ظلم کے لغوی معنی ہیں کسی چیر کو بے موقع اور بے محل رکھنا یعنی جس چیر کی جو جگہ اور جو محل ہو اس کو وہاں کی بجائے دوسری جگہ اور دوسرے محل میں رکھنا! اور یہ مفہوم ہر اس چیز کو شامل ہے جو اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور اس کو جس طرح واقع ہونا چاہئے اس کے بجائے زیادتی یا نقصان کے ساتھ بے جا اور بے وقت واقع ہو چنانچہ جس چیر کو عام اصطلاح میں جور و تعدی یا زور، زبردستی اور ستم کرنا کہتے ہیں اس کے بھی یہ معنی ہیں اور شریعت میں بھی ظلم وغیرہ کے یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں، البتہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موقعہ محل سے شرعی موقع و محل مراد لیا جائے یعنی شرعی طور پر ظلم وغیرہ کے یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں، البتہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موقع و محل سے شرعی موقع و محل مراد لیا جائے یعنی شرعی طور پر ظلم وغیرہ کا اطلاق اس چیز پر ہو گا جو شرعی محل سے بلاوجہ شرعی تجاوز کر جائے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہو گا ۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ظلم کو قیامت کے دن میدان حشر میں تاریکیاں اس طرح گھیرے ہوئے ہوں گی کہ وہ اس نور سے محروم رہے گا جو مومن کو نصیب ہو گا اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں فرمایا۔ آیت(يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ) 57۔ الحدیث:12)۔ یعنی قیامت کے دن مومنین کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں طرف دوڑتا ہو گا جس کی روشنی میں وہ اپنی منزل پائیں گے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ ظلمات (تاریکیوں) سے آخرت کے وہ شدائد (تکالیف و مشکلات) اور عذاب مراد ہیں جن سے قیامت کے دن واسطہ پڑے گا اور جن میں اہل دوزخ مبتلا ہوں گے) چنانچہ قرآن کریم میں بھی بعض جگہ ظلمات کے معنی شدائد مراد لئے گئے ہیں جیسا کہ ایک آیت میں فرمایا گیا ہے آیت(قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ) 6۔ الانعام:63) (کہہ دیجئے کہ تمہیں جنگل اور دریا کی تکلیف و مشکلات سے کون نجات دیتا ہے)۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے (یعنی دنیا میں اس کی عمر دراز کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ظلم کا پیمانہ لبریز کرے اور آخرت میں سخت عذاب میں گرفتار ہو) یہاں تک کہ جب اس کو پکڑے گا تو چھوڑے گا نہیں (اور وہ ظالم اس کے عذاب سے بچ کر نکل نہیں پائے گا) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھی۔ (وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ) 11۔ہود:102)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث میں گویا مظلوم لوگوں کو تسلی دی گئی ہے کہ وہ اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم و ستم پر صبر و استقامت اختیار کریں اور اس دن کا انتظار کریں جب قانون قدرت کے مضبوط ہاتھ ظالم کی گردن پر ہوں گے اور اس کو اپنے ظلم کی سخت سزا بھگتنی پڑے گی، نیز اس ارشاد گرامی میں ظالموں کے لئے سخت وعید و تنبیہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے اس مہلت پر مغرور نہ ہو جائیں بلکہ یقین کہ آخر الامر ان کو خدا کے سخت مواخذہ سے دوچار ہونا ہے اور اپنے ظلم کی سزا یقیناً بھگتنی ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ) 14۔ ابراہیم:42)۔ (یعنی اور تم اللہ تعالیٰ کو اس چیز سے غافل مت سمجھو جس کو ظالم اختیار کرتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مقام حجر سے گزرے تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا کہ تم ان لوگوں کے مکانات (کے کھنڈرات) میں نہ گھسنا جنہوں نے (کفر اختیار کر کے اور اپنی طرف بھیجے گئے اللہ کے پیغمبر علیہم السلام کو جھٹلا کر) خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے الاّ یہ کہ تم رونے والے ہو (یعنی اگر تم ان کھنڈرات کی صورت میں اس بد نصیب قوم کا المناک انجام دیکھ کر اور ان لوگوں کے سیاہ کارناموں کو یاد کر کے عبرت حاصل کرنا چاہو تو اس جگہ کو دیکھ سکتے ہو نیز تم اس جگہ سے غفلت و لاپرواہی کے ساتھ نہ گزرو) کہ مبادا تم پر بھی وہی مصیبت نازل ہو جائے جو ان پر نازل ہوئی تھی (کیونکہ ایسی جگہوں سے غفلت و بے پروائی کے ساتھ گزرنا اور عبرت نہ پکڑنا قساوت قلبی اور خوف خدا کے فقدان کی علامت