مشکوٰة شر یف

ایمان کا بیان

ایمان کا بیان

ایمان کا مطلب  ایمان کے معنی ہیں، یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا۔ اصطلاح شریعت میں  ایمان کا مطلب ہوتا ہے ، اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور ماننا کہ اللہ ایک ہے ، اس کے علاوہ کوئی معبود اور پروردگار نہیں، اس کے تمام ذاتی و صفاتی کمالات برحق ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں، ان کی ذات صادق و مصدوق ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کتاب و سنت کی صورت میں اللہ کا جو آخری دین و شریعت لے کر اس دنیا میں آئے اس کی حقانیت و صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

تکمیل ایمان : محدثین کے نزدیک ایمان کے تین اجزاء ہیں:  تصدیق بالقب یعنی اللہ کی وحدانیت ، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور دین کی حقانیت پر دل سے یقین رکھنا اور اس یقین و اعتماد پر دل و دماغ کا مطمئن رہنا۔  اقرار باللسان یعنی اس دلی یقین و اعتقاد کا زبان سے اظہار ، اعتراف اور اقرار کرنا۔ اعمال بالجوارح یعنی دین و شریعت کے احکام و ہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعہ اس دلی یقین و اعتقاد کا عملی مظاہرہ کرنا۔ ان تینوں اجزاء سے مل کر  ایمان کی تکمیل ہوتی ہے اور جو آدمی اس ایمان کا حامل ہوتا ہے اس کو  مومن و مسلمان کہا جاتا ہے۔

ایمان اور اسلام: کیا ایمان اور اسلام میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں لفظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں؟ اس سوال کا تفصیلی جواب، تفصیلی بحث کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے۔ خلاصہ کے طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ظاہری مفہوم و مصداق کے اعتبار سے تو یہ دونوں لفظ تقریباً ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے کہ  ایمان سے عام طور پر تصدیق قلبی اور احوال باطنی مراد ہوتے ہیں جب کہ  اسلام  سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت و فرمانبرداری مراد لی جاتی ہے اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ  وحدانیت، رسالت اور شریعت کو ماننے اور تسلیم کرنے کا جو باطنی تعلق دل و دماغ سے قائم ہوتا ہے اس کو  ایمان سے تعبیر کرتے ہیں اور اس باطنی تعلق کا جو اظہار عمل جوارح کے ذریعہ ظاہری احوال سے ہوتا ہے اس کو  اسلام سے تعبیر کرتے ہیں، ایک محقق کا قول ہے تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح  اعضاء پر نمودار ہو جائے تو اس کا نام  اسلام ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو  ایمان کے نام موسوم ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حقیقت ایک ہے مواطن کے اعتبار سے اس کو کبھی  ایمان کہا جاتا ہے اور کبھی  اسلام اسی لیے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں، نہ تو ایمان کے بغیر اسلام معتبر ہو گا اور نہ اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ہو گی۔ مثلاً کوئی آدمی پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھے ، ہر سال زکوٰۃ بھی ادا کرے ، استطاعت ہو تو حج بھی کر ڈالے اور اسی طرح دوسرے نیک کام کر کے اپنی ظاہری زندگی کو  اسلام کا مظہر بنائے ہوئے ہو مگر اس کا باطن  قلبی تصدیق و انقیاد سے بالکل خالی ہو اور کفر و انکار سے بھرا ہوا ہو تو اس کے یہ سارے اعمال بیکار محض قرار پائیں گے اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان یعنی قلبی تصدیق و انقیاد تو رکھتا ہے مگر عملی زندگی میں اسلام کا مظہر ہونے کے بجائے سر کشی و نافرمانی کا پیکر اور کافرانہ و مشرکانہ اعمال کا مجسمہ بنا ہوا ہے تو اس کا ایمان فائدہ مند نہیں ہو گا۔

بعض اہل نظر نے  ایمان اور اسلام کی مثال  شہادتین سے دی ہے یعنی جیسے کلمہ شہادت میں دیکھا جائے تو شہادت وحدانیت الگ ہے اور شہادت رسالت الگ ہے۔ لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ شہادت رسالت کے بغیر شہادت و حدانیت کار آمد نہیں، اور شہادت وحدانیت کے بغیر شہادت رسالت کا اعتبار نہیں۔ ٹھیک اسی طرح  ایمان اور  اسلام کے درمیان دیکھا جائے تو بعض اعتبار سے فرق محسوس ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ اعتقاد باطنی (یعنی ایمان) کے بغیر صرف اعمال ظاہرہ (اسلام) کھلا ہوا نفاق ہیں اور اعمال ظاہرہ کے بغیراعتقاد باطن کفر کی ایک صورت ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں کے مجموعہ کا نام  دین  ہے۔

ایمان کا مدار جاننے پر نہیں ماننے پر ہے : ایمان کے بارے میں اس اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تصدیق یعنی ماننے کا نام ایمان ہے نہ کہ محض علم یا معرفت یعنی جاننے کا۔ مطلب یہ کہ ایک آدمی جانتا ہے کہ  اللہ  ہے اور اکیلا ہے وہی پروردگار اور معبود ہے ، محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے سچے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس دین و شریعت اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ، وہ مبنی بر حقیقت و صداقت ہے۔ مگر وہ آدمی دل سے ان باتوں کو نہیں مانتا ، ان پر اعتقاد نہیں رکھتا، اس کا قلب ان باتوں کے اذعان و قبول سے خالی ہے تو اس آدمی میں ایمان کا وجود نہیں مانا جائے گا اس کو مومن نہیں کہا جائے گا۔ مومن تو وہی آدمی ہو سکتا ہے جو ان باتوں کو سچ اور حق بھی جانے اور دل سے مانے اور تسلیم بھی کرے۔ جب داعی حق صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو تمام اہل عرب بالخصوص اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) الوہیت کے بھی قائل تھے اور یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں اور جو دین و شریعت پیش کر رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے۔ مگر ان میں سے جو لوگ حسد و عناد رکھنے کے سبب ان حقائق کو مانتے اور تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دل و دماغ میں ایمان کا نور داخل نہیں ہو سکا اور وہ کافر کے کافر ہی رہے ، ان حقائق کا  جاننا  ان کے کسی کام نہ آیا۔

بعض صورتوں میں  اقرار باللسان کی قید ضروری ہے : جن حقائق کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کا زبان سے اقرار کرنا گو وجود ایمان کے لیے ضروری ہے لیکن بعض حالتوں میں یہ زبانی اقرار (اقرار باللسان) ضروری نہیں رہتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی گونگا ہے اور اس کے قلب میں تصدیق تو موجود ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ایمان زبانی اقرار کے بغیر بھی معتبر مانا جائے گا ، اسی طرح کوئی آدمی جانی خوف یا کسی واقعی مجبوری کی بنا پر زبان سے اپنے ایمان کا اقرار نہیں کر سکتا تو اس کا ایمان بھی زبانی اقرار کے بغیر معتبر ہو گا۔

 اعمال کی حیثیت: وجود ایمان کی تکمیل کے لیے  اعمال بھی لازمی شرط ہیں کیونکہ تصدیق قلب اور زبانی اقرار کی واقعیت و صداقت کا ثبوت  اعمال ہی ہیں۔ یہی عملی ثبوت ظاہری زندگی میں اس فیصلہ کی بنیاد بنتا ہے کہ اس کو مومن و مسلمان کہا جائے اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی آدمی دعوائے ایمان و اسلام کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو خالصتاً کفر کی علامت اور ایمان و اسلام کے منافی ہیں، یا جن کو اختیار کرنے والے پر کافر ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ آدمی کافر ہی شمار ہو گا اس کے اور ایمان و اسلام کا دعوی غیر معتبر مانا جائے گا۔

 

ایمان کا بیان

٭٭حضرت عمر بن الخطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن (ہم صحابہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (چمکدار) تھے ، اس آدمی پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی (کہ اس کو کہیں سے سفر کر کے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی سمجھا جاتا) اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا تھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی مقامی آدمی ہو یا کسی کا مہمان بھی نہیں تھا) بہر حال وہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتنے قریب آ کر بیٹھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لیے اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لیے (جیسے ایک سعادت مند شاگرد اپنے جلیل القدر استاد کے سامنے با ادب بیٹھتا ہے اور استاد کی باتیں سننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہو جاتا ہے) اس کے بعد اس نے عرض کیا اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)!مجھ کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس حقیقت کا اعتراف کرو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں اور پھر تم پابندی سے نماز پڑھو (اگر صاحب نصاب ہو تو) زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور زاد راہ میسر ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس آدمی نے یہ سن کر کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس (تضاد) پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ آدمی (ایک لاعلم آدمی کی طرح پہلے تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کرتا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے (جیسے اس کو ان باتوں کا پہلے سے علم ہو) پھر وہ آدمی بولا اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم)! اب ایمان کی حقیقت بیان فرمائیے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور قیامت کے دن کو دل سے مانو ا ور اس بات پر یقین رکھو کہ برا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔ اس آدمی نے (یہ سن کر) کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ فرمایا۔ پھر بولا اچھا اب مجھے یہ بتائیے کہ احسان کیا ہے رسول اللہ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اتنا حضور قلب میسر نہ ہو سکے) تو پھر (یہ دھیان میں رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا قیامت کے بارے میں مجھے بتائیے (کہ کب آئے گی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا، سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کے متعلق کہ کب آئے گی، میرا علم تم سے زیادہ نہیں جتنا تم جانتے ہو اتنا ہی مجھ کو معلوم ہے) اس کے بعد اس آدمی نے کہا اچھا اس (قیامت) کی کچھ نشانیاں ہی مجھے بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لونڈی اپنے آقا کو مالک کو جنے گی اور برہنہ پا، برہنہ جسم مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو تم عالی شان مکانات و عمارت میں فخر و غرور کی زندگی بسر کرتے دیکھو گے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا اور میں نے (اس کے بارہ میں آپ سے فوراً دریافت نہیں کیا بلکہ) کچھ دیر توقف کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ہی مجھ سے پوچھا عمر ! جانتے ہو سوالات کرنے والا آدمی کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) ہی بہتر جانتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو (اس طریقہ سے) تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم) اس روایت کو حضرت ابوہریرہ نے چند الفاظ کے اختلاف و فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی روایت کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) جب تم برہنہ پا برہنہ جسم اور بہرے گونگے لوگوں کو زمین پر حکمرانی کرتے دیکھو (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے) اور قیامت تو ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ (اِنَّ اللّٰہ عِنْدَہ عِلْمُ السَّاعَةِ   ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) 31۔لقمان:34) آخر تک پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور بارش کا کہ کب برسائے گا اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ لڑکا ہے یا لڑکی) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کسی آدمی کو نہیں معلوم کہ کس زمین پر اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے)۔ (صحیح البخاری و مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث حدیث جبرائیل کہلاتی ہے کیونکہ یہ حدیث اس سوال و جواب (انٹرویو) پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بڑی خوبی کے ساتھ اسلام و ایمان کی حقیقت اور دین کی اساسی باتوں کا تعارفی خاکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے دنیا والوں کے سامنے پیش کرایا ہے۔

حدیث میں سب سے پہلے ایمان اور اسلام کی حقیقت بیان ہوئی ہے جس سے ایمان اور اسلام کے درمیان یہ فرق بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ ایمان کا تعلق تو باطن یعنی تصدیق و اعتقاد سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر یعنی اعمال اور جسمانی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے۔  اللہ کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اس کی ذات اور اس کی صفات برحق ہیں، عبادت و پرستش کی سزاوار صرف اسی کی ذات ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی اس کا ہمسر و شریک نہیں۔

 فرشتوں کو ماننے کا مطلب اس بات میں یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق  فرشتوں کے نام سے موجود ہے یہ فرشتے لطیف اور نورانی اجسام ہیں۔ ان کا کام ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی تعمیل کرنا ہے۔

  کتابوں کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں اور وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل فرمائی ہیں اور ان میں چار کتابیں نازل فرمائی ہیں اور جن کی تعداد ایک سو چار ہے۔ وہ سب کلام خداوندی اور احکام و فرامین الٰہی کا مجموعہ ہیں اور ان میں چار کتابیں تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید سب سے اعلیٰ و افضل ہیں اور پھر ان چاروں میں سب سے اعلیٰ و افضل  قرآن مجید ہے۔

 رسولوں کا ماننے کا مطلب اس بات پر یقین اور اعتقاد رکھنا ہے کہ اول الانبیاء حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام نبی اور رسول اللہ تعالیٰ کے سب سے سچے ، سب سے پیارے اور سب سے افضل بندے ہیں جن کو اس نے اپنے احکام و ہدایات دے کر مختلف زمانوں، مختلف قوموں میں مبعوث کیا اور انہوں نے ان خدائی احکام و ہدایات کے تحت دنیا والوں کو ابدی صداقت و نجات کا راستہ دکھانے اور نیکی و بھلائی پھیلانے کا اپنا فریضہ مکمل طور پر ادا کیا اور یہ کہ ان تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو کسی خاص زمانہ، کسی خاص علاقہ اور کسی خاص قوم کی طرف مبعوث نہیں ہوئے ، بلکہ اللہ کا ابدی دین  اسلام لے کر تمام دنیا اور پوری کائنات کی طرف مبعوث ہوئے اور تا قیامت ان ہی کی نبوت اور انہی کی شریعت جاری و نافذ رہے گی۔

 یوم آخرت یعنی قیامت کے دن سے مراد وہ عرصہ ہے جو مرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے اور پھر جنت میں داخل ہونے تک پر مشتمل ہے۔  قیامت کے دن کو ماننے کا مطلب اس بات پر یقین و اعتقاد رکھنا ہے کہ شریعت اور شارع نے مابعد الموت اور آخرت کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے یعنی موت کے بعد پیش آنے والے احوال مثلاً قبر اور برزخ کے احوال ، نفخ صور، قیامت، حشر و نشر، حساب و کتاب اور پھر جزاء و سزا کا فیصلہ اور جنت و دوزخ یہ سب اٹل حقائق ہیں اور جن کا وقوع پذیر ہونا اور پیش آنا لازمی امر ہے۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں۔

 تقدیر پر یقین رکھنے کا مطلب اس حقیقت کو دل سے تسلیم کرنا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوتا ہے ، آج جو بھی علم واضح ہوتا ہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا بدی کا ، خالق کائنات کے علم اور تقدیر میں وہ ازل سے موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ مجبور و مضطر ہے۔ کاتب تقدیر نے انسان کو  مختار بنایا ہے۔ یعنی اس کے سامنے نیکی و بدی کے دونوں راستے کھول کر اس کو اختیار دے دیا ہے کہ چا ہے وہ نیکی کے راستہ پر چلے ، چا ہے بدی کے راستہ پر، اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ نیکی کے راستہ پر چلو گے تو جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے جو اللہ کا فضل و کرم ہو گا اور اگر بدی کے راستہ پر چلو گے تو سزا اور عذاب کے حقدار بنو گے اور دوزخ میں ڈالے جاؤ گے جو عدل خداوندی کے عین مطابق ہو گا۔

 احسان سے مراد وہ جو ہر (اخلاص) ہے جس سے ایمان و اسلام کی ظاہری صورت یعنی عبادت الٰہی کا صحیح معیار اور حسن قائم ہوتا ہے اور عبادت کا یہی صحیح معیار اور حسن درحقیقت بندے کو معبود کا کامل تقرب اور عبدیت کا حقیقی مقام عطا کرتا ہے۔ بندہ اپنی عبادتوں کو اس جو ہر سے کس طرح آراستہ و مزین کر سکتا ہے؟ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو تو اس طرح کرو جس طرح کوئی نوکر یا غلام اپنے آقا اور مالک کی خدمت اس کو اپنے سامنے دیکھ کر کرتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ اگر شفیق آقا نظر کے سامنے ہو اور غلام اس کو دیکھ رہا ہو تو اس کے فرض کی انجام دہی کی کیفیت ہی دوسری ہوتی ہے اس وقت غلام نہ صرف یہ کہ پوری طرح چاق و چوبند مؤدب اور پابند ہوتا ہے بلکہ کام کرنے کا اس کا انداز بھی پوری طرح والہانہ اور مخلصانہ ہوتا ہے اس کے برخلاف اگر آقا نظر کے سامنے نہ ہو تو غلام اگرچہ موفوضہ خدمت انجام ضرور دیتا ہے مگر اس صورت میں نہ تو وہ اتنا چاق و چوبند، مؤدب اور پابند ہوتا ہے اور نہ اس کے کام کرنے کے انداز میں اس قدر والہانہ اور مخلصانہ کیفیت موجود ہوتی ہے۔ پس اسی نکتہ کے پیش نظر اگر بندہ عبادت کے وقت ایسی کیفیت و حالات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو خشوع و خضوع اور تضرع کی تمام تر کیفیات خودبخود اس کی عبادت میں پیدا ہو جائیں گی اور اس طرح اس کی عبادت حقیقی عبادت کا درجہ پائے گی اور اس عبادت کا بنیادی مقصد بھی حاصل ہو گا۔ عبادت کے اس مرتبہ کو  حقیقی احسان کہا گیا ہے جس کو ارباب تصوف مشاہدہ اور استغراق سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادت کا یہ سب سے اونچا مرتبہ و مقام ہے جہاں تک رسائی اتنی آسان نہیں ہے اس لیے نسبتاً آسان طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عبادت کرو تو یہ دھیان میں رکھو کہ جس ذات کی عبادت تم کر رہے ہو اس کے سامنے تم کھڑے ہو اور اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھ سکتے مگر وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ تمہاری ایک ایک بات پر اس کی نظر ہے اور تمہاری حرکات و سکنات میں سے کچھ بھی اس سے پوشیدہ نہیں ، اس یقین و اعتقاد سے بھی تمہاری عبادت میں خشوع و خضوع اور تضرع بڑی حد تک پیدا ہو جائے گا اور عبادت کا حق ادا ہو گا۔ حدیث میں عبادت کی اسی کیفیت کو  احسان سے تعبیر کیا گیا ہے جو حقیقی احسان یعنی مشاہدہ و استغراق کا ثانوی درجہ ہے۔

حدیث میں ان چاروں فرائض کا بھی ذکر ہے جو ہر مسلمان و مومن پر اس تفصیل کے ساتھ عائد ہوتے ہیں کہ نماز اور روزہ تو وہ دو بدنی فرض عبادتیں ہیں جن کا تعلق ہر عاقل و بالغ مسلمان سے ہے جو بھی آدمی ایمان اور اسلام سے متصف ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اس پر فرض ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرے اور جب رمضان آئے تو اس مہینے کے پورے روزے رکھے۔ باقی دو فرض عبادتیں یعنی زکوٰۃ اور حج وہ مالی عبادتیں ہیں جن کا تعلق صرف اس مومن و مسلمان سے ہے جو ان کے بقدر مالی استطاعت و حیثیت رکھتا ہو۔ مثلاً زکوٰۃ اس مسلمان پر فرض ہو گی جو صاحب نصاب ہو۔ اور حج اس مسلمان پر فرض ہو گا جو صاحب نصاب ہی نہیں بلکہ اپنی تمام ضروریات زندگی سے فراغت کے بعد اتنا سرمایہ رکھتا ہو کہ وہ بغیر کسی تنگی و پریشانی کے آمد و رفت اور سفر کے دوسرے تمام اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔ علاوہ ازیں سفر حج کی پوری مدت کے لیے اہل و عیال اور لواحقین کے تمام ضروری اخراجات کے بقدر رقم یا سامان و اسباب ان کو دے کر جا سکتا ہو۔ زاد راہ اور فرضیت حج کی اس طرح کی دوسری شرائط پوری ہو جائیں تو باقی دشواریاں جیسے سفر کا طویل اور پر صعوبت ہونا، درمیان میں سمندر یا دریا کا حائل ہونا وغیرہ، حج کی فرضیت کو ساقط نہیں کر سکتیں۔

قیامت کی کچھ اہم نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ جب یہ آثار ظاہر ہونے لگیں اور یہ علامتیں دیکھ لی جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عالم کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے اور یہ دنیا اپنے وجود کے آخری دور سے گزر رہی ہے۔ پہلی علامت یا نشانی تو یہ بتائی گئی ہے کہ  لونڈی اپنے آقا یا مالک کو جنے گی اس کا ایک مطلب تو غلامی کے زمانہ اور رواج کے سیاق میں لیا جا سکتا ہے کہ لوگ کثرت سے باندیاں رکھیں گے اور ان باندیوں سے اولاد بھی بہت جنوائیں گے ، پھر انہی اولاد میں سے جو لوگ بڑے ہو کر مال و جائیداد اور حکومت و طاقت کے مالک بنیں گے وہ لا علمی میں اپنی انہی ماؤں کو جنہوں نے ان کو جنم دیا ہو گا، باندیوں کے طور پر خریدیں گے۔ اور اپنی خدمت میں رکھیں گے۔ اس جملے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب معاشرے میں جنسی بے راہ روی عام ہو جائے ، مرد و زن تمام اخلاقی اور انسانی پابندیوں کو توڑ کر بے محابہ نا جائز تعلقات پیدا کریں اور اس کے نتیجہ میں ایسے نا جائز بچے کثرت سے پیدا ہونے لگیں جن کو نہ اپنے باپ کی خبر ہو اور نہ اپنی ماں کو جانتے ہوں اور پھر وہی بچے بڑے ہو کر لا علمی میں اپنی ماؤں کو ملازمہ اور نوکرانی بنائیں جنہوں نے ان کو جنا تھا تو سمجھو کہ قیامت قریب آ گئی ہے۔ دوسری علامت  برہنہ پا ، برہنہ جسم، مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کا ایوان حکومت اور عالیشان مکانات و محلات کا مالک ہونا  بتایا گیا ہے۔ اس کے مطلب یہ ہے کہ جب تم دیکھو کہ شریف النسل ، عالی خاندان اور مہذب و معزز لوگ انقلاب عالم کا شکار ہو کر غربت و افلاس اور بے روز گاری و پریشانی حالی کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں، اپنی حیثیت و وقعت کھو چکے ہیں اور معاشرتی و سماجی سطح پر کسی اثر و رسوخ کے حامل نہیں رہ گئے ہیں اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ کہ جو کل تک حسب و نسب، شرافت و نجابت، نسل و خاندان اور تہذیب و شائستگی کے اعتبار سے نہایت بے حیثیت و بے وقعت تھے ، تعلیمی و اخلاقی طور پر کم تر و پسماندہ سمجھے جاتے تھے۔ غیر منصفانہ سیاست و انقلاب کی بدولت حکومت و اقتدار کے مالک بن بیٹھیں۔ دغا و فریب کے ذریعہ مال و دولت اور بڑی بڑی جائیدادوں پر قابض اور عالی شان مکانات و محلات کے مکین ہو گئے ہیں ، نہ صرف یہ بلکہ طاقت و حکومت ، مال و دولت اور پر عیش زندگی نے ان کو گھمنڈی شیخی خور بنا دیا ہے ، حقیقی شرافت و نجابت رکھنے والے غریب و مفلس لوگوں کا وہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی تباہی و رسوائی کے بد سے بدتر حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو سمجھنا کہ اب اس دنیا کے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے۔ اسی تفصیل کو علامہ طیبی نے چند جملوں میں اس طرح بیان کیا ہے کہ قیامت کی علامتیں بتانے والے حدیث کے یہ دونوں جملے دراصل انقلاب حالات سے کنایہ ہیں یعنی جب اتنا انقلاب رونما ہو جائے کہ اپنی اولاد اپنا آقا اور حاکم بن جائے۔ اور شرفاء کی جگہ کمتر و ذلیل لے لیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اب تمام عالم پر ایک عظیم انقلاب کا وقت قریب آگیا ہے جسے قیامت کہا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ: اس حدیث میں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کی اساس اور دین کی بنیادی باتوں کو بتایا گیا ہے یعنی  ایمان کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ ان عقائد و نظریات سے تعبیر ہے جن کو جاننے اور ماننے کے بعد کوئی آدمی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور مومن بنتا ہے  اسلام کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اس سے وہ عملی ذمہ داریاں (فرائض) مراد ہیں جو مومن پر عائد ہوتی ہیں اور ان عملی ذمہ داریوں یعنی فرائض کی انجام دہی ہی پیرو اسلام یعنی مسلمان بناتی ہے اس کے بعد احسان کی وضاحت کی گئی جس کو اخلاص سے (یا تصوف سے بھی) تعبیر کیا جا سکتا ہے یہ اس کیفیت کا نام ہے۔ جو صحیح عقائد و نظریات سے وابستگی اور شریعت کی اتباع و فرمانبرداری کے بعد توجہ الی اللہ کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے۔ اور بندے کو اپنے معبود کا تقرب عطا کرتی ہے۔ درحقیقت یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی خوشنودی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اللہ اور اللہ کے رسول کے جاری و نافذ کئے ہوئے احکام و ہدایات پر پوری طرح عمل نہ کیا جائے اور  عمل  اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اس وقت تک  حسن قبول کا درجہ نہیں پا سکتے جب تک اللہ کی طرف کامل توجہ نہ ہو اور پورے داخلی و خارجی وجود پر خوف و خشیت الہٰی اور حضور قلب کی کیفیت طاری نہ ہو اور ان دونوں کا اس وقت تک کوئی اعتبار نہیں ہو گا جب تک فکر و عقیدہ صحیح نہ ہو۔ اور دل و دماغ ایمان و یقین سے روشن نہ ہوں۔ پس کامل مومن یا کامل مسلمان وہی آدمی مانا جائے گا جس کا دل و دماغ میں ایمان یعنی صحیح اسلامی عقائد و نظریات کا نور موجود ہو، پھر وہ ان فرائض کو پوری طرح ادا کرے اور ان احکام و ہدایات کی کامل اطاعت کرے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ جاری و نافذ کئے اور پھر ریاضیت و مجاہد یعنی ذکر و شغل اور اوراد و  وظائف کے ذریعہ اخلاص، توجہ الی اللہ اور رضاء مولی کے حصول کی جدوجہد کرے جس سے ایمان و اسلام میں حسن و کمال اور بلند قدری ملتی ہے۔

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ (آپ اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جلیل القدر صحابی ہیں آپ کی پیدائش سال نبوت سے ایک سال پہلے مکہ معظمہ میں ہوئی تھی ٧٣ یا ٧٤ میں وصال فرمایا) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اول اس بات کا دل سے اقرار کرنا اور گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، دوم پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا، سوم زکوٰۃ دینا، چہارم حج کرنا، پنجم رمضان کے روزے رکھنا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح

 

  اسلام کی تشبیہ  عمارت سے دی جا سکتی ہے کہ جس طرح کوئی بلند بالا اور خوشنما عمارت اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کے نیچے بنیادی ستون نہ ہوں، اسی طرح اسلام کے بھی پانچ بنیادی ستون ہیں جن کے بغیر کوئی آدمی اپنے اسلام کو وجود و بقا نہیں دے سکتا، ان ہی پانچ ستونوں کو اس حدیث میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور وہ ہیں: عقیدہ توحید و رسالت ، نماز، زکوٰۃ، حج اور روزہ۔ جو آدمی خود کو مومن و مسلمان بنانا اور قائم رکھنا چا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اعتقادی و فکری اور عملی و اخلاقی زندگی کی اساس ان پانچوں ستونوں کو قرار دے۔ پھر جس طرح کسی عمارت کی شان و شوکت اور دیدہ زیبی و خوشنمائی در و دیوار کے نقش و نگار اور طاق و محراب کی آرائش و زیبائش پر منحصر ہوتی ہے اسی طرح اسلام کے حسن و کمال کا انحصار بھی ان اعمال پر ہے جن کو واجبات و مستحبات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں حدیث میں چونکہ اسلام کی بنیادی چیزوں کا ذکر مقصود تھا اس لیے اس موقع پر ان واجبات و مستحبات کا ذکر نہیں کیا گیا۔

ایمان کی شاخیں

حضرت ابوہریرہ (آپ کا اصل نام عبدالرحمن بن صخر ہے کنیت ابوہریرہ ہے۔ ٥٧ یا ٥٨ھ میں آپ نے مدینہ میں وصال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ ایمان کی شاخیں ستر سے کچھ اوپر ہیں ان میں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ زبان و دل سے اس بات کا اقرار و اعتراف ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب سے کم درجہ کی شاخ کسی تکلیف دینے والی چیز کا راستہ سے ہٹا دینا ہے نیز شرم و حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں ایمان کے شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتائی گئی ہے یعنی وہ چیزیں مل کر کسی کو ایمان و اسلام کا مکمل پیکر اور خوشنما مظہر بناتی ہیں۔ یہاں تو صرف ان شعبوں اور شاخوں کی تعداد بتلائی گئی ہے لیکن بعض احادیث میں ان کی تفصیل بھی منقول ہے اور وہ اس طرح ہے

