قَالَ الرَّبِيعُ بْنُ خُثَيْمٍ وَالْحَسَنُ كُلٌّ عَلَيْهِ هَيِّنٌ هَيْنٌ وَهَيِّنٌ مِثْلُ لَيْنٍ وَلَيِّنٍ وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ وَضَيْقٍ وَضَيِّقٍ أَفَعَيِينَا سورة ق آية 15 أَفَأَعْيَا عَلَيْنَا حِينَ أَنْشَأَكُمْ وَأَنْشَأَ خَلْقَكُمْ لُغُوبٌ سورة فاطر آية 35 النَّصَبُ أَطْوَارًا سورة نوح آية 14، طَوْرًا كَذَا وَطَوْرًا كَذَا عَدَا طَوْرَهُ أَيْ قَدْرَهُ.
اور ربیع بن خشیم اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ یوں تو دونوں یعنی (پہلی مرتبہ پیدا کرنا پھر دوبارہ زندہ کر دینا) اس کے لیے بالکل آسان ہے (لیکن ایک کو یعنی پیدائش کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کو زیادہ آسان ظاہر کے اعتبار سے کہا) (مشدد اور مخفف) دونوں طرح پڑھنا جائز ہے اور سورۃ قٓ میں جو لفظ «أفعيينا» آیا ہے، اس کے معنی ہیں کہ کیا ہمیں پہلی بار پیدا کرنے نے عاجز کر دیا تھا۔ جب اس اللہ نے تم کو پیدا کر دیا تھا اور تمہارے مادے کو پیدا کیا اور اسی سورت میں (اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں) «لغوب» کے معنی تھکن کے ہیں اور سورۃ نوح میں جو فرمایا «أطوارا» اس کے معنی یہ ہیں کہ مختلف صورتوں میں تمہیں پیدا کیا۔ کبھی نطفہ ایسے خون کی پھٹکی پھر گوشت پھر ہڈی پوست۔ عرب لوگ بولا کرتے ہیں «عدا طوره» یعنی فلاں اپنے مرتبہ سے بڑھ گیا۔ یہاں «أطوارا» کے معنی رتبے کے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ نَفَرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا بَنِي تَمِيمٍ أَبْشِرُوا، قَالُوا: بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ فَجَاءَهُ أَهْلُ الْيَمَنِ، فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْيَمَنِ اقْبَلُوا الْبُشْرَى إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ، قَالُوا: قَبِلْنَا فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ بَدْءَ الْخَلْقِ وَالْعَرْشِ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: "يَا عِمْرَانُ رَاحِلَتُكَ تَفَلَّتَتْ لَيْتَنِي لَمْ أَقُمْ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں جامع بن شداد نے، انہیں صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بنی تمیم کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اے بنی تمیم کے لوگو! تمہیں بشارت ہو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت جب آپ نے ہم کو دی ہے تو اب ہمیں کچھ مال بھی دیجئیے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا، پھر آپ کی خدمت میں یمن کے لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی فرمایا کہ اے یمن والو! بنو تمیم کے لوگوں نے تو خوشخبری کو قبول نہیں کیا، اب تم اسے قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپ مخلوق اور عرش الٰہی کی ابتداء کے بارے میں گفتگو فرمانے لگے۔ اتنے میں ایک (نامعلوم) شخص آیا اور کہا کہ عمران! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ (عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) کاش، میں آپ کی مجلس سے نہ اٹھتا تو بہتر ہوتا۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍأَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: "اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ، قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: اقْبَلُوا الْبُشْرَى يَا أَهْلَ الْيَمَنِ إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ، قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالُوا: جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَنَادَى مُنَادٍ ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الْحُصَيْنِ فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَرَكْتُهَا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے جامع بن شداد نے بیان کیا، ان سے صفوان بن محرز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اپنے اونٹ کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا۔ اس کے بعد بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے دوبار کہا کہ جب آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے تو اب مال بھی دیجئیے۔ پھر یمن کے چند لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ خوشخبری قبول کر لو اے یمن والو! بنو تمیم والوں نے تو نہیں قبول کی۔ وہ بولے: یا رسول اللہ! خوشخبری ہم نے قبول کی۔ پھر وہ کہنے لگے ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس (عالم کی پیدائش) کا حال پوچھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ (ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ ابن الحصین! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی۔ میں اس کے پیچھے دوڑا۔ دیکھا تو وہ سراب کی آڑ میں ہے (میرے اور اس کے بیچ میں سراب حائل ہے یعنی وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) اللہ تعالیٰ کی قسم، میرا دل بہت پچھتایا کہ کاش، میں نے اسے چھوڑ دیا ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہوتی)۔
وَرَوَى عِيسَى ، عَنْ رَقَبَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامًا فَأَخْبَرَنَا عَنْ بَدْءِ الْخَلْقِ حَتَّى دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مَنَازِلَهُمْ، وَأَهْلُ النَّارِ مَنَازِلَهُمْ، حَفِظَ ذَلِكَ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ".
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا، انہوں نے قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق بن شہاب سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، عَنْ أَبِي أَحْمَدَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُرَاهُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: شَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتِمَنِي وَيُكَذِّبُنِي، وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَمَّا شَتْمُهُ، فَقَوْلُهُ: إِنَّ لِي وَلَدًا وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ، فَقَوْلُهُ: لَيْسَ يُعِيدُنِي كَمَا بَدَأَنِي".
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے ابواحمد نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ مجھے گالی دیتا۔ اس نے مجھے جھٹلایا اور اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا۔ اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، میرا بیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح اللہ نے مجھے پہلی بار پیدا کیا، دوبارہ (موت کے بعد) وہ مجھے زندہ نہیں کر سکے گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمٰن قرشی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں، جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے، اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَمِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا سورة الطلاق آية 12 وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ سورة الطور آية 5 السَّمَاءُ، سَمْكَهَا سورة النازعات آية 28 بِنَاءَهَا، الْحُبُكِ سورة الذاريات آية 7اسْتِوَاؤُهَا وَحُسْنُهَا، وَأَذِنَتْ سورة الانشقاق آية 2 سَمِعَتْ وَأَطَاعَتْ، وَأَلْقَتْ سورة الانشقاق آية 4 أَخْرَجَتْ مَا فِيهَا مِنَ الْمَوْتَى، وَتَخَلَّتْ سورة الانشقاق آية 4 عَنْهُمْ، طَحَاهَا سورة الشمس آية 6 دَحَاهَا سورة النازعات آية 30 بِالسَّاهِرَةِ سورة النازعات آية 14 وَجْهُ الْأَرْضِ كَانَ فِيهَا الْحَيَوَانُ نَوْمُهُمْ وَسَهَرُهُمْ.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «الله الذي خلق سبع سموات ومن الأرض مثلهن يتنزل الأمر بينهن لتعلموا أن الله على كل شىء قدير وأن الله قد أحاط بكل شىء علما» اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے پیدا کئے سات آسمان اور آسمان ہی کی طرح سات زمینیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام ان کے درمیان اترتے ہیں۔ یہ اس لیے تاکہ تم کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اپنے علم کے اعتبار سے گھیر رکھا ہے۔ اور سورۃ الطور میں «والسقف المرفوع» سے مراد آسمان ہے اور سورۃ والنازعات میں جو «رفع سمكها» ہے «سمك» کے معنی بناء عمارت کے ہیں۔ اور سورۃ والذاریات میں جو «حبك» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی برابر ہونا یعنی ہموار اور خوبصورت ہونا۔ سورۃ اذا السماء انشقت میں جو لفظ «أذنت» ہے اس کا معنی سن لیا اور مان لیا، اور لفظ «ألقت»کا معنی جتنے مردے اس میں تھے ان کو نکال کر باہر ڈال دیا، خالی ہو گئی۔ اور سورۃ والیل میں جو لفظ «طحاها» ہے اس کے معنی بچھایا۔ اور سورۃ والنازعات میں جو «ساهرة» کا لفظ ہے اس کے معنی روئے زمین کے ہیں، وہیں جاندار رہتے سوتے اور جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أُنَاسٍ خُصُومَةٌ فِي أَرْضٍ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَذَكَرَ لَهَا ذَلِكَ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا سَلَمَةَ اجْتَنِبْ الْأَرْضَ فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہیں علی بن مبارک نے کہا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے ان کا ایک دوسرے صاحب سے ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے (جواب میں) فرمایا: ابوسلمہ! کسی کی زمین (کے ناحق لینے) سے بچو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر ایک بالشت کے برابر بھی کسی نے (زمین کے بارے میں) ظلم کیا تو (قیامت کے دن) ساتھ زمینوں کا طوق اسے پہنایا جائے گا۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَخَذَ شَيْئًا مِنَ الْأَرْضِ بِغَيْرِ حَقِّهِ خُسِفَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى سَبْعِ أَرَضِينَ".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں موسیٰ بن عقبہ نے، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ ناحق لے لیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ کے صاحبزادے (عبدالرحمٰن) نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ خَاصَمَتْهُ أَرْوَى فِي حَقٍّ زَعَمَتْ أَنَّهُ انْتَقَصَهُ لَهَا إِلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ: سَعِيدٌ أَنَا أَنْتَقِصُ مِنْ حَقِّهَا شَيْئًا أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ، قَالَ: ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ لِي: سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ نے کہ ارویٰ بنت ابی اوس سے ان کا ایک (زمین کے) بارے میں جھگڑا ہوا۔ جس کے متعلق ارویٰ کہتی تھی کہ سعید نے میری زمین چھین لی۔ یہ مقدمہ مروان خلیفہ کے یہاں فیصلہ کے لیے گیا جو مدینہ کا حاکم تھا۔ سعید رضی اللہ عنہ نے کہا بھلا کیا میں ان کا حق دبا لوں گا، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلم سے کسی کی دبا لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ ابن ابی الزناد نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے (تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی)۔
وَقَالَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ سورة الملك آية 5 خَلَقَ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ، وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ، وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بِهَا، فَمَنْ تَأَوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخْطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَشِيمًا سورة الكهف آية 45 مُتَغَيِّرًا، وَالْأَبُّ: مَا يَأْكُلُ الْأَنْعَامُ، وَالْأَنَامُ: الْخَلْقُ، بَرْزَخٌ سورة المؤمنون آية 100 حَاجِبٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْفَافًا سورة النبأ آية 16 مُلْتَفَّةً، وَالْغُلْبُ: الْمُلْتَفَّةُ، فِرَاشًا سورة البقرة آية 22مِهَادًا، كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ سورة البقرة آية 36 نَكِدًا سورة الأعراف آية 58 قَلِيلًا.
قتادہ نے (قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں) «ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح» کہ ہم نے زینت دی آسمان دنیا کو (تاروں کے) چراغوں سے۔ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ انہیں آسمان کی زینت بنایا، شیاطین پر مارنے کے لیے بنایا۔ اور (رات کی اندھیریوں میں) انہیں صحیح راستہ پر چلتے رہنے کے لیے نشانات قرار دیا۔ پس جس شخص نے ان کے سوا دوسری باتیں کہیں، اس نے غلطی کی، اپنا حصہ تباہ کیا (اپنا وقت ضائع کیا یا اپنا ایمان کھو دیا) اور جو بات غیب کی معلوم نہیں ہو سکتی اس کو اس نے معلوم کرنا چاہا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ الکہف میں لفظ «هشيما» ہے اس کا معنی بدلا ہوا۔ «الأب» کے معنی مویشیوں کا چارہ۔ یہ لفظ سورۃ عبس میں ہے اور سورۃ الرحمن میں لفظ «الأنام» بمعنی مخلوق ہے اور لفظ «برزخ» بمعنی پردہ ہے۔ اور مجاہد تابعی نے کہا کہ لفظ «ألفافا» بمعنی «ملتفة» ہے۔ اس کے معنی گہرے لپٹے ہوئے۔ «الغلب» بھی بمعنی «الملتفة» اور لفظ «فراشا»بمعنی «مهاد» ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولكم في الأرض مستقر» ( «مستقر» بھی بمعنی «مهاد» ہے) اور سورۃ الاعراف میں جو لفظ «نكدا» ہے اس کا معنی تھوڑا ہے۔
قَالَ مُجَاهِدٌ: كَحُسْبَانِ الرَّحَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: بِحِسَابٍ وَمَنَازِلَ لَا يَعْدُوَانِهَا حُسْبَانٌ جَمَاعَةُ حِسَابٍ مِثْلُ شِهَابٍ وَشُهْبَانٍ ضُحَاهَا سورة النازعات آية 29: ضَوْءُهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ سورة يس آية 40: لَا يَسْتُرُ ضَوْءُ أَحَدِهِمَا ضَوْءَ الْآخَرِ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُمَا ذَلِكَ سَابِقُ النَّهَارِ سورة يس آية 40: يَتَطَالَبَانِ حَثِيثَيْنِ نَسْلَخُ نُخْرِجُ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ وَنُجْرِي كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا وَاهِيَةٌ وَهْيُهَا تَشَقُّقُهَا أَرْجَائِهَا مَا لَمْ يَنْشَقَّ مِنْهَا فَهُمْ عَلَى حَافَتَيْهَا كَقَوْلِكَ عَلَى أَرْجَاءِ الْبِئْرِ وَأَغْطَشَ سورة النازعات آية 29 وَ جَنَّ سورة الأنعام آية 76 أَظْلَمَ، وَقَالَ الْحَسَنُ كُوِّرَتْ سورة التكوير آية 1: تُكَوَّرُ حَتَّى يَذْهَبَ ضَوْءُهَا وَاللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ سورة الانشقاق آية 17: جَمَعَ مِنْ دَابَّةٍ اتَّسَقَ سورة الانشقاق آية 18: اسْتَوَى بُرُوجًا سورة الحجر آية 16: مَنَازِلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ الْحَرُورُ بِالنَّهَارِ مَعَ الشَّمْسِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَرُؤْبَةُ الْحَرُورُ بِاللَّيْلِ وَالسَّمُومُ بِالنَّهَارِ يُقَالُ يُولِجُ يُكَوِّرُ وَلِيجَةً سورة التوبة آية 16 كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ.
