مشکوٰة شر یف

بہترین صدقہ کا بیان

بہترین صدقہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہتر صدقہ وہ ہے جو بے پروائی کے ساتھ دیا ہے اور صدقہ دینے کی ابتداء اس شخص سے کرو جس کا نفقہ تم پر لازم ہے (بخاری) اور امام مسلم نے اس روایت کو صرف حضرت حکیم بن حزام سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 بے پروائی کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ کا مال اس انداز سے دو کہ تم خود فقیر و مفلس نہ بن جاؤ بلکہ غنا باقی رہے یعنی اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کے بقدر مال و اسباب رکھ لو۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اسے خدا کے نام پر خیرات کر دو، ایسا نہ ہو کہ تمام ہی مال و زر خدا کی راہ میں خرچ کر دو اور اپنے اہل و عیال کو محتاجگی اور بھوک سے بلکنے کے لیے چھوڑ دو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعد میں ہی بات کی وضاحت فرمائی کہ صدقہ کا مال پہلے تو ان لوگوں کو دو جن کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہوں جب ان سے بچ رہے تو پھر بعد میں دوسروں کو دے دو۔

صدقہ دینے کے بعد غنائے نفس یا غنائے مال ہونا ضروری ہے

اس بارے میں تحقیقی مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص خدا کی راہ میں اپنا مال و زر خرچ کرنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے یا تو غنائے نفس حاصل ہو بایں طور کہ از راہ سخاوت نفس وہ اپنا مال و زر خدا کی راہ میں خرچ کرتا رہے تو اسے خدا کی ذات پر اس درجے کامل اعتماد اور توکل ہو کہ اس کا دل بالکل مستغنی ہو اور اسے اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ میرے اہل و عیال کل کیا کھائیں گے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر اپنا تمام مال و اسباب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدموں میں ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ (یعنی اہل و عیال کے لیے اللہ کی ذات پر کامل اعتماد اور توکل چھوڑ آیا ہوں کہ جس نے اب تک مجھے اتنا مال و زر دیا ہے وہی کل کو ان کی بھی ضروریات زندگی پوری کرے گا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی سخاوت اور ان کے اس عظیم جذبے کو بہت سراہا، یہ تو پہلا درجہ ہوا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اگر غنائے نفس حاصل نہ ہو پھر غنائے مال ہونا ضروری ہے یعنی خدا کی راہ میں اتنا ہی مال خرچ کرے کہ خود مفلس و فقیر نہ ہو جائے بلکہ اتنا مال باقی رکھ چھوڑنا ضروری ہے کہ اہل و عیال کی ضروریات زندگی پوری ہو سکیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

 حاصل یہ کہ اگر توکل کی دولت نصیب ہو تو پھر جو کچھ چاہے خدا کی راہ میں خرچ کر دے اگر یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو اپنے اہل و عیال کو مقدم رکھے، صدقہ و خیرات میں اتنا مال نہ دے دے کہ خود اور اہل و عیال ضروریات زندگی کے لیے محتاج ہو جائیں۔

اہل وعیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو مسلمان اپنے اہل یعنی بیوی اور اقرباء پر کچھ خرچ کرتا ہے اور اس میں ثواب کی توقع رکھتا ہے تو اس کا یہ خرچ اس کے حق میں (بڑا مقبول) صدقہ ہو جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایک دینار تو وہ ہے جسے تم خدا کی راہ میں (یعنی حج یا جہاد، یا طالب علم) میں خرچ کرو ایک دینار تو وہ جسے تم غلام کو آزاد کرنے میں خرچ کرو، تو ان تمام دیناروں میں از روئے ثواب سب سے بڑا دینار وہ ہے جسے تم نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ہے۔ (مسلم)

بہترین مصرف

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے اس جانور پر خرچ کرے جو جہاد کے لیے پالا گیا ہو اور بہتر دینار وہ ہے جو کوئی شخص اپنے ان دوستوں پر خرچ کرے جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یہاں مال و زر کے تین بہترین مصرف بیان فرمائے گئے ہیں کہ ان تینوں پر اپنا مال و زر خرچ کرنا ان کے علاوہ دوسروں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے۔

