مشکوٰة شر یف

افلاس اور مہلت دینے کا بیان

افلاس اور مہلت دینے کا بیان

انسانی زندگی میں کسی ایک حالت کو قرار و دوام نہیں ہے آج کچھ ہے کل کچھ یہ روزانہ کے مشاہدہ کی بات ہے انسان کی اقتصادی و مالی زندگی کو ہی دیکھ لیجئے جس طرح ایک مفلس اور قلاش شخص راتوں رات رحمت خداوندی کے نتیجہ میں مال و زر کے خزانوں کا مالک بن جاتا ہے اسی طرح بڑے بڑے کاروباری دیکھتے ہی دیکھتے دیوالیہ ہو جاتے ہیں جو لوگ ہر وقت لاکھوں میں کھیلتے رہتے ہیں مال و زر ہی جن کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے چشم زدن میں وہ پائی پائی کے محتاج نظر آتے ہیں۔ یہی کائنات کا نظام ہے اور یہی تقدیر کا کھیل ہے حالات کو کسی ایک راستے پر برقرار رکھنا نہ کبھی کسی کے بس میں رہا ہے اور نہ کبھی کسی کے بس میں رہے گا۔ یہ سارے کھیل قدرت خداوندی کے پابند رہے ہیں اور ہمیشہ اسی طرح پابند رہیں گے لیکن بدلے ہوئے حالات کو متوارن بنانا اور متوازن بنانے میں مدد دینا انسان کے بس میں ہے جسے وہ اختیار کر کے ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹ بھی سکتا ہے اور بدلے ہوئے حالات کو سنوارنے میں مدد بھی دے سکتا ہے چنانچہ یہاں جو باب قائم کیا گیا ہے اس کے تحت نقل کی جانے والی احادیث کا یہی حاصل ہے کہ اگر کوئی شخص حالات کی تبدیلی کا شکار ہو جائے بایں طور کہ افلاس و تنگدستی اسے اپنی لپیٹ میں لے لے تو دوسرے انسانوں کا نہ صرف یہ فریضہ ہے کہ اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں بلکہ اگر اس شخص پر کسی کا کوئی حق و مطالبہ ہو اور وہ مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کی ادائے گی سے وقتی طور پر عاجز ہو تو صاحب حق اسے اتنی مہلت دے دے کہ جب بھی اس کے حالات سدھریں وہ اس کا حق ادا کر دے۔

مفلس ہو جانے والے کے بارے میں ایک مسئلہ

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر کوئی شخص مفلس ہو جائے اور وہ شخص (کہ جس نے اس کے ہاتھ اپنے مال بیچا تھا اس کے پاس اپنا مال بعینہ پائے تو وہ کسی دوسرے کے مقابلے میں اس مال کا زیادہ حق دار ہے۔

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ زید نے بکر سے کوئی مال خریدا مگر اس کی قیمت ابھی ادا نہیں کر پایا تھا کہ مفلس ہو گیا اور حاکم و قاضی نے بھی اس کے مفلس و دیوالیہ ہو جانے کا فیصلہ کر دیا اب بکر (یعنی بیچنے والے) نے دیکھا کہ زید کے پاس اس کا بیچا ہوا مال جوں کا توں موجود ہے یعنی نہ تو وہ ظاہری طور پر ضائع و ہلاک ہوا ہے اور نہ تصرفات شرعیہ مثلاً ہبہ و وقف کے ذریعہ معنوی طو پر ختم ہوا ہے تو اس صورت میں بکر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی کی ہوئی بیع کو فسخ کر دے اور زید سے اپنا مال واپس لے لے کیونکہ دوسرے قرض خواہوں کی بہ نسبت وہ مقدم ہے لہذا بجائے اس کے کہ وہ مال دوسرے قرض خواہ زید سے لیں بکر اس کے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔ اور اگر زید نے مال کی خریداری کے وقت قیمت کا کچھ حصہ ادا کر دیا ہو اور بقیہ حصہ ادا کرنے سے پہلے مفلس و دیوالیہ ہو گیا ہو تو اس صورت میں بکر اس مال کی اتنی ہی مقدار لے جو قیمت کے بقیہ حصہ کے بقدر ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک کا یہی مسلک ہے ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کا یہی مطلب بیان کیا جاتا ہے۔

لیکن حنفیہ کے نزدیک چونکہ اس صورت میں بیچنے والے کو نہ تو بیع فسخ کر دینے کا اختیار ہے اور نہ وہ مال واپس لے لینے کا حق اسے پہنچتا ہے اس لئے حنفیہ اس حدیث کو عقد بالخیار پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بیع اس شرط کے ساتھ ہوئی ہو کہ بیچنے والے کو فلاں مدت تک اس بیع کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہو گا چنانچہ بیع کے بعد اگر خریدار مفلس ودیوالیہ ہو جائے اور مدت خیار کے اندر بائع کو معلوم ہو گیا کہ خریدار مفلس و دیوالیہ ہو گیا ہے تو اب اس کے لئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ بیع کو فسخ کر دے اور اپنا مال واپس لے لے۔

مفلس ہو جانے والے کی امداد کرنے کا حکم

اور حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول کریم کے زمانے میں ایک شخص پھلوں کے سخت نقصان میں مبتلا ہو گیا جو اس نے خریدے تھے اور اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرضدار ہو گیا اس کی حالت دیکھ کر رسول کریم نے لوگوں سے فرمایا کہ صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کرو (تا کہ یہ قرض کے بوجھ سے ہلکا ہو) لوگوں نے صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کی مگر لوگوں کی مدد بھی اس کے قرض کی پوری ادائے گی کے لئے کافی نہ ہو سکی اس کے بعد آپ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں اس سے جو کچھ بھی حاصل ہو بس وہ لے لو اس سے اس کے علاوہ اور کچھ تمہیں نہیں ملے گا۔

 

تشریح

 

 اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت کے زمانے میں ایک شخص نے ایک پھل دار درخت خریدا اور درخت پر لگے ہوئے پھل ابھی اس کے تصرف میں نہیں آئے تھے سوء اتفاق سے ان پر آفت نازل ہوئی اور وہ سب جھڑ گئے ادھر اس نے اس کی قیمت بھی ادا نہیں کی تھی چنانچہ جب بیچنے والے نے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے لوگوں سے قرض لے کر وہ قیمت ادا کی اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرض دار ہو گیا۔ آنحضرت نے جب اس کی پریشان حالی دیکھی تو لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا کہ وہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ ہی اس کی مدد کریں تا کہ وہ قرض کے بار سے ہلکا ہو جائے۔ لوگوں نے اس کی مدد کی مگر ان کی مدد بھی اس کے قرض کی ادائے گی کے لئے کافی نہیں ہو سکی۔ لوگوں کی مدد سے جتنا قرض وہ ادا کر سکتا تھا اتنا ادا کر دیا بقیہ قرض کی ادائے گی سے جب وہ بالکل ہیں عاجز ہو گیا تو آنحضرت نے قرض خواہوں سے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو حدیث کے آخر میں نقل کئے گئے ہیں۔

چنانچہ قرض خواہوں سے آنحضرت کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اس شخص کا افلاس بالکل ظاہر ہو گیا ہے اور اس کی خستہ حالی عیاں ہو چکی ہے تو اب تمہارے لئے یہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ تم اسے پریشان کرو اسے ڈراؤ دھمکاؤ یا اسے قید و  بند کی مصیبت میں مبتلا کرو بلکہ اس صورت میں تم لوگوں پر واجب ہے کہ اسے مہلت دے دو جب دیکھو کہ اس کے پاس ادائے گی قرض کا کچھ سامان فراہم ہو گیا ہے اس وقت مطالبہ کرنا اور اس سے اپنا قرض واپس لے لینا آپ کے ارشاد کا یہ مطلب قطعاً نہیں تھا کہ قرضدار کے ذمہ سے قرض خواہوں کا حق ہی سرے سے ساقط ہو گیا ہے بلکہ جیسا کہ ابھی بتایا گیا اس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرض دار کو مہلت مل جائے۔

وصولیِ قرض میں در گزر کرنے کا اجر

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ایک شخص تھا جو لوگوں سے قرض لین دین کا معاملہ کرتا تھا (یعنی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا) اور اس نے اپنے کارندے سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کسی تنگدست کے پاس (قرض وصول کرنے جاؤ) تو اس سے در گزر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے در گزر فرمائے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی (یعنی اس کا انتقال ہو) تو اللہ تعالیٰ نے اس سے در گزر فرمایا (اور اس کے گناہوں پر مؤاخذہ نہیں کیا)

 

 

٭٭ اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے تو اسے چاہئے کہ وہ مفلس و تنگدست سے اپنا قرض وصول کرنے میں تاخیر کرے یا اس کو معاف کر دے (یعنی اپنا پورا قرض یا جس قدر ممکن ہو معاف کر دیے۔

 

تشریح

 

 یوں تو فرض اعمال نفل اعمال سے ستر درجے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں لیکن بعض مسائل و معاملات میں نفل اعمال فرض اعمال سے زیادہ فضیلت کے رکھتے ہیں انہیں میں سے ایک تو تنگدست و مفلس کو اپنا حق (مثلاً قرض وغیرہ) معاف کر دینا ہے کہ یہ اگرچہ مستحب ہے لیکن مفلس و تنگدست کو قرض وغیرہ ادا کرنے میں مہلت دینے سے افضل ہے جو واجب ہے دوسرے سلام کرنے میں پہل کرنا سنت ہے لیکن یہ افضل ہے سلام کا جواب دینے سے جو فرض ہے تیسرے وقت سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے لیکن یہ افضل ہے وقت شروع ہو جانے کے بعد وضو کرنے سے جو فرض ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو شخص اپنا مطالبہ وصول کرنے میں مفلس کو مہلت دے یا اس کو اپنا پورا مطالبہ یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے گا۔(مسلم)

 

 

٭٭ اور حضرت ابو الیسر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے جو شخص تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا (یعنی قیامت کے دن اسے گرمی کی تپش اور اس دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے گا (مسلم)

 

تشریح

 

 امام احمد، ابن ماجہ، اور حاکم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جو شخص مفلس و تنگدست کو مہلت دے تو ادائے گی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائے گی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے اور اس کی ادائے گی کا دن آنے تک ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائے گی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔

اس روایت کو تمثیلی طور پر یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی کو دو مہینے کے وعدے پر ایک سو روپے قرض دیئے اور دو مہینے کے بعد اس کی مفلسی و تنگدستی کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک مہینے کی مہلت دے دی تو اسے پورے مہینے اس طرح کا ثواب ملتا رہے گا کہ گویا وہ ہر دن ایک سو روپیہ صدقہ و خیرات کرتا ہے اسی طرح ایک مہینے کی مدت گزر جانے کے بعد دوبارہ مہلت دینے میں ایسا ہی ثواب ملتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب تیسری مرتبہ مہلت دے گا تو اسے ہر دن ایسا ثواب ملے گا جیسے کہ وہ ہر دن دو سو روپے صدقہ و خیرات کرتا ہے۔

