مشکوٰة شر یف

بیان اور شعر کا بیان

بیان اور شعر کا بیان

بیان کے اصل معنی کھولنے، اچھی طرح ظاہر کرنے اور خوب واضح کرنے کے ہیں یوں کہنا چاہیے کہ بیان اس فصیح گفتگو و تقریر وغیرہ کو کہتے ہیں کہ جو مافی الضمیر کو نہایت وضاحت اور حسن خوبی کے ساتھ ظاہر کرے چنانچہ صراح میں بھی یہ لکھا ہے کہ بات کو کھول کر اور وضاحت کے ساتھ کہنے اور فصاحت کا نام بیان ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں ایین من فلاں (فلاں شخص فلاں شخص سے زیادہ بیان کرنے والا ہے یعنی وہ اپنی بات کو فلاں شخص سے زیادہ فصاحت اور زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کرنے والا ہے)۔شعر، کے معنی دانائی اور زیر کی کے ہے ہیں اور شاعر کے معنی ہیں دنا وزیرک، لیکن عام اصلاح میں شعر موزوں اور مقفی کلام کو کہتے ہیں جو بقصد و ارادہ موزوں و مقفی کیا گیا ہو اس اعتبار سے قرآن و حدیث میں جو مقفی عبارتیں ہیں ان پر شعر کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ ان عبارتوں کا مقفی ہونا نہ تو قصد و ارادہ کے تحت اور نہ مقصود بالذات ہے۔

بعض بیان سحر کی تاثیر رکھتے ہیں

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن مشرقی علاقے سے دو آدمی اور آپس میں خوب فصاحت و بلاغت کے ساتھ گفتگو کرنے لگے لوگوں نے جب ان کی باتیں سنیں تو ان کی فصیح و بلیغ گفتگو پر بڑی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ بعض بیان سحر کا اثر رکھتے ہیں۔

 

تشریح

 

یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مشرقی علاقے بنو تمیم کی ایک جماعت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اس جماعت میں دو ایسے شخص بھی تھے جو فصاحت و بلاغت طرز تخاطب اور انداز گفتگو میں بڑی قابلیت اور مہارت رکھتے تھے اس میں ایک کا نام حصین ابن ہدی اور لقب زبرقان تھا دوسرے کا نام عمرو ان ہتم تھا ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آپس میں گفتگو کی۔زبرقان نے اپنے فضائل و اوصاف بیان کرنا شروع کر دیئے اور اپنے فخریہ کارناموں کا بڑے زور دار الفاظ اور بڑی فصیح و بلیغ عبارت میں تعارف کرنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے فلاں فلاں کارنامے انجام دیئے ہیں اور میں ایسا ہوں اور ایسا ہوں، یہاں تک کہ عمرو بھی اس بات کو جانتا ہے عمرو نے یہ سنا تو اس نے بھی اتنے ہی پر شکوہ انداز اور اتنی ہی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس کی باتوں کا جواب دیا۔ اور اپنے بیان میں اس کی طرح بڑائیاں ظاہر کیں کہ گویا زبرقان کے بیان کردہ سارے اوصاف و فضائل کو اچھی طرح جانتا ہوں اور جو کچھ کہہ رہا ہے اس کے اندر کی آواز نہیں ہے حقیقت میں اس کو میرے کمالات کا اعتراف ہے مگر حسد نے اس کو میرے خلاف بیان کرنے پر مجبور کر دیا ہے اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بعض بیان سحر کی تاثیر رکھتے ہیں جس طرح سحر انسان کی حالت و کیفیت میں تغیر پیدا کر دیتا ہے اس طرح بعض بیان بھی اسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے ذہن و دماغ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی تاثیر دل کو پھیر دیتی ہے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ ارشاد گرامی بیان کی تعریف میں فرمایا اس کی مذمت میں؟ان اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ صحیح بات یہ نکلتی ہے کہ اس ارشاد گرامی سے بیان کی تعریف و مذمت دونوں ظاہر ہوتی ہیں اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بعض بیان دلوں کو مائل و منحرف کرنے اور اپنا جواب پیش کرنے سے معذور رکھتے ہیں سحر کی مانند تاثیر رکھتا ہے اور یہ محمود و مستحسن ہے بشرطیکہ اس بیان کا تعلق سچائی کو ظاہر کرنے اور سچائی کو ثابت کرنے سے ہو اور اگر اس کا تعلق باطل و فاسد امور سے ہو تو پھر وہی بیان مذموم ہو گا جیسا کہ ایک حدیث میں شعر کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الشعر ھو کلام فحسنہ حسن وقبیحہ قبیح، یعنی شعر کلام ہی تو ہے اچھا شعر اچھا کہلائے گا اور برا شعر برا۔

بعض اشعار حکمت و دانائی کے حامل ہوتے ہیں

اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بعض شعر حکمت (کا حامل) ہوتا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ سارے اشعار برے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض اچھے اور فائدہ مند بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعہ حکمت و دانائی کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

کلام میں مبالغہ آرائی کی ممانعت

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاکت میں پڑ گئے آپ نے یہ الفاظ تین بار فرمائے (مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ تحریر اور گفتگو و کلام میں بے جا تکلفات و اہتمام کرنا،عبارت آرائی اور مبالغہ آمیزی کی پابندی اختیار کرنا اور لاحاصل و بے فائدہ باتوں کی آمیزش کرنا نہایت برا ہے جب کہ اس کا مقصد اظہار عظمت اور ریا، تصنع و بناوٹ، کسی کی بے جا خوشامد و چاپلوسی اور اس کو اپنی طرف مائل و راغب کرنا ہو۔

ایک مبنی بر حقیقت شعر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے لبید کا یہ کلام ہے کہ مت بھولو، اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

لبید عرب کے بہت مشہور شاعر تھے عربی ادب میں ان کے کلام اور ان کی شاعر کو سند کا درجہ حاصل ہے اللہ نے ان کو اسلام کی ہدایت بھی بخشی اور ان کو قبولیت اسلام کے بعد صحابیت کا شرف حاصل ہوا جس طرح زمانہ جاہلیت میں اپنے فن کی وجہ سے قدر منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اسی طرح زمانہ اسلام میں بہت معزز و مکرم رہے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بڑی طویل حیات پائی اور تقریباً ایک سو ستاون سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس کلام کی تعریف و توصیف فرمائی وہ پورا شعر یوں ہے۔

الکل شئی ماخلا اللہ باطل وکل نعیم لامحالۃ زائل

مت بھولو اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے اور دنیا کی ہر لذت و راحت کا آخر کار فنا ہونا ہے

یہ مشہور شعر بھی لبید کا ہے

ولقد سأامت من الحیوۃ وطولھا وسوال ھذا لناس کیف لبید

میں زندگی اور اس کی درازی سے بیزار ہو گیا ہوں اور لوگوں کے بار بار پوچھنے سے کہ لبید کیسا ہے

علم و حکمت کے حامل اشعار سننا مسنون ہے

''اور حضرت عمر بن شرید اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن سفر کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے آپ کی سواری پر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا تمہیں امیہ بن ابی الصلت کے کچھ اشعار یاد ہیں ؟میں نے عرض کیا کہ ہاں آپ نے فرمایا اچھا سناؤ آپ کو میں نے ایک شعر سنایا آپ نے فرمایا اور سناؤ، میں نے پھر ایک شعر سنایا آپ اسی طرح مزید سنانے کی فرمائش کرتے رہے اور میں سناتا رہا یہاں تک کہ میں نے سو اشعار سنائے (مسلم

تشریح

 

امیہ بن ابی الصلت بھی عرب کا ایک مشہور اور با کمال شاعر تھا اس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے عہد جاہلیت میں اہل کتاب سے دین سیکھا تھا اور دین داری کی باتیں کرتا تھا،حشر و نشر اور قیامت کے دن پر بھی عقیدہ رکھتا تھا اور اس کے اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح سے پر ہوتے تھے، چنانچہ آپ نے اس کے بارے میں فرمایا تھا امن شعرہ و کفر قبلہ،یعنی اس کے اشعار سے ایمان جھلکتا ہے اگرچہ اس کا دل کفر میں مبتلا رہا،اس کا ایک خاص مشغلہ یہ تھا کہ آسمانی کتب کا علم رکھنے والوں کے پاس آنا جانا رکھتا اور ان سے ان بشارتوں اور پیشگوئیوں کے بارے میں دریافت کرتا رہتا جو آسمانی کتابوں پر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے متعلق مذکور تھیں،اس کا گمان تھا کہ اللہ نے اپنی کتابوں میں جن نبی آخر الزمان کی بعثت کی خبر دی ہے وہ میں ہوں، اور ایک نہ ایک دن مجھے نبوت کے خلعت فاخرہ سے نوازا جائے گا لیکن جب آسمانی کتب کے عالموں نے اس کو بتایا کہ وہ بنی قریش میں سے ہوں گے اور عاس کو نبی کی صفات تفصیل سے معلوم ہوئیں تو وہ اپنے عقائد و نظریات سے ایک دم پھر گیا اور حسد و عناد کی راہ پر چل کر کہنے لگا کہ مجھے اس نبی پر ہرگز ایمان نہ لانا چاہیے جس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے نہ ہو۔ ابن جوزی نے کتاب وفا میں یہ لکھا ہے کہ امیہ ابن ابی الصلت ابتداء میں تو نبی کی بعثت کا انتظار بڑی شدت سے کرتا تھا اور نبی کی نبوت کی جو علامتیں اور اوصاف سنتا تھا ان کی بنا پر یہ آرزو کرتا تھا کہ کاش میں ان کا زمانہ پاؤں اور ان کی خدمت کروں مگر نبی کا جب نور نبوت آشکار ہوا تو اپنی باتوں سے پھر گیا اور بغض و عناد اور سخاوت و سختی کی راہ اختیار کر لی۔بہرحال مذکورہ بالا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ جو اشعار علم و حکمت اور پند و نصائح کی باتوں پر مشتمل ہوں ان کو سننا مسنون ہے اگرچہ ان اشعار کو کہنے والا کوئی کافر و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک شعر

اور حضرت جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی نے ایک جنگ(غزوہ احد) میں شریک تھے کہ معرکہ آرائی کے دوران آپ کی انگلی زخمی ہو گئی اور اس کی وجہ سے خون آلودہ ہو گئی آپ نے بطور استعارہ یا درحقیقت انگلی کو تسلی دیتے ہوئے اس کو مخاطب کر کے یہ شعر فرمایا (بخاری)۔ یعنی تو کیا ہے ایک انگلی ہے خون آلود ہوئی اور پھر تجھ کو یہ جو کچھ ہوا ہے خدا کی راہ میں ہوا ہے۔

 

تشریح

 

زخمی اور خون آلود انگلی کو مخاطب کر کے آپ نے جو اشعار ارشاد فرمایا اس کا مطلب یہ تھا کہ تو جسم کا کوئی بڑا حصہ نہیں ہے بدن کا کوئی سب سے اہم عضو نہیں ہے ایک معمولی سی انگلی ہے پھر تجھے جو تکلیف ہوئی وہ سخت اور شدید ترین نہیں ہے کہ نہ تو کٹ کر گر پڑی ہے اور نہ ہلاکت میں مبتلا ہوئی ہے تجھ کو صرف زخم پہنچا ہے اور خون آلود ہو گئی ہے اگر تو نے اتنی سی تکلیف اٹھائی ہے اس کی وجہ سے بے تابی اور بے قراری کی کوئی وجہ نہیں ہے جب کہ یہ تھوڑی سی تکلیف بھی ضائع جانے والی نہیں ہے بلکہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضاء میں چونکہ تو نے تکلیف اٹھائی ہے اس لیے تجھ کو اس پر اجر ملے گا اس اعتبار سے یہ تکلیف بھی تیرے لیے خوشی و راحت کا ذریعہ ہونا چاہیے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ نے امت کے لوگوں کو تلقین فرمائی کہ اگر کسی مسلمان کو اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف و ضرر پہنچے تو اس پر صبر کرنا چاہیے بلکہ حقیقت میں اس کو شکر کا مقام سمجھنا چاہیے کہ اللہ کا عطا کیا ہوا جسم و بدن اسی کی راہ میں قربان کرنے اور تکلیف اٹھانے کی توفیق نصیب ہوئی جو ایک بہت بڑی سعادت ہے۔

اس حدیث کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ ارشاد ایک شعر ہے جب کہ آپ کی ذات اقدس شعر و شاعری کے وصف سے پاک ہے اور آپ کی ذات سے کسی شعر کا صادر ہونا غیر ممکن ہے کیونکہ اللہ نے آپ کے بارے میں فرمایا وما علمنہ الشعر، یعنی اور ہم نے آپ کو شعر کہنا سکھایا ہی نہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ شعر میں شاعر کا قصد و ارادہ بھی شرط ہے یعنی یہ ضرور ہے کہ جس شخص نے کوئی کلام موزوں کیا ہے اس نے موزونیت کا قصد و ارادہ بھی کیا ہو جیسا کہ باب کے شروع میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جب نبی کا ارشاد گرامی بلاشبہ موزوں کلام ہے لیکن اس کی موزونیت آپ کے کسی قصد و ارادہ کے تحت نہیں ہوئی، بلکہ قصد و ارادہ اور بے ساختہ آپ کی زبان مبارک سے صادر ہونے والا یہ کلام شعر میں ڈھل گیا۔ بعض حضرات نے یہ جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ کلام اصل رجز کی قسم ہے اور جز پر شعر کا اطلاق نہیں ہوتا،علاوہ ازیں یحییٰ نے یہ کہا ہے کہ جو شخص بطریق ندرت یعنی اتفاقا کبھی کوئی شعر کہہ دے تو اس کو شاعر نہیں کہا جاتا اور اللہ کے ارشاد وماعلمنہ الشعر سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم شاعر نہیں ہیں۔

مشہور شاعر حسان کی فضیلت

اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریظہ کے دن حضرت حسان بن ثابت سے فرمایا کہ تم مشرکین کی ہجو کرو، حضرت جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں (یعنی مضامین کے القاء و الہام کے سلسلے میں وہ تمہاری مدد کرتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کفار و مشرکین کی ہجو سنتے کہ وہ آپ کی شان میں نازیبا باتیں کرتے ہیں اور آپ کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں تو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرما دیتے کہ تم میری طرف سے کفار کو جواب دو اور پھر یہ فرماتے اے اللہ جبرائیل کے ذریعہ حسان رضی اللہ عنہ کی مدد کر اور ان کی زبان و بیان میں طاقت و قوت دے۔