اولاد پر خرچ کرنا ثواب ہے

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابو سلمہ کے بیٹوں پر خرچ کرنے میں میرے لیے ثواب ہے کہ نہیں درآنحالیکہ وہ میرے ہی بیٹے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ان پر خرچ کرو جو چیز تم ان پر خرچ کرو گی اس کا تمہیں ثواب ملے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا پہلے ان کے عقد میں تھیں، ابو سلمہ سے ان کے کئی بچے ہوئے عمر زینب اور درہ، جب ابو سلمہ کا انتقال ہو گیا، تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجیت میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ ابو سلمہ سے ان کے جو بچے تھے وہ ان کے اخراجات میں انہیں کچھ دیا کرتی تھیں۔ چنانچہ اسی کو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ ان کو میں جو کچھ دیتی ہوں آیا اس کا ثواب بھی مجھے ملتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا اس صورت میں بیٹوں سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بیٹے مراد ہوں گے جو ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے تھے یا یہ بھی احتمال ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا کی دوسری بیوی کے کچھ بچے ہوں گے ام سلمہ نے ان پر مال خرچ کرنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا اس صورت میں بیٹوں سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بیٹے مراد ہوں گے۔

اپنی بیوی یا اپنے شوہر کو صدقہ دینے کا مسئلہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی زوجہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ مجلس ذکر و نصیحت میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ و خیرات کرو، اگرچہ وہ تمہارے زیورات ہی میں سے کیوں نہ ہو! حضرت زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ خالی ہاتھ یعنی مفلس مرد ہیں اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس لیے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جا کر یہ معلوم کریں کہ اگر میں آپ پر اور آپ کی اولاد پر بطور صدقہ خرچ کروں تو آیا یہ صدقہ میرے لیے کافی ہو گا یا نہیں؟ اگر آپ کو اور آپ کی اولاد کو میرا صدقہ دینا میرے لیے کافی ہو جائے تو پھر آپ ہی کو صدقہ دے دوں اور اگر یہ میرے لیے کافی نہ ہو تو پھر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بطور صدقہ خرچ کروں! حضرت زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا کہ تم ہی جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں پوچھ لو چنانچہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازے پر انصار کی ایک عورت کھڑی ہے اور (وہاں آنے کی) ہماری حاجت یکساں تھی۔ (یعنی وہ وہ بھی معلوم کرنے آئی تھی کہ آیا میں اپنے صدقہ کا مال اپنے خاوند اور اس کے متعلقین کو دے سکتی ہوں یا نہیں ؟ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس ہیبت و عظمت کا پیکر تھی اس لیے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جانے کی جرات نہ ہوئی اور ہم وہاں سے نکل کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں جا کر کہئے کہ دروازے پر کھڑی ہوئی دو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھتی ہیں کہ کیا اپنے شوہروں اور ان یتیموں کو جو ان کی پرورش میں ہیں ان کا صدقہ دینا ان کے لیے کافی ہو جائے گا مگر دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں؟ یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے ریا سے بچنے میں مبالغہ کیا کہ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلال سے پوچھا کہ دو عورتیں کون ہیں؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک تو انصار کی کوئی عورت ہے اور دوسری زینب رضی اللہ عنہا ہیں اپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ کون سی زینب؟ (کیونکہ زینب نام کی کئی عورتیں ہیں) حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی ! پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ (ان سے جا کر کہہ دو کہ اس صورت میں) ان کے لیے دوہرا ثواب ہے، ایک تو حق قربت کی ادائیگی کا اور دوسرا صدقہ دینے کا۔ (بخاری و مسلم الفاظ مسلم کے ہیں)۔

 

تشریح

 

