مشکوٰۃ کے مؤلف علیہ الرحمۃ بعض مقامات پر کوئی عنوان متعین نہیں کرتے بلکہ صرف باب لکھ کر اگلا باب شروع کر دیتے ہیں اور اس کے تحت وہ احادیث نقل کر دیتے ہیں جو پچھلے ابواب کی متمات اور ملحقات ہوتی ہیں چنانچہ یہاں بھی موصوف نے صرف باب لکھ کر باب شروع کیا ہے کوئی متعین عنوان نہیں لکھا ہے۔
مگر مشکوٰۃ کے بعض دوسرے نسخوں میں اس موقع پر یہ عنوان لکھا ہوا ہے باب ماینفقہ المرأۃ من مال بعلہا یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کر سکتی ہے اس کا بیان۔
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے گھر کھانے میں سے صدقہ دیتی ہے بشرطیکہ وہ اسراف نہیں کرتی تو اسے اس کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے شوہر کو مال کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور داروغہ (مطبخ کے نگران) کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے (جیسا کہ مالک کو ثواب ملتا ہے) اور ان میں سے کسی کے ثواب میں دوسرے کے ثواب کی وجہ سے کمی نہیں ہوتی (یعنی ہر ایک کو پورا ثواب ملتا ہے) (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ شوہر نے بیوی کو اپنے مال سے صدقہ و خیرات کرنے کی اجازت دے رکھی ہو خواہ اس نے صراحۃً اجازت دی ہو یا دلالۃً۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اہل حجاز کا یہ معمول تھا کہ انہوں نے اپنی مہمان نوازی اور سخاوت کے پیش نظر اپنی بیویوں اور اپنے خدمت گاروں (مثلاً داروغہ مطبخ وغیرہ) کو یہ اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مہمانوں کی بھر پور ضیافت کریں اور فقراء و مساکین نیز پڑوس کے لوگوں کو کھانا وغیرہ کھلا دیا کریں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس ارشاد گرامی کے ذریعے اپنی امت کو ترغیب دلائی کہ یہ نیک اور اچھی عادت اختیار کریں۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی عورت اپنے شوہر کی کمائی (کے مال) میں سے اس کی اجازت کے بغیر صدقہ خیرات دیتی ہے تو اسے آدھا ثواب ملتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس کی اجازت کے بغیر، کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز وہ صدقہ میں دے رہی ہے خاص طور پر اس کی اجازت شوہر نے نہیں دی ہوئی ہے لیکن وہ شوہر کی صراحۃً یا دلالۃً اجمالی رضا جانتی ہو اور وہ چیز تھوڑی اور کمتر ہو کہ اس کو دینے کو کوئی منع نہیں کرتا جیسے ہمارے یہاں عام طور پر عورتیں دروازوں پر مانگنے والوں کو آٹے کی چٹکی روٹی کا ٹکڑا یا ایک آدھ پیسہ دے دیتی ہیں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو دیانت دار مسلمان داروغہ (یعنی ملازم جیسے خزانچی وغیرہ) وہ چیز کہ جسے دینے کا مالک نے حکم کیا ہو بغیر کسی نقصان کے خوش دلی کے ساتھ اس شخص کو دے کہ جس کے لیے مالک نے حکم دیا ہے تو وہ صدقہ کرنے والے دو اشخاص میں سے ایک ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اپنے آقا و مالک کے مال میں سے صدقہ و خیرات دینے والے ملازم کے لیے اس حدیث میں چار شرطیں مذکور ہوئی ہیں۔ (۱) صدقہ و خیرات کے لیے مالک کا حکم ہونا (٢) مالک نے جتنا مال صدقہ میں دینے کا حکم دیا ہو وہ بغیر کسی کمی کے پورا دینا (٣) خوش دلی کے ساتھ دینا۔ اس شرط کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مالک جو مال صدقہ میں دینے کا حکم دیتا ہے بعض ملازم اسے خوش دلی کے ساتھ نہیں دیتے (٤) مالک نے جس شخص کو مال دینے کا حکم دیا ہے اسی کو دینا اس کے علاوہ کسی دوسرے فقیر و مسکین کو نہ دینا۔
لفظ متصدقین (صدقہ دینے والے دو اشخاص) تثنیہ کے صیغہ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے یعنی ایک تو مالک کہ جس کا مال صدقہ میں دیا گیا اور دوسرا ملازم جس کے ذریعے صدقہ دیا گیا اس طرح ملازم ان دونوں میں ایک ہوا۔
مشکوٰۃ کے ایک اور صحیح نسخہ میں متصدقین جمع کے صیغے کے ساتھ منقول ہے اس طرح اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ملازم بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔
بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ جو ملازم مسلمان اور امانت دار ہو کہ اس کا مالک صدقہ میں جو کچھ دینے کا حکم کرتا ہو وہ پورا پورا اور خوش دلی کے ساتھ دیتا ہو، نیز صدقہ کا مال اسی شخص کو دیتا ہو جس کو دینے کے لیے مالک نے حکم دیا ہو تو اس ملازم کو بھی اس کے مالک کے ثواب کی مانند ثواب ملتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میری والدہ کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر (وہ مرنے سے پہلے) کچھ کہنے پاتیں تو صدقہ دینے کی (ضرور) وصیت کرتیں لہٰذا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو انہیں اس صدقہ کا ثوب مل جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی مرحوم عزیز کی طرف سے بطور صدقہ کچھ مال وغیرہ دے تو اس میت کو ثواب ملتا ہے اسی طرح میت کے لیے دعائے استغفار وغیرہ بھی کار آمد ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کے متفقہ طور پر یہی مسلک ہے ہاں بدنی عبادت نماز و روزہ اور تلاوت قرآنی وغیرہ کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں لیکن اس بارے میں بھی قابل اعتماد اور زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ میت کو عبادت بدنی کا بھی ثواب پہنچتا ہے۔
چنانچہ امام عبداللہ یافعی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ ایک عالی بزرگ شیخ عبدالسلام رحمۃ اللہ کو ان کے انتقال کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو شیخ مرحوم نے فرمایا کہ ہم تو دنیا میں کہا کرتے تھے کہ تلاوت قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا مگر اس عالم میں آ کر ہم نے معاملہ برعکس دیکھا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع میں اپنے خطبہ میں فرماتے تھے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر میں سے کچھ خرچ نہ کرے۔ (خواہ صراحۃ ہو یا دلالۃ) عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا کھانے میں سے بھی خرچ نہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھانا ہمارے اموال میں نفیس ترین چیز ہے۔ (ترمذی)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ جب شوہر کی اجازت کے بغیر ان چیزوں کو خرچ کرنا جائز نہیں ہے جو کھانے سے کم تر درجہ کی ہیں تو کھانا خرچ کرنا کیسے درست ہو گا، جب کہ یہ افضل ترین چیز ہے۔
بظاہر اس حدیث میں اور اس بارے میں ذکر کی گئی گزشتہ احادیث میں تعارض نظر آتا ہے لیکن ان احادیث کی تشریحات اگر سامنے ہوں تو پھر کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا کیونکہ ان تشریحات کے ذریعے احادیث میں تطبیق بیان کر دی گئی ہے۔
٭٭ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں سے بیعت لی (یعنی ان سے احکام شریعت پر عمل کرنے کا عہد لیا) تو ان میں ایک بڑے قد کی یا بڑے مرتبہ کی عورت کھڑی ہوئی جو غالباً قبیلہ مضر سے معلوم ہوتی تھی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!ہمارا بار اپنے والدین، اپنی اولاد اور اپنے شوہروں پر ہے، کیا ان کا مال ہمارے لیے ان کی اجازت کے بغیر حلال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تازہ مال ہو اسے کھاؤ اور بطور تحفہ کے بھیجو۔ (ابو داؤد)
تشریح
تازہ مال سے وہ چیزیں مراد ہیں جو دیر پا نہ ہوں بلکہ جلدی خراب ہو جاتی ہوں جیسے سالن ترکاری اور دودھ وغیرہ۔ لہٰذا ان چیزوں کے استعمال میں اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ عام طور سے لوگ ان کو خرچ کرنے سے منع نہیں کرتے گویا اس طرح ان چیزوں کے خرچ کرنے کے لیے دلالۃً اجازت حاصل ہوتی ہے بخلاف ان چیزوں کے جو خشک اور خراب نہ ہونے والی ہوں کہ ان کے خرچ کرنے کے لیے اجازت و رضا کا حاصل ہونا ضروری ہے۔
