مشکوٰة شر یف

اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان

جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ کی اس پر رحمت نازل نہیں ہوتی

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا (یعنی اس کو اپنی خاص و کامل رحمت کا مستحق نہیں گردانتا) جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم)

بچوں کو پیار کرنے کی فضیلت

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور جب اس نے صحابہ کو دیکھا کہ وہ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں تو کہنے لگا کہ کیا تم لوگ بچوں کو چومتے ہو؟ہم تو بچوں کو نہیں چومتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا میں اس بات پر قادر ہو سکتا ہوں کہ اللہ نے تمہارے دل میں سے جس رحم و شفقت کو نکال دیا ہے اس کو روک دوں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اللہ نے تمہارے دل کو رحمت و شفقت اور پیار محبت سے خالی کر دیا ہے تو یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کہ تمہارے دل میں رحم و شفقت اور محبت کا جذبہ پیدا کروں، یہ معنی اس صورت میں ہیں جب کہ لفظ ان الف کے ساتھ جیسا کہ اکثر راویوں نے نقل کیا ہے کہ اور اگر الف کے زیر کے ساتھ یعنی اِنْ ہو تو یہ معنی ہوں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحم کا جذبہ نکال دیا ہے تاہم دونوں صورتوں میں روایت کا مفہوم ایک ہی تفاوت فرق محض اعراب کی بنیاد پر ہے حدیث کا مقصد بے رحمی و بے مروتی اور سخت دلی کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا اور اس قسم کے لوگوں کو سختی کے ساتھ مشتبہ کرنا ہے نیز اس ارشاد گرامی میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ دلوں میں رحم و شفقت کے جذبات کا ہونا اللہ کا ایک بہترین عطیہ ہے اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور اگر وہ کسی شخص کے دل سے رحم و شفقت اور محبت و مروت کے جذبات کو نکال دے تو یہ پھر کسی کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس شخص کے دل کو ان جذبات کی دولت عطا کر دے۔

لڑکی ماں باپ کے پیار و محبت اور حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں اس نے مجھ سے سوال کیا کہ (یعنی مجھ سے کچھ مانگا) لیکن اس کو میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ اور کچھ بھی نہ مل سکا۔چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی اس نے اس کھجور کو آدھی آدھی اپنی دونوں بچیوں کو بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ نہیں کھایا اور پھر وہ اٹھ کر چلی گئی اتنے میں نبی گھر میں تشریف لائے میں نے آپ سے اس عورت کا یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا جو شخص ان بچیوں میں سے کچھ یعنی ایک یا دو  یا اس سے زیادہ لڑکیوں کی وجہ سے ابتلاء و آزمائش سے کیا جائے وہ ان بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرے تو وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس کے لیے دوزخ کی آگ سے پردہ بنیں گی۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

یعنی وہ بچیاں اور ان کے ساتھ کی گئی نیکی اس شخص اور دوزخ کی آگ کے درمیان حائل ہوں گی کہ وہ شخص اپنی ان بچیوں کی وجہ سے دوزخ کی آگے محفوظ رہے گا اور بچیوں کے ساتھ حسن سلوک کی یہ فضیلت اس بنا پر ہے کہ لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیاں یا وہ اپنے ماں باپ کے پیار محبت اور ان کے حسن سلوک کی مستحق ہوتی ہیں۔ اس بارے میں علماء کا اختلافی قول ہے کہ ابتلاء و آزمائش کا محمول محض لڑکوں کا پیدا ہونا ہے یا کسی ایسی حالت میں مبتلا ہونا ہے جو لڑکیوں کی وجہ سے کسی محنت و تکلیف اور پریشانی و عسرت کے سامنے آنے اور اس پر صبر و تحمل کرنے کی صورت میں پیش آئے چنانچہ پہلی صورت یعنی ابتلاء آزمائش کا تعلق لڑکیوں کی پیدائش سے ہونا زیادہ صحیح ہے اور اس صورت میں کہا جائے گا کہ جو لوگ اپنے ہاں لڑکیاں پیدا ہونے پر دل گرفتگی اور ناگواری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ لڑکیاں اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی رحمت ہیں اور ان کی پرورش و دیکھ بھال اور ان کے ساتھ پیار و محبت کا سلوک کرنا ایک بہت بڑی اخروی سعادت ہے اس بارے میں بھی علماء کے اختلافی قول ہیں کہ احسان و سلوک سے مراد نان نفقہ ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے یا اس واجب نان نفقہ کے علاوہ مزید حسن سلوک کرنا مراد ہے چنانچہ راجح قول یہ ہے کہ یہ دوسرے معنی زیادہ صحیح ہیں نیز واضح رہے کہ مذکورہ احسان و سلوک کی شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے موافق ہو۔علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ بچیوں کے ساتھ احسان و سلوک کرنے کا مذکورہ اجر اس صورت میں حاصل ہوتا ہے جبکہ اس احسان و سلوک کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بچیاں اپنی شادی بیاہ کی وجہ سے یا کسی اور صورت میں ماں باپ کی کفالت اور اس کے احسان و سلوک سے بے نیاز ہو جائیں۔

بچیوں کی پرورش کرنے کی فضیلت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص دو بیٹیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کرے یہاں تک کہ وہ بلوغ کی حد تک پہنچ جائیں یا شادی بیاہ کے بعد اپنے خاوند کے پاس چلی جائے تو وہ شخص قیامت کے روز اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ایک دوسرے کے قریب ہوں گے یہ کہہ کر آپ نے اپنی انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

آپ نے اپنے اور اس شخص کے درمیان کمال قرب اور اتصال کو ظاہر کرنے کے لیے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر دکھایا جس طرح تم ان دونوں انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملی ہوئی دیکھ رہے ہو اسی طرح قیامت کے دن میں اور وہ شخص ایک دوسرے کے قریب ہوں گے اور محشر میں ہم دونوں ایک جگہ اور ایک جگہ اور ایک ساتھ ہوں گے یا وہ میرے ساتھ جنت میں داخل ہو گا۔

بیوہ اور مسکین کی خدمت کا ثواب

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو خدا کی راہ میں سعی کرے یعنی وہ شخص بیوہ عورت اور مسکین کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر کے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے تو اس ثواب کے برابر ہے جو خدا کی راہ میں جہاد اور حج کرنے والے کو ملتا ہے اور میرا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ بیوہ عورت اور مسکین کی خبر گری کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو نماز و عبادت کے شب بیداری کرتا ہے اور اپنی شب بیداری میں نہ کوئی سستی کرتا ہے اور نہ کسی فتور اور نقصان کو گوارا کرتا ہے اور اس شخص کے مانند ہے جو دن کو کبھی افطار نہیں کرتا کہ جس کو صائم الدھر کہا جاتا ہے۔ (بخاری مسلم)

 

تشریح

 

فقیر و محتاج بھی مسکین کے حکم میں داخل ہے بلکہ بعض حضرات کے نزدیک اس کو مسکین پر ترجیح حاصل ہے۔

 اور میرا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی بیان ان الفاظ کی نسبت حضرت عبداللہ ابن سلمہ کی طرف کی جاتی ہے جو بخاری و مسلم کے شیخ اور اس حدیث کے راوی ہیں جس کو انہوں نے حضرت امام مالک سے روایت کیا ہے اس بات کی صراحت امام بخاری نے کی ہے بہرحال ان الفاظ کے ذریعہ عبداللہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ میرا گمان ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت امام مالک نے یہ الفاظ کالقائم لایفتر۔ نقل کیے ہیں لیکن اگر بخاری کی مذکورہ صراحت کے سامنے نہ ہو تو مصابیح اور مشکوہ کے ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ اور میرا گمان ہے کہ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس جملہ کے ذریعہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کالقائم لا.......کے الفاظ بھی ارشاد فرمائے تھے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس موقع پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس شک کو ظاہر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو کاالساعی فی سبیل اللہ کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے یا کالقائم کے الفاظ چنانچہ اس کی تائید جامع صغیر کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس کو احمد،شیخین ، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ سے نقل کیا گیا ہے۔ اور جس کے الفاظ یوں ہیں کہ الساعی علی الارملۃ والمساکین کالمجاھدین فی سبیل اللہ والقائم اللیل الصائم النھار۔

یتیم کی پرورش کرنے کی فضیلت

اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا کہ وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا کسی اور کا جنت میں اس طرح ہوں گے یہ کہہ کر آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان تھوڑی سی کشادگی رکھی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

وہ یتیم خواہ اس کا ہو یا کسی اور کا  کے ذریعہ اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ مطلق یتیم کی کفالت و پرورش کرنے کی فضیلت ہے وہ یتیم خواہ اس کا اپنا قربتی ہو جیسے پوتا اور بھتیجا وغیرہ یا کوئی غیر قرابتی ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے ذریعہ اشارہ کر کے واضح کیا کہ جنت میں میرے اور یتیم کی پرورش کرنے والے کے درمیان اتنا قریبی علاقہ ہو گا کہ جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے درمیان ہے نیز آپ نے ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ اس طرح بھی اشارہ کیا کہ مرتبہ نبوت جو سب سے اعلی درجہ ہے اس کے اور سخاوت و مروت کے مرتبہ کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔

تمام مسلمانوں کو ایک تن ہونا چاہیے

اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اے مخاطب تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کے تعب و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے۔ (بخاری مسلم)

 

 

تشریح

 

اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مومن کی صفت اتحاد و یگانگت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر کوئی جذبہ تعلق ایسا ہو سکتا ہے جو دنیا کے تمام انسانوں کو رنگ و نسل کے بھید بھاؤ زبان و کلچر کے اختلاف و تفاوت اور ذات قبائل علاقہ کی تفرقہ بازی سے نجات دلا کر ایک انسانی برداری اور اتحاد و یگانگت ایک لڑی میں پرو سکتا ہے تو وہ صرف ایمان و اسلام کا تعلق ہے چنانچہ اہل ایمان جہاں بھی ہوں جس رنگ و نسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے درمیان کوئی انسانی اونچ نیچ نہیں ہے کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے اور کسی برتری و کمتری کی نفرت و حقارت نہیں ہے وہ جس عقیدے کے حامل اور جس نظریہ حیات کو ماننے والے ہیں اس کی روشنی میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تمام انسان ایک باپ کی اولاد ہیں تمام مسلمان ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں اگر وہ کڑیاں الگ الگ ہو جائیں تو زنجیر ٹوٹ کر رہ جائے گی اسی طرح اگر مسلمان تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں اور رنگ و نسل زبان و کلچر اور ذات پات کے دائروں میں سمٹ جائیں تو ان کے ملی وجود اور ان کی اجتماعی طاقت کو انتشار و اضمحلال کا گھن لگ جائے گا اور جب ان کی اجتماعی حیثیت مجروح ہو کر غیر موثر ہو گی تو ان کا شخصی و انفرادی وجود بھی نہ صرف بے معنی ہو جائے گا بلکہ ہر شخص مختلف آفات کا شکار ہو گا اور چونکہ ملی وجود اور اجتماعی طاقت کا سرچشمہ افراد کا آپس میں محبت و موانست اور اشخاص کا باہمی ربط و تعلق ہے اس لیے ہر مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے اس طرح ربط و تعلق رکھتا ہے کہ جس طرح دو حقیقی بھائی ہوتے ہیں کہ آپس میں سلام و دعا کرتے ہیں باہمی میل جول اور ملاقات کرتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں باہمی معاملات و تعلقات کو محبت و موانست اور رحم دلی کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں ہدایا و تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں ایک دوسرے کی مدد و اعانت کرتے ہیں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے حالات رعایت اور اس کے طور طریقوں کی پاس داری کرتا ہے چنانچہ جب شخصی اور انفرادی سطح پر یہ ربط و تعلق ایک دوسرے کو جوڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے تو سارے مسلمان ایک مضبوط اجتماعی حیثیت اور عظیم طاقت بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس ارشاد گرامی میں ظاہر کیا گیا ہے کہ اور تمام مسلمانوں کو ایک بدن کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس طرح جب بدن کا کوئی ایک عضو دکھتا ہے تو سارا بدن دکھتا ہے اور محض ایک عضو میں تکلیف ہونے سے پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ ایک تن بن جائیں اور پوری ملت اسلامیہ ایک جسم کی مانند ہو جائے کہ اگر کسی ایک بھی مسلمان کو کوئی گزند پہنچے یا وہ کسی آفت میں گرفتار ہو تو سارے مسلمان اس کے دکھ و رنج میں شریک ہوں اور سب مل کر اس کی تکلیف و مصیبت کو دور کرنے کی تدبیر کریں اسی مفہوم کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے !

 بنی آدم اعضائے یکد یگرند کہ درآفرینش زیک گوہر اند

 چوعضوے بدرد آور دروزگا دگرعضو ہا رانماند قرار

 

تمام مسلمانوں کو ایک تن ہونا چاہیے

٭٭اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک خدا ایک رسول اور ایک دین کو ماننے کی وجہ سے سارے مسلمان ایک شخص کی مانند ہیں کہ اگر اس کی آنکھ دکھتی ہے تو اس کا سارا جسم بے چین و مضطرب ہو جاتا ہے اور اس کا سر دکھتا ہے تو پورا بدن تکلیف محسوس کرتا ہے اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کو سارے مسلمانوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ (مسلم)

سارے مسلمان ایک دوسرے کی مدد و اعانت کے ذریعہ ناقابل تسخیر طاقت بن سکتے ہیں

اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان، مسلمان کے لیے ایک مکان کے مانند ہے یعنی سارے مسلمان مضبوطی و طاقت حاصل کرنے کے اعتبار سے اس مکان کی طرح ہیں کہ جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے یہ کہہ کر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

پہلے تو آپ نے مسلمانوں کو اس مکان کے ساتھ تشبیہ دی جس کے سارے اجزاء اور تمام حصے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر پورے مکان کو مضبوط و پختہ بناتے ہیں اور پھر اس حقیقت کو آپ نے مثالی صورت میں اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر دکھلایا کہ اگر سارے مسلمان اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مربوط و متحد رہیں اور باہمی محبت و موانست اور امداد و تعاون کی زنجیر میں منسلک رہیں تو پوری ملت اسلامیہ مضبوط و توانا اور ایک ناقابل تسخیر طاقت بن جائے گی لیکن واضح رہے کہ مسلمانوں کا وہی اتحاد اور وہی یک جہتی مطلب و مستحسن ہے جس کی بنیاد حق و حلال کے معاملات پر ہو حرام و مکروہ اور گناہ کے موجب معاملات میں اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد تعاون غیر مطلوب ہے۔

سفارش کرنا ایک مستحسن عمل ہے

اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس کوئی سائل یا حاجت مند آتا صحابہ سے فرماتے کہ مجھ سے اس شخص کی سفارش کرو تاکہ تمہیں سفارش کا ثواب مل جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان سے جو حکم چاہتا ہے جاری فرماتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

کسی کی سفارش کرنا گویا اس کے ساتھ ہمدردی کرنا اور اس کی مدد کرنا ہے اس لیے حضور نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ تم لوگوں کی سفارش کرتے رہا کرو خواہ تمہاری سفارش قبول کی جائے یا نہ کی جائے کیوں کہ کسی کا کام ہونا یا نہ ہونا تقدیر الٰہی اور حکم خداوندی کے مطابق ہے لہذا تم اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ شاید میری سفارش قبول نہ ہو ، سفارش کرنے سے اجتناب نہ کرو اور اس کا ثواب ہاتھ سے نہ جانے دو۔ واضح رہے کہ سفارش کا حکم ان امور و معاملات سے متعلق ہے کہ جو کسی نا جائز حرام مقصد پر مبنی نہ ہو نیز اگر کوئی شخص کسی ایسے معاملے میں ماخوذ ہو جو حد یعنی شریعت کی طرف سے متعین شدہ سزا کو لازم کرتا ہے تو اس صورت میں اس وقت سفارش کرنا جائز نہیں ہو گا جب کہ وہ معاملہ امام وقت تک پہنچ چکا ہو، اگر وہ معاملہ امام تک نہ پہنچا ہو تو پھر سفارش کی جا سکتی ہے ہاں تعزیری معاملات میں بہر صورت سفارش کرنا جائز ہے نیز یہ ساری تفصیل اس صورت سے متعلق ہے جبکہ وہ شخص موذی و شریر نہ ہو،جس کی سفارش کرنا مقصود ہے موذی اور شریر کی سفارش کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔

ظالم کی مدد کس طرح کی جا سکتی ہے

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو مسلمان مظلوم ہے اس کی مدد تو مجھے کرنی چاہیے لیکن میں اس مسلمان کی کس طرح مدد کر سکتا ہوں جو ظلم کر رہا ہے؟حضور نے فرمایا تم اس کو ظلم سے روکو یہی یعنی اس کو ظلم سے روکنا اس کے حق میں تمہاری مدد ہے کیوں کہ اس کو ظلم سے روکنا گویا اس کو اپنے نفس اور شیطان پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔ (بخاری و مسلم)

تمام مسلمان ایک دوسرے کے دینی بھائی ہیں

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کا دینی بھائی ہے یعنی تمام مسلمان آپس میں دینی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے شریعت کو وہی مقام حاصل ہے جو ماں کو حاصل ہوتا ہے اور شارع تمام مسلمانوں کے دینی باپ ہیں لہذا اس دینی اخوت کا تقاضا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور کسی کو ہلاکت میں مبتلا نہ کرے اور نہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو اس کے دشمن کے ہاتھوں میں چھوڑے بلکہ اس دشمن کے مقابلہ پر اس کی مدد اعانت کرے اور یاد رکھو جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی سعی و کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے جو شخص کسی مسلمان بھائی کے کسی غم کو دور کرتا ہے تو اللہ اس کو قیامت کے دن غموں میں سے ایک بڑے غم سے نجات دے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے بدن یا اس کے عیب کو ڈھانکتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو ڈھانکے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی کی ستر پوشی کرنے والے یا اس کے عیوب کو چھپانے والے شخص نے دنیا میں جو عیوب و گناہ کیے ہوں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے ان گناہ و عیوب کی پردہ پوشی کرے گا بایں طور کہ اہل موقف کے سامنے ظاہر نہیں کرے گا اس پر مواخذہ و محاسبہ نہیں کرے گا اور نامہ اعمال کی پیشی کے وقت ان کا ذکر پوشیدہ طور پر ہو گا۔علماء نے لکھا ہے کہ جن مسلمانوں کے عیوب کی پردہ پوشی مستحسن و مستحب ہے وہ اس درجہ کے مسلمان ہیں جن کو اہل عزت و حیا کہا جاتا ہے یعنی وہ مسلمان جن کی ظاہری زندگی پاکیزہ اور آبرو مندانہ سمجھی جاتی ہے اور جن کے عیوب پوشیدہ رہتے ہیں کہ اگر بتقاضائے بشریت ان سے کوئی گناہ و عیب سرزد ہو جائے تو وہ اس کو پردہ حیاء میں چھپاتے ہیں رہے وہ مسلمان جو حیا کا پردہ اٹھا دیتے ہیں جن کی ایذاء رسانی اور فتنہ پردازی آشکار ہوتی ہے اور علی الاعلان گناہ معصیت کا ارتکاب کرنے میں کوئی شرم اور جھجک محسوس نہیں کرتے ان کا معاملہ جداگانہ ہے کہ نہ صرف ان کو ان گناہ و عیوب پر ٹوکنا واجب، اور ان کو ارتکاب معصیت سے منع کرنا اور تنبیہ کرنا لازم ہے بلکہ اگر وہ روکنے اور تنبیہ کرنے کے باوجود اپنی برائیوں اور گناہ و ایذا رسانی سے باز نہ آئیں تو ان کے بارے میں حاکم کے یہاں اطلاع دینی چاہیے تاکہ وہ ان کو ایذاء رسانی اور فتنہ پردازی سے باز رکھے اسی طرح روایات حدیث اور مورخین پر جرح ونقد، ارباب حکومت اور گواہوں کی تحقیق اور اہل ظلم کے حالات کا اظہار بھی نہ صرف جائز بلکہ واجب لازم ہے کیوں کہ ان صورتوں میں دین و علم کی نگہبانی اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت مقصود ہوتی ہے اس لیے مذکورہ بالا لوگوں کے حالات و عیوب کو بیان کرنا اس اظہار عیب میں داخل نہیں ہے جس کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

کسی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ہر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا دینی بھائی ہے لہذا مسلمان ، مسلمان پر ظلم نہ کرے اس کی مدد و اعانت کو ترک نہ کرے اور اس کو ذلیل و حقیر نہ سمجھے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف تین دفعہ اشارہ فرما کر کہا کہ پرہیزگاری اس جگہ ہے نیز فرمایا کہ مسلمان کے لیے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرے یعنی کسی مسلمان بھائی کو ذلیل و حقیر کرنا بجائے خود اتنی بڑی برائی ہے کہ وہ کوئی گناہ نہ بھی کرے تو اسی کی ایک برائی کی وجہ سے مستوجب مواخذہ ہو گا۔ (اور یاد رکھو کہ) مسلمان پر مسلمان کی ساری چیزیں حرام ہیں جیسے اس کا خون، اس کا مال، اور اس کی عزت و آبرو۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

اس کو ذلیل حقیر نہ سمجھے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کے عیب کو اچھال کر اور اس کی برائیوں کو لوگوں کے سامنے بیان کر کے ان کو رسوا اور بدنام نہ کرے اس کے ساتھ بدزبانی اور سخت کلامی نہ کرے اور کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی غریب و محتاج ہی کیوں نہ ہو کتنا ہی ضعیف و ناتواں اور کتنا ہی نامراد و خستہ حال ہو اس کا مذاق نہ اڑائے کیونکہ کسی کو کیا معلوم کہ جو مسلمان ظاہر طور پر نہایت خستہ حال ہے اور محتاج ہے وہ اللہ کے نزدیک اس کا مقام کیا ہے اور انجام و مال کے اعتبار سے وہ کس درجہ کا ہے اس حقیقت کو کسی صورت میں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو بھی شخص لاالہ الااللہ پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کے رسول کا امتی ہے وہ عزت والا ہے اور قابل تکریم ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا  آیت (وللہ العزۃ ولرسولہ).........الخ۔ لہذا کسی مومن کی عزت ایمانی کو کسی حال میں مجروح نہ کرنا چاہیے اور خصوصاً مومن جن کے چہرے مہرے علم دین کی علامت اور عبادت خداوندی کا نور جھلکتا ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بطریق اولیٰ ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے اکثر لوگ اور خصوصاً دنیا دار جو نفس کی ظلمت و غفلت میں مبتلا ہوتے ہیں عام طور پر فقراء و مساکین اور غریب و بے کس مسلمانوں کے وبال میں گرفتار رہتے ہیں کیونکہ وہ ان کو ذلیل و کمتر سمجھتے ہیں اور ان بے چاروں کے ساتھ انتہائی ترشی اور حقارت کا معاملہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر مومن کو ذلیل و حقیر کرنے کا عذاب اپنے سر لیتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ ان لوگوں کو دنیا میں بھی عزت و اقبال مندی سے نوازتا ہے اور آخرت میں بھی نجات عطا کرے گا جو اس کے غریب و مسکین اور ضعیف و بے کس بندوں کے ساتھ محبت و احترام کا برتاؤ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے مسکین و غرباء کی محبت حاصل ہونے کی دعا مانگا کرتے تھے نیز آپ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ فقراء مسکین کی ہم نشینی اختیار فرمائیں جیسا کہ سورہ کہف میں مذکور ہے۔

 پرہیزگاری اس جگہ ہے  کا مطلب یہ ہے کہ متقی یعنی وہ شخص جو شرک اور گناہوں سے اجتناب و پرہیز کرتا ہے اس کو کسی بھی صورت میں حقیر و کم تر نہیں سمجھنا چاہیے یا یہ مراد ہے کہ تقویٰ کا مصدور مخزن اصل میں سینہ یعنی دل ہے اور وہ ایک ایسی صفت ہے جو باطن کی ہدایت اور نورانیت سے پیدا ہوتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ ان الفاظ کا مقصد ماقبل جملہ کی تاکید و تقویب ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ جو چیز کسی انسان کو معزز و مکرم بناتی ہے وہ تقویٰ ہے اور جب تقویٰ کا تعلق باطن سے ہے اور اس کی جگہ دل ہے جو ایک پوشیدہ چیز ہے کہ جس کو انسان ظاہری طور پر نہیں دیکھ سکتا تو پھر کسی مسلمان کو کیونکہ حقیر و ذلیل کہا جا سکتا ہے درآنحالیکہ اس کی حقیقت معلوم نہیں ہے کہ ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ تقویٰ کی جگہ دل کو قرار دے کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ جس کے دل میں تقویٰ ہو وہ کسی مسلمان کو حقیر و ذلیل نہ کرے کیونکہ کوئی بھی متقی کسی مسلمان کو ذلیل کرنے والا نہیں ہو سکتا یہ مراد اگرچہ بعض علماء نے لکھی ہے لیکن پہلے معنی زیادہ صحیح اور زیادہ موزون ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ایسا کوئی کام نہ کرے اور نہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالے جس سے کسی مسلمان بھائی کی خون ریزی ہو یا اس کا مال تلف و ضائع ہو اور یا اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچے۔ یہ حدیث اپنے الفاظ کے اختصار لیکن مفہوم و معنی کی وسعت کے اعتبار سے جوامع الکلم میں سے ہے اللہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خصوصی عطیہ ہے۔

