تسبیح سے مراد ہے سبحان اللہ کہنا تحمید سے مراد الحمدللہ کہنا اور تہلیل سے مراد ہے لاالہ الا اللہ کہنا اور تکبیر سے مراد ہے اللہ اکبر کہنا۔
حضرت سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان کے کلام میں سب سے بہتر کلام چار ہیں اور وہ یہ ہیں۔ سبحان اللہ (اللہ پاک ہے) الحمدللہ (تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں) لاالہ الااللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) اللہ اکبر (اللہ بہت بڑا ہے) ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کلام چار ہیں (١) سبحان اللہ (٢) الحمدللہ (٣ لاالہ الا اللہ (٤) اللہ اکبر۔ ان میں سے کسی بھی کلمہ سے شروع کرنا تمہارے لئے نقصان دہ نہیں ہے۔ (مسلم)
تشریح
سب سے بہتر کلام چار ہیں۔ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے بعد انسان کے کلام میں یہ چار کلمے سب سے افضل ہیں یہ وضاحت اور ترجمہ میں انسان کی قید اس لئے ہے کہ چوتھا کلمہ یعنی اللہ اکبر قرآن کریم میں نہیں ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ جو چیز قرآن میں نہیں ہے وہ اس چیز سے افضل نہیں جو قرآن میں ہے لیکن اور ایک حدیث میں اس طرح ہے افضل الکلام بعد القرآن وہی من القرآن۔ یعنی یہ کلمے مجموعہ قرآن کے بعد افضل کلمے ہیں اور یہ کلمے بھی قرآن ہی کے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام سے انسانی کلام کے ساتھ اللہ بھی مراد ہے یعنی یہ چار کلمے اللہ تعالیٰ کے تمام کلام میں افضل ترین کلمے ہیں اس صورت میں کہا جائے گا کہ ان میں سے اول الذکر تین کلمے تو بعینہ قرآن میں موجود ہیں اور چوتھا کلمہ اگرچہ بعینہ قرآن میں نہیں ہے لیکن اس آیت (وَكَبِّرْهُ تَكْبِیراً) 17۔ الاسراء: 111) میں بالمعنی یقیناً موجود ہے۔
اس موقع پر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ یہ چاروں کلمے اگرچہ افضل ہیں لیکن احادیث سے جو ذکر کسی حال یا کسی وقت سے متعلق ثابت ہے اس حالت یا اس وقت میں اس ذکر میں مشغول ہونا تسبیح وغیرہ سے افضل ہے۔
دوسری روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ان چاروں کلموں کو پڑھتے وقت مذکورہ ترتیب ضروری نہیں ہے چاہے کوئی پہلے سبحان اللہ کہے اور چاہے کوئی پہلے الحمد للہ کہے یا لاالہ الا اللہ یا اللہ اکبر کہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم طیبی نے کہا ہے کہ چاروں کلمات کو مذکورہ ترتیب کے ساتھ پڑھنا عزیمت یعنی اولیٰ ہے اور بغیر ترتیب کے پڑھنا رخصت یعنی جائز ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہنا بلا شبہ میرے نزدیک اس چیز سے جس پر آفتاب طلوع ہوتا ہے (یعنی دنیا اور دنیا کی چیزوں سے زیادہ پسندیدہ ہے) (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا تو اس کے گناہ ختم کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ دریا کے جھاگ کی مانند یعنی کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
طیبی فرماتے ہیں کہ سو مرتبہ چاہے تو کئی مرتبہ کر کے پڑھا جائے دن کے ابتدائی یا آخری حصہ میں ایک ہی دفعہ میں پڑھ لیا جائے دونوں طرح درست ہے لیکن افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں ایک ہی دفعہ پڑھ لیا جائے افضل ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس نے صبح کے وقت اور شام کے وقت سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس عمل سے بہتر کوئی عمل نہیں لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند یا اس سے زیادہ کہا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے حدیث کی ظاہری عبارت سے یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے پہلے شخص کی مانند کیا یعنی اس نے پہلے شخص کی طرح صبح و شام کے وقت سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو وہ قیامت کے دن اس عمل سے افضل لائے گا جو یہ پہلا لائے گا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ دوسرے شخص نے اگر پہلے شخص کی طرح سبحان اللہ وبحمدہ صبح وشام سو سو مرتبہ کہا تو وہ قیامت کے دن پہلے ہی شخص کی طرح عمل لے کر حاضر ہو گا نہ کہ اس سے افضل عمل لائے گا۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی عبارت حقیقت و معنی کے اعتبار سے یوں ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص اس عمل کے برابر کوئی عمل نہیں لائے گا جو یہ شخص لائے گا اور نہ اس کے عمل سے افضل کوئی عمل لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند (سبحان اللہ وبحمدہ صبح و شام کے وقت سو سو مرتبہ سے زیادہ کہا) تو وہ اس پہلے شخص کے عمل سے افضل عمل لائے گا۔ یا پھر کہا جائے گا کہ کہ مثل ما قال اوزاد علیہ میں حرف او معنی کے اعتبار سے حرف واؤ کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان میں کہنے سے تو ہلکے ہیں لیکن ترازو میں بہت بھاری ہیں (یعنی ان کا ثواب میزان عمل میں بھاری ہو گا اور بخشنے والے خدا کے نزدیک بہت پیارے ہیں اور وہ دو کلمے یہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ یعنی اللہ پاک ہے اور اپنی حمد کے ساتھ موصوف ہے پاک ہے جو اللہ بڑا ہے۔ (بخاری و مسلم)
٭٭ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں حاصل کرے ؟ مجلس میں موجود صحابہ میں سے ایک صحابی نے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی شخص (روزانہ بسہولت) ایک ہزار نیکیاں کس طرح حاصل کر سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ ایک سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی بایں حساب کہ ہر نیکی پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کے ایک ہزار صغیرہ اگر اللہ چاہے گا تو کبیر گناہ دور کئے جائیں گے۔ (مسلم) ابوبکر برقانی کہتے ہیں کہ صحیح مسلم میں موسیٰ جہنی سے جو روایتیں منقول ہیں ان سب میں لفظ او یحط ہی نقل کیا گیا ہے لیکن شعبہ، ابوعوانہ، اور یحیی بن سعید قطان نے موسیٰ جہنی ہی سے یہ روایت نقل کی ہے اس میں لفظ ویحط بغیر الف کے ذکر کیا ہے اور کتاب حمیدی یعنی جمع بین الصحیحین میں بھی اسی طرح منقول ہے۔
