حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّرَجُّلِ إِلَّا غِبًّا".
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پابندی سے) کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے البتہ ناغہ کے ساتھ ہو (تو جائز ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ۲۲ (۱۷۵۶)، سنن النسائی/الزینة ۷ (۵۰۵۹)، (تحفة الأشراف: ۹۶۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحَلَ إِلَى فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَهُوَ بِمِصْرَ، فَقَدِمَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ آتِكَ زَائِرًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ أَنَا وَأَنْتَ حَدِيثًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَكَ مِنْهُ عِلْمٌ، قَالَ: وَمَا هُوَ ؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فَمَا لِي أَرَاكَ شَعِثًا وَأَنْتَ أَمِيرُ الْأَرْضِ ؟ قَالَ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْإِرْفَاهِ، قَالَ: فَمَا لِي لَا أَرَى عَلَيْكَ حِذَاءً ؟ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا".
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا: میں یہاں آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ (مزید) علم ہو، انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ فرمایا: وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا: کیا بات ہے میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس سر زمین کے حاکم ہیں؟ تو ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے، پھر انہوں نے پوچھا: آپ کے پیر میں جوتیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ تو وہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: ذَكَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عِنْدَهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا تَسْمَعُونَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ يَعْنِي التَّقَحُّلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ أَبُو أُمَامَةَ بْنُ ثَعْلَبَةَ الْأَنْصَارِيُّ.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے ایک روز آپ کے پاس دنیا کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:"کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ کیا تم سن نہیں رہے ہو؟ بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے، بیشک سادگی و پراگندہ حالی ایمان کی دلیل ہے" اس سے مراد ترک زینت و آرائش اور خستہ حالی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزھد ۴ (۴۱۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ شَيْبَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُخْتَارِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُكَّةٌ يَتَطَيَّبُ مِنْهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشبو کی ایک ڈبیہ تھی جس سے آپ خوشبو لگایا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، سنن الترمذی/الشمائل (۲۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ، فَلْيُكْرِمْهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس بال ہوں تو اسے چاہیئے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۶۹۱) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي كَرِيمَةُ بِنْتُ هَمَّامٍ، "أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَائِشَةَ رضِيَ اللَّهُ عَنْ خِضَابِ الْحِنَّاءِ، فَقَالَتْ: لَا بَأْسَ بِهِ وَلَكِنْ أَكْرَهُهُ، كَانَ حَبِيبِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكْرَهُ رِيحَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: تَعْنِي خِضَابَ شَعْرِ الرَّأْسِ.
کریمہ بنت ہمام کا بیان ہے کہ ایک عورت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور ان سے مہندی کے خضاب کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن میں اسے ناپسند کرتی ہوں، میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بو ناپسند فرماتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مراد سر کے بال کا خضاب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۱۹ (۵۰۹۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۱۷، ۲۱۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَتْنِي غِبْطَةُ بِنْتُ عَمْرٍو الْمُجَاشِعِيَّةُ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي أُمُّ الْحَسَنِ، عَنْ جَدَّتِهَا، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ هَنْدَ بِنْتَ عُتْبَةَ قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ بَايِعْنِي، قَالَ: "لَا أُبَايِعُكِ حَتَّى تُغَيِّرِي كَفَّيْكِ كَأَنَّهُمَا كَفَّا سَبُعٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھ سے بیعت لے لیجئیے، تو آپ نے فرمایا: "جب تک تم اپنی دونوں ہتھیلیوں کا رنگ نہیں بدلو گی میں تم سے بیعت نہیں لوں گا، گویا وہ دونوں کسی درندے کی ہتھیلیاں ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۹۴) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصُّورِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا مُطِيعُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عِصْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "أَوْمَتِ امْرَأَةٌ مِنْ وَرَاءِ سِتْرٍ بِيَدِهَا كِتَابٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ: مَا أَدْرِي أَيَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأَةٍ ؟ قَالَتْ: بَلِ امْرَأَةٌ، قَالَ: لَوْ كُنْتِ امْرَأَةً لَغَيَّرْتِ أَظْفَارَكِ يَعْنِي بِالْحِنَّاءِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا ایک خط تھا، آپ نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا، اور فرمایا: "مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا" تو اس نے عرض کیا: نہیں، بلکہ یہ عورت کا ہاتھ ہے، تو آپ نے فرمایا: "اگر تم عورت ہوتی تو اپنے ناخن کے رنگ بدلے ہوتی" یعنی مہندی سے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۱۸ (۵۰۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۶۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۶۲) (حسن)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَامَ حَجَّ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَتَنَاوَلَ قُصَّةً مِنْ شَعْرٍ كَانَتْ فِي يَدِ حَرَسِيٍّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ مِثْلِ هَذِهِ وَيَقُولُ: "إِنَّمَا هَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَ هَذِهِ نِسَاؤُهُمْ".
حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا میں نے آپ کو منبر پر کہتے سنا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا جو ایک پہرے دار کے ہاتھ میں تھا لے کر کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے جس وقت ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأنبیاء ۵۴ (۳۴۶۸)، واللباس ۸۳ (۵۹۳۲)، صحیح مسلم/اللباس ۳۳ (۲۱۲۷)، سنن الترمذی/الأدب ۳۲ (۲۷۸۱)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۱۳ (۵۲۴۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۰۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الشعر ۱ (۲)، مسند احمد (۴/۹۵، ۹۷، ۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اس عورت پر جو دوسری عورت کے بال میں بال کو جوڑے، اور اس عورت پر اپنے بالوں میں اور بال جڑوائے، اور اس عورت پر دوسری عورت کا بدن گودے، اور نیل بھرے، اور اس عورت پر جو اپنا بدن گودوائے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۸۳ (۵۹۳۷)، ۸۵ (۵۹۴۰)، ۸۷ (۵۹۴۷)، صحیح مسلم/اللباس ۳۳ (۲۱۲۴)، سنن الترمذی/اللباس ۲۵ (۱۷۵۹)، الأدب ۳۳ (۲۷۸۳)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۱۷ (۵۲۵۳)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۲ (۱۹۸۷)، (تحفة الأشراف: ۸۱۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں اور بال ملا کر لمبے کرنا اور اپنا بدن گودوانا اور اس میں نیل بھرنا حرام ہے ، اور جس کے بال جوڑے جائیں اور جو عورت بال جوڑے اور جو عورت اپنا بدن گودوائے اور نیل بھروائے اور جو عورت گودے اور نیل بھرے ان پر لعنت پڑتی ہے ، اس لیے عورتوں کو ایسے کام کرنے اور کرانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْوَاصِلَاتِ، وَقَالَ عُثْمَانُ: وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَبَلَغَ ذَلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا: أُمُّ يَعْقُوبَ زَادَ عُثْمَانُ كَانَتْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ اتَّفَقَا، فَأَتَتْهُ فَقَالَتْ: بَلَغَنِي عَنْكَ أَنَّكَ لَعَنْتَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْوَاصِلَاتِ، وَقَالَ عُثْمَانُ: وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، ثُمَّ اتَّفَقَا: وَالْمُتَفَلِّجَاتِ، قَالَ عُثْمَانُ: لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ تَعَالَى، فَقَالَ: وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، قَالَتْ: لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ لَوْحَيِ الْمُصْحَفِ فَمَا وَجَدْتُهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ ثُمَّ قَرَأَ: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7، قَالَتْ: إِنِّي أَرَى بَعْضَ هَذَا عَلَى امْرَأَتِكَ، قَالَ: فَادْخُلِي فَانْظُرِي، فَدَخَلَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتِ ؟ وَقَالَ عُثْمَانُ: فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ، فَقَالَ: لَوْ كَانَ ذَلِكَ مَا كَانَتْ مَعَنَا".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے جسم میں گودنے لگانے والیوں اور گودنے لگوانے والیوں پر لعنت کی ہے، (محمد کی روایت میں ہے) اور بال جوڑنے والیوں پر، (اور عثمان کی روایت میں ہے) اور اپنے بال اکھیڑنے والیوں پر، جو زیب و زینت کے واسطہ منہ کے روئیں اکھیڑتی ہیں، اور خوبصورتی کے لیے اپنے دانتوں میں کشادگی کرانے والیوں، اور اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والیوں پر۔ تو یہ خبر قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت (ام یعقوب نامی) کو پہنچی جو قرآن پڑھا کرتی تھی، تو وہ عبداللہ بن مسعود کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ نے گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر اور بال جوڑنے والیوں اور بال اکھیڑنے والیوں پر اور دانتوں کے درمیان کشادگی کرانے والیوں پر خوبصورتی کے لیے جو اللہ کی بنائی ہوئی شکل تبدیل کر دیتی ہیں پر لعنت کی ہے؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: میں ان پر کیوں نہ لعنت کروں جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہو اور وہ اللہ کی کتاب کی رو سے بھی ملعون ہوں؟ تو اس عورت نے کہا: میں تو پورا قرآن پڑھ چکی ہوں لیکن یہ مسئلہ مجھے اس میں کہیں نہیں ملا؟ تو عبداللہ بن مسعود نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم نے اسے پڑھا ہوتا تو یہ مسئلہ ضرور پاتی پھر آپ نے آیت کریمہ «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا»"اور تمہیں جو کچھ رسول دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں رک جاؤ" (الحشر: ۷) پڑھی تو وہ بولی: میں نے تو اس میں سے بعض چیزیں آپ کی بیوی کو بھی کرتے دیکھا ہے، آپ نے کہا: اچھا اندر جاؤ اور دیکھو تو وہ اندر گئیں پھر باہر آئیں تو آپ نے پوچھا: تم نے کیا دیکھا ہے؟ تو اس عورت نے کہا: مجھے کوئی چیز نظر نہیں آئی تو آپ نے فرمایا: اگر وہ ایسا کرتی تو پھر میرے ساتھ نہ رہتی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة الحشر ۴ (۴۸۸۶)، اللباس ۸۲ (۵۹۳۱)، ۸۴ (۵۹۳۹)، ۸۵ (۵۹۴۳)، ۸۶ (۵۹۴۴)، ۸۷ (۵۹۴۸)، صحیح مسلم/اللباس ۳۳ (۲۱۲۵)، سنن الترمذی/الأدب ۳۳ (۲۷۸۲)، سنن النسائی/الزینة ۲۴ (۵۱۰۲)، ۲۶ (۵۱۱۰، ۵۱۱۱)، الزینة من المجتبی ۱۸ (۵۲۵۴)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۵۲ (۱۹۸۹)، (تحفة الأشراف: ۹۴۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۴۰۹، ۴۱۵، ۴۳۴، ۴۴۸، ۴۵۴، ۴۶۲، ۴۶۵)، سنن الدارمی/الاشتذان ۱۹ (۲۶۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "لُعِنَتِ الْوَاصِلَةُ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ وَالنَّامِصَةُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ وَالْوَاشِمَةُ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ مِنْ غَيْرِ دَاءٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَتَفْسِيرُ الْوَاصِلَةِ الَّتِي تَصِلُ الشَّعْرَ بِشَعْرِ النِّسَاءِ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالنَّامِصَةُ الَّتِي تَنْقُشُ الْحَاجِبَ حَتَّى تُرِقَّهُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالْوَاشِمَةُ الَّتِي تَجْعَلُ الْخِيلَانَ فِي وَجْهِهَا بِكُحْلٍ أَوْ مِدَادٍ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ملعون قرار دی گئی ہے بال جوڑنے والی، اور جڑوانے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی، اور بغیر کسی بیماری کے گودنے لگانے والی اور گودنے لگوانے والی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «واصلة» اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کے بال میں بال جوڑے، اور «مستوصلة» اسے کہتے ہیں جو ایسا کروائے، اور «نامصة» وہ عورت ہے جو ابرو کے بال اکھیڑ کر باریک کرے، اور«متنمصة» وہ ہے جو ایسا کروائے، اور «واشمة» وہ عورت ہے جو چہرہ میں سرمہ یا سیاہی سے خال (تل) بنائے، اور «مستوشمة» وہ ہے جو ایسا کروائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۳۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيَكٌ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "لَا بَأْسَ بِالْقَرَامِلِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَأَنَّهُ يَذْهَبُ إِلَى أَنَّ الْمَنْهِيَّ عَنْهُ شُعُورُ النِّسَاءِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَانَ أَحْمَدُ يَقُولُ الْقَرَامِلُ لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں بالوں کی چوٹیاں بنا کر کسی چیز سے باندھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: گویا وہ اس بات کی طرف جا رہے ہیں کہ جس سے منع کیا گیا ہے وہ دوسری عورت کے بال اپنے بال میں جوڑنا ہے نہ کہ اپنے بالوں کی چوٹی باندھنی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: احمد کہتے تھے: چوٹی باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۶۷۹) (ضعیف منکر)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَعْنَى، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ عُرِضَ عَلَيْهِ طِيبٌ فَلَا يَرُدَّهُ فَإِنَّهُ طَيِّبُ الرِّيحِ خَفِيفُ الْمَحْمَلِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے خوشبو کا (تحفہ) پیش کیا جائے تو وہ اسے لوٹائے نہیں کیونکہ وہ خوشبودار ہے اور اٹھانے میں ہلکا ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب ۵ (۲۲۵۳)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۲۰ (۵۲۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۴۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۲۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے رکھنے اور اٹھانے میں کسی پریشانی اور زحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ثَابِتُ بْنُ عُمَارَةَ، حَدَّثَنِي غُنَيْمُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا اسْتَعْطَرَتِ الْمَرْأَةُ فَمَرَّتْ عَلَى الْقَوْمِ لِيَجِدُوا رِيحَهَا فَهِيَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: قَوْلًا شَدِيدًا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب عورت عطر لگائے پھر وہ لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی اور ایسی ہے" آپ نے (ایسی عورت کے متعلق) بڑی سخت بات کہی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الأدب ۳۵ (۲۷۸۶)، سنن النسائی/الزینة ۳۵ (۵۱۲۹)، (تحفة الأشراف: ۹۰۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۰، ۴۱۴، ۴۱۸) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلَى أَبِي رُهْمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَجَدَ مِنْهَا رِيحَ الطِّيبِ يَنْفَحُ وَلِذَيْلِهَا إِعْصَارٌ، فَقَالَ: يَا أَمَةَ الْجَبَّارِ جِئْتِ مِنَ الْمَسْجِدِ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: وَلَهُ تَطَيَّبْتِ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ حِبِّي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ لِامْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ لِهَذَا الْمَسْجِدِ حَتَّى تَرْجِعَ فَتَغْتَسِلَ غُسْلَهَا مِنَ الْجَنَابَةِ"، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: الْإِعْصَارُ غُبَارٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان سے ایک عورت ملی جس سے آپ نے خوشبو پھوٹتے محسوس کیا، اور اس کے کپڑے ہوا سے اڑ رہے تھے تو آپ نے کہا: جبار کی بندی! تم مسجد سے آئی ہو؟ وہ بولی: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ بولی: ہاں، آپ نے کہا: میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کر لے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «اعصار» غبار ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۹ (۴۰۰۲)، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۶، ۲۹۷، ۳۶۵، ۴۴۴، ۴۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی وہ ہوا جو مٹی و غبار کے ساتھ گولائی میں ستون کے مانند اوپر اٹھتی ہے، جسے بگولہ کہا جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو عَلْقَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدَنَّ مَعَنَا الْعِشَاءَ"، قَالَ ابْنُ نُفَيْلٍ: عِشَاءَ الْآخِرَةِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس عورت نے خوشبو کی دھونی لے رکھی ہو تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کے لیے (مسجد میں) نہ آئے" (بلکہ وہ گھر ہی میں پڑھ لے) ۔ ابن نفیل کی روایت میں «العشاء» کے بجائے «عشاء الآخرة» ہے (یعنی عشاء کی صلاۃ) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۳۰ (۴۴۴)، سنن النسائی/الزینة ۳۷ (۵۱۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: "قَدِمْتُ عَلَى أَهْلِي لَيْلًا وَقَدْ تَشَقَّقَتْ يَدَايَ، فَخَلَّقُونِي بِزَعْفَرَانٍ، فَغَدَوْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، وَلَمْ يُرَحِّبْ بِي، وَقَالَ: اذْهَبْ فَاغْسِلْ هَذَا عَنْكَ، فَذَهَبْتُ فَغَسَلْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ وَقَدْ بَقِيَ عَلَيَّ مِنْهُ رَدْعٌ فَسَلَّمْتُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَلَمْ يُرَحِّبْ بِي، وَقَالَ: اذْهَبْ فَاغْسِلْ هَذَا عَنْكَ، فَذَهَبْتُ فَغَسَلْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ وَرَحَّبَ بِي، وَقَالَ: إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَحْضُرُ جَنَازَةَ الْكَافِرِ بِخَيْرٍ وَلَا الْمُتَضَمِّخَ بِالزَّعْفَرَانِ وَلَا الْجُنُبَ، قَالَ: وَرَخَّصَ لِلْجُنُبِ إِذَا نَامَ أَوْ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ أَنْ يَتَوَضَّأَ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس رات کو آیا، میرے دونوں ہاتھ پھٹے ہوئے تھے تو ان لوگوں نے اس میں زعفران کا خلوق (ایک مرکب خوشبو ہے) لگا دیا، پھر میں صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کیا تو آپ نے نہ میرے سلام کا جواب دیا اور نہ خوش آمدید کہا اور فرمایا: "جا کر اسے دھو ڈالو" میں نے جا کر اسے دھو دیا، پھر آیا، اور میرے ہاتھ پر خلوق کا اثر (دھبہ) باقی رہ گیا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور نہ خوش آمدید کہا اور فرمایا: "جا کر اسے دھو ڈالو" میں گیا اور میں نے اسے دھویا، پھر آ کر سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور خوش آمدید کہا، اور فرمایا: "فرشتے کافر کے جنازہ میں کوئی خیر لے کر نہیں آتے، اور نہ اس شخص کے جو زعفران ملے ہو، نہ جنبی کے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو رخصت دی کہ وہ سونے، کھانے، یا پینے کے وقت وضو کر لے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۲۰) وأعاد المؤلف بعضہ فی السنة (۴۶۰۱) (حسن)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَطَاءِ ابْنِ أَبِي الْخُوَارِ، أَنَّه سَمِعُيَحْيَى بْنَ يَعْمَرَ يُخْبِرُ، عَنْ رَجُلٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، زَعَمَ عُمَرُ: أَنَّ يَحْيَى سَمَّى ذَلِكَ الرَّجُلَ، فَنَسِيَ عُمَرُ اسْمَهُ أَنَّ عَمَّارًا، قَالَ: تَخَلَّقْتُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ بِكَثِيرٍ فِيهِ ذِكْرُ الْغُسْلِ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ: وَهُمْ حُرُمٌ ؟ قَالَ: لَا، الْقَوْمُ مُقِيمُونَ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں میں خلوق ملا، پہلی روایت زیادہ کامل ہے اس میں "دھونے کا ذکر ہے"۔ ابن جریج کہتے ہیں: میں نے عمر بن عطاء سے پوچھا: وہ لوگ محرم تھے؟ کہا: نہیں، بلکہ سب مقیم تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۷۶) (حسن)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَرْبٍ الْأَسَدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَدَّيْهِ، قَالَا: سَمِعْنَا أَبَا مُوسَى، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقْبَلُ اللَّهُ تَعَالَى صَلَاةَ رَجُلٍ فِي جَسَدِهِ شَيْءٌ مِنْ خَلُوقٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: جَدَّاهُ زَيْدٌ، وَزِيَادٌ.
ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے بدن میں کچھ بھی خلوق (زعفران سے مرکب خوشبو) لگی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۹۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۰۳) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ، وَإِسْمَاعِيل بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَاهُمْ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ"، وَقَالَ عَنْ إِسْمَاعِيل، أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو زعفران لگانے سے منع فرمایا ہے۔ اور اسماعیل کی روایت میں«عن التزعفر للرجال» کے بجائے «أن يتزعفرالرجل» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۳ (۲۱۰۱)، سنن الترمذی/الأدب ۵۱ (۲۸۱۵)، سنن النسائی/الحج ۴۳ (۲۷۰۷)، الزینة من المجتبی ۱۹ (۵۲۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۱، ۹۹۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۳۳ (۵۸۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ثَلَاثَةٌ لَا تَقْرَبُهُمُ الْمَلَائِكَةُ: جِيفَةُ الْكَافِرِ، وَالْمُتَضَمِّخُ بِالْخَلُوقِ، وَالْجُنُبُ إِلَّا أَنْ يَتَوَضَّأَ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین آدمی ایسے ہیں کہ فرشتے ان کے قریب نہیں جاتے: ایک کافر کی لاش کے پاس، دوسرے جو زعفران میں لت پت ہو اور تیسرے جنبی (ناپاک) إلا یہ کہ وہ وضو کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۴۷) (حسن)
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، قَالَ: "لَمَّا فَتَحَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ جَعَلَ أَهْلُ مَكَّةَ يَأْتُونَهُ بِصِبْيَانِهِمْ، فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ وَيَمْسَحُ رُءُوسَهُمْ، قَالَ: فَجِيءَ بِي إِلَيْهِ وَأَنَا مُخَلَّقٌ فَلَمْ يَمَسَّنِي مِنْ أَجْلِ الْخَلُوقِ".
