مشکوٰة شر یف

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

تقدیر پر ایمان لانا فرض اور لازم ہے یعنی وجود ایمان کے لیے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ بندوں کے تمام اعمال خواہ وہ نیک ہوں یا بد، ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیئے گئے ہیں، بندہ سے جو عمل بھی سر زد ہوتا ہے وہ اللہ کے علم و اندازہ کے مطابق ہوتا ہے ، لیکن اللہ نے انسان کو عقل و دانش کی دولت سے نواز کر اس کے سامنے نیکی اور بدی دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ان پر چلنے کا اختیار دے دیا اور بتا دیا کہ اگر نیکی کے (راستہ کو) اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث ہو گا جس پر جزاء و انعام سے نوازے جاؤ گے اور اگر بدی کے راستہ کو اختیار کرو گے تو یہ اللہ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا باعث ہو گا جس کی وجہ سے سزا اور عذاب کے مستحق گردانے جاؤ گے۔ اب اس واضح اور صاف ہدایت کے بعد جو آدمی نیکی و بھلائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ از راہ فضل و کرم اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا اور اس پر اللہ کی جانب سے فلاح و سعادت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اگر کوئی عقل کا اندھا اپنے کسب و اختیار سے برائی کے راستہ کو اختیار کرتا ہے تو وہ از راہ عدل سزا کا مستوجب ہو گا اور اسے عذاب و تباہی کے غار دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تقدیر کا مسئلہ عقل و فکر کی رسائی سے باہر ہے کیونکہ یہ اللہ کا ایسا ایک راز ہے جس کا انسانی عقل میں آنا تو درکنار اسے نہ تو کسی مقرب فرشتہ پر ظاہر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا بھید کسی پیغمبر اور رسول کو معلوم ہے۔ اس لیے اس مسئلہ میں زیادہ غور و فکر کرنا اور اس میدان میں عقل کے گھوڑے دوڑانا جائز نہیں ہے بلکہ تحقیق و جستجو کے تمام راستوں سے ہٹ کر صرف یہ اعتقاد رکھنا ہی فلاح و سعادت کا ضامن ہے کہ اللہ نے یہ مخلوق پیدا کر کے ان کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے ، ایک گروہ وہ ہے جو اچھے اعمال اور نیک کام کرنے کی بنا پر اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کا مستحق ہو گا جو محض اس کا فضل و کرم ہو گا۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو برے اعمال کرنے کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا جو عین عدل ہو گا۔ منقول ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے قضا و قدر کے بارہ میں سوال کیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا  یہ ایک بڑا راستہ ہے اس پر نہ چلو اس آدمی نے  پھر یہی سوال کیا   انہوں نے فرمایا  یہ ایک گہرا دریا ہے ، اس میں نہ اترو وہ آدمی نہ مانا اور اس نے پھر سوال کیا۔ آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ اللہ کا ایک راز ہے جو تم سے پوشیدہ ہے اس لیے اس کی تفتیش و تحقیق میں مت پڑو۔ لہٰذا اخروی سعادت اسی میں ہے کہ اس مسئلہ کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے اور جن اعتقادات کو ماننے کے لیے کہا ہے اس پر عمل پیرا ہو جائے ، ورنہ اپنی عقل کے تیر چلانا درحقیقت گمراہی کا راستہ اختیار کرنا اور تباہی و بربادی کی راہ پر لگنا ہے۔

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا ہے۔ اور  فرمایا  (اس وقت) اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 ظاہر ہے کہ اللہ کی ذات اجسام ظاہری اور مادیات کی ثقاوت سے پاک ہے اس لیے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے تقدیریں لکھ دی تھیں، بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ خدا نے تمام مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کی تقدیریں قلم کو جاری ہونے کا حکم دے کر اس کے ذریعہ لوح محفوظ میں ثبت کر دی تھیں، یا یہ کہ فرشتوں کو حکم دے کر ان سے تقدیریں لکھوا دی تھیں۔

منقول ہے کہ زمین و آسمان اور تمام مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے پانی ہی پانی تھا اور کہا جاتا ہے کہ پانی کا استقرار ہوا پر تھا اور ہوا اللہ کی قدرت پر قائم تھی۔ اس لیے فرمایا گیا کہ اس عالم میں ازل سے لے کر ابد تک ہونے والے تمام واقعات و اعمال اسی وقت اللہ کے علم میں تھے۔ جب کہ یہ زمین و آسمان بھی پیدا نہیں ہوئے تھے اور اس کا عرش پانی پر تھا جس کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں تھی۔

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز تقدیر سے ہوتی ہے ، یہاں تک کہ دانائی اور نادانی۔ (صحیح مسلم)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا (عالم رواح میں) آدم و موسیٰ علیہما السلام نے اپنے پروردگار کے سامنے مناظرہ کیا اور حضرت آدم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ وہی آدم ہیں جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا آپ میں اپنی روح پھونکی تھی، فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا تھا، اور اپنی جنت میں آپ کو رکھا تھا اور پھر آپ نے اپنی خطاء سے لوگوں کو زمین پر اتروا دیا تھا (یعنی اگر آپ خطا نہ کرتے تو یہاں زمین پر نہ اتارے جاتے اور آپ کی اولاد اس دنیا میں نہ پھیلتی بلکہ جنت میں رہتی) آدم علیہ السلام نے کہا تم وہی موسیٰ ہو جن کو اللہ نے اپنے منصب رسالت سے نواز کر برگزیدہ کیا اور ہم کلامی کے شرف سے مشرف فرمایا تھا اور تم کو وہ تختیاں دی تھیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور پھر تم کو سر گوشی کے لیے تقرب کی عزت بخشی تھی ، اور کیا تم جانتے ہو اللہ نے میری پیدائش سے کتنے عرصہ پہلے تورات کو لکھ دیا تھا؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا  چالیس سال پہلے ! آدم علیہ السلام نے پوچھا  کیا تم نے تورات میں یہ لکھے ہوئے الفاظ نہیں پائے (آیت وعصی آدم ربہ فغوی) (یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہاں ہاں۔ آدم علیہ السلام نے کہا پھر تم مجھ کو میرے اس عمل پر کیوں ملامت کرتے ہو جس کو اللہ نے میری پیدائش سے چالیس سال پہلے میرے لیے لکھ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  اس دلیل سے) آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غائب آ گئے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جو دلیل پیش کی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے چونکہ میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے یہ لکھ دیا تھا کہ میں شیطان کے گمراہ کرنے کی وجہ سے بہک جاؤں گا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے شجر ممنوع کا استعمال کر لوں گا۔ لہٰذا اس میں میرے کسب و اختیار کو کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ گمراہی میرے مقدر میں لکھی گئی تھی اس لیے اس کا مجھ سے صادر ہونا لازم و ضروری تھا لہٰذا میں مورد الزام نہیں ٹھہر سکتا۔

علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس گمراہی کو میری پیدائش سے بھی پہلے میرے لیے لوح محفوظ میں مقدر فرما دیا تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ضرور بروقت وقوع پذیر ہو گی، لہٰذا جب وقت مقدر آ پہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ امر مقدر اور اللہ تعالیٰ کے علم کے خلاف دہ عمل ممنوع سر زد نہ ہوتا چنانچہ تم مجھ پر یہ الزام تو ڈال رہے ہو اور تمہیں سبب ظاہری یعنی میرا کسب و اختیار تو یاد رہا لیکن اصل چیز یعنی مقدر سے تم صرف نظر کر گئے۔

حضرت آدم و موسیٰ علیہما السلام کا مناظرہ اس عالم دنیا میں نہیں ہوا جہاں اسباب سے قطع نظر درست نہیں ہے بلکہ یہ مناظرہ عالم بالا میں ان دونوں کی روحوں کے درمیان ہوا تھا۔ اسی لیے یہاں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر کوئی عاصی و گناہ گار اس قسم کی دلیل کا سہارا لینے لگے تو وہ اس کے لیے کار آمد نہیں ہو گی، کیونکہ حضرت آدم کا معاملہ اس جہاں میں تھا جہاں وہ اسباب کے مکلف نہیں تھے اور پھر ان کی یہ خطاء بارگاہ الوہیت سے معاف بھی کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں تو کسب و اختیار اور ابواب کی بنا پر مواخذہ ہو گا کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر جو تختیاں اتری تھیں وہ زمرد کی تھیں اور ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ستر اونٹوں پر لادی جاتی تھیں، ان تختیوں میں ان کی قوم کے لیے اللہ کی جانب سے احکام و مسائل لکھے ہوئے تھے ، ان تختیوں میں جو مضامین مذکور تھے وہ قدیم ہیں لہٰذا چالیس سال کی تحدید ان مضامین کے بارہ میں نہیں ہو گی بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ مضامین جو ان تختیوں پر لکھے گئے تھے ، ان کے لکھنے کی مدت آدم کی پیدائش سے چالیس سال قبل ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ صادق و مصدوق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے فرمایا۔ تم میں سے ہر آدمی کی تخلیق اس طرح ہوتی ہے کہ (پہلے) اس کا نطفہ ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے ، پھر اتنے ہی دنوں یعنی چالیس دن کے بعد وہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے بعد وہ لوتھڑا ہو جاتا ہے ، پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ کو چار باتوں کے لکھنے کے لیے بھیجتا ہے ، چنانچہ وہ فرشتہ اس کے عمل اس کی موت (کا وقت) اس کے رزق (کی مقدار) اور اس کا بدبخت و نیک بخت ہونا اللہ کے حکم سے اس کی تقدیر میں لکھ دیتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم میں سے ایک آدمی جنت والوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا ہوا آگے آتا ہے۔ اور وہ دوزخیوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے ، اور تم میں ایک آدمی دوزخیوں کے سے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ہاتھ بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ایسا کم ہوتا ہے کہ لوگ بھلائی کے راستہ کو چھوڑ کر برائی کا راستہ اختیار کرتے ہوں لیکن اللہ کی رحمت کاملہ کے صدقے اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو لوگ بد بختی و برائی کے راستہ کو اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھلائی کی طرف آ جاتے ہیں اور نیکی کے راستہ کو اختیار کر لیتے ہیں۔

اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ابدی نجات و عذاب کا دار و مدار خاتمہ پر ہے ، اگر کسی کی پوری زندگی گناہ و معصیت یا کفر و شرک میں گزری لیکن اس نے آخر وقت میں صدق دل سے اپنی بداعمالیوں اور گمراہی پر نادم و شرمسار ہو کر نیک بختی و سعادت کے راستہ کو اختیار کر لیا تو وہ نجات پا جائے گا۔

اسی طرح اگر کوئی آدمی تمام عمر نیکی و بھلائی کرتا رہا اور اس کی تمام زندگی اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزری لیکن آخر وقت میں وہ شیطان کی گمراہی یا اپنے نفس کی شرارت سے گمراہ ہو گیا اور اس نے اپنی حیات کے آخری لمحوں کو برائی و بدبختی کی بھینٹ چڑھا دیا تو وہ اپنی زندگی بھر کی نیکیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

لہٰذا اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ بھلائی و بہتری اور اخروی نجات اسی میں ہے کہ بندہ ہمیشہ اطاعت الہٰی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی بجا آوری میں مصروف رہے ، اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی حدود شریعت سے تجاوز کرنے نہ پائے اور ہر آنے والے لمحہ کو یہ سوچ کر کہ شاید میری زندگی کا یہ آخری لمحہ ہو نیکی و بھلائی میں صرف کرتا رہے تاکہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے۔

اس موقع پر اتنی بات اور بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جو لوگ قضا و قدر کے مسئلوں کو دیکھ کر یہ نظریہ قائم کر بیٹھے ہیں کہ جب نجات و عذاب، نیک بختی و بدبختی اور جنت و دوزخ کا ملنا تقدیری چیز ہے تو عمل کی کیا ضرورت ہے؟ وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں چنانچہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جو اس مسئلہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پائے تھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس قسم کی بات کہی تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم عمل کئے جاؤ کیونکہ جس کے مقدر میں جو کچھ لکھا ہے اس پر اس کو اختیار بھی دیا گیا ہے۔

یعنی قضا و قدر پر بھروسہ کر کے تمہارا عمل میں توقف کرنا یا عمل سے انکار کرنا کوئی کار آمد نہیں ہو گا اس لیے کہ احکام شارع کی جانب سے وارد ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تم کو سوچنے سمجھنے کی قابلیت اور نیکی و بدی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت بھی دی گئی ہے ، نیز تمہارے اندر قصد و جہد کا مادہ بھی پیدا کیا گیا ہے تاکہ تم ان اسباب کے ذریعہ عمل کر سکو، لہٰذا اب اگر تم قضا و قدر کا سہارا لے کر اسباب سے قطع نظر کرو گے اور اعمال کو چھوڑ دو گے تو تباہی و بربادی کے غار میں جا گرو گے۔ ہاں یہ اللہ کی یقیناً کوئی مصلحت ہو گئی جس کی حقیقت و حکمت کو تو وہی جانتا ہے کہ ایک طرف تو اس نے قضا و قدر کے مسئلہ کو سامنے کر دیا دوسری طرف اعمال و افعال کے کرنے کا حکم دیا اور پھر اس مسئلہ میں تحقیق و تفتیش کرنے سے بھی منع فرما دیا، اور پھر قضا و قدر کے سہارے اعمال کی ضرورت سے انکار کر دیا جائے تو اس کا کیا جواب ہو گا کہ اللہ کی جانب سے شریعت کا اتارنا، احکام بھیجنا اور رسولوں کی بعثت جن کا مقصد احکام خداوندی پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہوتا تھا بلا وجہ ہوئی کیونکہ جب محض تقدیر پر بھروسہ ہو گا کہ جس کے مقدر میں جنت میں جانا لکھا ہو گا وہ جنت میں یقیناً جائے گا اور جس کے مقدر میں دوزخ لکھی ہو گی اور دوزخ میں یقیناً جائے گا تو ان رسولوں کی بعثت اور احکام و اعمال کی بجا آوری کی تاکید کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی ، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دیکھا جائے تو یہ خیال غلط ثابت ہو گا۔

بہر حال جس طرح اور بہت سے اسرار الہٰی ہیں کہ ان کی بندوں کو خبر نہیں ہے اسی طرح یہ بھی ایک راز ہے جو بندوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے ، اس لیے کسی کے ظاہری عمل کو دیکھ کر اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا بلکہ یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ (آیت یعذب من یشاء و یرحم من یشاء) (یعنی وہ جس کو چا ہے (بداعمالیوں کی بنا پر) عذاب میں مبتلا کر دے اور جس کو چا ہے اپنے فضل و کرم سے بخش دے)۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭ اور حضرت سہل بن سعد (سہل بن سعد بن مالک کا پہلا نام حزن تھا لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہل رکھا، کنیت ابو العباس اور بعض نے ابو یحیی بھی لکھی ہے مدینہ میں ٨٨ھ میں بعمر ٩٦ سال آپ کا انتقال ہوا۔) راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، بندہ دوزخیوں کے سے کام کرتا رہتا ہے لیکن وہ جنتی ہوتا ہے اور جنت والوں کے سے کام کرتا ہے لیکن وہ دوزخی ہوتا ہے کیونکہ (نجات و عذاب کا) دار و مدار خاتمہ کے عمل پر ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث نے پہلی حدیث کی توثیق کر دی ہے کہ اعمال سابق کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ان اعمال کا اعتبار ہو گا جس پر کا خاتمہ ہوا ہے اس لیے کسی کی نجات و عذاب کا دار و مدار اس کے خاتمہ پر ہو گا، خاتمہ بالخیر ہو گا تو اللہ کی نعمتوں اور اس کی جنت کی سعادت سے نوازا جائے گا اور اگر خدانخواستہ خاتمہ خیر پر نہیں ہوا تو پھر عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔

چنانچہ اس حدیث نے صراحۃً یہ بات واضح کر دی کہ بندہ کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت الہٰی میں مصروف رہے اور ہر وقت معاصی و گناہ سے بچتا رہے اس لیے کہ نا معلوم اس کا وقت آخر کب آ جائے ، اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو کہ اچانک موت کا زبردست پنجہ اس کا گلا دبوچ لے اور اسے توبہ کی بھی مہلت نہ ملے جس کے نتیجہ میں وہاں کے دائمی خسران و عذاب میں گرفتار ہو جائے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عائشہ (ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ، حضرت ابوبکر صدیق کی ذی شان صاحبزادی اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے چہیتی اور محبوب زوجہ مطہرہ ہیں جن کا لقب صدیقہ ہے۔ آپ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی۔ ٥٧ھ،٥٨ میں آپ کا انتقال ہوا ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔) فرماتی ہیں کہ ایک انصاری بچہ کے جنازہ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا گیا، میں نے کہا، یا رسول اللہ ! اس بچہ کو خوشخبری ہو، یہ تو جنت کی چڑیوں میں کی ایک چڑیا ہے ، جس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ برائی کی حد تک پہنچا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  عائشہ ! کیا اس کے سوا کچھ اور ہو گا؟ یعنی اس کے جنتی ہونے کا جزم و یقین نہ کرو کیونکہ اللہ نے جنت کے لیے مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے اور دوزخ کے لیے بھی مستحق لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے باپوں کی پشت میں تھے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 بظاہر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونا نیک و بد عمل پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ تقدیری معاملہ ہے اللہ نے ایک جماعت کے لیے ازل ہی سے جنت لکھ دی ہے اس لیے وہ جنت میں جائے گی خواہ وہ نیک اعمال کریں یا نہ کریں، اسی طرح ایک گروہ دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا ہے جو دوزخ میں یقیناً جائے گا خواہ اس کے اعمال بد ہوں یا نہ ہوں۔ لہٰذا یہ لڑگا اگر دوزخ کے لیے پیدا کیا گیا تھا تو وہ دوزخ میں یقیناً جائے گا اگرچہ اس سے اب تک اعمال بد صادر نہیں ہوئے ہیں۔

لیکن اس کے برخلاف اکثر آیات و احادیث اور علماء کے متفق علیہ اقوال ایسے ہیں جن سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان بچہ اگر کمسنی کی حالت میں انتقال کر جائے تو وہ یقیناً جنتی ہے بلکہ کفار و مشرکین کے کمسن بچوں کے بارہ میں بھی صحیح یہی مسئلہ ہے کہ وہ بھی جنت میں داخل کئے جائیں گے۔

لہٰذا اب اس حدیث کی توجیح یہی کی جائے گی کہ چونکہ حضرت عائشہ نے اس کے جنتی ہونے پر اس عزم و یقینی کے ساتھ حکم لگایا تھا کہ گویا انہیں غیب کا علم ہے اور اللہ کی مصلحت و مرضی کی راز دان ہیں، اس لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس جزم و یقین پر یہ تنبیہ فرمائی کہ تم اپنے اس وثوق کی بنیاد پر گویا غیب دانی کا اقرار کر رہی ہو، جو کسی بندہ کے لیے مناسب نہیں ہے یا زیادہ صحیح توجیہہ اس حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد اس وقت تک ہو گا جب تک بچوں کے جنتی ہونے کا حکم وحی کے ذریعہ معلوم نہیں ہوا تھا (اللہ علم)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت علی کرم وجہ (امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی، آپ کی سب سے لاڈلی صاحب زادی حضرت فاطمہ کے شوہر اور چوتھے خلیفہ راشد ہیں ان کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے آخر عشرہ رمضان ٣٠ھ میں آپ نے انتقال فرمایا اور شہادت کا درجہ پایا۔ اس وقت آپ کی عمر واقدی کی تحقیق کے مطابق ٦٣ برس کی تھی تین دن کم پانچ سال تک آپ خلیفہ رہے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے ہر آدمی کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور دوزخ میں لکھ دی ہے۔ (یعنی یہ معین ہو گیا کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون لوگ دوزخی ہیں) صحابہ نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر بیٹھیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم عمل کرو اس لیے کہ جو آدمی جس چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس پر اسے آسانی اور توفیق دی جاتی ہے لہٰذا جو آدمی نیک بختی کا اہل ہوتا ہے اللہ اس کو نیک بختی کے اعمال کی توفیق دیتا ہے اور جو آدمی بدبختی کا اہل ہوتا ہے اس کو بدبختی کے اعمال کا موقع دیا جاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (ترجمہ) جس نے اللہ کر راہ میں دیا، پرہیزگاری کی اور اچھی بات (دین و اسلام) کو سچ مانا، اس کے لیے ہم آسانی کی جگہ (جنت) آسان کر دیں گے لیکن جس نے بخل کیا اور (خواہشات نفسانی و دنیاوی چمک دمک میں پھنس کر) آخرت کی نعمتوں سے بے پروائی کی، نیز عمدہ بات (دین و اسلام) کو جھٹلایا تو اس کے لیے ہم مشکل جگہ (دوزخ کی راہ) آسان کر دیں گے۔ الخ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا منشاء یہ تھا کہ تم لوگ تقدیر پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑنے کو جو کہتے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جنت و دوزخ کا پہلے مقدر میں لکھا جانا اور ہر ایک کے بارہ میں معین ہو جانا کہ کون نیک بخت ہے اور کون بد بخت، اعمال کو ترک کرنے کا باعث نہیں ہے اس لیے کہ اللہ نے اپنی ربوبیت و الوہیت کے اظہار کے طور پر جو کچھ احکام دیئے ہیں اور جو فرائض بندوں پر عائد کئے ہیں اس پر عمل کرنا اور احکام کی پیروی کرنا بمقتضائے عبودیت بندوں پر لازم و ضروری ہے کیونکہ عمل ہی کو نیک بختی و بدبختی کا نشان قرار دیا گیا ہے کہ جو کوئی عمل کرے گا اس کو نیک بخت سمجھا جائے اور جو عمل نہیں کرے گا اس کو بدبخت سمجھا جائے گا اور پھر یہ بھی تقدیری معاملہ ہے کہ اللہ نے جس کے مقدر میں نیک بخت ہونا لکھ دیا ہے وہ یقیناً اعمال کو پورا کرے گا اور جس کے مقدر میں بد بخت ہونا لکھا گیا ہے وہ اعمال کو چھوڑ کر گمراہی میں جا پڑے گا۔

جہاں تک ثواب و عذاب کا معاملہ ہے وہ اللہ کی مرضی اور اس کی مصلحت پر موقوف ہے وہ جو بھی معاملہ کرے گا اس پر اسے اختیار ہو گا اس میں کسی کے جبر و اکراہ کو دخل نہیں ہو گا۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  اللہ نے انسان کی تقدیر میں جتنا حصہ زنا کا لکھ دیا ہے وہ ضرور اس سے عمل میں آئے گا، آنکھوں کا زنا تو نامحرم کی طرف دیکھنا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورتوں سے شہوت انگیز باتیں کرنا، اور نفس آرزو و خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس آرزو کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کی ایک روایت ہے کہ  آدمی کی تقدیر میں زنا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے اس کو وہ ضرور عمل میں لائے گا۔ آنکھوں کا زنا (نامحرم کی طرف) دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا (نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں سننا ہے اور زبان کا زنا نامحرم عورت سے شہوت انگیز) باتیں کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا (نامحرم عورت کو برے ارادہ سے) چھونا ہے اور پاؤں کا زنا (بدکاری کی طرف) جانا ہے اور دل خواہش و آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔

 

تشریح

 

 اصل زنا تو یہی ہے کہ کسی نا محرم عورت سے بدکاری میں مبتلا ہو، لیکن اصطلاح شریعت میں ان حرکات و اعمال کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے جو حقیقی زنا کے لیے اسباب کا درجہ رکھتے ہیں جو اس تک پہنچاتے ہیں، مثلاً کسی نامحرم عورت سے شہوت انگیز باتیں کرنا، یا بری نظر سے اس کی طرف دیکھنا، یا گندے خیال کے ساتھ اس کی باتیں سننا، یا برے ارادہ سے اس کا ہاتھ چھونا، یا اسی طرح گندے خیالات کے ساتھ کسی نامحرم عورت کے پاس جانا، یہ سب چیزیں چونکہ حقیقی زنا کی محرک بنتی ہیں جو آگے چل کر بدکاری میں مبتلا کرا دیتی ہیں اس لیے ان کو بھی مجازاً زنا کہا جاتا ہے ، تاکہ ان حرکات و اسباب کی نفرت و کراہت دلوں میں بیٹھ جائے اور لوگ ان سے بھی بچتے رہیں۔

بہر حال حدیث سے معلوم ہوا کہ جس آدمی کے مقدر میں زنا کا جنتا حصہ لکھ دیا جاتا ہے وہ اسے عمل میں لاتا ہے ، اب چا ہے تو اس کے مقدر میں محض مجازی زنا لکھا ہو یا حقیقی زنا، لیکن اللہ جن کو ان قبیح افعال سے محفوظ رکھتا ہے وہ ان سے باز رہتے ہیں اور وہ ان چیزوں سے بھی پرہیز کرتے رہتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی معصیت و گناہ کے خیال کا بھی شائبہ پایا جاتا ہو جو گناہ و معصیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہوں۔

 شرم گاہ کی تصدیق و تکذیب کا مطلب یہ ہے کہ جب نفس انسانی ہوا و ہوس کا غلام بن جاتا ہے اور وہ غلط و حرام فعل کی خواہش کرتا ہے تو اگر شرم گاہ اس کے اس غلط و نا جائز خواہش پر عمل کرتی ہے اور زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے تو یہی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، یا اگر کسی احساس و شعور اور ضمیر اللہ کے عذاب سے لرزاں اور اس کے خوف سے بھرا ہوا ہوتا ہے تو شرمگاہ نفس کی خواہش کی تکمیل سے انکار کر دیتی ہے اور وہ بدکاری میں مبتلا نہیں ہوتا یہ اس کی تکذیب ہوتی ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عمران بن حصین(آپ کا اسم گرامی عمران ابن حصین اور کنیت ابو نجید ہے آپ فتح خیبر کے سال اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے تھے بمقام بصرہ٥١ھ میں وفات پائی۔) راوی ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ مزینہ کے دو آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں یہ بتائیے کہ آج (دنیا میں) لوگ عمل کرتے ہیں اور اعمال کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کیا یہ وہی شے ہے جس کا حکم ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے یا یہ عمل ان احکام کے موافق ہیں جو آئندہ ہونے والے ہیں جن کو اس کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم لایا ہے اور جن پر دلیل قائم ہو چکی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں یہ وہی شے ہیں جس کا فیصلہ ہو چکا ہے اور نوشتہ تقدیر بن چکا ہے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ کی اس آیت سے ہوتی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوَاھَا (القران الحکیم،پارہ ۳۰۔رکوع ١٦)۔ قسم ہے (انسان کی) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا پھر اس کی بد کرداری اور پرہیزگاری (دونوں کا) القاء کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 سوال یہ تھا کہ یا رسول اللہ ہمیں یہ بتلا دیجئے کہ دنیا میں لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں خواہ وہ اعمال خیر ہوں یا عمال بد کیا یہ وہی ہیں جو ان کے لیے ازل ہی میں مقدر ہو چکے تھے اور اب وقت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں یا یہ وہ چیزیں ہیں جو ازل میں تو ان کے لیے نوشتہ تقدیر نہیں بنی تھیں بلکہ اب جب رسول آئے اور انہوں نے اللہ کی جانب سے دیئے گئے معجزات کے ذریعہ اپنی صداقت کا اعلان اور ان احکام و اعمال کے کرنے کا حکم دیا تو یہ اعمال وقوع پذیر ہونے لگے تو ایسی شکل میں کیا یہ کہا جائے گا کہ یہ اعمال بندوں کے مقدر میں پہلے سے نہیں لکھے ہوئے تھے بلکہ اپنے اختیار سے یہ اعمال کرتے ہیں چا ہے وہ اچھے اعمال ہوں یا برے اعمال؟

بارگاہ رسالت سے جواب دیا گیا کہ یہ اعمال وہی ہیں جو ازل ہی سے بندوں کے مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں اور اب اسی نوشتہ تقدیر کے مطابق اپنے اپنے وقت پر صادر ہوتے رہتے ہیں۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا،  یا رسول اللہ میں ایک جوان مرد ہوں اور میں اپنے نفس سے ڈرتا ہوں کہ بدکاری کی طرف مائل نہ ہو جائے اور میرے اندر اتنی استطاعت نہیں ہے کہ کسی عورت سے شادی کر لوں گویا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے اندر سے قوت مردمی ختم کر دینے کی اجازت مانگتے تھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا، میں نے دوبارہ یہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پھر خاموش رہے ، میں نے پھر عرض کیا اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ نہیں فرمایا میں نے پھر اسی طرح عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ابوہریرہ! جو کچھ ہونا ہے (اسے تمہارے مقدر میں لکھ کر) قلم خشک ہو چکا ہے لہٰذا تمہیں اختیار ہے کہ قوت مردمی ختم کرو یا نہ کرو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ تمہارے مقدر میں جو کچھ ہونا لکھا ہے وہ پورا ہو گا، اگر خدانخواستہ کسی بدکاری میں مبتلا ہونا تمہارے لیے نوشتہ تقدیر بن چکا ہے تو یہ قبیح فعل تم سے ضرور ہو گا، اور اگر قضا و قدر نے تمہاری پاکدامنی اور معصیت سے حفاظت لی ہے تو چا ہے تم اپنی قوت مردمی ختم کر کے نامرد بن جاؤ، یا اس فعل سے باز رہو، تمہارا نفس تمہیں نہیں بہکا سکتا اور تم پاک دامن رہو گے اسی طرف جف القلم کہہ کر اشارہ فرمایا گیا۔

اس حدیث میں اصل میں اس طرف تنبیہ اور تہدید مقصود ہے کہ اسباب و تدبیر کو تقدیر کے مقابلہ پر لانا اور نوشتہ تقدیر سے لا پرواہ ہو کر اس سے بھاگنا جائز نہیں ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تمام انسانوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کی درمیان اس طرح ہیں جیسے ایک انسان کا دل ہے اور وہ (اپنی انگلیوں سے) جس طرح چاہتا ہے قلوب کو گردش میں لاتا ہے اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کے طور پریہ فرمایا۔  اے دلوں کو گردش میں لانے والے خدا! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے اللہ کے کمال قدرت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے اور سب پر متصرف ہے یہاں تک کہ قلوب کے رخ اور دل کی دھڑکنیں تک بھی اسی کے اختیار میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا استعمال یہاں مجازا ہوا ہے کیونکہ اس کی پاک و صاف ذات مادیات اور اجسام کی ثقالت سے پاک ہے۔

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمام قلوب اللہ کے قبضہ و تصرف میں ہیں، وہ جس طرف چاہتا ہے دلوں کو پھیر دیتا ہے کسی قلب کو گناہ و معصیت اور بدکاری کی طرف مائل کر دینا بھی اسی کی صفت ہے اور کسی قلب کو عصیان و سرکشی کے جال سے نکال کر اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کے راستہ پر بھی اسی کا کام ہے وہ جس طرح چاہتا ہے گمراہی و ضلالت کے اندھیرے میں پھینک دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ، ہدایت و راستی کے مرغزاروں میں چھوڑ دیتا ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کو فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے (یعنی امر حق کو قبول کرنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح ایک چار پایہ جانور پورا چار پایہ بچہ دیتا ہے ، کیا تم اس میں کوئی کمی پاتے ہو پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (ترجمہ) یہ اللہ تعالیٰ کی اس بنائی کے موافق ہے جس پر اللہ نے آدمیوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی خلقت میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یہ دین مستحکم ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فطرت پر کی ہے اور فطرت صرف امر حق یعنی ایمان و اسلام کو قبول کر سکتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔تو وہ اس فطرت پر ہوتا ہے لیکن خارجی اثر سے وہ فطرت کے تقاضوں سے دور ہو جاتا ہے اور خلاف اصول و فطرت طریقوں پر چلنے لگتا ہے یعنی اگر اس کے ماں باپ مجوسی ہوتے ہیں تو وہ بھی ان کے مذہب میں رنگ جاتا ہے۔

