حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَهُمْ وَلِلْكِلَابِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَهُمْ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر آپ نے فرمایا: "انہیں کتوں سے کیا مطلب"؟ پھر آپ نے انہیں شکاری کتے رکھنے کی اجازت دے دی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الطہارة ۲۷ (۲۸۰)، سنن ابی داود/الطہارة ۳۷ (۷۴)، سنن النسائی/الطہارة ۵۳ (۶۷)، المیاہ ۷ (۳۳۷،۳۳۸)،(تحفة الأشراف:۹۶۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۶،۵/۵۶)، سنن الدارمی/الصید ۲ (۲۰۴۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کتوں سے کیا مطلب یعنی کتا پالنا بے فائدہ ہے بلکہ وہ نجس جانور ہے، اندیشہ ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے،لیکن کتوں کا قتل صحیح مسلم کی حدیث سے منسوخ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل سے منع کیا، اس کے بعد اور فرمایا: " کالے کتے کو مار ڈالو وہ شیطان ہے " (انجاح)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَاشُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَهُمْ وَلِلْكِلَابِ، ثُمَّ رَخَّصَ لَهُمْ فِي كَلْبِ الزَّرْعِ، وَكَلْبِ الْعِينِ"قَالَ بُنْدَارٌ: الْعِينُ: حِيطَانُ الْمَدِينَةِ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، پھر فرمایا: "لوگوں کو کتوں سے کیا مطلب ہے"؟ پھر آپ نے کھیت اور باغ کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دے دی۔ بندار کہتے ہیں: «عین» سے مراد مدینہ کے باغات ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے: «ثم رخص في كلب الصيد والغنم» اس لئے ابن ماجہ کا لفظ تصحیف ہے، صواب «الغنم» ہے۔ (ملاحظہ ہو: حیاۃ الحیوان للدمیری)۔ جو کتے کھیت اور باغ کی حفاظت کے لئے پالے جاتے ہیں ان کا پالنا جائز ہے، دوسری روایت میں ریوڑ یعنی جانوروں کی حفاظت کے لئے بھی پالنا آیا ہے، شریعت سے صرف تین ہی کتوں کا جواز ثابت ہے، ایک شکاری کتا، دوسرے باغ یا کھیت کی حفاظت کا، تیسرے ریوڑ کا، اور اس پر قیاس کر کے دوسری ضرورتوں کے لیے کتوں کو بھی پالا جا سکتا ہے، جیسے جنگل میں چور سے حفاظت کے لئے، اور آج کل جاسوسی کے لیے، امید ہے کہ یہ بھی جائز ہو، لیکن بلاضرورت کتا پالنا ہماری شریعت میں جائز نہیں، بلکہ اس سے اجر اور ثواب میں نقصان پڑتا ہے، جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے،اور ایک حدیث میں ہے کہ فرشتے اس مکان میں نہیں جاتے جہاں مورت ہو،یا کتا یعنی رحمت کے فرشتے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِقَتْلِ الْكِلَابِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کر دینے کا حکم دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۳)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۰)، سنن النسائی/الصید والذبائح ۹ (۴۲۸۲)،(تحفة الأشراف:۸۳۴۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید ۱۷ (۱۴۸۷)، موطا امام مالک/لإستئذان ۵ (۱۴)، مسند احمد (۲/۲۲،۲۳،۱۱۳،۱۳۲،۱۴۶)، سنن الدارمی/الصید ۳ (۲۰۵۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو طَاهِرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَافِعًا صَوْتَهُ: "يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، وَكَانَتِ الْكِلَابُ تُقْتَلُ، إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے کتوں کے قتل کا حکم فرماتے ہوئے سنا: اور کتے قتل کئیے جاتے تھے بجز شکاری اور ریوڑ کے کتوں کے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/الصید ۹ (۴۲۸۳)،(تحفة الأشراف:۷۰۰۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ، إِلَّا كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ مَاشِيَةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کتا پالے گا اس کے عمل میں سے ہر روز ایک قیراط کم ہو گا، سوائے کھیت یا ریوڑ کے کتے کے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۵)،(تحفة الأشراف:۱۵۳۹۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحرث ۳ (۲۳۲۳)، بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۴)، سنن ابی داود/الصید ۱ (۲۸۴۴)، سنن الترمذی/الصید ۱۷ (۱۴۹۰)، سنن النسائی/الصید ۱۴ (۴۲۹۴)، مسند احمد (۲/۲۶۷،۳۴۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں روزانہ دو قیراط کی کمی کا ذکر ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے شاید کتوں کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے، اور دوسری وہ ہے جس میں دو قیراط کی کمی ہوتی ہے، بعض لوگوں نے اختلاف مقامات کا اعتبار کیا ہے، اور کہا کہ اگر بے ضرورت مکہ یا مدینہ میں کتا پالے تو دو قیراط کی کمی ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر شہروں میں ایک قیراط کی کمی ہو گی کیونکہ مکہ اور مدینہ کا افضل اور اعلی مقام ہے، وہاں کتا پالنا زیادہ غیرمناسب ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي شِهَابٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ، لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا الْأَسْوَدَ الْبَهِيمَ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ اتَّخَذُوا كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ، إِلَّا نَقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر کتے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق نہ ہوتے، تو میں یقیناً ان کے قتل کا حکم دیتا، پھر بھی خالص کالے کتے کو قتل کر ڈالو، اور جن لوگوں نے جانوروں کی حفاظت یا شکاری یا کھیتی کے علاوہ دوسرے کتے پال رکھے ہیں، ان کے اجر سے ہر روز دو قیراط کم ہو جاتے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصید ا (۲۸۴۵مختصراً)، سنن الترمذی/الأحکام ۳ (۱۴۸۶مختصراً) سنن النسائی/الصید ۱۰ (۴۳۸۵)،(تحفة الأشراف:۹۶۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۵،۸۶،۵/۵۴،۵۶،۵۷، سنن الدارمی/الصید ۲ (۲۰۴۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: امام نووی فرماتے ہیں کہ کاٹنے والے کتوں کو قتل کر دینے پر اجماع ہے، امام الحرمین کہتے ہیں کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کتوں کے مارنے کا حکم دیا، پھر یہ منسوخ ہو گیا، اور کالا سیاہ اسی حکم پر باقی رہا، بعد اس کے یہ ٹھہرا کہ جب تک وہ نقصان نہ پہنچائے کسی قسم کا کتا نہ مارا جائے یہاں تک کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہو گا کہ فرشتے اس کے گھر میں نہیں جا سکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعضوں نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے ایذا ہوتی ہے اور یہ جو فرمایا: اگر مخلوق نہ ہوتی مخلوقات میں سے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی کائنات کی مخلوقات میں سے ایک ایسی مخلوق ہے جس ختم کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بے کار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن جب تک دنیا باقی ہے، دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے، آپ دیکھئے کہ سانپ، بچھو، شیر اور بھیڑئیے، لوگ سیکڑوں اور ہزاروں سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں، مگر کیا یہ حیوانات دنیا سے مٹ گئے؟ ہرگز نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ لنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ"، فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِيْ وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جو شخص کتا پالے اور وہ اس کے کھیت یا ریوڑ کے کام نہ آتا ہو تو اس کے عمل (ثواب) سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہتا ہے"، لوگوں نے سفیان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے خود اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اس مسجد کے رب کی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الحرث ۳ (۲۳۲۳)، بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۵)، صحیح مسلم/المساقاة ۱۰ (۱۵۷۶)، سنن النسائی/الصید ۱۲ (۴۲۹۰)،(تحفة الأشراف:۴۴۷۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان ۵ (۱۲)، مسند احمد (۵/۲۱۹،۲۲۰)، سنن الدارمی/الصید ۲ (۲۰۴۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِهِمْ، وَبِأَرْضِ صَيْدٍ أَصِيدُ بِقَوْسِي، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي الْمُعَلَّمِ، وَأَصِيدُ بِكَلْبِي، الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَّا مَا ذَكَرْتَ أَنَّكُمْ فِي أَرْضِ أَهْلِ كِتَابٍ، فَلَا تَأْكُلُوا فِي آنِيَتِهِمْ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مِنْهَا بُدًّا، فَاغْسِلُوهَا وَكُلُوا فِيهَا، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ أَمْرِ الصَّيْدِ فَمَا أَصَبْتَ بِقَوْسِكَ، فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الْمُعَلَّمِ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ وَكُلْ، وَمَا صِدْتَ بِكَلْبِكَ الَّذِي لَيْسَ بِمُعَلَّمٍ فَأَدْرَكْتَ ذَكَاتَهُ فَكُلْ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اہل کتاب (یہود و نصاری) کے ملک میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا سکتے ہیں؟ اور ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں شکار بہت ہے، میں اپنی کمان اور سدھائے ہوئے کتوں سے شکار کرتا ہوں، اور ان کتوں سے بھی جو سدھائے ہوئے نہیں ہوتے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رہی یہ بات جو تم نے ذکر کی کہ ہم اہل کتاب کے ملک میں رہتے ہیں تو تم ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ، اِلا یہ کہ کوئی چارہ نہ ہو، اگر اس کے علاوہ تم کوئی چارہ نہ پاؤ تو پھر انہیں دھو ڈالو، اور ان میں کھاؤ، رہا شکار کا معاملہ جو تم نے ذکر کیا تو جو شکار تم اپنے کمان سے کرو اس پر اللہ کا نام لے کر شکار کرو اور کھاؤ، اور جو شکار سدھائے ہوئے کتے سے کرو تو کتا چھوڑتے وقت اللہ کا نام لو اور کھاؤ، اور جو شکار ایسے کتے کے ذریعہ کیا گیا ہو جو سدھایا ہوا نہ ہو تو اگر تم اسے ذبح کر سکو تو کھاؤ" (ورنہ نہیں) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید ۴ (۵۴۷۸)،۱۰ (۵۴۸۸)،۱۴ (۵۴۹۶)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۳۰)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۵۵)، سنن الترمذی/والسیر ۱۱ (۱۵۶۰)، سنن النسائی/الصید ۴ (۴۲۷۱)،(تحفة الأشرف:۱۱۸۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۹۳،۱۹۴،۱۹۵)، سنن الدارمی/السیر ۵۶ (۲۵۴۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اہل حدیث کے نزدیک جو جانور ہتھیار سے شکار کیا جائے (جیسے تیر تلوار، برچھا، بھالا، بندوق وغیرہ سے) یا ان جانوروں کے ذریعہ سے جو زخمی کرتے ہیں (جیسے کتا،چیتا، بازہجری، عقاب وغیرہ) تو حلال ہے، اگرچہ شکار کا جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جائے، بشرطیکہ مسلمان شکار کرے، اور جانور یا ہتھیار کو شکار پر چلاتے وقت بسم اللہ کہے، یہی جمہور علماء اور فقہا کی رائے ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّا قَوْمٌ نَصِيدُ بِهَذِهِ الْكِلَابِ، قَالَ: "إِذَا أَرْسَلْتَ كِلَابَكَ الْمُعَلَّمَةَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا فَكُلْ، مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ إِنْ قَتَلْنَ إِلَّا أَنْ يَأْكُلَ الْكَلْبُ، فَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ، إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِنْ خَالَطَهَا كِلَابٌ أُخَرُ فَلَا تَأْكُلْ"قَالَ ابْن مَاجَةَ: سَمِعْتُهُ يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ الْمُنْذِرِ، يَقُولُ: حَجَجْتُ ثَمَانِيَةً وَخَمْسِينَ حِجَّةً أَكْثَرُهَا رَاجِلٌ.
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کتوں سے شکار کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم سدھائے ہوئے کتوں کو «بسم الله» کہہ کر چھوڑو، تو ان کے اس شکار کو کھاؤ جو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں، چاہے انہیں قتل کر دیا ہو، سوائے اس کے کہ کتے نے اس میں سے کھا لیا ہو، اگر کتے نے کھا لیا تو مت کھاؤ، اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کتے نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو، اور اگر اس سدھائے ہوئے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی شریک ہو گئے ہوں تو بھی مت کھاؤ" ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن منذر کو کہتے سنا کہ میں نے اٹھاون حج کیے ہیں اور ان میں سے اکثر پیدل چل کر۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضو ۳۳ (۱۷۵)، البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الصید ۱ (۵۴۷۵)،۲ (۵۴۷۶)،۳ (۵۴۷۷)،۷ (۵۴۸۳)،۹ (۵۴۸۴)،۱۰ (۵۴۸۵)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۴۸)،(تحفة الأشراف:۹۸۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید ۱ (۱۴۵۶)، سنن النسائی/الصید ۲ (۴۲۶۹)، مسند احمد (۴/۲۵۶،۲۵۷،۲۵۸،۳۷۷،۳۷۹،۳۸۰)، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے: (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے، (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو، (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بغیر بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے، یہی جمہور علماء کا قول ہے، (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت «بسم الله» کہا گیا ہو، (۵) معلّم کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو، اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا، اور یہ شکار حلال نہ ہو گا، (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے، تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ، عَنْسُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِهِمْ، وَطَائِرِهِمْ"، يَعْنِي الْمَجُوسَ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے یعنی مجوسیوں کے کتے، یا ان کے پرندوں کے شکار (کھانے) سے منع کر دیا گیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۲۷۱، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۳)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصید ۲ (۱۴۶۶)(ضعیف الإسناد) (سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے ترمذی میں، «وطائر ھم» کا لفظ نہیں ہے نیز ترمذی نے اسے ضعیف کہا ہے)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: "سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنِ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ، فَقَالَ: شَيْطَانٌ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالص سیاہ کتے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شیطان ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة ۵۰ (۵۱۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۱۱ (۷۰۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۳۷ (۳۳۸)، سنن النسائی/القبلة ۷ (۷۵۱)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۹،۱۵۱،۱۵۵،۱۵۸،۱۶۰،۱۶۱)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۲۸ (۱۴۵۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْرٍ عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ النَّحَّاسُ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ الرَّمْلِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْالْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُلْ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ".