خوبی کے ساتھ قرض ادا کرنے والا بہترین شخص ہے

اور حضرت ابو رافع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس زکوٰۃ کے اونٹ آئے تو ابو رافع کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس شخص کو کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ قرض لیا تھا ایسا ہی ایک اونٹ دیدوں میں نے عرض کیا کہ مجھے ایسا ہی اونٹ کوئی نظر نہیں آ رہا ہے البتہ ایک اونٹ ہے جو اس کے اونٹ سے اچھا ہے اور ساتویں برس میں لگا ہے (لہذا میں اس کے اونٹ سے اچھا اونٹ کیسے دیدوں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے اچھا ہی اونٹ دے دو کیونکہ لوگوں میں بہترین وہی شخص ہے جو ادائے گی قرض میں سب سے اچھا ہو (مسلم)

 

تشریح

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانور کا قرض لینا جائز ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور اکثر علماء کا مسلک ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے واضح ہوا کہ جو چیز قرض لی ہے اس کی واپسی میں اس کی بہ نسبت اچھی چیز دینا مستحب بھی ہے اور عالی ہمتی بھی بشرطیکہ قرض لیتے وقت اس کی شرط نہ کی گئی ہو۔

قرض خواہ تقاضہ کر سکتا ہے

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس اونٹ کا تقاضہ کیا (جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بطور قرض لیا تھا) اور تقاضہ بھی بڑی سخت کلامی کے ساتھ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے جب اس کو اس سخت کلامی اور آداب نبوت کے خلاف اس کی حرکت پر سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے البتہ ایسا کرو کہ ایک اونٹ خرید کر اسے دے دو تا کہ اس کا مطالبہ ادا ہو جائے اور اسے پھر کچھ کہنے کا حق نہ رہے) صاحبہ نے عرض کیا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور قرض جو اونٹ دیا تھا اس کی عمر کا کوئی اونٹ نہیں مل رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ عمر کا مل رہا ہے یعنی اس کا اونٹ چھوٹا اور کمتر تھا اور ہمیں جو اونٹ مل رہا ہے وہ اس کے اونٹ سے بڑا اور اچھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو اونٹ تمہیں مل رہا ہے اسی کو خرید لو (اگرچہ وہ اس کے اونٹ کی بہ نسبت بڑا اور اچھا ہے) اور اسے دے دو یاد رکھو تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرض ادا کرنے میں اچھا ہو (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے قرض کا تقاضہ کرنے والا اور پھر تقاضہ میں سخت کلامی کرنے والا کوئی کافر رہا ہو گا خواہ وہ یہودی ہو یا کوئی اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ شاید کوئی اجڈ گنوار و دیہاتی ہو گا جو مجلس نبوت اور مقام نبوت کے آداب سے مطلقاً بے بہرہ تھا جسے یہ سلیقہ بھی نہیں تھا کہ کس سے کس طرح بات کی جاتی ہے اس کے برعکس سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی باتوں کو جس عالی ظرفی اور خوش اخلاقی کے ساتھ برداشت کیا وہ صرف نبوت ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔

جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے، کے بارے میں ابن ملک فرماتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد قرض ہے یعنی اگر کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار ادائے گی قرض میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس سے سختی کے ساتھ تقاضہ کرے اس پر اظہار ناراضگی کرے اور اگر وہ پھر بھی قرض ادا نہ کرے تو حاکم و عدالت کی طرف رجوع کرے۔

ادائے گی قرض پر قادر ہونے کے باوجود قرض ادانہ کرنا ظلم ہے

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صاحب استطاعت کا ادائے گی قرض میں تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے تو اسے اس حوالہ کو قبول کر لینا چاہئے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کوئی چیز خریدے اور اس کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود قیمت ادا نہ کرے یا کسی کا قرض دار ہو اور ادائے گی قرض پر قادر ہونے کے باوجود (قرض ادا کرنے میں تاخیر کرے تو یہ ظلم ہے) بلکہ بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ یہ فسق ہے اور اس کی وجہ سے ایسے شخص کی گواہی رد ہوتی ہے اگرچہ یہ نادہندگی ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ظاہر ہوئی ہو لیکن بعض دوسرے علماء کا قول یہ ہے کہ اس شخص کی گواہی قابل رد ہے جو صاحب استطاعت ہونے کے باوجود بار بار نادہندگی میں مبتلا ہو اور ادائے گی میں تاخیر کرنا اس کی عادت بن چکی ہو۔

حدیث کے دوسرے جزء اور جب تم سے کسی کو صاحب استطاعت کے حوالہ کیا جائے الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار ادائے گی قرض پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے کسی مالدار شخص سے یہ کہے کہ تم میرا قرض ادا کر دینا تو قرض خواہ کو چاہئے کہ وہ قرضدار کی اس بات کو فوراً قبول کر لے تا کہ اس کا مال ضائع نہ ہو یہ حکم استحباب کے طور پر ہے لیکن بعض علماء کا قول ہے کہ یہ حکم بطریق وجوب ہے جب کہ کچھ علماء اس حکم کو بطریق اباحت کہتے ہیں

قرض خواہ و قرض دار کا تنازعہ ختم کرنا جائز ہے

اور حضرت کعب ابن مالک کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں (ایک دن) انہوں نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کی واپسی کا تقاضہ کیا یہاں تک کہ جب دونوں کی آوازیں بلند ہوئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اس وقت اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے ان دونوں کی آوازیں سنیں تو حجرہ سے باہر آنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کعب کعب بن مالک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ کے ذریعے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا نصف حصہ معاف کر دو کعب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم میں نے معاف کیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابن ابی حدرد سے فرمایا کہ اب اٹھ جاؤ اور باقی قرض ادا کر دو (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں کسی سے اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز ہے نیز حقدار سے سفارش کرنا جھگڑنے والوں میں صلح صفائی کرانا اور کسی کی سفارش قبول کرنا بشرطیکہ اس سفارش کا تعلق کسی معصیت و برائی سے نہ ہو جائز ہے۔

ادائے گی قرض میں تاخیر کرنے والوں کے لئے ایک عبرتناک واقعہ

اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں حاضر تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا، صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ جنازہ کی نماز پڑھ لیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے کہا کہ نہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں صحابہ نے عرض کیا کہ تین دینار اس نے چھوڑے ہیں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں تین دینار اس پر قرض ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں عرض کیا گیا کہ کچھ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ابو  قتادہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس کی نماز جنازہ پڑھ لیجئے اس کا قرض میں ادا کر دوں گا تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی (بخاری)

 

 

تشریح

 

 ہو سکتا ہے کہ تینوں جنازے ایک ہی دن اور ایک ہی مجلس میں لائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ الگ الگ دن اور الگ الگ مجلس میں یہ جنازے لائے گئے ہوں۔

دوسرے شخص پر جو فرض تھا اس کی مقدار انہیں تین دینار کے برابر رہی ہو گی جو وہ چھوڑ کر مرا تھا اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس شخص پر جتنا قرض ہے اس کی ادائے گی کے بقدر اثاثہ چھوڑ کر مرا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی۔

تیسرا چونکہ اپنے قرض کی ادائے گی کے بقدر مال چھوڑ کر نہیں مرا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا اس انکار کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ قرض سے پرہیز کریں اور اگر بدرجہ مجبوری قرض لیں تو اس کی ادائے گی میں تاخیر و تقصیر سے باز رہیں یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ میں اس کے لئے دعا کروں اور دعا قبول نہ ہو کیونکہ اس پر لوگوں کا حق تھا جس سے بری الذمہ ہوئے بغیر وہ مر گیا تھا۔

اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے ضامن ہونا جائز ہے خواہ میت نے ادائے گی قرض کے لئے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے بخلاف حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔

بعض حنفی علماء کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابو  یوسف اور حضرت امام محمد نے اس حدیث سے اس بات کا استدلال کیا ہے کہ اس میت کی طرف سے کفالت جائز ہے جس نے کچھ بھی مال نہ چھوڑا ہو اور اس پر قرض ہو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر میت کی طرف سے کفالت جائز نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس تیسرے جنازہ کی نماز نہ پڑھتے۔

لیکن حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ مفلس میت کی طرف سے کفالت صحیح نہیں ہے کیونکہ مفلس میت کی طرف سے کفالت دراصل دین ساقط کی کفالت ہے اور یہ بالکل صاف مسئلہ ہے کہ دین ساقط کی کفالت باطل ہے۔

اب رہی یہ بات کہ حضرت ابو قتادہ نے میت کی طرف سے اس کے قرض کی کفالت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو قتادہ کی کفالت کو تسلیم کر کے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی تو اس کے بارے میں امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ ابو قتادہ نے اس شخص کی زندگی ہی میں اس کی طرف سے کفالت کر لی ہو گی اس موقع پر تو انہوں نے صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس بات کا اقرار و اظہار کیا کہ میں اس کی کفالت پہلے ہی کر چکا ہوں اب میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس اقرار و اظہارپر نماز جنازہ پڑھی۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابو قتادہ نے اس وقت میت کی طرف سے کفالت کی نہیں تھی بلکہ از راہ احسان وتبرع یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں گا۔

قرض کو ادا کرنے کی نیت رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مدد کرتے ہیں

حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کا مال لے اور اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی کسی ضرورت و احتیاج ہی کی بناء پر قرض لے اور قرض کی ادائے گی کا ارادہ بھی رکھتا ہو اور اس کو ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہو) تو اللہ تعالیٰ اس سے وہ مال ادا کرا دیتا ہے (یعنی قرض کو ادا کرنے کی نیت رکھنے والے کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے بایں طور کہ یا تو دنیا میں قرض ادا کرنے کی استطاعت دے دیتا ہے یا آخرت میں حقدار کو راضی کر دیتا ہے) اور جو شخص لوگوں کا مال لے اور ضائع کرنے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی احتیاج و ضرورت کے بغیر کسی سے قرض لے اور پھر اس قرض کی ادائے گی کی نیت بھی نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو ضائع کر دیتا ہے (یعنی جو شخص کسی سے قرض لے اور اس قرض کو نہ ادا کرے اور نہ ادا کرنے کی نیت رکھے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ادائے گی قرض پر اس کی مدد نہیں کرتا اور اس کے رزق میں وسعت و فراخی عطاء نہیں کرتا بلکہ اس کا مال تلف و ضائع بھی کر دیتا ہے کیونکہ وہ ایک مسلمان کا مال ضائع کرنے کی نیت رکھتا ہے (بخاری)

