حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ الْجَرْمِيُّ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَرٌ مِنْ عُكْلٍ، فَأَسْلَمُوا فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ، فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا، فَارْتَدُّوا وَقَتَلُوا رُعَاتَهَا، وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ، فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمْ، فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ، وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَلَ أَعْيُنَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوقلابہ جرمی نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلہ عکل کے چند لوگ آئے اور اسلام قبول کیا لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی (ان کے پیٹ پھول گئے) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ صدقہ کے اونٹوں کے ریوڑ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ ملا کر پئیں۔ انہوں نے اس کے مطابق عمل کیا اور تندرست ہو گئے لیکن اس کے بعد وہ مرتد ہو گئے اور ان اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کر کے اونٹ ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے اور انہیں پکڑ کے لایا گیا پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں (کیونکہ انہوں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا) اور ان کے زخموں پر داغ نہیں لگوایا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ "أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَطَعَ الْعُرَنِيِّينَ، وَلَمْ يَحْسِمْهُمْ حَتَّى مَاتُوا".
ہم سے ابویعلیٰ محمد بن صلت نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرینیوں کے (ہاتھ پاؤں) کٹوا دئیے لیکن ان پر داغ نہیں لگوایا، یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ وُهَيْبٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُكْلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا فِي الصُّفَّةِ، فَاجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنَا رِسْلًا، فَقَالَ: "مَا أَجِدُ لَكُمْ إِلَّا أَنْ تَلْحَقُوا بِإِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ، فَأَتَوْهَا فَشَرِبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، حَتَّى صَحُّوا وَسَمِنُوا، وَقَتَلُوا الرَّاعِيَ، وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّرِيخُ، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي آثَارِهِمْ، فَمَا تَرَجَّلَ النَّهَارُ حَتَّى أُتِيَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِمَسَامِيرَ فَأُحْمِيَتْ، فَكَحَلَهُمْ وَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ، وَأَرْجُلَهُمْ وَمَا حَسَمَهُمْ، ثُمَّ أُلْقُوا فِي الْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ، فَمَا سُقُوا حَتَّى مَاتُوا"قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: سَرَقُوا وَقَتَلُوا وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سنہ ۶ ھ میں آئے اور یہ لوگ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ مدینہ منورہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے لیے دودھ کہیں سے مہیا کرا دیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ تم لوگ ہمارے اونٹوں میں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ آئے اور ان کا دودھ اور پیشاب پیا اور صحت مند ہو کر موٹے تازے ہو گئے۔ پھر انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فریادی پہنچا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش میں سوار بھیجے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ انہیں پکڑ کر لایا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سلائیاں گرم کی گئیں اور ان کی آنکھوں میں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کے (زخم سے خون کو روکنے کے لیے) انہیں داغا بھی نہیں گیا۔ اس کے بعد وہ حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) میں ڈال دئیے گئے، وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ انہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ "أَنَّ رَهْطًا مِنْ عُكْلٍ أَوْ قَالَ عُرَيْنَةَ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ مِنْ عُكْلٍ، قَدِمُوا الْمَدِينَةَ، فَأَمَرَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلِقَاحٍ، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَخْرُجُوا فَيَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِهَا وَأَلْبَانِهَا، فَشَرِبُوا حَتَّى إِذَا بَرِئُوا، قَتَلُوا الرَّاعِيَ وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُدْوَةً، فَبَعَثَ الطَّلَبَ فِي إِثْرِهِمْ، فَمَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى جِيءَ بِهِمْ، فَأَمَرَ بِهِمْ فَقَطَعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ، وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ، فَأُلْقُوا بِالْحَرَّةِ يَسْتَسْقُونَ فَلَا يُسْقَوْنَ"قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: هَؤُلَاءِ قَوْمٌ سَرَقُوا وَقَتَلُوا، وَكَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ، وَحَارَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے چند لوگ میں سمجھتا ہوں عکل کا لفظ کہا، مدینہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دودھ دینے والی اونٹنیوں کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ وہ اونٹوں کے گلہ میں جائیں اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں۔ چنانچہ انہوں نے پیا اور جب وہ تندرست ہو گئے تو چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو ہنکا لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خبر صبح کے وقت پہنچی تو آپ نے ان کے پیچھے سوار دوڑائے۔ ابھی دھوپ زیادہ پھیلی بھی نہیں تھی کہ وہ پکڑ کر لائے گئے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور ان کی بھی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور انہیں حرہ میں ڈال دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے چوری کی تھی، قتل کیا تھا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول سے غدارانہ لڑائی لڑی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِي خَلَاءٍ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا، قَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ، فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ يَمِينُهُ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر عمری نے، انہیں خبیب بن عبدالرحمٰن نے، انہیں حفص بن عاصم نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے نیچے سایہ دے گا جبکہ اس کے عرش کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ عادل حاکم، نوجوان جس نے اللہ کی عبادت میں جوانی پائی، ایسا شخص جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، وہ آدمی جو اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، وہ شخص جسے کسی بلند مرتبہ اور خوبصورت عورت نے اپنی طرف بلایا اور اس نے جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اتنا پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ . ح وحَدَّثَنِي خَلِيفَةُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَوَكَّلَ لِي مَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ، وَمَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ، تَوَكَّلْتُ لَهُ بِالْجَنَّةِ".
ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا ہم سے عمر بن علی نے بیان کیا۔ (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور مجھ سے خلیفہ بن حیاط نے بیان کیا، ان سے عمر بن علی نے، ان سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مجھے اپنے دونوں پاؤں کے درمیان یعنی (شرمگاہ) کی اور اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (یعنی زبان)کی ضمانت دے دی تو میں اسے جنت میں جانے کا بھروسہ دلاتا ہوں۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَلا يَزْنُونَ سورة الفرقان آية 68 وَلا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 32
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الفرقان میں) ارشاد فرمایا «ولا يزنون» اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے اور (سورۃ بنی اسرائیل) میں فرمایا «ولا تقربوا الزنا إنه كان فاحشة وساء سبيلا» اور زنا کے قریب نہ جاؤ کہ وہ بےحیائی کا کام ہے اور اس کا راستہ برا ہے۔
أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَخْبَرَنَا أَنَسٌ ، قَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمُوهُ أَحَدٌ بَعْدِي، سَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وَإِمَّا قَالَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ، حَتَّى يَكُونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً، الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ".
ہمیں داؤد بن شبیب نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، کہا ہم کو انس رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ"، قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ ؟ قَالَ: هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَخْرَجَهَا، فَإِنْ تَابَ، عَادَ إِلَيْهِ هَكَذَا: وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسحاق بن یوسف نے خبر دی، کہا ہم کو فضیل بن غزوان نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ بندہ جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا اور جب وہ قتل ناحق کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایمان اس سے کس طرح نکال لیا جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس طرح اور اس وقت آپ ان نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر پھر الگ کر لیا پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتا ہے، اس طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَالتَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ذکوان نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، وہ چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہوا ہے۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، وَسُلَيْمَانُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ ؟ قَالَ: "أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وَهُوَ خَلَقَكَ". قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: "أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ، مِنْ أَجْلِ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ ؟ قَالَ: أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ"، قَالَ يَحْيَى : وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي وَاصِلٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مِثْلَهُ. قَالَعَمْرٌو فَذَكَرْتُهُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ وَكَانَ حَدَّثَنَا، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ ، وَوَاصِلٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ ، قَالَ: دَعْهُ دَعْهُ.