مجاہد نے کہا یعنی چکی کی طرح گھومتے ہیں اور دوسرے لوگوں نے یوں کہا یعنی حساب سے مقررہ منزلوں میں پھرتے ہیں، زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔ لفظ «حسبان» «حساب» کی جمع ہے۔ جیسے لفظ «شهاب» کی جمع «شهبان.» ہے اور سورۃ والشمس میں جو لفظ «ضحاها» آیا ہے۔«ضحى» روشنی کو کہتے ہیں اور سورۃ یٰسٓ میں جو آیا ہے کہ سورج چاند کو نہیں پا سکا، یعنی ایک کی روشنی دوسرے کو ماند نہیں کر سکتی نہ ان کو یہ بات سزاوار ہے اور اسی سورۃ میں جو الفاظ «ولا الليل سابق النهار» ہیں ان کا مطلب یہ کہ دن اور رات ہر ایک دوسرے کے طالب ہو کر لپکے جا رہے ہیں اور اسی سورۃ میں لفظ «انسلخ» کا معنی یہ ہے کہ دن کو رات سے اور رات کو دن سے ہم نکال لیتے ہیں اور سورۃ الحاقہ میں جو «واهية» کا لفظ ہے۔ «وهي» کے منی پھٹ جانا اور اسی سورۃ میں جو یہ ہے «أرجائها» یعنی فرشتے آسمانوں کے کناروں پر ہوں گے جب تک وہ پھٹے گا نہیں۔ جیسے کہتے ہیں وہ کنویں کے کنارے پر اور سورۃ والنازعات میں جو لفظ «أغطش» اور سورۃ الانعام میں لفظ «جن» ہے ان کے معنی اندھیری کے ہیں۔ یعنی اندھیاری کی اندھیاری ہوئی اور امام حسن بصریٰ نے کہا کہ سورۃ اذالشمس میں «كورت» کا جو لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے جب لپیٹ کر تاریک کر دیا جائے گا اور سورۃ انشقت میں جو «وما وسق» کا لفظ ہے اس کے معنی جو اکٹھا کرے۔ اسی سورۃ میں «اتسق» کا معنی سیدھا ہوا، اور سورۃ الفرقان میں «بروجا» کا لفظ «بروج» سورج اور چاند کی منزلوں کو کہتے ہیں اور سورۃ فاطر میں جو «حرور» کا لفظ ہے اس کے معنی دھوپ کی گرمی کے ہیں۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، «حرور» رات کی گرمی اور «سموم» دن کی گرمی۔ اور سورۃ فاطر میں جو «يولج» کا لفظ ہے اس کے معنی لپیٹتا ہے اندر داخل کرتا ہے اور سورۃ التوبہ میں جو «وليجة» کا لفظ ہے اس کے معنی اندر گھسا ہوا یعنی راز دار دوست۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِي: "أَيْنَ تَذْهَبُ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ فَلَا يُقْبَلَ مِنْهَا وَتَسْتَأْذِنَ فَلَا يُؤْذَنَ لَهَا، يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ سورة يس آية 38.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (دوبارہ آنے) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» (یٰسٓ: 38) میں اسی طرف اشارہ ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الدَّانَاجُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ لنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُكَوَّرَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن فیروز داناج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند دونوں تاریک (بے نور) ہو جائیں گے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْأَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ قاسم بن محمد بن ابی بکر نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ اس لیے جب تم ان کو دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کی یاد میں لگ جایا کرو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ قَامَ فَكَبَّرَ، وَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَقَامَ كَمَا هُوَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنَ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهِيَ أَدْنَى مِنَ الرَّكْعَةِ الْأُولَى، ثُمَّ سَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ، مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کیا، انہوں نے کہا ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ نے خبر دی، اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ جس دن سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مصلے پر) کھڑے ہوئے۔ «الله اكبر» کہا اور بڑی دیر تک قرآت کرتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، ایک بہت لمبا رکوع، پھر سر اٹھا کر «سمع الله لمن حمده» کہا اور پہلے کی طرح کھڑے ہو گئے۔ اس قیام میں بھی لمبی قرآت کی۔ اگرچہ پہلی قرآت سے کم تھی اور پھر رکوع میں چلے گئے اور دیر تک رکوع میں رہے، اگرچہ پہلے رکوع سے یہ کم تھا۔ اس کے بعد سجدہ کیا، ایک لمبا سجدہ، دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا اور اس کے بعد سلام پھیرا تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا اور سورج اور چاند گرہن کے متعلق بتلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اور ان میں کسی کی موت و حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا، اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو فوراً نماز کی طرف لپک جاؤ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں کسی کی موت یا حیات پر گرہن نہیں لگتا۔ بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے نشانی ہیں اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔
قَاصِفًا تَقْصِفُ كُلَّ شَيْءٍ. لَوَاقِحَ مَلَاقِحَ مُلْقِحَةً. إِعْصَارٌ رِيحٌ عَاصِفٌ. تَهُبُّ مِنَ الْأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ. صِرٌّ بَرْدٌ. نُشُرًا مُتَفَرِّقَةً.
سورۃ بنی اسرائیل میں «قاصفا» کا جو لفظ ہے اس کے معنی سخت ہوا جو ہر چیز کو روند ڈالے۔ سورۃ الحج میں جو لفظ «لواقح» ہے اس کے معنی «ملاقح» جو «ملقحة.» کی جمع ہے یعنی حاملہ کر دینے والی۔ سورۃ البقرہ میں جو «إعصار» کا لفظ ہے تو «إعصار» بگولے کو کہتے ہیں جو زمین سے آسمان تک ایک ستون کی طرح ہے، اس میں آگ ہو۔ سورۃ آل عمران میں جو «صر» کا لفظ ہے اس کا معنی پالا (سردی)«نشر» کے معنی جدا جدا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "نُصِرْتُ بِالصَّبَا، وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «بالصبا» باد صبا (مشرقی ہوا) کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قوم عاد «دبور"» (مغربی ہوا) سے ہلاک کر دی گئی تھی۔
حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا رَأَى مَخِيلَةً فِي السَّمَاءِ أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ وَدَخَلَ وَخَرَجَ وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، فَإِذَا أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ عَنْهُ فَعَرَّفَتْهُ عَائِشَةُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ قَوْمٌ فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ سورة الأحقاف آية 24 الْآيَةَ.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، ان سے عطاء نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابر کا کوئی ایسا ٹکڑا دیکھتے جس سے بارش کی امید ہوتی تو آپ کبھی آگے آتے، کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر تشریف لاتے، کبھی باہر آ جاتے اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔ لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کے متعلق آپ سے پوچھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نہیں جانتا ممکن ہے یہ بادل بھی ویسا ہی ہو جس کے بارے میں قوم عاد نے کہا تھا، جب انہوں نے بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تھا۔ آخر آیت تک (کہ ان کے لیے رحمت کا بادل آیا ہے، حالانکہ وہ عذاب کا بادل تھا)۔
وَقَالَ أَنَسٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَنَحْنُ الصَّافُّونَ سورة الصافات آية 165 الْمَلَائِكَةُ.
انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جبریل علیہ السلام کو یہودی فرشتوں میں سے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ الصافات میں بیان کہ «نحن الصافون» میں مراد ملائکہ ہیں۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، وقَالَ لِي خَلِيفَةُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهِشَامٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، وَذَكَرَ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ الْبَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ دُونَ الْبَغْلِ، وَفَوْقَ الْحِمَارِ الْبُرَاقُ فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى وَيَحْيَى، فَقَالَا: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ يُوسُفَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ ؟، قَالَ: يَا رَبِّ هَذَا الْغُلَامُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا ؟، قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ ؟، قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ فَرُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلَالُ هَجَرَ وَوَرَقُهَا كَأَنَّهُ آذَانُ الْفُيُولِ فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَفِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ النِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلَاةً، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ فَرَجَعْتُ فَسَأَلْتُهُ فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلَاثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عَشْرًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ فَجَعَلَهَا خَمْسًا فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ، قُلْتُ: جَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ: مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي وَخَفَّفْتُ، عَنْ عِبَادِي وَأَجْزِي الْحَسَنَةَ عَشْرًا، وَقَالَ هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَيْتِ الْمَعْمُورِ.
ہم سے ہدبۃ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کر دیں۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کر دیں۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کر دیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ اور ہمام نے کہا، ان سے قتادہ نے کہا، ان سے حسن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، قَالَ: "إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم سے صادق المصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا اور فرمایا کہ تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک (نطفہ کی صورت) میں کی جاتی ہے اتنی ہی دنوں تک پھر ایک بستہ خون کے صورت میں اختیار کئے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک مضغہ گوشت رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے۔ اب اس نطفہ میں روح ڈالی جاتی ہے (یاد رکھ) ایک شخص (زندگی بھر نیک) عمل کرتا رہتا ہے اور جب جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آ جاتی ہے اور دوزخ والوں کے عمل شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص (زندگی بھر برے)کام کرتا رہتا ہے اور جب دوزخ اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آ جاتی ہے اور جنت والوں کے کام شروع کر دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَابَعَهُ أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ الْعَبْدَ نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اور اس روایت کی متابعت ابوعاصم نے ابن جریج سے کی ہے کہ مجھے موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی انہیں نافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو، چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ پھر جبرائیل علیہ السلام تمام اہل آسمان کو پکار دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لیے تم سب لوگ اس سے محبت رکھو، چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد روئے زمین والے بھی اس کو مقبول سمجھتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَنْزِلُ فِي الْعَنَانِ وَهُوَ السَّحَابُ فَتَذْكُرُ الْأَمْرَ قُضِيَ فِي السَّمَاءِ فَتَسْتَرِقُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ، فَتَسْمَعُهُ فَتُوحِيهِ إِلَى الْكُهَّانِ فَيَكْذِبُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ".
ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں لیث نے خبر دی، ان سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا فرشتے «عنان» میں اترتے ہیں۔ اور «عنان» سے مراد بادل ہیں۔ یہاں فرشتے ان کاموں کا ذکر کرتے ہیں جن کا فیصلہ آسمان میں ہو چکا ہوتا ہے۔ اور یہیں سے شیاطین کچھ چوری چھپے باتیں اڑا لیتے ہیں۔ پھر کاہنوں کو اس کی خبر کر دیتے ہیں اور یہ کاہن سو جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر اسے بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَالْأَغَرِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِكَةُ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ وَجَاءُوا يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ اور اغر نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہو جاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والے اور پھر اس کے بعد آنے والوں کو نمبر وار لکھتے جاتے ہیں۔ پھر جب امام(خطبے کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور ذکر سننے لگ جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ فِي الْمَسْجِدِوَحَسَّانُ يُنْشِدُ، فَقَالَ: كُنْتُ أُنْشِدُ فِيهِ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ أَسَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَجِبْ عَنِّي اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس وقت یہاں شعر پڑھا کرتا تھا جب آپ سے بہتر شخص (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) یہاں تشریف رکھتے تھے۔ پھر حسان رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے تم نے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! (کفار مکہ کو) میری طرف سے جواب دے۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں بیشک (میں نے سنا تھا)۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَسَّانَ: "اهْجُهُمْ أَوْ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا مشرکین مکہ کی تم بھی ہجو کو یا (یہ فرمایا کہ) ان کی ہجو کا جواب دو، جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ هِلَالٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى غُبَارٍ سَاطِعٍ فِي سِكَّةِ بَنِي غَنْمٍ زَادَ مُوسَى مَوْكِبَ جِبْرِيلَ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو وہب بن جریر نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے حمید بن ہلال سے سنا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جیسے وہ غبار میری نظروں کے سامنے ہے۔ موسیٰ نے روایت میں یوں زیادتی کی کہ جبرائیل علیہ السلام کے (ساتھ آنے والے) سوار فرشتوں کی وجہ سے۔ جو غبار خاندان بنو غنم کی گلی سے اٹھا تھا۔
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ ؟، قَالَ: "كُلُّ ذَاكَ يَأْتِي الْمَلَكُ أَحْيَانًا فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ فَيَفْصِمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ مَا، قَالَ: وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ وَيَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ أَحْيَانًا رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی آپ کے پاس کس طرح آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کئی طرح سے آتی ہے۔ کبھی فرشتہ کے ذریعہ آتی ہے تو وہ گھنٹی بجنے کی آواز کی طرح نازل ہوتی ہے۔ جب وحی ختم ہو جاتی ہے تو جو کچھ فرشتے نے نازل کیا ہوتا ہے، میں اسے پوری طرح یاد کر چکا ہوتا ہوں۔ وحی اترنے کی یہ صورت میرے لیے بہت دشوار ہوتی ہے۔ کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آ جاتا ہے وہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور جو کچھ کہہ جاتا ہے میں اسے پوری طرح یاد کر لیتا ہوں۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ دَعَتْهُ خَزَنَةُ الْجَنَّةِ أَيْ فُلُ هَلُمَّ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ذَاكَ الَّذِي لَا تَوَى عَلَيْهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اللہ کے راستے میں جو شخص کسی چیز کا بھی جوڑا دے، تو جنت کے چوکیدار فرشتے اسے بلائیں گے کہ فلاں اس دروازے سے اندر آ جا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ تو وہ شخص ہو گا جسے کوئی نقصان نہ ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: "يَا عَائِشَةُ هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ، فَقَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ تَرَى مَا لَا أَرَى تُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا اے عائشہ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا، کہ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی، عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، ح قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ: "أَلَا تَزُورُنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا سورة مريم آية 64 الْآيَةَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن ذر نے بیان کیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے عمر بن ذر نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے ایک مرتبہ فرمایا ہم سے ملاقات کے لیے جتنی مرتبہ آپ آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟ بیان کیا کہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما نتنزل إلا بأمر ربك له ما بين أيدينا وما خلفنا» اور ہم نہیں اترتے لیکن تیرے رب کے حکم سے، اسی کا ہے جو کچھ کہ ہمارے سامنے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے۔ آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلَى حَرْفٍ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ".
ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب زبیری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا، لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کا اظہار کرتا رہا، تاآنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَجْوَدَ النَّاسِ وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ"، وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ، وَفَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی، جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً اس دور میں جب جبرائیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے اور عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے، ان سے معمر نے اسی اسناد کے ساتھ اسی طرح بیان کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ : أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلَّى أَمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے ان سے کہا۔ لیکن جبرائیل علیہ السلام (نماز کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا، عروہ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا کہ (اور سن لو) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر (دوسرے وقت کی) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، اپنی انگلیوں پر آپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي جِبْرِيلُ: "مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، أَوْ لَمْ يَدْخُلِ النَّارَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل علیہ السلام کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو آدمی اس حالت میں مرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا ہو گا، تو وہ جنت میں داخل ہو گا یا(آپ نے یہ فرمایا کہ) جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ خواہ اس نے اپنی زندگی میں زنا کیا ہو، خواہ چوری کی ہو، اور خواہ زنا اور چوری کرتا ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَلَائِكَةُ يَتَعَاقَبُونَ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ، فَيَقُولُ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي ؟، فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ يُصَلُّونَ وَأَتَيْنَاهُمْ يُصَلُّونَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے آگے پیچھے زمین پر آتے جاتے رہتے ہیں، کچھ فرشتے رات کے ہیں اور کچھ دن کے اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تمہارے یہاں رات میں رہے۔ اللہ کے حضور میں جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے .... حالانکہ وہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے .... کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا، وہ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔ اور اسی طرح جب ہم ان کے یہاں گئے تھے، جب بھی وہ (عصر) کی نماز پڑھ رہے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍحَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: حَشَوْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِسَادَةً فِيهَا تَمَاثِيلُ كَأَنَّهَا نُمْرُقَةٌ فَجَاءَ، فَقَامَ بَيْنَ الْبَابَيْنِ وَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "مَا بَالُ هَذِهِ الْوِسَادَةِ، قَالَتْ: وِسَادَةٌ جَعَلْتُهَا لَكَ لِتَضْطَجِعَ عَلَيْهَا، قَالَ: أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَأَنَّ مَنْ صَنَعَ الصُّورَةَ يُعَذَّبُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَقُولُ: أَحْيُوا مَا خَلَقْتُمْ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن امیہ نے، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک تکیہ بھرا، جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ ایسا ہو گیا جیسے نقشی تکیہ ہوتا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دروازے پر کھڑے ہو گئے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم سے کیا غلطی ہوئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا، یہ تو میں نے آپ کے لیے بنایا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا سکیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی تصویر ہوتی ہے اور یہ کہ جو شخص بھی تصویر بنائے گا، قیامت کے دن اسے اس پر عذاب دیا جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ جس کی مورت تو نے بنائی، اب اسے زندہ بھی کر کے دکھا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا طَلْحَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ، وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے، اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتے ہوں اور اس میں بھی نہیں جس میں جاندار کی تصویر ہو۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو ، أَنَّ بُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجّ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، وَمَعَ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عُبَيْدُ اللَّهِ الْخَوْلَانِيُّ الَّذِي كَانَ فِي حَجْرِ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمَا زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ، قَالَ: بُسْرٌ فَمَرِضَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ فَعُدْنَاهُ، فَإِذَا نَحْنُ فِي بَيْتِهِ بِسِتْرٍ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَقُلْتُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ الْخَوْلَانِيِّ أَلَمْ يُحَدِّثْنَا فِي التَّصَاوِيرِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَالَ: إِلَّا رَقْمٌ فِي ثَوْبٍ أَلَا سَمِعْتَهُ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: بَلَى قَدْ ذَكَرَهُ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے بکیر بن اشج نے بیان کیا، ان سے بسر بن سعید نے بیان کیا اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور (راوی حدیث) بسر بن سعید کے ساتھ عبیداللہ خولانی بھی روایت حدیث میں شریک ہیں، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں تھے۔ ان دونوں سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں (جاندار کی) تصویر ہو۔ بسر نے بیان کیا کہ پھر زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیمار پڑے اور ہم ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے۔ گھر میں ایک پردہ پڑا ہوا تھا اور اس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے عبیداللہ خولانی سے کہا، کیا انہوں نے ہم سے تصویروں کے متعلق ایک حدیث نہیں بیان کی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ زید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ کپڑے پر اگر نقش و نگار ہوں (جاندار کی تصویر نہ ہو) تو وہ اس حکم سے الگ ہے۔ کیا آپ نے حدیث کا یہ حصہ نہیں سنا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں! زید رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: وَعَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ فَقَالَ: "إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے آنے کا وعدہ کیا تھا (لیکن نہیں آئے) پھر جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وجہ پوچھی، انہوں نے کہا کہ ہم کسی بھی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا موجود ہو۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ، قَوْلُهُ قَوْلَ: الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ہم سے اسماعیل بن ادریس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب (نماز میں) امام کہے کہ «سمع الله لمن حمده» تو تم کہا کرو «اللهم ربنا لك الحمد» کیونکہ جس کا ذکر ملائکہ کے ساتھ موافق ہو جاتا ہے اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ أَحَدَكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَتِ الصَّلَاةُ تَحْبِسُهُ وَالْمَلَائِكَةُ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ مَا لَمْ يَقُمْ مِنْ صَلَاتِهِ أَوْ يُحْدِثْ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، ان سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص نماز کی وجہ سے جب تک کہیں ٹھہرا رہے گا اس کا یہ سارا وقت نماز میں شمار ہو گا اور ملائکہ اس کے لیے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت فرما، اور اس پر اپنی رحمت نازل کر (اس وقت تک) جب تک وہ نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ نہ جائے یا بات نہ کرے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ سورة الزخرف آية 77، قَالَ سُفْيَانُ: فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ 0 وَنَادَوْا يَا مَالِ 0".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد (یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ منبر پر سورۃ الاحزاب کی اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے «ونادوا يا مالك» اور وہ دوزخی پکاریں گی اے مالک! (یہ داروغہ جہنم کا نام ہے) اور سفیان نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رات میں یوں ہے «ونادوا يا مال.» ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ ، أَنَّعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ ؟، قَالَ: "لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ، وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ، فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے کہا، ان سے عروہ نے کہا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى 9 فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى 10 سورة النجم آية 9-10، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ : أَنَّهُ رَأَى"جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زر بن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے (سورۃ النجم میں) ارشاد «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى» کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (اپنی اصلی صورت میں)دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى سورة النجم آية 18، قَالَ: "رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ سَدَّ أُفُقَ السَّمَاءِ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے (اللہ تعالیٰ کے ارشاد) «لقد رأى من آيات ربه الكبرى» کے متعلق بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز رنگ کا بچھونا دیکھا تھا جو آسمان میں سارے کناروں کو گھیرے ہوئے تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ أَنْبَأَنَا الْقَاسِمُ ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ، وَلَكِنْ قَدْ رَأَى جِبْرِيلَ فِي صُورَتِهِ، وَخَلْقُهُ سَادٌّ مَا بَيْنَ الْأُفُقِ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے، کہا ہم کو قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (معراج کی رات میں) ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا۔ ان کے وجود نے آسمان کا کنارہ ڈھانپ لیا تھا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ ابْنِ الْأَشْوَعِ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْمَسْرُوقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَيْنَ قَوْلُهُ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى 8 فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى 9 سورة النجم آية 8-9، قَالَتْ: "ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الْأُفُقَ".
مجھ سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن الاشوع نے، ان سے شعبی نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان کے اس کہنے پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں تھا) پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «ثم دنا فتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى» کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ آیت تو جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ہے، وہ انسانی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور اس مرتبہ اپنی اس شکل میں آئے جو اصلی تھی اور انہوں نے تمام آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُوسَى ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، عَنْ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، قَالَا: الَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ، وَأَنَا جِبْرِيلُ، وَهَذَا مِيكَائِيلُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے ابورجاء نے بیان کیا، ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے آج رات (خواب میں) دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے۔ ان دونوں نے مجھے بتایا کہ وہ جو آگ جلا رہا ہے۔ وہ جہنم کا داروغہ مالک نامی فرشتہ ہے۔ میں جبرائیل ہوں اور یہ میکائیل ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ"تَابَعَهُ شُعْبَةُ ، وَأَبُو حَمْزَةَ ، وابْنُ دَاوُدَ ، وأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ .
