أَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا لَا نَخَافُ لَوْمَةَ لَائِمٍ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوشحالی و تنگی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی رہیں حق پر قائم رہیں، اور (اس سلسلے میں) ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈریں ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفتن ۲ (۷۰۵۶)، الأحکام ۴۳ (۷۱۹۹، ۷۲۰۰)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۷۰۹)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۱ (۲۸۶۶)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۸)، موطا امام مالک/الجھاد ۱ (۵)، مسند احمد (۳/۴۴۱، ۵/۳۱۶، ۳۱۸)، ویأتي فیما یلي: ۴۱۵۵-۴۱۵۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس کتاب میں " بیعت " سے متعلق جو بھی احکام بیان ہوئے ہیں، یہ واضح رہے کہ ان کا تعلق صرف خلیفہ وقت یا مسلم حکمراں یا اس کے نائبین کے ذریعہ اس کے لیے بیعت لینے سے ہے۔ عہد نبوی سے لے کر زمانہ خیرالقرون بلکہ بہت بعد تک " بیعت " سے " سیاسی بیعت " ہی مراد لی جاتی رہی، بعد میں جب تصوف کا بدعی چلن ہوا تو " شیخ طریقت " یا " پیر و مرشد " قسم کے لوگ بیعت کے صحیح معنی و مراد کو اپنے بدعی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے لگے، یہ شرعی معنی کی تحریف ہے، نیز اسلامی فرقوں اور جماعتوں کے پیشواؤں نے بھی " بیعت " کے صحیح معنی کا غلط استعمال کیا ہے، فالحذر، الحذر۔ ۲؎: یعنی: ہم آپ کی " اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی اگر ان کی بات بھلائی کی ہو " اطاعت آسانی و پریشانی ہر حال میں کریں گے، خواہ وہ بات ہمارے موافق ہو یا مخالف، اور اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ جو آدمی بھی شرعی قانونی طور سے ولی الامر بنا دیا جائے ہم اس سے اس کے عہدہ کو چھیننے کی کوشش نہیں کریں گے، وہ ولی الامر ہمارے فائدے کا معاملہ کرے یا اس کے کسی معاملہ میں ہمارا نقصان ہو، ہمارے غیروں کی ہم پر ترجیح ہو۔ " اولیاء الأمور :(اسلامی مملکت کے حکمرانوں ) کے بارے میں سلف کا صحیح موقف اور منہج یہی ہے، اسی کی روشنی میں موجودہ اسلامی تنظیموں کو اپنے موقف ومنہج کا جائزہ لینا چاہیئے۔
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْأَبِيهِ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ"، وَذَكَرَ مِثْلَهُ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشی کی حالت میں سمع و طاعت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، پھر اسی طرح بیان کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُبَادَةَ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي الْيُسْرِ وَالْعُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ: أَوْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لَا نَخَافُ لَوْمَةَ لَائِمٍ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کی اور اس بات پر کہ ہم اپنے حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑا نہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ ہم جہاں کہیں بھی رہیں حق کہیں گے یا حق پر قائم رہیں گے اور (اس بابت) ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُ كُنَّا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی و خوشحالی، خوشی و غمی ہر حالت میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے لیے جھگڑ انہیں کریں گے، اور اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں حق بات کہیں گے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ، أَنَّ أَبَاهُ الْوَلِيدَ حَدَّثَهُ، عَنْ جَدِّهِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي عُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَمَنْشَطِنَا وَمَكَارِهِنَا، وَعَلَى أَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَعَلَى أَنْ نَقُولَ: بِالْعَدْلِ أَيْنَ كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی ہر حال میں سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لینے) پر بیعت کی، اور اس بات پر کہ حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے، نیز اس بات پر کہ جہاں کہیں بھی رہیں عدل و انصاف کی بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۵۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عُبَادَةَ بْنَ الْوَلِيدِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، أَمَّا سَيَّارٌ، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، وَأَمَّا يَحْيَى، فَقَالَ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فِي عُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَمَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا وَأَثَرَةٍ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُومَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كَانَ لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ"، قَالَ شُعْبَةُ: سَيَّارٌ لَمْ يَذْكُرْ هَذَا الْحَرْفَ: "حَيْثُمَا كَانَ"، وَذَكَرَهُ يَحْيَى. قَالَ شُعْبَةُ: إِنْ كُنْتُ زِدْتُ فِيهِ شَيْئًا، فَهُوَ عَنْ سَيَّارٍ، أَوْ عَنْ يَحْيَى.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی و خوشحالی اور خوشی و غمی اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکمرانوں سے حکومت کے سلسلے میں جھگڑا نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم حق پر قائم رہیں گے جہاں بھی ہو۔ ہم اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ شعبہ کہتے ہیں کہ سیار نے «حیث ما کان» کا لفظ ذکر نہیں کیا اور یحییٰ نے ذکر کیا۔ شعبہ کہتے ہیں: اگر میں اس میں کوئی لفظ زائد کروں تو وہ سیار سے مروی ہو گا یا یحییٰ سے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۴۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "عَلَيْكَ بِالطَّاعَةِ، فِي مَنْشَطِكَ وَمَكْرَهِكَ وَعُسْرِكَ وَيُسْرِكَ وَأَثَرَةٍ عَلَيْكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم پر (امیر و حاکم کی) اطاعت لازم ہے۔ خوشی میں، غمی میں، تنگی میں، خوشحالی میں اور دوسروں کو تم پر ترجیح دئیے جانے کی حالت میں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۳۰)، مسند احمد (۲/۳۸۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: "بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۴۲ (۵۸)، مواقیت الصلاة ۳ (۵۲۴)، الزکاة ۲ (۱۴۰۱)، البیوع ۶۸ (۲۱۵۷)، الشروط ۱ (۲۷۱۴)، الأحکام ۴۳ (۷۲۰۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۲۳ (۵۶)، (تحفة الأشراف: ۳۲۱۰)، مسند احمد (۴/۳۵۷، ۳۶۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: " نصیحت " کے معنی ہیں: خیر خواہی، کسی کا بھلا چاہنا، یوں تو اسلام کی طبیعت و مزاج میں ہر مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی و بھلائی داخل ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی خاص بات پر بھی خصوصی بیعت لیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے بعد بھی کوئی مسلم حکمراں کسی مسلمان سے کسی خاص بات پر بیعت کر سکتا ہے، مقصود اس بات کی بوقت ضرورت و اہمیت اجاگر کرنی ہوتی ہے۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ جَرِيرٌ: "بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَأَنْ أَنْصَحَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سمع و طاعت (بات سننے اور اس پر عمل کرنے) پر اور اس بات پر کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں گا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأدب ۶۷ (۴۹۴۵)، (تحفة الأشراف: ۳۲۳۹)، مسند احمد (۴/۳۶۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: "لَمْ نُبَايِعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَوْتِ، إِنَّمَا بَايَعْنَاهُ عَلَى، أَنْ لَا نَفِرَّ".