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے منصور اور سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابوائل نے، ان سے ابومیسرہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے۔ فرمایا یہ کہ تم اللہ کا کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خطرے سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہو گی۔ میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا کہ پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمٰن بن مہدی سے کیا اور انہوں نے ہم سے یہ حدیث سفیان ثوری سے بیان کی، ان سے اعمش، منصور اور واصل نے، ان سے ابوائل نے اور ان سے ابومیسرہ نے۔ عبدالرحمٰن بن مہدی نے کہا کہ تم اس سند کو جانے بھی دو۔
وَقَالَ الْحَسَنُ مَنْ زَنَى بِأُخْتِهِ حَدُّهُ حَدُّ الزَّانِي
اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بہن سے زنا کرے تو اس پر زنا کی حد پڑے گی۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"حِينَ رَجَمَ الْمَرْأَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ: قَدْ رَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ جب انہوں نے جمعہ کے دن عورت کو رجم کیا تو کہا کہ میں نے اس کا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کیا ہے۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ "سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى هَلْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: قَبْلَ سُورَةِ النُّورِ أَمْ بَعْدُ ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي".
مجھ سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد طحان نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے کہا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو رجم کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے پوچھا: سورۃ النور سے پہلے یا اس کے بعد کہا کہ یہ مجھے معلوم نہیں (امر نامعلوم کے لیے اظہار لاعلمی کر دینا بھی امر محمود ہے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ "أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمْ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثَهُ أَنَّهُ قَدْ زَنَى، فَشَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَ، وَكَانَ قَدْ أُحْصِنَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رجم کا حکم دیا اور انہیں رجم کیا گیا، وہ شادی شدہ تھے۔
وَقَالَ عَلِيٌّ، لِعُمَرَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ، عَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ
اور علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ پاگل سے ثواب یا عذاب لکھنے والی قلم اٹھا لی گئی ہے یہاں تک کہ اسے ہوش ہو جائے۔ بچہ سے بھی قلم اٹھا لی گئی ہے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔ سونے والا بھی مرفوع القلم ہے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے یعنی دماغ اور ہوش درست کر لے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَنَادَاهُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى رَدَّدَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، دَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبِكَ جُنُونٌ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ أَحْصَنْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ ؟"
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ اور سعید بن المسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب ماعز بن مالک اسلمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے، انہوں نے آپ کو آواز دی اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے زنا کر لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ انہوں نے یہ بات چار دفعہ دہرائی جب چار دفعہ انہوں نے اس گناہ کی اپنے اوپر شہادت دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور دریافت فرمایا کیا تم دیوانے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ پھر کیا تم شادی شدہ ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو۔
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : فَأَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: فَكُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ هَرَبَ، فَأَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ، فَرَجَمْنَاهُ.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر مجھے انہوں نے خبر دی، جنہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ رجم کرنے والوں میں، میں بھی تھا ہم نے انہیں آبادی سے باہر عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن ہم نے انہیں حرہ کے پاس پکڑا اور رجم کر دیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "اخْتَصَمَ سَعْدٌ، وَابْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ"، زَادَ لَنَا قُتَيْبَةُ ، عَنْ اللَّيْثِ : "وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما نے آپس میں (ایک بچے عبدالرحمٰن نامی میں) اختلاف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبد بن زمعہ! بچہ تو لے لے بچہ اسی کو ملے گا جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے وہ پیدا ہوا اور سودہ! تم اس سے پردہ کیا کرو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ قتیبہ نے لیث سے اس زیادہ کے ساتھ بیان کیا کہ زانی کے حصہ میں پتھر کی سزا ہے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکا اسی کو ملتا ہے جس کی جورو یا لونڈی کے پیٹ سے ہوا ہو اور حرام کار کے لیے صرف پتھر ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَهُودِيٍّ وَيَهُودِيَّةٍ، قَدْ أَحْدَثَا جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُمْ: مَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ، قَالُوا: إِنَّ أَحْبَارَنَا أَحْدَثُوا تَحْمِيمَ الْوَجْهِ وَالتَّجْبِيهَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: ادْعُهُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالتَّوْرَاةِ، فَأُتِيَ بِهَا فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، وَجَعَلَ يَقْرَأُ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُابْنُ سَلَامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ فَإِذَا آيَةُ الرَّجْمِ تَحْتَ يَدِهِ: فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا". قَالَ ابْنُ عُمَرَ: "فَرُجِمَا عِنْدَ الْبَلَاطِ، فَرَأَيْتُ الْيَهُودِيَّ أَجْنَأَ عَلَيْهَا".
ہم سے محمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو لایا گیا، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمہاری کتاب تورات میں اس کی سزا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے علماء نے (اس کی سزا) چہرہ کو سیاہ کرنا اور گدھے پر الٹا سوار کرنا تجویز کی ہوئی ہے۔ اس پر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! ان سے توریت منگوائیے۔ جب توریت لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم والی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ لیا اور اس سے آگے اور پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ (اور جب اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تو) آیت رجم اس کے ہاتھ کے نیچے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے متعلق حکم دیا اور انہیں رجم کر دیا گیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ انہیں بلاط (مسجد نبوی کے قریب ایک جگہ) میں رجم کیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ یہودی عورت کو مرد بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، "أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ، جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبِكَ جُنُونٌ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أُحْصَنْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ، فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، فَرَّ، فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَيْرًا وَصَلَّى عَلَيْهِ"لَمْ يَقُلْ يُونُسُ ، وَابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ : "فَصَلَّى عَلَيْهِ". سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: "فَصَلَّى عَلَيْهِ يَصِحُّ". قَالَ: رَوَاهُ مَعْمَرٌ، قِيلَ لَهُ رَوَاهُ غَيْرُ مَعْمَرٍ، قَالَ: لَا.
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب (ماعز بن مالک) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کیا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے چار مرتبہ اپنے لیے گواہی دی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم دیوانے ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہارا نکاح ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ میں رجم کیا گیا۔ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن انہیں پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور ان کا جنازہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی جس کے وہ مستحق تھے۔
قَالَ عَطَاءٌ: لَمْ يُعَاقِبْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَلَمْ يُعَاقِبْ الَّذِي جَامَعَ فِي رَمَضَانَ، وَلَمْ يُعَاقِبْ عُمَرُ صَاحِبَ الظَّبْيِ وَفِيهِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عطاء نے کہا کہ ایسی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی تھی۔ ابن جریج نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کوئی سزا نہیں دی تھی جنہوں نے رمضان میں بیوی سے صحبت کر لی تھی۔ اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے (حالت احرام میں) ہرن کا شکار کرنے والے کو سزا نہیں دی اور اس باب میں ابوعثمان کی روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ رَجُلًا وَقَعَ بِامْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ، فَاسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: هَلْ تَسْتَطِيعُ صِيَامَ شَهْرَيْنِ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا ؟".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا حکم پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا دو مہینے روزے رکھنے کی تم میں طاقت نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کہا کہ پھر ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلاؤ۔
وَقَالَ اللَّيْثُ : عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ : "أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: احْتَرَقْتُ، قَالَ: مِمَّ ذَاكَ ؟ قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: لَهُ تَصَدَّقْ ؟ قَالَ: مَا عِنْدِي شَيْءٌ، فَجَلَسَ وَأَتَاهُ إِنْسَانٌ يَسُوقُ حِمَارًا، وَمَعَهُ طَعَامٌ، قَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ، مَا أَدْرِي مَا هُوَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ ؟ فَقَالَ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ: خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنِّي ؟ مَا لِأَهْلِي طَعَامٌ، قَالَ: ، فَكُلُوهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَبْيَنُ، قَوْلُهُ: "أَطْعِمْ أَهْلَكَ".
