصافحہ کرتے (ہاتھ ملاتے)ہیں، تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۵۳ (۵۲۱۲)، سنن الترمذی/الإستئذان۳۱ (۲۷۲۷)،(تحفة الأشراف:۱۷۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۹،۳۰۳)(صحیح)(نیز ملاحظہ ہو: الصحیحة:۵۲۵ - ۵۲۶)
وضاحت: ۱؎: ملاقات کے وقت صحیح اسلامی طریقہ سلام کرنا اور آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا اور ہاتھ ملانا ہے، آج کل غیر اسلامی تہذیب اور رسم ورواج سے متاثر ہو کر مسلمان ملاقات کے وقت صحیح طریقے کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے سامنے جھکتے ہیں، جو سراسر غیر اسلامی طریقہ ہے، اسلام میں قدم بوسی، فرشی سلام اور پاؤں چھونا اورکسی کے سامنے رکوع سجود ہونا ممنوع ہے، اور یہ سب کام تقلید و تشبہ کے جذبہ سے کیے جائیں تو ان کی برائی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "قَبَّلْنَا يَدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چوما۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۱۰۶ (۲۶۴۷)، الأدب ۱۵۹ (۵۲۲۳)، سنن الترمذی/الجہاد ۳۶ (۱۷۱۶)،(تحفة الأشراف:۷۲۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳،۵۸،۷۰،۸۶،۹۹،۱۰۰،۱۱۰)(ضعیف) (سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: مقدمہ تحقیق ریاض الصالحین للالبانی و نقد نصوص حدیثیہ: ص۱۴ - ۱۵)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَغُنْدَرٌ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ،"أَنَّ قَوْمًا مِنْ الْيَهُودِ قَبَّلُوا يَدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَيْهِ".
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود کے کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں چومے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الاستئذان ۳۳ (۲۷۳۳)،(تحفة الأشراف:۴۹۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۳۹)(ضعیف) (سند میں عبداللہ بن سلمہ ہیں، جن کی حدیث کی متابعت نہیں کی جائے گی)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،"أَنَّ أَبَا مُوسَى اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَانْصَرَفَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ مَا رَدَّكَ، قَالَ: "اسْتَأْذَنْتُ الِاسْتِئْذَانَ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، فَإِنْ أُذِنَ لَنَا دَخَلْنَا، وَإِنْ لَمْ يُؤْذَنْ لَنَا رَجَعْنَا"، قَالَ: فَقَالَ: لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ، فَأَتَى مَجْلِسَ قَوْمِهِ فَنَاشَدَهُمْ، فَشَهِدُوا لَهُ فَخَلَّى سَبِيلَهُ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی، تو وہ لوٹ گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور بلا کر پوچھا کہ آپ واپس کیوں چلے گئے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ویسے ہی تین مرتبہ اجازت طلب کی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے، اگر ہمیں تین دفعہ میں اجازت دے دی جائے تو اندر چلے جائیں ورنہ لوٹ جائیں، تب انہوں نے کہا: آپ اس حدیث پر گواہ لائیں ورنہ میں آپ کے ساتھ ایسا ایسا کروں گا یعنی سزا دوں گا، تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے، اور ان کو قسم دی (کہ اگر کسی نے یہ تین مرتبہ اجازت طلب کرنے والی حدیث سنی ہو تو میرے ساتھ اس کی گواہی دے) ان لوگوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر گواہی دی تب عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو چھوڑا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۳۲۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع ۹ (۲۰۶۲)، الاستئذان ۱۳ (۶۲۴۵)، صحیح مسلم/الأدب ۷ (۲۱۵۳)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۸ (۵۱۸۰)، سنن الترمذی/الاستئذان ۳ (۲۶۹۰)، موطا امام مالک/الاستئذان ۱ (۳)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱ (۲۶۷۱)(صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: «استئندان» کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ دروازے پر کھڑے ہو کر تین بار بلند آواز سے «السلام علیکم» کہے، اور پوچھے کہ فلاں شخص یعنی اپنا نام لے کر بتائے کہ اندر داخل ہو یا نہیں؟ اگر تینوں بار میں گھر والا جواب نہ دے تو لوٹ آئے، لیکن بغیر اجازت کے اندر گھسنا جائز نہیں ہے، اور یہ ضروری اس لئے ہے کہ آدمی اپنے مکان میں کبھی ننگا کھلا ہوتا ہے،کبھی اپنے بال بچوں کے ساتھ ہوتا ہے، اگر بلا اجازت اندر داخل ہونا جائز ہو تو بڑی خرابی ہو گی، اب یہ مسئلہ عام تہذیب اور اخلاق میں داخل ہو گیا ہے کہ کسی شخص کے حجرہ یا مکان میں بغیر اجازت لئے اور بغیر اطلاع دئیے لوگ نہیں گھستے، اور جو کوئی اس کے خلاف کرے اس کو بے ادب اور بے وقوف جانتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ وَاصِلِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي سَوْرَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا السَّلَامُ، فَمَا الِاسْتِئنَاسُ؟ قَالَ: "يَتَكَلَّمُ الرَّجُلُ تَسْبِيحَةً، وَتَكْبِيرَةً، وَتَحْمِيدَةً، وَيَتَنَحْنَحُ، وَيُؤْذِنُ أَهْلَ الْبَيْتِ".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سلام تو ہمیں معلوم ہے، لیکن «استئذان» کیا ہے؟ (یعنی ہم اجازت کیسے طلب کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «استئذان» یہ ہے کہ آدمی تسبیح، تکبیر اور تحمید (یعنی «سبحان الله، الله أكبر، الحمد لله» کہہ کر یا کھنکار کر) سے گھر والوں کو خبردار کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۴۹۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۲)(ضعیف) (سند میں ابوسورہ منکر الحدیث ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدْخَلَانِ، مُدْخَلٌ بِاللَّيْلِ، وَمُدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَكُنْتُ"إِذَا أَتَيْتُهُ وَهُوَ يُصَلِّي، يَتَنَحْنَحُ لِي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے میرے دو وقت مقرر تھے: ایک رات میں، ایک دن میں، تو میں جب آتا اور آپ نماز کی حالت میں ہوتے تو آپ میرے لیے کھنکار دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/السہو ۱۷ (۱۲۱۲)،(تحفة الأشراف:۱۰۲۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۰)(ضعیف) (سند میں عبداللہ بن نجی اور حارث ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَنْ هَذَا؟"، فَقُلْتُ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنَا أَنَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا: "کون ہو"؟ میں نے عرض کیا: "میں"، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں، میں کیا؟ (نام لو)"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الاستئذان ۱۷ (۶۲۵۰)، صحیح مسلم/الآداب ۸ (۲۱۵۵)، سنن ابی داود/الأدب ۱۳۹ (۵۱۸۷)، سنن الترمذی/الاستئذان ۱۸ (۲۷۱۱)،(تحفة الأشراف:۳۰۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/ ۲۹۸،۳۲۰،۳۶۳)، سنن الدارمی/الاستئذان ۲ (۲۶۷۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "بِخَيْرٍ، مِنْ رَجُلٍ لَمْ يُصْبِحْ صَائِمًا، وَلَمْ يَعُدْ سَقِيمًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح کیسے کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نہ آج روزہ رکھا، نہ بیمار کی عیادت (مزاج پرسی) کی خیریت سے ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۳۸۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۳)(حسن) (سند میں عبداللہ بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاہد اور دوسری احادیث کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی ۱۰۰ و صحیح الأدب المفرد:۸۷۸- ۱۱۳۳)
وضاحت: ۱؎: یہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تقصیر ظاہر کی باوجود اس کے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا بیمار پرسی نہیں کی، لیکن مالک کا احسان ہے کہ میری صبح خیریت کے ساتھ اس نے کرائی، سبحان اللہ، رسول اکرم ﷺ باوجود کثرت عبادت، ریاضت، قرب الٰہی اور گناہوں سے پاک اور صاف ہونے کے اپنی تقصیر کا اقرار اور مالک کی نعمتوں کا اظہار کرتے تھے، اور کسی بندے کی کیا مجال ہے جو اپنی عبادت و طاعت اور تقویٰ پر نازاں ہو، یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہم کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور خیریت اور عافیت سے ہماری صبح اور شام گزارتا ہے، اے اللہ! ہم تیرے احسان اور نعمت کا شکر جتنا شکر کریں سب کم ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاق بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، حَدَّثَنِي جَدِّي أَبُو أُمِّي مَالِكُ بْنُ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: وَدَخَلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ"، قَالُوا: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، قَالَ: "كَيْفَ أَصْبَحْتُمْ؟"، قَالُوا: بِخَيْرٍ نَحْمَدُ اللَّهَ، فَكَيْفَ أَصْبَحْتَ بِأَبِينَا وَأُمِّنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "أَصْبَحْتُ بِخَيْرٍ أَحْمَدُ اللَّهَ".
ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے تو فرمایا: " «السلام عليكم» " انہوں نے (جواب میں) «وعليك السلام ورحمة الله وبركاته» کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «كيف أصبحتم» آپ نے صبح کیسے کی"؟ جواب دیا: «بخير نحمد الله» خیریت سے کی اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن آپ نے کیسے کی؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «الحمد لله» میں نے بھی خیریت کے ساتھ صبح کی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۱۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۴)(ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عثمان مستور راوی ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں، «مالک بن حمزہ عن أبیہ عن جدہ أن النبی ﷺ دعا للعباس، الحدیث لایتابع علیہ»اس کا کوئی متابع نہیں ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَتَاكُمْ كَرِيمُ قَوْمٍ، فَأَكْرِمُوهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معزز آدمی آئے تو تم اس کا احترام کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۴۴۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۵)(حسن) (سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۲۰۵)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا أَوْ سَمَّتَ وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَطَسَ عِنْدَكَ رَجُلَانِ، فَشَمَّتَّ أَحَدَهُمَا وَلَمْ تُشَمِّتِ الْآخَرَ، فَقَالَ: "إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَإِنَّ هَذَا لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کے جواب میں «يرحمك الله»"اللہ تم پر رحم کرے" کہا، اور دوسرے کو جواب نہیں دیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا، آپ نے ایک کو جواب دیا دوسرے کو نہیں دیا، اس کا سبب کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک نے (چھینکنے کے بعد) «الحمد لله» کہا، اور دوسرے نے نہیں کہا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۱۲۳ (۶۲۲۱)،۱۲۷ (۶۲۲۵)، صحیح مسلم/الزہد ۹ (۲۹۹۱)، سنن ابی داود/الأدب ۱۰۲ (۵۰۳۹)، سنن الترمذی/الأدب ۴ (۲۷۴۳)،(تحفة الأشراف:۸۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۰۰،۱۱۷،۱۷۶)، سنن الدارمی/الاستئذان ۳۱ (۲۷۰۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا فَمَا زَادَ، فَهُوَ مَزْكُومٌ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھینکنے والے کو تین مرتبہ جواب دیا جائے، جو اس سے زیادہ چھینکے تو اسے زکام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد ۹ (۲۹۹۳ مختصرا)، سنن ابی داود/الأدب ۱۰۰ (۵۰۳۷)، سنن الترمذی/الأدب ۵ (۲۷۴۳)،(تحفة الأشراف:۴۵۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۶،۵۰)سنن الدارمی/الاستئذان ۳۲ (۲۷۰۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عِيسَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلْيَرُدَّ عَلَيْهِ مَنْ حَوْلَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَلْيَرُدَّ عَلَيْهِمْ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله» کہے، اس کے پاس موجود لوگ«يرحمك الله» کہیں، پھر چھینکنے والا ان کو جواب دے «يهديكم الله ويصلح بالكم» "اللہ تمہیں ہدایت دے، اور تمہاری حالت درست کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۲۱۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۶)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب ۳ (۲۷۴۱)، مسند احمد (۱/۱۲۰،۱۲۲)، سنن الدارمی/الإستئذان ۳۰ (۲۷۰۱)(صحیح) (سند میں محمد بن عبدالرحمن ابن ابی الیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الطَّوِيلِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلُ الْكُوفَةِ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"إِذَا لَقِيَ الرَّجُلَ فَكَلَّمَهُ، لَمْ يَصْرِفْ وَجْهَهُ عَنْهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْصَرِفُ، وَإِذَا صَافَحَهُ لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُهَا، وَلَمْ يُرَ مُتَقَدِّمًا بِرُكْبَتَيْهِ جَلِيسًا لَهُ قَطُّ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کسی شخص سے ملاقات ہوتی اور آپ اس سے بات کرتے تو اس وقت تک منہ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ پھیر لیتا، اور جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۴۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة القیامة ۴۶ (۲۴۹۰)، بعضہ وقال: غریب)(ضعیف) (زید العمی ضعیف راوی ہے، لیکن مصافحہ کا جملہ صحیح اور ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۴۲۸۵)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ عَنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا جائے، پھر واپس آئے تو وہ اپنی جگہ (پر بیٹھنے) کا زیادہ حقدار ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۶۲۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۸)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام ۱۲ (۲۱۷۹)، سنن ابی داود/الأدب ۳۰ (۴۸۵۳)، مسند احمد (۲/۳۴۲،۵۲۷)، سنن الدارمی/الإستئذان ۲۵ (۲۶۹۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ مِينَاءَ، عَنْ جُودَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اعْتَذَرَ إِلَى أَخِيهِ بِمَعْذِرَةٍ فَلَمْ يَقْبَلْهَا، كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ خَطِيئَةِ صَاحِبِ مَكْسٍ"،
جوذان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا محصول(ٹیکس) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۷۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۹۹)(ضعیف) (سند میں جوذان کو شرف صحبت حاصل نہیں، بلکہ مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ مِينَاءَ، عَنْ جُودَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۷۱)، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۰)(ضعیف) (جوذان صحابی نہیں، بلکہ مجہول روای ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَمْعَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ . ح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فِي تِجَارَةٍ إِلَى بُصْرَى قَبْلَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَامٍ، وَمَعَهُ نُعَيْمَانُ، وَسُوَيْبِطُ بْنُ حَرْمَلَةَ، وَكَانَا شَهِدَا بَدْرًا، وَكَانَ نُعَيْمَانُ عَلَى الزَّادِ، وَكَانَ سُوَيْبِطُ رَجُلًا مَزَّاحًا، فَقَالَ لِنُعَيْمَانَ: أَطْعِمْنِي، قَالَ: حَتَّى يَجِيءَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: فَلَأُغِيظَنَّكَ، قَالَ: فَمَرُّوا بِقَوْمٍ، فَقَالَ لَهُمْ سُوَيْبِطٌ: تَشْتَرُونَ مِنِّي عَبْدًا لِي، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّهُ عَبْدٌ لَهُ كَلَامٌ وَهُوَ قَائِلٌ لَكُمْ إِنِّي حُرٌّ، فَإِنْ كُنْتُمْ إِذَا قَالَ لَكُمْ هَذِهِ الْمَقَالَةَ، تَرَكْتُمُوهُ فَلَا تُفْسِدُوا عَلَيَّ عَبْدِي، قَالُوا: لَا، بَلْ نَشْتَرِيهِ مِنْكَ، فَاشْتَرَوْهُ مِنْهُ بِعَشْرِ قَلَائِصَ، ثُمَّ أَتَوْهُ فَوَضَعُوا فِي عُنُقِهِ عِمَامَةً أَوْ حَبْلًا، فَقَالَ نُعَيْمَانُ: إِنَّ هَذَا يَسْتَهْزِئُ بِكُمْ وَإِنِّي حُرٌّ لَسْتُ بِعَبْدٍ، فَقَالُوا: قَدْ أَخْبَرَنَا خَبَرَكَ، فَانْطَلَقُوا بِهِ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَأَخْبَرُوهُ بِذَلِكَ، قَالَ: فَاتَّبَعَ الْقَوْمَ وَرَدَّ عَلَيْهِمُ الْقَلَائِصَ، وَأَخَذَ نُعَيْمَانَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنْهُ حَوْلًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال پہلے بصریٰ تجارت کے لیے گئے، ان کے ساتھ نعیمان اور سویبط بن حرملہ (رضی اللہ عنہما) بھی تھے، یہ دونوں بدری صحابی ہیں، نعیمان رضی اللہ عنہ کھانے پینے کی چیزوں پر متعین تھے، سویبط رضی اللہ عنہ ایک پر مذاق آدمی تھے، انہوں نے نعیمان رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے کھانا کھلاؤ، نعیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آنے دیجئیے، سویبط رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں غصہ دلا کر پریشان کروں گا، پھر وہ لوگ ایک قوم کے پاس سے گزرے تو سویبط رضی اللہ عنہ نے اس قوم کے لوگوں سے کہا: تم مجھ سے میرے ایک غلام کو خریدو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، سویبط رضی اللہ عنہ کہنے لگے: وہ ایک باتونی غلام ہے وہ یہی کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں، تم اس کی باتوں میں آ کر اسے چھوڑ نہ دینا، ورنہ میرا غلام خراب ہو جائے گا، انہوں نے جواب دیا: وہ غلام ہم تم سے خرید لیں گے، الغرض ان لوگوں نے دس اونٹنیوں کے عوض وہ غلام خرید لیا، پھر وہ لوگ نعیمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان کی گردن میں عمامہ باندھا یا رسی ڈالی تو نعیمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اس نے (یعنی سویبط نے) تم سے مذاق کیا ہے، میں تو آزاد ہوں، غلام نہیں ہوں، لوگوں نے کہا: یہ تمہاری عادت ہے، وہ پہلے ہی بتا چکا ہے (کہ تم باتونی ہو)، الغرض وہ انہیں پکڑ کر لے گئے، اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، تو لوگوں نے انہیں اس واقعے کی اطلاع دی، وہ اس قوم کے پاس گئے اور ان کے اونٹ دے کر نعیمان کو چھڑا لائے، پھر جب یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مدینہ) آئے تو آپ اور آپ کے صحابہ سال بھر اس واقعے پر ہنستے رہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۱۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۱۶)(ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، اور اس کے دوسرے طریق میں نعیمان، سویبط کی جگہ ہے، اور سوبیط، نعیمان کی جگہ پر اور یہ بھی ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَالِطُنَا، حَتَّى يَقُول لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: "يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْ؟"، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي طَيْرًا كَانَ يَلْعَبُ بِهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے (یعنی بچوں سے) میل جول رکھتے تھے، یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے: " «يا أبا عمير ما فعل النغير» اے ابوعمیر! تمہارا وہ «نغیر» (پرندہ) کیا ہوا؟" وکیع نے کہا «نغیر» سے مراد وہ پرندہ ہے جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۸۱ (۶۱۲۹)، صحیح مسلم/الآداب ۵ (۲۱۵۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۹۲ (۶۵۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۳۱ (۳۳۳)،(تحفة الأشراف:۱۶۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۹،۱۷۱،۱۹۰،۲۱۲،۲۷۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ، وَقَالَ: "هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید بال اکھیڑنے سے منع فرمایا، اور فرمایا کہ "وہ مومن کا نور ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأدب ۵۹ (۲۸۲۱)،(تحفة الأشراف:۸۷۸۳)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الترجل ۱۷ (۴۲۰۲)، سنن النسائی/الزینة ۱۳ (۵۰۷۱)، مسند احمد (۲/۲۰۶،۲۰۷،۲۱۲)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ أَبِي الْمُنِيبِ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى أَنْ يُقْعَدَ بَيْنَ الظِّلِّ وَالشَّمْسِ".
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور سایہ کے درمیان میں بیٹھنے سے منع کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۸۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس طرح بیٹھنے سے کہ بدن کا ایک حصہ دھوپ میں رہے، اور ایک حصے پر سایہ، اس لئے کہ یہ امر طبی طور پر مضر ہے اور بیماری پیدا کرتا ہے، اور یہ ممانعت بھی تنزیہی ہے، نہ کہ تحریمی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طِخْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَصَابَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: "مَا لَكَ وَلِهَذَا النَّوْمِ، هَذِهِ نَوْمَةٌ يَكْرَهُهَا اللَّهُ أَوْ يُبْغِضُهَا اللَّهُ".
طخفہ غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل (اوندھے منہ) سویا ہوا پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں سے مجھے ہلا کر فرمایا: "تم اس طرح کیوں سو رہے ہو؟ یہ سونا اللہ کو ناپسند ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۰۳ (۵۰۴۰)،(تحفة الأشراف:۴۹۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۲۹)(صحیح)(ملاحظہ ہو: المشکاة:۴۷۱۸ - ۴۷۱۹ - ۴۷۳۱)
وضاحت: پیٹ کے بل لیٹنا ممنوع ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ طِخْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: "يَا جُنَيْدِبُ، إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیر سے ہلا کر فرمایا: " «جنيدب»! (یہ ابوذر کا نام ہے) سونے کا یہ انداز تو جہنمیوں کا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۳)(صحیح) (سند میں محمد بن نعیم میں کلام ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: پیٹ کے بل سونے میں جہنمیوں کی مشابہت ہے، قرآن میں ہے: «يوم يسحبون في النار على وجوههم ذوقوا مس سقر» (سورة القمر: 48) یعنی اوندھے منہ جہنم میں کھینچے جائیں گے، یہ بھی ایک ممانعت کی وجہ ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ الدِّمَشْقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ نَائِمٍ فِي الْمَسْجِدِ مُنْبَطِحٍ عَلَى وَجْهِهِ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: "قُمْ وَاقْعُدْ، فَإِنَّهَا نَوْمَةٌ جَهَنَّمِيَّةٌ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جو اوندھے منہ مسجد میں سو رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیر سے ہلا کر فرمایا: "اٹھ کر بیٹھو، اس طرح سونا جہنمیوں کا سونا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۱۳، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۴)(ضعیف) (سند میں یعقوب، سلمہ اور ولید سب ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا، اس نے سحر (جادو) کا ایک حصہ حاصل کر لیا، اب جتنا زیادہ حاصل کرے گا گویا اتنا ہی زیادہ جادو حاصل کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطب ۲۲ (۳۹۰۵)،(تحفة الأشراف:۶۵۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۷،۳۱۱)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُسُبُّوا الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ، تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ وَالْعَذَابِ، وَلَكِنْ سَلُوا اللَّهَ مِنْ خَيْرِهَا، وَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہوا کو برا نہ کہو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت میں سے ہے، وہ رحمت بھی لاتی ہے اور عذاب بھی لاتی ہے، البتہ اللہ تعالیٰ سے اس کی بھلائی کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۱۳ (۵۰۹۷)،(تحفة الأشراف:۱۲۲۳۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۰،۲۶۷،۴۰۹،۴۳۶،۵۱۸)(صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: اس معنی سے کہ انسان اور حیوان کی زندگی ہوا پر موقوف ہے، ان حیوانوں کی جو ہوائی ہیں اور بعض حیوان مائی ہیں، ان کی زندگی پانی پر موقوف ہے، اب بعض امتوں پر جو ہوا سے عذاب ہوا یہ اس کے خلاف نہیں ہے کیونکہ ہر ایک رحمت کی چیز جب اعتدال سے زیادہ ہو تو عذاب ہو جاتی ہے جیسے پانی وہ بھی رحمت ہے لیکن نوح علیہ السلام کی قوم کے لئے اور فرعون اور اس کی قوم کے لئے عذاب تھا۔ اور ابھی ماضی قریب میں سونامی کی لہروں سے جو تباہی دنیا نے دیکھی اس سے ہم سب کو عبرت ہونی چاہئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الآداب ۱ (۲۱۳۲)، سنن الترمذی/الأدب ۴۶ (۲۸۳۴)،(تحفة الأشراف:۷۷۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴)، سنن الدارمی/ الاستئذان ۶۰ (۲۳۳۷)(صحیح)
وضاحت: ان ناموں کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ کی عبودیت کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دوسرے ناموں کے ساتھ بھی "عبد" یا "عبید" لگا کر نام رکھا جا سکتا ہے۔ انبیائے کرام علیہ السلام کے ناموں پر نام رکھنا بھی درست ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، لَأَنْهَيَنَّ أَنْ يُسَمَّى رَبَاحٌ، وَنَجِيحٌ، وَأَفْلَحُ، وَنَافِعٌ، وَيَسَارٌ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر میں زندہ رہا تو ان شاءاللہ «رباح» (نفع)، «نجیح» (کامیاب)، «افلح»(کامیاب)، «نافع» (فائدہ دینے والا) اور «یسار» (آسانی)، نام رکھنے سے منع کر دوں گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأدب ۶۵ (۲۸۳۵)،(تحفة الأشراف:۱۰۴۲۳، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۵)(صحیح)
وضاحت: ایک حدیث میں اس ممانعت کی یہ حکمت بیان کی گئی ہے کیونکہ تو کہے گا: کیا وہ یہاں موجود ہے؟ وہ نہیں ہو گا تو (جواب دینے والا) کہے گا نہیں۔ (صحیح مسلم) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی پوچھے کہ گھر میں نافع ہے اور جواب میں کہا جائے کہ موجود نہیں۔ گویا آپ نے یہ کہا کہ گھر میں فائدہ دینے والا کوئی شخص موجود نہیں، سب نکمے ہیں۔ اگرچہ متکلم کا مقصد یہ نہیں ہو گا، تاہم ظاہری طور پر ایک نامناسب بات بنتی ہے، لہذا ایسے نام رکھنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ نُسَمِّيَ رَقِيقَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَاءٍ، أَفْلَحُ، وَنَافِعٌ، وَرَبَاحٌ، وَيَسَارٌ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے غلاموں کے چار نام رکھنے سے منع فرمایا ہے: " «افلح»، «نافع»، «رباح» اور«یسار» "۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأداب ۲ (۲۱۳۶)، سنن ابی داود/الأدب ۷۰ (۴۹۵۸،۴۹۵۹)، سنن الترمذی/الأدب ۶۵ (۲۸۳۶)،(تحفة الأشراف:۴۶۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۷،۱۰،۱۲،۲۱)، سنن الدارمی/الاستئذان ۶۱ (۲۷۳۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ".