جنتی اور دوزخی لوگوں کی قسمیں

اور حضرت عیاض ابن حمار کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جنتی لوگوں کی تین قسمیں ہیں (یعنی جو اہل ایمان اس لائق ہیں کہ سابقین اور مقربین کے ساتھ جنت میں داخل ہوں وہ تین طرح کے ہیں) ایک تو وہ حاکم جو عدل و انصاف کرتا ہو اور لوگوں کے ساتھ احسان کرنے والا ہو اور جس کو نیکیوں اور بھلائیوں کی توفیق دی گئی ہو دوسرے وہ شخص (جو چھوٹوں اور بڑوں پر) مہربان ہو اور قرابت داروں اور مسلمانون کے لیے رقیق القلب ہو یعنی نرم دل ہو۔ اور تیسرے وہ شخص جو غیر حلال چیزوں سے بچنے والا پرہیز کرنے والا اور اہل و عیال کے بارے میں خدا پر توکل کرنے والا ہو یعنی اہل و عیال کی محبت اور ان کے رزق کا خوف اس کو خدا پر توکل کرنے سے باز نہ رکھتا ہو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے اور حرام و نا جائز مال حاصل کرنے پر مجبور نہ کرتا ہو اور نہ وہ اپنے ان اہل و عیال کی وجہ سے علم و عمل میں مشغول ہونے غافل رہتا ہو۔ اور دوزخی لوگوں کی پانچ قسمیں ہیں۔ یعنی جو لوگ اپنے افعال بد کے وبال میں پڑ کر مستوجب عذاب ہوتے ہیں وہ پانچ طرح کے ہیں گویا یہاں ان افعال بد اور بری خصلتوں کی برائی بیان کرنا اور ان کی سختی و شدت کو ظاہر کرنا مقصود ہے جو دوزخ کے عذاب کا باعث ہیں جیسا کہ پہلے ان چیزوں کی تعریف و مدح کی گئی جو جنت میں لے جانے والی ہیں۔ ایک تو کمزور عقل والا کہ اس کی عقل کی کمزوری اس کو ناشائستہ امور سے باز نہ رکھے۔ (یعنی وہ شخص اپنی عقل پر نفسانی خواہشات اور خود غرضی کے جذبات کے غالب آ جانے کی وجہ سے ثبات و استقامت ترک کر دیتا ہے اور گناہوں اور بری باتوں سے باز رہنے پر قادر نہیں رہتا ٰ) وہ لوگ کہ جو تمہارے تابع اور تمہارے خادم ہیں ان کونہ بیوی کی خواہش ہوتی ہے اور نہ مال کی پرواہ (یعنی وہ لوگ جو تمہارے مال داروں اور مقتدروں کے آگے پیچھے نظر آتے ہیں ان کی خدمت و اطاعت میں دم بھرتے ہیں ان کے مد نظر نہ تو کسی کی بھلائی دوستی ہوتی ہے اور نہ ان کو واقعتاً خدمت و اطاعت سے کوئی غرض ہوتی ہے بلکہ وہ تو محض اپنی نفسانی خواہشات اور خود غرضی کے تابع ہوتے ہیں ان کا اصل مقصد اچھے اچھے کھانوں سے اپنا پیٹ بھرنا ہے اور اچھے درجہ کے لباس اور دوسری چیزیں حاصل کرنا ہوتا ہے نہ تو انہیں بیوی کی پرواہ ہوتی ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنی جنسی خواہش جائز طور پر پوری کر سکیں اور نہ انہیں اس مال و زر کی طلب ہوتی ہے جو حلال ذرائع جائز وسائل اور محنت و مشقت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ بدکاریوں حرام خوریوں اور اجنبی عورتوں اور حرام و مشتبہ اسباب میں مگن اور خوش رہتے ہیں اور یہ چیز بھی انسانی عقل کی کم زوری ہے اور ضمیر کی مردنی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حلال و پاک چیزوں سے اعراض کرنا اور حرام و مشتبہ چیزوں کو مطلب و مقصد قرار دینا نہ تو عقل کا تقاضا ہو سکتا ہے اور نہ ضمیر کے مطابق) دوسرے وہ شخص جو خائن و بد دیانت ہو کہ اس کی طمع کسی پوشیدہ چیز کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تاکہ وہ اس میں بد نیتی کر سکے خواہ وہ کتنی ہی کیوں نہ چھوٹی ہو اور کم تر ہو (یعنی اس کی طمع و حرض اس کو کسی حال میں چین سے نہیں بیٹھنے نہیں دیتی یہاں تک کہ وہ چھپی ہوئی چیزوں کو بھی تلاش وجستجو میں لگا رہتا ہے اور جب وہ چیزیں اس کے ہاتھ لگ جاتی ہیں تو ان میں بھی بد نیتی کرتا ہے اور خواہ وہ چیزیں کتنی ہی بے وقعت اور کمتر ہی کیوں نہ ہوں، نیز بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ خفا چوںکہ ظہور کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے لایخفی لہ طمع کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خائن کہ وہ اس چیز میں بھی خیانت کرتا ہے جو اس کے سامنے نہیں ہوتی، اور نہ وہ اس قابل ہوتی ہے کہ وہ اس کی طمع و حرص کر سکے) اور تیسرے وہ شخص جو صبح و شام تمہیں تمہارے اہل عیال میں دھوکہ دینے کے چکر میں رہتا ہے (یعنی جس شخص کو تم اپنے گھر والوں کی حفاظت اور اپنے مال و اسباب کی نگرانی سپرد کرتے ہو یا جو شخص از خود تمہارے ساتھ لگا رہتا ہے اور اپنی عفت پاک دامنی کو تم پر ظاہر کر کے یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ تمہارے گھر بار اور اہل خانہ کی حفاظت و نگرانی میں مصروف ہے لیکن حقیقت میں وہ ہر لمحہ تمہارے اہل خانہ اور تمہارے مال اسباب پر بری نظر رکھتا ہے (نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بخیل اور جھوٹے اور بد خلق فحش گو کا ذکر کیا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 رجل رحیم رقیق القلب میں رحیم سے مراد صفت فعلیہ اور رقیق سے مراد صفت قلبیہ ہے صفت فعلیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ صفت اپنا خارجی وجود بھی رکھے اور دوسروں پر اس کے اثرات ظاہر ہوں جبکہ صفت قلبیہ کا تعلق محض اس صفت کے باطنی وجود سے ہوتا ہے کہ خواہ وہ علمی اور خارجی طور پر اس کا اظہار ہو یا نہ ہو۔

لفظ بخل اور کذب مصدر قائم مقام فاعل ہیں۔ وذکر البخل والکذب.....الخ۔ کے ذریعہ راوی نے یہ بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دوزخیوں کی جو قسمیں بیان کی ہیں ان میں بخیل اور کاذب کا بھی ذکر فرمایا اور پوری عبارت کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ نے دوزخیوں کی مذکورہ قسمیں بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ دوزخیوں کی اور قسمیں بخیل و کاذب ہیں رہی یہ بات کہ راوی نے ذکر البخیل و الکاذب کہنے کے بجائے ذکر البخل والکذب کیوں کہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا تھا وہ بعینہ الفاظ میں راوی کو یاد نہیں رہا تھا البتہ صحیح طور پر یہ یاد تھا کہ آپ نے باقی دو قسموں کے سلسلے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے ان میں بخل کذب کا ذکر ضرور تھا خواہ آپ نے والبخیل والکاذب ہی کے الفاظ فرمائے ہوں یا کچھ اور الفاظ فرمائے ہوں اکثر روایتوں میں البخل اور الکذب کے درمیان واؤ کے بجائے او ہے یعنی البخل او الکذب اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس موقع پر راوی کو شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو البخل کا لفظ ارشاد فرمایا تھا یا الکذب کا یعنی راوی گویا یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ آپ نے دوزخیوں کی تین قسمیں بیان کرنے کے بعد چوتھی قسم کے طور پر یا تو بخیل کو بیان کیا تھا کہ یا کاذب کو اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ یہاں حرف او ہے اور جو راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے اور جن روایتوں میں واؤ ہے ان میں بھی واؤ حرف او کے معنی میں ہے لفظ والشنظیر کو بھی مرفوع قرار دینا زیادہ صحیح ہو گا اور اس کا عطف رجل پر کیا جاتا ہے جب کہ بعض حضرات نے اس کو منصوب قرار دیا ہے۔

اپنے مسلمان بھائی کے لیے اسی چیز کو اچھا سمجھو جس کو اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم ہے اس خدا کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کا ایمان اس وقت کامل نہیں سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ اپنے بھائی مسلمان کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جس کو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔

 چیز سے مراد دنیا و آخرت کی بھلائی ہے چنانچہ ایک روایت میں من الخیر کا لفظ صریح طور پر منقول ہے رہی یہ بات کہ دنیا و آخرت کی بھلائی کا تعلق کن چیزوں سے ہے تو آخرت کی بھلائی یہ ہے کہ نیک اعمال اور اچھے احوال کی سعادت نصیب ہو، خاتمہ بخیر ہو قبر کی سختیوں قیامت کے دن کی باز پرسی اور دوزخ کے عذاب سے نجات حاصل ہو اپنے اعمال صالحہ کے سبب سے اللہ تعالی کے فضل سے جنت میں اعلیٰ درجات میں اور خدا اور خدا کے رسول کی خوشنودی حاصل ہو اسی طرح دنیا کی بھلائی یہ ہے کہ عزت و آبرو اور نیک نامی و خوش حالی کی زندگی نصیب ہو اور مال دولت اور اسباب و راحت حاصل ہو اچھے احوال و کردار کے حامل اہل خانہ اور صالح و فرمانبردار اولاد کی نعمت ملے اور یہ سب چیزیں آخرت کا وسیلہ بنیں جو مسلمان دنیا و آخرت کی ان نعمتوں اور بھلائیوں کو اپنے لیے چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ انہیں دنیاوی و اخروی نعمتوں اور بھلائیوں کو سارے مسلمانوں کے لیے چاہے کیونکہ یہی کمال ایمان بھی ہے اور دینی اخوت کا تقاضا بھی۔

اگر یہ کہا جائے کہ جو مسلمان محض شیطان کے فریب، نفسانی حرص اور و فساد و باطن کی وجہ سے اپنے لیے دنیا کے مال و زر اور دنیا کی جاہ کے طلب گار و خواہش مند ہوتے ہیں اور اس مال و جاہ کا نتیجہ گناہ و معصیت فتنہ و فساد،ظلم و جور اور آخرت کے وبال و عذاب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا تو وہ اس مال و جاہ کی خواہش کسی دوسرے کے لیے کیسے کر سکتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ جو مال و زر جو جاہ و حشمت دین کے نقصان اور آخرت کے عذاب کا باعث ہو تو اس کو خیر و بھلائی کے زمرہ میں شمار ہی نہیں کیا جا سکتا، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے مال و زر اور جاہ و حشمت کو نہ تو اپنے لیے پسند کرے اور نہ کسی دوسرے مسلمان کے لیے تاہم اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ مال و دولت اور جاہ حشمت بجائے خود برائی نہیں ہیں اور نہ یہ ہر حالت میں برائی تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کے تعلق سے برائی یا بھلائی کا دار و مدار خود انسان کے ذہن و مزاج اور اس کی طبعی خاصیت پر ہوتا ہے ایک شخص ایسا ہوتا ہے کہ وہ محض مال و دولت اور جاہ حشمت کی وجہ سے نیکی بھلائی کے بڑے سے بڑے درجہ پرپ ہنچ جاتا ہے اور جاہ حشمت کا حصول ثواب آخرت اور قرب مولی کا سبب بنتا ہے جیسے مال و زر کے ذریعہ حج کرنا اور فقراء مساکین کی خبرگیری کرنا اور جاہ و حشمت کے ذریعہ عدل و انصاف قائم کرنا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پوری طرح کرنا اس کے برخلاف اگر وہی جاہ حشمت دوسرے شخص کے لیے دینی فائدے کے بجائے نقصان کا موجب بنتی ہے جیسے اس مال جاہ کے ذریعہ فسق و فجور کا ارتکاب فتنہ و فساد اور ظلم و جور کی گرم بازاری تو اول الذکر شخص کا اس مال و جاہ کو اپنے لیے پسند کرنا اور دوسرے شخص کے لیے پسند نہ کرنا درست ہو گا کیونکہ اس مال و جاہ کو اس کے حق میں خیر نہیں کہا جائے گا۔

ہمسایہ کو تکلیف نہ پہنچاؤ

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم ہے خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے قسم ہے اس خدا کی اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے جب آپ نے بار بار یہ الفاظ فرمائے اور اس شخص کی وضاحت نہیں کی تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ شخص کون ہے جس کا ایمان کامل نہیں ہے اور جس کے بارے میں آپ کا یہ ارشاد ہے؟حضور نے فرمایا وہ شخص جس کے پروسی اس کی برائیوں اور اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہوں۔ (بخاری و مسلم)

 

 

 اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص نجات یافتہ اور سابقین کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کے پڑوسی اس کی برائیوں اور شر سے محفوظ نہ ہوں۔ مسلم

ہمسایہ سے اچھا سلوک اختیار کرنے کی اہمیت

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حضرت جبرائیل ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ کے حق کا لحاظ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ حضرت جبرائیل حکم الہی کے مطابق بذریعہ وحی عنقریب ہی پڑوسیوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیں گے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے ہمسایہ کے حقوق یعنی پڑوسیوں کے ساتھ احسان و نیک سلوک کرنے اس کے دکھ درد کو بانٹنے اور اس کو کسی قسم کی تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے چنانچہ حضرت جبرائیل اس سلسلے میں اللہ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جس تواتر اور پابندی کے ساتھ حکم دیتے تھے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خیال قائم کیا کہ حضرت جبرائیل شاید کسی قریبی وقت میں یہ وحی لے کر نازل ہوں کہ پڑوسی آپس میں ایک دوسرے کے وارث قرار دیے جاتے ہیں۔