پہلی چیز تو بنیادی ہے یعنی اس حقیقت کا دل و دماغ میں اعتقاد و یقین اور زبان سے اقرار و اظہار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات و صفات برحق ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، بقاء اور دوام صرف اسی کی ذات کے لیے ہے جب کہ کائنات کی تمام چیزیں فنا ہو جانے والی ہیں، ایسے ہی اللہ کے رسولوں، اس کی کتابوں اور فرشتوں کے بارے میں اچھا اعتقاد اور حسن یقین رکھنا اور ان کو برحق جاننا، آخرت کا عقیدہ رکھنا کہ مرنے کے بعد قبر میں برے اور گنہگار لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اچھے نیک بندوں پر اس کا انعام و اکرام ہوتا ہے۔ قیامت آئے گی اور اس کے بعد حساب و کتاب کا مرحلہ ضرور آئے گا، اس وقت ہر ایک کے اعمال ترازو میں تولے جائیں گے جن کے زیادہ اعمال اچھے اور نیک ہوں گے ان کو پروانہ جنت دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، جن کے زیادہ اعمال برے ہوں گے ، ان کی فرد جرم ان کے بائیں ہاتھ میں تھما دی جائے گی۔ تمام لوگ پل صراط پر سے گزریں گے۔ مومنین صالحین ذات باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیک اور اچھے لوگ بہشت میں پہنچائے جائیں گے اور گنہگاروں کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔ جس طرح جنتی (مومن) بندے جنت میں ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام اور اس کی خوشنودی سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اسی طرح دوزخی لوگ (کفار) ہمیشہ ہمیشہ اللہ کے مسلط کئے ہوئے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔

ایمان کے شعبوں اور شاخوں میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ سے ہر وقت لو لگائے رہے اور اس سے محبت رکھے اگر کسی غیر اللہ سے محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے یا کسی سے دشمنی رکھے تو اللہ کے لیے رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کامل محبت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و برتری، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کو رواج دینا اور پھیلانا بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھنے کی دلیل ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی علامت اس طرح رچ بس جائے کہ اس محبت کے مقابلہ میں دنیا کی کسی بھی چیز اور کسی بھی رشتہ کی محبت کوئی اہمیت نہ رکھے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کی علامت اتباع شریعت ہے۔ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے اور شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے اللہ ، اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتا ہے لیکن جو آدمی اللہ اور رسول کے احکام و فرمان کی تابعداری نہ کرتا ہو تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ نعوذ باللہ اس کا دل اللہ و رسول کی پاک محبت سے بالکل خالی ہے۔

یہ بھی ایمان کی ایک شاخ ہے کہ جو عمل کیا جائے خواہ وہ بدنی ہو یا مالی، قولی ہو یا فعلی اور یا اخلاقی وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے ہو، نام و نمود یا کسی دنیاوی غرض سے نہ ہو پس جہاں تک ہو سکے اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ نفاق اور ریا کا اثر عمل کے حسن و کمال اور تاثیر کو ختم کر دے گا۔

مومن کا دل ہمہ وقت خوف خدا اور خشیت الٰہی سے بھرا ہوا اور اس کے فضل و کرم اور رحمت کی امیدوں سے معمور رہنا چاہیے ، اگر بتقاضائے بشریت کوئی بری بات یا گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر فوراً خلوص دل سے توبہ کے بعد آئندہ کے لیے گناہوں سے اجتناب کا عہد کرے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتا رہے اور اپنے اچھے عمل اور نیک کام میں اللہ کی رحمت اور اس کے انعام و اکرام کی آس لگائے رہے۔ درحقیقت یہ ایمان کا ایک بڑا تقاضہ ہے کہ جب کبھی کوئی گناہ جان بوجھ کر یا نا دانستہ سرزد ہو جائے تو فوراً احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے گناہ سے توبہ کرے اور معافی و بخشش کا طلبگار ہو، اس لیے کہ ارتکاب گناہ کے بعد توبہ کرنا شرعاً ضروری اور لازم ہے۔

 اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے اگر اس نے اولاد عنایت فرمائی ہو تو فوراً عقیقہ کرے ، اگر نکاح کیا ہو تو ولیمہ کرے ، اگر قرآن مجید حفظ یا ناظرہ ختم کیا ہو تو خوشی و مسرت کا اظہار کرے ، اللہ نے اگر مال دیا ہے تو زکوٰۃ ادا کرے۔ عیدالفطر کی تقریب میں صدقۃ الفطر دے اور بقر عید میں قربانی کرے۔

یہ بھی ایمان کا تقاضہ ہے کہ وعدہ کرے تو اسے پورا کرے ، مصیبت پر صبر کرے ، اطاعت و فرمانبرداری کے لیے ہر مشقت برداشت کرے ، گناہوں سے بچتا رہے۔ تقدیر اور اللہ کی مرضی پر راضی رہے ، اللہ پر توکل کرے ، بڑوں اور بزرگوں کی تعظیم و احترام، چھوٹوں اور بچوں سے شفقت و محبت کا معاملہ کرے اور کبر و غرور، نخوت و تکبر کو چھوڑ کر کسر نفسی و تواضع اور حلم و بردباری اختیار کرے۔  حسن اسلام اور  تکمیل ایمان کے مدارج میں سے یہ بھی ہے کہ برابر کلمہ توحید و شہادت کا ورد رکھے۔ قرآن شریف پڑھے اگر جاہل ہو تو عالم سے علم کی دولت حاصل کرے اگر عالم ہو تو جاہلوں کو تعلیم دے ، اپنے مقاصد میں کامیابی کے لیے اللہ سے مدد کا طلب گار ہو اور دعا مانگے اور اس کا ذکر کرتا رہے ، اپنے گناہوں سے استغفار کرے اور فحش باتوں سے بچتا رہے ، ہر وقت ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک رہے۔

نمازوں کا پڑھنا خواہ فرض ہوں یا نفل ، اور وقت پر ادا کرنا، روزہ رکھنا ، چا ہے نفل ہو یا فرض، ستر کا چھپانا، صدقہ دینا خواہ نفلی ہو یا لازمی، غلاموں کو آزاد کرنا، سخاوت و ضیافت کرنا، اعتکاف میں بیٹھنا، شب قدر اور شب برات میں عبادت کرنا، حج و عمرہ کرنا، طواف کرنا۔ دارالحرب یا ایسے ملک سے جہاں فسق و فجور، فحش و بے حیائی اور منکرات و بدعات کا زور ہو، دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جانا، بدعتوں سے بچنا اپنے دین کو بری باتوں سے محفوظ رکھنا، نذروں کا پورا کرنا ، کفاروں کا ادا کرنا، حرام کاری سے بچنے کے لیے نکاح کرنا۔ اہل و عیال کے حقوق پورے طور پر ادا کرنا، والدین کی خدمت کرنا، اور ہر طرح ان کی مدد کرنا اور خبر گیری رکھنا، اپنی اولاد کی شریعت کے مطابق تربیت کرنا، اپنے ماتحتوں سے حسن سلوک کرنا، اپنے حاکموں، افسروں اور مسلمان سرداروں کی تابعداری کرنا بشرطیکہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ دیں۔ غلام اور باندی سے نرمی اور بھلائی سے پیش آنا، اگر صاحب اقتدار اور حاکم و جج ہو تو انصاف کرنا، لوگوں میں باہم صلح صفائی کرانا، اسلام سے بغاوت کرنے والوں اور دین سے پھرنے والوں سے قتل و قتال کرنا، اچھی باتوں کی تبلیغ کرنا، بری باتوں سے لوگوں کو روکنا، اللہ کی جانب سے مقرر کی ہوئی سزاؤں کا جاری کرنا، دین و اسلام میں غلط باتیں پیدا کرنے والوں اور اللہ و رسول کا انکار کرنے والوں سے حسب قوت و استطاعت خواہ ہتھیار سے خواہ قلم و زبان سے جہاد کرنا، اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کرنا، امانت کا ادا کرنا، مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنا، وعدے کے مطابق فرض پورا کرنا، پڑوسی کی دیکھ بھال کرنا اور اس کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آنا، لوگوں کے ساتھ بہترین معاملہ کرنا، حلال طریقہ سے مال کمانا اور اس کی حفاظت کرنا، مال و دولت کو بہترین مصرف اور اچھی جگہ خرچ کرنا۔ فضول خرچی نہ کرنا، سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا، جب کسی کو چھینک آئے تو  یرحمک اللہ  کہنا، خلاف تہذیب کھیل کود اور برے تماشوں سے اجتناب کرنا، لوگوں کو تکلیف نہ پہنچانا اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا دینا تاکہ راہ گیروں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچے ، یہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں۔

راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے کا یہ مطلب ہے کہ اگر راستے میں پتھر یا کانٹے پڑے ہوں جس سے راہ گیر کو تکلیف پہنچ سکتی ہو یا نجاست و غلاظت پڑی ہو یا ایسی کوئی بھی چیز پڑی ہو جس سے راستے پر چلنے والوں کو نقصان پہنچ سکتا ہو تو مومن کا یہ فرض ہے کہ انسانی و اخلاقی ہمدردی کے ناتے اس کو ہٹا دے اور راستہ صاف کر دے۔ اور اسی طرح خود بھی ایسی کوئی چیز راستے میں نہ ڈالے جو راستہ چلنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور عارفین کی رمز شناس نگاہوں نے تو اس سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے صاف کر لے جو توجہ الی اللہ اور معرفت کے راستہ کی رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں اور اپنے قلب سے برائی و معصیت کے خیال تک کو کھرچ کر پھینک دے۔

بہر حال یہ تمام باتیں ایمان کے شعبے ہیں جن پر مومن کا عمل کرنا نہایت ضروری ہے اس لیے کہ ایمان کی تکمیل اور اسلام کا حسن ان ہی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے اگر کوئی آدمی ان باتوں سے خالی ہے اور اس کی زندگی ان کی شعاعوں سے منور نہیں ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی اس کو چاہیے کہ اللہ کی مدد اور اس کی توفیق چاہ کر ان اہم باتوں کو اختیار کرے۔

مومن اور مسلم کا مفہوم

اور حضرت عبداللہ بن عمرو (حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص جلیل القدر صحابی، رفیع المرتبت عالم، بلند پایہ مجاہد اور بڑے مرتبہ کے متقی و عابد تھے آپ مہاجر ہیں۔ آپ کے سن وفات میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ تذکرۃ الحفاظ کی روایت کے مطابق مصر میں ٧٥ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کامل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا) سے مسلمان محفوظ رہیں اور اصل مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ یہ الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔ ایک آدمی نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ مسلمانوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ (کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزء میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ  مومن اور مسلمان محض اس چیز کا نام نہیں ہے کہ کوئی آدمی صرف کلمہ پڑھ لے اور کچھ متعین اعمال و ارکان ادا کر لے بلکہ اسلامی شریعت اپنے پیروؤں سے ایک ایسی بھر پور زندگی کا تقاضا کرتی ہے جس کا حامل ایک طرف عقائد و اعمال کے لحاظ سے اللہ کا  حقیقی بندہ کہلانے کا مستحق ہو تو دوسری طرف وہ انسانیت کے تعلق سے پوری طرح امن و آشتی کا نمونہ اور محبت و مروت کا مظہر ہو، امن و امانت، اخلاق و رواداری، ہمدردی و خیر سگالی کا اپنی عملی زندگی میں اس طرح اظہار کرے کہ دنیا کا ہر انسان اس سے خوف زدہ رہنے کے بجائے اس کو اپنا ہمدرد ، بہی خواہ اور مشفق سمجھے ، اور کیا مال کیا جان و آبرو، ہر معاملہ میں اس پر پورا اعتماد اور اطمینان رکھے۔

اس حدیث میں ہاتھ اور زبان کی تخصیص اس لیے ہے کہ عام طور پر ایذا رسانی کے یہی دو ذریعے ہیں ورنہ یہاں ہر وہ چیز مراد ہے جس سے تکلیف پہنچ سکتی ہے خواہ وہ ہاتھ ہوں یا زبان یا کوئی دوسری چیز۔

حدیث کے دوسرے جزء میں  حقیقی مہاجر کی تعریف کی گئی ہے یوں تو مہاجر ہر اس آدمی کو کہیں گے جس نے اللہ کی راہ میں اپنا وطن، اپنا گھر اور اپنا ملک چھوڑ کر دارالاسلام کو اپنا وطن بنا لیا ہو، اس قربانی کو اسلام عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس مہاجر کو بے شمار جزاء و انعام کا حقدار مانتا ہے لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا اس ہجرت کے علاوہ ایک ہجرت اور ہے جس کا زندگی کے ساتھ دوامی تعلق رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے مومن ان سے پرہیز کرتا رہے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نفسانی خواہشات کو بالکل ترک کر کے پاکیزہ نفسی اختیار کرے ، پس ایسا آدمی حقیقی مہاجر کہلانے کا مستحق ہے۔

درجات محبت

اور حضرت انس بن مالک (حضرت انس بن مالک بن نضر انصاری ہیں اور مدینہ کے اصل باشندے تھے۔ آپ کی عمر جب دس سال کی تھی تو آپ کی والدہ ام سلیم بنت ملحان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ٩٦ھ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

  محبت ایک تو طبعی ہوتی ہے جیسے اولاد کو باپ کی یا باپ کو اولاد کی محبت۔ اس محبت کی بنیاد طبعی وابستگی و پسند اور فطری تقاضہ ہوتا ہے۔ اس میں عقلی یا خارجی ضرورت اور دباؤ کا دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ایک محبت عقلی ہوتی ہے جو کسی طبعی و فطری وابستگی اور تقاضے کے تحت نہیں ہوتی۔ بلکہ کسی عقلی ضرورت و مناسبت اور خارجی وابستگی کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کی مثال مریض اور دوا ہے یعنی بیمار آدمی دوا کو اس لیے پسند نہیں کرتا کہ دوا لینا اس کا طبعی اور فطری تقاضہ ہے بلکہ یہ دراصل عقل کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر بیماری کو ختم کرنا ہے اور صحت عزیز ہے تو دوا استعمال کرنی ہو گی خواہ اس دوا کی تلخی اور کڑواہٹ کا طبیعت پر کتنا ہی بار کیوں نہ ہو، اسی طرح اگر کسی آدمی کے جسم کا کوئی حصہ پھوڑے پھنسی کے فاسد مادہ سے بھر گیا ہو تو وہ آپریشن کے لیے اپنے آپ کو کسی ماہر جراح اور سرجن کے حوالہ اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی نظر میں آلات جراحی کی چمک دمک اچھی لگتی ہے یا اس کی طبیعت اپنے جسم کے اس حصہ پر نشتر زنی کو پسند کرتی ہے ، بلکہ یہ عقل و دانائی کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر جسم کو فاسد مادہ سے صاف کرنا ہے تو خود کو اس جراح یا سرجن کے حوالے کر دینا ضروری ہے۔ کسی چیز کو عقلی طور پر چاہنے اور پسند کرنے کی وہ کیفیت جس کو  عقلی محبت سے تعبیر کرتے ہیں، بعض حالات میں اتنی شدید، اتنی گہری اور اتنی اہم بن جاتی ہے کہ بڑی سے بڑی طبعی محبت اور بڑے سے بڑے فطری تقاضے پر بھی غالب آ جاتی ہے۔ پس یہ حدیث ذات رسالت سے جس محبت اور وا بستگی کا مطالبہ کر رہی ہے وہ علماء و محدثین کے نزدیک یہی  عقلی محبت ہے لیکن کمال ایمان و یقین کی بنا پر یہ  عقلی محبت اتنی پر اثر، اتنی بھر پور اور اس کی قدر جذباتی وابستگی کے ساتھ ہو کہ طبعی محبت پر غالب آ جائے۔ اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی ہدایت اور کسی شرعی حکم کی تعمیل میں کوئی خونی رشتہ جیسے باپ کی محبت ، اولاد کا پیار یا کوئی بھی اور طبعی تعلق رکاوٹ ڈالے تو اس ہدایت رسول اور شرعی حکم کو پورا کرنے کے لیے اس خون کے رشتے اور طبعی تقاضا و محبت کو بالکل نظر انداز کر دینا چاہیے ، ایمانیات اور شریعت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا مقام ہے اور یہ مقام اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب ایمان و اسلام اور حب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا دعوی کرنے والا اپنے نفس کو احکام شریعت اور ذات رسالت میں فنا کر دے ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا و خوشنودی کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد حیات نہ ہو۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ اہل ایمان جہاد کے لیے نکلیں، اس حکم کی تعمیل میں اہل ایمان، دشمنان دین سے لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچتے ہیں۔ جب دونوں طرف سے صف آرائی ہوتی ہے اور حریف فوجیں آمنے سامنے آتی ہیں تو کسی مسلمان کو اپنا لڑکا دشمن کی صف میں نظر آتا ہے اور کسی کو اپنا باپ۔ اب ایک طرف تو وہ طبعی محبت ہے ، جو کیسے گوارا کر لے کہ اس کی تلوار اپنے باپ یا اپنی ہی اولاد کے خون سے رنگی جائے ، دوسری طرف حکم رسول ہے کہ دشمن کا کوئی بھی فرد تلوار کی زد سے امان نہ پائے چا ہے وہ اپنا باپ یا بیٹا کیوں نہ ہو، تاریخ کی ناقابل تردید صداقت گواہی دیتی ہے کہ ایسے نازک موقع پر اہل ایمان پل بھر کے لیے بھی ذہنی کشمکش میں مبتلا نہیں ہوتے ، ان کو یہ فیصلہ کر لینے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی کہ حکم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے نہ باپ کی محبت کوئی معنی رکھتی ہے نہ اولاد کی۔ اور پھر میدان جنگ میں باپ کی تلوار بے دریغ اپنی اولاد کا خون بہاتی نظر آتی ہے اور بیٹا اپنے باپ کو موقع نہیں دیتا کہ بچ کر نکل جائے۔

بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ تکمیل ایمان کا مدار حب رسول پر ہے جس آدمی میں ذات رسالت سے اس درجہ کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلہ پر دنیا کے بڑے سے بڑے رشتے ، بڑے سے بڑے تعلق اور بڑی سے بڑی چیز کی محبت و چاہت بھی بے معنی ہو، وہ کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ، اگرچہ زبان اور قول سے وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی بڑا دعوی کرے۔

حضرت عمر فاروق کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنی تو عرض کیا  یا رسول اللہ ! دنیا میں صرف اپنی جان کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں یعنی دنیا کے اور تمام رشتوں اور چیزوں سے زیادہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت رکھتا ہوں مگر اپنی جان سے زیادہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے تم اب بھی کامل مومن نہیں ہوئے اس لیے کہ یہ مرتبہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہو جاؤں۔ ان الفاظ نبوت نے جیسے آن واحد میں حضرت عمر فاروق کے دل و دماغ کی دنیا تبدیل کر دی ہو، وہ بے اختیار بولے۔ یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر میری جان قربان آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر ان کو خوشخبری سنائی کہ اے عمر ! اب تمہارا ایمان کامل ہوا اور تم پکے مومن ہو گئے۔

اور صرف عمر فاروق ہی نہیں، تمام صحابہ اسی کیفیت سے معمور اور حب رسول سے سرشار تھے ، ان کی زندگیوں کا مقصد ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جانوں کو نچھاور کر دینا تھا، بلا شبہ دنیا کا کوئی مذہب اپنے راہنما اور پیروؤں کے باہمی تعلق اور محبت کی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس بلا شک صحابہ کے لیے شمع کی سی تھی جس پر وہ پروانہ وار نچھاور ہونا ہی اپنی سعادت و خوش بختی تصور کیا کرتے تھے۔ اسلام کے اس دور کی شاندار تاریخ اپنے دامن میں بے شمار ایسے واقعات چھپائے ہوئے ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ کرام اجمعین کی جذباتی وابستگی اور والہانہ محبت و تعلق کی شاندار غمازی کرتے ہیں۔

غزوہ احد کا واقعہ ہے۔ میدان جنگ میں جب معرکہ کار زار گرم ہوا اور حق کی مٹھی بھر جماعت پر باطل کے لشکر جرار نے پوری قوت اور طاقت سے حملہ کیا تو دیکھا گیا ہے کہ ایک انصاری عورت کے شوہر، باپ اور بھائی تینوں نے جام شہادت پیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر دیوانہ وار فدا ہو گئے ، یہ دل دہلا دینے والی خبر اس عورت کو بھی پہنچائی گئی مگر اللہ پر ایمان کی پختگی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کا اثر کہ بجائے اس کے کہ وہ عورت اپنے لواحقین کی شہادت پر نالہ و شیون اور ماتم و فریاد کرتی اس نے سب سے پہلے سوال کیا

 خدارا مجھے یہ بتاؤ کہ میرے آقا اور سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر میری جان قربان) تو بخیر ہیں؟۔

لوگوں نے کہا۔ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سلامت ہیں  مگر اس سے اس کی تسکین نہ ہوئی اور بے تابانہ کہنے لگی

 اچھا چلو ! میں اپنی آنکھوں سے دیدار کر لوں تو یقین ہو گا  اور جب اس نے اپنی آنکھوں سے چہرہ انور کی زیارت کر لی تو بولی

کل مصیبۃ بعدک جلل۔ جب آپ زندہ سلامت ہیں تو ہر مصیبت آسان ہے۔

ایک مرتبہ ایک آدمی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اپنے اہل و عیال اور مال سب سے زیادہ محبوب ہیں، مجھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد آتی ہے تو صبر نہیں آتا جب تک کہ یہاں آکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روئے انور کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی نہیں کر لیتا۔ مگر اب تو یہی غم کھائے جاتا ہے کہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوں گے ، وہاں میری آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار کیسے کر سکیں گی۔ جب ہی یہ آیت نازل ہوئی

ومَنْ یُطِعِ اﷲ وَالرَّسُوْلَ فَأُوْلٰائکِ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰائِکَ رَفِیْقاً۔ (النساء ٦٩)

 جو لوگ اللہ و رسول کا کہنا مانتے ہیں وہ (آخرت میں) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام ہیں یعنی نبی، صدیق، شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی صحبت بڑی غنیمت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی کو یہ خوشخبری سنا دی۔

عبد اللہ بن زید بن عبدربہ جو صاحب اذان کے لقب سے مشہور تھے اپنے باغ میں کام کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ان کے صاحبزادہ نے آ کر پریشانی والی خبر سنائی کہ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم وصال فرما گئے۔ عشق نبوی سے سرشار اور محبت رسول سے سر مست ، یہ صحابی اس جان گداز خبر کی تاب ضبط نہ لا سکے ، بے تابانہ ہاتھ فضا میں بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے : خداوندا اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے مشرف و منور ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں (ترجمہ السنۃ)۔

ان واقعات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت و تعلق کا وہی مقام حاصل تھا جو اس حدیث کا منشاء ہے اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ ایمان کی سلامتی اور اپنے اسلام میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و عقیدت سے اپنے دل کو معمور کرے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی کو مدار نجات جانے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا معیار اتباع شریعت اور اتباع رسول ہے جو آدمی شریعت پر عمل نہیں کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر نہیں چلتا، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ نعوذ باللہ اسے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت نہیں ہے۔

ایمان کی لذت

اور حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جس آدمی میں یہ تین چیزیں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی حقیقی لذت سے لطف اندوز ہو گا، اول یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ ہو، دوسرا یہ کہ کسی بندہ سے اس کی محبت محض اللہ (کی خوشنودی) کے لیے ہو۔ تیسرے یہ کہ جب اسے اللہ نے کفر کے اندھیرے سے نکال کر ایمان و اسلام کی روشنی سے نواز دیا ہے تو اب وہ اسلام سے پھر جانے کو اتنا ہی برا جانے جتنا آگ میں ڈالے جانے کو۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 کمال ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت اس درجہ رچ بس جائے کہ ان کے ماسوا تمام دنیا اس کے سامنے کم تر ہو۔

اس طرح یہ شان بھی مومن کامل ہی کی ہو سکتی ہے کہ اگر وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو محض اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور اگر کسی سے بغض و عداوت رکھتا ہے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں غرض کہ اس کا جو بھی عمل ہو صرف اللہ کے لیے ہو اور اس کے حکم کی تکمیل میں ہو۔

ایسے ہی ایمان کا پختگی کے ساتھ دل میں بیٹھ جانا اور اسلام پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا اور کفر و شرک سے اس درجہ بیزاری و نفرت رکھنا کہ اس کے تصور و خیال کی گندگی سے بھی دل پاک و صاف رہے ، ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔

اسی لیے اس حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان کی حقیقی دولت کا مالک اور اس پر جزاء و انعام کا مستحق تو وہی آدمی ہے جو ان تینوں اوصاف سے پوری طرح متصف ہو اور ایمان کی حقیقی لذت کا ذائقہ وہی چکھ سکتا ہے جس کا دل ان چیزوں کی روشنی سے منور ہو۔

ایمان کا لطف

اور حضرت عباس بن عبدالمطلب (آپ حضرت عبدالمطلب کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا تھے۔ بارہ رجب ٣٢ھ جمعہ کے دن آپ کا انتقال ہوا۔)  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس آدمی نے اللہ تعالیٰ کو اپنا پروردگار، اسلام کو اپنا دین اور  محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اپنا رسول خوشی سے مان لیا تو (سمجھو کہ) اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی ذات و صفات پر ایمان محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت و نبوت پر یقین و اعتقاد ، دین و شریعت کی حقانیت و صداقت پر کامل اعتماد اور اسلامی تعلیمات و احکام کی پیروی، اس کیفیت کے ساتھ ہونے چاہیے کہ دل و دماغ کے کسی گوشہ میں کوئی دباؤ، کوئی گھٹن، کوئی تکدر اور کوئی ناگواری ذرہ برابر محسوس نہ ہوتی ہو۔ رضا و رغبت، اطمینان خاطر اور دماغی و ذہنی سکون کی وہ لہر پورے داخلی و خارجی وجود میں سرایت کئے ہوئے ہو، جو کسی انمول چیز کے حاصل ہو جانے پر دل و دماغ اور جسم کے پورے و جود کو مسرت و شادمانی اور احساس سرفرازی سے سرشار کر دیتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اس کو ہر حالت میں مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس ایمان و یقین اور عمل آوری میں اگر کسی طرح کا کوئی انقباض اور تکدر پیدا ہوا تو سمجھو کہ ایمان کی روح رخصت ہوئی۔ ایسے آدمی پر اگرچہ ظاہری طور سے ایمان و اسلام کے احکام نافذ ہوں گے مگر اخلاص سے خالی ہونے کے سبب نہ اس کا ایمان کامل سمجھا جائے گا اور نہ اس کو  حسن اسلام نصیب ہو گا اور نہ ایمان و یقین کی حقیقی لذت سے وہ لطف اندوز ہو سکے گا۔

اسلام ہی مدارِ نجات ہے

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کی قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جان ہے ! اس امت میں سے جو آدمی بھی خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی، میری نبوت کی خبر پائے اور میری لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مر جائے ، وہ دوزخی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس کے دائرہ اطاعت میں آنا تمام کائنات کے لیے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجا ہوا ایک ایسا بین الاقوامی قانون ہے جس کی پیروی دنیا کے ہر آدمی پر لازم ہے ، اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت بھی چونکہ عالمگیر اور بین الاقوامی ہے۔ ہر دور کے لیے ، ہر قوم کے لیے اور ہر طبقہ کے لیے ، اس میں کسی کا استثناء نہیں ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لانا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنا سب پر ایک ہی طرح فرض ہے ، خواہ کوئی کسی قوم کسی ملک اور کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔

اس حدیث میں یہودی اور نصرانی یعنی عیسائی کا ذکر اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ دونوں قومیں خود اپنا ایک دین اور ایک شریعت رکھتی تھیں ان کی اپنی اپنی آسمانی کتابیں تھیں جن کو مدار عمل و نجات ماننے کا ان کو خدائی حکم تھا، اس لیے ان کا ذکر کر کے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خود اپنے پیغمبروں کی لائی ہوئی شریعت اور اللہ کی جانب سے بھیجی ہوئی کتابوں کی تابع ہیں اور جن کا دین بھی آسمانی دین ہے ، جو اللہ تعالیٰ ہی کا اتارا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کے آخری دین اسلام کے نفاذ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی ہمہ گیر بعثت کے بعد جب ان قوموں کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں اور شریعت اسلام کے دائرہ میں آئے بغیر ان کی نجات ممکن نہیں تو پھر وہی قومیں پیغمبر اسلام اور شریعت اسلام پر ایمان و عمل کے بغیر ابدی نجات کیسے پا سکتی ہیں جو کسی آسمانی دین کی پابند بھی نہیں ہیں جن کے پاس کسی پیغمبر کی لائی ہوئی کوئی کتاب بھی نہیں ہے اور جو اللہ کے بھیجے ہوئے کسی نبی و رسول کی پیرو بھی نہیں ہیں۔