چنانچہ مثال کے طور پر فرمایا کہ جس طرح کسی جانور کے کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنی اصلی حالت میں پیدا ہوتا ہے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی یا کوئی نقصان نہیں ہوتا، ہاں اگر خارجی طور پر کوئی اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے یا اس کے جسم میں کوئی عیب پیدا کر دے تو وہ اپنی اصلی اور تخلیقی حالت کھو دیتا ہے ، اسی طرح انسان پیدا کے وقت اپنی اصلی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا ماحول، اس کی سوسائٹی یعنی ماں باپ وغیرہ اس کے احساسات و شعور اور اس کے عقائد پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا کر اس کے ذہن و فکر اور قلب و دماغ کو غلط راستہ پر موڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی اور تخلیقی فطرت پر قائم نہیں رہتا بلکہ کافر ہو جاتا ہے ، ہاں اگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان رہتا ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیا اور پانچ باتیں ارشاد فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سوتا نہیں ہے ، اور سونا اس کی شان کے مناسب نہیں ہے۔ وہ ترازو کو بلند و پست کرتا ہے ، دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل اور رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جاتے ہیں اور اس کا حجاب نور ہے جسے اگر وہ اٹھا دے تو اس کی ذات پاک کا نور مخلوقات کی تا حد نگاہ تمام چیزوں کو جلا کر خاکستر کر دے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 ترازو کو بلند و پست کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خداوند قدوس کسی بندہ پر رزق کی وسعت کرتا ہے اور اسے مال و زر کی فراوانی سے نوازتا ہے اور کس پر اسباب معیشت اور رزق کے دروازے تنگ کر کے اسے محتاجی و تنگدستی میں مبتلا کر دیتا ہے ، اسی طرح کسی بندہ کو وہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیکو کاری کی بدولت عزت و عظمت اور شرف و فضیلت سے نوازتا ہے اور کسی گناہ گار بندہ کو اس کی سرکشی و نافرمانی اور بدکاری کی بنا پر اسے ذلیل و خوار کر دیتا ہے اور اسے تباہی و بربادی کے غار میں ڈال دیتا ہے۔

ایسے ہی  دن کے عمل سے پہلے رات کے عمل سے پہلے دن کے عمل اس کے پاس پہنچا دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ سے جو کوئی عمل سرزد ہوتا ہے وہ فوراً بلا تاخیر بارگاہ الوہیت تک پہنچ جاتا ہے یعنی ابھی سورج بھی نہیں نکلتا اور کوئی عمل صادر ہونے بھی نہیں پاتا کہ رات کے عمل جو بندہ سے سرزد ہوئے ہیں اوپر پہنچ چکے ہوتے ہیں ، اسی طرح رات شروع بھی نہیں ہوتی کہ دن کے عمل وہاں پہنچ جاتے ہیں، اب جو نیک عمل اور اچھا ہوتا ہے اسے قبولیت کے شرف سے نواز کر اس پر جزاء و انعام کا پروانہ صادر کر دیا جاتا ہے اور اس پر عذاب و سزا کا حکم دے دیا جاتا ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ (یعنی اس کا خزانہ) بھرا ہوا ہے ، دن اور رات ہر وقت خرچ کرنا بھی اس میں کمی پیدا نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے؟ کہ جب سے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور جب کہ اس کا عرش(بھی) پانی پر تھا، کتنا خرچ کیا ہے ، لیکن (اتنا زیادہ) خرچ کرنے کے باوجود جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے (یعنی اس کا خزانہ) اس میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں ترازو ہے جسے وہ بلند و پست کرتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور مسلم کی روایت ہے اللہ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے (اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا، اور ہمیشہ دینے والا ہے ، رات اور دن خرچ کرنے کے باوجود) اس میں کوئی چیز کمی نہیں کرتی۔

 

تشریح

 

 ابن نمیر حضرت امام مسلم کے استاد ہیں، ان کی سند سے جو حدیث ہے اس میں بجائے ملای کے ملان کا لفظ ہے اور ان الفاظ میں کچھ تقدیم و تاخیر بھی ہے ویسے ازروئے لغت ملای ہی صحیح ہے اور یہی الفاظ مناسب ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں پوچھا گیا (کہ مرنے کے بعد دوزخ میں جائیں گے یا جنت میں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے (اگر زندہ رہتے تو وہ کیا عمل کرتے)۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اگر وہ اس صغر سنی کی حالت میں نہ مرتے اور زندہ رہتے تو بڑے ہو کر کیا عمل کرتے ، لہٰذا اب ان کے ساتھ جو معاملہ ہو گا اسی کے مطابق ہو گا اور یہ کہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جنت میں جاتے ہیں یا دوزخ میں، وہاں کی حالت کسی بندہ کو کیا معلوم!۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اس وقت فرمایا ہو گا جب کہ ابھی تک مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں وحی کے ذریعہ کچھ معلوم نہیں ہوا تھا۔

اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور اولیٰ یہی ہے کہ اس بارہ میں توقف کرنا چاہیے یعنی نہ تو ان کو دوزخی کہا جائے اور نہ جنتی۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم تھا، پھر اس (قلم) کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے کہا،  الہٰ العالمین! کیا لکھوں  بارگاہ الوہیت سے جواب ملا  تقدیر لکھو! لہٰذا اس قلم نے ان چیزوں کو لکھا جو (اب تک) ہو چکی ہیں اور ان چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے غریب ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت مسلم بن یسار راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس آیت (وَاِذْاَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بنی آدم من ظہورھم ذریتھم؟ قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْ ایَوْاَم الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غَافِلِیْنَ۔ (الاعراف ١٧٢) ترجمہ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کا نکالا اور (سب کچھ سمجھ عطا کر کے) ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں! ہم سب (اس واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس (توحید سے محض بے خبر تھے) کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب اس آیت کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا کہ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان کی پیٹھ پر داہنا ہاتھ پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو جنت کے لیے اور جنت والوں کے سے اعمال کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ پھر اپنا ہاتھ آدم کی پشت پر پھیرا اور اس میں سے ان کی اولاد نکالی اور فرمایا کہ میں نے ان کو دوزخ کے لیے اور دوزخیوں کے سے کام کرنے کے لیے جو وہ کریں گے پیدا کیا ہے۔ یہ سن کر ایک آدمی نے کہا  یا رسول اللہ ! پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنت والوں ہی کے سے عمل کراتا ہے یہاں تک کہ اس (بندہ) کی وفات جنت والوں جیسے اعمال پر ہو جاتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان اعمال کی بنا پر اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے اور جب کسی بندہ کو دوزخ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے دوزخیوں کے سے اعمال صادر کراتا ہے یہاں تک کہ وہ اہل دوزخ جیسے اعمال پر مر جاتا ہے لہٰذا اسے ان اعمال کی بناء پر دوزخ میں ڈال دیتا ہے۔ (مؤطا مالک،جامع ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 یہ عہد میثاق عالم ارواح میں ہوا تھا جیسا کہ دیگر احادیث میں آتا ہے کہ رب قدوس نے تمام روحوں کو جو ازل سے لے کر ابد تک دنیا میں آنے والی تھیں ننھی ننھی چیونٹیوں کی شکل میں جمع کیا اور پھر ان کو عقل و دانائی بھی عنایت فرمائی اور اپنی ربوبیت و الوہیت کا سب سے اقرار کرایا۔

اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی تھی مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی ان کی پشت سے ان کی اولاد اسی طرح قیامت تک جتنے انسان پیدا کئے جائیں گے سب کی پشت سے ان کی اولاد نکالی گئی۔

داہنے ہاتھ کے پھیرنے کے معنی یہ ہیں کہ خداوند قدوس نے فرشتہ کو داہنا ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا تھا ورنہ اللہ تعالیٰ کی نورانی ذات ہاتھ پیر کی ظاہری ثقالت سے پاک و صاف ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ اس سے اپنی قوت و قدرت کا اظہار مقصود ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں اور (صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے) فرمایا جانتے ہو یہ دونوں کتابیں کیا معلوم آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی بتا دیجئے (یہ کتابیں کیا ہیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کتاب کے بارہ میں فرمایا جو داہنے ہاتھ میں تھی کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے جس میں اہل جنت ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہوئے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے لہٰذا اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی ، اس کے بعد بائیں ہاتھ والی کتاب کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک ایسی کتاب ہے جس پر اہل دوزخ ان کے باپ اور ان کے قبیلوں کے نام لکھے ہیں پھر آخر میں جمع بندی کر دی گئی ہے۔ لہٰذا اب نہ تو اس میں کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔ یہ (سن کر) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگرچہ یہ چیز پہلے سے ہی طے ہو چکی ہے (کہ جنت و دوزخ کا مدار نوشتہ تقدیر پر ہے تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (دین و شریعت کے مطابق اپنے اعمال کو) اچھی طرح مضبوط کرو اور (حق تعالیٰ کا) تقرب حاصل کرو۔ اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ اہل جنت کے اعمال پر ہوتا ہے خواہ (زندگی میں) اس نے کیسے ہی (نیک یا بد) عمل کئے ہوں اور دوزخمی کا خاتمہ اہل دوزخ کے عمل پر ہوتا ہے خواہ اس کے اعمال جیسے بندوں کے بارے میں یہ پہلے سے طے کر چکا ہے کہ ایک جماعت جنتی ہے اور ایک جماعت دوزخی ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 کتابوں کو پیچھے ڈال دینا اہانت کے طور پر نہیں تھا بلکہ اس طرف اشارہ مقصود تھا کہ بارگاہ الوہیت سے اس معاملہ میں کہ دوزخی و جنتی کون کون لوگ ہیں ازل ہی میں حکم ہو چکا ہے اور جو نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔

ظاہری طور پر تو اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں واقعی کتابیں تھیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو دکھلا بھی دیا تھا۔ لیکن ان کے اندر جو مضمون لکھے ہوتے تھے وہ نہیں دکھلائے تھے ، لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حقیقت میں کتابیں نہیں تھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال کے طور پر اس انداز سے فرمایا تاکہ یہ مسئلہ صحابہ کے ذہن نشین ہو جائے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور ابی خزامہ (ابی خزامہ تابعی ہیں ان کے والد کا نام عمیر ہے جو صحابی ہیں اور جن سے ابو خزامہ روایت کرتے ہیں ابی خزامہ سے زہری روایت کرتے ہیں۔) اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ عملیات جن کو ہم (شفاء کے لیے) پڑھواتے ہیں اور وہ دوائیں جن کو ہم (حصول صحت کے لیے) استعمال کرتے ہیں اور وہ ہر چیزیں جن سے ہم حفاظت حاصل کرتے ہیں (مثلاً ڈھال اور زرہ وغیرہ ان کے بارے میں مجھے بتائیے کہ کیا یہ سب چیزیں نوشتہ تقدیر میں کچھ اثر انداز ہو جاتی ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ چیزیں بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہیں)۔  (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

جواب کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیماری وغیرہ امر مقدر ہیں، اسی طرح ان کا علاج اور ان سے حفاظت کے اسباب بھی نوشتہ تقدیر ہی کے مطابق ہوتے ہیں یعنی جس طرح کسی آدمی کے مقدر میں کوئی بیماری لکھ دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے کہ یہ بیمار فلاں وقت میں اپنی بیماری کا علاج کرے گا اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ اس علاج و معالجہ سے اسے فائدہ ہو گا یا نہیں، اگر فائدہ ہونا لکھا ہے تو فائدہ ہو جائے گا اور فائدہ ہونا نہیں لکھا ہے تو نہیں ہو گا، اس لیے اگر کسی بیمار نے اپنی بیماری کا علاج کیا اور اسے فائدہ نہیں ہوا تو اسے سمجھنا چاہیے کہ تقدیر میں شفا نہیں لکھی تھی ! لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری میں علاج کرنا، یا اپنی حفاظت کے لیے خارجی اسباب کا سہارا لینا نوشتہ تقدیر کے خلاف نہیں ہے۔

تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کا مسئلہ یہ ہے کہ تعویذ گناہ ہے اگر قرآن کی آیتوں اور احادیث کی دعاؤں کے مطابق ہوں یا جھاڑنا، پھونکنا اور دم کرنا اگر اسماء و صفات الہٰی اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو۔ نیز ان کو موثر حقیقی سمجھنے کا عقیدہ بھی نہ ہو یعنی یہ یقین نہ رکھتا ہو کہ ان چیزوں سے یقیناً فائدہ ہو گا خواہ مرضی الہٰی ہو یا نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ شفا و صحت کا عطا کرنے والا تو اللہ ہے یہ صرف اسباب و تبرک کے درجہ میں ہیں تو ایسی شکل میں یہ چیزیں جائز ہوں گی، اگر اس کے برخلاف ہو کہ جھاڑنا پھونکنا اور تعویذ گنڈے غیر شرعی ہوں یعنی اس میں غیر اللہ کی مدد لی جاتی ہو تو یہ حرام ہو گا۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ہم قضا و قدر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے (ہمیں اس مسئلہ میں الجھا ہوا دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ انور غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انار کے دانے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رخسار مبارک پر نچوڑ دیئے گئے ہیں (اسی حالت میں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور میں اسے لیے تمہارے پاس (رسول بنا کر بھیجا) گیا ہوں؟ جان لو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے ہلاکت کی وادی میں پھینک دئیے گئے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں الجھنا اپنا مشغلہ بنا لیا تھا لہٰذا میں تمہیں بات کی قسم دیتا ہوں (اور پھر دو بار) قسم دیتا ہوں کہ تم اس مسئلہ پر بحث نہ کیا کرو (جامع ترمذی) اور ابن ماجہ نے اسی طرح کی روایت عمر و بن شعیب سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے۔

 

تشریح

 

صحابہ آپس میں تقدیر کے مسئلہ پر بحث کر رہے تھے بعض صحابہ تو یہ کہہ رہے تھے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر ثواب و عذاب کا ترتب کیوں ہوتا ہے؟ جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے اور کچھ حضرات یہ کہہ رہے تھے کہ اس میں اللہ کی کیا مصلحت و حکمت ہے کہ بعض انسانوں کو تو جنت کے لیے پیدا کیا اور بعض انسانوں کو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے؟ کچھ صحابہ نے اس کا جواب دیا کہ یہ اس لیے ہے کہ انسانوں کو کچھ اختیارات بھی اعمال کے کرنے اور نہ کرے کا دے دیا ہے ، کچھ نے کہا یہ اختیار کس نے دیا؟

بہر حال اس قسم کی گفتگو ہو رہی تھی اور اپنی عقل و دانش کے بل بوتہ پر اللہ کے اس رازو مصلحت کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان کو اس بحث مباحثہ میں مشغول پایا تو غصہ و غضب سے چہرہ مقدس سرخ ہو گیا اس لیے صحابہ کو بتلا دیا گیا کہ یہ تقدیر کا مسئلہ اللہ کا ایک راز و بھید ہے جو کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس میں اپنی عقل لڑانا اور غور و تحقیق گمراہی کی راہ اختیار کرنا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں اس لیے دنیا میں نہیں بھیجا گیا ہوں کہ تقدیر کے بارہ میں بتاؤں اور تم اس میں بحث و مباحثہ کرو، میری بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ و تعالیٰ کے احکام تم لوگوں تک پہنچا دوں اور اطاعت فرمانبرداری کی راہ پر تمہیں لگاؤں۔ دین و شریعت کے فرائض و اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں، لہٰذا ایک سچے و مخلص ہونے کے ناطے پر صرف اتنا ہی فرض ہے کہ تم ان احکام فرائض پر عمل کرو اور جن اعمال کے کرنے کا تمہیں حکم دوں اس کی بجا آوری میں لگے رہو، تم اس تقدیر کے مسئلہ میں مت پڑو پس اتنا ہی اعتقاد تمہارے لیے کافی ہے کہ یہ اللہ کا ایک راز ہے جس کی حقیقت و مصلحت وہی جانتا ہے ، اس کو اسی کی مرضی پر چھوڑ دو۔