اور لیث نے بیان کیا، ان سے عمرو بن الحارث نے، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے، ان سے محمد بن جعفر بن زبیر نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آئے اور عرض کیا میں تو دوزخ کا مستحق ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے رمضان میں جماع کر لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ پھر صدقہ کر۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا اور اس کے بعد ایک صاحب گدھا ہانکتے لائے جس پر کھانے کی چیز رکھی تھی۔ عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ (دوسری روایت میں یوں ہے کہ کھجور لدی ہوئی تھی) اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جا رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آگ میں جلنے والے صاحب کہاں ہیں؟ وہ صاحب بولے کہ میں حاضر ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے اور صدقہ کر دے۔ انہوں نے پوچھا کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں؟ میرے گھر والوں کے لیے تو خود کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ہی کھا لو۔ عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ پہلی حدیث زیادہ واضح ہے جس میں «أطعم أهلك» کے الفاظ ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَلَمْ يَسْأَلْهُ عَنْهُ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ: أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ أَوْ قَالَ حَدَّكَ".
مجھ سے عبدالقدوس بن محمد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عاصم کلابی نے بیان کیا، ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ ، عَنْعِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "لَمَّا أَتَى مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: "لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ، أَوْ غَمَزْتَ، أَوْ نَظَرْتَ، قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَنِكْتَهَا"لَا يَكْنِي، قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ أَمَرَ بِرَجْمِهِ.
مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ غالباً تو نے بوسہ دیا ہو گا یا اشارہ کیا ہو گا یا دیکھا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہمبستری ہی کر لی ہے؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأبِي سَلَمَةَ ، أنَّ أبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: "أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَنَادَاهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي زَنَيْتُ يُرِيدُ نَفْسَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَنَحَّى لِشِقِّ وَجْهِهِ الَّذِي أَعْرَضَ قِبَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَجَاءَ لِشِقِّ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي أَعْرَضَ عَنْهُ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، دَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبِكَ جُنُونٌ ؟ قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: أَحْصَنْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ ؟".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن المسیب اور ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے آواز دی یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے۔ خود اپنے متعلق وہ کہہ رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنا منہ پھیر لیا۔ لیکن وہ صاحب بھی ہٹ کر اسی طرف کھڑے ہو گئے جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا منہ پھیر لیا اور وہ بھی دوبارہ اس طرف آ گئے جدھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور اس طرح جب اس نے چار مرتبہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور پوچھا کیا تم پاگل ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو؟ انہوں نے کہا: جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو۔
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرًا ، قَالَ: فَكُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، جَمَزَ حَتَّى أَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ، فَرَجَمْنَاهُ.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ جنہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی تھی انہوں نے مجھے خبر دی کہ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے انہیں رجم کیا تھا جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگنے لگے۔ لیکن ہم نے انہیں حرہ (حرہ مدینہ کی پتھریلی زمین) میں جا لیا اور انہیں رجم کر دیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ فِي الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ ، قَالَا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي، قَالَ: "قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَعَلَى امْرَأَتِهِ الرَّجْمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: لَمْ يَقُلْ: فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَقَالَ: الشَّكُّ فِيهَا مِنْ الزُّهْرِيِّ، فَرُبَّمَا قُلْتُهَا، وَرُبَّمَا سَكَتُّ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے اسے زہری سے (سن کر) یاد کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس تھے تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں۔ اس پر اس کا مقابل بھی کھڑا ہو گیا اور وہ پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا، پھر اس نے کہا کہ واقعی آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے ہی فیصلہ کیجئے اور مجھے بھی گفتگو کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، اس شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدوری پر کام کرتا تھا پھر اس نے اس کی عورت سے زنا کر لیا، میں نے اس کے فدیہ میں اسے سو بکری اور ایک خادم دیا، پھر میں نے بعض علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا اور اے انیس! صبح کو اس کی عورت کے پاس جانا اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کو اس کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا اور انہوں نے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا جس شخص کا بیٹا تھا اس نے یوں نہیں کہا کہ ان عالموں نے مجھ سے بیان کیا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس میں شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں نے اس کو کبھی بیان کیا کبھی نہیں بیان کیا بلکہ سکوت کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ فِي الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدَ بْنَ خَالِدٍ ، قَالَا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي، قَالَ: "قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَعَلَى امْرَأَتِهِ الرَّجْمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا، قُلْتُ لِسُفْيَانَ: لَمْ يَقُلْ: فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَقَالَ: الشَّكُّ فِيهَا مِنْ الزُّهْرِيِّ، فَرُبَّمَا قُلْتُهَا، وَرُبَّمَا سَكَتُّ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم نے اسے زہری سے (سن کر) یاد کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس تھے تو ایک صاحب کھڑے ہوئے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں۔ اس پر اس کا مقابل بھی کھڑا ہو گیا اور وہ پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا، پھر اس نے کہا کہ واقعی آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے ہی فیصلہ کیجئے اور مجھے بھی گفتگو کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، اس شخص نے کہا کہ میرا بیٹا اس شخص کے یہاں مزدوری پر کام کرتا تھا پھر اس نے اس کی عورت سے زنا کر لیا، میں نے اس کے فدیہ میں اسے سو بکری اور ایک خادم دیا، پھر میں نے بعض علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد واجب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ہوں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کیا جائے گا اور اے انیس! صبح کو اس کی عورت کے پاس جانا اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اسے رجم کر دو۔ چنانچہ وہ صبح کو اس کے پاس گئے اور اس نے اقرار کر لیا اور انہوں نے رجم کر دیا۔ علی بن عبداللہ مدینی کہتے ہیں میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا جس شخص کا بیٹا تھا اس نے یوں نہیں کہا کہ ان عالموں نے مجھ سے بیان کیا کہ تیرے بیٹے پر رجم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو اس میں شک ہے کہ زہری سے میں نے سنا ہے یا نہیں، اس لیے میں نے اس کو کبھی بیان کیا کبھی نہیں بیان کیا بلکہ سکوت کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ عُمَرُ "لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، حَتَّى يَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، وَقَدْ أَحْصَنَ إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ"، قَالَ سُفْيَانُ: كَذَا حَفِظْتُ: "أَلَا وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزر جائے اور کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو رجم کا حکم ہمیں کہیں نہیں ملتا اور اس طرح وہ اللہ کے ایک فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ رجم کا حکم اس شخص کے لیے فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کیا ہو بشرطیکہ صحیح شرعی گواہیوں سے ثابت ہو جائے یا حمل ہو یا کوئی خود اقرار کرے۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے اسی طرح یاد کیا تھا آگاہ ہو جاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا تھا اور آپ کے بعد ہم نے رجم کیا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "كُنْتُ أُقْرِئُ رِجَالًا مِنْ الْمُهَاجِرِينَ مِنْهُمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، فَبَيْنَمَا أَنَا فِي مَنْزِلِهِ بِمِنًى، وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا، إِذْ رَجَعَ إِلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ لَوْ رَأَيْتَ رَجُلًا أَتَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ الْيَوْمَ، فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي فُلَانٍ يَقُولُ: لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ، لَقَدْ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَوَاللَّهِ مَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا فَلْتَةً فَتَمَّتْ، فَغَضِبَ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَقَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أُمُورَهُمْ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ، فَإِنَّهُمْ هُمُ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى قُرْبِكَ حِينَ تَقُومُ فِي النَّاسِ، وَأَنَا أَخْشَى أَنْ تَقُومَ فَتَقُولَ مَقَالَةً يُطَيِّرُهَا عَنْكَ كُلُّ مُطَيِّرٍ، وَأَنْ لَا يَعُوهَا، وَأَنْ لَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَأَمْهِلْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ، فَتَخْلُصَ بِأَهْلِ الْفِقْهِ، وَأَشْرَافِ النَّاسِ، فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا، فَيَعِي أَهْلُ الْعِلْمِ مَقَالَتَكَ، وَيَضَعُونَهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأَقُومَنَّ بِذَلِكَ أَوَّلَ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عُقْبِ ذِي الْحَجَّةِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، حَتَّى أَجِدَ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ جَالِسًا إِلَى رُكْنِ الْمِنْبَرِ، فَجَلَسْتُ حَوْلَهُ تَمَسُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ خَرَجَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَلَمَّا رَأَيْتُهُ مُقْبِلًا، قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ: لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ مَقَالَةً لَمْ يَقُلْهَا مُنْذُ اسْتُخْلِفَ، فَأَنْكَرَ عَلَيَّ، وَقَالَ: مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ قَبْلَهُ، فَجَلَسَ عُمَرُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي قَائِلٌ لَكُمْ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا، لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي، فَمَنْ عَقَلَهَا وَوَعَاهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، وَمَنْ خَشِيَ أَنْ لَا يَعْقِلَهَا فَلَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ، إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَرَأْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: وَاللَّهِ مَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، وَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوِ الِاعْتِرَافُ، ثُمَّ إِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ فِيمَا نَقْرَأُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، أَنْ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ، أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، أَلَا ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ، يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ بَايَعْتُ فُلَانًا، فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ، يَقُولَ: إِنَّمَا كَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَكْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ، أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ كَانَتْ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ وَقَى شَرَّهَا، وَلَيْسَ مِنْكُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُبَايَعُ هُوَ: وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا، وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ، وَالزُّبَيْرُ، وَمَنْ مَعَهُمَا، وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلَاءِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ، فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَا: لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ، اقْضُوا أَمْرَكُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا: فَقَالُوا: هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: مَا لَهُ قَالُوا: يُوعَكُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ، وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الْأَمْرِ، فَلَمَّا سَكَتَ، أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي، أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي، وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا، أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا، حَتَّى سَكَتَ، فَقَالَ: مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا، وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ، وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، فَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلَافِ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، فَبَسَطَ يَدَهُ، فَبَايَعْتُهُ، وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ، ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ، وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ عُمَرُ وَإِنَّا: وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ، أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَا يُتَابَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں کئی مہاجرین کو (قرآن مجید) پڑھایا کرتا تھا۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ ابھی میں منیٰ میں ان کے مکان پر تھا اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج میں (سنہ 23 ھ) ان کے ساتھ تھے کہ وہ میرے پاس لوٹ کر آئے اور کہا کہ کاش تم اس شخص کو دیکھتے جو آج امیرالمؤمنین کے پاس آیا تھا۔ اس نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! کیا آپ فلاں صاحب سے یہ پوچھ گچھ کریں گے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں صلاح صاحب طلحہ بن عبیداللہ سے بیعت کروں گا کیونکہ واللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بغیر سوچے سمجھے بیعت تو اچانک ہو گئی اور پھر وہ مکمل ہو گئی تھی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بہت غصہ ہوئے اور کہا میں ان شاءاللہ شام کے وقت لوگوں سے خطاب کروں گا اور انہیں ان لوگوں سے ڈراؤں گا جو زبردستی سے دخل درمعقولات کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! ایسا نہ کیجئے۔ حج کے موسم میں کم سمجھی اور برے بھلے ہر ہی قسم کے لوگ جمع ہیں اور جب آپ خطاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو آپ کے قریب یہی لوگ زیادہ ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ آپ کھڑے ہو کر کوئی بات کہیں اور وہ چاروں طرف پھیل جائے، لیکن پھیلانے والے اسے صحیح طور پر یاد نہ رکھ سکیں گے اور اس کے غلط معانی پھیلانے لگیں گے، اس لیے مدینہ منورہ پہنچنے تک کا انتظار کر لیجئے کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا مقام ہے۔ وہاں آپ کو خالص دینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اور شریف لوگ ملیں گے، وہاں آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اعتماد کے ساتھ ہی فرما سکیں گے اور علم والے آپ کی باتوں کو یاد بھی رکھیں گے اور جو صحیح مطلب ہے وہی بیان کریں گے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اچھا اللہ کی قسم میں مدینہ منورہ پہنچتے ہی سب سے پہلے لوگوں کو اسی مضمون کا خطبہ دوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ہم ذی الحجہ کے مہینہ کے آخر میں مدینہ منورہ پہنچے۔ جمعہ کے دن سورج ڈھلتے ہی ہم نے (مسجد نبوی) پہنچنے میں جلدی کی اور میں نے دیکھا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ممبر کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔ میرا ٹخنہ ان کے ٹخنے سے لگا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں عمر رضی اللہ عنہ بھی باہر نکلے، جب میں نے انہیں آتے دیکھا تو سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے میں نے کہا کہ آج عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کہیں گے جو انہوں نے اس سے پہلے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کبھی نہیں کہی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کو نہ مانا اور کہا کہ میں تو نہیں سمجھتا کہ آپ کوئی ایسی بات کہیں گے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر بیٹھے اور جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو آپ کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کرنے کے بعد فرمایا: امابعد! آج میں تم سے ایک ایسی بات کہوں گا جس کا کہنا میری تقدیر میں لکھا ہوا تھا، مجھ کو نہیں معلوم کہ شاید میری یہ گفتگو موت کے قریب کی آخری گفتگو ہو۔ پس جو کوئی اسے سمجھے اور محفوظ رکھے اسے چاہئے کہ اس بات کو اس جگہ تک پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری اسے لے جا سکتی ہے اور جسے خوف ہو کہ اس نے بات نہیں سمجھی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ میری طرف غلط بات منسوب کرے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی، کتاب اللہ کی صورت میں جو کچھ آپ پر نازل ہوا، ان میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا تھا سمجھا تھا اور یاد رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود (اپنے زمانہ میں) رجم کرایا۔ پھر آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا لیکن مجھے ڈر ہے کہ اگر وقت یوں ہی آگے بڑھتا رہا تو کہیں کوئی یہ نہ دعویٰ کر بیٹھے کہ رجم کی آیت ہم کتاب اللہ میں نہیں پاتے اور اس طرح وہ اس فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا تھا۔ یقیناً رجم کا حکم کتاب اللہ سے اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی ہونے کے بعد زنا کیا ہو۔ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بشرطیکہ گواہی مکمل ہو جائے یا حمل ظاہر ہو یا وہ خود اقرار کر لے پھر کتاب اللہ کی آیتوں میں ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے حقیقی باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب نہ کرو۔ کیونکہ یہ تمہارا کفر اور انکار ہے کہ تم اپنے اصل باپ دادوں کے سوا دوسروں کی طرف اپنی نسبت کرو۔ ہاں اور سن لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنا دیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے کسی نے یوں کہا ہے کہ واللہ اگر عمر کا انتقال ہو گیا تو میں فلاں سے بیعت کروں گا دیکھو تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ناگاہ ہوئی اور اللہ نے ناگہانی بیعت میں جو برائی ہوئی ہے اس سے تم کو بچائے رکھا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں کوئی شخص ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسا متقی، خدا ترس ہو۔ تم میں کون ہے جس سے ملنے کے لیے اونٹ چلائے جاتے ہوں۔ دیکھو خیال رکھو کوئی شخص کسی سے بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ اور اتفاق اور غلبہ آراء کے بغیر بیعت نہ کرے جو کوئی ایسا کرے گا اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ بیعت کرنے والا اور بیعت لینے والا دونوں اپنی جان گنوا دیں گے اور سن لو بلاشبہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے بہتر تھے البتہ انصار نے ہماری مخالفت کی تھی اور وہ سب لوگ سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ اسی طرح علی اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی تھی اور باقی مہاجرین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہو گئے تھے۔ اس وقت میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوبکر! ہمیں اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس لے چلئے۔ چنانچہ ہم ان سے ملاقات کے ارادہ سے چل پڑے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ہماری، انہیں کے دو نیک لوگوں سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ انصاری آدمیوں نے یہ بات ٹھہرائی ہے کہ (سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنائیں) اور انہوں نے پوچھا۔ حضرات مہاجرین آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم اپنے ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ ہرگز وہاں نہ جائیں بلکہ خود جو کرنا ہے کر ڈالو لیکن میں نے کہا کہ بخدا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے اور انصار کے پاس سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے مجلس میں ایک صاحب (سردار خزرج) چادر اپنے سارے جسم پر لپیٹے درمیان میں بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں تو لوگوں نے بتایا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بخار آ رہا ہے۔ پھر ہمارے تھوڑی دیر تک بیٹھنے کے بعد ان کے خطیب نے کلمہ شہادت پڑھا اور اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی۔ پھر کہا: امابعد! ہم اللہ کے دین کے مددگار (انصار) اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے گروہ مہاجرین! کم تعداد میں ہو۔ تمہاری یہ تھوڑی سی تعداد اپنی قوم قریش سے نکل کر ہم لوگوں میں آ رہے ہو۔ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہم کو خلافت سے محروم کر کے آپ خلیفہ بن بیٹھو یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب وہ خطبہ پورا کر چکے تو میں نے بولنا چاہا۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں ترتیب دے رکھی تھی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بات کرنے سے پہلے ہی میں اس کو شروع کر دوں اور انصار کی تقریر سے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ پیدا ہوا ہے اس کو دور کر دوں جب میں نے بات کرنی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ذرا ٹھہرو میں نے ان کو ناراض کرنا برا جانا۔ آخر انہوں نے ہی تقریر شروع کی اور اللہ کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور مجھ سے زیادہ سنجیدہ اور متین تھے۔ میں نے جو تقریر اپنے دل میں سوچ لی تھی اس میں سے انہوں نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ فی البدیہہ وہی کہی بلکہ اس سے بھی بہتر پھر وہ خاموش ہو گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی ہے وہ سب درست ہے اور تم بیشک اس کے لیے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ قریش ازروئے نسب اور ازروئے خاندان تمام عرب قوموں میں بڑھ چڑھ کر ہیں اب تم لوگ ایسا کرو کہ ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ تھاما وہ ہمارے بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے، ان ساری گفتگو میں صرف یہی ایک بات مجھ سے میرے سوا ہوئی۔ واللہ میں آگے کر دیا جاتا اور بےگناہ میری گردن مار دی جاتی تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ مجھے ایک ایسی قوم کا امیر بنایا جاتا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ خود موجود ہوں۔ میرا اب تک یہی خیال ہے یہ اور بات ہے کہ وقت پر نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرنا۔ پھر انصار میں سے ایک کہنے والا حباب بن منذر یوں کہنے لگا سنو سنو میں ایک لکڑی ہوں کہ جس سے اونٹ اپنا بدن رگڑ کر کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور میں وہ باڑ ہوں جو درختوں کے اردگرد حفاظت کے لیے لگائی جاتی ہے۔ میں ایک عمدہ تدبیر بتاتا ہوں ایسا کرو دو خلیفہ رہیں (دونوں مل کر کام کریں) ایک ہماری قوم کا اور ایک قریش والوں کا۔ مہاجرین قوم کا اب خوب شورغل ہونے لگا کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا۔ میں ڈر گیا کہ کہیں مسلمانوں میں پھوٹ نہ پڑ جائے آخر میں کہہ اٹھا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھاؤ، انہوں نے ہاتھ بڑھایا میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین جتنے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی بیعت کر لی پھر انصاریوں نے بھی بیعت کر لی (چلو جھگڑا تمام ہوا جو منظور الٰہی تھا وہی ظاہر ہوا) اس کے بعد ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے (انہوں نے بیعت نہیں کی) ایک شخص انصار میں سے کہنے لگا: بھائیو! بیچارے سعد بن عبادہ کا تم نے خون کر ڈالا۔ میں نے کہا اللہ اس کا خون کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا اس وقت ہم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے زیادہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوتی کیونکہ ہم کو ڈر پیدا ہوا کہیں ایسا نہ ہو ہم لوگوں سے جدا رہیں اور ابھی انہوں نے کسی سے بیعت نہ کی ہو وہ کسی اور شخص سے بیعت کر بیٹھیں تب دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتا یا تو ہم بھی جبراً و قہراً اسی سے بیعت کر لیتے یا لوگوں کی مخالفت کرتے تو آپس میں فساد پیدا ہوتا (پھوٹ پڑ جاتی) دیکھو پھر یہی کہتا ہوں جو شخص کسی سے بن سوچے سمجھے، بن صلاح و مشورہ بیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کرے، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ 2 الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ 3 سورة النور آية 2-3 قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ رَأْفَةٌ فِي إِقَامَةِ الْحَدِّ
اور دونوں کا دیس نکالا کر دیا جائے جیسا کہ سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا شفقت نہ آنے پائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہئے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔ یاد رکھو زنا کار مرد نکاح بھی کسی سے نہیں کرتا سوائے زنا کار عورت یا مشترکہ عورت کے اور زنا کار عورت کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور اہل ایمان پر یہ حرام کر دیا گیا ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے «ولا تأخذكم بهما رأفة في دين الله» کی تفسیر میں کہا کہ ان کو حد لگانے میں رحم مت کرو۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَأْمُرُ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ، جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے زید بن خالد جہنی نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کے بارے میں حکم دے رہے تھے جو غیر شادی شدہ ہوں اور زنا کیا ہو کہ سو کوڑے مارے جائیں اور سال بھر کے لیے جلا وطن کر دیا جائے۔
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ غَرَّبَ، ثُمَّ لَمْ تَزَلْ تِلْكَ السُّنَّةَ.
ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جلا وطن کیا تھا پھر یہی طریقہ قائم ہو گیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَضَى فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ، بِنَفْيِ عَامٍ، بِإِقَامَةِ الْحَدِّ عَلَيْهِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے بارے میں جس نے زنا کیا تھا اور وہ غیر شادی شدہ تھا، حد قائم کرنے کے ساتھ ایک سال تک شہر باہر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ، وَأَخْرَجَ فُلَانًا، وَأَخْرَجَ عُمَرُ، فُلَانًا".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو مخنث بنتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مرد بنیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو گھر سے نکالا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں کو نکالا تھا۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ "أن رجلا من الأعراب جاء إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِكِتَابِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَزَعَمُوا أَنَّ مَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْغَنَمُ وَالْوَلِيدَةُ، فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَارْجُمْهَا". فَغَدَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا.
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر دوسرے نے کھڑے ہو کر کہا کہ انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ! ان کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں، میرا لڑکا ان کے یہاں مزدور تھا اور پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو رجم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے سو بکریوں اور ایک کنیز کا فدیہ دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو ان کا خیال ہے کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ بکریاں اور کنیز تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ملے گی اور انیس! صبح اس عورت کے پاس جاؤ (اور اگر وہ اقرار کرے تو) اسے رجم کر دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے رجم کیا۔ (وہ عورت کہیں اور جگہ تھی) آپ نے اسے رجم کرنے کے لیے انیس کو بھیجا اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ قسطلانی نے کہا کہ آپ نے جو انیس کو فریق ثانی کی جورو کے پاس بھیجا وہ زنا کی حد مارنے کے لیے نہیں بھیجا کیونکہ زنا کی حد لگانے کے لیے تجسس کرنا یا ڈھونڈنا بھی درست نہیں ہے اگر کوئی خود آ کر بھی زنا کا اقرار کرے اس کے لیے بھی تفتیش کرنا مستحب ہے یعنی یوں کہنا کہ شاید تو نے بوسہ دیا ہو گا یا مساس کیا ہو گا بلکہ آپ نے انیس کو صرف اس لیے بھیجا کہ اس عورت کو خبر کر دیں کہ فلاں شخص نے تجھ پر زنا کی تہمت لگائی ہے۔ اب وہ حد قذف کا مطالبہ کرتی ہے یا معاف کرتی ہے۔ جب انیس اس کے پاس پہنچے تو اس عورت نے صاف طور پر زنا کا اقبال کیا۔ اس اقبال پر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو حد لگائی اور رجم کیا۔
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ "أن رجلا من الأعراب جاء إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِكِتَابِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ بِمِائَةٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَوَلِيدَةٍ، ثُمَّ سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ، فَزَعَمُوا أَنَّ مَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْغَنَمُ وَالْوَلِيدَةُ، فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا أُنَيْسُ فَاغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَارْجُمْهَا". فَغَدَا أُنَيْسٌ فَرَجَمَهَا.
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر دوسرے نے کھڑے ہو کر کہا کہ انہوں نے صحیح کہا یا رسول اللہ! ان کا کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں، میرا لڑکا ان کے یہاں مزدور تھا اور پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو رجم کیا جائے گا۔ چنانچہ میں نے سو بکریوں اور ایک کنیز کا فدیہ دیا۔ پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو ان کا خیال ہے کہ میرے لڑکے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی لازمی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم دونوں کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ بکریاں اور کنیز تمہیں واپس ملیں گی اور تمہارے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ملے گی اور انیس! صبح اس عورت کے پاس جاؤ (اور اگر وہ اقرار کرے تو) اسے رجم کر دو۔ چنانچہ انہوں نے اسے رجم کیا۔ (وہ عورت کہیں اور جگہ تھی) آپ نے اسے رجم کرنے کے لیے انیس کو بھیجا اسی سے باب کا مطلب نکلا۔ قسطلانی نے کہا کہ آپ نے جو انیس کو فریق ثانی کی جورو کے پاس بھیجا وہ زنا کی حد مارنے کے لیے نہیں بھیجا کیونکہ زنا کی حد لگانے کے لیے تجسس کرنا یا ڈھونڈنا بھی درست نہیں ہے اگر کوئی خود آ کر بھی زنا کا اقرار کرے اس کے لیے بھی تفتیش کرنا مستحب ہے یعنی یوں کہنا کہ شاید تو نے بوسہ دیا ہو گا یا مساس کیا ہو گا بلکہ آپ نے انیس کو صرف اس لیے بھیجا کہ اس عورت کو خبر کر دیں کہ فلاں شخص نے تجھ پر زنا کی تہمت لگائی ہے۔ اب وہ حد قذف کا مطالبہ کرتی ہے یا معاف کرتی ہے۔ جب انیس اس کے پاس پہنچے تو اس عورت نے صاف طور پر زنا کا اقبال کیا۔ اس اقبال پر انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو حد لگائی اور رجم کیا۔
(نوٹ: اس باب میں حدیث نہیں ہے۔)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رضي الله عنهما، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سُئِلَ عَنْ الْأَمَةِ إِذَا زَنَتْ وَلَمْ تُحْصَنْ ؟ قَالَ: إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: لَا أَدْرِي بَعْدَ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کنیز کے متعلق پوچھا گیا جو غیر شادی شدہ ہو اور زنا کرا لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ زنا کرائے تو اسے کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو اور اسے بیچ ڈالو خواہ ایک رسی ہی قیمت میں ملے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے یقین نہیں کہ تیسری مرتبہ(کوڑے لگانے کے حکم) کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رضي الله عنهما، أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سُئِلَ عَنْ الْأَمَةِ إِذَا زَنَتْ وَلَمْ تُحْصَنْ ؟ قَالَ: إِذَا زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَاجْلِدُوهَا، ثُمَّ بِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ". قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: لَا أَدْرِي بَعْدَ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کنیز کے متعلق پوچھا گیا جو غیر شادی شدہ ہو اور زنا کرا لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ زنا کرائے تو اسے کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو، اگر پھر زنا کرائے تو پھر کوڑے مارو اور اسے بیچ ڈالو خواہ ایک رسی ہی قیمت میں ملے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے یقین نہیں کہ تیسری مرتبہ(کوڑے لگانے کے حکم) کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ فَتَبَيَّنَ زِنَاهَا، فَلْيَجْلِدْهَا وَلَا يُثَرِّبْ، ثُمَّ إِنْ زَنَتْ فَلْيَجْلِدْهَا وَلَا يُثَرِّبْ، ثُمَّ إِنْ زَنَتِ الثَّالِثَةَ، فَلْيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ"، تَابَعَهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کنیز زنا کرائے اور اس کا زنا کھل جائے تو اسے کوڑے مارنے چاہئیں لیکن لعنت ملامت نہ کرنی چاہئے پھر اگر وہ دوبارہ زنا کرے تو پھر چاہئے کہ کوڑے مارے لیکن ملامت نہ کرے پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرائے تو بیچ دے خواہ بالوں کی ایک رسی ہی قیمت پر ہو۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل بن امیہ نے سعید سے کی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى "عَنْ الرَّجْمِ، فَقَالَ: رَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَقَبْلَ النُّورِ أَمْ بَعْدَهُ ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي ؟"، تَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَالْمُحَارِبِيُّ ، وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْمَائِدَةِ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی نے بیان کیا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے رجم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا تھا، میں نے پوچھا سورۃ النور سے پہلے یا اس کے بعد، انہوں نے بتلایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ اس روایت کی متابعت علی بن مسہر، خالد بن عبداللہ المحاربی اور عبیدہ بن حمید نے شیبانی سے کی ہے اور بعض نے (سورۃ النور کے بجائے) سورۃ المائدہ کا ذکر کیا ہے لیکن پہلی روایت صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: "إِنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا لَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمْ وَيُجْلَدُونَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ فَنَشَرُوهَا، فَوَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، فَقَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ فَرَفَعَ يَدَهُ فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، قَالُوا: صَدَقَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُجِمَا". فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَحْنِي عَلَى، الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ.
