لغت کے اعتبار سے حج کے معنی ہیں کسی با عظمت چیز کی طرف جانے کا قصد کرنا اور اصطلاح شریعت میں کعبہ مکرمہ کا طواف اور مقام عرفات میں قیام انہیں خاص طریقوں سے جو شارع نے بتائے ہیں اور اسی خاص زمانے میں جو شریعت سے منقول ہے، حج کہلاتا ہے۔
حج دین کے ان پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک عظیم القدر ستون ہے جن پر اسلم کے عقائد و اعمال کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے حج کا ضروری ہونا (جس کو اصطلاح فقہ میں فرض کہا جاتا ہے) قرآن مجید سے اسی طرح صراحت کے ساتھ ثابت ہے جس طرح زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔
فرضیت حج کی سعادت عظمی ہمارے آقا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کے ساتھ مختص ہے گو کہنے کو تو حج کا رواج حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے ہے مگر اس وقت اس کی فرضیت کا حکم نہ تھا۔ چنانچہ صحیح مسلک یہی ہے کہ حج صرف امت محمدیہ پر فرض ہوا ہے۔
حج کب فرض ہوا؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کچھ حضرات کہتے ہیں سن ٥ھجری میں فرض ہوا، اکثر علما سن ٦ھجری میں فرضیت کے قائل ہیں لیکن زیادہ صحیح قول ان علماء کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حج سن ٩ھ کے آخر میں فرض ہوا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا آیت (وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا)۔ یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج (ضروری) ہے اور یہ اس شخص پر جو وہاں تک جا سکے۔
چونکہ یہ حکم سال کے آخر میں نازل ہوا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو فعال حج کی تعلیم میں مشغولیت اور آئندہ سال کے لئے سفر حج کے اسباب کی تیاری میں مصروفیت کی وجہ سے خود حج کے لئے تشریف نہیں لے جا سکے، بلکہ اس سال یعنی سن ٩ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاجیوں کا امیر مقرر فرما کر مکہ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کو حج کرا دیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود سال آئندہ یعنی سن ١٠ھ میں اس حکم الٰہی کی تعمیل میں حج کے لئے تشریف لے گئے یہ عجیب اتفاق ہے کہ فرضیت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی پہلا حج کیا جو آخری حج بھی ثابت ہوا۔ چنانچہ یہی حج حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے اسی حج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ عالمتاب اور وجود پر نور نے اس دنیا سے پردہ کیا۔
حج عمر میں ایک بار فرض ہے جب کہ وہ تمام شرائط پائی جائیں جن سے حج فرض ہوتا ہے ان شرائط کے پائے جانے کے باوجود جو شخص حج نہ کرے وہ فاسق و گنہگار ہے اور جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
صحیح یہ ہے کہ جب حج کے شرائط پائے جائیں تو فی الفور حج کرنا فرض ہے۔ دوسرے سال تک اس میں تاخیر کرنا گناہ ہے۔ حج ہے اس شخص پر جو میقات کے اندر بغیر احرام باندھے چلا جائے اور اس کے بعد حج کا احرام باندھے اسی طرح اس شخص پر حج فرض ہے جس نے حج کی نذر کی ہو۔
ناجائز مال سے حج کرنا حرام ہے اور مکروہ تحریمی ہے اس شخص کے لئے جو ان لوگوں کو کی اجازت کے بغیر حج کرے جن سے اجازت لینا ضروری ہے اس شخص کے لئے بھی حج مکروہ تحریمی ہے جو ان لوگوں کے نفقہ کا انتظام کئے بغیر حج کرے جن کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے۔
حج ان شرائط کے پائے جانے کے بعد فرض ہوتا ہے۔ (١) مسلمان ہونا، کافر پر حج فرض نہیں ہے (٢) آزاد ہونا، لونڈی غلام پر حج فرض نہیں ہے۔ (٣) عاقل ہونا، مجنون، مست اور بے ہوش پر حج فرض نہیں۔ (٤) بالغ ہونا، نابالغ بچوں پر حج فرض نہیں۔ (٥) صحت مند و تندرست ہونا، بیمار، اندھے، لنگڑے، اپاہج پر حج فرض نہیں (٦) قادر ہونا یعنی اس قدر مال کا مالک ہونا جو ضرورت اصلیہ اور قرض سے زائد ہو اور اس کے زاد راہ اور سواری کے کرایہ و خرچ کے لئے کافی ہو جائے نیز جن لوگوں کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے ان کے لئے بھی اس میں سے اس قدر چھوڑ جائے جو اس کی واپسی تک ان لوگوں کو کفایت کر سکے۔ (٧) راستے میں امن ہونا، اس بارے میں اکثر کا اعتبار ہے یعنی اگر اکثر لوگ امن و امان سے پہنچ جاتے ہوں تو حج فرض ہو گا، مثلاً اگر اکثر لوگ راستے میں ڈاکہ زنی وغیرہ سے لٹ جاتے ہوں یا کوئی ایسا دریا اور سمندر حائل ہو جس میں بکثرت جہاز ڈوب جاتے ہوں اور اکثر ہلاک ہو جاتے ہوں یا راستے میں اور کسی قسم کا خوف ہو تو ایسی حالت میں حج فرض نہیں ہو گا، ہاں اگر یہ حادثات کبھی کبھی اتفاقی طور پر ہو جاتے ہیں تو پھر حج کی فرضیت ساقط نہیں ہو گی (٨) عورت کے لئے ہمراہی میں شوہر یا کسی اور محرم کا موجود ہونا جب کہ اس کے یہاں سے مکہ کی دوری بقدر مسافت سفر یعنی تین دن کی ہو۔ اگر شوہر یا محرم ہمراہی میں نہ ہوں۔ تو پھر عورت کے لئے سفر حج اختیار کرنا جائز نہیں ہے اور محرم کا عاقل بالغ ہونا اور مجوسی و فاسق نہ ہونا بھی شرط ہے۔ محرم کا نفقہ اس عورت پر ہو گا جو اپنے اپنے ساتھ حج میں لے جائے گی۔ نیز جس عورت پر حج فرض ہو وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر بھی محرم کے ساتھ حج کے لئے جا سکتی ہے۔
اگر کوئی نابالغ لڑکا یا غلام احرام باندھنے کے بعد بالغ ہو جائے یا آزاد ہو جائے اور پھر وہ حج پورا کرے تو اس صورت میں فرض ادا نہیں ہو گا! ہاں اگر لڑکا فرض حج کے لئے از سر نو احرام باندھے گا تو صحیح ہو جائے گا۔ لیکن غلام کا احرام فرض حج کے لئے اس صورت میں بھی درست نہیں ہو گا۔
حج میں پانچ چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام، یہ حج کے لئے شرط بھی ہے اور رکن یعنی فرض بھی ہے۔ (٢) وقوف عرفات یعنی عرفات میں ٹھہرنا خواہ ایک ہی منٹ کے بقدر ہو اور خواہ دن میں ہو یا رات میں (٣) طواف الزیارۃ اس کو طواف الافاضہ اور طواف الرکن بھی کہتے ہیں (٤) مذکورہ بالا فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف اور وقوف کو طواف زیارت پر مقدم کرنا (٥) ہر فرض کو اسی مکان مخصوص میں ادا کرنا یعنی وقوف کا خاص عرفات میں اور طواف کا حاصل مسجد حرام کعبہ مکرمہ کے گرد ہونا اور ہر فرض کا اسی خاص وقت میں ادا کرنا جو شریعت سے اس کے لئے مقرر ہے یعنی وقوف کا نویں ذی الحجہ کی ظہر کے وقت سے دسویں تاریخ کی فجر سے پہلے تک ادا کرنا اور طواف کا اس کے بعد ادا کرنا۔
حج میں یہ چیزیں واجب ہیں۔ (١) وقوف مزدلفہ (٢) صفا اور مروہ کے درمیان سعی (٣) رمی جمار (٤) آفاقی یعنی غیر مکی کے لئے طواف قدوم (٥) حلق یا تقصیر یعنی بال منڈوانا یا کترانا (٦) اور ہر وہ چیز جس کو ترک کر دینے پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو جاتا ہو۔ ان فرائض و واجبات کے علاوہ اور بہت سی چیزیں جو حج کے سنن و آداب کے تحت آتی ہیں وہ آئندہ صفحات میں موقع بموقع بیان ہوں گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا تم حج کرو یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم ہر سال حج کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے یہاں تک کہ اس شخص نے تین مرتبہ یہی بات کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر میں ہاں کہہ دیتا ہوں تو یقیناً حج ہر سال کے لئے فرض ہو جاتا اور تم ہر سال حج کرنے پر قادر نہیں ہو سکتے تھے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک میں تمہیں چھوڑوں تم مجھے چھوڑ دو (یعنی جو کچھ میں نہ کہا کروں مجھ سے مت پوچھا کرو) کیونکہ جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں یعنی یہود و نصاریٰ وہ اسی سبب سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے انبیاء سے پوچھتے اور ان سے اختلاف کرتے تھے (جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں منقول ہے) لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو اور جب میں تمہیں کسی بات سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔ (مسلم)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے جب حج کی فرضیت کا فرمان نازل فرمایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو امت کے اوپر نافذ کرنے کے لئے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حج کریں چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کے سامنے حج کی فرضیت بیان فرما رہے تھے اور انہیں حج کرنے کا حکم دے رہے تھے تو ایک صحابی جن کا نام اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ تھا پوچھ بیٹھے کہ حج ہر سال کیا جائے گا؟وہ یہ سمجھے کہ جس طرح دیگر عبادتیں یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ بار بار ادا کی جاتی ہیں اسی طرح یہ حج بھی مکرر ہی ہو گا اسی لئے انہوں نے یہ سوال کیا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بات ناگوار ہوئی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے تو تنبیہا سکوت اختیار فرمایا اور کوئی جواب نہیں دیا۔ جب انہوں نے کئی بار پوچھا تو آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا کہ اگر میں اس سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیتا تو یقیناً ہر سال حج کرنا فرض ہو جاتا کیونکہ میں یہ جواب اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب دیتا بغیر اس کے حکم سے میری زبان سے کوئی تشریعی بات نہیں نکلتی، اور اگر ہر سال حج فرض ہو جاتا تو تم میں اتنی طاقت نہ ہوتی کہ ہر سال اس کی ادائیگی پر قادر نہ ہوتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متنبہ فرمایا کہ کسی بھی دینی حکم کو مجھ پر چھوڑ دو، جب میں کسی فعل کا حکم دوں تو مجھ سے یہ نہ پوچھوں کہ یہ فعل کتنا ہے اور کیسا ہے جب تک میں خود یہ بیان نہ کروں کہ یہ فعل کتنا کیا جائے اور کس طرح کیا جائے۔ میں جس طرح کہوں تم اسی طرح ادا کرو۔ اگر کسی فعل کے بارے میں بلا قید و تعین اعداد کے مطلق حکم کروں تو اس حکم کی اسی طرح بجا آوری کرو اور اگر یہ بیان کروں کہ اس فعل کو اتنی بار اور اس طرح کرو تو اسے اتنی ہی بار اور اسی طرح کرو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میں دنیا میں اسی لئے آیا ہوں کہ تم تک اسلام کے احکام پوری وضاحت کے ساتھ پہنچا دوں اور شریعت کو بیان کر دوں جو بات جس طرح ہوتی ہے اسے اسی طرح بیان کر دیتا ہوں۔ تمہارے سوال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احکام کی بجا آوری کے سلسلے میں تائید و مبالغہ کے طور پر فرمایا کہ فاتوا منہ مااستطعتم (اس میں سے جو کچھ تم کرنے کی طاقت رکھتے ہو کرو) یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے احکام پر عمل کرنے کی تم جتنی بھی طاقت رکھتے ہو اس کے مطابق عمل کرو یا پھر یہ کہ اس جملے کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رفع حرج پر اشارہ فرمایا کہ مثلاً نماز کے بعض شرائط و ارکان ادائیگی سے تم اگر عاجز ہو تو جس قدر ہو سکے اسی قدر کرو، جو تم سے نہ ہو سکے اسے چھوڑ دو جیسے اگر تم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکو تو بیٹھ کر نماز پڑھو، اگر بیٹھ کر پڑھنے سے بھی عاجز ہو تو لیٹے ہی لیٹے پڑھو مگر پڑھو ضرور، اسی پر دوسرے احکام و اعمال کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل ؟ فرمایا، خدا کی راہ میں جہاد کرنا، پوچھا گیا کہ پھر کون سا، فرمایا حج مقبول۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
افضل اعمال کے سلسلے میں سب سے بہتر عمل کون سا ہے۔ مختلف احادیث منقول ہیں کسی حدیث میں کسی عمل کو افضل فرمایا گیا ہے اور کسی میں کسی کو، ان سب میں مطابقت و موافقت یوں پیدا کی جاتی ہے کہ یہ اختلاف بیان سائلین کے اقوال، حیثیات اور مقامات کے فرق و تفاوت کی بناء پر ہے، اس حدیث کو تفصیل کے ساتھ کتاب الصلوٰۃ میں بھی ایک موقع پر بیان کیا جا چکا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ کے لئے حج کرے اور حج کے دوران نہ ہم بستری اپنی عورت سے کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تو وہ اس طرح بے گناہ ہو کر واپس آتا ہے جیسے اس دن بے گناہ تھا کہ جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو شخص اللہ کے لئے حج کرے کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اور صرف اس کے حکم کی بجا آوری کے لئے حج کرے، دکھانے، سنانے کا جذبہ یا غرض و مقصد پیش نظر نہ ہو۔ اس سلسلے میں اتنی بات ضرور جان لینی چاہئے کہ جو شخص حج اور تجارت یا مال وغیرہ لانے، دونوں کے قصد سے حج کے لئے جائے گا تو اسے ثواب کم ملے گا بہ نسبت اس شخص کے جو صرف حج کے لئے جائے گا کہ اسے ثواب زیادہ ملے گا۔
رفث کے معنی ہیں جماع کرنا، فحش گوئی میں مبتلا ہونا اور عورتوں کے ساتھ ایسی باتیں کرنا جو جماع کا داعیہ اور اس کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
اور نہ فسق میں مبتلا ہو کا مطلب یہ ہے کہ حج کے دوران گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہ کرے اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرے۔ یہ ذہن میں رہے کہ گناہوں سے توبہ نہ کرنا بھی کبیرہ گناہوں ہی میں شمار ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی سے واضح ہوتا ہے آیت (ومن لم یتب فاولئک ہم الظالمون)۔ اور جس نے توبہ نہیں کی تو یہی وہ ہیں جو اپنے حق میں ظالم ہیں۔
حاصل یہ کہ جو شخص خالصۃً للہ حج کرے اور اس حج کے دوران جماع اور فحش گوئی میں مبتلا نہ ہو اور نہ گناہ کی دوسری چیزوں کو اختیار کرے تو گناہ سے ایسا ہی پاک و صاف ہو کر حج سے واپس آتا ہے جیسا کہ گناہوں سے پاک و صاف ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان صغیرہ گناہوں کے لئے جو ان دونوں عمروں کے درمیان ہوں اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے ثواب کے برابر ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سفر حج کے دوران روحاء میں جو مدینہ سے ٣٦ کوس کے فاصلے پر ایک جگہ کا نام تھا ایک قافلے سے ملے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ تم کون قوم ہو؟ قافلے والوں نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں پھر قافلے والوں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ہوں یہ سن کر ایک عورت نے ایک لڑکے کو ہاتھ میں لے کر کجاوے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف پکڑ کر بلند کیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دکھلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ کیا اس کے لئے حج کا ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں! اور تمہارے لئے بھی ثواب ہے۔ (مسلم)
تشریح
عورت کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاں کا مطلب یہ تھا کہ لڑکا اگرچہ نابالغ ہے اور اس پر حج فرض نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ حج میں جائے گا تو اسے نفلی حج کا ثواب ملے گا اور چونکہ تم اس بچے کو افعال حج سکھلاؤ گی، اس کی خبر گیری کرو گی اور پھر یہ کہ تم ہی اس کے حج کا باعث بنو گی اس لئے تمہیں بھی ثواب ملے گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہو گا اگر بالغ ہونے کے بعد فرضیت حج کے شرائط پائے جائیں گے تو اسے دوبارہ پھر کرنا ہو گا، اسی طرح اگر غلام حج کرے تو اس کے ذمہ سے بھی فرض ساقط نہیں ہوتا، آزاد ہونے کے بعد فرضیت حج کے شرائط پائے جانے کی صورت میں اس کے لئے دوبارہ حج کرنا ضروری ہو گا۔ ان کے برخلاف اگر کوئی مفلس حج کرے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا۔ مال دار ہونے کے بعد اس پر دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہو گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کے ایک فریضہ نے جو اس کے بندوں پر ہے میرے باپ کو بڑا بوڑھا پایا ہے یا جو سواری پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں ! اس کی طرف سے حج کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اس عورت کے درمیان یہ سوال جواب حجۃ الوداع میں ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس عورت کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میرے باپ پر بڑھاپے میں حج فرض ہوا ہے۔ بایں سبب کہ وہ بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے اور اس کے پاس اتنا مال ہے کہ جس کی وجہ سے اس پر حج فرض ہو جاتا ہے یا یہ کہ اب بڑھاپے میں اس کو اتنا مال مل گیا ہے کہ اس پر حج فرض ہو گیا ہے مگر وہ اتنا ضعیف اور کمزور ہے کہ ارکان و افعال حج کی ادائیگی تو الگ ہے وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو کیا میں اس کی طرف سے نیابتہً حج کر لوں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاں! اس کی طرف سے تم حج کر لو۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص پر اگر حج فرض ہو اور وہ بذات خود حج کرنے سے معذور ہو نیز یہ کہ اس کی وہ معذوری ایسی ہو جو موت تک زائل نہ ہونے والی ہو۔ جیسے بڑھاپے کا ضعف، نابینا ہونا، یا پیروں کا کٹا ہونا وغیرہ تو اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کر لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ معذور اپنی طرف سے حج کرنے والے کو حج کے اخراجات بھی دے اور اسے اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم بھی دے۔ نیز اس کی موت کے بعد بھی اس کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا حج کرنا جائز ہے جب کہ وہ اس کی وصیت کر کے مرا ہو۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ اولاد اگر اپنے والدین کی طرف سے فرض حج کرے تو اس صورت میں حکم اور وصیت شرط نہیں ہے یعنی والدین کی طرف سے حج کرنا۔ بغیر حکم اور بغیر وصیت کے بھی جائز ہے، یہ تو فرض حج کی بات تھی نفل حج کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے کسی دوسرے سے نفل حج کرائے۔ تو معذوری شرط نہیں ہے۔ یعنی اگر بذات خود اسے حج کرنے کی قدرت و طاقت حاصل ہے تو اس کے باوجود وہ کسی دوسرے سے اپنا نفل حج کرا سکتا ہے۔
مذکورہ بالا مسئلہ کو ذہن میں رکھ کر حدیث کی طرف آئیے۔ عورت اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھ رہی ہے۔ لیکن وہ چونکہ وضاحت نہیں کر رہی ہے اس لئے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے نہ تو اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ اسے اخراجات دئیے ہیں۔ گویا اس طرح حدیث کے ظاہری مفہوم اور مذکورہ بالا اس فقہی روایت میں کہ جس کی طرف سے حج کیا جائے اس کا حکم اور اس کی طرف سے اخراجات کی ادائیگی حج کے صحیح ہونے کی شرط ہے، تضاد نظر آتا ہے، لہٰذا اس تضاد کو اس تاویل کے ذریعے ختم کیا جائے گا کہ اس عورت کے باپ نے اس کو اپنی طرف سے حج کرنے کی اجازت بھی دی ہو گی اور اسے اخراجات بھی دئیے ہوں گے مگر اس نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