تیسرے شخص کی موجودگی میں دو شخص آپس میں سرگوشی نہ کریں

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اگر تم تین آدمی یکجا ہو تو دو آدمی اس طرح سر گوشی نہ کریں کہ تیسرا شخص نہ سن سکے یہاں تک کہ وہ بہت سے آدمیوں میں مل جائیں اور یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ ان دونوں کا یہ فعل اس تیسرے آدمی کو رنجیدہ کرے گا یعنی وجب وہ اپنے سامنے ان لوگوں کو سر گوشی کرتے دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ یہ دونوں شاید میری برائی کر رہے ہیں یا میرے خلاف کوئی مشورہ کر رہے ہیں۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر تین آدمی ایک ساتھ مثلاً کہیں بیٹھے ہوئے ہیں تو ان میں سے کسی بھی دو آدمیوں کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ آپس میں اس طرح سر گوشی اور کانا پھوسی کریں کہ ان میں تیسرا آدمی ان کی بات سننے نہ پائے ہاں اگر کسی جگہ چار آدمی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہوں اور ان میں سے دو آدمی آپس میں سر گوشی کرنے لگیں تو ان دونوں کی سر گوشی پر مذکورہ ممانعت کا اطلاق نہیں ہو گا۔۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ تیسرے آدمی کی موجودگی میں دو آدمیوں کے آپس میں سر گوشی کرنے یا اسی طرح چوتھے آدمی کی موجودگی میں تین آدمیوں کے آپس میں سر گوشی کرنے کی مذکورہ ممانعت نہی تحریمی کے طور پر ہے، لہذا دو آدمی ہوں یا تین چار ہوں یا پورا مجمع ہو ان کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ ایک آدمی کو چھوڑ کر باقی سب آپس میں سر گوشی کریں ہاں اگر اس ایک آدمی سے پوچھنے کے بعد اور اس کی اجازت کی صورت میں سر گوشی کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت امام مالک شوافع اور جمہور علماء کا یہی مسلک ہے اور اس حکم کا تعلق ہر موقع پر اور ہر زمانہ سے ہے خواہ سفر ہو یا حضر ہو۔

خیرخواہی کی اہمیت و فضیلت

اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا دین نصیحت ہے (یعنی نصیحت اور خیر خواہی اعمال دین میں سے افضل ترین عمل ہے یا نصیحت اور خیر خواہی دین کا ایک مہتم بالشان نصب العین ہے) حضور نے یہ بات تین بار فرمائی ہم نے یعنی صحابہ نے پوچھا کہ یہ نصیحت اور خیر خواہی کسی کے حق میں کرنی چاہیے؟حضور نے فرمایا کہ خدا کے لیے، خدا کی کتاب کے لیے، مسلم)انوں کے اماموں یعنی اسلامی حکومت کے سربراہوں اور علماء کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔ مسلم۔

 

تشریح

 

خدا کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات و صفات پر ایمان لائے اس کی واحدانیت و حاکمیت کا اعتقاد رکھے اس کی صفات و کارسازی میں کسی غیر کو شریک کرنے سے اجتناب کرے اس کی عبادت اخلاص نیت کے ساتھ کرے اور اس کے اوامر و نواہی کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اس کی نعمتوں کا اقرار و اعتراف کرے اور اس کا شکر ادا کرے اور اس کے نیک بندوں سے محبت کرے اور بدکار سرکش بندوں سے نفرت کرے۔خدا کی کتاب کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس میں جو کچھ لکھا ہے اس پر ہر حالت میں عمل کرے تجوید و ترتیل اور غور و فکر کے ساتھ اس کی تلاوت کرے اور اس کی تعظیم و احترام میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔خدا کے رسول کے حق میں خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو سچے دل سے تصدیق کر لے کہ وہ رسول اللہ اور اس کے پیغمبر ہیں ان کی نبوت پر ایمان لائے وہ اللہ کی طرف سے جو پیغام پہنچائیں اور جو احکام دین ان کو قبول کرے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ان کو اپنی جان اپنی اولاد اپنے ماں باپ اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز رکھے ان کے اہل بیت اور ان کے صحابہ سے محبت رکھے اور ان کی سنت پر عمل کرے۔

 مسلمانوں کے اماموں کے حق میں خیر خواہی یہ ہے کہ جو شخص اسلامی حکومت کی سربراہی کر رہا ہو اس کے ساتھ وفاداری کو قائم رکھے، احکام و قوانین کی بیجا طور پر خلاف ورزی کر کے ان کے نظم حکومت میں خلل و ابتری پیدا نہ کرے اچھی باتوں میں ان کی پیروی کرے اور بری باتوں میں ان کی اطاعت سے اجتناب کرے اگر وہ اسلام اور اپنے عوام کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں تو ان کو مناسب اور جائز طریقوں سے متنبہ کرے اور ان کی خلاف بغاوت کا علم بلند نہ کرے اگرچہ وہ کوئی ظلم ہی کیوں نہ کریں،علماء کو جو مسلمانوں کے علمی و دینی رہنما ہوتے ہیں ان کی عزت و احترام کرے، شرعی احکام اور دینی مسائل میں وہ قرآن و سنت کے مطابق جو کچھ کہیں اس کو قبول کرے اور اس پر عمل کرے ان کی اچھی باتوں اور ان کے نیک اعمال کی پیروی کرے۔ اور تمام مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی کا مطلب ان کی دینی دنیاوی خیر و بھلائی کا طالب رہے ان کو دین کی تبلیغ کرے ان کو دنیا کے اس راستہ پر چلانے کی کوشش کرے اور ان کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے کی بجائے نفع پہنچانے کی سعی کرے۔ واضح رہے کہ یہ حدیث بھی جوامع الکلم میں سے ہے اس کے مختصر الفاظ حقیقت میں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں اور سعادتوں پر حاوی ہیں اور تمام علوم اولین و آخرین اس چھوٹی سی حدیث میں مندرج ہیں۔

 

 

 اور حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا زکوٰۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اللہ تعالی کی تمام تر عبادت و طاعت کا تعلق دو ہی چیزوں سے ہے ایک تو حقوق اللہ،دوسرے حقوق العباد، لہذا حضرت جریر نے حقوق اللہ میں خاص طور پر ان عبادات کا ذکر کیا جو تمام بدنی اور مالی عبادتوں میں شہادت کے بعد سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور ارکان اسلام میں سے اہم ترین رکن ہیں یعنی نماز اور زکوٰۃ جہاں تک روزہ اور حج کا تعلق ہے تو ہو سکتا ہے کہ جس وقت حضرت جریر نے بیعت کی ہو اس وقت تک یہ دونوں روزہ اور حج مسلمانوں پر فرض نہ قرار دیئے گئے ہوں اسی طرح حقوق العباد سے متعلق اس چیز کو ذکر کیا جس کے دائرے میں بندوں کے تمام حقوق آ جاتے ہیں یعنی خیر خواہی۔

انہی حضرت جریر کا ایک واقعہ اس موقع پر نہایت مطابق ہے اور جس سے ان کی مذکورہ بالا بیعت کا عملی نمونہ سامنے آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جریر نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید لیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا کہ تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت ہے تم اس کی قیمت چار سو درہم لو گے؟اس نے کہا ابن عبداللہ تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو گھوڑا چار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کیے جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کر رہا جو حقیقت میں ہونی چاہیے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی۔

بدبخت کا دل رحم و شفقت کے جذبہ سے خالی ہوتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوالقاسم کو جو صادق و مصدوق ہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رحمت یعنی مخلوق خدا پر رحم و شفقت کرنے کے جذبہ کو کسی دل سے نہیں نکالا جاتا مگر بدبخت کے دل کو اس جذبہ سے خالی کر دیا جاتا ہے۔ (احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

صادق کے معنی ہیں وہ شخص اپنی باتوں میں سچا ہے اور مصدوق کے معنی ہیں وہ شخص جس کو لوگوں نے سچا تسلیم کر لیا ہے یا جس کے سچا ہونے کی خبر خود اللہ نے دی ہے یہ دونوں لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت ہیں چنانچہ آپ نہ صرف یہ کہ سچے تھے اور دنیا نے آپ کو سچا تسلیم کیا بلکہ خود اللہ نے آپ کے سچا ہونے کی خبر دی کہ فرمایا آیت (وماینطق عن الھوی)۔ بدبخت سے مراد کافر ہے یا فاجر اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ کافر اپنے یا فاسق اپنے فسق و فجور کی وجہ سے اپنے دل کو اتنا سخت بنا لیتا ہے کہ اس کے اندر سے وہ انسانی جذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان پر رحم و شفقت کرنے پر مائل کرتا ہے۔

تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا مخلوق خدا پر رحم و شفقت کرنے والوں پر رحمن کی رحمت نازل ہوتی ہے لہذا تم زمین والوں پر رحم و شفقت کرو تاکہ تم پر وہ رحم کرے جو آسمان میں ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

زمین والوں میں سارے جاندار داخل ہیں خواہ وہ حیوان ہوں یا انسان اور انسان بھی خواہ نیک ہوں یا بد البتہ بد لوگوں پر رحم و شفقت کرنے کی صورت یہ ہے کہ ان کی بدی اور برائی سے روکا جائے جیسا کہ اس حدیث کے اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم کی تشریح میں بتایا گیا ہے تھا کہ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے باز رکھا جائے یا یہ کہ زمین والوں پر رحم و شفقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں پر رحم و شفقت کرو جو اس کے مستحق ہیں۔ جو آسمان میں ہے اس سے مراد اللہ کی ذات ہے جس کا کمال قدرت اور جس کی سلطنت آسمان میں ہے یا اس سے مراد ملائکہ ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ تم زمین پر رہنے والوں پر رحم و شفقت کرو تاکہ آسمانوں میں رہنے والے یعنی ملائکہ کا رحم تم پر اور تمہارے حق میں ان کا رحم یہ ہے کہ وہ تمہارے دشمنوں اور ایذاء پہنچانے والی مخلوق جیسے جنات و شیاطین اور شریر انسانوں سے تمہاری حفاظت کریں اور بارگاہ کبریائی میں تمہارے لیے دعا و استغفار کریں اور طلب رحمت کریں۔

جو شخص اپنے چھوٹوں پر شفقت اور اپنے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ متبعین رسول میں نہیں ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ شخص ہماری اتباع کرنے والوں میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم و شفقت نہ کرے ہمارے بڑوں کا جو خواہ جوان ہوں یا بوڑھے احترام ملحوظ نہ رکھے نیکی و بھلائی کا حکم نہ دے اور بدی برائی سے منع نہ کرے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

اپنی تعظیم کرنا چاہتے ہو تو اپنے بڑوں کی تعظیم کرو

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو بھی جوان کسی بوڑھے شخص کی اس کے بڑھاپے کے سبب تعظیم و تکریم کرتا ہے تو اللہ اس کے بڑھاپے کے وقت کسی ایسے شخص کو متعین کر دیتا ہے جو اس کی تعظیم و خدمت کرتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعہ گویا اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص دوسروں کی تعظیم و خدمت کرتا ہے تو اس کی بھی تعظیم و خدمت کی جاتی ہے اور جو لوگ اپنے بزرگوں کی تعظیم و خدمت نہیں کرتے اور اپنے بڑے بوڑھوں کی تحقیر کرتے ہیں وہ اپنے بڑھاپے میں اپنے چھوٹوں کی طرف سے اسی تحقیر و تذلیل اور بے وقعتی سے دو چار ہوتے ہیں۔ اس ارشاد گرامی میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس جوان کی عمر دراز ہوتی ہے جو اپنے بڑے بوڑھوں کی تعظیم و خدمت کرتا ہے منقول ہے کہ ایک بزرگ تھے جو مصر میں سکونت پذیر تھے اور ان کا ایک مرید تھا جو خراسان میں رہتا تھا ایک مرتبہ وہ مرید اپنے شیخ کے پاس کچھ دن رہنے کے لیے خراسان سے چل کر مصر پہنچا اور وہاں ایک طویل مدت تک شیخ کی خدمت میں راہا انہی دنوں کچھ دوسرے بزرگوں کی جماعت اس کے شیخ کی زیارت کے لیے آئی تو شیخ نے اس مرید سے اشارہ کیا کہ ان بزرگوں کو سواری کے جانور تھام لو وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور ان جانوروں کی نگرانی کرنے لگا، مگر اس کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ میں جو اتنی دور دراز کا سفر طے کر کے شیخ کی خدمت میں آیا تھا یہ اس کا نتیجہ ہے بہرحال جب وہ بزرگ ان شیخ کے پاس سے چلے گئے اور وہ مرید اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کہا عزیز من اس وقت میں نے تمہیں ان بزرگوں کی سواری کے جانوروں کی دیکھ بھال پر جو متعین کیا تھا تو اس کی وجہ سے نہ معلوم تمہارے دل میں کیا وسوسہ پیدا ہوا ہو گا لیکن اتنی بات یاد رکھو کہ تمہیں اس خدمت کا بہت بڑا اجر ملے گا اور عنقریب اللہ تمہیں اس درجہ پر پہنچائے گا کہ تمہاری خدمت میں بڑے بڑے بزرگ اور اکابر آئیں گے اور پھر خدا کی طرف سے تمہارے پاس ایسے لوگ مقرر کیے جائیں گے کہ جو ان آنے والوں کی خدمت کریں گے چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ ان شیخ نے جو کہا تھا وہ صحیح ثابت ہوا اور اس شخص کی ملاقات کے لیے آنے والے بڑے بڑے بزرگوں کی کثرت کی وجہ سے ہمیشہ اس کے دروازے پر خچر اور گھوڑوں کا ایک ہجوم رہتا تھا۔