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زناکاری کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کے متعلق کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں رسوا کرتے ہیں اور کوڑے لگاتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ تم جھوٹے ہو اس میں رجم کا حکم موجود ہے۔ چنانچہ وہ تورات لائے اور کھولا۔ لیکن ان کے ایک شخص نے اپنا ہاتھ آیت رجم پر رکھ دیا اور اس سے پہلے اور بعد کا حصہ پڑھ دیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے رجم کی آیت موجود تھی۔ پھر انہوں نے کہا: اے محمد! آپ نے سچ فرمایا کہ اس میں رجم کی آیت موجود ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور دونوں رجم کئے گئے۔ میں نے دیکھا کہ مرد عورت کو پتھروں سے بچانے کی کوشش میں اس پر جھکا رہا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، أنهما أخبراه، "أن رجلين اختصما إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُهُمَا، أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ: تَكَلَّمْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، قَالَ مَالِكٌ، وَالْعَسِيفُ: الْأَجِيرُ فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَبِجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ مَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا غَنَمُكَ وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأَمَرَ أُنَيْسًا الْأَسْلَمِيَّ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الْآخَرِ، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ دو آدمی اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور دوسرے نے جو زیادہ سمجھدار تھے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے عرض کرنے کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ مالک نے بیان کیا کہ «عسيف» مزدور کو کہتے ہیں اور اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے۔ چنانچہ میں نے اس کے فدیہ میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی پھر جب میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کرنا ہے۔ رجم تو صرف اس عورت کو کیا جائے گا اس لیے کہ وہ شادی شدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس ہیں پھر ان کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کیا اور انیس اسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اس مذکورہ عورت کے پاس جائیں اگر وہ اقرار کر لے تو اسے رجم کر دیں چنانچہ اس نے اقرار کیا اور وہ رجم کر دی گئی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، أنهما أخبراه، "أن رجلين اختصما إلى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَهُوَ أَفْقَهُهُمَا، أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ: تَكَلَّمْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، قَالَ مَالِكٌ، وَالْعَسِيفُ: الْأَجِيرُ فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَبِجَارِيَةٍ لِي، ثُمَّ إِنِّي سَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ مَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا غَنَمُكَ وَجَارِيَتُكَ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَجَلَدَ ابْنَهُ مِائَةً وَغَرَّبَهُ عَامًا، وَأَمَرَ أُنَيْسًا الْأَسْلَمِيَّ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةَ الْآخَرِ، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے اور انہیں ابوہریرہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ دو آدمی اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور دوسرے نے جو زیادہ سمجھدار تھے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کر دیجئیے اور مجھے عرض کرنے کی اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا ان صاحب کے یہاں مزدور تھا۔ مالک نے بیان کیا کہ «عسيف» مزدور کو کہتے ہیں اور اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے۔ چنانچہ میں نے اس کے فدیہ میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی پھر جب میں نے علم والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے ملک بدر کرنا ہے۔ رجم تو صرف اس عورت کو کیا جائے گا اس لیے کہ وہ شادی شدہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس ہیں پھر ان کے بیٹے کو سو کوڑے لگوائے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کیا اور انیس اسلمی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اس مذکورہ عورت کے پاس جائیں اگر وہ اقرار کر لے تو اسے رجم کر دیں چنانچہ اس نے اقرار کیا اور وہ رجم کر دی گئی۔
وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ وَفَعَلَهُ أَبُو سَعِيدٍ
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا اس کے سامنے سے گزرے تو اسے روکنا چاہئے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے وہ شیطان ہے۔ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایسے ایک شخص سے لڑ چکے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: "جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي، فَقَالَ: "حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، فَعَاتَبَنِي وَجَعَلَ يَطْعُنُ بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، وَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ، إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن القاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (قاسم بن محمد) نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہاری وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سب لوگوں کو رکنا پڑا جبکہ یہاں پانی بھی نہیں ہے۔ چنانچہ وہ مجھ پر سخت ناراض ہوئے اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں مکا مارنے لگے مگر میں نے اپنے جسم میں کسی قسم کی حرکت اس لیے نہیں ہونے دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو : أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْعَائِشَةَ ، قَالَتْ: "أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ فَلَكَزَنِي لَكْزَةً شَدِيدَةً، وَقَالَ: حَبَسْتِ النَّاسَ فِي قِلَادَةٍ، فَبِي الْمَوْتُ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ أَوْجَعَنِي نَحْوَهُ". لَكَزَ وَوَكَزَ: وَاحِدٌ.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور زور سے میرے ایک سخت گھونسا لگایا اور کہا تو نے ایک ہار کے لیے سب لوگوں کو روک دیا۔ میں اس سے مرنے کے قریب ہو گئی اس قدر مجھ کو درد ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ «لكز» اور «وكز» کے ایک ہی معنی ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: "لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے مغیرہ کے کاتب وراد نے، ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو سیدھی تلوار کی دھار سے اسے مار ڈالوں۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے۔ میں ان سے بھی بڑھ کر غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا أَلْوَانُهَا ؟ قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ، قَالَ: أُرَاهُ عِرْقٌ نَزَعَهُ، قَالَ: فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میری بیوی نے کالا لڑکا جنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان کے رنگ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ سرخ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پھر یہ کہاں سے آ گیا؟ انہوں نے کہا میرا خیال ہے کہ کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا جس کی وجہ سے ایسا اونٹ پیدا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ تیرے بیٹے کا رنگ بھی کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ، إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن جابر بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدود اللہ میں کسی مقررہ حد کے سوا کسی اور سزا میں دس کوڑے سے زیادہ بطور تعزیر و سزا نہ مارے جائیں۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ ، عَمَّنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا عُقُوبَةَ فَوْقَ عَشْرِ ضَرَبَاتٍ، إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ".
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسلم بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن جابر نے ان صحابی سے بیان کیا جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے سوا مجرم کو دس کوڑے سے زیادہ کی سزا نہ دی جائے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ بُكَيْرًا حَدَّثَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، إِذْ جَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ، فَحَدَّثَ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، فَقَالَ حَدَّثَنِيعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بُرْدَةَ الْأَنْصَارِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تَجْلِدُوا فَوْقَ عَشْرَةِ أَسْوَاطٍ، إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عمرو نے خبر دی، ان سے بکیر نے بیان کیا کہ میں سلیمان بن یسار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عبدالرحمٰن بن جابر آئے اور سلیمان بن یسار سے بیان کیا پھر سلیمان بن یسار ہماری طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن جابر نے بیان کیا ہے کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور انہوں نے ابوبردہ انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی حد کے سوا کسی سزا میں دس کوڑے سے زیادہ کی سزا نہ دو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ الْوِصَالِ، فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: فَإِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوَاصِلُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّكُمْ مِثْلِي، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ، فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ، وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ: لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ بِهِمْ، حِينَ أَبَوْا"، تَابَعَهُشُعَيْبٌ ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَيُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال (مسلسل افطار کے بغیر کئی دن کے روزے رکھنے) سے منع فرمایا تو بعض صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود تو وصال کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کون مجھ جیسا ہے؟ میرا تو حال یہ ہے کہ مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے لیکن وصال کرنے سے صحابہ نہیں رکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن کے بعد دوسرے دن کا وصال کیا پھر اس کے بعد لوگوں نے چاند دیکھ لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر (عید کا) چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور وصال کرتا۔ یہ آپ نے تنبیہاً فرمایا تھا کیونکہ وہ وصال کرنے پر مصر تھے۔ اس روایت کی متابعت شعیب، یحییٰ بن سعید اور یونس نے زہری سے کی ہے اور عبدالرحمٰن بن خالد فہمی نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔
حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ"أَنَّهُمْ كَانُوا يُضْرَبُونَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا اشْتَرَوْا طَعَامًا جِزَافًا، أَنْ يَبِيعُوهُ فِي مَكَانِهِمْ، حَتَّى يُؤْوُوهُ إِلَى رِحَالِهِمْ".