 

تشریح

 

یہودیوں کے ایک قبیلہ کا نام بنو قریظہ تھا جو مدینہ شہر کے ایک کنارے پر آباد تھا جب ان یہودیوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر کے اور کفار عرب کے مددگار بن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور تمام مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ خندق کے بعد مسلمانوں میں اس قبیلہ کا محاصرہ کر لیا جس کے نتیجے میں ان کو اپنے کیفر کردار تک پہنچنا پڑا چنانچہ اس موقع کو قریظہ کے دن سے تعبیر سے کیا گیا ہے۔ حضرت حسان ابن منذر مدینہ کے رہنے والے اور جلیل القدر صحابی انصاری ہیں بڑے اور اونچے درجے کے شاعر تھے شعراء اسلام میں ان کا شمار ہوتا ہے اور شاعر رسول کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں ان کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ساٹھ سال کی عمر تک کفر کی حالت میں رہے اور ساٹھ سال اسلام کی حالت میں گزارے۔

شعراء اسلام کو کفار قریش کی ہجو کرنے کا حکم

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے شعراء سے فرما دیا تھا کہ کفار قریش کی ہجو کیا کرو کیونکہ یہ ہجو ان پر تیر مارنے سے زیادہ سخت ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

ہجو، کے معنی اشعار کے ذریعہ برائی بیان کرنا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفار اور دشمنان دین کی ہجو کرنا جائز ہے لیکن اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ اگر کفار مسلمانوں کی ہجو کریں، تب ان کی ہجو کی جائے اس سے پہلے ان کی ہجو کرنا روا نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں وہ مسلمانوں کی ہجو کریں گے اور اس طرح سے مسلمانوں کے خلاف ان کی ہجو کا سبب خود مسلمان بنیں گے اس مسئلہ کی بنیاد پریہ آیت کریمہ ہے کہ، آیت (وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ) 6۔ الانعام:108)۔ اے مسلمانوں ان لوگوں کو گالی نہ دو جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں یعنی کفار و مشرکین، نہیں وہ آگے بڑھ کر اللہ گالیاں دینے لگیں، بغیر علم کے۔

سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی تاکید

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکو کاری کی طرف لے جاتا ہے یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نیکو کاری نیکوکار کو جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچاتی ہے  اور یاد رکھو! جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالی کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق و فجور و فاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو! جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالی کے ہاں کذاب یعنی بڑا جھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ سچ بولنا نیکی اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور،دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے۔

 

تشریح۔

 

وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وصف صدیقیت کا حامل اور مقام صدیقیت پر فائز قرار دیا جاتا ہے اور اس اونچے درجے کے وصف و مقام کے اجرو ثواب کا مستحق گردانا جاتا ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ملاء اعلیٰ کے پاس جس کتاب میں تمام بندوں کے اعمال لکھے ہوئے ہیں اس میں مذکورہ شخص کا نام صدیق لکھا جاتا ہے اور یا یہ کہ دنیا میں لوگ ایسے شخص کو اپنی کتابوں اور قلم پاروں میں صدیق کے نام سے لکھتے اور یاد کرتے ہیں اس صورت میں اس ارشاد کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ایسا شخص اللہ کی طرف سے لوگوں میں انتہائی معزز و مکرم ظاہر کیا جاتا ہے لوگوں کے دلوں پر اس شخص کا لقب صدیق القا کیا جاتا ہے اور ان کی زبانوں پر اسی کے اس لقب و صفت کو جاری کر دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کو سچا صادق سمجھتے ہیں اور اس کی سچائی و صداقت میں رطب اللسان رہتے ہیں، اس مفہوم کی بنیاد پر اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:

  ان الذین آمنوا وعملوالصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا  جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک اعمال کیے اللہ تعالی ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا۔

اسی طرح اللہ کے نزدیک کذاب لکھا جاتا ہے  کا مطلب بھی یا تو یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے شخص کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور اس کے لیے وہ سزا مقرر کر دی جاتی ہے جو جھوٹوں کے لیے مخصوص ہے یا یہ کہ اس شخص کے بارے میں لوگوں کی نظروں اور دلوں میں یہ بات ظاہر و راسخ کر دی جاتی ہے کہ یہ شخص انتہائی ناقابل اعتبار ہے اس طرح گویا اس کو جھوٹا مشہور کر دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے اور ہر شخص اس سے بغض و  نفرت کرنے لگتا ہے۔

دروغ مصلحت آمیز جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آتا

اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کراتا ہے بھلائی کی بات کہتا ہے اور ایک دوسرے سے اچھی باتیں پہنچاتا ہے۔ (اگرچہ وہ صلح و صفائی کرانے اور اس بات کے کہنے اور پہنچانے میں جھوٹ سے کام لے)۔ بخاری و مسلم۔

 

تشریح۔

 

مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے باہمی نزاع اور فتنہ و فساد کو ختم کرانے کے لیے اگر کوئی شخص ایسی بات کہے جو واقعہ کے اعتبار سے صحیح نہ ہو بلکہ جھوٹ ہو تو اس شخص کو جھوٹا نہیں کہیں گے اور اس پر جھوٹ کا گناہ نہیں ہو گا لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ بات ایسی ہو جو خیرو بھلائی ہی پر مشتمل نہ ہو کہ کسی برائی جیسے شرک و فسق وغیرہ کی حامل ہو مثلاً دو مسلمان زید اور بکر اگر آپس میں کوئی مخاصمت رکھتے ہوں یا ان دونوں کے درمیان کوئی فتنہ و فساد پا گیا تو اس صورت میں اگر کوئی تیسرا شخص یہ چاہے کہ ان دونوں کے درمیان باہمی مخاصمت ختم ہو جائے اور ان کے درمیان صلح و صفائی ہو جائے اور اس مقصد کے لیے وہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس جا کر یوں کہے کہ اس دوسرے نے تمہیں سلام کہا ہے وہ تمہاری تعریف کر رہا تھا اور تمہارے بارے میں کہہ رہا تھا کہ میں اس کو اپنا دوست سمجھتا ہوں اور حقیقت میں نہ تو اس نے سلام کہا ہو نہ اس کی تعریف کی ہو اور نہ یہ کہا ہو کہ میں اس کو دوست رکھتا ہوں۔

جھوٹی اور مبالغہ آمیز تعریف کرنے والے کی مذمت

اور حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم تعریف کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے منہ میں خاک ڈال دو۔ (مسلم)

 

تشریح۔

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے منہ پر تمہاری تعریف کرے اور وہ تعریف خواہ زبانی ہو یا قصیدہ و نثر کی صورت میں ہو نیز اس تعریف کرنے سے اس کا مقصد تم سے کچھ مالی منفعت حاصل کرنا یا اپنا کوئی مطلب نکالنا ہو تو تم اس کے منہ پر مٹی ڈال دو یعنی اس کو محروم رکھو نہ کہ اس کو کچھ دو اور نہ اس کا مطلب پورا کرو یا منہ میں خاک ڈالنے سے یہ مراد ہے کہ کچھ معمولی طور پردے دو کہ کسی کو بہت تھوڑا سا اور حقارت کے ساتھ دینا اس کے منہ میں خاک ڈالنے کے مشابہ ہے اور یہ معمولی طور پر دینا بھی اس مصلحت کے پیش نظر ہو کہ مبادا کچھ بھی نہ ملنے کی صورت میں وہ ہجو کرنے لگے۔ بعض علماء نے اس ارشاد گرامی کو اس کے ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے چنانچہ اس حدیث کے راوی حضرت مقداد ہی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے ان کی تعریف کرنے لگا تو انہوں نے ایک مٹھی خاک لے کر اس کے منہ پر ڈال دی علماء نے لکھا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے کا حکم دینا دراصل ان تعریف کرنے والوں کو سختی کے ساتھ متنبہ کرنا ہے کہ کیوں کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنے والا اپنے ممدوح کو مغرور و متکبر بنا دیتا ہے۔خطابی نے یہ لکھا ہے کہ مداحین یعنی تعریف کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خوشامد و چاپلوسی اور بے جا تعریف و مدح کرنے کو اپنی عادت بنا لی ہو چنانچہ ایسے لوگ تعریف و مدح کرنے میں نہ حق و باطل کی تمیز کرتے ہیں اور نہ مستحق و غیر مستحق کا لحاظ رکھتے ہیں نیز انہوں نے اس چیز کو حصول منفعت اور معاش کا ذریعہ بنا رکھا ہے کہ جس شخص سے انہیں کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے یا جس شخص سے مطلب براری کی امید ہوتی ہے وہ اس کے منہ پر نہایت مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس کی تعریف و مدح کرتے ہیں لہذا جو شخص کسی دنیاوی غرض و لالچ کے بغیر کسی قابل تعریف آدمی کی واقعی مدح و توصیف کرے یا کسی شخص کے کسی اچھے فعل اور پسندیدہ کام پر اس نقطہ نظر سے تعریف کریں کہ اس شخص کو مزید اچھے افعال اور بھلائی کے کام کرنے کا شوق پیدا ہو نیز دوسرے لوگوں کو بھی اس کی اتباع میں نیک اعمال اور بھلائی کے کام کرنے کی رغبت ہو تو ایسے شخص پر حدیث میں مذکورہ لفظ مداح کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اس کو قابل مذمت اور تعریف کرنے والا نہیں کہا جائے گا۔

 

 

 اور حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک شخص نے ایک آدمی کی (مبالغہ آمیزی کے ساتھ) تعریف کرنی شروع کی (اور وہ شخص جس کی تعریف کر رہا تھا وہ وہاں موجود تھا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعریف کرنے والے سے فرمایا کہ افسوس ہے کہ تم پر تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی آپ نے یہ الفاظ تین بار دہرائے اور پھر یہ فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف کرنا ضروری سمجھے تو اس کو چاہیے کہ مثلاً یوں کہے کہ فلاں شخص کے بارے یہ گمان رکھتا ہوں کہ وہ نیک آدمی ہے جب کہ اس شخص کی حقیقی حالت سے اللہ تعالی خوب واقف ہے اور وہی ان کے اعمال کا حساب لینے والا ہے نیز اگر تعریف کرنے والا یہ گمان رکھتا ہے کہ اس نے جس شخص کی تعریف کی ہے وہ واقعتاً ایسا ہی ہو تو اس صورت میں بھی وہ خدا کی طرف سے کسی شخص پر جزم ویقین کے ساتھ حکم نہ لگائے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

کسی کی گردن کاٹنا اگرچہ اس کو ذبح کرنے اور اس کی جسمانی ہلاکت کے ہم معنی ہے لیکن یہاں  گردن کاٹنے سے مراد روحانی ہلاکت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی کی تعریف کرتا ہے تو وہ ممدوح اپنی تعریف سن کر غرور و تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے لہذا جس طرح کسی کی گردن کاٹ ڈالنا اس کو دنیاوی طور پر ہلاک کر دینے کے مترادف ہے اسی طرح منہ پر کسی کی تعریف کرنا گویا اس کو دینی اور اخروی طور پر ہلاکت میں ڈال دینا ہے جب کہ یہ تعریف بسا اوقات دنیاوی طور پر بھی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے جیسے کوئی شخص اپنی تعریف سن کر اتنا زیادہ مغرور ہو گیا کہ کسی کا ناحق خون کر ڈالے اور پھر عدالت کی طرف سے سزائے موت کا مستوجب ہو کر خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 اگر تم میں سے کوئی شخص کسی کی تعریف ضروری سمجھے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کسی شخص کے اندر کوئی ایسا وصف دیکھو کہ جس کی وجہ سے وہ قابل تعریف ہو، مثلاً کوئی شخص بہت زیادہ صالح و نیک ہو یا کوئی شخص بہت زیادہ خلیق ہو اور تم اس کی تعریف کرنا ہی چاہتے ہو تو اس صورت میں بھی یہ ضروری ہے کہ تم بس اپنے گمان کی حد تک اس کی تعریف کرو اس کے بارے میں جزم و یقین کے ساتھ فیصلہ نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ میں فلاں شخص کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہوں، اس جملہ کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کا حقیقی حال اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جس شخص کو بظاہر نیک و اچھا سمجھا جا رہا ہے ہو سکتا ہے کہ اس کے باطنی احوال سے اس درجہ کے نہ ہوں کہ وہ اللہ کے نزدیک اچھا ہو، لہذا جو شخص قابل تعریف ہو اس کی تعریف میں احتیاط کی راہ اختیار کرنی چاہیے اس کے بارے بالکل آخری فیصلہ نہ کرنا چاہیے کہ یہ شخص یقیناً اچھا و نیک اور خدا کے نزدیک پسندیدہ ہے ہاں ان لوگوں کا معاملہ دوسرا ہے جن کو احادیث میں صراحت کے ساتھ قابل تعریف قرار دیا گیا ہے اور جن کے بارے میں ثابت ہو چکا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک یقیناً پسندیدہ ہیں جیسے عشرہ مبشرہ اور ان لوگوں کے علاوہ اور کسی شخص کے بارے میں اس جزم و یقین کا اظہار نہ کیا جائے کہ فلاں شخص خدا کے نزدیک اچھا ہے۔

 

تعریف کی قسمیں

علماء نے کسی شخص کی تعریف کرنے کی تین قسمیں بیان کی ہیں ایک تو یہ کہ کسی کے منہ پر اس کی تعریف کی جائے یہ قسم وہ ہے جس کی ممانعت منقول ہے دوسرے یہ کہ کسی کی غائبانہ تعریف کی جائے لیکن خواہش یہ ہو کہ اس کو اس تعریف کی خبر ہو جائے یہ قسم بھی ایسی ہے جس سے منع کیا گیا ہے اور تیسرے یہ کہ کسی کی غائبانہ تعریف کی جائے اور اس کی مطلق پرواہ ہو کہ اس کو تعریف کی خبر پہنچے گی یا نہیں نیز تعریف بھی ایسی کی جائے جس کا وہ واقعتاً مستحق ہے یہ قسم ایسی ہے جس کی اجازت دی گئی ہے اور کسی شخص کی اس طرح کی تعریف میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