 قد القیت علیہ المہایہ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اقدس کو ہیبت و عظمت کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرعوب ہوتے، ڈرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے انتہا تعظیم کرتے تھے اسی وجہ سے کسی کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ عظمت و ہیبت (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کسی بد خلقی اور خشونت کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو خدا داد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس عظمت و ہیبت کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تعظیم کا سبب بنایا تھا۔

 جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ بتائیں تو انہیں ان کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چونکہ ان سے ان عورتوں کا نام پوچھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی بناء پر ان کے لیے یہ ہی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ان کا نام بتا دیں چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل کی۔

 یہ حدیث کی وضاحت تھی اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا کوئی عورت اپنے خاوند یا کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اس بارے میں تو بالاتفاق تمام علماء کا یہ مسلک ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے مگر اس کے برعکس صورت میں امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اپنے خاوند کو اپنی زکوٰۃ کا مال نہ دے کیونکہ مرد کے منافع اور مال میں عادۃ اکثر دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اس طرح کوئی عورت اپنے خاوند کو زکوٰۃ کا مال دے گی تو اس مال سے خود بھی فائدہ حاصل کرے گی جو جائز نہیں ہو گا۔ صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مرد کا اپنی بیوی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے اسی طرح بیوی بھی اپنی زکوٰۃ کا مال اپنے خاوند کو دے سکتی ہے ائمہ کے اس اختلاف کی بنا پر کہا جائے گا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک اس مذکور صدقہ سے صدقہ نفل مراد ہو گا اور صاحبین کے نزدیک اس سے صدقہ نفل بھی مراد ہو سکتا ہے اور صدقہ فرض یعنی زکوٰۃ کو بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔

اپنے اقرباء کو صدقہ دینا بڑے ثواب کی بات ہے

ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک لونڈی آزاد کی اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم وہ لونڈی اپنے ماموں کو دے دیتیں تو تمہیں بہت زیادہ ثواب ملتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ تمہارے ماموں کو چونکہ ایک خدمت گار کی ضرورت تھی اس لیے اگر تم وہ لونڈی انہیں دے دیتیں تو تمہیں صدقہ کا ثواب تو ملتا ہی اس کے ساتھ ہی صلہ رحمی کا ثواب بھی ملتا۔

ہمسایہ کا خیال رکھو

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کسے تحفہ بھیجوں؟ (یعنی پہلے یا زیادہ کسے دوں؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس پڑوسی کو جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اگر کسی کے دو پڑوسی ہوں اس طرح کہ ان میں ایک پڑوسی کی دیوار اپنے سے زیادہ قریب ہو اور دوسرے پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہو تو قریبی دروازہ والے ہی کو مقدم رکھا جائے۔

 لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں حدیث میں حصر مراد نہیں ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف اسی کو دیا جائے دوسرے کو نہ دیا جائے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ پہلے یا زیادہ اس پڑوسی کو بھیجا جائے جس کا دروازہ قریب ہو اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس پڑوسی کا دروازہ زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس سے ملنا جلنا اور اس کے یہاں آنا جانا زیادہ رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کے حالات کا بھی زیادہ علم رہتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ محبت و سلوک کا معاملہ کرنا اولیٰ ہے۔

ہمسایہ کا خیال رکھو

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈالو اور اپنے ہمسایہ کا خیال رکھو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا منشاء یہ ہے کہ جب سالن پکاؤ تو اپنی لذت و خواہش ہی کو مقدم نہ رکھو بلکہ ہمسایہ اور پڑوسی کی ضرورت کا بھی خیال رکھو اور اس کی شکل یہ ہے کہ سالن میں پانی زیادہ ڈالو تاکہ شوربا زیادہ ہو اور تم اسے اپنے ہمسایہ میں ضرورت مند لوگوں کو بانٹ سکو۔

کم مال رکھنے والے کا صدقہ افضل ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کونسا صدقہ زیادہ ثواب کا باعث ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کم مال رکھنے والے کی زیادہ سعی و کوشش اور صدقہ کا مال پہلے اس شخص کو دو جس کی ضروریات زندگی تمہاری ذات سے وابستہ ہوں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 کم مال رکھنے والے کی زیادہ سعی و کوشش کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا صدقہ زیادہ افضل ہے جو اگرچہ بہت کم مال کا مالک ہے لیکن صدقہ دینے کے معاملے میں اپنی پوری سعی و کوشش اور مشقت کرتا ہے اور جو کچھ اس کے بس میں ہوتا ہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