خود اس حدیث کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول خدا کی خدمت کے سلسلے میں دین و دنیا کے بڑے بڑے اجر و انعام سے نوازے گئے چنانچہ جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے تو اس وقت ان کی عمر صرف دس سال تھی اور جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا میں تشریف فرما رہے ان کی زندگی کا سارا وقت حضور کی خدمت ہی میں صرف ہوتا رہا اللہ نے ان کو ایک بڑی نعمت تو یہ عطا کی کہ ان کی حیات بہت طویل ہوئی اور وہ تقریباً ایک سو تین سال تک نہایت پاکیزہ اور اچھے احوال اور اطمینان و سکون کے ساتھ اس دنیا میں رہے اللہ نے ان کو مال و دولت کی فراوانی سے بھی نوازا اور کثیر اولاد کی نعمت سے بھی سرفراز کیا کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک سو لڑکے تھے۔

عالم حافظ اور عادل بادشاہ کی تعظیم ہے

اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بوڑھے مسلمان کی عزت و توقیر کرنا، حامل قرآن یعنی حافظ و مفسر اور قرآن خوان کا احترام کرنا جبکہ وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہو اور اس سے ہٹ جانے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی تعظیم کرنی منجملہ خداوندی کی تعظیم کرنا ہے۔ (ابوداؤد، و بیہقی)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعہ مذکورہ بالا لوگوں کی تعظیم و توقیر کی اہمیت کو ظاہر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی شان میں بے ادبی گستاخی کرنا اور خدا کی تعظیم کے منافی عمل کرنا ہے۔

حامل قرآن، یعنی حافظ، مفسر اور قرآن خواں، کی تعظیم کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ نہ تو غلو کرنے والا ہو اور نہ قرآن پڑھنے پڑھانے کو ترک کرنے والا ہو بلکہ اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرنے والا جیسا کہ تمام عبادات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ تھی چنانچہ غول نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ریا کاروں کی طرح الفاظ کی تجوید اور حسن قرات و صورت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے تلاوت اس قدر تیز نہ کی جائے کہ نہ تو الفاظ صحیح طور پر ادا ہوں اور نہ معنی سمجھ میں آئیں قرآن کے الفاظ و حروف میں تحریف کے ذریعہ خیانت کا ارتکاب نہ کیا جائے اور نہ غلط سلط تاویلات اور فاسد عقائد و نظریات کے ذریعہ اس کے مفہوم میں حذف و اضافہ اور ترمیم و تبدیلی کی جائے جیسا کہ اکثر اور فاسد ذہن و فکر کے حامل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ قرآن کے احکام و ہدایات کے بارے میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کیے جائیں اسی طرح قرآن سے نہ ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کو ترک نہ کیا جائے تجوید و قرآن کے آداب و قواعد سے اعراض نہ کیا جائے اور قرآن نے جو احکام و ہدایات اور مسائل بیان کیے ہیں ان پر عمل کرنے سے گریز نہ کرے۔ بعض حضرات نے غالی اس شخص کو قرار دیا ہے جو تعلیم و تدریس، تبلیغ و اصلاح،ذکر و فکر اور عبادات سے بالکل بے پرواہ ہو کر صرف تلاوت قرآن میں مشغول و مصروف رہے اسی طرح جافی اس شخص کو قرار دیا ہے جو تلاوت قرآن سے بالکل بے پرواہ اور دوسروں چیزوں میں مشغول رہے۔

 عادل بادشاہ سے مراد وہ حاکم و سربراہ ہے جو حقیقی معنوں میں عدل کا پیکر ہو اور اپنے عوام پر ظلم و جور کو گوارا نہ کرتا ہو اور اس کا کوئی فیصلہ اور کوئی عمل عدل کے خلاف نہ ہو اور یہ اعلیٰ درجہ ہے اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اس کا عدل اس کے ظلم پر غالب ہو اس کے ظلم پر غالب ہو اس کے برخلاف اگر اس کا ظلم اس کے عدل پر غالب ہو تو اس کو عادل نہیں کہیں گے اور ایسے بادشاہ حاکم سے دور رہنا ہی افضل ہو گا واضح رہے کہ اس دور کے اکثر حاکموں اور سربراہوں کے احوال ان کی حکومتی کاروائیاں اور ان کے نظم حکومت کے دیکھتے ہوئے ان کو ادنی درجہ کا عادل کہنا بھی بڑا مشکل ہے ان کی طرف سے اپنے عوام پر جو قوانین نافذ کیے جاتے ہیں اور جس طور پر ان کے کارندے عوام کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ان کو اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو عدل و انصاف سرنگوں اور ظلم و زیادتی کا غلبہ نظر آئے گا یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو شخص موجودہ زمانہ میں کسی بادشاہ حاکم کو عادل کہے گا وہ کفر کی حد میں داخل ہو جائے گا اگرچہ بادشاہ حاکم کو کسی نہ کسی طرح کے عدل سے بالکل خالی نہیں کہا جا سکتا دراصل اس قول کی بنیاد ایک لطیف نکتہ پر ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کا عدل کرنا اور کسی شخص کا عادل ہونا ان دونوں کے درمیان فرق ہے اگر یہ کہا جائے کہ زید عدل کرتا ہے تو اس کے کہنے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہو گا کہ زید عادل ہے کیونکہ عدل کرنے کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اگرچہ گاہے بگاہے عدل کرتا ہو جب کہ عادل کا اطلاق صرف اس شخص پر ہوتا ہے جو صفت عدل کے ساتھ دوامی طور پر موصوف ہو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اس طرح کہا جائے کہ زید نمازی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زید نماز پابندی کے ساتھ پڑھتا ہے اور کبھی بھی اس کی کوئی نماز ترک یا قضا نہیں ہوئی جب کہ اگر یوں کہا جائے کہ زید نماز پڑھتا ہے تو اس کا مفہوم بالکل دوسرا ہے اور وہ یہ کہ زید بھی نماز پڑھتا ہے اگرچہ پابندی کے ساتھ نہیں بلکہ کبھی کبھی پڑھتا ہے لہذا لفظ عادل اپنے جس وسیع اور اہم مفہوم کو ادا کرتا ہے اس کی بنیاد پر اس لفظ کا اطلاق نہ تو اس دور کے بادشاہ و حاکم پر ہوتا ہے اور نہ اس دور کے کسی بھی بادشاہ و حاکم کو عادل کہنے کی اجازت ہے۔

مذکورہ بالا حدیث میں تین طرح کے لوگوں کی توقیر و  تعظیم کرنے کا حکم ذکر ہے اور شرح السنہ میں حضرت طاؤس سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ مسنون ہے کہ تم چار آدمیوں کی تعظیم و تکریم کرو ایک تو عالم کی دوسرے بوڑھے شخص کی تیسرے سلطان و بادشاہ کی اور چوتھے باپ کی۔ ملا علی قاری نے نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ باپ کے حکم میں ماں بھی داخل ہے اور عالم سے مراد عالم با عمل ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں باپ کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اول تو باپ کا معاملہ بالکل ظاہر ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ باپ کی تعظیم کرنی چاہیے دوسرے یہ کہ مستحق تعظیم قرار دینے کی زیادہ ضرورت انہی لوگوں کے حق میں ہے جو اجنبی ہوں اور جن کا تعلق قرابتی نہ ہو کیوں کہ قرابت کا تعلق بجائے خود ایک انسان کو دوسرے انسان کی تعظیم و توقیر کرنے پر مائل کرتا ہے لہذا اگر شخص کا باپ بوڑھا بھی ہو۔ حامل قرآن یعنی حافظ و عالم باعمل بھی ہو اور سلطان و حاکم بھی ہو اور اس کا سلطان و حاکم ہونا خواہ اپنی ظاہری منصب کے اعتبار سے ہو یا باطنی روحانی طور پر تو اس سورت میں اس شخص کو اپنے باپ کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کرنی چاہیے کیونکہ اس کی ذات میں وہ کئی خصوصیات جمع ہیں جو تعظیم و توقیر کو واجب کرتی ہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ لوگوں کی تعظیم کو منجملہ تعظیم خداوندی قرار دیا گیا ہے جب کہ ایک روایت کے مطابق اس تعظیم و توقیر کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنی تعظیم و توقیر کے مترادف قرار دیا ہے چنانچہ خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا، ان من اجلالی توقیر الشیخ من امتی، یعنی اس بوڑھے شخص کی توقیر و تعظیم کرنا جو میری امت میں سے ہو من جملہ میری توقیر و تعظیم کرنا ہے۔

یتیم کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں بدتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

یتیم کے ساتھ برے سلوک کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر کے افراد اس کی ضروریات زندگی کی کفالت میں غفلت و کوتاہی برتیں اس کے ایسا برتاؤ کریں کہ جس سے اس کو اپنی کم تری و بے چارگی کا احساس ہو اور اس کو ناحق مارا پیٹا جائے اور تکلیف پہنچائی جائے ہاں اس کو تعلیم و تربیت کے طور پر مارنا یا کوئی سزا دینا برے سلوک میں شامل نہیں ہو گا بلکہ اس کو احسان و حسن سلوک ہی میں شمار کیا جائے گا۔

 

 

 اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص کسی اور غرض و جذبہ کے تحت نہیں بلکہ محض خداوند کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کسی یتیم بچے کے سر پر پیار و محبت کے ساتھ ہاتھ پھیرے تو اس کے لیے یتیم کے سر پر اس بال کے عوض کہ جس پر اس کا ہاتھ لگا ہے نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو شخص اس یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی کے ساتھ جو اس کی پرورش و تربیت میں ہو اچھا سلوک کرے تو وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے اور یہ کہہ کر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا یعنی شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملا کر دکھایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں اسی طرح میں اور وہ شخص جنت میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اس روایت کو احمد و ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

لفظ تمر اگر تاء کے زبر اور میم کے پیش کے ساتھ یعنی مونث کا صیغہ ہو تو اس کا ترجمہ وہی ہو گا جو اوپر نقل کیا گیا ہے اور اگر یہ لفظ یاء کے پیش اور میم کے زیر کے ساتھ یعنی یمر بصیغہ مذکر ہو تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ ہر اس بال کے عوض کہ جس پر وہ شخص اپنا ہاتھ پھیرتا ہے مطلب کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے حسنات کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ نیکیاں کمیت و کیفیت کے اعتبار سے مختلف درجہ کی ہوتی ہیں اور یہ فرق اختلاف حسن نیت کے مدار پر مبنی ہوتا ہے۔

 اچھا سلوک کرے  کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کرے اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دے جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کا نکاح کرے اور اگر اس کا مال وغیرہ اپنے پاس رکھا ہوا ہو تو اس کی محافظت کرے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یتیمۃ او یتیم میں حرف او تنویع کے لیے ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حرف او شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی اس موقع پر کسی راوی کو شک واقع ہوا ہے کہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یتیمۃ کا لفظ ارشاد فرمایا تھا یا یتیم کا۔ حدیث میں یتیم کی پرورش و تربیت کرنے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کرنے والے کے بارے میں جن الفاظ کے ذریعہ تحسین فرمائی گئی ہے ان میں اس شخص کے لیے حسن خاتمہ کی بشارت ہے۔

بہن بیٹی کی پرورش کرنے کی فضیلت

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اپنے کھانے پینے میں کسی یتیم کو شریک کرتا ہے تو اللہ تعالی اپنے وعدے کے مطابق اس شخص کو بلا شک و شبہ جنت کا مستحق گردانتا ہے الاّ یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کرے جو بخش جانے کے قابل نہ ہو اور جو شخص تین بیٹیوں یا ان ہی کی طرح تین بہنوں کی پرورش کرے اور پھر ان کی تربیت کرے اور ان کے ساتھ پیارو شفقت کا برتاؤ کرے یہاں تک کہ اللہ ان کو بے پرواہ بنا دے۔ یعنی وہ بڑی ہو جائیں اور بیاہ دی جائیں تو اللہ اس کو جنت کا مستحق گردانتا ہے یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ کیا دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے پر بھی یہ اجر ملتا ہے آپ نے فرمایا ہاں دو پر بھی یہ اجر ملتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں بھی سوال کرتے تو آپ یہی جواب دیتے کہ ہاں ایک پر بھی یہی اجر ملتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ جس شخص کی دو پیاری چیزیں لے لے وہ بھی جنت کا مستحق گردانا جاتا ہے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ دو پیاری چیزوں سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا کہ اس کی دو آنکھیں۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

جو گناہ بخشے جانے کے قابل نہ ہو اس سے مراد شرک اور حقوق العباد ہیں گویا آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جو توبہ و استغفار وغیرہ کے بغیر بخشا نہیں جاتا ہو تو اس کو جنت کا مستحق نہیں گردانا جائے گا، اس میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ وہ تمام گناہ جن کا تعلق اللہ کے حق سے ہے بخش دیئے جائیں گے مگر شرک کے گناہ کو نہیں بخشا جاتا۔