غیبت کے معنی اور اس کی تفصیل

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو وہ اگر سن لے تونا پسند کرے۔ بعض صحابہ کرام نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب ہوں جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا جب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کے پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں وہ واقعتاً برائی ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو اور ظاہر ہے کہا اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے تو یقیناً خوش ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف کسی برائی کو منسوب کرنا جو درحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کو تم نے ذکر کیا ہے تم نے اس پر بہتان لگایا یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کے پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو اور اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم اپنے کسی مسلمان بھائی کی وہ برائی بیان کی جو واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر تم نے اس کی طرف ایسی برائی کی نسبت کی جو اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔

 

تشریح۔

 

غیبت یعنی پیٹھ پیچھے کسی کا کوئی عیب بیان کرنا نہ صرف ایک گناہ لوگوں میں زیادہ پھیلا ہوا ہے ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو اس برائی سے بچے ہوئے ہیں ورنہ عام طور پر ہر شخص کسی نہ کسی صورت میں غیبت کرتا نظر آتا ہے لہذا ضروری ہے کہ اس بات میں کچھ تفصیل بیان کر دی جائے۔

جیسا کہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے غیبت اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص کسی ایسے شخص کے بارے میں جو موجود نہ ہو اس طرح کا ذکر کرے جس سے اس کا کوئی عیب ظاہر ہو اور وہ اس عیب کے ذکر کیے جانے کو ناپسند کرے اور اس عیب کا تعلق خواہ اس کے بدن سے ہو یا عقل سے خواہ اس کے دین سے ہو یا دنیا سے، خواہ اس کے اخلاق و افعال سے ہو یا نفس سے خواہ اس کے مال و اسباب سے، ہو یا اولاد سے خواہ اس کے ماں باپ سے ہو یا بیوی و خادم وغیرہ سے خواہ اس کے لباس وغیرہ سے ہو یا  رفتار و گفتار سے، خواہ اس کی ہیبت کذائی سے یا نشست و برخاست سے، خواہ اس کے حرکات و سکنات سے ہو یا عادات و اطوار سے، خواہ اس کی کشادہ روئی سے ہو یا ترش روئی سے اور خواہ اس کی تند خوئی و سخت گوئی سے ہو یا نرم خوئی اور خاموشی سے اور یا ان چیزوں کے علاوہ کسی بھی ایسی چیز سے ہو جواس سے متعلق ہو سکتی ہے نیز اس عیب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا  خواہ الفاظ کے ذریعہ ہو یا اشارہ و کنایہ اور رمز کے ذریعہ اور اشارہ کنایہ بھی خواہ لفظ و بیان کے ذریعہ ہو یا ہاتھ آنکھ، ابرو اور سر وغیرہ کے ذریعہ۔ اس سلسلہ میں یہ قاعدہ کلیہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر کسی شخص کا کوئی عیب اس کی عدم موجودگی میں بیان کیا جائے جو دوسروں کی نظروں میں اپنے ایک مسلمان بھائی کی حیثیت و شخصیت کو گھٹاتا ہے تو یہ سخت غیبت ہے اور حرام ہے اور اگر کسی کے منہ پر اس کے کسی عیب کو اس طرح بیان کیا جائے جس سے اس کو ناگواری اور دل شکنی ہو تو یہ ایک طرح کی بے حیائی، سنگدل اور ایذاء رسانی ہے کہ یہ اور بھی سخت گناہ ہے۔غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے غیبت کرنے والا اس سے معافی طلب کرے بشرطیکہ اس غیبت کی خبر اس تک پہنچی ہو اور اس سے معافی کی طلب کے وقت تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اجمالی طور پر اتنا ہی کافی ہے کہ میں نے تمہاری غیبت کی ہے مجھے معاف کر دو اور اگر وہ غیبت اس تک نہ پہنچی بایں طور کہ وہ مرگیا ہویا کسی دور دراز جگہ پر ہو تو اس صورت میں استغفار کافی ہے یعنی اپنے اس گناہ پر خدا سے مغفرت و بخشش طلب کرے نیز احادیث میں یہ بھی منقول ہے کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کے حق میں استغفار کرنا غیبت کے کفارہ میں داخل ہے۔

غیبت کس صورت میں جائز ہے: علماء نے لکھا ہے کہ کسی کا عیب اس کے پیٹھ پیچھے بیان کرنا بعض صورتوں میں جائز ہے مثلاً کوئی شرعی صورت لاحق ہو،جیسے ظالم کا ظلم بیان کرنا، حدیث کے راویوں کا حال ظاہر کرنا، نکاح کے مشورہ کے وقت کسی کا نسب یا حال رویہ بیان کرنا، یا کوئی مسلمان کسی سے امانت و شرکت وغیرہ کا کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو اس مسلمان کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اس شخص کا رویہ بیان کر دینا وغیرہ وغیرہ اسی طرح کوئی شخص ظاہری طور پر دین دار زندگی کا حامل ہے یعنی نماز بھی پڑھتا ہے اور روزہ بھی رکھتا ہے اور دیگر فرائض بھی پورے کرتا ہے مگر اس میں یہ عیب ہے کہ لوگوں کو اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے تکلیف و نقصان پہنچاتا ہے تو لوگوں کے سامنے اس کے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہیں کہلائے اور اگر اس شخص کے بارے میں ذمہ داران حکومت کو اطلاع دے دی جائے تاکہ وہ اس کو متنبہ کر دیں اور اس کی ایذاء رسانی سے لوگ محفوظ رہیں تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ بطریق اصلاح و اہتمام کسی شخص کے عیب کو ذکر کرنا کوئی مضائقہ نہیں رکھتا ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب کہ اس کے عیب کو ذکر کرنے کا مقصد اس شخص کی برائی بیان کرنا اور اس کو نقصان و تکلیف پہنچانا ہو اسی طرح کسی شخص کی کسی شہر والوں یا کسی بستی کے لوگوں کی غیبت نہیں کہیں گے جب تک کہ وہ متعین طور پر کسی جماعت کا نام لے کر اس کی غیبت نہ کرے۔

فحش گو بدترین شخص ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو آنے دو۔ وہ اپنی قوم کا برا آدمی ہے پھر وہ شخص جب آ کر بیٹھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرتے رہے جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے تو اس شخص کے بارے میں ایسا ایسا کہا تھا یعنی یہ فرمایا تھا کہ وہ شخص اپنی قوم کا برا آدمی ہے مگر آپ نے اس سے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرمائی اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرتے رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے مجھ کو فحش گو کب پایا۔ قیامت کے دن خدا کے نزدیک درجہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے بدتر شخص وہ ہو گا جس کو لوگ اس کی برائی کے ڈر سے چھوڑ دیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں جس کی فحش گوئی سے۔ (بخاری، مسلم)

 

تشریح

 

حدیث میں جس شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اس کا نام عیینہ بن حصین تھا، یہ شخص اپنی سنگدلی بد خلقی اور سخت مزاجی کے اعتبار سے بہت ہی مشہور تھا اور اپنی قوم کا سردار بھی تھا اس کا شمار مولفۃ القلوب میں ہوتا تھا تاکہ اس کو اسلام پر قائم و ثابت قدم رکھا جا سکے اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ ہی میں اس کے دین و بیان میں نقصان و اضمحلال کا اظہار ہونے لگا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد دین و ایمان سے پوری طرح منحرف ہو کر مرتد ہو گیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو گرفتار کر لیا پھر اس نے دوبارہ ایمان قبول کیا اور اسلام کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا بہر حال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے بارے میں ذکر کیا کہ اس نے اپنے ابتدائی زمانہ اسلام میں جب ایک دن ہمارے دروازے پر پہنچ کر بارگاہ نبوت میں حاضری کی اجازت چاہی تو آپ نے اس کو آنے کی اجازت دے دی اور حاضرین مجلس سے فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا ایک برا شخص ہے اس نے اسی موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنے اسلام کا اظہار کیا اگرچہ اس کا اسلام کامل اور اس کا ایمان راسخ نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ علامات نبوت میں سے ایک علامت اور آپ کا ایک معجزہ تھا کہ آپ نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ اس کے بارے میں آئندہ پیش آنے والے واقعات اور اس کے باطن کے حقیقی احوال سے لوگوں کو پہلے ہی مطلع کر دیا اور آخرکار اس کی برائی و بدی بصورت ارتداد وغیرہ آشکار ہوئی اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آپ نے اس کے حق میں مذمت کے جو الفاظ فرمائے یا یوں کہے کہ اس کہ جس عیب کو ظاہر فرمایا اس کا مقصد اس کے احوال کو منکشف کرنا تھا تاکہ لوگ اس کو جان لیں اور اس کی حقیقت حال سے باخبر رہ کر اس کے فریب اور اس کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد میں مبتلا نہ ہو سکیں لہذا اس کو غیبت نہ کہا جائے گا۔

امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملنا اور مسکرا مسکرا کر اس سے باتیں کرنا اس کی تالیف قلب کی خاطر تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی مدارت کرنا جائز ہے جس کی فحش گوئی بد خلقی اور اس کے ضرر کا خوف ہو نیز اس سے یہ بھی ہوا کہ کسی فاسق کے عیب کو ظاہر کرنا یعنی اس کی غیبت کرنا جائز ہے اس موقع پر مدارات اور مداہنت کے درمیان فرق سمجھ لینا چاہیے۔ مدارات تو اس کو کہتے ہیں کسی شخص کی دنیا یا دین اور یا دونوں کی اصلاح کے لیے اس پر دنیا کی چیز کو خرچ کیا جائے اور یہ مباح ہے بلکہ بسا اوقات اس کی حیثیت ایک اچھی چیز کی ہو جاتی ہے اس کے برخلاف مداہنت اس کو کہتے ہیں کہ کسی کی اصلاح و مدد کے لیے اس پر دین قربان کیا جائے، مدارات اور مداہنت کے درمیان اس فرق کو یاد رکھنا چاہیے کیونکہ اکثر لوگ اس سے غافل ہیں اور اس فرق کو نہ جاننے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔تم نے مجھ کو فحش کب پایا  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد در اصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خیال کو صحیح کرنے کے لیے تھا جنہوں نے اپنے قول کے ذریعہ گویا اپنی حیرت کا اظہار کیا کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں مختلف رویہ اختیار فرمایا جب وہ آپ کے سامنے نہیں تھا تو آپ نے اس کی مذمت فرمائی اور جب وہ آپ کے سامنے آیا تو اس کے ساتھ ملاطفت و یگانگت کا برتاؤ کیا جب آپ نے اس کی عدم موجودگی میں اس کو برا کہا تو اس کی موجودگی میں بھی اس کو برا کہتے اور اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے جو کسی برے آدمی کے ساتھ کیا جاتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات کے جواب پر واضح فرمایا کہ اگر میں اس کے سامنے بھی وہی بات کہتا جو اس کی عدم موجودگی میں کہی تھی اور ایک نازیبا اور لچر بات ہوتی جب کہ تم نے مجھے کبھی بھی لچر باتیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ارشاد فرمایا اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ واضح فرمایا کہ میں نے اس شخص کے منہ پر اس کو اس لیے برا نہیں کہا کہ میں سخت گو قرار نہ پا سکوں اور میرا شمار ان لوگوں میں نہ ہونے لگے جن کی سخت اور کڑوی باتوں کہ وجہ سے لوگ ان سے ملنا چھوڑ دیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے الفاظ کے ذریعہ گویا ظاہر فرمایا کہ وہ شخص چونکہ بہت شریر اور بد باطن تھا لہذا میں نے اس کی بد باطنی کی وجہ سے اس سے اجتناب کیا اور اس کے منہ پر اس کو برا نہیں کہا اور حقیقت میں برا شخص وہی ہے جس کی برائی سے بچنے کے لیے لوگ اس سے اجتناب کریں اور اس کے عیوب سے بھی آگاہ نہ کریں۔

اپنے عیب کو ظاہر نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت پوری عافیت میں ہے علاوہ ان لوگوں کے جو اپنے عیوب اور گناہ کو ظاہر کرتے ہیں یعنی میری امت کے وہ سارے گنہگار جو ایمان کی حالت میں مریں اللہ تعالی کے سخت عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے البتہ وہ لوگ یقیناً سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے جو نہ صرف گناہ کرتے ہیں بلکہ اپنے گناہ کو دنیا والوں پر ظاہر بھی کرتے پھرتے ہیں بلا شبہ یہ بات بڑی بے پروائی کی ہے کہ کوئی شخص رات میں برا کام کرے اور پھر صبح ہونے پر جب کہ اللہ نے اس کے اس برے کام کو چھپا لیا تھا تو وہ لوگوں سے یہ کہتا پھرے کہ اے فلاں شخص میں نے آج رات میں ایسا ایسا (یعنی فلاں برا کام) کیا حالانکہ اس کے پروردگار نے رات میں اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی تھی اور اس نے صبح ہوتے ہیں اللہ کے پردہ کو چاک کر دیا۔ (بخاری و مسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں من کان یومن باللہ باب الضیافۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں لفظ معافا کے معنی سلامت و محفوظ رہنا لکھے ہیں گویا ان کے نزدیک کل امتی معافا الاّ المہاجرون، کا ترجمہ یوں ہوں گا کہ میری امت کے تمام لوگ غیبت سے محفوظ و مامون ہیں یعنی شریعت خداوندی میں کسی مسلمان کی غیبت کرنے کو روا  نہیں رکھا گیا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو گناہ و معصیت کے کھلم کھلا ارتکاب کرتے ہیں ایک دوسرے شارح حدیث طیبی نے بھی یہی معنی لکھے ہیں کہ لیکن ملا علی قاری نے یہ لکھا ہے کہ حدیث کا سیاق و سباق اور اس کا حقیقی مفہوم اس معنی پر دلالت نہیں کرتا چنانچہ ان کے نزدیک زیادہ مبنی بر حقیقت کے معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں نقل کیے گئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ شریعت نے جس غیبت کو حرام قرار دیا ہے وہ اس شخص کی غیبت ہے جو پوشیدہ طور پر کوئی گناہ کرتا ہے اور اپنے عیب کو چھپاتا ہے لیکن جو لوگ کھلم کھلا اور ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کرتے ہیں اور اپنے عیب کو خود ظاہر کرتے پھرتے ہیں کہ نہ تو خدا سے شرماتے ہیں اور نہ بندوں سے تو ان کی غیبت کرنا درست ہے۔علماء نے لکھا ہے کہ فاسق معلن یعنی کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والے کی غیبت کرنا جائز ہے نیز ظلم کرنے والے حاکم و سلطان اور مبتدع داعی کی اور داد خواہی و اظہار ظلم کے لیے غیبت کرنا بھی درست ہے اسی طرح اصلاح عیوب کی خاطر اور بقصد نصیحت کسی کی برائی کو بیان کرنا کسی کے گواہ و شاہد کے حالات کی چھان بین اور اس کے بارے میں صحیح اطلاعات بہم پہنچانے کی خاطر اس کے عیوب کو بیان کرنا اور اخبار و احادیث کے راویان کی حیثیت و شخصیت کو واضح کرنے کے لیے ان کے عیوب کو ظاہر کرنا غیبت میں داخل نہیں ہے۔

