وسوسہ گناہ یا کفر سے متعلق اس خیال کو کہتے ہیں جو دل میں گزرے یا شیطان دل و دماغ میں ڈالے اس کے مقابلہ پر الہام اس اچھے اور نیک خیال کو فرماتے ہیں جو اللہ کی طرف سے دل و دماغ میں ڈالا جاتا ہے۔
وسوسہ کی مختلف صورتیں اور نوعیتیں ہوتی ہیں اور اسی اعتبار سے علماء نے اس کی الگ الگ قسمیں متعین کی ہیں چنانچہ وسوسہ کی ایک قسم تو ضروری یعنی اضطراری ہے اور دوسری قسم اختیاری ہے۔ ضروری یا اضطراری وسوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ کا یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال اچانک اور بے اختیار دل و دماغ میں گزر جائے اس کو اصطلاحی طور پر ہاجس سے تعبیر کیا جاتا ہے اس (ہاجس) کی معافی گزشتہ امتوں میں بھی رہی ہے اور اس امت میں بھی ہے اور اگر وہی برا خیال دل و دماغ میں ٹھہر جائے اور خلجانی کیفیت پیدا ہو جائے تو اس کو خاطر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ (خاطر) بھی امت سے معاف ہے۔ اختیاری وسوسہ اس کو فرماتے ہیں کہ کسی گناہ یا ایمان و یقین کے منافی کسی بات کا خیال دل و دماغ میں پیدا ہو، ٹھہرا رہے ، لگاتار رہے۔ مستقل خلجان کرتا رہے ، طبیعت کی خواہش بھی اس کے کرنے کی ہو اور ایک گونہ لذت و محبت بھی اس کے تئیں محسوس ہو۔ اختیاری وسوسہ کی یہ صورت ہم کہلاتی ہے اور یہ بھی صرف اس امت سے معاف ہے ، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور جب تک یہ عملی صورت اختیار نہ کرے اس پر کوئی گناہ نامہ اعمال میں نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ اگر عمل کا قصد ہو جائے اور پھر اپنے آپ کو عمل سے باز رکھے تو اس کے عوض نیکی لکھی جاتی ہے۔ ہم کے مقابلہ پر اختیاری وسوسہ کی دوسری صورت کا نام عزم ہے یعنی انسانی طبیعت اور نفس کا کسی برے خیال اور بری بات کو اپنے اندر کرنا اور جما لینا اور نہ صرف یہ کہ اس خیال سے نفرت و کراہیت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کا ایسا پختہ ارادہ کر لینا کہ اگر کوئی خارجی مانع نہ ہو اور اسباب و ذرائع مہیا ہوں تو وہ یقینی طور پر عملی صورت اختیار کر لے وسوسہ کی یہ صورت ایسی ہے جو قابل مواخذہ ہے لیکن اس مواخذہ کی نوعیت عملی طور پر ہونے والے مواخذہ سے ہلکی ہو گی، مطلب یہ کہ وسوسہ جب تک اندر رہے گا اس پر کم گناہ ہو گا اور جب اندر سے نکل کر عملی صورت اختیار کرے گا تو گناہ زیادہ ہو گا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وسوسہ کی مذکورہ بالا تقسیم ان افعال و اعمال کی نسبت سے ہے جن کے وقوع اور صدور کا تعلق ظاہری اعضاء جسم سے جیسے زنا اور چوری وغیرہ وغیرہ جو باتیں دل و دماغ کا فعل کہلاتی ہیں جیسے برا عقیدہ اور حسد وغیرہ وغیرہ تو وہ اس تقسیم میں داخل نہیں ہیں ان کے ہمیشہ استمرار پر بھی مواخذہ ہوتا ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے ان وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ان وسوسوں پر عمل نہ کریں اور ان کو زبان پر نہ لائیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چند صحابی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اپنے دلوں میں بعض ایسی باتیں (یعنی وسوسے) پاتے ہیں جس کا زبان پر لانا بھی ہم برا سمجھتے ہیں۔ سرکار نے پوچھا ! کیا تم واقعی ایسا پاتے ہو۔ (کہ جب کوئی ایسا وسوسہ تمہارے اندر پیدا ہوتا ہے تو خود تمہارا دل اس کو ناپسند کرتا ہے اور اس کا زبان پر لانا بھی تم برا جانتے ہو؟) صحابہ نے عرض کیا! جی ہاں تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ کھلا ہوا ایمان ہے۔ (صحیح مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ! تم میں سے بعض آدمیوں کے پاس شیطان آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ فلاں فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا اور اس چیز کو کس نے پیدا کیا؟ تا آنکہ پھر وہ یوں کہتا ہے کہ تیرے پروردگار کو کس نے پیدا کیا؟ جب نوبت یہاں تک آ جائے تو اس کو چاہیے کہ اللہ سے پناہ مانگے اور اس سلسلہ کو ختم کر دے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