آخر حدیث میں صاحب مشکوۃ نے ابن ماجہ کی اسی طرح کی روایت کردہ حدیث کی سند کا ذکر کیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حدیث شعیب نے اپنے دادا سے نقل کی ہے جو عبداللہ بن عمرو بن العاص ہیں اور شعیب سے ان کے صاحبزادے عمرو روایت کرتے ہیں اس طرح عن ابیہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہو گی اور  عن جدہ کی ضمیر شعیب کی طرف راجع ہو گی اس لیے کہ عمر اپنے دادا سے روایت نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کے دادا محمد بن عبداللہ سے وہ روایت منقول نہیں ہے ، یہ سلسلہ نسب اس طرح ہے عمر بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن العاص۔

اس کی فائدہ اس لیے یہاں ضروری ہے کہ دوسری احادیث میں اس طرح کی عبارات میں عن جدہ کی ضمیر عمرو بن شعیب کی طرف راجع ہوتی ہے لیکن یہاں سے اس کے برخلاف ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوموسیٰ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ایک مٹھی (مٹی) سے کی جو ہر جگہ کی زمین سے لی گئی تھی لہٰذا آدم کی اولاد (انہیں) زمین کے موافق پیدا ہوئی چنانچہ (انسانوں میں) بعض سرخ، بعض سفید، بعض کالے ، بعض درمیانہ رنگ کے ، بعض نرم مزاج، بعض تند مزاج بعض پاک اور بعض ناپاک ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

حضرت آدم کی تخلیق کے وقت ایک فرشتہ حضرت عزرائیل کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک مٹھی بھر کے مٹی لے آئیں چنانچہ وہ تمام روئے زمین سے ہر خطہ و ہر جگہ کی تھوڑی مٹی اپنی مٹھی میں بھر لائے اسی سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی اسی لیے آدم کی اولاد میں مختلف رنگ و نسل اور مختلف طبائع کے انسان پیدا ہوتے ہیں کوئی کالا ہوتا ہے تو کوئی گورا اور کسی کا رنگ گندمی ہوتا ہے اسی طرح کچھ انسان اپنی طبیعت و مزاج کے اعتبار سے نرم خو، خوش اخلاق اور میٹھی زبان کے ہوتے ہیں کچھ لوگوں کی طبیعت سخت و تیز اور غیر معتدل ہوتی ہے ، بعض انسان فطرتاً پاک و صاف ہوتے ہیں اور بعض گندگی و نجاست سے ملوث رہتے ہیں اور یہ فرق و اختلاف اسی بنیادی مادہ کی وجہ سے ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی تھی۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق (جن و انس) کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا پرتو ڈالا، لہٰذا جس کو اس نور کی روشنی میسر آ گئی وہ راہ راست پر لگ گیا اور جو اس کی مقدس شعاعوں سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ تقدیر الہٰی پر قلم خشک ہو چکا ہے (کہ اب تقدیر میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔  (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

 اندھیرے سے مراد نفس امارہ کی ظلمت ہے کہ انسان کی جبلت میں خواہشات نفسانی اور غفلت کا مادہ رکھا تھا لہٰذا جس کا قلب و دماغ ایمان و احسان کی روشنی سے منور ہو گیا اور اس نے طاعت الہٰی سے اللہ کی ذات کا عرفان حاصل کر لیا تو وہ نفس امارہ کے مکر و فریب اور اس کی ظلمت سے نکل کر اللہ پرستی و نیکو کاری کے لالہ زار میں آگیا اور جو اپنے نفس کے مکر و فریب میں پھنس کر طاعت الہٰی کے نور سے محروم رہا وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا۔

 

ﷲﷲ اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اکثر بیشتر بطور دعا کے یہ فرمایا کرتے تھے۔ اے قلوب کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ! میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے لائے ہوئے دین و شریعت پر بھی ایمان لائے تو کیا اب بھی ہمارے بارہ میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ڈرتے ہیں (کہ کہیں ہم گمراہ نہ ہو جائیں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بے شک قلوب اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں (یعنی اس کے تصرف و اختیار میں ہیں اور جس وہ طرح چاہتا ہے ان کو گردش میں لاتا رہتا ہے)۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

فائدہ

 حضرت انس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو بالک معصوم اور محفوظ ہیں۔ نعوذ باللہ کسی گمراہی کا شائبہ نہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر نہیں آ سکتا ظاہر ہے کہ یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے ہی کرتے ہوں گے کہ کہیں ہم دنیا کے چمک دمک میں پھنس کر اپنے دین و ایمان سے گمراہ نہ ہو جائیں تو کیا ایسی شکل میں جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی صداقت کا اعتقاد رکھتے ہیں، نیز ہمارے قلوب ایمان و ایقان کی حقیقی کیفیت سے سرشار ہیں ہمارے گمراہ ہونے کا کیا خدشہ ہو سکتا ہے اس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ قلوب کے رخ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیرتا رہتا ہے ، نہ معلوم کس کے قلب کا رخ گمراہی کی طرف کب ہو جائے اس لیے دعا مانگی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رہے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابو موسیٰ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، دل کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی پرَ کسی میدان میں پڑا ہو اور ہوائیں اس کی پیٹھ سے پیٹ اور پیٹ سے پیٹھ کی طرف پھرتی رہتی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 اسی طرح دلوں کا حال ہے کہ کبھی وہ برائی سے بھلائی کی طرف رخ کر لیتے ہیں اور کبھی بھلائی سے برائی کے راستہ پر جا لگتے ہیں۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ چار چیزوں پر ایمان نہ لائے۔ (١) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (٢) اور میں بلاشبہ اللہ کی جانب سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور حق (دین اسلام) لے کر اس دنیا میں آیا ہوں۔ (٣) موت اور مرنے کے بعد (میدان حشر میں) اٹھنے پر ایمان لانا۔ (٤) اور تقدیر پر ایمان لانا۔  (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 موت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی جانے کہ اس دنیا کی تمام زندگی عارضی اور فانی ہے جو اپنے وقت پر ختم ہو جائے گی۔ اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جائے گا یا اس سے یہ مراد ہے کہ اس بات پر صدق دل سے یقین و اعتقاد رکھا جائے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ خداوند کے حکم سے آتی ہے کوئی بیماری، حادثہ یا تکلیف موت کا حقیقی سبب نہیں ہے بلکہ یہ چیزیں بادی النظر میں ظاہری اسباب ہوتے ہیں کسی انسان کی زندگی اور موت کلیۃً اللہ کے ہاتھ میں ہے جب تک اس کا حکم ہوتا ہے زندگی رہتی ہے اور جب وہ چاہتا ہے موت بھیج کر زندگی ختم کر دیتا ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، میری امت میں دو فرقے ایسے ہیں جن کو اسلام کا کچھ بھی حصہ نصیب نہیں ہے اور وہ مرجیہ و قدریہ ہیں، جامع ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 اسلام میں ایک گروہ مرجیہ کے نام سے مشہور ہے ، یہ فرقہ اعمال کے سلسلہ میں اسباب کا قائل نہیں ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ کسی عمل اور فعل کی نسبت بندہ کی جانب ایسی ہی ہے جیسے کسی فعل کی نسبت جمادات کی طرف کر دی جائے یعنی جس طرح ایک لکڑی پتھر، روڑہ ہے کہ اس کو جس طرف پھینک دیجئے یا جدھر کو لڑھکا دیجئے وہ لڑھکتا چلا جائے گا اس کو اپنے پھینکے جانے اور لڑھکائے جانے میں کوئی دخل و اختیار نہیں ہے ، بلکہ وہ پھینکنے والے اور لڑھکانے والے کے قبضہ و قدرت میں ہے ، اسی طرح ایک بندہ ہے کہ اس کو اپنے کسی عمل اور فعل میں کوئی دخل اور اختیار نہیں ہے بلکہ وہ محض اور بے اختیار ہے ، قدرت اس سے جیسے عمل صادر کراتی ہے وہ کرتا ہے وہ نہ کسی عمل کے از خود کرنے پر قادر ہے اور نہ کسی عمل سے باز رہنا اس کے اختیار میں ہے۔

اس کے مد مقابل ایک دوسرا فرقہ  قدریہ ہے جو سرے سے تقدیر ہی کا منکر ہے ، اس جماعت کا مسلک یہ ہے کہ بندہ کے اعمال میں تقدیر الہٰی کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ بندہ خود اپنے اعمال کا خالق اور اپنے افعال میں مختار و قادر ہے۔ وہ جو کچھ عمل کرتا ہے اپنی قدرت و اختیار کی بنا پر کرتا ہے۔ یہی مسلک  معتزلہ اور  روافض  کا بھی ہے

یہ دونوں فرقے اسلامی نقطہ نظر سے اپنے اپنے مسلک میں راہ اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں اس لیے کہ اگر مرجیہ کے اعتقادات کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جب بندہ سے اختیار و قدرت اور ارادہ و مشیت کی نفی کر کے اسے اینٹ پتھر اور لکڑی اور غیر ذی ارادہ مخلوق کی طرح مان لیا گیا اور بندہ کے ہر فعل میں اختیار و قدرت کلیۃً اللہ کا مانا گیا یا صاف لفظوں میں یہ کہا جائے کہ گویا صفات خالق کو سامنے رکھ کر صفات عبد سے انکار کر دیا گیا تو قدرتی طور پر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بندہ سے سرزد شدہ افعال خود بندہ کے نہیں کہلائے جائیں گے بلکہ ان کو اللہ کے افعال کہا جائے گا خواہ وہ فعل کسی قسم کا ہو اور کسی بھی عضو سے صادر ہوا ہو لہٰذا جب بندہ دیکھے گا تو کہا جائے گا کہ وہ نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ خدا دیکھ رہا ہے جب بندہ کھائے گا تو ماننا پڑے گا کہ وہ نہیں کھا رہا ہے ، بندہ جب سنے گا تو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ نہیں سن رہا ہے بلکہ اللہ سن رہا ہے ، بندہ جب سوئے گا تو یہی کہا جائے گا کہ وہ نہیں سو رہا ہے بلکہ اللہ سو رہا ہے تو گویا بندہ سے کوئی فعل بھی جب سرزد ہو گا تو یہی کہنا ہو گا کہ وہ اس بندہ سے نہیں بلکہ درحقیقت اللہ سے سرزد ہو رہا ہے۔ اور چونکہ یہ سب وجود کے آثار ہیں جن سے غافل کے موجود ہونے کا پتہ چلتا ہے تو خلاصہ یہ نکلے گا کہ بندہ اگرچہ موجود ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے ، بلکہ وہ خالق اور افعال کے درمیان ایک ایسا ذریعہ ہے جو ان افعال کے اظہار کے لیے واسطہ بن رہا ہے بلکہ موجود تو صرف اللہ کی ذات ہے ورنہ تمام کا تمام کالعدم ہے۔

لہٰذا یہ ساری حجت وحدۃالوجود اور کثرت موجودات کی نفی پر آ کر ختم ہو جائے گی جس کو بعض جاہل صوفیاء کی اصطلاح میں  ہمہ اوست فرماتے ہیں جسکا حاصل کثرت موجودات اور اعیان ثابت کا برملا انکار اور ساری کثرتوں کو ایک فرضی اور وقتی کارخانہ تصور کر لینا نکل آتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے کہ گویا اس کائنات میں ہر چیز موجود ہو کر بھی کالعدم اور معدوم ہی ہے ، موجود صرف ذات واحد ہی ہے اور کوئی نہیں اس کا نتیجہ اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ دائرہ وجود کی صرف ایک ہی نوع رہ جائے جسے واجب الوجود فرماتے ہیں اور ممکن الوجود کو کوئی نشان و پتہ ہی نہ رہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے معدوم محض ہو کر رہ جائے۔

اب ظاہر ہے کہ ایجاد خداوندی یا فیضان وجود جسے تخلیق فرماتے ہیں ممکن ہی پر ہو سکتا ہے اس لیے کہ اسی میں قبول وجود کی صلاحیت ہے لیکن چونکہ وہ معنی معدوم محض ہو گیا ہے جس پر آثار وجود اور آثار زندگی ظاہر نہیں ہو سکتے ، تو اب ایجاد کس پر واقع ہو اور تخلیق کس چیز کی عمل میں آئے؟ نیز ایجاد کے بعد ابقاء خداوندی یعنی تدبیر و تصرف اور ربوبیت وغیرہ ایسی وہ تمام صفات حق جن کا تعلق مخلوق سے تھا کس پر واقع ہوں گی؟ اور کہاں اپنی تجلیات دکھلائیں گی؟ جب کہ ذات خداوندی کے سوا کسی غیر کا پتہ نہیں کہ وہ ان صفات کا مورد و مظہر بن سکے ، لہٰذا اس شکل میں مانند پڑے گا کہ ایجاد و ابقاء کی تمام صفات معاذ اللہ معطل و بیکار ثابت ہو گئیں ہیں اور تعطل اگر عدم نہیں تو کالعدم ضرور ہے ، یا بالفاظ دیگر افعال باری کا عدم ہے جو انتہائی نقص ہے۔

اور جب کہ یہ تمام فعلی کمالات صفات وجود کے آثار تھے جو ذات حق سے منتفی ہو گئے تو بلا شبہ اللہ کا وجود ان کی نفی سے ناقص ٹھہرا اور اللہ کی بے عیب ذات کتنے ہی کمالات مثلاً ظہور صفات اور افعال سے کوری رہ گئی جن پر معبودیت کا کارخانہ قائم تھا اور ظاہر ہے کہ نقص صفات اور نقص افعال کے ساتھ خدائی جمع نہیں ہو سکتی، تو ایسی ناقص ذات کو اللہ نہیں کہہ سکتے ، نتیجہ یہ نکلا کہ نہ خالق رہا اور نہ مخلوق رہی۔

غور کیجئے کہ مرجیہ کے نظریات نے بندہ کو مجبور محض اور بے اختیار تصور کیا اور اس کے تمام افعال و اعمال کی ذمہ داری تقدیر الہٰی کے سر ڈال دی ، نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بندہ کے اختیار و قدرت کا انکار کیا تھا تو انجام کار اللہ کی صفات افعال ایجاد ، ترزیق اور قیومیت و تدبیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔

اب ذرا  قدریہ کے مسلک کی تنقیح بھی کر لیجئے اس جماعت نے مرجیہ کا رد عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں محض صفات عہد کو سامنے رکھا، اور صفات معبود سے صرف نظر کر لیا، یعنی بندہ کے اختیارات و قدرت ، ارادہ مشیت اور فعل اور عمل کو اس درجہ میں مستقل اور آزاد بتلایا کہ اس میں اللہ کے ارادہ قدرت اور اختیار و فعل کو دخل ہی نہیں حتی کہ بعض غالی قدریہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ کو بندہ کے افعال کا علم بھی اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اسے کر لیتا ہے ، گویا بندہ کے استعمال اختیار کی حد تک نہ اللہ میں ارادہ ہے ، نہ قدرت کو اختیار ہے نہ مشیت ، حتی کہ نہ سابق علم نہ خبر۔

لہٰذا مرجیہ نے تو تقدیر سے مثلاً صفات خالق ارادہ ، علم، قدرت، اختیار وغیرہ کو اللہ سے وابستہ کر کے بندے کو ان سے کورا مان لیا اور قدریہ نے ان صفات کو بندہ سے مستقلاً وابستہ کر کے اللہ کو ان سے خالی مان لیا۔