اللہ تعالیٰ حقوق العباد معاف نہیں کرتا

اور حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں اس حال میں کہ میں صبر کرنے والا اور ثواب کا خواہش مند ہوں (یعنی میں دکھانے سنانے کی غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپر رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کر دے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ ہاں ! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقیناً معاف کر دے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سے جبرائیل نے یہی کہا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت اور کٹھن ہے اللہ تعالیٰ اپنے حقوق یعنی عبادات وطاعات میں کوتاہی اور گناہ و معصیت کو معاف کر دیتا ہے مگر بندوں کے حقوق یعنی قرض وغیرہ کو معاف نہیں کرتا نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک اللہ تعالیٰ کا صرف وہی پیغام نہیں پہنچاتے تھے جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی دیگر ہدایات و احکام پہنچاتے رہتے تھے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شہید کے تمام(صغیرہ اور کبیرہ) گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں مگر دین یعنی حقوق کی معافی نہیں ہوتی (مسلم)

 

تشریح

 

 دین سے مراد حقوق العباد ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر بندہ کا کوئی حق ہو یعنی خواہ اس کے ذمہ کسی کا مال ہو یا اس نے کسی کا ناحق خون کیا ہو یا کسی کی آبروریزی کی ہو یا کسی کو برا کہا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو تو اگر وہ شخص شہید بھی ہو جائے تب بھی یہ چیزیں معاف نہیں کی جائیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کسی حال میں معاف نہیں کرتا۔

لیکن ابن مالک کہتے ہیں کہ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ اس حدیث کا تعلق شہداء بر یعنی بری جنگ میں شہید ہونے والوں سے ہے بحری جنگ میں شہید ہونے والے اس سے مستثنی ہیں کیونکہ ابن ماجہ نے ابو امامہ کی یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بحری جنگ میں شہید ہونے والوں کے تمام گناہ حتی کہ دین (یعنی حقوق العباد) بھی بخشے جاتے ہیں۔

قرض دار کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اجتناب

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ) مسلمانوں سے فرماتے کہ تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے دروازے کھول دئیے اور مشرکین و کفار سے جنگ کے بعد غنیمت کی صورت میں مال و زر میں وسعت و کشادگی نصیب ہوئی) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دن خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں دین و دنیا کے تمام امور میں مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں لہذا جو مسلمان اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض ہو (اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکے) تو اس کے قرض کو ادا کرنے میں، میں ذمہ دار ہوں اور جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے تو اس مال سے اس کا قرض ادا کرنے کے بعد جو کچھ بچے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 میں (دین و دنیا کے تمام امور میں) مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز و محبوب رکھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خواہش کو اپنے نفس کے حکم اور اپنے نفس کی خواہش پر مقدم رکھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق کو اپنی جانوں کے حق سے مقدم جانیں اور ان کے قلوب اپنی جانوں کی شفقت و محبت سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شفقت و محبت سے لبریز ہوں اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی ذات پر جتنا شفیق و مہربان ہو سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے حق میں اس سے کہیں زیادہ شفیق و مہربان ہیں ایک مسلمان کی جان اس کی عزت و آبرو اور اس کا دین آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جتنا زیادہ عزیز و محبوب ہے اتنا خود اس کو نہیں ہے چنانچہ مسلمانوں پر یہ مال و زبر کے دروازے کھول دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ہرگز گوارا نہیں ہوا کہ اس مال و زر کو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رکھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تو سختی و تنگدستی کی سابقہ حالت پر ہی قناعت کی اور سارا مال و زر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کر دیا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا کہ اب جب کہ خدا نے مال و زر کے خزانے میرے تصرف میں دے دئیے ہیں تو میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ مسلمانوں کا مال و عزت و آبرو کا تحفظ کروں لہذا مسلمانوں کے قرض کی ادائے گی کے بقدر مال نہیں چھوڑ گیا ہے تو اس کا قرض میں ادا کروں گا۔

بعض حضرات تو یہ فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مردوں کے قرض کی ادائے گی بیت المال سے فرمایا کرتے تھے اور یہی بات زیادہ قرین قیاس ہے لیکن بعض علماء کا قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا قرض اپنے مال میں سے ادا کرتے تھے۔

اسی طرح بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مردوں کی طرف سے قرض کی ادائے گی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی اور بعض علماء کا قول یہ ہے کہ ان کا قرض ادا کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تبرعاً یعنی از راہ احسان و شفقت ان کے قرض کی ادائے گی کرتے تھے۔

دیوالیہ کا حکم

حضرت ابی خلدہ زرقی کہتے ہیں ہم حضرت ابو ہریرہ کے پاس اپنے ایک ساتھی کا معاملہ لے کر آئے جو مفلس ہو گیا تھا (مگر اس کے پاس لوگوں کا وہ سامان موجود تھا جس کی قیمت اس نے ادا نہیں کی تھی) ہم نے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا کہ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ اس شخص کا معاملہ بالکل اس شخص جیسا ہے کہ جس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا کہ جو شخص مر جائے یا مفلس ہو جائے اور اس کے ذمے لوگوں کے مطالبات ہوں) تو جس شخص کا مال اس کے پاس ہے وہی شخص اس مال کا زیادہ حقدار ہے بشرطیکہ وہ مال جوں کا توں موجود ہو۔ اس کی وضاحت کے لئے اسی باب کی پہلی فصل میں حدیث نمبر ١ دیکھئے!(شافعی ابن ماجہ)

قرض دار کی روح قرض کی ادائے گی تک معلق رہتی ہے

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے (یعنی جب کوئی شخص قرضدار مرتا ہے تو اس کی روح اس وقت تک بندگان صالح کی جماعت میں داخل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے (شافعی احمد ترمذی ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جو قرض اپنی ادائے گی کے وقت تک مؤمن کی روح کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے روکتا ہے وہ قرض وہ ہے جو بلا ضرورت واقعی مال و زر کی صورت میں کسی سے لیا گیا ہو اور وہ مال و زر واہیات اور فضول کاموں میں خرچ کیا گیا ہو اور اسے اسراف کے طور پر لٹایا گیا ہو ہاں جس شخص نے اپنی واقعی ضرورت کے لیے مثلاً حقوق واجبہ کی تکمیل یا کسی کے مالی مطالبہ کی ادائے گی کے بقدر ضرورت روپیہ یا مال قرض لیا ہو اور پھر قرض دار اسکو ادا کرنے سے پہلے مر گیا ہو تو ایسا قرض اس کو جنت اور بندگان صالح کی جماعت میں داخل ہونے سے ان شاء اللہ نہیں روکے گا مگر ایسے قرض کے بارے میں سلطان وقت یعنی حاکم (یا قرضدار کے متعلقین میں مستطیع لوگوں) کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ اس کا قرض ادا کر دیں اور اگر کوئی بھی اس کا قرض ادا نہیں کرے گا تو پر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں قرض خواہوں کو راضی کر دے گا تا کہ وہ اس قرض دار سے آخرت میں کوئی مطالبہ نہ کریں۔

قرض دار کی روح قرض کی ادائے گی تک معلق رہتی ہے

اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کر دیا جائے گا (یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا) چنانچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کریگا (شرح السنۃ)

منقول ہے کہ حضرت معاذ بن جبل قرض لیا کرتے تھے ایک مرتبہ ان کے قرض خواہ اپنے قرض کی وصولی کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ کا سارا مال و اسباب ان کے قرض کی ادائے گی کے لئے بیچ ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاذ مفلس ہو گئے یہ حدیث مرسل ہے اور یہ الفاظ مصابیح کے نقل کردہ ہیں مشکوٰۃ کے مؤلف کہتے ہیں کہ) مجھے یہ روایت اصول یعنی صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں ملی ہے البتہ یہ روایت منتقی میں ملی ہے اور وہ بھی اس طرح ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ایک سخی جوان تھا اور اپنی سخاوت کی وجہ سے کوئی مال و اسباب اپنے پاس نہیں رکھتے تھے (کیونکہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ سب دوسروں کو دے دیا کرتے تھے) اسی وجہ سے وہ ہمیشہ قرض لیتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال و اسباب قرض کی نذر کر دیا۔ پھر وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کی خواہش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے قرض خواہوں سے سفارش کر دیں کہ وہ سارا قرض یا قرض کا کچھ حصہ معاف کر دیں) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے قرض خواہوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی مگر انہوں نے کچھ بھی معاف نہیں کیا اور اگر وہ کسی کا قرض معاف کر سکتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے معاذ کا قرض ضرور معاف کر دیتے (لہذا جب انہوں نے معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان قرض خواہوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے معاذ کا سارا مال و اسباب بیچ دیا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے معاذ مفلس ہو گئے سعید نے اس روایت کو اپنی سنن میں بطریق ارسال نقل کیا ہے (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کریگا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص کو نہ تو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی اور نہ نیک بخت لوگوں کی صحبت میں اسے جانے دیا جائے گا اور اس طرح جب وہ یہ دیکھے گا کہ تمام ہی نیک بخت لوگ تو جنت میں جا رہے ہیں اور میں ایسا بدبخت ہوں کہ ان کی رفاقت و صحبت کی سعادت سے بھی محروم ہوں نیز اسے کوئی ایسا سفارشی بھی نظر نہیں آئے گا جو اسے اس قید تنہائی سے نجات دلائے تو وہ اپنی تنہائی اور اس قید کی وحشت سے مضطرب ہو کر بارگاہ خداوندی میں شکوہ کرے گا چنانچہ جب تک وہ قرض کی وجہ سے چھٹکارا نہ پا جائے گا بایں طور کہ یا تو وہ اس قرض کے عوض میں اپنی نیکیاں قرض خواہوں کو دے دے یا قرض خواہوں کے گناہوں کو ان کے قرض کے عوض اپنے اوپر لاد لے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے قرض خواہوں کو راضی کر دے اور وہ اپنا حق معاف کر دیں اس وقت تک وہ اسی تنہائی میں رہے گا گویا یہ تنہائی بھی اس کے لئے ایک عذاب کے درجے کی چیز ہو گی جس سے وہ سخت رنج و اذیت محسوس کریگا۔

ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے اپنی قبر میں قید کیا جائے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی قید تنہائی کا شکوہ کریگا۔

اصول ان کتابوں کو کہتے ہیں جن میں حدیثیں سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں منتقی ابن تیمی کی ایک کتاب کا نام ہے لہذا مشکوٰۃ کے مؤلف روایت کے الفاظ لم اجد الخ کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مصابیح کے مصنف نے یہ روایت وروی ان معاذا کان الخ جن الفاظ میں نقل کی ہے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مجھے اصول کی کتابوں میں نہیں ملی ہے بلکہ یہ روایت منتقی میں منقول ہے اور وہ بھی ان الفاظ میں وعن عبد الرحمن الخ۔

علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ منتقی کے ہیں اور ان کو یہاں مؤلف مشکوٰۃ نے اس لئے نقل کیا ہے تا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ حدیث اگرچہ اصول کی ان کتابوں میں نہیں ہے جنہیں مؤلف نے دیکھا ہے لیکن منتقی میں موجود ہے لہذا یہ روایت اگر اصول کی کتابوں میں نہ ہوتی تو صاحب منتقی اس کو اپنی کتاب میں نقل نہ کرتے