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ اس روایت کی متابعت، ابوحمزہ، ابن داود اور ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "ثُمَّ فَتَرَ عَنِّي الْوَحْيُ فَتْرَةً فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجُئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5"، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزُ الْأَوْثَانُ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ (پہلے غار حراء میں جو جبرائیل علیہ السلام مجھ کو سورۃ اقراء پڑھا کر گئے تھے اس کے بعد) مجھ پر وحی کا نزول (تین سال) بند رہا۔ ایک بار میں کہیں جا رہا تھا کہ میں نے آسمان میں سے ایک آواز سنی اور نظر آسمان کی طرف اٹھائی، میں نے دیکھا کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا (یعنی جبرائیل علیہ السلام) آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں انہیں دیکھ کر اتنا ڈر گیا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنے گھر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کچھ اوڑھا دو، مجھے کچھ اوڑھا دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ «يا أيها المدثر» اللہ تعالیٰ کے ارشاد «فاهجر» تک۔ ابوسلمہ نے کہا کہ آیت میں «الرجز» سے بت مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، وقَالَ لِي خَلِيفَةُ : حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَاسَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَمِّ نَبِيِّكُمْ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مُوسَى رَجُلًا آدَمَ طُوَالًا جَعْدًا كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى رَجُلًا مَرْبُوعًا مَرْبُوعَ الْخَلْقِ إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ سَبِطَ الرَّأْسِ، وَرَأَيْتُ مَالِكًا خَازِنَ النَّارِ وَالدَّجَّالَ فِي آيَاتٍ أَرَاهُنَّ اللَّهُ إِيَّاهُ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ"، قَالَ أَنَسٌ وَأَبُو بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَحْرُسُ الْمَلَائِكَةُ الْمَدِينَةَ مِنَ الدَّجَّالِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن عروبہ نے، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے تمہارے نبی کے چچازاد بھائی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب معراج میں، میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تھا، گندمی رنگ، قد لمبا اور بال گھونگھریالے تھے، ایسے لگتے تھے جیسے قبیلہ شنوہ کا کوئی شخص ہو اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا تھا۔ درمیانہ قد، میانہ جسم، رنگ سرخی اور سفیدی لیے ہوئے اور سر کے بال سیدھے تھے (یعنی گھونگھریالے نہیں تھے) اور میں نے جہنم کے داروغہ کو بھی دیکھا اور دجال کو بھی، منجملہ ان آیات کے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو دکھائی تھیں (سورۃ السجدہ میں اسی کا ذکر ہے کہ) پس (اے نبی!) ان سے ملاقات کے بارے میں آپ کسی قسم کا شک و شبہ نہ کریں، یعنی موسیٰ علیہ السلام سے ملنے میں، انس اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں بیان کیا کہ جب دجال نکلے گا تو فرشتے دجال سے مدینہ کی حفاظت کریں گے۔
قَالَ: أَبُو الْعَالِيَةِ مُطَهَّرَةٌ مِنَ الْحَيْضِ وَالْبَوْلِ وَالْبُزَاقِ كُلَّمَا رُزِقُوا سورة البقرة آية 25 أُتُوا بِشَيْءٍ ثُمَّ أُتُوا بِآخَرَ قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ سورة البقرة آية 25 أُتِينَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا سورة البقرة آية 25 يُشْبِهُ بَعْضُهُ بَعْضًا وَيَخْتَلِفُ فِي الطُّعُومِ قُطُوفُهَا سورة الحاقة آية 23 يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا دَانِيَةٌ سورة الحاقة آية 23 قَرِيبَةٌ الأَرَائِكِ سورة الكهف آية 31 السُّرُرُ، وَقَالَ الْحَسَنُ: النَّضْرَةُ فِي الْوُجُوهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: سَلْسَبِيلا سورة الإنسان آية 18 حَدِيدَةُ الْجِرْيَةِ غَوْلٌ سورة الصافات آية 47 وَجَعُ الْبَطْنِ يُنْزَفُونَ سورة الصافات آية 47 لَا تَذْهَبُ عُقُولُهُمْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: دِهَاقًا سورة النبأ آية 34 مُمْتَلِئًا وَكَوَاعِبَ سورة النبأ آية 33 نَوَاهِدَ الرَّحِيقُ الْخَمْرُ سورة المائدة آية 90 التَّسْنِيمُ يَعْلُو شَرَابَ أَهْلِ الْجَنَّةِ خِتَامُهُ سورة المطففين آية 26 طِينُهُ مِسْكٌ سورة المطففين آية 26 نَضَّاخَتَانِ سورة الرحمن آية 66 فَيَّاضَتَانِ يُقَالُ: مَوْضُونَةٌ مَنْسُوجَةٌ مِنْهُ وَضِينُ النَّاقَةِ وَالْكُوبُ مَا لَا أُذْنَ لَهُ وَلَا عُرْوَةَ وَالْأَبَارِيقُ ذَوَاتُ الْآذَانِ وَالْعُرَى عُرُبًا سورة الواقعة آية 37 مُثَقَّلَةً وَاحِدُهَا عَرُوبٌ مِثْلُ صَبُورٍ وَصُبُرٍ يُسَمِّيهَا أَهْلُ مَكَّةِ الْعَرِبَةَ وَأَهْلُ الْمَدِينَةِ الْغَنِجَةَ وَأَهْلُ الْعِرَاقِ الشَّكِلَةَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ رَوْحِ سورة يوسف آية 87 جَنَّةٌ وَرَخَاءٌ وَالرَّيْحَانُ سورة الرحمن آية 12 الرِّزْقُ وَالْمَنْضُودُ الْمَوْزُ وَالْمَخْضُودُ الْمُوقَرُ حَمْلًا، وَيُقَالُ: أَيْضًا لَا شَوْكَ لَهُ وَالْعُرُبُ الْمُحَبَّبَاتُ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ، وَيُقَالُ: مَسْكُوبٌ جَارٍ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ سورة الواقعة آية 34 بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ لَغْوًا سورة مريم آية 62 بَاطِلًا تَأْثِيمًا سورة الواقعة آية 25 كَذِبًا أَفْنَانٌ أَغْصَانٌ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ سورة الرحمن آية 54 مَا يُجْتَنَى قَرِيبٌ مُدْهَامَّتَانِ سورة الرحمن آية 64 سَوْدَاوَانِ مِنَ الرِّيِّ.
ابوالعالیہ نے کہا (سورۃ البقرہ میں) جو لفظ «مطهرة» آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کی حوریں حیض اور پیشاب اور تھوک اور سب گندگیوں سے پاک صاف ہوں گی اور جو یہ آیا ہے «كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا» آخر آیت تک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان کے پاس ایک میوہ لایا جائے گا پھر دوسرا میوہ تو جنتی کہیں گے یہ تو وہی میوہ ہے جو ہم کو پہلے مل چکا ہے۔ «متشابها» کے معنی صورت اور رنگ میں ملے جلے ہوں گے لیکن مزے میں جدا جدا ہوں گے (سورۃ الحاقہ میں) جو لفظ «قطوفها دانية» آیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بہشت کے میوے ایسے نزدیک ہوں گے کہ بہشتی لوگ کھڑے بیٹھے جس طرح چاہیں ان کو توڑ سکیں گے۔ «دانية» کا معنی نزدیک کے ہیں، «أرائك» کے معنی تخت کے ہیں، امام حسن بصریٰ نے کہا لفظ «نضرة منه» کی تازگی کو اور سرور دل کی خوشی کو کہتے ہیں۔ اور مجاہد نے کہا «سلسبيلا» کے معنی تیز بہنے والی، اور لفظ «غول» کے معنی پیٹ کے درد کے ہیں۔ «ينزفون» کے معنی یہ کہ ان کی عقل میں فتور نہیں آئے گا۔ جیسا کہ دنیاوی شراب سے آ جاتا ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ نبا میں) جو«دهاقا» کا لفظ آیا ہے اس کے معنی لبالب بھرے ہوئے کہ ہیں۔ لفظ «كواعب» کے معنی پستان اٹھے ہوئے کے ہیں، لفظ «رحيق» کے معنی جنت کی شراب، «تسنيم» وہ عرق جو بہشتیوں کی شراب کے اوپر ڈالا جائے گا۔ بہشتی اس کو پئیں گے اور لفظ «ختام» (سورۃ المطففین میں) کے معنی مہر کی مٹی (جس سے وہاں کی شراب کی بوتلوں پر مہر لگی ہوئی ہو گی۔ «نضاختان» (سورۃ الرحمن میں) دو جوش مارتے ہوئے چشمے، لفظ «موضونة» (سورۃ الواقعہ میں) کا معنی جڑاو بنا ہوا، اسی سے لفظ «وضين الناقة.» نکلا ہے۔ یعنی اونٹنی کی جھول وہ بھی بنی ہوئی ہوتی ہے اور لفظ «كوب» کا معنی جس کی جمع «اكواب» (سورۃ الواقعہ میں) ہے، کوزہ جس میں نہ کان ہو نہ کنڈا اور لفظ«لأباريق» «ابريق» کی جمع وہ کوزہ جو کان اور کنڈہ رکھتا ہو۔ اور لفظ «عربا» (سورۃ الواقعہ میں) «عروب» کی جمع ہے جیسے «صبور» کی جمع «صبر» آتی ہے۔ مکہ والے «عروب» کو «عربة» اور مدینہ والے «غنجة» اور عراق والے «شكلة.» کہتے ہیں۔ ان سب سے وہ عورت مراد ہے جو اپنے خاوند کی عاشق ہو۔ اور مجاہد نے کہا لفظ «روح.» (سورۃ الواقعہ میں ہے) کا معنی بہشت اور فراخی رزق کے ہیں۔«ريحان.» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) رزق کے ہیں اور لفظ «منضود» (سورۃ الواقعہ) کا معنی کیلے کے ہیں۔ «مخضود» وہ بیر جس میں کانٹا نہ ہو۔ میوے کے بوجھ سے لٹکا ہوا ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ عرب (جو سورۃ الواقعہ میں ہے) اس کے معنی وہ عورتیں جو اپنے خاوند کی محبوبہ ہوں، «مسكوب» کا معنی (جو اسی سورۃ میں ہے) بہتا ہوا پانی۔ اور لفظ «وفرش مرفوعة» (سورۃ الواقعہ) کا معنی بچھونے اونچے یعنی اوپر تلے بچھے ہوئے، لفظ «لغوا» جو اسی سورۃ میں ہے۔ اس کے معنی غلط جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «تأثيما» جو اسی سورۃ میں ہے اس کا معنی بھی جھوٹ کے ہیں۔ لفظ «أفنان» جو سورۃ الرحمن میں ہے۔ اس کے معنی شاخیں ڈالیاں اور «وجنى الجنتين دان»کا معنی بہت تازگی اور شاداب کی وجہ سے وہ کالے ہو رہے ہوں گے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا مَاتَ أَحَدُكُمْ فَإِنَّهُ يُعْرَضُ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص مرتا ہے تو(روزانہ) صبح و شام دونوں وقت اس کا ٹھکانا (جہاں وہ آخرت میں رہے گا) اسے دکھلایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ میں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَاءَ، وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو جنتیوں میں زیادتی غریبوں کی نظر آئی اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو دوزخیوں میں کثرت عورتوں کی نظر آئی۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ، قَالَ: "بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ، فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرْتُ غَيْرَتَهُ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا فَبَكَى عُمَرُ، وَقَالَ: أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی، میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جو ایک محل کے کنارے وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محل ہے۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے فوراً لوٹ آیا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رو دئیے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے ساتھ بھی غیرت کروں گا؟
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِمْرَانَ الْجَوْنِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الْأَشْعَرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْخَيْمَةُ دُرَّةٌ مُجَوَّفَةٌ طُولُهَا فِي السَّمَاءِ ثَلَاثُونَ مِيلًا فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا لِلْمُؤْمِنِ أَهْلٌ لَا يَرَاهُمُ الْآخَرُونَ، قَالَ أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ ، وَالْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَسِتُّونَ مِيلًا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوعمران جونی سے سنا، ان سے ابوبکر بن عبداللہ بن قیس اشعری نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جنتیوں کا) خیمہ کیا ہے، ایک موتی ہے خولدار جس کی بلندی اوپر کو تیس میل تک ہے۔ اس کے ہر کنارے پر مومن کی ایک بیوی ہو گی جسے دوسرے نہ دیکھ سکیں گے۔ ابوعبدالصمد اور حارث بن عبید نے ابوعمران سے (بجائے تیس میل کے) ساٹھ میل بیان کیا۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ اللَّهُ: "أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا کبھی خیال گزرا ہے۔ اگر جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين» پس کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَا يَبْصُقُونَ فِيهَا، وَلَا يَمْتَخِطُونَ وَلَا يَتَغَوَّطُونَ آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَجَامِرُهُمُ الْأَلُوَّةُ وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ، لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ، وَلَا تَبَاغُضَ قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب، پاخانہ کریں گے۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہو گا۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہو گا اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی۔ جن کا حسن ایسا ہو گا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔ نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہو گا اور نہ بغض و عناد، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَالَّذِينَ عَلَى إِثْرِهِمْ كَأَشَدِّ كَوْكَبٍ إِضَاءَةً قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ، وَلَا تَبَاغُضَ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا يُرَى مُخُّ سَاقِهَا مِنْ وَرَاءِ لَحْمِهَا مِنَ الْحُسْنِ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا لَا يَسْقَمُونَ، وَلَا يَمْتَخِطُونَ، وَلَا يَبْصُقُونَ آنِيَتُهُمُ الذَّهَبُ وَالْفِضَّةُ وَأَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ، وَوَقُودُ مَجَامِرِهِمُ الْأَلُوَّةُ، قَالَ أَبُو الْيَمَانِ: يَعْنِي الْعُودَ وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْإِبْكَارُ أَوَّلُ الْفَجْرِ وَالْعَشِيُّ مَيْلُ الشَّمْسِ إِلَى أَنْ ترَاهُ تَغْرُبَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے ابولزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند ہوتا ہے۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہو گا ان کے چہرے سب سے زیادہ چمکدار ستارے جیسے روشن ہوں گے۔ ان کے دل ایک ہوں گے کہ کوئی بھی اختلاف ان میں آپس میں نہ ہو گا اور نہ ایک دوسرے سے بغض و حسد ہو گا۔ ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی خوبصورتی ایسی ہو گی کہ ان کی پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائی دے گا۔ وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں گے نہ ان کو کوئی بیماری ہو گی، نہ ان کی ناک میں کوئی آلائش آئے گی اور نہ تھوک آئے گا۔ ان کے برتن سونے اور چاندی کے اور کنگھے سونے کے ہوں گے اور ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن «ألوة» کا ہو گا، ابوالیمان نے بیان کیا کہ «ألوة» سے عود ہندی مراد ہے۔ اور ان کا پسینہ مشک جیسا ہو گا۔ مجاہد نے کہا کہ «إبكار» سے مراد اول فجر ہے۔ اور «العشي» سے مراد سورج کا اتنا ڈھل جانا کہ وہ غروب ہوتا نظر آنے لگے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيَدْخُلَنَّ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا أَوْ سَبْعُ مِائَةِ أَلْفٍ، لَا يَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ وُجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ".