غور کیجئے ! اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ بندہ منٹ بھر میں سینکڑوں اچھے برے افعال اور حرکات و سکنات مختلف اندازوں سے کر گزرتا ہے جس کے عمر بھر کے افعال و حرکات کی گنتی ناممکن ہے ، پھر انسانی تصرفات کی حدود اسی عالم تک نہیں ہیں، اس لیے کہ بعض ایسے متعدی افعال بھی ہیں جن میں انسان دوسری اشیاء کائنات کو مفعول بناتا ہے ظاہر ہے ان اشیاء عالم میں جو اس کے تسخیر و تصرف میں آتی ہیں، زمین سے لے کر آسمان تک ساری ہی مخلوقات داخل ہیں۔

لہٰذا سارے انسانوں کے یہ تمام افعال جو سارے ہی عالموں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بقول قدریہ یہ انسانوں کی ایسی مخلوقات ہیں جن کی ایجاد و تخلیق میں اللہ کا دخل تو کیا ہوتا ان پر اس کا نہ زور چل سکتا ہے اور نہ ہی اسے ان کی پیدائش سے پہلے ان کا علم ہی ہوتا ہے گویا انسان جو خود اپنی تخلیق میں بے بس ہے اسے تو ان کی تخلیق کا ارادہ کرتے وقت علم ہو جاتا ہے کہ اسے کیا اور کب پیدا کرنا ہے ، مگر نعوذ باللہ اللہ اتنا بے خبر اور لا علم کہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کب پیدا ہوئی اور کون سا فعل کب صادر ہوا۔

اس صورت میں یقیناً انسان کی تخلیق کا شمار اللہ کی مخلوقات کے شمار سے بڑھ جائے گا، اس لیے کہ اللہ تو انسان کا خالق ہے اور انسان تمام افعال و اشیاء کا خالق ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کی نسبت سے ان کا افعال بلا شبہ کروڑوں گنا زیادہ ہیں، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ انسانی مخلوقات اللہ کی مخلوقات سے زیادہ نہیں نہ ہو جائے اور پھر مخلوقات بھی ایسی کہ خدائی سرحد سے بالکل خارج جس پر اس کو کوئی بس نہ ہو بلکہ علم قدیم بھی نہ ہو پس اس معاملہ میں کہنا پڑے گا کہ اللہ تو بے بس ہو گیا اور انسان مختار کل ہو گیا، بندہ تو خدائی حدود میں آگیا اور اللہ بندوں کی صف میں جابیٹھا، یعنی بندہ کا زور تو اللہ کی خدائی پر چل گیا کہ اس نے افعال و اشیاء کی تخلیقات کر ڈالیں اور اللہ کا بس اپنی خدائی پر بھی نہ رہا کہ اس ان مخلوقات کے وجود میں آنے کا علم بھی نہ ہو سکا اور اس مقام پر آکر اس کا ارادہ، قدرت، مشیت اور اختیار وغیرہ سب بے کار اور معطل ہو کر رہ گئے۔ (ماخوذ از مسئلہ تقدیر مصنفہ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مدظلہ)

یہ ہے ان دونوں فرقوں کے مسلک کی حقیقت اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ یہ دونوں نظریے اپنی اپنی جگہ اسلامی نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ حد اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں بلکہ گمراہی کی طرف بڑھے ہوئے بھی ہیں جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور خسران آخرت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

ان دونوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک بالکل صاف اور صحیح ہے علماء حق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال کا خالق رب قدوس ہے اور کا سب بندہ ہے یعنی دنیا میں جتنی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں یا ہونے والی ہیں وہ سب اللہ کے حکم اور اس کے ارادہ و علم سے ہوتی ہیں، اسی طرح بندوں سے جو کچھ افعال سرزد ہوتے ہیں خواہ وہ افعال نیک ہوں یا افعال بد سب نوشتہ تقدیر کے مطابق دونوں راستے واضح کر دیئے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ اگر نیکی و بھلائی کے راستے کو اختیار کرو گے تو سعادت و نیک بختی سے نوازے جاؤ گے اور اگر کوئی برائی و بدی کے راستے کو اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار کئے جاؤ گے لہٰذا بندہ اسباب کسب کے اعتبار سے اپنے ہر عمل و فعل میں مختار ہے۔

گویا اہل سنت و الجماعت بندہ کو بیک وقت مختار بھی فرماتے ہیں اور مجبور بھی مگر درمیانی انداز سے کہ اسے نہ مختار مطلق جانتے ہیں نہ مجبور محض یعنی ایک طرف سے اسے مختار مان کر زنجیر تقدیر سے پا بستہ بھی فرماتے ہیں اور دوسری طرف اسے مجبور کہہ کر اینٹ و پتھر کی طرح بے حس بھی تسلیم نہیں کرتے۔

بہر حال اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں فرقے یعنی مرجیہ اور قدریہ کافر ہیں لیکن حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی تحقیق کے مطابق علماء کا قول مختار یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے کافر نہیں ہیں البتہ فاسق ہیں کیوں کہ یہ فرقے بھی قرآن و حدیث ہی سے تمسک کرتے ہیں اور اپنے نظریات میں تاویل و توضیح کر کے کفر کے دائرہ سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ لہٰذا اس حدیث کے بارہ میں کہا جائے گا کہ اس سے ان فرقوں کی زجر و ملامت مقصود ہے اور ان کے غلط عقائد کی گمراہی کو واضح کرنا ہے جس میں اس شدت و سختی کے ساتھ ان کے مذہب کا رد کیا جا رہا ہے۔ بعض حضرات اس حدیث کی صحت میں بھی کلام کیا ہے۔

حضرت شاہ اسحٰق کی تحقیق اس کے برخلاف ہے وہ فرماتے ہیں کہ علماء محققین ان فرقوں پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور ان کو خارج الاسلام مانتے ہیں لیکن اس میں اختلاف ہے کہ ان کا کفر آیا تاویلی ہے یا ارتدادی۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ، کہ میری امت میں (اللہ کے درد ناک عذاب) زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہو جانا بھی ہو گا اور یہ عذاب ان لوگوں پر ہو گا جو تقدیر کے منکر ہیں (ابوداؤد) امام جامع ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

 زمین میں دھنس جانا اور صورتوں کا مسخ ہو جانا اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سخت عذاب ہیں جو اس امت سے پہلے دوسری امتوں پر ان کی سرکشی اور حد سے زیادہ نافرمانی کی بنا پر ہو چکے ہیں ، اس امت میں بھی آخر زمانہ میں اللہ سے تمرود سرکشی اور بغاوت و نافرمانی حد سے زیادہ بڑھ جائے گی تو ان فرقوں پر یہ عذاب ہو سکتا ہے۔

لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسخ و خسف جیسے درد ناک عذاب میری امت پر ہوئے تو ان دونوں فرقوں پر ہوں گے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، فرقہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں لہٰذا اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کے لیے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک مت ہونا۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے قدریہ کی صریح گمراہی اور ان کی ضلالت واضح ہے کہ ان کو اس امت کا مجوس قرار دیا گیا مجوس ایک آتش پرست قوم ہے جو دو اللہ مانتی ہے ایک وہ اللہ جو نیکی و بھلائی کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کو یزداں کہتے یں۔ دوسرا وہ اللہ جو برائی و بدی کا پیدا کرنے والا ہے ، اس کو اہرمن یعنی شیطان فرماتے ہیں۔

لہٰذا جس طرح مجوسی تعداد الٰہ کے قائل ہیں اسی طرح قدریہ بھی بے انتہا خالقوں کے قائل ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ہر بندہ اپنے افعال کا خالق ہے اسی طرح جتنے بندے ہوں گے اتنے بھی خالق ہی ہوں گے ، نیز جس طرح قدریہ خالق خیر الگ اور خالق شر الگ مانتے ہیں اسی طرح قدریہ بھی فرماتے ہیں کہ خیر و بھلائی کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہے اور شر و برائی کا پیدا کرنے والا شیطان اور انسانی نفس ہے۔

حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اس فرقہ سے کلیۃً اجتناب کرنا ضروری ہے اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کے لیے نہیں جانا چاہیے اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ میں شریک نہ ہونا چاہیے گویا غمی خوشی کسی موقع پر بھی ان کے ساتھ نہ رہنا چاہیے اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا معاشرتی میل جول رکھنا جائز ہے۔

چنانچہ وہ حضرات جو اس جماعت کو کافروں کے زمرہ میں داخل کرتے ہیں اس حدیث کو اپنے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کو ان کے ساتھ میل جول رکھنے سے منع کرتے ہیں۔

اور جو حضرات ان کو کافر نہیں بلکہ فاسق فرماتے ہیں وہ اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اس جماعت کی گمراہی و ضلالت کو بیان کرنا اور ان کی زجر و ملامت میں شدت کا اظہار کرنا ہے۔

لیکن حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی فرماتے ہیں کہ محققین کا قول یہی ہے کہ نہ تو ان کی عیادت میں جائے اور نہ ان کے جنازہ میں شریک ہوا اور جہاں تک ہو سکے ان سے قطع تعلق رکھے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ قدریہ کی ہم نشینی اختیار نہ کرو اور نہ ان کو اپنا حکم (ثالث) بناؤ۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

قدریہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے مجالست کرنا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونے سے یہ ظاہر ہو گا کہ ان سے محبت و موانست ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ کسی گمراہ جماعت سے تعلق قائم کریں اور ان سے انس و محبت کا برتاؤ کریں۔

اس لیے کہ جب ان کے ساتھ رہنا سہنا ہو گا اور ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے گی تو ان کے غلط نظریات اور گمراہ اعتقادات کا اثر ان پاس بیٹھنے والوں پر بھی ہو گا اور ان کی گمراہی اہل مجلس کی اعتقاد و اعمال پر بھی اثر انداز ہو گی۔ اور ہو سکتا ہے کوئی شیطانی مکر و فریب میں آکر ان کے اعتقادات کو تسلیم کرے ، اس لیے بنیادی طور پر ان کی مجالست و موانست سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔

اسی طرح حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی تنازعہ میں اہل قدر کو حاکم نہ بنائیں اور نہ ان کو اپنا ثالث مقرر کریں لاتفاتحوھم کے معنی بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ پہلے سلام کرو اور نہ از خود ان سے بات چیت شروع کرو۔ و اللہ اعلم۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی ان کو ملعون قرار دیا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (پہلا) کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا (دوسرا) تقدیر الہٰی کو جھٹلانے والا۔ (تیسرا) وہ آدمی جو زبردستی غلبہ پانے کی بنا پر ایسے آدمی کو معزز بنائے جس کو اللہ نے ذلیل کر رکھا ہو اور اس آدمی کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت و عظمت کی دولت سے نواز رکھا ہو۔ (چوتھا) وہ آدمی جو (حدود اللہ سے تجاوز کر کے اس چیز کو حلال جانے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ (پانچواں) وہ جو میری اوالاد سے وہ چیز (قتل) حلال جانے جو اللہ نے حرام کی ہے۔ اور (چھٹا) وہ آدمی جو میری سنت کو چھوڑ دے۔ (بیہقی، رزین)

 

 تشریح

 

حدیث میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے ان غلط عقائد اور گمراہ کن اعمال کی بنا پر شریعت کی نظر میں اتنے مجرم ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور نہ صرف یہ کہ دربار رسالت سے ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے بلکہ وہ بارگاہ الوہیت سے بھی راندہ درگاہ کر دیئے گئے۔ چنانچہ کسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں پر لعنت کیوں بھیجتے ہیں؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جواب دیا کہ چونکہ خداوند قدوس نے ان کو اپنے اعمال کی بنا پر ملعون قرار دیا ہے اس لیے یہ اسی کے مستحق ہیں کہ رسول بھی ان کو ملعون قرار دے اور ظاہر ہے نبی کی لسان مقدس سے نکلی ہوئی ہر دعا اور ہر بد دعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے اس لیے جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم لعنت بھیجیں اس کی دنیا بھی برباد ہو گئی اور دین میں تباہ ہو جائے گا اسی طرف کل نبی یجاب کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے۔

ویسے تو اس حدیث میں جس ترکیب کے اعتبار سے یہ جملہ معترضہ واقع ہو رہا ہے اور اس کے مقصد لعنت میں شدت ہے۔ پہلا آدمی جسے ملعون قرار دیا جا رہا ہے وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہے ، خواہ وہ قرآن میں الفاظ کی زیادتی کرے یا قرآن کی آیتوں کے ایسے معنی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء الہٰی کے برعکس ہوں۔

تیسرا آدمی وہ ہے جو زبردستی غلبہ حاصل کرے اور اپنی ظاہری شان و شوکت کے بل بوتہ پر ان لوگوں کو معزز کرے جو اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اور ان لوگوں کو ذلیل کرے جو اللہ کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس تیسرے آدمی سے مراد ایسے بادشاہ اور ظالم حاکم ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد کی بنا پر حکومت و دولت کے نشہ میں اللہ کے ان صالح و نیک بندوں اور مسلمانوں کو ذلیل خوار کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بڑی عزت و عظمت کے مالک ہوتے ہیں اور ایسے کافروں، جاہلوں اور بدکار لوگوں کو عزیز رکھتے ہیں جو اللہ کی نظر میں سخت ذلیل ہوتے ہیں۔

چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے یعنی ان چیزوں کو حلال سمجھتا ہے جو اللہ کی جانب سے حرام کر دی گئی ہیں مثلاً بیت اللہ مکہ میں جن باتوں کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے جیسے کسی جانور کا شکار کرنا، درخت وغیرہ کاٹنا، یا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا، ان کو وہ حلال سمجھتا ہو، ایسے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد کے بارہ میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حرام کرتا ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ عنہ کی اولاد کی عزت و تعظیم کرنا ضروری ہے لیکن کوئی آدمی نہ کرنے کو جائز سمجھے یا ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے ان کو تکلیف پہنچانا حلال جانے تو اس پر بھی لعنت فرمائی گئی۔

یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی میری اولاد میں سے ہونے کے باوجود ان افعال کو حلال جان کر کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس طرح اس کا مقصد سیدوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ یہ لوگ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد میں ہونے کے ناطے گناہ و معصیت سے بچتے رہیں، اس لیے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو گناہ و معصیت زیادہ برائی و تباہی کا باعث ہیں کیونکہ ان کا نسبی تعلق براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

اسی طرح پانچواں ملعون وہ آدمی قرار دیا گیا ہے جو ان چیزوں کو حرام سمجھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو۔

چھٹا ملعون آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو سنت نبوی کو ترک کرتا ہو۔

اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی سستی اور کسل کی بنا پر سنت کو ترک کرتا ہو وہ گناہ گار ہے اور جو آدمی سنت کو نعوذ باللہ ناقابل اعتناء سمجھ کر چھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔ مگر یہ کہا جائے گا کہ جو آدمی از راہ کسل و سستی سنت چھوڑتا ہے اس پر لعنت کرنا زجر و توبیخ کے لیے ہے اور جو آدمی ناقابل اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہے اس پر حقیقۃً لعنت ہو گی ہاں اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کر دے تو اس پر گناہ نہیں ہو گا لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔

حضرت شاہ محمد اسحٰق دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنت موکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت مطر بن عکامس (مطر ابن عکامس السلمی کا شمار کوفیوں میں ہوتا ہے ان سے صرف یہی ایک حدیث منقول ہے ، ان کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی آدمی کی موت کو کسی زمین پر مقدر کر دیتا ہے تو اس زمین کی طرف اس کی حاجت کو بھی پورا کر دیتا ہے تاکہ وہاں جانے پر مجبور ہو اور وہاں جا کر موت کا شکار ہو۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے ، میں نے پھر پوچھا اچھا مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ میں نے (تعجب سے) پوچھا ، بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا منشاء ان مومنین اور مشرک بچوں کے بارہ میں معلوم کرنا تھا جو حالت کمسنی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور جن سے کوئی عمل خیر یا عمل بد صادر نہیں ہوا تھا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کے بعد حضرت عائشہ کو تعجب ہوا کہ مسلمان بچے بغیر کسی عمل کے بہشت میں کس طرح داخل ہو جائیں گے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے و اللہ اعلم بما کانواعاملین (یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے) کہہ کر قضا و قدر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ جو کچھ عمل کرنے والے تھے وہ نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہو چکا ہے ، گو اس وقت بالفعل ان سے عمل سرزد نہیں ہوئے ہیں لیکن جو کچھ عمل وہ زندگی کی حالت میں کرتے وہ اللہ کے علم میں ہوں گے اس لیے ان کے جنتی ہونے پر تعجب نہ کرو۔

مشرک بچوں کے بارے میں علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے باپوں کے تابع ہیں، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہو گا اس لیے ان کے بارہ میں کوئی حکم یقین کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ زندہ بچہ کو گاڑنے والی (عورت) اور وہ جس کو گاڑا گیا دونوں دوزخ میں ہیں۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 زمانہ جاہلیت میں زندہ بچوں کو دفن کر دینے کا درد ناک طریقہ جاری تھا، خصوصاً لڑکی کو تو پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے اندوہ ناک طریقہ پر دبا دیا جاتا تھا جب اسلام کی مقدس روشنی نے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کیا تو یہ غیر انسانی طریقہ بھی ختم کر دیا گیا، اس کے بارے میں یہ حدیث وعید ہے اور زندہ بچوں کو دفن کر دینے والوں کو دوزخی قرار دے رہی ہے۔

 گاڑنے والی سے مراد وہ عورت ہے جس نے بچہ کو زمین میں دفن کیا مثلاً دائی یا نوکرانی وغیرہ اور موؤدہ، جس کو گاڑا گیا ، سے مراد وہ عورت ہے جس نے اسے جنا ہے یعنی اس بچہ کی ماں جس کے حکم سے اس کو زمین میں دفن کیا گیا ہو۔

یا اس سے مراد وہی بچی ہے جس کو گاڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح اس کے والدین دوزخی ہیں اسی طرح جب وہ بھی کمسنی کی حالت میں اس دنیا سے ختم کر دی گئی تو اپنے باپ کی طرح دوزخی ہوئی جیسا کہ اس سے پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کمسنی میں جو بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ اپنے باپ کے تابع ہوتا ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابودرداء (آپ کا نام عویمر ہے لیکن اس میں بہت اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے اصل نام عامر بن مالک ہے اور عویمر لقب ہے لیکن یہ اپنی کنیت ابودرداء سے مشہور ہیں۔ حضرت عثمان کی شہادت سے دو سال قبل دمشق میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔) راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر ایک بندے کے متعلق پانچ باتوں سے (تقدیر لکھ کر) فارغ ہو گیا۔ (١) اس کی موت (کہ کب آئے گی) (٢) اس کے (نیک و بد) اعمال۔ (٣) اس کے رہنے کی جگہ۔ (٤) اس کی واپسی کی جگہ۔ (٥) اس کا رزق۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

ہر انسان کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ازل ہی میں اس کے مقدر میں پانچ چیزیں لکھ دی گئی ہیں جن میں اب نہ کمی بیشی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تغیر و تبدل ممکن ہے چنانچہ ہر انسان کی تقدیر میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہے اور موت کب آئے گی اب جو وقت اور جو لمحہ موت کا لکھ دیا ہے اس میں ایک سیکنڈ اور ایک پل بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی، اسی طرح انسان کے نیک و بد اعمال بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی نوشتہ تقدیر ہو چکے ہوتے ہیں، کہ اس سے اعمال کیسے صادر ہوں گے ، جتنے نیک اعمال لکھ دئیے گئے ہیں وہ یقیناً صادر ہوں گے اور جتنے بد اعمال لکھ دیئے گئے ہیں وہ بھی اپنے وقت پر وقوع پذیر ہوں گے۔

ہر انسان کے قیام کی جگہ اور اس کے حرکات و سکنات کا مقام بھی پہلے سے متعین ہو چکا ہوتا ہے کہ کس زمین اور کس خطہ میں اس کا وجود و قیام ہو گا اور کس روئے زمین پر اس کی زندگی کے اعمال و افعال صادر ہوں گے ، انسان کا رزق بھی اس کی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی حصہ میں آتا ہے جس کے مقدر میں جتنا اور جس قسم کا رزق لکھ دیا گیا ہے وہ ضرور اس تک پہنچے گا اگر تھوڑا ہی رزق لکھا ہے تو کم ہی ملے گا اور زیادہ لکھ دیا گیا ہے تو زیادہ ملے گا اسی طرح کسی کے مقدر میں حلال رزق لکھا گیا ہے تو وہ حلال رزق ہی کھائے گا اور اگر حرام رزق لکھ دیا گیا ہے تو وہ حرام رزق کھائے گا۔ یا رزق سے مراد یہ ہے کہ بندہ کو اس کی زندگی میں جو کچھ منافع و آسانیاں اور راحت و آرام سے پہنچنے والے ہیں سب اس کی تقدیر میں پہلے ہی لکھ دیئے گئے ہیں۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص تقدیر کے مسئلے میں بحث و مباحثہ کرے گا قیامت میں اس سے باز پرس ہو گی اور جو (شخص اس پر ایمان لاکر) خاموشی اختیار کرے گا وہ اس مواخذہ سے بچ جائے گا۔

 

تشریح

 

اس حدیث کا مقصد تقدیر کے مسئلہ میں غور و فکر اور تحقیق و تجسس سے منع کرنا ہے کہ اللہ کے اس راز میں جو بندوں پر ظاہر نہ کرنا ہی مصلحت خداوندی ہے زیادہ بحث و مباحثہ کرنا یا اپنی عقل کی پیروی کرنا آخرت کے لیے کوئی کار آمد نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ میں کسی قسم کا غور و فکر یا تحقیق و تجسس خسران آخرت اور قیامت میں باز پرس کا باعث ہے اس لیے فلاح و سعادت اسی میں ہے کہ تقدیر پر ایمان لایا جائے اور خاموشی اختیار کر کے عمل میں مصروف رہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ (تابعی) (حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اسم گرامی ضحاک بن فیروز دیلمی ہے آپ کا شمار یمن کے تابعین میں ہوتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی کعب (صحابی) (حضرت ابی بن کعب انصاری و خزرجی ہیں کنیت ابوالمنذر ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے رکھی تھی آپ کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارہ میں کچھ شبہات پیدا ہو رہے ہیں (کہ جب تمام چیزیں نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر یہ ثواب یا عذاب کیسا؟) اس لیے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے تاکہ (اس کی وجہ سے) شاید اللہ تعالیٰ میرے دل کو اس شبہ (کی گندگی) سے پاک کر دے۔ (یہ سن کر) انہوں نے فرمایا۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو وہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرنے والا نہیں ہے (یعنی وہ اہل زمین اور اہل آسمان کو کتنا ہی عذاب دے اسے ظالم نہیں کہا جائے گا) اور اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے نواز دے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے یقیناً بہتر ہو گی، اور اگر تم اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو تمہارا یہ عمل خیر اللہ کے نزدیک اس وقت تک قبول نہیں ہو گا جب تک کہ تم تقدیر پر کامل اعتقاد و ایمان نہ رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ تم کو پہنچا ہے وہ (رکنے) اور خطا کرنے والا نہ تھا اور جو چیز رک گئی اور تمہیں نہیں پہنچی تو (سمجھو کہ) وہ تمہارے مقدر میں نہیں تھی ، اور اگر تم اس حالت میں مر جاؤ کہ اس کے خلاف عقیدہ ہو (یعنی تقدیر پر کامل ایمان نہ ہو) تو یقیناً دوزخ میں جاؤ گے ، ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ بیان سن کر میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے بھی یہی بیان کیا پھر حذیفہ بن یمان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا اور پھر میں زید بن ثابت کے پاس پہنچا انہوں نے اس قسم کی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا۔ (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث کے الفاظ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ الخ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ حاصل ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ اسے میں نے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کیا ہے اور اگر کوئی چیز تمہیں نہ ملے تو یہ مت کہو کہ اگر یہ کوشش اور جدوجہد کرتا تو ضرور اسے حاصل کر لیتا اس لیے کہ جو کچھ تم تک پہنچا ہے اس میں تمہاری سعی و کوشش کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچتا ہے اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ چونکہ ہمارے تمہارے مقدر میں نہیں تھی اس لیے وہ تمہاری کوشش سے بھی نہیں ملتی اس لیے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی چیز کا حاصل ہونا اور نہ ملنا سب تقدیر الہٰی کے مطابق ہے۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت نافع رضی اللہ عنہ (حضرت نافع کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے ١١٠ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) کی روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ فلاں آدمی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے معلوم ہے کہ اس آدمی نے دین میں (کوئی) نئی بات نکالی ہے اگر واقعی اس نے دین میں (کوئی) نئی بات پیدا کی ہے۔ تو میری طرف سے (جواب میں) اسے سلام نہ پہنچاؤ، اس لیے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں سے یا یہ فرمایا کہ اس امت میں سے (اللہ کے درد ناک عذاب زمین میں دھنس جانا، اور صورت کا مسخ ہو جانا یا سنگساری اہل قدر) (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والوں) پر ہو گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)، اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح و غریب ہے۔

 

تشریح

 

آنے والے نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تک جس آدمی کا سلام پہنچایا تھا اس کے بارہ میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا ہو گا کہ اس نے اپنی طرف سے دین میں نئی باتیں پیدا کی ہیں یعنی وہ تقدیر کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے سلام کے جواب میں میرا سلام اس تک نہ پہنچانا کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے سلام کلام نہ کریں اور نہ ان سے تعلقات قائم کریں جو بدعتی ہوں اور خدا، اللہ کے رسول کے قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتے ہوں۔

چنانچہ علماء اسی حدیث کی بنا پر اس بات کا حکم لگاتے ہیں کہ فاسق و فاجر و اہل بدعت کے سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے بلکہ سنت بھی نہیں ہے اور چونکہ ان کے ساتھ یہ معاملہ ان کی تنبیہ کے لیے ہے اس لیے ان سے ترک ملاقات بھی جائز ہے

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ حضرت خدیجہ (ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری خدیجہ بنت خویلد قریشیہ اور اسدیہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں حضرت خدیجہ کا سب سے بڑا امتیازی شرف یہ ہے کہ آپ تمام مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لائیں ہیں۔ آپ کا انتقال ہجرت سے تین سال پہلے مکہ مکرمہ رمضان کے مہینہ میں ٦٥ سال کی عمر میں ہوا۔) آپ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے دونوں بچوں کے بارہ میں پوچھا جو زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) فوت ہو گے تھے (کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ دونوں (بچے) دوزخ میں ہیں، حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خدیجہ کے چہرہ کا رنگ (اپنے بچوں کے بارہ میں سن کر) بدلا ہوا (یعنی ان کو رنجیدہ) دیکھا تو فرمایا، اگر تم ان (بچوں) کے ٹھکانے اور ان کا حال دیکھو کہ وہ کس طرح اللہ کی رحمت سے دور ہیں تو تم کو ان (بچوں) سے نفرت ہو جائے ، پھر حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! اچھا میری وہ اولاد جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پیدا ہوئی ہے (قاسم اور عبد اللہ)  آپ نے فرمایا  وہ جنت میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا کہ مومنین اور ان کی اولاد جنت میں ہیں اور مشرکین کی اولاد دوزخ میں ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہمْ ذُرِّيَّتُہمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہمْ ذُرِّيَّتَہمْ) (52۔ الطور:21) ترجمہ  جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اطاعت کی (تو) ہم ان کی اولاد کو (جنت میں) انہیں کے ساتھ رکھیں گے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ، جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا (تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا (یعنی فرشتہ کو ہاتھ پھیرنے کا حکم دیا) چنانچہ اس کی پشت سے وہ تمام جانیں نکل پڑیں جن کو آدم علیہ السلام کی اولاد میں اللہ تعالیٰ قیامت تک پیدا کرنے والا تھا اور ان میں سے ہر ایک آدمی کی دونوں آنکھوں کے درمیان نور کی چمک رکھی، پھر ان سب کو آدم علیہ السلام کے رو برو کھڑا کیا (ان سب کو دیکھ کر) آدم علیہ السلام نے پوچھا، پروردگار! یہ کون ہیں؟ پروردگار نے فرمایا، یہ سب تمہاری اولاد ہیں۔ آدم علیہ السلام نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں کے درمیان غیر معمولی چمک ان کو بہت بھلی لگ رہی تھی، پوچھا پروردگار! یہ کون ہے؟ فرمایا  یہ داؤد علیہ السلام ہیں۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا ، میرے پروردگار! تو نے ان کی عمر کتنی مقرر کی ہے؟ فرمایا  ساٹھ برس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا، میرے پروردگار! اس کی عمر میں میری عمر سے چالیس سال زیادہ کر دے راوی فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم نے فرمایا جب حضرت آدم کی عمر میں چالیس سال باقی رہ گئے تو موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا، حضرت آدم نے اس سے کہا، کیا ابھی میری عمر میں چالیس سال باقی نہیں ہیں؟ ملک الموت نے کہا، کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنی عمر میں سے چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دیے تھے؟ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس سے انکار کیا اور ان کی اولاد بھی انکار کرتی ہے اور آدم علیہ السلام (اپنے عہد کو) بھول گئے اور انہوں نے شجر ممنوعہ کو کھا لیا اور ان کی اولاد بھی بھولتی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام نے خطاء کی تھی اور ان کی اولاد بھی خطاء کرتی ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کے داہنے مونڈھے پر ہاتھ (دست قدرت) مارا یا (مارنے کا حکم دیا) اور اس سے سفید اولاد نکالی جیسے کہ وہ چیونٹیاں تھیں، پھر بائیں مونڈھے پر ہاتھ مارا اور اس سے سیاہ اولاد نکالی جیسے کہ وہ کوئلہ تھے ، پھر اللہ نے دائیں طرف والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ جنتی ہیں اور مجھ کو اس کی پرواہ نہیں ہے اور ان (آدم) کے بائیں مونڈھے والی اولاد کے بارہ میں فرمایا کہ یہ دوزخی ہیں اور مجھ کو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابونضرہ (حضرت ابونضرہ بن منذر بن مالک العبدی کا شمار بصرہ کے جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے آپ کا انتقال حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ دنوں پہلے ہوا ہے۔) راوی کہتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن کا نام عبداللہ تھا،ان کے پاس ان کے دوست ان کی عیادت کے لیے گئے (تو انہوں نے دیکھا) کہ وہ (ابوعبدا اللہ) رو رہے تھے۔ انہوں نے کہا، کہ آپ کو کس چیز نے رونے پر مجبور کیا (کیونکہ) آپ سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا کہ تم اپنے لب (مونچھوں) کے بال پست کرو اور اسی پر قائم رہو یہاں تک کہ تم مجھ سے (جنت میں) ملاقات کرو۔ ابو عبداللہ نے کہا، ہاں!لیکن میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ (بھی) فرماتے سنا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے داہنے ہاتھ کی مٹھی میں ایک جماعت لی اور فرمایا کہ یہ (داہنے ہاتھ کی جماعت) جنت کے لیے ہے اور بائیں ہاتھ کی جماعت دوزخ کے لیے ہے اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے ، یہ کہہ کر ابوعبد اللہ نے فرمایا، میں نہیں جانتا کہ میں کس مٹھی میں ہوں (یعنی داہنی مٹھی ہوں یا باہنی مٹھی میں ہوں)۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

