مشکوٰة شر یف

باری مقرر کرنے کا بیان

باری مقرر کرنے کا بیان

اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے ساتھ شب باشی کے لئے نوبت باری مقرر کرنا واجب ہے یعنی ان بیویوں کے پاس باری باری سے جانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

-1 جب باری مقرر ہو جائے تو ایک بیوی کی باری میں دوسری بیوی کے ہاں شب باشی جائز نہیں ہے مثلاً جس رات میں پہلی بیوی کے ہاں جانا ہو اس رات میں دوسری بیوی کے ہاں نہ جائے۔

-2 ایک رات میں بیک وقت دو بیویوں کے ساتھ شب باشی جائز نہیں ہے اگر وہ دونوں بیویاں اس کی اجازت دے دیں اور وہ خود بھی اس کے لئے تیار ہوں تو جائز ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات میں ایک سے زائد بیویوں سے جماع کیا ہے تو یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب کے باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان بیویوں کی اجازت حاصل تھی اس کے علاوہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ باری مقرر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب نہیں تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محض اپنے کرم اور اپنی عنایت سے اپنی ہر زوجہ مطہرہ کے ہاں رہنے کی باری مقرر کر دی تھی۔

-3 سفر کی حالت میں بیویوں کو باری کا حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ کسی بیوی کی باری کا لحاظ رکھنا ضروری ہے بلکہ اس کا انحصار خاوند کی مرضی پر ہے کہ وہ جس بیوی کو چاہے اپنے ساتھ سفر میں لے جائے اگرچہ بہتر اولی یہی ہے کہ خاوند اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈال لے اور جس کا نام قرعہ میں نکلے اس کو سفر میں ساتھ رکھے۔

-4 مقیم کے حق میں اصلی باری کا تعلق رات سے ہے دن رات کا تابع ہے ہاں جو شخص رات میں اپنے کام کاج میں مشغول رہتا ہو مثلاً چوکیداری وغیرہ کرتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ رات اپنے گھر میں بسر نہ کر سکتا ہو تو اس کے حق میں اصل باری کا تعلق دن سے ہو گا۔

درمختار میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر ان بیویوں کے پاس رات میں رہنے اور ان کے کھلانے پلانے میں برابری کرنا واجب ہے ان کے ساتھ جماع کرنے یا جماع نہ کرنے اور پیار و محبت میں برابری کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

کسی عورت کا جماع سے متعلق اس کے شوہر پر حق ہوتا ہے اور وہ ایک بار جماع کرنے سے ساقط ہو جاتا ہے جماع کرنے کے بارے میں شوہر خود مختار ہے کہ جب چاہے کرے لیکن کبھی کبھی جماع کر لینا اس پر دیانۃً واجب ہے اور مدت ایلاء کے بقدر یعنی چار چار مہینہ تک جماع نہ کرنا خاوند کے لئے مناسب نہیں ہے ہاں اگر بیوی کی مرضی سے اتنے دنوں جماع نہ کرے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہر بیوی کے ہاں ایک ایک رات اور ایک ایک دن رہنا چاہئے لیکن برابری کرنا رات ہی میں ضروری ہے چنانچہ اگر کوئی شخص ایک بیوی کے ہاں مغرب کے فوراً بعد چلا گیا اور دوسری بیوی کے ہاں عشاء کے بعد گیا تو اس کا یہ فعل برابری کے منافی ہو گا اور اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس نے باری کے حکم کو ترک کیا کسی بیوی سے اس کی باری کے علاوہ یعنی کسی دوسری بیوی کی باری میں) جماع نہ کرے اسی طرح کسی بیوی کے پاس اس کی باری کے علاوہ کسی رات میں نہ جائے ہاں اگر وہ بیوی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جا سکتا ہے بلکہ اگر اس کا مرض شدید ہو تو اس کی باری کے علاوہ بھی اس کے پاس اس وقت تک رہنا جائز جب تک کہ وہ شفا یاب نہ ہو یا اس کا انتقال ہو جائے لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کے پاس کوئی اور تیمار داری اور غم خواری کے لئے نہ ہو اور اگر خاوند اپنے گھر میں بیماری کی حالت میں ہو تو وہ اپنی ہر بیوی کو اس کی باری میں بلاتا رہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کی تعداد

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات پائی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں نو بیویاں تھیں جن میں سے آٹھ بیویوں کی باری مقرر تھی (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 یوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی گیارہ بیویاں تھیں یہاں صرف ان بیویوں کی تعداد کا ذکر کیا گیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح میں تھیں اور جن کے اسماء یہ ہیں۔