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) سات لاکھ کی ایک جماعت جنت میں ایک ہی وقت میں داخل ہوں گی اور ان سب کے چہرے ایسے چمکیں گے جیسے چودہویں کا چاند چمکتا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةُ سُنْدُسٍ وَكَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْهَا، فَقَالَ: "وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد نے بیان کیا، ان سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سندس (ایک خاص قسم کا ریشم) کا ایک جبہ تحفہ میں پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مردوں کے لیے) ریشم کے استعمال سے پہلے ہی منع فرما چکے تھے۔ لوگوں نے اس جبے کو بہت ہی پسند کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہتر ہوں گے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ مِنْ حَرِيرٍ فَجَعَلُوا يَعْجَبُونَ مِنْ حُسْنِهِ وَلِينِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَفْضَلُ مِنْ هَذَا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ریشم کا ایک کپڑا پیش کیا گیا اس کی خوبصورتی اور نزاکت نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بہتر اور افضل ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا".
ہم سے روح بن عبدالمؤمن نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکتا ہے اور پھر بھی اس کو طے نہ کر سکے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ وَاقْرَءُوا، إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو سال تک چل سکے گا اور اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وظل ممدود» اور لمبا سایہ۔
وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبُ".
اور کسی شخص کے لیے ایک کمان کے برابر جنت میں جگہ اس پوری دنیا سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَالَّذِينَ عَلَى آثَارِهِمْ كَأَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، لَا تَبَاغُضَ بَيْنَهُمْ، وَلَا تَحَاسُدَ لِكُلِّ امْرِئٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِنَّ مِنْ وَرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے باپ نے بیان کیا، ان سے ہلال نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ سب سے پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ جو گروہ اس کے بعد داخل ہو گا ان کے چہرے آسمان پر موتی کی طرح چمکنے والے ستاروں میں جو سب سے زیادہ روشن ستارہ ہوتا ہے اس جیسے روشن ہوں گے، سب کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان میں بغض و فساد ہو گا اور نہ حسد، ہر جنتی کی دو حورعین بیویاں ہوں گی، اتنی حسین کہ ان کی پنڈلی کی ہڈی اور گوشت کے اندر کا گودا بھی دیکھا جا سکے گا۔
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (صاحبزادے) ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں اسے ایک دودھ پلانے والی انا کے حوالہ کر دیا گیا ہے (جو ان کو دودھ پلاتی ہے)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَتَرَاءَوْنَ أَهْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِهِمْ كَمَا يَتَرَاءَيُونَ الْكَوْكَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ، أَوِ الْمَغْرِبِ لِتَفَاضُلِ مَا بَيْنَهُمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ تِلْكَ مَنَازِلُ الْأَنْبِيَاءِ، لَا يَبْلُغُهَا غَيْرُهُمْ، قَالَ: بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ رِجَالٌ آمَنُوا بِاللَّهِ، وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی لوگ اپنے سے بلند کمرے والوں کو اوپر اسی طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ستارے کو جو صبح کے وقت رہ گیا ہو، آسمان کے کنارے پورب یا پچھم میں دیکھتے ہیں۔ ان میں ایک دوسرے سے افضل ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو انبیاء کے محل ہوں گے جنہیں ان کے سوار اور کوئی نہ پا سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انبیاء کی تصدیق کی۔
وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجَنَّةِ فِيهِ عُبَادَةُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے (اللہ کے راستے میں کسی چیز کا) ایک جوڑا خرچ کیا، اسے جنت کے دروازے سے بلایا جائے گا اس باب میں عبادہ بن صامت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ لَا يَدْخُلُهُ إِلَّا الصَّائِمُونَ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے۔
وَغَسَّاقًا سورة النبأ آية 25، يُقَالُ: غَسَقَتْ عَيْنُهُ وَيَغْسِقُ الْجُرْحُ وَكَأَنَّ الْغَسَاقَ وَالْغَسْقَ وَاحِدٌ غِسْلِينٍ سورة الحاقة آية 36 كُلُّ شَيْءٍ غَسَلْتَهُ، فَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ فَهُوَ غِسْلِينُ فِعْلِينُ مِنَ الْغَسْلِ مِنَ الْجُرْحِ وَالدَّبَرِ، وَقَالَ: عِكْرِمَةُ حَصَبُ جَهَنَّمَ سورة الأنبياء آية 98 حَطَبُ بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ: غَيْرهُ حَاصِبًا سورة الإسراء آية 68 الرِّيحُ الْعَاصِفُ وَالْحَاصِبُ مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ حَصَبُ جَهَنَّمَ يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ هُمْ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ: حَصَبَ فِي الْأَرْضِ ذَهَبَ وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنْ حَصْبَاءِ الْحِجَارَةِ صَدِيدٍ سورة إبراهيم آية 16 قَيْحٌ وَدَمٌ خَبَتْ سورة الإسراء آية 97 طَفِئَتْ تُورُونَ سورة الواقعة آية 71 تَسْتَخْرِجُونَ، أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ لِلْمُقْوِينَ سورة الواقعة آية 73 لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صِرَاطُ الْجَحِيمِ سَوَاءُ الْجَحِيمِ وَوَسَطُ الْجَحِيمِ لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ سورة الصافات آية 67 يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالْحَمِيمِ زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ سورة هود آية 106 صَوْتٌ شَدِيدٌ وَصَوْتٌ ضَعِيفٌ وِرْدًا سورة مريم آية 86 عِطَاشًا غَيًّا سورة مريم آية 59 خُسْرَانًا، وَقَالَ: مُجَاهِدٌ يُسْجَرُونَ سورة غافر آية 72 تُوقَدُ بِهِمُ النَّارُ وَنُحَاسٌ سورة الرحمن آية 35 الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ، يُقَالُ ذُوقُوا سورة آل عمران آية 181 بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الْفَمِ مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مَرِيجٍ سورة ق آية 5 مُلْتَبِسٍ مَرِجَ أَمْرُ النَّاسِ اخْتَلَطَ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ سورة الفرقان آية 53 مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا.
سورۃ النباء میں جو لفظ «غساقا» آیا ہے اس کا معنی پیپ لہو، عرب لوگ کہتے ہیں «غسقت عينه» اس کی آنکھ بہہ رہی ہے۔ «يغسق الجرح» زخم بہہ رہا ہے۔ «غساق» اور «غسق» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «غسلين» کا لفظ جو سورۃ الحاقہ میں ہے اس کا معنی«دهوون» یعنی کسی چیز کے دھونے میں جیسے آدمی کا زخم ہو یا اونٹ کا جو نکلے «فعلين» کے وزن پر غسل سے مشتق ہے۔ عکرمہ نے کہا «حصب» کا لفظ جو سورۃ انبیاء میں ہے معنی «حطب» یعنی ایندھن کے ہیں۔ یہ لفظ حبشی زبان کا ہے۔ دوسروں نے کہا، «حاصبا» کا معنی جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے تند ہوا، آندھی اور «حاصب» اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے۔ اسی سے لفظ «حصب جهنم»نکلا ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ یعنی دوزخ میں جھونکے جائیں گے وہ اس کے ایندھن بنیں گے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حصب في الأرض» یعنی وہ زمین میں چلا گیا۔ «حصب» «حصباء» سے نکلا ہے۔ یعنی پتھریلی کنکریاں۔ «صديد» کا لفظ جو سورۃ ابراہیم میں ہے اس کا معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔ «خبت» کا لفظ جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس کا معنی بجھ جائے گی۔ «تورون» کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے اس کا معنی آگ سلگاتے ہو، کہتے ہیں «أوريت» یعنی میں نے آگ سلگائی۔ «مقوين» کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے یہ لفظ «قي»سے نکلا ہے۔ «قي» اجاڑ زمین کو کہتے ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے «سواء الجحيم» کی تفسیر میں کہا جو سورۃ الصافات میں ہے دوزخ کا بیچوں بیچ کا حصہ، «لشوبا من حميم» (جو اسی سورۃ میں ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ دوزخیوں کے کھانے میں گرم کھولتا ہوا پانی ملایا جائے گا۔ الفاظ «زفير» اور «شهيق» جو سورۃ ہود میں ہیں ان کے معنی آواز سے رونا اور آہستہ سے رونا، لفظ «وردا» جو سورۃ مریم میں ہے یعنی پیاسے، لفظ «غيا» جو اسی سورۃ میں ہے۔ یعنی ٹوٹا نقصان، اور مجاہد نے کہا لفظ «يسجرون» جو سورۃ مؤمن میں ہے، یعنی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ لفظ «نحاس» جو سورۃ الرحمن میں ہے اس کا معنی تانبا جو پگھلا کر ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔ لفظ«ذوقوا» جو کئی سورتوں میں آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ عذاب کو دیکھو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ لفظ «مارج» جو سورۃ الرحمن میں ہے یعنی خالص آگ۔ عرب لوگ کہتے ہیں، «مرج الأمير رعيته» یعنی بادشاہ اپنی رعیت کو چھوڑ بیٹھا، وہ ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔ لفظ «مريج» جو سورۃ ق میں ہے، یعنی ملا ہوا، مشتبہ۔ کہتے ہیں «مرج أمر الناس اختلط» یعنی لوگوں کا معاملہ سب خلط ملط ہو گیا۔ لفظ «مرج البحرين» جو سورۃ الرحمن میں ہے «مرجت دابتك» سے نکلا ہے، یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُهَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: "أَبْرِدْ ثُمَّ قَالَ: أَبْرِدْ حَتَّى فَاءَ الْفَيْءُ يَعْنِي لِلتُّلُولِ، ثُمَّ قَالَ: أَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے (جب بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان دینے اٹھے تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہو لینے دو، پھر دوبارہ (جب وہ اذان کے لیے اٹھے تو پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی حکم دیا کہ وقت اور ٹھنڈا ہو لینے دو، یہاں تک کہ ٹیلوں کے نیچے سے سایہ ڈھل گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز ٹھنڈے وقت اوقات میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ هُوَ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ أُجَالِسُابْنَ عَبَّاسٍ بِمَكَّةَ فَأَخَذَتْنِي الْحُمَّى، فَقَالَ: أَبْرِدْهَا عَنْكَ بِمَاءِ زَمْزَمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ أَوْ، قَالَ: بِمَاءِ زَمْزَمَ، شَكَّ هَمَّامٌ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک عقدی نے بیان کیا ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نصر بن عمران ضبعی نے بیان کیا کہ میں مکہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتا تھا۔ وہاں مجھے بخار آنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس بخار کو زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کر، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم کی بھاپ کے اثر سے آتا ہے، اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو یا یہ فرمایا کہ زمزم کے پانی سے۔ یہ شک ہمام راوی کو ہوا ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِيرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "الْحُمَّى مِنْ فَوْرِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا عَنْكُمْ بِالْمَاءِ".
