مشکوٰة شر یف

بیع سلم کا بیان

بیع سلم کا بیان

بیع سلم اور رہن کا بیان

 سلم ایک بیع کا نام ہے جس میں مبیع مؤجل اور ثمن معجل ہوتا ہے یعنی خریدی جانے والی چیز بعد میں لی جاتی ہے اور اس کی قیمت پہلے ہی دی جاتی ہے۔

اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ زید نے بکر سے مثلاً ایک سو100 روپے کے عوض دو من گیہوں کی خریداری کا معاملہ کیا بایں طور کہ زید نے بکر کو ایک سو روپے دے دئیے اور اسے طے کر دیا کہ میں اتنی مدت کے بعد اس کے عوض فلاں قسم کے دو من گیہوں تم سے لے لوں گا اس بیع و معاملہ کو عربی میں سلم کہتے ہیں بعض مواقع پر سلف بھی کہا جاتا ہے اپنی زبان میں اسے بدھنی سے موسوم کیا جاتا ہے اس بیع کے مشتری یعنی خریدار کو عربی میں رب سلم ثمن یعنی قیمت کو رأس المال بیع یعنی بیچنے والے کو مسلم الیہ اور مبیع یعنی خریدی جانے والی چیز کو مسلم فیہ کہتے ہیں۔

یہ بیع شرعی طور پر جائز و درست ہے بشرطیکہ اس کی تمام شرائط پائی جائیں اور تمام شرائط کی تعداد سولہ ہے اس طرح کہ چھ شرطوں کا تعلق تو رأس المال یعنی قیمت سے ہے اور دس شرطوں کا تعلق مسلم فیہ یعنی مبیع سے ہے۔

رأس المال سے متعلق چھ شرطیں یہ ہیں:

-1 جنس کو بیان کرنا یعنی یہ واضح کر دینا کہ یہ درہم ہیں یا دینار ہیں یا اشرفیاں ہیں اور یا روپے ہیں

-2 نوع کو بیان کر دینا یعنی یہ واضح کر دینا کہ یہ روپے چاندی کے ہیں یا گلٹ کے ہیں یا نوٹ ہیں

-3 صفت کو بیان کرنا یعنی یہ واضح کر دینا کہ روپے کھرے ہیں یا کھوٹے ہیں

-4 مقدار کو بیان کر دینا یعنی یہ واضح کر دینا کہ یہ روپے سو ہیں یا دو سو ہیں

-5 روپے نقد دینا وعدہ پر نہ رکھنا

-6 اور جس مجلس میں معاملہ طے ہوا اس مجلس میں بیچنے والے کا رأس المال پر قبضہ کر لینا

مسلم فیہ سے متعلق دس شرطیں یہ ہیں

-1 جنس کو بیان کرنا مثلاً یہ واضح کر دینا کہ مسلم فیہ گیہوں ہے یا جو ہے اور یا چنا ہے

-2 نوع کو بیان کر دینا یعنی یہ واضح کر دینا کہ گیہوں فلاں قسم یا فلاں جگہ کے ہیں

-3 صفت کو بیان کرنا یعنی یہ واضح کر دینا کہ مثلاً گیہوں اچھے ہیں یا خراب

-4 مسلم کی مقدار کو بیان کر دینا کہ مثلاً ایک من ہیں یا دو من ہیں

-5 مسلم فیہ کا وزنی یا کیلی یا ذرعی یا عددی ہونا تا کہ امن کا تعین و اندازہ کیا جا سکے

-6 مدت کو بیان کرنا یعنی یہ واضح کر دینا کہ یہ چیز اتنی مدت کے بعد مثلاً ایک مہینہ یا دو مہینہ میں یا چار مہینے میں لیں گے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ کم سے کم مدت ایک مہینہ ہونی چاہئیے۔