 اگر صحابہ ایک بیٹی یا ایک بہن کے بارے میں سوال کرتے یہ بات اس راجح و مختار مسلک کی روشنی میں تو بالکل واضح ہے کہ جس میں اس امر کو تسلیم کیا گیا ہے کہ احکام شرعیہ کا نفاذ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صوابدید پر ہے کہ آپ جس طرح چاہیں نافذ فرمائیں اور جس کو چاہیں مقید و مستثنیٰ قرار دیں لیکن اس قول کو تسلیم نہیں کرتے وہ مذکورہ عبارت کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ حضور نے صحابہ کے مذکورہ جواب میں جو بات فرمائی وہ وحی الہی کی بنیاد پر تھی کہ سائلین نے اپنے سوال کے ذریعہ گویا اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ جو ثواب تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش و تربیت کرنے پر ملتی ہے کاش وہی ثواب دو بیٹیوں یا دو بہنوں کی پرورش کرنے کی صورت میں بھی ملے، چنانچہ اللہ نے ان کی اس خواہش کے مطابق وحی نازل فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بیان فرمایا جیسا کہ اور بہت سی حدیثوں میں بھی اسی طرح کی صورت حال منقول ہے۔

بچوں کی صحیح تربیت و تادیب کی اہمیت

اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بخدا انسان کا اپنے بیٹے کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے ا ور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے راوی ناصح محدثین کے نزدیک قوی یعنی قابل اعتماد نہیں ہے۔

 

تشریح

 

 ادب  سے شرعی تربیت و تادیب ہے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی بہت زیادہ اہمیت ہے لہذا یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صحیح تعلیم و تربیت سے بہرہ مند فرمائیں اور صحیح تعلیم و تربیت وہی ہے جو دینی تعلیم اسلامی اخلاق اور شرعی آداب و قواعد پر مشتمل ہے۔ترمذی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن واضح رہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے جیسا کہ محدثین کا متفقہ فیصلہ ہے۔

 

 

 اور حضرت ایوب بن موسی اپنے والد حضرت موسی اور وہ ایوب کے دادا حضرت ابن سعید رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کوئی باپ اپنے بیٹے کو نیک ادب اور صحیح تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا۔ ترمذی نے کہا ہے کہ میرے نزدیک یہ حدیث مرسل ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایک باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ قیمتی اور سب سے زیادہ مفید ہو سکتی ہے وہ صحیح تعلیم و تربیت ہے اور نیک تادیب ہے۔

اپنی اولاد کی پرورش میں مشغول رہنے والی بیوہ کی فضیلت

اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا وہ عورت کہ جس کے رخسار اپنی اولاد کی پرورش و دیکھ بھال کی محنت اور مشقت اور ترک زینت و آرائش کی وجہ سے سیاہ پڑ گئے ہیں قیامت کے دن اسی طرح ہوں گے اس حدیث کے راوی یزید بن ذریع نے یہ الفاظ بیان کرنے کے بعد انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں اسی طرح قیامت کے دن آپ اور وہ بیوہ عورت قریب قریب ہوں گے اور سیاہ رخساروں والی عورت کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے شوہر کے مر جانے یا اس کے طلاق دے دینے کی وجہ سے بیوہ ہو گئی ہو اور وہ حسین و جمیل اور صاحب و جاہ عزت ہونے کی باوجود محض اپنے یتیم بچوں کی پرورش اور ان کی بھلائی کی خاطر دوسرا نکاح کرنے سے باز رہے یہاں تک کہ وہ بچے جدا ہو جائیں یعنی بڑے اور بالغ ہو جانے کی وجہ سے اپنی ماں کے محتاج نہ رہیں یا موت ان کے درمیان جدائی ڈال دے۔(ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مر گیا ہو یا جس عورت کو طلاق اس کے خاوند نے دی ہو اور اس عورت نے محض اپنے یتیم بچوں کی خاطر دوسرے شخص سے نکاح نہ کیا ہو بلکہ اپنے حسن و جمال اور جاہ عزت کے باوجود اپنے جذبات کو کچل کر ازواجی زندگی کی خوشیوں و مسرتوں سے دور رہی اور اپنے ان بچوں کی پرورش و دیکھ بھال میں اس وقت تک اپنی جان کھپاتی رہی جب تک کہ وہ اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس نے ان کی پرورش میں مشغول رہ کر اپنی زندگی کے جو ان ایام کو قربان کیا اور اپنے حسن و جمال کو برباد کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی حوصلہ مند عورت کے بارے میں فرمایا کہ وہ قیامت کے میرے اس قدر قریب ہو گی جس قدریہ دونوں انگلیاں ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جو عورتیں اپنے خاوند کی وفات یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہو گئی ہوں تو ان کو صبر و استقامت عفت وپاکدامنی اور ترک زیب و زینت کو اختیار کرنا اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دوسرا نکاح نہ کرنا اور ان بچوں کی صحیح تربیت میں مشغولیت رہنا بڑی فضیلت کا حامل ہے۔

دینے دلانے میں بیٹے کو بیٹی پر ترجیح نہ دو

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس شخص کے کوئی بہن بیٹی ہو اور وہ اس کو نہ تو زندہ درگور کرے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ لوگ فقر کے خوف سے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے نہ اس کو ذلت و حقارت کے ساتھ رکھے اور نہ اپنے والد یعنی بیٹے کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

چونکہ ولد  کا اطلاق بیٹے اور بیٹی دونوں پر ہوتا ہے اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ یعنی الذکور کے ذریعہ یہ وضاحت فرمائی کہ اس حدیث میں ولد سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد بیٹا ہے۔

کسی شخص کو اپنے سامنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرنے دو

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا جس شخص کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس مسلمان بھائی کی مدد کرے بشرطیکہ وہ مدد کرنے پر قادر ہو تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کی مدد کرے گا۔ اور اگر وہ مدد کرنے پر قادر ہونے کے باوجود اس کی مدد نہ کرے تو اللہ تعالی دنیا و آخرت میں اس کا مواخذہ کرے گا۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے بھائی کی غیبت کی جا رہی ہے اور اس کے عیوب کو بیان کر کے اس کی حیثیت و عزت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ اگر وہ اس پر قادر ہو تو اپنے اس مسلمان بھائی کی ذات و حیثیت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ اس طرح نہ صرف اپنے ایک مسلمان بھائی کی مدد ہوتی ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا و آخرت میں خدا کی مدد نصرت کا مستحق بنایا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی اس ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کرے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ قدرت کا ہاتھ اس کا گریبان پکڑے گا اور اس کو دنیا و آخرت میں مواخذہ خداوندی سے دو چار ہونا ہو گا۔

کسی شخص کو اپنے سامنے کسی مسلمان بھائی کی غیبت نہ کرنے دو

اور حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے اس کا گوشت کھانے سے باز رکھے یعنی اس کے سامنے اگر کوئی شخص مسلمان بھائی کی برائی اور غیبت کر رہا ہو تو اس کو اس حرکت سے روکے تو اس کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرے گا۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

غیبت کرنے کو بطور گوشت کنایہ کھانے سے تعبیر کیا ہے یعنی جو شخص کسی کی غیبت کرتا ہے تو گویا وہاس کا گوشت کھاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں غیبت کی برائی ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے کہ  ایحب احد کم ان یاکل.....الخ۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے۔غیبت کرنے کو گوشت کھانے سے تشبیہ دینے کا سبب یہ ہے کہ غیبت کرنا دراصل اس کی آبرو ریزی کرنا ہے اور آبرو چوں کہ جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے لہذا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کے ذریعہ آبرو ریزی کی اس نے گویا اس کو ہلاک کر دیا اور اس کا گوشت کھا لیا۔ بظاہر یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ لفظ بالمغیبۃ کا تعلق لفظ ذب سے ہے اور غیبت یعنی عدم موجودگی کے مفہوم میں ہے تاہم احتمال بھی ہے کہ بالمغیبۃ کا تعلق بلحم اخیہ سے ہو اور مفہوم کے اعتبار سے غیبت یعنی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرنے کے معنی میں ہو اس صورت میں عبارت گویا یوں ہوں گی من ذب عن اکل لحم اخیہ بالمغیبۃ یعنی جو شخص کسی اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کے ذریعہ اس کا گوشت کھانے سے باز رکھے۔ لیکن حدیث کا حاصل دونوں صورتوں میں ایک ہی رہے گا وہ یہ کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے باز رکھنے والے کی فضیلت کو ظاہر کرنا مقصود ہے۔

 دوزخ کی آگ سے آزاد کرے  کا مطلب یا تو یہ ہے کہ اس شخص کو شروع ہی میں دوزخ کی آگ سے نجات یافتہ قرار دیا جائے گا یا یہ کہ اگر وہ شخص اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں داخل کیا جائے گا تو اس کو وہاں عذاب پورا کیے بغیر نکال لیا جائے گا۔

 

 

 اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی آبرو ریزی یعنی اس کی غیبت کرنے سے روکے اور اس کا دفعیہ کرے تو اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اس قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے یا اس سے دوزخ کی آگ کو دور کر دے پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول کان حقا کو ثابت کرنے کے لیے یہ آیت پڑھی، آیت (وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ) 30۔ الروم:47) یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مومنین کی مدد کرنا ہم پر واجب ہے۔ (شرح السنہ)

 

 

 اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی اس موقع پر مدد کرے اور غیبت کرنے والے کو غیبت سے نہ روکے جہاں اس کی بے حرمتی کی جاتی ہو اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہو تو اللہ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد نہیں کرے گا جہاں وہ خدا کی مدد کو پسند کرتا ہے اور جو مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائی کی اس موقع پر مدد کرے جہاں اس کی بے حرمتی کی جاتی ہو اور اس کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا جاتا ہو تو اللہ بھی اس موقع پر اس شخص کی مدد کرے گا جہاں وہ خدا کی مدد کو پسند کرتا ہے۔ (ابوداؤد)

کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اس کو چھپاؤ

اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان میں کوئی عیب دیکھے یا اس کی برائی کو جانے اور پھر اس کو چھپا لے تو اس کا درجہ اس شخص کے درجہ کے برابر ہو گا کہ جو زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کو بچا لے۔ احمد، ترمذی، نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

کسی کا عیب چھپانے کو زندہ دفن کی ہوئی لڑکی کو بچانے کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ جس شخص کی کوئی معیوب بات ظاہر ہو جاتی ہے تو مارے شرم کے گویا مردہ کے ہو جاتا ہے اور یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش میں مر جاتا کہ میرا عیب ظاہر نہ ہوتا اور مجھ کو اپنی رسوائی دیکھنی نہ پڑتی لہذا اگر کوئی شخص کسی کے عیب کو چھپاتا ہے تو گویا اس کی اس شرمندگی اور خجالت کو دفع کرتا ہے جو اس کے لیے موت کے برابر ہے اس اعتبار سے کسی کے عیب کو چھپانا اس کو زندگی بخشنے کے مترادف ہے جیسا کہ کسی زندہ لڑکی کو دفن کر دیا جائے اور پھر کوئی شخص اس کو عین اس وقت قبر سے نکال لے جب کہ وہ آخری سانس لے رہی ہو پھر زندگی پا جائے۔

ایک مومن دوسرے مومن کے حق میں آئینہ ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کے حق میں آئینہ کی طرح ہوتا ہے لہذا اگر تم اس میں کوئی برائی دیکھو تو اس سے اس برائی کو دور کرو یعنی جس مسلمان میں کوئی عیب اور برائی دیکھو یا اس کو غلط راہ پاؤ تو اس راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کرو اور خواہ نرمی و شفقت کے ساتھ خواہ زجر و تنبیہ کے ذریعہ اور خواہ اس کو معتوب کر کے غرضیکہ اصلاح و نصیحت کے جو شرائط و قواعد ہیں ان کے مطابق جس طرح بھی ہو سکے اس کو برائی سے باز رکھنے کی سعی کرو، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اس کو ضعیف قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کو مذکورہ الفاظ میں روایت کرنا ضعف سے خالی نہیں ہے اور ترمذی کی ایک دوسری روایت نیز ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے جو اس سے اس چیز برائی اور عیب کو دور کرتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور ہلاکت ہے اور اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے حقوق و مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح آئینہ دیکھنے والا اس آئینہ میں اپنے خد و خال کو دیکھتا ہے اور اس میں جو عیب و خرابی ہوتی ہے اس سے آگاہ ہو جاتا ہے خواہ وہ عیب کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو اسی طرح ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے حق میں اتنا ہی حساس اور بہی خواہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے بھائی مسلمان میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو کسی برائی میں مبتلا پائے تو اس کو فوراً آگاہ کر دے اور اس عیب و برائی کی مضرت و ہلاکت کو واضح کر دے اور یہ آگاہ واضح کرنا پوشیدہ طور پر ہو تاکہ اس کے اس عیب سے دوسرے لوگ مطلع نہ ہوں اور وہ دنیا کی نظر میں ذلیل و رسواء نہ ہو جیسا کہ آئینہ اپنے دیکھنے والے کو اس عیب سے اس طرح آگاہ کرتا ہے کہ کسی دوسرے شخص کو معلوم نہیں ہوتا نیز اس مسلمان کو بھی چاہیے کہ جب کوئی مسلمان اس کو اس کے کسی عیب سے آگاہ کرے تو فوراً اس عیب پر مطلع ہو جائے اور اپنی ذات کو اس کے داغ سے پاک و صاف کرے جیسا کہ کوئی شخص آئینہ میں اپنے چہرے پر کسی داغ و دھبہ کو دیکھ کر فوراً مطلع ہو جاتا ہے اور چہرے کی صفائی و زیبائش کی کوشش کرتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ مسلمان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جو قلبی و روحانی تعلق ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے کسی بھائی مسلمان کو کسی برائی، یا کسی عیب اور کسی ناشائستہ حرکت میں مبتلا دیکھے تو اس احساس کے ساتھ کہ یہ میرا بھائی نقصان و تباہی کے راستہ پر لگ گیا ہے اور اس کا نقصان میرا نقصان ہے اور اسی کی تباہی میری تباہی ہے اس کو اس عیب و برائی سے بچانے کی کوشش کرے کیونکہ یہ بہی خواہی اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و تعاون ایمان و اسلام کا منشاء ہے اور اس ارشاد گرامی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تقاضا یہ ہے کہ ہمددری ملت کی فلاح و بہبود اور دینی و دنیاوی کامرانیوں اور سعادتوں کا سرچشمہ ہے غالباً اسی بناء پر مولانا روم نے فرمایا کہ اس وقت تک خیر و بھلائی پر ہیں جب تک وہ ایک دوسرے کے احوال کی اصلاح کی سعی و کوشش کرتے ہیں جب بھی وہ ایک دوسرے کی طرف سے بے پرواہ اور ایک دوسرے کے احوال سے اتفاق کر لیں گے ہلاکت میں پڑ جائیں گے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویحوط من وراۂ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمانی اخوت کا مظہر ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عدم موجودگی میں بھی اس کی عزت و آبرو اور اس کی جان و مال کا تحفظ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے چنانچہ کوئی مسلمان نہ صرف یہ کہ خود کسی مسلمان کی غیبت اور عیب جوئی نہیں کرتا کیونکہ اگر کسی شخص کسی مسلمان کی غیبت کرتا ہے تو وہ اس غیبت کرنے سے منع کرتا ہے اور اس کی طرف سے عیب جوئی پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اس کی تردید و تنقیص کرتا ہے اور اس بات کا کوشاں رہتا ہے کہ اس کے سامنے کسی مسلمان بھائی کے جانی و مالی حقوق اور حیثیت عرفی کو نقصان نہ پہنچے۔

