مشکوٰة شر یف

اعتکاف کا بیان

اعتکاف کا بیان

لغوی طور پر اعتکاف کے معنی ہیں ایک جگہ ٹھہرنا اور کسی مکان میں بند رہنا اور اصطلاح شریعت میں اعتکاف کا مفہوم ہے اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کی خاطر اعتکاف کی نیت کے ساتھ کسی جماعت والی مسجد میں ٹھہرنا۔

 اعتکاف کے لیے نیت اسی مسلمان کی معتبر ہے جو عاقل ہو اور جنابت اور حیض و نفاس سے پاک و صاف ہو، رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف فرماتے تھے درمختار میں لکھا ہے کہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو سب کی طرف سے حکم ادا ہو جاتا ہے اور اس صورت میں اعتکاف نہ کرنے والوں پر کوئی ملامت نہیں۔

 اعتکاف کے لئے زبان سے نذر ماننے سے اعتکاف واجب ہو جاتا ہے خواہ فی الحال ہو جیسے کہ کوئی کہے میں اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے اوپر اتنے دنوں کا اعتکاف لازم کرتا ہوں اور خواہ معلق ہو جیسے کوئی کہے کہ میں یہ نذر مانتا ہوں کہ اگر میرا کام ہو جائے گا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا۔ گویا اعتکاف کی یہ دو قسمیں ہوئیں یعنی ایک تو سنت مؤکدہ جو رمضان کے آخری عشرہ میں ہے اور دوسرا واجب جس کا تعلق نذر سے ہے ان دو قسموں کے علاوہ تیسری قسم مستحب ہے یعنی رمضان کے آخری عشرہ کے سوا اور کسی زمانہ میں خواہ رمضان کا پہلا دوسرا عشرہ ہو یا اور کوئی مہینہ ہو اعتکاف کرنا مستحب ہے۔

 اعتکاف مستحب کے لئے اکثر زیادہ سے زیادہ مدت کوئی مقدار متعین نہیں ہے اگر کوئی شخص تمام عمر کے اعتکاف کی بھی نیت کر لے تو جائز ہے البتہ اقل(کم سے کم) مدت کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں امام محمد کے نزدیک اعتکاف مستحب کے لئے کم سے کم مدت کی بھی کوئی مقدار متعین نہیں ہے دن و رات کے کسی بھی حصہ میں ایک منٹ بلکہ اس سے بھی کم مدت کے لیے اعتکاف کی نیت کی جا سکتی ہے امام اعظم ابوحنیفہ کی ظاہر روایت بھی یہی ہے اور حنفیہ کے یہاں اسی قول پر فتویٰ ہے لہٰذا ہر مسلمان کے لئے مناسب ہے کہ وہ جب بھی مسجد میں داخل ہو خواہ نماز کے لئے یا اور کسی مقصد کے لئے تو اس طرح اعتکاف کی نیت کر لے۔ کہ میں اعتکاف کی نیت کرتا ہوں جب تک کہ مسجد میں ہوں۔

 اسی طرح بلا کسی مشقت و محنت کے دن میں کئی مرتبہ اعتکاف کی سعادت و فضیلت حاصل ہو جایا کرے گی حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک اقل مدت دن کا اکثر حصہ یعنی نصف دن سے زیادہ ہے نیز حضرت امام اعظم کا ایک اور قول یہ ہے کہ اعتکاف کی اقل مدت ایک دن ہے یہ قول حضرت امام اعظم کی مذکورہ بالا ظاہر روایت کے علاوہ ہے جس پر فتویٰ نہیں ہے۔

عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف کریں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس دنیا سے اٹھایا پھر آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات اپنے گھروں میں اعتکاف کیا کرتی تھیں اسی لئے فقہا نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسجد البیت گھر کی مسجد میں اعتکاف کریں اگر مسجد البیت نہ ہو تو مکان کے کسی حصہ کو مسجد قرار دے کر اس میں اعتکاف کریں بلا ضرورت اس حصہ سے باہر نہ نکلیں مکان کا وہ حصہ ہی ان کے حق میں مسجد کے حکم میں ہو جائے گا چنانچہ عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔

رمضان میں خیر و بھلائی میں اضافہ فرماتے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام لوگوں میں خیر و بھلائی کے معاملہ میں بہت سخی تھے اور خصوصاً رمضان میں تو بہت سخاوت کرتے تھے رمضان کی ہر شب میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے سامنے تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے چنانچہ حضرت جبرائیل سے ملاقات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سخاوت ہوا کے جھونکوں سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اجود الناس بالخیر کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مخلوق خدا کو اوروں کی بہ نسب نہت زیادہ نفع پہنچاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ بھلائی کرتے تھے خاص طور پر رمضان کے مقدس ماہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ وصف معمول سے بھی زیادہ عروج پر ہوتا تھا کیونکہ یہ ماہ  ایام برکت ہیں ان میں نیکی اور دنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ اجر و ثواب سے نوازی جاتی ہیں۔

 ہوا کے جھونکوں، سے مراد وہ ہوا ہے جو بارش اور مینہ لے کر آتی ہے اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ بارش لانے والی ہوا کا نفع عام ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے مگر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات کے وقت دوسروں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کو بھلائی کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذبہ اور آپ کا عمل اس ہوا سے بھی بڑھ جاتا تھا گویا یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بابرکت اور افضل اوقات میں نیز مقدس و نیک لوگوں کو صحبت کے وقت انسان کو خیر و بھلائی کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

 بظاہر یہ حدیث باب الاعتکاف سے متعلق نظر نہیں آتی لیکن اس باب میں اس حدیث کو اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان میں اعتکاف بھی کرتے تھے جو ایک بڑے درجہ کی نیکی ہے اور اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان میں بہت زیادہ نیکی و بھلائی کرتے تھے۔

رمضان میں حضرت جبرئیل کے ساتھ آنحضرت کا دور

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہر سال ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قرآن کریم پڑھا جاتا تھا یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام پڑھتے تھے لیکن جس سال کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے آپ کے سامنے دو مرتبہ قرآن کریم پڑھا گیا، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر سال دس دن اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال کہ آپ کا وصال ہوا آپ نے بیس دن اعتکاف کیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس سے پہلے کی حدیث سے تو یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سامنے قرآن پڑھا کرتے تھے اور یہ حدیث یہ بتا رہی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قرآن پڑھتے تھے مگر ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ ایک مرتبہ تو حضرت جبرائیل قرآن پڑھتے ہوں گے اور پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے سامنے تلاوت فرماتے ہوں گے جیسا کہ دو حافظ دور کرتے (آپس میں ایک دوسرے کو قرآن سناتے ہیں) گویا اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ دور کرنا بھی سنت ہے۔

 آپ نے اپنی زندگی کے آخری سال میں خلاف معمول دو مرتبہ قرآن کریم کا دور کیا اور بیس دن اعتکاف میں گزارے کیونکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضری کا وقت قریب تھا اور منزل شوق سامنے ! پھر وہ عشق کی ساری بے تابیان اور وصال محبوب کا شوق کچھ اور فزوں کیوں نہ ہو جاتا سچ کہا ہے کہنے والے نے

وعدہ وصل چوں شود نزدیک

آتش شوق تیز ترگردد

(محبوب سے ملاقات کا وعدہ جب پورا ہونے کو آتا ہے تو آتش شوق زیادہ سے زیادہ بھڑک اٹھتی ہے)

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس عمل میں امت کے لئے ایک لطیف انتباہ ہے کہ وہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کے آخری درجہ میں پہنچے تو نیکی و بھلائی کے راستہ پر معمول سے بھی زیادہ تیز گام ہو جائے اور اللہ رب العزت کی ملاقات اور اس کے سامنے اپنی پیشی کے لئے اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کے ذریعہ پوری پوری تیاری کرے۔

آداب و شرائط اعتکاف

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف کی حالت میں ہوتے تو مسجد میں بیٹھے بیٹھے اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بالوں میں کنگھی کر دیتی نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حاجت انسانی کے علاوہ گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر معتکف اپنا کوئی عضو مسجد سے باہر نکالے تو اس سے اعکاف باطل نہیں ہوتا نیز اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ معتکف کے لیے کنگھی کرنا جائز ہے۔

 علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر معتکف اپنے جسم کا کوئی عضو مسجد کے اندر کسی برتن میں دھوئے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس سے مسجد آلودہ نہ ہو۔