جھوٹ اور مخاصمت کو ترک کرنے والے اور اخلاق و اطوار کو اچھا بنانے والے کا ذکر

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ جھوٹ ناحق و ناروا ہو تو اس کے لیے جنت کے کنارے پر محل بنایا جاتا ہے اور جو شخص جھگڑے اور بحث و تکرار چھوڑ دے باوجودیکہ وہ حق پر ہو اس کے لیے جنت کی بلند جگہ پر محل بنایا جاتا ہے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اسی طرح کی روایت شرح السنۃ اور مصابیح میں منقول ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

حدیث میں ان تین طرح کے لوگوں کا ذکر ہے جن کو جنت میں نمایاں مقامات پر رکھا جائے گا ایک طرح کے لوگ وہ ہیں جو جھوٹ بولنا بالکل ترک کر دیں اس موقع پر ناحق کی قید لگائی گئی ہے یعنی ایسا جھوٹ جو بالکل ناروا اور ناجائز ہوتا ہے اس قید کی وجہ یہ ہے کہ بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے جیسے جنگ کی حالت میں بشرطیکہ اس جھوٹ کی وجہ سے کسی طرح کی عہد شکنی نہ ہوئی ہو یا لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کی خاطر اور کسی مسلمان کا ایسا مال بچانے کے لیے جو ناروا طور پر اپنے مالک کے ہاتھ سے جا رہا ہو اور یا دو بیویاں رکھنے کی صورت میں یعنی اگر کسی شخص کے ہاں دو بیویاں ہوں تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی ہر ایک بیوی کا دل خوش کرنے کے لیے ہر ایک سے یوں کہے کہ میں تمہیں زیادہ چاہتا ہوں اور بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک ہی بیوی ہونے کی صورت میں بھی اس وقت جھوٹ بولنا جائز ہوتا ہے کہ جب وہ بیوی کا دل خوش کرنے کے لیے اس سے یوں کہے کہ میں تمہیں یہ دوں گا وہ دوں گا یہ بنا دوں گا وہ لا دوں گا۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو حق پر ہونے کے باوجود تواضع کسر نفسی اور شرافت نفس کی بناء پر مخاصمت و نزاع اور بحث و تکرار سے اپنا دامن بچاتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دنیاوی معاملہ سے ہو اس میں سکوت و اجتناب کرنے سے دین میں کوئی خلل نہ پڑے، ہاں اگر کسی مخاصمت و نزاع کا تعلق کسی دینی معاملہ سے تو اس سے اس وقت تک کنارہ کشی اختیار کرنا مناسب نہیں ہو گا جب تک وہ معاملہ نپٹ نہ جائے اور حق ظاہر نہ ہو جائے !حضرت امام شافعی سے منقول ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کسی دینی معاملہ میں کوئی بحث و مناظرہ اس مقصد کے علاوہ اور کسی وجہ سے نہیں کیا کہ میں چاہتا تھا میں سچائی کو ثابت کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوں اور حق میرے مقابل کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ مذکورہ بالا سلسلے میں حضرت امام حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مراء یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار کو اختیار کرنے کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے کلام اور اس کی بات پر اعتراض وارد کرے، بایں طور کہ یا تو اس کے الفاظ میں خلل و نقصان کو ظاہر کرے یا اس کے مضمون و معنی میں غلطی نکالنے اور یا متکلم کے مقصد و مراد کو نادرست قرار دے اس کے برخلاف ترک مراد یعنی جھگڑے اور بحث و تکرار سے اجتناب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کے کلام و قول پر کوئی اعتراض وارد نہ کرے لہذا انسان کو چاہیے کہ جب وہ کلام و بات سنے تو اگر وہ حق ہو تو اس کی تصدیق کرے اور اگر وہ باطل و بے بنیاد ہو اور اس کا تعلق کسی دینی معاملہ سے نہ ہو تو اس سے سکوت اختیار کر لے۔

تیسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو اپنے اخلاق اچھا بناتے ہیں۔ واضح رہے کہ حسن اخلاق یوں تو تمام ہی اچھے اوصاف و کمالات کو اختیار کرنے کا نام ہے لیکن معاشرہ میں عام طور پر حسن اخلاق کا اطلاق، خندہ پیشانی، کشادہ روئی، نرم گوئی اور حسن معاشرت پر ہوتا ہے۔

جنت اور دوزخ لے جانے والی چیزیں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جانتے ہو کہ لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جنت میں داخل کرتی ہے؟وہ تقوی یعنی اللہ سے ڈرنا اور حسن خلق ہے اور جانتے ہو لوگوں کو عام طور پر کونسی چیز جہنم میں لے جاتی ہے ؟وہ کھوکھلی چیزیں یعنی منہ اور شرمگاہ۔ (ترمذی، ابن ماجہ۔

 

تشریح

 

تقوی کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ شرک سے اجتناب کیا جائے اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل میں اللہ کے علاوہ کسی بات کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔ حسن خلق سے مراد مخلوق خدا کے ساتھ خوش خلقی اختیار کرنا ہے جس کا سب سے ادنی درجہ یہ ہے کہ کسی مخلوق کو کوئی تکلفی و ایذا نہ پہنچائی جائے اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اس شخص کے ساتھ بھلائی کرے جس نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس اعتبار سے حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہ ہو گا کہ جس شخص میں تقوی اور حسن خلق یہ دونوں اوصاف پیدا ہو جائیں تو سمجھو کہ اس کی نجات کا دروازہ کھل گیا کیونکہ تقوی یعنی پرہیزگاری سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور خوش خلقی سے مخلوق کی خوشی ملتی ہے اور ظاہر ہے جس انسان سے خدا بھی خوش ہو اور مخلوق خدا بھی تو اس کا بیڑا پار ہونے میں کیا شبہ رہ جائے گا۔

حضرت شیخ عبدالحق نے لکھا ہے کہ خوش خلقی بھی تقوی میں داخل ہے لہذا حدیث میں تقوی کے بعد پھر خوش خلقی کا ذکر کرنا تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہے مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقوی سے تو ظاہری اعمال کا حسن مراد ہے اور حسن خلقی سے باطنی احوال کا حسن۔

طیبی یہ کہتے ہیں کہ تقوی کے ذریعہ تو اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ خالق اللہ تعالی کے ساتھ حسن معاملہ کرے بایں طور کہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جس سے اس کو منع کیا گیا ہے اور ہر اس شے پر عمل کرے جس کا حکم دیا ہے اور حسن خلق کے ذریعہ اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مخلوق خدا کے ساتھ حسن معاملہ کرے یعنی خوش خلقی اختیار کرے۔ حدیث کے دوسرے بڑے جز میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ منہ اور شرم گاہ کے دو بڑے سر چشمے ہیں جن سے پیدا ہونے والی برائیوں میں پڑ کر انسان دوزخ میں جا گرتا ہے چنانچہ منہ کہ اس میں زبان بھی داخل ہے گمراہی اور بد عملیوں کا بڑا ذریعہ ہے انسان جو بھی حرام چیز کھاتا ہے اور پیتا ہے اسی کے منہ کے ذریعہ نگلتا اور وہ جو بھی ممنوع و ناجائز بیہودہ و فحش اور لاطائل کلام و گفتگو کرتا ہے زبان ہی اس کا ذریعہ بنتی ہے اس طرح شرمگاہ خواہ عورت کی یا مرد کی شیطان کا سب سے دل فریب جال ہے جس میں وہ لوگوں کو پھنسا کر دوزخ میں گرا دیتا ہے چنانچہ انسان اسی شرمگاہ کے سبب جنسی جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور نفسانی شہوت میں مبتلا ہو کر اپنے خالق کی نافرمانی کرتا ہے۔

کلمہ خیر اور کلمہ شر کی اہمیت

اور حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انسان کوئی کلمہ خیر (بھلائی کی کوئی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی اسی کلمہ خیر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی کو ثابت کر دیتا ہے جب کہ وہ اللہ تعالی سے ملاقات کرے اسی طرح کوئی انسان کلمہ شر (یعنی کوئی برائی کی بات) اپنی زبان سے نکالتا ہے درآنحالیکہ وہ اس کی اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اللہ تعالی اس کلمہ شر کے سبب سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خفگی ثابت کر دیتا ہے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے۔ (شرح السنہ) اور امام مالک، ترمذی، اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

اپنی خوشنودی کو ثابت کر دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو ایسی باتوں کی توفیق دیتا ہے جو رضاء الہی کا موجب ہیں اس کو برزخ میں قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے اس کی قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس طرح سو رہو جیسے نوشہ سوتا ہے پھر وہ قیامت کے دن نیک بختی و سعادت کے ساتھ اٹھے گا کہ اس پر حق تعالی کی رحمت کا سایہ ہو گا جنت میں داخل کیا جائے گا اور وہاں کی نعمتیں اس کا نصیب بنیں گی۔ اسی طرح جس شخص کے حق میں اللہ تعالی اپنی خفگی قائم کر دے گا اس کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گا لہذا حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اس دن تک کے لیے جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے تو اس توقیت کا یہ مطب ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کی رضا یا اس کی خفگی بس اسی دن تک محدود رہے گی۔ اس کے بعد منقطع ہو جائے گی اس کی تائید قرآن کریم اس آیت سے بھی ہوتی ہے جو اللہ تعالی نے ابلیس کے حق میں نازل فرمائی کہ، آیت (وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيْٓ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ) 68۔ص:78) ظاہر آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابلیس لعین، اللہ کی لعنت کا مورد صرف قیامت کے دن تک ہی ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ تک اللہ کے لعنت میں گرفتار رہے گا اسی طرح حدیث میں مذکورہ لوگوں کے حق میں اللہ تعالی کی خوشنودی یا خفگی کا تعلق موت کے دن کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ، کلمہ خیر، سے مراد ظالم سلطان و حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ اس پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ، کلمہ شر، سے مراد کسی حاکم و سلطان کے سامنے کلمہ باطل یعنی بری بات کہنا ہے جو دین کو نقصان پہنچائے لیکن حدیث کا ظاہر مفہوم عمومیت پر دلالت کرتا ہے۔

جھوٹے لطیفوں کے ذریعہ لوگوں کو ہنسانے والے کے بارے میں وعید

بہز ابن حکیم اپنے والد (حکیم ابن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا (حضرت معاویہ ابن عبدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا افسوس اس شخص پر جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے، افسوس اس شخص پر افسوس اس شخص پر۔ (احمد، ابوداؤد،دارمی)

 

تشریح

 

 ویل  کے معنی ہیں عظیم ہلاکت اور ویل دوزخ کی ایک گہری وادی کا نام بھی ہے جس میں اگر پہاڑ ڈال دیئے جائیں تو گرمی سے گل جائیں اہل عرب کے کلام میں یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی برائی اور ناپسندیدہ امر کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کے تئیں اظہار تاسف اور اس کو متنبہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے ارشاد کے آخر میں مذکورہ لفظ کو پھر استعمال کرنا اور مکرر استعمال کرنا گویا ایسے شخص کے حق میں زجر وعید کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا مقصود تھا جو بے بنیاد باتوں اور جھوٹے لطائف و قصص کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے۔ ویل لمن یحدث فیکذب، میں لفظ یکذب (جھوٹ بولنے کی قید سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ہم جلیسوں اور یاروں اور دوستوں کو خوش کرنے اور ان کو ہنسانے کے لیے ایسی بات کرے یا ایسے لطیفے اور قصے سنائے جو سچے ہوں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ یہ ضروری ہے کہ اس کو اپنی عادت نہ بنائے اور نہ لطیفہ گوئی کو بطور پیشہ اختیار کرے کیونکہ خوش طبعی و بذلہ سخی جو جھوٹ پر مبنی نہ ہو، باوجودیکہ مشروع و مسنون ہے لیکن اس کو کبھی کبھار ہی اختیار کیا جائے نہ کہ ہمیشگی کے ساتھ اس طرح ہر وقت لوگوں کو ہنسانے اور مسخرا پن کرنے ہی میں نہ لگا رہے اور نہ اس پر زیادہ توجہ دے کیونکہ اس کا مال کار نقصان و خسران کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا جیسا کہ اگلی حدیث میں فرمایا گیا ہے۔

مسخرے پن اور زبان کی لغزش سے بچو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ ایک بات کہتا ہے اور صرف اس لیے کہتا ہے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہنسائے تو وہ اس بات کی وجہ سے (دوزخ میں) جا گرتا ہے اور اتنی دور جا گرتا ہے جو زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندہ اپنے قدموں کے ذریعہ پھسلنے سے زیادہ اپنی زبان کے ذریعہ پھسلتا ہے۔ (بیہقی

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے پاؤں پھسلنے سے منہ کے بل گر پڑے اور ضرر اٹھائے تو یہ اتنا سخت نہیں جتنا سخت وہ ضرر ہے جو زبان کے پھسلنے یعنی اس سے جھوٹ وغیرہ کے صادر ہونے کی وجہ سے اٹھانا پڑتا کیونکہ پاؤں کی لغزش بدن کو ضرور پہنچاتی ہے اور زبان کی لغزش دین و آخرت کے نقصان میں مبتلا کرتی ہے اور ظاہر ہے کہ جسمانی نقصان و ضرر دینی نقصان و ضرر سے ہلکا ہوتا ہے۔

ایک چپ لاکھ بلا ٹالتی ہے

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ (احمد، ترمذی،دارمی، بیہقی)۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ چپ رہ کر اور زبان کو بری باتوں سے محفوظ رکھ کر دنیا کی بہت سی آفتوں سے نجات مل جاتی ہے اور دینی و اخروی طور پر بھی بہت سی بلاؤں اور نقصان و خسران سے نجات حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ انسان عام طور پر جن بلاؤں اور آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے اکثر زبان ہی کے ذریعہ سے پہنچتی ہیں۔