تشریح
او یحط کے پیش نظر تو حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہوتی ہے یا تو ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ایک ہزار گناہ دور کئے جاتے ہیں جبکہ ویحط کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ایک ہزار نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں اور ایک ہزار گناہ بھی دور کئے جاتے ہیں۔ ترمذی، نسائی اور ابن حبان کی روایتیں بھی اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں کیونکہ ان میں لفظ ویحط ہی ہے لہٰذا بظاہر تو دونوں روایتوں میں منافات معلوم ہوتی لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ کبھی بھی واؤ معنی کے اعتبار سے او کی جگہ پر استعمال ہوتا ہے تو کوئی منافات نظر نہیں آئے گی اور دونوں روایتوں کا ایک مفہوم نکلے گا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے یہ تسبیح پڑھی اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اگر اس کے ذمہ گناہ نہ ہوں گے یا اس کے ایک ہزار گناہ دور کر دئیے جائیں گے اگر اس کے ذمے گناہ ہوں گے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ کون سا کلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ کلام جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے چن لیا ہے (اور وہ یہ ہے) سبحان اللہ وبحمدہ۔ (مسلم)
تشریح
چن لیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر میں سے اس کلمہ کو اپنے فرشتوں کے لئے چن لیا ہے اور اس کلمہ کی انتہائی فضیلت کی وجہ سے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے ہمیشہ پڑھتے رہا کریں۔
سبحان اللہ وبحمدہ چاروں کلموں یعنی سبحان اللہ والحمدللہ والا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا اختصار ہے کیونکہ تشریح میں شرک کی نفی بھی ہوتی ہے جو تہلیل کا حاصل ہے اور اس سے اللہ اکبر یعنی بہت بڑا ہونا بھی لازم آتا ہے۔
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا (جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ہیں) سے منقول ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کے وقت نماز فجر کے لئے ان کے پاس سے نکلے اور وہ اپنے مصلی پر بیٹھی ہوئی تھیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاشت کے وقت واپس تشریف لائے وہ اپنی جگہ یعنی مصلی پر بدستور بیٹھی ہوئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ جس حالت میں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا اسی طرح مسلسل بیٹھی ہوئی ہو؟ یعنی صبح کے وقت سے اب تک کہ چاشت کا وقت آ گیا ہے مصلی پر بیٹھی ہوئی اسی طرح ذکر الٰہی میں مشغول ہو) انہوں نے کہا کہ جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمے تین مرتبہ کہے ہیں وہ چار کلمے ایسے ہیں کہ اگر ان کو اس چیز سے تولا جائے جس کے کہنے میں تم ابتداء دن سے اب تک مشغول رہی ہو (یعنی ذکر میں تو یقیناً چار کلمے اس چیز پر بھاری رہیں گے (یعنی ان چار کلموں کا ثواب اس پورے وقت ذکر الٰہی میں تمہاری مشغولیت کے ثواب سے زیادہ ہو گا۔ اور وہ چار کلمے یہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ عدد خلقہ ورضا نفسہ وزنۃ عرشہ ومداد کلماتہ۔ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اور اس کی تعریف کرتا ہوں اس کی مخلوقات کی تعداد کے بقدر اور اس کی ذات کی مرضی کے موافق اور اس کے عرش کے وزن کے مطابق اور اس کے کلموں کی مقدار کے مانند ہے۔ (مسلم)
تشریح
اور اس کے کلموں کی مانند میں کلموں سے مراد یا تو ان کی کتابیں اور ان کے صحیفے ہیں یا اس کے اسماء ہیں اسی طرح کی صفات یا اس کے اوامر بھی مراد ہو سکتے ہیں۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ذکر میں کیفیت کا اعتبار ہوتا ہے کمیت کا نہیں ! یعنی وہ تسبیحات وغیرہ جن کے مضامین اعلیٰ اور بہت خوب ہوں اور جنہیں قلب کے حضور و اخلاص کے ساتھ پڑھا جائے اگرچہ کم ہوں مگر ان تسبیحات کے مضامین سے افضل ہیں جو ایسی نہ ہوں اور جنہیں پڑھتے وقت حضور قلب و اخلاص کی دولت میسر نہ ہو اگرچہ وہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں اسی پر قیاس کرتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ غور و فکر اور حضور اخلاص کے ساتھ قرآن کی تلاوت و قرأت گرچہ ایک ہی آیت ہو، اس قرأت و تلاوت سے افضل ہے جو ان چیزوں سے خالی ہو۔ چاہے وہ بہت ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص یہ کلمات لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئی قدیر اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اس کے لئے تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے دن میں سو مرتبہ کہے اس کو سو غلاموں کے آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اس کے سو گناہ دور کئے جاتے ہیں اور اس کو اس دن شام تک شیطان سے پناہ حاصل رہتی ہے اور (قیامت کے دن) کوئی اس کے لائے ہوئے (اس عمل سے بہتر کوئی عمل لے کر نہیں آئے گا علاوہ اس شخص کے جس نے ان کلمات کو اس سے زیادہ پڑھا ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ظاہری طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ان کلمات کو شام کے وقت پڑھے تو اسے بھی اسی طرح صبح تک شیطان سے پناہ حاصل رہے گی لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اس بات کو راوی نے اختصار کے پیش نظر بیان کرنے سے چھوڑ دیا ہو یا یہ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے اسے بیان نہ کیا ہو کیونکہ حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو کچھ فضیلت اور جو کچھ ثواب بیان کیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص ان کلمات کو سو مرتبہ پڑھے چنانچہ ان کلمات کو جتنا زیادہ پڑھے گا اسے اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو گا پھر یہ کہ چاہے کوئی ان کلمات کو مختلف اوقات میں اور متفرق طور پر سو مرتبہ پڑھے اور چاہے تو ایک وقت میں اور اکٹھا سو مرتبہ پڑھے۔ ہر دو صورت میں اسے مذکورہ ثواب حاصل ہو گا لیکن افضل یہی ہے کہ ان کلمات کو ایک ہی دفعہ میں سو مرتبہ اور دن کے ابتدائی حصہ میں پڑھا جائے تاکہ پورا دن شیطان سے پناہ حاصل رہے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے کہ لوگوں نے ایک موقع پر پکار پکار کر تکبیر کہنی شروع کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا لوگو! اپنی جانوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو (یعنی اتنی بلند آواز سے تکبیر نہ کہو) کیونکہ تم (تکبیر کے ذریعہ) کسی بہرے یا غیر موجود کو نہیں پکارتے یا نہیں یاد کرتے بلکہ اس کو پکارتے ہو جو سننے والا اور دیکھنے والا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے (یعنی وہ تمہارے حال پر مطلع ہے تم جہاں کہیں بھی ہو چاہے تم اسے بآواز بلند یاد کرو چاہے آہستہ آواز سے اس کے لئے دونوں برابر ہیں) اور جس کو کہ تم پکارتے ہو وہ تم میں سے ہر شخص کے، اس کی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے اونٹ پر پا پیادہ تھا اور اپنے دل میں یہ پڑھ رہا تھا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عبداللہ بن قیس(یہ حضرت ابو موسیٰ کا نام ہے) کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتلا دوں؟ میں نے عرض کیا۔ ہاں یا رسول اللہ!ضرور بتائیے ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
پکار پکار کر تکبیر کہنی شروع کی، کا مطلب یہ ہے کہ کسی بلند جگہ پر چڑھتے ہوئے جو تکبیر کہنی سنت ہے اسی کو صحابہ نے چلا کر کہنا شروع کر دیا تھا یا پھر تکبیر سے ذکر بھی مراد ہو سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس موقع پر صحابہ بلند ذکراللہ کرنے لگے تھے۔
حدیث کے آخر میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ کو خزانہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اسے پڑھنے والے کو بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور وہ اس کی برکتوں سے مالامال ہوتا ہے جس طرح دنیاوی خزانہ سے بلکہ اس نعمت کے آگے دنیا کے بڑے بڑے خزانہ کو بھی کوئی وقعت نہیں ہے۔
لا حول کے بارے میں مشائخ لکھتے ہیں کہ یہ ذکر اعمال میں جتنی زیادہ مدد کرتا ہے اور اس سے جتنی زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے اتنی مدد و برکت اور کسی ذکر سے حاصل نہیں ہوتی۔ اس کلمے کے معنی یہ ہیں گناہ سے بچنے کی طاقت اور اللہ کی عبادت کرنے کی قوت اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہا اس کے لئے جنت میں کھجور کا درخت لگا دیا جاتا ہے۔ (ترمذی)
تشریح
کھجور کے درخت کو اس لئے مخصوص کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ کھجور کے درخت سے بہت زیادہ منفعت حاصل ہوتی ہے بلکہ اس کا پھل بھی بہت اچھا اور عمدہ ہوتا ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی کوئی صبح نہیں ہوتی کہ جس میں ایک فرشتہ پکارنے والا پکار کر یہ نہ کہتا ہو کہ پاک بادشاہ کو اس کی پاکی کے ساتھ یاد کرو۔ (ترمذی)
تشریح
یعنی روزانہ صبح کے وقت ایک ایک فرشتہ پکار پکار کر انسانوں کو تاکید کرتا ہے کہ وہ یہ کہیں سبحان الملک القدوس یا اس طرح کہیں سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح یا اس کے معنی یہ ہیں کہ روزانہ صبح کے وقت ایک فرشتہ لوگوں کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ اس بات کا یقین و اعتقاد رکھیں کہ ان کا رب تمام عیوب اور تمام نقائص سے پاک ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے بہتر ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور سب سے بہتر دعا الحمدللہ ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
لا الہ الا اللہ سب سے افضل اس لیے ہے کہ اسلام و ایمان کے سارے وجود کی بنیاد ہی اس پر ہے اس کے بغیر نہ ایمان صحیح ہوتا ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی مسلمان بنتا ہے۔
بعض محققین فرماتے ہیں کہ تمام اذکار میں یہ کلمہ سب سے افضل اس وجہ سے ہے کہ ذاکر کے باطن کو برے اوصاف سے کہ جو انسان کے باطن کے معبود ہوتے ہیں۔ پاک اور صاف کرنے میں اس کلمہ کو بڑی عجیب و عظیم تاثیر حاصل ہے ارشاد ربانی ہے آیت (افرأت من اتخذ الھہ ہواہ) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفسانی کو اپنا معبود قرار دیا ہے۔