حضرت ابو اللحم رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے آقا کے حکم کے مطابق گوشت (کو سکھانے کے لیے اس) کے پارچے بنا رہا تھا کہ میرے پاس ایک مسکین و فقیر آیا میں نے اسے اس میں سے کھانے کے لیے دے دیا۔ جب میرے آقا کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پورا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے آقا کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ میرے کھانے میں سے بغیر میری اجازت کے دے دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ (اگر تم صدقہ کرنے کا حکم دے دیتے یا اس کے صدقہ کرنے سے تم راضی و خوش ہوتے تو) تم دونوں ثواب کے حق دار ہوتے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عمیر نے کہا کہ میں ایک شخص کا غلام تھا چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالک کے مال میں کچھ (یعنی قلیل و کمتر درجہ کی چیز جس کے خرچ کرنے کی عام طور پر اجازت ہوتی ہے) بطور صدق خرچ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں اور اس کا ثواب تم دونوں کو آدھا آدھا ملے گا (مسلم)
تشریح
علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمیر کی شکایت پر ان کے آقا ابو اللحم سے جو کچھ کہا یا عمیر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مالک کے مال میں غلام و ملازم کو مطلقاً تصرف کا حق حاصل ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو صرف اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا کہ غلام و ملازم کو کسی ایسی بات پر مارا جائے جسے مالک تو غلطی یا اپنا نقصان تصور کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ مالک کے حق میں غلطی یا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کے اس میں بہتری و بھلائی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابواللحم رضی اللہ عنہ کو ترغیب دلائی کہ ان کے غلام نے ان کے حق میں چونکہ بہتر اور نیک کام ہی کیا ہے۔ اس لیے اس سے درگزر کریں اور ثواب کو غنیمت جانیں جو ان کا مال خرچ ہونے کی وجہ سے انہیں ملا ہے۔ گویا یہ ابواللحم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رہنمائی اور تعلیم تھی نہ کہ عمیر کے فعل کی تقریر یعنی عمیر کے فعل کو آپ نے جائز قرار نہیں دیا۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو خدا کی راہ میں سواری کے لیے گھوڑا دیا (یعنی ایک مجاہد کے پاس گھوڑا نہیں تھا اس لیے میں نے اسے گھوڑا دے دیا) اس شخص نے اس گھوڑے کو جو اس کے پاس تھا ضائع کر دیا (یعنی اس نے گھوڑے کی دیکھ بھال نہیں کی جس کی وجہ سے گھوڑا دبلا ہو گیا) میں نے سوچا کہ میں وہ گھوڑا اس سے خرید لوں اور خیال تھا کہ وہ اس گھوڑے کو سستے داموں بیچ دے گا، مگر (خریدنے سے پہلے) میں نے اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو اور نہ اپنا دیا ہو صدقہ واپس لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے (گویا یہ حقیقۃً نہیں بلکہ صورۃً اپنا صدقہ واپس لینا ہے) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے چاٹتا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لو (خواہ واپس لینا صورۃً ہی کیوں نہ ہو) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا اس شخص کی مانند ہے جو قے کرے اور اسے چاٹ لے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں گھوڑے کے سستے داموں حاصل ہو جانے کا خیال اس لیے پیدا ہوا کہ گھوڑا چونکہ دبلا ہو گیا تھا اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس کی اصلی قیمت نہیں لگتی یا پھر انہوں نے ایسا خیال اس لیے قائم کیا کہ میں نے چونکہ اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تھا اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس وقت میرے ساتھ رعایت و مروت کا معاملہ کرے۔
ابن ملک رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ و مفہوم کے پیش نظر بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ خریدنا حرام ہے لیکن اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس طرح صرف قبح لغیرہ لازم آتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جس شخص کو صدقہ کا مال دیا جاتا ہے وہ اس مال کو جب صدقہ دینے والے ہی کے ہاتھوں بیچتا ہے تو اس بناء پر کہ اس نے اس کو صدقہ دے کر اس کے ساتھ احسان کیا ہے وہ اسے سستے داموں ہی بیچ دیتا ہے لہٰذا صدقہ دینے والا اس صورت میں بقدر رعایت مال جو اس صدقہ ہی کا حصہ تھا، واپس لینے والوں میں شمار ہوتا ہے۔