 اسی باب کی جو پہلی حدیث گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو حالت غنا میں دیا جائے جب کہ یہ حدیث اس صدقہ کو افضل قرار دے رہی ہے جو مال کی کمی کی حالت میں دیا جائے لہٰذا ان دونوں روایتوں کی تطبیق یہ ہو گی کہ صدقہ کی فضیلت کا تعلق اشخاص و حالات اور قوت توکل و ضعف یقین کے تفاوت سے ہے پہلی حدیث ان لوگوں کے بارے میں ہے جو توکل کے معیار پر پورے نہ اترتے ہوں اور یہ حدیث ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہیں کامل توقع و یقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔

 بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث میں مقل یعنی کم مال والے سے غنی القلب یعنی وہ شخص مراد ہے جس کا دل غنی و بے پرواہ ہو اس صورت میں یہ حدیث پہلی حدیث کے الفاظ خیر الصدقۃ ما کان عن ظہر غنی کے موافق ہو جائے گی۔ اس طرح حاصل یہ نکلے گا کہ اس شخص کا تھوڑا سا صدقہ بھی کہ جو کم مال دار مگر غنی دل ہو مالدار کے صدقہ سے افضل ہے خواہ اس کا صدقہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

اپنے اقرباء کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے

حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے) مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے، ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی کا ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

خرچ کرنے کی ترتیب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! میرے پاس ایک دینار ہے جسے میں خرچ کرنا چاہتا ہوں سو اسے کہاں خرچ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے اپنی اولاد پر خرچ کرو۔ اس نے عرض کیا میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اسے اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی، ماں، باپ اور دوسرے اقرباء) پر خرچ کرو، اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا کہ اسے اپنے خادم پر خرچ کرو پھر اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دینار ہے فرمایا کہ اب تم اس بارے میں زیادہ جان سکتے ہو! (یعنی اب اس کے بعد کے مستحق کو تم ہی بہتر جان سکتے ہو جسے اس کا مستحق سمجھو اسے دے دو۔ (ابو داؤد، نسائی)

بہترین اور بدترین لوگوں میں چند

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بہتر آدمی کون ہے؟ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا ہے یعنی میدان جنگ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کافروں کے ساتھ جنگ کا منتظر ہے کیا میں تمہیں بتاؤں کہ وہ کون شخص ہے جو مذکورہ بالا شخص (یعنی مجاہد) کے مرتبہ کے قریب ہے؟ وہ شخص ہے جس نے اپنی چند بکریوں کے ساتھ گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتا ہے یعنی وہ چند بکریاں لے کر لوگوں سے دور ہو کر جنگل میں جا بسا اور وہاں اپنی بکریوں پر گزر بسر کرتا ہے اور ان کی بروقت زکوٰۃ ادا کرتا رہتا ہے) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بدترین آدمی کون ہے؟ وہ شخص ہے جس سے خدا کی قسم کے ساتھ سوال کیا جاتا ہے (یعنی کوئی سائل اس سے اس طرح مانگتا ہے کہ تمہیں خدا کی قسم! مجھے عطا کرو) مگر وہ سائل کا سوال پورا نہیں کرتا۔ (ترمذی، نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بہترین اور اچھے لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جو خدا کی راہ میں کافروں کے ساتھ جنگ کا منتظر ہوتا ہے۔ یہ مفہوم اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ غازی یا مجاہد سب لوگوں سے افضل نہیں ہے۔

 اسی طرح بدترین سے بھی یہ مراد ہے کہ بد اور برے لوگوں میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جس سے کوئی سائل خدا کی قسم دے کر سوال کرے مگر وہ اس کا سوال پورا نہ کرے۔

سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ جانے دو

حضرت ام مجید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سائل کو کچھ دے کر واپس کرو اگرچہ وہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو۔ (مالک و نسائی) ترمذی اور ابوداؤد نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

 بظلف محرق اپنے اصل معنی کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سائل کو جلا ہوا کھر ہی دے دیا جائے کیونکہ یہ کوئی قابل انتفاع چیز نہیں ہے بلکہ یہ لفظ بطور مبالغہ استعمال فرمایا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی سائل تمہارے پاس آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو۔ بلکہ تمہیں اس وقت جو بھی ادنیٰ ٰسے ادنیٰ اور کمتر چیز میسر ہو وہ سائل کو دے دو۔

دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص تم سے بواسطہ خدا پناہ مانگے اسے پناہ دو۔ جو شخص تم سے خدا کے نام پر کچھ مانگے اس کا سوال پورا کرو۔ جو شخص تمہیں کھانے کے لیے بلائے یعنی تمہاری دعوت کرے تو اس کی دعوت قبول کرو (بشرطیکہ کوئی حسی یا شرعی مانع نہ ہو) جو شخص تمہارے ساتھ (قولی یا فعلی) احسان کرے تو تم بھی اس کا بدلہ دو (یعنی تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی احسان کرو) اور اگر تم مال و زر نہ پاؤ کہ اس کا بدلہ چکا سکو تو اپنے محسن کے کے لیے دعا کرو جب تک کہ تم یہ جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ (احمد، ابو داؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 جو شخص تم سے بواسطہ خدا پناہ مانگے، کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود تمہاری ذات کی وجہ سے یا کسی دوسرے کی طرف سے کسی حادثے و شر میں مبتلا ہو اور وہ اس وقت خدا کا واسطہ دے کر تم سے پناہ مانگے یعنی اس وقت یوں کہے کہ میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اس مصیبت سے نجات دلاؤ تو تمہیں چاہئے تو کہ تم اس کی درخواست قبول کرو۔ اور خدا تعالیٰ کے نام کی تعظیم کے پیش نظر اس کو اس آفت و مصیبت سے بچاؤ۔ من استعاذ منکم باللہ میں باللہ کے حرف با کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ لفظ استعاذ کا صلہ واقع ہو رہا ہو اس صورت میں اس جملے کے یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص کسی آفت و مصیبت کے وقت خدا سے پناہ مانگ رہا ہو تم اس سے تعرض نہ کرو بلکہ اسے پناہ دو اور اس کو آفت و مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرو۔

 حدیث کے آخری الفاظ حتی ترد الخ جب تک تم یہ نہ جان لو، کا مطلب یہ ہے کہ تم اس کے لیے اس وقت تک مکرر سہ کرر دعا کرتے رہو جب تک کہ تمہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا ہے۔

 ایک دوسری روایت میں ارشاد گرامی منقول ہے کہ جس شخص کے ساتھ احسان کیا گیا اور اس نے احسان کرنے والے سے کہا جزاک اللہ خیراً تو اس نے اپنے محسن کی تعریف اور اس کے احسان کے بدلے میں مبالغہ کیا۔

 لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے اپنے کسی محسن کے لیے ایک مرتبہ جزاک اللہ خیرا کہا تو اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکا دیا بلکہ حق سے بھی زیادہ بدلہ دیا، کیونکہ یہ جملہ کہہ کر گویا اس نے اپنے نفس کو بدلہ چکانے میں عاجز جانا اور اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کہ سب سے بہتر اجر اور بدلہ وہی دے سکتا ہے، لہٰذا یہ جملہ ایک بار کہنا مکرر سہ کرر دعا کرنے کے برابر ہے۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا معمول تھا کہ جب کوئی سائل ان کے لیے دعا کرتا تو وہ بھی پہلے اسی طرح اس کے لیے دعا کرتیں پھر اسے صدقہ دیتیں، لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس کے لیے دعا نہ کروں تو اس کا حق اور میرا حق برابر ہو جائے گا کیونکہ جب اس نے میرے لیے دعا کی اور میں نے اسے صرف صدقہ دے دیا (تو اس طرح دونوں کے حسنات برابر ہو گئے) لہٰذا میں بھی اس کے لیے دعا کر دیتی ہوں تاکہ میری دعا تو اس کی دعا کا بدلہ ہو جائے اور جو صدقہ میں نے دیا ہے وہ خالص رہے (اس طرح دونوں کا حق برابر نہیں رہتا بلکہ میری نیکیاں بڑھ جاتی ہیں)

