حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَقَالَ: "شَغَلَنِي أَعْلَامُ هَذِهِ، اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بأنبجانيته".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مجھے ان بیل بوٹوں نے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کو کے پاس لے کر جاؤ اور مجھے ان کی انبجانی چادر لا کر دے دو"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة ۱۴ (۳۷۳)، الأذان ۹۳ (۷۵۲)، اللباس ۱۹ (۵۸۱۷)، صحیح مسلم/المساجد ۱۵ (۵۵۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۶۷ (۹۱۴)، اللباس ۱۱ (۴۰۵۲)، سنن النسائی/القبلة ۲۰ (۷۷۰)،(تحفة الأشراف:۱۶۴۳۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۱۸ (۶۷)، مسند احمد (۶/۳۷،۴۶،۱۷۷،۱۹۹،۲۰۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: "دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَأَخْرَجَتْ لِي إِزَارًا غَلِيظًا مِنَ الَّتِي تُصْنَعُ بِالْيَمَنِ، وَكِسَاءً مِنْ هَذِهِ الْأَكْسِيَةِ الَّتِي تُدْعَى الْمُلَبَّدَةَ، وَأَقْسَمَتْ لِي لَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمَا".
ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا جو یمن میں تیار کیا جاتا ہے، اور ان چادروں میں سے ایک چادر جنہیں ملبدہ (موٹا ارزاں کمبل) کہا جاتا ہے، نکالا اور قسم کھا کر مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میں وفات پائی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/فرض الخمس ۵ (۳۱۰۸)، اللباس ۱۹ (۵۸۱۸)، صحیح مسلم/اللباس ۶ (۲۰۸۰)، سنن الترمذی/اللباس ۱۰ (۱۷۳۳)، سنن ابی داود/اللباس ۸ (۴۰۳۶)،(تحفة الأشراف:۱۷۶۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۲،۱۳۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، جب رسول اکرم ﷺ نے ایک کمبل اور ایک تہبند پر اکتفا کی، تو ہر مومن کے سامنے لباس میں یہ اسوہ رسول رہنا چاہئے،مطلب یہ ہے کہ دنیا داروں کی خوشامد کرنے سے اور بیہودہ دوڑنے پھرنے سے ہمیشہ پرہیز رکھے، اور قناعت کو اپنا شعار گردانے اور سوال اور حاجت لے کر دوسروں کے سامنے جانے کی ذلت وخواری سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الْأَحْوَصِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَّى فِي شَمْلَةٍ قَدْ عَقَدَ عَلَيْهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس میں آپ نے گرہ لگا رکھی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۰۸۵، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۰)(ضعیف الإسناد) (خالد بن معدان نے نہ عبادہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور نہ ان سے سنا، نیز احوص بن حکیم ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ رِدَاءٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ کے جسم پر موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/فرض الخمس ۱۹ (۳۱۴۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۴۴ (۱۰۵۷)،(تحفة الأشراف:۲۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۵۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسُبُّ أَحَدًا، وَلَا يُطْوَى لَهُ ثَوْبٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کو برا بھلا کہا ہو یا آپ کا کپڑا تہ کیا جاتا رہا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۴۱۵، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۱)(ضعیف) (عبداللہ بن لہیعہ صدوق راوی ہیں، لیکن ان کی کتابوں کے جلنے کے بعد اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اس لئے یہ سند ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ،"أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ، قَالَ: وَمَا الْبُرْدَةُ؟ قَالَ: الشَّمْلَةُ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَسَجْتُ هَذِهِ بِيَدِي لِأَكْسُوَكَهَا، فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ عَلَيْنَا فِيهَا، وَإِنَّهَا لَإِزَارُهُ فَجَاءَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ رَجُلٌ سَمَّاهُ يَوْمَئِذٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَحْسَنَ هَذِهِ الْبُرْدَةَ اكْسُنِيهَا، قَالَ: "نَعَمْ"، فَلَمَّا دَخَلَ طَوَاهَا وَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسَنْتَ كُسِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ إِيَّاهَا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّهُ لَا يَرُدُّ سَائِلًا، فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِأَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ سَأَلْتُهُ إِيَّاهَا لِتَكُونَ كَفَنِي، فَقَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ يَوْمَ مَاتَ.
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں «بردہ» (چادر) لے کر آئی (ابوحازم نے پوچھا«بردہ» کیا چیز ہے؟ ان کے شیخ نے کہا: «بردہ» شملہ ہے جسے اوڑھا جاتا ہے) اور کہا: اللہ کے رسول! اسے میں نے اپنے ہاتھ سے بنا ہے تاکہ میں آپ کو پہناؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت تھی، پھر آپ اسے پہن کر کے ہمارے درمیان نکل کر آئے، یہی آپ کا تہبند تھا، پھر فلاں کا بیٹا فلاں آیا (اس شخص کا نام حدیث بیان کرنے کے دن سہل نے لیا تھا لیکن ابوحازم اسے بھول گئے) اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ چادر کتنی اچھی ہے، یہ آپ مجھے پہنا دیجئیے، فرمایا: "ٹھیک ہے"، پھر جب آپ اندر گئے تو اسے (اتار کر) تہ کیا، اور اس کے پاس بھجوا دی، لوگوں نے اس سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے اس لیے پہنائی تھی کہ آپ کو اس کی حاجت تھی، پھر بھی تم نے اسے آپ سے مانگ لیا، حالانکہ تمہیں معلوم تھا کہ آپ کسی سائل کو نامراد واپس نہیں کرتے تو اس شخص نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں نے آپ سے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا ہے بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ وہ میرا کفن ہو، سہل کہتے ہیں: جب وہ مرے تو یہی چادر ان کا کفن تھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز ۲۸ (۱۲۷۷)، البیوع ۳۱ (۲۰۹۳)، اللباس ۱۸ (۵۸۱۰)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۴۳ (۵۳۲۳)،(تحفة الأشراف:۴۷۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۳۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں اس شخص کا نام عبدالرحمن بن عوف مذکور ہے جو بزرگ صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ نُوحِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "لَبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّوفَ وَاحْتَذَى الْمَخْصُوفَ، وَلَبِسَ ثَوْبًا خَشِنًا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اون کا (سادہ اور موٹا) لباس پہنا ہے، مرمت شدہ جوتا پہنا ہے اور انتہائی موٹا کپڑا زیب تن فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۴۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۲)(ضعیف) (نوح بن ذکوان ضعیف ہے، اور بقیہ مدلس اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ أَوْ أَلْقَى فَتَصَدَّقَ بِهِ كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ، وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سِتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا"، قَالَهَا ثَلَاثًا.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نیا کپڑا پہنا تو یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» یعنی: "اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں، اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں"، پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور یہ دعا پڑھے: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي»یعنی "اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں زینت حاصل کرتا ہوں"، پھر وہ اس کپڑے کو جو اس نے اتارا، یا جو پرانا ہو گیا صدقہ کر دے، تو وہ اللہ کی حفظ و امان اور حمایت میں رہے گا، زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الدعوات ۱۰۸ (۳۵۶۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۴۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۴)(ضعیف) (سند میں ا بو العلاء مجہول راوی ہیں)
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عُمَرَ قَمِيصًا أَبْيَضَ، فَقَالَ: "ثَوْبُكَ هَذَا غَسِيلٌ أَمْ جَدِيدٌ"، قَالَ: لَا بَلْ غَسِيلٌ، قَالَ: "الْبَسْ جَدِيدًا، وَعِشْ حَمِيدًا، وَمُتْ شَهِيدًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک سفید قمیص پہنے دیکھا تو پوچھا: "تمہارا یہ کپڑا دھویا ہوا ہے یا نیا ہے"؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، یہ دھویا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «البس جديدا وعش حميدا ومت شهيدا» "نیا لباس، قابل تعریف زندگی، اور شہادت کی موت نصیب ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۹۵۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۸۸)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ لِبْسَتَيْنِ، فَأَمَّا اللِّبْسَتَانِ: فَاشْتِمَالُ الصَّمَّاءِ، وَالِاحْتِبَاءُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک «اشتمال صماء» ۱؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں «احتباء» ۲؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۲۱۷۰)،(تحفة الأشراف:۴۱۵۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: «اشتمال صماء»: ایک کپڑا سارے بدن پر لیپٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے۔ ۲؎: «احتباء»: ایک کپڑا اوڑھ کے لوٹ مار کر اس طرح سے بیٹھے کہ شرم گاہ کھلی رہے یا شرم گاہ پر کوئی کپڑا نہ رہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى عَنْ لِبْسَتَيْنِ: عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَعَنِ الِاحْتِبَاءِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا: " «اشتمال صماء» سے اور ایک کپڑے میں«احتباء» سے، کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔
تخریج دارالدعوہ: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۱۲۴۸)،(تحفة الأشراف:۱۲۶۶۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنْ لِبْسَتَيْنِ: اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَأَنْتَ مُفْضٍ فَرْجَكَ إِلَى السَّمَاءِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا: «اشتمال صماء» سے، اور ایک کپڑے میں«احتباء» سے، کہ تم اپنی شرمگاہ کو آسمان کی طرف کھولے رہو۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۹۵، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ لِي: يَا بُنَيَّ، لَوْ شَهِدْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَصَابَتْنَا السَّمَاءُ، لَحَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ".