 حاجت انسانی کے ضمن میں حضرت امام اعظم کا مسلک یہ ہے کہ اگر معتکف بغیر حاجت و ضرورت کے ایک منٹ کے لئے بھی معتکف سے نکلے گا تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔

 حاجت یا ضرورت کی دو قسمیں ہیں اول طبعی جیسے پاخانہ پیشاب اور غسل جنابت یعنی احتلام ہو جانے کی صورت میں غسل کرنا۔ البتہ جمعہ کے غسل کے بارے میں کوئی صریح روایت منقول نہیں ہے مگر شرح اوراد میں لکھا ہے کہ غسل کے لئے معتکف سے باہر نکلنا جائز ہے غسل خواہ واجب ہو (جیسے غسل جنابت) یا نفل ہو (جیسے غسل جمعہ وغیرہ۔

 دوم شرعی جیسے نماز عیدین اور اذان یعنی اگر اذان کہنے کی جگہ مسجد سے باہر ہو تو وہاں جانا بھی حاجت کے ضمن میں آتا ہے ان سے اعتکاف باطل نہیں ہو گا پھر یہ کہ صحیح روایت کے بموجب اس حکم میں مؤذن اور غیر مؤذن دونوں شامل ہیں نماز جمعہ کے لئے باہر نکلنا بھی حاجت یا ضرورت کے تحت آتا ہے۔

 لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ نماز جمعہ کے لئے اپنے معتکف سے زوال آفتاب کے وقت نکلے یا اگر جامع مسجد دور ہو تو ایسے وقت نکلے کہ جامع مسجد پہنچ کر جمعہ کی نماز تحیۃ المسجد جمعہ کی سنت کے ساتھ پڑھ سکے، نماز کے بعد کی سنت پڑھنے کے جامع مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص نماز سے زیادہ وقت کے لئے جامع مسجد میں ٹھہرے گا تو اگرچہ اس کا اعتکاف باطل نہیں ہو گا مگر یہ مکروہ تنزیہی ہے اسی طرح اگر کسی معتکف کے ہاں خادم و ملازم وغیرہ نہ ہو تو کھانا کھانے یا کھانا لانے کے لئے گھر جانا بھی ضرورت میں داخل ہے۔

 اگر مسجد گرنے لگے، یا کوئی شخص زبردستی مسجد سے باہر نکالے اور معتکف اسی وقت اپنے معتکف سے نکل کر فوراً ہی کسی دوسری مسجد میں داخل ہو جائے تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہو گا استحساناً (بدائع) ایسے ہی اگر کوئی معتکف جان یا مال کے خوف سے کسی دوسری مسجد میں چلا جائے تو اس کا اعتکاف فاسد نہیں ہو گا۔

 کوئی معتکف پیشاب و پاخانہ یا اپنی کسی دوسری طبعی و شرعی ضرورت کے تحت معتکف سے باہر نکلا اور وہاں اس کو قرض خواہ مل گیا جس نے اسے ایک منٹ کے لئے بھی روک لیا تو حضرت امام اعظم کے نزدیک اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا جب کہ صاحبین حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ فاسد نہیں ہو گا۔

 کوئی شخص پانی میں ڈوب رہا ہو یا کوئی آگ میں جل رہا ہو اور معتکف اسے بچانے کے لئے باہر نکلے یا جہاد کے لئے جب کہ نفیر عام ہو اور یا گواہی و شہادت دینے کے لئے اپنا معتکف چھوڑ کر باہر آ جائے تو ان صورتوں میں اعتکاف فاسد ہو جائے گا غرضیکہ طبعی یا شرعی حاجت و ضرورت کے تحت مذکورہ بالا جو عذر بیان کیے گئے ہیں ان کے علاوہ اگر کوئی معتکف ایک منٹ کے لئے بھی باہر نکلے گا اگرچہ اس کا نکلنا سہواً ہی کیوں نہ ہو تو اس کا اعتکاف فاسد ہو جائے گا البتہ صاحبین کے ہاں اتنی آسانی ہے کہ اس کا اعتکاف اسی وقت فاسد ہو گا جب کہ وہ دن کا اکثر حصہ باہر نکلا رہے۔