ولید بن عقبہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابن مکہ اپنے بچوں کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، مجھے بھی آپ کی خدمت میں لایا گیا، لیکن مجھے خلوق لگا ہوا تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۲) (منکر)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، "أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا يُوَاجِهُ رَجُلًا فِي وَجْهِهِ بِشَيْءٍ يَكْرَهُهُ فَلَمَّا خَرَجَ، قَالَ: لَوْ أَمَرْتُمْ هَذَا أَنْ يَغْسِلَ هَذَا عَنْهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس پر (زعفران کی) زردی کا نشان تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم کسی ایسے شخص کا سامنا فرماتے جس کے چہرہ پہ کوئی ایسی چیز ہوتی جسے آپ ناپسند فرماتے، چنانچہ جب وہ چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کاش تم لوگ اسے حکم دیتے کہ وہ اسے اپنے سے دھو ڈالے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۶۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/ الشمائل ۳۴۶)، سنن النسائی/ الیوم واللیلة (۲۳۵)، وأعادہ المؤلف فی الأدب (۴۷۸۹)، مسند احمد (۳/۱۳۳، ۱۵۴، ۱۶۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِالْبَرَاءِ، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، زَادَ مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَذَا رَوَاهُ إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، وَقَالَ شُعْبَةُ: يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ.
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جو کان کی لو سے نیچے بال رکھے ہو اور سرخ جوڑے میں ملبوس ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا (محمد بن سلیمان کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ کے بال دونوں شانوں سے لگ رہے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے اسرائیل نے ابواسحاق سے روایت کیا ہے کہ وہ بال آپ کے دونوں شانوں سے لگ رہے تھے اور شعبہ کہتے ہیں: "وہ آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچ رہے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفضائل ۲۵ (۲۳۳۷)، سنن الترمذی/اللباس ۴ (۱۷۲۴)، الأدب ۴۷ (۲۸۱۱)، المناقب ۸ (۳۶۳۵)، الشمائل ۱ (۳)، ۳ (۲۵)، سنن النسائی/الزینة ۹ (۵۰۶۳)، الزینة من المجتبی ۵ (۵۲۳۵)، ۳۹ (۵۳۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۴۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب ۳۳ (۳۵۵۱)، واللباس ۳۵ (۵۸۴۸)، ۶۸ (۵۹۰۳)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۰ (۳۵۹۹)، مسند احمد (۴/۲۸۱، ۲۹۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ شَعْرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ".
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۰۷۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک رہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الشمائل ۳ (۲۹)، سنن النسائی/الزینة ۹ (۵۰۶۴)، الزینة من المجتبی ۵ (۵۲۳۶)، (تحفة الأشراف: ۴۶۹، ۱۸۹۶۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۶۸ (۵۹۰۴)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۶ (۳۶۳۴)، مسند احمد (۳/۱۱۳، ۱۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے آدھے کانوں تک رہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الفضائل ۲۶ (۲۳۳۸)، سنن الترمذی/ الشمائل (۲۴)، سنن النسائی/ الزینة من المجتبی ۵ (۵۲۳۶)، (تحفة الأشراف: ۵۶۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۴۲، ۲۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوْقَ الْوَفْرَةِ وَدُونَ الْجُمَّةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال «وفرہ» ۱؎ سے بڑے اور «جمہ» ۲؎ سے چھوٹے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ۲۱ (۱۷۵۵)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۶ (۳۶۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۷۰۱۹) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کان تک کے بال کو «وفرہ» کہتے ہیں۔ ۲؎ : اور شانہ تک کے بال کو «جمہ» کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَعْنِي يَسْدِلُونَ أَشْعَارَهُمْ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُعْجِبُهُ مُوَافَقَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ بِهِ فَسَدَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاصِيَتَهُ ثُمَّ فَرَقَ بَعْدُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۸)، ومناقب الأنصار ۵۲ (۳۹۴۴)، واللباس ۷۰ (۵۹۱۷)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۴ (۲۳۳۶)، سنن الترمذی/الشمائل ۳ (۲۹)، سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۷ (۵۲۴۰)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۶ (۳۶۳۲)، (تحفة الأشراف: ۵۸۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۶، ۲۶۱، ۲۸۷، ۳۲۰ ) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كُنْتُ إِذَا أَرَدْتُ أَنْ أَفْرُقَ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَعْتُ الْفَرْقَ مِنْ يَافُوخِهِ وَأُرْسِلُ نَاصِيَتَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں مانگ نکالنی چاہتی تو سر کے بیچ سے نکالتی، اور پیشانی کے بالوں کو دونوں آنکھوں کے بیچ کی سیدھ سے آدھا ایک طرف اور آدھا دوسری طرف لٹکا دیا کرتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۹۰، ۲۷۵) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، وَسُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ السُّوَائِيُّ هُوَ أَخُو قَبِيصَةَ، وَحُمَيْدُ بْنُ خُوَارٍ، عَنْسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: "أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِي شَعْرٌ طَوِيلٌ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ذُبَابٌ ذُبَابٌ، قَالَ: فَرَجَعْتُ فَجَزَزْتُهُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَعْنِكَ وَهَذَا أَحْسَنُ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے بال لمبے تھے تو جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "نحوست ہے، نحوست" تو میں واپس لوٹ گیا اور جا کر اسے کاٹ ڈالا، پھر دوسرے دن آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے فرمایا:"میں نے تیرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی، یہ اچھا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۶ (۵۰۵۵)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۷ (۳۶۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ"قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ وَلَهُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ تَعْنِي عَقَائِصَ".