بلا عذر قرض ادا نہ کرنے والا مستطیع شخص قابل ملامت ہے

اور حضرت شرید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مستطیع شخص کا ادائے گی قرض میں تاخیر کرنا اس کی بے آبروئی اور اسے سزا دینے کو حلال کرنا ہے ابن مبارک فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی بے آبروئی کا حلال ہونا یہ ہے کہ اسے ملامت کی جائے اور اسے سزا دینا یہ ہے کہ اس کو قید کر دیا جائے (ابو داؤد نسائی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت اور مالدار ہونے کے باوجود بلا عذر اپنے قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرے تو اس کی آبروریزی بھی مباح ہے اور اس کو سزا دینا بھی درست ہے کیونکہ اس کی طرف سے بلا عذر ادائے گی قرض میں ٹال مٹول اور تاخیر ایک طرح کا ظلم ہے۔ آبروریزی کا مطلب تو یہ ہے کہ اسے سرزنش کی جائے اور اسے برا بھلا کہا جائے اور اس کو سزا دینے کا مطلب یہ ہے کہ حاکم و عدالت سے چارہ جوئی کر کے اسے قید خانہ میں ڈلوا دیا جائے۔

قرض دار مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے سے آنحضرت کا انکار

اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نماز پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنازہ لانے والوں سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اس ساتھی پر قرض بھی ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر پوچھا کہ کیا یہ شخص اپنے قرض کی ادائے گی کے بقدر مال چھوڑ گیا ہے جواب دیا گیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر تم لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھ لو میں نہیں پڑھوں گا حضرت علی نے یہ سن کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے قرض کی ادائے گی میں اپنے ذمہ لیتا ہوں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم آگے بڑھے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ ایک روایت میں جو اسی مضمون کی منقول ہے (مگر اس کے الفاظ اس سے مختلف ہیں) یہ الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جان کو دوزخ کی آگ سے اسی طرح نجات دے جس طرح تم نے اپنے ایک مسلمان بھائی کی جان کو قرض کے بوجھ سے نجات دی (یاد رکھو) جو بھی مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کا قرض ادا کریگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جان کو نجات دے گا (شرح السنۃ)

قرض کے بوجھ سے ہلکا ہو کر مرنے والے کے لئے بشارت

اور حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ تکبر خیانت اور قرض سے پاک ہو تو وہ مقبول بندوں کے ساتھ جنت میں داخل ہو گا (ترمذی ابن ماجہ دارمی)

بالکل مفلسی کی حالت میں قرض دار مرنا ایک بڑا گناہ ہے

اور حضرت ابو موسیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبیرہ گناہ کہ جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اللہ کے نزدیک ان کے بعد عظیم ترین گناہ کہ جس کا مرتکب ہو کر بندہ خدا سے ملے یہ ہے کہ کوئی شخص اس حالت میں مرے کہ اس پر قرض کا بوجھ ہو اور اس نے اپنے پیچھے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو جائے (احمد ابو داؤد)

 

تشریح

 

 بالکل مفلسی کی حالت میں قرض کا بوجھ لے کر مرنے کے گناہ کو گناہ کبیرہ کے بعد کا درجہ اس لئے دیا گیا ہے کہ گناہ کبیرہ تو بذات خود ممنوع ہے لیکن قرض لینا بذات خود ممنوع نہیں ہے کہ وہ گناہ کبیرہ ہو بلکہ بعض احادیث میں تو (اپنی واقعی ضروریات کی تکمیل کے لئے) قرض لینے کو مستحب کہا گیا ہے چنانچہ بعض مواقع پر قرض کی جو ممانعت منقول ہے وہ اس عارض کی بناء پر ہے کہ بسا اوقات قرض لینے میں لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں یعنی قرض لینے والا جب قرض کی ادائے گی نہیں کرتا تو قرض خواہ کا مال بلاوجہ ضائع ہو جاتا ہے اس صورت میں قرض لینا گناہ بن جاتا ہے۔

بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں منقول گناہ کبیرہ کی اگر یہ وضاحت کر دی جائے کہ ایسے گناہ کبیرہ جو مشہور ہیں جیسے شرک اور زنا وغیرہما تو مطلب یہ ہو گا کہ بالکل مفلسی کی حالت میں قرض دار مرنے کے گناہ کا درجہ مشہور کبیرہ گناہ جیسے شرک وغیرہ کے بعد ہے اس صورت میں یہ بھی مشہور کبیرہ گناہوں کے علاوہ دوسرے کبیرہ گناہوں کے زمرہ میں آ جائے گا

حرام چیزوں میں صلح ناجائز ہے

اور حضرت عمر بن عوف مزنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے ہاں وہ صلح جائز نہیں ہے جو حلال چیز کو حرام یا حرام چیز کو حلال کر دے اور مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں (یعنی مسلمان صلح و جنگ یا ان کے علاوہ دوسرے معاملات میں آپس میں جو شرطیں یعنی عہد و پیمان کرتے ہیں ان کی پاسداری و پابندی ضروری ہے) ہاں اس شرط کی پابندی جائز نہیں ہے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال کر دے (ترمذی ابن ماجہ)

 

 تشریح

 

 ناجائز صلح کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص اس بات پر صلح کرے کہ میں بیوی کی سوکن سے جماع نہیں کروں گا یہ صلح درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینا لازم آتا ہے جو بالکل جائز اور حلال ہے اسی طرح وہ صلح بھی جائز نہیں ہے جو حرام چیز کو حلال کر دے مثلاً کوئی اس بات پر صلح کرے کہ میں شراب پیوں گا یا سور کھاؤں گا اس میں ایک چیز کو اپنے لئے حلال سمجھ لینا ہے جو قطعاً حرام ہے۔

جس طرح کی پاسداری و پابندی جائز نہیں ہے اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ شرط و عہد کر لے کہ میں اپنی لونڈی سے جماع نہیں کروں گا اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لینے کی شرط ہے جو حلال ہے یا مثلاً کوئی اس بات کی شرط کرے کہ میں اپنی بیوی کی موجودگی میں اس کی بہن سے شادی کر لوں گا اس شرط و عہد کی پاسداری بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک ایسی چیز کو اپنے لئے حلال قرار دے لینا لازم آتا ہے جو قطعاً حرام ہے۔

بظاہر یہ حدیث اس باب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی لیکن چونکہ مؤلف کتاب نے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے اس لئے کہا جائے گا کہ خرید و فروخت کے معاملات میں مفلس و دیوالیہ ہو جانے کے وقت اکثر صلح و شرائط کی نوبت آتی ہے اس لئے اس مناسبت سے اس حدیث کو یہاں نقل کیا ہے

آنحضرت کا پائجامہ خریدنا

حضرت سوید بن قیس کہتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی نے مقام ہجر سے (جو مدینہ کے قریب واقع ہے) بیچنے کے لئے کپڑا لیا اور اسے لے کر مکہ میں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (کو جب یہ معلوم ہوا کہ ہم بیچنے کے لئے کپڑا لے کر مکہ آئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم) بہ نفس نفیس چل کر (بغیر سواری کے) ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پائجامہ خریدا چنانچہ جب ہم نے وہ پائجامہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیچا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے کہ جو اس جگہ اجرت پر لوگوں کے اسباب تولا کرتا تھا فرمایا کہ تم میرے چاندی کے یہ ٹکڑے) تول دو تاکہ میں یہ ٹکڑے اس پائجامہ کی قیمت کے طور پر دیدوں) اور جتنے ٹکڑوں کی بات طے ہوئی ہے اس سے کچھ زیادہ ہی تول دینا) احمد ابو داؤد)

 

تشریح

 

 ابو لیلی نے اپنی سند میں حضرت ابو ہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پائجامہ چار درہم کے عوض خرید فرمایا تھا احادیث سے صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پائجامہ خریدنا ثابت ہوتا ہے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پائجامہ پہنا بھی تھا۔

اس حدیث میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تواضع و انکساری کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پائجامہ خریدنے کے لیے بہ نفس نفیس تشریف لے گئے تھے وہیں اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال اخلاق وکرم فرمائی کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پائجامہ بیچنے والے کو طے شدہ قیمت سے زائد مال عنایت فرمایا۔

یہ حدیث بھی بظاہر اس باب کے موضوع سے متعلق نہیں ہے الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ بعض وقت بیچنے والے کے افلاس اور اس کی خستہ حالت کی وجہ سے اس کو از راہ احسان و بھلائی متعینہ قیمت سے کچھ زائد بھی دے دیا جائے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں نقل کی گئی ہے۔

قرض کی واپسی میں غیر مشروط زیادتی جائز ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر میرا کچھ قرض تھا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ قرض واپس کیا تو مجھے کچھ زیادہ دیا (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی کا کوئی مطالبہ (مثلاً قرض وغیرہ) ادا کرے اور اپنی طرف سے کچھ زیادہ بھی دے دے بشرطیکہ وہ زیادتی سرے سے مشروط نہ ہو تو یہ درست ہے۔ اس زیادتی کو سود نہیں کہیں گے۔ کیونکہ سود تو اس زیادتی کو کہتے ہیں کہ جو قرض خواہ قرض دیتے وقت مشروط کر دے مثلاً ایک سو روپیہ ایک متعین مدت کے وعدے سے بطور قرض کسی کو دے اور یہ شرط عائد کر دے کہ اس قرض کی واپس کے وقت دس روپیہ مزید لوں گا یہ قطعاً حرام ہے۔

ادائے گی قرض کا جلد انتظام کرو

اور حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ایک موقع پر چالیس ہزار (درہم) قرض لئے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک بڑی مقدار میں مال آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے (وہ سب مال یا اس مال میں سے میرے قرض کے بقدر) دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور تمہارے اموال میں برکت عطاء فرمائے قرض کا بدلہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ (جب قرض مل جائے تو) شکر و ثنا کی جائے اور جلد سے جلد اس کی ادائے گی کا انتظام کیا جائے (نسائی)

مہلت دینے والے کو ثواب

اور حضرت عمران بن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کا کسی پر کوئی حق (یعنی قرضہ وغیرہ) ہو اور وہ اس کو وصول کرنے میں تاخیر کرے یعنی قرض دار کو مہلت دے تو اسے دی ہوئی مہلت کے ہر دن کے بدلے صدقہ کا ثواب ملے گا (احمد)

دین میراث پر مقدم ہے

اور حضرت سعد بن اطول کہتے ہیں کہ جب میرا بھائی مرا تو اس نے تین سو دینار اور چھوٹے چھوٹے لڑکے چھوڑے تھے چنانچہ میں نے چاہا کہ ان تین سو دیناروں کو اس کے چھوٹے بچوں پر خرچ کر دوں اور اس کا قرض ادا نہ کروں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے عالم برزخ میں محبوس کر دیا گیا ہے جس کے سبب وہ وہاں کی نعمتوں اور صلحاء کی صحبت سے محروم ہے لہذا تم اس کا قرض ادا کر دو حضرت سعد کہتے ہیں کہ یہ سنتے ہی میں گھر آیا اور اپنے بھائی کا قرض ادا کیا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے اپنے بھائی کا قرض ادا کر دیا ہے اب کسی کا کوئی مطالبہ باقی نہیں ہے ہاں ایک عورت باقی رہ گئی ہے جو دو دینار کا دعوی کر رہی ہے لیکن اس کا گواہ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسکو بھی دو دینار دے دو وہ سچی عورت ہے (احمد)