تم مسلمان کو عیب جو کے شر سے بچاؤ، اللہ تعالی تمہیں دوزخ کی آگ سے بچائے گا

اور حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی عزت کو منافق کے شر سے بچائے گا اللہ اس کے لیے ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کو قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بچائے گا اور جو شخص کسی مسلمان پر ایسی چیز یعنی کسی عیب و برائی کی تہمت لگائے گا جس کے ذریعہ اس کے مقصد اس مسلمان کی ذات کو عیب دار کرنا ہو تو اللہ تعالی اس کو دوزخ کے پل پر قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس تہمت لگانے کے وبال سے نکل جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یہاں منافق سے مراد غیبت کرنے والا ہے اور عیب جو شخص ہے اس کو منافق اس لیے فرمایا گیا ہے کہ غیبت کرنے والا کبھی بھی کسی شخص کے منہ پر اس کی برائی نہیں کرتا بلکہ اگر وہ سامنے ہوتا ہے تو دل میں اس کی طرف سے برائی رکھنے کے باوجود اس کی خیر خواہی کا دم بھرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس پر عیب لگاتا ہے غیبت کرنا اور عیب جوئی منافق کا کام ہے جس کا ظاہر کچھ ہوتا ہے اور باطن کچھ۔ حدیث کے آخری الفاظ حتی یخرج مما قال کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ شخص اپنی اتہام تراشی کے گناہ سے صاف نہ ہو جائے اس وقت تک اس کی گلو خاصی ممکن نہیں ہو گی۔

خیر خواہ دوست اور خیر خواہ پڑوسی کی فضیلت

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا خدا کے نزدیک ثواب و فضیلت کے اعتبار سے دوستوں میں بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کا بہترین خیر خواہ ہو اور خدا کے نزدیک پڑوسیوں میں بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کا بہترین خیر خواہ ہو۔ (ترمذی،دارمی) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے دوستوں اور اپنے ہمسائیوں کے ساتھ بہت زیادہ احسان اور حسن سلوک کرتا ہے اور ہر حالت میں ان کا خیر خواہ رہتا ہے تو وہ نہ صرف بہترین دوست اور بہترین پڑوسی قرار پاتا ہے بلکہ اس کو اللہ کی بارگاہ سے بہت زیادہ ثواب بھی ملتا ہے۔

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی نیکو کاری یا بدکاری کو کس طرح معلوم کر سکتا ہوں یعنی اگر میں کوئی ایسا کام کروں جس کی شرعاً اچھائی برائی معلوم نہ ہو تو ایسا کون سا ذریعہ ہے جس سے میں یہ معلوم کر سکوں کہ وہ کام کر کے میں نیکو کار بنوں گا یا بدکار؟نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم اپنے کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو تمہارا کام اچھا ہے اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کام کیا ہے تو وہ تمہارا کام برا ہے یعنی تمہارا نیکوکار یا بدکار ہونا تمہارے پڑوسیوں کی گواہی کی ذریعہ معلوم ہو گا۔ (ابن ماجہ

 

تشریح

 

جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو  میں پڑوسیوں سے سارے پڑوسی مراد ہیں کیونکہ دو چار پڑوسی تو کسی غلط بات پر اتفاق کر سکتے ہیں لیکن عام طور پر سارے پڑوسیوں کا کسی ناروا فیصلے پر اور غلط بات پر متفق ہونا ممکن نہیں ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے صراحت بھی کی ہے کہ حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے پڑوسی اہل حق، صاحب انصاف اور کسی کام کی اچھائی کو سمجھنے والے ہوں نیز وہ اس شخص سے نہ بہت زیادہ محبت تعلق رکھتے ہوں اور نہ بہت زیادہ دشمنی عداوت۔ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس عارفانہ قول کی تائید کرتی ہے کہ السنۃ الخلق اقلام الحلق۔ یعنی مخلوق خدا کی زبان حق تعالی کا قلم ہے یا اس مفہوم کو ہمارے یہاں اس محاورہ، زبان خلق نقارہ خدا، کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

 برا کہے جسے عالم اسے برا سمجھو

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو

مرتبہ کے مطابق سلوک کرو

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر ایک آدمی کو اس کے درجہ پر رکھو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی جو حیثیت عرفی اور جس کو جو متعین مرتبہ و درجہ ہے اس کے ساتھ اسی کے مطابق سلوک و تعظیم کرو یہ نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ ایک شخص کے ساتھ جیسا برتاؤ کیا جائے کیوں کہ کوئی شخص شریف اور صاحب عزت ہوتا ہے اور کوئی شخص ذلیل و کمینہ، اگر دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ غیر موزوں ہو گا اس لیے تعظیم و تکریم میں ہر ایک کے ساتھ ایسا سلوک کرو۔ جو نہ تو تکلیف پہنچائے اور شکایت پیدا ہونے کا باعث ہو اور نہ درجہ مرتبہ کے غیر مناسب۔ اس سے معلوم ہوا کہ خادم و مخدوم کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کرنا چاہیے بلکہ دونوں میں سے ہر ایک کو اس کے درجہ پر رکھنا چاہیے اور یہ بات قرآن کی اس آیت سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ ورفعنا بعضھم درجات۔

احیاء العلوم میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں کہ ایک فقیر ان کے سامنے راستے سے گزرا انہوں نے روٹی کا ایک ٹکڑا اس کو بھیج دیا اس کے بعد ایک سوار ادھر سے گزرا تو انہوں نے اسے کہلا بھیجا کہ کھانا حاضر ہے اگر خواہش ہو تو تشریف لا کر تناول فرمائیں حاضرین میں سے ایک شخص نے ان کے اس مختلف برتاؤ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہر آدمی کو اس کے درجہ پر رکھو چنانچہ وہ فقیر تو روٹی کے ایک ٹکڑے پر خوش ہو گیا، لیکن اگر میں سوار کے ساتھ وہی برتاؤ کرتی جو فقیر کے ساتھ کیا تھا تو وہ تکلیف محسوس کرتا اور اس کی حقارت لازم آتی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو علماء تفاصیل خلفاء وغیرہ کے قائل ہیں ان کا قول صحیح ہے اور یہ حدیث ان کے حق میں سرچشمہ ہدایت ہے اگر کچھ لوگ امراء و  اغنیا اور ارباب اقتدار کے تئیں اختیار کیے جانے والے اعزاز و اکرام کو اس حدیث کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کریں تو ان کی یہ کوشش گمراہی کے مترادف ہے کیونکہ علماء تو اہل علم و فضل کو ان کے علم و فضل کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت دیتے ہیں اور اس فضیلت دینے میں کسی کی حقارت و توہین کا جذبہ ہرگز شامل نہیں ہوتا جب کہ دنیا دار لوگ غریب و مسکین اور محتاج لوگوں کے ساتھ تو حقارت و نفرت کا برتاؤ کرتے ہیں چاہے کوئی غریب شخص علم و فضل کے بڑے سے بڑے درجے کا حامل ہی کیوں نہ ہو اور امراء مقتدرین کی تعظیم و عزت کرتے ہیں چاہے کتنے ہی بڑے فاسق و فاجر کیوں نہ ہوں، اگر ایسے دنیا دار لوگ اس حدیث سے استدلال کرنے لگیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ایک طرف تو وہ علماء ہیں جنہیں اس حدیث سے استدلال و استنباط میں اللہ نے سرفراز کیا اور دوسری طرف وہ بد نصیب دنیا دار ہیں جن کو گمراہ کیا کل انام مشربھم فھم کل فریق مذھبم یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیرا۔

سچ بولو، امانت ادا کرو، اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو

حضرت عبدالرحمن ابن ابی قراد سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا تو صحابہ نے حضور کے وضو کے پانی کو اپنے جسم پر ملنا شروع کر دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا تم یہ جو کچھ کر رہے ہو اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس کا باعث ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اس کو چاہیے کہ جب بولے تو سچ بولے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس امانت کو ادا کرے اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کا ثبوت دے۔

 

تشریح

 

 وضو کا پانی سے مراد اکثر علماء کے نزدیک تو وہ پانی ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی ہے جو وضو کے وقت حضور کے اعضاء مبارک سے جدا ہو کر گر رہا تھا۔

 اویحبہ اللہ ورسولہ  میں حرف اَو تنویع کے لیے ہے! واضح رہے کہ ایک درجہ تو بندہ کا اللہ و رسول سے محبت رکھنا ہے اور دوسرا درجہ اللہ و رسول کا بندہ سے محبت رکھنا ہے ظاہر ہے کہ دوسرا درجہ پہلے درجہ سے کہیں بالا ہے لیکن حقیقت میں دونوں درجے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں بایں طور کہ ہر کوئی اپنے دوست دار کو دوست رکھتا ہے یا یہ کہ حرف او در اصل لفظ بل کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھے بلکہ جو شخص پسند کرتا ہو کہ اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرے تو اس کو چاہیے کہ ....الخ۔ یہ قول زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حرف اَو راوی کے شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں یا تو یہ فرمایا تھا کہ جو شخص اللہ کے رسول سے محبت رکھنا چاہتا ہو یا یہ فرمایا تھا کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ اور اللہ کا رسول اسے محبت کرے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا دعوی ایسی باتوں کے ذریعہ کرنا کہ جو نفس پر چنداں شاق نہیں، کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس دعوے کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ان کو اختیار کیا جائے اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے اجتناب کیا جائے خصوصاً ان احکام پر زیادہ توجہ و مستعدی اور زیادہ پابندی کے ساتھ عمل کیا جائے جن کا تعلق لوگوں کے حقوق اور باہمی معاملات سے اور حقوق و معاملات بھی وہ کہ جن سے اکثر و بیشتر واسطہ رہتا ہے جیسے سچ بولنا، اور امانت کو ادا کرنا اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے سلوک اور آداب ہمسائیگی کو لازم پکڑنا۔ احتمال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شاید ان صحابہ کو مذکورہ بالا چیزوں کے تعلق سے ادائے حقوق کی کسی تقصیر و کوتاہی میں مبتلا پایا ہو گا اس لیے خاص طور پر آپ نے ان ہی چیزوں کا ذکر فرمایا۔

بھوکے پڑوسی سے صرف نظر کمال ایمان کے منافی ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا جو پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو،دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

ظاہر ہے کہ وہ مسلمان کمال ایمان کے درجہ کو کس طرح پہنچ سکتا ہے جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بالکل بھوکا رہے کسی کامل مسلمان کے بارے میں یہ تصور بھی کیا جا سکتا کہ یہ جاننے کے باوجود کہ اپنے پڑوسی میں فلاں شخص کو محتاجگی و افلاس اور شدت بھوک نے مضطرب و بے حال کر دیا ہے وہ اس کی خبر نہ لے اور اس کو اپنے کھانے میں شریک نہ کرے اس کے پہلو میں۔ اس جملہ کے ذریعہ گو اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنے پڑوسی کے حالات سے بے خبر و لا پرواہ ہو اس سے بڑا غافل اور لا پرواہ کون ہو سکتا ہے۔