ہے اور یہ چیز عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا باعث بن سکتی ہے، یا یہ مراد ہے کہ تم یہاں خدا کا خوف کھاؤ اور اور عبرت پکڑو کہ مبادا تم سے بھی وہی اعمال صادر ہونے لگیں جو اس قوم کے لوگوں کا شیوہ تھے اور پھر تمہیں بھی سزا بھگتنی پڑے) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیز تیز چل کر اس علاقہ سے گزر گئے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حجر اس جگہ کا نام ہے جو مشہور پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کا مسکن تھی! حجاز کے شمالی علاقہ میں، جس کا نام مدین ہے، ایک تاریخی وادی ہے جس کا نام وادی قری ہے اسی وادی میں تبوک سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر یہ جگہ واقع ہے یہاں قوم ثمود کی بستیاں تھیں، اس قوم نے جب طغیانی و سرکشی میں حد سے تجاوز کیا اور اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کو سخت تکلیفیں پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا، اور ان کی ساری بستیاں تباہ کر دی گئیں، ان بستیوں کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور زبان حال سے عبرت پذیر لوگوں کو قوموں کے عروج و زوال کی داستان سناتے ہیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ کے لئے تبوک جا رہے تھے یا غزوہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر اسی علاقہ سے ہوا، چنانچہ اس حدیث کا تعلق اسی وقت سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنے سر پر چادر ڈال کر اس جگہ سے جلدی گزرنا جیسا کہ کسی جگہ سے کوئی خوفزدہ شخص جلد سے جلد گزر جاتا ہے، اس وجہ سے تھا تاکہ آپ کی نظر مبارک اس تباہ شدہ قوم کے مکانات کھنڈرات پر نہ پڑے۔ اور حقیقت میں آپ کا یہ عمل مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تھا تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کریں، چنانچہ آپ نے پہلے تو قول کے ذریعہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا اور پھر از راہ تاکید اپنے فعل کے ذریعہ بھی توجہ دلائی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہاں سے اس طرح گزرنا اس بنا پر تھا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر خوف خدا کا نہایت غلبہ رہتا تھا اور عذاب الٰہی کے آثار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سب سے زیادہ لرزاں کر دیا کرتے تھے جیسا کہ ایک ارشاد میں فرمایا۔ انا اعلمکم باللہ واخشاکم۔ میں تم سب سے زیادہ خدا کا علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ خدا سے ڈرتا ہوں۔
ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس جگہ نہ تو کچھ کھائیں اور نہ وہاں کا پانی پئیں۔
بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ خدا کے سرکش بندوں اور ظالموں کے مکانات اور ان کی جگہوں میں نہ تو رہائش اختیار کی جائے اور نہ ان کے علاقوں کو اپنا وطن بنایا جائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کا کوئی حق رکھتا ہو، اور وہ حق خواہ (غیب و برائی کرنے اور روحانی و جسمانی ایذا رسانی وغیرہ کی صورت میں) آبروریزی کا ہو یا کسی اور چیز سے متعلق ہو (جیسے کوئی مالی مطالبہ یا ناحق خون وغیرہ) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس حق کو آج ہی کے دن (یعنی اسی دنیا میں) معاف کرا لے اس سے پہلے کہ وہ دن آئے یعنی قیامت کا دن کہ جس میں وہ نہ تو درہم رکھتا ہو گا نہ دینار (کہ جو اس حق کے بدلہ کے طور پر دے سکے) اگر (اس نے اپنے حق کو معاف کر دیا تو بہتر ہے ورنہ پھر) ظالم کے اعمال نامہ میں جو کچھ نیکیاں ہوں گی تو ان میں سے اس کے ظلم کے برابر یا واجب حق کے بقدر نیکیاں لے لی جائیں گی (اور مظلوم یا حق دار کو دے دی جائیں گی) اور اگر وہ کچھ بھی نیکیاں نہیں رکھتا ہو گا تو اس صورت میں اس مظلوم یا حق دار کے گناہوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) گناہ لے کر ظالم پر لاد دئیے جائیں گے۔ (بخاری)
تشریح