کلام کی قسمیں: امام غزالی نے لکھا ہے کہ انسان اپنی زبان سے جو بات نکالتا ہے اور جو کلام کرتا ہے اس کی چار قسمیں ہیں۔ ایک تو محض نقصان، دوسرے محض نفع، تیسرے وہ بات اور کلام جس میں نہ نفع ہوتا ہو اور نہ نقصان ہوتا ہو اور چوتھے وہ بات و کلام جس میں نفع بھی اور نقصان بھی اس سے خاموشی ہی اختیار کرنا چاہے کیونکہ نقصان سے بچنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور وہ کلام کہ جس میں نہ نفع ہو نہ نقصان تو ظاہر ہے کہ اس میں زبان کو مشغول کرنا محض وقت ضائع کرنا ہے اور یہ چیز بھی خالص ٹوٹا رہے ہی دوسری قسم یعنی وہ کلام جس میں نفع ہی نفع ہو تو اگرچہ ایسی بات و کلام میں زبان کو مشغول کرنا برائی کی بات نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں بھی ابتلائے آفت کا خطرہ ضرور ہوتا ہے بایں طور کہ ایسے کلام میں بسا اوقات ریاء و تصنع، خوشنودی نفس اور فضول باتوں کی آمیزش ہو جاتی ہے اور اس صورت میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ کہاں لغزش ہو گئی ہے۔ حاصل یہ کہ ہر حالت اور ہر صورت میں خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں ان گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل الاّ یہ کہ زبان کو ہی بند رکھا جائے کسی نے خوب کہا ہے،

  اللسان جسمہ صغیر وجرمہ کبیر وکثیر زبان کا جثہ تو چھوٹا ہے مگر اس کے پاپ بڑے اور بہت ہیں۔

دنیا و آخرت نجات کے ذریعے

اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ مجھے بتائیے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھو تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے اور اپنے گناہوں پر روؤ۔ (احمد، ترمذی)

 

تشریح

 

لفظ، املک، الف کے زبر اور لام کے زیر کے ساتھ ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق نے الف کے زیر کو ترجیح دی ہے اس جملہ کے ایک معنی شارخ نے یہ لکھے ہیں کہ اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور باتوں سے صاف رکھو جن میں خیرو بھلائی نہیں ہے لیکن اس جملہ کے زیادہ صحیح معنی یہ ہیں کہ اپنی زبان کو بند رکھو کہ گویا تم اپنے تئیں اپنے امور کی نگہداشت رکھتے ہو۔ یعنی اپنے دین کے معاملہ میں محتاط و پرہیز گار اور اپنے حالات کوائف پر متوجہ ہونا ظاہر ہے کہ جب تم اپنے معاملات میں محتاط پرہیز گار ہو گے اور اپنے احوال و کوائف پر متوجہ رہ کر اپنی برائیوں اور بھلائیوں پر نظر رکھو گے تو راہ نجات تمہارے سامنے ہو گی۔

 تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے  کا مطلب یہ ہے کہ بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی خاطر یکسوئی اختیار کرو اپنے اپنے گھر سے اسی وقت باہر نکلو جب نکلنے کی ضرورت پیش آئے اور اس یکسوئی و گوشہ نشینی کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہو بلکہ اس کو غنیمت جانو کیونکہ یہ چیز بہت سے فتنہ فساد و برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے،،ھذا زمان السکوت وملازمۃ البیوت والقناعۃ بالقوہ الی ان تموت۔طیبی کہتے ہیں کہ ویسعک بیتک میں حکم ظاہر مورد تو گھر ہے لیکن حقیقت میں اس حکم کا مورد مخاطب ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ مخاطب کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے گھر میں یکسوئی اور گوشہ نشینی اختیار کر کے مولی کی عبادت میں مشغول رہو۔ اپنے گناہوں پر رونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی خطاؤں اور اپنی تقصیرات پر نادم و شرمسار ہو کر طلب مغفرت کے لیے خدا کے حضور گڑا گڑاؤ اور خشوع خضوع اختیار کرو اور اگر رونا نہ آئے تو کم سے کم رونے کی صورت بنا لو۔

تمام اعضاء جسم، زبان سے عاجزی کرتے ہیں

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء چشم زبان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں اللہ سے ڈر کیونکہ ہمارا تعلق تجھ ہی سے ہے اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

یوں تو سارے جسمانی نظام کا ظاہر و رحانی دار و مدار دل پر ہے کہ اگر دل درست و صالح ہے تو تمام اعضاء جسم بھی درست و صالح رہتے ہیں اور اگر دل فاسد و ناکارہ ہے تو سارے اعضاء بھی فاسد و ناکارہ ہو جاتے ہیں جب کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے.....

  ان فی الجسد مضغۃ ان صلحت صلح الجسد واذافسدت فسد الجسد کلہ جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے (جس کو دل کہا جاتا ہے) اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہے اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔

اس حقیقت کے باوجود اس حدیث میں یہ ظاہر کرنا کہ گویا زبان ہی سارے اعضاء جسم کی سردار ہے اس اعتبار سے ہے کہ حقیقت میں دل ہی جسم کا بادشاہ ہے مگر دل کا ترجمان اور خلیفہ زبان ہی ہے۔ کہ دل جو کچھ سوچتا ہے زبان اس کو بیان کرتی ہے اور دیگر اعضاء جسم اس پر عمل کرتے ہیں لہذا جو حکم دل کا ہے وہی زبان کا ہے کہ جس طرح دل کے صالح و فاسد ہونے کا اثر سارے اعضاء جسم پر پڑتا ہے اس طرح زبان کا بناؤ بگاڑ بھی تمام اعضاء جسم کو بناتا اور بگاڑتا ہے۔

حسن اسلام کیا ہے

اور حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ یعنی حضرت امام زین العابدین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے۔ مالک، احمد) نیز اس روایت کو ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی اور شعب الایمان میں بیہقی نے دونوں یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، اور حضرت علی ابن حسین رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے اسلام کے حسن و خوبی اور ایمان کے کامل ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کرے جس کا اہتمام نہیں کیا جاتا جس کے ساتھ کوئی غرض متعلق نہیں ہوتی اور جس کی یہ شان نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اس کا اہتمام کرے اور اس کے حصول میں مشغولیت اختیار کرے حاصل یہ کہ وہ چیز کوئی امر ضروری نہ ہو چنانچہ جس چیز کا امر لایعنی کہا جاتا ہے اس کی تعریف و وضاحت یہی ہے اس کے برخلاف جو چیز امر ضروری کہلاتی ہے اور کوئی شخص جا اہتمام کرتا ہے وہ ایسی چیز ہوتی ہے جس کے ساتھ دنیا میں ضروریات زندگی اور آخرت میں سلامتی ونجات وابستہ ہوتی ہے مثلاً دنیا کی ضروریات زندگی میں سے ایک تو غذا ہے جو بھوک کو مٹاتی ہے دوسرے پانی ہے جو پیاس کو رفع کرتا ہے تیسرے کپڑا ہے جو ستر کو چھپتا ہے چوتھے بیوی ہے جو عفت وپاکدامنی پر قائم رکھتی ہے اور اسی طرح کی وہ چیزیں جو زندگی کی دوسری ضروریات کو پورا کریں نہ کہ وہ چیزیں جن سے محض نفس کی لذت حرص و ہوس کی بہرہ مندی اور دنیا کی محبت کا تعلق ہوتا ہے نیز ایسے افعال واقوال اور تمام حرکات و سکنات بھی نہیں جو فضول و بے فائدہ ہوں، اسی طرح وہ چیز کہ جس سے آخرت کی سلامتی و نجات متعلق ہوتی ہے ایمان و اسلام اور احسان کی جس کی وضاحت ابتداء کتاب میں حدیث جبرائیل میں ذکر ہو چکی ہے۔ حاصل یہ کہ جو چیزیں دنیا و آخرت میں ضروری ہیں اور جن پر دینی و دنیوی زندگی کا انحصار و مدار ہوتا ہے اور جو مولی کی رضا و خوشنودی کا سبب و ذریعہ بنتی ہے وہ تو لایعنی نہیں ہیں ان کے علاوہ باقی تمام چیزیں لایعنی ہیں خواہ ان چیزوں کا تعلق عمل سے ہو یا قول سے۔

حضرت امام غزالی نے کہا کہ لایعنی (بے فائدہ بات) کا آخری درجہ یہ ہے کہ تم کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نکالو کہ جس کو اپنی زبان سے نہ نکالتے تو گناہگار ہوتے اور اس کی وجہ سے تمہیں فوری طور پر کوئی نقصان پہنچتا اور نہ مال کے اعتبار سے اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کرو، تم کچھ لوگ ساتھ بیٹھے ہوئے ہو، اب تم نے ان کے سامنے اپنے کسی سفر کے احوال بیان کیے اس بیان احوال کے دوران تم نے ہر اس چیز کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو تم نے اپنے سفر کے دوران دیکھی مثلاً پہاڑ عمارت وغیرہ یا جو کچھ واقعات و حادثات پیش آئے تھے ان کے بارے میں بتایا، پھر تم نے ان اچھے کھانوں،عمدہ لباس و پوشاک اور دوسری چیزوں کا بھی ذکر کیا جو تمہیں ملی تھیں یا جن کو تم نے دیکھا تھا، ظاہر ہے کہ تم نے یہ جو ساری تفصیل بیان کی اور جن امور کا ذکر کیا وہ یقیناً ایسی چیزیں ہیں کہ اگر تم ان کو بیان نہ کرتے تو گناہگار ہوتے اور نہ تمہیں کوئی نقصان و ضرر برداشت کرنا پڑتا جب کہ اس لمبی چوڑی تفصیل بیان کرنے کی صورت میں بہت ممکن ہے کہ کسی موقع پر تمہاری زبان لغزش کھائی ہو اور اس سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہو جس سے تم گناہگار بن گئے ہو۔

کسی کی آخرت کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی حکم نہ لگاؤ

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ میں سے ایک شخص کا انتقال ہوا تو ایک دوسرے شخص نے (مرحوم کی میت کو مخاطب کر کے کہا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کی برکت سے تمہیں) جنت کی بشارت ہو۔ رسول اللہ نے یہ بات سن کر اس شخص سے فرمایا کہ تم یہ بات کس طرح کہہ رہے ہو جبکہ حقیقت حال کا تمہیں علم نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے کسی ایسے معاملہ میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اس کے لیے ضرر رساں نہ ہو یا کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو جس میں کمی نہ آئے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

کسی ایسے معاملے میں اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بے فائدہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کیا ہو اور ایسے امور میں خواہ مخواہ کے لیے اپنی زبان سے الفاظ نکالے ہوں جو اسکے لیے کسی طرح کا ضرر و نقصان پہنچانے کا سبب نہ ہوں۔ کسی ایسی چیز میں بخل کیا ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز کو دینے میں بخل سے کام لیا ہو جو دیئے جانے کے باوجود کم نہیں ہوتی جیسے علم کی تعلیم یا مال زکوٰۃ کی ادائیگی کہ علم تقسیم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے سے علم اور مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی بلکہ ان میں زیادتی ہی ہوتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد کا ماحصل یہ تھا کہ اس شخص کے جنت میں جانے کے بارے میں اس طرح کا جزم و یقین کیوں ظاہر کیا ہے؟جب کہ تمہیں اس کی زندگی کے سارے ظاہری باطنی گوشوں سے واقفیت اور اس کے احوال کی حقیقت کا علم نہیں ہے بے شک اس شخص کی ظاہری زندگی بڑی پاکیزہ تھی اور اس کو صحابیت کی سعادت بھی حاصل ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی زبان سے کوئی لایعنی بات نکالی ہو یا بخل کیا ہو اور اس مواخذہ حساب میں گرفتار ہو کر جنت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہو۔

جھوٹ بولنا حفاظت کرنے والے فرشتوں کو اپنے سے دور کر دیتا ہے

اور حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ میرے بارے میں جن چیزوں سے ڈرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک چیز کون سی ہے؟حضرت سفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا کہ یہ چیز یعنی تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ ڈر اس زبان سے لگتا ہے کہ گناہ کی اکثر باتیں اس سے سرزد ہوتی ہیں لہذا تم اس زبان کے فتنہ سے بچو۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

 

 

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی پیدا کی ہوئی چیز یعنی جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے (حفاظت کرنے والے) فرشتے اس سے کوس بھر دور چلے جاتے ہیں۔

کسی کو اپنے جھوٹ کے دھوکے میں مبتلا کرنا بہت بڑی خیانت ہے

اور حضرت سفیان ابن اسد حضری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو اور وہ تم کو اس بات میں سچا جانے جب کہ حقیقت میں تم نے اس سے جھوٹ بولا ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہر حالت اور ہر موقع پر جھوٹ بولنا بہت برا ہے مگر اس صورت میں تو بہت ہی برا ہے کہ تم اپنے کسی مسلمان بھائی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤ بایں طور کہ وہ تو تمہیں سچ بولنے والا سمجھے مگر تم اس سے جھوٹ بولو۔

دو رویہ کے بارے میں وعید

اور حضرت عمار کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا،جو شخص دنیا میں دو رویہ یہ ہو گا کہ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوں گی۔ (دارمی)

 

تشریح

 

دو رویہ اصل میں منافق صفت آدمی کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو کسی کے حق مخلص نہ ہو، زبان سے کچھ کہے اور دل میں کچھ رکھے جب کسی کے سامنے بات کرے تو اس طرح کہ مخاطب یہ سمجھے کہ یہ میرا بڑا دوست ہمدرد ہے مگر جب اس کے پیٹھ پیچھے بات کرے تو زبان سے ایسے الفاظ نکالے جو اس کے لیے تکلیف کا باعث ہوں۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ دو رویہ اس شخص کو کہتے ہیں جو آپس میں مخاصمت رکھنے والے دو آدمیوں میں سے ہر ایک کی منہ دیکھی بات کرے ایک کے پاس جائے تو اس کی پسند کی باتیں کریں اور وہ یہ سمجھے کہ یہ میرا دوست اسی طرح دوسرے کے پاس جائے تو اس کی سی کہے اور وہ سمجھے کہ یہ میرا دوست ہے غرضیکہ دونوں میں سے ہر ایک کے پاس اس کی محبت ظاہر کرے اور دوسرے کی برائی کرے اسی طرح دونوں ہی اس کے بارے میں غلط فہمی کاشکار رہیں۔ اور ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرا دوست وہمدرد ہے اور میرے مخالف کا دشمن و بد خواہ۔