اس تاویل کی بنیاد حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی وہ تقریر ہے کہ انہوں نے حضرت ابورزین کی روایت کی وضاحت کے ضمن میں بیان کی ہے یہ روایت اسی باب کی دوسری فصل میں آئے گی۔ بعض علماء کے قول کہ والدین کی طرف سے حج کرنا بغیر حکم و وصیت کے بھی جائز ہے۔ کے پیش منظر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو یہ حدیث اس فقہی روایت کی دلیل بن جائے گی۔
٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی مگر وہ مر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کے ذمہ اگر کوئی مطالب (مثلاً قرض وغیرہ) ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ اس نے کہا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پھر اللہ کا مطالبہ (یعنی حج نذر) ادا کرو کیونکہ اس کا ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کی بہن کے ورثہ میں کچھ مال ملا ہو گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حق اللہ کو حق العباد پر قیاس فرماتے ہوئے اس کو بہن کا حج نذر کرنے کا حکم دیا۔
مسئلہ وارث کے لئے جائز ہے کہ وہ مورث کی طرف سے اس کی اجازت و وصیت کے بغیر بھی حج کر سکتا ہے، یا اس کی طرف سے خود حج کر سکتا ہے۔ لیکن دوسروں کے لئے اجازت و وصیت شرط ہے کہ اس کے بغیر حج درست نہ ہو گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے (یعنی اجنبی مرد و عورت کسی جگہ تنہا جمع نہ ہوں) اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! فلاں غزوہ میں میرا نام لکھا جا چکا ہے (یعنی فلاں جہاد جو درپیش ہے اور وہاں جو لشکر جانے والا ہے اس میں میرا نام بھی لکھا جا چکا ہے کہ میں بھی لشکر کے ہمراہ جاؤں) اور حالانکہ میری بیوی نے سفر حج کا ارادہ کر لیا ہے؟ تو کیا کروں؟ آیا جہاد کو جاؤں اور بیوی کو اکیلا حج کے لئے جانے دوں یا بیوی کے ساتھ جاؤں اور جہاد میں نہ جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (کیونکہ جہاد میں جانے والے تو بہت ہیں لیکن تمہاری بیوی کے ساتھ جانے والا تمہارے علاوہ اور کوئی محرم نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اجنبی عورت و مرد کے لئے حرام ہے کہ وہ تنہائی میں یک جا ہوں۔ اسی طرح عورت کو بقدر مسافت سفر (یعنی ٤٨ میل یا ٧٨ کلو میٹر) یا اس سے زائد مسافت میں خاوند یا محرم کے بغیر سفر کرنا حرام ہے حتی کہ سفر حج میں بھی عورت کے لئے اس کے خاوند یا کسی محرم کا ساتھ ہونا وجوب حج کے لئے شرط ہے یعنی عورت پر حج اسی وقت فرض ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتھ خاوند یا محرم ہو۔
محرم اصطلاح شریعت میں اس کو کہتے ہیں جس کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہو خواہ قرابت کے لحاظ سے ہو یا دودھ کے رشتے سے یا سسرال کے ناتے سے، نیز محرم کا عاقل و بالغ ہونا اور مجوسی و فاسق نہ ہونا بھی شرط ہے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جہاد میں جانے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے۔ (یعنی تم عورتوں پر جہاد واجب نہیں ہے اس کی بجائے حج بشرطیکہ نفل حج کرنے کی استطاعت ہو۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ کوئی عورت ایک دن و ایک رات کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے علاوہ یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس موقع پر حدیث اور فقہی روایت کا تضاد سامنے آ سکتا ہے وہ یوں کہ ہدایہ میں جو فقہ حنفی کی مشہور تین کتاب ہے لکھا ہے کہ عورتوں کو بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر مباح ہے جس کی مسافت حد سفر سے (کہ وہ تین منزل یعنی ٤٨ میل سے کم ہو) لیکن یہاں حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عورت بغیر خاوند یا محرم کسی ایسی جگہ کا سفر بھی نہیں کر سکتی جس کی مسافت ایک دن و ایک رات (ایک منزل یا ١٦ میل کے سفر کے بقدر ہو۔ نیز بخاری و مسلم میں بھی یہ ایک روایت منقول ہے کہ کوئی عورت دو دن کی مسافت کے بقدر بھی سفر نہ کرے الا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم ہو۔
لہٰذا فقہاء کا قول بظاہر ان روایات کے مخالف نظر آتا ہے لیکن اس تضاد و اختلاف کو دور کرنے کے لئے علماء یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں مطلق طور پر جو یہ منقول ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند یا محرم کے بغیر سفر نہ کرے تو چونکہ شرعی طور پر سفر کا اطلاق تین دن سے کم پر نہیں ہوتا اس لئے فقہاء نے اس حدیث کو تین دن (٤٨ میل) کی مسافت کے بقدر سفر پر محمول کیا ہے اور یہ فقہی قاعدہ مرتب کر دیا کہ کوئی عورت اتنی دور کا سفر کہ جو تین دن کی مسافت کے بقدر ہو بغیر خاوند یا محرم کے نہ کرے اور جب تین دن کی مسافت کے بقدر تنہا سفر نہیں کر سکتی تو اس سے زائد مسافت کا سفر کرنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو گا۔ اور جن حدیثوں میں دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر سفر سے بھی منع کیا گیا ہے تو اس کو فتنہ و فساد پر محمول کیا ہے کہ اگر سفر تین دن کی مسافت سے بھی کم یعنی دو دن یا ایک دن کی مسافت کے بقدر ہو اور کسی فتنہ و فساد مثلاً عورت کی عزت و آبرو پر حرف آنے کا گمان ہو تو اس صورت میں بھی عورت کو تنہا سفر نہیں کرنا چاہئے۔
یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جہاں تین دن کی مسافت کے بقدر سفر کی ممانعت منقول ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ ہر منزل (یعنی ١٦ میل) ایک دن کے اکثر حصے میں طے ہوتی ہو تو اس طرح تین دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں دو دن کے سفر کی ممانعت ہے۔ تو اس کی مراد یہ ہے کہ تمام دن چلے یعنی ایک دن میں ڈیڑھ منزل (٢٤ میل) طے ہو اس طرح دو دن میں تین منزلیں طے ہوں گی اور جہاں ایک دن و رات کے سفر کی ممانعت ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ شب و روز چلے، یعنی ڈیڑھ منزل پورے دن میں طے ہو ڈیڑھ منزل پوری رات میں طے ہو اس طرح ایک دن و رات میں تین منزلیں طے ہوں گی۔
اس تاویل کی وجہ سے ان تمام روایات کا مقصد تین دن کی مسافت کے بقدر عورت کو تنہا سفر کرنے سے روکنا ثابت ہو جائے گا اور تمام روایات میں باہم کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہے گا۔
اس سلسلے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات دل کو زیادہ لگتی ہے کہ ان تمام روایات (کہ جن سے عورت کو تنہا سفر کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اور جن میں حد سفر کے بارے میں اختلاف نظر آ رہا ہے) کا مقصد سفر کی کسی حد اور مدت کو متعین کرنا نہیں ہے بلکہ ان روایات کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ عورت بغیر خاوند یا محرم تنہا سفر مطلقاً نہ کرے مسافت چاہے طویل ہو اور چاہے کتنی ہی مختصر ہو۔ لہٰذا موجودہ دور میں جب کہ فتنہ فساد کا خوف عام ہے اور انسانی ذہن غلط طریقہ تعلیم و تربیت اور فاسد ماحول کی وجہ سے بے حیائی اور فحاشی کا مرکز بن گئے ہیں تو احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت مطلقاً تنہا سفر نہ کرے سفر چاہے تھوڑی دور کا ہو چاہے زیادہ فاصلے کا۔ اس لئے کہ فتنہ و فساد کا خوف بہر صورت رہتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آفاقی یعنی غیر مکی کے لئے احرام باندھنے کی جگہ (میقات) اس طرح متعین فرمائیں۔ اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، شام والوں کے لئے جحفہ، نجد والوں کے لئے قرن منازل اور یمن والوں کے لئے یلملم۔ یہ سب مذکورہ علاقوں کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ہیں اور ان مقامات سے گزرنے والے ان لوگوں کے لئے بھی یہی میقات ہیں جو ان علاقوں کے علاوہ ہوں مثلاً ہندوستانی کہ جب یمن کے راستے پر پہنچیں تو یلملم سے احرام باندھیں۔ اسی طرح دوسرے ملکوں کے لوگوں کے لئے بھی یہی ہے کہ ان کے راستے میں جو میقات آئے وہیں سے احرام باندھیں اور یہ (احرام اور احرام باندھنے کی جگہیں) ان لوگوں کے لئے ہیں جو حج اور عمرہ کا ارادہ کریں۔ اور جو شخص ان مقامات کے اندر رہتا ہے اس کے احرام باندھنے کی جگہ اس کے گھر سے ہے اسی طرح اور اسی طرح یہاں تک کہ مکہ والے مکہ ہی سے احرام باندھیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
احرام کے معنی ہیں حرام کر دینا) چونکہ حج کرنے والے پر کئی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا اس اظہار کے واسطے کہ اس وقت سے یہ چیزیں حرام ہو گئی ہیں ایک لباس جو صرف ایک چادر اور ایک تہبند ہوتا ہے بہ نیت حج پہنا جاتا ہے۔ جس کو احرام کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ احرام کا عمل اس وقت سے شروع ہوتا ہے جس وقت احرام پہننے کے بعد حج کی نیت کی جائے اور لبیک کہی جائے یا کوئی ایسا فعل کیا جائے جو تلبیہ (لبیک کہنے) کے مثل ہو جیسے (یعنی قربانی کا جانور) روانہ کرنا، ورنہ صرف احرام کا لباس پہننے پھرنے سے کوئی شخص محرم نہیں ہو سکتا۔
