مشکوٰة شر یف

امان دینے کا بیان

ام ہانی کی طرف سے اپنے ایک عزیز کو امان دینے کا واقعہ

حضرت ام ہانی بنت ابو طالب کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال (یعنی فتح مکہ کے موقع پر) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت غسل فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پردہ کئے ہوئے تھیں۔ میں نے سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا  کون ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ  میں ہوں  ام ہانی بنت ابو طالب ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ام ہانی خوش آمدید ! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل سے فارغ ہوئے تو جسم پر کپڑے لپیٹے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور (نماز چاشت کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور جب نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !میری ماں کے بیٹے یعنی حضرت علی نے بتایا ہے کہ وہ اس شخص کو قتل کرنے والے ہیں جس کو میں نے اپنے گھر میں پناہ دی ہے یعنی فلاں شخص کو جو ہبیرہ کا بیٹا ہے ؟  رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ام ہانی جس کو تم نے پناہ دی ہے (گویا) اس کو ہم نے پناہ دی۔ حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ  یہ واقعہ چاشت کے وقت کا ہے ! 

اور ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ام ہانی نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے) عرض کیا کہ  میں نے دو آدمیوں کو پناہ دی ہے جو میرے خاوند کے رشتہ دار ہیں !؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہماری طرف سے اس شخص کے لئے امان ہے جس کو تم نے امان دی ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت ام ہانی کا اصل نام  فاختہ  تھا اور بعض نے  عاتکہ  بیان کیا ہے۔ یہ ابو طالب کی بیٹی اور حضرت علی کی حقیقی بہن ہیں، ہبیرہ ان کے خاوند کا نام ہے،جب ام ہانی نے فتح مکہ کے سال اسلام قبول کیا تو ہبیرہ سے ان کی جدائی واقع ہو گئی کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہوا۔ جس شخص نے حضرت ام ہانی نے پناہ دی تھی وہ اس کے خاوند ہبیرہ کی اولاد میں سے تھا، اغلب یہ ہے کہ وہ ام ہانی کے علاوہ ہبیرہ کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھا حضرت علی نے ان کی پناہ کو قبول نہ کرتے ہوئے اس شخص کو قتل کر ڈالنا چاہا تو ام ہانی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر صورت حال بیان کی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی پناہ کو قبول کیا اور وہ شخص حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گیا۔

ترمذی نے جو روایت نقل کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت ام ہانی ہی کے مکان میں غسل فرما رہے تھے، لیکن یہاں بخاری و مسلم کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے مکان میں یا حضرت فاطمہ کے گھر میں نہا رہے تھے، اس صورت میں دونوں روایتوں کے درمیان یوں مطابقت ہو گی کہ بخاری و مسلم کی روایت میں یہ عبارت مقرر مانی جائے کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں غسل فرما رہے تھے  یا پھر یہ کہا جائے کہ ترمذی کی روایت میں جو واقعہ نقل کیا گیا ہے وہ کسی اور موقع کا ہے اور بخاری و مسلم کی روایت کسی اور موقع سے متعلق ہے۔

عورت کے عہد امان کی پاسداری سارے مسلمانوں پر لازم ہے

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  عورت کسی قوم کے لئے (عہد) لیتی ہے یعنی وہ مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتی ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان عورت، کسی کافر کو یا کافروں کی کسی جماعت کو امان وپناہ دے دے تو یہ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ اس عورت کے عہد امان کو ملحوظ رکھ کر اس کافر کو یا کافروں کی اس جماعت کو امان وپناہ دیں اور اس عہد امان کو توڑیں نہیں۔