کمال ایمان کے منافی چیزیں

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا۔ (کامل) مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے نہ لعن کرنے والا نہ فحش گوئی کرنے والا ہوتا ہے۔ نہ زبان درازی کرنے والا اور بیہقی کی روایت میں فحش نہ گوئی کرنے والا زبان دراز کے الفاظ ہیں یعنی اس روایت میں بذی کو فاحش کی صفت قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہو سکتا جو حد سے زیادہ فحش گوئی کرنے والا ہو نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

کمال ایمان کے منافی چیزیں

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، وہ شخص کامل مومن نہیں ہو سکتا جو بہت زیادہ لعنت کرنے والا اور لعنت کرنے کا عادی ہو۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور کسی مومن کے لیے یہ موزوں نہیں ہے کہ وہ بہت لعنت کرنے والا ہو۔ (ترمذی)

بد دعا کرنے کی ممانعت

اور حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا آپس میں ایک دوسرے کے لیے نہ تو خدا کی لعنت کی بد دعا کر نہ خدا کے غضب کی اور نہ جہنم میں جانے کی بد دعا کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ یوں تو کسی صورت میں بھی کسی مسلمان کو اپنے کسی مسلمان بھائی کے حق میں بد دعا نہ کرنی چاہیے کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں لیکن خدا کی لعنت وغیرہ جیسے چیزوں کی بد دعا کرنا تو سخت برا اور گناہ کی بات ہے چنانچہ کسی کے حق میں اس طرح بد زبانی نہ کرنی چاہیے کہ تجھ پر خدا کی لعنت ہو یا تجھ پر خدا کا غضب ٹوٹے یا خدا کرے تو جہنم میں جائے اور یا خدا کرے تو دوزخ کی گھاٹی میں جلے وغیرہ وغیرہ۔

جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے

اور حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی بندہ کسی چیز یعنی کسی انسان یا غیر انسان پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف جاتی ہے اور آسمان کے دروازے اس لعنت پر بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ لعنت دائیں بائیں طرف جانا چاہتا ہے، چنانچہ جب وہ کسی طرف بھی راستہ نہیں پاتی تو اس چیز کی طرف متوجہ ہوتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہے یہاں تک کہ اگر وہ چیز اس لعنت کی اہل و سزا وار ہوتی ہے تو اس پر واقع ہو جاتی ہے ورنہ اپنے کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعہ لعنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ کہ جس چیز کو لوگ بہت معمولی چیز سمجھتے ہیں اور ہر کس وناکس پر لعنت کرتے رہتے ہیں انجام کار خود ہی اس لعنت کا شکار ہو جاتے ہیں چنانچہ جب کوئی شخص کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت ابتداء ہی سے اس پر متوجہ نہیں ہوتی، اور یہ چاہتی ہے کہ ادھر ادھر سے ہو کر باہر نکل جائے مگر جب کسی طرف کو راستہ نہیں پاتی تو آخر کار اس پر متوجہ ہوتی بشرطیکہ وہ اس لعنت کا سزاوار ہو اور اگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس لعنت کا سزا وار نہیں ہوتا تو پھر انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوٹ کر اس شخص پر واقع ہو جاتی ہے جس نے وہ لعنت کی ہے لہذا معلوم ہوا کہ جب تک یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں شخص لعنت کا واقعی مستوجب ہے اس پر لعنت نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ کسی شخص کا قابل لعنت ہونا شارع کی طرف سے بتائے بغیر متعین نہیں ہو سکتا۔

جو شخص لعنت کے قابل نہ ہو اس پر لعنت کرنا خود اپنے آپ کو مبتلائے لعنت کرنا ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن کا واقعہ ہے ایک شخص کی چادر ہوا میں اڑ گئی تو اس نے ہوا پر لعنت کی چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا، ہوا پر لعنت نہ کرو کیونکہ وہ تو حکم کے تابع ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت کرے جو اس لعنت کے قابل نہ ہو تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

وہ تو حکم کے تابع ہے، کا مطلب یہ ہے کہ بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ کسی کی طرح کا تصرف کرنے کے قابل ہے وہ تو چلنے پر منجانب اللہ مامور کی گئی ہے اور حق تعالی نے اپنی حکمتوں اور مصالح کے تحت اس کو پیدا کیا اور چلایا بس اس کا کام چلنا ہے اور وہ چلتی ہے اس صورت میں اگر اس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس ہوا سے دل برداشتہ ہونا اور اس کو برا بھلا کہنا نہ صرف نہایت ناموزوں بات ہے بلکہ تقاضائے عبودیت اور استقامت کے منافی بھی ہے زمانہ کے حوادث و تغیرات اور انسان کے اپنے تابع ارادوں اور افعال کے بارے میں یہی حکم ہے کہ رنج و حادثہ کے وقت اپنے ظاہر و باطن دونوں میں قلب وبان کو اراضی و ساکت رکھے اور اگر کسی تکلیف و حادثہ کے وقت بتقاضائے بشریت اپنے اندر کوئی تغیر اور دل کو متاثر پائے تو لازم ہے کہ زبان کو قابو میں رکھے کہ اس سے شکوہ و شکایت اور اظہار رنج کا کوئی ایسا لفظ نہ نکل جائے جو مرتبہ عبودیت اور اسلامی تعلیمات و آداب کے خلاف ہو۔

اپنے بڑوں کے سامنے ایک دوسرے کی برائی نہ کرو

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا، میرے صحابہ میں سے کوئی شخص کسی کے بارے میں مجھ تک کوئی (ایسی) بات نہ پہنچائے (جس سے اس کی برائی ظاہر ہوتی ہو یعنی میرے پاس آ کر کسی کے بارے میں یہ نہ کہے کہ فلاں آدمی نے یہ برا کام کیا ہے یا یہ بری بات کہی ہے یا وہ اس بری عادت میں مبتلا ہے) کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں گھر سے نکل کر تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو (کہ میرے دل میں تم میں سے کسی کی طرف سے کوئی ناراضگی، غصہ اور بغض نہ ہو۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی میں امت کے لیے یہ تعلیم ہے کہ کوئی آدمی اپنے کسی بڑے مثلاً حاکم و سردار اور بزرگ و شیخ کے سامنے کسی شخص کی برائی بیان نہ کرے تاکہ بغض عداوت اور ناراضگی و خفگی کی صورت پیدا نہ ہو۔ حدیث کے آخری جز کے مطلب یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا اپنی اس خواہش و آرزو کا اظہار فرمایا کہ آپ اپنے صحابہ سے خوش و راضی رہتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوں۔

 

 

 اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (ایک دن مجھے کیا سوجھی کہ) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہہ بیٹھی کہ صفیہ کے تئیں بس آپ کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ایسی ایسی ہیں اس بات سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قد کی کوتاہی کا ذکر کرنا تھا رسول اللہ نے میری یہ بات سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ناگواری کے ساتھ فرمایا تم نے اپنی زبان سے ایک ایسی بات نکالی ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملایا جائے تو بلاشبہ یہ بات دریا پر غالب آ جائے (احمد، ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت صفیہ بن حیی رضی اللہ عنہا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں ان کا قد چھوٹا تھا چنانچہ ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے اس عیب کا ذکر کریں اور اس طرح انہوں نے مذکورہ الفاظ اپنی زبان سے ادا کیے ظاہر ہے کہ یہ غیبت تھی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مبتلا ہوئیں اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس بات پر ناگواری کا اظہار فرمایا اور مذکورہ ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا ان پریہ واضح کیا کہ تم نے جو بات کہی ہے وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے اس قدر ہیبت ناک ہے کہ اگر بالفرض اس کو کسی دریا میں ملا دیا جائے تو دریا اس کے سامنے ہیچ ہو جائے اور یہ چند الفاظ اس دریا کی وسعت و عظمت کے باوجود اس پر غالب آ جائیں اور اس کو متغیر کر دیں اور جب ان الفاظ کے مقابلہ میں دریا کا یہ حال ہے تو سوچو کہ تمہارے اعمال کا کیا حشر ہو سکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی کے اس درجہ کے عیب کو بقصد حقارت بیان کرنا فلاں شخص کوتاہ قد ہے غیبت ہے۔ جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا کذا کذا کے ذریعہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بعض عیوب یعنی ان کے قد کی کوہی کنایۃ بیان کرنا مقصود تھا جب کہ ایک شارح نے کہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ان الفاظ کذا کذا کے ذریعہ دراصل اپنی بالشت کی طرف اشارہ کیا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تو گویا بالشت بھر کی ہیں، نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لفظ کذا کو مکرر لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے اس عیب کو زبان اور اشارہ دونوں ذریعوں سے بیان کرنا تھا چنانچہ ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پہلے تو اپنی زبان سے کہا ہو گا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا ٹھگنی ہیں اور پھر اپنی بالشت کا اشارہ کر کے اپنی بات کو موکد کیا کہ وہ بہت ہی ٹھگنی ہیں ملا علی قاری نے اس طرح کی بات کی ہے۔

بد گوئی عیب دار بناتی ہے اور نرم گوئی، زینت بخشتی ہے

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس چیز میں بد گوئی اور سخت کلام ہو اس کو عیب دار بنا دیتی ہے اور جس چیز میں حیا و نرمی ہو اس کو زیب و زینت عطا کرتی ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی میں فحش یعنی بد گوئی و سخت کلامی اور اس کے مقابلہ پر حیاء یعنی نرم گوئی کی تاثیر و شان کو مبالغہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اگر بالفرض فحش یا حیا کسی پتھر یا لکڑی میں پیدا ہو جائے تو اس کو عیب دار یا با زینت بنا دے اس سے معلوم ہوا کہ بد گوئی و سخت کلامی شخصیت میں نقص و عیب پیدا کرنے کا ذریعہ ہے جب کہ نرم گوئی و خوش کلامی شخصیت میں وقار کو ظاہر کرتی ہے۔

عار دلانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت خالد ابن معدان حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے (یعنی اگر کسی مسلمان سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور کوئی شخص اس کو شرم وغیرت دلاتا ہے اور سرزنش و ملامت کرتا ہے تو وہ عار دلانے مرنے سے پہلے خود بھی اس گناہ میں (کسی نہ کسی طرح ضرور) مبتلا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد اس گناہ سے تھی جس سے اس نے توبہ کر لی ہو، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ خالد نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا ہے۔

 

تشریح

 

کسی مسلمان کا بتقاضائے بشریت کسی گناہ میں مبتلا ہو جانا اور پھر شرم و نادم ہو کر اس گناہ سے توبہ کر لینا اس کی سلامتی و طبع اور حسن ایمان کی علامت ہے اس صورت میں کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ مسلمان اس کے اس گناہ پر شرم و غیرت دلائے اور اس کو سرزنش و ملامت کرے ہاں اگر اس نے توبہ نہیں کی اس گناہ سے اور اس گناہ میں مبتلا ہے تو پھر اس کو شرم و غیرت دلائی جا سکتی ہے اور سرزنش و ملامت بھی کی جا سکتی ہے بشرطیکہ اس کو شرم و غیرت دلانا سرزنش و ملامت کرنا بطریق تکبر و بقصد تحقیر نہ ہو بلکہ تنبیہ و نصیحت کے طور پر اس کو اس گناہ سے باز رکھنے کے قصد سے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مذکورہ ارشاد کی یہ وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد اس سے گناہ تھی۔ الخ۔ حضرت امام احمد حنبل سے منقول ہے اور یہ الفاظ اس روایت کے آخر میں نقل کیے جاتے ہیں۔ امام ترمذی نے اس روایت کو اگرچہ غریب کہا ہے اور اس میں کلام کیا ہے لیکن عراقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو احمد اور طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

کسی کو مصیبت میں دیکھ کر خوشی کا اظہار نہ کرو

اور حضرت واثلہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف پر اپنی خوشی مت ظاہر کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری بے جا خوشی سے ناراض ہو کر اللہ اس پر اپنی رحمت نازل کر دے اور تمہیں اس آفت و مصیبت میں مبتلا کر دے اس روایت امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

کسی کی نقل اتارنا حرام ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میں کسی شخص کی نقل اتاروں اگرچہ میرے لیے ایسا اور ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی مجھے بے حساب مال و زر اور کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ بھی دے تو بھی میں کسی کی نقل اتارنا گوارا نہ کروں، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔

 

تشریح

 

کسی کی نقل اتارنا قولی ہو یا فعلی، حرام اور غیبت محرمہ میں داخل ہے۔

خدا کی رحمت کو کسی کے لیے مخصوص و محدود نہ کرو

اور حضرت جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک دیہاتی شخص اپنے اونٹ پر سوار ہو کر مدینہ اور آیا اس نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے پاؤں کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا پھر اس نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی اور سلام پھیرنے کے بعد اس پر سوار ہوا اور پھر اس نے بلند آواز سے اس طرح کہا کہ اللہ مجھ پر اور محمد پر اپنی رحمت نازل فرما اور ہماری رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر رسول اللہ نے اس کو اس طرح دعا مانگتے سنا تو صحابہ سے فرمایا کہ تم بتا سکتے ہو کہ یہ دیہاتی زیادہ جاہل ہے یا اس کا اونٹ کیا تم نے سنا نہیں اس نے کیا کہا ہے (صحابہ نے عرض کیا جی ہاں ہم نے سنا ہے۔ (ابوداؤد) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کفی بالمرء کذبا۔ الخ، باب الاعتصام میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

اس دیہاتی نے چونکہ اپنی دعا میں اللہ تعالی کی رحمت کو مخصوص و محدود کیا تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مذکورہ الفاظ کے ذریعہ گویا اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا لہذا معلوم ہوا کہ دعا میں اپنے مطلوب کو محدود و مخصوص نہ کرنا چاہیے یعنی یہ دعا نہ مانگنی چاہیے کہ فلاں بات بس ہمارے لیے ہی ہے دوسرے کے لے نہ ہو بلکہ اس میں تمام مومنین و مومنات کو داخل کرنا چاہیے۔

فاسق کی تعریف و توصیف نہ کرو

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب فاسق کی مدح و تعریف کی جاتی ہے تو اللہ تعالی مدح و تعریف کرنے والے پر غصہ ہوتا ہے اور اس کی مدح و تعریف کی وجہ سے عرش کانپ اٹھتا ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