جابر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے موت پر نہیں بلکہ میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۱۸ (۱۸۵۶)، سنن الترمذی/السیر ۳۴ (۱۵۹۱)، (تحفة الأشراف: ۲۷۶۳)، مسند احمد (۳/۳۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: موت پر بیعت کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ موت اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی مومن کے لیے جائز ہے کہ جان بوجھ کر اپنی جان دیدے۔ ہاں جنگ سے نہ بھاگنا ہر ایک کے اپنے اختیار کی بات ہے اس لیے آپ سے لوگوں نے میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر خاص طور سے بیعت کی :(نیز دیکھئیے اگلی حدیث اور اس کا حاشیہ )۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ بَايَعْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، قَالَ: "عَلَى الْمَوْتِ".
یزید بن ابی عبید کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: حدیبیہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ لوگوں نے کس چیز پر بیعت کی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۱۰ (۲۹۶۰)، المغازي ۳۵ (۴۱۶۹)، الأحکام ۴۳ (۷۲۰۶)، ۴۴ (۷۲۰۸)، صحیح مسلم/الإمارة ۱۸ (۱۸۶۰)، سنن الترمذی/السیر ۳۴ (۱۵۹۲)، (تحفة الأشراف: ۴۵۳۶)، مسند احمد (۴/۴۷، ۵۱، ۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: موت کسی کے اختیار میں نہیں ہے، اس لیے موت پر بیعت کرنے کا مطلب میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر بیعت ہے، ہاں میدان جنگ سے نہ بھاگنے پر کبھی موت بھی ہو سکتی ہے، اسی لیے بعض لوگوں نے کہا کہ " موت پر بیعت کی "۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّعَمْرَو بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَيَّةَ ابْنَ أَخِي يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ يَعْلَى بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ: جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي أُمَيَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ أَبِي عَلَى الْهِجْرَةِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُبَايِعُهُ عَلَى الْجِهَادِ، وَقَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ".
یعلیٰ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتح مکہ کے دن ابوامیہ کو لے کر آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ نے ہجرت پر بیعت کر لی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: "میں ان سے جہاد پر بیعت لیتا ہوں اور ہجرت کا سلسلہ تو بند ہو گیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۸۴۳)، وأعادہ المؤلف برقم ۴۱۷۳ (ضعیف) (اس کے راوی ’’عمرو بن عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی مکہ سے ہجرت کا سلسلہ بند ہو گیا کیونکہ مکہ تو دارالاسلام بن چکا ہے، البتہ دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: "تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَّى فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْكُمْ شَيْئًا فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ لَهُ كَفَّارَةٌ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ". خَالَفَهُ أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ.
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اور اس وقت آپ کے اردگرد صحابہ کی ایک جماعت تھی): "تم مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کرو گے، اور اپنی طرف سے گھڑ کر کسی پر بہتان نہیں لگاؤ گے، کسی معروف (بھلی بات) میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ (بیعت کے بعد) جو ان باتوں کو پورا کرے گا تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، تم میں سے کسی نے کوئی غلطی کی ۱؎ اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے غلطی کی اور اللہ نے اسے چھپائے رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہو گا، اگر وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے۔ احمد بن سعید نے اسے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۱۱ (۱۸)، مناقب الأنصار ۴۳ (۳۸۹۲)، المغازي ۱۲ (۳۹۹۹)، تفسیرالممتحنة ۳ (۴۸۹۴)، الحدود ۸ (۶۷۸۴)، ۱۴ (۶۸۰۱)، الدیات ۲ (۶۸۷۳)، الأحکام ۴۹ (۷۲۱۳)، التوحید۳۱ (۷۴۶۸)، صحیح مسلم/الحدود ۱۰ (۱۷۰۹)، سنن الترمذی/الحدود ۱۲ (۱۴۳۹)، (تحفة الأشراف: ۵۰۹۴)، مسند احمد (۵/۳۱۴)، سنن الدارمی/السیر ۱۷ (۲۴۹۷)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۱۴۸۳، و۴۲۱۵، و۵۰۰۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی شرک کے علاوہ، کیونکہ توبہ کے سوا شرک کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔ ۲؎: یہ اختلاف اس طرح ہے کہ احمد بن سعید کی روایت :(جو آگے آ رہی ہے ) میں صالح بن کیسان اور زہری کے درمیان حارث بن فضیل کا اضافہ ہے، اور زہری اور عبادہ بن صامت کے درمیان ابوادریس خولانی کا اضافہ نہیں ہے، اس اختلاف سے اصل حدیث کی صحت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، أَنَّابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَا تُبَايِعُونِي عَلَى مَا بَايَعَ عَلَيْهِ النِّسَاءُ، أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ"، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَمَنْ أَصَابَ بَعْدَ ذَلِكَ شَيْئًا فَنَالَتْهُ عُقُوبَةٌ فَهُوَ كَفَّارَةٌ، وَمَنْ لَمْ تَنَلْهُ عُقُوبَةٌ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت نہیں کرو گے جن پر عورتوں نے بیعت کی ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، نہ اپنے بچوں کو قتل کرو گے اور نہ خود سے گھڑ کر بہتان لگاؤ گے، اور نہ کسی معروف (اچھے کام) میں میری نافرمانی کرو گے؟"، ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! چنانچہ ہم نے ان باتوں پر آپ سے بیعت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اس کے بعد کوئی گناہ کیا اور اسے اس کی سزا مل گئی تو وہی اس کا کفارہ ہے، اور جسے اس کی سزا نہیں ملی تو اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہے، اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا اور چاہے گا تو سزا دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي جِئْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْهِجْرَةِ وَلَقَدْ تَرَكْتُ أَبَوَيَّ يَبْكِيَانِ، قَالَ: "ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَأَضْحِكْهُمَا كَمَا أَبْكَيْتَهُمَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ سے ہجرت پر بیعت کروں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے چھوڑا ہے، آپ نے فرمایا: "تم ان کے پاس واپس جاؤ اور انہیں جس طرح تم نے رلایا ہے اسی طرح ہنساؤ" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ۳۳ (۲۵۲۸)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۱۲ (۲۷۸۲)، (تحفة الأشراف: ۸۶۴۰)، مسند احمد (۲/۱۶۰، ۱۹۴، ۱۹۷، ۱۹۸، ۲۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت پر بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا، صرف اس آدمی کے مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کی بجائے ماں باپ کی خدمت میں لگے رہنے کی ہدایت کی، اس لیے اس حدیث سے ہجرت پر بیعت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ: أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْهِجْرَةِ ؟، فَقَالَ: "وَيْحَكَ، إِنَّ شَأْنَ الْهِجْرَةِ شَدِيدٌ، فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "فَهَلْ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: "فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "تمہارا برا ہو۔ ہجرت کا معاملہ تو سخت ہے۔ کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟" اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "کیا تم ان کی زکاۃ نکالتے ہو؟" کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "جاؤ، پھر سمندروں کے اس پار رہ کر عمل کرو، اللہ تمہارے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۳۶ (۱۴۵۲)، الہبة ۳۵ (۲۶۳۳)، مناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۲۳)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۵)، صحیح مسلم/الإمارة ۲۰ (۸۷)، سنن ابی داود/الجہاد ۱ (۲۴۷۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۵۳)، مسند احمد (۳/۱۴، ۶۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ تمہاری جیسی نیت ہے اس کے مطابق تمہیں ہجرت کا ثواب ملے گا تم خواہ کہیں بھی رہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہجرت ان لوگوں پر واجب ہے جو اس کی طاقت رکھتے ہوں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ ؟، قَالَ: "أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْهِجْرَةُ هِجْرَتَانِ: هِجْرَةُ الْحَاضِرِ، وَهِجْرَةُ الْبَادِي، فَأَمَّا الْبَادِي، فَيُجِيبُ إِذَا دُعِيَ وَيُطِيعُ إِذَا أُمِرَ، وَأَمَّا الْحَاضِرُ فَهُوَ أَعْظَمُهُمَا بَلِيَّةً وَأَعْظَمُهُمَا أَجْرًا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! کون سی ہجرت زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: "یہ کہ وہ تمام چیزیں چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناپسند ہیں"، اور فرمایا: "ہجرت دو قسم کی ہے: ایک شہری کی ہجرت اور ایک اعرابی (دیہاتی) کی ہجرت، رہا اعرابی تو وہ جب بلایا جاتا ہے آ جاتا ہے اور اسے جو حکم دیا جاتا ہے مانتا ہے، لیکن شہری کی آزمائش زیادہ ہوتی ہے، اور اسی (حساب سے) اس کو بڑھ کر ثواب ملتا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۶۳۰)، مسند احمد (۳/۱۶۰، ۱۹۱، ۱۹۳، ۱۹۴، ۱۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حقیقی ہجرت تو اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے روکا ہے اس کا چھوڑنا ہی ہے، خود ترک وطن بھی ممنوع چیزوں سے بچنے کا ایک ذریعہ ہے، اور شہر میں رہنے والے سے زیادہ اعرابی :(دیہاتی ) کے لیے وطن چھوڑنا آسان ہے، کیونکہ آبادی میں رہنے والوں کے معاشرتی مسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے ترک وطن بڑا ہی تکلیف دہ معاملہ ہوتا ہے، اور اسی لیے ان کی ہجرت :(ترک وطن ) کا ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، لِأَنَّهُمْ هَجَرُوا الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ مِنَ الْأَنْصَارِ مُهَاجِرُونَ، لِأَنَّ الْمَدِينَةَ كَانَتْ دَارَ شِرْكٍ، فَجَاءُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر مہاجرین میں سے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے مشرکین (ناطے داروں) کو چھوڑ دیا تھا۔ انصار میں سے (بھی) بعض مہاجرین تھے اس لیے کہ مدینہ کفار و مشرکین کا گڑھ تھا اور یہ لوگ (شرک کو چھوڑ کر) عقبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۵۳۹۰) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: یعنی: ہجرت کے اصل معنی کے لحاظ سے مہاجرین و انصار دونوں ہی " مہاجرین " تھے۔ ترک وطن کا مقصد اصلی شرک کی جگہ چھوڑنا ہی تو ہے۔
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ عِيسَى بْنِ سُمَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، أَنَّ أَبَا فَاطِمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدِّثْنِي بِعَمَلٍ أَسْتَقِيمُ عَلَيْهِ وَأَعْمَلُهُ ؟، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَيْكَ بِالْهِجْرَةِ، فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهَا".
ابوفاطمہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایسا کام بتائیے جس پر میں جما رہوں اور اس کو کرتا رہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم پر ہجرت لازم ہے کیونکہ اس جیسا کوئی کام نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۲۰۷۸)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۰۱ (۱۴۲۲)، مسند احمد (۳/۴۲۸) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ فرمان ابوفاطمہ اور ان جیسے لوگوں کے حالات کے لحاظ سے انہیں کے ساتھ خاص تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے اعمال و افعال کو سائل کے حالات کے لحاظ سے زیادہ بہتر اور اچھا بتایا کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ يَعْلَى، قَالَ: جِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي يَوْمَ الْفَتْحِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْ أَبِي عَلَى الْهِجْرَةِ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُبَايِعُهُ عَلَى الْجِهَادِ، وَقَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے والد کے ساتھ آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے باپ سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ان سے جہاد پر بیعت لوں گا، (کیونکہ) ہجرت تو ختم ہو چکی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۶۵ (ضعیف) (اس کے راوی ’’عمرو بن عبدالرحمن‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا مُهَاجِرٌ، قَالَ: "لَا هِجْرَةَ بَعْدَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ، وَنِيَّةٌ فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! لوگ کہتے ہیں کہ جنت میں مہاجر کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو گا، آپ نے فرمایا: "فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے ۱؎، البتہ جہاد ۲؎ اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۴۹۴۹)، مسند احمد (۳/۴۰۱ و۶/۴۶۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ حکم اہل مکہ کے لیے خاص تھا کہ اب مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہی، ورنہ اس کے علاوہ جہاں بھی ایسی ہی صورت پیش آئے گی ہجرت واجب ہو گی :(دیکھئیے حدیث نمبر ۴۱۷۷ ) إلا یہ کہ وہاں کے ملکی حالات و قوانین اجازت نہ دیتے ہوں، جیسے اس زمانہ میں اب یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے کہ ایک ملک کے شہری کو کوئی دوسرا ملک قبول کر لے تو ہجرت واجب ہوتے ہوئے بھی آدمی اپنے وطن میں رہنے پر مجبور ہے، یہ مجبوری کی حالت ہے۔ ۲؎: یعنی جہاد کی خاطر گھر بار چھوڑنا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے، اسی طرح خلوص نیت سے محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جیسے دینی تعلیم وغیرہ کے لیے گھر سے دور جانا یہ بھی ایک طرح کی ہجرت ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْطَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَوْمَ الْفَتْحِ لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، فَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز فرمایا: "ہجرت تو (باقی) نہیں رہی البتہ جہاد اور نیت ہے، لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل پڑو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصید ۱۰ (۱۸۳۴)، الجہاد ۱ (۲۷۸۳)، ۲۷ (۲۸۲۵)، ۱۹۴(۳۰۷۷)، صحیح مسلم/الإمارة ۲۰ (۱۳۵۳)، سنن ابی داود/الجہاد ۲ (۲۴۸۰)، سنن الترمذی/السیر ۳۳ (۱۵۹۰)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۹ (۲۷۷۳) (الجزء الأخیرفحسب)، (تحفة الأشراف: ۵۷۴۸)، مسند احمد (۱/۲۲۶، ۲۶۶، ۳۱۶، ۳۵۵)، سنن الدارمی/السیر ۶۹ (۲۵۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هَانِئٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ دَجَاجَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: "لَا هِجْرَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۰۶۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُسَاوِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَقْدَانَ السَّعْدِيِّ، قَالَ: وَفَدْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَفْدٍ كُلُّنَا يَطْلُبُ حَاجَةً، وَكُنْتُ آخِرَهُمْ دُخُولًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي تَرَكْتُ مَنْ خَلْفِي وَهُمْ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْهِجْرَةَ قَدِ انْقَطَعَتِ، قَالَ: "لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ مَا قُوتِلَ الْكُفَّارُ".