لہٰذا جب ذکر لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو لا الہ کے ذریعے تو تمام معبودوں کی نفی ہوتی ہے اور لا الہ کے ذریعہ صرف ایک معبود حقیقی یعنی اللہ کا اقرار ہوتا ہے اور پھر جب زبان سے یہ کلمہ ادا ہوتا ہے تو اس کی تاثیر ظاہری زبان سے دل کی گہرائیوں کی رجوع کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زبان سے تمام باطل معبودوں کی نفی اور ایک حقیقی معبود کا اقرار یقین و اعتقاد کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جو اس کے قلب و باطن کو روشن و منور کر کے تمام برے و باطنی اوصاف کو صاف کر دیتا ہے اور آخرکار یہی تاثیر اس کے ظاہری اعضاء پر غالب آ جاتی ہے کہ اس کے ظاہری اعضاء سے وہی اعمال و افعال صادر ہوتے ہیں جو اس اقرار و اعتقاد کا عین تقاضہ عین منشاء ہوتے ہیں۔ الحمد للہ کو دعا اس لئے فرمایا گیا ہے کہ کریم کی تعریف دعا و سوال کے زمرہ میں ہی آتی ہے اور اس کو افضل اس وجہ سے بتایا گیا ہے کہ منعم حقیقی یعنی خدا کی حمد شکر کے معنیٰ میں ہے اور یہ ظاہر ہے کہ شکر نعمت و برکت میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: آیت (لئن شکرتم لازیدنکم)۔ اور اگر تم شکر کرو گے تو میں زیادہ نعمت دوں گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حمد (خدا کی تعریف) شکر کا سر ہے جس بندہ نے خدا کی حمد نہیں کی اس نے خدا کا کامل شکر ادا نہیں کیا۔
تشریح
حمد یعنی خدا کی تعریف زبان سے ہوتی ہے اور شکر زبان و دل اور اعضاء سے ہوتا ہے لہٰذا خدا کی تعریف خدا کے شکر کی ایک شاخ ہے۔ حمد کو شکر کا سر اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ زبان کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی تعریف زبان ہی سے خوب بیان ہوتی ہے اور پھر یہ کہ زبان چونکہ تمام اعضاء کی نائب ہے اس لئے حمد بھی گویا اجمالا شکر ہے اور مفصل شکر کا جزو اعظم ہے اسی واسطے فرمایا گیا ہے کہ جس بندہ نے خدا کی حمد نہیں کی اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا بھی اداء نہیں کیا اس بات میں اس طرف اشارہ بھی ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے باطن کی صفائی و تزکیہ کے ساتھ ساتھ اپنے ظاہری احوال کی محافظت بھی کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن جنت کی طرف جن لوگوں کو پہلے بلایا جائے گا ان میں وہ ہوں گے جو خوشی کے وقت بھی اور سختی کے وقت بھی اللہ کی تعریف کرتے ہیں یعنی دونوں صورتوں میں راضی برضا مولیٰ رہتے ہیں ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار! مجھے کوئی ایسی چیز سکھلا دے جس کے ذریعہ میں تجھے یاد کروں اور تجھ سے دعا مانگوں پروردگار نے فرمایا موسیٰ لا الہ الا اللہ کہو! موسیٰ نے عرض کیا میرے پروردگار! تیرے تمام بندے یعنی موحدین یہ کلمہ کہتے ہیں میں تو کوئی ایسی چیز چاہتا ہوں جسے تو میرے ہی لئے مخصوص کر دے۔ جس میں میرا اور کوئی شریک نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ اگر ساتوں آسمان اور میرے علاوہ ان کے سارے مکین یعنی تمام فرشتے اور ساتوں زمین ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور لا الہ الا اللہ یعنی اس کا ثواب دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقیناً ان چیزوں کے پلڑے سے لا الہ الا للہ کا پلڑا جھک جائے۔ (شرح السنہ)
تشریح
اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو ایسا کوئی ذکر یا ایسی کوئی دعا طلب کی تھی کہ جو ان ہی کے لئے مخصوص ہو اور وہ اس کے ذریعہ دوسروں پر فائق ہوں لہٰذا سوال کے ساتھ جواب کی یہ کیا مطابقت ہوئی کہ ان سے فرمایا گیا کہ لا الہ الا اللہ کہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سوال کچھ اور تھا اور بارگاہ الوہیت سے جواب کچھ اور دیا گیا۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں لا الہ الا للہ پڑھنے کی تعلیم دے کر گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ تم نے ایک محال چیز کی طلب کی ہے کیونکہ ایسی کوئی دعا اور ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جو اس کلمے سے افضل ہو اور اسے سب پڑھتے ہیں بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بحسب عادت بشری کوئی مخصوص دعا اور ذکر کی طلب کی کیونکہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ اسے اسی وقت بہت زیادہ خوشی اور سرو حاصل ہوتا ہے جب کہ اسے کسی چیز کے ساتھ مختص کیا جائے جو اس کے علاوہ اور کسی کے پاس نہ ہو۔ مثلاً اگر کسی کے پاس کوئی ایسا جوہر یا ہیرا ہو تو جو اس کے علاوہ اور کسی کے پاس نہ ہو تو اسے اس قیمتی چیز کی موجودگی سے زیادہ اس احساس سے خوشی ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسی چیز کا مالک ہے جو اس کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں پائی جاتی۔ یہی حال اسماء، دعاؤں، نادر علوم اور ہنر کا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز جب کسی کے پاس ہوتی ہے اور وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوتی۔ تو اسے بے انتہا خوشی اور فرحت حاصل ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت عام کے تحت اس کی قدرت کا نظام کچھ اس طرح ہے کہ جو چیز کائنات انسانی کے لئے سب سے گراں مایہ سب سے بیش بہا اور سب سے عزیز ہے وہی سب سے زیادہ پائی جاتی ہے، مثلاً زندگی، پانی اور نمک کی یہ چیزیں سب سے گراں مایہ اور عزیز نہیں ہیں۔ مگر یہی چیزیں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ بخلاف موتی، یاقوت اور زعفران وغیرہ کے کہ یہ ان چیزوں کے برابر گراں مایہ اور عزیز نہیں ہیں مگر کم ہیں اس طرح مصحف شریف یعنی قرآن کریم سب کتابوں سے افضل ہے مگر نہ صرف یہ کہ بہت پایا جاتا ہے بلکہ سستا بھی بہت ملتا ہے اس کے مقابلہ میں علم کیمیا وغیرہ کی کیا حقیقت ہے مگر اس کا وجود کتنا خال خال نظر آتا ہے یہ اور بات ہے کہ جاہل و بے وقوف لوگوں کی نظروں میں اس کے حصول کی جتنی خواہش اور اس سے جتنی زیادہ خوشی ہوتی ہے اس کا عشر عشیر بھی قرآن و حدیث کے علم سے خوش نہیں ہوتے یا ایسے ہی کلمہ طیب اور کلمہ شہادت کے یہ تمام کلمات میں اشرف، تمام عبادتوں میں نفیس تر، تمام اذکار میں افضل اور تمام حسنات میں کامل تر ہیں مگر اپنے وجود کے اعتبار سے اکثر اور حصول کے اعتبار سے آسان ترین ہیں پھر بھی عوام نے ان کو ترک کر رکھا ہے اور دور دراز کے ان اذکار اور ان دعاؤں کو اپنا معمول بنا رکھا ہے جن میں سے قرآن و حدیث میں اکثر کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔
بہر کیف ان مثالوں کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اکثر چیزیں اپنی حقیقت کے اعتبار سے تو بہت اعلیٰ ہوتی ہیں مگر بسبب کثرت کے لوگ ان کی قدر نہیں پہچانتے اور جو چیزیں اس درجہ کی عزیز نہیں ہوتیں لوگ انہیں کو ان کی کمیابی کی وجہ سے عزیز رکھتے ہیں۔
آخر میں یہ بات سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو الہام کیا کہ وہ اس بات کی درخواست کریں اور رب العزت انہیں یہ جواب دے تاکہ اس عظیم تر کلمہ کی عظمت و فضیلت عوام و خواص کی نظروں میں ظاہر ہو اور وہ اس کو ہر وقت اور ہر حالت میں اپنا ورد بنا لیں اور اس پر مداومت کریں۔
٭٭ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص یہ کہتا ہے لا الہ واللہ اکبر (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے) تو اس کا رب اس کو سچا کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اسے اس اقرار و اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان اقوال کو قبول فرماتا ہے) اور اس کے کہنے کے موافق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا الہ الا انا و انا اکبر بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میں بہت بڑا ہوں جب وہ شخص یہ کہتا ہے لا الہ الا للہ وحدہ لا شریک لہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ تو اللہ فرماتا ہے لا الہ الا انا لی الملک ولی الحمد۔ بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں میرے ہی لئے بادشاہت اور میرے ہی لئے تعریف اور جب وہ شخص یہ کہتا ہے کہ لا الہ الا اللہ ولا حول ولاقوۃ الا باللہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گناہوں سے بچنا اور طاعت کی قوت پانا اللہ ہی کی مدد سے ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا الہ الا انا ولاقوۃ الا بی بے شک میرے سوا کوئی معبود نہیں، گناہوں سے بچنا اور طاعت کی قوت پانا میری ہی مدد سے ہے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص ان (مذکورہ بالا) کلمات کو اللہ تعالیٰ کے جواب کے علاوہ اپنی بیماری میں کہتا رہے اور پھر مر جائے تو اسے (دوزخ کی) آگ نہیں جلائے گی یعنی وہ دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ (ترمذی، و ابن ماجہ)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک خاتون کے ہاں گئے اس وقت اس خاتون کے سامنے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں پڑی ہوئی تھیں اور وہ ان پر تسبیح پڑھ رہی تھی ٠یعنی ان کے ذریعہ تسبیح کو شمار کرتی تھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی تسبیح نہ بتا دوں جو (نہ صرف یہ کہ) اس تسبیح (یعنی ان بہت ساری گٹھلیوں یا کنکریوں پر تسبیح پڑھنے کے مقابلہ میں) تمہارے لئے بہت آسان بھی ہے بلکہ وہ تسبیح بہت بہتر ہے اور وہ تسبیح یہ ہے جسے تم پڑھ لیا کرو سبحان اللہ عدد ما خلق فی السماء وسبحان اللہ عدد ماخلق فی الارض وسبحان اللہ عدد مابین ذالک وسبحان اللہ عدد ماہو خالق۔ اللہ کے لئے پاکی ہے اس مخلوق کی بقدر جو زمین و آسمان کے درمیان ہے اور اللہ تعالیٰ کے لئے پاکی ہے اس مخلوق کی تعداد کے بقدر جو اس کے بعد ازل سے ابد تک پیدا کی جانے والی ہے۔ اور اللہ اکبر بھی اسی طرح پڑھے اور الحمدللہ بھی اسی طرح پڑھے اور لا الہ الا اللہ بھی اسی طرح پڑھے اور لا حول ولاقوۃ الا باللہ بھی پڑھے ترمذی، ابوداؤد، ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
بعض روایتوں میں آتا ہے وہ خاتون جن کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے یا تو ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا تھیں یا کوئی اور زوجہ مطہرہ۔ کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں۔ یہ جملہ راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے راوی کو یقین کے ساتھ یاد نہیں آ رہا کہ وہ خاتون جس چیز پر تسبیح پڑھ رہی تھیں کھجور کی گٹھلیاں تھیں یا کنکریاں اسی لئے انہوں نے دونوں کو ذکر کر دیا۔
وہ تسبیح جو آج کل رائج ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں نہیں تھی بلکہ بعض لوگ تو گٹھلیوں یا سنگریزوں پر پڑھتے تھے اور بعض ڈورے میں گرہیں دیتے جاتے تھے اور اس کے ذریعہ شمار کرتے تھے لیکن یہ حدیث جس طرح گٹھلیوں اور سنگریزوں کے اوپر پڑھنے کے جواز کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان خاتون کو اس سے منع نہیں کیا اسی طرح مروجہ تسبیح کے جائز ہونے کی بھی صحیح اصل و بنیاد اور دلیل ہے کیونکہ شمار کے سلسلہ میں پروئے ہوئے دانوں میں اور بغیر پروئے ہوئے میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح بغیر پروئے ہوئے یعنی گٹھلیوں یا سنگریزوں سے پڑھی جانے والی چیز کا شمار مقصود ہوتا تھا اسی طرح پروئے ہوئے دانوں کی تسبیح کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے اس لئے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہے کہ تسبیح کی وہ شکل جو آج کل رائج ہے بدعت ہے تو اس پر اعتماد نہ کیا جائے چنانچہ مشائخ نہ صرف یہ کہ اس کو جائز کہتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے ہیں یہ شیطان کے لئے کوڑا ہے۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اس وقت جب کہ وہ تمام مدارج طے کر کے حالت منتہی کو پہنچ چکے تھے ان کے ہاتھوں میں تسبیح دیکھ کر کسی شخص نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جس کے ذریعہ ہم اللہ تک پہنچے ہیں اس لیے میں اسے کس طرح چھوڑ سکتا ہوں!