شیطان انسان کے روحانی ارتقاء کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کا بنیادی نصب العین ہی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو، جو اللہ کی ذات و صفات پر ایمان و یقین رکھتے ہیں، ورغلانے اور بہکانے میں لگا رہے ہیں، یہی نہیں کہ وہ فریب کاری کے ذریعہ انسان کے نیک عمل اور اچھے کاموں میں رکاوٹ اور تعطل پیدا کرنے کی سعی کرتا رہے بلکہ اس زبردست قدرت کے بل پر کہ جو حق اللہ تعالیٰ نے تکوینی مصلحت کے تحت اس کو دی ہے۔ وسوسہ اندازی کے ذریعہ انسان کی سوچ فکر اور خیالات کی دنیا میں مختلف انداز کے شبہات اور برائی بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن جن لوگوں کی سوچ فکر اور خیالات کے سر چشموں پر ایمان و یقین کی مضبوط گرفت ہوتی ہے وہ اپنے ایمان کی فکری اور شعوری طاقت سے شیطان کے وسوسوں کو ناکارہ بنا دیتے ہیں ، چنانچہ اس حدیث میں جہاں بعض شیطانی وسوسوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہیں اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو ان وسوسوں کو غیر موثر اور ناکارہ بنانے سے تعلق رکھتا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ پہلے تو شیطان اللہ کی مخلوقات اور موجودات کے بارہ میں وسوسہ اندازی کرتا ہے ، مثلاً فکر و خیال میں یہ بات ڈالتا ہے کہ انسان کو وجود کس نے بنایا، یہ زمین و آسمان کی تخلیق کس کا کارنامہ ہے ، چونکہ اللہ کی ذات و صفات پر ایمان رکھنے والوں کی عقل سلیم کائنات کی تمام مخلوقات و موجودات کی تخلیقی و تکوینی نوعیت کا بدیہی شعور و ادراک رکھتی ہے اس لیے مخلوقات کی حد تک شیطان کی وسوسہ اندازی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی لیکن معاملہ وہاں نازک ہو جاتا ہے جب یہ سلسلہ نازک ہو کر ذات باری تعالیٰ تک پہنچ جائے اور وسوسہ شیطانی دل و دماغ سے سوال کرے جب یہ زمین و آسمان اور ساری مخلوقات اللہ کی پیدا کردہ ہیں تو پھر خود اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ فرمایا گیا کہ جوں ہی یہ وسوسہ پیدا ہو اپنے اللہ سے پناہ مانگو اور اپنے ذہن سے اس فاسد خیال کو فوراً جھٹک دو تاکہ وسوسہ شیطانی کا سلسلہ منقطع ہو جائے اللہ کی پناہ چاہنے کا مطلب محض زبان سے چند الفاظ ادا کر لینا نہیں ہے بلکہ یہ کہ ایک طرف تو اپنے فکر و خیال کو یکسو کر کے اس عقیدہ یقین کی گرفت میں دے دو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم ہے ، وہ واجب الوجود ہے اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اور دوسری طرف ریاضیت و مجاہدہ اور ذات باری تعالیٰ کے ذکر و استغراق کے ذریعہ اپنے نفس کے تزکیہ اور ذہن و فکر کے تحفظ اور سلامتی کی طرف متوجہ رہو۔ وسوسہ کی راہ روکنے کا ایک فوری موثر طریقہ علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجلس بدل دی جائے۔ یعنی جس جگہ بیٹھے یا لیٹے ہوئے اس طرح کا وسوسہ پیدا ہو وہاں سے فوراً ہٹ جائے اور کسی دوسری جگہ جا کر کسی کام اور مشغلہ میں لگ جائے اس طرح دھیان فوری طور پر ہٹ جائے گا اور وسوسہ کی راہ ماری جائے گی۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا! لوگ ہمیشہ اپنے دل میں مخلوقات وغیرہ کے بارے میں خیالات پکارتے رہیں گے ، یہاں تک کہ کہا جائے گا (یعنی دماغ میں یہ وسوسہ آئے گا) کہ اس تمام مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا ہے (تو) اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ پس جس آدمی کے دل و دماغ میں اس قسم کا کوئی خیال اور وسوسہ پیدا ہو تو وہ یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر اور اس رسول پر ایمان لایا۔