مسروق کہتے ہیں کہ میری ملاقات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: میں مسروق بن اجدع ہوں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "اجدع ایک شیطان ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۷۰ (۴۹۵۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۶۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۱)(ضعیف) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَافِعٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ زَيْنَبَ كَانَ اسْمُهَا بَرَّةَ، فَقِيلَ لَهَا تُزَكِّي نَفْسَهَا،"فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں "زینب کا نام بّرہ تھا" (یعنی نیک بخت اور صالحہ) لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ اپنی تعریف آپ کرتی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر زینب رکھ دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۱۰۸ (۶۱۹۲)، صحیح مسلم/الآداب ۳ (۲۱۴۱)،(تحفة الأشراف:۱۴۶۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳۰،۴۵۹)، سنن الدارمی/الاستئذان ۶۲ (۲۷۴۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ام المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی پہلے برّہ تھا تو آپ ﷺ نے ان کانام بدل کر جویریہ رکھا، یہ رسول اکر م ﷺ کی سنت ہے اور ہر شخص کو لازم ہے کہ اگر والدین یا خاندان والوں نے جہالت سے بچپن میں کوئی برا نام رکھ دیا ہو تو جب بڑا ہو اور عقل آئے تو وہ نام بدل ڈالے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرَ كَانَ يُقَالُ لَهَا: عَاصِيَةُ، "فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيلَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی کا نام "عاصیہ" تھا (یعنی گنہگار، نافرمان) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الآداب ۳ (۲۱۳۹)،(تحفة الأشراف:۷۸۷۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ۷۰ (۴۹۵۲)، سنن الترمذی/الأدب ۶۶ (۲۸۳۸)، سنن الدارمی/الاستئذان۶۲ (۲۷۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى أَبُو الْمُحَيَّاةِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ اسْمِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ،"فَسَمَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرا نام اس وقت عبداللہ بن سلام نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی میرا نام عبداللہ بن سلام رکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۳۴۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵،۵/۸۳،۴۵۱)(منکر) (سند میں ابن اخی عبد اللہ بن سلام مبہم راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/العلم ۳۹ (۱۱۰)، والأدب ۱۰۶ (۶۱۸۸)، صحیح مسلم/الآداب ۱ (۲۱۳۴)، سنن ابی داود/الأدب ۷۴ (۴۹۶۵)،(تحفة الأشراف:۱۴۴۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۸،۲۶۰ ۲۷۰،۳۹۲،۵۱۹)، سنن الدارمی/الاستئذان ۵۸ (۲۷۳۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۳۳۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس ۷ (۳۱۱۴)، صحیح مسلم/الآداب ۱ (۲۱۳۳)، سنن الترمذی/الأدب ۶۸ (۲۸۴۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ، فَنَادَى رَجُلٌ رَجُلًا يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَعْنِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ بقیع میں تھے کہ ایک شخص نے دوسرے کو آواز دی: اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ ہوئے، تو اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مخاطب نہیں کیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۲۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع ۴۹ (۲۱۲۰)، المناقب ۲۰ (۳۵۳۷)، صحیح مسلم/الآداب ۱ (۲۱۳۱)، سنن الترمذی/الأدب ۶۸ (۲۸۴۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ صُهَيْبٍ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ لِصُهَيْبٍ: مَا لَكَ تَكْتَنِي بِأَبِي يَحْيَى وَلَيْسَ لَكَ وَلَدٌ؟ قَالَ: "كَنَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي يَحْيَى".
حمزہ بن صہیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اپنی کنیت ابویحییٰ کیوں رکھتے ہو؟ حالانکہ تمہیں کوئی اولاد نہیں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت ابویحییٰ رکھی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۵۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۶)(حسن) (سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے ابوداود کے شاہد سے یہ حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۳۳)
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ اولاد ہونے سے پہلے بھی آدمی کنیت رکھ سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مَوْلًى لِلزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُّ أَزْوَاجِكَ كَنَّيْتَهُ غَيْرِي، قَالَ: "فَأَنْتِ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت رکھی، صرف میں ہی باقی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم «ام عبداللہ» ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۱۷)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ۷۸ (۴۹۷۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ،، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْتِينَا فَيَقُولُ لِأَخٍ لِي وَكَانَ صَغِيرًا: "يَا أَبَا عُمَيْرٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، آپ اسے "ابوعمیر" کہہ کر پکارتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظرحدیث رقم:۳۷۲۰،(تحفة الأشراف:۱۶۹۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: انہوں نے ہی «نغیر» نامی چڑیا پا لی ہوئی تھی آپ ﷺ دل لگی کے طور پر اس سے پوچھا کرتے اسے ابو عمیر «نغیر» چڑیا تمہاری کہاں ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11، "قَدِمَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالرَّجُلُ مِنَّا لَهُ الِاسْمَانِ وَالثَّلَاثَةُ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا دَعَاهُمْ بِبَعْضِ تِلْكَ الْأَسْمَاءِ"، فَيُقَالُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا، فَنَزَلَتْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11.
ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے پاس(مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو، تین تین نام تھے، بسا اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «ولا تنابزوا بالألقاب» "کسی کو برے القاب سے نہ پکارو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۷۱ (۴۹۶۲)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن ۴۹ (۳۲۶۸)،(تحفة الأشراف:۱۱۸۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۶۹،۲۶۰،۵/۳۸۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی برے القاب جن سے آدمی ناخوش ہو، اس سے مت پکارو کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو ایذا دینا ہے، بعضوں نے کہا یہ آیت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتری، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں، اور عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ مجھ کو کہتے ہیں: اے یہودیہ، یہودیوں کی بیٹی، آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا: میرے باپ ہاروں علیہ السلام ہیں، اور میرے چچا موسیٰ علیہ السلام، اور میرے شوہر محمد ﷺ ہیں، اللہ کی رحمت اترے ان پر اور سلام ہو سب پر۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ".
مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الزہد ۱۴ (۳۰۰۲)، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ (۴۸۰۴)، سنن الترمذی/الزہد ۵۴ (۲۳۹۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۵۴۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْمَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ، فَإِنَّهُ الذَّبْحُ".
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "تم آپس میں ایک دوسرے کی منہ پر مدح و تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ اس طرح تعریف کرنا گویا ذبح کرنا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۴۴۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۹۲،۹۳،۹۸،۹۹)(حسن) (سند میں معبد الجہنی ضعیف ہے، صحیحین میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ جب کسی کی منہ پر تعریف اور خوشامد کی جائے گی تو احتمال ہے کہ آدمی میں غرور تکبر پیدا ہو جائے، اور اپنے عیب کو ہنر سمجھے اور دوسرے مسلم بھائی کو حقیر جانے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عن عكرمة، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَدَحَ رَجُلٌ رَجُلًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ مِرَارًا"، ثُمَّ قَالَ: "إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ، فَلْيَقُلْ أَحْسِبُهُ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: "افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی"، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: "تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الشہادات ۱۶ (۲۶۶۲)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۲)، صحیح مسلم/الزہد ۱۴ (۳۰۰۰)، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ (۴۸۰۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۱،۴۶،۴۷،۵۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے، حدیثوں کا یہی مطلب ہے کہ منہ پر کسی کی تعریف نہ کرے، یہ بھی اس وقت جب اس شخص کے غرور میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، ورنہ صحیحین کی کئی حدیثوں سے منہ پر تعریف کرنے کا جواز نکلتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے احد پہاڑ سے فرمایا: تھم جا، تیرے اوپر کوئی نہیں ہے مگر نبی اور صدیق اور شہید اور اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ حاضر تھے، اور بعضوں نے کہا: کراہت اس وقت ہے جب مدح میں مبالغہ کرے اور جھوٹ کہے، اور بعضوں نے کہا اس وقت مکروہ ہے جب اس سے دنیاوی کام نکالنا منظور ہو، اور یہ تعریف غرض کے ساتھ ہو، «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے (لہٰذا وہ ایمانداری سے مشورہ دے)"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۲۳ (۵۱۲۸)، سنن الترمذی/الأدب ۵۷ (۸۸۲۲)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۸۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ".
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے (لہٰذا وہ دیانتداری سے مشورہ دے)"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۹۸۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۰۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۴)، سنن الدارمی/السیر ۱۳ (۲۴۹۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اسْتَشَارَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُشِرْ عَلَيْهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مشورہ طلب کرے، تو اسے مشورہ دینا چاہیئے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۹۳۹)(ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الْإِفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تُفْتَحُ لَكُمْ أَرْضُ الْأَعَاجِمِ، وَسَتَجِدُونَ فِيهَا بُيُوتًا يُقَالُ لَهَا: الْحَمَّامَاتُ، فَلَا يَدْخُلْهَا الرِّجَالُ إِلَّا بِإِزَارٍ، وَامْنَعُوا النِّسَاءَ أَنْ يَدْخُلْنَهَا إِلَّا مَرِيضَةً أَوْ نُفَسَاءَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے عجم کے ممالک فتح ہوں گے، تو وہاں تم کچھ ایسے گھر پاؤ گے جنہیں حمامات (عمومی غسل خانے) کہا جاتا ہو گا، تو مرد ان میں بغیر تہہ بند کے داخل نہ ہوں، اور عورتوں کو اس میں جانے سے روکو، سوائے اس عورت کے جو بیمار ہو، یا نفاس والی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الحمام ۱ (۴۰۱۱)،(تحفة الأشراف:۸۸۷۷)(ضعیف) (سند میں عبدالرحمن بن زیاد اور عبد الرحمن بن رافع دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ أَبِي عُذْرَةَ، قَالَ: وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ مِنَ الْحَمَّامَاتِ، ثُمَّ رَخَّصَ لِلرِّجَالِ أَنْ يَدْخُلُوهَا فِي الْمَيَازِرِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ لِلنِّسَاءِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) مردوں اور عورتوں دونوں کو حمام میں جانے سے منع کیا تھا، پھر مردوں کو تہبند پہن کر جانے کی اجازت دی، اور عورتوں کو اجازت نہیں دی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۷۹۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۰)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحمام ۱ (۴۰۰۹)، سنن الترمذی/الأدب۴۳ (۲۸۰۲)، ولم یذکرا: ''ولم يرخص للنساء'' مسند احمد (۶/۱۳۲،۱۳۹،۱۷۹)(ضعیف) (ابوعذرہ مجہول راوی ہیں، ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ الْهُذَلِيِّ، أَنَّ نِسْوَةً مِنْ أَهَلْ حِمْصَ اسْتَأْذَنَّ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ اللَّوَاتِي يَدْخُلْنَ الْحَمَّامَاتِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ وَضَعَتْ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا، فَقَدْ هَتَكَتْ سِتْرَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ".
ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ حمص کی کچھ عورتوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو انہوں نے کہا کہ شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "جس عورت نے اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارے تو اس نے اس پردہ کو پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الحمام ۱ (۴۰۱۰)، سنن الترمذی/الأدب ۴۳ (۲۸۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۷۸۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/ ۱۷۳،۱۹۸، سنن الدارمی/الاستئذان ۲۳ (۲۶۹۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: حمص: جو ملک شام میں ایک مشہور شہر کا نام ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے پاک عورتوں کو تقویٰ پرہیز گاری اور عصمت کا جو پردہ اڑھایا ہے، وہ ایسا کرنے سے پھٹ جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ الرُّمَّانِيِّ، عَنْحَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ"إِذَا اطَّلَى، بَدَأَ بِعَوْرَتِهِ فَطَلَاهَا بِالنُّورَةِ، وَسَائِرَ جَسَدِهِ أَهْلُهُ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بال صاف کرنے کا پاؤڈر لگاتے تو پہلے آپ اپنی شرمگاہ پر ملتے، پھر باقی بدن پر آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن ملتیں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۱۴۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۱)(ضعیف) (سند میں حبیب بن أبی ثابت اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مابین انقطاع ہے، اس لئے کہ حبیب نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنا نہیں ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"اطَّلَى وَوَلِيَ عَانَتَهُ بِيَدِهِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شرمگاہ پر اپنے ہاتھ سے خود بال صاف کرنے کا پاؤڈر لگایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۱۴۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۲)(ضعیف) (حبیب بن أبی ثابت اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْهِقْلُ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ الْأَسْلَمِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَقُصُّ عَلَى النَّاسِ، إِلَّا أَمِيرٌ أَوْ مَأْمُورٌ أَوْ مُرَاءٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کو وعظ و نصیحت وہی کرتا ہے جو حاکم ہو، یا وہ شخص جو حاکم کی جانب سے مقرر ہو، یا جو ریا کار ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۲۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۸،۱۸۳)، سنن الدارمی/الرقاق ۶۳ (۲۸۲۱)(صحیح) (اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن عامر الاسلمی ضعیف ہیں، لیکن دوسری سند سے تقو یت پاکر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اور ریاکار وہ ہے جو لوگوں میں اپنی ناموری اور شہرت کے لئے وعظ کہتا ہے، اور لوگوں کو بری بات سے منع کرتا ہے، اور خود سب سے زیادہ برے کاموں میں پھنسا رہتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْعُمَرِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "لَمْ يَكُنِ الْقَصَصُ فِي زَمَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ، وَلَا زَمَنِ عُمَرَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ قصہ گوئی نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی، اور نہ ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۷۳۸، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۴)(ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن عمرالعمری ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِكْمَةً".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک کچھ شعر حکمت و دانائی پر مبنی ہوتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۹۰ (۶۱۴۵)، سنن ابی داود/الأدب ۹۵ (۵۰۰۹،۵۰۱۰)،(تحفة الأشراف:۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/ ۱۲۵،۱۲۶)، سنن الدارمی/الاستئذان ۶۸ (۲۷۴۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: "إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِكَمًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "بعض اشعار میں حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۹۵ (۵۰۱۱)، سنن الترمذی/الأدب ۶۹ (۲۸۴۵)،(تحفة الأشراف:۶۱۰۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۶۹،۲۷۳،۳۰۳،۳۰۹،۳۱۳،۳۲۷،۳۳۲)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ، وَكَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید (شاعر) کا یہ شعر ہے «ألا كل شيء ما خلا الله باطل» سن لو! اللہ کے علاوہ ساری چیزیں فانی ہیں اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۴۱)، صحیح مسلم/الشعر (۲۲۵۶)، سنن الترمذی/الأدب ۷۰ (۲۸۴۹)،(تحفة الأشراف:۱۴۹۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۸،۳۹۱،۳۹۳،۴۴۴،۴۵۸،۴۷۰،۴۸۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْلَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَنْشَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ قَافِيَةٍ مِنْ شِعْرِ أُمَيَّةَ بْنِ أَبِي الصَّلْتِ، يَقُولُ بَيْنَ كُلِّ قَافِيَةٍ: "هِيهْ"، وَقَالَ: "كَادَ أَنْ يُسْلِمَ".
شرید ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امیہ بن ابی صلت کے سو اشعار پڑھے، آپ ہر شعر کے بعد فرماتے جاتے: اور پڑھو"، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قریب تھا کہ وہ مسلمان ہو جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الشعر (۲۲۵۵)، سنن الترمذی/الشمائل (۲۴۹)، سنن النسائی/الیوم و للیلة (۹۹۸)،(تحفة الأشراف:۴۸۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۸۸،۳۸۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَيْحًا، حَتَّى يَرِيَهُ خَيْرٌ لَهُ، مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا"، إِلَّا أَنَّ حَفْصًا لَمْ يَقُلْ: "يَرِيَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیماری کے سبب آدمی کے پیٹ کا مواد سے بھر جانا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو" ۱؎۔ حفص نے «یریہ» کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأدب ۹۲ (۶۱۵۵)، صحیح مسلم/الشعر (۲۲۵۷)، سنن الترمذی/الأدب ۷۱ (۲۸۵۱)،(تحفة الأشراف:۱۲۳۶۴،۱۲۴۶۸،۱۲۵۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۸۸،۳۵۵،۳۹۱،۴۸۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسے اشعار سے جس میں کفر، فسق یا مبالغہ و کذب کے مضامین ہوں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا، حَتَّى يَرِيَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی کے پیٹ کا بیماری کے سبب پیپ (مواد) سے بھر جانا زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھرا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الشعر (۲۲۵۸)، سنن الترمذی/الأدب ۷۱ (۲۸۵۲)،(تحفة الأشراف:۳۹۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۵،۱۷۷،۱۸۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ فِرْيَةً لَرَجُلٌ هَاجَى رَجُلًا، فَهَجَا الْقَبِيلَةَ بِأَسْرِهَا، وَرَجُلٌ انْتَفَى مِنْ أَبِيهِ، وَزَنَّى أُمَّهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بڑا بہتان لگانے والا وہ شخص ہے جو کسی ایک شخص کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ اس کی ساری قوم کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ شخص جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کو باپ بنائے، اور اپنی ماں کو زنا کا مرتکب قرار دے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۳۲۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جب باپ کو چھوڑ کر اپنے کو دوسرے کا بیٹا قرار دیا تو گویا اس نے اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگائی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدِ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے «نرد» (چوسر) کھیلا، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۶۴ (۴۹۳۸)،(تحفة الأشراف:۸۹۹۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الرؤیا ۲ (۶)، مسند احمد (۴/۳۹۴،۳۹۷،۴۰۰)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ لَعِبَ بِالنَّرْدَشِيرِ، فَكَأَنَّمَا غَمَسَ يَدَهُ فِي لَحْمِ خِنْزِيرٍ وَدَمِهِ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ سور کے گوشت اور خون میں ڈبویا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الشعر ۱ (۲۲۶۰)، سنن ابی داود/الأدب ۶۴ (۴۹۳۹)،(تحفة الأشراف:۱۹۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۲،۳۵۷،۳۶۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْعَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ إِلَى إِنْسَانٍ يَتْبَعُ طَائِرًا، فَقَالَ: "شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو ایک پرندہ کے پیچھے لگا ہوا تھا، یعنی اسے اڑا رہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شیطان ہے، جو شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۷۶۲، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۶)(صحیح) (اس سند میں شریک ضعیف الحفظ ہیں، لیکن اگلی حدیث میں حماد بن سلمہ کی متابعت سے یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: اڑانے والا اس لئے شیطان ہے کہ وہ اللہ تعالی سے غافل اور بے پرواہ ہے، اور پرندہ اس لئے شیطان ہے کہ وہ اڑانے والے کی غفلت کا سبب بنا ہے۔ پرندوں کو کسی جائز مقصد کے لیے پالنا جائز ہے، تاہم اگر محض تفریح کے لیے ہوں اور وقت کے ضیاع کا باعث ہوں تو ان سے بچنا چاہیے۔ ہر وہ مشغلہ جس کو جائز حد سے زیادہ اہمیت دی جائے اور اس پر وقت اور مال ضائع کیا جائے وہ ممنوع ہے۔ کبوتر بازی کی طرح پتنگ بازی بھی فضول اور خطرناک مشغلہ ہے اس سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَتْبَعُ حَمَامَةً، فَقَالَ: "شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھا، تو فرمایا: "شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۶۵ (۴۹۴۰)،(تحفة الأشراف:۱۵۰۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۴۵)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَرَاءَ حَمَامَةٍ، فَقَالَ: "شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانَةً".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا: "شیطان شیطانہ کے پیچھے لگا ہوا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۷۸۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۴۵)(صحیح) (سند میں حسن بصری اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا رَوَّادُ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَتْبَعُ حَمَامًا، فَقَالَ: "شَيْطَانٌ يَتْبَعُ شَيْطَانًا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے لگا ہوا دیکھ کر فرمایا: "شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۱۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۸)(حسن) (سند میں ابوسعد الساعدی مجہول اور رواد بن جراح ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ شواہد سے یہ حسن ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُكُمْ مَا فِي الْوَحْدَةِ، مَا سَارَ أَحَدٌ بِلَيْلٍ وَحْدَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم میں سے کسی کو تنہائی کی برائی اور خرابی معلوم ہو جاتی، تو وہ کبھی رات میں تنہا نہ چلتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۱۳۵ (۲۹۹۸)، سنن الترمذی/الجہاد ۴ (۱۶۷۳)،(تحفة الأشراف:۷۴۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳،۲۴،۶۰،۸۶،۱۱۲،۱۲۰)، سنن الدارمی/الاسئذان ۴۷ (۲۷۲۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: غزوہ خندق کے موقع پر زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوسی کے لیے تنہا بھیجا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ کسی جنگی ضرورت کے پیش نظر اکیلے سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم سونے لگو تو اپنے گھروں میں (جلتی ہوئی) آگ مت چھوڑو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الاستئذان ۴۹ (۶۲۹۳)، صحیح مسلم/الأشربة ۲۱ (۲۰۱۵)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۳ (۵۲۴۶)، سنن الترمذی/الأطعمة ۱۵ (۱۸۱۳)،(تحفة الأشراف:۶۸۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۷،۴۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ آگ چراغ کی شکل میں ہو یا سردیوں میں گرمی حاصل کرنے کی انگیٹھیاں، اور ہیٹر یا گیس کے سلنڈر ہوں تجربات و مشاہدات سے واضح ہے کہ ان کو جلتا ہوا چھوڑ کر سونا نہایت خطرناک ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: احْتَرَقَ بَيْتٌ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ، فَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَأْنِهِمْ، فَقَالَ: "إِنَّمَا هَذِهِ النَّارُ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ کا ایک گھر لوگوں سمیت جل گیا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک آگ تمہاری دشمن ہے، لہٰذا جب تم سونے لگو، تو آگ بجھا دیا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الاستئذان ۴۹ (۶۲۹۴)، صحیح مسلم/الأشربة ۱۲ (۲۰۱۶)،(تحفة الأشراف:۹۰۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَهَانَا: "فَأَمَرَنَا أَنْ نُطْفِئَ سِرَاجَنَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت سی باتوں کا حکم دیا، اور بہت سی باتوں سے منع فرمایا: (ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ)آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (سوتے وقت) چراغ بجھا دیا کریں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۷۹۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۴۹ (۶۲۹۵)، صحیح مسلم/الأشربة ۱۲ (۲۰۱۳)، سنن ابی داود/الأشربة ۲۲ (۳۷۳۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَنْزِلُوا عَلَى جَوَادِّ الطَّرِيقِ، وَلَا تَقْضُوا عَلَيْهَا الْحَاجَاتِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نہ راستہ کے درمیان قیام کرو، اور نہ وہاں قضائے حاجت کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الجہاد ۶۳ (۲۵۷۰)،(تحفة الأشراف:۲۲۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ آنے جانے والوں کو اس سے تکلیف ہو گی، دین اسلام نے کوئی بات نہیں چھوڑی یہاں تک صفائی کا انتظام بھی اس میں موجود ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا مُوَرِّقٌ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ تُلُقِّيَ بِنَا، قَالَ: فَتُلُقِّيَ بِي وَبِالْحَسَنِ أَوْ بِالْحُسَيْنِ، قَالَ: "فَحَمَلَ أَحَدَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، وَالْآخَرَ خَلْفَهُ، حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے تشریف لاتے تو ہم لوگ آپ کے استقبال کے لیے جاتے، ایک بار میں نے اور حسن یا حسین رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، تو آپ نے ہم دونوں میں سے ایک کو اپنے آگے، اور دوسرے کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا، یہاں تک کہ ہم مدینہ پہنچ گئے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة ۱۱ (۲۴۲۸)، سنن ابی داود/الجہاد ۶۰ (۲۵۶۶)،(تحفة الأشراف:۵۲۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۳)، سنن الدارمی/الاسئذان ۳۶ (۲۷۰۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا بَقِيَّةُ، أَنْبَأَنَا أَبُو أَحْمَدَ الدِّمَشْقِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "تَرِّبُوا صُحُفَكُمْ أَنْجَحُ لَهَا، إِنَّ التُّرَابَ مُبَارَكٌ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم خط لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈال دیا کرو، اس سے تمہاری مراد پوری ہو گی کیونکہ مٹی مبارک چیز ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۰۰۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۱۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان ۲۰ (۲۷۱۳)(ضعیف) (سند میں بقیہ ضعیف و مدلس اور ابوحمد الدمشقی مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يَحْزُنُهُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم تین آدمی ساتھ رہو تو تم میں سے دو آدمی تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر باہم کانا پھوسی اور سرگوشی نہ کریں، کیونکہ یہ اسے رنج و غم میں مبتلا کر دے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/السلام ۱۵ (۲۱۸۴)، سنن ابی داود/الأدب ۲۹ (۴۸۵۱)، سنن الترمذی/الأدب ۵۹ (۲۸۲۵)،(تحفة الأشراف:۹۲۵۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۴۷ (۶۲۹۰،۶۲۹۱)، مسند احمد (۱/۳۷۵،۴۲۵،۴۳۰،۴۴۰،۴۶۲،۴۶۴،۴۶۵، سنن الدارمی/الاستئذان ۲۸ (۲۶۹۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی سرگوشی اور کان میں بات کرنا اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے آدمی کو رنج ہو گا، اور اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہو گا کہ معلوم نہیں چپکے چپکے یہ کیا صلاح و مشورہ کرتے ہیں، البتہ اگر مجلس میں تین سے زائد آدمی ہوں تو دو آدمی باہم سرگوشی کر سکتے ہیں۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر تین آدمی موجود ہوں تو تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی باہم سرگوشی کریں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۱۷۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الاستئذان ۴۵ (۶۲۸۸)، صحیح مسلم/السلام ۱۵ (۲۱۸۴)، سنن ابی داود/الأدب ۲۹ (۴۸۵۱)، موطا امام مالک/الکلام ۶ (۱۴)، مسند احمد (۱/۴۲۵،۴۶۲،۴۶۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: مَرَّ رَجُلٌ بِسِهَامٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمْسِكْ بِنِصَالِهَا"، قَالَ: نَعَمْ.