-7 مسلم فیہ کا موقوف و معدوم نہ ہونا یعنی یہ ضروری ہے کہ مسلم فیہ عقد کے وقت سے ادائے گی کے وقت تک بازار میں برابر مل سکے تا کہ معدوم کی بیع لازم نہ آئے

-8 بیع سلم کا معاملہ بغیر شرط خیار کے طے ہونا یعنی اس بیع میں خیار بیع کو برقرار رکھنے یا فسخ کر دینے کے اختیار کی شرط نہیں ہونی چاہئے

-9 اگر مسلم فیہ ایسی وزن دار چیز ہے جس کی بار برداری دینا پڑے تو اس کے دینے کی جگہ کو متعین کرنا یعنی یہ واضح کر دینا کہ میں یہ چیز فلاں جگہ یا فلاں مقام پر دوں گا۔

-10 مسلم فیہ کا ایسی چیز ہونا جو جنس نوع اور صفت بیان کرنے سے متعین و معلوم ہو جاتی ہو جو چیز ایسی ہو کہ جنس نوع اور صفت بیان کرنے سے معلوم و متعین نہ ہوتی ہو جیسے حیوان یا بعض قسم کے کپڑے تو اس میں بیع سلم جائز نہیں۔

بیع سلم کی شرائط صحت

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ پھلوں میں ایک سال دو سال تین سال کی بیع سلم کیا کرتے تھے یعنی پیشگی قیمت دیکر کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک سال یا دو سال یا تین سال کے بعد پھل پہنچا دینا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی چیز کی بیع سلم کرے اسے چاہئے کہ معین پیمانہ وزن اور معین مدت کے ساتھ سلم کرے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی بیع جاری ہو اگر وہ پیمانہ سے ناپ کر لی دی جاتی ہے تو اس کا پیمانہ متعین کرنا ضروری ہے کہ یہ چیز دس پیمانے ہو گی یا پندرہ پیمانے اور اگر وہ چیز وزن کے ذریعہ لی دی جاتی ہے تو اس کا وزن متعین کرنا ضروری ہے کہ یہ چیز دس سیر ہو گی یا پندرہ سیر اسی طرح سلم میں خریدی جانے والی چیز کی ادائے گی کی مدت کا تعین بھی ضروری ہے کہ یہ چیز مثلاً ایک ماہ بعد دی جائے گی یا ایک سال بعد۔

اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بیع سلم میں مدت کا تعین بیع کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ امام مالک اور امام احمد کا مسلک ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک تعین مدت ضروری اور شرط نہیں ہے۔

ادھار خریدنا اور گروی رکھنا جائز ہے

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک متعین مدت کے ادھار پر خریدا اور اپنے لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے چند مسائل معلوم ہوئے اول یہ کہ کوئی چیز ادھار قیمت پر خریدنا اور اس ادھار قیمت کے بدلے اپنی کوئی چیز رہن رکھنا جائز ہے دوم یہ کہ سفر کے علاوہ حضر یعنی اپنے شہر و مسکن میں بھی رہن رکھنا جائز ہے اگرچہ قرآن کریم نے جس آیت میں رہن رکھنے کی اجازت دی ہے اس میں سفر کی قید ہے اور وہ آیت یہ ہے (وَاِنْ كُنْتُمْ عَلیٰ سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا كَاتِباً فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَةٌ) 2۔ البقرۃ:283)  یعنی اگر تم کہیں سفر میں ہو اور وہاں دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ پاؤ تو اطمینان کا ذریعہ رہن رکھنے کی چیزیں ہیں جو صاحب حق کے قبضہ میں دے دی جائیں۔

چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس آیت میں سفر کی قید اتفاقی ہے رہن رکھنا جس طرح سفر میں جائز ہے اسی طرح حضر میں بھی جائز ہے اور سوم یہ کہ اہل ذمہ اسلامی سلطنت میں جزیہ دے کر رہنے والے اہل کتاب جیسے یہود و نصاریٰ کے ساتھ معاملات کرنے جائز ہیں چنانچہ تمام علماء کا بالاتفاق یہ مسلک ہے کہ اہل ذمہ اور کفار سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان کے پاس جو مال ہے اس کا حرام نہ ہونا ثابت و معلوم ہو لیکن اہل حرب کے ساتھ مسلمانوں کا ہتھیار یا سامان جنگ بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح مطلقاً کسی بھی کافر کے ہاتھ ایسی کوئی چیز بیچنی جائز نہیں ہے جو اس کے دین و مذہب کی تقویت کا باعث ہو نیز کفار کے ہاتھ مسلمانوں کا مصحف شریف (قرآن کریم) اور غلام بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔

علامہ نووی کہتے ہیں کہ یہ حدیث بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم دنیا کا مال و اسباب نہیں رکھتے تھے اور یہ تنگ دستی و قلت مال آپ کی شان استغناء توکل علی اللہ اور مال و زر سے آپ کی کلیۃً بے رغبتی کی ایک واضح مثال ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اہل ذمہ کے پاس مسلمانوں کا سامان جنگ گروی رکھنا جائز ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس عمل یعنی گروی رکھنے کا یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی سے کیا صحابہ سے نہیں کیا کے بارے میں بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ یہ شاہد بیان جواز کی خاطر تھا یعنی اپنے اس عمل کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ واضح کیا کہ اہل ذمہ کے ساتھ بھی اپنے معاملے کرنا جائز ہے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودی کے ساتھ یہ معاملہ اس لئے کیا کہ اس وقت اپنی حاجت و ضرورت سے زائد غلہ یہودیوں کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں تھا۔

-3 اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا اس حال میں وصال ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی (بخاری)

انتفاع رہن کا مسئلہ

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر سواری کی جائے تو اس پر جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اس کے بدلے میں اس پر سواری کی جا سکتی ہے اور اگر دودھ والا جانور گروی ہو تو اس پر جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اس کے بدلے اس کا دودھ پیا جائے اور جو شخص سواری کرے اور دودھ پئے وہی اس کے مصارف کا ذمہ دار ہے (بخاری)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جزو کی وضاحت کے ضمن میں ملا علی قاری نے جو مسئلہ لکھا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا کوئی جانور کسی کے پاس رہن رکھے تو اس جانور کے مصارف مثلاً دانہ وچارہ وغیرہ کا بار چونکہ راہن پر ہوتا ہے اسے باربرداری کے کام میں لائے چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔

لیکن حضرت شیخ عبدالحق نے حدیث کے آخری جملہ (وعلی الذی یرکب ویشرب النفقۃ) (اور جو شخص سواری کرے اور دودھ پئے وہی مصارف کا ذمہ دار ہے) کے تحت یہ لکھا ہے کہ جو شخص گروی رکھے ہوئے جانور پر سوار ہو گا یا اس کا دودھ پئے گا وہی اس کے مصارف کا بھی ذمہ دار ہو گا خواہ وہ راہن ہو یا مرتہن گویا مطلب یہ ہوا کہ اگر مرتہن اپنے پاس گروی رکھے ہوئے جانور کا گھاس دانہ کرتا ہے اور اس کے مصارف برداشت کرتا ہے تو وہ اس جانور کو اپنے مصرف میں لا سکتا ہے اور اس کا دودھ پی سکتا ہے اور اگر راہن اس جانور کا (کہ جسے اس نے مرتہن کے پاس گروی رکھا ہے) گھاس دانہ کرتا ہے اور اس کے مصارف برداشت کرتا ہے تو پھر اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس جانور کو اپنے استعمال میں لائے اور اس کا دودھ پیئے۔