ابوبردہ اپنے والد ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ سے کہا: میرے بیٹے! کاش تم ہم کو اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم پر آسمان سے بارش ہوتی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بو بھیڑ کی بو جیسی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۶ (۴۰۳۳)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۳۸ (۲۴۷۹)،(تحفة الأشراف:۹۱۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۷،۴۱۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بالوں کے کپڑے جب بھیگ جاتے ہیں ان میں سے ایسی ہی بو پھوٹ نکلتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: "خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، رُومِيَّةٌ مِنْ صُوفٍ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ، فَصَلَّى بِنَا فِيهَا لَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ غَيْرُهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اون کا بنا ہوا تنگ آستین والا رومی جبہ پہنے ہمارے پاس تشریف لائے، اور اسی میں ہمیں نماز پڑھائی، اس کے علاوہ آپ پر کوئی اور لباس نہ تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۰۸۶، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۵)(ضعیف) (احوص بن حکم ضعیف راوی ہیں، اور خالد بن معدان کی نہ تو عبادہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہے، اور نہ سماع)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ السِّمْطِ، حَدَّثَنِي الْوَضِينُ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ مَحْفُوظِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"تَوَضَّأَ فَقَلَبَ جُبَّةَ صُوفٍ كَانَتْ عَلَيْهِ، فَمَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ".
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر اون والے جبہ کو جو آپ پہنے ہوئے تھے الٹ دیا، اور اس سے اپنا چہرہ پونچھا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۵۰۹، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۶)(حسن) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۴۶۸)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَسِمُ غَنَمًا فِي آذَانِهَا، وَرَأَيْتُهُ مُتَّزِرًا بِكِسَاءٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکریوں کے کانوں میں داغتے دیکھا، اور میں نے آپ کو چادر کا تہبند پہنے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الذبائح ۳۵ (۵۵۴۲)، صحیح مسلم/اللباس ۳۰ (۲۱۱۹)، سنن ابی داود/الجہاد ۵۷ (۲۵۶۳)،(تحفة الأشراف:۱۶۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۹،۱۷۱،۲۵۴،۲۵۹)(ضعیف) (ابن ماجہ کی روایت میں ان کے شیخ سوید بن سعید ضعیف ہے، اس لئے آخری ٹکڑا «ورأيته متزرا بكساء» تک ضعیف ہے دوسرے کسی طریق میں یہ ٹکڑا نہیں ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود:۲۳۰۹)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ الْمَكِّيُّ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضُ، فَالْبَسُوهَا، وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے بہترین کپڑے سفید کپڑے ہیں، لہٰذا انہیں کو پہنو اور اپنے مردوں کو انہیں میں کفناؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۱۶ (۴۰۶۱)، الجنائر ۱۸ (۹۹۴)، سنن الترمذی/الجنائز ۱۸ (۹۹۴)،(تحفة الأشراف:۵۵۳۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۱،۲۴۷،۲۷۴،۳۲۸،۳۵۵،۳۶۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبَسُوا ثِيَابَ الْبَيَاضِ، فَإِنَّهَا أَطْهَرُ وَأَطْيَبُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفید کپڑے پہنو کہ یہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ لباس ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الأدب ۴۶ (۲۸۱۰)،(تحفة الأشراف:۴۶۳۵)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجنائز ۳۸ (۱۸۹۷)، الزینة من المجتبیٰ ۴۴ (۵۳۴۳)، مسند احمد (۵/۱۰،۱۲،۱۳،۱۷،۱۸،۱۹،۲۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ سَالِمٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَحْسَنَ مَا زُرْتُمُ اللَّهَ بِهِ فِي قُبُورِكُمْ وَمَسَاجِدِكُمُ الْبَيَاضُ".
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہتر لباس جس کو پہن کر تم اپنی قبروں اور مسجدوں میں اللہ کی زیارت کرتے ہو، سفید لباس ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۹۳۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۷)(موضوع) (سند میں مروان متروک راوی ہے، ساجی وغیرہ نے اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے، اور شریح بن عبید کا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ جَمِيعًا، عَنْعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الَّذِي يَجُرُّ ثَوْبَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ، لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنے کپڑے فخر و غرور سے گھسیٹے گا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے دن نہیں دیکھے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس ۹ (۲۰۸۵)،(تحفة الأشراف:۷۸۳۵،۷۹۵۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل الصحابة ۵ (۳۶۶۴)، اللباس ۱ (۵۷۸۳)،۲ (۵۷۸۴)،۵ (۵۷۹۱)، سنن ابی داود/اللباس ۲۸ (۴۰۸۵)، سنن الترمذی/اللباس ۸ (۱۷۳۰)،۹ (۱۷۳۱)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۵۰ (۵۳۳۷)، موطا امام مالک/اللباس ۵ (۹)، مسند احمد (۲/۵،۱۰،۳۲،۴۲،۴۴،۴۶،۵۵،۵۶،۶۰،۶۵،۶۷،۶۹،۷۴،۸۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: فَلَقِيتُ بْنَ عُمَرَبِالْبَلَاطِ، فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: وَأَشَارَ إِلَى أُذُنَيْهِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے غرور و تکبر سے اپنا تہبند گھسیٹا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے روز نہیں دیکھے گا"۔ عطیہ کہتے ہیں کہ مقام بلاط میں میری ملاقات ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی تو میں نے ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بیان کی جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: اسے میرے کانوں نے بھی سنا ہے، اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۲۱۰،۷۳۳۹، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/اللباس ۳۰ (۴۰۹۳)، موطا امام مالک/اللباس ۵ (۱۲)، مسند احمد (۳/۵،۳۱،۴۴،۵۲،۹۷)(صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن باب کی احادیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَرَّ بِأَبِي هُرَيْرَةَ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ يَجُرُّ سَبَلَهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سے قریش کا ایک جوان اپنی چادر لٹکائے ہوئے گزرا، آپ نے اس سے کہا: میرے بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "جس نے غرور و تکبر سے اپنے کپڑے گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۵۰۹۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۵ (۵۷۸۸)، صحیح مسلم/اللباس ۱۰ (۲۰۸۸)، موطا امام مالک/اللباس ۵ (۱۰)، مسند احمد (۲/۵۰۳)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ نُذَيْرٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَسْفَلِ عَضَلَةِ سَاقِي أَوْ سَاقِهِ، فَقَالَ: "هَذَا مَوْضِعُ الْإِزَارِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلَ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلَ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَلَا حَقَّ لِلْإِزَارِ فِي الْكَعْبَيْنِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی کے نیچے کا پٹھا پکڑا اور فرمایا: "تہبند کا مقام یہ ہے، اگر تم اتنا نہ کر سکو تو اس سے تھوڑا نیچے رکھو، اور اگر اتنا بھی نہ رکھ سکو تو اور نیچے رکھو، لیکن اگر اتنا بھی نہ کر سکو تو تمہیں ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/اللباس ۴۱ (۱۷۸۳)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۴۸ (۵۳۳۱)،(تحفة الأشراف:۳۳۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۲،۳۹۶،۳۹۸،۴۰۰،۴۰۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ نُذَيْرٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فِي الْإِزَارِ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، وَمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فِي النَّارِ"، يَقُولُ ثَلَاثًا: "لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا".
عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہبند کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ فرمایا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "مومن کا تہبند اس کی آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے، اور اگر وہ اس کے اور ٹخنوں کے درمیان کسی بھی جگہ تک رکھے تو بھی کوئی حرج نہیں، لیکن جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ حصہ جہنم میں ہو گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنا تہبند تکبر کی وجہ سے گھسیٹے"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۳۰ (۴۰۹۳)،(تحفة الأشراف:۴۱۳۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/اللباس ۵ (۱۲)، مسند احمد (۳/۵،۳۱،۴۴،۵۲،۹۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ قَبِيصَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا سُفْيَانَ بْنَ سَهْلٍ، لَا تُسْبِلْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُسْبِلِينَ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفیان بن سہل! (ٹخنہ کے نیچے) تہبند نہ لٹکاؤ کہ اللہ تعالیٰ تہبند لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۱۴۹۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۴۶،۲۵۰،۲۵۰،۲۵۳)(حسن)(تراجع الألبانی: رقم:۳۹۱)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْأُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "لَمْ يَكُنْ ثَوْبٌ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَمِيصِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے (قمیص) سے بڑھ کر کوئی لباس محبوب اور پسندیدہ نہ تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۳ (۴۰۲۵،۴۰۲۶)، سنن الترمذی/اللباس ۲۸ (۱۷۶۳،۱۷۶۴)،(تحفة الأشراف:۱۸۱۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۶۰۶،۳۱۷،۳۱۸،۳۲۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی سلے ہوئے کپڑوں میں، اور کپڑے کی جنس تو دوسری روایت میں ہے کہ سب سے زیادہ پسند آپ ﷺ کو «حبرہ» تھا یعنی دھاری دار کپڑا جس میں سرخ دہاریاں ہوتی ہیں، اور اس زمانہ میں یہ کپڑا روئی کے سب کپڑوں میں عمدہ تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْإِسْبَالُ فِي الْإِزَارِ، وَالْقَمِيصِ وَالْعِمَامَةِ مَنْ جَرَّ شَيْئًا خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا أَغْرَبَهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «اسبال»: تہبند، کرتے (قمیص) اور عمامہ (پگڑی) میں ہوتا ہے جو اسے محض تکبر اور غرور کے سبب گھسیٹے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف قیامت کے روز نہیں دیکھے گا ۱؎۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ یہ کتنی غریب روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۳۰ (۴۰۹۴)،(تحفة الأشراف:۶۷۶۸)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: تہبند لٹکانا سخت گناہ ہے اور اس میں بڑی وعید آئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تہبندلٹکانے والوں کو نماز اور وضو دونوں کے دہرانے کا حکم دیا، اکثر علماء کے نزدیک یہ حکم تشدد اور تہدید کے طور پر تھا کیونکہ وضو ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، بہرحال تہبند لٹکا کے نماز پڑھنا بڑی خرابی کی بات ہے کہ اس میں نماز صحیح نہ ہونے کا اندیشہ ہے، جو غرور اور کبر کی وجہ سے ایسا کرے تو وہ مزید دھمکی کا مستحق ہے کہ اس نے دو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اور جس کی تہبند خود بخود کبھی ٹخنوں کے نیچے ہو جاتی ہے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: " تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو " اور ٹخنے سے نیچے لٹکانا کچھ تہبند سے خاص نہیں ہے بلکہ ہر ایک کپڑے میں مقدار سنت یا مقدار ضرورت سے اور ٹخنوں تک بڑھانے کی رخصت ہے، اس سے نیچے پہننا حرام ہے، اسی طرح عمامہ کا شملہ نصف پشت سے زیادہ لٹکانا بدعت و حرام ہے، اور اسراف ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ . ح وحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَلْبَسُ قَمِيصًا قَصِيرَ الْيَدَيْنِ وَالطُّولِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی قمیص پہنتے جس کی آستین چھوٹی اور لمبائی بھی کم ہوتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۴۲۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۰)(ضعیف) (سند میں مسلم بن کیسان کوفی ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ زُهَيْرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُشَيْرٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ قُرَّةَ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: "أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ، وَإِنَّ زِرَّ قَمِيصِهِ لَمُطْلَقٌ"، قَالَ عُرْوَةُ: فَمَا رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ وَلَا ابْنَهُ فِي شِتَاءٍ وَلَا صَيْفٍ، إِلَّا مُطْلَقَةً أَزْرَارُهُمَا.
قرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے بیعت کی، اس وقت آپ کے کرتے کی گھنڈیاں کھلی ہوئی تھیں، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو خواہ سردی ہو یا گرمی ہمیشہ اپنی گھنڈیاں (بٹن) کھولے دیکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۲۶ (۴۰۸۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۰۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۳۴،۴/۱۹،۵/۳۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوٹی چھوٹی سنتوں میں بھی رسول اکرم ﷺ کی پیروی کا کتنا خیال تھا کہ جس حال میں اور جس وضع میں آپ ﷺ کو دیکھا ساری عمر وہی وضع اور روش اختیار کی، آفریں ان کے جذبہ و محبت اور اتباع پر، اور کمال ایمان یہی ہے کہ عبادات اور عادات میں آپ ﷺ کی پیروی کی جائے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے کرتہ کا گربیان بیچ میں رہتا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: "أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَاوَمَنَا سَرَاوِيلَ".
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے ہم سے پاجامے کا مول بھاؤ (سودا) کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع ۷ (۳۳۳۶،۳۳۳۷)، سنن الترمذی/البیوع ۶۶ (۱۳۰۵)، سنن النسائی/البیوع ۵۲ (۴۵۹۶)،(تحفة الأشراف:۴۸۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۵۲)، سنن الدارمی/البیوع ۴۷ (۲۶۲۷)(صحیح)(یہ مکر رہے، ملاحظہ ہو:۲۲۲۰)
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ نے پاجامہ پسند کیا، مگر پاجامے کا پہننا آپ سے ثابت نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمْ تَجُرُّ الْمَرْأَةُ مِنْ ذَيْلِهَا؟ قَالَ: "شِبْرًا"، قُلْتُ: إِذًا يَنْكَشِفُ عَنْهَا، قَالَ: "ذِرَاعٌ لَا تَزِيدُ عَلَيْهِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: عورت اپنے کپڑے کا دامن کتنا لٹکا سکتی ہے؟ فرمایا: "ایک بالشت" میں نے عرض کیا: اتنے میں تو پاؤں کھل جائے گا، تو فرمایا: "ایک ہاتھ، اس سے زیادہ نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس۴۰ (۴۱۱۸)،(تحفة الأشراف:۱۸۱۵۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس ۹ (۱۷۳۱)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۵۱ (۵۳۵۲)، موطا امام مالک/اللباس ۶ (۱۳)، مسند احمد (۶/۲۹۳،۲۹۶،۳۰۹،۳۱۵)، سنن الدارمی/الاستئذان ۱۶ (۲۶۸۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْابْنِ عُمَرَ "أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُخِّصَ لَهُنَّ فِي الذَّيْلِ ذِرَاعًا، فَكُنَّ يَأْتِيَنَّا فَنَذْرَعُ لَهُنَّ بِالْقَصَبِ ذِرَاعًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو کپڑوں کے دامن ایک ہاتھ لٹکانے کی اجازت تھی، چنانچہ جب وہ ہمارے پاس آتیں تو ہم ان کے لیے لکڑی سے ایک ہاتھ کا ناپ بنا کر دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۴۰ (۴۱۱۹)،(تحفة الأشراف:۶۶۶۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس ۹ (۱۷۳۱)، مسند احمد (۲/۱۸،۹۰)(منکر) (سند میں زید العمی ضعیف ہیں، اور «فكن يأتينا فنذرع لهن» کا لفظ منکر ہے، پہلا ٹکڑا صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:۱۸۶۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِفَاطِمَةَ، أَوْ لِأُمِّ سَلَمَةَ: "ذَيْلُكِ ذِرَاعٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ یا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "اپنے کپڑے کا دامن ایک ہاتھ کا رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۸۳۷، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۶۳،۴۱۶)(صحیح) (سند میں ابو المہزم ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد سے یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي ذُيُولِ النِّسَاءِ: "شِبْرًا"، فَقَالَتْ: عَائِشَةُ: إِذًا تَخْرُجَ سُوقُهُنَّ، قَالَ: "فَذِرَاعٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے دامن کے سلسلے میں فرمایا: "ایک بالشت کا ہو" ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ اتنے میں تو پنڈلی کھل جائے گی؟ فرمایا: "تو پھر ایک ہاتھ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۸۰۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۷۵،۱۲۳)(صحیح) (سند میں ابو المہزم متروک ہے، لیکن حدیث نمبر (۳۵۸۱)میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے دیکھا، آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحج ۸۴ (۱۳۵۹)، سنن ابی داود/اللباس ۲۴ (۴۰۷۷)، سنن الترمذی/الشمائل ۱۶ (۱۰۸)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۵۶ (۵۳۴۸)،(تحفة الأشراف:۱۰۷۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۰۷)، سنن الدارمی/ المناسک ۸۸ (۱۹۸۲)(صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، د یکھئے:۱۱۱۴)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"دَخَلَ مَكَّةَ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں (فتح کے دن) داخل ہوئے، تو آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظر حدیث رقم:۲۸۲۲ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَنْبَأَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"دَخَلَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے، آپ کے سر پر کالی پگڑی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۲۵۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۳)(صحیح) (اس سند میں موسی بن عبیدة ربذی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُسَاوِرٍ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ، قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ".
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، اور آ پ کے سر پر کالی پگڑی ہے جس کے دونوں کناروں کو آپ اپنے دونوں شانوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: «أنظر حدیث رقم:(۱۱۰۴،۳۵۸۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ان حدیثوں سے سیاہ عمامہ (کالی پگڑی) کا مسنون ہونا نکلتا ہے، دوسری روایتوں میں سفید بھی منقول ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس آدمی نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا، وہ آخرت میں نہیں پہن سکے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس ۲ (۱۰۷۳)،(تحفة الأشراف:۵۳۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۲۵ (۵۸۳۲)، مسند احمد (۳/۱۰۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنِ الدِّيبَاجِ، وَالْحَرِيرِ، وَالْإِسْتَبْرَقِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مردوں کے لیے) دیباج، حریر اور استبرق (موٹا ریشمی کپڑا) پہننے سے منع کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجنائز ۲ (۱۲۳۹)، النکاح ۷۱ (۵۱۷۵)، الأشربة ۲۸ (۵۶۳۵)، المرضی ۴ (۵۶۵۰)، اللباس ۳۶ (۵۸۳۸)،۴۵ (۵۸۶۳)، الأدب ۱۲۴ (۶۲۲۲)، الاستئذان ۸ (۶۲۳۵)، صحیح مسلم/اللباس ۲ (۲۰۶۶)، سنن الترمذی/الأدب ۴۵ (۲۸۰۹)، سنن النسائی/الجنائز ۵۳ (۱۹۴۱)، الزینة من المجتبیٰ ۳۷ (۵۳۱۱)،(تحفة الأشراف:۱۹۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۴،۲۸۷،۲۹۹)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ تینوں ریشمی کپڑے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ، وَقَالَ: "هُوَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا، وَلَنَا فِي الْآخِرَةِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مردوں کے لیے) ریشم اور سونا پہننے سے منع کیا، اور فرمایا: "یہ ان (کافروں) کے لیے دنیا میں ہے اور ہمارے لیے آخرت میں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأطعمة ۲۹ (۵۴۲۶)، الأشربة ۲۷ (۵۶۳۲)،۲۸ (۵۶۳۳)، اللباس ۲۵ (۵۸۳۱)،۲۷ (۵۸۳۷)، صحیح مسلم/اللباس۱ (۲۰۶۷)، سنن ابی داود/الأشربة ۱۷ (۳۷۲۳)، سنن الترمذی/الأشربة ۱۰ (۱۸۷۸)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۳۳ (۵۳۰۳)،(تحفة الأشراف:۳۳۷۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۸۵،۳۹۰،۳۹۶،۳۹۸،۴۰۰،۴۰۸)، سنن الدارمی/الأشربة ۲۵ (۲۱۷۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ مِنْ حَرِيرٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ ابْتَعْتَ هَذِهِ الْحُلَّةَ لِلْوَفْدِ وَلِيَوْمِ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِا مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۰۲۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة ۷ (۸۸۶)، العیدین ۱ (۹۴۸)الھبة ۲۷ (۲۶۱۲)،۲۹ (۲۶۱۹)، الجہاد ۱۷۷ (۳۰۵۴)، اللباس ۳۰ (۵۸۴۱)، الأدب ۹ (۵۹۸۱)،۶۶ (۶۰۸۱)، صحیح مسلم/اللباس ۱ (۲۰۶۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۱۹ (۱۰۷۶)، اللباس ۱۰ (۴۰۴۰)، سنن النسائی/الجمعة ۱۱ (۱۳۸۳)، العیدین ۴ (۱۵۶۱)، الزینة في المجتبیٰ ۲۹ (۵۲۹۷)،۳۱ (۵۳۰۱)، موطا امام مالک/اللباس ۸ (۱۸)، مسند احمد (۲/۲۰،۳۹،۴۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، نَبَّأَهُمْ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَخَّصَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَلِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فِي قَمِيصَيْنِ مِنْ حَرِيرٍ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِهِمَا حِكَّةٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر بن عوام اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کو اس تکلیف کی وجہ سے جو انہیں کھجلی کی وجہ سے تھی، ریشم کے کرتے پہننے کی اجازت دی۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الجہاد ۹۱ (۲۹۱۹)، اللباس ۲۹ (۵۸۳۹)، صحیح مسلم/اللباس ۳ (۲۰۷۶)، سنن ابی داود/اللباس ۱۳ (۴۰۵۶)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۳۸ (۵۳۱۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۶۹)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس ۲ (۱۷۲۲)، مسند احمد (۳/۱۲۷،۱۸۰،۲۱۵،۲۵۵،۲۷۳)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَنْهَى عَنِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ، إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا، ثُمَّ أَشَارَ بِإِصْبَعِهِ، ثُمَّ الثَّانِيَةِ، ثُمَّ الثَّالِثَةِ، ثُمَّ الرَّابِعَةِ، فَقَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا عَنْهُ".