ایک بات اور بھی ہے۔ یہودی اور عیسائی کہا کرتے تھے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر موسیٰ اور عیسیٰ کے پیروکار اور اللہ کی اتاری ہوئی کتاب شریعت تو رات و انجیل کے متبع ہونے کی وجہ سے ہم تو خود  نجات یافتہ ہیں۔ جنت تو ہمارا پیدائشی حق ہے ، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا رسول مانیں اور اسلام کو اپنا دین، اس حدیث کے ذریعہ ان کے اس غلط عقیدہ و خیال کی بھی تردید کی گئی ہے اور ان پر واضح کر دیا گیا کہ پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد تو نجات ان ہی لوگوں کی ہو گی جو دین اسلام کو مانیں گے اور اس پر عمل کریں گے کیونکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ سابقہ شریعتیں منسوخ ہو جائیں، تمام مذاہب کالعدم ہو جائیں اور تمام کائنات کو صرف ایک مذہب دین اسلام کے دائرہ میں لایا جائے جو اللہ کا سب سے آخری اور سب سے جامع و مکمل دین ہے۔

دوہرا اجر پانے والے

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری (آپ جلیل القدر صحابی ہیں، پہلی ہجرت حبشہ میں شریک تھے۔ ذی الحجہ ٤٤ھ میں مکہ میں انتقال ہوا۔)

فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کو دو دو اجر ملیں گے۔ اس اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) کو جو (پہلے) اپنے نبی پر ایمان رکھتا اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان لایا۔ اس غلام کو جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنے آقاؤں کے حق کو بھی ادا کرتا رہے۔ اس آدمی کو جس کی کوئی لونڈی تھی اور وہ اس سے صحبت کرتا تھا۔ پہلے اس کو اچھا ہنر مند بنایا پھر اس کو خوب اچھی طرح تعلیم دی اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا تو یہ بھی دوہرے اجر کا حقدار ہو گا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مقصد ان تین طرح کے لوگوں کو خوشخبری دینا ہے جن کو اوروں کے مقابلہ میں نیک عمل کا دوہرا اجر ملتا ہے۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ وہ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) ہیں جو پہلے تو اپنے دین پر تھے اور پھر دعوت اسلام پا کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ان کو دو ہرے اجر کی خوشخبری اس بنا پر دی گئی ہے کہ ان کا پہلے اپنے نبی کو پختہ دل سے ماننا، اس نبی کی لائی ہوئی کتاب و شریعت پر عمل کرنا اور اس نبی سے اعتقادی وابستگی و تعلق رکھنا اور پھر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت و نبوت اور اللہ کے آخری دین اسلام کی دعوت پاکر صدق دل سے اس کے حلقہ بگوش ہو جانا، نہ صرف یہ کہ ان کے کمال انقیاد و اطاعت اور ان کی فکری و ذہنی سلامت روی کی علامت ہے بلکہ اس معنی میں ان کے قلبی و عملی ایثار کا غماز بھی ہے کہ اپنے سابقہ نبی اور سابقہ دین سے عقیدت و تعلق اور زبردست جذباتی لگاؤ کے باوجود انہوں نے دعوت اسلام پا کر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی زندگی کا رخ اس طرف موڑ دیا اور اب اپنے اعتقاد کی باگ ڈور دین اسلام کے سپرد کر دی، جب تک ان کے سامنے اسلام کی دعوت نہیں آئی تھی وہ اپنے دین ہی کو اللہ کا دین سمجھ کر اس کے حلقہ بگوش رہے اور جب اسلام کی دعوت ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اس کو اللہ کا آخری دین جان کر اپنے پچھلے دین کو چھوڑنے میں کسی ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ فطرت سلیم کی آواز پر لبیک کہہ کر محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے غلاموں میں شامل ہو گئے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام کے طور پر ان کو ہر نیک عمل پر دوہرے اجر کا مستحق قرار دیا، ایک اجر تو اپنے پہلے نبی پر ایمان رکھنے کے سبب اور دوسرا اجر پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کا۔

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ خصوصیت اور امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے تصورات و اعتقادات اور اپنی تعلیمات کی بنیاد  انکار پر نہیں  اقرار پر رکھتا ہے یعنی وہ آسمانی دینوں میں کسی رقابت یا رسولوں میں کسی تفریق کی خلیج حائل نہیں کرتا وہ تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق پر زور دیتا ہے اور اللہ کی جانب سے بھیجے گئے تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے ، اسلام کے برخلاف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقادات و نظریات کو دیکھا جائے تو یہ بات جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کے یہاں کوئی آدمی اس وقت تک مذہب کا سچا پیرو اور حقیقی تابعدار نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس کے ماسوا دوسرے مذاہب کے اعتقاد و تصورات کی بنیادوں کو بالکل ہی مسمار نہ کر دے اور دوسرے رسولوں و پیغمبروں کی رسالت کا بالکل ہی انکار نہ کر دے ، اسلام تو ایمان و اعتقاد کے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے پیروؤں سے اس بات کا اقرار کراتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ کی جانب سے مخلوق کی ہدایت کے لیے آئے ان میں کسی قسم کی تفریق نہ کی جائے ، ان کی لائی ہوئی شریعتوں کو اپنے اپنے زمانہ کے لیے حق اور واجب تسلیم مانا جائے ، وہ اپنے متبعین کو احساس صداقت کا یہ شعور بخشتا ہے کہ آسمانی مذاہب میں کوئی پارٹی بندی نہیں ہے سب ایک ہی صداقت کی کڑیاں ہیں نیز وہ اپنے ماننے والوں کو واضح طور پر آگاہ کر دیتا ہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہو گی کہ دوسرے آسمانی مذاہب کی تصدیق بھی کی جائے اور سابقہ تمام انبیاء کی صداقت کو مانا جائے۔

اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اگر کوئی یہودی یا عیسائی ایمان لائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا صدق دل سے اقرار کرے۔ تو اپنے نبی پر لایا ہوا اس کا پہلا ایمان ضائع نہیں جائے گا بلکہ وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا جائے گا لیکن وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی اگر تصدیق نہیں کرتا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہیں لاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ کفر و انکار کی بنا پر ہمیشگی والے عذاب کا مستحق سمجھا جائے گا بلکہ اس کا اپنے نبی پر لایا ہوا ایمان بھی رائیگاں اور بیکار سمجھا جائے گا اور اس پر کسی قسم کے اجر و ثواب کا استحقاق پیدا نہیں ہو گا کیونکہ جس طرح تمام انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی رسالت کی تصدیق کرنا لازم ہے اسی طرح عمل اور پیروی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پر ضروری ہے اور مدار نجات صرف اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہی ہے۔

دوسرے آدمی کے لیے دوہرے اجر کی خوشخبری کا سبب بھی واضح ہے یعنی یہ کہ ایک غلام کے لیے نہ صرف سماجی روایتی اور دنیاوی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور اس کے احکام کی پوری پوری تعمیل کرے بلکہ اسلامی تعلیم کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ مالک و آقا کے عائد شدہ حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی نہ کرے ، لہٰذا ایک غلام جب اپنے آقا کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتا ہے اور حقوق کی ادائیگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقیقی مالک اور پروردگار اللہ رب العالمین کے احکام کی بجا آوری بھی پورے حقوق کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے عائد کئے ہوئے تمام فرائض کی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا تو وہ دوہرے اجر کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے۔

اب رہ گیا تیسرا آدمی تو اس کو بھی دوہرے اجر کا مستحق اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ اول تو اس نے ایک لونڈی کو آزاد کیا جو نہ صرف یہ کہ انسانیت اور فطرت کے اعتبار کے تقاضا کو پورا کرنا ہے بلکہ اسلامی اخلاق کے اعلیٰ اصول و قواعد پر عمل کرنا بھی ہے ، دوسرے یہ کہ اس لونڈی کو آزاد کر کے اور پھر اس سے شادی کر کے اس نے انسانی ہمدردی، اسلامی مساوات، اور بلند اخلاقی کا اس طرح اعلیٰ ثبوت دیا کہ ایسی عورت کو جو سماجی حیثیت سے ایک کمتر، بے وقعت اور ذلیل بن کر رہ گئی تھی، اچھی تربیت، اعلیٰ تعلیم اور پھر آزادی و شادی کی گراں قدر دولت سے نواز کر دنیا کی با عزت اور سوسائٹی و معاشرہ کی شریف و معزز عورتوں کے برابر بھی لا کھڑا کیا، اس طرح اس نے اگر ایک طرف انسانیت اور اخلاق کے تقاضے کو پورا کیا، تو دوسری طرف اسلامی تعلیم کی روح کو بھی اجاگر کیا پس اس کے اس ایثار کی بناء پر شریعت نے اس کو بھی دوہرے اجر کا استحقاق عطا کیا۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے دوہرے اجر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے نامہ اعمال میں جزاء اور ثواب کی یہ دوگنی اضافت اس طرح ہو گی کہ ان کو ہر عمل پر دوسروں کے مقابلہ میں دوہرا ثواب ملے گا، مثلاً اگر کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھتا ہے ، روزہ رکھتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے تو اس کو عمومی خوشخبری کے تحت دس ثواب ملیں گے لیکن یہی عمل اگر یہ تینوں کریں گے تو ان کو ہر ایک عمل پر بیس بیس ثواب ملیں گے۔

کفار سے جنگ کا حکم

اور حضرت عبداللہ ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ میں (دین دشمن) لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں نیز نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور پھر جب وہ ایسا کرنے لگیں تو انہوں نے اپنی جان و مال کو مجھ سے بچا لیا۔ ہاں جو باز پرس اسلامی ضابطہ کے تحت ہو گی وہ اب بھی باقی رہے گی اس کے بعد ان کے باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (وہ جانے کہ ان کا اسلام صدق دل سے تھا یا محض اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے دکھلاوے کا تھا) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) مسلم کی روایت میں  الا بحق الا سلام کے الفاظ نہیں ہیں۔

 

تشریح

 

 یہ دنیا اللہ کی حقیقی ملکیت ہے وہی اس زمین کا شہنشاہ اور تمام کائنات کا حاکم مطلق ہے اس کی زمین پر رہنے کا حق اسی کو حاصل ہے جو اس کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اس کے قوانین کی پیروی کرتا ہے اس کے احکام کی تابعداری کرتا ہے ، اس کے اتارے ہوئے نظام و شریعت کے تحت زندگی گزارتا ہے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول اور پیغمبر کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ اس دنیا میں پیغمبروں کی بعثت کا اصل مقصد روئے زمین پر حقیقی شہنشاہ اور حاکم مطلق (اللہ تعالیٰ) کی حاکمیت کا نفاذ کرنا ہوتا ہے ، پیغمبر کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دین و شریعت کی صورت میں حاکمیت الہ کا جو مشن لے کر آیا ہے اس کو ہر ممکن جدوجہد کے ذریعہ پھیلائے لوگوں کو اپنے دین کے دائرہ میں لانے کی پوری پوری کوشش کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی جدوجہد اور سعی کے نتیجہ میں جو معاشرہ بن گیا ہے اس پر دنیا کے کسی غیر دینی روایت و قانون اور کسی آدمی و گروہی بالا دستی کی حکمرانی قائم نہ ہونے پائے بلکہ صرف خدائی حکمرانی یعنی دین و شریعت کی حکومت قائم ہو اور پھر کسی کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ دین و شریعت کا دشمن و مخالف اور باغی بن کر اس معاشرہ (اسلامی ریاست) میں رہ سکے جو لوگ بغاوت و سرکشی اختیار کریں اور خدائی حکمرانوں کے تحت آنے سے منکر ہوں ان کے خلاف وہی کاروائی کی جائے جو کسی بھی معاشرہ میں آئین و حکومت کے باغیوں کے خلاف ہوتی ہے ، اسی حقیقت کو رسول اللہ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں خدائی حکمرانی باغیوں اور دین و شریعت کے دشمنوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھوں جب تک وہ اپنی سر کشی اور دشمنی کو ترک کے کے ہماری معاشرہ یعنی (اسلامی ریاست) میں رہنے کے حقوق حاصل نہ کر لیں اور انہیں یہ حقوق ملنے کی ایک تو یہی صورت ہے کہ وہ کفر و سرکشی کے بجائے ایمان و اسلام اختیار کر لیں یعنی صدق دل سے اس بات کا اقرار اور زبان سے اظہار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، پھر اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ان کا یہ اقرار اور زبان سے اظہار مخلصانہ ہے (یعنی اللہ اور اس کے رسول کے تمام احکام کی پیروی کریں) خصوصاً پابندی سے نماز پڑھیں، زکوٰۃ ادا کریں، اور دوسرے فرائض پر عمل کریں۔ دوسری صورت (جس کا اس حدیث میں تو ذکر نہیں ہے۔ لیکن دوسری جگہوں پر ثابت ہے) یہ ہے کہ اگر وہ لوگ ایمان وا سلام کے دائرے میں نہیں آتا چاہتے مگر اسلامی ریاست میں اپنی وطنیت اور بود و باش کو باقی رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دینی و مذہبی طور پر نہ سہی مگر سماجی و معاشرتی طور پر اسلامی ریاست کے تابع اور من پسند باشندے بن کر رہنے کا اقرار کریں جس کی علامت اس ٹیکس کی پابندی سے ادائیگی ہے جس کو اصطلاح میں  جزیہ کہا جاتا ہے اس ٹیکس کی ادائیگی اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے تمام انسانی، سماجی اور شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ اگر کوئی آدمی جزیہ نہ دینا چا ہے تو اس کا متبادل یہ ہے کہ وہ اپنی محکومیت و مغلوبیت کا اقرار کر کے کسی خاص معاہدہ کے تحت سربراہ ریاست (رسول) سے صلح کر لے اور پناہ لے کر اسلامی ریاست میں رہے ، اسلامی قانون اپنے مخصوص رحم و کرم کی بناء پر اس کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری لے لے گا۔

بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جو آدمی ایمان و اسلام کے دائرہ میں داخل ہو جائے یا جزیہ ادا کر کے اور پناہ لے کر اسلامی ریاست کا باشندہ ہو اس کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کے اوپر ہو گی۔ اور ریاست اپنے اسلامی قانون کے تحت اس کے تمام انسانی، سماجی اور شہری حقوق کی نگہداشت کرے گی لیکن جہاں تک قانونی جرائم، سماجی بے اعتدالیوں اور بشری خطاؤں کا تعلق ہے ان کے بارے ہر حال میں مواخذہ ہو گا خواہ ان کا مرتکب کوئی مسلمان ہو یا ذمی کافر، اس معاملہ میں کسی کے ساتھ رعایت و چشم پوشی نہیں ہو گی، مثلاً اگر کوئی مسلمان یا ذمی کسی کو ناحق قتل کر دیتا ہے تو اس کو قصاص (سزا) میں قتل کر دیا جائے گا یا ایسے ہی کوئی زنا کرے گا تو اس پر حد جاری کی جائے گی اور اس کو پوری سزا دی جائے گی یا کسی نے کسی کا مال زبردستی ہڑپ کر لیا تو اس سے اس کا مال مالک کو واپس دلایا جائے گا ، گویا قانون کی عملداری ہر حال میں قائم کی جائے گی جو آدمی بھی خلاف ورزی کرے گا اس کو ضرور سزا دی جائے گی اسلامی حقوق اور قوانین کے نفاذ کے معاملہ میں کسی تخصیص اور رعایت کا سوال پیدا نہیں ہو گا۔

حدیث کے آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے کہ شریعت اپنے قانون کے نفاذ میں ظاہری حیثیت پر حکم لگاتی ہے ، اور باطنی حالت کو اللہ کے سپرد کر دیتی ہے یعنی اگر کوئی آدمی جان و مال کی حفاظت یا کسی غرض کے تحت بظاہر مسلمان بن جاتا ہے اور دل میں کفر و نفاق ہے تو اسلامی قانون اس کو مسلمان ہی تسلیم کرے گا، دل کا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا، اگر واقعی اس کے دل میں کھوٹ ہو گا تو آخرت میں اس کو نفاق کی سزا یقیناً ملے گی، وہاں مواخذہ خداوندی سے نہ بچ سکے گا۔

یہ حدیث اس مسئلہ کی بھی دلیل ہے کہ ملحدوں اور زندیقوں کی توبہ قبول کی جا سکتی ہے یعنی اگر کوئی ملحد و زندیق آ کر یہ کہے کہ میں الحاد و زندقہ سے توبہ کرتا ہوں تو اس کی توبہ قبول کر کے اس کی جان لینے سے اجتناب کیا جائے گا۔

ویسے اس مسئلہ میں متعدد اقوال ہیں، ان میں سے ظاہر تر قول یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے بے دینی کا اظہار کیا اور اپنی زبان سے ایسے الفاظ نکالے جن سے اس کا منکر خدا اور منکر دین ہونا معلوم ہوتا ہو پھر جلد ہی اس نے الحاد و زندیقی سے برات کی اور برضا و رغبت توبہ کر لی تو اس کی توبہ قبول ہو گی اور اگر اس کی توبہ محض جان بچانے کے لیے اور اسلامی قانون کی سزا سے بچنے کے لیے ہو تو پھر اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔

مسلمان کون ہے

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی ہماری طرح نماز پڑھے ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرے اور ہمارے ذبیحوں کو کھائے وہ مسلمان ہے اور اللہ اور اللہ کے رسول کے عہد و امان میں ہے۔ پس جو آدمی اللہ کے عہد و امان میں ہے تم اس کے ساتھ عہد شکنی مت کرو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 اصل ایمان اگرچہ  تصدیق قلبی کا نام ہے لیکن یہ ایک اندرونی کیفیت اور قلبی صفت ہے جس کا تعلق باطن سے ہے ، اسی طرح  اقرار اگرچہ زبان سے متعلق ہے مگر وہ بھی ایک قیمتی چیز ہے لہٰذا دو دینوں میں کھلا ہوا امتیاز ان کے علیحدہ علیحدہ شعار ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے ، اسلامی معاشرہ میں نماز پڑھنا اور بیت اللہ کی طرف منہ کر کے عبادت کرنا اہل کتاب کے مقابلہ میں سب سے زیادہ امتیازی عمل ہے ، اسی طرح معاشرتی لحاظ سے جس عمل اور طریقہ میں اہل کتاب مسلمانوں سے کھلا ہوا احتراز کرتے تھے وہ ان کا ذبیحہ تھا کہ مسلمانوں کا ذبح کیا ہوا گوشت اہل کتاب نہیں کھاتے تھے لہٰذا اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اگر عبادات میں وہ ہماری طرح قبلہ کی طرف رخ کرنے لگیں اور معاشرتی لحاظ سے وہ ہم سے اتنا قریب آ جائیں کہ ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے لگیں تو یہ اس بات کی کھلی ہوئی شہادت ہو گی کہ وہ ہمارا دین پوری یقین کے ساتھ قبول کر چکے ہیں اور ایمان ان کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ گیا ہے جس کا اظہار نہ صرف یہ کہ زبان سے بلکہ ان کے عمل سے بھی ہو رہا ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں پوری طرح داخل ہو گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ ان کا عہد و اقرار ہو گیا ہے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ اللہ اور اللہ کے رسول نے لے لیا ہے اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی بد معاملگی یا برا سلوک نہ کریں، نہ ان کو ستائیں نہ تکلیف دیں اور نہ ان کے ساتھ ایسا طور پر طریقہ رکھیں جس سے ان میں کسی قسم کا خوف و ہراس یا دل شکستگی پیدا ہو، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بد معاملگی اور بدسلوکی درحقیقت اللہ کے عہد کو توڑ نے اور اس عہد شکنی کا الزام اللہ پر عائد کرنے کے مترادف ہو گی۔

جنت میں لے جانے والے اعمال

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا  یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ جس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نماز پڑھو فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کر روزے رکھو یہ سن کر دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نہ تو اس پر کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں سے کچھ کم کروں گا، جب وہ دیہاتی چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی کسی جنتی آدمی کو دیکھنے کی سعادت اور مسرت حاصل کرنا چا ہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 یہاں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دیہاتی کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ فرمایا مگر شہادتین کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ بغیر شہادتین کے جنت میں داخل ہونا ناممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو وہ دیہاتی یقیناً مسلمان ہو گا جو ایمان لانے کے بعد جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں سوال کر رہا تھا دوسرے یہ کہ سب ہی جانتے ہیں کہ بغیر شہادتین کے تمام اعمال بیکار ہیں اور اس کے بغیر جنت میں دخول ہی ممکن نہیں اس لیے شہادتین کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔

یہاں صرف تین فرائض ذکر کئے گئے ہیں، بقیہ فرائض کا ذکر نہیں کیا گیا؟ تو ہو سکتا ہے کہ جس وقت اس دیہاتی نے سوال کیا تھا اس وقت تک یہی تین چیزیں فرض ہوئی ہوں گی اور بقیہ فرائض بعد میں مشروع ہوئے ہوں گے ، زیادتی اور کمی نہ کرنے کا عہد درحقیقت اس دیہاتی کے اعتقاد کی پختگی اور قلبی تصدیق کے مضبوط ہونے کی دلیل تھا گویا اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے دل میں ایمان و اسلام کی لذت اور اس کی حقانیت و صداقت کی کیفیت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام و فرمان کی بجا آوری کا داعیہ اس مضبوطی اور پختگی کے ساتھ ہے کہ نہ تو اس سوال پر کسی قسم کی زیادتی کی حاجت ہے اور نہ جواب کی مانعیت و جامعیت اور اس کی اہمیت کسی قسم کی کمی کی روا دار ہے ! چنانچہ اس دیہاتی کے یقین کی اسی کیفیت اور اس کی اسی شیفتگی و محبت اور احکام و شریعت کے مطابق اس کے اسی جذبہ اطاعت کو دیکھ کر لسان نبوت نے اس مخلص انسان کے جنتی ہونے کی خوشخبری سنائی اور اعلان فرمایا کہ اگر کسی آدمی کو تمنا ہو کہ جنتی آدمی کو دیکھے اور کسی جنتی کو دیکھنے کی مسرت اور سعادت حاصل کرنا چا ہے تو اس آدمی کو دیکھ لے۔

ایمان کامل

حضرت سفیان بن عبداللہ الثقفی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خد مت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ کو اسلام کی کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ آپ کے بعد پھر مجھ کو کسی دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے اور ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی دوسرے سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  زبان و دل سے اس بات کا اقرار کرو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس اعتراف و اقرار پر قائم رہو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت کی گواہی دو اور اس کی ذات اور تمام صفات پر صدق دل سے اعتراف و اعتقاد کے ساتھ ایمان لاؤ، یہ ایمان باللہ کی اعتقادی صورت ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعہ جو شریعت اتاری ہے اس کی صداقت و حقانیت پر کامل یقین رکھو اور اس کو قبول کر کے احکام رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرو، اللہ اور اللہ کا رسول جس چیز کے کرنے کا حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ پھر یہ کہ اعتقاد و اطاعت کوئی وقتی و عارضی چیز نہ ہو بلکہ ان پر پختگی کے ساتھ قائم و دائم رہو اور زندگی کے کسی بھی لمحہ میں ان سے انحراف نہ کرو۔

فرائض اسلام

اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ فرماتے ہیں اہل نجد میں سے ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ، ہم اس کی آواز گنگناہٹ تو سن رہے تھے لیکن (فاصلہ پر ہونے کی وجہ سے) یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بالکل قریب پہنچ گیا تو ہم نے سنا کہ وہ اسلام کے (فرائض کے) بارہ میں سوالات کر رہا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کے جواب میں) فرمایا  رات دن میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں۔ (یہ سن کر) اس آدمی نے کہا  کیا ان نمازوں کے سوا مجھ پر کچھ اور نمازیں بھی فرض ہیں آپ نے فرمایا نہیں ! مگر نفل نمازیں تمہیں پڑھنے کا اختیار ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اور ماہ رمضان کے روزے (فرض) ہیں۔ اس آدمی نے کہا  کیا ان روزوں کے سوا کچھ اور روزے بھی مجھ پر فرض ہیں آپ نے فرمایا  نہیں! مگر نفل روزے رکھنے کا تمہیں اختیار ہے راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بعد زکوٰۃ کا ذکر فرمایا، اس نے عرض کیا،  اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی صدقہ فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں ! مگر نفل صدقے کا تمہیں اختیار ہے اس کے بعد وہ آدمی یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ اللہ کی قسم! میں نہ تو اس پر کچھ زیادتی کروں گا اور نہ اس سے کچھ کمی کروں گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  اگر اس آدمی نے سچ کہا ہے تو نجات پاگیا ہے اور کامیاب ہو گیا۔ (صحیح البخاری ، مسلم)

 

تشریح

 

جیسا کہ پہلے ایک حدیث کے فائدہ میں گزرا ، یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ جس وقت اس آدمی نے سوال کیا تھا اس وقت تک اتنے ہی فرائض مشروع ہوئے ہوں گے اسی طرح نماز وتر عیدین وغیرہ بھی واجب نہ ہوئی ہوں گی اسی واسطے اس آدمی نے اس میں زیادتی اور کمی نہ کرنے کا وعدہ کیا یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آدمی کسی قوم کا نمائندہ اور ایلچی بن کر اسلام کی حقیقت اور فرائض جاننے آیا تھا تاکہ واپس جا کر اپنی قوم کو بھی اسلامی تعلیمات اور فرائض سے آگاہ کرے اسی لیے اس نے واپسی کے وقت کہا کہ نہ تو میں اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی کروں گا ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ فرمایا ہے یا جو احکام و فرمان بتلائے ہیں وہ اسی طرح اپنی قوم تک پہنچا  دوں گا، ان میں نہ تو اپنی طرف سے کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔

اسلام میں مبلغ کا مقام

اور حضرت عبداللہ ابن عباس(حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا حضرت عباس کے صاحبزادے ہیں جو خیر الامت کے لقب سے مشہور ہیں، ستر برس کی عمر میں بمقام طائف وفات پائی۔)

 بیان کرتے ہیں کہ جب وفد عبدالقیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں مدینہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں یا یوں پوچھا کہ یہ کس قبیلے کا وفد ہے؟ (راوی کو شک ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں، قوم کا لفظ فرمایا یا وفد کا) لوگوں نے جواب دیا کہ  قبیلہ ربیعہ کے افراد ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خوش آمدید (چونکہ تم لوگ خوشی سے مسلمان ہو کر آئے ہو اس لیے) نہ دنیا میں تمہارے لیے رسوائی ہے اور نہ آخرت کی شرمندگی، اہل وفد نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! چونکہ ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان  کفار مضر کا (مشہور جنگ جو) قبیلہ رہتا ہے اس لیے ہم آپ کی خدمت میں جلد جلد حاضر نہیں ہو سکتے صرف ان مہینوں میں آ سکتے ہیں جن میں لڑنا حرام ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ایسے احکام ہمیں عطا فرما دیجئے جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور ان لوگوں کو (بھی) ہم اس سے آگاہ کر دیں جن کو اپنے پیچھے (وطن و قوم میں) چھوڑ آئے ہیں اور اس پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہو جائیں (اور اسی کے ساتھ) انہوں نے (ان) برتنوں کی بابت بھی پوچھا (جن میں نبیذ بنائی جاتی تھی کہ کون سے استعمال میں لائے جا سکتے ہیں، اور کون سے نہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا اور اول اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا حکم دیا اور فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جانتے ہو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانا) اس حقیقت کی شہادت دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں، پابندی سے نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، اور ماہ رمضان کے روزے رکھنا (ان چار باتوں کے علاوہ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے) مال غنیمت میں سے پانچویں حصے کے دینے کا حکم بھی فرمایا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا: لاکھ کیے ہوئے برتنوں سے ، کدو کے تونبوں سے درخت کی کھوکھلی جڑوں سے بنائے ہوئے برتنوں سے ، رال کئے ہوئے برتنوں سے ، اور فرمایا: ان باتوں کو اچھی طرح یاد کر لو اور جن مسلمانوں کو اپنے پیچھے (وطن میں) چھوڑ آئے ہو ان کو بھی باتوں سے آگاہ کر دو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم ، الفاظ صحیح البخاری کے ہیں)

 

تشریح

 

 اسلام کی آواز جب مکہ اور مدینہ کے اطراف سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پہنچی تو مختلف مقامات کے قبیلوں اور قوموں کے افراد وفد کی شکل میں اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کی صداقت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے دربار رسالت میں حاضر ہونے لگے۔ یہ وفود دینی تعلیمات اور اسلامی فرائض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے حاصل کرتے۔