(١) حضرت عائشہ (٢) حضرت حفصہ (٣) حضرت ام حبیبہ (٤) حضرت سودہ (٥) حضرت ام سلمہ (٦) حضرت صفیہ (٧) حضرت میمونہ (٨) حضرت زینب بنت جحش (٩) حضرت جویریہ۔

ان نو بیویوں میں سے آٹھ کی باری مقرر تھی اور نویں حضرت سودہ کے لئے کوئی باری نہ تھی کیونکہ انہوں نے اپنی مرضی سے اپنی باری حضرت عائشہ کو دے دی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی باری میں حضرت عائشہ کے پاس رہتے تھے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا۔

کوئی اپنی باری اپنی کسی سوکن کودے سکتی ہے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت سودہ کی عمر جب زیادہ ہو گئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں نے اپنی باری کا دن جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے لئے مقرر کیا تھا عائشہ کو دے دیا۔ چنانچہ اس کے بعد آپ حضرت عائشہ کے ہاں دو دن رہنے لگے ایک دن تو ان کی باری میں اور ایک دن حضرت سودہ کی باری میں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت سودہ کے والد کا نام زمعہ اور والدہ کا نام سموس تھا پہلے ان کی شادی حضرت سکران کے ساتھ ہوئی تھی یہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے ابتدائی ایام میں اسلام لے آئے تھے اور ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے جب ان کے خاوند حضرت سکران کا انتقال ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان سے نکاح کیا حضرت عائشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح ان کے نکاح کے بعد ہوا۔ حضرت عمر یا حضرت معاویہ کے زمانہ میں ان کا انتقال ہوا اور مدینہ منورہ میں مدفون ہوئیں۔

فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کی کوئی بیوی اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دے تو جائز ہے بشرطیکہ اس میں شوہر کی طرف سے کسی لالچ یا جبر کا دخل نہ ہو نیز اپنی باری اپنی کسی سوکن کو دینے والی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ جب چاہے اپنی پیش کش کو واپس لے لے۔

 

 

٭٭  اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اس بیماری میں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات پائی (روزانہ) یہ پوچھا کرتے تھے کہ کل میں کہاں رہوں گا کہ کل میں کس بیوی کے گھر رہوں گا اور اس دریافت کرنے سے آپ کا منشاء یہ معلوم ہوتا تھا کہ عائشہ کی باری کس دن ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ سے بہت زیادہ محبت تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی باری کے شدت سے منتظر رہتے تھے) چنانچہ ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس قلبی اضطراب کو محسوس کیا تو سب نے یہ اجازت دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس کے ہاں چاہیں رہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ ہی کے ہاں مقیم رہے یہاں تک کہ انہیں کے پاس آپ نے وفات پائی (بخاری)

 

تشریح

 

(یرید یوم عائشۃ) ما قبل جملہ کی وضاحت ہے کہ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا روزانہ پوچھنا ازواج مطہرات سے طلب اجازت کے لئے تھا کہ تمام ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ ہی کے ہاں رہنے کی اجازت دے دیں چنانچہ یہ جملہ (فاذن لہ ازواجہ) ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اجازت دے دی اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔

سفر میں ساتھ لے جانے کے لئے کسی بیوی کا انتخاب قرعہ کے ذریعہ کیا جائے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیوی کے درمیان قرعہ ڈالتے ان میں سے جس کا نام قرعہ میں نکلتا اسی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭  اور حضرت ابو قلابہ تابعی حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا یہ مسنون ہے کہ جب کوئی شخص ثیبہ کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو سات رات تک اس کے پاس رہے اور پھر اس میں اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے اور کسی ثیب یعنی کسی بیوہ یا مطلقہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات رہے اور پھر باری مقرر کر دے۔ حضرت ابو قلابہ کہتے ہیں کہ اگر میں چاہتا تو یہ کہتا کہ حضرت انس نے یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کی ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی شخص کے نکاح میں کئی عورتیں ہوں یا ایک عورت ہو اور پھر وہ ایک عورت سے نکاح کرے تو اگر وہ عورت باکرہ (کنواری) ہو تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور اگر وہ ثیبہ (یعنی بیوہ یا مطلقہ ہو) تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر نئی اور پرانی بیویوں کے درمیان باری مقرر کر دے کہ ہر ایک کے پاس برابر برابر ایک ایک رات جایا کرے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک اس سلسلہ میں باکرہ اور ثیب یا نئی اور پرانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ باری کے اعتبار سے سب برابر ہیں انہوں نے ان دونوں حدیثوں پر عمل کیا ہے جو اس باب کی دوسری فصل میں آئیں گی اور جن میں اس قسم کا فرق و امتیاز بیان نہیں کیا گیا ہے، امام اعظم کے نزدیک اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی ایک یا ایک سے زائد بیویوں کی موجودگی میں کسی باکرہ سے نکاح کرے تو اس کے پاس سات رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے پاس سات سات رات تک رہے اور اگر ثیبہ کے ساتھ نکاح کرے تو اس کے پاس تین رات تک رہے اور پھر پہلی بیویوں سے بھی ہر ایک کے پاس تین تین رات تک رہے۔