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بخار جہنم کے جوش مارنے کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ فَأَبْرِدُوهَا بِالْمَاءِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھاپ کے اثر سے ہوتا ہے اس لیے اسے پانی سے ٹھنڈا کر لیا کرو۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً، قَالَ: فُضِّلَتْ عَلَيْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری (دنیا کی) آگ جہنم کی آگ کے مقابلے میں (اپنی گرمی اور ہلاکت خیزی میں) سترواں حصہ ہے۔ کسی نے پوچھا، یا رسول اللہ! (کفار اور گنہگاروں کے عذاب کے لیے) یہ ہماری دنیا کی آگ بھی بہت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا کی آگ کے مقابلے میں جہنم کی آگ انہتر گنا بڑھ کر ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ عَطَاءً يُخْبِرُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ سورة الزخرف آية 77".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عطاء سے سنا، انہوں نے صفوان بن یعلیٰ سے خبر دی۔ انہوں نے اپنے والد کے واسطہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس طرح آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك» (اور وہ دوزخی پکاریں گے، اے مالک!)۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قِيلَ لِأُسَامَةَ لَوْ أَتَيْتَ فُلَانًا فَكَلَّمْتَهُ، قَالَ: إِنَّكُمْ لَتُرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ إِنِّي أُكَلِّمُهُ فِي السِّرِّ دُونَ أَنْ أَفْتَحَ بَابًا لَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ، وَلَا أَقُولُ لِرَجُلٍ أَنْ كَانَ عَلَيَّ أَمِيرًا إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَمَا سَمِعْتَهُ يَقُولُ: قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ، فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلَانُ مَا شَأْنُكَ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَا آتِيهِ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَآتِيهِ، رَوَاهُ غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہاسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا کہ اگر آپ فلاں صاحب (عثمان رضی اللہ عنہ) کے یہاں جا کر ان سے گفتگو کرو تو اچھا ہے (تاکہ وہ یہ فساد دبانے کی تدبیر کریں) انہوں نے کہا کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تم کو سنا کر (تمہارے سامنے ہی) بات کرتا ہوں، میں تنہائی میں ان سے گفتگو کرتا ہوں اس طرح پر کہ فساد کا دروازہ نہیں کھولتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ سب سے پہلے میں فساد کا دروازہ کھولوں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہیں کہتا کہ جو شخص میرے اوپر سردار ہو وہ سب لوگوں میں بہتر ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث سنی ہے وہ کیا ہے؟ اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ فرماتے سنا تھا کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے۔ جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب آ کر جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے، اے فلاں! آج یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کے لیے نہیں کہتے تھے، اور کیا تم برے کاموں سے ہمیں منع نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا جی ہاں، میں تمہیں تو اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا۔ برے کاموں سے تمہیں منع بھی کرتا تھا، لیکن میں اسے خود کیا کرتا تھا۔ اس حدیث کو غندر نے بھی شعبہ سے، انہوں نے اعمش سے روایت کیا ہے۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَيُقْذَفُونَ سورة الصافات آية 8 يُرْمَوْنَ دُحُورًا سورة الصافات آية 9 مَطْرُودِينَ وَاصِبٌ سورة الصافات آية 9 دَائِمٌ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَدْحُورًا سورة الأعراف آية 18 مَطْرُودًا يُقَالُ مَرِيدًا سورة النساء آية 117 مُتَمَرِّدًا بَتَّكَهُ قَطَّعَهُ وَاسْتَفْزِزْ سورة الإسراء آية 64 اسْتَخِفَّ بِخَيْلِكَ سورة الإسراء آية 64 الْفُرْسَانُ وَالرَّجْلُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ لأَحْتَنِكَنَّ سورة الإسراء آية 62 لَأَسْتَأْصِلَنَّ قَرِينٌ سورة الصافات آية 51 شَيْطَانٌ.
اور مجاہد نے کہا (سورۃ والصافات میں) لفظ «يقذفون» کا معنی پھینکے جاتے ہیں (اسی سورۃ میں) «دحورا» کے معنی دھتکارے ہوئے کے ہیں۔ اسی سورۃ میں لفظ «واصب» کا معنی ہمیشہ کا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ الاعراف میں) لفظ «مدحورا» کا معنی دھتکارا ہوا، مردود (اور سورۃ نساء میں) «مريدا» کا معنی متمرد و شریر کے ہیں۔ اسی سورۃ میں «فليبتكن» «بتك» سے نکلا ہے۔ یعنی چیرا، کاٹا۔ (سورۃ بنی اسرائیل میں) «واستفزز» کا معنی ان کو ہلکا کر دے۔ اسی سورۃ میں «خيل» کا معنی سوار اور «رجل» یعنی پیادے۔ یعنی «رجالة» اس کا مفرد «راجل» جیسے «صحب» کا مفرد «صاحب» اور «تجر» کا مفرد «تاجر» اسی سورۃ میں لفظ «لأحتنكن» کا معنی جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ سورۃ والصافات میں لفظ «قرين» کے معنی شیطان کے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ 17 اللَّيْثُ : كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ أَنَّهُ سَمِعَهُ وَوَعَاهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ، وَمَا يَفْعَلُهُ حَتَّى كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا فِيهِ شِفَائِي أَتَانِي رَجُلَانِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ: أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا وَجَعُ الرَّجُلِ، قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ، قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَ: فِيمَا ذَا، قَالَ: فِي مُشُطٍ وَمُشَاقَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ ؟، قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَخَرَجَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: "لِعَائِشَةَ حِينَ رَجَعَ نَخْلُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ، فَقُلْتُ: اسْتَخْرَجْتَهُ، فَقَالَ: لَا أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ وَخَشِيتُ أَنْ يُثِيرَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا، ثُمَّ دُفِنَتِ الْبِئْرُ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ہشام نے، انہیں ان کے والد عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے) جادو ہوا تھا۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے ہشام نے لکھا تھا، انہوں نے اپنے والد سے سنا تھا اور یاد رکھا تھا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ آپ کے ذہن میں بات ہوتی تھی کہ فلاں کام میں کر رہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کر رہے ہوتے۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی پھر دعا کی کہ اللہ پاک اس جادو کا اثر دفع کرے۔ اس کے بعد آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی ہے جس میں میری شفا مقدر ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے، ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاؤں کی طرف۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا، انہیں بیماری کیا ہے؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ انہوں نے پوچھا، جادو ان پر کس نے کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے، پوچھا کہ وہ جادو (ٹونا) رکھا کس چیز میں ہے؟ کہا کہ کنگھے میں، کتان میں اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں۔ پوچھا، اور یہ چیزیں ہیں کہاں؟ کہا بئر دوران میں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور واپس آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کی کھوپڑی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، وہ ٹونا آپ نے نکلوایا بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا کر دوں۔ اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ إِذَا هُوَ نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ مَكَانَهَا عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ، فَارْقُدْ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَإِنْ صَلَّى انْحَلَّتْ عُقَدُهُ كُلُّهَا فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید) نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے سویا ہوا ہوتا ہے، تو شیطان اس کے سر کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے خوب اچھی طرح سے اور ہر گرہ پر یہ افسون پھونک دیتا ہے کہ ابھی بہت رات باقی ہے۔ پڑا سوتا رہ۔ لیکن اگر وہ شخص جاگ کر اللہ کا ذکر شروع کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر جب نماز فجر پڑھتا ہے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو خوش مزاج خوش دل رہتا ہے۔ ورنہ بدمزاج سست رہ کر وہ دن گزارتا ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَهُ حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: "ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ أَوْ، قَالَ: فِي أُذُنِهِ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں حاضر خدمت تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا، جو رات بھر دن چڑھے تک پڑا سوتا رہا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسا شخص ہے جس کے کان یا دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَمَا إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، وَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَرُزِقَا وَلَدًا لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے منصور نے ان سے سالم بن ابی الجعد نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتا ہے اور یہ دعا پڑتا ہے «بسم الله اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا.» اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، اے اللہ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو دے (اولاد) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔ پھر اگر ان کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَبْرُزَ وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلَاةَ حَتَّى تَغِيبَ،
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا اوپر کا کنارہ نکل آئے تو نماز نہ پڑھو جب تک وہ پوری طرح ظاہر نہ ہو جائے اور جب غروب ہونے لگے تب بھی اس وقت تک کے لیے نماز چھوڑ دو جب تک بالکل غروب نہ ہو جائے۔
وَلَا تَحَيَّنُوا بِصَلَاتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوبَهَا فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ أَوِ الشَّيْطَانِ"لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَ هِشَامٌ.
اور نماز سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نہ پڑھو، کیونکہ سورج شیطان کے سر کے یا شیطانوں کے سر کے دونوں کونوں کے بیچ میں سے نکلتا ہے۔ عبدہ نے کہا میں نہیں جانتا ہشام نے شیطان کا سر کہا یا شیطانوں کا۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا مَرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَحَدِكُمْ شَيْءٌ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَمْنَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيَمْنَعْهُ، فَإِنْ أَبَى فَليُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے حمید بن بلال نے، ان سے ابوصالح نے ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے نماز پڑھنے میں کسی شخص کے سامنے سے کوئی گزرے تو اسے گزرنے سے روکے، اگر وہ نہ رکے تو پھر روکے اور اگر اب بھی نہ رکے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے۔
وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ : حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: "إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ".
اور عثمان بن ہیشم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صدقہ فطر کے غلہ کی حفاظت پر مجھے مقرر کیا، ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے غلہ لپ بھربھر کر لینے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ اب میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر انہوں نے آخر تک حدیث بیان کی، اس (چور) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹنے لگو تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ایک نگہبان مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے قریب صبح تک نہ آ سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات تو اس نے سچی کہی ہے اگرچہ وہ خود جھوٹا ہے، وہ شیطان تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ، فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا مَنْ خَلَقَ كَذَا حَتَّى، يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی، فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے، شیطانی خیال کو چھوڑ دے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي أَنَسٍ مَوْلَى التَّيْمِيِّينَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے تیمیین کے مولیٰ ابن ابی انس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ: لِابْنِ عَبَّاسٍ ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ مُوسَى، قَالَ: "لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا (نوف بکالی کہتا ہے کہ خضر کے پاس جو موسیٰ گئے تھے وہ دوسرے موسیٰ تھے) تو انہوں نے کہا کہ ہم سے ابی بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رفیق سفر (یوشع بن نون) سے فرمایا کہ ہمارا کھانا لا، اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے جب ہم نے چٹان پر پڑاؤ ڈالا تھا تو میں مچھلی وہیں بھول گیا (اور اپنے ساتھ نہ لا سکا) اور مجھے اسے یاد رکھنے سے صرف شیطان نے غافل رکھا اور موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت تک کوئی تھکن معلوم نہیں کی جب تک اس حد سے نہ گزر لیے، جہاں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ إِلَى الْمَشْرِقِ، فَقَالَ: "هَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَا هُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے تھے کہ ہاں! فتنہ اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ جَابِرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا اسْتَجْنَحَ اللَّيْلُ، أَوْ قَالَ جُنْحُ اللَّيْلِ فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ، فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ، فَإِذَا ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنَ الْعِشَاءِ فَخَلُّوهُمْ وَأَغْلِقْ بَابَكَ وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَأَطْفِئْ مِصْبَاحَكَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَأَوْكِ سِقَاءَكَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَخَمِّرْ إِنَاءَكَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَلَوْ تَعْرُضُ عَلَيْهِ شَيْئًا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کا اندھیرا شروع ہونے پر یا رات شروع ہونے پر اپنے بچوں کو اپنے پاس (گھر میں) روک لو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلنا شروع کرتے ہیں۔ پھر جب عشاء کے وقت میں سے ایک گھڑی گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو (چلیں پھریں) پھر اللہ کا نام لے کر اپنا دروازہ بند کرو، اللہ کا نام لے کر اپنا چراغ بجھا دو، پانی کے برتن اللہ کا نام لے کر ڈھک دو، اور دوسرے برتن بھی اللہ کا نام لے کر ڈھک دو (اور اگر ڈھکن نہ ہو) تو درمیان میں ہی کوئی چیز رکھ دو۔
حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا فَحَدَّثْتُهُ، ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ، فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا سُوءًا أَوْ قَالَ شَيْئًا".
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے اور ان سے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے (مسجد میں) آئی، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتی رہی، پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ ام المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان ہی میں تھا۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ (اسید بن حضیر، عبادہ بن بشیر) گزرے۔ جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیز چلنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، ذرا ٹھہر جاؤ یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا، سبحان اللہ: یا رسول اللہ! (کیا ہم بھی آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ نہ ڈال دے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لفظ «سوء» کی جگہ) لفظ «شيئا» فرمایا، معنی ایک ہی ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلَانِ يَسْتَبَّانِ فَأَحَدُهُمَا احْمَرَّ وَجْهُهُ وَانْتَفَخَتْ أَوْدَاجُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ لَوْ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ، فَقَالُوا: لَهُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَقَالَ: وَهَلْ بِي جُنُونٌ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے عدی بن ثابت نے اور ان سے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور (قریب ہی) دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے کہ ایک شخص کا منہ سرخ ہو گیا اور گردن کی رگیں پھول گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ فرمایا «أعوذ بالله من الشيطان.» میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان سے۔ تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ لوگوں نے اس پر اس سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ تمہیں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے، اس نے کہا، کیا میں کوئی دیوانہ ہوں۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنِي، فَإِنْ كَانَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ لَمْ يَضُرَّهُ الشَّيْطَانُ وَلَمْ يُسَلَّطْ عَلَيْهِ"، قَالَ: وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، مِثْلَهُ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص جب اپنی بیوی کے پاس جائے اور یہ دعا پڑھ لے۔ «اللهم جنبني الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتني.» اے اللہ! مجھے شیطان سے دور رکھ اور جو میری اولاد پیدا ہو، اسے بھی شیطان سے دو رکھ۔ پھر اس صحبت سے اگر کوئی بچہ پیدا ہو تو شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور نہ اس پر تسلط قائم کر سکے گا۔ شعبہ نے بیان کیا اور ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے سالم نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسی ہی روایت کی۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ صَلَّى صَلَاةً، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ عَرَضَ لِي فَشَدَّ عَلَيَّ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ عَلَيَّ فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ فَذَكَرَهُ".