بہرحال صحیح اور قابل اعتماد قول یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد لا تشتریہ (اسے نہ خریدو) نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ یا رسول اللہ! میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کو بطور صدقہ دی تھی اب میری ماں مر گئی ہے (کیا میں اسے واپس لے لوں اور اس طرح وہ لونڈی دوبارہ میری ملکیت میں آ جائے گی یا نہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (صدقہ دینے کی وجہ سے) تمہارا ثواب تو ثابت ہو گیا (یعنی اس کا ثواب تمہیں یقیناً مل گیا) اور اب میراث نے اس لونڈی کو تمہیں واپس کر دیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں کے ذمہ مہینہ بھر کے روزے تھے تو میں اس کی طرف حقیقۃ یا حکما روزے رکھ سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی طرف سے روزے رکھ لو۔ پھر اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس کی طرف سے حج کر لو۔ (مسلم)
تشریح
وردہا علیک المیراث (میراث نے تمہیں اس لونڈی کو واپس کر دیا) میں میراث کی طرف واپس کرنے کی نسبت مجازی ہے چنانچہ اس جملے کے حقیقی معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس لونڈی کو میراث کے ذریعے تمہیں واپس کر دیا اور وہ لونڈی بسبب ارث کے تمہاری ملکیت ہو گئی گویا وہ تمہارے پاس حلال ذریعے اور حلال طریقے سے آئی۔
اس مفہوم کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال واپس لینے کی جو ممانعت کی گئی ہے صورت مذکورہ کا تعلق اس ممانعت سے نہیں ہے کیونکہ یہ امر اختیاری نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ صورت ہے کہ صدقہ میں دیا ہوا مال بطور میراث ملکیت میں آیا ہے جو ظاہر ہے کہ بالکل جائز ہے۔
سائلہ کو روزے رکھنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجازت کا مطلب یہ تھا کہ حقیقۃ روزہ نہ رکھو بلکہ حکما رکھو اور فدیہ کی ادائیگی ہے چنانچہ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال اس حالت میں ہو جائے کہ اس کے ذمہ فرض روزے ہوں تو یہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مرنے والے کی طرف سے روزے نہ رکھے بلکہ اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اس کے ورثاء اس کی طرف سے فدیہ ادا کریں۔
اس مسئلے کو تفصیل کے ساتھ اختلاف مذاہب ان شاء اللہ روزہ کی قضا کے بیان کے ضمن میں بیان کیا جائے گا تاہم اس موقع پر اصولی طور پر یہ جان لیجئے یہ عبادت کی کئی قسمیں ہیں اول عبادت مالی جس کا تعلق صرف مال کی ادائیگی سے ہو گا جیسے زکوٰۃ دوم عبادت بدنی کہ جس کا تعلق صرف نفس و بدن کی مشقت و محنت سے ہو جیسے نماز اور سوم مرکب یعنی وہ عبادت جس کا تعلق مال اور نفس و بدن دونوں سے ہو جیسے حج۔
لہٰذا عبادت مالی میں تو نیابت جائز ہے خواہ حالت اختیار ہو یا حالت اضطرار و ضرورت کیونکہ اس کا مقصود فقیر و مفلس کی حاجت روائی ہے سو وہ نائب کے ادا کرنے سے بھی ادا ہو جاتا ہے۔ عبادت بدنی میں نیابت کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ عبادت بدنی کا مقصود اپنے نفس کو محنت و مشقت میں مبتلا کرنا ہوتا ہے جو نائب کے کرنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ مرکب میں نیابت کسی مجبوری و ضرورت کے وقت تو جائز ہے لیکن حالت قدرت و اختیار میں جائز نہیں ہے البتہ نفلی حج کی صورت میں حالت قدرت و اختیار میں بھی نیابت جائز ہے کیونکہ نفل کا دائرہ وسیع تر ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ نعم حجی عنہا (ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ کا مفہوم دونوں صورتوں سے متعلق ہے کہ خواہ اس پر حج واجب تھا یا نہیں، اسی طرح اس نے حج کی وصیت کی تھی یا نہیں؟چنانچہ وارث کے لیے جائز ہے کہ وہ مورث کی طرف سے چاہے تو کسی دوسرے کو حج کرا دے اور چاہے تو خود ہی حج کر لے، خود حج کرنے کی صورت میں مورث کی اجازت شرط نہیں ہے جب کہ اگر کسی دوسرے سے حج کرائے تو اس کے لیے مورث کی اجازت شرط ہو گی۔ واللہ اعلم
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مدد سے کتاب الزکوٰۃ پوری ہوئی اب کتاب الصوم شروع ہوتی ہے رب العزت اس کی تکمیل کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