 

تشریح

 

 یا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سعد کے بھائی کے قرض کا حال بغیر وحی کے کسی اور ذریعے سے معلوم ہوا ہو گا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد کو اس کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا کیونکہ حاکم کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی معلومات پر اعتماد کرتے ہوئے حکم جاری کر دے یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے اس کے قرض کا حال معلوم ہوا ہو گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دین میراث پر مقدم ہے یعنی مرنے والے کے مال و زر میں سے پہلے لوگوں کے وہ مطالبات ادا کئے جائیں جو اپنے ذمہ چھوڑ گیا ہو اس کے بعد جو کچھ بچے وہ وارثوں میں تقسیم کیا جائے۔

بار بار کی شہادت بھی قرض کا کفارہ نہیں ہو سکتی

اور حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب اس صحن میں بیٹھے ہوۓ تھے جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے ہمارے درمیان رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور ادھر دیکھا پھر اپنی نظر جھکا لی اور اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر انتہائی تعجب کے عالم میں فرمایا کہ سبحان اللہ سبحان اللہ کس قدر سختی نازل ہوئی ہے راوی کہتے ہیں کہ ہم خاموش رہے یعنی ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی سوال نہیں کیا) یہاں تک کہ وہ پورا دن گزرا پوری رات گزری اور ہمیں اچھائی کے علاوہ کوئی سخت بات نظر نہیں آئی یعنی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے یہ سمجھے کہ شاید اسی وقت کوئی عذاب نازل ہونے والا ہے یا کوئی سخت مصیبت آنے والی ہے مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہونے والا ہے یا کوئی سخت مصیبت مگر وہ پورا دن گزر گیا پوری رات گزر گئی نہ کوئی عذاب نازل ہوا اور نہ کوئی مصیبت پیش آئی تاآنکہ صبح ہو گئی حدیث کے راوی محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی ہے اور جس کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اتنے تعجب کے ساتھ کل فرمایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دین یعنی قرض وغیرہ کے بارے میں وہ سختی نازل ہوئی ہے قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں یعنی جہاد کرتے ہوئے مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو پھر اللہ کی راہ میں مارا جائے اور پھر زندہ ہو اور اس پر قرض ہو تو وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے یعنی اگر کوئی قرض دار بار بار بھی اللہ کی راہ میں مارا جائے تو یہ بار بار کی شہادت بھی اس کے قرض کا کفارہ نہیں ہو سکتی) اس روایت کو امام احمد نے نقل کیا ہے نیز شرح السنہ میں بھی اسی طرح کی حدیث منقول ہے (جس کا مضمون تو یہی ہے مگر الفاظ دوسرے ہیں)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ جنازہ کی نماز مسجد میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ مسجد سے باہر دوسری جگہ پڑھتے تھے۔

شرکت اور وکالت کا بیان

لغت میں شرکت کے معنی ہیں ملانا لیکن اصطلاح شریعت میں شرکت کہتے ہیں دو آدمیوں کے درمیان ایک ایسا مثلاً تجارتی عقد و معاملہ ہونا جس میں وہ اصل اور نفع دونوں میں شریک ہوں۔

شرکت کی دو قسمیں ہیں شرکت ملک اور شرکت عقد شرکیت ملک اسے کہتے ہیں کہ دو آدمی یا کئی آدمی بذریعہ خرید یا ہبہ یا میراث کسی ایک چیز کے مالک ہوں یا دو شخص مشترک طور پر کسی مباح چیز کو حاصل کریں مثلاً دو آدمی مل کر شکار کریں اور وہ شکار دونوں کی مشترک ملکیت ہو یا دو آدمیوں کا ایک ہی جنس کا الگ الگ مال ایک دوسرے میں اس طرح مل جائے کہ ان دونوں کے مال کا امتیاز نہ ہو سکے۔ مثلاً زید کا دودھ بکر کے دودھ میں مل جائے یا وہ دونوں اپنے اپنے مال کو قصداً ایک دوسرے کے مال میں ملا دیں یہ سب شریک ملک کی صورتیں ہیں۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ ہر شریک اپنے دوسرے شریک کے حصے میں اجنبی آدمی کی طرح ہے اور ہر شریک اپنا حصہ اپنے دوسرے شریک کی اجازت کے بغیر اس شریک کو یا کسی دوسرے شخص یعنی غیر شریک کو فروخت کر سکتا ہے البتہ آخری دونوں صورتوں میں (یعنی ایک دوسرے کے مال کے آپس میں مل جانے یا اپنے اپنے مال کو ایک دوسرے کے مال میں قصداً ملا دینے کی صورت میں کوئی بھی شریک اپنا حصہ کسی دوسرے شخص یعنی غیر شریک کو اپنے دوسری شریک کی اجازت کے بغیر نہیں بیچ سکتا۔

شرکت عقد کا مطلب ہے شرکاء کا ایجاب و قبول کے ذریعے اپنے اپنے حقوق و اموال کو متحد کر دینا اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک دوسرے سے یہ کہے کہ میں نے اپنے فلاں حقوق اور فلاں معاملات یعنی تجارت وغیرہ میں تمہیں شریک کیا اور دوسرا کہے کہ میں نے قبول کیا اس طرح شرکت عقد کا رکن تو ایجاب و قبول ہے اور اس کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ معاہدہ شرکت میں ایس کوئی دفعہ مطلقاً شامل نہ ہو جو شرکت کے بنیادی اصولوں کو فوت کر دے جیسے شرکاء میں سے کسی ایک کا فائدے میں سے کچھ حصے کو اپنے لئے متعین و مخصوص کر لینا مثلاً کسی تجارت میں دو آدمی شریک ہوں اور ان میں سے کوئی ایک شریک یہ شرط عائد کر دے کہ اس تجارت سے حاصل ہونے والے فائدے میں سے پانچ سو روپے ماہوار لیا کروں گا۔ یہ شرک مشترک و متحد معاملات کے بالکل منافی ہے جو شرکت کے بنیادی اصول و مقاصد ہی کو فوت کر دیتی ہے اس لیے معاہد شرکت میں ایس کسی دفعہ کا شامل نہ ہونا شرکت کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے۔

پھر شرکت عقد کی چار قسمیں ہیں (١) شرکت مفاوضہ (٢) شرکت عنان (٣) شرکت صنائع والتقبل (٤) اور شرکت وجوہ

شرکت مفاوضہ تو یہ ہے کہ دو شخص یہ شرط کریں یعنی آپس میں ٹھہرا لیں کہ مال میں تصرف میں مفاوضہ میں دونوں شریک رہیں گے لیکن اس شرکت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ دونوں دین و مذہب میں بھی یکساں اور برابر ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت کو لازم کر دیتی ہے یعنی شرکت مفاوضہ میں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل اور کفیل ہوتے ہیں لہذا یہ شرکت مسلمان اور ذمی کے درمیان جائز نہیں ہوتی کیونکہ دین و مذہب کے اعتبار سے دونوں مساوی اور یکساں نہیں ہیں اسی طرح غلام اور آزاد کے درمیان اور بالغ و نابالغ کے درمیان بھی یہ شرکت جائز نہیں کیونکہ یہ تصرف میں مساوی و یکساں نہیں ہیں۔

اس شرکت کے معاہدہ و شرائط میں لفظ مفاوضت یا اس کے تمام مقتضیات کو بیان و واضح کر دینا ضروری ہے اس شرکت میں عقد و معاہدہ کے وقت شرکاء کا اپنا اپنا مال دینا یا اپنے اپنے مال کو ملانا شرط نہیں ہے۔ اس شرکت میں شرکاء چونکہ ایک دوسرے کے کفیل و وکیل ہوتے ہیں اس لئے اگر اس میں کوئی بھی اپنے بال بچوں کے کھانے اور کپڑے کے علاوہ جو کچھ خریدے گا وہ تمام شرکاء کی ملکیت ہو گا۔

حضرت امام محمد کے نزدیک شرکت مفاوضت اور عنان صرف ایسے سرمایہ اور مال میں صحیح ہو سکتی ہے جو روپے اشرفی اور رائج الوقت سکوں کی شکل میں ہو ہاں سونے اور چاندی کے ڈلوں اور ٹکڑوں میں بھی جائز ہے بشرطیکہ ان کے ذریعے لین دین ہوتا ہو اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک وارث یا کسی اور ذریعے سے کسی ایسے مال کا مالک ہوا جس میں مفاوضت درست ہو سکتی ہے جیسے روپے اور اشرفی وغیرہ تو شرکت مفاوضت باطل ہو کر شرکت عنان ہو جائے گی اور اگر شرکاء میں سے کوئی ایک کسی ایسے مال کا وارث ہو گیا جس میں شرکت مفاوضت نہیں ہو سکتی جیسے اسباب مکان اور زمین وغیرہ تو شرکت مفاوضت باقی رہے گی۔

شرکت عنان یہ ہے کہ دو آدمی ایک خاص طور کے معاملے مثلاً تجارت میں شریک ہوں اور وہ دونوں مذکورہ بالا چیزوں یعنی تصرف اور دین و مذہب وغیرہ میں یکساں و برابر ہوں یا یکساں و برابر نہ ہوں یہ شرکت ایک دوسرے کی وکالت کو تو لازم کرتی ہے مگر کفالت کو لازم نہیں کرتی۔ ہاں شرکاء ایک دوسرے کے وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ کفیل و امین بھی ہوتے ہیں مگر اسی کام میں جس میں وہ شریک ہوں۔

شرکت صنائع والتقبل یہ ہے کہ دو پیشہ ور مثلاً دو درزی یا دو رنگریز اس شرط پر شرکت میں کام کریں کہ دونوں شریک کام لیں گے اور دونوں اس کام کو مل جل کر کریں گے اور پھر جو اجرت حاصل ہو گی اسے دونوں تقسیم کریں گے۔ اگر ان کے معاہدہ شرکت میں یہ شرط ہو کہ کام تو دونوں آدھوں آدھ کریں گے مگر نفع میں سے ایک تو دو تہائی لے گا اور دوسرا ایک تہائی تو یہ شرط جائز ہے۔ دونوں شرکاء میں سے جو بھی کسی کا کام لے گا اس کو کرنا دونوں کے لئے ضروری ہو گا یہ نہیں کہ جس شریک نے کام لیا ہو وہی اسے کرے بھی اسی طرح ان کے یہاں کام کرانے والا دونوں شرکاء میں سے کسی سے بھی اپنا کام طلب کر سکتا ہے ایسے ہی دونوں شرکاء میں سے ہر ایک کو مساوی طور پر یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ کسی بھی کام کی اجرت حاصل کر لے اور ان میں سے کسی ایک کو اجرت دینے والا بری الذمہ ہو جائے گا۔ کام کے منافع اور کمائی میں دونوں شریک حصہ دار ہوں گے خواہ کام دونوں کریں یا صرف ایک کرے۔