حضرت شیخ کی اس وضاحت کی روشنی میں حدیث کا یہ مطلب ہو گا کہ مرتہن کو گروی رکھے ہوئے جانور سے نفع اٹھانا اور اس کے مصارف برداشت کرنا جائز ہے حالانکہ اکثر علماء اس کے برخلاف ہیں چنانچہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ مرتہن کے لئے یہ قطعاً جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس گروی رکھی ہوئی چیز سے نفع حاصل کرے اور یہ کہ گروی رکھی ہوئی چیز کا نفقہ (جیسے جانور کا گھاس دانہ) راہن کے ذمہ ہے مرتہن کے لئے رہن سے نفع حاصل کرنا اس لئے ناجائز ہے کہ یہ بالکل کھلا ہوا مسئلہ ہے کہ جو قرض نفع لائے وہ حرام ہے اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث آگے آنے والی حدیث کے ذریعہ منسوخ ہے۔

شے مرہون راہن کی ملکیت سے باہر نہیں ہوتی ہے

حضرت سعید بن مسیب (تابعی) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کسی چیز کو گروی رکھنا مالک کو کہ جس نے وہ گروی رکھی ہے (ملکیت سے) نہیں روکتا (یعنی کسی چیز کو گروی رکھ دینے سے راہن کی ملکیت ختم نہیں ہوتی) اس لئے اس گروی رکھی ہوئی چیز کے ہر نفع و بڑھوتری کا حقدار راہن ہے اور وہی اس کے نقصان کا ذمہ دار ہے اس روایت کو امام شافعی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے اور اس قسم کی ایک اور حدیث (یعنی ہم معنی بھی اور ہم لفظ بھی (حضرت سعید بن مسیب سے روایت کی گئی ہے جسے سعید بن مسیب نے حضرت ابو ہریرہ بطریق اتصال نقل کیا ہے یا وہ روایت ہم معنی ہے اور اس کے الفاظ مختلف ہیں مگر الفاظ کا یہ اختلاف ایسا نہیں ہے جو اس کے ہم معنی ہونے کے منافی ہو ۔

 

تشریح

 

 حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کے پاس رہن رکھ دے تو اس کا یہ رہن رکھنا اس چیز کی ملکیت کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جوں کی توں راہن کی ملکیت میں رہتی ہے اس لئے حدیث نے اس کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ اس رہن رکھی ہوئی چیز سے اگر کوئی نفع حاصل ہوتا ہے یا اس میں کوئی بڑھوتری ہوتی ہے تو وہ راہن کا حق ہے بایں طور کہ اگر اس چیز کا کرایہ آتا ہے تو راہن وہ کرایہ وصول کر سکتا ہے اگر وہ کوئی جانور ہے تو اس پر سوار ہو سکتا ہے یا اسے اپنی بار برداری میں استعمال کر سکتا ہے ایسے ہی اگر اس جانور کے بچے ہوں تو وہ بچے بھی راہن ہی کا حق ہوتے ہیں۔ پھر جس طرح راہن رہن رکھی ہوئی چیز کے منافع کا حقدار ہوتا ہے اسی طرح اس کے نقصان کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے بایں طور کہ اگر وہ چیز مرتہن کے ہاں ہلاک و ضائع ہو جاتی ہے تو اس کا نقصان راہن ہی برداشت کرتا ہے اس کی وجہ سے مرتہن کے حق (یعنی جو قرض وغیرہ اس نے راہن کو دیا ہے) میں سے کچھ بھی ساقط نہیں ہوتا بلکہ راہن کو پورا پورا قرض واپس کرنا ہوتا ہے۔

لفظ روی مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں معروف کے ساتھ یعنی وری منقول ہے اس صورت میں اس کے فاعل امام شافعی ہوں گے اور لفظ مثلہ اور مثل منصوب ہی رہیں گے۔

حقوق شرعیہ میں پیمانہ اور وزن کا اعتبار

اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا (پیمانہ اہل مدینہ کا معتبر ہے اور وزن اہل مکہ کا معتبر ہے)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ حقوق شرعیہ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ لین دین کے لئے پیمانہ میں اہل مدینہ کے پیمانہ کا اعتبار ہے اور وزن میں اہل مکہ کے وزن کا اعتبار ہے۔