میقات کی جمع ہے۔ میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے مکہ مکرمہ میں جانے والے احرام باندھتے ہیں اور مکہ مکرمہ جانے والے کے لئے وہاں سے بغیر احرام آگے بڑھنا منع ہے۔
ایک مقام کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے جنوب میں تقریباً ١١٥ میل ١٨٨ کلو میٹر کے فاصلے پر اور رابغ سے چند میل جنوب میں واقع ہے یہ قریش کی تجارتی شاہراہ کا ایک اسٹیشن رہ چکا ہے اب غیر آباد ہے، یہ مقام شام و مصر کی طرف سے آنے والوں کے واسطے میقات ہے۔
اصل میں تو بلند زمین کو کہتے ہیں مگر اصطلاحی طور جزیرۃ العرب کے ایک علاقے کا نام ہے جو مملکت سعودی عرب کا ایک حصہ ہے۔ اس علاقے کو نجد غالباً اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سطح سمندر سے یہ علاقہ اچھا خاصا بلند ہے اس وقت جزیرۃ العرب کا سارا وسطی علاقہ جسے نجد کہا جاتا ہے۔ شمال میں بادیۃ الشام کے جنوبی سرے سے شروع ہو کر جنوب میں وادی الاواسر یا الربع الخال تک اور عرضاً احساء سے حجاز تک پھیلا ہوا ہے، حکومت سعودی عرب کا دارالسلطنت ریاض نجد ہی کے علاقے میں ہے۔
یہ ایک پہاڑی ہے جو مکہ سے تقریباً تیس میل (٤٨ کلو میٹر) جنوب میں تہامہ کی ایک پہاڑی ہے یہ پہاڑی یمن سے مکہ آنے والے راستے پر واقع ہے اس پہاڑی سے متصل سعدیہ نامی ایک بستی ہے یہ یمن کی طرف سے آنے والوں کی میقات ہے۔ ہندوستان سے جانے والے اس پہاڑی کے سامنے سے گزرتے ہیں اس لئے ہندوستان والوں کے لئے بھی یہی میقات ہے۔
امن مواقیت کے علاوہ ایک میقات ذات عرق)) یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً ساٹھ میل (٩٧ کلو میٹر) کے فاصلے پر شمال مشرقی جانب عراق جانے والے راستے پر واقع ہے۔ اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے واسطے میقات ہے۔
حدیث کے الفاظ لمن کان یرید الحج والعمرۃ (اور یہ احرام کی جگہیں ان لوگوں کے لئے ہیں جو حج وعمرہ کا ارادہ کریں) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص (یعنی غیر مکی) حج و عمرہ کے ارادے کے بغیر میقات سے گزرے تو اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے احرام باندھے۔ جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے، لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق مکہ میں بغیر احرام کے داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ خواہ حج و عمرہ کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی غیر مکی شخص مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج کے لئے جاتا ہو یا کسی اور غرض سے تو اس پر واجب ہے کہ وہ میقات سے احرام باندھ کر جائے احرام کے بغیر وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ حنفی مسلک کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ۔ لا یجاوز حد المیقات الا محرما۔ کوئی شخص (مکہ میں داخل ہونے کے لئے) میقات کے آگے بغیر احرام کے نہ بڑھے۔
یہ حدیث اس بارے میں مطلق ہے کہ اس میں حج و عمرہ کے ارادے کی قید نہیں ہے، پھر یہ کہ احرام اس مقدس و محترم مکان یعنی کعبہ مکرمہ کی تعظیم و احترام کی غرض سے باندھا جاتا ہے۔ حج و عمرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے لہٰذا اس حکم کا تعلق جس طرح حج و عمرہ کرنے والے سے ہے اسی طرح یہ حکم تاجر و سیاح وغیرہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہاں جو لوگ میقات کے اندر ہیں ان کو اپنی حاجت کے لئے بغیر احرام مکہ میں داخل ہونا جائز ہے کیونکہ ان کو بارہا مکہ مکرمہ میں آنا جانا پڑتا ہے۔ اس واسطے ان کے لئے ہر بار احرام کا واجب ہونا دقت و تکلیف سے خالی نہیں ہو گا، لہٰذا اس معاملے میں وہ اہل مکہ کے حکم میں داخل ہیں کہ جس طرح ان کے لئے جائز ہے کہ اگر وہ کسی کام سے مکہ مکرمہ سے باہر نکلیں اور پھر مکہ میں داخل ہوں تو بغیر احرام چلے آئیں اسی طرح میقات کے اندر والوں کو بھی احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہونا جائز ہے۔
فمن کان دونہن (اور جو شخص ان مقامات کے اندر رہتا ہے الخ) کا مطلب یہ ہے کہ لوگ میقات کے اندر مگر حدود حرم سے باہر رہتے ہوں تو ان کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ان کے گھر سے تاحد حرم ہے ان کو احرام باندھنے کے لئے میقات پر جانا ضروری نہیں ہے اگرچہ وہ میقات کے قریب ہی کیوں نہ ہوں۔
جو لوگ خاص میقات میں ہی رہتے ہوں ان کے بارے میں اس حدیث میں کوئی حکم نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں کہ ان کا حکم بھی وہی ہے جو میقات کے اندر رہنے والوں کا ہے۔
وکذاک وکذاک (اور اسی طرح اور اسی طرح) اس کا تعلق پہلے ہی جملے سے ہے کہ حل (حدود حرم سے باہر سے موقیت تک جو زمین ہے) اس میں جو جہاں رہتا ہے وہیں سے احرام باندھے یعنی میقات اور حد حرم کے درمیان جو لوگ رہنے والے ہیں وہ اپنے اپنے گھر ہی سے احرام باندھیں گے چاہے وہ میقات کے بالکل قریب ہوں اور چاہے میقات سے کتنے ہی دور اور حد حرم کے کتنے ہی قریب ہوں۔
حتی اہل مکۃ یہلون منہا کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ یعنی اہل حرم مکہ سے احرام باندھیں جو لوگ خاص مکہ شہر میں رہتے ہیں وہ تو خاص مکہ ہی سے احرام باندھیں گے اور جو لوگ خاص مکہ شہر میں نہیں بلکہ شہر سے باہر مگر حدود حرم میں رہتے ہیں وہ حرم مکہ سے احرام باندھیں گے۔
حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ کے لئے احرام باندھنے کی جگہ مکہ ہے خواہ احرام حج کے لئے خواہ عمرہ کے لئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمرہ کرنے والا حل کی طرف جائے اور وہاں سے احرام باندھ کر پھر حرم میں داخل ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا تھا کہ وہ عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم جائیں جو حل میں ہے لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ اس حدیث کا تعلق صرف حج کے ساتھ ہے یعنی یہ حکم اہل مکہ کے لئے ہے کہ وہ جب حج کرنے کا ارادہ کریں تو احرام مکہ ہی سے باندھیں اور اگر عمرہ کرنے کا ارادہ ہو تو پھر حل میں آ کر احرام باندھیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مدینہ والوں کے احرام کی جگہ ذوالحلیفہ ہے اور دوسرا راستہ جحفہ ہے، عراق والوں کے لئے احرام کی جگہ ذات عرق ہے، نجد والوں کے لئے احرام کی جگہ قرن ہے اور یمن والوں کے لئے احرام کی جگہ یلملم ہے۔ (مسلم)
تشریح
اور دوسرا راستہ جحفہ ہے کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ والوں کے لئے احرام باندھنے کی دوسری جگہ جحفہ ہے اگر وہ مکہ کے لئے مدینہ سے وہ راہ اختیار کریں جس میں جحفہ ملتا ہے تو وہ پھر جحفہ ہی سے احرام باندھیں، ذوالحلیفہ جانے کی ضرورت نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ پہلے مدینہ سے مکہ آنے کے لئے دو راستے تھے ایک راستے میں تو ذوالحلیفہ ملتا تھا اور دوسرے راستے میں جحفہ۔ اسی لئے یہ حکم دیا گیا کہ اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں ذوالحلیفہ ملتا ہے تو احرام ذوالحلیفہ سے باندھا جائے اور اگر وہ راہ اختیار کی جائے جس میں جحفہ ملتا ہے تو پھر جحفہ سے احرام باندھا جائے، لیکن اب ایک ہی راستہ ہو گیا ہے جس میں پہلے تو ذوالحلیفہ آتا ہے اور پھر جحفہ، اسی طرح اہل مدینہ کے لئے دو میقات ہو گئی ہیں۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اب اہل مدینہ احرام کہاں سے باندھیں؟ تو علماء لکھتے ہیں کہ اس جگہ سے باندھنا اولیٰ ہے جو مکہ سے زیادہ فاصلے پر واقع ہے یعنی ذوالحلیفہ اور اگر کوئی شخص جحفہ سے احرام باندھے تو یہ بھی جائز ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار عمرے کئے ہیں اور وہ سب ذی قعدہ کے مہینے میں کئے گئے تھے علاوہ اس ایک عمرہ کے جو حج کے ساتھ کیا گیا تھا اور ذی الحجہ کے مہینے میں ہوا تھا (اور ان چار عمروں کی تفصیل یہ ہے کہ) ایک عمرہ حدیبیہ سے ذی قعدہ کے مہینے میں، دوسرا عمرہ اس کے اگلے سال وہ بھی ذی قعدہ میں ہوا، تیسرا عمرہ جعرانہ سے جہاں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا گیا یہ عمرہ بھی ذی قعدہ میں ہوا اور چوتھا عمرہ حج کے ساتھ جو ذی الحجہ میں ہوا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیبیہ ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے مغربی جانب تقریباً پندرہ سولہ میل (٢٦کلو میٹر) کے فاصلے پر جدہ جاتے ہوئے ملتی ہے یہ مکہ سے شمال مغربی جانب ہے یہیں جبل الشمیسی نامی ایک پہاڑ ہے جس کی وجہ سے اب اس مقام کو شمیسہ بھی کہتے ہیں۔ حدود حرم یہاں سے بھی گزرتے ہیں اس لئے اس جگہ کا اکثر حصہ حرم میں ہے اور کچھ حصہ حل میں (یعنی حرم سے باہر) ہے۔