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے اور (اس وقت) آپ کی چار چوٹیاں تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ۳۹ (۱۷۸۱)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۶ (۳۶۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۴۱، ۴۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، وَابْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي يَعْقُوبَيُحَدِّثُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمْهَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ يَأْتِيَهُمْ ثُمَّ أَتَاهُمْ، فَقَالَ: لَا تَبْكُوا عَلَى أَخِي بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا لِي بَنِي أَخِي فَجِيءَ بِنَا كَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ادْعُوا لِي الْحَلَّاقَ، فَأَمَرَهُ فَحَلَقَ رُءُوسَنَا".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر کے گھر والوں کو تین دن کی مہلت دی پھر آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "آج کے بعد میرے بھائی پر تم نہ رونا ۱؎" پھر فرمایا: "میرے پاس میرے بھتیجوں کو بلاؤ" تو ہمیں آپ کی خدمت میں لایا گیا، ایسا لگ رہا تھا گویا ہم چوزے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حجام کو بلاؤ" اور آپ نے اسے حکم دیا تو اس نے ہمارے سر مونڈے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۳ (۵۲۲۹)، (تحفة الأشراف: ۵۲۱۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے پتہ چلا کہ چیخ و پکار اور سینہ کوبی کے بغیر میت پر تین دن تک رونا اور اظہار غم کرنا جائز ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: أَحْمَدُ كَانَ رَجُلًا صَالِحًا، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقَزَعِ وَالْقَزَعُ أَنْ يُحْلَقَ رَأْسُ الصَّبِيِّ فَيُتْرَكَ بَعْضُ شَعْرِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کے کچھ بال چھوڑ دئیے جائیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۷۲ (۵۹۲۱)، صحیح مسلم/اللباس ۳۱ (۲۱۲۰)، سنن النسائی/الزینة ۵ (۵۰۵۳)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۸ (۳۶۳۷)، (تحفة الأشراف: ۸۲۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲ /۴، ۳۹، ۵۵، ۶۷، ۸۲، ۸۳، ۱۰۱، ۱۰۶، ۱۱۸، ۱۳۷، ۱۴۳، ۱۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَى عَنِ الْقَزَعِ، وَهُوَ أَنْ يُحْلَقَ رَأْسُ الصَّبِيِّ فَتُتْرَكَ لَهُ ذُؤَابَةٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «قزع» سے منع فرمایا ہے، اور «قزع» یہ ہے کہ بچے کا سر مونڈ دیا جائے اور اس کی چوٹی چھوڑ دی جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۵۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۰۱، ۱۴۳، ۱۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، "أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى صَبِيًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ شَعْرِهِ وَتُرِكَ بَعْضُهُ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ، وَقَالَ: احْلِقُوهُ كُلَّهُ أَوِ اتْرُكُوهُ كُلَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے کچھ بال منڈے ہوئے تھے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے تو آپ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا: "یا تو پورا مونڈ دو، یا پورا چھوڑے رکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۳ (۵۰۵۱)، مسند احمد (۲/۸۸) وانظر رقم : (۴۱۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۵۲۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس ۳۱ (۲۱۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كَانَتْ لِي ذُؤَابَةٌ، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: لَا أَجُزُّهَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُدُّهَا وَيَأْخُذُ بِهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک چوٹی تھی، میری ماں نے مجھ سے کہا: میں اس کو نہیں کاٹوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ازراہ شفقت) اسے پکڑ کر کھینچتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۲۶) (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ حَسَّانَ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَحَدَّثَتْنِي أُخْتِي الْمُغِيرَةُ، قَالَتْ: وَأَنْتَ يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ وَلَكَ قَرْنَانِ أَوْ قُصَّتَانِ، فَمَسَحَ رَأْسَكَ وَبَرَّكَ عَلَيْكَ، وَقَالَ: "احْلِقُوا هَذَيْنِ أَوْ قُصُّوهُمَا فَإِنَّ هَذَا زِيُّ الْيَهُودِ".
حجاج بن حسان کا بیان ہے ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، مجھ سے میری بہن مغیرہ نے بیان کیا: تو اس وقت لڑکا تھا اور تیرے سر پر دو چوٹیاں یا دو لٹیں تھیں تو انہوں نے تمہارے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی اور کہا: ان دونوں کو مونڈوا ڈالو، یا انہیں کاٹ ڈالو کیونکہ یہ یہود کا طریقہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۲۲) (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْفِطْرَةُ خَمْسٌ أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "پانچ چیزیں فطرت ہیں یا فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف کے بال مونڈنا، بغل کا بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا اور مونچھ کاٹنا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۶۳ (۵۸۸۹)، ۶۴ (۵۸۹۱) الاستئذان ۵۱ (۶۲۹۷)، صحیح مسلم/الطھارة ۱۶ (۲۵۷)، سنن النسائی/الطھارة ۹ (۹)، الزینة من المجتبی ۱ (۵۲۲۷)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۸ (۲۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۶) ، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب ۱۴ (۲۷۵۶)، موطا امام مالک/صفة النبی ۳ (۳ موقوفاً) مسند احمد (۲/۲۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ وَإِعْفَاءِ اللِّحَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کے خوب کترنے، اور داڑھیوں کے بڑھانے کا حکم دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۱۶ (۲۵۹)، سنن الترمذی/الأدب ۱۸ (۲۷۶۴)، سنن النسائی/الطھارة ۱۵ (۱۵)، الزینة ۵۴ (۵۲۲۸)، (تحفة الأشراف: ۸۵۴۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/اللباس ۶۴ (۵۸۹۲)، ۶۵ (۵۸۹۳)، الزینة من