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ خالص ریشمی کپڑے (حریر و دیباج) کے استعمال سے منع فرماتے تھے سوائے اس کے جو اس قدر ریشمی ہوتا، پھر انہوں نے اپنی ایک انگلی، پھر دوسری پھر تیسری پھر چوتھی انگلی سے اشارہ کیا ۱؎ پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس سے منع کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم (۲۸۲۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی چار انگل ریشم اگر کسی کپڑے میں ہوتو کوئی حرج نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي عُمَرَ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: رَأَيْتُ بْنَ عُمَرَ اشْتَرَى عِمَامَةً لَهَا عَلَمٌ، فَدَعَا بِالْجَلَمَيْنِ فَقَصَّهُ، فَدَخَلْتُ عَلَى أَسْمَاءَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: "بُؤْسًا لِعَبْدِ اللَّهِ، يَا جَارِيَةُ، هَاتِي جُبَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْ بِجُبَّةٍ مَكْفُوفَةِ الْكُمَّيْنِ، وَالْجَيْبِ، وَالْفَرْجَيْنِ بِالدِّيبَاجِ".
اسماء رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے ایک عمامہ خریدا جس میں گوٹے بنے تھے، پھر قینچی منگا کر انہیں کتر دیا ۱؎، میں اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: تعجب ہے عبداللہ پر، (ایک اپنی خادمہ کو پکار کر کہا:) اے لڑکی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ لے آ، چنانچہ وہ ایک ایسا جبہ لے کر آئی جس کی دونوں آستینوں، گریبان اور کلیوں کے دامن پر ریشمی گوٹے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس ۲ (۲۰۶۹)، سنن ابی داود/اللباس ۱۲ (۴۰۵۴)،(تحفة الأشراف:۱۵۷۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۴۸،۳۵۳،۳۵۴،۳۵۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: شاید ابن عمر رضی اللہ عنہما اس رخصت کی خبر نہ ہو گی، اور شاید ان کے عمامہ کا حاشیہ چار انگل سے زیادہ ہو گا، اس لئے انہوں نے کاٹ ڈالا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي الصَّعْبَةِ، عَنْ أَبِي الْأَفْلَحِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيِّ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرِيرًا بِشِمَالِهِ، وَذَهَبًا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ رَفَعَ بِهِمَا يَدَيْهِ، فَقَالَ: "إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي، حِلٌّ لِإِنَاثِهِمْ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں ہاتھ میں ریشم اور دائیں ہاتھ میں سونا لیا، اور دونوں کو ہاتھ میں اٹھائے فرمایا: "یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام، اور عورتوں کے لیے حلال ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۱۴ (۴۰۵۷)، سنن النسائی/الزینة ۴۰ (۵۱۴۷)،(تحفة الأشراف:۱۰۱۸۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۶،۱۱۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ أَبِي فَاخِتَةَ، حَدَّثَنِيهُبَيْرَةُ بْنُ يَرِيمَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُلَّةٌ مَكْفُوفَةٌ بِحَرِيرٍ، إِمَّا سَدَاهَا، وَإِمَّا لَحْمَتُهَا فَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَصْنَعُ بِهَا أَلْبَسُهَا، قَالَ: "لَا وَلَكِنْ اجْعَلْهَا خُمُرًا بَيْنَ الْفَوَاطِمِ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی (جوڑا) تحفہ میں آیا جس کے تانے یا بانے میں ریشم ملا ہوا تھا، آپ نے وہ میرے پاس بھیج دیا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس کا کیا کروں؟ کیا میں اسے پہنوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نہیں، بلکہ اسے فاطماؤں کی اوڑھنیاں بنا دو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۰۳۰۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس۳۰ (۵۸۴۰)، صحیح مسلم/اللباس ۲ (۲۰۷۱)، سنن ابی داود/اللباس۱۰ (۴۰۴۳)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۳۰ (۵۳۰۰)، مسند احمد (۱/۹۰،۱۳۰،۱۵۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک فاطمہ بنت اسد علی رضی اللہ عنہ کی ماں، دوسری فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ عنہ، تیسری سیدۃ النسا، فاطمہ رضی اللہ عنہا صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ الْإِفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي إِحْدَى يَدَيْهِ ثَوْبٌ مِنْ حَرِيرٍ، وَفِي الْأُخْرَى ذَهَبٌ، فَقَالَ: "إِنَّ هَذَيْنِ مُحَرَّمٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي، حِلٌّ لِإِنَاثِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس گھر سے نکل کر آئے، آپ کے ایک ہاتھ میں ریشم کا کپڑا، اور دوسرے میں سونا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام، اور عورتوں کے لیے حلال ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۸۷۹، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۴)(صحیح) (سند میں افریقی اور ابن رافع ضعیف ہیں، لیکن سابقہ حدیث (نمبر ۳۵۹۵)سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "رَأَيْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَ حَرِيرٍ سِيَرَاءَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی زینب رضی اللہ عنہا کو سرخ دھاری دار ریشمی کرتا پہنے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۳۰ (۵۲۹۸)،(تحفة الأشراف:۱۵۴۰)(شاذ) (حدیث میں "زینب" کا ذکر شاذ ہے، محفوظ حدیث میں "ام کلثوم" کا ذکر ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْقَاضِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ أَجْمَلَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَرَجِّلًا فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۸۶۸، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۱)، اللباس ۳۵ (۵۸۴۸)،۶۸ (۵۹۰۱)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۵ (۲۳۳۷)، سنن ابی داود/اللباس ۲۱ (۴۰۷۲)، الترجل ۹ (۴۱۸۵)، سنن الترمذی/اللباس ۴ (۱۷۲۴)، الأدب ۴۷ (۲۸۱۱)، المناقب ۸ (۳۶۳۵)، الشمائل ۱ (۶۲)،۳ (۶۴)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۵ (۵۲۳۴)، مسند احمد (۴/۲۸۱،۲۹۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ بَرَّادِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، قَاضِي مَرْوَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَأَقْبَلَ حَسَنٌ، وَحُسَيْنٌ عَلَيْهِمَا السَّلَام، عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَعْثُرَانِ وَيَقُومَانِ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهُمَا فَوَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ، فَقَالَ: "صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15، رَأَيْتُ هَذَيْنِ، فَلَمْ أَصْبِرْ"، ثُمَّ أَخَذَ فِي خُطْبَتِهِ.