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس چیز کو کھاؤ جو تمہاری کمان شکار کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۸۶۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ نَرْمِي، قَالَ: "إِذَا رَمَيْتَ، وَخَزَقْتَ فَكُلْ مَا خَزَقْتَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم تیر انداز لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تیر مارو اور وہ (شکار کے جسم میں) گھس جائے، تو جس کے اندر تیر پیوست ہو جائے اسے کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد ابن ماجة بھذاالسیاق (تحفة الأشراف:۹۸۶۸، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۴)، قد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع ۳ (۲۰۵۴)، الذبائح ۳ (۵۴۷۷)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۴۷)، سنن الترمذی/الصید ۱ (۱۴۶۵)،۳ (۱۴۶۷)، سنن النسائی/الصید ۳ (۴۲۷۰)، مسند احمد (۴،۲۵۶،۲۵۸،۳۸۰)، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۶)(صحیح) (سند میں مجالد بن سعید ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے حدیث صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْمِي الصَّيْدَ فَيَغِيبُ عَنِّي لَيْلَةً، قَالَ: "إِذَا وَجَدْتَ فِيهِ سَهْمَكَ وَلَمْ تَجِدْ فِيهِ شَيْئًا، غَيْرَهُ فَكُلْهُ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں شکار کرتا ہوں اور شکار مجھ سے پوری رات غائب رہتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم اس شکار میں اپنے تیر کے علاوہ کسی اور کا تیر نہ پاؤ تو اسے کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ الذبائح ۸ (۵۴۸۴)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن ابی داود/الصید ۲ (۲۸۴۹،۲۸۵۰)، سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۶۹)، سنن النسائی/الصید ۱ (۴۲۶۸)،۶ (۴۲۷۳)،۸ (۴۲۷۹)،۱۸ (۴۳۰۳)،(تحفة الأشراف:۹۸۶۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنِ الصَّيْدِ بِالْمِعْرَاضِ، قَالَ: "مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو تیر کی نوک سے مرے اسے کھاؤ، اور جو اس کے عرض (چوڑان) سے مرے وہ مردار ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید ۱ (۵۴۷۵)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن الترمذی/الصید ۷ (۱۴۷۱)،(تحفة الأشراف:۹۸۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۶،۳۷۹، سنن الدارمی/الصید ۱ (۲۰۴۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنِ الْمِعْرَاضِ، فَقَالَ: "لَا تَأْكُلْ إِلَّا أَنْ يَخْزِقَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شکار میں تیر پیوست ہوا ہو صرف اسی کو کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید ۳ (۵۴۷۷)، التوحید ۱۳ (۷۳۹۷)، صحیح مسلم/الصید ۱ (۱۹۲۹)، سنن الترمذی/الصید ا (۱۴۶۵)، سنن النسائی/الصید ۳ (۴۲۷۰)،(تحفة الأشراف:۹۸۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۶،۲۵۸،۳۷۷،۳۸۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ، فَمَا قُطِعَ مِنْهَا فَهُوَ مَيْتَةٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے تو کاٹا گیا حصہ مردار کے حکم میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۷۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ، وَيَقْطَعُونَ أَذْنَابَ الْغَنَمِ، أَلَا فَمَا قُطِعَ مِنْ حَيٍّ فَهُوَ مَيِّتٌ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اخیر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو اونٹوں کی کوہان اور بکریوں کی دمیں کاٹیں گے، آ گاہ رہو! زندہ جانور کا جو حصہ کاٹ لیا جائے وہ مردار کے (حکم میں) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۰۶۰، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۶)(ضعیف جدا) (سند میں ابوبکر الہذلی سخت ضعیف، اور شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ، الْحُوتُ وَالْجَرَادُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہمارے لیے دو مردار: مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۷۳۸، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۹۷)(صحیح) (عبدالرحمن ضعیف راوی ہیں، لیکن ان کے اخوان اسامہ و عبداللہ نے ان کی متابعت کی ہے، اس لئے حدیث صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ، عَنْأَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: "سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَرَادِ، فَقَالَ: أَكْثَرُ جُنُودِ اللَّهِ لَا آكُلُهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ".
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹڈی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا لشکر ہے، نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۳۵ (۳۸۱۳،۳۸۱۴)،(تحفة الأشراف:۴۴۹۵)(ضعیف) (حدیث کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہے، اور اصل یہ ہے کہ یہ مرسل ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۵۳۳)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ سَعْدٍ الْبَقَّالِ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: "كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَادَيْنَ الْجَرَادَ، عَلَى الْأَطْبَاقِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ٹڈیوں کو پلیٹوں میں رکھ کر بطور ہدیہ بھیجتی تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۶۴، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۸)(ضعیف) (سند میں ابوسعید البقال ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَّالُ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا عَلَى الْجَرَادِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَهْلِكْ كِبَارَهُ، وَاقْتُلْ صِغَارَهُ، وَأَفْسِدْ بَيْضَهُ، وَاقْطَعْ دَابِرَهُ، وَخُذْ بِأَفْوَاهِهَا عَنْ مَعَايِشِنَا وَأَرْزَاقِنَا، إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَدْعُو عَلَى جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ اللَّهِ، بِقَطْعِ دَابِرهِ؟، قَالَ: "إِنَّ الْجَرَادَ نَثْرَةُ الْحُوتِ فِي الْبَحْرِ"، قَالَ هَاشِمٌ: قَالَ زِيَادٌ: فَحَدَّثَنِي مَنْ رَأَى الْحُوتَ يَنْثُرُهُ.
جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ٹڈیوں کے لیے بد دعا کرتے تو فرماتے: اے اللہ! بڑی ٹڈیوں کو ہلاک کر دے، چھوٹی ٹڈیوں کو مار ڈال، ان کے انڈے خراب کر دے، اور ان کی اصل (جڑ) کو کاٹ ڈال اور ان کے منہ کو ہماری روزیوں اور غلوں سے پکڑ لے (انہیں ان تک پہنچنے نہ دے)، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے" ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کیسے اللہ کی ایک فوج کی اصل اور جڑ کاٹنے کے لیے بد دعا فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹڈی دریا کی مچھلی کی چھینک ہے"۔ ہاشم کہتے ہیں کہ زیاد (راوی حدیث) نے کہا: تو مجھ سے ایسے شخص نے بیان کیا جس نے مچھلی اسے(ٹڈی کو) چھینکتے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۵۱،۲۵۸۵)، ومصباح الزجاجة:۱۱۰۹، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأطعمة ۲۳ (۱۸۲۳)(موضوع) (سند میں موسیٰ بن محمد ضعیف اور منکر احادیث والے ہیں، ابن الجوز ی نے حدیث کو الموضوعات میں داخل کیا ہے، اور موسیٰ کو متہم قرار دیا ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۱۱۲)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةٍ أَوْ عُمْرَةٍ فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، أَوْ ضَرْبٌ مِنْ جَرَادٍ، فَجَعَلْنَا نَضْرِبُهُنَّ بِأَسْوَاطِنَا وَنِعَالِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُوهُ فَإِنَّهُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے، تو ہمارے سامنے ٹڈیوں کا ایک گروہ آیا، یا ایک قسم کی ٹڈیاں آئیں، تو ہم انہیں اپنے کوڑوں اور جوتوں سے مارنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں کھاؤ یہ دریا کا شکار ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/المناسک ۴۲ (۱۸۵۴)، سنن الترمذی/الحج ۲۷ (۸۵۰)،(تحفة الأشراف:۱۴۸۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۶،۳۶۴،۳۷۴،۴۰۷)(ضعیف) (سند میں ابوالمہزم متروک راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ الصُّرَدِ، وَالضِّفْدَعِ، وَالنَّمْلَةِ، وَالْهُدْهُدِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹورا (ایک چھوٹا سا پرندہ)، مینڈک، چیونٹی اور ہُد ہُد کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۲۹۴۴، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۰)(صحیح) (ابراہیم بن الفضل ضعیف ہیں، لیکن حدیث آگے کی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر صحیح ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ: النَّمْلَةِ، وَالنَّحْلِ، وَالْهُدْهُدِ، وَالصُّرَدِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جانوروں: چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد اور لٹورا کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب ۱۶۴ (۵۲۶۷)،(تحفة الأشراف:۵۸۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۳۲،۳۴۷)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۶ (۲۱۴۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَرَصَتْهُ نَمْلَةٌ، فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ، فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ، فِي أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَهْلَكْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا، تو انہوں نے چیونٹیوں کے گھر جلا دینے کا حکم دیا، تو وہ جلا دیئے گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی نازل کی کہ آپ نے ایک چیونٹی کے کاٹنے کی وجہ سے امتوں (مخلوقات) میں سے ایک امت (مخلوق) کو تباہ کر دیا، جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی تھی"؟۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۱۵۳ (۳۰۱۹)، بدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۹)، صحیح مسلم/السلام ۳۹ (۲۲۴۱)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۶ (۵۲۶۶)، سنن النسائی/الصید والذبائح ۳۸ (۴۳۶۳)،(تحفة الأشراف:۱۳۳۱۹،۱۵۳۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۰۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ وَقَالَ: قَرَصَتْ.