مجھ سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس پر مار پڑتی کہ جب غلہ کے ڈھیر یوں ہی خریدیں، بن ناپے اور تولے اس کو اسی جگہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں ہاں وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے لے جائیں پھر بیچیں تو کچھ سزا نہ ہوتی۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "مَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ، حَتَّى يُنْتَهَكَ مِنْ حُرُمَاتِ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی معاملہ میں کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا ہاں جب اللہ کی قائم کی ہوئی حد کو توڑا جاتا تو آپ پھر بدلہ لیتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: "شَهِدْتُ الْمُتَلَاعِنَيْنِ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَرَّقَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ زَوْجُهَا: كَذَبْتُ عَلَيْهَا إِنْ أَمْسَكْتُهَا، قَالَ: فَحَفِظْتُ ذَاكَ مِنَ الزُّهْرِيِّ، إِنْ جَاءَتْ بِهِ كَذَا وَكَذَا فَهُوَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ كَذَا وَكَذَا كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَهُوَ، وَسَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يَقُولُ: جَاءَتْ بِهِ لِلَّذِي يُكْرَهُ".
ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے دو لعان کرنے والے میاں بیوی کو دیکھا تھا۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان جدائی کرا دی تھی۔ شوہر نے کہا تھا کہ اگر اب بھی میں (اپنی بیوی کو) اپنے ساتھ رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے زہری سے یہ روایت محفوظ رکھی ہے کہ اگر اس عورت کے ایسا بچہ پیدا ہوا تو شوہر سچا ہے اور اگر اس کے ایسا ایسا بچہ پیدا ہوا جیسے چھپکلی ہوتی ہے تو شوہر جھوٹا ہے۔ اور میں نے زہری سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ اس عورت نے اس آدمی کے ہم شکل بچہ جنا جو میری طرح کا تھا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: "ذَكَرَ ابْنُ عَبَّاسٍالْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ: هِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا امْرَأَةً عَنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ". قَالَ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ أَعْلَنَتْ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے قائم بن محمد نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دو لعان کرنے والوں کا ذکر کیا تو عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ وہی تھی جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی عورت کو بلا گواہی رجم کر سکتا (تو اسے ضرور کرتا) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں یہ وہ عورت تھی جو (فسق و فجور) ظاہر کیا کرتی تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، "ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ، سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَ أَهْلِهِ آدَمَ، خَدِلًا كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: هِيَ الَّتِي قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، رَجَمْتُ هَذِهِ"فَقَالَ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں لعان کا ذکر آیا تو عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے اس پر ایک بات کہی پھر وہ واپس آئے۔ اس کے بعد ان کی قوم کے ایک صاحب یہ شکایت لے کر ان کے پاس آئے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھا ہے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میں اپنی اس بات کی وجہ سے آزمائش میں ڈالا گیا ہوں۔ پھر آپ ان صاحب کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی جس حالت میں انہوں نے اپنی بیوی کو پایا۔ وہ صاحب زرد رنگ، کم گوشت، سیدھے بالوں والے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اس معاملہ کو ظاہر کر دے۔ چنانچہ اس عورت کے یہاں اسی شخص کی شکل کا بچہ پیدا ہوا جس کے متعلق شوہر نے کہا تھا کہ اسے انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ دیکھا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے درمیان لعان کرایا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ یہ وہی تھا جس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میں کسی کو بلا گواہی کے رجم کر سکتا تو اسے رجم کرتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نہیں یہ تو وہ عورت تھی جو اسلام لانے کے بعد برائیاں اعلانیہ کرتی تھی۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ 4 إِلا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ 5 سورة النور آية 4-5 إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النور آية 23
اور اللہ پاک نے (سورۃ النور میں) فرمایا جو لوگ پاک دامن آزاد لوگوں کو تہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ رویت کے نہیں لاتے تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ اور آئندہ ان کی گواہی کبھی بھی منظور نہ کرو یہی بدکار لوگ ہیں ہاں جو ان میں سے اس کے بعد توبہ کر لیں اور نیک چلن ہو جائیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس سورت میں مزید فرمایا کہ بیشک جو لوگ پاک دامن آزاد بھولی بھالی ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملعون ہوں گے اور ان کو ملعون ہونے کے سوا بڑا عذاب بھی ہو گا۔ اس سورت میں فرمایا اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے سوا ان کے پاس گواہ بھی کوئی نہ ہو ---- آخر آیت تک۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُنَّ ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوالغیث سالم نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا کیا ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی کی جان لینا جو اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن غافل مومن عورتوں کو تہمت لگانا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ قَذَفَ مَمْلُوكَهُ، وَهُوَ بَرِيءٌ مِمَّا قَالَ، جُلِدَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے فضیل بن غزوان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی نعم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی حالانکہ غلام اس تہمت سے بَری تھا تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، سوا اس کے کہ اس کی بات صحیح ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَا: "جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا فِي أَهْلِ هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ: اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا"فَاعْتَرَفَتْ: فَرَجَمَهَا.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر فریق مخالف کھڑا ہوا، یہ زیادہ سمجھدار تھا اور کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیجئے اور یا رسول اللہ! مجھے (گفتگو کی)اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کرتا تھا پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ میں نے اس کے فدیہ میں ایک سو بکریاں اور ایک خادم دیا پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ملنی چاہئے اور اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہی کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا دی جائے گی اور اے انیس اس عورت کے پاس صبح جانا اور اس سے پوچھنا اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اسے رجم کرنا، اس عورت نے اقرار کر لیا اور وہ رجم کر دی گئی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَا: "جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَامَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ، فَقَالَ: صَدَقَ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا فِي أَهْلِ هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ: اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا"فَاعْتَرَفَتْ: فَرَجَمَهَا.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کر دیں۔ اس پر فریق مخالف کھڑا ہوا، یہ زیادہ سمجھدار تھا اور کہا کہ انہوں نے سچ کہا۔ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کیجئے اور یا رسول اللہ! مجھے (گفتگو کی)اجازت دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا لڑکا ان کے یہاں مزدوری کرتا تھا پھر اس نے ان کی بیوی کے ساتھ زنا کر لیا۔ میں نے اس کے فدیہ میں ایک سو بکریاں اور ایک خادم دیا پھر میں نے اہل علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ملنی چاہئے اور اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہی کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا دی جائے گی اور اے انیس اس عورت کے پاس صبح جانا اور اس سے پوچھنا اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اسے رجم کرنا، اس عورت نے اقرار کر لیا اور وہ رجم کر دی گئی۔