عرش کانپ اٹھتا ہے یا تو اپنے ظاہری مفہوم پر محمول ہے کہ جب کسی فاسق وفاجر کی تعریف کی جاتی ہے تو عرش الہی واقعتاً کانپنے لگتا ہے اور یا ان الفاظ کے ذریعے اس بات کو بطور کنایہ بیان کرنا مقصود ہے کہ فاسق کی تعریف و توصیف ایک بہت ہی ہیبت ناک بات ہے اور انتہائی سنگین برائی ہے اور اس ہیبت ناکی کی وجہ بالکل ظاہر ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی فاسق کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ تعریف کرنے والا گویا ان اومر و افعال سے راضی اور خوش ہے کہ جو اس فاسق کی زندگی میں پائے جاتے ہیں بلکہ عجب نہیں کہ تعریف کرنے والا کفر کی حد میں داخل ہو جائے کیونکہ فاسق کی تعریف اس کو اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں وہ حرام کو حلال جاننے لگے اس سے معلوم ہوا کہ بے عمل اور دنیا دار علماء گمراہ شعراء، اور ریا کار پیشہ ور قراء کی مدح و تعریف کرنا بھی اس حکم میں داخل ہے نیز اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جب فاسق کی مدح و تعریف کرنے کا یہ حال ہے تو ظالم اور کافر کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہونا کسی درجہ ہیبت ناک برائی ہو گی لہذا اس بارے میں احتیاط لازم ہے اس بلاء عظیم سے بچنا اشد ضروری ہے، نیز اس سے بچنا اس صورت میں ممکن ہے جب کہ ان لوگوں کی صحبت وہم نشینی سے اجتناب کیا جائے۔

خیانت و جھوٹ، ایمان کی ضد میں

اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ علیہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمان جھوٹ اور خیانت کے سوا ہر طرح کی خصلت پر پیدا کیا جاتا ہے۔ (احمد) بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کامل مومن میں یہ دو خصلتیں نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے اجزاء ترکیبی میں صدق و امانت کے اوصاف ہوتے ہیں جو تصدیق و ایمان کا تقاضا ہیں یا اس ارشاد گرمی کی مراد مومن کی ذات میں ان دونوں خصلتوں کی نفی کرنا ہے یعنی یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مومن جو ایمان کے بار امانت کا حامل ہے ان دو خصلتوں میں مبتلا نہیں ہو سکتا اور زیادہ واضح باتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل ان دو خصلتوں کو اختیار کرنے سے منع فرمایا کہ کسی مسلمان کو یہ نہ چاہیے کہ ان دو، کو اپنے اندر راہ پانے دے کیونکہ یہ دونوں برائیاں درحقیقت ایمان و اسلام کی ضد ہیں۔

 

 

 اور حضرت صفوان ابن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے پھر آپ سے پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا ہو سکتا ہے پھر جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بہت جھوٹا ہو سکتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں اس روایت کو مالک نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کوئی مومن کسی موقع پر بزدلی دکھا سکتا ہے اور کسی صورت میں بخیل بی ہو سکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایمان کی صداقت و حقانیت کذب کے منافی ہے جو اپنی اصلی اور نفس الامر کے اعتبار سے باطل ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بھی اوپر کی حدیث کی تشریح میں ذکر کردہ تاویلات پر محمول ہے۔ حدیث میں کذاب مبالغہ کے صیغہ کے ساتھ ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اگر بتقاضائے بشریت کسی موقع پر مومن سے جھوٹ سرزد ہو جائے جیسا کہ بعض صورتوں میں دنیا کی کسی ناجائز غرض کے تحت نہیں بلکہ مصالح اور حکمت عملی کے پیش نظر جھوٹ بولنا بھی ضروری ہو جاتا ہے تو ایسی صورت مستثنیٰ ہے اس کو ایمان کے منافی نہیں کہا جا سکتا۔

حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر: اس موقع پر اس حدیث کے راوی حضرت صفوان کا کچھ ذکر خیر کر دینا موزوں ہو گا یہ عظیم ہستی جن کا پورا نام صفوان ابن سلیم زہری ہے حضرت حمید بن عبدالرحمن ابن عوف کے آزاد کردہ غلام ان کا شمار مدینہ کے مشہور و ثقہ اور جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ علیہ وغیرہ سے روایت حدیث کرتے ہیں اللہ کے صالح اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس سال تک اپنے پہلو کو زمین سے نہیں لگایا یہاں تک کہ وقت مرگ بھی بیٹھے رہے اور اسی حالت میں جان جا آفریں کے سپرد کی لوگ کہتے تھے کہ عبادت الہی اور سجدہ کی کثرت کی وجہ سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہو گیا تھا قناعت خود داری کا یہ عالم تھا کہ باوجود احتیاج کے شاہی عطیات کو قبول نہیں کرتے تھے ان کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔١٣٢ھ میں انتقال ہوا۔

شیطان کی فتنہ خیزی

اور حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ (کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ) شیطان کسی آدمی کی صورت میں اختیار کر کے کسی جماعت کے پاس آتا ہے اور ان کو جھوٹی خبر پہنچا دیتا ہے پھر جب اس جماعت کے لوگ ادھر ادھر منتشر ہوتے ہیں تو ان میں سے کوئی شخص کہتا ہے کہ میں نے ایک شخص کو سنا ہے جس کی صورت تو میں پہچانتا ہوں (کہ اگر اس کو دیکھوں تو بتا سکتا ہوں کہ یہ وہی شخص ہے) مگر اس کا نام نہیں جانتا وہ یہ بات بیان کرتا تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

خبر سے مراد یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے یا مطلق کوئی بھی جھوٹی خبر و اطلاع، حضرت ابن مسعود رضی اللہ علیہ کے قول کا مقصد یہ تنبیہ کرنا ہے کہ حدیث کی سماعت کے وقت پوری احتیاط اور چھان بین کر لینی چاہیے کہ جو حدیث سنائی یا نقل کی جا رہی ہے صحیح ہے یا نہیں؟اسی طرح اگر کوئی بھی خبر یا کوئی بھی بات کسی سے سنے تو اس وقت تک دوسروں کے سامنے نقل نہ کرے جب تک کہ یہ تحقیق نہ کر لے کہ اس خبر اور بات بیان کرنے والا قابل اعتماد اور سچا ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ خبر واقعہ کے مطابق ہے اور صحیح ہے یا نہیں۔ مذکورہ بالا روایت اگرچہ بطریق مرفوع آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے طور پر نقل کی گئی ہے بلکہ بطریق موقوف یعنی حضرت ابن مسعود رضی اللہ علیہ ایسی کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنے بغیر اس کو بیان نہیں کر سکتے تھے اس لیے یہ روایت مرفوع حدیث ہی کے حکم میں ہے۔

برائی سکھانے سے چپ رہنا بہتر ہے

اور حضرت عمران ابن حطان(تابعی) کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کو مسجد میں پایا اس وقت وہ ایک کالی کملی لپیٹے ہوئے تنہا بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا ابوذر یہ تنہائی کیوں اختیار کر رکھی ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ برے ہم نشینوں کے ساتھ بیٹھنے سے تنہا بیٹھنا بہتر ہے اور تنہا بیٹھنے سے نیک ہم نشینوں کے ساتھ بیٹھنا بہتر ہے نیز چپ رہنے سے بھلائی کا سکھانا بہتر ہے برائی سکھانے سے چپ رہنا بہتر ہے۔

 

تشریح

 

حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت چونکہ وہ خاص رفقاء اور ہم نشین یہاں موجود نہیں ہیں جن کی نیکیوں، سلامتی طبع اور پاکیزہ صحبت کا جویا ہونا چاہیے اور جن پر مجھے اعتماد بھروسہ ہو سکتا ہے اس لیے میں نے یہی بہتر سمجھا کہ یہاں چپ چاپ اور تنہا بیٹھا رہوں، ہاں جب ایسے لوگ موجود ہوں تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔

خاموشی اختیار کرنا، ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے

اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا چپ رہنے کی وجہ سے آدمی کو جو درجہ حاصل ہوتا ہے وہ ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔

 

تشریح

 

لفظ مقام، میم کی زبر کے ساتھ ہے اور میم کے پیش کے ساتھ بھی منقول ہے مطلب یہ ہے کہ آدمی کی بری باتوں سے خاموشی اختیار کرنا اور اسی خاموشی پر مداومت و ہمیشگی کے ساتھ عمل پیرا ہونا اور ثابت قدم رہنا اس شخص کی ساٹھ سال کی عبادت سے بھی بہتر ہے افضل ہے جو کثرت کلام اور زبان کی بے احتیاطی میں متلا ہو اور اس کی عبادت استقامت دین کی روح سے خالی ہو۔طیبی نے مقام کے معنی اللہ کے نزدیک اس کا مرتبہ لکھے ہیں اور افضل ہونے کی یہ دلیل بیان کی ہے کہ عبادات میں بہت سی آفات بھی پیش آتی ہیں اور جو شخص خاموشی اختیار کر لیتا ہے وہ ان آفات سے محفوظ و سلامت رہتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ من کان صمت نجا، یعنی جو شخص چپ رہا اس نے نجات پائی۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ چپ رہنے کی وجہ سے جو درجہ حاصل ہوتا ہے کبھی وہ خدا کے نزدیک ساٹھ سال کی عبادت سے بھی افضل ہے کیونکہ وہ خاموشی کی جس کے دوران اللہ کی ذات و صفات اس کی قدرتوں اور کائنات و مخلوقات کے تئیں اس کی حکمت آفرینی و کارسازی میں غور و فکر کو راہ ملے یا لطیفہ قلب کو ذکر خفی میں استغراق و انہماک دولت نصیب ہو اور روح باطن کو اللہ کی ذات و صفات کے نور سے روشنی حاصل کرنے کا موقع ملے تو یہ فکر و استغراق اگرچہ ایک ہی لمحہ وساعت کے بقدر کیوں نہ ہو لیکن اعضاء و جوارح کی اس عبادت و طاعت سے کہیں زیادہ بہتر افضل ہے جو ذہن و فکر کے انتشار بے حضوری قلب اور یاد الہی کے ساتھ غیر خاطر جمعی کے ساتھ عمل میں آئے اگرچہ وہ عبادت و طاعت سالہا سال کے بقدر ہی کیوں نہ ہو۔

حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی چند نصائح

اور حضرت ابوذر رضی اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے بعد خود ابوذر رضی اللہ علیہ نے یا ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والے راوی نے طویل حدیث بیان کی جو یہاں نقل نہیں کی گئی بلکہ اس کے یہ آخری جملے نقل کیے گئے ہیں) پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے۔ آپ نے فرمایا کہ تم کو تقوی یعنی اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ تقوی تمہارے تمام امور و اعمال کو بہت زیادہ زینت و  آراستگی بخشنے والا ہے میں نے عرض کیا میرے سے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کو اپنے لیے ضروری سمجھو کیوں کہ یہ تمہارے لیے آسمان میں موجب ذکر ہو گا اور زمین پر نور کا سبب ہو گا یعنی جب تم تلاوت قرآن اور اللہ کا ذکر میں مشغولیت اختیار کرو گے تو اس کے سبب سے آسمانوں میں ملائکہ تمہارا ذکر خیر کریں گے بلکہ حق تعالی بھی تمہیں یاد کرے گا اور اس میں دنیا میں تمہارے معرفت و یقین اور راہ ہدایت کا نور ظاہر ہو گا میں نے عرض کیا میرے لیے کچھ اور نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا طویل خاموشی کو اپنے اوپر لازم کرو کیونکہ خاموشی شیطان کو دور بھگاتی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہوتی ہے یعنی خاموشی پر مداومت اختیار کرنے کی وجہ سے تمہیں اللہ کی نعمتوں میں غور فکر کرنے کا زیادہ سے زیادہ موقع نصیب ہو گا علاوہ ازیں خاموشی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ تم اپنے آپ کو شیطان کی فتنہ خیزیوں سے محفوظ رکھ سکو گے جو زبان کے راستہ سے عملی زندگی میں سرایت کرتا ہے اور دنیا و آخرت کے زبردست نقصان و خسران میں مبتلا کر لتیا ہے دوسرے یہ کہ خاموشی تمہاری دینی و اخروی بھلائی و سعادت کا ضامن بھی بنے گی کیوں کہ جب وہ تمہیں زبان کی آفتوں سے محفوظ و سلامت رکھ کر تمہارے دل کو خدا کی طرف متوجہ رکھے گی تو یہ چیز ذکر خفی کے سبب سے تمہارے حق میں علوم و معارف اور نورانیت قلب کے حصول کا موجب ہو گی) میں نے عرض کیا میرے لیے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا بہت زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور چہرے کی موزونیت کو کھو دیتا ہے یعنی بہت ہنسانے کی وجہ سے چونکہ قلب پر غفلت وبے حسی کی تاریکی چھا جاتی ہے اور علم و معرفت کا وہ نور بجھ جاتا ہے جس پر دل کی حیات کا دار و مدار ہے اس لئے بہت زیادہ ہنسنے والے کا دل گویا مردہ ہو جاتا ہے نیز جب دل غافل ہو جاتا ہے اور قوائے باطن پر غفلت و بے حسی طاری ہو جاتی ہے تو طاعت و عیادت میں بھی کمی آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ نور رخصت ہو جاتا ہے جو عبادت کی علامت کے طور پر مومن کے چہرے پر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (سیما ھم فی وجوھھم من اثرالسجود)، ویسے بھی یہ بات یقینی ہے کہ دل کی مردنی چہرے کو بے نور بنا دیتی ہے کیونکہ بدن کی تر و تازگی اور نورانیت دراصل حسی اور معنوی حیات پر منحصر ہے میں نے عرض کیا کہ میرے لیے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا سچی بات کہو اگرچہ کڑوی ہو (یعنی حق کے اظہار میں کبھی نہ چوکو بلکہ جو بات سچی ہو اس کو ضرور کہو اگر اس کی وجہ سے لوگوں کو یا خود تمہارے نفس کو ناگواری محسوس ہو) میں نے عرض کیا کہ میرے لیے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا خدا کے دین اور خدا کو ظاہر کرنے اور اس کی تائید و تقویت میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو میں نے عرض کیا کہ میرے لیے کچھ اور نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا چاہیے کہ وہ چیز تمہیں لوگوں کے عیوب ظاہر کرنے سے روکے جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو یعنی جب تمہیں کسی کی عیب گوئی کا خیال آئے تو فوراً اپنے عیوب کی طرف دیکھو اور سوچو کہ خود میری ذات میں اتنے عیب ہیں تو میں دوسرے کی عیب گیری کیا کروں گو! تم خود اپنے عیوب و نقائص کی طرف متوجہ رہو اور دوسروں کی عیب گوئی سے اجتناب کرو۔