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن دینار سے کہا: کیا آپ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ ایک شخص مسجد میں تیر لے کر گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی پیکان (نوک و پھل) تھام لو"، انہوں نے کہا: ہاں (سنا ہے) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة ۶۶ (۴۵۱)، الفتن ۷ (۷۰۷۳)، صحیح مسلم/البر والصلة ۳۴ (۲۶۱۴)، سنن ابی داود/الجہاد ۷۲ (۲۵۸۶)، سنن النسائی/المساجد ۲۶ (۷۱۹)،(تحفة الأشراف:۲۵۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۰۸،۳۵۰)، سنن الدارمی/المقدمة ۵۳ (۶۵۷)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حکم اس لیے ہے کہ کسی کو اس کی نوک نہ لگے کہ وہ زخمی ہو جائے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا مَرَّ أَحَدُكُمْ فِي مَسْجِدِنَا أَوْ فِي سُوقِنَا وَمَعَهُ نَبْلٌ، فَلْيُمْسِكْ عَلَى نِصَالِهَا بِكَفِّهِ، أَنْ تُصِيبَ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِشَيْءٍ، أَوْ فَلْيَقْبِضْ عَلَى نِصَالِهَا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد یا بازار میں سے ہو کر گزرے، اور اس کے ساتھ تیر ہو تو اس کی پیکان اپنی ہتھیلی سے پکڑے رہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو اس کی نوک لگ جائے، (اور وہ زخمی ہو)، یا چاہیئے کہ وہ تیر کی پیکان اپنی مٹھی میں دبائے رہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة ۶۷ (۴۵۲)، الفتن ۷ (۷۰۷۵)، صحیح مسلم/البر والصلة ۳۴ (۲۶۱۵)، سنن ابی داود/الجہاد ۷۲ (۲۵۸۷)،(تحفة الأشراف:۹۰۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۱،۳۹۲،۳۹۷،۴۱۰،۴۱۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَؤُهُ يَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ اثْنَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص قرآن کے پڑھنے میں ماہر ہو، وہ معزز اور نیک سفراء (فرشتوں) کے ساتھ ہو گا، اور جو شخص قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتا ہو اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہو تو اس کو دو گنا ثواب ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن ۷۹ (۴۹۳۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۳۸ (۷۹۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۹ (۱۴۵۴)، سنن الترمذی/فضائل القرآن ۱۳ (۲۹۰۴)،(تحفة الأشراف:۱۶۱۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۸،۹۴،۹۸،۱۱۰،۱۷۰،۱۹۲،۲۳۹،۲۶۶)، سنن الدارمی/فضائل القرآن ۱۱ (۳۴۱۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک تلاوت کا، دوسرے محنت کرنے کا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَنْبَأَنَا شَيْبَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ إِذَا دَخَلَ الْجَنَّةَ: اقْرَأْ وَاصْعَدْ، فَيَقْرَأُ وَيَصْعَدُ بِكُلِّ آيَةٍ دَرَجَةً، حَتَّى يَقْرَأَ آخِرَ شَيْءٍ مَعَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرآن والے (قرآن کی تلاوت کرنے والے سے، یا حافظ قرآن سے) سے جب وہ جنت میں داخل ہو گا کہا جائے گا: "پڑھتا جا اور اوپر چڑھتا جا، تو وہ پڑھتا اور چڑھتا چلا جائے گا، وہ ہر آیت کے بدلے ایک درجہ ترقی کرتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ جو اسے یاد ہو گا وہ سب پڑھ جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۰)(صحیح)(سند میں عطیہ العوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۲۴۰، صحیح أبی داود:۱۳۱۷)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، فَيَقُولُ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا، اور حافظ قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا، اور دن کو پیاسا رکھا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۹۵۳، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۸،۳۵۲،۳۶۱)، سنن الدارمی/فضائل القران ۱۵ (۳۴۳۴)(حسن) (سند میں بشیر بن مہاجر لین الحدیث ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۲۸۳۷)
وضاحت: ۱؎: یعنی دن کو روزہ رکھتا تھا اور رات کو قرآن پڑھتا یا قرآن سنتا تھا پس سننے والوں کو بھی ایسا ہی کہے گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ"، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: "فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَؤُهُنَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ سِمَانٍ عِظَامٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں"؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں (کیوں نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین ۴۱ (۸۰۲)،(تحفة الأشراف:۱۲۴۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۹۶،۴۶۶،۴۹۶)سنن الدارمی/فضائل القرآن ۱ (۳۳۵۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الْقُرْآنِ مَثَلُ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ، إِنْ تَعَاهَدَهَا صَاحِبُهَا بِعُقُلِهَا أَمْسَكَهَا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَطْلَقَ عُقُلَهَا ذَهَبَتْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہے جب تک مالک اسے باندھ کر دیکھ بھال کرتا رہے گا تب تک وہ قبضہ میں رکھے گا، اور جب اس کی رسی کھول دے گا تو وہ بھاگ جائے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین ۳۲ (۷۸۹)، سنن الترمذی/القراء ات ۱۰۰ (۲۹۴۲)،(تحفة الأشراف:۷۵۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل القرآن ۲۳ (۵۰۳۱)، سنن النسائی/الافتتاح ۳۷ (۹۴۳)، موطا امام مالک/القرآن ۴ (۶)، مسند احمد (۲/۱۷،۲۳،۳۰،۶۴،۱۱۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس لیے حافظ قرآن کو چاہئے کہ وہ پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہے، کیونکہ اگر وہ اسے پڑھنا ترک کر دے گا، تو بھول جائے گا پھر اس کی ساری محنت ضائع ہو جائے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي شَطْرَيْنِ، فَنِصْفُهَا لِي، وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ"، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْرَءُوا: يَقُولُ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: حَمِدَنِي عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَيَقُولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3، فَيَقُولُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4، فَيَقُولُ اللَّهُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، فَهَذَا لِي، وَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، يَقُولُ الْعَبْدُ: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5، يَعْنِي: فَهَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي، يَقُولُ الْعَبْدُ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ 6 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ 7 سورة الفاتحة آية 6-7، فَهَذَا لِعَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، آدھا میرے لیے ہے، اور آدھا میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے"، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پڑھو!، جب بندہ «الحمد لله رب العالمين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «حمدني عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری حمد ثنا بیان کی، اور بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور جب بندہ «الرحمن الرحيم» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أثنى علي عبدي ولعبدي ما سأل» میرے بندے نے میری تعریف کی، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر جب بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:«مجدني عبدي فهذا لي وهذه الآية بيني وبين عبدي نصفين» میرے بندے نے میری عظمت بیان کی تو یہ میرے لیے ہے، اور یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، یعنی پھر جب بندہ «إياك نعبد وإياك نستعين» کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فهذه بيني وبين عبدي ولعبدي ما سأل وآخر السورة لعبدي» یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان آدھی آدھی ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، اور سورت کی اخیر آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، پھر جب بندہ «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: «فهذا لعبدي ولعبدي ما سأل» یہ میرے بندہ کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۰۴۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۱ (۳۹۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۳۶ (۸۲۱)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ۲ (۱)(۲۹۵۳)، سنن النسائی/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، موطا امام مالک/الصلاة ۹ (۳۹)مسند احمد (۲/۲۴۱،۲۵۰،۲۸۵،۲۹۰،۴۵۷،۴۷۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ؟"، قَالَ: فَذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ، فَأَذْكَرْتُهُ، فَقَالَ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَهِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ".
ابوسعید بن معلّیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "کیا میں مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں وہ سورت نہ سکھاؤں جو قرآن مجید میں سب سے عظیم سورت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ سورت«الحمد لله رب العالمين» ہے جو سبع مثانی ہے، اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے عطا کیا گیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة ۱ (۴۴۷۴)، تفسیرالأنفال ۳ (۴۶۴۷)، وتفسیر الحجر ۳ (۴۷۰۳)، فضائل القرآن ۹ (۵۰۰۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۵۰ (۱۴۵۸)، سنن النسائی/الافتتاح ۳۶ (۹۱۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۰۴۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۷ (۳۷)، مسند احمد (۳/۴۵۰،۴/۲۱۱)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۷۲ (۱۵۳۳)، فضائل القرآن ۱۲ (۳۴۱۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُشَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ سُورَةً فِي الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِصَاحِبِهَا حَتَّى غُفِرَ لَهُ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قرآن میں ایک سورت ہے جس میں تیس آیتیں ہیں وہ اپنے پڑھنے والے کے لیے (اللہ تعالیٰ سے) سفارش کرے گی، حتیٰ کہ اس کی مغفرت کر دی جائے گی، اور وہ سورۃ «تبارك الذي بيده الملك» ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة ۳۲۷ (۱۴۰۰)، سنن الترمذی/فضائل القرآن ۹ (۲۸۹۱)،(تحفة الأشراف:۱۳۵۵۰)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/فضائل القرآن ۲۳ (۳۴۵۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، حَدَّثَنِي سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «قل هو الله أحد» (یعنی سورۃ الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/فضائل القرآن ۱۱ (۲۸۹۹)،(تحفة الأشراف:۱۲۶۷۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/ المسافرین ۴۵ (۸۱۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «قل هو الله أحد» (یعنی سورۃ الاخلاص) (ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۵۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/فضائل القرآن ۱۱ (۲۸۹۹)، سنن الدارمی/فضائل القرآن ۲۴ (۳۴۷۵)(صحیح)
حدثنا علي بن محمد حدثنا وكيع عن سفيان عن أبي قيس الأودي عن عمرو بن ميمون عن أبي مسعود الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الله أحد الواحد الصمد تعدل ثلث القرآن».
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «الله أحد الواحد الصمد» (یعنی سورۃ الاخلاص ثواب میں) تہائی قرآن کے برابر ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۰۰۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ کلمات ثواب میں تہائی قرآن کے برابر ہیں بعض نسخوں میں یوں ہے: «قل ھو الله أحد الصمد» تہائی قرآن کے برابر ہے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْزِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ، وَأَرْضَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٍ لَكُمْ مِنْ إِعْطَاءِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَمِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ، فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ، وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ"، قَالُوا: وَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "ذِكْرُ اللَّهِ"، وقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: مَا عَمِلَ امْرُؤٌ بِعَمَلٍ، أَنْجَى لَهُ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ.