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے دیکھا، اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں لال قمیص پہنے ہوئے آ گئے کبھی گرتے تھے کبھی اٹھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترے، دونوں کو اپنی گود میں اٹھا لیا، اور فرمایا: "اللہ اور اس کے رسول کا قول سچ ہے: «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» "بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں"، میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع کر دیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۳ (۱۱۰۹)، سنن الترمذی/المناقب ۳۱ (۳۷۷۴)، سنن النسائی/الجمعة ۳۰ (۱۴۱۴)، العیدین ۲۷ (۱۵۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۹۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ خطبہ کے درمیان بات کرنا اور بچوں کا اٹھا لینا اور کسی کام کے لئے منبر پر سے اترنا اور تھوڑی دیر کے لئے خطبہ روک دینا جائز ہے، دوسرے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی فضیلت و منقبت، تیسرے یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی ان دونوں سے غایت درجہ محبت اورقلبی لگاؤ، چوتھے چیز لال رنگ کا جواز کیونکہ یہ دونوں صاحبزادے لال رنگ کی قمیص پہنے ہوئے تھے، اگر یہ ناجائز ہوتا تو آپ ﷺ اس سے منع فرماتے یا اسے اتارنے کا حکم دیتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنِ الْمُفَدَّمِ"، قَالَ يَزِيدُ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: مَا الْمُفَدَّمُ؟ قَالَ: الْمُشْبَعُ بِالْعُصْفُرِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «مفدم» سے منع کیا ہے، یزید کہتے ہیں کہ میں نے حسن سے پوچھا: «مفدم» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جو کپڑا «کسم» میں رنگنے سے خوب پیلا ہو جائے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۶۹۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۹۹)(صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہلکا سرخ رنگ «کسم» کا بھی جائز ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: "نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَقُولُ نَهَاكُمْ، عَنْ لُبْسِ الْمُعَصْفَرِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیلے رنگ کے کپڑے پہننے سے روکا، میں یہ نہیں کہتا کہ تمہیں منع کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة ۴۱ (۴۷۹)، اللباس ۴ (۲۰۷۸)، سنن ابی داود/اللباس ۱۱ (۴۰۴۴،۴۰۴۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۸۰ (۲۶۴)، اللباس ۵ (۱۷۲۵)،۱۳ (۱۷۳۷)، سنن النسائی/التطبیق ۷ (۱۰۴۴،۱۰۴۵)،۶۱ (۱۱۱۹)، الزینة من المجتبیٰ ۲۳ (۵۱۸۰)،(تحفة الأشراف:۱۰۱۷۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ۶ (۲۸)، مسند احمد (۱/۸۰،۸۱،۹۲،۱۰۴،۱۰۵،۱۱۴،۱۱۹،۱۲۱،۱۲۳،۱۲۶،۱۲۷،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۴،۱۳۷،۱۳۸،۱۴۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ، فَالْتَفَتَ إِلَيَّ وَعَلَيَّ رَيْطَةٌ مُضَرَّجَةٌ بِالْعُصْفُرِ، فَقَالَ: "مَا هَذِهِ؟"، فَعَرَفْتُ مَا كَرِهَ، فَأَتَيْتُ أَهْلِي وَهُمْ يَسْجُرُونَ تَنُّورَهُمْ فَقَذَفْتُهَا فِيهِ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: "يَا عَبْدَ اللَّهِ، مَا فَعَلَتِ الرَّيْطَةُ"، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: "أَلَا كَسَوْتَهَا بَعْضَ أَهْلِكَ، فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ لِلنِّسَاءِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم اذاخر ۱؎ کے موڑ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، آپ میری طرف متوجہ ہوئے، میں باریک چادر پہنے ہوئے تھا جو کسم کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کیا ہے"؟ میں آپ کی اس ناگواری کو بھانپ گیا، چنانچہ میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا، وہ اس وقت اپنا تنور گرم کر رہے تھے، میں نے اسے اس میں ڈال دیا، دوسری صبح میں آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"عبداللہ! چادر کیا ہوئی"؟ میں نے آپ کو ساری بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اپنی کسی گھر والی کو کیوں نہیں پہنا دی؟ اس لیے کہ اسے پہننے میں عورتوں کے لیے کوئی مضائقہ نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس۲۰ (۴۰۶۶)،(تحفة الأشراف:۸۸۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۴،۱۹۶)(حسن)
وضاحت: ۱؎: اذاخر: مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعْنَا لَهُ مَاءً يَتَبَرَّدُ بِهِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِمِلْحَفَةٍ صَفْرَاءَ، فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْوَرْسِ عَلَى عُكَنِهِ".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو ہم نے آپ کے لیے پانی رکھا تاکہ آپ اس سے ٹھنڈے ہوں، آپ نے اس سے غسل فرمایا، پھر میں آپ کے پاس ایک پیلی چادر لے کر آیا، (اس کو آپ نے پہنا) تو میں نے آپ کے پیٹ کی سلوٹوں پر ورس کا نشان دیکھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے:۴۶۶)،(تحفة الأشراف:۱۱۰۹۵)(ضعیف) (سند میں محمد بن شر حبیل مجہول، اور محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: ایک پیلا، خوشبودار پودا ہے جو یمن میں پایا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُوا وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، مَا لَمْ يُخَالِطْهُ إِسْرَافٌ، أَوْ مَخِيلَةٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھاؤ پیو، صدقہ و خیرات کرو، اور پہنو ہر وہ لباس جس میں اسراف و تکبر(فضول خرچی اور گھمنڈ) کی ملاوٹ نہ ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۸۷۷۳، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۱ (تعلیقا) سنن النسائی/الزکاة ۶۶ (۲۵۶۰)، مسند احمد (۲/۱۸۱،۱۸۲)(حسن)
وضاحت: ۱؎: ضرورت سے زیادہ مال خرچ کرنے کو اسراف کہتے ہیں،جوحرا م ہے، قرآن میں ہے: «ولا تسرفوا إنه لا يحب المسرفين» (سورة الأعراف: 31) " اسراف نہ کرو، بیشک اللہ تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا " دوسری جگہ ہے: «إن المبذرين كانوا إخوان الشياطين وكان الشيطان لربه كفورا» (سورة الإسراء: 27) " بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے " اور خلاف شرع کام میں ایک پیسہ بھی صرف کرنا اسراف میں داخل ہے جیسے پتنگ بازی، کبوتر بازی اور آتش بازی وغیرہ وغیرہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْوَاسِطِيَّانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْعُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ مُهَاجِرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ، أَلْبَسَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۵ (۴۰۲۹،۴۰۳۰)،(تحفة الأشراف:۷۴۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۹۲،۱۳۹)(حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُهَاجِرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ فِي الدُّنْيَا، أَلْبَسَهُ اللَّهُ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ أَلْهَبَ فِيهِ نَارًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا، پھر اس میں آگ بھڑکائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر ماقبلہ (حسن)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ يَزِيدَ الْبَحْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ مُحْرِزٍ النَّاجِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ جَهْمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ، أَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى يَضَعَهُ مَتَى وَضَعَهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے شہرت کی خاطر لباس پہنا، اللہ تعالیٰ اس سے منہ پھیر لے گا یہاں تک کہ اسے اس جگہ رکھے گا جہاں اسے رکھنا ہے (یعنی جہنم میں)"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف:۱۱۹۱۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۸)(ضعیف) (سند میں وکیع بن محرز کے پاس عجیب و غریب احادیث ہیں، اور عباس بن یزید مختلف فیہ راوی ہیں، لیکن سابقہ احادیث میں جیسا گزرا متن حدیث ثابت ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی:۴۶۵۰)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ، فَقَدْ طَهُرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "ہر وہ کھال جسے دباغت دے دی گئی ہو پاک ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحیض ۲۷ (۳۶۶)، سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۳)، سنن الترمذی/اللباس ۷ (۱۷۲۸)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۳ (۴۲۴۶)،(تحفة الأشراف:۵۸۲۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصید ۶ (۱۷)، مسند احمد (۱/۲۱۹،۲۳۷،۲۷۰،۲۷۹،۲۸۰،۳۴۳، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۰ (۲۰۳۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: جو حلال جانور ہیں ان کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنَّ شَاةً لِمَوْلَاةِ مَيْمُونَةَ، مَرَّ بِهَا يَعْنِي: النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُعْطِيَتْهَا مِنَ الصَّدَقَةِ مَيْتَةً، فَقَالَ: "هَلَّا أَخَذُوا إِهَابَهَا فَدَبَغُوهُ فَانْتَفَعُوا بِهِ"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا مَيْتَةٌ، قَالَ: "إِنَّمَا حُرِّمَ أَكْلُهَا".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کی ایک لونڈی کو صدقہ کی ایک بکری ملی تھی جو مری پڑی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر اس بکری کے پاس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں نے اس کی کھال کیوں نہیں اتار لی کہ اسے دباغت دے کر کام میں لے آتے"؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو مردار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صرف اس کا کھانا حرام ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الحیض ۲۷ (۳۶۳)، سنن الترمذی/اللباس ۷ (۱۷۲۷)، سنن ابی داود/اللباس۴۱ (۱۴۲۰)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۳ (۴۲۴۰)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۶۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۱ (۱۴۹۲)، البیوع ۱۰۱ (۲۲۲۱)، موطا امام مالک/الصید ۶ (۱۶)، مسند احمد (۶/۳۲۹،۲۳۶)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۰ (۲۰۳۱)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر مرے ہوئے ماکول اللحم جانور کا گوشت کھانا حرام ہے، لیکن اس کے چمڑے سے دباغت کے بعد ہر طرح کا فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ بیچ کر ہو یا ذاتی استعمال میں لا کر۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: كَانَ لِبَعْضِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ شَاةٌ فَمَاتَتْ، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: "مَا ضَرَّ أَهْلَ هَذِهِ لَوِ انْتَفَعُوا بِإِهَابِهَا".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے کسی ایک کے پاس ایک بکری تھی جو مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر گزر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر لوگ اس کی کھال کو کام میں لے آتے تو اس کے مالکوں کو کوئی نقصان نہ ہوتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۴۹۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۵۹)(صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم اور شہر بن حوشب دونوں ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنْ يُسْتَمْتَعَ بِجُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: "جب مردہ جانوروں کی کھال کو دباغت دے دی جائے، تو لوگ ا سے فائدہ اٹھائیں"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۴۱ (۴۱۲۴)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۵ (۴۲۵۷)،(تحفة الأشراف:۱۷۹۹۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصید ۶ (۱۸)، مسند احمد (۶/۷۳،۱۰۴،۱۴۸،۱۵۳)، سنن الدارمی/الأضاحي ۲۰ (۲۰۳۰)(صحیح لغیرہ) (نیز ملاحظہ ہو: صحیح موارد الظمآن:۱۲۲وغایة المرام:۲۶)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْالشَّيْبَانِيِّ . ح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ، قَالَ: أَتَانَا كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنَ الْمَيْتَةِ بِإِهَابٍ، وَلَا عَصَبٍ".
عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب آیا کہ مردار کی کھال اور پٹھوں سے فائدہ نہ اٹھاؤ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۴۲ (۴۱۲۷،۴۱۲۸)، سنن الترمذی/اللباس ۷ (۱۷۲۹)، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۴ (۴۲۵۴)،(تحفة الأشراف:۶۶۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۱۰،۳۱۱)(صحیح)(تراجع الألبانی: رقم:۴۷۰)
وضاحت: ۱ ؎: حدیث میں «إِهَاب» کا لفظ آیا ہے، اور نضر بن شمیل کہتے ہیں کہ «إِهَاب» اسی کھال کو کہا جاتا جس کی دباغت نہ ہوئی ہو، اور جس کی دباغت ہو جائے اسے «إِهَاب» نہیں کہتے، بلکہ اسے «شن» یا «قربہ» کہا جاتا ہے، لہذا اس حدیث میں «إِهَاب» یعنی بغیر دباغت والے چمڑے کا ذکر ہے، اس«إِهَاب» یعنی کچے چمڑے سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں،لیکن دوسری صحیح حدیثوں میں مشروط طریقے سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، وہ یہ کہ حلال مردہ جانوروں کے چمڑے کو پہلے دباغت دے دیں، پھر اس سے فائدہ اٹھائیں لفظ «إِهَاب» کی وضاحت کے بعد حدیث میں کسی طرح کا نہ کوئی تعارض ہے اور نہ ہی اشکال۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ، قَالَ: "كَانَ لِنَعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِبَالَانِ مَثْنِيٌّ شِرَاكُهُمَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے دو تسمے تھے، جو آگے سے دہرے ہوتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۷۸۴، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: آپ ﷺ چپل پہنتے تھے اور تسموں سے مراد یہ کہ ہر جوتی میں سامنے دو دو حلقے چمڑے کے تھے ایک میں انگوٹھا اور بیچ کی انگلی ڈالتے، اور دوسرے میں باقی انگلیاں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ لِنَعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَالَانِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے دو تسمے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الخمس ۵ (۱۰۷)، اللباس ۴۱ (۵۸۵۷)، سنن ابی داود/اللباس ۴۴ (۴۱۳۴)، سنن الترمذی/اللباس ۳۳ (۱۷۷۲)، الشمائل ۱۰ (۷۱)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۶۲ (۵۳۶۹)،(تحفة الأشراف:۱۳۹۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۲،۲۰۳،۲۴۵،۲۶۹)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِالْيُمْنَى، وَإِذَا خَلَعَ فَلْيَبْدَأْ بِالْيُسْرَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پیر سے شروع کرے، اور اتارے تو پہلے بائیں پیر سے اتارے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۴۴۰۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۳۹ (۵۸۵۴)، صحیح مسلم/اللباس ۱۹ (۲۰۹۷)، سنن ابی داود/اللباس ۴۴ (۴۱۳۹)، سنن الترمذی/اللباس ۳۷ (۱۷۷۹)، موطا امام مالک/اللباس ۷ (۱۵)، مسند احمد (۲/۲۴۵،۲۶۵،۲۸۳،۴۳۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَمْشِي أَحَدُكُمْ فِي نَعْلٍ وَاحِدٍ، وَلَا خُفٍّ وَاحِدٍ، لِيَخْلَعْهُمَا جَمِيعًا، أَوْ لِيَمْشِ فِيهِمَا جَمِيعًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی بھی شخص ایک جوتا یا ایک موزہ پہن کر نہ چلے، یا تو دونوں جوتے اور موزے اتار دے یا پھر دونوں جوتے اور موزے پہن لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۳۰۶۴، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس۴۰ (۵۸۵۵)، صحیح مسلم/اللباس ۱۹ (۲۰۹۷)، سنن ابی داود/اللباس ۴۴ (۴۱۳۶)، سنن الترمذی/اللباس ۳۴ (۱۷۷۴)، موطا امام مالک/اللباس ۷ (۱۴)، مسند احمد (۲/۲۴۵،۲۵۳،۳۱۴،۴۲۴،۴۴۳،۴۷۷)(حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حکم ادب کے طور پر ہے اگر کوئی عذر ہو مثلا ایک پاؤں میں پھوڑا یا درد ہو تو جوتا اس میں نہ پہنا جائے، تو بہتر یہ ہے کہ دوسرے پاؤں کا جوتا بھی اتار کر چلے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ قَائِمًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفةالأشراف:۱۲۵۴۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ قَائِمًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے جوتا پہننے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۱۷۰، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا دَلْهَمُ بْنُ صَالِحٍ الْكِنْدِيُّ، عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْكِنْدِيِّ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ،"أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خُفَّيْنِ سَاذَجَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، فَلَبِسَهُمَا".
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نجاشی (اصحمہ بن بحر) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو کالے اور چمڑے کے سادہ موزے تحفہ میں بھیجے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنا۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم:(۵۴۹)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ يُخْبِرَانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى، لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہود و نصاریٰ خضاب نہیں لگاتے، تو تم ان کی مخالفت کرو (یعنی خضاب لگاؤ)"۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الأنبیاء ۵۰ (۳۴۶۲)، اللباس ۶۷ (۵۸۹۹)، صحیح مسلم/اللباس ۲۵ (۲۱۰۳)، سنن ابی داود/الترجل ۱۸ (۴۲۰۳)، سنن النسائی/الزینة ۱۴ (۵۰۷۵)،(تحفة الأشراف:۱۳۴۸۰،۱۵۱۴۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس۲۰ (۱۷۵۲)، مسند احمد (۲/۲۴۰،۲۶۰،۳۰۹،۴۰۱)(صحیح)
وضاحت: بالکل سیاہ رنگ سے اجتناب کیا جائے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ الْأَجْلَحِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّيْبَ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بالوں کی سفیدی بدلنے کے لیے سب سے بہترین چیز مہندی اور کتم ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۱۸ (۴۲۰۵)، سنن الترمذی/اللباس۲۰ (۱۷۵۳)، سنن النسائی/الزینة ۱۶ (۵۰۸۱،۵۰۸۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۹۲۷،۱۸۸۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۷،۱۵۰،۱۵۴،۱۵۶،۱۶۹)(صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: «كَتَمُ»: ایک پودا ہے جس کی جڑ سے خضاب بنایا جاتا ہے، نیز اس کو جوش دے کر روشنائی تیار کی جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَىأُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ: "فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ شَعَرًا مِنْ شَعْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَخْضُوبًا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ".
عثمان بن موہب کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال نکال کر مجھے دکھایا، جو مہندی اور کتم سے رنگا ہوا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس ۶۶ (۵۸۹۶،۵۸۹۷)،(تحفة الأشراف:۱۸۱۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۹۶،۳۱۹،۳۲۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جِيءَ بِأَبِي قُحَافَةَ، يَوْمَ الْفَتْحِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَأَنَّ رَأْسَهُ ثَغَامَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اذْهَبُوا بِهِ إِلَى بَعْضِ نِسَائِهِ فَلْتُغَيِّرْهُ، وَجَنِّبُوهُ السَّوَادَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اس وقت ان کے بال سفید گھاس کی طرح تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں ان کی کسی عورت کے پاس لے جاؤ کہ وہ انہیں بدل دے (یعنی خضاب لگا دے)، لیکن کالے خضاب سے انہیں بچاؤ"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۲۹۳۲، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۴ (۲۱۰۲)، سنن ابی داود/الترجل ۱۸ (۴۲۰۴)، سنن النسائی/الزینة ۱۵ (۵۰۷۹)، الزینة من المجتبیٰ ۱۰ (۵۲۴۴)، مسند احمد (۳/،۳۲۲،۳۳۸)(صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، کمافی التخریج)
وضاحت: ۱؎: خضاب لگانے کا مقصد یہود و نصاریٰ کی مخالفت ہے، اہل کتاب کی مخالفت رسول اکرم ﷺ خود کرتے تھے، اور اس کا حکم بھی دیتے تھے، البتہ اس حدیث کی روشنی میں کالے خضاب سے بچنا چاہیے۔
حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الصَّيْرَفِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بْنِ زَكَرِيَّا الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا دَفَّاعُ بْنُ دَغْفَلٍ السَّدُوسِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ صُهَيْبِ الْخَيْرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَحْسَنَ مَا اخْتَضَبْتُمْ بِهِ لَهَذَا السَّوَادُ أَرْغَبُ لِنِسَائِكُمْ فِيكُمْ، وَأَهْيَبُ لَكُمْ فِي صُدُورِ عَدُوِّكُمْ".
صہیب الخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو خضاب تم لگاتے ہو ان میں بہترین کالا خضاب ہے، اس سے عورتیں تمہاری طرف زیادہ راغب ہوتی ہیں، اور تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہاری ہیبت زیادہ بیٹھتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۹۶۵، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۴)(ضعیف) (عمر بن خطاب بن زکریا راسبی اور دفاع سدوسی دونوں ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ عُبَيْدَ بْنَ جُرَيْجٍ، سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُكَ تُصَفِّرُ لِحْيَتَكَ بِالْوَرْسِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَمَّا تَصْفِيرِي لِحْيَتِي، فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ".
عبید بن جریج سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میں آپ کو اپنی داڑھی ورس سے زرد (پیلی) کرتے دیکھتا ہوں؟، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں اس لیے زرد (پیلی) کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی داڑھی زرد (پیلی) کرتے دیکھا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/ الوضوء ۳۰ (۱۶۶)، اللباس ۳۷ (۵۸۵۱)، صحیح مسلم/الحج ۵ (۱۱۸۷)، سنن ابی داود/المناسک ۲۱ (۱۷۷۲)، اللباس ۱۸ (۴۰۶۴)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۱۱ (۵۲۴۵)،(تحفة الأشراف:۷۳۱۶)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْطَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ قَدْ خَضَبَ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ: "مَا أَحْسَنَ هَذَا"، ثُمَّ مَرَّ بِآخَرَ قَدْ خَضَبَ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ، فَقَالَ: "هَذَا أَحْسَنُ مِنْ هَذَا"، ثُمَّ مَرَّ بِآخَرَ قَدْ خَضَبَ بِالصُّفْرَةِ، فَقَالَ: "هَذَا أَحْسَنُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ"، قَالَ: وَكَانَ طَاوُسٌ يُصَفِّرُ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس ہوا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کتنا اچھا ہے"، پھر آپ ایک دوسرے شخص کے پاس سے گزرے جس نے مہندی اور کتم (وسمہ) کا خضاب لگایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ اس سے اچھا ہے"! پھر آپ کا گزر ایک دوسرے کے پاس ہوا جس نے زرد خضاب لگا رکھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ ان سب سے اچھا اور بہتر ہے"۔ ابن طاؤس کہتے ہیں کہ اسی لیے طاؤس بالوں کو زرد خضاب کیا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۱۹ (۴۲۱۱)،(تحفة الأشراف:۵۷۲۰)(ضعیف) (سند میں حمید بن وہب لین الحدیث راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ مِنْهُ بَيْضَاءُ"، يَعْنِي عَنْفَقَتَهُ.
ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بال یعنی داڑھی بچہ سفید دیکھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۴۵)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۹ (۲۳۴۲)،(تحفة الأشراف:۱۱۸۰۲)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب۶۰ (۲۸۲۶)، مسند احمد (۴/۳۰۸،۳۰۹)(صحیح)
وضاحت: ان کا اشارہ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے درمیان کے بالوں کی طرف تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَخَضَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: "إِنَّهُ لَمْ يَرَ مِنَ الشَّيْبِ، إِلَّا نَحْوَ سَبْعَةَ عَشَرَ أَوْ عِشْرِينَ شَعَرَةً فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ".
حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا ہے؟ کہا: میں نے آپ کی داڑھی میں سفید بال دیکھے ہی نہیں سوائے ان سترہ یا بیس بالوں کے جو آپ کی داڑھی کے سامنے والے حصے میں تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفردبہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۶۵۳،۷۶۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۵)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۴۷)، اللباس ۶۶ (۵۸۹۴)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۹ (۲۳۴۱)، سنن الترمذی/المناقب ۴ (۳۶۲۳)، موطا امام مالک/صفة النبی ﷺ ۱ (۱)، مسند احمد (۱/۱۰۸،۱۷۸،۱۸۸،۲۰۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانَ شَيْبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ عِشْرِينَ شَعَرَةً".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑھاپا تقریباً ً بیس بال کا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفردبہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۹۱۴، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۹۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کے تقریباً بیس بال سفید تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ،"دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَلَهُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ"، تَعْنِي ضَفَائِرَ.
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں (فتح کے روز) داخل ہوئے، تو آپ کے سر میں چار چوٹیاں تھیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۱۲ (۴۱۹۱)، سنن الترمذی/اللباس ۳۹ (۱۷۸۱)،(تحفة الأشراف:۱۸۰۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۴۱،۴۲۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ممکن ہے کہ گرد و غبار سے بچنے کے لئے آپ نے بالوں کو گوندھ کر چوٹیاں بنا لی ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدُلُونَ أَشْعَارَهُمْ، وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ، قَالَ: "فَسَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ، ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۸)، مناقب الأنصار ۵۲ (۳۹۴۴)، اللباس ۷۰ (۵۹۱۷)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۴ (۲۳۳۶)، سنن ابی داود/الترجل ۱۰ (۴۱۸۸)، سنن الترمذی/الشمائل ۳ (۲۹)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۷ (۵۲۴۰)،(تحفة الأشراف:۵۸۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۶،۲۶۱،۲۸۷،۳۲۰)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كُنْتُ أَفْرِقُ خَلْفَ يَافُوخِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَسْدِلُ نَاصِيَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر چندیا کے پچھلے حصے میں مانگ نکالتی تھی اور سامنے کے بال پیشانی پر لٹکتے چھوڑ دیتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۶۱۷۷ ألف)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الترجل ۱۰ (۴۱۸۹)، مسند احمد (۶/۹۰،۲۷۵)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ شَعَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعَرًا رَجِلًا، بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَمَنْكِبَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال دونوں کانوں اور مونڈھوں کے درمیان سیدھے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس ۶۸ (۶۹۰۵،۶۰۹۰۶)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۶ (۲۳۳۸)، سنن الترمذی/الشمائل ۳ (۲۶)، سنن النسائی/الزینة ۶ (۵۰۵۶)،(تحفة الأشراف:۱۱۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۰۳)(صحیح)
وضاحت: ۱ ؎: اسی واسطے سر کے بال دونوں کانوں سے لے کر مونڈوں تک رکھ سکتا ہے اور مونڈوں سے زیادہ لٹکانا مرد کے لئے بعضوں نے مکروہ رکھا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعَرٌ دُونَ الْجُمَّةِ، وَفَوْقَ الْوَفْرَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈھوں سے اوپر اور کانوں سے نیچے ہوتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۹ (۴۱۸۷)، سنن الترمذی/اللباس ۲۱ (۱۷۵۵)،(تحفة الأشراف:۱۷۰۱۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۰۸،۱۱۸)(حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِي شَعَرٌ طَوِيلٌ، فَقَالَ: "ذُبَابٌ ذُبَابٌ"، فَانْطَلَقْتُ فَأَخَذْتُهُ، فَرَآنِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنِّي لَمْ أَعْنِكَ وَهَذَا أَحْسَنُ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میرے بال لمبے ہیں تو فرمایا: "منحوس ہے منحوس"، یہ سن کر میں چلا آیا، اور میں نے بالوں کو چھوٹا کیا، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "میں نے تم کو نہیں کہا تھا، ویسے یہ بال زیادہ اچھے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الترجل ۱۱ (۴۱۹۰)، سنن النسائی/الزینة ۶ (۵۰۵۵)،(تحفة الأشراف:۱۱۷۸۲)(صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: بال زیادہ لمبا رکھنے سے ایک تو عورت سے مشابہت ہوتی ہے، دوسرے ان کے دھونے اور کنگھی کرنے میں تکلیف ہوتی ہے، اس لئے آپ نے لمبے بالوں کو مکروہ اور منحوس جانا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"عَنِ الْقَزَعِ"، قَالَ: وَمَا الْقَزَعُ؟ قَالَ: "أَنْ يُحْلَقَ مِنْ رَأْسِ الصَّبِيِّ مَكَانٌ، وَيُتْرَكَ مَكَانٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا۔ راوی نے کہا: «قزع» کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: بچے کے سر کے بال ایک جگہ کے کاٹ دئیے جائیں، اور دوسری جگہ کے چھوڑ دئیے جائیں، اسے «قزع» کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس ۷۲ (۵۹۲۰)، صحیح مسلم/اللباس ۳۱ (۲۱۲۰)، سنن ابی داود/الترجل ۱۴ (۴۱۹۳)، سنن النسائی/الزینة ۵ (۵۰۵۳)،(تحفة الأشراف:۸۲۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴،۳۹،۵۵،۶۷،۸۲،۸۳،۱۰۱،۱۰۶،۱۱۸،۱۳۷،۱۴۳،۱۵۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ،، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنِ الْقَزَعِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۷۱۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۶۷،۸۳،۱۱۸،۱۵۴)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ نَقَشَ فِيهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: "لَا يَنْقُشْ أَحَدٌ عَلَى نَقْشِ خَاتَمِي هَذَا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی، پھر اس میں «محمد رسول الله» نقش کرایا، اور فرمایا:"میری انگوٹھی کا یہ نقش کوئی اور نہ کرائے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس ۱۲ (۲۰۹۱)، سنن ابی داود/الخاتم ۱ (۴۲۱۹)، سنن الترمذی/الشمائل ۱۱ (۹۵)، سنن النسائی/الزینة من المجتبيٰ ۲۶ (۵۲۹۰)،(تحفة الأشراف:۷۵۹۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۴۶ (۵۸۶۶)، مسند احمد (۲/۲۲)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: وہ انگوٹھی آپ کی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی اخیر خلافت میں اریس کے کنوئیں میں گر گئی، ہر چند تلاش کی گئی مگر نہ ملی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: اصْطَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا، فَقَالَ: "إِنَّا قَدِ اصْطَنَعْنَا خَاتَمًا، وَنَقَشْنَا فِيهِ نَقْشًا، فَلَا يَنْقُشَنَّ عَلَيْهِ أَحَدٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوائی، اور فرمایا: "ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں نقش کرایا ہے، لہٰذا اب اس طرح کوئی اور نقش نہ کرائے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس ۴۷ (۵۸۶۶)،۵۰ (۵۸۷۲)،۵۲ (۵۸۷۵)،۵۴ (۵۸۷۷)، صحیح مسلم/اللباس ۱۲ (۲۰۹۲)،۱۳ (۲۰۹۲)، سنن ابی داود/الخاتم ۱ (۴۲۱۴)، سنن الترمذی/اللباس ۱۴ (۱۷۳۹)، الشمائل ۱۱ (۹۲)، سنن النسائی/الزینة ۴۵ (۵۲۰۴)، الزینة من المجتبی ۲۴ (۵۲۸۰)،(تحفة الأشراف:۹۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۱،۱۷۰،۱۸۱،۱۹۸،۲۰۹،۲۲۳)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ آپ کی علامت تھی آپ خطوط پر اس کو ثبت فرماتے، اب بھی اس طرح کا انگوٹھی پر نقش کرانا منع ہے، اور بعضوں نے کہا مکروہ نہیں کیونکہ التباس کا ڈر اب باقی نہیں ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ ممانعت عام اور شامل ہے ہمیشہ ہمیش کے لیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ لَهُ فَصٌّ حَبَشِيٌّ وَنَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ایک حبشی نگینہ تھا، اور اس میں «محمد رسول الله» کا نقش تھا۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس۴۷ (۵۸۶۸)، صحیح مسلم/اللباس۱۲ (۲۰۱۲)، سنن ابی داود/الخاتم ۱ (۴۲۱۶)، سنن الترمذی/اللباس ۱۴ (۱۷۳۹)، سنن النسائی/الزینة ۴۵ (۵۱۹۹)،(تحفة الأشراف:۱۵۵۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۰۹،۲۲۵)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ بْنِ جُبَيْرٍ مَوْلَى عَلِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّهَبِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم:۳۶۰۲ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ سُهَيْلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی (پہننے) سے منع فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم:۳۶۰۱ (تحفة الأشراف:۶۶۹۱)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: أَهْدَى النَّجَاشِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلْقَةً، فِيهَا خَاتَمُ ذَهَبٍ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُودٍ، وَإِنَّهُ لَمُعْرِضٌ عَنْهُ أَوْ بِبَعْضِ أَصَابِعِهِ، ثُمَّ دَعَا ابْنَةِ ابْنَتِهِ أُمَامَةَ بِنْتِ أَبِي الْعَاصِ، فَقَالَ: "تَحَلِّي بِهَذَا يَا بُنَيَّةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نجاشی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چھلا بطور ہدیہ بھیجا، اس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی، انگوٹھی