(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
شیطان کی وسوسہ اندازی اور گمراہ کن خیالات کی روش سے بچنے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے موقع پر (میں اللہ پر اس کے رسول پر ایمان لایا) پڑھنا چاہیے ، اس کلمہ کے ورد کے ذریعہ زبان یہ اقرار و اعتراف کرے گی کہ میں اللہ کی ذات پر اور اس کے سچے رسول پر ایمان رکھتا ہوں جس نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اس کی ذات واجب الوجود ہے ، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ تمام جہاں کا اور تمام چیزوں کا وہی خالق ہے وہی دل و دماغ میں ان باتوں کی صحت و صداقت کا یقین راسخ ہو گا اور ذہن و فکر کو برے خیالات سے تحفظ و سلامتی حاصل ہو گی جس کے سبب شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ایک ہمزاد جنوں (شیطان میں سے اور ایک ہمزاد فرشتوں میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے مجھ کو اس (جن موکل) سے مقابلہ کرنے میں مدد دے رکھی ہے اس لیے میں اس (کے مکر و فریب اور اس کی گمراہی) سے محفوظ رہتا ہوں، بلکہ یہاں تک کہ) وہ بھی مجھے بھلائی کا مشورہ دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ موکل ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو فرشتہ ہے جو نیکی و بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور انسان کو اچھی باتیں و نیک کام سکھاتا ہے اور اس کے قلب میں خیر و بھلائی کی چیزیں ڈالا رہتا ہے ، اس کو ملہم کہتے ہیں، دوسرا ایک جن (شیطان) ہوتا ہے ، جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو برائی کے راستہ پر ڈالتا رہے۔ چنانچہ وہ گناہ و معصیت کی باتیں بتاتا ہے اور دل میں برے خیالات و غلط وسوسے پیدا کرتا رہتا ہے اس کا نام وسواس ہے۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انسان کے اندر شیطان اس طرح دوڑتا پھرتا ہے جیسے رگوں میں خون گردش کرتا رہتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ کہ شیطان انسان کو بہکانے کی کامل قدرت رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ وہ مختلف صورتوں میں اچھے انسانوں اور نیک بندوں کو نیکی و بھلائی کے راستہ پر چلنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے بلکہ انسان کی داخلی کائنات میں گھس کر اس کے ذہن و فکر اور اس کے قلب و دماغ کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بنی آدم کے یہاں جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو چھوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ چیخ اٹھتا ہے لیکن ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور ان کی ماں کو شیطان نے نہیں چھوا۔ (صحیح البخاری و مسلم)
تشریح
شیطان کے چھونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ولادت کے وقت بچہ کی کوکھ میں اپنی انگلیاں اس طرح مارتا ہے کہ بچہ تکلیف محسوس کرتا ہے اور چلا چلا کر رونے لگتا ہے۔ اس شیطانی ایذاء کا شکار ہر بچہ ہوتا ہے۔ صرف حضرت مریم علیہ السلام اور ان کے بیٹے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس شیطانی عمل سے محفوظ رہے تھے ان دونوں کا محفوظ رہنا بظاہر اس دعا کی مقبولیت کا نتیجہ تھا جو حضرت مریم کی والدہ نے کی تھی اور جس کو قرآن نے یوں نقل کیا ہے۔