روایت کے آخر میں ابو قلابہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں چاہتا تو اس حدیث کو مرفوع کہتا یعنی یہ کہتا کہ اس حدیث کو حضرت انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کیونکہ صحابہ کا یہ کہنا کہ یہ مسنون ہے مرفوع کے حکم میں ہوتا ہے۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت ام سلمہ سے نکاح کیا تو دوسرے دن صبح کو ان سے فرمایا کہ تمہارے خاندان والوں کے لئے تہاری طرف سے اس میں کوئی ذلت نہیں کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے پاس سات رات رہوں اور پھر دوسری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات رات تک رہوں اور اگر تم چاہو تو تمہارے پاس تین رات تک رہوں اور پھر اس کے بعد دورہ کروں (یعنی تمام بیویوں کے پاس بھی تین تین رات تک رہوں) حضرت ام سلمہ نے یہ سن کر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تین راتیں رہئے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ کنواری کے پاس سات رات تک رہنا چاہئے اور ثیبہ کے پاس تین رات تک(مسلم)

 

تشریح

 

 اس میں کوئی ذلت نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے پاس جو تین رات رہوں گا تو اس کی وجہ سے تمہارے خاندان و قبیلہ پر کسی حقارت یا ذلت کا داغ نہیں لگے گا کیونکہ تمہارے ساتھ میرا تین رات تک رہنا تمہاری صحبت و اختلاط سے بے رغبتی کے سبب سے نہیں ہے بلکہ شرعی حکم کی بناء پر ہے ان الفاظ کے ذریعہ گو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عذر کی تمہید بیان فرمائی ہے جس کی وجہ سے شادی کی ابتداء کے ایام میں حضرت ام سلمہ کے ہاں شب باشی کے لئے صرف تین راتوں پر اکتفاء کرنا پڑا اور وہ عذر یہ شرعی حکم ہے کہ اگر اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں کسی اور عورت سے نکاح کیا جائے۔ تو اس نئی بیوی کے ساتھ مسلسل سات دن تک شب باشی اس صورت میں جائز ہو گی جب کہ وہ باکرہ کنواری ہو لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ہاں سات سات دن تک شب باشی ہونی چاہئے۔

تا کہ باری کے اعتبار سے کسی کے ساتھ بے انصافی اور حق تلفی نہ ہو اور اگر وہ نئی بیوی ثیبہ (کسی کی بیوہ یا مطلقہ) ہو تو پھر اس کے ساتھ ساتھ تین دین تک شب باشی کی جائے لیکن اس کے بعد پہلی بیویوں میں سے بھی ہر ایک کے ساتھ تین تین دن تک شب باشی کی جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ام سلمہ کے سامنے اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہارے یہاں بھی سات راتوں تک رہ سکتا ہوں لیکن یہ حق کنواری عورت کے لئے ہے اور تم ثیبہ ہو اور پھر یہ کہ بعد میں مجھے دوری تمام بیویوں کے پاس بھی سات سات راتوں تک رہنا ہو گا اس لئے یہتر یہ ہے کہ ثیبہ کے حق میں جو حکم ہے اسی کے مطابق میں تمہارے پاس تین دن تک شب باشی کروں اور پھر بعد میں ہر ایک بیوی کے ہاں تین تین دن تک شب باشی کر کے تمہارے سب کے درمیان باری مقرر کر دوں لہذا حضرت ام سلمہ نے منشاء شریعت اور مزاج نبوت کے مطابق اسی بات کو قبول کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں تین رات تک رہیں۔