عبداللہ بن وقدان سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ ہم میں سے ہر ایک کی کچھ غرض تھی، میں سب سے آخر میں آپ کے پاس داخل ہوا اور عرض کیا کہ اللہ کے رسول! میں اپنے پیچھے کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کر آ رہا ہوں جو کہتے ہیں کہ ہجرت ختم ہو گئی تو آپ نے فرمایا: "ہجرت اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کفار و مشرکین سے جنگ ہوتی رہے گی" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۸۹۷۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہو گئی، اور اس حدیث میں ہے کہ جب تک دنیا میں اسلام اور کفر کی لڑائی جاری رہے گی تب تک ہجرت جاری رہے گی، دونوں میں کوئی تضاد و اختلاف اور تعارض نہیں ہے، وہاں مراد ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کیونکہ مکہ فتح ہو کر، اسلامی حکومت میں شامل ہو چکا ہے، رہی دارالحرب سے ہجرت کی بات تو جس طرح فتح مکہ سے پہلے مکہ کے دارالحرب ہونے کی وجہ سے وہاں سے ہجرت ضروری تھی، یہاں بھی ضروری رہے گی، اس بابت اور بھی واضح احادیث مروی ہیں۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الضَّمْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ، قَالَ: وَفَدْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ أَصْحَابِي، فَقَضَى حَاجَتَهُمْ وَكُنْتُ آخِرَهُمْ دُخُولًا، فَقَالَ: "حَاجَتُكَ ؟"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ ؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَنْقَطِعُ الْهِجْرَةُ مَا قُوتِلَ الْكُفَّارُ".
عبداللہ بن سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ میرے ساتھی آپ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے ان کی ضرورت پوری کی، میں سب سے آخر میں داخل ہوا تو آپ نے فرمایا: "تمہاری کیا ضرورت ہے؟" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہجرت کب ختم ہو گی؟ فرمایا: "جب تک کفار سے جنگ ہوتی رہے گی ہجرت ختم نہ ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَالشَّعْبِيِّ، قَالَا: قَالَ جَرِيرٌ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أُبَايِعُكَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِيمَا أَحْبَبْتُ وَفِيمَا كَرِهْتُ ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَ تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَا جَرِيرُ أَوَ تُطِيقُ ذَلِكَ"، قَالَ: "قُلْ فِيمَا اسْتَطَعْتُ"، فَبَايَعَنِي، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں آپ سے ہر اس چیز میں جو مجھے پسند ہو اور اس میں جو ناپسند ہو سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: "جریر! کیا تم اس کی استطاعت رکھتے ہو، یا طاقت رکھتے ہو؟" آپ نے فرمایا: "کہو ان چیزوں میں جن کو میں کر سکتا ہوں، چنانچہ آپ نے مجھ سے بیعت لی، نیز ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت لی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۳۲۱۲، ۳۲۱۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام ۴۳ (۷۲۰۴)، صحیح مسلم/الإیمان ۲۳ (۵۶)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۴۱۸۰-۴۱۸۲، ۴۱۹۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: "بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، وَعَلَى فِرَاقِ الْمُشْرِكِ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے پر بیعت کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۷۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مسلمانوں کے کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے کی بابت اور بھی احادیث مروی ہیں مگر ان کا مصداق اسی طرح کے حالات ہیں جو اس وقت تھے، شریعت نے آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ پابند نہیں کیا ہے، آج کل بہت سے ممالک میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمان مشرکین و کفار سے الگ رہیں، حد تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک بھی دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں آنے نہیں دیتے، صرف چند دنوں کے ویزہ کے مطابق رہنے دیتے ہیں، پھر وقت پر نکل جانے پر مجبور کرتے ہیں۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي نُخَيْلَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا …، پھر اسی جیسی حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۷۹ (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي نُخَيْلَةَ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: قَالَ جَرِيرٌ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُبَايِعُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ وَاشْتَرِطْ عَلَيَّ فَأَنْتَ أَعْلَمُ. قَالَ: "أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتُنَاصِحَ الْمُسْلِمِينَ، وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کروں، اور آپ شرط بتائیے کیونکہ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، نماز قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کرو گے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہو گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۷۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ، فَقَالَ: "أُبَايِعُكُمْ عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِيهِ فَهُوَ طَهُورُهُ، وَمَنْ سَتَرَهُ اللَّهُ فَذَاكَ إِلَى اللَّهِ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، آپ نے فرمایا: "میں تم لوگوں سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، اور نہ اپنے بال بچوں کو قتل کرو گے، نہ ہی من گھڑت کسی طرح کا بہتان لگاؤ گے، کسی بھی نیک کام میں میری خلاف ورزی نہیں کرو گے، تم میں سے جس نے یہ باتیں پوری کیں تو اس کا اجر و ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جس نے اس میں سے کسی چیز میں غلطی کی ۱؎ پھر اسے اس کی سزا دی گئی تو وہی اس کے لیے کفارہ (پاکیزگی) ہے اور جسے اللہ نے چھپا لیا تو اب اس کا معاملہ اللہ کے پاس ہو گا۔ چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۶۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شرک کے سوا، اس لیے کہ شرک بغیر توبہ کے معاف نہیں ہو گا۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: لَمَّا أَرَدْتُ، أَنْ أُبَايِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَةً أَسْعَدَتْنِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَذْهَبُ فَأُسْعِدُهَا ثُمَّ أَجِيئُكَ فَأُبَايِعُكَ ؟، قَالَ: "اذْهَبِي فَأَسْعِدِيهَا"، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ فَسَاعَدْتُهَا ثُمَّ جِئْتُ فَبَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنی چاہی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک عورت نے زمانہ جاہلیت میں نوحہ (سوگ منانے) میں میری مدد کی تھی تو مجھے اس کے یہاں جا کر نوحہ میں اس کی مدد کرنی چاہیئے، پھر میں آ کر آپ سے بیعت کر لوں گی۔ آپ نے فرمایا:"جاؤ اس کی مدد کرو"، چنانچہ میں نے جا کر اس کی مدد کی، پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۹)، مسند احمد (۶/۴۰۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بیعت کے بعد وہ نوحہ میں مدد نہیں کر سکتی تھیں، جیسا کہ اگلی حدیث میں اس کی صراحت آ رہی ہے، یہ اجازت صرف ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص تھی اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو یہ حق نہیں کہ شریعت کے کسی حکم کو کسی کے لیے خاص کرے۔
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْعَةَ عَلَى أَنْ لَا نَنُوحَ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت لی کہ ہم نوحہ نہیں کریں گے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۵ (۱۳۰۶ مطولا)، الأحکام ۴۹ (۷۲۱۵)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۰ (۹۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ نُبَايِعُهُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَأْتِيَ بِبُهْتَانٍ نَفْتَرِيهِ بَيْنَ أَيْدِينَا وَأَرْجُلِنَا، وَلَا نَعْصِيكَ فِي مَعْرُوفٍ. قَالَ: "فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ، وَأَطَقْتُنَّ"، قَالَتْ: قُلْنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَرْحَمُ بِنَا، هَلُمَّ نُبَايِعْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ، إِنَّمَا قَوْلِي: لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ، أَوْ مِثْلُ قَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ".