احادیث میں ایسے بہت سے وفود کا ذکر آتا ہے جو اس سلسلہ میں دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام کی آواز کو دور دراز کے علاقوں اور قبیلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے ، ایسا ہی ایک وفد عبدالقیس ہے جس کا تذکرہ اس حدیث میں کیا جا رہا ہے۔ عبدالقیس دراصل سربراہ وفد کا نام تھا انہی کی نسبت سے یہ وفد مشہور ہوا۔ یہ لوگ بحرین کے باشندے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں دو مرتبہ حاضر ہوئے پہلی مرتبہ فتح مکہ سے پہلے ٥ھ میں، اس وقت ان کی تعداد ١٣ یا ١٤، تھی، دوسری مرتبہ ٨ یا ٩ھ میں جب ان کی تعداد چالیس تھی یہی وہ وفد ہے جس کے قبیلہ کی مسجد میں اسلام میں مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلے جمعہ قائم ہوا ہے چنانچہ صحیح البخاری کی روایت ہے : (حدیث

اول جمعۃ بعد جمعۃ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی مسجد عبدالقیس بجواثی من البجرین۔)

 مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے مقام جواثی میں عبدالقیس کی مسجد میں ادا کیا گیا۔

اس وفد کی آمد کے سلسلہ میں یہ منقول ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس ابھی ایک ایسا قافلہ آنے والا ہے جو اہل مشرق میں سب سے بہتر ہے۔ سیدنا عمر ان کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو انہیں تیرہ آدمیوں کا قافلہ آتا ہوا نظر آیا جب قافلہ قریب آیا حضرت عمر فاروق نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشخبری سنائی اور قافلہ کے ساتھ ساتھ دربار رسالت میں حاضر ہوئے ، اہل قافلہ کی نظر جوں ہی روئے انور صلی اللہ علیہ و سلم پر پڑی سب کے سب بے تابانہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دوڑ پڑے اور فرط اشتیاق سے اپنا سامان اسی طرح چھوڑ کر دیوانہ وار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک چومنے لگے ، حضرت عبدالقیس جو امیر قافلہ تھے اگرچہ نو عمر تھے لیکن سب سے پیچھے رہ گئے تھے ، انہوں نے پہلے سب کے اونٹ باندھے پھر اپنا بکس کھولا، سفر کے کپڑے اتارے اور دوسرا لباس تبدیل کیا پھر سکون و وقار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو بوسہ دیا آدمی بد شکل تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف نظر اٹھائی تو انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! آدمی کی محبت صرف اس ڈھانچہ سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی قدر و قیمت اس کے دو چھوٹے اعضاء بتاتے ہیں اور وہ  زبان و دل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ و رسول پسند کرتے ہیں یعنی دانائی اور بردباری۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ خصلتیں مجھ میں پیدائشی ہیں یا کسبی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پیدائشی۔

اس قبیلہ کے افراد کو اپنے وطن سے مدینہ آنے کے لیے  کفار مضر قبیلے کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا اس قبیلہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ بہت زیادہ جنگ جو تھا۔ ان کی آبادی کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا ان سے جنگ ہونی ضرور تھی اس لیے اس وفد نے کہا چونکہ ہمارے لیے عام دنوں میں آنا بہت مشکل ہے ، اس لیے بار بار نہیں آ سکتے ، صرف ان ہی مہینوں میں آ سکتے ہیں جو عرب میں اشہر حرام سمجھے جاتے ہیں، اہل وفد کو جن چیزوں کو تعلیم دی گئی وہ چار ہیں

(١) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ (٢) نماز۔ (٣) روزہ۔ (٤) حج کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن بعض محدثین نے اس حدیث میں  حج البیت کے الفاظ ذکر کئے ہیں جس کو حافظ ابن حجر نے شاذ قرار دیا ہے۔

ان لوگوں کو ایک حکم بعد میں جو بطور خاص دیا گیا وہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنے کا تھا اور ان کو یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ یہ لوگ اکثر جہاد کیا کرتے تھے اور کفار سے مقابلہ آرائی کے نتیجہ میں مال غنیمت حاصل کرتے تھے۔

جن چار چیزوں سے ان لوگوں کو منع کیا گیا وہ چار برتن تھے جن کے استعمال کی ان دنوں ممانعت تھی اصل میں یہ مخصوص قسم کے برتن ہوتے تھے جو اہل عرب کے ہاں شراب بنانے اور شراب رکھنے کے کام میں آتے تھے۔ چونکہ شراب حرام ہو چکی تھی اس لیے ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرما دیا گیا تاکہ اس سے شراب کی موجودگی یا شراب کے استعمال کا شبہ نہ ہو سکے مگر جب بعد میں شراب کی حرمت مسلمانوں کے دلوں میں پختگی کے ساتھ بیٹھ گئی اور برتنوں کے بارہ میں یہ احتمال نہ رہا کہ یہ برتن خاص طور پر شراب ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں تو ان کا استعمال مباح قرار دیا گیا، لہٰذا اب یہ حکم منسوخ مانا جائے گا۔

احکامات اسلام

اور حضرت عبادہ بن صامت (مشہور انصاری صحابہ میں سے ہیں جو بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ میں شریک تھے اہل صفہ کے معلم تھے ، آپ نے ٧٢ سال کی عمر پا کر ٤٣ھ میں وفات پائی۔)

فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کی اس جماعت کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کر گرد بیٹھی ہوئی تھی (مخاطب کر کے) فرمایا۔ مجھ سے ان باتوں پر بیعت (عہد و اقرار) کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے ، چوری نہ کرو گے ، زنا نہ کرو گے (افلاس، بھوک یا غربت کے ڈر سے) اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گے ، جان بوجھ کر کسی پر بہتان تراشی نہ کرو گے اور شریعت کے مطابق تمہیں جو احکام دوں گا اس کی نافرمانی نہیں کرو گے پس تم میں سے جو آدمی اس عہد و اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (کہ آخرت میں اپنے انعامات سے نوازے گا) اور جو آدمی (سوائے شرک کے) ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے اور پھر دنیا میں اس کو اس گناہ کی سزا بھی مل جائے (جیسے حد وغیرہ جاری ہو) تو یہ سزا

اس کے (گناہ) کے لیے کفارہ ہو جائے گی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کرنے والے کے گناہ کی ستر پوشی فرمائی (اور دنیا میں اسے سزا نہ ملی) تو اب یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہو گا کہ چا ہے تو وہ (از راہ کرم) آخرت میں بھی درگزر فرمائے اور چا ہے اسے عذاب دے (راوی فرماتے ہیں کہ ہم نے ان سب شرطوں پر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

عورتوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان

اور ابو سعید خدری (آپ کا اصل نام سعد بن مالک بن شیبان ہے ، ابو سعید آپ کی کنیت ہے اور خدری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ٧٤ میں جمعہ کے روز ٨٤ سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (ایک مرتبہ) عید الفطر یا بقر عید کی نماز کے لیے عیدگاہ تشریف لائے تو عورتوں کی ایک جماعت کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ (جو نماز کے لیے ایک الگ گوشہ میں جمع تھیں) اور ان کو مخاطب کر کے فرمایا  اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ و خیرات کرو کیونکہ میں نے تم سے اکثر کو دوزخ میں دیکھا ہے  (یہ سن کر) ان عورتوں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس کا سبب؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم لعن و طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہروں کی نافرمانی و ناشکری کرتی رہتی ہو اور میں نے عقل و دین میں کمزور ہونے کے باوجود ہوشیار مرد کو بے وقوف بنا دینے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا  (یہ سن کر) ان عورتوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! ہماری عقل اور ہمارے دین میں کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کیا ایک عورت کی گواہی آدھے مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی کیا ایسا نہیں ہے۔ کہ شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر سمجھی جاتی ہے) انہوں نے کہا، جی ہاں ایسا ہی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اس کی وجہ عورت کی عقل کی کمزوری ہے اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جس وقت عورت حیض کی حالت میں ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ، انہوں نے کہا جی ہاں ایسا ہی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ اس کے دین میں نقصان کی وجہ ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اسلام کے ابتدائی زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ ہی مسجد میں نماز ادا کرتی تھیں اس لیے عیدالفطر یا بقر عبد کی نماز کے لیے بھی عورتیں عیدگاہ آئیں تھیں اور چونکہ وہ الگ ایک کونہ میں بیٹھی ہوئی تھیں اور خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچی تھی، اس لیے ضروری ہوا کہ احکام اور دینی ضروریات کی باتیں ان تک پہنچائی جائیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت سے مشرف فرمایا۔

اکثر عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ جہاں ایک دو مل کر بیٹھیں، کسی تقریب یا عورتوں کے مجمع میں پہنچیں بس ایک دوسرے کی غیبت کرنا، دنیا بھر کی برائی و بھلائی بیان کرنا اور لعن و طعن کی بوچھاڑ کرنا شروع کر دیتی ہیں اور پھر ان کا زیادہ تر وقت ان خرافاتی باتوں میں گزرتا ہے۔ اسی طرح یہ بڑا روگ بھی ان عورتوں میں پایا جاتا ہے کہ ان کا شوہر ان کی آسائش اور ان کے راحت و آرام کے لیے کتنے ہی پاپڑ بیلے ، کتنی ہی مشقت و محنت کر کے ان کی ضروریات کی تکمیل کرے۔ اور ان کو خوش رکھنے کے لیے کتنی ہی مصیبتیں اٹھائے مگر ان کی زبان سے کبھی بھی شوہروں کا شکر ادا نہیں ہوتا، ہمیشہ ناشکری ہی کے الفاظ ان کی زبان سے نکلتے ہیں، رہی شوہروں کی نافرمانی کی بات تو یہ برائی بھی عورتوں میں کچھ کم نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں عورتوں کے ایک بہت بڑے عیب کی غمازی کرتی ہیں۔ جس سے ان کے آخرت تباہ ہوتی ہے اور جو ان کو اللہ کے عذاب کا مستوجب بناتا ہے ، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس خاص عیب کی نشان دہی فرمائی اور ان سے فرمایا کہ تمہارے اندر اس قسم کی جو باتیں ہیں ان کو ہلکا مت جانو، بلکہ یہ وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے اللہ کا عذاب تم پر ہو گا اور تم قہر خدواندی میں گرفتار ہو کر دوزخ میں دھکیل دی جاؤ گی اور تمہاری ان ہی باتوں کے سبب دوزخ میں تم عورتوں کی تعداد مردوں کی بنسبت زیادہ ہو گی، لہٰذا تم صدقہ و خیرات کرتی رہا کرو تاکہ ایک طرف تو اس کی برکت سے تمہارے اندر ان باتوں کی کمی آئے اور یہ عیب جاتا رہے دوسری طرف اللہ کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہو اور تمہارے گناہوں کی بخشش ہو۔

لعن (طعن) کے معنی ہیں ، اللہ کی رحمت سے دور کرنا، حدیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی کو لعن طعن کرنا انتہائی بری حرکت ہے چنانچہ شریعت کا حکم ہے کہ کسی آدمی کو متعین کر کے اس پر لعنت نہ بھیجی جائے چا ہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ کسی متعین کافر پر لعنت بھیجنے کی ممانعت اس بنا پر ہے کہ نہیں کہا جا سکتا کہ کب اس کو ایمان و اسلام کی توفیق ہو جائے اور وہ کفر و شرک کی لعنت سے نکل کر اللہ کی رحمت کے سایہ میں آ جائے۔ ہاں جو آدمی کفر کی حالت میں مر گیا ہو اور اس کا کفر پر مرنا یقینی طور پر معلوم ہو تو اس پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے اسی طرح نفس برائی پر لعنت بھیجی جا سکتی ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ کفر پر اللہ کی لعنت یا یہ کہ کافروں پر اللہ کی لعنت۔

عورتوں میں عقل کی کمی یا ان کے  دینی نقصان کا اظہار عورتوں کی تحقیر کے لیے ہرگز نہیں ہے بلکہ قدرت کے اس تخلیقی توازن کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ہے جو مردوں اور عورتوں کے درمیان جسمانی و طبعی فرق صنفیت کی بنیاد ہے اور یہ فرق صنفیت دراصل فطرت کا تقاضا ہے جس کے بغیر نوع انسانی کا ذاتی و معاشرتی نظام زندگی برسر اعتدال نہیں رہ سکتا، خالق کائنات نے جسمانی، طبعی، عقلی اور دینی طور پر مرد کو عورت کی بہ نسبت جو برتر درجہ دیا ہے اور جسکا ثبوت اس حدیث سے واضح ہے وہ انسانی معاشرہ کے اعتدال و توازن کی برقراری کے لیے ہے نہ کہ شرف انسانیت میں کسی فرق کے اظہار کے لیے ، اس شرف میں مرد و عورت دونوں کی یکساں حیثیت ہے اور دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں۔

انسان کو سر کشی زیب نہیں رہتی

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم (انسان مجھ کو جھٹلاتا ہے اور یہ بات اس کے شایان نہیں اور میرے بارے میں بد گوئی کرتا ہے حالانکہ یہ اس کے مناسب نہیں ہے ، اس کا مجھ کو جھٹلانا تو یہ ہے کہ وہ کہتا ہے جس طرح اللہ نے مجھ کو (اس دنیا میں) پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اسی طرح وہ (آخرت میں) مجھ کو دوبارہ ہرگز پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ پیدا کرنے کے مقابلہ میں مشکل نہیں ہے۔ اور اس کا میرے بارے میں بد گوئی کرنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے ، اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں تنہا اور بے نیاز ہوں ، نہ میں نے کسی کو جنا ہے اور نہ مجھ کو کسی نے جنا اور نہ کوئی میرا برابری کرنے والا ہے اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں اس طرح ہے  اور اس (انسان) کا مجھے برا بھلا کہنا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی یا بیٹا بناؤں۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

جو لوگ یہ فرماتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مرتبہ پیدا ہو کر مر جانے والوں اور اس دنیا سے اپنا وجود ختم کر دینے والوں کو دوبارہ حیات ملے اور نئی دنیا (آخرت) کے لیے ان کا وجود پھر عمل میں آئے یا اسی طرح جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے  بیٹا  ثابت کرتے ہیں اور اس کا عقیدہ رکھتے ہیں جیسے عیسائیوں کا کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، یا یہودیوں کا کہنا کہ عزیر علیہ السلام اللہ کی اولاد ہیں، درحقیقت فکر و عقیدہ کی بے راہ روی ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا اور اس کی ذات پر بہتان باندھنا ہے۔ جھوٹ کی نسبت تو اس اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتابوں اور اپنے سچے پیغمبروں کے ذریعہ قیامت کی واضح خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ ہر ذی روح کو مرنا ہے اور پھر آخرت میں دوبارہ زندہ ہو کر ایک نئی حیات پانا ہے جو ابدی ہو گی، اب اگر کوئی آدمی قیامت کا انکار کرتا ہے یا حیات بعد الموت کو ناممکن سمجھتا ہے تو دراصل وہ ظاہر کرتا ہے کہ (نعوذ باللہ) اللہ جھوٹا ہے جس نے ان غلط باتوں کی ہمیں خبر دی ہے اسی طرح یہ تصور قائم کرنا اور کہنا کہ جو شخص ایک مرتبہ پیدا ہو کر ختم ہو چکا ہے وہ دوبارہ وجود نہیں پا سکتا، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قادریت و خالقیت کا انکار کرنا ہے۔ ان نادانوں کی عقل میں یہ موٹی بات نہیں آتی کہ جو خالق کسی چیز کو عدم سے نکال کر وجود کا لباس پہنا سکتا ہے وہ اسی چیز کو جبکہ وہ ٹوٹ پھوٹ کر اپنا قلب کھو چکی ہو، دوبارہ قالب اور وجود عطا کیوں نہیں کر سکتا، محدود قدرت رکھنے والا انسان بھی کسی چیز کی تخلیق میں اگر کوئی دقت اور مشکل محسوس کرتا ہے تو پہلی مرتبہ کی تخلیق میں محسوس کرتا ہے جب کہ اسی چیز کو دوبارہ بنانا اس کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوتا، پھر لا محدود طاقت قدرت رکھنے والے خلاق عالم کو اپنی کسی تخلیق کو دوبارہ وجود دینے میں بھلا کیا دقت ہو سکتی ہے۔ واضح ہو کہ  پہلی مرتبہ اور  دوسری مرتبہ کی یہ تفصیل انسان کے اعتبار سے اور محض سمجھانے کے لیے ہے اس کا تعلق حق تعالیٰ کی ذات سے ہر گز نہیں ہے وہ تو قادر مطلق ہے ، کسی چیز کو پیدا کرنا نہ اس کے لیے پہلی مرتبہ مشکل ہے اور نہ دوسری مرتبہ۔

 اللہ کے بارے میں بد گوئی کے ذریعہ اس کی ذات پر بہتان باندھنا اس اعتبار سے ہے کہ جب اس نے واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ تنہا، بے نیاز اور بے کفو ہے اور یہ کہ نہ اس کو کسی نے جنا اور نہ اس نے کسی کو جنا ہے تو پھر کسی کو اس کا بیٹا بنانا اس کو کسی کا باپ بتانا اس کی ذات پر بہتان تراشی نہیں تو اور کیا ہے؟، یہ انسان کی ذہنی پستی اور فکر و خیال کی گراوٹ کی بات ہے کہ وہ اپنے خالق اور اپنے پروردگار کی طرف ایسی چیزوں کی نسبت کرے جس سے اس کی ذات پاک ہے ، بے نیاز ہے۔

زمانہ کو برا مت کہو

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ابن آدم (انسان) مجھے تکلیف دیتا ہے (اس طرح کہ) کہ وہ زمانے کو برا کہتا ہے حالانکہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) تو میں ہی ہوں، سب تصرفات میرے قبضہ میں ہیں اور شب و روز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

 جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانہ اور وقت کے سر پر ڈال دیتے ہیں اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہیں  زمانہ خراب ہے ، بہت برا وقت ہے اس طرح وقت اور زمانہ کو برا کہنا نہایت غلط ہے کیونکہ زمانہ اور وقت تو کچھ بھی نہیں ہے ، اصل متصرف حق تعالیٰ کی ذات ہے جس کے قبضہ میں لیل و نہار کی تبدیلی ہے اور اسی گردش لیل و نہار کا نام زمانہ اور وقت ہے ، اگر زمانہ اور وقت کو متصرف سمجھ کر برا کہا جاتا ہے تو متصرف چونکہ اللہ تعالیٰ ہے اس لیے وہ برائی حق تعالیٰ کی طرف جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا صبر و تحمل

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تکلیف دہ کلمات سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر و تحمل کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے بیٹا تجویز کرتے ہیں وہ اس پر بھی (ان سے انتقام نہیں لیتا بلکہ) ان کو عافیت بخشتا ہے اور روزی پہنچاتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 رب قدوس کی ذات اس سے پاک اور بالاتر ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے قول و فعل سے اس کو تکلیف پہنچانا ہے چاہے ، تو وہ کامیاب ہو جائے یا کوئی آدمی اس کو نقصان پہنچانا چا ہے تو اسے نقصان پہنچ جائے اس لیے یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ واقعی اس کو انسان کے قول فعل سے تکلیف پہنچتی ہے اور وہ صبر و تحمل کرتا ہے اور نہ اس حدیث کا مقصد اس بات کو ظاہر کرتا ہے۔ اصل منشاء انسانی دل و دماغ کو جھنجوڑنا اور عقل و شعور کو بیدار کرنا ہے کہ جب اللہ کی اپنی بنائی ہوئی مخلوق اسی کے پیدا کئے ہوئے انسان اسی کے خزانہ قدرت سے مستفید ہونے والے لوگ اپنے قول و فعل سے اللہ کو ایذاء پہنچانے کے سامان تیار کرتے ہیں اس کو تکلیف دینے کا ادارہ کرتے ہیں جیسے اس کی نافرمانی کرنا اس کے احکام و ہدایات اور اس کے دین کا مذاق اڑانا اور اس کی طرف ان چیزوں کی نسبت کرنا جن سے اس کی ذات بالکل پاک اور منزہ ہے مثلاً کسی کو اس کا جوڑا قرار دینا تو یہ ایسی باتیں ہیں کہ جن پر اس کا غضب اگر بھڑک اٹھے تو نہ صرف ان لوگوں کا تمام نظام زندگی تباہ و برباد کر کے رکھ دے بلکہ پوری کائنات کو ایک ہی لمحے میں نیست و نابود کر ڈالے۔ مگر اس کے برداشت و تحمل کو دیکھو کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجود کوئی انتقامی کاروائی نہیں کرتا، کسی کی روٹی روزی بند نہیں کرتا ، کسی کو زندگی کے وسائل و ذرائع سے محروم نہیں کرتا ، جس طرح اس کے نیک اور اطاعت گزار بندے اس کے فضل و کرم کے سایہ میں ہیں اسی طرح بدکار اور سرکش بندے بھی اس کے خزانہ رحمت سے پل رہے ہیں اس کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔

توحید کی اہمیت

اور حضرت معاذ (آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن ہے لیکن معاذ بن جبل کے نام سے معروف ہیں انصاری صحابی ہیں۔٤٨ سال کی عمر میں ١٨ھ میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ (ایک سفر کے دوران سواری کے) گدھے پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان صرف کجاوے کا پچھلا حصہ حائل تھا، آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے (مجھ سے) فرمایا معاذ ! جانتے ہو بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پر بندوں کا یہ حق ہے کہ جس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرایا ہو ، اسے عذاب نہ دے (یہ سن کر) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں یہ خوشخبری لوگوں کو سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ لوگوں کو یہ خوشخبری نہ سناؤ کیونکہ وہ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے)۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عرب کے گدھے ہماری طرف کے گھوڑوں سے بھی زیادہ تیز اور طاقتور ہوتے ہیں اس لیے وہاں سواری کے لیے گدھے بھی استعمال کیے جاتے تھے اور ان پر سواری کی جاتی تھی۔

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے اللہ کو ایک مان لیا اس کی الوہیت و ربوبیت اور اس کی بھیجی ہوئی رسالت پر ایمان لے آیا اور اس کی عبادت و پرستش میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو اس پر عذاب نہیں ہو گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اللہ کے رسول پر ایمان لے آیا اور شرک کا مرتکب نہیں ہوا تو اس پر دوزخ کی آگ بالکل حرام ہو جائے گی۔ اگرچہ وہ کتنا ہی بد عمل اور بدکار ہو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرح اس پر ہمیشہ کے لیے عذاب مسلط نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا بلکہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر آخر کار اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

دوزخ سے رہائی

اور حضرت انس راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت جب کہ (سفر کے دوران) سواری پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے معاذ بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمایا  اے معاذ انہوں نے کہا  حاضر ہوں یا رسول اللہ  آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا  اے معاذ معاذ نے عرض کیا  یا رسول اللہ حاضر ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر تیسری مرتبہ مخاطب فرمایا  اے معاذ معاذ نے پھر کہا  یا رسول اللہ حاضر ہوں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح تین مرتبہ معاذ کو مخاطب کرنے کے بعد فرمایا  اللہ کا جو بندہ سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ حرام کر دیتا ہے اور یہ سن کر معاذ نے عرض کیا  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کیا میں اس (خوشخبری) سے لوگوں کو آگاہ کر دوں تاکہ وہ اس خوشخبری کو سن کر خوش ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (حضرت انس فرماتے ہیں کہ آخر کار معاذ نے اس خوف سے کہ حدیث چھپانے کا) گناہ نہ ہو اپنی وفات کے وقت اس حدیث کو بیان کر دیا تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ کو بار بار اس لیے مخاطب فرمایا تاکہ ان کے دل و دماغ میں مضمون کی اہمیت و عظمت بیٹھ جائے اور وہ جان لیں کہ جو بات کہی جانے والی ہے وہ ایسی نہیں ہے کہ سر سری طور پر سن لی جائے بلکہ اس کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کو پوری توجہ سے سنا جائے اور دل و دماغ کی گہرائیوں تک اس کو پہنچایا جائے۔

 فرمایا گیا کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار صدق دل سے کر لیا اور اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو جائے گی لیکن محض یہ تصدیق و اقرار ہی حرمت نار کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس شہادت و تصدیق کے ساتھ ساتھ اس کے جو تقاضے ہیں ان کو بھی پورا کیا جائے یعنی دین و شریعت کی پوری پیروی کی جائے اور احکام خداوندی و فرمان رسول کی فرمانبرداری کی جائے اور یہ شہادت و تصدیق جن فرائض کو عائد کرتی ہیں ان پر عمل کیا جائے ، اس طرح اللہ کا فضل و کرم اسے دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا، اسی لئے جب حضرت معاذ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس خوشخبری کو عام لوگوں تک پہنچانے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ اس خوشخبری کو سن کر اسی پر بھروسہ کر لیں گے اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے یا پھر وہی تاویل کی جائے گی جو پہلے کی گئی ہے کہ دوزخ کے ابدی عذاب سے نجات کا ضامن ہے ، یعنی جس طرح کفار و مشرکین دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ جلائے جائیں گے۔ اس طرح عقیدہ توحید و رسالت پر ایمان رکھنے والوں کو دوزخ کی آگ میں ہمیشہ کے لیے نہیں ڈالا جائے گا، ان میں سے جس آدمی نے شریعت پر عمل نہیں کیا ہو گا اور فرائض و واجبات کو پورا نہیں کیا ہو گا اس کو اس عرصہ کے لیے جو اللہ چا ہے گا دوزخ میں ڈالا جائے گا اور جب وہ اپنی سزا پوری کر لے گا تو پھر اس کو ہمیشہ کے لیے جنت میں بھیج دیا جائے گا۔

خاتمہ بالا یمان جنت کی ضمانت ہے

اور حضرت ابوذر غفاری (اصل نام جندب بن جنادہ ہے اور بوذر غفار کی کنیت سے مشہور ہیں، آپ مکہ میں بالکل ابتداء اسلام میں ایمان سے بہرہ ور ہو گئے تھے۔ آپ کا انتقال ٣٢ ھ میں ہوا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے (اس وقت تو میں واپس چلا آیا) پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیدار ہو چکے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مجھ کو دیکھ کر) فرمایا جس آدمی نے صدق دل سے لا الہ الا اللہ (یعنی اللہ کی وحدانیت کا سچے دل سے اعتراف و اقرار کیا) اور اسی عقیدہ پر اس کا انتقال ہو گیا تو وہ ضرور جنت میں داخل کیا جائے گا  میں نے عرض کیا  اگرچہ اس نے چوری اور زنا (جیسے بڑے گناہوں) کا ارتکاب کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں، خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو۔ میں نے پھر (تعجب سے) سوال کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کے جرم کا مرتکب کیوں نہ ہو؟ میں نے (پھر تیسری بار بہت حیرت سے) عرض کیا، اگرچہ اس نے چوری اور زنا کے جرم کا ارتکاب کیا ہو؟ (تیسری مرتبہ بھی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا  ہاں خواہ وہ چوری اور زنا کا مرتکب ہی کیوں نہ ہوا ہو اور خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ (راوی فرماتے ہیں کہ) جب بھی حضرت ابوذر یہ حدیث بیان کرتے (بطور فخر) اس آخری فقرہ  خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار گزرے ضرور نقل کرتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اس کے فضل و کرم سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اس آدمی کو جنت میں داخل کر دے جو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا تھا مگر مرتے وقت اس کا دل ایمان و یقین کی روشنی سے منور تھا، تاہم محدثین اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ اس کی بخشش و مغفرت اس کے ایمان کی بنا پر تو ہر حال میں ہو گی یعنی اس کو ابدی نجات سے سرفراز کیا جائے گا مگر دنیا میں اس نے جو گناہ کئے ہوں گے اور جن بداعمالیوں کا مرتکب ہوا ہو گا پہلے ان کی سزا اس کو بھگتنی ہو گی۔ چنانچہ ابوذر غفاری کو اسی لیے تعجب ہو رہا تھا اور وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا کوئی آدمی محض اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان و اقرار کے بعد جنت میں داخل کر دیا جائے گا خواہ اس نے شریعت کی اطاعت نہ کی ہو اور بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب رہا ہو؟ مگر حقیقت میں نگاہ نبوت اللہ کی وسیع و بہت زیادہ رحمت کو دیکھ رہی تھی کہ بڑے بڑے سرکش اور بدکار انسان جنہوں نے پوری زندگی اللہ و رسول کے احکام سے سرکشی میں گزاری ، جن کی عمر کا کوئی حصہ شریعت کی اطاعت میں نہیں گزرا انہوں نے جب آخر میں ندامت و شرمندگی اور خلوص دل سے توبہ کر لی اور مرتے وقت ان کا دل ایمان و یقین کے نور سے منور ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت نے اس توبہ و انابت اور ایمان و یقین کی بدولت جس نے سچائی اور اخلاص کے ساتھ ان کے اندر کی دنیا میں لمحہ میں انقلاب برپا کر دیا تھا ان کی پوری زندگی کی سرکشی اور بدکاریوں کو معاف کر دیا اور اپنے فضل و احسان کے سایہ میں لے کر ان کو ابدی نجات سے سرفراز کر دیا۔