کوئی شخص اپنی تمام بیویوں سے یکساں محبت کرنے پر مجبور نہیں ہے

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں کے درمیان باری مقرر فرماتے اور عدل سے کام لیتے (یعنی ان کے پاس رات رہنے کے سلسلہ میں برابری کا خیال رکھتے) اور پھر اس احتیاط و عدل کے باوجود یہ دعا مانگا کرتے کہ اے اللہ جس چیز کا میں مالک ہوں اس میں باری مقرر کر دی ہے لہذا جس کا تو مالک ہے میں مالک نہیں ہوں اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے!(ترمذی ابو داؤد نسائی ابن ماجہ دارمی)

 

تشریح

 

 دعا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی باری مقرر کرنے اور ان کے نان نفقہ کا میں مالک ہوں لہذا ان چیزوں میں عدل و برابری کرنا میری ذمہ داری ہے جسے میں پورا کرتا ہوں اور کسی بھی بیوی کے ساتھ نا انصافی یا اس کی حق تلفی نہیں کرتا ہاں پیار و محبت کا معاملہ دل سے متعلق ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔ میں اس میں برابری نہیں کر سکتا اس لئے اگر مجھے کسی بیوی سے زیادہ محبت اور کسی سے کم محبت ہو تو چونکہ میرے قصد و ارادہ کو دخل نہیں ہو گا لہذا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس پر یہ لازم ہے کہ وہ ان بیویوں کے پاس جائے ان کے ہاں شب گزارے اور ان کے نان و نفقہ میں پورا پورا عدل کرے اور ان چیزوں میں ان کے درمیان اس طرح برابری کرے کہ کسی بھی بیوی کو فرق و امتیاز کی شکایت نہ ہو ہاں پیار و محبت مباشرت و جماع اور جنسی لطف حاصل کرنے کے بارے میں عدل و برابری لازم نہیں ہو گی کیونکہ یہ چیزیں دل و طبیعت سے متعلق ہیں جس پر کسی انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔

اپنی بیویوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرنے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابو ہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے نکاح میں ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن (میدان حشر میں) اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط ہو گا (ترمذی، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 جس شخص کے ہاں ایک سے زائد بیویاں ہوں خواہو وہ دو ہوں اور خواہ تین یا چار ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرتا ہو تو اس کی اس بے انصافی پر مذکورہ بالا سزا کی دھمکی دی گئی ہے لہذا باری میں برابری کرنا بایں اعتبار سے واجب ہے کہ رات جتنا حصہ ایک بیوی کے ہاں گزارتا ہو اتنا ہی حصہ دوسری بیوی کے ہاں بھی گزارنا چاہئے مثلاً اگر ایک بیوی کے ہاں مغرب کے بعد چلا جاتا ہے تو دوسری بیوی کے ہاں بھی مغرب کے بعد ہی چلا جائے اگر اس کے پاس عشاء کے بعد جائے گا تو یہ عدل و انصاف کے خلاف ہو گا یہاں صحبت کے معاملہ میں برابری کرنا واجب نہیں ہے۔

اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حکم میں باکرہ، ثیبہ، نئی، پرانی مسلمان اور کتابیہ سب برابر ہیں اور سب کے حقوق یکساں ہیں البتہ آزاد عورت کی بہ نسبت لونڈی، کا تبہ، مدبرہ اور ام ولد کیلئے آدھی باری ہے یعنی اگر کسی شخص کے نکاح میں ایک آزاد عورت ہو اور کسی کی لونڈی وغیرہ سے بھی اس نے نکاح کر رکھا ہو تو لونڈی وغیرہ کے پاس ایک رات رہے اور آزاد عورت کے پاس دو راتیں رہے! حرم(باندی) کے لئے باری مقرر کرنا واجب نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نو ازواج مطہرات میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر تھی

حضرت عطاء بن رباح تابعی کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ مقام سرف میں ام المؤمنین حضرت میمونہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تو حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ دیکھو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو اس کو زیادہ حرکت و جنبش نہ دینا بلکہ تعظیم و تکریم کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر) نہایت آہستگی سے اٹھانا اس لئے کہ یہ ان ازواج مطہرات میں سے ہیں جن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے باری مقرر کر رکھی تھی چنانچہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نو بیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کر رکھی تھی اور ایک کے لئے کوئی باری نہیں تھی، حضرت عطاء کہتے ہیں کہ وہ زوجہ حضرت صفیہ تھیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے (بخاری و مسلم) اور رزین کا بیان ہے کہ عطا کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث سے منقول ہے کہ وہ زوجہ مطہرہ جن کے لئے کوئی باری مقرر نہیں تھی (حضرت صفیہ نہیں تھیں بلکہ) حضرت سودہ تھیں اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور حضرت سودہ کے لئے باری مقرر نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت سودہ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میں اپنی باری کا دن عائشہ کو دیتی ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے اپنے نکاح میں رہنے دیجئے تا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں میں شامل رہنے کا شرف مجھے بھی حاصل رہے۔