 مذکورہ بالا حدیث سے ایک مسئلہ یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ معتکف کے لئے مسجد میں حجامت بنوانی جائز ہے بشرطیکہ بال وغیرہ مسجد میں نہ گریں۔

بحالت جاہلیت مانی گئی نذر کو پورا کرنے کا مسئلہ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ ایک رات (اور ایک دن جیسا کہ دوسری روایت میں وضاحت ہے) مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا (تو کیا وہ نذر پوری کرنی میرے لئے ضروری ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جاہلیت، اس حالت کو کہتے ہیں جس میں اہل عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت سے پہلے تھے بعض حضرات کہتے ہیں کہ جاہلیت سے مراد وہ حالت ہے جو اسلام کی تبلیغ عام اور اس کے ظہور سے پہلے تھی حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اور اسلام کے ظہور سے قبل عرب میں جو معاشرہ تھا اسے جاہلیت اور اس وقت جو دور تھا اسے زمانہ جاہلیت کہا جاتا ہے۔

 ارشاد گرامی اپنی نذر پوری کرو، میں یہ حکم بطور استحباب تھا اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے سے قبل نذر مانی تھی اور اگر اسلام قبول کرنے کے بعد یہ نذر مانی تھی تو پھر یہ حکم بطور وجوب تھا۔

 علامہ طیبی کے مطابق یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بحالت جاہلیت مانی گئی نذر اسلام کے احکام کے موافق ہو گی تو اسلام قبول کرنے کے بعد اس نذر کو پورا کرنا واجب ہو گا، چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ نذر صحیح ہی نہیں ہو گی چہ جائیکہ اسلام کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہو؟ امام اعظم کی دلیل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے، اس حدیث کے وہ وہی معنی مراد لیتے ہیں جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں۔

اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے روزہ شرط نہیں ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک بروایت ظاہر یہ ہے کہ نفل اعتکاف کے لئے تو روزہ شرط نہیں ہے لیکن اعتکاف واجب کے لئے واجب ہے، صاحبین کا بھی یہی قول ہے اور حنفیہ کے یہاں اسی پر فتویٰ ہے حضرت امام مالک اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام اعظم بھی یہ فرماتے ہیں کہ مطلقاً اعتکاف کے لئے روزہ شرط ہے خواہ واجب ہو یا نفل۔

 حنفیہ کی طرف سے اس حدیث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اعتکاف کے سلسلہ میں اس کے علاوہ جو اور روایتیں منقول ہیں ان میں اعتکاف کے ساتھ روزہ بھی ذکر ہے چنانچہ ابوداؤد، نسائی اور دارقطنی نے جو روایت نقل کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جاہلیت میں اپنے اوپر یہ لازم کیا کہ ایک رات اور ایک دن یا صرف ایک دن کعبہ کے اندر اعتکاف کریں گے پھر جب انہوں نے اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اعتکاف کرو اور روزہ رکھو۔ یہ تو گویا اس حدیث کا جواب تھا جہاں تک حنفیہ کی دلیل کا تعلق ہے تو ابھی آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث ولا اعتکاف الا بصوم آ رہی ہے جس سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہو جائے گی کہ اعتکاف واجب بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا، چنانچہ اگر کوئی شخص نذر مان کر صرف رات کے اعتکاف کی نیت کرے تو وہ لغو سمجھی جائے گی کیونکہ رات روزے کا محل نہیں ہے ہاں اگر کسی نے یہ نذر مانی کہ میں رمضان میں اعتکاف کروں گا تو رمضان کے روزے اعتکاف کے صحیح ہونے کے لئے کافی ہو جائیں گے اسی طرح اگر کسی شخص نے نفل روزہ رکھا اور پھر اس دن اعتکاف کی نذر کی تو یہ صحیح نہیں ہو گا۔

 اگر کسی شخص نے نذر مانی کہ فلاں رمضان میں اعتکاف کروں گا مگر اس نے اس متعین رمضان میں اعتکاف نہیں کیا تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ بطور قضا دوسرے دنوں میں اعتکاف کرے اور مستقل طور پر اعتکاف کے لئے روزے رکھے، چنانچہ یہ قضا نہ کسی دوسرے رمضان میں صحیح ہو گی اور نہ ایسے دنوں میں جس میں کوئی اور واجب روزہ رکھ رہا ہو خواہ وہ واجب روزے رمضان کے قضا روزے ہوں کسی اور طرح کے۔