شرکت وجوہ یہ ہے کہ ایسے دو آدمی جن کے پاس اپنا کوئی سرمایہ اور مال نہ ہو اس شرط پر مشترک کاروبار کریں کہ دونوں اپنی اپنی حیثیت اور اپنے اپنے اعتبار پر قرض سامان لا کر فروخت کریں گے اور اس کا نفع آپس میں تقسیم کریں گے۔ اگر ان دونوں کی شرکت میں مفاوضت کی شرط ہو گی تو وہ صحیح ہو جائے گی اور اگر وہ شرکت کو بلا شرط مفاوضت یعنی مطلق رکھیں گے تو ان کی یہ شرکت بطور عنان ہو گی یہ شرکت تجارت کے لئے خریدے گئے مال میں وکالت کو لازم کرتی ہے یعنی وہ اپنے یہاں فروخت کرنے کے لئے جو مال خرید کر لائیں گے اس میں وہ ایک دوسرے کے وکیل ہوں گے لہذا اگر دونوں میں یہ شرط طے پائی ہو کہ تجارت کے لیے جو مال خریدا جائے گا وہ دونوں کا آدھوں آدھ ہو گا تو اس کے نفع میں بھی دونوں آدھوں آدھ کے حقدار ہوں گے اور اگر یہ شرط طے پائے کہ جو مال خرید کر لایا جائے گا اس میں سے ایک تو نفع میں دو حصے لے لے اور دوسرا ایک حصہ لے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نفع کا استحقاق ضمان یعنی ذمہ داری کی وجہ سے ہوتا ہے اور ضمان اس خریدی ہوئی چیز کی ملک کے تابع ہے مثلاً اگر ان میں سے کوئی مال کے نصف حصہ کا مالک بنا ہے تو اسے نصف قیمت ادا کرنی ہو گی اور جو دو حصوں کا مالک بنا ہے اسے دو حصوں کی قیمت ادا کرنی ہو گی اس لیے نفع بھی ملکیت کے مطابق ہی قرار پائے گا جو جتنے حصہ کا مالک بنے گا اسے اتنا ہی نفع ملے گا اور اس چیز میں شرکت جائز نہیں ہے جس میں وکالت صحیح نہ ہوتی ہو جیسے لکڑی کاٹنا گھاس کھودنا، شکار کرنا اور پانی لانا دونوں میں سے جو شخص پانی لائے گا وہی اس کا مالک ہو گا اگر دوسرا اس میں اس کی مدد کرے گا تو وہ رائج اجرتوں کے مطابق اپنی اجرت پانے کا مستحق ہو گا۔

وکالت کے معنی ہیں اپنے حقوق و مال کے تصرف یعنی لینے دینے میں کسی دوسرے کو اپنا قائم مقام بنانا وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ مؤکل یعنی کسی دوسرے کو اپنا وکیل بنانے والا) تصرف یعنی لین دین کا مالک ہو اور جس شخص کو وکیل بنایا جا رہا ہو وہ اس معاملہ کو جانتا ہو جس میں وہ وکیل بنایا گیا ہے۔

اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز ہے اس میں دوسرے کو وکیل کرنا بھی جائز اور جو معاملہ آدمی کو خود کرنا جائز نہیں ہے اس میں وکیل کرنا بھی جائز نہیں ہے مثلاً کوئی شخص شراب یا سور وغیرہ حرام چیزوں کی خرید و فروخت کے لئے کسی کو وکیل کر دے تو یہ درست نہیں ہو گا تمام حقوق کو ادا کرنے اور ان کے حاصل کرنے میں وکیل کرنا جائز ہے اسی طرح حقوق پر قبضہ کرنے کے لئے بھی وکیل کرنا جائز ہے مگر حدود اور قصاص میں جائز نہیں ہے کیونکہ ان کی انجام دہی پر باوجود مؤکل کے اس جگہ موجود نہ ہونے کے لئے وکالت درست نہیں ہوتی۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ حقوق کی جواب دہی کے لئے وکیل کرنا فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر جائز نہیں ہے ہاں اگر مؤکل بیمار ہو یا تین منزل کی مسافت یا اس سے زائد کی دوری پر ہو تو جائز ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کہتے ہیں کہ فریق ثانی کی رضا مندی کے بغیر بھی حقوق کی جاب دہی کے لئے وکیل کرنا جائز ہے

شرکت اور وکالت کے بارے میں یہ چند اصول و مسائل فقہ کی کتابوں سے تلخیص کر کے لکھ دئیے ہیں مزید تفصیل کے لئے اہل علم فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔

 

عقود میں شرکت جائز ہے

 حضرت زہرہ ابن معبد (تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ ان کو ان کے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام بازار لے جایا کرتے تھے جہاں وہ غلہ خریدا کرتے تھے چنانچہ (جب وہ غلہ خرید لیتے تو) وہاں انکو حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر ملتے اور وہ دونوں ان سے کہتے کہ ہم کو اپنا شریک بنا لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہارے لئے برکت کی دعا کی ہے (حضرت زہرہ کہتے ہیں کہ میرے دادا انکو شریک کر لیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کی برکت سے انکو بلا کسی نقصان و خسارہ کے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر غلہ کا فائدہ ہوتا تھا جسے وہ اپنے گھر بھیج دیا کرتے تھے۔ اور انکے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دعا کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن ہشام کی والدہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور ان کے لئے برکت کی دعا کی (بخاری)

انصار کے مال میں مہاجرین کی شرکت

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب مکہ سے مہاجرین مدینہ آئے تو انصار یعنی مدینہ کے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں درختوں کو تقسیم نہیں کروں گا تم ہی لوگ ہماری یعنی مہاجرین کی طرف سے بھی محنت کر لیا کرو ہم پیداوار میں تمہارے شریک رہیں گے۔ انصار نے کہا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس بات کو بسر و چشم قبول کرتے ہیں (بخاری)

 

تشریح

 

 جب مکہ کے مسلمانوں پر ان کے وطن کی زمین تنگ کر دی گئی اور خدا اور خدا کے رسول کے حکم پر وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تو چونکہ انہوں نے اپنا سارا سامان و اسباب اور مال و متاع مکہ ہی میں چھوڑ دیا تھا اس لئے یہاں مدینہ میں ان کی معاشی زندگی کا تکفل مدینہ کے مسلمانوں نے کہ جنہیں انصار کہا جاتا ہے اپنے ذمہ لیا اس کی شکل یہ کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کے درمیان بھائی چارہ کرایا چنانچہ انصار مدینہ نے اپنے تمام مال و اسباب میں مہاجرین کو برابر شریک بنا لیا۔ اسی موقع پر انصار نے آپ سے درخواست کی کہ ہمارے کھجوروں کے درختوں کو بھی ہمارے اور ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم فرما دیجئے تاکہ ہم اپنے اپنے حصہ کے درختوں میں محنت مشقت کریں اور ان سے پھل پیدا کریں آپ نے ان سے فرمایا کہ میں درختوں کی تقسیم نہیں کروں گا بلکہ تمہیں لوگ ان درختوں کی دیکھ بھال کرو اور ان میں پانی وغیرہ دینے کی محنت و مشقت خود گوارہ کر لو کیونکہ تمہارے ان بیچارے مہاجرین بھائیوں سے یہ محنت و مشقت برداشت نہیں ہو گی۔ پھر جب پھل تیار ہو جائے گا تو میں تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فیصلہ کو انصار نے رضا و رغبت اور بسر و چشم قبول کر لیا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور ان کی طرف سے محنت و  مشقت کرنا مستحب ہے نیز یہ حدیث بھی شرکت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔

معاملات میں وکیل بنانا جائز ہے

اور حضرت عروۃ بن الجعد بارقی کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ایک دینار دیا تا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ایک بکری خرید لائیں چنانچہ انہوں نے ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں اور پھر ان میں سے ایک بکری کو ایک دینار کے عوض کسی کے ہاتھ بیچ دیا اس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک بکری دی اور ایک دینار بھی دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس ذہانت سو خوش ہو کر ان کے خرید و فروخت کے معاملات میں برکت کی دعا فرمائی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ اگر وہ مٹی خرید لیتے تو اس میں بھی انہیں فائدہ ہوتا (بخاری)

 

تشریح

 

 ابن ملک کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تجارتی معاملات میں وکالت جائز ہے اسی طرح ان تمام چیزوں میں بھی کسی کو اپنا وکیل بنانا درست ہے جن میں نیابت اور قائم مقامی چلتی ہو۔

اگر کوئی شخص کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر بیچے تو بیع منعقد ہو جاتی ہے لیکن اس کا صحیح ہونا مال کے مالک کی اجازت پر موقوف رہتا ہے اگر مال کا مالک اجازت دے دے گا تو بیع صحیح ہو جائے گی۔ یہ حنفیہ کا مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک مالک کی اجازت کے بغیر اس کا مال بیچنا سرے سے جائز ہی نہیں ہے اگرچہ بعد میں مالک کی اجازت بھی حاصل کیوں نہ ہو جائے۔

امانت دار شرکاء اللہ تعالیٰ محافظ رہتا ہے

اور حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا نگہبان ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی اپنے دوسرے شریک کے ساتھ خیانت نہیں کرتا۔ اور جب وہ خیانت و بددیانتی پر اتر آتے ہیں تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں (ابوداؤد) اور رزین نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور پھر ان کے درمیان شیطان آ جاتا ہے۔

 

تشریح

 

 میں دو شریکوں کے درمیان ایک تیسرا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ شرکاء جب تک دیانت امانت اور ایمان داری کے ساتھ باہم شریک رہتے ہیں میری محافظت و برکت کا سایہ ان پر رہتا ہے بایں طور کہ میں انہیں ہر نقصان و تباہی سے محفوظ رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں ان کے مال پر کوئی آفت نازل نہیں کرتا ان کے رزق میں وسعت بخشتا ہوں ان کے معاملات میں خیر و بھلائی برقرار رکھتا ہوں اور ہر موقع پر ان کی مدد و نصرت کرتا ہوں۔

ان کے درمیان سے ہٹ آتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ جب شرکاء میں بددیانتی کے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرنے لگتے ہیں تو میری محافظت و برکت کا سایہ ان سے ہٹ جاتا ہے اور اس کے بجائے شیطان اپنا تسلط جما لیتا ہے جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ شرکاء مکمل نقصان و تباہی کے کنارے پہنچ جاتے ہیں اور ان کے مال و رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معاملات بطور خاص تجارت وغیرہ میں شرکت مستحب ہے کیونکہ اس کیوجہ سے کاروبار اور مال و سرمایہ میں اللہ تعالیٰ کی وہ برکت نازل ہوتی ہے جو تنہا کاروبار کرنے والے کو حاصل نہیں ہوتی اس لیے کہ جب کسی کاروبار میں دو آدمی شریک ہوتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے شریک کے مال کی حفاظت و نگرانی میں کوشاں رہتا ہے اور یہ معلوم ہی ہے کہ کوئی بندہ جب تک اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور خیر خواہی میں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے۔

