اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے ناموں کے احکام واضح ہوں گے اور یہ معلوم ہو گا کہ کس طرح کے نام رکھنے چاہییں کون سے نام اچھے ہیں اور کون سے نام برے ہیں۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بازار میں تھے کہ ایک شخص نے کسی کو ابوالقاسم کہہ کر پکارا، آپ نے پلٹ کر اس شخص کی طرف دیکھا اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو نہیں پکارا بلکہ اس شخص کو آواز دی تھی اور یہ کہہ کر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو وہاں موجود تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم میرے نام پر نام رکھ لو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میرے نام پر نام رکھا کرو لیکن میری کنیت پر کنیت مقرر نہ کرو کیونکہ مجھ کو قاسم قرار دیا گیا ہے اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں (بخاری، مسلم)
تشریح
کنیت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ذات کی نسبت باپ یا بیٹے کی طرف کر کے اپنے کو مشہور و متعارف کرائے جیسے ابن فلاں، یا ابوفلاں، یعنی فلاں کا بیٹا فلاں کا باپ وغیرہ ، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کنیت اس نام کو کہتے ہیں جو باپ، بیٹا، یا بیٹی، ماں کے تعلق سے بولا جائے۔ اور میں تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ کو جو علم اور حکمت دینی احکام ومسائل اور دنیاوی دولت جیسے مال غنیمت وغیرہ عطا کرتا ہے اس کو میں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتا ہوں بعض حضرات کے نزدیک یہ تقسیم کرتا ہوں سے مراد یہ ہے کہ میں خدا کے نیک بندوں کو جنت اور دوسری نعمتوں کی بشارت و خوش خبری دیتا ہوں اور بدکار لوگوں کو دوزخ وغیرہ سے ڈراتا ہوں لہذا یہ صفت چونکہ تمہارے اندر موجود نہیں ہے اور تم اس مقام پر فائز نہیں ہو اس لیے تم میری کنیت کو اختیار کرنے کے مجاز نہیں البتہ اپنا نام یا اپنی اولاد کا نام لفظ اور صورۃ میرے نام رکھ سکتے ہو، حاصل یہ ہے کہ میں محض اس سب سے ابوالقاسم نہیں ہوں کہ میرے بیٹے کا نام قاسم ہے بلکہ مجھ میں قاسمیت کے معنی کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ، بایں اعتبار کہ مجھ کو دینی و دنیاوی امور دولت کا تقسیم کنندہ قرار دیا گیا ہے لہذا جب میں نہ تو ذات کے اعتبار سے اور نہ صفات کے اعتبار سے تم میں سے کسی بھی شخص کی مانند ہوں تو تم کو میری کنیت پر اپنی کنیت مقرر نہ کرنی چاہے۔ واضح رہے کہ اس صورت میں ابو کے معنی باپ کے نہیں ہوں گے بلکہ اس وصف کے مالک ہوں گے جیسا کہ کسی شخص کو ابوالفضل کہا جائے درآنحالیکہ اس کے بیٹے کا نام فضل نہ ہو۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر مقرر کرنے کی ممانعت کا تعلق خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے تھا تاکہ تخاطب کے وقت ذات نبوی اور دوسرے لوگوں کے درمیان اشتباہ کی صورت پیدا نہ ہو جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے یہی قول صحیح ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ محمد نام رکھنا تو جائز ہے لیکن ابوالقاسم کنیت مقرر کرنا جائز نہیں خواہ یہ صورت ہو کہ جس شخص کا نام محمد ہو وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دینا چا ہے اور خواہ یہ صورت ہو کہ نام کچھ اور ہو اور محض کنیت ابوالقاسم کرنا چاہے ، حاصل یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ابوالقاسم کو اپنی کنیت قرار دے خواہ اس کا نام محمد ہو یا کچھ اور ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور اصحاب ظواہر کا یہی قول ہے اور وہ انہیں حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں دوسرا قول محمد شیبانی کا ہے اور وہ یہ ہے کہ نام اور کنیت کو ایک ساتھ جمع کرنا درست نہیں ہے یعنی جس کا نام محمد ہو وہ اپنی کنیت ابوالقاسم نہ رکھے البتہ جس کا نام محمد نہ ہو اس کو صرف ابوالقاسم کہنا کہلانا جائز ہے ان کے نزدیک ان دونوں حدیثوں کا مطلب یہی ہے کہ کوئی شخص اپنی ذات کے لیے اس نام و کنیت کو ایک ساتھ اختیار نہ کرے۔تیسرا قول یہ ہے کہ دونوں کو جمع کرنا بھی جائز ہے یعنی جس شخص کا نام محمد ہو وہ بھی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھ سکتا ہے اس قول کی نسبت حضرت امام مالک کی طرف کی جاتی ہے ان کا کہنا ہے کہ جن احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے وہ منسوخ ہیں چنانچہ ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اس ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک سے تھا آپ کے بعد یہ جائز ہے اس جماعت کی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عرض کیا کہ اگر آپ کے بعد میرے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو میں اس کا نام اور کنیت آپ کے نام و کنیت کی طرح رکھ لوں گا تو آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی، چنانچہ حضرت محمد بن الحنفیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد پیدا ہوئے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی کنیت ابوالقاسم رکھی ، ایک جماعت کہ جس کا قولناقابل اعتماد ہے یہ کہتی ہے کہ کسی شخص کو نبی کا نام رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تمام اقوال کی روشنی میں جو قول سب سے صحیح اور حنفی مسلک کے مطابق ہے وہ یہ ہے کہ نبی کا نام رکھنا تو جائز بلکہ مستحب ہے لیکن نبی کی کنیت پر اپنی کنیت رکھنا اگرچہ اس کا تعلق نبی کے بعد سے ہو، ممنوع ہے اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں یہ ممنوع تر تھا اسی طرح نام اور کنیت دونوں کو جمع کرنا بطریق اولیٰ ممنوع ہو گا جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مذکور بالا روایت کا تعلق ہے تو وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص معاملہ تھا جیسا کہ حدیث کے سیاق سے واضح ہوتا ہے لہذا ان کے علاوہ کسی اور کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر اپنی کنیت رکھے اس کی تائید ابن عساکر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو جمع الجوامع میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دن اسی مسئلہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نے اپنے لڑکے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر محمد رکھا ہے اور اس کی کنیت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کنیت پر ابوالقاسم رکھی ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی ایک شخص کے لئے ان دونوں کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قریشی صحابہ کو بلوایا ان سب نے حاضر ہو کر گواہی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخصوص طور پر اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اپنے ہونے والے بچے کا نام و کنیت آپ کے نام و کنیت پر رکھ لیں۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک تمہارے ناموں میں سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ (مسلم)
تشریح
بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس ارشاد گرامی سے مراد ہے کہ یہ دونوں نام عبداللہ اور عبدالرحمن انبیاء کے ناموں کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں اس اعتبار سے کہا جائے گا یہ دونوں نام اسم محمد سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہیں بلکہ پسندیدگی میں ان دونوں کا درجہ تو اسم محمد کے درجہ سے کم ہے یا برابر ہے۔
اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے غلام کا نام یسار، رباح، نجیح، اور افلح نہ رکھو کیوں کہ اگر کسی وقت تم نے کسی شخص سے پوچھا کہ کیا وہ (مثلاً) یسار یا رباح یہاں ہے اور فرض کرو وہ وہاں نہ ہوا تو جواب دینے والا کہے گا کہ وہ یعنی یسار یا رباح یہاں نہیں ہے۔ (مسلم)
اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا اپنے غلام کا نام ، رباح، یسار افلح، اور نافع نہ رکھو۔
تشریح
یسار، یسیر سے ہے کہ جس کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں ، رباح، ربح سے ہے جس کے معنی فائدہ اور نفع کے ہیں نجیح نجح سے ہے جس کے معنی فتح مندی یا مطلب یابی کے ہیں، افلح، فلاح سے ہے جس کے معنی کامیابی و نجات کے ہیں اور نافع نفع سے ہے جس کے معنی فائدہ کے ہیں۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے ممنوع ہیں کیونکہ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے یسار نام رکھا اور کسی وقت گھر والوں سے پوچھا کہ یہاں یسار ہے؟گھر والوں نے جواب دیا کہ گھر میں یسار نہیں ہے تو اگرچہ اس صورت میں متعین ذات مراد ہو گی مگر لفظ یسار کے حقیقی معنی کے اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ گھر میں فراخی و تونگری نہیں ہے اور اس طرح کہنا برائی کی بات ہے اس پر دوسرے مذکورہ بالا الفاظ کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ مسلم کی روایت میں نجیح کے بجائے نافع کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق محض انہی ناموں سے نہیں ہے بلکہ اور دوسرے نام بھی جو ان الفاظ کے معنی میں ہوں یہی حکم رکھتے ہیں۔ امام نووی فرماتے ہیں ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے مکروہ تنزیہی ہیں نہ کہ مکروہ تحریمی۔
٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارادہ فرمایا تھا کہ یعلی، برکت، افلح، یسار، نافع اور اس طرح کے دورے نام رکھنے سے لوگوں کو منع فرما دیں لیکن پھر میں نے دیکھا کہ اس ارادہ کے بعد آپ نے سکوت فرمایا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور ان ناموں کے رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا طرح کے نام رکھنے کی ممانعت نافذ نہیں ہوئی ہے جب کہ پچھلی حدیث ممانعت کے نفاذ پر واضح طور سے دلالت کرتی ہے اس تضاد کو دور کرنے کے لیے یحییٰ کہتے ہیں کہ گویا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ممانعت کی علامتوں کو دیکھا اور وہ چیز سنی جو ممانعت کی طرف اشارہ کرتی ہے چونکہ انہوں نے ممانعت کا حکم صریح طور سے نہیں سنا تھا اس لیے اس مسئلہ کو انہوں نے مذکورہ اسلوب میں بیان کیا لیکن یہ ممانعت چونکہ حدیث صحیح سے ثابت ہوئی ہے اس لیے یہی کہا جائے گا