 اگر کوئی شخص کئی دنوں کے اعتکاف کی نیت کرے تو ان دنوں کی راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہو جاتا ہے اسی طرح دو دنوں کے اعتکاف کی نذر ماننے سے ان کی دو راتوں کا اعتکاف بھی لازم ہو جاتا ہے لیکن حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک اس صورت میں صرف ایک رات ہی کا اعتکاف لازم ہوتا ہے۔

 اگر کوئی شخص نذر مانے کہ میں ایک مہینہ کا اعتکاف کروں گا تو اس پر ایک مہینہ کا اعتکاف علی الاتصال ہو گا، چاہے اس نے نذر مانتے وقت علی الاتصال نہ کہا ہو۔

سنت موکدہ کی قضا

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے آخری دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک سال غالباً کسی عذر کی بناء پر آپ نے اعتکاف نہیں کیا جب دوسرا سال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس رمضان میں بیس دن اعتکاف کیا (ترمذی، ابوداؤد) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 غالباً یہ حدیث اس گزشتہ روایت کی وضاحت ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی کے آخری سال میں بیس دن اعتکاف فرمایا علامہ طیبی کے مطابق یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر سنت مؤکدہ فوت ہو جائیں تو ان کی بھی قضا کی جائے جیسا کہ فرائض کی قضا کی جاتی ہے لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ تشبیہ صرف قضا کے بارے میں ہے ورنہ تو فرائض کی قضا بھی فرض ہے اور سنن مؤکدہ کی قضا سنت ہے فرض یا واجب نہیں ہے۔

اعتکاف کی ابتداء

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھتے اس کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے (ابوداؤد و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 امام اوزاعی اور امام ثوری نے اس حدیث کو اپنے مسلک کی دلیل قرار دیا ہے کہ اعتکاف کی ابتداء دن کے ابتدائی حصہ سے ہونی چاہئے جب کہ چاروں ائمہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مہینہ یا عشرہ وغیرہ کا اعتکاف کرے تو اعتکاف کی ابتداء دن کے آخر حصہ یعنی غروب آفتاب سے پہلے کرے اور اعتکاف کے آخری دن غروب آفتاب کے بعد اعتکاف سے باہر آئے اس لئے اس حدیث کی تاویل کی جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف کی نیت کے ساتھ غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں آ جاتے تھے رات بھر مسجد میں رہتے اس کے بعد جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو مسجد کے اس حصہ میں داخل ہو جاتے جو بوریے وغیرہ سے گھیر کر ایک حجرہ کی شکل میں بنا دیا جاتا تھا تاکہ لوگوں سے الگ رہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعتکاف کی ابتداء تو مغرب کے وقت ہی سے ہوتی تھی اور معتکف میں صبح کو داخل ہوتے تھے۔

اعتکاف کی حالت میں مریض کی عیادت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف کی حالت میں جب حاجت کے لیے باہر نکلتے تو مریض کی عیادت فرماتے جو مسجد سے باہر کسی جگہ ہوتا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح ہوتے ویسے ہی گزرتے اس کے پاس ٹھہرتے نہیں تھے (صرف) اس کو پوچھ لیتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح ہوتے ویسے گزرتے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس ہیئت کذائی پر ہوتے اسی طرح مریض کے پاس سے گزر جاتے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی اور طرف میلان کرتے تھے اور نہ ٹھہرتے تھے بلکہ سیدھے پوچھتے ہوئے چلے جاتے تھے۔

 لفظ فلا یعرج ما قبل کے اجمال کی وضاحت ہے چنانچہ اس لفظ کے معنی یہ ہیں کہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مریض کے پاس ٹھہرتے اور نہ اپنے راستہ سے ہٹ کر کسی اور طرف متوجہ ہوتے۔ اسی طرح لفظ یسال بطریق استیناف بیان ہے لفظ یعود کا۔