عمرہ حدیبیہ کا (اجمالی) بیان یہ ہے کہ سن ٦ھ میں ذی قعدہ کی پہلی تاریخ کو دو شنبہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ کے قصد سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے چودہ سو یا اس سے کچھ زائد رفقاء آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ پہنچے تو قریش مکہ جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور زیارت بیت اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو روکا، کافی رد و قدح کے بعد کہ جس کی تفصیل تاریخ و سیر کی کتابوں میں ملتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قریش مکہ کے درمیان ایک معاہدہ عمل میں آیا جو معاہدہ حدیبیہ اور صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے اس معاہدے کی رو سے یہ طے پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مع رفقاء اس سال تو مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قریش سے صلح کر کے عمرہ کئے بغیر مدینہ منورہ واپس ہو گئے لہٰذا حقیقت میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ ادا نہیں کیا مگر عمرہ کا ثواب مل جانے کی وجہ سے یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پہلا عمرہ شمار کیا گیا۔ اسی موقع پر احصار کا حکم مشروع ہوا۔ چنانچہ آئندہ سال اسی عمرہ کی قضاء کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ تشریف لائے تین روز مکہ میں قیام فرمایا عمرہ ادا کیا اور چوتھے روز وہاں سے واپس ہوئے۔ یہ دوسرا عمرہ ہوا اسی عمرہ کو عمرۃ القضاء کہتے ہیں یہ نام احادیث میں بھی منقول ہے۔ حنفیہ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محرم احصار کی وجہ سے احرام سے باہر آ جائے تو اس کی قضا اس پر واجب ہو گی حضرت امام شافعی کے نزدیک قضا واجب نہیں ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تیسرا عمرہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جعرانہ سے مکہ مکرمہ جا کر ادا کیا۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ حنین کا مال تقسیم کیا تھا اس کی تفصیل یہ ہے کہ جعرانہ، مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جب فتح مکہ کے بعد سن ٨ھ میں غزوہ حنین کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت بے شمار مال غنیمت ہاتھ لگا، اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جعرانہ میں پندرہ سولہ روز قیام پذیر رہے اور وہ مال غنیمت صحابہ میں تقسیم فرمایا، انہیں دنوں میں ایک روز رات میں بعد نماز عشاء آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ تشریف لے گئے اور عمرہ کیا اور اسی رات میں واپس آئے اور جعرانہ میں نماز فجر پڑھی۔
چوتھا عمرہ وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج فرض ہونے کے بعد سن ١٠ھ میں حج کے ساتھ کیا، لہٰذا یہ عمرہ تو ذی الحجہ میں ہوا اور بقیہ عمرے ذی قعدہ میں کئے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو چار عمرے کئے تھے وہ یہ تھے، البتہ زمانہ اسلام میں حج آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ کیا ہے جب کہ وہ فرض ہوا ہے ایام جاہلیت میں قریش حج کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس وقت حج کرتے تھے لیکن ان کی تعداد علماء کو صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔
حج اور عمرہ کی کیفیت اور ان کے متعلقات کا تفصیلی بیان تو آگے آئے گا، اس موقع پر صرف اتنی بات جان لینی چاہئے کہ حج و عمرہ میں فرق کیا ہے؟ حج میں وقوف عرفات، طواف بیت اللہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ہوتی ہے جب کہ عمرہ میں صرف طواف بیت اللہ اور سعی بین الصفا و المروہ ہوتی ہے احرام دونوں کے لئے شرط ہے جس طرح حج احرام کے بغیر صحیح نہیں اسی طرح عمرہ بھی احرام کے بغیر صحیح نہیں ہوتا، حج فرض بھی ہوتا ہے سنت بھی اور نفل بھی جب کہ عمرہ فرض نہیں ہوتا۔ صرف سنت اور نفل ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی عمرہ کی نذر مانے تو پھر عمرہ کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ذی قعدہ کے مہینے میں حج سے پہلے دو مرتبہ عمرہ کیا ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس سے پہلی حدیث سے تو یہ معلوم ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج سے پہلے تین عمرے کئے تھے۔ جب کہ یہ حدیث حج سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمرے کی تعداد دو بتا رہی۔ ان دونوں حدیثوں کے تضاد کو یوں دور کیجئے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اگرچہ بظاہر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ نہیں کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آپ احرام سے باہر آ جائیے آپ کو عمرے کا ثواب حاصل ہو گیا، گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کے افعال ادا نہیں کئے ہیں لہٰذ جس روایت میں حج سے پہلے عمرے کی تعداد تین بتائی گئی ہے اس میں اس عمرہ سے مراد عمرہ کا ثواب ہے اس اعتبار سے تین عمرے شمار کئے گئے ہیں اور جس روایت میں حج سے پہلے عمرہ کی تعداد دو بتائی گئی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ثواب تین عمرے کے ملے ہیں۔ لیکن ظاہری طور پر عمرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو ہی کئے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب فرمایا کہ لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو اقرع بن حابس کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا ہر سال (حج کرنا فرض ہوا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ میں اس حج کے (ہر سال فرض ہونے کے سوال) کے بارے میں ہاں کہہ دیتا تو یقیناً (ہر سال حج کرنا) واجب (یعنی فرض) ہو جاتا تو نہ تم اس حکم پر عمل کر پاتے اور نہ تم اس کی استطاعت ہی رکھتے، حج پوری زندگی میں بشرط قدرت ایک ہی مرتبہ فرض ہے ہاں جو شخص ایک بار سے زیادہ کرے وہ نفل ہو گا (جس پر اسے بہت زیادہ ثواب ملے گا)۔ (احمد، نسائی، دارمی)
حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص زاد راہ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا دے (یعنی جو شخص حج کرنے کی استطاعت و قدرت رکھتا ہو) اور (پھر بھی) وہ حج نہ کرے تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مر جانے (اور بے حج مر جانے) میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ (یعنی حج کے لئے زاد راہ و سواری کا شرط ہونا اور اس عظیم عبادت کو ترک کر دینے پر مذکورہ بالا وعید) اس لئے ہے کہ اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے۔ آیت (وَلِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیهِ سَبِیلاً) 3۔ ال عمران:97)۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے لوگوں پر کعبہ کا حج کرنا ضروری ہے جو وہاں جا سکتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند محل کلام ہے ہلال ابن عبداللہ مجہول ہیں اور حارث روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات کے لئے کافی بھی ہو جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی اس قدر دے جائے جو اس کی واپسی تک ان کی ضروریات زندگی کو پورا کر سکے نیز اس کے پاس ایسی سواری ہو جو بیت اللہ تک پہنچا سکے، چاہے وہ اپنی ہو یا کرایہ کی ہو اور وہ اتنی استطاعت و قدرت کے باوجود بھی حج نہ کرے اور مر جائے تو وہ یہودی و نصرانی ہو کر مرتا ہے۔
اب اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر اس نے استطاعت و قدرت کے باوجود حج اس لئے نہیں کیا کہ وہ اس کی فرضیت ہی کا منکر ہو تو پھر یہودی اور نصرانی کی اس مشابہت کا تعلق کفر سے ہو گا۔ یعنی جس طرح یہودی و نصرانی کفر کی حالت میں مرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی کفر کی حالت میں مرے گا اور اگر فرضیت کا منکر ہوئے بغیر حج نہ کرے تو اس مشابہت کا تعلق گناہ سے ہو گا کہ یہودی و نصرانی جتنے سخت گناہ کی حالت میں مرتے ہیں وہ بھی اتنے ہی شدید گناہ کا بار لئے موت کی نذر ہو گا۔ اگرچہ بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ وعید از راہ تغلیظ و تشدید یعنی ترک حج کے گناہ کی شدت و ہیبت ناکی کے اظہار کے لئے فرمائی ہے۔ لیکن بہر نوع ترک حج ایک ایسا گناہ ہے اور اتنا شدید جرم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنی شدید اور سخت وعید بیان فرمانی پڑی کہ حج نہ کرنے والا یہودی یا نصرانی ہو کر مرتا ہے العیاذ باللہ منہ۔
الیہ سبیلا کے بعد آیت کا بقیہ حصہ یہ ہے آیت (وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِینَ) 3۔ آل عمران:97)۔ اور کوئی کفر کرے (اور طاعات و عبادات نہ کر کے) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کرے تو اللہ تعالیٰ عالم کے لوگوں سے بے نیاز ہے۔ یعنی لوگ طاعت و عبادت کریں یا نہ کریں اس سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں، نفع نقصان تو انہیں لوگوں کو ہے کہ اگر طاعت و عبادت کریں تو فلاح و نجات پائیں گے اور اگر نہ کریں گے تو خسران و عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ پوری آیت پڑھی ہو گی کیونکہ استدلال تو پوری ہی آیت سے ہوتا ہے لیکن راوی نے الیہ سبیلا ہی تک اس آیت کو نقل کیا۔
٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ صیرورت اسلام میں داخل نہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
صیرورت کا مفہوم ہے۔ وہ شخص جس نے کبھی حج نہ کیا ہو۔ لہٰذا اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے حج واجب ہونے کے باوجود حج نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔
طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہی ہے کہ جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھے اور پھر بھی حج نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ارشاد یا تو از راہ تغلیظ و تشدید ہے یا پھر اس کی مراد یہ ہے کہ ایسا شخص کامل مسلمان نہیں ہوتا۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ صیرورت کے معنی ہیں نکاح اور حج کو ترک کرنا، اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نکاح اور حج کو ترک کرنا اسلام کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ رہبانیت میں داخل ہے اس لئے مسلمان کو نکاح و حج ترک نہ کرنا چاہئے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ جلدی کرے۔ (ابوداؤد، ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص حج کرنے پر قادر ہو اور حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے اور اس فرض کو ادا کرنے کے لئے ملے ہوئے موقع کو غنیمت جانے کیونکہ تاخیر کرنے کی صورت میں نہ معلوم کتنی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں اور مآل کار اس نعمت عظمی سے محرومی رہے۔
اس بارے میں کہ حج علی الفور واجب ہے یا علی التراخی؟ حنفیہ کے ہاں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ جب حج واجب ہو یعنی شرائط حج پائے جائیں اور حج کا وقت آ جائے نیز قافلہ مل جائے (بشرطیکہ قافلے کی ضرورت ہو جیسا کہ پہلے زمانے میں بغیر قافلہ کے سفر کرنا تقریباً ناممکن ہوتا تھا) تو اسی سال حج کرے دوسرے سال تک تاخیر نہ کرے، اگر کوئی شخص بلا عذر کئی سال تاخیر کرتا رہے گا تو وہ فاسق کہلائے گا اور شرعی نقطہ نظر سے اس کی گواہی قبول نہ ہو گی۔ یعنی وہ شریعت کی نظر میں ناقابل اعتبار قرار پائے گا یہاں تک کہ اس عرصے میں اگر اسباب حج (کہ جن کی وجہ سے اس پر حج واجب ہوا تھا) جاتا رہے گا تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط نہیں ہو گا بلکہ باقی رہے گا (جس کی وجہ سے حج نہ کر سکنے کی صورت میں گنہگار ہو گا) حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ کے ہاں واجب علی التراخی ہے یعنی آخر عمر تک حج میں تاخیر جائز ہے جیسا کہ نماز میں آخر وقت تک تاخیر جائز ہے، حضرت امام محمد رحمۃ اللہ کا بھی یہی قول ہے لیکن اس سلسلے میں دونوں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تاخیر اسی وقت جائز ہو گی جب کہ حج کے فوت ہو جانے کا گمان نہ ہو، اگر یہ گمان ہو کہ تاخیر کرنے میں حج فوت ہو جائے گا (یعنی کبھی حج نہیں کر سکے گا) تو پھر تاخیر نہ کرے، اس صورت میں اگر کوئی شخص حج فرض ہونے کے باوجود بغیر حج کے مرے گا تو تمام ہی علماء کے نزدیک گنہگار مرے گا چنانچہ حج نہ کرنے کا اس سے مواخذہ ہو گا۔
حنفی علماء یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے شرائط حج پائے جانے کے بعد حج میں تاخیر کی اور اس عرصے میں اس کا مال و زر تلف ہو گیا تو وہ قرض لے کر حج کرے اگرچہ اس قرض کی ادائیگی پر وہ قادر نہ ہو اور اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرض کی عدم ادائیگی پر مواخذہ نہیں کرے گا بشرطیکہ اس کی نیت یہ ہو کہ میرے پاس جب بھی مال آ جائے گا میں یہ قرض ضرور ادا کروں گا۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ حج اور عمرہ ایک ساتھ کرو اور اس لئے کہ یہ دونوں (یعنی ان میں سے ہر ایک) فقر اور گناہوں کو ایسا دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں۔ (ترمذی، نسائی امام احمد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لفظ خبث الحدید تک نقل کیا ہے)۔
تشریح
حج اور عمرہ ایک ساتھ کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کرو۔ یہ حج کی سب سے افضل قسم ہے جس میں حج و عمرہ دونوں ساتھ ہوتے ہیں اس کا تفصیلی بیان آگے آئے گا۔ یا پھر اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے عمرہ کیا ہے تو پھر حج بھی کرو اور حج کر لیا ہے تو پھر عمرہ بھی کرو۔
فقر سے مراد ظاہری فقر بھی ہو سکتا ہے اور باطنی بھی یعنی حج و عمرہ کرنے سے اللہ تعالیٰ مال و دولت کی نعمت سے نوازتا ہے یا یہ کہ دل غنی ہو جاتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کون سی چیز حج کو واجب کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زاد راہ اور سواری۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
سوال کون سی چیز حج کو واجب کرتی ہے؟ کا مطلب یہ ہے کہ حج واجب ہونے کی شرط کیا ہے؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک چیز تو زاد راہ بتایا جس کی مراد یہ ہے کہ اتنا مال و زر جو سفر حج میں جانے اور آنے کے اخراجات اور تاواپسی اہل و عیال کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور دوسری چیز سواری بتائی جس پر سوار ہو کر بیت اللہ تک پہنچا جا سکے اگرچہ حج کے واجب ہونے کی شرطیں اور بھی ہیں مگر یہاں بطور خاص ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اصل میں یہی دو شرائط ایسی ہیں جو حج کے لئے بنیادی اور ضروری اسباب کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہ حدیث حضرت امام مالک کے مسلک کی تردید کرتی ہے ان کے ہاں اس شخص پر بھی حج واجب ہوتا ہے جو پیادہ چلنے پر قادر ہو اور تجارت یا محنت مزدوری کے ذریعہ سفر حج کے اخراجات کے بقدر روپے پیسے حاصل کر سکتا ہو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ حاجی کی صفت و کیفیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ غبار آلود سر، پراگندہ بال اور پسینہ و میل کی وجہ سے بو آتی ہو (یعنی زیب و زینت سے مکمل اجتناب جیسا کہ کسی عاشق صادق اور محب مخلص کی علامت ہوتی ہے) پھر ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! حج میں (ارکان کے بعد) کون سی چیزیں بہت زیادہ ثواب کی حامل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لبیک کے ساتھ آواز بلند کرنا اور قربانی یا ہدی کے جانور کا خون بہانا۔ اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ سبیل کیا ہے؟ یعنی قرآن کریم میں حج کے سلسلہ میں جو یہ فرمایا گیا ہے آیت (من استطاع الیہ سبیلا) تو اس آیت میں سبیل سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زاد راہ اور سواری۔ (شرح السنۃ) نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے لیکن انہوں نے حدیث کا آخری حصہ یعنی فقام آخر (اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا) سے آخر تک ذکر نہیں کیا ہے۔
حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ بہت زیادہ بوڑھا ہو گیا ہے وہ نہ تو حج کی طاقت رکھتا ہے اور نہ عمرے کی اور نہ ہی سوار ہونے کی (یعنی بسبب ضعف و کبر سنی نہ توحج و عمرہ کے افعال و ارکان کی ادائیگی پر قادر ہے اور نہ سوار ہو کر حج و عمرہ کے لئے جا سکتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی طرف سے تم حج و عمرہ کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد نسائی) نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح
اس باب کی پہلی فصل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (حدیث نمبر سات) کی تشریح کے ضمن میں اس روایت کا تذکرہ آ چکا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (حج کے دوران) ایک شخص کو سنا کہ وہ شبرمہ کی طرف سے لبیک کہہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ شبرمہ کون ہے؟ اس شخص نے عرض کیا کہ میرا بھائی ہے یا کہا کہ میرا قریبی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تم اپنی طرف سے حج کر چکے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو پہلے تم اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔ (شافعی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ جو شخص پہلے اپنا فرض حج نہ کر چکا ہو اس کو دوسرے کی طرف سے حج کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ یہ حدیث ان حضرات کی دلیل ہے، حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ دوسرے کی طرف سے حج کرنا درست ہے چاہے خود اپنا فریضہ حج ادا نہ کر پایا ہو۔ لیکن ان حضرات کے نزدیک بھی اولیٰ یہی ہے کہ پہلے اپنا حج کرے اس کے بعد دوسرے کی طرف سے حج کرے چنانچہ ان کے مسلک کے مطابق اس حدیث میں پہلے اپنا حج کر نے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے۔ ویسے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے یا یہ کہ منسوخ ہے اس لئے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مشرق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ (یعنی میقات) عقیق کو متعین فرمایا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
عقیق ایک جگہ کا نام ہے جو ذات عرق کے محاذات میں واقع ہے یہ جگہ مشرق والوں کے لئے میقات ہے مشرق والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حرم سے باہر مکہ کی مشرقی جانب کے علاقوں میں رہنے والے ہیں یہی لوگ عراقی بھی کہلاتے ہیں جن کا تذکرہ اگلی حدیث میں ہے، اس طرح مشرق والوں کے لئے احرام باندھنے کی دو جگہیں ہوئیں ایک تو عقیق اور ذات عرق۔ لہٰذا اس سمت سے آنے والے لوگ ان دونوں میں سے جس جگہ بھی گزریں وہیں سے احرام باندھیں۔
٭٭ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عراق والوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق متعین فرمائی۔ (ابوداؤد، نسائی)