نجات کا دارومدار کس پر ہے

اور عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی اس بات کی گواہی دے (یعنی زبان سے قرار کرے اور دل سے سچ جانے) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) بلا شبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور (اس بات کی بھی شہادت دے کہ) عیسیٰ علیہ السلام (بھی) اللہ کے بندے اور رسول اور اللہ کی لونڈی (مریم) کے بیٹے اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی جانب ڈالا تھا اور اللہ کی بھیجی ہوئی روح ہیں اور یہ کہ جنت و دوزخ حق (اور واقعی چیزیں) ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں ضرور داخل کرے گا خواہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان و عقائد کی اصلاح پر ہے اس میں کسی قسم کی کوتاہی قابل معافی نہیں سکتی ، ہاں اعمال کی کمزوریاں رحمت خداوندی سے معاف ہو سکتی ہیں۔

ایمان کی بنیاد چونکہ توحید کو ماننا اور اس کی شہادت دینا ہے اس لیے سب سے پہلے اسے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی الوہیت و ربوبیت پر صدق دل سے اعتقاد اور یقین رکھا جائے پھر اس کے بعد رسالت کا درجہ ہے تو ضروری ہے کہ رسول کی رسالت پر ایمان لایا جائے اسی طرح تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان رکھنا بھی نجات کے لیے ضروری ہے۔ یہاں صرف حضرت عیسیٰ کا ذکر علامت کے طور پر بھی ہے اور ایک خاص وجہ سے بھی دراصل ان کے بارے میں ایک گروہ (یعنی عیسائیوں) کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن اللہ ہیں۔ اس باطل عقیدہ کی تردید کے لیے ان کا ذکر کیا گیا اور وضاحت کر دی گئی کہ عیسیٰ نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اللہ ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے بلکہ وہ اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں جسے اس نے اپنی ایک باندی مریم کے پیٹ سے پیدا کیا اسی لیے ان کو  کلمۃ اللہ  کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش بغیر باپ کے صرف اللہ کے حکم  کلمہ کن سے ہوئی۔ روح اللہ  ان کو اس لیے نہیں کہا گیا کہ ان کے اندر اللہ کا کوئی جزو یا اللہ کی روح شامل ہے بلکہ روح اللہ  آپ کا لقب اس لیے قرار دیا گیا کہ آپ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا کرتے تھے اور مٹی کی چڑیاں بنا کر اور ان میں جان ڈال کر اڑا دیا کرتے تھے۔ عقیدہ توحید و رسالت کے بعد تصور آخرت کا عقیدہ بھی بنیادی ہے یعنی اس بات پر ایمان و یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا برحق ہے اور جنت د دوزخ واقعی چیزیں ہیں، یہ وہ عقائد ہیں جن کا ماننا، صدق دل سے ان پر ایمان رکھنا اور خلوص نیت سے ان کو تسلیم کرنا ابدی نجات کا ضامن ہے۔ ان عقائد کو مانتے ہوئے اگر اعمال کی کوتاہیاں بھی ہوں تو اس صورت میں بھی اس حدیث نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ لیکن جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے یہ بات طے ہے کہ جو عملی کوتاہیاں اور بد اعمالیاں رحمت خداوندی سے معاف نہیں ہوں گی ان پر سزا ضرور ملے گی مگر سزا پوری ہونے کے بعد اس کو بھی جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ لہٰذا اس حدیث کو اس مفہوم میں لینا چاہیے کہ اگر ان عقائد کے ماننے کے بعد کسی نے اعمال بھی اچھے کئے ، شریعت کی پیروی کرتے ہوئے تمام احکام بجا لایا اور خلاف شرع کوئی کام نہیں کیا تو بغیر کسی عذاب و سزا کے اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اگر کسی نے ان عقائد کو ماننے کے بعد اعمال اچھے نہ کئے شریعت کی پابندی نہیں کی، اللہ اور اللہ کے رسول کے احکام کی فرمانبرداری نہیں کی تو وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا مگر آخر کار اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

قبول اسلام سے سابقہ گناہ مٹ جاتے ہیں

حضرت عمرو بن العاص (آپ مشہور و معروف قریشی صحابی ہیں آپ کی کنیت ابو عبداللہ یا ابومحمد بیان کی گئی ہے آپ کا سن وفات ٤٣ ھ بیان کیا جاتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں (جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی سے میرے قلب و دماغ کو منور کیا تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا  یا رسول اللہ !لائیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے اسلام کی بیعت کرتا ہوں، آپ نے (یہ سن کر) اپنا ہاتھ (جب) بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیاتو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حیرت سے) فرمایا عمرو یہ کیا؟ میں نے عرض کیا  یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں کچھ شرط لگانی چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا شرط ہے؟ میں نے عرض کیا (میں چاہتا ہوں) کہ میرے (ان) تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے (جو میں نے اسلام سے پہلے کئے تھے) آپ نے فرمایا : اے عمرو ! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام ان تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو قبول اسلام سے پہلے کئے گئے ہوں، ہجرت ان تمام گناہوں کو دور کر دیتی ہے جو اس (ہجرت) سے پہلے کئے گئے ہوں اور حج ان تمام گناہوں کو مٹا دیا جائے جو اس حج سے پہلے کئے گئے ہوں (صحیح مسلم) اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ دونوں حدیثیں یعنی  قال اللہ تعالیٰ ان اغنی الشر کاء عن الشرک الخ اور  الکبریاء ردائی الخ ریاء اور کبر کے باب میں نقل کی جائیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

تشریح

 

ایک شخص اگر اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصہ کفر و شرک میں گزار کر بعد میں اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوتا ہے ، تو کیا اس کے زمانہ اسلام سے پہل کے اعمال پر مواخذہ ہو گا؟یعنی کفر و شرک اور گناہ و معصیت جو اس سے پہلے صادر ہوتے رہے ہیں ان پر عذاب ہو گا یا نہیں؟ اس حدیث نے اس مسئلہ کو صاف کر دیا کہ اسلام کی روشنی پہلی تمام تاریکی کو خواہ وہ کفر و شرک کا اندھیرا ہو یا گناہ و معصیت کی ظلمت، آن واحد میں ختم کر ڈالتی ہے اور صرف ایک کلمہ کی بدولت جو خلوص دل سے نکلا ہو، انسان کا قلب و دماغ بالکل مجلی ہو جاتا ہے ، نہ وہاں شرک کی ظلمتوں کا کوئی نشان رہ جاتا ہے اور نہ گناہ معصیت پر عذاب کا کوئی خدشہ، لیکن اتنی بات جان لینی چاہیے کہ بخشش اور مغفرت کا تعلق ذنوب اور گناہوں سے ہے ، ان حقوق کے ساتھ نہیں ہے جو قرض، امانت، عاریت اور خرید و فروخت کے سلسلے میں اس کے ذمہ ابھی باقی ہیں کیونکہ اسلام ان مطالبات کی ادائیگی کو معطل نہیں کرتا جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے بلکہ اسلام لانے کے بعد بھی اس پر لازم رہے گا کہ وہ ان مطالبات کی ادائیگی کرے جو اس پر اسلام لانے سے پہلے واجب تھے ، البتہ اس حدیث تحت ایسے حقوق العباد آ سکتے ہیں جو زنا، چوری اور قتل و غارت گری کی صورت میں زمانہ اسلام سے قبل ناحق ضائع کر دیئے گئے تھے ، اسلام کے بعد ان پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔

اسلام کی دولت سے مستفیض ہونے کے بعد بھی چونکہ ایک مسلمان سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہو سکتے ہیں اس لیے ان کے کفارہ کے لیے اس حدیث نے حج اور ہجرت دو ایسے عمل بتا دیئے کہ اگر یہ دونوں کام اپنی تمام شرائط کے ساتھ پورے کئے جائیں تو یہ حقوق اللہ کے لیے کفارہ بن جائیں گے بلکہ حج کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ حقوق العباد کے لیے بھی کفارہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنے خزانہ قدرت سے صاحب حقوق کو اس کے حقوق دے کر اس بندہ کو ان حقوق سے دستبرداری دلا دے اور اسے معاف کر دے۔ (ترجمان السنۃ)

ارکان دین

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی عمل ایسا بتا دیجئے جو مجھ کو جنت میں لے جائے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ آسان کر دے اس کے لیے یہ بہت آسان بھی ہے پھر فرمایا  اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز پابندی کے ساتھ ادا کرو، زکوٰۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور خانہ کعبہ کا حج کرو، پھر اس کے بعد فرمایا اے معاذ! کیا تمہیں خیر و بھلائی کے دروازوں تک نہ پہنچا دوں (تو سنو) روزہ (ایک ایسی) ڈھال ہے (جو گناہ سے بچاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھتی ہے) اور اللہ کی راہ میں کرچ کرنا گناہ کو اس طرح مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے (اور اسی طرح) رات (تہجد) میں مومن کا نماز پڑھنا (گناہ کو ختم کر دیتا ہے) پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (جس میں تہجد گزاروں اور رات میں اللہ کی عبادت کرنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس پوری آیت کا ترجمہ ہے): ان(مومنین صالحین) کے پہلو (رات میں) بستروں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف و امید سے پکارتے اور جو (مال) ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان (مومنین صالحین) کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے یہ ان کے اعمال کا صلہ (انعام) ہے جو وہ کرتے تھے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تمہیں اس چیز (یعنی دین) کا سر اور اس کے ستون اور اس کے کوہان کی بلندی نہ بتا دوں؟ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس چیز (دین) کا سر اسلام ہے ، اس کے ستون نماز ہے اور اس کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ کیا تمہیں ان تمام چیزوں کی جڑ نہ بتا دوں؟ میں نے عرض کیا ہاں اللہ کے نبی ضرور بتائیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور (اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا، اس کو بند رکھو۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ہم اپنی زبان سے جو بھی لفظ نکالتے ہیں ان سب پر مواخذہ ہو گا، آپ نے فرمایا معاذ! (دعا ثکتک امک) (تمہاری ماں تمہیں گم کر دے اچھی طرح جان لو کہ) (یہ ایک محاورہ ہے جو عربی زبان میں اظہار تعجب کے لیے بولا جاتا ہے)۔

لوگوں کو ان کے منہ کے بل یا پیشانی کے بل دوزخ میں گرانے والی اسی زبان کی (بری) باتیں ہوں گی۔ (مسند احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث میں  دین کی تصویر بڑے نفسیاتی انداز میں اجاگر کی گئی ہے۔ مطلب یہ کہ جس طرح کسی جسمانی وجود کام دار سر پر ہوتا ہے کہ اگر سر کو اڑا دیا جائے تو جسمانی وجود بھی باقی نہیں رہے گا، اسی طرح ایمان و اسلام یعنی عقیدہ توحید و رسالت دین کے لیے بمنزلہ سر کے ہیں کہ اگر توحید و رسالت کے اعتقاد کو ہٹا دیا جائے تو دین کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا، پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو برقرار رکھنے اور کار آمد بنانے کے لیے  ستون اولین اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح دین کا ستون نماز ہے۔ نماز ہی وہ بنیادی طاقت ہے جو دین کے وجود کو وابستہ اور قائم رکھتی ہے اگر نماز کو ہٹا دیا جائے تو دین کو وجود اپنی اصلی حالت کی برقراری سے محروم ہو جائے۔ اور پھر جس طرح کسی جسمانی وجود کو با عظمت بنانے اور اس کی شوکت بڑھانے کے کسی امتیازی اور منفرد وصف و خصوصیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح جہاد ضرورت ہے جس پر دین کی عظمت و شوکت اور ترقی و وسعت کا انحصار ہے اگر جہاد کو (خواہ وہ قلم سے ہو یا زبان سے اور خواہ تلوار سے ہو یا تبلیغی جدوجہد سے) اہل اسلام کے ملی وصف سے خارج کر دیا جائے تو دین ایک بے شکوہ اور بے اثر ڈھانچہ بن کر رہ جائے۔

حدیث کا آخری حصّہ زبان سے متعلق اس ہدایت پر مشتمل ہے جو دین کو اضمحلال اور دینی گندگی کو گھن سے بچانے کے لیے ایک بڑے نفسیاتی نکتہ کی غماز ہے۔ مطلب یہ کہ دین کے وجود، دین کے بقا اور دین کی عظمت و شوکت کو پہنچانے کی جڑ زبان ہے زبان کو قابو میں رکھنا دین و دنیا کی فلاح و نجات کا پیش خیمہ ہے اور زبان کو بے قابو چھوڑ دینا خود کو دین و دنیا کی تباہی کی طرف دھکیل دینا ہے لہٰذا لازم ہے کہ زبان بند رکھی جائے یعنی منہ سے ایسے الفاظ نہ نکالے جائیں جو برائی فحاشی اور بدکلامی کے حامل ہوں، وہ برے کلام جو کفر آمیز یا گناہ اور فحاشی کے ہوں، یا کسی کی غیبت کرنا، جھوٹ بولنا اور یا الزام تراشی کرنا ایسی برائیاں ہیں جن سے زبان و ذہن کی حفاظت نہ کی گئی تو سمجھ لو دوزخ کا عذاب سامنے ہے۔ دین و دنیا کی بھلائی چاہنے والے اور ابدی نجات و سعادت کے طلب گار اسی لیے اپنی زبان پر قابو رکھتے ہیں کہ نہ معلوم کب اس سے کوئی ایسا لفظ و کلام نکل جائے جس سے کفر بکنا یا گناہ و معصیت کی بات کہنا لازم آ جائے اور پھر اس کی پاداش میں اللہ کا عذاب بھگتنا پڑے۔ درحقیقت  زبان بہت بڑی وجہ سعادت بنتی ہے جب اس سے نیک کلام اچھی باتیں، خیر و بھلائی کے الفاظ اور وعظ و نصیحت کے جملے نکلتے ہیں ، دنیا و آخرت میں اسی انسان کا رتبہ بلند مانا جاتا ہے جو  زبان کی عظمت و تقدیس کو ہر حال میں ملحوظ رکھے۔ بدکلامی اور بری باتوں سے بہر صورت اجتناب کرتا ہوں۔

ایمان کامل کیا ہے

اور حضرت ابی امامہ (اصل نام سدی بن عجلان بن حارث ہے مگر اپنی کنیت ابوامامہ سے مشہور ہیں، آپ قبیلہ باہلہ کی ایک شاخ سہم سے تعلق رکھتے تھے اس لیے آپ  باہلی سہمی کہلاتے تھے آپ کی وفات ٨١ھ میں بیان کی گئی ہے۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور اللہ ہی کے لیے بغض و عداوت رکھے اور اللہ ہی کے لیے خرچ کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور اللہ ہی کے لیے خرچ نہ کرے تو یقیناً اس نے ایمان کو کامل کیا  (ابوداؤد) اور ترمذی نے اس روایت کو معاذ بن انس سے کسی قدر تقدیم و تاخیر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جس کے آخری الفاظ یہ ہیں تو یقیناً اس نے اپنے ایمان کو کامل کیا۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ کہ بندہ جو کام بھی کرے محض اللہ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے کرے ، اس کا کوئی بھی فعل و عمل کسی غرض فاسد، جذبہ نام و نمود اور نمائش و ریا کے تحت نہ ہو۔ مثلاً اگر وہ کسی سے محبت و تعلق رکھتا ہے یا کسی سے دشمنی و عداوت رکھتا ہے تو اس کی بنیاد محض نفس کی خواہش یا کسی دنیاوی مقصد و غرض پر نہ ہو بلکہ یہ دیکھے کہ کس آدمی سے محبت رکھنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے اس لیے وہ اس آدمی سے محبت و تعلق رکھے جو نیک ، صالح، اطاعت گزار اور مخلص مومن و مسلمان ہوا اور چونکہ ایسے آدمی سے بغض و عداوت رکھنا ہی اللہ کو مطلوب ہے جو سرکش و نا فرمانبردار ہو اس لیے اس سے بغض و عداوت رکھے اور اس سے محبت کا تعلق قائم نہ کرے۔ اسی طرح اپنا مال خرچ کرنے اور کرچ نہ کرنے کے بارہ میں بھی اللہ ہی کی رضا و خوشنودی کو سامنے رکھے یعنی اگر خرچ کرے تو ایسی جگہ اور ایسے مصارف میں خرچ کرے جہاں خرچ کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور جن مصارف میں خرچ کرنا اللہ کو مطلوب و پسندیدہ ہے ، جہاں خرچ کرنا نہ صرف یہ کہ کوئی ثواب کا کام نہیں ہے بلکہ گناہ کو لازم کرتا ہے وہاں خرچ کرنے سے اجتناب کرے اور کسی ایسے آدمی یا جماعت کے ساتھ مالی امداد و معاونت نہ کرے جو اللہ کی نظر میں مقبول و پسندیدہ ہو یہی ہو چیز ہے جس کو تکمیل ایمان کا باعث قرار دیا گیا ہے۔

سب سے افضل عمل کیا ہے

اور حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (باطنی) اعمال میں سب سے افضل مرتبہ اس عمل کا ہے کہ اللہ ہی کے لیے (کسی سے) محبت ہو اور اللہ ہی کے لیے (کسی سے) بغض و عداوت رکھی جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اگر بندہ کا احساس اتنا لطیف اور اس جذبہ اتنا پاکیزہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ قدم قدم پر یہی روشنی اس کی راہنمائی کرتی رہے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ بری باتوں اور گناہوں سے بچتا رہے گا اور اچھی باتیں اور نیک کام کرتا رہے گا اسی لیے جذبہ کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔

سچا مومن کون ہے

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (کامل اور سچا) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذاء سے) مسلمان محفوظ رہیں اور (پکا و صادق) مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جان و اپنے مال کو مامون سمجھیں (جامع ترمذی و سنن نسائی) اور شعب الایمان میں بیہقی نے فضالہ سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں اور (حقیقی) مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت و عبادت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور (اصل) مہاجر وہ ہے جس نے تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں کو ترک کر دیا۔

 

تشریح

 

صحیح معنی میں مومن وہی ہے جس کا وجود اللہ کی مخلوق کے لیے باعث اطمینان و راحت ہو، لوگوں کو اس پر پورا پورا اعتماد بھروسہ ہو۔ اس کی امانت و دیانت، عدالت و صداقت اور اخلاق و پاکیزگی اس طرح نمایاں ہو کہ نہ تو کسی کو اپنے مال کے ہڑپ کر لیے جانے کا خوف ہو اور نہ کسی کو اس کی طرف سے اپنی جان و آبرو کے نقصان کا خدشہ، اور نہ کسی کے دل میں اس کی جانب سے کسی اور طرح کا خوف و ہراس ہو۔

 حقیقی مجاہد بھی وہ نہیں ہے جو دشمنوں سے جنگ کرتا ہے بلکہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس امارہ سے جہاد کرتا ہے اور اللہ کی راہ میں بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی خاطر نفس کی تمام خواہشات کو موت کے گھاٹ اتا دیتا ہے۔

 ایسے ہی حقیقی مہاجر بھی وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو ترک کر دیا ہے جن سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کر رکھا ہو اس لیے کہ ہجرت کی حکمت یہی ہے کہ مومن طاعت الہٰی میں بغیر کسی رکاوٹ کے مصروف رہے اور اللہ نے جن چیزوں سے منع کر دیا ہے ان سے بچتا رہے۔ مہاجر کی حقیقی شان یہی ہے۔

امانت اور ایفاء عہد کی اہمیت

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا خطبہ کم دیا ہو گا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ جس آدمی میں امانت نہیں اس کا ایمان بھی کچھ نہیں اور جس میں ایفاء عہد نہیں اس کا دین بھی کچھ نہیں۔ (شعب الایمان)

 

تشریح

 

 امانت و دیانت اور ایفاء عہد وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جن کا ہر مسلمان و مومن میں ہونا ضروری ہے ان اوصاف کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے یا خطبہ دیا کرتے تھے ، تو امانت و دیانت اور ایفائے عہد کے بارہ میں ضرور تاکید فرمایا کرتے تھے اس لیے مومن کی فطرت ہی امانت و دیانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے اندر ان اوصاف کے جوہر فطری طور پر ہو تے ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر نیکی و بھلائی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ اسی طرح ایفاء عہد بھی فطرت سلیم اور ایمان کا خاصہ ہے اسی لیے فرمایا گیا کہ جس آدمی کے اندر یہ اوصاف ہوں گے وہ دین و ایمان کی حقیقی لذت سے بھی لطف اندوز نہیں ہو سکے گا، تاہم اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا ایمان بالکل ہی ختم ہو جائے گا بلکہ ان اوصاف کی اہمیت و عظمت کی بنا پر مبالغہ سے کام لیا گیا اور تاکیداً اس طرح فرمایا گیا تاکہ ان کی اہمیت دلوں میں بیٹھ جائے۔

ابدی نجات کی ضمانت

حضرت عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جس آدمی نے (سچے دل سے) اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم سے) اس پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔ (صحیح مسلم)

توحید کی اہمیت

اور حضرت عثمان بن عفان(حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تیسرے خلیفہ اور مشہور و معروف صحابی ہیں، حضور کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپ کے عقد میں آئیں اسی وجہ سے آپ کا لقب ذوالنورین ہے۔ واقدی کے بیان کے مطابق ٨ ذی الحجہ ٣٥ھ میں بروز جمعہ آپ کو باغیوں نے مدینہ منورہ میں شہید کیا۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے اس (پختہ) اعتقاد پر وفات پائی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ جنتی ہے۔ (صحیح مسلم)

جنت اور دوزخ کو واجب کرنے والی باتیں

اور حضرت جابر (معروف انصاری صحابی ہیں آپ کے والد کا نام عبداللہ اور آپ کی کنیت ابوعبداللہ بیان کی گئی ہے۔ ٩٤ سال کی عمر میں ٦٢ ھ میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دو باتیں (جنت اور دوزخ کو) واجب کرنے والی ہیں، ایک صحابی نے عرض کیا  یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کو) واجب کرنے والی وہ دو باتیں کونسی ہیں؟ آپ نے فرمایا  پہلی بات تو یہ کہ جو آدمی اس حال میں مرا کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا تھا تو وہ دوزخ میں ڈال دیا جائے گا (اور دوسری بات یہ کہ) جس آدمی کی وفات اس حال میں ہوئی کہ اس نے کسی کو اللہ کا شریک نہ کیا تھا تو وہ جنت میں جائے گا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 ان احادیث کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی ایمان لایا اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے ساتھ ساتھ رسول کی رسالت کا عہدو اقرار کیا اور پھر اس عہد و اقرار کے تمام تقاضوں کو پورا کیا یعنی شریعت و دین کی پوری پوری پیروی کی اور پھر اسی اعتقاد و اطاعت پر اس کی موت آئی تو یہ یقیناً جنتی ہے۔ اس کی نجات میں بظاہر کوئی شبہ نہیں ہو گا لیکن اگر ایمان و اسلام کے بعد اس سے عمل کی کوتاہیاں سرزد ہوئیں یا شریعت پر عمل نہیں کیا مگر خاتمہ اس کا بھی ایمان پر ہوا تو اس کی بھی ابدی نجات تو یقیناً ہو گی لیکن اس سے دنیا میں جو کچھ بد اعمالیاں ہوئیں یا گناہ سرزد ہوئے ان پر اس کو آخرت کی سزا بھگتنی ہو گی، سزا کے بعد پھر ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابدی نجات کا دار و مدار ایمان پر ہے اگر ایمان صحیح ہے اور اسی حالت میں موت واقع ہوئی ہے تو ابدی نجات میں کوئی شک نہیں۔ اور اگر کسی نے شریعت پر عمل نہیں کیا، احکامِ خداوندی و احکام رسول کی پیروی نہیں کی تو اس پر سزا کا ہونا بھی یقینی ہے مگر اس سزا کا تعلق بھی ایک محدود مدت سے ہو گا، سزا پوری کرنے کے بعد وہ بھی ابدی نجات کی سعادت سے نوازا جائے گا۔

عقیدہ توحید پر قائم رہنے والوں کے لیے جنت کی خوشخبری

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) چند صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اچانک ہمارے درمیان سے اٹھے اور کہیں باہر تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گئے ہوئے بہت دیر ہو گئی (اور واپس تشریف نہیں لائے) تو ہمیں سخت تشویش ہوئی کہ کہیں ہماری غیر موجودگی میں کسی دشمن کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو کوئی ایذاء نہ پہنچ جائے (اس خیال سے) ہم گھبرائے اور اٹھ کھڑے ہوئے ، چونکہ سب سے پہلا آدمی میں تھا جو گھبرا اٹھا اس لیے (سب سے پہلے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش میں باہر نکلا اور ڈھونڈتا ہوا قبیلہ بنی بخار کے ایک انصاری کے باغ کے قریب پہنچ گیا (اس خیال سے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس باغ کے اندر ہوں) میں نے (اندر جانے کے لیے) چاروں طرف دروازہ تلاش کیا مگر (اضطراب اور گھبراہٹ میں) دروازہ نظر نہیں آیا۔ اچانک ایک نالی نظر آئی جو باہر کے کنوئیں سے باغ کے اندر جا رہی تھی لہٰذا میں سمٹ سکڑ کر اس نالی میں داخل ہوا اور اس کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس اچانک اپنے سامنے مجھے دیکھ کر حیرت سے) فرمایا، ابوہریرہ تم؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو ڈھونڈھتا ہوا اس باغ تک آ نکلا (یہاں دروازہ نظر نہیں آیا) تو لومڑی کی طرح سکڑ کر (نالی کے راستہ سے) اندر گھس آیا، بقیہ لوگ بھی میرے پچھے آ رہے ہوں گے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دونوں جوتیاں نکال کر مجھے دیں اور فرمایا  اے ابوہریرہ ! جاؤ اور ان جوتیوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ (تاکہ لوگ جان لیں کہ تم میرے پاس سے آئے ہو) اور باغ کے باہر جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد سے یہ گواہی دیتا ہوا تمہیں ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسکو جنت کی خوشخبری دے دو (حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس پیغام کو لے کر میں باہر نکلا تو) سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پوچھا ابوہریرہ! یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا یہ جوتیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہیں آپ نے مجھے یہ جوتیاں (نشانی کے طور پر) دے کر اس لیے بھیجا ہے کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں تو میں اس کو جنت کی خوشخبری دے دوں (یہ سنتے ہی) عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سرین کے بل نیچے گر پڑا اور پھر انہوں نے کہا ابوہریرہ جاؤ واپس جاؤ۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں واپس لوٹ آیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ادھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خوف مجھ پر سوار ہی تھا اب کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آ پہنچے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ حالت دیکھ کر) فرمایا۔ ابوہریرہ! کیا ہوا! میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا پیغام لے کر باہر نکلا تو) سب سے پہلے میری ملاقات عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوئی۔ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا وہ پیغام ان تک پہنچایا (انہوں نے اس کو سنتے ہی) میرے سینے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ میں سرین کے بل زمین پر آ پڑا اور پھر انہوں نے کہا کہ واپس چلے جاؤ، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا  عمر تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) پر میرے ماں باپ قربان، کیا واقعی آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ابوہریرہ کو اپنی جوتیاں دے کر اس لیے بھیجا تھا کہ جو آدمی صدق دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو یہ جنت کی خوشخبری دے دیں؟ رسول اللہ نے فرمایا، ہاں! عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایسا نہ کیجئے ، مجھے ڈر ہے کہ لوگ کہیں اسی خوشخبری پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (اور عمل کرنا ہی چھوڑ دیں) اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) انہیں (زیادہ سے زیادہ) عمل میں لگا رہنے دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اگر تمہارا یہی مشورہ ہے) تو پھر لوگوں کو عمل میں لگا رہنے دو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 رسول اللہ نے جنت کی جو خوشخبری حضرت ابوہریرہ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچانا چاہی تھی اس کا تعلق عقیدہ توحید اور ایمان بااللہ میں اخلاص اور پختگی کے ساتھ تھا، مطلب یہ کہ جس آدمی نے اس کیفیت کے ساتھ اللہ کو ایک اور اپنا معبود پروردگار مان لیا اور اسی عقیدہ پر آخر تک قائم رہا کہ نہ تو وہ اپنے دل و دماغ میں کسی قسم کی کوئی گرانی ، تنگی اور دباؤ محسوس کرتا ہے اور نہ اس عقیدہ کے تئیں کسی شک و شبہ کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کے قلب و ذہن اور احساس و فکر کی دنیا و اعتماد اور اطمینان و مسرت سے سرشار رہتی ہے ، کسی دنیاوی غرض و مفاد و ریاء، و نمائش اور نفاق کی بجائے خلوص و للّٰہیت اور رضائے الہٰی کا جذبہ اور تقاضا ہی اس کے ایمان اور عقیدہ کی بنیاد ہے تو ایسا آدمی یقیناً جنت کی ابدی سعادتوں کا حقدار ہو گا

رہا سوال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے رویہ کا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قاصد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس خوشخبری کی اشاعت سے کیوں روک دیا اور یہ کہ ان کا رویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل میں رکاوٹ ڈالنے اور ذات رسالت پناہ کی عظمت و حرمت کے منافی طرز عمل اختیار کرنے کے مترادف تھا یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس خوشخبری کا تعلق دین و شریعت کے کسی حکم و مسئلہ کے نفاذ و اشاعت سے تھا یا کسی خاص جذبہ و احساس کے ظہار سے۔ ظاہر ہے وہ کسی مسئلہ کی مشروعیت کی بات نہیں تھی کسی حلال یا حرام کا حکم بیان کرنا نہیں تھا، کسی فرض یا واجب کو نافذ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ تو محض رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نہایت شفقت و محبت کا ایک جذبہ تھا جو اہل ایمان کے تئیں بے اختیار امنڈ آیا تھا اور اس (خوشخبری) کی صورت میں ایک ایک صاحب ایمان تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔ چنانچہ یہ خوشخبری جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تک پہنچی اور انہوں نے فوری طور پر محسوس کیا کہ گو یہ خوشخبری اپنی جگہ ایک اہم حقیقت ہے لیکن مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت تقاضا یہ ہے کہ اس ابتدائی مرحلہ میں اس کو عام مسلمانوں تک نہ پہنچے دیا جائے اور بارگاہ رسالت حاضر ہو کر اس مصلحت و حکمت کا اظہار کر دیا جائے جس پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نہایت محبت و شفقت کا شدید جذبہ غالب آگیا ہے ، لہٰذا انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا اور پھر فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، صورت حال کی تحقیق کے بعد جب یہ اطیمنان ہو گیا کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے مامور تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی تو انہوں نے اپنے محسن اور رسول کے مشن کی کامیابی اور مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک مخلص اور بیدار مغز خادم کی حیثیت سے اپنا مشورہ بارگاہ رسالت میں پیش کر دیا۔ پھر یہ ہوا کہ جوں ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے مشورے میں اس مصلحت کی طرف توجہ دلائی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذہن بھی ادھر منتقل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی فرماہی چکے تھے کہ اگر اس طرح کی خوشخبری عام مسلمانوں تک پہنچ گئی تو وہ اسی پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کرنا چھوڑ دیں گے (دیکھئے اسی باب کی حدیث ٢١) لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک صائب الرائے مشیر اور مخلص خادم کے مشورے کی قدر دانی فرمائی اور اس خوشخبری کی اشاعت کا حکم واپس لے لیا

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر اس خوشخبری کی جگہ کسی شرعی حکم کی اشاعت کا معاملہ ہوتا یا کسی فرض و واجب چیز کے نفاذ کی بات ہوتی تو خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی نہ جرات ہوتی۔ اور نہ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو واپس کر کے اس اشاعت کو روک دیتے بلکہ ایک سچے و مخلص مومن اور فرمانبردار خادم کی حیثیت سے سب سے پہلے اس کو قبول کرتے اور اس فرمان رسالت کی اشاعت میں خود لگ جاتے اور بفرض محال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر ایسے معاملہ میں بھی وہی رویہ اختیار کرتے تو پھر بارگاہ رسالت میں نہ ان کے اس رویہ سے چشم پوشی ہوتی، اور نہ ان کے کسی مشورے اور رائے کو اہمیت اور قبولیت کا درجہ ملتا۔ کیونکہ دینی احکام اور شرعی ہدایات میں نہ کسی مشورے اور رائے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ کسی کی رائے اور مشورہ کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ پس یہ بات کہ بارگاہ رسالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو اہمیت دی گئی اور ان کا مشورہ قبول ہوا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے مذکورہ رویہ سے نہ ان کی شان صحابیت پر کوئی فرق پڑا اور نہ رسول اللہ کی حکم عدولی ہوئی لہٰذا اس حدیث سے اگر کوئی آدمی اس طرح کی بات ثابت کرتا ہے تو اس کی اپنی نادانی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس حدیث سے اگر ایک طرف اللہ کی بے پایاں رحمت اور امت کے تئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی محبت و شفقت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اصابت رائے ، فہم و فراست، بصیرت و دانائی اور امر حق میں ان کی صاف گوئی اور اظہار خیال کی جرات پر بھی روشنی پڑتی ہے جو ان کا خصوصی وصف کمال ہے۔

جنت کی کنجی

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا (سچے دل اور پختہ اعتقاد کے ساتھ) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جنت کی کنجیاں (حاصل کرنا) ہے۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

جنت کی کنجی

٭٭ اور حضرت وہب بن منبہ (وہب بن منبہ تابعی ہیں کنیت ابو عبداللہ ہے۔ ١١٤ھ میں آپ کی وفات ہوئی) سے مروی ہے کہ کسی نے ان سے سوال کیا، کیا لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے؟ وہب نے کہا بے شک، لیکن کنجی میں دندانے بھی ضروری ہیں پس اگر تم ایسی کنجی لے کر آئے جس میں دندانے موجود ہیں تو (یقیناً) اس سے جنت کے دروازے کھل جائیں گے ورنہ تمہارے جنت کے دروازے نہیں کھلیں گے۔ (بخاری ترجمۃ الباب)

 

تشریح

 

 حضرت وہب بن منبہ اپنی مجلس و عظ و نصیحت میں لوگوں کو عمل کی اہمیت بتا رہے تھے اور اس کے ترک پر تنبیہ کر رہے تھے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد مبارک (حدیث ٣٥) کا سہارا لے کر کہا کہ آپ تو عمل کے بارے میں اس شد و مد کے ساتھ متنبہ فرما رہے ہیں حالانکہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے یعنی جس نے صدق دل سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لیا وہ جنت کا حقدار ہو گیا خواہ اس کی علمی زندگی دوسری نیکیوں اور صالح اعمال سے بھر پور ہو یا نہ ہو۔

اس پر وہب بن منبہ نے ارشاد فرمایا کہ بلا شبہ لا الہ الا اللہ جنت کی کنجی ہے ، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کنجی اس وقت کام کرتی ہے جب کہ اس میں دندانے بھی ہوں۔ اگر کسی کنجی میں دندانے نہیں ہیں تو ظاہر ہے اس سے قفل نہیں کھل سکتا، اسی طرح لاالہ الا اللہ اگر جنت کی کنجی ہے تو اس کنجی کے دندانے شریعت کے احکام و فرائض ہیں۔ پس جو آدمی شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہیں کرے گا تو گویا وہ آخرت میں ایسی کنجی لے کر آئے گا جس میں دندانے نہیں ہوں گے اور جب اس کی کنجی میں دندانے نہیں ہوں گے تو وہ جنت کا دروازہ کھول نہیں پائے گا۔ جنت کا دروازہ اسی صورت میں کھلے گا جب کلمہ توحید کی صداقت کا ایمان موجود ہو، زبان سے اس ایمان کا اقرار ہو اور عملی زندگی اس ایمان کی مظہر ہو بایں طور کہ دین و شریعت کی اتباع اور فرمانبرداری ایک ایک عمل سے ظاہر ہو۔

 یا پھر دندانوں سے مراد نیک اعمال ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جب تک اعمال نیک نہ ہوں گے ، جنت کے دروازے ابتدا میں نہیں کھل سکتے ، ہاں بعد میں جب بد اعمالیوں کی سزا مل جائے گی اور گناہ و معصیت کے دھبے دھل جائیں گے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔

کلمۂ توحید نجات کا ذریعہ

اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی تو صحابہ کی ایک جماعت پر رنج و حزن کا اتنا غلبہ تھا کہ ان میں بعض لوگوں کے بارہ میں تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں شک و شبہ میں گرفتار نہ ہو جائیں (یعنی اس واہمہ کا شکار ہو جائیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے رخصت ہو گئے تو دین و شریعت کا قصہ بھی تمام ہو گیا) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ چنانچہ (اس عظیم حادثہ سے سخت پریشان خیال اور غم و اندوہ کا بت بنا) میں بیٹھا تھا کہ (اسی حالت میں) حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے اور مجھ کو سلام کیا، (حواس باختہ ہونے کی وجہ سے) مجھے پتہ نہیں چلا (کہ وہ کب میرے پاس سے گزرے اور کب سلام کیا) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس بات کی شکایت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ میرے پاس آئے اور دونوں نے مجھے سلام کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا ، تم نے اپنے بھائی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے کہا! ایسا نہیں ہوا۔ (یعنی مجھے اس کا علم نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آ کر مجھے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہ دیا ہو) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا! بخدا مجھے قطعاً اس کا احساس نہیں کہ آپ میرے پاس آئے تھے اور نہ ہی آپ نے سلام کیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سچ فرماتے ہیں، (لیکن معلوم ہوتا ہے کہ) کسی خاص وجہ نے تمہیں اس سے باز رکھا (کہ نہ تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آنے کی تمہیں خبر ہوئی اور نہ تم ان کے سلام کا جواب دے سکے) میں نے کہا! ہاں ہو سکتا ہے ، انہوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ میں نے کہا (سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہی کیا کم صبر آزما تھی کہ اب یہ غم بھی کھائے لیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے لیکن ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت نہ کر سکے کہ اس معاملہ یعنی عبادت میں وسوسوں کا پیدا ہونا، شیطان کا بہکانا، یا دوزخ کی آگ) سے نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا !(تم غم نہ کھاؤ) میں اس بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے پوچھ چکا ہوں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) میں (بے اختیار) کھڑا ہو گیا اور بولا: آپ پر میرے ماں باپ قربان، واقعی آپ ہی (آنحضور سے کمال رکھنے اور حصول علم کے غلبہ شوق کی وجہ سے) اس بارہ میں سوال کرنے کے لیے لائق تر تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا! میں نے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس معاملہ میں نجات کی کیا صورت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ جس آدمی نے (خلوص دل کے ساتھ) ہم سے وہ کلمہ توحید قبول کر لیا جسے میں نے چچا ابو طالب کے سامنے پیش کیا تھا اور انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا تھا تو وہ کلمہ اس آدمی کی نجات کا ضامن ہو گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 گویا کلمہ توحید کے یہ فضائل و برکات ہیں کہ جس آدمی نے اس کلمہ کو صدق دل سے اور پختہ اعتقاد کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کر کے دین کے فرائض پر عمل کیا تو وہ کلمہ آخرت میں اس کی نجات کا ضامن ہو گا اور کلمہ گو اس کی برکتوں سے وہاں کی سعادتوں سے نوازا جائے گا اور اگر اس کلمہ کا ورد رکھا جائے اور اس کو اکثر پڑھا جاتا رہے اور اس کا ذکر پابندی سے رہے تو دنیا میں بھی اس کی برکت اس طرح ظاہر ہو گی کہ اس کلمہ کی بدولت فکر و خیال اور عمل پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو پائے گا کہ نہ واہمے اور وسوسے پیدا ہوں گے ، نہ نماز و عبادت کے دوران خیالات بھٹکتے پھریں گے اور نہ دل و دماغ شکوک و شبہات کی آماجگاہ بنیں گے بلکہ اس مبارک ورد و ذکر سے ذات الہٰی کی معرفت حاصل ہو گی، آخرت سے لگاؤ ہو گا اور رسول برحق صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت و تعلق کی خاص کیفیت پیدا ہو گی۔

پوری دنیا میں کلمہ توحید پہنچے کی پیشگوئی

اور حضرت مقداد (آپ مقداد بن سود کندی کے نام مشہور ہیں اور قدیم الاسلام ہیں، مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام جرف میں بعمر٧٠ سال انتقال ہوا نعش مبارک وہاں سے مدینہ منورہ لائی گئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے) سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ! زمین کے اوپر کوئی گھر، خواہ وہ مٹی کا ہو یا خیمہ کا، ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تعالیٰ اسلام کے کلمہ کو معزز کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی رسوائی کے ساتھ داخل نہ کرے (چنانچہ جو لوگ اس کلمہ کو بخوشی اور صدق دل سے قبول کر لیں گے) ان کو اللہ تعالیٰ معزز مفتخر بنائے گا اور اس کلمہ کا اہل قرار دے گا اور (جو لوگ بخوشی قبول نہیں کریں گے) ان کو اللہ تعالیٰ ذلیل کرے گا اور وہ لوگ اس کلمہ کے مطیع و فرمانبردار ہونے پر مجبور ہوں گے (بایں طور کہ وہ جزیہ ادا کر کے ہی اسلامی ریاست میں رہ سکیں گے) میں نے (یہ سن کر) کہا: پھر تو چاروں طرف اللہ ہی کا دین ہو گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

 زمین سے مراد جزیرۃ العرب ہے ، اسی طرح مٹی اور خیمہ کے گھر سے مراد جزیرۃ العرب کے شہر اور گاؤں ہیں یعنی پورے عرب میں صرف ایک دین  اسلام  کا بول بالا ہو گا اور صرف اسی کے پیرو متبعین سر زمین عرب پر ہوں گے کوئی مکان خواہ اس شہر کا ہو یا دیہات کا ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تعالیٰ اسلام کا کلمہ نہ پہنچا دے گا اگر کوئی بخوشی اور برغبت ایمان لے آئے گا اور اسلام قبول کر لے گا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کا مرتبہ بلند ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں جگہ اس کو عزت و سرفرازی سے نوازیں گے ، لیکن جو لوگ غرور و سرکشی اختیار کریں گے یعنی اس کلمہ کو قبول کر کے دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوں گے اور رضا و رغبت کے ساتھ دین کے تابعدار نہیں ہوں گے وہ ذلت کا طوق خود اپنے گلے میں ڈالیں گے بایں طور پر کہ جب تمام جزیرۃ العرب پر دین اسلام کی عملداری ہو جائے گی تو وہ کافر و سرکش لوگ جزیہ کی ادائیگی کی صورت میں اسلامی نظام حکومت کا تابعدار بننے پر مجبور ہوں گے اور اس طرح نہ صرف اس دنیا میں اللہ تعالیٰ ان کو بے وقعت اور کم تر بنا دے گا بلکہ آخرت میں بھی ان کو اپنی رحمت سے دور رکھے گا اور سخت عذاب میں مبتلا کر کے ذلیل و رسوا کرے گا۔

نیکی کا اجر

اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص (صدق دل اور اخلاص نیت کی بنا پر) اپنے ایمان کو اچھا بنا لیتا ہے تو وہ بھی جو نیک عمل کرتا ہے اس پر اس کے اعمالنامہ میں اس جیسی دس سے لے کر سات سو تک نیکیوں کا زائد اجر لکھا جاتا ہے اور وہ جو برا عمل کرتا ہے اس پر اس کے نامہ اعمال میں اس ایک ہی عمل کا گناہ لکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

اس امت کو اللہ نے اس فضل و کرم اور خصوصی احسان کے تحت جن خاص انعامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک بہت بڑا انعام یہ بھی دیا ہے کہ جب کوئی آدمی مخلص اور صادق مومن نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بے حساب اس کا اجر صرف اسی ایک عمل کے برابر دینے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس جیسے دس عمل کا ثواب اس کو دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں ایمان میں صدق و استقامت اور عمل میں خلوص و نیک نیتی بڑھتی جاتی ہے اسی قدر اجر و انعامات بھی بڑھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک ہی نیک عمل پر سات سو تک بلکہ اس سے بھی زیادہ اجر عنایت فرمائے جاتے ہیں، بلکہ بعض حالات میں تو یہ اضافہ سینکڑوں اور ہزاروں کی حد سے بھی تجاوز ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اگر حرم پاک میں کوئی نیک عمل کیا جائے تو اس مقدس جگہ کی عظمت و فضیلت کے طفیل میں اس پر ایک لاکھ اجر لکھے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف اگر مومن سے بتقاضائے بشریت کوئی برائی سرزد ہو جاتی ہے تو اس کا گناہ اضافہ کے ساتھ نہیں لکھا جاتا بلکہ جیسی برائی سرزد ہوتی ہے ویسا ہی یا اتنا ہی گناہ لکھا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے اس احسان کرم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

ایمان کی عظمت

حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ) ایمان کی سلامتی کی علامت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! جب تمہاری نیکی تمہیں بھلی لگے۔ اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو (سمجھو کہ) تم (پکے) مومن ہو، پھر اس آدمی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! گناہ (کی علامت) کیا ہے؟ آنحضور صلی اللہ عنہ نے فرمایا! جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹک اور تردد پیدا کرے (تو سمجھو کہ وہ گناہ ہے) لہٰذا اس کو چھوڑ دو۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

سوال کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایسی واضح علامت بتا دی جائے جس کے ذریعہ ایمان کی سلامتی و استقامت کا اندازہ کیا جا سکے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تم اپنے اندر یہ کیفیت پاؤ کہ جب کوئی اچھا کام کرتے ہر تو تمہارا قلب و دماغ اس کام کی بھلائی کو خود محسوس کرتا ہے اور ایک خاص قسم کی طمانیت اور آسودگی پاتا ہے۔ احساس و شعور کی دنیا اللہ کی طرف سے نیکی کی توفیق اور مدد پانے پر فرحاں و شاداں اور رب کریم کی خوشنودی و قربت کی طلب گاری و امیدواری سے معمور ہو جاتی ہے۔ یا یہ کہ جب بتقاضائے بشریت تم سے کوئی ایسا فعل صادر ہو جاتا ہے جو واضح طور پر گناہ و معصیت کا کام سمجھا جاتا ہے تو فوراً تمہارا دل اللہ کے خوف سے بھر جاتا ہے اور پروردگار کی ناراضگی کا احساس کر کے شرمسار و نادم ہو جانا تو سمجھ لو کہ ایمان تمہارے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے اور تم پکے مومن ہو گئے۔ کیونکہ نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنا اور ثواب اور گناہ کا احساس و شعور پیدا کرنا صرف ایمان کے خلاصہ ہے۔ اخروی جزا اور سزا اعتقاد جو قلب مومن میں ہوتا ہے ، وہ غیر مومن کے قلب میں نہیں ہوتا۔

دوسرے سوال کا مطلب دراصل یہ تھا کہ مومن کو اپنی روز مرہ زندگی میں بعض ایسی چیزوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے جن کے بارہ میں واضح طور پر علم نہیں ہوتا کہ آیا یہ چیز شرعی نقطہ نظر سے برائی کے حکم میں ہے اور اس سے کوئی گناہ لازم آتا ہے یا اس کو اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے تو ایسے مشتبہ عمل کی برائی یا بھلائی کو پہچاننے کی علامت کیا ہے؟ اس کے جواب میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ سچے اور پاکباز مومن کا قلب دراصل فطرت کی ایسی پاکیزہ لوح ہے جس پر صرف اسلامی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکی و بھلائی ہی کے نقوش ابھر سکتے ہیں، اگر گناہ و معصیت کا ہلکا سا دھبہ بھی وہاں پہنچتا ہے تو اس کو کوئی جگہ نہیں ملتی اور وہ کھٹک و ترد کی صورت میں منڈلاتا پھرتا ہے پس کسی بھی عمل اور چیز کے بارے میں اگر یہ کیفیت ظاہر ہو کہ فطرت سلیم اس کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی، قلب اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے اور دماغ میں خلش و تردد پیدا ہو گیا ہے تو جانو کہ وہ عمل برائی کا حامل ہے اور گناہ و معصیت کو لازم کرنے والا ہے ، اور نجات و فلاح اسی میں ہے کہ اس چیز کو فوراً چھوڑ دیا جائے یہی وجہ ہے کہ ارباب باطن اور اولیاء اللہ قلب و دماغ کی صفائی اور پاکیزگی کی بناء پر کسی عمل کی پوشیدہ ترین برائی کو بھی پہچان لیتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے جو گناہ معصیت کا ہلکا سا شائبہ بھی رکھتا ہو۔ ان کے ہاں  مشتبہ عمل سے بھی اس درجہ کا اجتناب برتا جاتا ہے ، جتنا اجتناب وہ کھلے ہوئے برے اعمال سے کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا دل و دماغ برائی کے شائبہ کو بھی بھانپ لیتا ہے اور ان کا اطمینان قلب اور عمل کا سرور صرف اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب ان کا کوئی قد راہِ مستقیم سے ہٹا ہوا نہیں ہوتا اور ان کا کوئی کام دین و شریعت کی روح کے منافی نہیں ہوتا۔

ایمان و اسلام کی باتیں

حضرت عمرو بن عبسہ (آپ کا نام عمرو ہے عنبسہ کے بیٹے ہیں اور ابونجیح آپ کی کنیت ہے۔ اور حضرت علی کے دور خلاف میں انتقال فرمایا۔) راوی ہیں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! دعوت اسلام کے آغاز میں ، اس دین (اسلام) پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کون تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک آزاد (ابوبکر) اور ایک غلام (بلال) میں نے عرض کیا اسلام کی علامت کیا ہے؟ فرمایا پاکیزہ کلامی اور (مساکین کو) کھانا کھلانا، میں نے عرض کیا ایمان کی باتیں کیا ہیں؟ فرمایا!  صبر اور سخاوت (یعنی بری باتوں سے باز رہنا اور طاعت فرمانبرداری پر مستعد ہونا) میں نے کہا کون سا مسلمان بہتر ہے؟ فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ (کی ایذاء) سے مسلمان محفوظ رہیں، میں نے کہا: ایمان میں بہتر کیا چیز ہے؟ فرمایا  یہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جس سے تمہارا پروردگار ناخوش ہوتا ہے میں نے کہا جہاد میں افضل کون ہے ! فرمایا وہ آدمی افضل ہے جس کا گھوڑا مارا جائے اور خود بھی شہید ہو جائے۔ میں نے کہا: سب سے افضل کون سا وقت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نصف شب کا آخری حصہ۔  (مسند احمد بن حنبل)

ایمان اور اسلام پر مرنے والا جنتی ہے

اور حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ! جس آدمی نے اللہ کی طرف اس حال میں کوچ کیا کہ اس نے کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرا رکھا تھا۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا تھا اور رمضان کے روزے رکھتا تھا تو وہ بخش دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو خوش خبری سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! ان کو اپنے حال پر چھوڑ دو اور عمل میں لگا رہنے دو۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اس بخشش کا تعلق گناہ صغیرہ سے ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے اس کی بھی امید ہے کہ اگر وہ چا ہے گا تو کبیرہ گناہ بھی بخش دے گا۔ ویسے گناہ کبیرہ کی سزا بھگتنے کے بعد ہی بخشش اور جنت کا استحقاق ملے گا۔ اسی لیے جب حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ نے اس خوشخبری کو عام کرنے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ اسی خوشخبری پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں یا بد اعمال میں مبتلا ہو جائیں اور گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگیں اور پھر عذاب کے مستوجب بن جائیں۔

اس حدیث میں حج اور زکوٰۃ کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ ان فرائض کا تعلق خاص طور پر صاحب استطاعت اور مالدار لوگوں سے ہے چونکہ عمومی طور پر ہر آدمی زکوٰۃ و حج کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے صرف ان فرائض کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق بلا تخصیص امیر و غریب ہر آدمی سے ہے جیسے نماز روزہ کہ اس میں امیر و غریب کسی کی تخصیص نہیں ہے یہ سب پر فرض ہیں۔

 

ایمان اور اسلام پر مرنے والا جنتی ہے

٭٭اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ ایمان کی اعلیٰ باتیں کیا ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (کسی سے) تمہاری محبت بھی اللہ کے لیے ہو اور بغض و عداوت بھی اللہ ہی کے لیے ہو اور تم اپنی زبان کو (خلوص دل سے) اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! اس کے علاوہ اور کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ اور جس چیز کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو اس کو دوسروں کیلئے بھی ناپسند کرو۔  (مسند احمد بن حنبل)

گناہ کبیرہ اور نفاق کی علامتوں کا بیان

گناہ کبیرہ کے معنی ہیں۔ بڑے گناہ! چنانچہ اصطلاح شریعت میں  گناہ کبیرہ اس بڑے فعل کو فرماتے ہیں جس کا ارتکاب کرنے والا حد یعنی شریعت کی متعین کردہ سزا کا موجب ہوتا ہے ، یا جس کے ارتکاب پر قرآن و حدیث میں سخت و عید و تنبیہ مذکورہ ہو، یا جس کے ارتکاب کو شریعت نے بطور مبالغہ ارتکاب کفر سے تعبیر کیا ہو (جیسے قصداً نماز ترک کرنے پر حدیث میں یہ وعید آئی ہے (حدیث من ترک الصلوٰۃ متعمد افقد کفر) یعنی جس آدمی نے نماز قصداً ترک کر دی وہ کافر ہو گیا) یا جس کا فساد و نقصان گناہ کبیرہ کے فساد و نقصان کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، یا جس کی ممانعت دلیل قطعی کے ساتھ ثابت ہو اور جس کا اختیار کرنا حرمت دین کی ہتک کا موجب ہو پس جس فعل اور بات میں ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے گی اس کو گناہ کبیرۃ یعنی بڑا گناہ کہیں گے اور جس فعل یا بات میں ان میں سے کوئی چیز نہیں پائی جائے گی اور وہ اسلامی تعلیمات اور دینی تقاضا کے خلاف ہو گی اس کو گناہ صغیرہ یعنی چھوٹا گناہ کہا جائے گا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بعض اعتبار سے اگرچہ گناہ کبیرہ کے مختلف درجات ہیں کہ بعض کبیرہ گناہ تو بہت ہی برے اور نہایت ہی قابل نفرت ہیں اور بعض گناہ نسبۃ کچھ ہلکے درجہ کے ہیں لیکن شریعت کی نظر میں قابل مواخذہ و گرفت اور موجب عذاب ہونے کے اعتبار سے سب یکساں نوعیت رکھتے ہیں۔ احادیث میں ایک جگہ تمام کبیرہ گناہوں کا تعین اور تفصیل کے ساتھ ذکر موجود نہیں ہے ، بلکہ موقع محل کی مناسبت یا کسی سائل کو جواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بیان کردہ کبیرہ گناہوں کی جو فہرست مرتب کی ہے وہ مختصرا یوں ہے۔