 حسن اور نخعی رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ نماز جمعہ اور کسی مریض کی عیادت کے لئے معتکف سے نکلنا جائز ہے مگر چاروں ائمہ کے یہاں اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی طبعی یا شرعی ضرورت کے لیے باہر نکلے اور اس درمیان میں خواہ ضرورت رفع ہونے سے پہلے یا اس کے بعد کسی مریض کی عیادت کرے یا نماز جنازہ میں شریک ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ ان امور کے وقت نہ تو اپنے راستہ سے جدا ہو اور نہ نماز سے زیادہ ٹھہرے، اگر ان امور کے لئے اپنا راستہ چھوڑ دے گا یا نماز سے زیادہ ٹھہرے گا تو اعتکاف باطل ہو جائے گا۔

 اسی طرح بطور خاص صرف عیادت کے لیے یا نماز جنازہ کے لئے اپنے معتکف سے باہر نکلے گا تو اعتکاف ختم ہو جائے گا ہاں اگر کسی شخص نے اعتکاف کی نذر کو اس الزام کے ساتھ مشروط کیا ہو کہ میں اعتکاف کی حالت میں مریض کی عیادت، نماز جنازہ میں شرکت اور مجلس وعظ و نصیحت میں حاضری کے لیے اپنے معتکف سے نکلا کروں گا تو یہ جائز ہو گا۔

اعتکاف کے آداب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لیے یہ سنت (یعنی ضروری) ہے کہ وہ نہ تو (بالقصد اور ٹھہر کر) مریض کی عیادت کرے اور نہ مسجد سے باہر مطلقاً نماز جنازہ میں شریک ہو نیز نہ عورت سے صحبت کرے نہ عورت سے مباشرت کرے اور نہ علاوہ ضروریات کے مثلاً پیشاب و پاخانہ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے باہر نکلے اور روزہ اعتکاف کے لیے ضرور ہے اور اعتکاف مسجد جامع ہی میں صحیح ہوتا ہے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مباشرت سے وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کا ذریعہ اور باعث بنتی ہیں جیسے بوسہ لینا بدن سے لپٹانا اور اسی قسم کی دوسری حرکات لہٰذا ہم بستری اور مباشرت معتکف کے لیے حرام ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ہم بستری سے اعتکاف باطل بھی ہو جاتا ہے خواہ عمداً کی جائے یا سہواً اور خواہ دن میں ہو یا رات میں، جب کہ مباشرت سے اعتکاف اسی وقت باطل ہو گا جب کہ انزال ہو جائے گا اگر انزال نہیں ہو گا تو اعتکاف باطل نہیں ہو گا۔

معتکف کے لئے مسجد میں کھانا پینا اور سونا جائز ہے اسی طرح خرید و فروخت بھی جائز ہے بشرطیکہ اشیاء خرید و فروخت مسجد میں نہ لائی جائیں کیونکہ اشیاء خرید و فروخت کو مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے نیز یہ کہ معتکف خرید و فروخت صرف اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال کی ضرورت کے لئے کرے گا تو جائز ہو گا اور اگر تجارت وغیرہ کے لئے کرے گا تو جائز نہیں ہو گا یہ بات ذہن نشین رہے کہ مسجد میں خرید و فروخت غیر معتکف کے لئے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے حالت اعتکاف میں بالکل چپ بیٹھنا بھی مکروہ تحریمی ہے جب کہ معتکف مکمل خاموشی کو عبادت جانے ہاں بری باتیں زبان سے نہ نکالے جھوٹ نہ بولے غیبت نہ کرے بلکہ قرآن مجید کی تلاوت نیک کام، حدیث و تفسیر اور انبیاء صالحین کے سوانح پر مشتمل کتابیں یا دوسرے دینی لٹریچر کے مطالعہ، خدا تعالیٰ کے ذکر یا کسی دینی علم کے پڑھنے پڑھانے اور تصنیف و تالیف میں اپنے اوقات صرف کر دے۔

 حاصل یہ ہے کہ چپ بیٹھنا کوئی عبادت نہیں ہے مباح کلام و گفتگو بھی بلا ضرورت مکروہ ہے اور اگر ضرورت کے تحت ہو تو وہ خیر میں داخل ہے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ مسجد میں بے ضرورت کلام کرنا حسنات کو اس طرح کھا جاتا ہے (یعنی نیست و نابود کر دیتا ہے) جیسے آگ خشک لکڑیوں کو۔