ام المؤمنین حضرت ام اسلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص حج یا عمرہ کے لئے مسجد اقصیٰ (ہی سے احرام باندھ کر چلے) تو اس کے وہ تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے ہوں گے اور جو بعد میں کرے گا یا فرمایا کہ اس شخص کے لئے ابتداء ہی میں جنت واجب ہو جائے گی (یعنی وہ شروع ہی میں جنت میں داخل ہو گا۔ (ابوداؤد ابن ماجہ)
تشریح
من اہل بحجۃ او عمرۃ میں حرف او تنویع کے لئے ہے اور او وجبت لہ الجنۃ میں اور راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے۔
جب کوئی شخص بیت المقدس سے مکہ کے لئے چلتا ہے تو وہ راستہ میں مدینہ منورہ سے گزرتا ہے، اس طرح وہ شخص اپنے راستہ میں تینوں افضل ترین مقامات سے مشرف ہوتا ہے بایں طور کہ اس راستہ کے سفر کی ابتداء بیت المقدس سے ہوتی ہے درمیان میں مدینہ منورہ آتا ہے اور آخر میں مکہ مکرمہ پہنچتا ہے لہٰذا اس شخص کی خوش بختی کا اندازہ لگائیے جو اپنے سفر حج کی ابتداء بیت المقدس سے کرے کہ اول تو خود سفر مقدس و با عظمت پھر سفر کی ابتداء بیت المقدس سے درمیان میں مدینہ منورہ اور سفر کی انتہاء حرم محترم پر اس سبب سے مذکورہ بالا شخص یہ عظیم ثواب پاتا ہے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ احرام باندھنے کی جگہ حرم محترم سے جتنی دور ہو گی ثواب بھی اتنا زیادہ ہو گا اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک مواقیت سے احرام کی تقدیم یعنی احرام باندھنے کی جگہوں سے پہلے ہی احرام باندھ لینا یا اپنے گھر ہی سے احرام باندھ کر چلنا افضل ہے حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ ممنوعات احرام سے بچ سکے، ورنہ اگر یہ جانے کہ اس صورت میں ممنوعات احرام سے اجتناب ممکن نہیں ہو گا تو پھر میقات ہی سے احرام باندھنا افضل ہو گا۔
اسی طرح حج کے مہینوں میں (یعنی شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن) سے پہلے احرام باندھنے کے بارے میں حنفیہ کے ہاں جواز کا قول بھی ہے اور مکروہ کہا گیا ہے، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بھی کراہت ہی کے قائل ہیں۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول اگرچہ یہ بھی ہے کہ حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھنے والوں کا احرام درست نہیں ہو گا لیکن ان کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حج کے مہینوں سے پہلے احرام باندھے گا تو اس کا وہ احرام حج کی بجائے عمرہ کا ہو جائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یمن والے جب حج کرنے آئے تو زاد راہ ساتھ نہیں لائے تھے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں اور پھر جب وہ مکہ میں آتے تو لوگوں سے مانگتے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی (وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقْوٰى) 2۔ البقرۃ:197) اور جب حج کو جانے لگو تو زاد راہ ضرور ساتھ لے لیا کرو کیونکہ سب سے بڑی بات اور خوبی زاد راہ میں گداگری سے بچنا ہے۔ (بخاری)
تشریح
ان لوگوں نے توکل کو زاد راہ کا درجہ دے دیا تھا ور یہ سمجھتے تھے کہ حج کے ضروری اخراجات کی فراہمی سے قطع نظر توکل بہترین چیز ہے لیکن حقیقت میں نہ تو وہ توکل تھا اور نہ یہ کوئی اچھی بات تھی کہ حج کے لئے مکہ مکرمہ پہنچ کر لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائے جائیں جو انسانی شرف و عظمت کے خلاف ہے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ سب سے بڑی بات اور خوبی یہ ہے کہ زاد راہ اپنے ساتھ رکھو اور گداگری سے بچو۔
اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ حج کے ضروری اخراجات ساتھ رکھے بغیر اس شخص کے لیے جانا درست نہیں ہے جس کے نفس میں توکل کی قوت نہ ہو اور اس کو غالب گمان ہو کہ میں شکایت و بے صبری اور گداگری میں مبتلا ہو کر خود بھی پوری طمانیت اور سکون کے ساتھ افعال حج ادا نہ کر سکوں گا اور دوسروں کو بھی پریشانی میں مبتلا کروں گا۔
آیت اور حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اتنا وسائل اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے چنانچہ کاملین کے نزدیک یہ افضل ہے کہ ہاں اگر کوئی بغیر اسباب کے صرف توکل ہی کو اختیار کرے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ اپنے عزم و ارادہ پر مستحکم و مضبوط رہ کر صبر کر سکے اور ایسا کوئی بھی کام نہ کرے جو حقیقی توکل کے منافی ہو۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں عورتوں پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج وعمرہ ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
اسلام نے عورتوں کے لئے جہاد واجب قرار نہیں دیا ہے لیکن چونکہ یہ ایک ایسی عظیم سعادت ہے جس سے عورتیں محروم رہیں اس لئے ان کے حق میں حج و عمرہ کو جہاد کا درجہ دے کر جہاد کے ثواب کی سعادت سے انہیں نوازا گیا، چنانچہ حج و عمرہ میں اگرچہ جنگ و جدل اور قتل قتال نہیں ہے لیکن اس میں بھی مشقت سفر، گھر والوں سے مفارقت اور وطن کی جدائی اسی طرح ہوتی ہے جس طرح جہاد میں۔ اس لئے عورتوں کے حق میں حج و عمرہ بمنزلہ جہاد ہے۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص کو ظاہری حاجت نے (کہ وہ زاد راہ اور سواری کا نہ ہونا ہے) یا ظالم بادشاہ نے یا خطرناک مرض نے حج سے نہ روک رکھا ہو اور وہ حج کئے بغیر مر جائے تو اسے اختیار ہے کہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر۔ (دارمی)
تشریح
اگر کسی شخص کو سفر حج کے راستہ میں کسی ظالم بادشاہ و حکمران کی طرف سے جان و مال کے اتلاف کا خوف ہو تو اس پر حج فرض نہیں رہتا باوجودیکہ اس میں حج کے دوسرے شرائط مثلاً اخراجات کے بقدر مال و زر اور سواری وغیرہ پائے جاتے ہوں اسی طرح وہ بیماریاں جن کی وجہ سے سفر کرنا ممکن نہ ہو حج کی فرضیت کو ساقط کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اندھے و فالج زدہ وغیرہ پر باوجود مالی استطاعت و قدرت کے حج فرض نہیں ہوتا۔
اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس زاد راہ ہو اور سواری کا انتظام ہو، راستہ میں کسی ظالم بادشاہ کا خوف نہ ہو، کوئی بیماری مانع سفر نہ ہو گویا کہ حج کے تمام شرائط موجود ہوں اور اس پر حج فرض ہو اور پھر وہ حج نہ کرے تو اب چاہئے وہ یہودی ہو کر مرے۔ اور چاہے عیسائی ہو کر اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہی اس وعید کے سلسلہ میں گزشتہ صفحات میں ایک موقع پر تفصیل بیان کی جا چکی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
کعبہ مکرمہ کو بیت اللہ فرمایا گیا ہے یعنی وہ اللہ جل شانہ کا گھر ہے جو شخص اس کے گھر کی زیارت کے لئے جاتا ہے وہ اس کا مہمان ہوتا ہے جس طرح میزبان اپنے مہمان کی ہر جائز خواہش کا احترام کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے مہمانوں کی لاج رکھتا ہے جو وہ مانگتے ہیں قبول فرماتا ہے وہ اگر اپنی مغفرت و بخشش چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت و بخشش کی دولت سے نوازتا ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ (١) جہاد کرنے والے (٢) حج کرنے والے (٣) عمرہ کرنے والے۔ (نسائی، بیہقی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم حاجی سے ملاقات کرو تو اس کو سلام کرو اس سے مصافحہ کرو اور اس سے اپنے لئے بخشش کی دعا کرنے کو کہو اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اور یہ اس لئے کہ اس کی بخشش کی جا چکی ہے۔ (احمد)
تشریح
جیسا کہ ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے حاجی مستجاب الدعوات ہو جاتے ہیں جس وقت کہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور گھر واپس آنے کے چالیس روز بعد تک ایسے ہی رہتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ زمانہ میں دستور تھا اور اب بھی ہے کہ جب حجاج اپنے گھر واپس آتے تھے تو لوگ ان کے استقبال کے واسطے جایا کرتے تھے اور ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اس شخص کی مغفرت ہو چکی ہے اور یہ گناہوں سے پاک ہو کر آیا ہے اس سے مل کر مصافحہ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دنیا میں ملوث ہو جائے تاکہ ہم کو بھی ان سے کچھ فیض پہنچے۔ اگرچہ آج کل یہ غرض کم اور نام و نمود کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں بھی حاجی سے سلام و مصافحہ کرنے کے لئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اس وقت تک دنیا میں ملوث اور اپنے اہل و عیال میں مشغول نہیں ہوتا بلکہ اس وقت تک وہ راہ خدا ہی میں ہوتا ہے اور گناہوں سے پاک و صاف ہوتا ہے اور اس صورت میں حاجی چونکہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ اس سے اپنے لئے مغفرت و بخشش کی دعا کراؤ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور تمہیں مغفرت و بخشش سے نوازے۔
علماء لکھتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا، جہاد کرنے والا اور دینی طالب علم بھی حاجی کے حکم میں یعنی جب یہ لوگ لوٹ کر اپنے گھر آئیں تو ان سے بھی گھر میں داخل ہونے سے پہلے سلام و مصافحہ کیا جائے اور دعاء بخشش و مغفرت کی درخواست کی جائے کیونکہ یہ لوگ بھی مغفور ہوتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص حج یا عمرہ اور یا جہاد کے ارادہ سے گھر سے نکلا اور پھر اس کے راستہ میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہاد کرنے والے اور حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے ہی کا ثواب لکھتا ہے۔ (بیہقی)