و اللہ اکبر مثل ذالک (اور اللہ اکبر بھی اسی طرح ہے) اس جملہ کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ راوی کے الفاظ ہیں کہ نبی کریم نے جس طرح تسبیح یعنی سبحان اللہ عدد ماخلق الخ پوری طرح بیان کی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کو پوری طرح بیان کیا یعنی اس طرح بیان فرمایا۔ اللہ اکبر عدد ماخلق الخ مگر راوی نے یہ اختصار کے پیش نظر اللہ اکبر مثلاً ذالک کہہ کر بتا دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعد کے کلمات کی تعلیم بھی اسی طرح فرمائی۔ یا پھر یہ کہ راوی کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی اختصار کے پیش نظر عدد ماخلق فی السماء کہنے کی بجائے مثل ذالک پر اکتفا فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بتایا کہ جن الفاظ یعنی عدد ماخلق الخ کے ساتھ تسبیح پڑھی جائے انہیں الفاظ کے ساتھ تکبیر بھی پڑھی جائے۔ اس طرح بعد کے جملوں یعنی والحمدللہ مثل ذالک وغیرہ میں بھی یہی دونوں احتمال ہیں۔
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے جد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں سبحان اللہ کہے تو وہ از روئے ثواب اس شخص کی مانند ہے جس نے سو نفل حج کئے ہوں جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں الحمدللہ کہے تو اس شخص کی مانند ہے جس نے سو آدمیوں کو خدا کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرایا ہو جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں اللہ اکبر کہے تو اس دن یعنی قیامت کے دن کوئی شخص اس ثواب سے زائد ثواب لے کر نہیں آئے گا جو وہ لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند یعنی اللہ اکبر مذکورہ تعداد میں کہا ہو گا تو یہ شخص درجہ ثواب کے اعتبار سے اس کے برابر ہو گا یا وہ شخص جس نے اس سے زائد کہا ہو گا (تو یہ اس سے بھی افضل ہو گا) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
اس شخص کی مانند ہے جس نے سو حج کئے ہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسان و سہل ذکر بشرطیکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کی کیفیت حاصل ہو ان عبادت شاقہ سے افضل ہے جس میں قلب حضور و اخلاص سے محروم اور غفلت میں گرفتار ہو! لیکن یہ بھی امکان ہے کہ جس طرح کسی کمتر درجہ کے عمل کی مانند قرار دیا جاتا ہے اسی طرح سبحان اللہ کی عظمت و فضیلت کو بطور مبالغہ بیان کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص صبح شام سو سو مرتبہ تسبیح پڑھتا ہے وہ نفل حج کرنے والے کی مانند ہوتا ہے۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تسبیح سبحان اللہ پڑھنے کی چونکہ بہت زیادہ فضیلت ہے اس لئے اس کا ثواب بڑھا کر نفل حج کے اصل ثواب کے برابر کر دیا جاتا ہے۔
خدا کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جہاد کے لئے سو گھوڑے دے ڈالے ہوں یا عاریۃ دئیے ہوں! اس بات سے گو ذکر اللہ میں مشغول رہنے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ کوئی شخص دنیا کی طرف التفات نہ کرے بلکہ وہ حضور مع اللہ کی سعادت عظمی کے حصول میں اپنی پوری کوششیں اور توجہات صرف کرے کیونکہ عبادت خواہ بدنیہ ہوں یا مالیہ یا دونوں کا مجموعہ، سب کا مقصد اور حاصل ذکر اللہ ہے اور پھر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مطلوب بہر صورت وسیلہ سے اولیٰ ہوتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے سو غلام آزاد کئے ہوں۔ اس میں درحقیقت ان ذاکرین کے لئے تسلی اور ترغیب ہے جو محتاج اور کم استطاعت ہونے کی وجہ سے ان عبادت مالیہ سے عاجز ہوں جنہیں اہل ثروت اور مالدار ادا کرتے ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مراد اہل عرب ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قرابتی ہونے کی وجہ سے افضل واعلیٰ ہیں حدیث کے آخری جز سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ اکبر ان تمام تسبیحات میں جو حدیث میں ذکر کی گئی ہیں سب سے افضل ہے حالانکہ بہت سی صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان تسبیحات میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے۔ پھر الحمدللہ پھر اللہ اکبر، پھر سبحان اللہ لہٰذا اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ اکبر ہر صبح و شام سو سو مرتبہ پڑھے گا قیامت کے دن لاالہ الا اللہ پڑھنے والے کے علاوہ کوئی شخص اس ثواب سے زیادہ ثواب لے نہیں آئے گا جو یہ شخص لائے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا آدھی میزان اعمال کو یعنی (میزان اعمال کے اس پلڑے کو جو نیکیوں کو تولنے کے لئے مخصوص ہو گا) بھر دیتا ہے الحمد للہ کہنا پوری میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور لا الہ الا اللہ کے لئے خدا تک پہنچنے میں کوئی پردہ حائل نہیں، یہ سیدھا خدا تک پہنچاتا ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔
تشریح
الحمد للہ کہنا پوری میزان عمل کو بھر دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ صرف الحمد للہ کا ثواب ہی پوری میزان کو بھر دیتا ہے اور یہ کہ الحمد للہ، سبحان اللہ سے افضل ہے! یا پھر مراد یہ ہے کہ الحمد للہ، سبحان اللہ کے برابر ہے کہ آدھی میزان کو تو سبحان اللہ کا ثواب بھر دیتا ہے اور آدھی میزان کو الحمد للہ کا ثواب بھر دیتا ہے اس طرح دونوں مل کر پوری میزان کو بھر دیتے ہیں۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ بارگاہ کبریائی میں بہت جلد قبول ہوتا ہے اور اس کو پڑھنے والا بہت ثواب پاتا ہے اس طرح حدیث کا یہ آخری جزء وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ سبحان اللہ اور الحمدللہ سے لا الہ الا اللہ افضل ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی بندہ خلوص قلب کے ساتھ یعنی بغیر ریا کے لا الہ الا للہ کہتا ہے تو اس کلمہ کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچتا ہے یعنی جلد قبول ہوتا ہے بشرطیکہ وہ کلمہ کہنے والا کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