میں حبشی نگینہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لکڑی سے چھوا، آپ اس سے اعراض کر رہے تھے، یا پھر اپنی ایک انگلی سے چھوا، اور اپنی نواسی امامہ بنت ابی العاص کو بلا کر فرمایا: "بیٹی! اسے تم پہن لو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الخاتم ۸ (۴۲۳۵)(تحفة الأشراف:۱۶۱۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۰۱،۱۱۹)(حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم كَانَ"يَجْعَلُ فَصَّ خَاتَمِهِ مِمَّا يَلِي كَفَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی جانب رکھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس۱۱ (۲۰۹۲)، سنن ابی داود/الخاتم ۱ (۴۲۱۸)،(تحفة الأشراف:۷۵۹۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۴۵ (۵۸۶۵)،۴۶ (۵۸۶۶)،۴۷ (۵۸۶۷)،۵۳ (۵۸۶۷)، الأیمان ۶ (۶۶۵۱)، الاعتصام ۴ (۷۲۹۸)، سنن الترمذی/اللباس ۱۶ (۱۷۴۱)، الشمائل ۱۲ (۸۴)، سنن النسائی/الزینة ۴۵ (۵۱۹۹)، مسند احمد (۲/۱۸،۶۸،۹۶،۱۲۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ الْأَيْلِيِّ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَبِسَ خَاتَمَ فِضَّةٍ فِيهِ فَصٌّ حَبَشِيٌّ كَانَ يَجْعَلُ فَصَّهُ فِي بَطْنِ كَفِّهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پہنی، اس میں حبشی نگینہ تھا، آپ اپنے نگینے کو اپنی ہتھیلی کے اندر کی جانب رکھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم:۳۶۴۱،(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۵۲۲۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/اللباس ۱۶ (۱۷۴۴)، الشمائل ۱۳ (۹۸)، سنن النسائی/الزینة ۴۶ (۵۲۰۷)، مسند احمد (۱/۲۰۴،۲۰۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: اور صحیح مسلم میں ہے کہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں یعنی سب سے چھوٹی انگلی میں پہنتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنْ أَتَخَتَّمَ فِي هَذِهِ وَفِي هَذِهِ"، يَعْنِي: الْخِنْصَرَ، وَالْإِبْهَامَ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع فرمایا کہ میں اس میں اور اس میں انگوٹھی پہنوں، یعنی چھنگلی اور انگوٹھے میں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/اللباس ۲۸ (۵۸۳۸ تعلیقاً) صحیح مسلم/اللباس ۱۶ (۲۰۸۷)، سنن ابی داود/الخاتم ۴ (۴۲۲۵)، سنن الترمذی/اللباس ۴۴ (۱۷۸۶)، سنن النسائی/الزینة ۵۰ (۵۲۱۴)، الزینة من المجتبيٰ ۵۲ (۵۲۸۸،۵۲۸۹)(تحفة الأشراف:۱۰۳۱۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۸،۱۳۴،۱۳۸)(شاذ) («يَعني الخنصر والإبهام» کا لفظ منکر ہے، محفوظ و ثابت لفظ یہ ہے: «في هذه وفي هذه۔ شك عاصم قال: فأوما إلي الوسطى والتي» اس میں یا اس میں، عاصم کو شک ہے، پھر درمیان انگلی کی طرف اشارہ کیا، اور جو اس سے ملی ہوئی ہے)
وضاحت: ۱؎: تخریج حدیث سے ظاہر ہوا کہ اصل حدیث: درمیانی انگلی اور اس سے ملی انگلی میں پہننے سے متعلق ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس گھر میں فرشتے نہیں داخل ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «صحیح البخاری/بدء الخلق ۷ (۳۲۲۵)،۱۷ (۳۳۲۲)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۲)، اللباس ۸۸ (۵۹۴۹)،۹۲ (۵۹۵۸)، صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۶)، سنن ابی داود/اللباس ۴۸ (۴۱۵۳)، سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۴)، سنن النسائی/الصید والذبائح ۱۱ (۴۲۸۷)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ ۵۷ (۵۳۴۹)،(تحفة الأشراف:۳۷۷۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان ۳ (۶)، مسند احمد (۴/۲۸،۲۹،۳۰)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: وہ کتے جو کھیت اورجائداد کی رکھوالی، یا شکار کے لئے ہوں اس ممانعت کے حکم سے مستثنیٰ ہیں، اور تصویر سے بے جان چیزوں کی تصویریں مستثنیٰ ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا اور تصویر ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة ۹۰ (۲۲۷)، اللباس ۴۸ (۴۱۵۲)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۸ (۲۶۲)، الصید ۱۱ (۴۲۸۶)،(تحفة الأشراف:۱۰۲۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۳،۱۰۴)، سنن الدارمی/الاستئذان ۳۴ (۲۷۰۵)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی رحمت کے فرشتے جو مسلمان اور سچے مومنوں کے پاس شوق اور محبت کی وجہ سے آتے ہیں وہ اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں کتا یا مورت ہو، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کو ان چیزوں سے نفرت ہے اور اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ جہاں کتا یا مورت ہو وہاں فرشتہ مطلق داخل ہی نہیں ہوتا، اگرچہ اس کو حکم دے دیا گیا ہو، ورنہ لازم آتا ہے جس کوٹھری میں کتا یا تصویر ہو وہاں کوئی نہ مرے کیونکہ موت کا فرشتہ اس کوٹھری کے اندر نہ آ سکے گا، واضح رہے یہ فرشتوں کے شوق و محبت سے اور اللہ کی رحمت لے کر گھر میں داخل ہونے کی بات ہے ورنہ جب ان کو حکم الہی ہوتا ہے تو کتا اور مورت کیا پاخانہ اور غلاظت خانہ میں بھی جا کر روح قبض کر لیتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَاعَدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فِي سَاعَةٍ يَأْتِيهِ فِيهَا فَرَاثَ عَلَيْهِ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ بِجِبْرِيلَ قَائِمٌ عَلَى الْبَابِ، فَقَالَ: "مَا مَنَعَكَ أَنْ تَدْخُلَ"، قَالَ: إِنَّ فِي الْبَيْتِ كَلْبًا، وَإِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے وقت میں آنے کا وعدہ کیا جس میں وہ آیا کرتے تھے، لیکن آنے میں دیر کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے، دیکھا تو جبرائیل علیہ السلام دروازے پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "آپ کو اندر آنے سے کس چیز نے باز رکھا؟ فرمایا: "گھر میں کتا ہے، اور ہم لوگ ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے اور تصویریں ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۷۶۱، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۴۲)(صحیح)
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ، أَنَّ زَوْجَهَا فِي بَعْضِ الْمَغَازِي،"فَاسْتَأْذَنَتْهُ أَنْ تُصَوِّرَ فِي بَيْتِهَا نَخْلَ، فَمَنَعَهَا أَوْ نَهَاهَا".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو بتایا کہ اس کا شوہر کسی جنگ میں گیا ہوا ہے، اور اپنے گھر میں کھجور کے درخت کی تصویر بنانے کی اجازت طلب کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرما دیا یا روک دیا۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۴۸۷۳)(ضعیف) (سند میں عفیر بن معدان ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: سَتَرْتُ سَهْوَةً لِي تَعْنِي: الدَّاخِلَ بِسِتْرٍ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَتَكَهُ، فَجَعَلْتُ مِنْهُ مَنْبُوذَتَيْنِ: "فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا عَلَى إِحْدَاهُمَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے روشن دان پر پردہ ڈالا یعنی اندر سے، پردے میں تصویریں تھیں، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تو آپ نے اسے پھاڑ ڈالا، میں نے اس سے دو تکیے بنا لیے پھر میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ،(تحفة الأشراف:۱۷۴۲۷، ومصباح الزجاجة:۱۲۶۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المظالم ۳۲ (۲۴۷۹،۲۴۷۶)، اللباس ۹۱ (۵۹۵۴،۵۹۵۵)، الأدب ۷۵ (۶۱۰۹)،(بدون ذکرالصلاة في المواضع الثلاثة) صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۷)، سنن النسائی/القبلة ۱۲ (۷۶۲)، الزینة من المجتبیٰ ۵۷ (۵۳۵۶)، مسند احمد (۶/۱۷۴)، سنن الدارمی/الاستئذان ۳۳ (۲۷۰۴)(حسن صحیح) (سند میں اسامہ بن زید ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے صحیح ہے، کمافی التخریج)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے نقشی تصویر کی بھی حرمت نکلتی ہے، اور بعضوں نے کہا آپ کا یہ فعل حرمت کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ آپ ﷺ نے نبوت کے خاندان میں دنیا کی زیب و زینت اور آرائستگی کو برا سمجھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هُبَيْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ، وَعَنِ الْمِيثَرَةِ"، يَعْنِي: الْحَمْرَاءَ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے اور گدے استعمال کرنے سے منع فرمایا یعنی سرخ ریشمی گدے زین پوش۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۱۱ (۴۰۵۱)، سنن الترمذی/الأدب ۴۵ (۲۸۰۸)، سنن النسائی/الزینة ۴۳ (۵۱۶۸)،(تحفة الأشراف:۱۰۳۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۳،۱۰۴،۱۲۷،۱۳۲،۱۳۳،۱۳۷)(صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْحِمْيَرِيُّ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ الْحَجْرِيِّ الْهَيْثَمِ، عَنْ عَامِرٍ الْحَجْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَيْحَانَةَ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَنْهَى عَنْ رُكُوبِ النُّمُور".
ابوریحانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۱۱ (۴۰۴۹)، سنن النسائی/الزینة ۲۰ (۵۰۹۴)،۲۷ (۵۱۱۳،۵۱۱۴،۵۱۱۵)،(تحفة الأشراف:۱۲۰۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۴)، سنن الدارمی/الاستئذان ۲۰ (۲۶۹۰)(حسن صحیح) (بعد کی حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي الْمُعْتَمِرِ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَنْهَى عَنْ رُكُوبِ النُّمُورِ".
معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیتوں کی کھال پر سواری کرنے سے منع فرماتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/اللباس ۴۳ (۴۱۲۹)،(تحفة الأشراف:۱۱۴۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۹۳،۹۴)(صحیح)
وضاحت: ۱؎: ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ زینت اور فخر کی چیز ہے، اور اس لئے بھی کہ یہ غیر مسلموں کا لباس ہے۔