خائن سے انتقام کا جذبہ تمہیں خیانت پر نہ اکسا دے

اور حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے تمہیں امین بنایا ہے اس کی امانت اس تک پہنچا دو جو شخص تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو (ترمذی ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 قاضی کہتے ہیں کہ حدیث کی آخری ہدایت سے مراد یہ ہے کہ خائن نے تمہارے ساتھ جو معاملہ کیا ہے وہی معاملہ تم اس کے ساتھ نہ کرو یعنی اگر کسی شخص نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے تو تم بھی اس کے ساتھ خیانت نہ کرو کیونکہ اگر تم بھی خیانت کرو گے تو پھر جس طرح وہ خائن ہے اسی طرح تم بھی خائن قرار دیئے جاؤ گے۔ ہاں اس سے وہ شخص مستثنی ہے جو ظالم (کسی کا مال لیکر مکر جانے والا) سے اپنے حق کے بقدر اس کا مال لے لے، کیونکہ وہ تو اپنا حق اس سے لیتا ہو جو کوئی عدو ان یعنی ظلم و زیادتی نہیں ہے جب کہ خیانت ایک صریح عدوان ظلم ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کا کوئی حق مثلاً مال کسی کے ذمہ واجب ہو اور اس کا مال اس صاحب حق کی دسترس میں ہو تو وہ اپنے مال کے بقدر اس کے مال میں سے لے لے بشرطیکہ جو مال کی دسترس میں ہے وہ اس مال کی جنس سے ہو جو مال والے کے ذمہ ہے مثلاً زید کے دس روپے بکر کے ذمہ واجب ہیں اور بکر کے کچھ روپے زید کی دسترس میں ہیں تو اب زید کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان روپوں میں سے اپنے دس روپے لے لے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وکیل

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے خیبر جانے کا ارادہ کیا تو رخصت ہونے کے ارادہ سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا اور عرض کیا کہ میں نے خیبر جانے کا ارادہ کر لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم خیبر میں میرے وکیل کے پاس جاؤ تو اس سے پندرہ وسق (کھجوریں) لے لینا اگر وہ تم سے کوئی نشانی مانگے تو اپنا ہاتھ اس کے حلق پر رکھ دینا (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس شخص کو خیبر میں اپنا وکیل مقرر کر رکھا تھا اسے یہ ہدایت دے رکھی ہو گی کہ اگر کوئی شخص میری طرف سے کچھ مانگنے آئے اور تم اس سے میرا فرستادہ ہونے کی کوئی نشانی و علامت طلب کرو اور وہ اپنا ہاتھ تمہارے حلق پر رکھ دے تو سمجھ لینا کہ اس شخص کو میں نے بھیجا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جابر کو یہی نشانی سکھا کر بھیجا تا کہ وکیل اس نشانی کے ذریعہ ان کو پندرہ وسق کھجوریں دیدے۔

شرکت مضاربت میں خیر و بھلائی

حضرت صہیب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن میں برکت یعنی بہت زیادہ خیر و بھلائی) حاصل ہوتی وعدہ پر بیچنا یعنی خریدار کو ادائے گی قیمت میں مہلت دینا ٢ مضاربت ٣ گیہوں میں جو ملانا گھر کے خرچ کے لئے بیچنے کے لئے نہیں (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مضاربت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنا مال تجارت کے لئے دے اور وہ اپنی محنت سے کاروبار کرے پھر اس کاروبار سے جو نفع حاصل ہو وہ دونوں آپس میں تقسیم کر لیں۔ گھرکے خرچ کے لیے گیہوں میں جو ملانا ایک فائدہ مند چیز ہے کیونکہ اس طرح گھر کی غذائی ضرورت کی تکمیل کفایت کے ساتھ ہو جاتی ہے البتہ بیچے جانے والے گیہوں میں جو ملا دینا مطلقاً ممنوع ہے کیونکہ یہ گناہ و فریب ہے۔

ایک واقعہ

اور حضرت حکیم ابن حزام کے بارے میں منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ایک دینار دیکر بھیجا تا کہ وہ اس دینار سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے قربانی کا جانور خرید لیں چنانچہ انہوں نے اس دینار کے عوض ایک مینڈھا یا دنبہ خریدا اور پھر اسے دو دینار میں بیچ دیا اس سے فارغ ہو کر انہوں نے قربانی کا جانور ایک دینار میں خریدا اور اس جانور کے ساتھ وہ دینار بھی لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیا جو پہلے خریدے گئے جانور کی وصول شدہ قیمت میں سے بچ گیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دینار کو تو صدقہ کر دیا اور حضرت حکیم ابن حزام کے حق میں یہ دعا فرمائی کہ خدا ان کی تجارت میں برکت عطاء فرمائے (ترمذی ابو داؤد)

 

شرکت و وکالت کے کچھ مسائل

شرکت و وکالت کے بارے میں کچھ اصولی باتیں باب کی ابتداء میں اور پھر کچھ مسائل احادیث کی تشریحات میں بیان ہو چکے ہیں چونکہ باب ختم ہو رہا ہے اس لئے مناسب ہے کہ اس موضوع سے متعلق کچھ اور ضروری مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں۔

 

 شراکتی جماعت

کسی تجارتی کاروبار یا معاملہ میں جو لوگ شریک و حصہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی دو شکلیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ اس کاروبار یا معاملہ کا ہر شریک مالک و متصرف یا صرف متصرف ہوتا ہے اس طرح اس کاروبار یا معاملہ میں جملہ شرکاء کے باہمی مشورے پر عمل درآمد ہوتا ہے اسی شکل کی وہ چار قسمیں شرکت مفاوضہ شرکت عنان شرکت صنائع والتقبل اور شرکت وجوہ ہیں جن کا بیان باب کی ابتداء میں ہو چکا ہے۔

شرکاء کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ چند افراد کی ایک جماعت کسی تجارتی معاملہ میں شریک و حصہ دار ہو اور وہ تمام افراد کسی قانونی نظام اور مقررہ قواعد و ضوابط کے پابند ماتحت ہوں اور ان میں سے ہر ایک شریک اپنے آپ کو مالکانہ حیثیت سے علیحدہ تصور کرے اس شکل کو موجودہ دور کے مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ

-1 ایسے کسی بھی مشترکہ تجارتی ادارے یا کمپنی کا نظم و نسق چلانے قانون پر عمل درآمد کرنے اور اجرائے کار کے لیے شرکاء ہی میں سے یا ان کے علاوہ لوگوں میں سے ایک شخص یا کئی آدمیوں کو جملہ شرکاء کے مشورہ سے منتخب کیا جائے۔

-2 کوئی بھی شریک بانصر اور تصرف کا حق نہیں رکھتا البتہ حق ملک ہر شریک کو حاصل ہوتا ہے۔

-3 جملہ شرکاء کی جماعت بحیثیت مجموعی مالک و متصرف ہو گی اور یہ ہئیت مجموعی خواہ باتفاق کل حاصل ہو یا بکثرت آراء۔

-4 کوئی بھی شریک اپنے مشترک تجارتی ادارہ کا اجیر و ملازم بن سکتا ہے

-5 کوئی بھی شریک علیحدگی اختیار نہیں کر سکتا البتہ اپنا حصہ بذریعہ ہبہ یا بذریعہ بیع منتقل کر سکتا ہے

-6 جب تعداد شرکاء محدود و مکمل ہو جائے اور کوئی شریک اپنا حصہ بیچے تو دوسرے شرکاء مقدم سمجھے جائیں۔

-7 اگر کوئی حصہ میراث یا بیع وغیرہ کے ذریعہ تقسیم ہو جائے تو کارکنان کمپنی اس بات پر مجبور ہوں گے کہ اس حصہ کے جملہ ورثاء یا حقداروں سے لین دین کرنے میں جو کچھ زحمت ہو اسے برداشت کریں اس حصہ کے جملہ ورثاء یا شرکاء خواہ مل کر داد  و ستد (لین دین) کریں یا کسی ایک کو وکیل بنا دیں ایسے حصہ کے جملہ شرکاء کا مجموعہ ایک ذات کے برابر سمجھا جائے گا۔

شرکاء کمپنی کاروبار چلانے کے لئے جو قانون مرتب و نافذ کریں گے ان کی پابندی تمام شرکاء پر ضروری ہو گی البتہ خلاف شرع قانون بنانا معصیت و گناہ اور اس کی پابندی ناجائز ہے۔

-9 ایسے جملہ قانون جو کسی نظم و نسق کی حالت کے لئے وضع کئے جائیں صرف مباحات سے متعلق رہیں گے منصوصات شرعیہ میں اثر انداز نہیں ہونگے۔

-10 یہ شرط کہ شرکاء ذاتی طور پر کسی دین اور نقصان کے ذمہ دار نہیں صرف اس صورت میں معتبر ہے جب کہ اس کا اعلان کیا جا چکا ہو۔

 

فسخ شراکت

 جو تجارتی کاروبار یا کوئی معاملہ دو فریق کے زیر شرکت ہو اس کو فسخ کر دینے یعنی شرکت کو ختم کر دینے کی دو صورتیں ہیں

اول یہ کہ شرکت کو ختم کر دینے پر دونوں فریق راضی ہیں دوم یہ کہ ایک فرق علیحدگی چاہے جیسے وہ مر گیا یا مجنوں ہو گیا یا کسی مطالبے میں مال دینا پڑا جس سے سرمایہ قائم نہیں رہ سکتا یا علیحدگی کی کوئی اور وجہ ہو ان تمام صورتوں میں شرکت ختم ہو کر تقسیم عمل میں آ جائے گی اگرچہ میت کے ورثاء اور مجنوں کے اولیاء شراکت کو باقی رکھنا چاہیں۔

فسخ شراکت میں فقہی ہدایت یہ ہے کہ

-1 پہلے تمام مطالبات ادا کئے جائیں

-2 ان معاہدوں کی تکمیل کا انتظام بھی ہو جائے جو شراکت کے ذمہ تھے

-3 وہ تمام حقوق جو اصل وہم میں معتبر سمجھے گئے ہیں مثل اموال قیمتی کے تقسم ہوں گے

-4 جو مطالبات دوسروں پر واجب ہیں اور جن کا وصول ہونا باقی ہے وہ بوقت وصول بقدر حصہ ملا کریں گے اور ہر شریک دوسرے کا وکیل سمجھا جائے گا تا کہ تقاضہ اور وصول کرتا رہے

-5 فسخ شراکت کی دوسری صورت میں ان دو چیزوں کا لحاظ ضروری ہے اول یہ کہ شراکت سے علیحدگی اختیار کرنے والا فریق یا اس کے قائم مقام ذمہ داریوں کے بارے میں سبکدوش نہیں ہو سکیں گے۔ دوم یہ کہ جملہ حقوق معتبر مثل دوکان و نام وغیرہ میں فریق خارج کو کوئی حق نہیں دیا جائے گا۔