(آیت اِنِّیْ اُعِیْذُھَابِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ (ال عمران٣٦)
(اے خدا) میں اس مریم کو اس کی اولاد کو شیطان مردود سے آپ کی پناہ دیتی ہوں۔
یہاں یہ اشکال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اگر شیطان کو اتنی قدرت ہو تو وہ سب کو ہلاک کر دے۔ کیونکہ شیطان کو صرف اتنی ہی قدرت دی گئی ہے وہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی کو اس سے زیادہ تکلیف پہنچا کر ہلاک کر دے ، دوسرے شیطان کے مقابلہ میں ملائکہ بھی تو ہوتے ہیں جو نگہبانی کرتے ہیں اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کو جتنی قدرت دی گئی ہے اس سے تجاوز کر جائے اور اپنے کسی مہلک ارادہ میں کامیاب ہو جائے۔
٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا! ولادت کے وقت بچہ اس لیے چلاتا ہے کہ شیطان اس کو کچوکے لگاتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابلیس اپنا تخت حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتا ہے۔ پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتا ہے تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گمراہی میں مبتلا کریں۔ اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے بڑا مقرب وہ ہے جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو۔ ان میں سے ایک واپس آ کر کہتا ہے۔ میں نے فلاں فلاں فتنے پیدا کئے ہیں۔ ابلیس اس کے جواب میں کہتا ہے : تو نے کچھ نہیں کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے ! میں نے (ایک بندہ کو گمراہ کرنا شروع کیا اور) اس وقت تک اس آدمی کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈالو دی۔ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس (یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے اچھا کام کیا (حدیث کے ایک راوی) اعمش فرماتے ہیں میرا خیال ہے جابر رضی اللہ عنہ نے بجائے (فیدنیہ کے) فیلتذمہ (پس ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے) کے الفاظ نقل کئے تھے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
جدائی ڈلوانے سے مراد لڑائی جھگڑے کے ذریعہ مرد کی زبان سے نا سمجھی میں ایسے الفاظ ادا کر دینا ہے جس سے اس کی بیوی پر طلاق بائن پڑ جائے۔ طلاق بائن میں عورت اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے ، اس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنی جہالت کے سبب اس عورت کو اپنے نکاح میں داخل سمجھتے ہوئے اس سے صحبت کرتا رہے جو دراصل حرام کاری ہوتی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی حرام کاری کے نتیجہ میں نا جائز اولاد پیدا ہوتی رہے ، جس سے روئے زمین پر نا جائز اولاد کی تعداد بڑھتی رہے اور وہ نا جائز پیدا ہونے والے لوگ دنیا میں فسق و فجور اور گناہ و معصیت زیادہ سے زیادہ پھیلاتے رہیں۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں مصلی (یعنی مسلمان) اس کی پرستش کریں لیکن ان کے درمیان فتنہ و فساد پھیلانے سے مایوس نہیں ہوا ہے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مطلب یہ کہ جزیرۃ العرب میں ایمان و اسلام کی جڑیں اتنی مضبوط ہو گئیں ہیں اور توحید کا کلمہ یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ میں اس طرح جم گیا ہے کہ اب اس خطہ ارض میں بت پرستی جیسی لعنت کبھی نظر آئے گی چنانچہ اس بارہ میں شیطان نے بھی اپنی شکست تسلیم کر لی ہے اور وہ اس بات سے قطعاً مایوس ہو گیا ہے کہ یہاں کے مومن و مسلمان اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی اور دوسری کھلی ہوئی مشرکانہ حرکتوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، لیکن بہر صورت بہکانا اور ورغلانا چونکہ شیطان کی فطرت ہے اس لیے اس نے جزیرۃ العرب کے لوگوں میں اپنا مشن ختم نہیں کیا ہے اور اس بات میں پر امید ہے کہ ان کے درمیان طرح طرح جذبات ابھار کر ان کو آپس میں لڑایا جا سکتا ہے۔ ان کو افتراق و انتشار کے فتنوں میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔
اس حدیث کے پس منظر میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ زمانہ رسالت سے لے کر آج تک کبھی بھی جزیرۃ العرب میں بت پرستی نہیں ہوئی۔ کھلے ہوئے مشرکانہ اعمال کا کبھی مظاہرہ نہیں ہوا۔ یہ دوسری بات ہے کہ شیطان کمزور عقیدہ لوگوں کو ایمان و اسلام سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو گیا، کچھ لوگ مرتد ہو گئے ہوں لیکن ان میں سے بھی کوئی بت پرست ہو گیا ہو ایسا ہرگز نہیں ہوا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک صحابی نے حاضر ہو کر عرض کیا (یا رسول اللہ) میں اپنے اندر ایسا (برا) خیال پاتا ہوں کہ زبان سے اس کے اظہار کی بجائے جل کر کوئلہ ہو جانا مجھ کو زیادہ پسند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا ! اللہ کا شکر ادا کرو جس نے اس خیال کو وسوسہ کی حد تک رکھا۔ (سنن ابوداؤد)
تشریح
شیطان نے ان صحابی کے اندر کوئی برا خیال ڈال دیا ہو گا جس سے ان کے ایمان کی حسیاتی کیفیت بے چین ہو گئی ہو گی اور وہ بھاگتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو تسلی دی کہ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ تو اللہ کا بڑا فضل ہے کہ تمہارا ایمانی احساس و شعور پوری طرح بیدار رہے اور اس برے خیال کو خود تمہارے دل و دماغ نے قبول نہیں کیا اور وہ وسوسہ کی حد سے آگے بڑھنے نہیں پایا۔ اس طرح کے وسوسہ پر نہ کوئی مواخذہ ہے اور نہ کسی نقصان کا خدشہ ، اس کو تو اللہ تعالیٰ نے معاف قرار دیا ہے ، ہاں اگر وہ برا خیال وسوسہ کی حد سے آگے بڑھ کر تمہاری زبان یا عمل سے ظاہر ہو جاتا تو پھر تمہارے لیے خطرہ کی بات تھی۔
اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا! حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر ایک تصرف تو شیطان کا ہوا کرتا ہے اور ایک تصرف فرشتہ کا شیطان کا تصرف تو یہ ہے کہ وہ برائی پر ابھارتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے اور فرشتہ کا تصرف یہ ہے کہ وہ نیکی پر ابھارتا ہے اور حق کی تصدیق کرتا لہٰذا جو آدمی (نیکی پر فرشتہ کے ابھارنے کی) یہ کیفیت اپنے اندر پائے تو اس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے (ہدایت) ہے اس پر اس کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور جو آدمی دوسری کیفیت (یعنی شیطان کی وسوسہ اندازی) اپنے اندر پائے تو اس کو چاہیے کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ قرآنی آیت پڑھی (جس کا ترجمہ ہے) شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور گناہ کے لیے اکساتا ہے۔ اس روایت کو جامع ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
فرشتہ کے ابھارنے کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ نیکی کی اہمیت اور نیکی پر ملنے والے اجر و انعام کی کشش ظاہر کرتا ہے اور انسان کے احساس و شعور میں یہ بات ڈالتا ہے کہ اللہ کا سچا دین ہی انسانیت کی بقا و ترقی کا ضامن ہے اللہ کے رسول جو شریعت لے کر آئے ہیں اسی میں بنی آدم کی دنیاوی اور اُخروی نجات پوشیدہ ہے۔ اگر اپنی فلاح و نجات چاہتے ہو تو برائی کے راستہ سے بچو اور نیکی کے راستہ کو اختیار کرو۔ شیطان کا ابھارنا یہ ہوتا ہے کہ وہ راہ حق کو تاریک کر کے دکھاتا ہے وسوسہ اندازی کے ذریعہ دین کی بنیادی باتوں مثلاً توحید، نبوت آخرت اور دوسرے معتقدات میں تردد و تشکیک پیدا کرتا ہے۔ نیکی کو بدنما صورت میں اور بدی کو اچھی شکل و صورت میں پیش کرتا ہے ، انسانی دماغ یہ میں بات بٹھانے کی سعی کرتا ہے کہ اگر ان چیزوں کو اختیار کرو گے جو نیکی سے تعبیر کی جاتی ہیں تو پریشانیاں اٹھاؤ گے ، تکلیفیں، برداشت کرو گے ، مثلاً توکل و قناعت کی زندگی اختیار کرو گے اور اپنے اوقات کو دنیا سازی میں صرف کرنے کی بجائے اللہ کی عبادت اور دین کی خدمت میں لگاؤ گے تو تم نہ مال دولت حاصل کر پاؤ گے اور نہ دنیا کی کوئی آسائش و راحت اٹھا پاؤ گے ، الٹے فقر و محتاجگی میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا! لوگ(پہلے تو مخلوقات وغیرہ کے بارے میں) پوچھا پوچھی کریں گے۔ اور پھر آخر میں یہ سوال کھڑا کیا جائے گا کہ ساری مخلوقات کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو خود اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب یہ سوال کھڑا کیا جائے تو تم کہو اللہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ کسی نے اس کو جنا ہے۔ اور کوئی اس کا ہمسر (یعنی جوڑا نہیں ہے) پھر اپنی بائیں طرف تین بار تھتکار دو۔ اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔ (ابوداؤد) اور (صاحب مشکوۃ فرماتے ہیں) کہ عمرو بن احوص کی روایت (جس کو صاحب مصابیح نے یہاں نقل کیا تھا) ہم اسکو خطبہ یوم النحر) کے باب میں نقل کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ(کیونکہ وہ روایت اسی باب کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! لوگ آپس میں پوچھا پوچھی کرتے رہیں گے (یعنی شیطانی وسوسوں کی صورت میں ان کے اندر اس طرح کے خیالات پیدا ہوتے رہیں گے) کہ جب ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا (تو) اللہ بزرگ و برتر کو کس نے پیدا کیا؟ (صحیح البخاری و صحیح مسلم کی روایت میں یوں ہے ! انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لوگ (اگر شیطان کے وسوسہ اندازی سے چوکنا نہ رہے تو پہلے) یوں کہیں گے کہ یہ کیا ہے؟ اور یہ کیسے ہوا؟(یعنی مخلوقات کے بارے میں تحقیق و تجسس کریں گے) اور پھر آخر میں یہ کہیں گے کہ تمام چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو اللہ بزرگ و برتر کو کس نے پیدا کیا؟۔
اور حضرت عثمان ابن ابی العاص (عثمان بن ابی العاص کی کنیت ابوعبداللہ ہے قبیلہ ثقیف سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے تقفی کہلاتے ہیں آپ قبیلہ ثقیتف کے وفد کے ہمراہ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کر کے ہدایت سے مشرف ہوئے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے قبیلہ کا امیر مقرر کر دیا تھا وفات نبوی کے بعد جب اہل طائف ارتداد کی طرف مائل ہونے لگے تو عثمان بن ابی العاص ہی کی ذات تھی جس نے ان کو ارتداد سے باز رکھا آپ نے بصرہ میں ٥١ھ میں وفات پائی۔) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے اور میری نماز اور میری قرأت کے درمیان شیطان حائل ہو جاتا ہے اور ان چیزوں میں شبہ ڈالتا رہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ وہ شیطان ہے جس کو خنزب کہا جاتا ہے۔ پس جب تمہیں اس کا احساس ہو (کہ شیطان وسواس و شبہات میں مبتلا کرے گا) تو تم اس (شیطان مردود) سے اللہ کی پناہ مانگو اور بائیں طرف تین دفعہ تھتکار دو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے مطابق) میں نے اسی طرح کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے وسواس و شبہات سے محفوظ رکھا۔ (صحیح مسلم)