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل ہو، اور تمہارے مالک کو سب سے زیادہ محبوب ہو، اور تمہارے درجات کو بلند کرتا ہو، اور تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے اور دشمن سے ایسی جنگ کرنے سے کہ تم ان کی گردنیں مارو، اور وہ تمہاری گردنیں ماریں بہتر ہو؟"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سا عمل ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ اللہ کا ذکر ہے"۔ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دلانے والا انسان کا کوئی عمل ذکر الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۶ (۳۳۷۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۹۵۰)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن ۷ (۲۴)، مسند احمد (۵/۱۹۵،۶/۴۴۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، يَشْهَدَانِ بِهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ فِيهِ، إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَغَشَّتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَتَنَزَّلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ".
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ دونوں گواہی دیتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لوگ مجلس میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے ہیں، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور (اللہ کی) رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور سکینت ان پر نازل ہونے لگتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے ان کا ذکر کرتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الذکروالدعاء ۱۱ (۲۷۰۰)، سنن الترمذی/الدعوات ۷ (۳۳۷۸)،(تحفة الأشراف:۳۹۶۴،۱۲۱۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد۳/۳۳،۴۹،۹۲،۹۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں نے زور سے اللہ کی یاد شروع کی یعنی بہت چلا کر تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " تم اس کو نہیں پکارتے جو بہرہ ہے، یا غائب ہے، اپنے اوپر آسانی کرو، دوسری روایت میں ہے کہ وہ تم سے زیادہ قریب ہے تمہارے پالان کی آگے کی لکڑی یا تمہارے اونٹ کی گردن سے بھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ اور ہر چیز کو سنتا، اور دیکھتا ہے، پس چلانے کی ضرورت نہیں اگرچہ اس کی ذات مقدس عرش معلی پر ہے مگر اس کا سمع اور بصر ہر جگہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، يَقُولُ: أَنَا مَعَ عَبْدِي إِذَا هُوَ ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کی وجہ سے حرکت میں ہوتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۵۱۲، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید ۴۳ تعلیقا، مسند احمد (۲/۵۴۰)(صحیح) (سند میں محمد بن مصعب قرقسانی صدوق اور کثیر الغلط راوی ہیں، ابن حبان کے یہاں ایوب بن سوید نے ان کی متابعت کی ہے، بوصیری نے سند کو حسن کہا ہے، اور البانی نے شاہد کی بناء پر صحیح کہا ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْكِنْدِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَنْبِئْنِي مِنْهَا بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ: "لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و قواعد مجھ پر بہت ہو گئے ہیں ۱؎، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جس پر میں مضبوطی سے جم جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیئے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۴ (۳۳۷۵)،(تحفة الأشراف:۵۱۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۸۸،۱۹۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسلام میں نیک اعمال کے طریقے بہت زیادہ ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ، أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، وَأَنَا أَكْبَرُ، وَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، وَلَا شَرِيكَ لِي، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، لِي الْمُلْكُ وَلِيَ الْحَمْدُ، وَإِذَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ: صَدَقَ عَبْدِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي"، قَالَ أَبُو إِسْحَاق: ثُمَّ قَالَ: الْأَغَرُّ شَيْئًا لَمْ أَفْهَمْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ: مَا قَالَ، فَقَالَ: مَنْ رُزِقَهُنَّ عِنْدَ مَوْتِهِ، لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ.
اغر ابومسلم سے روایت ہے اور انہوں نے شہادت دی کہ ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما دونوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بندہ «لا إله إلا الله والله أكبر» یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں ہی سب سے بڑا ہوں، اور جب بندہ «لا إله إلا الله وحده» یعنی صرف تنہا اللہ ہی عبادت کے لائق ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، میں ہی اکیلا معبود برحق ہوں، اور جب بندہ «لا إله إلا الله لا شريك له»کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرا کوئی شریک اور ساجھی نہیں، اور جب بندہ «لا إله إلا الله له الملك وله الحمد» یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اسی کی بادشاہت اور ہر قسم کی تعریف ہے، کہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، بادشاہت اور تعریف (یعنی ملک اور حمد) میرے ہی لیے ہے، اور جب بندہ «لا إله إلا الله ولا حول ولا قوة إلا بالله» یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور اس کے علاوہ کسی میں کوئی طاقت و قوت نہیں، کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، میرے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میرے علاوہ کسی میں کوئی قوت و طاقت نہیں ۱؎۔ ابواسحاق کہتے ہیں: پھر اغر نے ایک بات کہی جسے میں نہ سمجھ سکا، میں نے ابوجعفر سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مرتے وقت ان کلمات کے کہنے کی توفیق بخشی تو اسے جہنم کی آگ نہ چھوئے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۳۷ (۳۴۳۰)،(تحفة الأشراف:۳۹۶۶،۱۲۱۹۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس میں کلمہ تمجید کے علیحدہ علیحدہ کلمات مذکور ہیں، پورا کلمہ یوں ہے جو ہر نماز کے بعد پڑھنا مسنون ہے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له الملك وله الحمد و هو على كل شيئ قدير لاإله إلا الله والله أكبرلا حول ولا قوة إلا باللهالعلى العظيم»۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْالشَّعْبِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ سُعْدَى الْمُرِّيَّةِ، قَالَتْ: مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لَكَ مُكتَئِبًا أَسَاءَتْكَ إِمْرَةُ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ مَوْتِهِ، إِلَّا كَانَتْ نُورًا لِصَحِيفَتِهِ، وَإِنَّ جَسَدَهُ وَرُوحَهُ لَيَجِدَانِ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ"، فَلَمْ أَسْأَلْهُ حَتَّى تُوُفِّيَ، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُهَا هِيَ الَّتِي أَرَادَ عَمَّهُ عَلَيْهَا، وَلَوْ عَلِمَ أَنَّ شَيْئًا أَنْجَى لَهُ مِنْهَا لَأَمَرَهُ.
سعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گزرے، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ میں تم کو رنجیدہ پاتا ہوں؟ کیا تمہیں اپنے چچا زاد بھائی (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کی خلافت گراں گزری ہے؟، انہوں نے کہا: نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی اسے موت کے وقت کہے گا تو وہ اس کے نامہ اعمال کا نور ہو گا، اور موت کے وقت اس کے بدن اور روح دونوں اس سے راحت پائیں گے"، لیکن میں یہ کلمہ آپ سے دریافت نہ کر سکا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کلمہ کو جانتا ہوں، یہ وہی کلمہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے مرتے وقت پڑھنے کے لیے کہا تھا، اور اگر آپ کو اس سے بہتر اور باعث نجات کسی کلمہ کا علم ہوتا تو وہی پڑھنے کے لیے فرماتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۰۲۱،۱۰۶۷۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۶۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو اپنے چچا سے جو الفت و محبت تھی، اور جس طرح آپ انہیں آخری وقت میں قیامت کے دن کے عذاب سے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، اور کلمہ «لا إله إلا الله» کہنے کا حکم دیتے رہے، اس سے بہتر کوئی دوسرا کلمہ نہیں ہو سکتا جسے مرتے وقت کوئی اپنی زبان سے ادا کرے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى قَلْبِ مُوقِنٍ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کی موت اس گواہی پر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ گواہی سچے دل سے ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۳۳۱، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۲۹)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: وعدوں سے متعلق بہت ساری احادیث آئی ہیں: ۱- بعض ایسی احادیث ہیں جس میں کسی نیکی کے کرنے پر جنت کی بشارت ہے۔ ۲- اور بعض میں کسی کام کے کرنے پر جنت کے حرام ہونے کی وعید اور دھمکی ہے۔ اور وعید سے متعلق بھی متعدد احادیث آئی ہیں: ۱- بعض احادیث میں بعض کبیرہ گناہوں پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ ۲- بعض کبائر کے مرتکب سے ایمان کی نفی آئی ہے۔ ۳- بعض احادیث میں ان کبائر کے مرتکب سے نبی اکرم ﷺ نے اپنی براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ ۴- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کے بارے میں ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ۵- بعض میں بعض کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر جہنم کی دھمکی ہے۔ ۶- بعض احادیث میں بعض کبائر کے مرتکب کو لعنت سنائی گئی ہے، یعنی رحمت سے دوری کی دھمکی۔ وعید کی یہ ساری احادیث ایسے مسلمان کے بارے میں ہیں، جس کے پاس اصل ایمان و توحید کی دولت موجود ہے، لیکن اس سے بعض کبیرہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، اور وعدوں سے متعلق ساری احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کا مرتکب مسلمان جنت میں داخل ہو گا، اور جہنم سے نجات پائے گا، اس لئے وہ «لا الہ الا اللہ، محمد رسول اللہ»کی شہادت دینے والا ہے، اور فی الجملہ مسلمان ہے۔ اور وعید کی احادیث میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کرنے والے کو جہنم کے عذاب اور جنت سے محرومی کی دھمکی سنائی گئی ہے، اور بعض میں اس سے ایمان کی نفی ہے، بعض میں رسول اکرم ﷺ نے اس سے اپنی براءت کا اعلان فرمایا ہے، بلکہ بعض میں اس پر کفر کا اطلاق ہوا ہے۔ وعدہ اور وعید سے متعلق مسئلہ کو اہل علم نے عقیدے کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا ہے، اس لئے کہ ابتداء ہی میں ان احادیث کے سمجھنے میں اور اس سے مستفاد مسائل عقیدہ میں امت اسلامیہ اختلافات کا شکار ہوئی۔ اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ نصوص متواترہ کا مفاد ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد اپنے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی سزا میں داخل جہنم ہوں گے، پھر سزا بھگتنے کے بعد اصل توحید و ایمان کی برکت سے وہاں سے نکل کر داخل جنت ہوں گے، جیسا کہ شفاعت کی احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ علماء کا اس مسئلہ میں ایک مسلک یہ ہے کہ وعدوں سے متعلق احادیث کا ظاہری معنی ہی مراد ہے، اور کلمہ توحید و رسالت کے شروط اور تقاضوں کے پورے ہونے اور اس راہ کے موانع (رکاوٹوں) کے دور ہونے کے بعد ان وعدوں کا متحقق ہونا ضروری ولابدی ہے، اس لئے ان نصوص کو اسی طرح بیان کیا جائے گا، مثلاً حدیث میں ہے کہ جس شخص نے «لا الہ إلا اللہ» کہا وہ جنت میں داخل ہوا، اور جہنم کو اللہ نے اس پر حرام کر دیا، یا جس نے ایسا کیا جنت میں داخل ہوا وغیرہ وغیرہ، تو جنت کا یہ دخول اس صورت میں ہو گا جب کلمہ توحید کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہوں گے، اور دخول جنت کی راہ کے موانع (رکاوٹیں) دور کی ہوں گی، ان احادیث میں صرف یہ ہے کہ یہ جنت میں جانے یا جہنم سے نجات کا سبب ہیں، اور سبب کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ اس کے ہونے سے مسبب (نتیجہ) کا برآمد ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وعدہ کے پورا ہونے کے لئے شروط و قیود کا پایا جانا، اور موانع (رکاوٹوں) کا دور ہونا ضروری ہے۔ لیکن ان احادیث کو کسی خاص آدمی پر چسپاں کر کے اس کو جنت یا جہنم کا مستحق قرار دینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس مخصوص بندے نے کیا اس کلمہ کی شرائط اور تقاضے پورے کیے ہیں؟ جس سے وہ جنت کامستحق ہے، اور دخول جنت سے مانع چیزوں کو دور کر دیا ہے یا نہیں؟۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہی مسلک ہے، امام بخاری نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث: «ما من عبد قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة» کے بارے میں فرمایا: «هذا عند الموت أو قبله، إذا تاب، وندم وقال: لا إله إلا الله غفر له» یہ موت کے وقت یا موت سے پہلے جب بندہ نے توبہ کی، نادم ہوا، اور «لا إله إلا الله» کہا، تو اس کو بخش دیا جائے گا چنانچہ توبہ و ندامت، اور کلمہ «لا إله إلا الله» پر موت سے جنت میں داخلہ کی شروط اور شہادت میں قدح کرنے والی رکاوٹوں کی نفی ہو گئی، اور بندہ جنت میں چلا گیا۔ علامہ سلیمان بن عبداللہ تیسیرالعزیز الحمید (۷۲) میں فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اس کلمہ توحید کو اس کے معنی کی معرفت و سمجھ کے ساتھ کہا، اور ظاہر و باطن میں اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ یہ احادیث مطلق ہیں، دوسری احادیث میں ان کی قیود و شروط آئی ہیں، اس لئے قید و شرط پر ان مطلق احادیث کو پیش کرنا ضروری ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: " میرے دونوں جوتوں کو لے کر جاؤ، اور اس باغ کے پرے جو «لا الہ إلا اللہ» کہنے، اور اس پر دل سے یقین رکھنے والا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو "۔ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کئے بغیر مر گیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جس نے خلوص دل سے «لا إلہ الا اللہ» کی گواہی دی، یا یقین قلب کے ساتھ گواہی دی وہ جہنم میں نہیں جائے گا، یا جنت میں جائے گا، نیز فرمایا: " وہ جنت میں داخل ہو گا، اور اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی"۔ امام ابن رجب فرماتے ہیں: اس کی وضاحت یہ ہے کہ بندہ کا «لا إله إلا الله» کہنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ غیر اللہ کے معبود ہونے کی نفی کرے، اور «إلــه» ایسی قابل اطاعت (مطاع) ذات ہے کہ اس کی اہمیت کے سامنے، اس کی جلالت شان کے آگے، اس سے محبت کرکے، اس سے ڈر کر، اس سے امید کر کے، اس پر توکل کر کے، اس سے سوال کر کے، اور اس کو پکار کر اس کی نافرمانی نہیں کی جا سکتی، یہ ساری چیزیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں، تو جس نے ان الٰہی خصوصیات و امتیازات میں سے کسی چیز میں بھی کسی مخلوق کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس کے «لا إله إلا الله» کے کہنے کے اخلاص میں یہ قدح وطعن کی بات ہوئی، اور اس کی توحید میں نقص آیا، اور اس میں اسی مقدار میں مخلوق کی عبودیت متحقق ہوئی، اور یہ سب شرک کی شاخیں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ وعدہ سے متعلق احادیث کو اس کے ظاہر پر رکھا جائے، اور اس کو ویسے ہی بیان کیا جائے، اور اس کو کسی مخصوص آدمی پر منطبق (چسپاں) نہیں کیا جائے گا، اور اس وعدے یعنی دخول جنت کے وجود کے تحقق کے لئے ایسی شروط وقیود ہیں جن کا وجود ضروری ہے، اور اس کی تنفیذ کی راہ میں جو موانع اور رکاوٹیں حائل ہوں ان کا دور ہونا ضروری ہے۔ بعض علماء نے ان احادیث کو اس کے عام اور ظاہری معنی میں نہیں لیا ہے بلکہ وہ اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں، مثلاً کلمہ گو مسلمان («لا إله إلا الله» کے قائل) پر جہنم کے حرام ہونے کا مطلب ان کے نزدیک اس کا ہمیشہ ہمیش اور ابد الآباد تک جہنم میں نہ رہنا ہے، بلکہ اس میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سے باہر نکلے گا، یا یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ کفار و منافقین کے جہنم کے ٹھکانوں میں داخل نہ کیا جائے گا، جب کہ بہت سے گنہگار موحد (مسلمان) جہنم کے اوپری طبقہ میں اپنے گناہوں کی پاداش میں داخل ہوں گے، اور اہل شفاعت کی شفاعت اور ارحم الراحمین کی رحمت سے وہ اس سے باہر نکل کر جنت میں جائیں گے، امام ابن قتیبہ اور قاضی عیاض انہی مذکورہ معانی کے اعتبار سے «لا إله إلا الله» کے قائلین کے جنت میں داخل ہونے کے استحقاق کی احادیث کے معنی و مراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ آخری انجام و عاقبت کے اعتبار سے عذاب پانے کے بعد وہ جنت میں جائیں گے۔ بعض اہل علم کے نزدیک وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامر و نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہو گئی ہیں، اور و اجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (الفریوائی)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، لَا يَسْبِقُهَا عَمَلٌ، وَلَا تَتْرُكُ ذَنْبًا".