فائدہ

حضرت ابو عبداللہ صحابی بیمار ہوئے ان کے کچھ دوست و احباب مزاج پرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، ان لوگوں نے یہ کیفیت دیکھ کر کہا کہ آپ کو تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحابیت کا شرف حاصل ہے اور پھر مزید یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ تم اپنی مونچھوں کو پست ہلکی کراتے رہنا اور اسی پر قائم رہنا یہاں تک کہ حوض کوثر پر یا جنت میں مجھ سے تم ملاقات کرو تو گویا آپ کو جنت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی ہے اور ظاہر ہے کہ جنت میں داخل ہونا اور اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہونا بغیر اسلام کے ہو نہیں سکتا، تو معلوم ہوا کہ آپ کا خاتمہ بالخیر ہوا اور آپ ایمان و اسلام کے ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں گے ، لہٰذا پھر رونا کیوں؟ اور یہ فکر و غم کیسا؟ اس کو جواب مرد حق آگاہ نے یہ دیا کہ صحیح اور بجا ہے اور اس خوشخبری کی صداقت کا اعتقاد بھی لیکن پروردگار عالم بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں جس کو چاہوں جنت کی سعادت سے نواز دوں اور جس کو چاہوں دوزخ کے حوالہ کر دوں اور مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ تو مجھے بھی یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ نا معلوم میرا کیا حشر ہو؟ اور دل اس خوف سے لرزاں اور آنکھیں ڈر سے اشک بار ہیں کہ نہ جانے اللہ نے میرے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے۔یہ ان کے جواب کا حاصل تھا ، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے تصور اور خوف اللہ کے غلبہ سے اس خوشخبری کو بھول گئے ہوں اور انہیں اس کا احساس نہ رہا ہو کہ لسان نبوت نے مجھے اس خوشخبری جیسی عظیم سعادت سے بھی نواز رکھا ہے۔

علامہ طیبی علیہ الرحمۃ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مونچھیں ہلکی کرانا سنت موکدہ ہے اور اس عمل پر قائم رہنا اور ہمیشہ اس کو کرتے رہنا جنت میں دخول اور وہاں سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر سایہ ہونے کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اس ایک سنت کو ترک کرنے سے یعنی مونچھیں پست و ہلکی نہ کرانے سے ایسی عظیم سعادت اور اتنی بڑی فلاح ہاتھ سے جاتی ہے چہ جائیکہ سنت کو ہمیشہ ترک کرتا رہے ، اس لیے کہ ترک سنت پر اصرار ، الحاد و زندقہ تک پہنچاتا ہے۔ (نعوذ با اللہ)۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے میدان عرفہ کے قریب مقام نعمان میں آدم کی اس اولاد سے جو ان کی پشت سے نکلی تھی عہد لیا چنانچہ آدم کی پشت سے ان کی ساری اولاد کو نکالا جن کو (ازل سے ابد) تک پیدا کرنا تھا اور ان سب کو چیونٹیوں کی طرح آدم کے سامنے پھیلا دیا پھر اللہ نے ان سے روبرو گفتگو کی، فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آدم کی اولاد نے کہا، بیشک آپ ہمارے رب ہیں پھر اللہ نے فرمایا، یہ شہادت میں نے تم سے اس لیے لی ہے کہ کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل و نا واقف تھے یا تم یہ نہ کہہ دو کہ ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے شرک کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے ہم نے ان کی اطاعت کی تھی ، کیا تو باطل پرستوں کے اعمال کے سبب ہلاک کرتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم قیامت میں یہ دلیل نہیں دے سکتے کہ چونکہ ہمارے باپ دادا نے شرک کیا تھا اس لیے ہم بھی انہیں کے ساتھ رہے ، یا ہم تو اپنے باپ دادا کے پیروکار اور ان کے تابع ہیں انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہوا تھا ہم بھی اسی پر چل رہے تھے لہٰذا اس کفر و شرک کے اصل ذمہ دار ہمارے باپ دادا ہیں جنہوں نے ہمیں اس راستہ پر ڈالا اس اعتبار سے مورد الزام وہ ٹھہر سکتے ہیں، ہم ان کی وجہ سے عذاب و دوزخ کے مستحق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ عذاب کے حقیقی مستحق تو وہی لوگ ہیں جو اس راہ کے پیش رو تھے۔پس اے شرک و کفر کرنے والو! جان لو کہ قیامت کے دن یہ حجت تمہارے لیے کار آمد نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسی لیے ہم نے تم سے اپنی توحید کا اقرار پہلے ہی کر الیا ہے اور تم اس پر شہادت دے چکے ہو، نیز اسی عہد و اقرار کی توثیق اور اس کی یاد دہانی کے لیے ہر دور میں دنیا کے تمام حصوں اور تمام طبقوں میں انبیاء علیہم السلام تشریف لائے تاکہ وہ بنی نوع انسان کو اس کا اپنا عہدہ اقرار یاد دلائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لگائیں۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابی بن کعب اس آیت: (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہوْرِہمْ ذُرِّيَّتَہمْ) 7۔ الاعراف:172) (جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد نکالی)۔ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے (اولاد آدم کو) جمع کیا اور ان کو طرح طرح کا قرار دیا (یعنی کسی کو مالدار کسی کو غریب کرنے کا ارادہ کیا پھر ان کو شکل و صورت عطا کی اور پھر گویائی بخشی، اور انہوں نے باتیں کیں پھر ان سے عہد و پیمان کیا اور پھر ان کو اپنے اوپر گواہ قرار دے کر پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اولاد آدم نے کہا، بے شک !(آپ ہمارے رب ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں سات آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو تمہارے سامنے گواہ بناتا ہوں اور تمہارے باپ آدم کو بھی شاہد قرار دیتا ہوں اس لیے کہ قیامت کے دن کہیں تم یہ نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے نا واقف تھے (اس وقت) تم اچھی طرح جان لو کہ نہ تو میرے سوا کوئی معبود ہے اور نہ میرے سوا کوئی پروردگار ہے ، (اور خبردار) کسی کو میرا شریک قرار نہ دینا، میں تمہارے پاس عنقریب اپنے رسول بھیجوں گا، جو تمہیں میرا عہد و پیماں یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں نازل کروں گا (یہ سن کر) اولاد آدم نے کہا، ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب ہے اور تو ہی ہمارا معبود ہے ، تیرے سوا نہ تو ہمارا کوئی پروردگار ہے اور نہ تیرے علاوہ ہمارا کوئی معبود ہے ، چنانچہ آدم کی ساری اولاد نے اس کا اقرار کیا اور حضرت آدم کو ان کے اوپر بلند کر دیا گیا وہ (اپنی نگاہیں بلند کئے ہوئے) اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کی اولاد امیر بھی ہیں اور فقیر بھی اور خوبصورت بھی ہیں اور بد صورت بھی (یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا، پروردگار اپنے تمام بندوں کو تو نے یکساں کیوں نہیں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں اسے پسند کرتا ہوں کہ میرے بندے میرا شکر ادا کرتے ہیں پھر آدم نے انبیاء کو دیکھا جو چراغ کی مانند روشن تھے اور نور ان کے اوپر جلوہ گر تھا ان سے خصوصیت کے ساتھ رسالت و نبوت کے لیے عہدو پیماں لیے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے : آیت (واذاخذ من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح وابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ بن مریم) (قرآن حکیم) ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے ان کا عہد و پیمان لیا اور آپ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) سے اور نوح اور ابراہیم سے اور موسیٰ اور عیسیٰ بن مریم سے (بھی) عہد و پیمان لیا، ان روحوں کے درمیان حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تھے چنانچہ ان کی روح کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھیج دیا۔ حضرت ابی بیان کرتے ہیں کہ یہ روح حضرت مریم علیہا السلام کے منہ کی طرف سے ان کے جسم میں داخل ہو گئی۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

 حضرت آدم علیہ السلام نے جب ان ارواح میں فرق دیکھا کہ انہیں کی اولاد میں سے کوئی تو سرمایہ دار اور صاحب دولت ہے اور کوئی غریب و مفلس تو انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے بارگاہ الوہیت میں عرض کیا کہ الہ العلمین ! سب میری اولاد میں سے ہیں اور یہ سبھی تیرے بندے ہیں پھر ان میں یہ فرق کیوں؟ کوئی صاحب حیثیت ہے او کوئی لاچار، کسی کو عزت و دولت دے رکھی ہے اور کسی کو غربت و مفلسی!۔

اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان میں فرق پیدا کرنے کی ایک حکمت ہے اور اس میں ایک مصلحت ہے اور وہ یہ کہ اگر میں سب کو یکساں پیدا کر دیتا تو یہ شکر ادا نہ کرتے اور جب ایک انسان میں وہ صفات و خصائل پیدا کر دیے جائیں گے جو دوسرے انسانوں میں نہیں ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر شکر ادا کیا کریں گے مثلاً تنگدست اور مفلس میں تقویٰ ، اطاعت الٰہی کا مادہ ، سکون قلب و دماغ اور دنیا سے بے فکری ہوتی ہے ، جو کسی غنی اور مالدار میں نہیں ہوتی اسی طرح غنی و مالدار کو دولت کی فراوانی اور اسباب معیشت کی آسانیاں حاصل ہوتی ہیں جو غریب و محتاج کو میسر نہیں۔ لہٰذا! جس کے اندر جو خصائل ہوں گے اور وہ ان کی لذت سے نا آشنا ہو گا، دوسرے کے اندر اس کا فقدان دیکھ کر اس نعمت پر شکر گزار ہو گا جس کی بناء پر اللہ کی رحمت کا مستحق قرار دیا جائے گا۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے آئندہ وقوع پذیر ہونے والی باتوں پر گفتگو کر رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہماری باتوں کو سن کر) فرمایا۔ جب تم سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے سرک گیا ہے تو اسے سچ مان لو لیکن جب تم یہ سنو کہ کسی آدمی کی خلقت بدل گئی ہے تو اس کا اعتبار نہ کرو اس لیے کہ انسان اسی چیز کی طرف جاتا ہے جس پر وہ پیدا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

 

تشریح

 

صحابہ آپس میں بیٹھے ہوئے یہ بحث کر رہے تھے کہ جو چیز آئندہ ہونے والی یا جو باتیں وقوع پذیر ہونے والی ہیں، کیا وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہیں یا از خود بغیر قضاء قدر کے واقع ہوتی ہیں، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس مجلس میں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بحث سن کر فرمایا کہ ہر چیز نوشتہ تقدیر کے مطابق بر وقت وقوع پذیر ہوتی ہے اور مثال کے طور پر فرمایا کہ ایک انسان اپنی جس جبلت اور خلقت پر پیدا ہوتا ہے اسی پر ہمیشہ قائم رہتا ہے اور اسی کی طرف اس کا حقیقی میلان رہتا ہے۔ مثلاً جس کو اللہ نے عقلمند و دانا پیدا کیا اور اس کی سرشت و فطرت میں عقل و دانش کا مادہ و دیعت فرمایا اور اس کی تقدیر میں فہم و فراست کے جوہر رکھ دیئے گئے تو وہ کبھی بے وقوف احمق نہیں ہو سکتا، اسی طرح جس آدمی کی جبلت و حماقت کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جس کو فطرتاً بیوقوف و پلید پیدا کیا گیا ہو وہ عقل مند و دانشور نہیں ہو سکتا۔

ہاں ایسے افراد جو اپنی ریاضت و مشقت اور ذاتی محنت و کوشش کی بنا پر عقل کی دولت حاصل کر لیتے ہیں یا اصحاب عقل و دانش کی صحبت اختیار کر کے ان اوصاف کے حامل ہو جاتے ہیں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، اس لیے کہ یہاں بحث جبلت اور خلقت کی ہے کہ جس انسان کو جس خصلت و فطرت پر پیدا کر دیا گیا وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتا اور نہ اس جبلت و خصلت میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ رہا اپنی ذاتی محنت و کوشش یا اصحاب عقل و فہم کی صحبت، تو یہ ایک دوسری چیز ہے کیونکہ یہ بھی نوشتہ تقدیر کے مطابق ہی ہے یعنی جس آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ اپنی محنت و کوشش یا کسی عقل مند و دانشور کی صحبت و قربت کی بنا پر صاحب عقل بنے گا وہ یقیناً اس وصف کو حاصل کر لے گا لیکن جس کی تقدیر میں بے وقوف رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے یا جس کی جبلت میں حماقت رکھ دی گئی ہے اس میں نہ اپنی محنت و کوشش کام کرتی ہے اور نہ کسی عقل مند کی قربت و صحبت۔

 

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

٭٭اور حضرت ام سلمہ (ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریشیہ اور مخزومیہ ہیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطھرہ ھیں ۵۹ھ میں آپ کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں۔) سے مروی ہے کہ انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جو زہر آلود بکری کھائی تھی (جو خیبر میں ایک یہودیہ نے کھلائی تھی) ہر سال اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو تکلیف ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا جو چیز (یعنی اذیت و تکلیف یا بیماری) مجھ کو پہنچتی ہے وہ میرے لیے اسی وقت لکھی گئی تھی جب کہ آدم مٹی کے اندر تھے (یعنی میری تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا)۔ (ابن ماجہ)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

عذاب قبر قرآن و احادیث سے ثابت ہے اس میں کوئی شبہ اور کلام نہیں، یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں قبر سے مراد محض ڈیڑھ دو گز کا گڑھا نہیں ہے بلکہ قبر کا مطلب عالم برزخ ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ایک عالم ہے اور یہ عالم ہر جگہ ہو سکتا ہے جیسے بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں، جلا دیئے جاتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ان پر بھی عذاب مسلط کیا جاتا ہے یہ نہیں ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے صرف ان پر ہی عذاب ہوتا ہے اور جو لوگ دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں۔

عذاب قبر کی تصدیق کے درجات میں صحیح اور اولیٰ مرتبہ اس بات کا اعتقاد و یقین رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں دفن کرنے کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور جو لوگ بد کار و گناہ گار ہوتے ہیں ان پر اللہ کا سخت عذاب نازل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں منکر نکیر، عذاب دینے والے فرشتے اور سانپ و بچھو جو بدکردار و لوگوں پر مسلط کئے جاتے ہیں اور جن کا وجود احادیث سے ثابت ہے۔ یہ سب صحیح اور واقعی چیزیں ہیں ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔

یہ جان لینا چاہئے کہ کسی چیز کو دیکھ لینا اور اس کا مشاہدہ میں آ جانا ہی اس کی صداقت کی دلیل نہیں ہوتا، اس لیے ان چیزوں کے بارہ میں یہ بات دل میں جاگزیں کر لینا کہ جب ان چیزوں کو آنکھ سے دیکھا نہیں جاتا اور یہ مشاہدہ میں نہیں آتیں تو ان کا اعتبار کیسے کیا جائے؟ بالکل غلط اور خلاف عقل ہے ، اس لیے کہ اتنی بات تو ظاہر ہے کہ عالم بالا کی چیزوں کا مشاہدہ کر لینا، عالم ملکوت کو بچشم دیکھ لینا ان ظاہری آنکھوں کے بس کی بات نہیں ہے ، ان کو مشاہدہ کرنے کے لیے چشم حقیقت کی ضرورت ہے ہاں یہ بات بھی ناممکن نہیں ہے کہ اگر اللہ چا ہے تو ان دونوں ظاہری آنکھوں سے بھی عالم ملکوت کو دکھلا سکتا ہے۔

پھر دوسرے یہ کہ اسی دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم بظاہر دیکھ نہیں پاتے اور نہ آنکھیں ان کا مشاہدہ کرتی ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کا ادراک بھی ہوتا ہے اور اس کی حقیقت بھی تسلیم ہوتی ہے مثلاً ایک آدمی عالم خواب میں دنیا بھر کی چیزیں دیکھ اور سن لیتا ہے ، ہر طرح کے غم و مصیبت اور لذت و آرام محسوس کرتا ہے لیکن دوسرا اسے نہیں دیکھ سکتا، یا اسی طرح کسی آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا اسے لذت حاصل ہوتی ہے یا وہ کسی غم و چین کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک دوسرا آدمی اس سے بے خبر رہتا ہے اور وہ اس کا ادراک و احساس نہیں کر سکتا۔