اپنے عہد و امان کو توڑنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت عمرو بن حمق کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جو شخص کسی کو اس کی جان کی امان دے اور پھر اس کو مار ڈلے تو قیامت کے دن اس کو بدعہدی کا نشان دیا جائے گا۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 اس کو بدعہدی کا نشان دیا جائے گا  اس جملہ کے ذریعہ کنایۃً یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس شخص کو میدان حشر میں تمام مخلوق کے سامنے ذلیل و رسوا کیا جائے گا۔ دوسری حدیثوں میں یہ بیان کیا گیا ہے قیامت کے دن عہد شکن کو ایک ایسا نشان دیا جائے گا جس کے ذریعہ اس کو پہچانا جائے گا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے عہد شکنی کا ارتکاب کیا تھا۔

معاہدہ کی پوری طرح پابندی کرنے چاہئے

اور حضرت سلیم ابن عامر (تابعی) کہتے ہیں کہ امیر معاویہ اور رومیوں کی درمیان (یہ) معاہدہ ہوا تھا کہ (اتنے دنوں تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے) اور حضرت معاویہ (اس معاہدہ کے زمانہ میں) رومیوں کے شہروں میں گشت (کر کے حالات کا اندازہ) لگایا کرتے تھے تاکہ جب معاہدہ کی مدت گزر جائے تو وہ ان (رومیوں) پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں (اور ان کے ٹھکانوں کو تخت و تاراج کر دیں جب کہ اگر وہ گشت کے ذریعہ ان کے حالات اور ٹھکانوں کا جائزہ لینے کی بجائے اطمینان کے ساتھ اپنے کیمپ میں پڑے رہتے اور پھر معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر حملہ کرتے تو ان رومیوں کے چوکنا ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ جنگی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا پھر (انہی دنوں میں جب کہ امیر معاویہ اپنے لشکر والوں کے ساتھ رومیوں کے شہر میں پھر رہے تھے) ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ  اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفا کو ملحوظ رکھو نہ کہ بد عہدی کو ! یعنی تم پر معاہدہ کو پورا کرنا لازم ہے نہ کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرو (گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ تم لوگ معاہدہ کے زمانے میں دشمنوں کے شہروں میں گشت لگاتے ہو تو یہ اپنے عہد کی پاسداری کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ عہد شکنی اور معاہدہ کی خلاف ورزی کے حکم میں داخل ہے) جب لوگوں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ شخص (ایک صحابی) حضرت عمرو ابن عبسہ ہیں، حضرت امیر معاویہ نے ان سے اس بات کو پوچھا (کہ رومیوں کے شہروں میں ہمارا پھرنا، عہد شکنی کے مترادف کے سے ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جس شخص اور کسی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے عہد کو نہ توڑے اور نہ باندھے، آ نکہ اس معاہدہ کی مدت گزر جائے یا وہ ان کو مطلع کر کے برابری کی بنیاد پر اپنا عہد توڑے دے (یعنی مجبوری یا مصلحت کی بناء پر مدت کے دوران ہی معاہدہ توڑنا ضروری ہو گیا ہو اور فریق مخالف کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا ہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا ہم اس کو توڑتے ہیں، اب ہم اور تم دونوں برابر ہیں کہ جس کی (جو مرضی ہو کرے) حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ ! حضرت ابن عبسہ کی یہ بات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث سن کر  اپنے لوگوں کے ساتھ (رومیوں کے شہر سے اپنے کیمپ میں) واپس چلے آئے۔ (تر مذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

  اور نہ باندھے '' کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کسی بھی فعل سے معاہدہ کے مقصد و منشاء میں کوئی تغیر تبدیلی نہ کرے ! گویا اس جملہ کی مراد ایفاء عہد میں کسی طرح کا تغیر نہ کرنا ہے، ورنہ شدنہ کہ جس کے معنی اپنے عہد کو باندھنا اور مستحکم کرنا ہے،شریعت کی نظر میں مستحسن و مطلوب ہے۔