آخرت میں ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ اس طرح لیا جائے گا کہ اگر اس کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو وہ مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر وہ اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں نہیں رکھتا ہو گا تو اس صورت میں مظلوم کے وہ گناہ جو اس نے دنیا میں کیے ہوں گے اس ظالم پر لاد دیئے جائیں گے چنانچہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے ہی گا مزید برآں مظلوم کے گناہوں کے عذاب میں بھی مبتلا ہو گا اور مظلوم کو اس عذاب سے نجات دے دی جائے گی جس کا وہ ان گناہوں کی وجہ سے مستوجب ہوتا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ وہ نہ درہم رکھتا ہو گا نہ دینار اس طرف اشارہ کرتے ہیں جس شخص نے کسی پر کوئی ظلم و زیادتی حق تلفی کی ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ ہر حالت میں مظلوم یا حق دار سے اس ظلم یا حق کو ضرور معاف کرا لے خواہ اس معافی کے عوض روپیہ پیسہ خرچ کرنا پڑے اور اس دنیا ہی میں معافی تلافی کا ہو جانا اس سے کہیں زیادہ بہتر اور آسان ہے کہ عدم معافی کی صورت میں اس کی نیکیاں لے لے یا اپنے گناہوں کا بوجھ اس پر ڈال دے۔
اس کے ظلم یا واجب حق کے بقدر کے بارے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ان نیکیوں اور گناہوں کی مقدار کا تعین علم الٰہی کے سپرد ہے، یعنی وہی بہتر جانتا ہے کہ ان نیکیوں اور گناہوں کا لینا دینا کس طرح اور کس اعتبار سے ہو گا) تاہم ابن ملک رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ جن نیکیوں اور برائیوں کا لینا دینا ہو گا، ہو سکتا ہے کہ وہ اس موقع پر نفس اعمال ہوں گے جن کو جواہر کی مانند مجسم کر کے پیش کیا جائے گا) اور یہ احتمال بھی ہے کہ ایک دوسرے کو وہ نعمتیں یا عذاب ملیں جو ان نیکیوں یا برائیوں کی جزا و سزا کے طور پر حق تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم سے) فرمایا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ تو درہم و دینار (روپیہ پیسہ) ہو، اور نہ سامان و اسباب (یعنی انہوں نے اپنے جواب میں مفلس اس شخص کو بتایا جو مال و زر اور روپیہ و پیسہ سے تہی دست ہو جیسا کہ عام طور پر دنیا والے سمجھتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذہن اس طرف نہیں گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد دنیاوی طور پر مفلس شخص کے بارے میں پوچھنا نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوال کا تعلق اس شخص سے ہے جو آخرت کے اعتبار سے مفلس ہو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت مرحومہ میں مفلس شخص درحقیقت وہ ہے جو قیامت کے دن میدان حشر میں (دنیا سے) نماز، روزہ اور زکوٰۃ (اور دوسری عبادتیں) لے کر آئے، مگر حال یہ ہو گا کہ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی کسی کو (ناحق) مارا پیٹا تھا (غرض کہ اس نے جہاں تمام مالی و بدنی عبادتیں کی تھیں وہیں ان برائیوں کا مرتکب بھی ہوا تھا چنانچہ اس کی نیکیوں میں سے (پہلے کسی ایک مظلوم و صاحب حق کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی (اس طرح اس نے دنیا میں جس کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا ہو گا اور جس جس کو ناحق ستایا ہو گا ان سب کو الگ الگ اپنے حق کے بقدر اس کی نیکیوں میں سے دیا جائے گا یہاں تک کہ اگر اس کے ان گناہوں کا فیصلہ ہونے سے پہلے اس کی تمام نیکیاں ختم ہو جائیں گی (یعنی اگر اس کی تمام نیکیاں ان سب حق والوں کو دے دینے کے بعد بھی حقوق العباد کو تلف کرنے کی سزا پوری نہیں ہو گی) تو اس حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ بندوں کے حقوق کی پامالی کرنے والے کو آخرت میں نہ تو معافی ملے گی اور نہ اس کے حق میں شفاعت کام آئے گی، ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی کے لئے چاہے گا تو وہ مدعی (صاحب حق) کو اس کے مطالبہ کے مطابق اپنی نعمتیں عطا فرما کر راضی کر دے گا۔ نووی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ عام طور پر لوگ مفلس اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پاس مال و دولت اور روپیہ پیسہ نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں مفلس وہی شخص ہے جس کے بارے میں ذکر کیا گیا، چنانچہ دنیاوی مال و دولت سے تہی دست شخص کو حقیقی مفلس نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مال و دولت اور روپیہ پیسہ کا افلاس عارضی ہوتا ہے جو موت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے بلکہ بسا اوقات زندگی ہی میں وہ افلاس، مال و دولت کی فراوانی میں تبدیل ہو جاتا ہے اس کے برخلاف حدیث میں جس افلاس کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی سے ہے اور اس افلاس میں مبتلا ہونے والا شخص پوری طرح ہلاک ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے حق داروں کو ان کے حقوق ادا کیے جائیں گے، یہاں تک کہ بے سینگ بکری کا قصاص(بدلہ) سینگ دار بکری سے لیا جائے گا ۔ (مسلم) اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت۔ اتقوا الظلم، باب الانفاق میں ذکر کی جا چکی ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اس دن (میدان حشر میں) اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف اس حد تک کار فرما ہو گا کہ آدمیوں کے حقوق کا بدلہ تو لیا ہی جائے گا لیکن حیوانات کہ جن کو انسان کی طرح مکلف قرار نہیں دیا گیا ہے ان سے بھی حق تلفی کا بدلہ لیا جائے گا۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ یہ قصاص یعنی بدلہ (جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہے) اس طرح کا قصاص نہیں ہے جو مکلف سے لیا جاتا ہے بلکہ اس سے مقابلہ کا قصاص مراد ہے لیکن ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کو مقابلہ کا قصاص قرار دینا محل نظر ہے اور یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس قصاص سے بھی وہی قصاص مراد ہے، جو مکلف سے لیا جاتا ہے مگر اس پر یہ اشکال واقع ہو گا کہ حیوان مکلف نہیں ہوتا لہٰذا اس سے قصاص کس طرح لیا جائے گا؟ اس کا مختصر جواب ہے یہ کہ اول تو اللہ تعالیٰ فعال لما یرید ہے اس اعتبار سے وہ اپنی مرضی کا مالک اور اپنے ہر فعل پر قادر و مختار ہے لہٰذا ولا یسال عما یفعل یعنی وہ جو کچھ کرے گا اور جس طرح کرے گا اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا دوسرے یہ کہ یہاں بکری سے قصاص لئے جانے کا ذکر درحقیقت بندوں کو اس امر سے آگاہ کرنے کے لئے ہے کہ کسی کا کوئی حق ضائع نہیں ہو گا بلکہ جو بھی شخص جس شخص کا حق مارے گا اور اس کے ساتھ ظلم کرے گا اس سے اس حق تلفی اور ظلم کا بدلہ حق دار اور مظلوم کو ضرور دلایا جائے گا۔ یہ دوسری تاویل زیادہ اچھی اور زیادہ قابل فہم ہے۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم امعہ نہ ہو یعنی یہ نہ کہو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے آپ کو اس امر پر قائم رکھو کہ اگر لوگ بھلائی کریں تو تم بھی بھلائی کرو، اور اگر لوگ برائی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا۔
تشریح اِمَّعَۃ اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی کوئی رائے اور عقل نہ رکھتا ہو اور بے سمجھے بوجھے دوسروں کی رائے اور دوسروں کے کہنے پر چلتا ہو۔ یہاں حدیث میں اس لفظ سے وہ شخص مراد ہے جو یہ کہے کہ لوگ جیسا سلوک میرے ساتھ کریں گے ویسا ہی سلوک میں بھی ان کے ساتھ کروں گا، اگر وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کروں گا اور اگر وہ میرے ساتھ برائی کریں گے تو میں بھی ان کے ساتھ برائی کروں گا، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایسے آدمی مت بنو، کیونکہ یہ دین و دانش کے خلاف بات ہے بھلائی کا بدلہ بھلائی تو ہے ہی لیکن برائی کا بدلہ بھی بھلائی ہی کو قرار دو۔ جو شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تم اس کے ساتھ بھلائی کر کے گویا اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو کیونکہ انتقاما بھی ظلم اور برائی کی راہ کو ترک کرنا احسان ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اگر لوگ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم نہ کرو سے مراد یہ ہو کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے تو تم اس کے مقابلہ میں حد سے تجاوز نہ کرو بلکہ اعتدال کی حد میں رہتے ہوئے اس سے بدلہ لو، جیسا کہ مشروع ہے۔ یا برائی کرنے والوں سے بدلہ لینے ہی پر اپنے آپ کو پابند نہ بناؤ بلکہ ان کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ بھی کرو۔ اور یا برائی کا بدلہ بھلائی کو قرار دے کہ برائی کرنے والے کے ساتھ احسان کرو۔ واضح رہے کہ ان تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت وہ ہے جس کو عام مسلمانوں کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے دوسری صورت کا تعلق ان مسلمانوں سے ہے جن کا شمار خواص میں ہوتا ہے اور تیسری صورت جو سب سے اعلیٰ درجہ ہے، ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کو اخص الخواص کہا جاتا ہے۔
حضرت شیخ علی متقی رحمۃ اللہ نے ایک رسالہ میں بڑی عارفانہ بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی محبت کو پہچاننے کا معیار یہ چار چیزیں ہیں:
١۔ جس شخص پر دنیا کی محبت غالب ہوتی ہے اوہ لوگوں کو بلاوجہ ایذا پہنچاتا اور بغیر کسی پیش آمدہ معاملہ کے ان کے ساتھ برائی کرتا ہے۔
٢۔ جو شخص دنیا کی محبت میں اس درجہ مبتلا نہیں ہوتا وہ کسی کو ایذا پہنچانے میں ابتدا نہیں کرتا، البتہ جب کوئی شخص اس کو ایذا پہنچاتا ہے تو وہ حد سے تجاوز کئے بغیر اس کو اسی قدر ایذا پہنچتا ہے جس کو شریعت نے بدلہ کے طور جائز رکھا ہے۔
٣۔ جس کی آخرت کی محبت قوی ہوتی ہے اور دنیا کی محبت ضعف تو وہ اس شخص کے ساتھ عفو درگزر کرتا ہے جو اس پر ظلم کرتا ہے۔
٤۔ جس شخص کی آخرت کی محبت زیادہ قوی ہوتی ہے وہ ظلم کے مقابلہ پر احسان کرتا ہے۔ اور یہ وہ درجہ ہے جو صدیقین اور مقربین کو حاصل ہوتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ آپ مجھ کو ایک نصیحت نامہ لکھ کر بھیج دیجئے (جس پر میں عمل پیرا ہو سکوں اور آپ کو وہ نصیحت میرے دینی و دنیاوی امور میں میرے لئے فلاح و سعادت کی باعث ہو) اور وہ نصیحت نامہ طویل نہ ہو (بلکہ مختصر اور جامع ہو، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کلمات لکھ کر بھیج دئیے۔ تم پر سلامتی ہو۔ بعد ازاں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے کہ جو شخص لوگوں کی خفگی و ناراضگی سے بے پرواہ ہو اور لوگوں کی ناراضگی و ناخوشی کا سبب بنے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی محبت کی طرف سے اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے (یعنی اگر کوئی شخص ایسا کام کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کا باعث ہو اور لوگوں کی ناراضگی و ناخوشی کا سبب بنے تو اللہ تعالیٰ اس کام کی وجہ سے اس سے خوش ہوتا ہے اور آخر الامر مخلوق کو بھی اس سے راضی و خوش کر دیتا ہے اور لوگوں کے شرو فساد سے اس کو محفوظ رکھتا ہے) اور جو شخص لوگوں کی رضامندی و خوشنودی کو مد نظر رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خفگی و ناراضگی سے بے پرواہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اور سلامتی ہو تم پر۔ (ترمذی)
تشریح
اس کو لوگوں کو سپرد کر دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خفگی و ناراضگی سے بے پرواہ ہو کر لوگوں ہی کی رضامندی و خوشنودی کو ترجیح دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے اور اس کے امور کو لوگوں کے سپرد کر دیتا ہے یہی نہیں کہ اس کے ان امور میں اس کی مدد نہیں کرتا اور دوسروں کے شر و فتنہ سے اس کو محفوظ نہیں رکھتا بلکہ لوگوں کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔ جو اس کو ایذا پہنچاتے ہیں اور اس پر ظلم و ستم کرتے ہیں حاصل یہ کہ بندوں کے حق میں اصل چیز رضائے مولی، اگر خدا راضی و خوش ہے تو مخلوق خدا بھی راضی اور مطیع ہو جائے گی اور اگر رضائے مولیٰ پر نظر نہ ہو تو پھر نہ خدا راضی و خوش ہوتا ہے اور نہ مخلوق خدا راضی و خوش ہوتی ہے۔
اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خط کے شروع میں بھی سلام لکھا جائے اور آخر میں بھی چنانچہ شروع کا سلام تو ملاقات کے سلام کا درجہ رکھتا ہے اور آخر کا سلام رخصت کے سلام کا قائم مقام ہوتا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت۔ (اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ) 6۔ الانعام:82)۔ نازل ہوئی تو اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بڑا بوجھ محسوس ہوا (کیونکہ انہوں نے یہ گمان کیا کہ ظلم سے مراد مطلق گناہ ہیں) چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہم میں ایسا کون شخص ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہیں کیا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ بات نہیں ہے (یعنی ظلم سے وہ مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو یعنی مطلق گناہ) بلکہ ظلم سے شرک مراد ہے۔ کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے (مومن) بیٹے کو کی تھی (اور وہ یہ کہ) اے میرے بیٹے! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا (یعنی ایمان باللہ اور ان تمام چیزوں میں کہ جن پر ایمان لانا واجب ہے شرک) کی آمیزش نہ کرنا) کیونکہ شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) ظلم سے وہ مراد نہیں ہے جس کا تم نے گمان کیا ہے بلکہ اس سے وہ مراد ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ نے ظلم کو گناہ پر حمل کیا یعنی وہ سمجھے کہ اس آیت میں جن مومنین کو مامون اور ہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے ان سے وہی مومنین مراد ہیں جن کے اعمال، گناہ و معصیت کی آمیزش سے بالکل پاک وصاف ہوں، چنانچہ وہ اپنے گمان کے مطابق اس آیت کریمہ کے نزول سے بہت پریشان ہوئے اور حضور سے عرض کیا کہ اس آیت کی روشنی میں تو ہم میں سے شاید ہی کوئی مومن ہدایت یافتہ اور مومن قرار پائے کیونکہ ہم میں سے ایسا کون شخص ہے جس سے کبھی معصیت و گناہ صادر نہ ہوا ہو۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے واضح فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے مراد گناہ نہیں ہے جیسا کہ تم نے گمان کیا ہے بلکہ شرک مراد ہے۔
اگر اس موقع پر یہ اشکال واقع ہو کہ ایمان کے ساتھ شرک کا مخلوط ہونا کیوں کر ممکن ہے کیونکہ ایمان شرک کی ضد ہے، البتہ ایمان کے ساتھ گناہ کا مخلوط ہونا سمجھ میں آنے والی بات ہے اور اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذہن اس طرف گیا تھا کہ ظلم سے مراد گناہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ایمان کے ساتھ شرک کا مخلوط ہونا واقع کے اعتبار سے صحیح ہے، اس کی مثال مشرکین مکہ تھے، جو اگرچہ اللہ پر ایمان رکھتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی بت پرستی بھی کرتے۔ واضح رہے کہ شرک کی دو قسمیں ہیں ایک تو شرف فی الربوبیۃ یعنی عبادت و تعظیم، میں اور کو بھی خدا قرار دینا، اس قسم کے مشرک دنیا میں کم ہیں، دوسرے شرک فی الالوہیۃ یعنی عبادت و تعظیم، اور اللہ کی صفات خاص جیسے خالقیت، رزاقیت اور حاجت براری وگیرہ میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا، اس قسم کے مشرک دنیا میں بہت سے نام کے مسلمان بھی اس شرک میں گرفتار ہیں) چنانچہ حدیث میں جس شرک کو ظلم کا محمول قرار دیا گیا ہے اس سے وہ شرک مراد ہے جس کا تعلق دوسری قسم سے ہو۔ اس بات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے۔ (وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ) 12۔یوسف:106)۔ (اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں اور شرک بھی کرتے جاتے ہیں)۔
علاوہ ازیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایمان کے ساتھ ظلم یعنی شرک کو ملانے سے یہ مراد ہو کہ زبان سے تو یمان کا اقرار کیا جائے اور دل میں شرک کا اندھیرا ہو جیسے منافقین کا حال ہوتا ہے کہ وہ ظاہری ایمان کے ساتھ باطنی شرک کم مخلوط رکھتے ہیں بایں طور کہ وہ زبان سے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں اور ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں مگر وہ دل سے ایمان کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کے اندر شرک اور اسلام دشمنی کے جذبات بھرے ہوئے ہیں۔
ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔لقمان:13) (کیونکہ شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے) استیناف تعلیل ہے، جس کی مراد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ شرک ایسا گناہ ہے جو ایمان کو سرے سے ختم کر دیتا ہے، گویا ایمان اور شرک کسی بھی حال میں جمع نہیں ہو سکتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ اس کے برخلاف اور تمام گناہ اس درجہ کے نہیں ہیں کہ وہ ایمان کے منافی ہوں، چنانچہ تمام اہل سنت والجماعت کا یہی مسلک ہے کہ کفر و شرک کے علاوہ اور کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو ایمان کو سرے سے ختم کر دے جب کہ معتزلہ، خوارج اور دیگر اہل بدعت ہر گناہ کبیرہ کو ایمان کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہلے یہ ہی سمجھا تھا کہ اس آیت میں جن لوگوں کو مومن و ہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے ان سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کو گناہ سے ملوث نہیں کیا ہے کیونکہ شرک کا ایمان کے ساتھ مخلوط ہونا سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پر واضح فرمایا کہ بعض صورتوں میں ایمان کے ساتھ شرک کا ملنا ممکن ہے جیسے کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور اس کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک کرے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آیت میں ایمان باللہ کا مفہوم اسی وقت پورا ہوتا ہے اس سے اس کے لغوی معنی مراد ہیں نہ کہ شرعی معنیٰ کیونکہ شرعی نقطہ نظر سے ایمان تمام صفات کمالیہ کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرنے اور اس کی ذات کو تمام نقصان و عیوب سے پاک قرار دینے پر مشتمل ہو، ورنہ (آیت میں لفظ ایمان کو اس کے لغوی معنی پر محمول قرار دینے کی صورت میں) یہ لازم آئے گا کہ حقیقت کے اعتبار سے تمام مشرکین و کفار ایمان رکھنے والے ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ولئن سالتہم من خلقہم لیقولن اللہ۔ لیکن ظاہر ہے کہ شریعت میں اس طرح کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اصل ایمان وہی ہے جو اللہ کی ذات کے اعتراف و اقرار کے ساتھ اس کی صفات خاص اور عبادت میں کسی کو شریک قرار نہ دینے پر مشتمل ہو) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے فعل و عمل کی بھی اجازت نہیں دی ہے جس سے ظاہرا اور صورۃ ہی شرک کا ارتکاب ہوتا ہو جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ انا اغنی الشرکا عن الشرک۔
حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن مرتبہ کے اعتبار سے بد ترین آدمی وہ ہو گا جو دنیا کے سبب آخرت کو ضائع کر دے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یوں تو خود اپنی خاطر آخرت کے مفاد پر دنیا کے مفاد کو ترجیح دینا نہایت سنگین برائی ہے لیکن یہ برائی اس وقت کہیں زیادہ سخت اور بد تر ہو جاتی ہے جب کسی دوسرے کے لئے دنیا کو حاصل کرے اور اس کی وجہ سے لوگوں پر ظلم کر کے اپنی آخرت کو ضائع کر دے جیسا کہ بعض ناعاقبت اندیش اور مفاد پرست لوگ ظالموں اور بدکاروں کی مدد و اعانت کرتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دفتر یعنی نامہ اعمال تین طرح کے ہیں ایک تو وہ نامہ اعمال ہے جس کو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا، اور وہ نامہ اعمال وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کیا گیا ہو (یعنی کفر و شرک کا گناہ جس نامہ اعمال میں ہو گا اس کی بخشش ممکن نہیں ہو گی) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا شرک کو نہیں بخشتا۔ دوسرا نامہ اعمال وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ یوں ہی نہیں چھوڑ دے گا (بلکہ اس کے بارے میں ضرور حکم کرتے گا) اور وہ نامہ اعمال وہ ہے جس میں بندوں کے آپس کے مظالم درج ہیں، چنانچہ وہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق) ایک دوسرے سے بدلہ لیں گے (یعنی اللہ تعالیٰ مظلوم کو ظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ دلوائے گا یا یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کرنا چاہے گا اس کو صاحب حق کے مطالبہ سے بری کرا دے گا بایں طور کہ وہ صاحب حق کو اپنے خزانہ رحمت سے اس کے حق کے بقدر یا اس سے زائد نعمتیں عطا فرما کر راضی کر دے گا اور کہے گا کہ اب تم اس شخص کو معاف کر دو جس نے تم پر ظلم کیا تھا یا تمہارا کوئی حق غصب کیا تھا، چنانچہ وہ راضی و خوش ہو کر اس شخص کو معاف کر دے گا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں گویا اس کے حق کا بدلہ اور دنیا کی دیت کا قائم مقام ہو جائیں گی) اور تیسرا اعمال نامہ وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ کو پرواہ نہیں ہو گی (یعنی اگر وہ چاہے تو اس اعمال نامہ کے مطابق سزا و عذاب کا فیصلہ صادر کرے اور اگر چاہے تو اس پر کوئی کاروائی نہ کرے) اور وہ اعمال نامہ وہ جس میں بندوں کا اللہ کے ساتھ ظلم کرنا یعنی ان کی طرف سے حقوق اللہ میں تقصیر ٍو کوتاہی کا مرتکب ہونا درج ہے) چنانچہ یہ اعمال نامہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہو گا کہ چاہیں وہ بندے کو اس کے عمل کے مطابق سزا دے اور چاہے اس سے درگزر و عفو کا معاملہ کرے اور اس کو کوئی سزا نہ دے۔
تشریح
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ دنیا میں بندے جن برائیوں اور گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں ان میں سے جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو گا جیسے کسی نے کسی پر ظلم کیا ہو گا، کسی کا حق مارا ہو گا، کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچایا ہو گا وغیرہ وغیرہ، تو آخرت میں ان گناہوں پر ہر حالت میں مواخذہ ہو گا اور اس مواخذہ سے کسی کو نجات نہیں ملے گی، اسی طرح جن برائیوں اور گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہو گا ان میں سے شرک کا گناہ بخشش و معافی کے قابل نہیں ہو گا البتہ شرک کے علاوہ اور تمام گناہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہوں گے کہ چاہے وہ ان گناہوں پر عذاب دے اور چاہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اپنے آپ کو مظلوم کی بددعا سے بچاؤ (یعنی کسی پر ظلم نہ کرو کہ وہ تمہارے حق میں بددعا کرے) کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ سے صرف اپنا حق مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اس کے حق سے باز نہیں رکھتا (یعنی ہر حق دار کو اس کا حق ضرور دیتا ہے۔