تشریح
انہیں لوگوں کے حکم میں دینی طالب علم بھی ہے یعنی اگر کوئی شخص دین کا علم حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکلا اور پھر وہ راستہ میں مر گیا تو اس کے لئے بھی عالموں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔
حج کے بارے میں چند بنیادی باتیں اجمالی طور پر اس باب میں بیان ہوئی ہیں۔ مابعد کے ابواب میں حج کے تفصیلی احکام و مسائل آئیں گے چونکہ مکہ مکرمہ اس عظیم عبادت و سعادت کا بنیادی مقام و محور ہے اور مدینہ منورہ ایک ایک مسلمان کے دل کی دھڑکنوں کا مرکز اور دیار محبوب ہے اور جس کی زیارت بھی سفر حج کی ایک بنیادی خواہش ہے اس لئے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مقدس و بابرکت مقامات کا ایک مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی خاکہ پیش کر دیا جائے اگرچہ آگے ان مقامات کے فضائل و مسائل پر مشتمل الگ ابواب آئیں گے۔
جہاں بیت اللہ شریف واقع ہے مملکت سعودی عرب کے علاقہ حجاز کا ایک شہر ہے جو وادی ابراہیم میں آباد ہے سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ساڑھے تین سو فٹ بتائی جاتی ہے اس کا عرض البلد اکیس درجہ شمالی اور طول البلد ساڑھے انتالیس درجہ مشرقی ہے، آبادی چار لاکھ یا اس سے متجاوز ہے اس کا محل وقوع ساحل سمندر سے تقریباً اڑتالیس میل (٧٨ کلو میٹر) کے فاصلہ پر ہے۔
مکہ کے علاوہ بکہ، ام القرای اور بلد الامین اسی شہر کے نام ہیں مشہور اور متعارف نام مکہ ہی ہے یہ جس جگہ واقع ہے وہ ناقابل کاشت، تنگ اور گہری وادی ہے جو کسی زمانہ میں بالکل جنگل اور بے آب و گیاہ ریگستان ہونے کے سبب لوگوں کی آبادی کا مرکز نہیں بنتی تھی اس وادی میں شہر مکہ مکرمہ مشرق سے مغرب تک پانچ میل سے زائد حصہ میں پھیلا ہوا ہے اس کا عرض دو میل سے زائد ہے اس کی زمین سیلاب کی گزرگاہ ہونے کے باعث بطحا بھی کہی جاتی ہے مکہ کی وادی دو پہاڑی سلسلوں میں گھری ہوئی ہے جو مغرب سے شروع ہو کر مشرق تک چلے گئے ہیں ان میں ایک سلسلہ شمالی ہے اور ایک جنوبی ان دونوں سلسلوں کو اخشیان کہتے ہیں ان پہاڑوں کو توریت میں جبال فاران کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
تقریباً چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور اپنے بیٹھے حضرت اسماعیل کو اس جنگل اور بے آب و گیاہ وادی میں لا کر آباد کیا اور اسی وقت کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس جنکل کو آباد کر دے۔ جب ہی سے یہ بے آب و گیاہ میدان قرب و جوار بلکہ ساری دنیا کا مرکز بنا، اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار بندے اسی کا رخ بنا کر پانچ وقت اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
حضرت اسماعیل کی نسلیں یہاں مقیم ہوئی اور کچھ نسلیں قرب و جوار میں بھی پھیلیں آخر میں قریش یہاں کے متولی اور باشندے ہوئے اور پھر یہاں قریش میں دنیا کے سب سے عظیم رہنما اور خدا کے سب سے آخری پیغمبر و رسول سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت با سعادت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مبعوث ہونے کے بعد اسی مقدس شہر سے خدا کے آخری دین اسلام کا پیغام دنیا کو سنایا اور یہیں سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تمام تر جدو جہد کا آغاز ہوا۔
مکہ کی آبادی پہلے صرف خیموں میں رہتی تھی ہجرت سے صرف دو صدی پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جد قصی ابن کلاب جب شام سے آئے تو ان کے مشورہ سے مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا، پھر اسلام کے آنے کے بعد اس شہر کو برابر ترقی ہوتی رہی، اب یہ اپنے قرب و جوار میں دور دور تک سب سے بڑا اور پورے عالم اسلام کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔ شہر میں پانی کا ایک ہی چشمہ ہے جسے زمزم کہتے ہیں اس کے علاوہ یہاں پانی کا اور کوئی کنواں نہیں ہے پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی زمین میں کچھ کاشت نہیں ہو سکتی تھی، اب پانی کی افراط کی وجہ سے کچھ گھاس اور پودے لگائے گئے ہیں پہلے شہر میں پانی کی بہت قلت ہونے کی وجہ سے طائف کے قریب یہاں ایک نہر لائی گئی ہے جس کا نام نہر زبیدہ ہے۔ یہ نہر امین الرشید کی والدہ زبیدہ نے بنوائی تھی بعد میں اس کو ترقی دی جاتی رہی اس کے لیے پانی پہنچانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کیے گئے اب موجودہ حکومت میں پانی کی سپلائی کا بہت معقول انتظام اور عمدہ ہونے کی وجہ سے یہ قلت بالکل جاتی رہی ہے۔
پہاڑوں کے درمیان گھرے ہونے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں گرمی زیادہ اور سردی کم ہوتی ہے شہر کا موسم گرمیوں میں بڑا سخت ہوتا ہے اور بارش صرف جاڑوں میں ہوتی ہے جس کی سالانہ مقدار چار پانچ انچ سے زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا گرمی کا موسم مارچ میں شروع ہو کر آخر اکتوبر تک رہتا ہے موسم سرما میں سردی کم ہوتی ہے۔
مکہ مکرمہ سے بجانب شمال تقریباً دو سو ستر میل (چار سو بتیس کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع اس کے مغربی جانب سو سو میل (سو کلو میٹر) کے فاصلہ پر سمندر اور اس علاقہ کا مشہور بندرگاہ ینبوع ہے۔ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ اور شام کے درمیان راستہ کے تقریباً وسط پر واقع ہے اس کا طول البلد ساڑھے انتالیس درجہ مشرقی اور عرض البلد چوبیس درجہ شمالی ہے۔
جب خدا کے نام لیواؤں پر مکہ کی زمین تنگ ہوئی اور کفار مکہ کی خطرناک انتقامی کاروائیوں، ایذاء رسانیوں اور سازشوں کی وجہ سے تبلیغ اسلام میں رکاوٹ اور مسلمانوں کی جان و آبرو کے لالے پڑ گئے تو خدا کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور خود بھی مکہ چھوڑ کر مدینہ آ گئے اس طرح اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا مرکز مدینہ منورہ منتقل ہو گیا اور پھر اسی سر زمین سے اسلام کی روشنی عرب کی حدود سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچی۔
آپ کی تشریف آوری سے قبل اس شہر کا نام یثرب تھا یہاں قدیم زمانہ میں عمارز اور دوسری قومیں رہ چکی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا نام بدل دیا اور پھر اسے مدینۃ الرسول یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شہر کہا جانے لگا۔ اس کے علاوہ۔ طابہ، طیبہ، طائبہ، ارض اللہ، دارالہجرۃ۔ بیت رسول اللہ۔ حرم رسول اللہ۔ محبوبہ۔ حسنہ وغیرہ بھی نام احادیث وغیرہ میں آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ مشہور اور متعارف نام مدینہ ہے۔
مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے برعکس سرسبز و شاداب اور ایک زراعتی شہر ہے۔ مغربی جانب کے علاوہ اس کے دوسرے اطراف میں باغات بکثرت ملتے ہیں جن میں کھجور، انگور انار سیب اور دوسرے پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کی زمینوں میں کھیتی باڑی کی جاتی ہے مدینہ کی آب و ہوا مکہ کی آب و ہوا کے مقابلہ میں معتدل ہے ایک تو وجہ یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی طرح پہاڑیوں سے گھرا ہوا نہیں ہے دوسرے یہ کہ اس کو مختلف سمتوں سے باغات نے گھیر رکھا ہے تیسرے یہ کہ شہر سطح سمندر سے ساڑھے بارے ہزار فٹ بلند ہے یہاں جاڑا اور گرمی دونوں سخت ہوتے ہیں۔ یہ شہر ایک صحت پرور شہر سمجھا جاتا ہے منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو اس وقت یہاں کی آب و ہوا نہایت ناقص اور خراب تھی اکثر وبائی بیماریاں ہوتی رہتی تھیں چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہاں آتے ہی سخت بیمار ہو گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شہر کی آب و ہوا کی اصلاح اور درستی کے لئے دعا مانگی اور آپ کی دعا قبول ہوئی۔
مدینہ کی مشرقی جانب حرۃ الواقم اور مغربی جانب حرۃ الوبرہ نامی پہاڑ ہیں۔ شمالی جانب جبل احد ہے جس کے پاس احد کا معرکہ پیش آیا تھا اور وہاں متعدد صحابہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبریں ہیں یہ پہاڑ شہر سے تقریباً اڑھائی میل کے فاصلہ پر واقع ہے اور جنوبی جانب جبال گیر نامی دو پہاڑ ہیں اور قبا اور عوالی نامی دو بستیاں ہیں حرۃ الواقم اور حرۃ الوبرہ کے درمیان شمال میں لیکن ذرا علیحدہ جبل سلع ہے یہی وہ جگہ ہے یہاں چار ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے ساتھ خندق کھودی تھی۔ اور مدینہ منورہ پر حملہ آور کفار کا راستہ بند کر دیا تھا۔ یہ واقعہ غزوہ احزاب یا غزوہ خندق کہلاتا ہے یہ خندق حرۃ الواق سے حرۃ الوبرہ تک ہلالی شکل میں کھو دی گئی تھی اور جبل سلع کے پیچھے سے گزری تھی۔ مسلمانوں کا لشکر جبل سلع کے دامن میں مقیم ہوا تھا۔ شہر کے تقریباً وسط میں قدرے مستطیل شکل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پر شکوہ مسجد ہے اس مسجد کے مشرقی پہلو اور جنوبی سرے پر روضہ اطہر ہے جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آرام فرما ہیں اور آپ کے دو معزز رفیق ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی یہیں مدفون ہیں۔