کہ ممانعت ثابت ہے علاوہ ازیں ملا علی قاری کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس تضاد دور کرنے کے لیے ایک اور تاویل ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارادہ کا تعلق دراصل اس ممانعت کو نہی تحریمی کے طور پر نافذ کرنے سے تھا کہ ناموں کا مسئلہ ایسا ہے جس کی طرف لوگ زیادہ توجہ نہیں دیں گے اور اچھے و برے ناموں میں فرق و امتیاز کرنے کے پابند نہیں ہوں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی وجہ سے امت کے لوگ دینی نقصان میں مبتلا ہوں گے لہذا کہا جائے گا کہ جس روایت سے ممانعت کا عدم نفاذ ثابت ہوتا ہے اس کا تعلق نہی تحریمی سے ہے اور حقیقت میں مسئلہ بھی یہی ہے کہ مذکورہ طرح کے نام رکھنا مکروہ تنزیہی ہے مکروہ تحریمی نہیں ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین شخص وہ ہو گا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے۔ (بخاری)
اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین اور سب سے بدتر وہ شخص ہو گا جس کو شہنشاہ کا نام دیا جائے یاد رکھو خدا کے سوا کوئی بادشاہ نہیں۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی بادشاہ نہیں ہے چہ جائے کہ کسی کو شہنشاہ یعنی بادشاہوں کا بادشاہ کہا جائے اور صف شہنشاہیت ایک ایسا وصف ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے کہ اس وصف میں کسی مخلوق کے شریک ہونے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اور حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرا نام برہ یعنی نیکو کار رکھا گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے نفس کی تعریف نہ کرو تم میں جو شخص نیکو کار ہے اس کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اس بچی کا نام زینب رکھو۔ مسلم۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسا نام نہ رکھنا چاہیے جس کے لفظی مفہوم سے نفس کی تعریف ظاہر ہو کیونکہ اس کی وجہ سے نفس میں بڑائی پیدا ہو جاتی ہے۔
٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا یہ نام بدل کر جویریہ رکھ دیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی شخص یوں کہے کہ آپ برہ کے پاس سے نکلے۔ مسلم
تشریح
برہ کے معنی نیکو کار کے ہیں لہذا آپ نے اس لفظ کے اصل معنی کے اعتبار سے اس کو پسند نہیں کیا کہ جب برہ کے گھر سے نکلیں یوں کہا جائے کہ آپ برہ یعنی نیکو کار کے پاس سے نکلے کیونکہ نیکو کار کے پاس سے نکلنا کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی، وکان یکرہ کے بارے میں بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اپنی مذکورہ ناپسندیدگی کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے متعلق ان الفاظ کے ذریعہ خبر دی ہو گی۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں برہ یا اس طرح کا کوئی اور نام رکھنے کی ممانعت کا سبب مذکورہ ناپسندیدگی کو قرار دیا گیا ہے جب کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں اس ممانعت کا سبب تزکیہ نفس کی تعریف کو قرار دیا گیا ہے لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ اسباب کے درمیان کوئی مزاحمت نہیں ہوا کرتی ایک چیز کے دو مختلف سبب ہو سکتے ہیں چنانچہ جن دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ دونوں مذکورہ ممانعت کا سبب بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں علاوہ ازیں ہو سکتا ہے کہ زینب رضی اللہ عنہا کے خاندان و قبیلہ کے لوگوں سے معلوم کرنے کے بعد یہ واضح ہوا ہو گا کہ انہوں نے زینب رضی اللہ عنہا کا نام برہ واقعۃً ان کے نفس کی تعریف اور مدح و ثناء کے قصد سے رکھا تھا جب کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے حق میں اس ممانعت کا سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے برہ کے پاس سے نکلے کہے جانے کی ناپسندیدگی کو قرار دیا اور یہ بات تھی بھی کہ ازواج مطہرات کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جانے آنے کے بارے میں عام طور پر اسی طرح کہا جاتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں زوجہ مطہرہ کے ہاں سے نکلے ہیں نیز اس احتمال کو بھی ملحوظ رکھا جا سکتا ہے کہ جس طرح یسار اور نجیح وغیرہ جیسے ناموں کی ممانعت کے سلسلے میں بد فالی کا اعتبار کیا گیا ہے اس طرح برہ کے سلسلے میں بھی اس کا اعتبار ہو، اور جس طرح برہ کے سلسلے میں تزکیہ و کراہت کا اعتبار کیا گیا ہے اسی طرح یسار اور نجیح وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا اعتبار ہو۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوا سنا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کی طرف کفار و مشرکین کی ہجو کا مقابلہ کرتے رہتے ہو حضرت جبرائیل برابر تمہاری مدد اعانت کرتے رہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو کی تو اس ہجو سے مسلمانوں کو شفا دی اور خود بھی شفا پائی، یعنی انہوں نے کفار کی ہجو کا جواب ہجو سے دے کر مسلمانوں کے لیے بھی تسلی و تشفی کا سامان بہم پہنچایا اور خود بھی سکون و طمانیت حاصل کی۔ (مسلم)