حضرت اوا بن شرحبیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو شخص کسی ظالم کی تقویت و تائید کے لئے اس کے ساتھ چلے یعنی اس کی موافقت و حمایت کرے اور وہ یہ جانتا ہو کہ (جس شخص کی مدد و تائید کر رہا ہے) وہ ایک ظالم انسان ہے تو وہ شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یعنی وہ کمال ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ظالم حقیقت میں اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے (دوسروں تک اس کے ظلم کے اثرات نہیں پہنچتے) تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ بے شک ظالم اپنی ظالمانہ حرکتوں سے اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، لیکن اس کی نحوست دوسروں کو بھی متاثر کرتی ہے یہاں تک کہ حباریٰ اپنے گھونسلے میں ظالم کے ظلم کے سبب دبلا ہو کر مر جاتا ہے چاروں کو بیہقی رحمۃ اللہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
حباریٰ ایک پرندہ کا نام ہے جس کو اردو میں سرخاب کہتے ہیں، بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پرندہ اپنے دانہ پانی کی تلاش میں بہت دور دور تک جاتا ہے، عام طور پر اس کا گھونسلہ ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں سے پانی کی جگہ کئی کئی دن کی راہ کے فاصلہ پر ہوتی ہے، اور وہ اپنے گھونسلہ سے اتنے طویل فاصلہ پر جاتا ہے اور پانی پی کر اپنے گھونسلہ میں آتا ہے ایک محقق نے لکھا ہے کہ بعض مرتبہ دیکھا گیا کہ بصرہ میں سرخاب کے پیٹ میں حبہ الخضرار نامی جڑی برآمد ہوئی جب کہ وہ جڑی صرف ایک علاقہ میں پائی جاتی ہے اور وہ علاقہ بصرہ سے کئی دن کی راہ کے فاصلہ پر واقع ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ ظالم کے اثرات دوسروں پر اس حد تک مرتب ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی نحوست سے بارش برسانا بند کر دیتا ہے اور پانی کی قلت سے کھانے پینے کی چیزیں نایاب ہو جاتا ہیں چنانچہ انسان و حیوان کھانا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ سرخاب جیسا جانور بھی اپنے گھونسلے ہی میں سوکھ سوکھ کر مر جاتا ہے جو اپنے چارے و پانی کے حصول میں دور دراز کے علاقوں تک کی رسائی رکھتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرخاب کا اپنے گھونسلے میں سوکھ سوکھ کر مر جانا قحط اور خشک سالی کی علامت ہے اور اس کے ظلم کی نحوست کے اثرات کو بیان کرنے کے لئے خاص طور پر سرخاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
جس شخص نے یہ کہا تھا کہ ظالم حقیقت میں اپنے آپ ہی کو نقصان پہنچاتا ہے اس کی مراد یہ تھی کہ ظالم اگرچہ ظاہر میں مظلوم کو نقصان پہنچتا ہے مگر حقیقت میں اس نقصان کا وہ خود ہی شکار ہوتا ہے کیونکہ مظلوم کا نقصان تو ایسا نقصان ہے جس پر اس کو حق تعالیٰ کی طرف سے صبر کا پھل ملے گا اور ظالم سے اس ظلم کا بدلہ لے لے گا جب کہ ظالم کے حصہ میں آخر الامر خسران و تباہی کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے اس وقت پیش آنے والے کسی قرینہ کی بنا پر اس بات کو عمومیت کے ساتھ بیان کیا کہ ظالم اپنے ظلم کے نتیجہ میں خود تو نقصان و خسران میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اس کے ظلم کی نحوست کسی نہ کسی صورت میں دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
اغلب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو بات بیان فرمائی ہے وہ خود ان کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ یہ مضمون کسی حدیث کا ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہو گا یا یہ کہ ایک حدیث میں چونکہ یہ منقول ہے کہ بارش کا نہ ہونا ظلم کی نحوست کا اثر ہوتا ہے ظاہر ہے کہ بارش نہ ہونے سے حیوانات کو ضرور نقصان پہنچتا ہے اس لئے انہوں نے اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے مذکورہ بات فرمائی۔