معلوم ایسا ہوتا ہے کہ آنحضرت کے زمانہ میں مکہ اور مدینہ کے پیمانوں اور اوزان میں کچھ فرق و اختلاف تھا۔ مدینہ کے پیمانہ اور وزن کی مقدار کچھ اور تھی اور مکہ کے پیمانہ اور وزن کی مقدار کچھ اور اس کی وجہ سے حقوق شرعیہ یعنی زکوٰۃ و صدقہ فطر وغیرہ میں لینا دینا خلجان کا باعث بنتا ہو گا۔ اس لئے آپ نے مذکورہ بالا ہدایت جاری فرمائی۔ گویا اس کا حاصل یہ تھا کہ مثلاً درہموں میں زکوٰۃ اسی وقت واجب ہو گی جب کہ وہ مکہ کے وزن مطابق دو سو ہوں گے اور صدقہ فطر و دیگر صدقات واجبہ کیں اہل مدینہ کا صاع معتبر ہو گا۔ مدینہ کے وزن کے مقابلہ میں مکہ کے وزن کو اور مکہ کے پیمانہ کے مقابلہ میں مدینہ کے پیمانہ کو ترجیح دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں وہاں غلہ کا لین دین پیمانہ ہی کے ذریعے ہوا کرتا تھا اور اہل مدینہ چونکہ زراعت پیشہ تھے اس لئے انہیں پیمانوں کے بارے میں زیادہ واقفیت رہا کرتی تھی اور اوزان کا استعمال چونکہ تجارت میں زیادہ ہوتا ہے اور اہل مکہ تجارت پیشہ تھے اس لئے وہ اوزان کی واقفیت زیادہ رکھتے تھے۔

ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے وعید

اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ رسول اللہ نے ناپ تول کرنے والوں سے فرمایا کہ تمہارے ذمہ دو کام ایسے ہیں (یعنی ناپنا اور تولنا) جن کے سبب تم سے پہلی امتیں ہلاک کی جا چکی ہیں۔

 

تشریح

 

 امت محمدیہ سے قبل کچھ ایسی قومیں گزری ہیں جن کے افراد اس بدترین خصلت میں مبتلا تھے کہ جی وہ کوئی چیز لوگوں سے لیتے تھے تو اسے پورا پورا ناپتے تولتے مگر جب کسی کو کوئی چیز دیتے تھے تو اس کی ناپ تول میں کمی کر دیتے تھے۔ ان کی اس عام برائی کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اور وہ تہس نہس کر دیئے گئے ایسی قوموں میں سر فہرست حضرت شعیب علیہ السلام کو قوم کا نام آتا ہے اسی لئے آنحضرت نے اپنی امت کے افراد کو متنبہ کیا کہ تم ناپنے تولنے میں کمی کرنے سے پوری طرح اجتناب کرو تا کہ اس لعنت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کہیں تم بھی خدا کے قہر و غضب کا شکار نہ ہو جاؤ۔

بیع سلم کی مبیع کو قبل قبضہ فروخت کرنے کی ممانعت

حضرت ابو سعید خدری راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص کسی چیز کے لئے بیع سلم کا معاملہ کرے تو اس چیز کو قبضہ میں کرنے سے پہلے کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ کرے۔

 

تشریح

 

 کسی دوسرے کی طرف منتقل نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ چیز اپنے قبضہ میں وہ آ جائے اسے کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت نہ کرے اور نہ ہبہ کرے یا یہ مطلب ہے کہ اس چیز کو کسی دوسری چیز سے نہ بدلے یعنی جس چیز کی بیع سلم کی ہوئی ہے معاملہ کے مطابق اسی کو لے قبل قبضہ اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز نہ لے۔