 

 

                               تشریح

 

 حضرت میمونہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ ہیں حضرت ابن عباس کی خالہ تھیں ان کے والد کا نام حارث تھا ماں کا نام ہندہ تھا خود ان کا نام برہ تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میمونہ رکھا یہ پہلے مسعود ابن عمرو کے نکاح میں تھیں پھر ابو وہم کے ساتھ شادی ہوئی ان کا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ذی قعدہ سن ٦ھ میں مقام سرف جو مکہ معظمہ سے آٹھ میل کا فاصلہ ہے وہاں ان کا نکاح ہوا یہیں شب زفاف گزری اور اتفاق کی بات کہ اسی مقام سرف میں وفات پائی اور یہیں مدفون ہوئیں۔

جن زوجہ مطہرہ کے لئے باری مقرر نہیں تھی وہ حضرت صفیہ تھیں یا حضرت سودہ اس بارے میں بظاہر دو متضاد روایتیں ہیں لیکن تحقیقی بات یہی ہے کہ وہ حضرت سودہ تھیں بلکہ خطابی نے تو عطاء کے اس قول کو کہ وہ حضرت صفیہ تھیں کے بارے میں یہ کہا ہے کہ کسی راوی کی چوک ہے یعنی حضرت عطاء نے تو یہاں حضرت سودہ ہی کہا تھا مگر کسی راوی کی چوک سے حضرت صفیہ نقل ہو گیا۔

وکانت اخرہن موتا ماتت بالمدینۃ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں میں حضرت صفیہ کا سب سے آخر میں مدینہ میں انتقال ہوا ہے توضیح سے پہلے یہ جان لیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے کس زوجہ مطہرہ کا انتقال کب ہوا ہے صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ حضرت صفیہ کا انتقال سن ٥٠ھ کے ماہ رمضان میں ہوا ہے اور بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ ان کا انتقال حضرت معاویہ

کے زمانہ سن ٥٢ یا٥٥ ہجری میں ہوا ہے اور بقیع میں مدفون ہوئیں ہیں حضرت میمونہ کا انتقال ٥١ ہجری میں ہوا اور بعض علماء کے قول کے مطابق ٦٦یا سن ٦٣ ہجری میں ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مدینہ میں ٥٧ ہجری میں وفات پائی جب کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ ان کی وفات سن ٥٨ میں ہوئی ہے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے سن ٥٤ ہجری میں، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے سن ٥٠ یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤١ ہجری میں، حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا نے سن ٥٩ ہجری میں، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے سن ٤٤ ہجری یا بعض علماء کے قول کے مطابق ٤٣ ہجری، حضرت زینب بنت جحش نے سن ٢٠ ہجری میں اور حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا نے سن ٥٠ ہجری میں انتقال کیا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں ہو گیا تھا اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ہی وفات پا گئی تھیں۔

 اب اس تفصیل کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ کہنا کہ  حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا سب سے آخر میں انتقال ہوا ہے، صحیح نہیں ہے اور اگر لفظ کانت کی ضمیر کا مرجع حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو قرار دیا جائے تو بھی بات صحیح نہیں ہوتی کیونکہ اگر بعض علماء کے قول کے مطابق حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا سن وفات سن ٦٦ ہجری یا ٦٣ ہجری زیادہ صحیح تسلیم کر لیا جائے تو ازواج مطہرات میں ان کا سب سے آخر میں انتقال ہونا تو ثابت ہو جائے گا مگر یہ بات خود اسی عبارت کے اگلے جملے ماتت باالمدینہ کے مطابق نہیں ہو گی کیونکہ اس بارے میں حدیث نے وضاحت کر دی ہے کہ ان کا انتقال مقام سرف میں ہوا ہے۔ لہٰذا اس عبارت کا صحیح مفہوم متعین کرنا بڑا مشکل ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس عبارت میں کیا مفہوم پوشیدہ ہے اور اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