 

تشریح

 

ہر ایک کام اور ہر بھلی بات،جو محض اللہ کی رضا و خوشنودی اور اس کو تقرب حاصل کرنے کی نیت سے صادر و سرزد ہو ذکر اللہ میں داخل ہے اگر اس جملہ یعنی سب ذکروں میں افضل لاالہ الااللہ ہے تو کہا جائے گا کہ مذکورہ جملہ اس اسلوب بیان کا مظہر ہے جس میں کوئی بات پہلے عمومی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور پھر کسی ایسے جز کو خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے جو تمام اجزاء سے زیادہ شرف و فضیلت رکھتا ہو۔

  کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرو! کے ذریعہ گویا تلقین فرمائی گئی کہ خدا کے دین کو سر بلند کرنے کا جو فریضہ تم پر عائد ہوتا ہے اگر اس کی انجام دہی میں تمہیں دنیا والوں سے پوری طرح منہ موڑنا پڑے تو اس میں ہچکچاہٹ نہ دکھاؤ، اور اس بات کو ضروری سمجھو کہ تمہیں دنیا والوں کی مذمت اور تعریف سے بالکل بے پرواہ ہو کر ہر حالت میں حق و صداقت پر اور خدا کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت (وتبتل الیہ تبتیلا)، یعنی اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر اللہ کی رضا و خوشنودی کی طرف رجوع کرو۔

 جس کو تم اپنے نفس کے بارے میں جانتے ہو  کا مطلب یہ ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ خود تمہارے اندر کیا عیوب ہیں اور تمہارا نفس کن برائیوں میں مبتلا ہے تو پھر تمہارے لیے یہ قطعاً مناسب نہ ہو گا کہ تم دوسرے کے عیوب پر نظر رکھو اور دوسروں کی برائیوں پر انگلی اٹھاؤ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے نقطہ نظر سے تو بے شک کسی کو اس کی برائی پر ٹوک سکتے ہو اور اس کو راہ راست اختیار کرنے کی تلقین کر سکتے ہو بلکہ تم پر یہ ضروری بھی ہے کہ اگر تم کسی کو برائی میں مبتلا دیکھو تو اس کو اس برائی سے ہٹانے کی کوشش کرو لیکن محض عیب جوئی اور تحقیر و تذلیل کے خیال سے کسی کی برائی پر انگلی نہ اٹھاؤ اور اس کی غیبت نہ کرو بلکہ اپنی برائیوں اور اپنے عیوب پر نظر رکھتے ہوئے خود اپنے کو سب سے زیادہ ناقص اور کم تر سمجھو کسی نے کیا خوب کہا ہے،

 غافل اندایں خلق از خود بے خبر لاجرم گویند عیب یگدگر

دیلمی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ قول نقل کیا ہے،

 طوبی لمن شغلہ علیہ عن عیوب الناس

 قابل مبارک باد ہے وہ شخص جس کو اس کا عیب لوگوں کی عیب گیری سے باز رکھے۔

خاموش اور خوش خلقی کی فضیلت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا ابوذر رضی اللہ عنہ کیا میں تمہیں وہ دو خصلتیں نہ بتا دوں جو مکلف انسان کی پشت پر یعنی اس کی زبان کے اوپر بہت ہلکی ہیں اعمال کے ترازو میں بہت بھاری ہیں، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیے آپ نے فرمایا معرفت الہیہ اور نظام قدرت میں غور و فکر کے لیے طویل خاموشی اور خوش خلقی، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مخلوق کے لیے ان دونوں خصلتوں سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔

 

تشریح

 

چپ رہنا اور خوش خلقی اختیار کرنا یہ دونوں خصلتیں اس اعتبار سے بہت آسان اور ہلکی ہیں کہ خاموش رہنے میں کوئی محنت و مشقت برداشت نہیں کرنا پڑتی اسی پر خوش خلقی کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ نرم خوئی اور خوش مزاجی اور خندہ روئی میں راحت و سکون اور آسانی و نرمی حاصل ہوتی ہے بخلاف سخت خوئی، تند مزاجی اور جدال و نزع کے کہ ان میں سراسر محنت و مشقت ہے۔

لعنت کرنے کی برائی

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ حضرت ابوبکر اپنے کسی غلام پر لعنت کر رہے ہیں، آپ ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اور فرمایا کہ بھلا تم نے لعنت کرنے اور صدیقین کو بھی دیکھا ہے؟(یعنی کیا تم نے کبھی بھی کوئی ایسے شخص کو دیکھا کہ جس میں بیک وقت یہ دو صفتیں یعنی لعانیت اور صدیقیت پائی جاتی ہیں حاصل یہ ہے کہ جو شخص صدیقیت کے مقام پر فائز ہو وہ لعنت کرنے والا نہیں ہو سکتا جیسا کہ یہ حدیث گزر چکی ہے کہ لا ینبغی لصدیق ان یکون لعانا، یعنی صدیق کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ لعنت کرنے والا ہو) نہیں رب کعبہ کی قسم یہ دونوں باتیں کسی ایک شخص میں ہرگز جمع نہیں ہو سکتیں، چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ ارشاد سن کر اپنی اس تقصیر کے کفارہ کے طور پر اس دن اپنے بعض غلاموں کو آزاد کیا پھر معذرت خواہی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آئندہ کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ (یعنی کسی کو لعنت نہیں بھیجوں گا) حضرت عمران بن حطان کی روایت سے لے کے اس حدیث تک ان پانچوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

زبان کی ہلاکت خیزی اور حضرت ابوبکر صدیق کا خوف

اور حضرت اسلم کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (دیکھا کہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں (یعنی اپنی زبان کے تئیں اس قدر غیظ و غضب کا اظہار کر رہے تھے کہ اس کو انگلیوں سے پکڑ پکڑ کر کھینچ رہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کو نکال باہر پھینک دیں گے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہا کہ ٹھہریے ایسا نہ کیجیے اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (یہ زبان اسی سزا کی مستوجب ہے کیونکہ) اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں ڈالا ہے۔ (مالک)

وہ چھ امور جو جنت کے ضامن ہیں

اور حضرت عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اپنے بارے میں مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو یعنی چھ باتوں پر عمل کرنے کا عہد کر لو تو میں نجات پائے ہوئے اور صالحین کے ساتھ تمہارے جنت میں جانے کا ضامن بنتا ہوں۔ (١) جب بھی بولو سچ بولو (٢) وعدہ کرو تو پورا کرو (٣) تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو (٤) اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو یعنی حرام کاری سے بچو (٥) اپنی نگاہ کو محفوظ رکھو یعنی اس چیز کی طرف نظر اٹھانے سے پرہیز کرو جس کو دیکھنا جائز نہیں (٦) اپنے ہاتھوں پر قابو رکھو یعنی اپنے ہاتھوں کو ناحق مارنے اور حرام و مکروہ چیزوں کو پکڑنے سے باز رکھو، یا یہ کہ اپنے آپ کو ظلم و تعدی کرنے سے باز رکھو۔

اچھے اور برے بندے کون ہیں

اور حضرت عبدالرحمن بن غنم رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنہا بنت یزید، راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آ جائے اور اللہ کے بدترین بندے وہ ہیں جو لوگوں میں چغلی کھاتے پھرتے ہیں (جس سے ان کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا) کہ وہ دوستوں کے درمیان نفاق و جدائی ڈال دیں اور پاکیزہ لوگوں کے دامن پر فساد اور خرابی اور زنا کاری کے چھینٹنے ڈالیں یعنی خدا کے جو نیک بندے فتنہ و فساد، گناہ اور کسی عیب سے پاک و منزہ ہوتے ہیں ان پر فتنہ و فساد اور گناہ و معصیت جیسے زنا کاری وغیرہ کا بہتان لگاتے ہیں اور اس طرح ان کو ہلاکت و مشقت اور دشواریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

اس حدیث میں بہترین لوگوں کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ خدا کے وہ نیک و صالح اور عبادت گزار بندے جو اللہ رب العزت کے ساتھ اپنے کمال تعلق و اختصاص کی بنا پر ایسے درجے پر فائز ہو جاتے ہیں کہ ان کے احوال و کردار،عادت و اطوار اور حرکات و سکنات پر انوار و آثار الیہ ہویدا ہو جاتے ہیں اور ان کے چہرے پر عبادت گزاری اور اتباع دین و شریعت کی وہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں کہ جب ان کے جمال پر نظر پڑتی ہے تو بے ساختہ خدا یاد آ جاتا ہے اور دل پکار اٹھتا ہے کہ یہی وہ نیک بندے جو کامل عبودیت کے حامل اور کائنات انسانی خلاصہ اور انوار الہی کے مظہر ہیں۔ بعض حضرات نے خدا یاد آ جانے کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ خدا کے ایسے نیک و صالح بندوں کو دیکھنا گویا ذکر الہی میں مشغول ہونا ہے جیسا کہ علماء نے لکھا ہے کہ عالم دین کے چہرے پر نظر ڈالنا عبادت اور عین سعادت ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ بسا اوقات کسی مرد صالح اور شیخ کامل کے چہرے پر نظر پڑتے ہیں باطن میں ایسی نورانیت محسوس ہوتی ہے جس سے دل روشن ہو جاتا ہے یہ بات حدیث سے بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ النظر ولی وجہ علی عبادہ۔ یعنی حضرت کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے نیز منقول ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر سے نکلتے اور لوگوں کی نظر ان کے چہرہ پر نور پر پڑتی تھی تو یہ الفاظ ان کی زبان پر آ جاتے تھے، لا الہ اللہ مااشرف ھذا الفتی، لا الہ الاللہ ما اکرم ھذا لفتی، لا الہ الاّ اللہ ما اعلم ھذا الفتی، لا الہ الاّ اللہ ما اشجع ھذا لفتی، گویا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنا کلمہ توحید کے ورد کا باعث بنتا تھا۔

غیبت مفسد روزہ ہے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن دو آدمیوں نے جو روزہ دار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کریم کے پیچھے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو ان دونوں سے فرمایا کہ تم دونوں دوبارہ وضو کرو اپنی نماز کو لوٹاؤ اور اپنے اس روزے کو پورا کرو اور اس کے بدلے میں احتیاطا دوسرے دن کا روزہ رکھ لو۔ ان دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا کیوں؟ یعنی وضو، نماز اور روزے کو لوٹانا کس سبب سے ہے؟ آپ نے فرمایا اس لیے کہ تم نے فلاں شخص کی غیبت کی ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت وضو اور روزے کو توڑ دیتی ہے لیکن علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دراصل غیبت کی شدید مذمت اور غیبت کرنے والے کے حق میں سخت ترین زجر و تنبیہ کے طور پر ارشاد ہوئی ہے ورنہ حقیقت میں غیبت سے روزہ اور وضو ٹوٹتا نہیں تاہم غیبت کی وجہ سے وضو اور روزہ کا کمال و ثواب ضرور کھویا جاتا ہے لیکن حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کے نزدیک غیبت، مفسدہ روزہ ہے، بہر حال حدیث سے یہ بات وضح ہوتی ہے کہ غیبت کی قباحت و برائی بہت زیادہ ہے اور احتیاط و تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ اگر غیبت صادر ہو جائے تو وضو کی تجدید کرنی چاہیے بلکہ علماء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ ہنسنے یا بہت زیادہ لا یعنی باتیں کرنے سے اس کے باطن پر طاری ہو گئی ہے نیز روزہ دار کو چاہیے کہ غیبت سے پوری طرح اجتناب کرے۔

غیبت زنا سے بدتر ہے

اور حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ دونوں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا غیبت کرنا زنا کرنے سے زیادہ سخت برائی ہے، صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ غیبت زنا سے زیادہ سخت برائی کس طرح سے ہے؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول فرما لیتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالی اس کو بخش دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو اللہ تعالی نہیں بخشتا جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے یعنی زنا کاری چوں کہ اللہ کی معصیت و نافرمانی ہے اس لیے وہ ان کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور اس کو بخش دیتا ہے جبکہ غیبت کرنا حق العباد سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اللہ تعالی غیبت کرنے والے کو اس وقت تک نہیں بخشتا جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زنا کرنے والا توبہ کرتا ہے اور غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے۔ (ان تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

اور غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے، غالباً اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص زنا میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے دل پر خدا کا خوف طاری ہو جاتا ہے اور اس تصور سے لرزنے لگتا ہے کہ اگر اللہ تعالی نے مواخذہ کر لیا تو نجات کا راستہ نہیں ملے گا اس لے وہ اپنے اس فعل شنیع پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے جب کہ غیبت اگرچہ اللہ کے نزدیک بڑے گناہ کی چیز ہے کہ مگر غیبت کرنے والا اس کو ایک ہلکی چیز سمجھتا ہے کیونکہ جب کوئی برائی عام ہو جاتی ہے تو اس کی قباحت دل سے نکل جاتی ہے اور لوگ اس میں مبتلا ہو جانے کی برائی محسوس نہیں کرتے یا یہ بات بھی بعید از مکان نہیں ہو سکتی ہے کہ غیبت کرنے والا غیبت کو سرے سے کوئی برا فعل ہی نہ سمجھے بلکہ اس کو جائز و حلال جانے اور اس طرح وہ کفر کے بھنور میں پھنس جائے، اور یا اس جملہ کے یہ معنی ہیں کہ غیبت کرنے والا توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ بذات خود کارگر نہیں ہوتی بلکہ اس توبہ کا صحیح و مقبول ہونا اس شخص کی رضا مندی اور اس کی طرف سے معاف کر دیئے جانے پر موقوف ہوتا ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے چنانچہ اوپر کی حدیث سے یہی واضح ہوتا ہے۔

غیبت کا کفارہ

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بیہقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔

 

تشریح

 

دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالی کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔

 اغفرلنا  میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر  اغفرلی  کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق و مواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلاً مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ اللہ تعالی سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔

فقیہ ابوللیث نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لیے یہ جائز ہے یا نہیں؟کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کرائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالی سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بیہقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