اور حضرت قاسم بن محمد (آپ حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے اور محمد بن ابوبکر صدیق کے صاحب زادے ہیں، مدینہ کے سات مشہور فقہاء میں سے ایک آپ بھی ہیں اکابر اور جلیل القدر تابعین میں آپ کا شمار ہوتا ہے یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ ہم نے مدینہ میں قاسم بن محمد سے زیادہ افضل کسی کو نہیں پایا بعمر ٧٠ سال ١٠١ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔) سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا رہتا ہے (یعنی کبھی تو یہ شک ہوتا ہے کہ میری نماز درست ادا نہیں ہوئی کبھی یہ وہم ہو جاتا ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے رہ گئی ہے) اس کی وجہ سے مجھے گرانی ہوتی ہے؟انہوں نے فرمایا (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور) اپنی نماز پوری کرو، اس لیے کہ وہ (شیطان) تم سے جب ہی دور ہو گا کہ تم اپنی نماز پوری کر لو اور کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی۔ (مالک)
تشریح
نماز ہی وہ سب سے اہم عبادت ہے جس میں اللہ کے نیک بندوں کا بہکانے اور ورغلانے کے لیے شیطان اپنی سعی و کوشش سب سے زیادہ صرف کرتا ہے یہ شیطان کی تخریب کاری ہوتی ہے۔ جو عام لوگوں کو نماز کے دوران پوری ذہنی یکسوئی سے محروم رکھتی ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی نیت باندھتے ہیں دل و دماغ میں دنیا بھر کے خیالات کا اجتماع ہونا شروع ہو جاتا ہے وہ باتیں جو کبھی یاد نہیں آتیں نماز ہی کے دوران ذہن میں کلبلانے لگتی ہیں۔ شیطان طرح طرح کے وسوسے اور خیالات پیدا کرتا رہتا ہے ، کبھی تو یہ پھونک دیتا ہے کہ نماز مکمل نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک رکعت یا دو رکعت چھوٹ گئی ہے ، کبھی یہ وہم گزار دیتا ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوئی ہے۔ فلاں رکن ترک ہو گیا ہے۔ قرأت میں فلاں آیت چھوٹ گئی ہے۔ اس وسوسہ اندازی سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی نماز کا سلسلہ منقطع کر دے اور نیت توڑ دے شیطان کی اس تخریب کاری سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب شیطانی اثر سے اس طرح کے واہمے اور شکوک پیدا ہوں تو اپنی نماز کا سلسلہ منقطع نہ کرو، نیت نہ توڑو، بلکہ نماز پوری کرو اور شیطان سے کہو کہ ہاں میں غلطی کر رہا ہوں، نماز میری درست نہیں ہو رہی ہے لیکن میں نماز پڑھوں گا اور تیرے کہنے پر عمل نہیں کروں گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ طریقہ شیطانی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے بہت ہی کارگر ہے۔ اس لیے کہ اس طرح شیطان نمازی سے مایوس ہو جاتا ہے اور جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ یہ میرے قبضے میں آنے والا نہیں ہے تو اس کے پاس سے ہٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ نمازی کو یقین ہے کہ میں نماز ٹھیک پڑھ رہا ہوں، نماز کے ارکان و افعال اور قرأت میں کوئی کوتاہی یا غلطی واقع نہیں ہو رہی ہے اور اگر واقعی اس کی نماز میں کوئی کوتاہی واقع ہو رہی ہے یا ارکان کی ادائیگی میں غلطی ہو رہی ہے اور اس کا احساس ہو رہا ہے تو اس غلطی و کوتاہی کو دور کرنا اور نماز کی صحت و درستی کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے۔ دراصل اس حکم(کہ شیطانی خلل اندازی سے صرف نظر کر کے اپنی پوری کرو) کا بنیادی مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ شیطان سے چوکنا رہو، اس کو اثر انداز ہونے کا موقع نہ دو، اپنے دل و دماغ کو اتنا پاکیزہ اور مجلی رکھو کہ شیطانی وسوسوں اور واہموں کو راہ نہ ملے۔ نماز اس قدر ذہنی یکسوئی توجہ اور حضور قلب کے ساتھ پڑھو کہ شیطان تمہارے پاس آنے کا ارادہ ہی نہ کرے اس حکم کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ غیر درست عمل کو درست نہ کرو اور سہل انگاری دکھاؤ۔