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں انصار کی چند عورتوں کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تاکہ ہم بیعت کریں، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، اور نہ ایسی کوئی الزام تراشی کریں گے جسے ہم خود اپنے سے گھڑیں، نہ کسی معروف (بھلے کام) میں ہم آپ کی نافرمانی کریں گے، آپ نے فرمایا: "اس میں جس کی تمہیں استطاعت ہو یا قدرت ہو"، ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہم پر زیادہ مہربان ہیں، آئیے ہم آپ سے بیعت کریں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو عورتوں سے کہنا ایک عورت سے کہنے کی طرح ہے یا ایک ایک عورت سے کہنے کے مانند ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/السیر ۳۷ (۱۵۹۷)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۲ (۲۸۷۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۸۱)، موطا امام مالک/البیعة ۱(۲)، مسند احمد (۶/۳۵۷)، ویأتي عند المؤلف برقم: ۴۱۹۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ الشَّرِيدِ، يُقَالُ لَهُ عَمْرٌو، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْجِعْ فَقَدْ بَايَعْتُكَ".
شرید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ "لوٹ جاؤ، میں نے تمہاری بیعت لے لی"۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/السلام ۳۶ (۲۲۳۱)، سنن ابن ماجہ/الطب ۴۴ (۳۵۴۴)، (تحفة الأشراف: ۴۸۳۷)، مسند احمد (۴/۳۸۹، ۳۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچھی طرح سے یہ جانتے تھے کہ اس کے آنے سے لوگ گھن محسوس کریں گے اور ممکن ہے کہ بعض کمزور ایمان والے وہم میں بھی مبتلا ہو جائیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہلا بھیجا کہ تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں میں نے تمہاری بیعت لے لی۔ خود آپ کو گھن نہیں آئی، نہ آپ کو کسی وہم میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا، آپ سے بڑھ کر صاحب ایمان کون ہو سکتا ہے ؟۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ الْهِرْمَاسِ بْنِ زِيَادٍ، قَالَ: "مَدَدْتُ يَدِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا غُلَامٌ لِيُبَايِعَنِي، فَلَمْ يُبَايِعْنِي".
ہرماس بن زیاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنا ہاتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا تاکہ آپ مجھ سے بیعت لے لیں، میں ایک نابالغ لڑکا تھا تو آپ نے مجھ سے بیعت نہیں لی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۱۷۲۷) (حسن الإسناد)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بیعت میں کسی بات کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے، جب کہ نابالغ پر کسی عہد و پیمان کی پابندی واجب نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ، فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بِعْنِيهِ"، فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا، حَتَّى يَسْأَلَهُ: "أَعَبْدٌ هُوَ ؟".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام نے آ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، آپ یہ نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہ غلام ہے، پھر اس کا مالک اسے ڈھونڈتے ہوئے آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے میرے ہاتھ بیچ دو"، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے بدلے خرید لیا، پھر آپ نے کسی سے بیعت نہیں لی یہاں تک کہ آپ اس سے معلوم کر لیتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۲۳ (۱۶۰۲)، سنن ابی داود/البیوع ۱۷ (۳۳۵۸مختصرا)، سنن الترمذی/البیوع ۲۲ (۱۲۳۹)، السیر ۳۶ (۱۵۹۶)، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۱ (۲۸۹۶)، (تحفة الأشراف: ۲۹۰۴)، یأتي عند المؤلف في البیوع ۶۶ (برقم۴۶۲۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: غلام اپنے مالک کا تابع ہے، تو وہ کیسے ہجرت کر سکتا ہے اس لیے آپ غلاموں سے بیعت نہیں لیتے تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي ؟ فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي ؟ فَأَبَى، فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، وَتَنْصَعُ طِيبَهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اس کو مدینے میں بخار آ گیا، تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری بیعت توڑ دیجئیے ۱؎، آپ نے انکار کیا، اس نے پھر آپ کے پاس آ کر کہا: میری بیعت توڑ دیجئیے، آپ نے انکار کیا، تو اعرابی چلا گیا ۲؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مدینہ تو بھٹی کی طرح ہے جو اپنی گندگی کو نکال پھینکتا ہے اور پاکیزہ کو اور خالص بنا دیتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/فضائل المدینة ۱۰ (۱۸۸۳)، الأحکام ۴۵ (۷۲۰۹)، ۴۷ (۷۲۱۱)، ۵ (۷۲۱۶)، الاعتصام ۱۶ (۷۳۲۲)، صحیح مسلم/الحج ۸۸ (۱۳۸۱)، سنن الترمذی/المناقب ۶۸ (۳۹۲۰)، (تحفة الأشراف: ۳۰۷۱)، موطا امام مالک/الجامع ۲ (۴)، مسند احمد (۳/۳۰۶، ۳۶۵، ۳۹۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ اس بیماری کو بیعت کی نحوست سمجھ بیٹھا تھا۔ ۲؎: یعنی مدینہ سے چلا گیا، تاکہ اپنے خیال میں اس نحوست سے نجات پا جائے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی خلیفہ :(حکمراں ) سے خلافت کی بیعت، یا کسی خاص بات کو توڑنا جائز نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى الْحَجَّاجِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، ارْتَدَدْتَ عَلَى عَقِبَيْكَ، وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، وَبَدَوْتَ. قَالَ: لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَذِنَ لِي فِي الْبُدُوِّ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے تو اس نے کہا: ابن الاکوع! کیا آپ (ہجرت کی جگہ سے) ایڑیوں کے بل لوٹ گئے، اور ایک ایسا کلمہ کہا جس کے معنی ہیں کہ آپ بادیہ (دیہات) چلے گئے۔ انہوں نے کہا: نہیں، مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیہ (دیہات) میں رہنے کی اجازت دی تھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفتن ۱۴ (۷۰۸۷)، صحیح مسلم/الإمارة ۱۹ (۱۸۶۲)، (تحفة الأشراف: ۴۵۳۹)، مسند احمد (۴/۴۷، ۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گناہ کبیرہ میں سے ایک گناہ " ہجرت کے بعد ہجرت والی جگہ کو چھوڑ دینا " بھی ہے :(اس سلسلے میں احادیث مروی ہیں ) اسی کی طرف حجاج نے اشارہ کر کے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی، جب کہ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمہ کے قبیلہ والوں کو فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی اجازت پہلے ہی دے دی تھی، اسی لیے امام بخاری نے اس حدیث پر «التعرب فی الفتنۃ» " فتنہ کے زمانہ میں دیہات میں چلا جانا " کا باب باندھا ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ. ح وأَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: "فِيمَا اسْتَطَعْتَ". وَقَالَ عَلِيٌّ: "فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے، پھر آپ فرماتے تھے: "جتنی تمہاری طاقت ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۲۲ (۱۸۶۷)، سنن الترمذی/السیر ۳۴ (۱۵۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۱۲۷، ۷۱۷۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام ۴۳ (۷۲۰۲)، موطا امام مالک/البیعة ۱(۱)، مسند احمد (۲/۶۲، ۸۱، ۱۰۱، ۱۳۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: دین اسلام کی طبیعت ہی اللہ تعالیٰ نے یہی رکھی ہے کہ بن دوں پر ان کی طبعی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے: «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها» " اللہ تعالیٰ نے کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے " :(البقرة: 286 )۔
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا حِينَ نُبَايِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، يَقُولُ لَنَا: "فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتے تھے تو آپ ہم سے فرماتے تھے: "جتنی تمہاری طاقت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۷۲۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَلَقَّنَنِي: "فِيمَا اسْتَطَعْتَ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی تو آپ نے مجھے "جتنی میری طاقت ہے" کہنے کی تلقین کی، نیز میں نے ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۷۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ، قَالَتْ: بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ، فَقَالَ لَنَا: "فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ".
امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو آپ نے ہم سے فرمایا: "جتنی تم استطاعت اور قدرت رکھتی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۸۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ مُجْتَمِعُونَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ نَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرَتِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَنَا، فَقَالَ: "إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ، أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا تَجِيءُ فِتَنٌ، فَيُدَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ فَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ، فَيَقُولُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ، أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ، فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ"، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، لوگ ان کے پاس اکٹھا تھے، میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: اسی دوران جب کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ہم میں سے بعض لوگ خیمہ لگانے لگے، بعض نے تیر اندازی شروع کی، بعض جانور چرانے لگے، اتنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے پکارا: نماز کھڑی ہونے والی ہے، چنانچہ ہم اکٹھا ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں مخاطب کیا اور آپ نے فرمایا: "مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہ تھا جس پر ضروری نہ رہا ہو کہ جس چیز میں وہ بھلائی دیکھے اس کو وہ اپنی امت کو بتائے، اور جس چیز میں برائی دیکھے، انہیں اس سے ڈرائے، اور تمہاری اس امت کی خیر و عافیت شروع (کے لوگوں) میں ہے، اور اس کے آخر کے لوگوں کو طرح طرح کی مصیبتیں اور ایسے مسائل گھیر لیں گے جن کو یہ ناپسند کریں گے، فتنے ظاہر ہوں گے جو ایک سے بڑھ کر ایک ہوں گے، پھر ایک ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت و بربادی ہے، پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا، پھر دوبارہ فتنہ آئے گا، تو مومن کہے گا: یہی میری ہلاکت و بربادی ہے۔ پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا۔ لہٰذا تم میں سے جس کو یہ پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو ضروری ہے کہ اسے موت ایسی حالت میں آئے جب وہ اللہ، اور آخرت (کے دن) پر ایمان رکھتا ہو اور چاہیئے کہ وہ لوگوں سے اس طرح پیش آئے جس طرح وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ پیش آیا جائے۔ اور جو کسی امام سے بیعت کرے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیدے اور اخلاص کے ساتھ دے تو طاقت بھر اس کی اطاعت کرے، اب اگر کوئی اس سے (اختیار چھیننے کے لیے) جھگڑا کرے تو اس کی گردن اڑا دو، یہ سن کر میں نے ان سے قریب ہو کر کہا: کیا یہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، پھر(پوری) حدیث ذکر کی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة (۱۸۴۴)، سنن ابی داود/الفتن ۱(۴۲۴۸)، سنن ابن ماجہ/الفتن ۹(۳۹۵۶)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۱) مسند احمد (۲/۱۶۱، ۱۹۱، ۱۹۲، ۱۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا آخری حصہ مؤلف نے نہیں ذکر کیا، امام مسلم نے اس کو ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ " عبدالرحمٰن بن عبد رب کعبہ نے عرض کیا: معاویہ رضی اللہ عنہ ایسا ویسا کر رہے ہیں، اس پر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: " تم معروف :(بھلی بات ) میں ان کی اطاعت کرتے رہو، اگر کسی منکر :(برے کام ) کا حکم دیں تو تم انکار کر دو، لیکن ان کے خلاف بغاوت مت کرو :(خلاصہ ) یہ کہ یہ حدیث سلف صالحین کے اس منہج اور طریقے کی تائید کرتی ہے کہ کسی مسلمان حاکم کے بعض منکر کاموں کی وجہ سے ان کو اختیار سے بے دخل کر دینے کے لیے ان کے خلاف تحریک نہیں چلائی جا سکتی، معروف کے سارے کام اس کی ماتحتی میں کئے جاتے رہیں گے۔ اور منکر کے سلسلے میں صرف زبانی نصیحت کی جائے گی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدَّتِي، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: "وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا".