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ شیطان میرے سامنے آ گیا تھا اور نماز تڑوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔ پھر حدیث کو تفصیل کے ساتھ آخر تک بیان کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ، فَإِذَا قُضِيَ أَقْبَلَ، فَإِذَا ثُوِّبَ بِهَا أَدْبَرَ، فَإِذَا قُضِيَ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ الْإِنْسَانِ وَقَلْبِهِ، فَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا وَكَذَا حَتَّى لَا يَدْرِيَ أَثَلَاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَإِذَا لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّى أَوْ أَرْبَعًا سَجَدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان اپنی پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے۔ پھر جب تکبیر ہونے لگتی ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور جب تکبیر ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وساوس ڈالنے لگتا ہے کہ فلاں بات یاد کر اور فلاں بات یاد کر، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ تین رکعت نماز پڑھی تھی یا چار رکعت، جب یہ یاد نہ رہے تو سہو کے دو سجدے کرے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ بَنِي آدَمَ يَطْعُنُ الشَّيْطَانُ فِي جَنْبَيْهِ بِإِصْبَعِهِ حِينَ يُولَدُ غَيْرَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَهَبَ يَطْعُنُ فَطَعَنَ فِي الْحِجَابِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان ہر انسان کی پیدائش کے وقت اپنی انگلی سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے جب انہیں وہ کچوکے لگانے گیا تو پردے پر لگا آیا تھا (جس کے اندر بچہ رہتا ہے۔ اس کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی، اللہ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کی اس حرکت سے محفوظ رکھا)۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّأْمَ، فَقُلْتُ: مَنْ هَا هُنَا، قَالُوا: أَبُو الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: أَفِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ مِنَ الشَّيْطَانِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، حَدَّثَنَا، سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، وَقَالَ: "الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي عَمَّارًا".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ میں شام پہنچا تو لوگوں نے کہا، ابودرداء آئے انہوں نے کہا، کیا تم لوگوں میں وہ شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان پر (یعنی آپ کے زمانے سے) شیطان سے بچا رکھا ہے۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے یہی حدیث، اس میں یہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا، آپ کی مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی۔
قَالَ: وَقَالَ: اللَّيْثُ ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمَلَائِكَةُ تَتَحَدَّثُ فِي الْعَنَانِ وَالْعَنَانُ الْغَمَامُ بِالْأَمْرِ يَكُونُ فِي الْأَرْضِ، فَتَسْمَعُ الشَّيَاطِينُ الْكَلِمَةَ فَتَقُرُّهَا فِي أُذُنِ الْكَاهِنِ كَمَا تُقَرُّ الْقَارُورَةُ فَيَزِيدُونَ مَعَهَا مِائَةَ كَذِبَةٍ".
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ہلال نے، ان سے ابوالاسود نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتے بادل میں آپس میں کسی امر میں جو زمین میں ہونے والا ہوتا ہے باتیں کرتے ہیں۔ «عنان» سے مراد بادل ہے۔ تو شیاطین اس میں سے کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور وہی کاہنوں کے کان میں اس طرح لا کر ڈالتے ہیں جیسے شیشے کا منہ ملا کر اس میں کچھ چھوڑتے ہیں اور وہ کاہن اس میں سو جھوٹ اپنی طرف سے ملاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "التَّثَاؤُبُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا، قَالَ: هَا ضَحِكَ الشَّيْطَانُ".
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ پس جب کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہو سکے اسے روکے۔ کیونکہ جب کوئی (جمائی لیتے ہوئے) ہاہا کرتا ہے تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ هِشَامٌ أَخْبَرَنَا، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "لَمَّا كَانَ يَوْمَ أُحُدٍ هُزِمَ الْمُشْرِكُونَ فَصَاحَ إِبْلِيسُ أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أُخْرَاكُمْ، فَرَجَعَتْ أُولَاهُمْ فَاجْتَلَدَتْ هِيَ وَأُخْرَاهُمْ فَنَظَرَ حُذَيْفَةُ فَإِذَا هُوَ بِأَبِيهِ الْيَمَانِ، فَقَالَ: أَيْ عِبَادَ اللَّهِ أَبِي أَبِي فَوَاللَّهِ مَا احْتَجَزُوا حَتَّى قَتَلُوهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: غَفَرَ اللَّهُ لَكُمْ، قَالَ: عُرْوَةُ فَمَا زَالَتْ فِي حُذَيْفَةَ مِنْهُ بَقِيَّةُ خَيْرٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ".
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہشام نے ہمیں اپنے والد عروہ سے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہا کہ احد کی لڑائی میں جب مشرکین کو شکست ہو گئی تو ابلیس نے چلا کر کہا کہ اے اللہ کے بندو! (یعنی مسلمانو) اپنے پیچھے والوں سے بچو، چنانچہ آگے کے مسلمان پیچھے کی طرف پل پڑے اور پیچھے والوں کو (جو مسلمان ہی تھے) انہوں نے مارنا شروع کر دیا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان کے والد یمان رضی اللہ عنہ بھی پیچھے تھے۔ انہوں نے بہتیرا کہا کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، یہ میرے والد ہیں۔ لیکن اللہ گواہ ہے کہ لوگوں نے جب تک انہیں قتل نہ کر لیا نہ چھوڑا۔ بعد میں حذیفہ رضی اللہ عنہ نے صرف اتنا کہا کہ خیر۔ اللہ تمہیں معاف کرے (کہ تم نے غلط فہمی سے ایک مسلمان کو مار ڈالا) عروہ نے بیان کیا کہ پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے قاتلوں کے لیے برابر مغفرت کی دعا کرتے رہے۔ تاآنکہ اللہ سے جا ملے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْتِفَاتِ الرَّجُلِ فِي الصَّلَاةِ ؟، فَقَالَ: "هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ أَحَدِكُمْ".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے، ان سے اشعث نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شیطان کی ایک اچک ہے جو وہ تم میں سے ایک کی نماز سے کچھ اچک لیتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ وَالْحُلُمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ حُلُمًا يَخَافُهُ، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ".
(دوسری سند) ہم سے ابوالمغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مثل روایت سابقہ کی حدیث بیان کی) مجھ سے سلیمان بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لیے اگر کوئی برا اور ڈراونا خواب دیکھے تو بائیں طرف تھوتھو کر کے شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔ اس عمل سے شیطان اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَالَ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ كَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَمُحِيَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ يَوْمَهُ ذَلِكَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِهِ إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوبکر کے غلام سمی نے، انہیں ابوصالح نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دن بھر میں سو مرتبہ یہ دعا پڑھے گا «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير.» نہیں ہے کوئی معبود، سوا اللہ تعالیٰ کے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے۔ اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تو اسے دس غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا۔ سو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور سو برائیاں اس سے مٹا دی جائیں گی۔ اس روز دن بھر یہ دعا شیطان سے اس کی حفاظت کرتی رہے گی۔ تاآنکہ شام ہو جائے اور کوئی شخص اس سے بہتر عمل لے کر نہ آئے گا، مگر جو اس سے بھی زیادہ یہ کلمہ پڑھ لے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید نے خبر دی، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) نے خبر دی اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں (خود آپ کی بیویاں) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ میں) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے۔ لیکن جونہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلممسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنساتا رکھے۔ یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، لیکن آپ یا رسول اللہ! زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں کے دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا اسْتَيْقَظَ أُرَاهُ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ، فَتَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلَاثًا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَبِيتُ عَلَى خَيْشُومِهِ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے عیسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص سو کر اٹھے اور پھر وضو کرے تو تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان رات بھر اس کی ناک کے نتھنے پر بیٹھا رہتا ہے (جس سے آدمی پر سستی غالب آ جاتی ہے۔ پس ناک جھاڑنے سے وہ سستی دور ہو جائے گی)۔
لِقَوْلِهِ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي إِلَى قَوْلِهِ عَمَّا يَعْمَلُونَ سورة الأنعام آية 130، بَخْسًا سورة الجن آية 13 نَقْصًا، قَالَ مُجَاهِدٌ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا سورة الصافات آية 158 قَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ الْمَلَائِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ وَأُمَّهَاتُهُنَّ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ قَالَ اللَّهُ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ سورة الصافات آية 158 سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ سورة يس آية 75 عِنْدَ الْحِسَابِ.
کیوں کہ اللہ نے (سورۃ الانعام میں) فرمایا «يا معشر الجن والإنس ألم يأتكم رسل منكم يقصون عليكم آياتي» اے جنوں اور آدمیو! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے۔ آخر تک۔ (قرآن مجید میں سورۃ الجن میں) «بخسا» بمعنی نقصان کے ہے۔ مجاہد نے کہا سورۃ الصافات میں جو یہ ہے کہ کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا (سورۃ یسین میں جو یہ ہے) «جند محضرون» یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ: "إِنِّي أَرَاك تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ وَبَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ، وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری نے اور انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیونکہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔
مَصْرِفًا مَعْدِلاً صَرَفْنَا أَيْ وَجَّهْنَا.
سورۃ الکہف میں لفظ «مصرفا» بمعنی لوٹنے کی جگہ کے ہے۔ سورۃ الجن میں لفظ «صرفنا» کا معنی متوجہ کیا، بھیج دیا۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الثُّعْبَانُ الْحَيَّةُ الذَّكَرُ مِنْهَا يُقَالُ الْحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ الْجَانُّ وَالأَفَاعِي وَالأَسَاوِدُ. آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ يُقَالُ: صَافَّاتٍ بُسُطٌ أَجْنِحَتَهُنَّ. يَقْبِضْنَ يَضْرِبْنَ بِأَجْنِحَتِهِنَّ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (قرآن مجید میں) لفظ «ثعبان» نر سانپ کے لیے آیا ہے بعض نے کہا، سانپوں کی کئی قسمیں ہوتی ہے۔ «جان» جو سفید باریک ہو، «أفاعي» ، زہر دار سانپ اور «أساود.» کالا ناگ (وغیرہ) سورۃ ھود میں «آخذ بناصيتها.» سے مراد یہ ہے کہ ہر جانور کی پیشانی تھامے ہوئے ہے۔ یعنی ہر جانور اس کی ملک اور اس کی حکومت میں ہے۔ لفظ «صافات» جو سورۃ الملک میں ہے، اس کے معنی اپنے پر پھیلائے ہوئے اور اسی سورۃ میں لفظ «يقبضن» بمعنی اپنے بازوؤں کو سمیٹے ہوئے کے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّه سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَقُولُ: "اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرَ فَإِنَّهُمَا يَطْمِسَانِ الْبَصَرَ وَيَسْتَسْقِطَانِ الْحَبَلَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ سانپوں کو مار ڈالا کرو (خصوصاً) ان کو جن کے سروں پر دو نقطے ہوتے ہیں اور دم بریدہ سانپ کو بھی، کیونکہ دونوں آنکھ کی روشنی تک ختم کر دیتے ہیں اور حمل تک گرا دیتے ہیں۔
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَيْنَا أَنَا أُطَارِدُ حَيَّةً لِأَقْتُلَهَا فَنَادَانِي أَبُو لُبَابَةَ لَا تَقْتُلْهَا، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ بِقَتْلِ الْحَيَّاتِ، قَالَ: إِنَّهُ نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ ذَوَاتِ الْبُيُوتِ وَهِيَ الْعَوَامِرُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک مرتبہ میں ایک سانپ کو مارنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھ سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ اسے نہ مارو، میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سانپوں کے مارنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سانپوں کو جو جِن ہوتے ہیں دفعتاً مار ڈالنے سے منع فرمایا۔
وَقَالَ: عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ فَرَآنِي أَبُو لُبَابَةَ أَوْ زَيْدُ بْنُ الْخَطَّابِ ، وَتَابَعَهُ يُونُسُ ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ ، وَإِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّ ، وَالزُّبَيْدِيُّ ، وَقَالَ صَالِحٌ ، وَابْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، وَابْنُ مُجَمِّعٍ : عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَآنِي أَبُو لُبَابَةَوَزَيْدُ بْنُ الْخَطَّابِ .