-6 شراکتی جماعتوں یعنی مشترک تجارتی اداروں اور کمپنیوں پر اس ادارہ یا کمپنی کے مقررہ قانون کے حکم یا حاکم کے حکم کے بغیر ایسے انفساخ کا اثر نہیں پڑھ سکتا کیونکہ کسی شریک کی موت جنون کا افلاس وغیرہ سے اس کا تعلق نہیں ہے۔

 

فسخ شرکت کی صورت میں تقسیم کی ترتیب

جب شراکت ختم ہو جائے اور فریقین کے درمیان سرمایہ و اموال کی تقسیم ہونے لگے تو ان امور کی ترتیب اور ان کا لحاظ ضروری ہے۔

-1 جو مطالبات شراکت کے ذمہ ہوں ان کی ادائے گی یا جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی تکمیل کا انتظام پیش نظر رہے

-2 جملہ حقوق معتبرہ اور اموال قیمتی کی قیمت متعین کر دی جائے اور در صورت اختلاف و نزاع قرعہ سے فیصلہ کرنا شرعاً جائز ہے۔

-3 فریق خارج کو کوئی حق آئندہ نہ دلایا جائے گا گو ذمہ داری کے بار سے وہ سبکدوش نہیں ہے۔

-4 شراکت کے جو مطالبات دوسروں کے ذمہ ہوں ان میں حسب دستور وکالت رہے گی وصول ہونے پربقدر حصہ تقسیم کرنا چاہئے۔

 

 وکالت کے احکام

 وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وکیل اور مؤکل مجنوں نابالغ غلام اور محجور نہ ہو

-2 کسی اسی شے میں وکیل بنانا جائز نہیں جو کسی کی مملوک نہ ہو جیسے جنگ کی گھاس یا لکڑیاں جمع کرنا دریا سے پانی لانا، غوطہ لگا کر موتی نکالنا یا صدقہ لینے کے لئے وکیل بنانا۔

-3 جائز ہے کہ وکیل چاہے تو مفت خدمات انجام دے چاہے اپنی اجرت وصول کر لے اور چاہے نفع میں شریک ہو۔

-4 ہر ایسے تصرف میں جس کی نسبت اپنی اور مؤکل دونوں کی طرف کر سکتا ہے وکیل مثل اصل کے مدعی اور مدعا علیہ بن سکتا ہے جیسے خرید و فروخت اور ہر ایسے امر میں جس کی نسبت اپنی طرف نہیں کر سکتا وکیل کو حقوق عقد سے کوئی واسطہ نہیں جیسے نکاح، طلاق

-5 وکیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی ذات کے لئے مالکانہ تصرف کرے کیونکہ وہ صرف امین ہے

-6 مؤکل اپنے وکیل کو تصرف سے پہلے معزول کر سکتا ہے تصرف کے بعد اسے و کیل کے انجام دئیے ہوئے کام کو قبول و تسلیم کر لینے کے علاوہ اور کوئی حق حاصل نہیں

-7 وکیل کو حق ہے کہ وہ مؤکل کے لئے جو مال لایا ہے اس کے دام وصول کئے بغیر اس کے حوالے نہ کرے مگر دے کر واپس نہیں کر سکتا۔

-8 جب کہ وکیل دام وصول کرنے کے لئے مال نہ روکے امین ہے اور روکنے کے بعد ضامن ہو جائے گا۔

-9 وکیل کو جائز نہیں کہ جس چیز کے لیے وکیل بنایا گیا ہے اس کا معاملہ اپنی ذات کے لئے کرے۔

 

مسئلہ

-1 زید نے اپنے نوکر سے کسی دوکان سے کوئی چیز منگوائی اور نوکر وہ چیز  دوکاندار سے ادھار لے آیا تو وہ دوکاندار زید سے قیمت کا تقاضہ نہیں کر سکتا بلکہ اسی نوکر سے تقاضہ کرے اور وہ نوکر زید سے تقاضا کرے۔ بشرطیکہ زید نے قیمت اسے نہ دی ہو اسی طرح اگر زید نے اپنی کوئی چیز اپنے نوکر سے بکوائی تو زید کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ وہ خریدار سے تقاضہ کرے یا اس سے قیمت وصول کرے کیونکہ خریدار نے جس شخص سے وہ چیز حاصل کی ہے اسی کو قیمت ادا کرے گا ہاں اگر خریدار زید کو از خود قیمت دے دے تو یہ جائز ہے مطلب یہ کہ اگر خریدار زید کو قیمت نہ دے تو زید زبردستی نہیں کر سکتا۔

-2 زید نے اپنے نوکر سے ایک من گیہوں منگوایا تھا مگر وہ ڈیڑھ من اٹھا لایا تو زید کو پورا ڈیڑھ من لینا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ نہ لے تو آدھ من نوکر کو لینا پڑے گا۔

-3 زید نے کسی سے کہا کہ فلاں بکری جو فلاں کے پاس ہے تم جا کر اس کو پندرہ روپے میں لے آؤ تو اب وہ شخص وہی بکری خود اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز خاص کر کے وکیل کو بتا دی جائے اس وقت وکیل کو خود اپنے لئے اس کو خریدنا جائز نہیں ہے البتہ مؤکل نے جو دام بتائے ہیں اس سے زیادہ میں اگر وکیل اپنے لئے خریدے تو جائز ہے اور اگر مؤکل نے کچھ دام نہ بتائے ہوں صرف خریدنے کے لیے کہا ہو تو پھر کسی صورت میں بھی وہ چیز وکیل اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔

-4 زید کے وکیل نے زید کے لیے ایک بکری خریدی پھر ابھی وکیل زید کو دینے نہ پایا تھا کہ بکری مر گئی یا چوری ہو گئی تو اس بکری کے دام زید ہی کو دینا پڑیں گے۔ اگر زید وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے خریدی تھی تو زید کی اس بات کا اعتبار نہیں ہو گا بشرطیکہ زید نے اس بکری کے دام وکیل کو پہلے ہی دے دئیے ہوں ہاں اگر اس نے دام پہلے نہیں دئیے تھے تو اس صورت میں اگر زید قسم کھا کر وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری اپنے لئے خریدی تھی تب اس کی بات کا اعتبار ہو گا اور اس بکری کا نقصان وکیل کو برداشت کرنا ہو گا اور اگر زید قسم نہ کھا سکے تو پھر وکیل ہی کی بات کا اعتبار کرنا ہو گا۔

-5 زید کا نوکر اگر کوئی چیز گراں خرید لائے تو اگر تھوڑا ہی فرق ہو تو وہ چیز زید کو لینی پڑے گی اور اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی اور اگر بہت زیادہ گراں خرید لاتا ہے کہ وہ چیز اتنی قیمت میں کوئی نہیں خرید سکتا تو اس کا لینا واجب نہیں ہے اگر زید وہ چیز نہ لے تو خود نوکر اس چیز کا ذمہ دار ہو گا۔

-6 زید نے اپنی کوئی چیز بکر کو دی کہ وہ اسے فروخت کر دے تو بکر کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو خود لے لیوے اور اس کے دام زید کو دیدے۔ اسی طرح اگر زید نے بکر سے کہا کہ فلاں کی چیز مجھے خرید لاؤ تو بکر کو یہ اجازت نہیں ہو گی کہ وہ اپنی چیز زید کو لا کر دے دے اور اس سے اس کی قیمت وصول کر لے اگر بکر اپنی چیز دینا یا خود لینا چاہے تو زید سے صاف صاف کہہ دے کہ یہ چیز میں لیتا ہوں مجھ کو دے دو یا یوں کہہ دے کہ یہ میری چیز لے لو اور اتنی قیمت مجھے دے دو بغیر بتلائے ہوئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔

-7 زید نے اپنے نوکر سے بکری کا گوشت منگوایا اور وہ بھینس کا لے آیا تو زید کو اختیار ہو گا کہ چاہے تو لے چاہے نہ لے اسی طرح زید نے نوکر سے آلو منگوائے اور وہ بھنڈی لے آیا تو اس کا لینا ضروری نہیں ہے اگر زید لینے سے انکار کر دے تو نوکر کو خود لینا پڑے گا۔

-8 زید نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ بازار جا کر فلاں چیز لے آؤ تو اس چیز کی خریداری کے وقت ان دونوں آدمیوں کو موجود رہنا ضروری ہے صرف ایک آدمی کو خریدنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایک ہی آدمی خریداری کرے تو بیع موقوف رہے گی۔ اگر زید صرف ایک آدمی کی خریداری کو منظور کر لے گا تو صحیح ہو جائے گا۔

-9 زید نے کسی شخص سے کہا کہ بازار سے فلاں چیز خرید لاؤ مگر اس شخص نے وہ چیز خود نہیں خریدی بلکہ کسی دوسرے سے خریدنے کے لئے کہہ دیا تو اب اس چیز کو لینا زید پر واجب نہیں رہے گا چاہے وہ لے لے چاہے لینے سے انکار کر دے دونوں اختیار ہیں البتہ اگر وہ شخص خود خریدے تو پھر زید کو لینا پڑے گا۔

 

 

وکیل کی برطرفی

وکیل کو قبل تصرف برطرف کر دینے کا ہر وقت اختیار ہے مثلاً زید نے کسی سے کہا تھا کہ مجھے ایک بکری کی ضرورت ہے کہیں مل جائے تو لے لینا پھر منع کر دیا کہ میں نے تم سے جو بکری خریدنے کے لئے کہا تھا اب نہ خریدنا اس کے باوجود وہ شخص بکری خرید لے تو زید کے لئے یہ ضروری نہیں ہو گا کہ وہ بکری لے لے کیونکہ منع کرنے کے بعد اس شخص کو زید کے لیے بکری خریدنے کا اختیار نہیں رہا تھا۔ ہاں اگر اس نے بکری خرید لی اور پھر اس کے بعد زید نے منع کیا تو اس صورت میں زید پر واجب ہو گا کہ وہ بکری لے لے اور اس کی قیمت ادا کر دے۔ اور اگر یہ صورت ہو کہ زید نے خود اس کو منع نہیں کیا بلکہ خط لکھ کر بھیجا یا آدمی بھیج کر اطلاع دی کہ اب میرے لئے بکری نہ خریدنا تب بھی وہ شخص وکالت سے برطرف ہو گیا اور اگر زید نے برطرفی کی اطلاع نہیں دی بلکہ کسی اور آدمی نے اس سے کہہ دیا کہ زید نے تمہیں وکالت سے برطرف کر دیا ہے اس کے لئے نہ خریدنا تو اس صورت میں اگر اطلاع دینے والے دو آدمی ہوں یا ایک ہی آدمی نے اطلاع دی مگر وہ معتبر اور پابند شرع ہے تو اس اطلاع پر بھی برطرفی عمل میں آ جائے گی اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ شخص وکالت سے برطرف نہیں ہو گا اگر اس نے بکری خرید لی تو زید کو لینی پڑے گی۔