اپنی بد زبانی کے ذریعہ ہمسایوں کو ایذاء پہنچانے والی عورت کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجلس نبوی میں کسی شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ فلاں عورت کا زیادہ نماز، روزے اور کثرت صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے یعنی لوگ کہتے ہیں کہ وہ عورت بہت زیادہ عبادت کرتی ہے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرتی رہتی ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ دوزخ میں جائے گی۔ یعنی وہ عورت چونکہ اپنی زبان اور گالم گلوچ کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے اس لیے وہ دوزخ میں ڈالی جائے گی اور باوجودیکہ نماز روزہ اور صدقہ و خیرات افضل ترین عبادات میں سے ہیں لیکن اس کی یہ عبادتیں بھی اس کے گناہ کا کفارہ نہیں ہوں گی اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے بہت کم صدقہ دیتی ہے اور بہت کم نماز پڑھتی ہے اور حقیقت میں اس کا صدقہ و خیرات قروط کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعہ اپنے ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ عورت جنت جائے گی۔ (احمد و بیہقی)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اصل میں دین کا مدار جس چیز پر ہے وہ اکتساب فرائض اور اجتناب معاصی ہے یعنی انسان کی اخروی فلاح نجات محض اس بات پر منحصر ہے کہ وہ دینی فرائض و واجبات پر عمل کرے اور گناہ و معصیت سے پرہیز کرے اور گناہ و معصیت خواہ ترک فرائض و واجبات کی صورت میں ہوں یا بد عملیوں کی شکل میں اس بات سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں کہ فضول یعنی نفلی عبادات و طاعات کو اختیار کیا جائے اور اصول یعنی واجبات کو ضائع کیا جائے جیسا کہ اکثر علماء اور صلحاء اس کمزوری میں مبتلا ہیں چنانچہ علماء تو ان چیزوں کو ترک کرتے ہیں جن پر عمل کرنا واجب ہے اور صلحاء اس علم کو حاصل نہیں کرتے جس کو حاصل کرنا واجب ہے گویا دونوں طبقے ترک واجب کی معصیت کے مرتکب ہیں البتہ وہ مشائخ اور صوفیاء جو علم و عمل دونوں کے حامل ہوتے ہیں وہ واجبات پر عمل کرنے کو جو درجہ دیتے ہیں وہی ترک واجب کی معصیت سے اجتناب کو بھی دیتے ہیں بلکہ ایک طرح سے ان کے نزدیک اجتناب کی اہمیت مقدم ہے اور وہ حکمائے طب کے اصول کو اختیار کرتے ہیں کہ تحلیہ پر تخلیہ مقدم ہے لہذا جس طرح اطباء مریض کو پرہیز پہلے کراتے ہیں اور دواء بعد میں دیتے ہیں اس طرح وہ مشائخ و صوفیا بھی سالکین طریقت کے لیے پہلی منزل توبہ قرار دیتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ جس طرح مریض مضر چیزوں سے پرہیز نہ کرے تو لاکھ دوائیں بھی اس کے لیے بے فائدہ ہیں اسی طرح کوئی مسلمان گناہ معصیت سے اجتناب نہ کرے اور ترک واجبات سے دامن نہ بچائے تو لاکھ عبادات کرے اور نوافل و ادوار میں مشغول ہو اس کو خاص فائدہ نہیں ہو گا چنانچہ کلمہ توحید میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پہلے نفی ہے پھر اثبات اور یہ کہ صفات ثبوتیہ پر صفات سلبیہ مقدم ہیں کیونکہ صفات ثبوتیہ کا حصول تو لازم آتا ہے لیکن ثبوتیہ سے صفات سے سلبیہ کا حصول لازم نہیں آتا۔

کون شخص بہتر ہے اور کون بدتر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ نے بیٹھے ہوئے صحابہ کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا کیا میں تمہیں یہ بتاؤں کہ تم میں نیک ترین کون شخص ہے اور تمہارے آدمیوں کو تمہارے بدترین آدمیوں سے جدا کر کے دکھا دوں؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ یہ سن کر خاموش رہے کیونکہ انہیں خوف ہوا کہ اگر حضور نے عام مفہوم اور عنوان کلی کے طور پر بتانے کے بجائے مشخص و متعین یعنی ایک ایک شخص کا نام لے کر بتا دیا کہ فلاں نیک اور فلاں بد تو اس سے بڑی ذلت اور رسوائی کیا ہو گی یہاں تک کہ جب حضور نے مذکورہ ارشا کو تین بار فرمایا تو ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں بتا دیجیے اور ہمارے نیک آدمیوں کو ہمارے بد آدمیوں سے ممیز و ممتاز کر دیں، حضور نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جس سے لوگ بھلائی کی توقع کرتے ہیں اور اس کے شر سے محفوظ و مامون ہیں اور تم میں سے بدترین وہ شخص ہیں جس سے لوگ بھلائی کی توقع نہ کریں اور اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہوں، (ترمذی، بیہقی) اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

بہترین اور بدترین شخص کی پہچان تو یہ ہے کہ جس کو حدیث میں فرمایا گیا ہے، رہا وہ شخص جس سے لوگ بھلائی کی امید تو رکھتے ہوں، لیکن اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہوں یا وہ شخص کہ جس کے شر سے تو لوگ محفوظ و مامون ہوں مگر اس سے بھلائی کی توقع نہ رکھتے ہوں تو ایسا شخص بین بین ہو گا کہ اس کو نہ بہتر کہیں گے نہ بدترین۔

کامل مومن و مسلمان کون ہے؟

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق کو تقسیم فرمایا ہے جس طرح تمہارے رزق کو تمہارے درمیان تقسیم فرمایا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ دنیا میں تو اس شخص کو بھی دیتا ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے جیسے حضرت سلمان فارسی اور حضرت عثمان وغیرہ اور اس شخص کو بھی دیتا ہے جس کو وہ دوست نہیں رکھتا۔ لہذا اللہ تعالی کا کسی شخص کو دین عطا فرمانا اس بات کی علامت ہے کہ اس کو اس نے دوست رکھا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ اس وقت کامل مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوں اور کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ و مامون نہ ہو۔

 

تشریح

 

دل کا اسلام تو یہ ہے کہ اس کو باطل عقائد و نظریات سے پاک رکھا جائے اور زبان کا اسلام یہ ہے کہ اس کو لایعنی باتوں سے محفوظ رکھا جائے لیکن زیادہ وقت صحیح بات ہے کہ دل اور زبان کے مسلمان ہونے سے مراد وہ تصدیق اقرار ہے جس پر ایمان کی بنیاد ہے اور اس کے ذریعہ گویا اس طرح اشارہ مقصود ہے کہ ظاہر و باطن کا ایک ہونا کمال ایمان و اسلام کی دلیل ہے اور چونکہ دل اور زبان ہی ایمان و اسلام کا مدار ہیں اس لیے خاص طور پر ان دونوں کا ذکر کیا گیا۔

باہمی الفت و محبت، اتحاد و یکجہتی کا ذریعہ ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمان، الفت، محبت کا مقام و مخزن ہے اور اس شخص میں بھلائی نہیں ہے جو الفت نہیں کرتا اور نہ اس شخص سے الفت کی جائے یعنی جو شخص ایسا ہو کہ نہ تو وہ مسلمانوں سے الفت و محبت کرتا ہو اور نہ مسلمان اس سے محبت و الفت کرے تو وہ کسی کام کا نہیں، ان دونوں روایتوں کو احمد اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

لفظ مالف مصدر میمی ہے اور فاعل و مفعول دونوں کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے گویا کہ یہ لفظ مفہوم کے اعتبار سے یوں یالف و یولف یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ الفت و محبت کرتا ہے اور دوسروے اس سے الفت محبت کرتے ہیں چنانچہ ایک روایت میں اسی طرح منقول ہے کہ اور یہاں بھی اس حدیث کے اخری الفاظ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ لیکن طیبی نے کہا ہے کہ یہ احتمال کہ یہ لفظ مالک مصدر بطریق مبالغہ ہو جیسا کہ کہا جائے رجل عدل اس صورت معنی ہوں گے مومن الفت کرنے والا اور یا کہ مالف اسم مکان ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اس صورت میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے مسلمان کے ساتھ محبت و موانست اور الفت و شفقت ہی کے ذریعہ اتحاد و یگانگت اور اتفاق و یکجہتی کی دولت حاصل کر سکتے ہیں اور اگر باہمی الفت و محبت کی روح ختم ہو جائے اور تو پھر ان میں تفرقہ پڑ جائے گا اور وہ انتشار کا شکار ہو جائیں گے۔چنانچہ اللہ نے اس آیت کریمہ (اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَاناً) 3۔ ال عمران:103)۔ کے ذریعہ باہمی الفت و موانست کو مسلمانوں کے حق میں ایک زبردست نعمت قرار دیا ہے اور قرآن میں اس مضمون کو کئی جگہ پر بیان کیا گیا ہے۔

مسلمانوں کی حاجت روائی کی فضیلت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو آدمی میری امت میں سے کسی شخص کی کسی دنیاوی حاجت و ضرورت کو پورا کریں گے اور اس سے اس کا مقصد اس کو خوش کرنا ہے تو اس نے مجھ کو خوش کیا کیونکہ مسلمان کی خوشی ہوتی ہے اور جس نے مجھ کو خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا اس کو اللہ جنت میں داخل کرے گا۔

 

تشریح

 

مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت کو جامع صغیر کی روایت میں جس کو خطیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یوں بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی کسی حاجت و ضرورت کو پورا کیا تو اس کو حج و عمرہ کرنے والے شخص کی ثواب مانند ثواب ملتا ہے۔

مسلمان کی فریاد رسی کی فضیلت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص مظلوم کی فریاد رسی کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لیے بہتر بخششیں لکھ دیتا ہے اور ان میں سے ایک بخشش تو وہ ہے جو اس کے تمام امور کی اصلاح کی ضامن بن جاتی ہے اور باقی بہتر بخششیں قیامت کے دن اس کے درجات کی بلندی کا سبب ہوں گی۔

 

تشریح

 

عیال کے معنی متعلقین کے ہیں اور کسی شخص کے متعلقین کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جن کی پرورش، جن کا کھانا پینا اور جن کی ضروریات زندگی کی تکمیل اس شخص کے ذمہ ہے اور وہ ان کے اخراجات اپنے روپیہ پیسے سے پورا کرتا ہے لہذا اس معنی میں عیال کی نسبت غیر اللہ کی طرف تو مجازی ہے اللہ کی طرف حقیقی ہے کیونکہ رزاق مطلق حقیقت میں اللہ تعالی ہی ہے جیسا کہ خلاق مطلق اسی کی ذات ہے ارشاد ربانی ہے۔ ومامن دابۃ.........الخ۔زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔

حقوق ہمسائیگی کی اہمیت

اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے دو جھگڑنے والے دو ہمسایہ ہوں گے۔ (احمد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اہل دوزخ کے بعد حقوق کی عدم ادائیگی سے متعلق جو معاملہ سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ ان دو ہمسایوں کا ہو گا جنہیں آپس میں ایک دوسرے سے ایذا رسانی یا حقوق واجب الادا میں تقصیر و کوتاہی وغیرہ سے دوچار ہونا پڑا ہو گا۔ واضح رہے کہ ایک روایت میں یوں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس محاسبہ کا سامنا کرنا پڑے گا وہ نماز ہے نیز ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ قیامت کے دن بندہ کے سب سے پہلے جس معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خون کا معاملہ ہے اور مذکورہ بالا روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ہمسایوں کی مخاصمت کا ہو گا چوں کہ ان روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے اس لیے علماء نے ان تمام روایتوں کے درمیان تطبیق دی ہے حقوق اللہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے خون کے معاملہ کا فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ کسی کو ناحق خون بہانا بہت بڑا گناہ ہے رہی مذکورہ بالا حدیث تو لفظ خصمین کے ذریعہ یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث دونوں فریق کے ایک دوسرے کے خلاف دعوی رکھنے کے ساتھ مقید ہے یعنی جو لوگ ایسے ہیں ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کا تعلق دونوں فریق سے نہ ہو بلکہ کسی ایک سے ہو تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ دونوں فریق پر خصمین کا اطلاق بطریق تغلیب اور مشاکلت کے ہے جیسا کہ قرآن کے یہ الفاظ، آیت (وجزاء سیئیۃ سیئتہ مثلھا)۔ اس کی مثال حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایتوں میں جن معاملات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں ہر ایک میں اولیت اضافی ہے جس کی وجہ سے حقیقی طور پر کوئی باہمی تضاد لازم نہیں آتا۔

سنگدلی کا علاج

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے اپنی سنگدلی کی شکایت کی اور اس کا علاج پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔ (احمد)

بیوہ بیٹی کی کفالت

اور حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا میں تمہیں بہترین صدقہ کے بارے میں بتاؤں اور وہ صدقہ اپنی بیٹی کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے جو تمہارے پاس واپس بھیج دی گئی ہے۔ اور جس کے لیے تمہارے علاوہ کوئی کمانے والا نہیں ہے یعنی اگر تمہاری بیٹی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہو اور نہ تو اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہو اس کے لیے گزر بسر کا سامان فراہم کر سکے بلکہ صرف تم ہی اس کے لیے واحد سہارا بن سکتے ہو اور وہ اسی لیے ناچار ہو کر تمہارے گھر آن پڑی ہو تو تمہاری طرف سے اس کی کفالت اور اس کے ساتھ حسن سلوک ایک بہترین صدقہ ہے۔ (ابن ماجہ)