کبیرہ گناہوں سے بچنا جلدی قبول ہونے کی شرط ہے اصل ثواب کی شرط نہیں یعنی یہ کلمہ بارگاہ حق جل مجدہ میں اس وقت جلدی قبول ہوتا ہے جب کہ یہ کلمہ کہنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے اور اصل ثواب اسے بہر صورت ملتا ہے خواہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچے یا نہ بچے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس رات مجھے معراج کی سعادت نصیب ہوئی ہے اس رات میں ساتوں آسمانوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوئی جو بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے انہوں نے مجھ سے کہا۔ محمد! اپنی امت کو میرا سلام کہئے گا اور انہیں بتا دیجئے گا کہ جنت کی مٹی پاکیزہ ہے اور وہ مٹی کی بجائے مشک و زعفران ہے اس کا پانی شیریں ہے اس کا میدان پٹ پڑ (یعنی ہموار اور درختوں سے خالی ہے) اور اس کے درخت ہیں سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت باعتبار اسناد کے غریب ہے۔
تشریح
اس امت مرحومہ کی شان محبوبی اور شان عظمت کے صدقے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطہ سے اسے سلام کہلایا اور اس طرح اس امت سے اپنے تعلق کا اظہار کیا اس لئے اس امت کے ایک ایک فرد کے لئے یہی لائق ہے کہ اس حدیث کے ذریعہ جب بھی حضرت ابراہیم کا سلام سنایا جائے یا پڑھا جائے تو یہ کہا جائے وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
وان غراسہا سبحان اللہ (اور اس کے درخت ہیں سبحان اللہ الخ) کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی امت کو آگاہ کر دیجئے گا کہ یہ کلمات اور انہیں کی طرح دوسرے کلمات ذکر پڑھنے سے آدمی جنت میں داخل ہوتا ہے اور چونکہ جنت میں بہت سے درخت لگائے جاتے ہیں بایں طور کہ ہر کلمے کے پڑھنے سے ایک درخت لگتا ہے اس لئے ان کلمات کو جو شخص جتنا زیادہ پڑھے گا اس کی طرف سے جنت میں اتنے ہی زیادہ درخت لگائے جائیں گے۔
یہ گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ان کلمات کو پڑھنے والا جنت کی پر سکون اور پر راحت فضا اور وہاں کے سرور آمیز اطمینان و چین کا حقدار ہو گا اور وہاں یہ کلمات درخت کی شکل میں لازوال سکون آمیز حیات کے ضامن ہوں گے۔
حضرت یسیرہ رضی اللہ عنہ جو مہاجرات میں سے ہیں فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم عورتوں سے فرمایا کہ (سبحان اللہ لا الہ الا اللہ، سبحان الملک القدوس) یا سبوح القدوس رب الملائکۃ کو پڑھنا اپنے لئے ضروری قرار دو اور ان مذکورہ تسبیحات کو، اپنی انگلیوں پر شمار کرو کیونکہ ان انگلیوں سے پوچھا جائے گا اور ان کو گویائی دی جائے گی اور یاد رکھو، ذکر سے غافل مت ہونا یعنی ذکر کو ترک نہ کرنا، ورنہ رحمت سے تمہیں بھلایا جائے گا یعنی اگر ذکر کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤ گی تو اس کے بے شمار ثواب سے محروم ہو گی۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
یہ تو سب جانتے ہیں کہ قیامت کے دن جسم انسانی کا ایک ایک عضو اپنے مالک کے اعمال کا گواہ اور شاہد بنے گا ارشاد ربانی ہے۔ آیت (یوم تشہد علیہم السنتہم وایدیہم وارجلہم بما کانوا یعملون)۔ یاد کرو اس دن کو جب کہ ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان چیزوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے ہیں۔
ارشاد گرامی ان انگلیوں سے پوچھا جائے گا میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انگلیوں سے پوچھے گا کہ بتاؤ تم نے دنیا میں کیا کیا ہے اور پھر جواب دینے کے لئے ان انگلیوں کو گویائی عطا فرمائے گا۔ چنانچہ وہ انگلیاں اپنے مالک کے ان اچھے برے اعمال کی گواہی دیں گے۔ جو ان انگلیاں کے ذریعہ سرزد ہوئے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ تسبیحات کو اپنی انگلیوں پر شمار کرو تاکہ وہ کل قیامت کے دن تمہارے اس نیک عمل کی گواہی دیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اوراد و اذکار اور تسبیحات کو انگلیوں پر شمار کرنا افضل ہے اگرچہ تسبیح پڑھنا بھی جائز ہے نیز اس میں اس بات کی ترغیب بھی ہے کہ بندہ کی عقل وشعور کا تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے اعضاء جسمانی کو انہیں کاموں میں مشغول رکھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا باعث ہوں اور اپنے ایک ایک عضو کو گناہ سے بچائے تاکہ قیامت کے دن کوئی بھی عضو گناہ کی گواہی دے کر عذاب خداوندی میں مبتلا نہ کرا دے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک دیہاتی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی ایسا ذکر بتا دیجئے جسے میں کہتا رہوں (یعنی اس کو اپنا ورد بنا لوں) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ پڑھ لیا کرو۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ رب العالمین لا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اللہ بہت بڑا ہے اور اللہ ہی کے لئے بہت تعریف ہے اور پاکی ہے اللہ کے لئے جو پالنہار ہے تمام عالم کا گناہ سے بچنے کی طاقت اور عبادت کرنے کی قوت اللہ ہی کی مدد سے جو غالب وحکمت والا ہے۔ اس دیہاتی نے عرض کیا یہ کلمات تو میرے پرووردگار کے ذکر کے لئے ہیں میرے لئے وہ کون سے کلمات ہیں جن کے ذریعہ میں اپنے لئے دعا مانگوں آپ نے فرمایا اس طرح مانگو۔ دعا (اللہم اغفرلی وارحمنی واھدنی وارزقنی وعافنی شک الراوی فی عافنی۔ اے میرے پروردگار مجھے بخش دے (تمام حرکات وسکنات میں طاعت ہی کی توفیق کے ذریعہ) مجھ پر رحم فرما (بہتر اعمال واحوال کی طرف) میری ہدایت کر مال حلال سے مجھے روزی دے اور مجھے عافیت بخش! راوی کو لفظ عافنی کے بارے میں شک ہے کہ آیا روایت میں یہ لفظ بھی ہے یا نہیں۔ (مسلم)