اور عبدالرزاق نے بھی اس حدیث کو معمر سے روایت کیا، اس میں یوں ہے کہ مجھ کو ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا یا میرے چچا زید بن خطاب نے اور معمر کے ساتھ اس حدیث کو یونس اور ابن عیینہ اور اسحاق کلبی اور زبیدہ نے بھی زہری سے روایت کیا اور صالح اور سالم سے، انہوں نے ابن ابی حفصہ اور ابن مجمع نے بھی زہری سے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس میں یوں ہے کہ مجھ کو ابولبابہ اور زید بن خطاب (دونوں) نے دیکھا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُوشِكَ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الرَّجُلِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے، اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک زمانہ آئے گا جب مسلمان کا سب سے عمدہ مال اس کی وہ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی وادیوں میں لے کر چلا جائے گا تاکہ اس طرح اپنے دین و ایمان کو فتنوں سے بچا لے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأْسُ الْكُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْفَخْرُ وَالْخُيَلَاءُ فِي أَهْلِ الْخَيْلِ، وَالْإِبِلِ وَالْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ، وَالسَّكِينَةُ فِي أَهْلِ الْغَنَمِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے خبر دی، انہیں اعرج نے خبر دی، اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کفر کی چوٹی مشرق میں ہے اور فخر اور تکبر کرنا گھوڑے والوں، اونٹ والوں اور زمینداروں میں ہوتا ہے جو (عموماً) گاؤں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور بکری والوں میں دل جمعی ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: "الْإِيمَانُ يَمَانٍ هَا هُنَا أَلَا إِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ سے قیس نے بیان کیا اور ان سے عقبہ بن عمرو ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ أَوْ أَمْسَيْتُمْ فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ فَإِذَا ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنَ اللَّيْلِ فَحَلُّوهُمْ وَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا"، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَ مَا أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ وَلَمْ يَذْكُرْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ.
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رات کا اندھیرا شروع ہو یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) جب شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو اپنے پاس روک لیا کرو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلتے ہیں۔ البتہ جب ایک گھڑی رات گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو، اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر لو، کیوں کے شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھول سکتا، ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بالکل اسی طرح حدیث سنی تھی جس طرح مجھے عطاء نے خبر دی تھی، البتہ انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ اللہ کا نام لو۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يُدْرَى مَا فَعَلَتْ وَإِنِّي لَا أُرَاهَا إِلَّا الْفَارَ إِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الْإِبِلِ لَمْ تَشْرَبْ، وَإِذَا وُضِعَ لَهَا أَلْبَانُ الشَّاءِ شَرِبَتْ فَحَدَّثْتُ كَعْبًا، فَقَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: لِي مِرَارًا، فَقُلْتُ: أَفَأَقْرَأُ التَّوْرَاةَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے، ان سے خالد نے ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں کچھ لوگ غائب ہو گئے۔ (ان کی صورتیں مسخ ہو گئیں) میرا تو یہ خیال ہے کہ انہیں چوہے کی صورت میں مسخ کر دیا گیا۔ کیونکہ چوہوں کے سامنے جب اونٹ کا دودھ رکھا جاتا ہے تو وہ اسے نہیں پیتے(کیونکہ بنی اسرائیل کے دین میں اونٹ کا گوشت حرام تھا) اور اگر بکری کا دودھ رکھا جائے تو پی جاتے ہیں۔ پھر میں نے یہ حدیث کعب احبار سے بیان کی تو انہوں نے (حیرت سے) پوچھا، کیا واقعی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سنی ہے؟ کئی مرتبہ انہوں نے یہ سوال کیا۔ اس پر میں نے کہا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی تو پھر کس سے) کیا میں توراۃ پڑھا کرتا ہوں؟ (کہ اس سے نقل کر کے بیان کرتا ہوں)۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ وَهْب ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لِلْوَزَغِ الْفُوَيْسِقُ وَلَمْ أَسْمَعْهُ أَمَرَ بِقَتْلِهِ وَزَعَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِ".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ (چھپکلی) کے متعلق فرمایا کہ وہ موذی جانور ہے لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے مار ڈالنے کا حکم نہیں سنا تھا اور سعد بن ابی وقاص بتاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّأُمَّ شَرِيكٍ أَخْبَرَتْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَهَا بِقَتْلِ الْأَوْزَاغِ".
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عبدالحمید بن جبیر بن شیبہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور انہیں ام شریک رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُ يَلْتَمِسُ الْبَصَرَ وَيُصِيبُ الْحَبَلَ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس سانپ کے سر پر دو نقطے ہوتے ہیں، انہیں مار ڈالا کرو، کیونکہ وہ اندھا بنا دیتے ہیں اور حمل کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ابواسامہ کے ساتھ اس کو حماد بن سلمہ نے بھی روایت کیا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"بِقَتْلِ الْأَبْتَرِ، وَقَالَ: إِنَّهُ يُصِيبُ الْبَصَرَ وَيُذْهِبُ الْحَبَلَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ سانپ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور حمل کو ساقط کر دیتا ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ أَبِي يُونُسَ الْقُشَيْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَقْتُلُ الْحَيَّاتِ ثُمَّ نَهَى، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدَمَ حَائِطًا لَهُ فَوَجَدَ فِيهِ سِلْخَ حَيَّةٍ، فَقَالَ: انْظُرُوا أَيْنَ هُوَ فَنَظَرُوا، فَقَالَ: اقْتُلُوهُ فَكُنْتُ أَقْتُلُهَا لِذَلِكَ.
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے ابویونس قشیری (حاتم بن ابی صغیرہ) نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سانپوں کو پہلے مار ڈالا کرتے تھے لیکن بعد میں انہیں مارنے سے خود ہی منع کرنے لگے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک دیوار گروائی تو اس میں سے ایک سانپ کی کینچلی نکلی، آپ نے فرمایا کہ دیکھو، وہ سانپ کہاں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلاش کیا (اور وہ مل گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مار ڈالو، میں بھی اسی وجہ سے سانپوں کو مار ڈالا کرتا تھا۔
فَلَقِيتُ أَبَا لُبَابَةَ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَقْتُلُوا الْجِنَّانَ إِلَّا كُلَّ أَبْتَرَ ذِي طُفْيَتَيْنِ فَإِنَّهُ يُسْقِطُ الْوَلَدَ وَيُذْهِبُ الْبَصَرَ فَاقْتُلُوهُ".
پھر میری ملاقات ایک دن ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے مجھے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پتلے یا سفید سانپوں کو نہ مارا کرو۔ البتہ دم کٹے ہوئے سانپ کو جس پر دو سفید دھاریاں ہوتی ہیں اس کو مار ڈالو، کیونکہ یہ اتنا زہریلا ہے کہ حاملہ کے حمل کو گرا دیتا ہے اور آدمی کو اندھا بنا دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقْتُلُ الْحَيَّاتِ.
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سانپوں کو مار ڈالا کرتے تھے۔
فَحَدَّثَهُ أَبُو لُبَابَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنْ قَتْلِ جِنَّانِ الْبُيُوتِ فَأَمْسَكَ عَنْهَا".
پھر ان سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کے پتلے یا سفید سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے مارنا چھوڑ دیا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْحُدَيَّا، وَالْغُرَابُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور موذی ہیں، انہیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹ لینے والا کتا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ الْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن دینار نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں اگر کوئی شخص حالت احرام میں بھی مار ڈالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بچھو، چوہا، کاٹ لینے والا کتا، کوا اور چیل۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ كَثِيرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رَفَعَهُ، قَالَ: "خَمِّرُوا الْآنِيَةَ، وَأَوْكُوا الْأَسْقِيَةَ، وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ، وَاكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ الْعِشَاءِ، فَإِنَّ لِلْجِنِّ انْتِشَارًا وَخَطْفَةً، وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ عِنْدَ الرُّقَادِ، فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا اجْتَرَّتِ الْفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَهْلَ الْبَيْتِ، قَالَ: ابْنُ جُرَيْجٍ وَحَبِيبٌ ، عَنْ عَطَاءٍ فَإِنَّ لِلشَّيَاطِينِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے کثیر نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی کے برتنوں کو ڈھک لیا کرو، مشکیزوں (کے منہ) کو باندھ لیا کرو، دروازے بند کر لیا کرو اور اپنے بچوں کو اپنے پاس جمع کر لیا کرو، کیونکہ شام ہوتے ہی جنات (روئے زمین پر) پھیلتے ہیں اور اچکتے پھرتے ہیں اور سوتے وقت چراغ بجھا لیا کرو، کیونکہ موذی جانور (چوہا) بعض اوقات جلتی بتی کو کھینچ لاتا ہے اور اس طرح سارے گھر کو جلا دیتا ہے۔ ابن جریج اور حبیب نے بھی اس کو عطاء سے روایت کیا، اس میں جنات کے بدل شیاطین مذکور ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ فَنَزَلَتْ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا فَإِنَّا لَنَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ إِذْ خَرَجَتْ حَيَّةٌ مِنْ جُحْرِهَا فَابْتَدَرْنَاهَا لِنَقْتُلَهَا فَسَبَقَتْنَا فَدَخَلَتْ جُحْرَهَا، فَقَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وُقِيَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا"وَعَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِثْلَهُ، قَالَ: وَإِنَّا لَنَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ رَطْبَةً، وَتَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، وَقَالَ حَفْصٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَسُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ ، عَنْالْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ .
ہم سے عبدہ بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی، انہیں اسرائیل نے، انہیں منصور نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (مقام منیٰ میں) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آیت «والمرسلات عرفا» نازل ہوئی، ابھی ہم آپ کی زبان مبارک سے اسے سن ہی رہے تھے کہ ایک بل میں سے ایک سانپ نکلا۔ ہم اسے مارنے کے لیے جھپٹے، لیکن وہ بھاگ گیا اور اپنے بل میں داخل ہو گیا، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس پر فرمایا تمہارے ہاتھ سے وہ اسی طرح بچ نکلا جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے اور یحییٰ نے اسرائیل سے روایت کیا ہے، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح روایت کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس سورۃ کو تازہ بتازہ سن رہے تھے اور اسرائیل کے ساتھ اس حدیث کو ابوعوانہ نے مغیرہ سے روایت کیا اور حفص بن غیاث اور ابومعاویہ اور سلیمان بن قرم نے بھی اعمش سے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدالاعلیٰ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ایک عورت ایک بلی کے سبب سے دوزخ میں گئی، اس نے بلی کو باندھ کر رکھا نہ تو اسے کھانا دیا اور نہ ہی چھوڑا کہ وہ کیڑے مکوڑے کھا کر اپنی جان بچا لیتی۔ عبدالاعلیٰ نے کہا اور ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "نَزَلَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ فَأَمَرَ بِجَهَازِهِ فَأُخْرِجَ مِنْ تَحْتِهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِبَيْتِهَا فَأُحْرِقَ بِالنَّارِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ فَهَلَّا نَمْلَةً وَاحِدَةً".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گروہ انبیاء میں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ تو انہوں نے حکم دیا، ان کا سارا سامان درخت کے تلے سے اٹھا لیا گیا۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا، فقط اسی کو جلانا تھا۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، ثُمَّ لِيَنْزِعْهُ فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَالْأُخْرَى شِفَاءً".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عتبہ بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبید بن حنین نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مکھی کسی کے پینے (یا کھانے کی چیز) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور اس کے دوسرے (پر) میں شفاء ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ الْحَسَنِ وَابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ: كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّهَا فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ".
ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق ازرق نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے حسن اور ابن سیرین نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس کی بخشش اسی (نیکی) کی وجہ سے ہو گئی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْتُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ كَمَا أَنَّكَ هَا هُنَا أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زہری سے اس حدیث کو اس طرح یاد رکھا کہ مجھ کو کوئی شک ہی نہیں، جیسے اس میں شک نہیں کہ تو اس جگہ موجود ہے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور انہیں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (رحمت کے) فرشتے ان گھروں میں نہیں داخل ہوتے جن میں کتا یا (جاندار کی) تصویر ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا يَنْقُصْ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کتا پالے، اس کے عمل نیک میں سے روزانہ ایک قیراط (ثواب) کم کر دیا جاتا ہے، کھیت کے لیے یا مویشی کے لیے جو کتے پالے جائیں وہ اس سے الگ ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ سَمِعَسُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ الشَّنَئِيَّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ، فَقَالَ: السَّائِبُ أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذِهِ الْقِبْلَةِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یزید بن خصیفہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے سائب بن یزید نے خبر دی، انہوں نے سفیان بن ابی زہیر شنوی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کوئی کتا پالا، نہ تو پالنے والے کا مقصد کھیت کی حفاظت ہے اور نہ مویشیوں کی، تو روزانہ اس کے نیک عمل میں سے ایک قیراط (ثواب) کی کمی ہو جاتی ہے۔ سائب نے پوچھا، کیا تم نے خود یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا، ہاں! اس قبلہ کے رب کی قسم (میں نے خود اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے)۔