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «لا إله إلا الله» سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، اور یہ کلمہ کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑتا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۰۱۳، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۶)(ضعیف) (زکریا بن منظور ضعیف راوی ہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کافر «لا إله إلا الله» کہہ کر مسلمان ہو جائے تو اس سے زمانہ کفر کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، أَخْبَرَنِي سُمَيٌّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَالَ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ لَهُ عَدْلُ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكُنَّ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ سَائِرَ يَوْمِهِ إِلَى اللَّيْلِ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا أَتَى بِهِ، إِلَّا مَنْ قَالَ أَكْثَرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایک دن میں سو بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہت اور تمام تعریفیں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، کہا تو اس کے لیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہے، اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، اور اس کی سو برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور وہ پورے دن رات تک شیطان سے بچا رہتا ہے، اور کسی کا عمل اس کے عمل سے افضل نہ ہو گا مگر جو کوئی اسی کلمہ کو سو بار سے زیادہ کہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۱ (۳۲۹۳)، الدعوات ۶۵ (۶۴۰۳)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۱۰ (۲۶۹۱)، سنن الترمذی/الدعوات ۶۰ (۳۴۶۴)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۷۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن ۷ (۲۰)، مسند احمد (۲/۳۰۲،۳۷۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے زیادہ ثواب ہو گا اسی طرح جو کوئی اور زیادہ کہے اس کو اور زیادہ ثواب ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَانَ كَعَتَاقِ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص نماز صبح (فجر) کے بعد «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد بيده الخير وهو على كل شيء قدير» کہے تو اسے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۳۸)(ضعیف) (سند میں عطیہ العوفی اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، «عشرمرات» کے لفظ سے اس طرح کی دعا ثابت ہے، کمافی صحیح الترغیب و الترھیب:۴۷۲ - ۴۷۵)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ بَشِيرِ بْنِ الْفَاكِهِ، قَالَ: سَمِعْتُطَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ ابْنَ عَمِّ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلَّهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "سب سے بہترین ذکر «لا إله إلا الله» اور سب سے بہترین دعا «الحمد لله» ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۹ (۳۳۸۳)،(تحفة الأشراف:۲۲۸۶)(حسن)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ جو کوئی اللہ کی حمد کرے گا اللہ تعالی اس کو اور زیادہ دے گا، پس اس کی سب مرادیں خود بخود پوری ہوں گی الگ الگ مانگنے کی کیا حاجت ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ بَشِيرٍ مَوْلَى الْعُمَرِيِّينَ، قَالَ: سَمِعْتُ قُدَامَةَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْجُمَحِيَّ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَهُوَ غُلَامٌ وَعَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُعَصْفَرَانِ، قَالَ: فَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَهُمْ: "أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ، قَالَ: يَا رَبِّ، لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ، وَلِعَظِيمِ سُلْطَانِكَ، فَعَضَّلَتْ بِالْمَلَكَيْنِ، فَلَمْ يَدْرِيَا كَيْفَ يَكْتُبَانِهَا، فَصَعِدَا إِلَى السَّمَاءِ، وَقَالَا: يَا رَبَّنَا، إِنَّ عَبْدَكَ قَدْ قَالَ مَقَالَةً، لَا نَدْرِي كَيْفَ نَكْتُبُهَا، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا قَالَ عَبْدُهُ، مَاذَا قَالَ: عَبْدِي؟ قَالَا: يَا رَبِّ، إِنَّهُ قَالَ: يَا رَبِّ، لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ، وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُمَا: اكْتُبَاهَا كَمَا قَالَ عَبْدِي، حَتَّى يَلْقَانِي، فَأَجْزِيَهُ بِهَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا: «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» "اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے"، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۷۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۷)(ضعیف) (صدقہ اور قدامہ دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا، طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ ذَا الَّذِي قَالَ هَذَا؟"، قَالَ الرَّجُلُ: أَنَا، وَمَا أَرَدْتُ إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ: لَقَدْ فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، فَمَا نَهْنَهَهَا شَيْءٌ دُونَ الْعَرْشِ".
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، ایک شخص نے («سمع الله لمن حمده» کے بعد) «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کلمہ کس نے کہا؟ اس شخص نے عرض کیا: میں نے یہ کلمہ کہا اور اس سے میری نیت خیر کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کلمہ کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے، اور اس کلمے کو عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز نہیں روک سکی"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۷۶۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۶،۳۱۸،۳۱۹)(ضعیف) (ابو سحاق سبیعی مدلس و مختلط راوی ہیں، او ر روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبد الجبار بن وائل ثقہ راوی ہیں، لیکن اپنے والد سے ان کی روایت مرسل ہے، یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے، لیکن «فما نهنهها شيء دون العرش» ثابت نہیں)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ أَبُو مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَى مَا يُحِبُّ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی اچھی بات دیکھتے تو فرماتے: " «الحمد لله الذي بنعمته تتم الصالحات» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی مہربانی سے تمام نیک کام پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں"، اور جب کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو فرماتے: " «الحمد لله على كل حال» ہر حال میں اللہ کا شکر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۶۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۲۹)(حسن) (تراجع الألبانی: رقم:۹۶)(سند میں الو لید بن مسلم ثقہ لیکن کثیر التدلیس والتسویہ راوی ہیں، لیکن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث سے یہ حسن ہے، بوصیری نے اسناد کی تصحیح کی ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ، يَقُولُ: "الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے: " «الحمد لله على كل حال رب أعوذ بك من حال أهل النار» ہر حال میں اللہ کا شکر ہے میرے رب! میں جہنمیوں کے حال سے تیری پناہ چاہتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۳۵۷، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۰)(ضعیف) (موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہیں، اور محمد بن ثابت مجہول)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، إِلَّا كَانَ الَّذِي أَعْطَاهُ، أَفْضَلَ مِمَّا أَخَذَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر کوئی نعمت نازل فرماتا ہے، اور وہ «الحمدللہ» کہتا ہے تو اس نے جو دیا وہ اس چیز سے افضل ہے جو اس نے لیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۰۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۱)(حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالی کے نزدیک اس کا «الحمد للہ» کہنا یہ اس نعمت سے افضل ہے جو اللہ تعالی نے اس کو دی، تو گویا بندے نے نعمت لی، اور اس سے افضل شئے اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس کی عنایت ہے ورنہ اس کی نعمت کے سامنے ہمیں زبان سے ایک لفظ نکالنے کی کیا حقیقت ہے، اگر ہم لاکھوں برس تک «الحمد للہ» کہا کریں تو بھی اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہ ہو سکے گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو کلمے زبان پر بہت ہلکے ہیں ۱؎، اور میزان میں بہت بھاری ہیں، اور رحمن کو بہت پسند ہیں(وہ دو کلمے یہ ہیں) «سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم» "اللہ (ہر عیب و نقص سے) پاک ہے اور ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، عظیم(عظمت والا) اللہ (ہر عیب و نقص) سے پاک ہے)" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الدعوات ۶۵ (۶۴۰۶)، التوحید ۵۷ (۷۵۶۳)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۱۰ (۲۶۹۴)، سنن الترمذی/الدعوات ۶۰ (۳۴۶۷)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ بہت مختصر کلمے ہیں اور ان کا پڑھنا بھی سہل ہے، آدمی کو چاہیے کہ ہر وقت ان کلموں کو پڑھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يَغْرِسُ غَرْسًا، فَقَالَ: "يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا الَّذِي تَغْرِسُ"، قُلْتُ: غِرَاسًا لِي، قَالَ: "أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى غِرَاسٍ خَيْرٍ لَكَ مِنْ هَذَا؟"، قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، يُغْرَسْ لَكَ بِكُلِّ وَاحِدَةٍ شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن درخت لگا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے اور فرمایا: "ابوہریرہ! تم کیا لگا رہے ہو"؟ میں نے عرض کیا کہ میں درخت لگا رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں اس سے بہتر درخت نہ بتاؤں"؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ ضرور بتلائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہا کرو، تو ہر ایک کلمہ کے بدلے تمہارے لیے جنت میں ایک درخت لگایا جائے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۱۳۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس میں چار کلمے ہیں تو ایک بار کہنے سے جنت میں چار درخت لگائے جائیں گے، اسی طرح دو بار کہنے سے آٹھ درخت، امید ہے کہ ہر ایک مومن ان کلموں کو لاکھوں بار پڑھا ہو، اور جنت کے اندر اس کی زمین میں لاکھوں درخت لگائے گئے ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي رِشْدِينَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ، قَالَتْ: مَرَّ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ صَلَّى الْغَدَاةَ، أَوْ بَعْدَ مَا صَلَّى الْغَدَاةَ وَهِيَ تَذْكُرُ اللَّهَ، فَرَجَعَ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، أَوْ قَالَ: انْتَصَفَ وَهِيَ كَذَلِكَ، فَقَالَ: "لَقَدْ قُلْتُ مُنْذُ قُمْتُ عَنْكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَهِيَ أَكْثَرُ وَأَرْجَحُ، أَوْ أَوْزَنُ مِمَّا قُلْتِ، سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ رِضَا نَفْسِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ زِنَةَ عَرْشِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ مِدَادَ كَلِمَاتِهِ".
جویریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح (فجر) کے وقت یا صبح کے بعد ان کے پاس سے گزرے، اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوٹے جب دن چڑھ آیا، یا انہوں نے کہا: دوپہر ہو گئی اور وہ اسی حال میں تھیں (یعنی ذکر میں مشغول تھیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جب سے تمہارے پاس سے اٹھا ہوں یہ چار کلمے تین مرتبہ پڑھے ہیں، یہ چاروں کلمے (ثواب میں) زیادہ اور وزن میں بھاری ہیں، اس ذکر سے جو تم نے کئے ہیں، (وہ چار کلمے یہ ہیں) «سبحان الله عدد خلقه سبحان الله رضا نفسه سبحان الله زنة عرشه سبحان الله مداد كلماته»"میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں، اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی مرضی کے مطابق، اس کے عرش کے وزن، اور لامحدود کلمے کے برابر اس کی حمد و ثناء بیان کرتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الذکروالدعاء ۱۹ (۲۷۲۶)،(تحفة الأشراف:۱۵۷۸۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۵۹ (۱۵۰۳)، سنن الترمذی/الدعوات ۱۰۴ (۳۵۵۵)، سنن النسائی/االسہو ۹۴ (۱۳۵۳)، مسند احمد (۶/۳۲۵،۴۲۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى الطَّحَّانِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَوْ عَنْ أَخِيهِ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِمَّا تَذْكُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللَّهِ: التَّسْبِيحَ، وَالتَّهْلِيلَ، وَالتَّحْمِيدَ، يَنْعَطِفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ، لَهُنَّ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، تُذَكِّرُ بِصَاحِبِهَا، أَمَا يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكُونَ لَهُ، أَوْ لَا يَزَالَ لَهُ مَنْ يُذَكِّرُ بِهِ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کا جلال جو تم ذکر کرتے ہو وہ تسبیح («سبحان الله»)، تہلیل، «لا إله إلا الله»، اور تحمید، «الحمد لله» ہے، یہ کلمے عرش کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں، ان میں شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آواز ہوتی ہے، اپنے کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں (اللہ کے سامنے) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے لیے ایک ایسا شخص ہو جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا برابر ذکر کرتا رہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۶۳۲، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۶۸،۲۷۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ،ان کلمات کی کیا فضیلت ہے، گویا یہ اپنے کہنے والے کے لئے شاہد اور مذکر ہیں، اس حدیث سے بھی اللہ تعالی کا استواء عرش کے اوپر ہونا ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْأُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ، فَإِنِّي قَدْ كَبِرْتُ وَضَعُفْتُ وَبَدُنْتُ، فَقَالَ: "كَبِّرِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ، وَاحْمَدِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ، وَسَبِّحِي اللَّهَ مِائَةَ مَرَّةٍ، خَيْرٌ مِنْ مِائَةِ فَرَسٍ مُلْجَمٍ مُسْرَجٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَخَيْرٌ مِنْ مِائَةِ بَدَنَةٍ، وَخَيْرٌ مِنْ مِائَةِ رَقَبَةٍ".
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی عمل بتلائیے، میں بوڑھی اور ضعیف ہو گئی ہوں، میرا بدن بھاری ہو گیا ہے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سو بار «اللہ اکبر»، سو بار «الحمدللہ»، سو بار «سبحان اللہ»کہو، یہ ان سو گھوڑوں سے بہتر ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں مع زین و لگام کے کس دیئے جائیں، اور سو جانور قربان کرنے، اور سو غلام آزاد کرنے سے بہتر ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۰۱۳،۱۸۰۱۴، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۴۴)(حسن) (سند میں زکریا بن منظور ضعیف اور محمد بن عقبہ مستور ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اب محنت والی عبادت مجھ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْهِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَرْبَعٌ أَفْضَلُ الْكَلَامِ لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چار کلمے تمام کلمات سے بہتر ہیں اور جس سے بھی تم شروع کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں، وہ یہ ہیں «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» اللہ کی ذات پاک ہے، ہر سم کی حمد و ثناء اللہ ہی کو سزاوار ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور اللہ بہت بڑا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الآداب ۲ (۲۱۳۷)،(تحفة الأشراف:۴۶۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۱،۲۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: چاہے پہلے «سبحان اللہ» کہے، چاہے «الحمد للہ» چاہے «اللہ اکبر» چاہے: «لا إله إلا الله» اگر اس کے بعد یہ بھی ملائے «ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» تو اور زیادہ ثواب ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَشَّاءُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ مِائَةَ مَرَّةٍ، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص سو بار «سبحان الله وبحمده» کہے تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۶۰ (۳۴۶۶،۳۴۶۸)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۷۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الدعوات ۶۵ (۶۴۰۵)، مسند احمد (۲/۳۰۲،۳۷۵،۵۱۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَيْكَ بِسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَإِنَّهَا يَعْنِي: يَحْطُطْنَ الْخَطَايَا كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "تم «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» کہنے کو اپنے اوپر لازم کر لو، کیونکہ یہ کلمے گناہوں کو ایسے جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت اپنے (پرانے) پتے جھاڑ دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۹۷۲، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۴۰)(ضعیف) (سند میں عمر بن راشد کی ابن أبی کثیر سے روایت میں اضطراب ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَالْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ، يَقُولُ: "رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ"مِائَةَ مَرَّةٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم شمار کرتے رہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں «رب اغفر لي وتب علي إنك أنت التواب الغفور» "اے میرے رب! مجھے بخش دے، میری توبہ قبول فرما لے، تو ہی توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے" سو بار کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة ۳۶۱ (۱۵۱۶)، سنن الترمذی/الدعوات ۳۹ (۳۴۳۴)،(تحفة الأشراف:۸۴۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۱۰۰، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۸۲)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ أَبِي الْحُرِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تو ہر روز اللہ تعالیٰ سے ستر بار استغفار اور توبہ کرتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۹۰۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۱۰،۵/۳۹۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ فِي لِسَانِي ذَرَبٌ عَلَى أَهْلِي وَكَانَ لَا يَعْدُوهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "أَيْنَ أَنْتَ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ؟ تَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں پر زبان درازی کرتا تھا، لیکن اپنے گھر والوں کے سوا کسی اور سے زبان درازی نہ کرتا تھا، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "تم استغفار کیوں نہیں کیا کرتے، تم ہر روز ستر بار استغفار کیا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۳۷۶، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۹۴،۳۹۶،۳۹۷،۴۰۲)، سنن الدارمی/الرقاق ۱۵ (۲۷۶۵)(ضعیف) (سند میں ابوالمغیرہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت میں مضطرب الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عِرْقٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا".
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے صحیفہ (نامہ اعمال) میں کثرت سے استغفار پائے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۲۰۰، ومصباح الزجاجة:۱۳۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲۹،۱۴۵،۱۸۸،۲۳۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے استغفار کو لازم کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة ۳۶۱ (۱۵۱۸)،(تحفة الأشراف:۶۲۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۸)(ضعیف) (سند میں حکم بن مصعب مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے گناہ بخش دوں گا، اس حدیث میں موحد مسلمانوں کے لیے بڑی امید ہے کہ توحید کی برکت سے اللہ چاہے گا تو ان کے گناہوں کو چاہے وہ کتنے ہی زیادہ ہوں بخش دے گا، لیکن کسی کو اس مغفرت پر تکیہ نہ کرنا چاہئے، اس لئے کہ انجام حال معلوم نہیں، اور اللہ رب العزت کی جیسی رحمت وسیع ہے ویسے ہی اس کا عذاب بھی سخت ہے، پس ہمیشہ گناہوں سے ڈرتا اور بچتا رہے، توبہ اور استغفار کرتا رہے، اور شرک سے بچنے اور دور رہنے کا بڑا خیال رکھے کیونکہ شرک کے ساتھ بخشے جانے کی توقع نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: " «اللهم اجعلني من الذين إذا أحسنوا استبشروا وإذا أساءوا استغفروا» اے اللہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو اس سے استغفار کرتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۳۰۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۴۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲۹،۱۴۵،۱۸۸،۲۳۹)(ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَأَزِيدُ، وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ مِثْلُهَا أَوْ أَغْفِرُ، وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا، وَمَنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً، وَمَنْ لَقِيَنِي بِقِرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً، ثُمَّ لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَقِيتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو شخص ایک نیکی کرے گا اس کو اسی طرح دس نیکیوں کا ثواب ملے گا، اور میں اس پر زیادہ بھی کر سکتا ہوں، اور جو شخص ایک برائی کرے گا اس کو ایک ہی برائی کا بدلہ ملے گا، یا میں بخش دوں گا، اور جو شخص مجھ سے (عبادت و طاعت کے ذریعہ) ایک بالشت قریب ہو گا، تو میں اس سے ایک ہاتھ نزدیک ہوں گا، اور جو شخص مجھ سے ایک ہاتھ نزدیک ہو گا تو میں اس سے ایک «باع» یعنی دونوں ہاتھ قریب ہو گا، اور جو شخص میرے پاس (معمولی چال سے) چل کر آئے گا، تو میں اس کے پاس دوڑ کر آؤں گا، اور جو شخص مجھ سے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے گا، اس حال میں کہ وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں اس کے گناہوں کے برابر بخشش لے کر اس سے ملوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۶ (۲۶۸۷)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۸۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۷،۱۴۸،۱۵۳،۱۵۵،۱۶۹،۱۸۰، سنن الدارمی/الرقاق ۷۲ (۲۸۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقُولُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے، اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اگر وہ میرا دل میں ذکر کرتا ہے تو میں بھی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ میرا ذکر لوگوں میں کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء ۱ (۲۶۷۵)، سنن الترمذی/الدعوات ۱۳۲ (۳۶۰۳)،(تحفة الأشراف:۱۲۵۰۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید ۱۵ (۷۴۰۵)، مسند احمد (۲/۲۵۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں لفظ نفس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کا ہر عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سوائے روزے کے کیونکہ وہ میرے لیے ہے میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصوم ۲۵ (۱۱۵۱)، سنن الترمذی/الصوم ۵۵ (۷۶۴)، سنن النسائی/الصیام ۲۳ (۲۲۱۶)،(تحفة الأشراف:۱۲۴۷۰،۱۲۵۲۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ۲ (۱۸۹۴)،۹ (۱۹۰۴)، اللباس ۷۸ (۵۹۲۷)، التوحید ۳۵ (۷۵۰۱)،۵۰ (۷۵۳۷)، صحیح مسلم/الصوم ۳۰ (۱۱۵۱)، موطا امام مالک/الصیام ۲۲ (۵۷)، مسند احمد (۲/۲۳۲،۲۵۲،۲۵۷،۲۶۶،۲۷۳،۲۹۳،۳۵۲،۳۱۳،۴۴۳،۴۴۵،۴۷۵،۴۷۷،۴۸۰،۵۰۱،۵۱۰)، سنن الدارمی/الصوم ۵۰ (۱۸۱۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، قَالَ: "يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «لا حول ولا قوة إلا بالله» "گناہوں سے دوری اور عبادات و طاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے" پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: "عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک حزانہ ہے"؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المغازي ۳۸ (۴۲۰۵)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء، والتوبة، و الاستغفار ۱۳ (۲۷۰۴)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۶۱ (۱۵۲۶،۱۵۲۷،۱۵۲۸)، سنن الترمذی/الدعوات ۳ (۳۳۷۴)،(تحفة الأشراف:۹۰۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۴،۳۹۹،۴۰۰،۴۰۲،۴۰۷،۴۱۷،۴۱۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن قیس یہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟"، قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے"؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کلمہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۹۶۵، ومصباح الزجاجة:۱۳۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵،۱۵۰،۱۵۲،۱۵۲،۱۵۷،۱۷۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زَيْنَبَ مَوْلَى حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ حَازِمِ بْنِ حَرْمَلَةَ، قَالَ: مَرَرْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: "يَا حَازِمُ، أَكْثِرْ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ".
حازم بن حرملہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں (ایک روز) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: "اے حازم! تم «لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ کلمہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۲۸۹، ومصباح الزجاجة:۱۳۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۵،۱۵۰،۱۵۲)(صحیح) (سند میں ابوزینب مجہول راوی ہیں، اور خالد بن سعید مقبول عند المتابعہ، لیکن حدیث سابقہ شواہد سے تقویت پاکر صحیح ہے)