خدا کے نام پر سوال نہ کرو

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کی ذات واسطے سے جنت کے علاوہ اور کوئی چیز نہ مانگو۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ خدا کی ذات کے واسطے سے لوگوں سے کوئی چیز نہ مانگو یعنی کسی کے سامنے ان الفاظ کے ساتھ دست سوال دراز نہ کرو کہ  ذات خداوندی کے واسطے سے یا بالواسطہ خدا مجھے فلاں چیز دو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نام بہت بڑا ہے اور اس کی ذات و اس کے اسم کی یہ شان نہیں ہے۔ کہ اس کو واسطہ بنا کر دنیا کی حقیر چیزیں مانگی جائیں ہاں اس کے واسطہ سے جنت مانگو یعنی یوں کہو کہ اے اللہ! ہم تیری ذات کریم کے واسطہ سے تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں جنت میں داخل کیجئے۔

ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا جذبہ سخاوت

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے انصار میں کھجوروں کے اعتبار سے بہت زیادہ مال دار تھے، اپنے مال میں انہوں سب سے زیادہ پسند اپنا باغ بیر حاء(نامی) تھا جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کا پانی پیتے تھے جو بہت اچھا (یعنی شیریں یا یہ کہ بلا کسی شک و شبہہ کے حلال و پاک تھا) حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی نیکی (یعنی جنت) کو اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم وہ چیز (خدا کی راہ میں) خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے۔ تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیکی یعنی جنت تک نہیں پہنچ سکتے تا وقتیکہ اپنی اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تمہارے نزدیک پسندیدہ ہے لہٰذا بیر حاء جو تمام مال میں مجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے میں اسے اللہ کے واسطے صدقہ کرتا ہوں اور (اس آیت کریمہ کے پیش نظر) اس سے نیکی کی امید رکھتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ خدا کے نزدیک میرے لیے ذخیر آخرت ہو گا۔ پس یا رسول اللہ! اسے قبول فرمائیے (اور) جہاں اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتائے (یعنی جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مناسب سمجھیں اسے خرچ فرمائیے) رول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، شاباش! شاباش!یہ باغ نفع پہنچانے والا مال ہے جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا ہے میرے نزدیک مناسب ہے کہ تم اس باغ کو اپنے (محتاج) اقرباء میں تقسیم کر دو (تاکہ صدقہ کے ثواب کے ساتھ صلہ رحمی کا ثواب بھی مل جائے) ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے ارشاد کے مطابق ہی عمل کروں گا، چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اس باغ کو اپنے اقرباء اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ (بخاری و مسلم)

تشریح: جہاں یہ احتمال ہے کہ بنی عمہ (چچا کے بیٹے) اقاربہ کا بیان ہو وہیں یہ احتمال بھی ہے کہ اقارب سے چچا کے بیٹوں کے علاوہ دوسرے اقرباء مراد ہوں۔

ہر جاندار کا پیٹ بھرنا بہترین صدقہ ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک بہترین صدقہ یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کا جو بھوکا ہو پیٹ بھرا جائے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ کوئی جاندار، خواہ مسلمان ہو، یا کافر اور خواہ جانور ہو اگر بھوکا ہے تو اس کو کھانا کھلانا ایک بہترین صدقہ ہے ہاں اس حکم سے موذی جانور مستثنی ہیں جن کو مار ڈالنے ہی کا حکم دیا گیا ہے یعنی سانپ وغیرہ کو کھلانا پلانا اچھا اور مناسب نہیں ہے۔