ایفاء عہد اور احترام قاصد کی اہمیت

اور حضرت ابو رافع کہتے ہیں کہ (صلح حدیبیہ کے موقع پر) کفار قریش نے مجھے (اپنا قاصد بنا کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا، جب میری نظر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی، تو (بے اختیار میرے دل میں اسلام (کی صداقت و حقانیت) نے گھر کر لیا، میں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ خدا کی قسم، میں اب کبھی بھی ان (کفار قریش کے پاس واپس نہیں جاؤں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں نہ تو عہد کو توڑا کرتا ہوں اور نہ قاصدوں کو روکا کرتا ہوں، البتہ تم (اب تو) واپس چلے جاؤ، اگر تمہارے دل میں وہ چیز (یعنی اسلام) قائم رہے وقت موجود ہے تو پھر (میرے پاس) چلے آ نا۔ حضرت ابو رافع کہتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے مطابق، میں (مکہ) واپس ہو گیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ گیا اور اسلام قبول کر لیا (یعنی اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 چونکہ ابو رافع کفار مکہ کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے تھے اس لئے آنحضرت نے ان کو اپنے پاس نہیں روکا، تاکہ وہ مکہ واپس جا کر کفار قریش کو ان کے پیغام کا جواب دے دیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو جو حکم دیا اس کا مطلب یہی تھا کہ اسلام نے تمہارے دل میں گھر لیا ہے، اور اب مسلمان ہونے سے تمہیں کوئی چیز نہیں روک سکتی، لیکن احتیاط اور ایفاء عہد کا تقاضا یہ ہے کہ تم ابھی اپنے اسلام کا اظہار و اعلان نہ کرو بلکہ پہلے تم مکہ واپس جاؤ او کفار قریش نے جو ذمہ داری تمہارے سپرد کی تھی اس کو پورا کر آؤ یعنی انہوں نے تمہیں جس بات کا جواب لانے کے لئے یہاں بھیجا تھا ان کو وہ جواب پہنچاؤ اور پھر اس کے بعد وہاں سے ہمارے پاس آ کر اپنے اسلام کا اظہار و اعلان کرنا۔

 

 

 اور حضرت نعیم ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا جو مسیلمہ کے پاس سے آئے تھے کہ  یاد رکھو ! خدا کی قسم اگر قاصد کو مارنا شرعی طور پر ممنوع نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا۔ (احمد 'ابوداؤد)

 

تشریح

 

 مسیلمہ ایک شخص کا نام ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسی لئے اس کو مسلیمہ کذاب کہا جاتا ہے۔ وہ دو شخص جو مسیلمہ کذاب کے پاس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن نواحہ تھا اور دوسرے کا نام ابن اثال تھا ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ کہا تھا کہ نشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خفا ہو کر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے۔

زمانۂ جاہلیت کے ان معاہدوں کو پورا کر نے کا حکم جو اسلام کے منافی نہ ہوں

اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک دن) اپنے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ  زمانہ جاہلیت کی قسم کو پورا کرو، کیونکہ وہ یعنی اسلام اس قسم کو زیادہ ہی (مضبوط) کرتا ہے (مطلب یہ ہے کہ اپنی قسم اور اپنے عہد کو پورا کرنا اسلام میں کہیں زیادہ ضروری ہے اس اعتبار سے اسلامی احکام اور ایفاء عہد و حلف میں کوئی تضاد نہیں ہے) اور اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو۔  امام ترمذی نے اس حدیث کو حسین ابن ذکوان کی سند سے بہ روایت حضرت عمرو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 

تشریح

 

  قسم کو پورا کرو  کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل اپنے زمانہ جاہلیت میں اپنے ما بین ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد و پیمان باندھا ہو یا قسما قسمی کی ہو تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم اوفوا بالعقود (اپنے معاہدوں کو پورا کرو) کے بموجب اس عہدو پیمان اور قسموں کو پورا کرو جو اسلام کی تعلیمات و عقائد کے منفی اور دین میں نقصان کا سبب نہ ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا کہ :

(وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان)۔ (المائدہ ٥: ٢)