السنن ۲ (۵۰۴۹)، الزینة من المجتبی ۲ (۵۲۲۸)، موطا امام مالک/الشعر ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا صَدُقَةُ الدَّقِيقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "وَقَّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلْقَ الْعَانَةِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ وَقَصَّ الشَّارِبِ وَنَتْفَ الْإِبِطِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا مَرَّةً"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ أَنَسٍ، لَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وُقِّتَ لَنَا وَهَذَا أَصَحُّ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر ناف کے بال مونڈنے، ناخن کاٹنے، مونچھیں تراشنے اور بغل کے بال اکھاڑنے کی چالیس دن میں ایک بار کی تحدید فرما دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے جعفر بن سلیمان نے ابوعمران سے اور انہوں نے انس سے روایت کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں «وقَّتَ لنا» کے بجائے «وُقِّتَ لنا» بصیغہ مجہول ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۱۶ (۲۵۸)، سنن الترمذی/الأدب ۱۴ (۲۷۵۸)، سنن النسائی/الطھارة ۱۴ (۱۴)، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۸ (۲۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۲، ۲۰۳، ۲۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَقَرَأَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ عَلَى أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "كُنَّا نُعْفِي السِّبَالَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الِاسْتِحْدَادُ حَلْقُ الْعَانَةِ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حج و عمرہ کے سوا ہمیشہ داڑھیوں کو لٹکتا رہنے دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «استحداد» کے معنی زیر ناف مونڈنے کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۷۸۹) (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْمَعْنَى، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ عَنْ سُفْيَانَ: إِلَّا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى: إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفید بال نہ اکھیڑو، اس لیے کہ جس مسلمان کا کوئی بال حالت اسلام میں سفید ہوا ہو (سفیان کی روایت میں ہے) تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن نور ہو گا (اور یحییٰ کی روایت میں ہے) اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۷۸۳، ۸۸۰۱ )، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب ۵۹ (۲۸۲۱)، سنن النسائی/الزینة ۱۳ (۵۰۸۳)، سنن ابن ماجہ/الأدب ۲۵ (۳۷۲۱)، مسند احمد (۲/۲۰۶، ۲۰۷، ۲۱۲) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہود و نصاریٰ اپنی داڑھیاں نہیں رنگتے ہیں، لہٰذا تم ان کی مخالفت کرو"، یعنی انہیں خضاب سے رنگا کرو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأنبیاء ۵۰ (۳۴۶۲) واللباس ۶۷ (۵۸۹۹)، صحیح مسلم/اللباس ۲۵ (۲۱۰۳)، سنن الترمذی/اللباس ۲۰ (۱۷۵۲)، سنن النسائی/الزینة ۱۴ (۵۰۷۵)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۳ (۳۶۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۸۰، ۱۵۱۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۰، ۲۶۰، ۳۰۹، ۴۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أُتِيَ بِأَبِي قُحَافَةَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَرَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ كَالثَّغَامَةِ بَيَاضًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "غَيِّرُوا هَذَا بِشَيْءٍ وَاجْتَنِبُوا السَّوَادَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد) ابوقحافہ کو لایا گیا، ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ (نامی سفید رنگ کے پودے) کے مانند سفید تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللباس ۲۴ (۲۱۰۲)، سنن النسائی/الزینة ۱۵، (۵۲۴۴)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۳ (۳۶۲۴)، (تحفة الأشراف: ۲۸۰۷، ۵۰۷۹) ، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۱۶، ۳۲۲، ۳۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِهِ هَذَا الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے اچھی چیز جس سے اس بڑھاپے (بال کی سفیدی) کو بدلا جائے حناء (مہندی) اور کتم (وسمہ) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ۲۰ (۱۷۵۳)، سنن النسائی/الزینة ۱۶ (۵۰۸۱، ۵۰۸۲)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۲ (۳۶۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۲۷، ۱۸۸۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴۷، ۱۵۰، ۱۵۴، ۱۵۶، ۱۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ إِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: "انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ ذُو وَفْرَةٍ بِهَا رَدْعُ حِنَّاءٍ وَعَلَيْهِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ".
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا تو دیکھا کہ آپ کے سر کے بال کان کی لو تک ہیں، ان میں مہندی لگی ہوئی ہے، اور آپ کے جسم مبارک پر سبز رنگ کی دو چادریں ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۰۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبْجَرَ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبِي: أَرِنِي هَذَا الَّذِي بِظَهْرِكَ فَإِنِّي رَجُلٌ طَبِيبٌ، قَالَ: اللَّهُ الطَّبِيبُ بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ رَفِيقٌ طَبِيبُهَا الَّذِي خَلَقَهَا.
اس سند سے ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث میں مروی ہے کہ میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ اپنی وہ چیز دکھائیں جو آپ کی پشت پر ہے کیونکہ میں طبیب ہوں، آپ نے فرمایا: "طبیب تو اللہ ہے، بلکہ تو رفیق ہے (مریض کو تسکین اور دلاسے دیتا ہے) طبیب تو وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۰۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: "أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي فَقَالَ لِرَجُلٍ أَوْ لِأَبِيهِ: مَنْ هَذَا ؟ قَالَ: ابْنِي، قَالَ: لَا تَجْنِي عَلَيْهِ وَكَانَ قَدْ لَطَّخَ لِحْيَتَهُ بِالْحِنَّاءِ".