(١) اللہ تعالیٰ کا شریک بنانا یعنی کسی کو اس کی عبادت یا اس کی صفات میں شریک کرنا مثلاً استعانت (مدد چاہنے) میں ، علم میں، قدرت میں، تصرف میں، تخلیق میں، پکارنے میں، نام رکھنے میں، ذبح کرنے میں، نذر ماننے میں اور لوگوں سے امور سونپنے میں کسی کو بھی وہ درجہ اور حیثیت دینا جو صرف اللہ تعالیٰ کی سزاوار ہے۔ (٢) گناہ پر اصرار و دوام کی نیت رکھنا۔ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) زنا کرنا۔ (٥) لواطت کرنا۔ (٦) چوری کرنا۔ (٧) جادو سیکھنا اور جادو کرنا (٨) شراب پینا اور نشہ آور اشیاء کا استعمال کرنا۔ (٩) محارم یعنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، نانی اور خالہ وغیرہ سے نکاح کرنا۔ (١٠) جوا سیکھنا اور جوا کھیلنا (١١) دار الحرب سے ہجرت نہ کرنا۔ (١٢) دشمناں دین سے ناروا دوستی اور تعلق رکھنا۔ (١٣) طاقت و قوت اور غالب حیثیت رکھنے کے باوجود دشمنان دین سے جہاد نہ کرنا۔ (١٤) سود کھانا۔ (١٥) خنزیر اور مردار کے گوشت کا استعمال کرنا۔ (١٦) نجومی اور کاہن کی تصدیق کرنا۔ (١٨) ناحق کسی کا مال ہڑپ کر لینا۔ (١٨) پاکباز مرد یا پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت دھرنا۔ (١٩) جھوٹی گواہی دینا۔ (٢٠) کسی عذر شرعی کے بغیر قصداً رمضان کا روزہ نہ رکھنا یا روزہ توڑنا۔ (٢١) جھوٹی قسم کھانا۔ (٢٢) قطع تعلق کرنا۔ (٢٣) ماں باپ کو ستانا اور ان کی نافرمانی کرنا۔ (٢٤) جنگ کے موقع پر دشمناں دین کے مقابلہ سے فرار اختیار کرنا۔ (٢٥) یتیموں کا مال ناحق کھانا۔ (٢٦) ناپ تول میں خیانت کرنا۔ (٢٧) نماز کو وقت پر نہ پڑھنا۔ (٢٨) مسلمانوں سے ناحق لڑنا جھگڑنا۔ (٢٩) ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹا الزام لگانا۔ (٣٠) رسول، کتاب اللہ اور فرشتوں کا انکار کرنا یا ان کا مذاق اڑانا۔ (٣١) احکام دین اور مسائل شریعت کا انکار کرنا۔ (٣٢) فرائض پر عمل نہ کرنا یعنی نماز نہ پڑھنا، زکوٰۃ ادا نہ کرنا، رمضان کے روزے نہ رکھنا اور استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا۔ (صحابہ یا کسی صحابی کو برا کہنا۔ (٣٤) بالعذر کتمان شہادت کرنا۔ (٣٥) رشوت لینا۔ (٣٦) میاں بیوی کے درمیان نفاق ڈلوانا۔ (٣٧) حاکم کے سامنے کسی کی چغل خوری کرنا۔ (٣٨) غیبت کرنا۔ (٣٩) اسراف میں مبتلا ہونا۔ (٤٠) رہزنی کا ارتکاب کرنا۔ (٤١) دین کے نام پر یا کسی دنیوی غرض کے تحت روئے زمین پر فتنہ و فساد پھیلانا۔ (٤٢) گناہ صغیرہ پر اصرار و دوام اختیار کرنا۔ (٤٣) کسی کو گناہ کی طرف راغب کرنا یا گناہ کے ارتکاب میں مدد دینا۔ (٤٤) ہارمونیم، طبلہ، اور دوسرے ممنوع باجوں کے ساتھ گانا۔ (٤٥) نہاتے وقت دوسروں کے سامنے ستر کھولنا۔ (٤٦) مالی مطالبات و واجبات کی ادائیگی میں بخل کرنا۔ (٤٧) خود کشی کرنا۔ (٤٨) اپنے اعضاء بدن میں سے کسی عضو کو ضائع کرنا اور تلف کر دینا۔ (٤٩) منیٰ اور پیشاب کی گندگی سے صفائی اور پاکی حاصل نہ کرنا۔ (٥٠) تقدیر کو جھٹلانا۔ (٥١) اپنے سردار اور حاکم سے عہد شکنی کرنا۔ (٥٢) کسی کی ذات اور نسب میں طعنہ زنی کرنا۔ (٥٣) غرور اور تکبر کے تحت پائنچے لٹکانا۔ (٥٤) لوگوں کو گمراہی کی طرف بلانا۔ (٥٥) میت پر نوحہ کرنا۔ (٥٦) برے طریقے اور بیہودہ رسمیں رائج کرنا۔ (٥٧) دھار دار آلہ سے کسی مسلمان کیطرف اشارہ کرنا۔ (٥٨) کسی کو خصی کر دینا۔ (٥٩) اپنے بدن کے کسی حصہ کو کاٹنا۔ مثلاً داڑھی منڈانا یا ناک وغیرہ تھوڑی سی کاٹ ڈالنا۔ (٦٠) اپنے محسن سے احسان فراموشی کرنا۔ (٦١) حدود حرم میں ان کاموں کو کرنا جن کی ممانعت ہے۔ (٦٢) حدود حرم میں جاسوسی کرنا۔ (٦٣) نرد کھیلنا یا ایسا کوئی بھی کھیل کھیلنا جو بالاتفاق حرام ہو۔ (٦٤) کسی مسلمان کو کافر کہنا یا اس کو کسی ایسے الفاظ سے مخاطب کرنا جو صرف کافر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (٦٥) اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری میں عدل نہ کرنا۔ (٦٦) جلق کرنا (مشت زنی کرنا)۔ (٦٧) غلہ وغیرہ کی گرانی سے خوش ہونا۔ (٦٨) جانوروں کے ساتھ بد فعلی کرنا۔ (٦٩) عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔ (٧٠) دنیا کی محبت میں مبتلا ہونا۔ (٧١) امرد پر بری نظر رکھنا۔ (٧٢) دوسروں کے گھر میں جھانکنا۔ (٧٣) صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر اس کے گھر کے اندر داخل ہونا۔ (٧٤) دیوثی اور قرم ساقی کرنا۔ (٧٥) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی اچھے کاموں کی تبلیغ و تلقین اور برے کاموں سے روکنے) کا فریضہ باوجود قدرت کے انجام نہ دینا۔ (٧٦) پڑھنے کے بعد قرآن مجید کو بھلا دینا۔ (٧٧) جانوروں کو آگ میں جلانا (٧٨) عورت کا بغیر عذر شرعی اپنے شوہر کی نافرمانی کرنا۔ (٧٩) مرد کا عورت پر ظلم کرنا۔ (٨٠) اللہ کی رحمت و مغفرت سے نا امید ہونا۔ (٨١) اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونا۔ (٨٢) علماء اور حفاظ کی توہین و تحقیر کرنا۔ (٨٣) بیوی سے ظہار کرنا، بعض علماء نے کبائر کی فہرست میں کچھ اور گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے لیکن یہاں اختصار کی پیش نظر اسی فہرست پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

سب سے بڑے گناہ

حضرت عبداللہ مسعود (اسم گرامی عبداللہ بن مسعود اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے ، آپ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جنت کی خوشخبری دی ہے آپ نے ٢٣ھ بعمر کچھ اوپر ساٹھ سال بمقام مدینہ میں انتقال فرمایا۔) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! یہ کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ تم کسی کو اس کا شریک ٹھہراؤ پھر اس آدمی نے پوچھا! اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خیال سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔ پھر اس نے پوچھا، اس کے بعد سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! یہ کہ تم اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرو (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے اسی ارشاد کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے) وہی بندگان خاص ہیں جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود نہیں ٹھہراتے ، اور جس جاندار کو قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں (جو کوئی ایسا کرے گا وہ گناہ کے وبال میں پڑے گا)۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں چند ایسی باتوں کی نشاندہی کی گئی جو اخلاق و انسانیت کے اعتبار سے بھی نہایت پستی اور گراوٹ کی علامت ہیں اور شریعت نے بھی ان کو سب سے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے اور جن کا ارتکاب کرنے والا اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب کا مستوجب قرار پاتا ہے۔ سب سے بڑا گناہ جس بات کو بتایا گیا ہے وہ کسی کو اپنے خالق اور پروردگار کا شریک ٹھہرانا ہے اور ان تدعو اللہ ندا کی تشریح میں علماء نے لکھا ہے کہ شریک ٹھہرانے کا مطلب ذات و صفات اور عبادت میں کسی کا اللہ کا ہمسر و ہم تاب بنانا ہے مثلاً عبادت و بندگی اور اظہار عبدیت کے جو طریقے اور جو افعال صرف ذات باری تعالیٰ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں۔ وہ طریقے اور افعال اللہ کے سوا کسی اور کے لیے بھی اختیار کرنا یا جس طرح اللہ کو  یا اللہ  کہہ کر یاد کیا جاتا ہے ، اسی طرح کسی غیر اللہ کو پکارنا اور یاد کرنا، اور یا جس طرح اللہ تعالیٰ حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے اسی طرح کسی اور کو بھی حاجت روا مان کر یوں فریاد رسی کرنا کہ اے فلاں میری یہ حاجت پوری کر، میری مدد کر دو وغیرہ وغیرہ۔

دوسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنی اولاد کو اس خوف سے موت کے گھاٹ اتار دے کہ وہ میرے سر کا بوجھ بنے گی، اس کو کھلانا پلانا پڑے گا، اور اس کی پرورش و تربیت کی معاشی ذمہ داریاں برداشت کرنا پڑیں گی، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ لوگ افلاس کے خوف سے اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

تیسرا بڑا گناہ یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی آدمی اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔ یوں تو مطلقاً زنا ایک گناہ ہے اور اس پر سخت سزا مقرر ہے۔ لیکن پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے جس طرح کہ مطلقاً ناحق قتل کرنا ایک بڑا گناہ ہے ، لیکن اولاد کو قتل کر دینا نہایت ہی بڑا گناہ ہے۔

والدین کی نافرمانی اور جھوٹی قسم کھانا

اور حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نا فرمائی کرنا، ناحق کسی کو مار ڈالنا اور جھوٹی قسم کھانا بڑے گناہ ہیں (صحیح البخاری) اور حضرت انس کی روایت میں  جھوٹی قسم کھانا  کے بجائے جھوٹی گواہی دینا  کی الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

  عقوق کے ایک معنی ایذاء دینے کے بھی آتے ہیں، لہٰذا شریعت نے نہ صرف یہ کہ والدین کی نافرمانی کو بڑا گناہ قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ مسلمان ماں باپ کو نہ کوئی اذیت پہنچائی جائے اور نہ ان کو ناحق ستایا جائے ، ویسے کافر ماں باپ کو بھی اذیت پہنچانے سے روکا گیا ہے ، لیکن ان کو کفر کی لعنت سے نکالنے اور قبول اسلام پر آمادہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ تھوڑے بہت سخت برتاؤ کی اجازت ہے ، بشرطیکہ وہ سخت برتاؤ قطعی طور پر ناگزیر ہو اور اخلاق و انسانیت سے گرا ہوا نہ ہو۔

تفسیر عزیزی میں ارشاد ربانی(آیت وبالو الدین احسانا) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم بطور خاص تین باتوں کو شامل ہے ، اور یہ کہ ان کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے خواہ ہاتھ سے ہو یا زبان وغیرہ سے ، یعنی نہ تو ان کو مار پیٹ کر تکلیف پہنچائے اور نہ ان کے ساتھ بد زبانی و بدکلامی کرے ، دوسرے یہ کہ جہاں تک ممکن ہو سکے جان و مال دونوں طرح سے ان کی خدمت کرے ، اور تیسرے یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور وہ جس وقت اور جس ضرورت سے بلائیں فوراً ان کے پاس حاضر ہو جائے۔ تاہم علماء نے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ والدین کی خدمت کا حکم اس شرط کے ساتھ ہے کہ اگر ماں باپ اولاد کے محتاج ہوں اور اولاد اتنی قوت و استطاعت رکھتی ہو کہ ان کی ہر طرح کی خدمت کر سکے تو ان کی خدمت کرنا اس پر واجب ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ نہ تو والدین اس کے محتاج ہوں اور نہ اولاد اس پر قادر ہے تو اس پر ان کی خدمت واجب نہیں اسی طرح والدین کی حکم برداری کا مسئلہ بھی اس وضاحت کے ساتھ ہے کہ اگر وہ اچھے کام کا حکم دیں یا خلاف شرع چیزوں سے روکیں یا شرع کے خلاف حکم نہ دیں تو ان کی اطاعت کرنا ضروری ہے لیکن اگر وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم دیں مثلاً واجبات کو ترک کرنے کے لیے کہیں یا فرض حج کرنے سے روک دیں اور منع کریں تو ان چیزوں میں ان کی اطاعت نہ کرنی چاہیے اگر سنت موکدہ کو چھوڑنے کے لیے کہیں مثلاً نماز کی جماعت میں شریک ہونے سے روکیں، یا عرفہ کے روزہ کو منع کریں تو اس میں زیادہ صحیح قول یہ ہے اس طرح کا حکم دو ایک مرتبہ مان لینے اور ان کی اطاعت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان چیزوں کی اگر وہ عادت ہی ڈلوا دیں یا ہمیشہ منع کرتے رہیں تو ان کا حکم نہ مانے۔ ہاں اگر وہ کسی نفلی عبادت سے روکیں اور کہیں کہ اس کی بجائے ہماری خدمت میں رہو تو ان کی حکم برداری کرنی چاہئے۔

 یمین غموس اس جھوٹی قسم کو کہتے ہیں جس کا تعلق گذشتہ چیز سے ہو، مثلاً کوئی آدمی کسی فعل کے بارہ میں اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم میں نے فلاں کام نہیں کیا ہے۔ درآنحالیکہ واقع میں اس نے وہ کام کیا ہے تو یہ  یمین غموس کہلائے گی اس کی سخت ممانعت ہے کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینا بھی ایک بہت بڑا گناہ ہے جو اللہ کے سخت عذاب کا مستوجب بناتا ہے۔

ہلاک کر دینے والی باتوں سے بچو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (لوگو) سات ہلاک کر دینے والی باتوں سے بچو، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ سات ہلاک کر نے والی باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا۔ (٢) جادو کرنا۔ (٣) جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا۔ (٤) یتیم کا مال کھانا۔ (٥) جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا۔ (٦) پاکدامن ایمان والی اور بے خبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اسلامی اعتقادات و نظریات اور بد یہی مسلمات کو دل سے ماننا، زبان سے اقرار کرنا اور عائد شدہ فرائض پر عمل کرنا ایمان ہے اور ان پر بدیہی مسلمات میں سے کسی ایک بات کا انکار کر دیا جائے خواہ بقیہ سب کا اقرار موجود ہے تو بھی کفر عائد ہو جاتا ہے پھر علماء کی تصریح ہے کہ کفر صرف قول ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بعض افعال بھی موجب کفر ہو سکتے ہیں، چنانچہ فقہاء ایسے افعال پر بھی کفر کا حکم لگا دیتے ہیں جو قلبی و اعتقادی کفر کے صحیح ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔

یوں تو کفر کی ہر قسم انسانیت کے دامن پر سب سے بد نما داغ ہے لیکن اس کی جو قسم سب سے بدتر ہے وہ شرک ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کی عبادات اور اس کی حدود عظمت میں کسی کو شریک بنا لینا نہ صرف اعتقادی حیثیت سے ایمان و اسلام سے صریح بیزاری کا اظہار ہے ، بلکہ فطرت پر ایک بہت بڑا ظلم اور عقل و دانش سے سب سے بڑی بغاوت بھی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کر کے اس کی فطرت کو کفر و شرک کی ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف رکھا ہے ، اب اگر انسان اپنی فطرت کو شرک کی نجاست سے ملوث کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی فطرت اور اپنے خمیر کی صداقت آمیز آواز کا گلا گھونٹ کر مذہب و انسانیت دونوں حیثیت سے تباہی و بربادی کے غار میں گرتا ہے۔

اس لیے پروردگار عالم کا اٹل فیصلہ ہے کہ اس کی بارگاہ میں ہر کوتاہی و لغزش قابل معافی ہو سکتی ہے۔ مگر شرک کا جرم ہرگز معافی نہیں ہو گا جس کی سخت سزا مشرک کو بھگتنی ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ کی پاک جنت میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔ ارشاد ربانی ہے

اِنَّ اﷲ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ۔ (القرآن الحکیم، النساء ١١٦)

 بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے وہاں اس کے سوا اور جس گناہ کو چا ہے گا بخش دے گا۔

چونکہ شرک انسانی فطرت سے سعادت و نیک بختی کا تخم جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی کی تمام استعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے نیز خود قرآن کی نظر میں شرک اللہ تعالیٰ پر سب سے بڑا افتراء اور سب سے بڑے کر بے دلیل اور خلاف ضمیر بات اور نفس انسان کے لیے ابدی موت ہے اس لیے حدیث میں جن ہلاکت خیز باتوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں شرک کا جرم سر فہرست ہے۔

شرک کی تعریف اور اقسام

اس موقعہ پر مناسب ہے کہ شرک کی تعریف اور اس کی اقسام کی کچھ تفصیل بیان کر دی جائے ، شرح عقائد میں ہے کہ اصطلاح شریعت میں شرک، اسے فرماتے ہیں کہ خدائی اختیارات میں غیراللہ کو شریک ٹھہرائے جیسا کہ مجوسی اہرمن ویزداں کو مانتے ہیں یا اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی پرستش و عبادت کے لائق جانے جیسا کہ بت پرست عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ شرک کفر کی ایک قسم ہے اور اسی لیے شریعت میں شرک کفر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اپنے ترجمہ مشکوٰۃ میں شرح عقائد کی بیان کردہ شرک کی ان دونوں قسموں کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں شرک سے مراد کفر ہے ، خیالی میں بھی اس کی تصریح ہے اور مولانا عصمۃ اللہ سے بھی یہی منقول ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ شریعت کی اصطلاح میں  شرک اسے فرماتے ہیں کہ جو صفات خاص باری تعالیٰ عزاسمہ کے ساتھ مختص ہیں ان کو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے میں بھی ثابت کرے۔ جیسے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو بھی عالم الغیب جانے۔ یا جس طرح دنیا کی ہر شے پر اللہ کو قادر مانتا ہے کسی دوسرے کو بھی قادر جانے ، یا جیسے اللہ تعالیٰ کو اپنے ارادہ کے ساتھ دنیا کی تمام چیزوں پر متصرف جانتا ہے ، ایسے ہی کسی دوسرے کو بھی متصرف جانے۔ مثلاً کسی کے بارہ میں یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں نے نظر کرم کے ساتھ مجھ سے برتاؤ کیا اس لیے مجھ کو مال و زر کی وسعت اور خوشی حاصل ہو گئی یا فلاں نے مجھ کو پھٹکار دیا تھا تو اس کے سبب میں بیمار ہو گیا یا میرا مقدر پھوٹ گیا ، وغیرہ وغیرہ۔

اللہ کی ذات اور صفات اور خدائی اختیارات میں شرک کے علاوہ تفسیر عزیزی میں شرک کی اور جو اقسام ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں ایک تو یہی ہے کہ عبادت میں کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا جائے ، یا کسی کا نام تقرب و فضیلت کے طریقہ پر اللہ کے نام کی طرح لیا جائے اور اس کو اللہ کا ہمسر قرار دیا جائے۔ مثلاً کسی کو اٹھتے بیٹھتے و مصائب و مشکلات میں اس کا نام لے کر اسے یاد کرے ایسے ہی کسی کا نام بجائے عبداللہ یا عبدالرحمن کے بندہ فلاں یا عبد فلاں رکھا جائے اس کو  شرک فی التسمیہ فرماتے ہیں یا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اور اس کی نذر مانی جائے ، یا بلاوجہ شر کے دفعیہ اور حصول منفعت کے لیے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو پکارا جائے اور ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ یا علم و قدرت میں اللہ کے نام کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا جائے جیسے کوئی کہے ماشاء اللہ و شئت یعنی جو اللہ چا ہے اور تم چاہو وہی ہو گا۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی نا واقف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اسی طرح کے الفاظ کہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہت فروختہ ہوئے اور فرمایا کہ تم نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا اور فرمایا کہ اس طرح کہو

مَا شَآءَ اﷲُوَحدَہُ۔

 یعنی جو صرف اللہ چا ہے گا وہی ہو گا۔

بعض کبیرہ گناہوں کو بھی شرک کہا گیا ہے ، جیسے حدیث میں وارد ہے کہ جس آدمی نے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھائی اور اس نے یقیناً شرک کیا، یا کہا جاتا ہے کہ بد شگونی لینا شرک ہے یا منقول کہ ریاکاری شرک ہے ، یا اسی طرح منقول ہے کہ جو عورت اپنے خاوند کی محبت کے لیے ٹوٹکہ کرے شرک ہے گویا یہ گناہ اپنے مہلک اثرات کی بنا پر شرک کی طرح ہیں اس لیے ان سے اجتناب بھی اتنا ہی ضروری ہے ، جتنا شرک سے۔

اسی طرح وہ افعال جو اگرچہ شرک حقیقی یعنی کفر کے دائرے میں تو نہ آتے ہوں لیکن مشرکین اور بت پرستوں کے افعال و اعمال کے مشابہ اور ان کے ہم مثل سمجھے جاتے ہیں تو ان سے بھی شرک ہی کی طرح پرہیز ضروری ہے ، جیسے علماء اور بادشاہ کے آگے جبین سائی کرنا یا ان کے سامنے آ کر زمین کو چو سنایا ان کو سجدہ تعظیم کرنا۔ چونکہ یہ افعال حرام اور گناہ کبیرہ ہیں اس لیے ان کا ارتکاب کرنے والا بھی گناہ گار اور مستوجب عذاب ہو گا، اور جو لوگ اس طرح کے افعال سے خوش ہوں گے اور قدرت کے باوجود ان افعال کے ارتکاب کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے وہ بھی گناہ گار ہوں گے ، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگر علماء یا بادشاہ پیروں کے آگے جبین سائی کرنا اور زمین کو بوسہ دنیا عبادت و تعظیم کی نیت سے ہو گا تو اس کو صریحاً کفر کہا جائے گا اگر عبادت و تعظیم کی نیت سے نہیں بلکہ محض اظہار ادب کے لیے ہو گا تو اس پر کفر کا اطلاق نہیں ہو گا لیکن گناہ کبیرہ ضرور کہلائے گا۔

اس حدیث میں دوسرا ہلاکت خیز فعل سحر بتایا گیا ہے۔ سحر کے بارہ میں علماء فرماتے ہیں کہ جس طرح سحر اور جادو کرنا حرام اور ہلاکت خیز چیز ہے اسی طرح جادو سیکھنا اور سحر کا علم حاصل کرنا بھی حرام ہے ، جو آخرت میں ہلاکت کا موجب بنے گا ، شرح عقائد کے حاشیہ  خیالی میں لکھا ہے کہ سحر کرنا کفر ہے ، اور صحابہ وغیرہ کی ایک جماعت تو اس پر متفق ہے کہ ساحر کو فوراً مار ڈالنا چاہیے۔ جب کہ بعض کی رائے یہ ہے کہ اگر ساحر اس طرح کا ہو جس سے کفر لازم آتا ہو اور ساحر اس سے توبہ نہ کرے تو اس کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیے۔ اسی طرح نجوم، کہانت رمل اور شعبدہ بازی کی تعلیم حاصل کرنا، ان چیزوں کو اختیار کرنا اور ان سے روزی اور پیسہ کمانا اور نجومی و کاہن وغیرہ سے سوالات کرنا اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر اعتقاد رکھنا بھی حرام ہے۔

حدیث میں دشمن کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے مذموم فعل کو بھی ہلاکت کا موجب بتایا گیا ہے اس لیے کہ جس آدمی نے اتنی بزدلی اور پست ہمتی دکھائی کہ عین اس موقع پر جب کہ اس کی ایمانی شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہو وہ دراصل اپنی اس مذموم حرکت کے ذریعہ اہل اسلام کی رسوائی کا سبب بنا لہٰذا اس کو آخرت کے عذاب اور ہلاکت کا مستوجب گردانا جائے گا۔ اس سلسلہ میں جہاں تک تفصیلی مسئلہ کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو کافر ہوں تو اس کو ان کے مقابلے سے راہ فرار اختیار کرنا گناہ کبیرہ ہے ہاں اگر مقابلہ پر دشمن دو سے زیادہ کی تعداد میں ہوں تو پھر بھاگنا حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے مگر اس میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ وہ اس صورت میں بھی پیٹھ نہ دکھلائے بلکہ مقابلہ کرے خواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

وہ بد ترین گناہ جن کے ارتکاب کے وقت ایمان باقی نہیں رہتا

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اور چھینا جھپٹی کرتا ہے اور لوگ اس کو (کھلم کھلا) چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں (لیکن خوف و دہشت کے مارے بے بس ہو جاتے ہیں اور چیخ و پکار کے علاوہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے) تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا پس تم (ان گناہوں سے) بچو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور عبداللہ ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ! قتل کرنے والا جب ناحق قتل کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے (یہ حدیث سن کر) پوچھا کہ اس سے ایمان علیحدہ کس طرح کر لیا جاتا ہے ، تو انہوں نے کہا اس طرح (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کیں اور پھر ان انگلیوں کو ایک دوسری سے علیحدہ کر لیا اس کے بعد انہوں نے فرمایا اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو ایمان اس طرح واپس آ جاتا ہے اور یہ (کہہ کر) انہوں نے انگلیوں کو پھر ایک دوسری میں داخل کر لیا۔ نیز ابو عبداللہ (یعنی عبداللہ بن اسماعیل بخاری) نے کہا ہے کہ (اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ) وہ آدمی ارتکاب معصیت کے وقت مومن کامل نہیں رہتا اور اس میں سے ایمان کا نور نکل جاتا ہے (بخاری)

 

تشریح

 

 جیسا کہ پہلے بھی بتایا گیا ، مومن کا قلب ایک ایسے حساس اور پاکیزہ ظرف کی مانند ہے جس میں صرف ایمان کا نور ٹھہر سکتا ہے ، ایمان کے منافی کوئی بھی چیز در انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے تو نہ قلب مومن اس کا روا دار ہوتا ہے اور نہ نور ایمان اس کو برداشت کرتا ہے ، چنانچہ وہ بد ترین اور سنگین گناہ جس کا حدیث بالا میں ذکر ہوا، ایسی منافی ایمان باتیں ہیں جن کا تحمل نور ایمان کسی حالت میں نہیں کر سکتا، ادھر انسان ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب شروع کرتا ہے کہ ادھر نور ایمان اس کے قلب سے رخصت ہو جاتا ہے اور پھر جب تک کہ اس گناہ پر نادم و شرمندہ ہو کر آئندہ کے لیے خلوص دل سے توبہ نہیں کر لیتا ایمان کی وہ نورانی کیفیت جو ارتکاب گناہ سے قبل اس کو حاصل تھی، اس کے قلب میں واپس نہیں آتی، اسی صورت حال کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی انگلیوں کی مثال کے ذریعہ واضح کیا، انہوں نے پہلے اپنے ایک ہاتھ کے پنجہ کو دوسرے ہاتھ کے پنجہ میں داخل کیا اور دکھایا کہ یہ گویا ارتکاب معصیت سے قبل کی حالت ہے کہ نور ایمان مومن کے قلب میں جاگزیں ہے پھر انہوں نے دونوں پنجوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے بتایا کہ جس طرح یہ پنجہ دوسرے پنجہ سے الگ ہو گیا ہے ، اسی طرح ارتکاب معصیت کے وقت نور ایمان مومن کے قلب سے علیحدہ ہو جاتا ہے ، اور پھر انہوں نے دوسرے پنجوں کو ایک دوسرے میں داخل کر دیا اور کہا کہ جس طرح یہ پنجے پھر ایک دوسرے میں داخل ہو گئے ہیں اسی طرح اگر مومن ارتکاب معصیت کے بعد توبہ کر لیتا ہے تو اس کا نور ایمان پہلے کی طرح اپنی جگہ واپس آ جاتا ہے۔

امام ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ ارتکاب معصیت کے وقت ایمان کے باقی نہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مرتکب معصیت کامل مومن نہیں رہ جاتا اس کا ایمان ناقص ہو جاتا ہے (ترجمان السنتہ) اور یہی حاصل عبداللہ بن اسماعیل بخاری کے قول کا ہے جو روایت کے آخری فقرہ سے معلوم ہوا۔