 حدیث کے الفاظ اعتکاف کے لئے روزہ ضروری ہے، یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوئی کہ اعتکاف بغیر روزہ کے صحیح نہیں ہوتا چنانچہ اس بارے میں حنفیہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے، مسجد جامع سے مراد وہ مسجد ہے جس میں لوگ با جماعت نماز پڑھتے ہوں چنانچہ حضرت امام اعظم سے منقول ہے کہ اعتکاف اسی مسجد میں صحیح ہوتا ہے جس میں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت سے پڑھی جاتی ہوں، امام احمد کا بھی یہی قول ہے حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور صاحبین کے نزدیک ہر مسجد میں اعتکاف درست ہے اگر مسجد جامع سے جمعہ مسجد مراد لی جائے تو پھر اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ اعتکاف جمعہ مسجد میں افضل ہے چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ افضل اعتکاف وہ ہے جو مسجد حرام میں ہو پھر وہ مسجد نبوی میں ہو پھر وہ مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں ہو پھر وہ جامع مسجد میں ہو پھر وہ جو اس مسجد میں ہو جس میں نمازی بہت ہوں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معتکَف

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اعتکاف فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے مسجد نبوی میں ستون توبہ کے آگے یا پیچھے آپ کا بچھونا بچھایا جاتا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چارپائی رکھ دی جاتی تھی۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مسجد نبوی کے ستونوں میں سے ایک ستون کا نام ہے ستون توبہ اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک صحابی حضرت ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک تقصیر ہو گئی تھی جس کی بناء پر انہوں نے اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ دیا اور کئی دن تک اسی طرح بندھے رہے اس کے بعد جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس ستون سے کھولا۔

معتکف کے لئے اجر

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ وہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیوں کا سلسلہ تمام نیکی کرنے والوں کی مانند جاری رہتا ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 گناہوں سے محفوظ رہتا ہے، یعنی جو شخص اعلی اور نیک مقاصد (مثلاً اعتکاف کی نیت) کے لئے مسجد میں ٹھہرا رہتا ہے اس کی شان یہ ہے کہ وہ اکثر گناہوں سے محفوظ رہتا ہے۔ لفظ یجری راء مہملہ کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ صیغہ معروف ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اعتکاف کی حالت میں ہوتا ہے اور وہ اس اعتکاف کی وجہ سے جن نیک اعمال مثلاً عبادت اور نماز جنازہ وغیرہ سے باز رہتا ہے تو اس کے لیے ان نیک اعمال کے ثواب کا سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے جس طرح ان نیکیوں کے کرنے والوں کے لئے۔ اور مشکوٰۃ کے ایک صحیح نسخہ میں یہ لفظ راء معجمہ کے ساتھ بصیغہ معروف یعنی یجری منقول ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اعتکاف کرنے والا اپنے اعتکاف کی وجہ سے جن نیک اعمال مثلاً عیادت مریض، نماز جنازہ کے ساتھ جانا مسلمانوں کے ساتھ ملاقات نیک معاملات یا اسی قسم کے دوسرے امور تو اسے ان نیک اعمال کا اسی طرح ثواب دیا جاتا ہے جس طرح ان اعمال کے کرنے والوں کو۔ بہر کیف صرف الفاظ کا فرق ہے ورنہ تو جہاں تک معنی کا تعلق ہے مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ اعتکاف کے فوائد و برکات یہ ہیں کہ معتکف کا دل امور دنیا کی غلاظت سے پاک رہتا ہے۔ وہ اپنا نفس اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے مسلسل عبادت اور خانہ خدا میں رہتا ہے اللہ کا قرب اسے بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے اور رحمت الٰہی اس پر نازل ہوتی رہتی ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قلعہ اور اس کی پناہ میں رہتا ہے کہ شیطان کے مکر و فریب سے بچا رہتا ہے۔

 معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بادشاہ کے دروازے پر پڑ جائے اور اپنی درخواست و حاجت پیش کرتا رہے اسی طرح معتکف بھی گویا زبان حال سے کہتا ہے کہ اے میرے مولیٰ، اے میرے پروردگار! میں تیرے دروازے پر پڑا رہوں گا یہاں سے اس وقت تک ٹلوں گا نہیں جب تک کہ تو میری بخشش نہیں کرے گا میرے مقاصد پورے نہیں کرے گا اور میرے دینی و دنیاوی غم و آلام دور نہیں کرے گا۔