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے ایک شخص سے یا میرے والد سے پوچھا: "یہ کون ہے؟" وہ بولے: میرا بیٹا ہے، آپ نے فرمایا: "یہ تمہارا بوجھ نہیں اٹھائے گا، تم جو کرو گے اس کی باز پرس تم سے ہو گی، آپ نے اپنی داڑھی میں مہندی لگا رکھی تھی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الشمائل (۴۳، ۴۵)، سنن النسائی/القسامة ۳۵ (۴۸۳۶)، ویأتی برقم (۴۴۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، "أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ خِضَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَخْضِبْ وَلَكِنْ قَدْ خَضَبَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خضاب لگایا ہی نہیں، ہاں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے لگایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۳ (۳۵۵۰)، اللباس ۶۶ (۵۸۹۵)، صحیح مسلم/الفضائل ۲۹ (۲۳۴۱)، (تحفة الأشراف: ۲۹۳)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الزینة ۱۷ (۵۰۹۰)، مسند احمد (۳/۲۱۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مُطَرِّفٍ أَبُو سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ يَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ وَيُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ بِالْوَرْسِ وَالزَّعْفَرَانِ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھال کی سبتی جوتیاں پہنتے تھے جس پر بال نہیں ہوتے تھے، اور اپنی داڑھی ورس ۱؎ اور زعفران سے رنگتے تھے، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة من المجتبی ۱۲ (۵۲۴۶)، (تحفة الأشراف: ۷۷۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ورس ایک قسم کی گھاس ہے جس سے رنگتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ قَدْ خَضَّبَ بِالْحِنَّاءِ، فَقَالَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا ؟ قَالَ: فَمَرَّ آخَرُ قَدْ خَضَّبَ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ، فَقَالَ: هَذَا أَحْسَنُ مِنْ هَذَا، قَالَ: فَمَرَّ آخَرُ قَدْ خَضَّبَ بِالصُّفْرَةِ، فَقَالَ: هَذَا أَحْسَنُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک شخص گزرا جس نے مہندی کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ نے فرمایا: "یہ کتنا اچھا ہے" پھر ایک اور شخص گزرا جس نے مہندی اور کتم کا خضاب لگا رکھا تھا، تو آپ نے فرمایا: "یہ اس سے بھی اچھا ہے" اتنے میں ایک تیسرا شخص زرد خضاب لگا کے گزرا تو آپ نے فرمایا: "یہ ان سب سے اچھا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/اللباس ۳۴ (۳۶۲۷)، (تحفة الأشراف: ۵۷۲۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَكُونُ قَوْمٌ يَخْضِبُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ بِالسَّوَادِ كَحَوَاصِلِ الْحَمَامِ لَا يَرِيحُونَ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آخر زمانے میں کچھ لوگ کبوتر کے سینے کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۱۵ (۵۰۷۸)، (تحفة الأشراف: ۵۵۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۷۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ الشَّامِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْمُنَبِّهِيِّ، عَنْثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَافَرَ كَانَ آخِرُ عَهْدِهِ بِإِنْسَانٍ مِنْ أَهْلِهِ فَاطِمَةَ، وَأَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ عَلَيْهَا إِذَا قَدِمَ فَاطِمَةَ، فَقَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ لَهُ وَقَدْ عَلَّقَتْ مِسْحًا أَوْ سِتْرًا عَلَى بَابِهَا وَحَلَّتِ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ قُلْبَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ فَقَدِمَ فَلَمْ يَدْخُلْ فَظَنَّتْ أَنَّ مَا مَنَعَهُ أَنْ يَدْخُلَ مَا رَأَى، فَهَتَكَتِ السِّتْرَ وَفَكَّكَتِ الْقُلْبَيْنِ عَنِ الصَّبِيَّيْنِ وَقَطَّعَتْهُ بَيْنَهُمَا، فَانْطَلَقَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا يَبْكِيَانِ، فَأَخَذَهُ مِنْهُمَا، وَقَالَ: يَا ثَوْبَانُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى آلِ فُلَانٍ أَهْلِ بَيْتٍ بِالْمَدِينَةِ إِنَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي أَكْرَهُ أَنْ يَأْكُلُوا طَيِّبَاتِهِمْ فِي حَيَاتِهِمُ الدُّنْيَا يَا ثَوْبَانُ اشْتَرِ لِفَاطِمَةَ قِلَادَةً مِنْ عَصَبٍ وَسِوَارَيْنِ مِنْ عَاجٍ".
ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر پر تشریف لے جاتے تو اپنے گھر والوں میں سب سے اخیر میں فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے تشریف لائے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دروازے پر ایک ٹاٹ یا پردہ لٹکا رکھا تھا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں کو چاندی کے دو کنگن پہنا رکھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو گھر میں داخل نہیں ہوئے تو وہ سمجھ گئیں کہ آپ کے اندر آنے سے یہی چیز مانع رہی ہے جو آپ نے دیکھا ہے، تو انہوں نے دروازے سے پردہ اتار دیا، پھر دونوں صاحبزادوں کے کنگن کو اتار لیا، اور کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا، تو وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے آئے، آپ نے ان سے کٹے ہوئے ٹکڑے لے کر فرمایا: "ثوبان! اسے مدینہ میں فلاں گھر والوں کو جا کر دے آؤ" پھر فرمایا: "یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں مجھے یہ ناپسند ہے کہ یہ اپنے مزے دنیا ہی میں لوٹ لیں، اے ثوبان! فاطمہ کے لیے مونگوں والا ایک ہار اور ہاتھی دانت کے دو کنگن خرید کر لے آؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۰۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۵، ۲۷۹) (ضعیف الإسناد منکر)