یحییٰ بن حصین کی دادی (ام الحصٰن الاحمسیۃ رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے ہوئے سنا: اگر کوئی حبشی غلام بھی تم پر امیر بنا دیا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق چلائے تو تم اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۵۱ (۱۲۹۸)، والإمارة ۸ (۱۸۳۸)، والجہاد ۳۹ (۲۸۶۱) سنن ابن ماجہ/الجہاد ۳۹ (۲۸۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۱۱)، مسند احمد (۴/۶۹، ۵/۳۸۱، ۶/۴۰۲، ۴۰۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ زِيَادَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّأَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۳۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجہاد ۹ ۱۰ (۲۹۵۷)، الأحکام ۱ (۷۱۳۷)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱(۳)، الجہاد ۳۹ (۲۸۵۹)، مسند احمد ۲/۵۱۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ سورة النساء آية 59، قَالَ: "نَزَلَتْ فِي عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ، بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ «يا أيها الذين آمنوا أطيعوا اللہ وأطيعوا الرسول» "اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو" (النساء: ۵۹) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں اتری، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیرسورة النساء ۱۱ (۴۵۸۴)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۳۴)، سنن ابی داود/الجہاد ۹۶ (۲۶۲۴)، سنن الترمذی/الجہاد ۳ (۱۶۷۲)، تحفة الأشراف: ۵۶۵۱)، مسند احمد ۱/۳۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اس سریہ میں کسی بات پر اپنے ماتحتوں پر ناراض ہو گئے تو آگ جلانے کا حکم دیا، اور جب آگ جلا دی گئی تو سب کو حکم دیا کہ اس میں کود جائیں، اس پر بعض ماتحتوں نے کہا: ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیوں داخل ہوں، پھر معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کی بات آئی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیٰ الامر سے مراد امراء ہیں نہ کہ علماء اور اگر علماء بھی شامل ہیں تو مقصود یہ ہو گا کہ ایسے امور جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود نہ ہوں ان میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ " ائمہ اربعہ کے بارے میں خاص طور پر اس آیت کے نازل ہونے کی بات تو قیاس سے بہت زیادہ بعید ہے کیونکہ اس وقت تو ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی تقلید جامد تو بقول شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنِ ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ، وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَتَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِيَاءً وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "جہاد دو طرح کے ہیں: ایک تو یہ کہ کوئی خالص اللہ کی رضا کے لیے لڑے، امام کی اطاعت کرے، اپنے سب سے پسندیدہ مال کو خرچ کرے اور فساد سے دور رہے تو اس کا سونا جاگنا سب عبادت ہے، دوسرے یہ کہ کوئی شخص دکھاوے اور شہرت کے لیے جہاد کرے، امام کی نافرمانی کرے، اور زمین میں فساد برپا کرے، تو وہ برابر سراسر بھی نہ لوٹے گا" (بلکہ عذاب کا مستحق ہو گا)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۳۱۹۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ، يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ، وَيُتَّقَى بِهِ، فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَعَدَلَ، فَإِنَّ لَهُ بِذَلِكَ أَجْرًا، وَإِنْ أَمَرَ بِغَيْرِهِ، فَإِنَّ عَلَيْهِ وِزْرًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "امام ایک ڈھال ہے جس کے زیر سایہ ۱؎ سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے جان بچائی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ اللہ سے تقویٰ کا حکم دے اور انصاف کرے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر وہ اس کے علاوہ کا حکم دے تو اس کا وبال اسی پر ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۰۹(۲۹۵۷)، (تحفة الأشراف: ۳۷۴۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة ۹ (۱۸۴۱)، سنن ابی داود/الجہاد ۱۶۳ (۲۷۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی رائے سے اور اس کی قیادت میں جنگ لڑی جاتی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَأَلْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ، قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِيكَ، قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي حَدَّثَ أَبِي، حَدَّثَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ".
تمیم الداری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دین نصیحت خیر خواہی کا نام ہے"، آپ نے کہا: (نصیحت و خیر خواہی) کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عوام کے لیے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۲۳ (۵۵)، سنن ابی داود/الأدب ۶۷ (۴۹۴۴)، (تحفة الأشراف: ۲۰۵۳)، مسند احمد (۴/۱۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اللہ کے لیے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کتاب اللہ :(قرآن ) کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے۔ رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ نبوت و رسالت محمدیہ کی تصدیق کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، اور آپ کی تعلیمات کو عام کرے، مسلمانوں کے حاکموں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے، اور ان کے مصالح کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ".
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دین خیر خواہی کا نام ہے" لوگوں نے عرض کیا: کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ اور عوام کے لیے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ، إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ، إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "بلاشبہ دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے، بلاشبہ دین خلوص اور خیر خواہی ہے"، لوگوں نے عرض کیا: کس کے لیے، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عوام کے لیے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/البر ۱۷ (۱۹۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۶۳)، مسند احمد (۲/۶۹۷) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْكَبِيرِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، وَعَنْ سُمَيٍّ، وَعَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟، قَالَ: "لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دین نصیحت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے۔ آپ نے فرمایا: "اللہ کے لیے، اس کی کتاب (قرآن) کے لیے، اس کے رسول (محمد) کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عوام کے لیے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ يَعْمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِيالزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ وَالٍ، إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ، بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، فَمَنْ وُقِيَ شَرَّهَا فَقَدْ وُقِيَ، وَهُوَ مِنَ الَّتِي تَغْلِبُ عَلَيْهِ مِنْهُمَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا کوئی حاکم نہیں جس کے دو قسم کے مشیر نہ ہوں، ایک مشیر اسے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ لہٰذا جو اس کے شر سے بچا وہ بچ گیا اور ان دونوں مشیروں میں سے جو اس پر غالب آ جاتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ۴۲ (۷۱۹۸ تعلیقًا)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۶۹)، مسند احمد (۲/۲۳۷، ۲۸۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس لیے ہر صاحب اختیار :(خواہ حاکم اعلی ہو یا ادنیٰ جیسے گورنر، تھانے دار یا کسی تنظیم کا سربراہ ) اسے چاہیئے کہ اپنا مشیر بہت چھان پھٹک کر اختیار کرے، اس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتا رہے کہ اے اللہ ! مجھے صالح مشیر کار عطا فرما۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ، وَلَا اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِيفَةٍ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْخَيْرِ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ، وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ، وَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم محفوظ تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم محفوظ رکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/القدر ۸ (۶۶۱۱)، الأحکام ۴۲ (۷۱۹۸)، مسند احمد (۳/۳۹، ۸۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا بُعِثَ مِنْ نَبِيٍّ، وَلَا كَانَ بَعْدَهُ مِنْ خَلِيفَةٍ، إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، فَمَنْ وُقِيَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا گیا اور نہ اس کے بعد کوئی خلیفہ ایسا ہوا جس کے دو مشیر و راز دار نہ ہوں۔ ایک مشیر و راز دار اسے بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے اور دوسرا اسے بگاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا۔ لہٰذا جو خراب مشیر سے بچ گیا وہ (برائی اور فساد سے) بچ گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ۴۲ (۷۱۹۸ تعلیقا)، (تحفة الأشراف: ۳۴۹۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّتِي، تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ عَمَلًا، فَأَرَادَ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرًا صَالِحًا إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جب کوئی کسی کام کا ذمہ دار ہو جائے پھر اللہ اس سے خیر کا ارادہ کرے تو اس کے لیے ایسا صالح وزیر بنا دیتا ہے کہ اگر وہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلاتا ہے اور اگر اسے یاد ہو تو اس کی مدد کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۱۷۵۴۴)، مسند احمد (۶/۷۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَ جَيْشًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَأَرَادَ نَاسٌ أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا: "لَوْ دَخَلْتُمُوهَا لَمْ تَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"، وَقَالَ لِلْآخَرِينَ: "خَيْرًا"، وَقَالَ أَبُو مُوسَى فِي حَدِيثِهِ: "قَوْلًا حَسَنًا"، وَقَالَ: "لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھیجی اور ایک شخص ۱؎ کو اس کا امیر مقرر کیا، اس نے آگ جلائی اور کہا: تم لوگ اس میں داخل ہو جاؤ، تو کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونا چاہا اور دوسروں نے کہا: ہم تو (ایمان لا کر) آگ ہی سے بھاگے ہیں، پھر لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ نے ان لوگوں سے جنہوں نے اس میں داخل ہونا چاہا تھا فرمایا: "اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے، اور دوسروں سے اچھی بات کہی"۔ (ابوموسیٰ (محمد بن المثنیٰ) نے اپنی حدیث میں :(«خیراً» کے بجائے) «قولاً حسناً» (بہتر بات) کہا ہے)۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ کی نافرمانی میں اطاعت نہیں ہوتی، اطاعت صرف نیک کاموں میں ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۵۹ (۴۳۴۰)، الأحکام ۴ (۷۱۴۵)، أخبارالأحاد ۱ (۷۲۵۷)، صحیح مسلم/الإمارة ۸ (۱۸۴۰)، سنن ابی داود/الجہاد ۹۶ (۲۶۲۵)، سنن الترمذی/السیر ۸ (۱۵۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۶۸)، مسند احمد (۱/۸۲، ۹۴، ۱۲۴، ۱۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد وہی عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ہیں جن کا تذکرہ حدیث نمبر ۴۱۹۹ میں گزرا۔ ۲؎: " صرف نیک کاموں میں اطاعت، اور نافرمانی کے کاموں میں اطاعت نہ کرنے " کی بات ہر ایک اختیار والے کے ساتھ ہو گی: خواہ حکمران اعلی ہو یا ادنیٰ، یا والدین، یا اساتذہ، شوہر یا کسی تنظیم کا سربراہ۔ اگر کسی سربراہ کا اکثر حکم اللہ کی نافرمانی والا ہی ہو تو ایسے آدمی کو سارے ماتحت لوگ مشورہ کر کے اختیار سے بے دخل کر دیں۔ لیکن ہتھیار سے نہیں، یا فتنہ و فساد برپا کر کے نہیں۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، إِلَّا أَنْ يُؤْمَرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان شخص پر (امام و حکمراں کی) ہر چیز میں سمع و طاعت (حکم سننا اور اس پر عمل کرنا) واجب ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند، سوائے اس کے کہ اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے۔ لہٰذا جب اسے گناہ کے کام کا حکم دیا جائے تو کوئی سمع و طاعت نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۷۷۹۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ تِسْعَةٌ، فَقَالَ: "إِنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، مَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ بِوَارِدٍ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَارِدٌ عَلَيَّ الْحَوْضَ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، آپ نے فرمایا: "میرے بعد کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ ہی وہ (قیامت کے دن) میرے پاس حوض پہ آ سکے گا۔ اور جس نے جھوٹ میں ان کی تصدیق نہیں کی اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور وہ میرے پاس حوض پر آئے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۷۲ (۲۲۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۱۰) حم۴/۲۴۳(صحیح)
وضاحت: ۱؎: کسی حکمران، امیر، صدر، ناظم، کسی ادارہ کے سربراہ کے حوالی موالی جو ہر نیک و بد میں اس کی خوشامد کرتے ہیں اس کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں وہ اس حدیث میں بیان کردہ وعید شدید پر توجہ دیں، نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظالم امیر کے ظلم میں تعاون کرنے والے کے لیے اتنی سخت وعید تو سنائی مگر اس ظالم امیر کو ہٹا دینے کی کوئی بات نہیں کی، ایسے ظالم کو نصیحت کی جائے گی یا سارے مسلمانوں کے اصحاب رائے کے مشورہ سے علاحدہ کیا جائے گا :(بغیر فتنہ وفساد برپا کئے )۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنِالشَّعْبِيِّ، عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ تِسْعَةٌ: خَمْسَةٌ وَأَرْبَعَةٌ، أَحَدُ الْعَدَدَيْنِ مِنَ الْعَرَبِ، وَالْآخَرُ مِنَ الْعَجَمِ، فَقَالَ: "اسْمَعُوا، هَلْ سَمِعْتُمْ أَنَّهُ سَتَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ، مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِمْ فَصَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَأَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَلَيْسَ مِنِّي، وَلَسْتُ مِنْهُ، وَلَيْسَ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ، وَمَنْ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُصَدِّقْهُمْ بِكَذِبِهِمْ، وَلَمْ يُعِنْهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَهُوَ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُ، وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے، ہم نو لوگ تھے، پانچ ایک طرح کے اور چار دوسری طرح کے، ان میں سے کچھ عرب تھے اور کچھ عجم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! کیا تم نے سنا؟ میرے بعد عنقریب کچھ امراء ہوں گے، جو ان کے یہاں جائے گا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ظلم میں ان کی مدد کرے گا تو وہ میرا نہیں اور نہ میں اس کا ہوں، اور نہ وہ میرے پاس (قیامت کے دن) حوض پر نہ آ سکے گا، اور جو ان کے ہاں نہیں گیا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہیں کی، اور ظلم میں ان کی مدد نہیں کی تو وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور عنقریب وہ میرے پاس حوض پر آئے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟، قَالَ: "كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ".
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور وہ یا آپ اپنا پیر رکاب میں رکھے ہوئے تھے، کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ظالم حکمراں کے پاس حق اور سچ کہنا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: ۴۹۸۳)، مسند احمد (۴/۳۱۴، ۳۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا شرف تو حاصل ہے مگر آپ سے خود کوئی حدیث نہیں سنی تھی، آپ کی روایت کسی اور صحابی کے واسطہ سے ہوتی ہے، اور اس صحابی کا نام نہ معلوم ہونے سے حدیث کی صحت میں فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سارے صحابہ کرام ثقہ ہیں اور سند سے معلوم ثقہ، بالخصوص صحابی کا ساقط ہونا حدیث کی صحت میں موثر نہیں، اس لیے کہ سارے صحابہ ثقہ اور عدول ہیں، اس طرح کی حدیث جس میں حدیث نقل کرنے میں صحابی واسطہ صحابی کا ذکر کئے بغیر حدیث کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دے، علمائے حدیث کی اصطلاح میں " مرسل صحابی " کہتے ہیں، اور " مرسل صحابی " مقبول و مستفید ہے۔
أخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ: "بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْآيَةَ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَهُوَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: "تم لوگ مجھ سے بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے، پھر آپ نے لوگوں کو (سورۃ الممتحنہ کی) آیت پڑھ کر سنائی" ۱؎، پھر فرمایا: "تم میں سے جس نے بیعت کو پورا کیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، اور جس نے اس میں سے کسی غلط کام کو انجام دیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے چھپائے رکھا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے چاہے تو اسے سزا دے، اور چاہے تو اسے معاف کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۴۱۶۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس آیت سے مراد سورۃ الممتحنہ کی یہ آیت ہے: «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك على أن لايشركن بالله شيئا …»:(سورة الممتحنة: 12 )
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آَدَمَ بْنِ سُلَيْمَانِ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الإِمارَةِ، وَإنَّهَا سَتَكُونُ نَدَامَةً وَحَسْرَةً، فَنَعِمَتِ المُرْضِعَةُ، وَبَئِسَتِ الْفَاطِمَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عنقریب تم لوگ امارت و سرداری کی خواہش کرو گے لیکن وہ باعث ندامت و حسرت ہو گی، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کتنی اچھی ہوتی ہے، اور دودھ چھڑانے والی کتنی بری ہوتی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأحکام ۷ (۷۱۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۱۷)، مسند احمد (۲/۴۴۸، ۴۷۶) ویأتي عند المؤلف في القضاء (برقم۵۳۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی حکومت ملتے وقت وہ بھلی لگتی ہے اور جاتے وقت بری لگتی ہے۔