منافق کی علامتیں

اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! منافق کی تین علامتیں ہیں، اس کے بعد مسلم نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا  اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرے اس کے بعد صحیح البخاری و صحیح مسلم دونوں متفق ہیں (وہ تین علامتیں یہ ہیں) جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جب بھی کوئی اصلاحی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگتی ہے اور معاشرہ پر اس کا تسلط پھیلتا جاتا ہے تو اس کے متفقین اور مخالفین کے درمیان ایک تیسرا طبقہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ، یعنی ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس تحریک کے مکمل ہمنوا بن جاتے ہیں اور کامل ذہنی و جسمانی وابستگی کے ساتھ اس کے دائرہ اثر و اطاعت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلہ پر دوسرا طبقہ مخالفین کا ہوتا ہے جو تحریک کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے اور اپنی پوری طاقت اور تمام تر وسائل کے ساتھ علانیہ طور پر تحریک کے داعیوں اور حامیوں کے مد مقابل رہتا ہے ، اور ان دونوں کے درمیان جو تیسرا طبقہ پیدا ہوتا ہے وہ ان رو با صفت لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نہ اس تحریک کے دل سے حامی بنتے ہیں اور نہ کھلم کھلا مخالفت پر خود کو قادر پاتے ہیں اس طرح کے لوگ اپنی ذہنی و قلبی وابستگی اپنے سابقہ عقائد و نظریات ہی کے تئیں رکھتے ہیں لیکن جسمانی طور پر حامیان تحریک کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں، یہی صورت حال اسلام کو بھی پیش آئی پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے بعد جب مدنی زندگی کا آغاز ہوا اور اسی کے ساتھ دعوت اسلام کی تحریک انقلابی رفتار سے آگے بڑھنے لگی اور اہل اسلام کو بھی طاقت و شوکت میسر آنے لگی تو یہ تیسرا طبقہ پیدا ہو گیا۔ پہلے مکہ میں ایک طرف تو وہ خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے کامل صدق و اخلاص کے ساتھ دعوت اسلام کو قبول کیا۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے فدا کار خادم بنے۔ یہ خوش نصیب تعداد میں بھی کم تھے اور مادی وسائل و ذرائع سے محروم بھی تھے ، ان کے مقابلہ پر اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس پر بس نہ کر کے دعوت اسلام کی بھر پور مخالفت پر کمر بستہ تھے ، ان لوگوں کو طاقت و شوکت بھی حاصل تھی اور تمام تر مادی و سائل و ذرائع کی پشت پناہی بھی۔ چنانچہ یہاں ان کو اسلام کی کھلم کھلا دشمنی سے کوئی امر مانع نہیں تھا اور اہل اسلام کی مخالفت سماجی طور پر کسی خطرہ یا نقصان کا باعث بھی نہیں تھی۔ لیکن اب مدینہ آنے کے بعد دعوت اسلام کا ماحول دوسرا ہو گا، تحریک کامیابی سے آگے بڑھتی رہی، متفقین اور ہمنواؤں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ طاقت و شوکت بھی بڑھنے لگی اور سماجی طور پر اہل اسلام کو غلبہ بھی ملنے لگا۔ لہٰذا اب اسلام کے مخالفین اور معاندین کو بھی عداوت کی شکل بدل دینی پڑی۔ انہوں نے یہ مستقل پالیسی بنالی کہ بظاہر تو اسلام کے نام لیوا بن جاؤ اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگو۔ مگر اندرونی طور پر مخالفین اسلام یعنی کافروں کے ہمنوا رہو اور خفیہ معاندانہ کاروائیوں کے ذریعہ دعوت اسلام کی راہ میں کانٹے بچھاتے رہو، چنانچہ یہی سے  نفاق کی بنیاد قائم ہوئی اور اس طرح کے لوگوں کو اسلام میں  منافق کہا گیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح کسی بھی تحریک کے لیے  نفاق سب سے بڑا گھن ثابت ہوتا ہے اسی طرح اسلام کے حق میں یہ طبقہ منافقین سب سے زیادہ نقصان رساں ثابت ہوا، ابتداء میں تو ان منافقین کا مکروہ چہرہ مسلمانوں کے سامنے چھپا رہا، جب ان کی منافقانہ پالیسی اور عیارانہ کاروائیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچانا شروع کیا اور اسلام کے خلاف ان کی خفیہ نقل و حرکت کا علم ہونے لگا تو ان کی شخصیتیں سامنے آنے لگیں اور پھر تو اس طبقہ کی اتنی اہمیت محسوس کی گئی کہ اس کے نام پر مستقل ایک سورت المافقین نازل کی گئی، اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں جا بجا منافقوں سے خبردار کیا گیا اور ان کی ریشہ دوانیوں اور تباہ کاریوں سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا۔

نفاق کی قسمیں

جس طرح ایمان اور کفر کی مختلف قسمیں اور صورتیں ہیں اسی طرح  نفاق کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک تو اعتقادی نفاق ہے اور یہی حقیقی نفاق ہے یعنی بظاہر اللہ کی توحید ، رسالت، فرشتے ، اور حشر و نشر کے اعتقاد رکھنے کا دعوی کرنا مگر اندر ان تمام اعتقادی مسلمات کا پورا پورا انکار و انحراف مضمر ہونا۔ یہی وہ نفاق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں تھا۔ اسی نفاق کو قرآن مجید نے کفر بھی کہا ہے اور اسی نفاق کے بارہ میں یہ وعید آئی ہے کہ دوزخ میں منافقین کا ٹھکانا کافروں سے بھی نیچے ہو گا، پھر یہ ہوا کہ ان منافقین کے جو عادات و خصائل اور طور طریقے تھے ان پر بھی نفاق کا اطلاق کیا جانے لگا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جو انسان کی اخلاقی اور عملی زندگی کو عیب دار بنا دیتی ہیں جو اسلام کی تعلیمات، اعلیٰ انسانی اقدار اور امانت و دیانت کے صریح منافی ہونے کے سبب ایمان و اسلام سے ذرا بھی میل نہیں کھاتیں۔ چنانچہ جب مسلمانوں کی دینی زندگی میں انحطاط کا دور آیا اور انہوں نے ان باتوں کو اختیار کرنا شروع کر دیا جو منافقین اسلام کا خاصہ تھیں تو ارباب اصطلاح نے نفاق کی ایک اور قسم متعین کی اور اس کا نام عملی نفاق رکھا۔

پس حدیث بالا میں جس چیز کے خلاف تنبیہ کرنا مقصود ہے اس سے یہی عملی نفاق مراد ہے۔ مطلب یہ کہ بات چیت میں دروغ گوئی اختیار کرنا، وعدہ کا پورا نہ کرنا، اور امانتوں میں خیانت کرنا ان بری عادتوں میں سے ہیں جو ایک منافق میں تو پائی جاتی ہیں لیکن کسی مومن میں ان کا پایا جانا عجوبہ سے کم نہیں۔ لہٰذا اگر مسلمان دانستہ یا نا دانستہ طور پر ان میں سے کسی بری عادت کا شکار ہے تو اس کو فوراً اپنا احتساب کرنا چاہیے اور اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ورنہ آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہو گا۔

منافق بنانے والی چار باتیں

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس آدمی میں چار باتیں ہوں گی وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جائے گی (تو سمجھ لو) اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوئی تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے (اور وہ چار باتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب قول و اقرار کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

فائدہ: یہاں بھی نفاق سے مراد  عملی نفاق ہے یعنی اگر کوئی مومن و مسلمان ان چار بری باتوں کا شکار ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ پورے طور پر عملی نفاق میں مبتلا ہے اور عملاً منافق بن گیا ہے اور اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت و عادت اس کے اندر پیدا ہو جائے تو جانو کہ اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہو گئی ہے ، لہٰذا متنبہ کیا جاتا ہے کہ جس کے نادر خواہ یہ تمام خصلتیں جمع ہو گئی ہوں یا ایک خصلت ہو وہ جان لے کہ اب اس کا نقشہ زندگی منافق ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وہ ایمان کا دعوی کرتا ہے تو اس کے اندر ان خصلتوں کا ہونا مناسب نہیں ہے اور اگر وہ اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان باتوں کو فوراً چھوڑ دے۔

منافق کی مثال

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: منافق کی مثال اس بکری کی سی ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان (ماری ماری) پھرتی ہے کہ (اپنے نر کی تلاش میں) کبھی اس طرف مائل ہو جاتی ہے اور کبھی اس طرف۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

منافق کی مثال اس بکری سے دی گئی ہے جو اپنے نر کی تلاش میں ادھر ادھر ماری ماری پھرتی ہے اسی طرح منافق کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے سامنے چونکہ صرف دنیا کا لالچ اور مال و جاں کی حفاظت کا مقصد ہوتا ہے اس لیے وہ مادہ صفت بن کر کبھی تو مسلمانوں کی آغوش میں آکر پناہ لیتا ہے اور کبھی کافروں کے گروہ میں جا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، نفاق سے نفرت پیدا کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ یہ تشبیہ بہت موثر ہے۔

منافق کی مثال

حضرت صفواں بن عسال(صفوان بن عسال مرادی کی نسبت سے مشہور ہیں حضرت علی المرتضیٰ کے دور خلافت میں آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک یہودی نے اپنے ایک (یہودی) ساتھی سے کہا کہ آؤ اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلیں! اس کے ساتھی نے کہا! انہیں نبی نہ کہو ، کیونکہ اگر انہوں نے سن یا (کہ یہودی بھی مجھے نبی فرماتے ہیں) تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی (یعنی خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے) بہر حال وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نو واضح احکام کے بارہ میں سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کا ناحق قتل نہ کرو، کسی بے گناہ کو قتل کرانے کے لیے (اس پر غلط الزام عائد کر کے) حاکم کے پاس مت لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ پاک دامن عورت کو (زنا کی) تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤ اور اے یہودیو! تمہارے لیے خاص طور پر واجب ہے کہ یوم شنبہ کے معاملہ میں (حکم الہٰی سے) تجاوز نہ کرو، راوی فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) دونوں یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پیر چوم لیے اور بولے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واقعی نبی ہیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، (جب تمہیں میری رسالت پر یقین ہے تو) میری اتباع سے تم کو کون سا امر مانع ہے؟ انہوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ نبی ہوا کرے لہٰذا ہم ڈرتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کریں تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے اللہ کی جانب سے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ نبوت کی دلیل طور پر ان کو جو دو بڑے معجزے عطا کئے گئے تھے ان میں ایک عصا تھا  عصا  حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سب سے بڑا معجزہ تھا جس کے ذریعہ وہ بڑے بڑے کام انجام دیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب فرعون کی جانب سے ان کے اور اس زمانہ کے مشہور ساحروں اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہوا تو اللہ نے ان کو عصا ہی کے ذریعے اس طرح کامیابی عنایت فرمائی کہ ان جادو گروں نے جب اپنے سحر و جادو کے بل بوتہ پر رسیوں کو سانپ بنا کر زمین پر ڈالا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا زمین پر ڈال دیا جس نے دیکھتے دیکھتے ایک عظیم اور ہیبت ناک اژدہے کا روپ دھار کر تمام سانپوں کو نگل لیا۔ اس طرح ان کا دوسرا بڑا معجزہ  ید بیضا  تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنا دست مبارک بغل میں ڈال کر باہر نکالتے تو وہ آفتاب کی مانند شعاعیں بکھیرنے لگتا تھا۔ اتنے بڑے معجزوں کے باوجود جب ان کی قوم راہ راست نہیں آئی تو اللہ نے ان کو بلائے عام میں اس طرح مبتلا کر دیا کہ ان پر قحط مسلط کر دیا، اور ان کے پھلوں کی پیداوار میں کمی کر دی پھر بعد میں جب ان کی سر کشی اور نافرمانیاں اور زیادہ بڑھیں تو ان پر مختلف قسم کے عذاب بھیجے جانے لگے۔ مثلاً بارش اتنی کثرت سے برسا دی گئی کہ طوفان نے ان کو آ گھیرا، ان کے کھیتوں پر ٹڈیاں بھیج دی گئیں جس کی وجہ سے ان کی تیار فصلیں تباہ و برباد ہونے لگی، یا ان کے غلوں میں گھن کا کیڑا لگا دیا جس نے ان کے غلوں کے انبار کو ختم کرنا شروع کر دیا، ان پر مینڈک کا عذاب بھیج دیا گیا کہ ان کی ہر چیز میں خواہ کھانے کی ہو یا پینے کی مینڈک ہی مینڈک ہو گئے اور پھر ان کا پانی خون کر دیا گیا کہ جب بھی وہ پانی پیتے وہ خون کی شکل اختیار کر لیتا۔ بہر حال یہ نو چیزیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے اور ان کی نبوت کی خاص نشانیاں تھیں۔

اس حدیث میں ان دونوں یہودیوں نے جن نو واضح احکام کے بارے میں سوال کیا، ان سے یا تو وہی احکام مراد تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمائے یا پھر ان کی مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انہی نو معجزات اور نشانیوں کے بارہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مقدس سے آگاہی اور توثیق حاصل کرنا تھی اس صورت میں کہا جائے گا کہ یا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ یہ قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں اور جو ضروری احکام تھے ان کا حکم ان کو بتا دیا، یا یہ کہ ان کے سوال کے جواب میں ان نو چیزوں کا ذکر فرما کر پھر ان کو اپنی طرف سے یہ احکام دیئے اور راوی نے ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کیا۔ راہی اس خاص حکم کی بات جو رسول اللہ نے مذکورہ نو احکام کے علاوہ خاص طور پر یہودیوں کو دیا تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح تمام قوموں کے لیے ہفتہ میں ایک دن عبادت کے لیے مخصوص تھا اسی طرح یہودیوں کے لیے بھی شنبہ کا دن عبادت کے لیے متعین کر دیا گیا تھا اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس دن اللہ کی عبادت میں مشغول رہا کریں چونکہ یہ قوم شکار کا خاص ذوق اور شغف رکھتی تھی اس لیے ان کو اس دن شکار سے بھی منع کر دیا گیا، لیکن اس قوم نے اس حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی اور سخت ممانعت کے باوجود اس دن مچھلی وغیرہ کا شکار کرنے لگے ، اللہ کی جانب سے ان کو بار بار متنبہ کیا گیا لیکن جب نہیں مانے تو آخر کار ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا گیا! اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان یہودیوں کو اس کے بارہ میں بطور خاص تاکید کی کہ تم اس معاملہ میں اللہ کی قائم کی ہوئی حد سے تجاوز نہ کرو اور چونکہ تمہیں اس دن شکار کھیلنے سے منع کر دیا گیا ہے اس لیے اس ممانعت پر عمل کرو اور اس حکم کی نافرمانی مت کرو۔

ان یہودیوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احکام سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دینا بطور قبول اور صدق دل سے نہیں تھا بلکہ اپنے علم کے اظہار اور اعتراف کے طور پر تھا۔ مطلب یہ کہ یہودیوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نبی مرسل ہونا پڑھ لیا تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ محمد واقعۃً اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور رسول ہیں۔ مگر یہ ان کی بدبختی تھی کہ اس صحیح علم کے باوجود ان کو قبول اسلام کی توفیق نہیں ہوتی تھی اور تعصب و ہٹ دھرمی نے ان کو اتنا اندھا کر دیا تھا کہ ان کو بالکل سامنے کی راہ حق نظر نہیں آتی تھی۔ چنانچہ ان دونوں یہودیوں نے بھی اس موقع پر بس اتنا ہی کیا کہ اپنے علم کا اعتراف کر لیا اور گواہی دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم واقعۃً اللہ کے نبی اور رسول ہیں۔ ظاہر ہے کہ محض علم ہونا یا اپنے علم کا اعتراف کرنا وجود ایمان کے لیے کافی نہیں ہو سکتا ہے۔ رہا ان دونوں یہودیوں کا یہ کہنا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ ایک نبی ہوا کرے اور ان کی یہ دعا چونکہ یقیناً قبول ہوئی ہو گی اس لیے ان کی اولاد میں سے کسی کا نبی ہونا بھی یقینی ہے اور جب وہ نبی ظاہر ہو گا اور تمام یہودی اس نبی کے تابع و مطیع ہو کر شوکت و غلبہ پائیں گے تو پھر ہماری شامت آ جائے گی۔ یعنی تمام یہودی ہمیں اس جرم میں مار ڈالیں گے کہ ہم نے آپ کا دین کیوں قبول کیا۔ اس خوف سے ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہیں لا رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان دونوں یہودیوں کا حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف ایک غلط بات کی نسبت کرنا اور یقینی طور پر کہ ایک مفروضہ اور واہمہ تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ہر گز یہ دعا نہیں کی تھی اور وہ اس طرح کی دعا کرتے بھی کیسے ، انہوں نے تو خود تو رات اور زبور میں پڑھ رکھا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیین ہیں اور ان کا دین تمام دینوں کا ناسخ ہے۔

وہ تین باتیں جو ایمان کر جڑ ہیں

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! تین باتیں ایمان کی جڑ ہیں (١) جو آدمی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اس سے جنگ و مخاصمت ختم کر دینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگاؤ (٢) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے جہاد ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس امت کے آخر میں ایک آدمی آ کر دجال سے جنگ کرے گا۔ کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ لے کر جہاد ختم نہیں کیا جا سکتا (٣) اور تقدیر پر ایمان لانا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 کسی مسلمان کو کافر کہنے کی ممانعت اس حدیث نے واضح طور پر ثابت کر دی ہے ، مطلب یہ ہے جس طرح اچھے کام کرنے والے کافر کو مسلمان کہنا منع ہے تاوقتیکہ وہ توحید و رسالت کا اقرار نہ کرے اسی طرح کسی مسلمان کو صرف اس کی بداعمالیوں کی بنا پر کافر کہنا بھی سخت جرم ہے جب تک کہ وہ عقیدہ کفریہ کا اعلان نہ کرے پس لَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ (کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو) کے الفاظ ہیں تو  خارجیوں کی تردید ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ مومن اگر گناہ کا مرتکب ہو جائے خواہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ وہ کافر ہو جاتا ہے اور وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِ سْلَامِ بِعَمَلٍ (اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اسے خارج اسلام قرار دو) کے الفاظ میں (معتزلہ) کی تردید ہے جو فرماتے ہیں کہ بندہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے خارج از اسلام ہو جاتا ہے اگرچہ کافر نہیں ہوتا۔ مرتکب گناہ کبیرہ کے لیے وہ ایک درمیانی درجہ مانتے ہیں، یعنی نہ تو اس کو مسلمان فرماتے ہیں اور نہ کافر۔ بہرحال خارجیوں اور معتزلہ سے قطع نظر موجودہ دور کے ان مسلمانوں کو بھی اس حدیث کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے جو کفر سازی کے کارخانے چلاتے ہیں اور اپنے مکتب فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بے دریغ کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ شقی القلب محض ذاتی اغراض اور نفسانی خواہشات کے تحت نہ صرف عام مسلمانوں کو بلکہ علماء حق اور اولیاء اللہ تک کو کافر کہنے سے ذرا نہیں جھجکتے۔ ان لوگوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہیے کہ جب لسان نبوت نے عاصی مسلمان کو بھی کافر کہنے سے سخت منع فرمایا ہے تو پھر ان بزرگان دین اور پیشوا اسلام کا کافر کہنا کہ جن کی زندگیوں کا تمام حصہ مذہب کی خدمت و اشاعت میں گزرتا ہے اور جو ان کو کافر نہ کہے اس کو بھی کافر کہنا احکام شریعت اور فرمان رسالت سے کتنا مضحکہ خیز معاملہ ہے جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ نکل سکتا۔

حدیث میں جن باتوں کو ایمان کی جڑ فرمایا گیا ہے ان میں سے پہلی بات تو وہی ہے جس کی وضاحت اوپر ہوئی۔ دوسری بات  جہاد ہے ، اس بارہ میں ارشاد نبوت کا مطلب یہ ہے کہ اب روئے زمین پر دین حق (جو اللہ کا آخری اور کامل دین ہے) کے ظاہر ہو جانے اور رسول اللہ کی رسالت کا اعلان ہو جانے کے بعد سے اس وقت تک کہ آخر میں قیامت کے قریب دجال مارا نہ جائے ، یاجوج ماجوج ظاہر ہو کر فنا کے گھاٹ نہ اتر جائیں اور یہ روئے زمین دین کے ایک ایک دشمن اور منکر سے پاک نہ ہو جائے ، جہاد برابر جاری رہے گا۔ جہاد کی فرضیت اور اہمیت اس صورت میں بھی ختم نہیں ہو گی جب کہ کوئی اسلامی سربراہ مملکت ظالم و جابر ہو اگر دشمنان دین کے خلاف وہ جہاد کا اعلان کر دے تو اس کو ماننا اور اس کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا شرعی طور پر ضروری ہو گا۔ یہ نہیں کہ اس کے ظلم و جبر کا بہانہ لے کر جہاد میں شریک اور مددگار بننے سے انکار کر دیا جائے اسی طرح اگر کسی دشمن دین قوم کا سربراہ اور بادشاہ اتفاق سے عادل اور منصف مزاج ہو تو ہر چند کہ بادشاہ کا عدل امن و انصاف کا باعث ہوتا ہے ، لیکن اسلام کی شوکت بڑھانے اور دین کا بول بالا کرنے کے لیے اس عادل بادشاہ کی قوم کے خلاف بھی جہاد کو غیر ضروری نہیں دیا جا سکتا۔ تیسری بات تقدیر پر اعتقاد و یقین رکھنا ہے یعنی ایمان کی سلامتی کے لیے یہ یقین رکھنا اشد ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو بھی حادثات و واقعات پیش آتے ہیں وہ سب قضا و قدر الہٰی کے تحت ہے۔

ارتکاب زنا کے وقت ایمان باہر آ جاتا ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سائبان کی طرح معلق ہو جاتا ہے اور پھر جب وہ اس معصیت سے فارغ ہو جاتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حافظ ابن تیمیہ نے اس موقع پر بڑی اچھی مثال دی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایک گناہ گار کی مثال ایسی ہے۔ جیسی آنکھیں بند کرنے کے بعد ایک بینا آدمی اپنی آنکھیں بند کرے تو اسے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اور اس لحاظ سے یہ بینا اور ایک نابینا دونوں برابر ہو جاتے ہیں، نہ یہ دیکھتا ہے نہ وہ، لیکن فرق یہ ہے کہ نابینا آنکھوں کی روشنی ہی نہیں رکھتا اور بینا اگرچہ روشنی تو رکھتا ہے مگر غلاف چشم کی وجہ سے وہ روشنی کام نہیں کرتی اسی طرح ایک مومن کے نور بصیرت پر جب بہییت و ضلالت کا حجاب پڑ جاتا ہے تو وہ بھی کافر کی طرح معصیت اور طاعت کا فرق نہیں پہچانتا۔

اس لیے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مومن جس حالت میں زنا کرتا ہے اس کا نور ایمانی بہیمت و معصیت کی تاریکی سے ایسا مدھم پڑ جاتا ہے کہ اسے بھی معصیت کرنے میں کوئی باق نہیں رہتا اور جب بندہ اس معصیت کے بعد صدق دل سے توبہ کر لیتا ہے تو یہ حجاب بہیمت پر چاک ہو جاتا ہے ، اور نور ایمانی پھر جگمگانے لگتا ہے۔ (ترجمان السنۃ)

حضرت معاذ کو دس باتوں کی وصیت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، چنانچہ فرمایا: (١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اگرچہ تمہیں جان سے مار ڈالا جائے اور جلا دیا جائے (٢) اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے اہل اور مال چھوڑ دینے کا حکم دیں (٣) جان بوجھ کر کوئی فرض نماز نہ چھوڑو کیونکہ جو آدمی عمداً نماز چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں (٤) شراب مت پیو کیونکہ شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے (٥) اللہ کی نافرمانی اور گناہ سے بچو کیونکہ نافرمانی کرنے سے اللہ کا غصہ اتر آتا ہے۔ (٦) جہاد میں دشمنوں کو ہرگز پیٹھ نہ دکھلاؤ اگرچہ تمہارے ساتھ کے تمام لوگ ہلاک ہو جائیں۔ (٧) جب لوگوں میں موت (وباء کی صورت میں) پھیل جائے اور تم ان میں موجود ہو تو ثابت قدم رہو یعنی ان کے درمیان سے بھاگو مت (٨) اپنے اہل و عیال پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرتے رہو۔ (٩) تادیباً اپنا ڈنڈا ان سے نہ ہٹاؤ (١٠) اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں انہیں ڈراتے رہو یعنی اہل و عیال میں سے کسی کو سزاء یا تا دیبا کچھ مارنا پیٹنا ضروری ہو تو اس سے پہلو تہی نہ کرو اور ان کو اچھی اچھی باتوں کی نصیحت و تلقین کرتے رہا کرو اور دین کے احکام و مسائل کی تعلیم دیا کرو اور ان کو بری باتوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 شرک اپنی برائی کے اعتبار سے کس قدر خطرناک ہے اور اخروی حیثیت سے کتنی ہلاکت خیزی رکھتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ کو وصیت فرمائی کہ اگر تمہیں جان سے مار ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہو یا تمہیں آگ میں ڈالا جا رہا ہو تو بھی تم توحید کے معاملہ میں اپنے عقیدہ سے ایک انچ نیچے مت اترنا بلکہ موت کی پروا کئے بغیر اپنے اعتقاد پر پختگی کے ساتھ قائم رہنا، تاہم جہاں تک نفس مسئلہ کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ چونکہ اپنی فطرت کے اعتبار سے شریعت کی پیروی میں انتہائی سخت تھے اور کسی بھی مسئلہ کے اسی پہلو کو اختیار کرتے تھے جو اولیٰ ہوتا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق اس قدر اہمیت کے ساتھ انکو حکم دیا، ورنہ ایسے موقع پر جب کہ اپنے ایمان واسلام کا اظہار اپنی موت کو دعوت دینے والا اور کفر و شرک کا کلمہ زبان سے ادا کئے بغیر جان نہ بچتی ہو تو اس کی اجازت ہے کہ کفر و شرک کا کوئی کلمہ زبان سے ادا کرے بشرطیکہ دل میں ایمان پوری طرح موجود رہے۔ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی بھی اہمیت و تاکید ہی کو ظاہر کرنے کے لیے بطور مبالغہ فرمایا گیا کہ اگر ماں باپ تمہیں تمہارے اہل و عیال سے الگ ہو جانے یا تمہیں تمہارے مال و اسباب اور املاک و جائیداد سے دستبردار ہو جانے کا بھی حکم دیں تو اس حکم کی اطاعت کرو، اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماں باپ کا یہ حکم ماننا واجب نہیں ہے تاکہ حرج و نقصان میں مبتلا ہونا لازم نہ آئے۔  فرض نماز کی اہمیت جتلانے کے لیے فرمایا گیا کہ اگر تم جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑ دو گے تو پھر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت میں اللہ کی ذمہ داری سے باہر سمجھو، دنیا میں تم اس اعتبار سے کہ اسلامی نظام اور اسلامی حکومت کے قانون کے تحت جس تعزیر کے مستوجب قرار پاؤ گے اس میں اللہ کی طرف سے کوئی امن و عافیت تمہیں نہیں ملے گی اور آخرت میں اس اعتبار سے کہ وہاں ترک نماز کے سبب خود اللہ تمہیں عذاب میں گرفتار کرے گا۔  دشمن کو پیٹھ دکھانے کے بارے میں  جیسا کہ پہلے بھی گزرا۔ یہ مسئلہ ہے کہ اگر دشمن دو تہائی تک بھی زائد ہوں یعنی ایک مسلمان کے مقابلہ پر دو دشمن دین ہوں تو اس صورت میں مقابلہ سے ہٹ جانا اور راہ فرار اختیار کرنا کسی مسلمان کو ہرگز جائز نہیں ہے ہاں اگر ایک کے مقابلہ میں دو سے زائد ہوں تو پھر تباہی کا خطرہ دیکھ کر مقابلہ سے ہٹ جانا اور جان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینا جائز ہو گا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم مبالغہ کے طور پر دیا کہ تم کسی بھی صورت میں اپنے دشمن کو پیٹھ مت دکھانا خواہ تمہارے تمام ساتھی شہید ہو جائیں اور دشمن کے مقابلہ پر تم تنہا ہی کیوں نہ رہ جاؤ اس حدیث میں ایک اعتقادی کمزوری کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور اس کے خلاف حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو متنبہ کیا گیا ہے۔ یعنی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آبادی میں کوئی وبا پھیل جاتی ہے اور موتیں کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں تو عوام دہشت زدہ ہو کر اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور اس آبادی سے نکل بھاگتے ہیں۔ اس بارے میں بھی اصل مسئلہ یوں ہے کہ جو لوگ اس آبادی میں پہلے سے مقیم نہ ہوں بلکہ دوسری جگہوں پر ہوں تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس آبادی سے دور رہیں اور وہاں نہ آئیں لیکن جو لوگ پہلے ہی سے آبادی میں مقیم ہوں ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ موت کے خوف سے اس آبادی کو چھوڑ دیں اور وہاں سے نکل بھاگیں، کیونکہ وباء زدہ آبادی سے نکل بھاگنا ایسا ہی گناہ ہے جیسا دشمن کے مقابلہ سے بھاگ کھڑا ہونے کا بلکہ جو آدمی اس اعتقاد سے بھاگے گا کہ اگر یہاں رہا تو مر جاؤں گا اور یہاں سے نکل بھاگنے پر موت سے بچ جاؤں گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔

اب کفر ہے یا ایمان

اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ (آپ کا اسم گرامی حذیفہ بن یمان ہے اور کنیت ابو عبداللہ عیسیٰ ہے۔ آپ کی وفات حضرت عثمان کی شہادت کے بعد چالیسوں دن ٣٦ھ میں ہوئی۔)

 فرماتے ہیں کہ نفاق کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد پر ختم ہو گیا لہٰذا اب تو (دوہی صورتیں ہوں گی کہ) کفر ہو گا یا ایمان۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 عہد رسالت میں بعض مصلحتوں کی بنا پر منافقین کو مسلمانوں ہی کے حکم میں رکھا جاتا تھا اور ان کی ریشہ دوانیوں و سازشوں سے چشم پوشی کی جایا کرتی تھی ، لیکن اب یہ حکم باقی نہیں رہا، فرض کرو اگر کسی مسلمان کے بارے میں یہ ظاہر ہو جائے کہ یہ آدمی مومن نہیں ہے ، بلکہ حقیقی منافق ہے تو اس پر کفر و ارتداد کا حکم لاگو ہو گا اور اسلامی حکومت اس کو سزائے موت دے دے گی۔