اس سند سے بھی ابن شہاب نے سابقہ طریق سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے، اس میں «قَرَصَتْه» کی بجائے «قَرَصَتْ» کا لفظ وارد ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: أَنَّ قَرِيبًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ خَذَفَ، فَنَهَاهُ، وَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى، عَنِ الْخَذْفِ، وَقَالَ: "إِنَّهَا لَا تَصِيدُ صَيْدًا، وَلَا تَنْكَأُ عَدُوًّا، وَلَكِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ، وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ"، قَالَ: فَعَادَ، فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، ثُمَّ عُدْتَ لَا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے ایک رشتہ دار نے کنکری ماری، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارنے سے منع فرمایا ہے، اور فرمایا ہے: "نہ اس (کنکری مارنے) سے شکار ہوتا ہے، اور نہ یہ دشمن کو زخمی کرتی ہے، ہاں البتہ اس سے دانت ٹوٹ جاتا ہے، اور آنکھ پھوٹ جاتی ہے"، اس شخص نے پھر کنکری ماری تو عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے حدیث بیان کر رہا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، اور تم پھر وہی کام کر رہے ہو، اب میں تم سے کبھی بھی بات چیت نہیں کروں گا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الذبائح ۵ (۵۴۷۹)، الأدب ۱۲۲ (۶۲۲۰)، صحیح مسلم/الصید ۵۴ (۱۹۵۴)، سنن ابی داود/الأدب ۱۶۸ (۵۲۷۰)،(تحفة الأشراف:۹۶۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۴،۵/۵۴)، سنن الدارمی/المقدمة ۴۰ (۴۵۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے غصہ سے کہا، معلوم ہوا کہ جو کوئی حدیث کو سن کر یا جان کربھی اس کے خلاف پر اصرار کرے اس سے ترک تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حدیث کے خلاف ایک بات کہنے پر اپنے بیٹے کی سرزنش کی، اور ساری عمر اس سے بات نہ کرنے کی بات کہی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: "نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَذْفِ، وَقَالَ: إِنَّهَا لَا تَقْتُلُ الصَّيْدَ، وَلَا تَنْكِي الْعَدُوَّ، وَلَكِنَّهَا تَفْقَأُ الْعَيْنَ، وَتَكْسِرُ السِّنَّ".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے: "اس سے نہ تو شکار مرتا ہے، اور نہ ہی یہ دشمن کو زخمی کرتی ہے، ہاں البتہ اس سے آنکھ پھوٹ جاتی ہے، اور دانت ٹوٹ جاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التفسیر ۵ (۴۸۴۱)، الأدب ۱۲۲ (۶۲۲۰)، صحیح مسلم/الصید ۱۰ (۱۹۵۴)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۸ (۵۲۷۰)،(تحفة الأشراف:۹۶۶۳)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/القسامة ۳۳ (۴۸۱۹)، مسند احمد (۴/۸۶،۵/۴۶،۵۴،۵۵،۵۶،۵۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْأُمِّ شَرِيكٍ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهَا، بِقَتْلِ الْأَوْزَاغِ".
ام شریک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلیوں کے مارنے کا حکم دیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۷)، أحادیث الأنبیاء ۸ (۳۳۵۹)، صحیح مسلم/السلام ۳۸ (۲۲۳۷)، سنن النسائی/الحج ۱۱۵ (۲۸۸۸)،(تحفة الأشراف:۱۸۳۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۲۱،۴۶۲)، سنن الدارمی/الأضاحی ۲۷ (۲۰۴۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ہر چند یہ جانور کسی کو کاٹتے نہیں نہ ایذا دیتے ہیں، لیکن ان سے دل کو نفرت پیدا ہوتی ہے، اور بعضوں نے کہا: یہ زہریلی ہوتی ہیں، بعضوں نے کہا: وہ عرب کے ملک میں اونٹنی کا تھن پکڑ کر دودھ چوس لیتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَتَلَ وَزَغًا فِي أَوَّلِ ضَرْبَةٍ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، وَمَنْ قَتَلَهَا فِي الثَّانِيَةِ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا أَدْنَى مِنَ الْأُولَى، وَمَنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، أَدْنَى مِنَ الَّذِي ذَكَرَهُ فِي الْمَرَّةِ الثَّانِيَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص چھپکلی ایک ہی وار میں مار ڈالے تو اس کے لیے اتنی اور اتنی نیکیاں ہیں، اور جس نے دوسرے وار میں ماری تو اس کے لیے اتنی اور اتنی (پہلے سے کم) نیکیاں ہیں، اور جس نے تیسرے وار میں ماری تو اس کے لیے اتنی اور اتنی (دوسرے سے کم) ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ:(تحفةالأشراف:۱۲۷۳۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام ۳۸ (۲۲۴۰)، سنن ابی داود/الأدب ۱۷۵ (۵۲۶۳)، سنن الترمذی/الأحکام ۱ (۱۴۸۲)، مسند احمد (۲/۳۵۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لِلْوَزَغِ الْفُوَيْسِقَةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپکلی کو «فویسقہ» چھوٹا فاسق (یعنی موذی) کہا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/جزاء الصید ۷ (۱۸۳۱)، بدء الخلق ۱۵ (۳۳۰۶)، صحیح مسلم/السلام ۳۸ (۲۲۴۰)، سنن النسائی/الحج ۱۱۵ (۲۸۸۹)،(تحفة الأشراف:۱۶۶۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸۷،۱۵۵،۲۷۱،۲۷۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: «فویسقہ» اس کی تحقیر اور تذلیل کے لئے کہا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سَائِبَةَ مَوْلَاةِ الْفَاكِهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَرَأَتْ فِي بَيْتِهَا رُمْحًا مَوْضُوعًا، فَقَالَتْ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مَا تَصْنَعِينَ بِهَذَا؟، قَالَتْ: نَقْتُلُ بِهِ هَذِهِ الْأَوْزَاغَ، فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَنَا: "أَنَّ إِبْرَاهِيمَ لَمَّا أُلْقِيَ فِي النَّارِ، لَمْ تَكُنْ فِي الْأَرْضِ دَابَّةٌ إِلَّا أَطْفَأَتِ النَّارَ غَيْرَ الْوَزَغِ، فَإِنَّهَا كَانَتْ تَنْفُخُ عَلَيْهِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ".
فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو انہوں نے آپ کے گھر ایک برچھا رکھا ہوا دیکھا، تو عرض کیا: ام المؤمنین! آپ اس برچھے سے کیا کرتی ہیں؟ کہا: ہم اس سے ان چھپکلیوں کو مارتے ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو روئے زمین کے تمام جانوروں نے آگ بجھائی سوائے چھپکلی کے کہ یہ اسے (مزید) پھونک مارتی تھی، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۴۳، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸۳،۱۰۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھپکلی کا قتل مذہبی عداوت کی وجہ سے ہے، چونکہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی دشمن تھی، تو سارے مسلمانوں کو اس کا دشمن ہونا چاہئے، اور بعضوں نے کہا: شیطان چھپکلی کی شکل بن کر آگ پھونکتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شکل کو برا جانا، اور اس کے ہلاک کرنے کا حکم دیا، حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دشمن کے برے کام کرنے سے کبھی اس کی ساری قوم مطعون ہو جاتی ہے، اور وہ مکروہ سمجھی جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلَمْ أَسْمَعْ بِهَذَا حَتَّى دَخَلْتُ الشَّامَ.
ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ زہری کہتے ہیں کہ شام جانے سے پہلے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصید ۲۹ (۵۵۳۰)، الطب ۵۷ (۵۷۸۰)، صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۲)، سنن ابی داود/الاطعمة ۳۳ (۳۸۰۲)، سنن الترمذی/الصید ۱۱ (۱۴۷۷)، سنن النسائی/الصید ۲۸ (۴۳۳۰)،(تحفة الأشراف:۱۱۸۷۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصید ۴ (۱۳)، مسند احمد (۴/۱۹۳،۱۹۴)، سنن الدارمی/الأضاحي ۱۸ (۲۰۲۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: «ناب» اس دانت کو کہتے ہیں جو رباعیہ کے پیچھے ہوتا ہے، اور رباعیہ ثنایا کے ساتھ ہوتے ہیں، «ناب» کو ہم کچلی (نوک دار اور کتا دانت) کہتے ہیں، کچلیوں والے جانورسے مراد وہ درندہ ہے جس کی کچلیاں ہوں جو شکار کرنے میں قوت کاباعث بنیں مثلاً شیر، بھیڑیا، چیتا اور تندوا وغیرہ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَكْلُ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ حَرَامٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کا کھانا حرام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/الصید ۲۸ (۴۳۲۹)،(تحفة الأشراف:۱۴۱۳۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصید ۴ (۱۴)، صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۳)، سنن الترمذی/الصید ۳ (۱۴۶۷)، مسند احمد (۲/۴۱۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے اور پنجہ والے پرندے کے کھانے سے منع فرما دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۳۳ (۳۸۰۵)، سنن النسائی/الصید ۳۳ (۴۳۵۳)،(تحفة الأشراف:۵۶۳۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصید ۳ (۱۹۳۴)، مسند احمد (۱/۲۴۴)، سنن الدارمی/الأضاحی ۱۸ (۲۰۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: پنجہ والے پرندے سے مراد وہ پرندے ہیں جو پنجہ سے شکار کرتے ہیں، جیسے باز بحری، شکرہ، عقاب، چیل، گدھ وغیرہ، اور الو بھی پنجہ سے شکار کرتا ہے پس وہ اس قاعدے کے موافق حرام ہو گا، لیکن افسوس ہے کہ بعض فقہا حنفیہ کو اس کی خبر نہیں ہوئی، اور انہوں نے اپنی کتابوں میں الو کو حلال لکھا ہے، چنانچہ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ الو کھایا جائے گا، روضہ ندیہ میں ہے کہ کبوتر بھی پنجہ رکھتا ہے لیکن وہ حلال ہے، اسی طرح چڑیا کیونکہ وہ پاک اور نفیس ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْءٍ، عَنْ أَخِيهِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْءٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ، لِأَسْأَلَكَ عَنْ أَحْنَاشِ الْأَرْضِ، مَا تَقُولُ فِي الثَّعْلَبِ؟، قَالَ: "وَمَنْ يَأْكُلُ الثَّعْلَبَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي الذِّئْبِ؟، قَالَ: "وَيَأْكُلُ الذِّئْبَ أَحَدٌ فِيهِ خَيْرٌ؟!".
خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کرنے آیا ہوں، آپ لومڑی کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لومڑی کون کھاتا ہے"؟ پھر میں نے عرض کیا: آپ بھیڑئیے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کہیں کوئی آدمی جس میں خیر ہو بھیڑیا کھاتا ہے"؟ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۵۳۳، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأطعمة ۴ (۱۷۹۲)، مقتصراً علی الجملة الأخیرة)(ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز عبد الکریم ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث تو ضعیف ہے لیکن لومڑی شکار کرتی ہے، تو وہ دانت والے درندوں میں سے ہے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: "سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: عَنِ الضَّبُعِ أَصَيْدٌ هُوَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: آكُلُهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَشَيْءٌ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: نَعَمْ".
عبدالرحمٰن بن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے «ضبع» (لکڑبگھا) ۱؎ کے متعلق سوال کیا، کیا وہ شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے عرض کیا: کیا میں اسے کھاؤں؟ کہا: ہاں، پھر میں نے عرض کیا: کیا آپ نے (اس سلسلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۳۲ (۳۸۰۱)، سنن الترمذی/الحج ۲۸ (۸۵۱)، الأطعمة ۴ (۱۷۹۲)، سنن النسائی/الحج ۸۹ (۲۸۳۹)، الصید ۲۷ (۴۳۲۸)،(تحفة الأشراف:۲۳۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۷،۳۱۸)، سنن الدارمی/المناسک۹۰ (۱۹۸۴)(صحیح)
وضاحت: «ضبع»: ایک درندہ ہے، جو کتے سے بڑا اور اس سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، اس کا سر بڑا اور جبڑے مضبوط ہوتے ہیں، اس کی جمع «اضبع» ہے (المعجم الوسیط: ۵۳۳-۵۳۴) ہندو پاک میں اس درندے کو لکڑبگھا کہتے ہیں، جو بھیڑیے کی قسم کا ایک جنگلی جانور ہے، اور جسامت میں اس سے بڑا ہوتا ہے، اور اس کے کیچلی کے دانت بڑے ہوتے ہیں، اس کے جسم کے بال کالے اور راکھ کے رنگ کے رنگ دھاری دار ہوتے ہیں، پیچھے بائیں پاؤں دوسرے پاؤں سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کا سر چیتے کے سر کی طرح ہوتا ہے، لیکن اس سے چھوٹا ہوتا ہے، وہ اپنے چوڑے چکلے مضبوط جبڑوں سے شیر اور چیتوں کے سر کو توڑ سکتا ہے، اکثر رات میں نکلتا ہے، اور اپنے مجموعے کے ساتھ رہتا ہے، یہ جانور زمین میں سوراخ کر کے مختلف چھوٹے چھوٹے کمرے بناتے ہیں، اور بیچ میں ایک ہال ہوتا ہے، جس میں سارے کمروں کے دروازے ہوتے ہیں، اور ایک دروازہ اس ہال سے باہر کو جاتا ہے، نجد میں ان کی اس رہائش کو «مضبعہ» یا «مجفرہ» کہتے ہیں، ماں پورے خاندان کی نگران ہوتی ہے، اور سب کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، اور نر سوراخ کے کنارے پر چھوٹوں کی نگرانی کرتا ہے، یہ جانور مردہ کھاتا ہے، لیکن شکار کبھی نہیں کرتا اور کسی پر حملہ بھی نہیں کرتا إلا یہ کہ کوئی اس پر حملہ آور ہو، یہ جانوروں کے پیچھے رہتا ہے، اس کی گردن سیدھی ہوتی ہے، اس لیے دائیں بائیں جسم موڑے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اہل نجد کے یہاں یہ جانور کھایا جاتا تھا اور لوگ اس کا شکارکرتے تھے، میں نے اس کے بارے میں اپنے ایک دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور بذات خود صحرائی جانور کا تجربہ رکھتے ہیں، سے پوچھا تو انہوں نے مذکورہ بالا تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا اور اس کے زمین کے اندر کے گھر کا نقشہ بھی بنا کر دکھایا۔ اس کے گھر کو ماند اور کھوہ سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تفصیل اس واسطے درج کی جاری ہے کہ مولانا وحیدالزماں نے «ضبع» کا ترجمہ بجو سے کیا ہے، فرماتے ہیں: فارسی زبان میں اسے «کفتار» اور ہندی میں بجو کہتے ہیں، یہ گوشت خور جانور ہے، جو بلوں میں رہتا ہے، مولانا محمد عبدہ الفلاح فیروز پوری کہتے ہیں کہ «ضبع» سے مراد بجو نہیں ہے بلکہ اس نوع کا ایک جانور ہے جسے شکار کیا جاتا ہے، اور اس کو لکڑبگڑکھا کہا جاتا ہے، جو سابقہ ریاست سندھ اور بہاولپور میں پایا جاتا ہے۔ اوپر کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث میں مذکور «ضبع» سے مراد لکڑبگھا ہے، بجو نہیں، شاید مولانا وحیدالزماں کے سامنے دمیری کی حیاۃ الحیوان تھی جس میں «ضبع» کی تعریف بجو سے کی گئی ہے، اور شیخ صالح الفوزان نے بھی حیاۃ الحیوان سے نقل کر کے یہی لکھا ہے، مولانا وحید الزماں بجو کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ اس سے صاف نکلتا ہے کہ بجو حلال ہے، امام شافعی کا یہی قول ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ دانت والا درندہ ہے، تو اور درندوں کی طرح حرام ہو گا، اور جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو اس سے باز رہنا بھی احتیاط ہے ‘‘ سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہمارے یہاں لکڑبگھا ہی «ضبع» کا صحیح مصداق ہے، اور اس کا شکار کرنا اور اس کو کھانا صحیح حدیث کی روشنی میں جائز ہے۔ واضح رہے کہ چیرپھاڑ کرنے والے حیوانات حرام ہے، یعنی جس کی کچلی ہوتی ہے، اور جس سے وہ چیر پھاڑ کرتا ہے، جیسے: کتا، بلی جن کا شمار گھریلو یا پالتو جانور میں ہے اور وحشی جانور جیسے: شیر، بھیڑیا، چیتا، تیندوا، لومڑی، جنگلی بلی، گلہری، بھالو، بندر، ہاتھی، سمور (نیولے کے مشابہ اور اس سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل) گیدڑ وغیرہ وغیرہ۔ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے یہاں یہ سارے جانور حرام ہیں، اور مالکیہ کا ایک قول بھی ایسے ہی ہے، لکڑبگھا اور لومڑی ابویوسف اور محمد بن حسن کے نزدیک حلال ہے، جمہور علماء ان حیوانات کی حرمت کے دلیل میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر کچلی والے درندے کا کھانا حرام ہے (صحیح مسلم و موطا امام مالک) لکڑبگھا حنابلہ کے یہاں صحیح حدیث کی بنا پر حلال ہے، کچلی والے درندے میں سے صرف لکڑبگھا کو حرمت کے حکم سے مستثنی کرنے والوں کی دلیل اس سلسلے میں وارد احادیث و آثار ہیں، جن میں سے زیر نظر جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو صحیح ہے بلکہ امام بخاری نے بھی اس کی تصحیح فرمائی ہے (کمافي التلخیص الحبیر۴/۱۵۲)، نافع مولیٰ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر کو یہ بتایا کہ سعد بن ابی وقاص لکڑبگھا کھاتے ہیں تو ابن عمر نے اس پر نکیر نہیں فرمائی۔ مالکیہ کے یہاں ان درندوں کا کھانا حلال ہے، ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے ہے «قل لا أجد في ما أوحي إلي محرما على طاعم يطعمه إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا أو لحم خنزير فإنه رجس أو فسقا أهل لغير الله به فمن اضطر غير باغ ولا عاد فإن ربك غفور رحيم» (سورة الأنعام: 145) ان آیات میں درندوں کے گوشت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے یہ حلال ہوں گے اور ہر کچلی والے درندے کے گوشت کھانے سے ممانعت والی حدیث کراہت پر محمول کی جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ مالکیہ کے علاوہ صرف حنبلی مذہب میں صحیح حدیث کی بنا پر لکڑبگھا حلال ہے (ملاحظہ ہو: الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:۵/۱۳۳-۱۳۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْحِبَّانَ بْنِ جَزْءٍ، عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْءٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي الضَّبُعِ؟، قَالَ: "وَمَنْ يَأْكُلُ الضَّبُعَ؟".
خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ لکڑبگھا کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لکڑبگھا کون کھاتا ہے"؟۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأطعمة ۴ (۱۷۹۲)،(تحفة الأشراف:۳۵۳۳)(ضعیف) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصَابَ النَّاسُ ضِبَابًا، فَاشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَأَصَبْتُ مِنْهَا ضَبًّا فَشَوَيْتُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ جَرِيدَةً فَجَعَلَ يَعُدُّ بِهَا أَصَابِعَهُ، فَقَالَ: "إِنَّ أُمَّةً مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُسِخَتْ دَوَابَّ فِي الْأَرْضِ، وَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا هِيَ"، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اشْتَوَوْهَا فَأَكَلُوهَا، فَلَمْ يَأْكُلْ وَلَمْ يَنْهَ.
ثابت بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، لوگوں نے ضب (گوہ) پکڑے اور انہیں بھونا، اور اس میں سے کھایا، میں نے بھی ایک گوہ پکڑی اور اسے بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکڑی لی، اور اس کے ذریعہ اس کی انگلیاں شمار کرنے لگے اور فرمایا: "بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ ہو کر زمین میں کا ایک جانور بن گیا، اور میں نہیں جانتا شاید وہ یہی ہو"، میں نے عرض کیا: لوگ اسے بھون کر کھا بھی گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے کھایا اور نہ ہی (اس کے کھانے سے) منع کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۲۸ (۳۷۹۵)، سنن النسائی/الصید والذبائح ۲۶ (۴۳۲۵)،(تحفة الأشراف:۲۰۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۲۰)، سنن الدارمی/الصید ۸ (۲۰۵۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمْ الضَّبَّ، وَلَكِنْ قَذِرَهُ، وَإِنَّهُ لَطَعَامُ عَامَّةِ الرِّعَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَنْفَعُ بِهِ غَيْرَ وَاحِدٍ، وَلَوْ كَانَ عِنْدِي لَأَكَلْتُهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے اسے ناپسند فرمایا، اور وہ عام چرواہوں کا کھانا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ متعدد بہت سارے لوگوں کو فائدہ دیتا ہے، اور وہ اگر میرے پاس ہوتی تو اسے میں ضرور کھاتا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۲۷۳، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۳)(ضعیف) (سند میں قتادہ اور سلیمان بن قیس کے درمیان انقطاع ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث کے ہم معنی یہ روایت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ مَضَبَّةٌ، فَمَا تَرَى فِي الضِّبَاب؟، قَالَ: "بَلَغَنِي أَنَّهُ أُمَّةً مُسِخَتْ"فَلَمْ يَأْمُرْ بِهِ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ.
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ کر لوٹے تو اہل صفہ میں سے ایک شخص نے آپ کو آواز دی، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے ملک میں ضب (گوہ) بہت ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ یہ کوئی امت ہے جو مسخ کر دی گئی ہے" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس کے کھانے کا حکم دیا، اور نہ ہی منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصید والذبائح ۷ (۱۹۵۱)،(تحفة الأشراف:۴۳۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۵،۱۹،۶۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْأَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ فَأَهْوَى بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَرَامٌ الضَّبُّ؟، قَالَ: "لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، قَالَ: فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ.