تشریح
بزاز کی روایت میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم میں لفظ العزیز الحکیم کی بجائے العلی العظیم ہے اور عام طور پر لوگ العلی العظیم ہی پڑھتے بھی ہیں اگرچہ مسلم میں العزیز الحکیم منقول نہیں ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم خشک پتوں والے ایک درخت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا عصا مبارک اس کی ٹہنیوں پر مارا جس کی وجہ سے پتے جھڑنے لگے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ الحمدللہ وسبحان اللہ لالہ الا اللہ اور و او اللہ اکبر پڑھنا بندوں کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑتا ہے جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث غریب ہے۔
حضرت مکحول رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے! حضرت مکحول رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ ولا منجأ من اللہ الا الیہ یعنی ضرر ونقصان کو (دفع کرنے کی) قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی قدرت کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی ورضا ورحمت کی توجہ) پر منحصر ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کر دیتا جس میں ادنی قسم (فقر ومحتاجگی ہے) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت مکحول رضی اللہ عنہ کی سماعت ثابت نہیں ہے۔
تشریح
ارشاد گرامی جنت کا خزانہ کا مطلب یہ ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ جنت کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کہ اس کو پڑھنے والا اس دن (یعنی قیامت کے دن) نفع و فائدہ حاصل کرے گا جس دن نہ دنیا کا کوئی خزانہ مال کا کام آئے گا اور نہ اولاد اور دوسرے عزیز و اقارب نفع پہنچائیں گے۔
فقر (محتاجگی) سے مراد دل کا فقر اور قلب کی تنگی ہے جس کے متعلق ایک حدیث یوں ہے فرمایا کہ کاد الفقر ان یکون کفرا۔ فقر کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے۔
لہٰذا جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے تو اس کی برکت سے دل کی محتاجگی دور ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرتا ہے اور پھر ان کلمات کے معنی و مفہوم کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین و اعتماد پیدا ہوا جاتا ہے کہ ہر امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت کے زیر اثر ہے کسی کو نفع و فائدہ آرام و راحت دنیا میں بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو تکلیف و مصیبت اور ضرر و نقصان میں مبتلا کر دینا بھی اسی کی طرف سے ہے پس وہ شخص بلاء و مصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت و راحت پر شکر کرتا ہے اپنے تمام امور اللہ ہی کی طرف سونپ دیتا ہے اور اس طرح قضا و قدر الٰہی پر راضی ہو کر حق تعالیٰ کا محبوب بندہ اور دوست بن جاتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی ایک سیاحت کے دوران جن صاحب کی رفاقت و صحبت مجھے حاصل رہی انہوں نے مجھے نیکی و بھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب اچھی طرح جان لو! اعمال نیک کے لئے اقوال و کلمات میں تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ کے برابر کوئی قول و کلمہ اور افعال میں خدا کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ کو اختیار کرنے کے برابر کوئی فعل ممد و معاون نہیں۔
آیت (ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم) جس شخص نے خدا کی راہ دکھائی ہوئی کو اختیار کیا تو بلاشبہ اسے مضبوط راہ کی ہدایت بخشی ہو گی۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ اس حدیث کی سند متصل نہیں اور اس طرح یہ حدیث منقطع ہے لیکن اس حدیث کو حضرت موسیٰ کی یہ روایت صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں بطریق مرفوع منقول ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانہا کنز من کنوز الجنۃ۔ اسی طرح حدیث کی توثیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت مرفوع سے بھی ہوتی ہے جسے نسائی اور بزاز نے نقل کیا ہے لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور اس میں لا منجا من اللہ الا الیہ کنز من کنوز الجنۃ بھی ہے لہٰذا حضرت مکحول رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے مگر مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ ننانوے (دنیاوی اور اخروی) بیماریوں کی دوا ہے جس میں سے ادنیٰ بیماری (دنیاوی و اخروی) غم ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو عرش کے نیچے سے بہشت کے خزانے سے اترا ہے اور وہ یہ ہے لا حول ولاقوۃ الا باللہ جب کوئی بندہ یہ کلمہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ تابعدار اور بہت فرمانبردار ہوا۔ یہ دونوں حدیثیں بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کی ہیں۔
٭٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا سبحان اللہ مخلوقات کی عبادت ہے الحمد للہ شکر کا کلمہ ہے لا الہ الا اللہ اخلاص کا کلمہ ہے (یعنی کلمہ توحید ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کے لئے آگ سے نجات کا سبب ہے) اور اللہ اکبر کا ثواب آسمان و زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے۔ اور جب کوئی بندہ حضور قلب کے ساتھ لاحول و لاقوۃ الا باللہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بندہ فرمانبردار ہوا اور بہت فرمانبردار ہوا۔
تشریح
سبحان اللہ مخلوقات کی عبادت ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (وان من شیء الا یسبح بحمدہ) اور مخلوقات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ بیان نہ کرتی ہو کے مطابق چونکہ تمام ہی مخلوقات اللہ رب العزت کی پاکی بیان کرتی ہے اس لئے یہ ان کی عبادت ہے۔