 اور نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو۔

حاصل یہ کہ اسلام لانے کے بعد زمانہ جاہلیت کے اس عہد و پیمان اور قسم کو پورا کرنا ممنوع ہے جس کا تعلق فتنہ و فساد اور خون ریزی وغیرہ سے ہو جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے (لا حلف فی الاسلام اور زمانہ جاہلیت کے جس عہد و پیمان اور قسم کا تعلق مظلوم و بے کس لوگوں کی امداد و اعانت، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اسی طرح کے دوسرے نیک امور سے ہو، اسلام ان کا مؤید اور مضبوط کرنے والا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے حدیث (ایما حلف کان فی الجاھلیۃ لم یزدہ الاسلام الاّ شدۃ)

 اسلام میں حلف یعنی قسما قسمی کو رواج نہ دو  کیونکہ مسلمانوں پر ایک دوسرے کی مدد اعانت اور باہمی حسن سلوک واجب ہونے کے لئے ان کے مذہب اسلام کی تعلیم و تلقین کافی ہے۔

طیبی کہتے ہیں کہ  اسلام میں حلف کو رواج نہ دو  میں جو ممانعت بیان کی گئی ہے اس کے بارے میں دونوں احتمال ہیں ' ایک تو یہ کہ یہ ممانعت 'جنس کے لئے ہو ' لیکن ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک دوسرا ہی احتمال زیادہ قومی اور صائب ہے ' چنانچہ مظہر کا یہ قول بھی اس بات کی تائید کرتا ہے جو مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت کے طور پر ہے کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اگر تم نے اپنے زمانے جاہلیت میں (یعنی مسلمان ہونے سے پہلے) یہ قسم کھائی ہو کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو (اب مسلمان ہو جانے کے بعد بھی) اس قسم کو پورا کرو یعنی اپنے باہمی معاہدہ حلف کے مطابق ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو بشرطیکہ جس کی مدد کی جائے وہ حق پر ہو لیکن اسلام میں اس طرح کی قسم کو رواج نہ دو جس کا تعلق تمہیں ایک دوسرے کا وارث قرار دینے سے ہو (جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ کوئی بھی دو شخص آپس میں ایک دوسرے سے قسم کے ساتھ عہد کیا کرتے تھے کہ اگر میں پہلے مر گیا تو تم میرے وارث ہو گے اور اگر تم پہلے مر گئے تو میں تمہارا وارث ہوں گا)

وذکر حدیث علی المسلمون تتکا فادمائھم فی کتاب القصاص۔ اور حضرت علی کی یہ روایت، المسلمون تتکا فادمائھم کتاب القصاص میں نقل کی جا چکی ہے۔

قا صد اور ایلچیوں کو قتل نہیں کیا جا سکتا

حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ مسیلمہ (مدعیِ نبوت) کے دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ  کیا تم اس حقیقت کی گواہی دیتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہوں ؟ ان دونوں نے کہا کہ  نہیں !بلکہ) ہم اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ 'خدا کا رسول ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ (میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا !) اگر میں قاصدوں اور ایلچیوں کو قتل کرنے والا ہوتا تو یقیناً میں تم دونوں کو بھی قتل کر دیتا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کے پیش نظر) پھر یہ سنت جاری ہو گئی (یعنی یہ ضابطہ قرار پایا) کہ کسی قاصد و ایلچی کو قتل نہ کیا جائے (خواہ کتنی ہی غیر مناسب بات کیوں نہ کرے اور قتل ہی کا سزا وار کیوں نہ ہو۔ (احمد)

 

تشریح

 

 ان ایلچیوں نے جو جواب دیا اس کے ذریعہ انہوں نے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا انکار اور مسیلمہ کذاب کے خود ساختہ رسالت کا اقرار کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو یہ فرمایا کہ  میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا  تو اس کے ذریعہ گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جذبہ طلب حق، صفت حلم و بربادی اور ان کے عذاب خداوندی میں جلد ہی مبتلا ہونے کا اظہار کیا نیز ان الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس یعنی (مسیلمہ کذاب) کی نبوت کے انکار اور اس کے دعوے کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