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں"، (یہ سن کر) خالد رضی اللہ عنہ نے ضب (گوہ) کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کو کھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ رہے تھے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأطعمة ۱۰ (۵۳۹۱)،۱۴ (۵۴۰۰)، الذبائح ۳۳ (۵۵۳۷)، صحیح مسلم/الذبائح ۷ (۱۹۴۶)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۸ (۳۷۹۴)، سنن النسائی/الصید و الذبائح ۲۶ (۴۳۲۱)،(تحفة الأشراف:۳۵۰۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الإستئذان ۴ (۱۰)، مسند احمد (۴/۸۸،۸۹)، سنن الدارمی/الصید ۸ (۲۰۶۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یونس نے زہری سے مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کو اپنے ہاتھ میں لیتے یہاں تک کہ آپ کو اس کے بارے میں بتا دیا جاتا، اسحاق بن راہویہ اور بیہقی نے شعب الإیمان میں عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ ایک اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ کو ہدیہ دینے کے لیے ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا اور آپ ہدیہ کا کھانا اس وقت تک نہ کھاتے تھے جب تک کہ صاحب ہدیہ کو اس کے کھانے کا حکم نہ دیتے، جب وہ کھا لیتا تو آپ بھی کھاتے، ایسا اس واسطے کرتے تھے کہ خیبر میں آپ کے پاس (مسموم) بھنی بکری یہودی عورت نے پیش کی تھی (اور اس سے آپ متاثر ہو گئے تھے تو بعد میں احتیاطی تدبیرکے طور پر ہدیہ دینے والے سے کھانے کی ابتداء کراتے تاکہ کسی سازش کا خطرہ نہ رہ جائے) (حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے) ۲؎: صحیح بخاری کی روایت میں یہ تفصیل ہے کہ خالد بن ولید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا تھا کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، اور صحیح بخاری کے کتاب الأطعمہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) نہ کھا کر پنیر کھائی اور دودھ پیا۔ اس حدیث میں آپ کے گھن اور کراہت کا سبب یہ ہے کہ آپ کے علاقہ میں ضب (گوہ) نہیں پائی جاتی تھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ ضب (گوہ) کا گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا، حافظ ابن حجر حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حدیث میں وارد «بأرض قومي» کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قوم سے مراد قریش ہیں، تو ضب (گوہ) کے نہ پائے جانے کا معاملہ مکہ اور اس کے ارد گرد کے علاقہ سے متعلق ہو گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ حجاز کے دوسرے علاقے میں ضب (گوہ) موجود ہی نہ ہو صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں دعوت ولیمہ دی اور ہمارے سامنے تیرہ ضب (گوہ) پیش کیے تو کسی نے کھایا اورکسی نے نہیں کھایا، حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ حجاز میں ضب (گوہ) بکثرت پائی جاتی ہے، اس حدیث میں صرف خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ انہوں نے ضب (گوہ) کا گوشت کھایا، صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ تم ضب (گوہ) کا گوشت کھاؤ تو فضل بن عباس، خالد اور مذکورہ عورت نے کھایا، شعبی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے فرمایا: " ضب (گوہ) کھاؤ اور کھلاؤ، اس لیے کہ یہ حلال ہے " یا فرمایا " کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میری خوراک نہیں "، ان تصریحات سے پتہ چلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کا گوشت صرف اس واسطے نہ کھایا کہ آپ کو اس کے کھانے کی سابقہ عادت نہ تھی۔(الفریوائی)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا أُحَرِّمُ"، يَعْنِي الضَّبَّ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں حرام نہیں کرتا" یعنی ضب (گوہ) کو ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۱۷۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصید ۳۳ اتم منہ (۵۵۳۶)، صحیح مسلم/الصید ۷ اتم منہ (۱۹۴۳)، سنن الترمذی/الأطعمة ۳ (۱۷۹۰)، موطا امام مالک/الإستئذان ۴ (۱۱)، مسند احمد (۲/۹،۱۰،۳۳،۴۱،۴۶،۶۰،۶۲،۷۴،۱۱۵)، سنن الدارمی/الصید ۸ (۲۰۵۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎:۱- جمہورعلماء کے نزدیک ضب (گوہ) کا گوشت کھانا حلال ہے، ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کا ذکر کیا ہے، جس سے اس کی حلت واضح ہے، ضب (گوہ) امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی، ساتھ میں دودھ اور پنیر بھی تھا، دسترخوان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملا دینے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہو جانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجود چیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے، جبریل علیہ السلام قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہر طرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب (گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طور پر بدؤں اور دیہاتیوں کی غذا تھی تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، تو آپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذر کیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اور پنیر پر اکتفا کیا، ضب (گوہ) کے دسترخوان پر ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ امہات المؤمنین کے یہاں اور دوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالد بن ولید نے اسے مزے لے کر کھایا بھی، اس طرح سے آپ نے اس پر صاد کیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگر ضب (گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتا اس لیے اس واقعہ سے ضب (گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔ شافعی، مالک، احمد اور اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے، اور اس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کھانے سے منع کیا، اس کی سند ضعیف ہے۔ ابن ماجہ نے اوپر ۳۲۴۲ نمبر کی حدیث ذکر فرمائی ہے، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: «الضب لست آكله ولا أحرمه» (۵۵۳۶) (ضب- گوہ- نہ میں کھاتا ہوں نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں)۔ صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب منبر رسول پر ہوا، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو اوپر (۳۲۴۱) نمبر پر گزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ضب (گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے، نووی اس نقل کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے) کا قول صحیح اور ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح بھی ہو تو جواز و حلت کے نصوص سے اور پہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ابن المنذر نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا؟۔ نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے۔ امام طحاوی معانی الأثار میں کہتے ہیں: ایک جماعت نے ضب (گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ان میں ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا: محمد بن الحسن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی، تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے ضب (گوہ) کو دینا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " کیا جو چیز تم نہیں کھا رہی ہو وہ سائل کو دو گی "۔ طحاوی کہتے ہیں: اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ضب (گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھانا ہی پیش کیا جائے، جیسا کہ ردی کھجور دینے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کا شکار ہوئے، اور صحابہ کرام کو کچھ ضب (گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا، ابھی یہ ہانڈیوں پر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے اسے انڈیل دینے کا حکم دیا، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کر کے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنا دی گئی تھی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ضب (گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے انڈیل دو " (اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے،اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، اور طحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی ہے، طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کو بھونا اور اسے کھایا تو نہ تو آپ نے کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے ہر طرح سے ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے، اس بارے میں نصوص صریح ہیں، تو جن احادیث میں ضب (گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا تو وہ اس خیال کی بنا پر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تو نہیں ہے، پھر بعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اورنہ اس کے کھانے سے روکا، اور جب آپ کو اس بات کا علم ہو گیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی، پھر اس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قرار دیتے تھے، اور جب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہونا ثابت ہو گیا، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہو گی، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور جن لوگوں کو ضب (گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب (گوہ) کا کھانا جائز اور مباح ٹھہرا، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔ امام طحاوی ضب (گوہ) سے متعلق احادیث و آثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں: ان آثار سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ضب (گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں بھی اس کا قائل ہوں، اوپر عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جو چیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دو گی! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمد بن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے، محمد بن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مکروہ سمجھا،امام طحاوی اس پر تعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ: «ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه» (سورة البقرة:267) کے قبیل سے ہو، پھر خراب کھجور کو صدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکر کیں اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسند کرتے تھے تو آیت کریمہ: «أنفقوا من طيبات ما كسبتم» (سورة البقرة:267) نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب (گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمد بن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے، بعض لوگوں کا میلان تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ " احادیث مختلف ہیں، اور پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ اس کا جاننا مشکل ہے، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قرار دیا "۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر ۵۵۳۷)، (نیز: المحلی لإبن حزم ۶/۱۱۲، مسألہ نمبر۱۰۳۲، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۴۲، توضیح الأحکام للبسام) (حررہ الفریوائی)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "مَرَرْنَا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَأَنْفَجْنَا أَرْنَبًا، فَسَعَوْا عَلَيْهَا، فَلَغَبُوا فَسَعَيْتُ، حَتَّى أَدْرَكْتُهَا فَأَتَيْتُ بِهَا أَبَا طَلْحَةَ، فَذَبَحَهَا، فَبَعَثَ بِعَجُزِهَا وَوَرِكِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبِلَهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ مرالظہران سے گزرے، تو ہم نے ایک خرگوش کو چھیڑا (اس کو اس کی پناہ گاہ سے نکالا)، لوگ اس پر دوڑے اور تھک گئے، پھر میں نے بھی دوڑ لگائی یہاں تک کہ میں نے اسے پا لیا، اور اسے لے کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے اس کو ذبح کیا، اور اس کی پٹھ اور دم گزا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الہبة ۵ (۲۵۷۲)، الصید ۱۰ (۵۴۸۹)،۳۲ (۵۵۳۵)، صحیح مسلم/الصید ۹ (۱۹۵۳)، سنن ابی داود/الأطعمة ۲۷ (۳۷۹۱)، سنن الترمذی/الأطعمة ۲ (۱۷۹۰)، سنن النسائی/الصید ۲۵ (۴۳۱۷)،(تحفة الأشراف:۱۶۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۸،۱۷۱،۲۹۱)، سنن الدارمی/الصید ۷ (۲۰۵۶)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: مرالظہران مکہ کے قریب ایک وادی کا نام ہے۔ جمہور اہل سنت خرگوش کے گوشت کی حلّت کے قائل ہیں، روافض اسے حرام کہتے ہیں لیکن حدیث صحیح سے اس کی حلت ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبَيْنِ مُعَلِّقَهُمَا، فَقَالَ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ هَذَيْنِ الْأَرْنَبَيْنِ فَلَمْ أَجِدْ حَدِيدَةً أُذَكِّيهِمَا بِهَا فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ، أَفَآكُلُ؟، قَالَ: كُلْ".
محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دو خرگوش لٹکائے ہوئے گزرے، اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے یہ دونوں خرگوش ملے، اور مجھے کوئی لوہا نہیں ملا، جس سے میں انہیں ذبح کرتا، اس لیے میں نے ایک (تیز) پتھر سے انہیں ذبح کر دیا، کیا میں انہیں کھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الضحایا ۱۵ (۲۸۲۲)، سنن النسائی/الصید و الذبائح ۲۵ (۴۳۱۸)،(تحفة الأشراف:۱۱۲۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۷۱)، سنن الدارمی/الصید ۷ (۲۰۵۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْءٍ، عَنْ أَخِيهِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْءٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ لِأَسْأَلَكَ عَنْ أَحْنَاشِ الْأَرْضِ، مَا تَقُولُ فِي الضَّبِّ؟، قَالَ: "لَا آكُلُهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ"، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ، وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: "فُقِدَتْ أُمَّةٌ مِنَ الْأُمَمِ، وَرَأَيْتُ خَلْقًا رَابَنِي"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي الْأَرْنَبِ؟، قَالَ: "لَا آكُلُهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ"، قُلْتُ: فَإِنِّي آكُلُ مِمَّا لَمْ تُحَرِّمْ، وَلِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: "نُبِّئْتُ أَنَّهَا تَدْمَى".
خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا کہ آپ سے زمین کے کیڑوں کے متعلق سوال کروں، آپ ضب (گوہ) کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ تو میں اسے کھاتا ہوں، اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں" میں نے عرض کیا: میں تو صرف ان چیزوں کو کھاؤں گا جسے آپ نے حرام نہیں کیا ہے، اور آپ (ضب) کیوں نہیں کھاتے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قوموں میں ایک گروہ گم ہو گیا تھا اور میں نے اس کی خلقت کچھ ایسی دیکھی کہ مجھے شک ہوا" (یعنی شاید یہ ضب- گوہ- وہی گمشدہ گروہ ہو) میں نے عرض کیا: آپ خرگوش کے سلسلے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ ہی حرام قرار دیتا ہوں"، میں نے عرض کیا: میں تو ان چیزوں میں سے کھاؤں گا جسے آپ حرام نہ کریں، اور آپ خرگوش کھانا کیوں نہیں پسند کرتے؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے خبر دی گئی ہے کہ اسے حیض آتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۳۵۳۳، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۴)(ضعیف) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالکریم ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَهُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَحْرُ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ الْجَوَادِ، أَنَّهُ قَالَ: هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ، لِأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ، فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ، وَبَقِيَ الْبَرُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے"۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوعبیدہ الجواد سے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ آدھا علم ہے اس لیے کہ دنیا بحر و بر یعنی خشکی اور تری کا نام ہے، تو آپ نے سمندر کے متعلق مسئلہ بتا دیا، اور خشکی (کا مسئلہ) باقی رہ گیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة ۴۱ (۸۳)، سنن الترمذی/الطہارة ۵۲ (۶۹)، سنن النسائی/الطہارة ۴۷ (۵۹)، الصید ۳۵ (۴۳۶۱)،(تحفة الأشراف:۱۴۶۱۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۳ (۱۲)، مسند احمد (۲/۳۷،۳۶۱،۳۷۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۵۲ (۷۵۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحابہ کی ایک جماعت، تابعین، مالک، شافعی اور اہل حدیث کے نزدیک اس کا کھانا حلال ہے اور ابوحنیفہ کے نزدیک ناجائز، ان کی دلیل آگے آتی ہے، امام نووی کہتے ہیں: سمندر کے سب مردے حلال ہیں، خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں، اور مچھلی کی حلت پر اجماع ہے لیکن طافی مچھلی (یعنی جو مر کر خود بخود پانی پر تیر آئے) میں اختلاف ہے، اصحاب شافعیہ کے نزدیک مینڈ ک حرام ہے، اور باقی سمندر کے جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سمندر کے کل جانور حلال ہیں، دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں ہے، تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں،ان کی شبیہ سمندر میں بھی حلال ہے جیسے سمندری گھوڑے، سمندری بکری، سمندری ہرن اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کے شبیہ سمندر میں بھی حرام ہے جیسے سمندری کتا، سمندری سور۔واللہ اعلم۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَلْقَى الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْهُ فَكُلُوهُ، وَمَا مَاتَ فِيهِ فَطَفَا فَلَا تَأْكُلُوهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس جانور کو سمندر نے کنارے پر ڈال دیا ہو یا پانی کم ہو جانے سے وہ مر جائے تو اسے کھاؤ، اور جو سمندر میں مر کر اوپر آ جائے اسے مت کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأطعمة ۳۶ (۳۸۱۵)،(تحفة الأشراف:۲۶۵۷)(ضعیف) (سند میں یحییٰ بن سلیم طائفی ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "مَنْ يَأْكُلُ الْغُرَابَ، وَقَدْ سَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسِقًا، وَاللَّهِ مَا هُوَ مِنَ الطَّيِّبَاتِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کوّا کون کھائے گا؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فاسق کہا، اللہ کی قسم وہ پاک چیزوں میں سے نہیں ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۳۲۶، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۵)(صحیح) (شریک القاضی سئی الحفظ ہیں، لیکن دوسرے طریق سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۸۲۵)
وضاحت: ۱؎: یعنی طیبات میں سے جو حلال ہے بلکہ یہ خبائث میں سے ہے اس سے کوے کی حرمت ثابت ہوئی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْحَيَّةُ فَاسِقَةٌ، وَالْعَقْرَبُ فَاسِقَةٌ، وَالْفَأْرَةُ فَاسِقَةٌ، وَالْغُرَابُ فَاسِقٌ"، فَقِيلَ لِلْقَاسِمِ: أَيُؤْكَلُ الْغُرَابُ؟، قَالَ: مَنْ يَأْكُلُهُ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسِقًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سانپ فاسق ہے، بچھو فاسق ہے، چوہا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے"۔ قاسم سے پوچھا گیا: کیا کوا کھایا جاتا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فاسق کہنے کے بعد اسے کون کھائے گا؟۔
تخریج دارالدعوہ: «تفردبہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۴۹۸، ومصباح الزجاجة:۱۱۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۰۹،۲۳۸)(صحیح) (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۸۲۵)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَكْلِ الْهِرَّةِ وَثَمَنِهَا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع ۶۴ (۳۴۸۰)، سنن الترمذی/البیوع ۴۹ (۱۲۸۰)،(تحفة الأشراف:۲۸۹۴)(ضعیف) (سند میں عمر بن زید ضعیف ہیں، اسی لئے ترمذی نے حدیث کو غریب یعنی ضعیف کہا ہے، سنن ابن ماجہ کے دارالمعارف کے نسخہ میں البانی صاحب نے ضعیف کہا ہے، اور الإرواء: کا حوالہ دیا ہے،(۲۴۸۷)، اور سنن أبی داود کے دارالمعارف کے نسخہ میں صحیح کہا ہے، اور احادیث البیوع کا حوالہ دیا ہے، جب کہ ارواء الغلیل میں حدیث کی تخریج کے بعد ضعیف کا حکم لگایا ہے)