نیز زمانہ نبوت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وحی آتی تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تھے لیکن وہیں مجلس میں بیٹھے ہوئے صحابہ نہیں دیکھتے تھے اور نہ ان کی ظاہری آنکھیں حضرت جبرائیل کا مشاہدہ کرتی تھیں، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام ان پر ایمان لاتے تھے۔

ٹھیک اسی طرح عذاب قبر کا معاملہ ہے ، وہاں جو کچھ بندے کے ساتھ ہوتا ہے اس دنیا میں اس کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے ، بس یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ عذاب قبر کے بارہ میں اللہ اور اللہ کے رسول نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب مبنی بر حقیقت اور یقینی چیزیں ہیں۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭حضرت براء بن عازب (اسم گرامی براء بن عازب اور کنیت ابو عمارہ ہے مدینہ کے باشندہ اور انصاری ہیں جنگ بدر میں آپ شریک نہیں ہو سکے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صغر سنی کی وجہ سے روک دیا تھا سب سے پہلے غزوہ احد میں شریک ہوئے ہیں۔) راوی ہیں کہ سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جس وقت قبر میں مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلا شبہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں اور یہی مطلب ہے اس ارشاد ربانی کا یُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فَی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وِفِیْ الْاٰخِرَۃِ (القرآن) ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت و قائم رکھتا ہے جو ایمان لاتے ہیں مضبوط و محکم طریقہ پر ثابت رکھنا دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں، اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم:27) عذاب قبر کے بیان میں نازل ہوئی ہے (چنانچہ قبر میں مردہ سے) سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 آیت مذکورہ میں بالقول الثابت سے مراد کلمہ شہادت ہے یعنی جب مومن سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا پروردگار کون ہے ، اور تیرا پیغمبر کون ہے اور تیرا دین کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب اسی کلمہ شہادت میں ہے۔

آیت کے دوسرے جز کا مطلب یہ ہے جو لوگ ایمان و یقینی کی روشنی سے اپنے قلوب کو منور کر لیتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان و اسلام کی حقانیت راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دونوں جگہ ان پر رحمت خداوندی کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

دنیاوی زندگی کا اس کا فضل تو یہ ہے کہ وہ اپنے ان نیک بندوں کو کلمہ اسلام کی حقانیت کے اعتقاد پر قائم رکھتا ہے اور ان کے دل میں ایمان و اسلام کی وہ روح اور طاقت بھر دیتا ہے کہ دنیاوی امتحان و آزمائش کے سخت سے سخت موقع پر بھی ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آتی وہ اپنی جانوں کو قربان کر دینا اور آگ میں ڈالے جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے ایمان و اعتقاد میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنا گوارہ نہیں کرتے۔

اخروی زندگی میں اس کی رحمت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی بے شمار نعمتوں سے نوازے جاتے ہیں اور عالم برزخ میں جب قبر کے اندر ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیک ٹھیک جواب دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ کی نجات اور اکرام خداوندی کے مستحق قرار دے دیے جاتے ہیں۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت انس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب بندہ قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے اعزا و احباب واپس آتے ہیں تو وہ (مردہ) ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے اور اس کے پاس (قبر میں) دو فرشتے آتے ہیں اور ان کو بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ کیا کہتے تھے؟ اس کے جواب میں بندہ مومن کہتا ہے ، میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) بلاشبہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اس بندہ سے کہا جاتا ہے کہ تم اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھو جس کو اللہ نے بدل دیا ہے اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں جگہ دی گئی ہے۔ چنانچہ وہ مردہ دونوں مقامات (جنت و دوزخ) کو دیکھتا ہے۔ اور جو مردہ منافق یا کافر ہوتا ہے اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کے بارہ میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ اس کے جواب میں کہتا کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو لوگ (مومن) کہتے تھے وہی میں بھی کہہ دیتا تھا اس سے کہا جاتا ہے نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ تو نے قرآن شریف پڑھا؟ یہ کہہ کر اس کو لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے کہ اس کے چیخنے اور چلانے کی آواز سوائے جنوں اور انسانوں کے قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں)

 

تشریح

 

 جب انسان اس دنیا کی عارضی زندگی ختم کر کے دوسری دنیا میں پہنچتا ہے تو اس کی سب سے پہلی منزل قبر ہوتی ہے ، جسے عالم برزخ بھی کہا جاتا ہے ، مردہ کو قبر میں اتارنے کے بعد جب اس کے عزیز و اقارب واپس لوٹتے ہیں تو اس میں اللہ کی جانب سے وہ قوت سماعت دے دی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ ان لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا رہتا ہے اس کے بعد منکر نکیر قبر میں آتے ہیں اور اس سے دوسرے سوالات کے علاوہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ ان کے متعلق تمہارا اعتقاد کیا ہے ، اگر مرد مومن صادق ہوتا ہے تو وہ صحیح جواب دے دیتا ہے اور اگر وہ کافر ہے تو جواب نہیں دے پاتا بعد میں نتیجہ سنا دیا جاتا ہے کہ صحیح جواب دینے والا اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کا مستحق قرار دے دیا گیا ہے چنانچہ اس کی آخری منزل جنت کی طرف اس کی راہنمائی کر دی جاتی ہے ، غلط جواب دینے والا اللہ کے غضب کا مستحق قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے اس کی آخری منزل دوزخ کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔

حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں کیا کہتے تھے تو اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شہرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف معنوی اشارہ ہوتا ہے یا پھر یہ اس وقت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو مثالی صورت میں مردہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ایک مومن کے لیے موت کی آرزو سب سے بڑی نعمت ہو گی اس لیے کہ وہ اس کی وجہ سے اس عظیم سعادت سے بہرہ ور ہو گا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے منور و مشرف ہو گا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عاشقان رسول کے بے تاب و بے چین قلوب کے لیے اس کے اندر ایک زبردست بشارت ہے۔

بقول شاعر

شب عاشقان بیدل چہ قدر دراز باشد

تو بیا کہ اول شب در صبح باز باشد

 ترجمہ عشاق کی شب ہجر کس قدر طویل ہوتی ہے۔ تو جلدی آ۔ یہ اول شب ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح ہو جائے۔

اس سوال و جواب کے بعد کامیاب مردہ یعنی مسلمانوں کو دونوں جگہیں یعنی جنت و دوزخ دکھلائی جاتی ہیں اور وہ دونوں مقامات دیکھتا ہے تاکہ اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اگر اللہ کی رحمت اس کے شامل حال نہ ہوتی اور وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا تو اس دوزخ میں ڈال دیا جاتا جہاں اللہ کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہوتا لیکن اس نے دنیا میں چونکہ نیک کام کئے اور سچا مخلص مومن بن کر رہا اس کے نتیجے میں اللہ کے فضل و کرم سے اسے جنت کی نعمت عظمی سے نوازا جا رہا ہے نیز ایک طرف تو وہ دوزخ اور اس کے ہیبت ناک منظر کی طرف دیکھے گا دوسری طرف جنت اور اس کی خوشگوار و مسرور کن فضا کی طرف نظر اٹھائے گا تاکہ اس کے دل میں جنت کی نعمت کی قدر ہو۔

اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جب قبر میں معذب مردہ پر عذاب نازل کیا جاتا ہے یعنی فرشتے لوہے کے گرزوں سے اس کو مارتے ہیں تو اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسان نہیں سن پاتے ، اس کی حکمت یہ ہے کہ جن و انس غیب کی چیزوں پر ایمان لانے کے مکلّف ہیں اگر ان کو آواز سنائی دے ، یا وہاں کے حالات کا علم اس دنیا میں ہو جائے تو پھر ایمان با لغیب جاتا رہے گا۔ نیز اگر قبر کے حالات کا احساس انسانوں کو ہونے لگے تو خوف و ہیب ناکی کی وجہ سے دنیا کے کاروبار میں ہلچل مچی رہے گی اور سلسلہ معیشت منقطع ہو جائے گی۔

صحیح احادیث میں مومنین کی نجات اور کافروں و منافقین کے عذاب کے بارہ میں یہی ذکر کیا جاتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اس نجات کا تعلق مومنین صالحین سے ہے لیکن فاسق و گناہ گار مومنین کے بارہ میں احادیث میں کچھ مذکور نہیں ہے کہ آیا ان پر عذاب کیا جاتا یا ان کی بھی نجات ہو جاتی ہے ، البتہ علماء فرماتے ہیں کہ فاسق مومن جواب میں تو مومن صالحین کا شریک ہے لیکن نعمتوں کی خوشخبری، جنت کے دروازے کھلنے وغیرہ میں ان کا شریک نہیں ہے یا اگر ان چیزوں میں بھی ان کا شریک ہو تو پھر مرتبہ و درجہ میں ان سے کم تر ہو گا بلکہ اس پر تھوڑا بہت عذاب بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جس فاسق و گناہ گار کو اللہ تعالیٰ چا ہے تو اسے بخش دے اور اس کی مغفرت کر دے۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور عبداللہ بن عمر راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر کے اندر) صبح اور شام اس کا ٹھکانہ اس کے سامنے لایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہوتا ہے تو جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانہ اس کا انتظار کر، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھا کر وہاں بھیجے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور پھر اس نے حضرت عائشہ سے کہا  عائشہ ! اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے ! حضرت عائشہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عذاب قبر کا حال پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ہاں قبر کا عذاب حق ہے ! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے بعد میں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور قبر کے عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔  (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت عائشہ صدیقہ کو عذاب قبر کا حال معلوم نہیں ہو گا چنانچہ جب اس یہودی عورت نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ بڑی حیران ہوئیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارہ میں سوال کیا جس کا جواب دیا گیا کہ قبر کا عذاب حق اور یقینی ہے ، یعنی اس بات کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ قبر میں گناہ گار لوگوں پر اللہ کی جانب سے طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جاتے ہیں اور اس کا احساس و ادراک اس دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پناہ مانگنے کے بارے میں احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی پہلے سے قبر کے عذاب کا حال معلوم نہ ہوا ہو، اس کے بعد بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم ہوا ہو جس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگنی شروع کر دی اور ظاہر ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تو قبر میں اس قسم کو کوئی معاملہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لیے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پناہ مانگنا محض امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ جب اللہ کا محبوب و برگزیدہ بندہ اور اس کا پیارا رسول بھی عذاب قبر سے پناہ مانگ رہا ہے تو امت کے تمام لوگوں کو چاہئے کہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔

یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عذاب قبر کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے سے معلوم تھا اور پوشیدہ طور پر اس سے پناہ بھی مانگتے ہوں گے جس کی حضرت عائشہ کو خبر نہیں ہو گی، بعد میں حضرت عائشہ کے سوال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھلے طور پر پناہ مانگنی شروع کر دی ہوتا کہ دوسرے بھی متنبہ ہوں اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭ اور حضرت زید بن ثابت(زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گرا دے ، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا،  میں جانتا ہوں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے خدا کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا

ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لیے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔

چانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں ااس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقیناً تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دیتا۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالی کیری آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے نکیر کہتے ہیں وہ دونوں اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کیا کہتے تھے؟ اگر وہ آدمی مومن ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ سن کر) وہ دونوں فرشتے فرماتے ہیں۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقیناً یہی کہے گا، اس کے بعد اس کی قبر کی لمبائی اور چوڑائی میں ستّر ستّر گز کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ (سو جاؤ) مردہ کہتا ہے (میں چاہتا ہوں) کہ اپنے اہل و عیال میں واپس چلا جاؤں تاکہ ان کو (اپنے اس حال سے) باخبر کر دوں۔ فرشتے اس سے فرماتے ہیں تو اس دولہا کی طرح سوجا جس کو صرف وہی آدمی جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے محبوب ہو یعنی ہر کسی کا جگانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے وحشت ہوتی ہے البتہ جب محبوب جگاتا ہے تو اچھا لگتا ہے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا تھا وہی میں کہتا تھا لیکن میں (اس کی حقیقت کو) نہیں جانتا (منافق کا یہ جواب سن کر) فرشتے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یقیناً تو یہی کہے گا، (اس کے بعد) زمین کو مل جانے کا حکم دیا جاتا ہے ، چنانچہ زمین اس مردہ کو اس طرح دباتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں نکل آتی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 قبر میں فرشتے ہیبت ناک اور خوفناک شکل میں آتے ہیں تاکہ ان کے خوف اور شکل کی وجہ سے کافروں پر ہیبت طاری ہو جائے اور وہ جواب دینے میں بد حواس ہو جائیں لیکن یہ مومنوں کے لیے آزمائش و امتحان ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھتا ہے اور وہ نڈر ہو کر صحیح جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اس لیے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر میں ہر قسم کے خوف و ہراس سے نڈر ہو جاتے ہیں۔

مردہ کے جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ ہم جانتے ہیں کہ تو یقیناً یہی کہے گا  یا تو اس بناء پر ہو گا کہ پروردگار عالم کی جانب سے ان کو خبر دی جاتی ہو گی کہ فلاں مردہ یہ جواب دے گا اور فلاں مردہ وہ جواب دے گا، یا وہ مردہ کی پیشانی اور اس کے آثار سے یہ معلوم کر لیتے ہیں۔ کہ مومن کی پیشانی پر نور ایمانی کی چمک اور سعادت و نیک بختی کا نشان ہوتا ہے اور کافر و منافق کے چہرہ پر پھٹکار برستی ہے۔

مومن جب صحیح جواب دے دیتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اس اچھے معاملہ اور عظیم نعمت کی خبر دے دے جیسا کہ جب کوئی مسافر کسی جگہ راحت و سکون پاتا ہے اور وہاں عیش و آرام کے سامان اسے ملتے ہیں تو اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں اپنے اہل و عیال اور اعزا و اقرباء کے پاس جاتا تاکہ انہیں اپنے اس آرام و راحت سے اور چین و سکون سے مطلع کر دیتا۔ اس لیے مومن مردہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت براء بن عازب راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (قبر میں) مردے کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ  تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے  میرا رب اللہ ہے ! پھر فرشتے پوچھتے ہیں  تیرا دین کیا ہے وہ جواب میں کہتا ہے ،  میرا دین اسلام ہے پھر فرشتے اس سے سوال کرتے ہیں، جو آدمی (اللہ کی طرف سے) تمہارے پاس بھیجا گیا تھا وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں پھر فرشتے اس سے پوچھتے ہیں یہ تجھے کس نے بتایا وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ جانا، (یعنی جو کلام اللہ پر ایمان لائے گا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلے ایمان لائے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا۔ آیت (يُثَبِّتُ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ) 14۔ ابراہیم:27) (الایۃ) یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ثابت قدم رکھتا ہے جو ثابت بات پر ایمان لائے (اخیر آیت تک) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ آسمان سے پکارنے والا (یعنی اللہ تعالیٰ یا اس کے حکم سے فرشتہ) پکار کر کہتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کی پوشاک پہناؤ، اور اس کے واسطے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، چنانچہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (جنت کے دروازہ سے) اس کے پاس جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور حد نظر تک اس قبر کو کشادہ کر دیا جاتا ہے اب رہا کافر! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ، پھر اس کی روح اس کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھا کر پوچھتے ہیں،  تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ، ہاہ  ہاہ میں نہیں جانتا، پھر وہ پوچھتے ہیں  تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ، ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا پھر وہ پوچھتے ہیں، یہ آدمی کون ہے (جو اللہ کی جانب سے) تم میں بھیجا گیا تھا، وہ کہتا ہے  ہاہ ہاہ میں نہیں جانتا  پھر آسمان سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا، یہ جھوٹا ہے اس کے لیے آگ کا فرش بچھاؤ، آگ کا لباس اسے پہناؤ اور اس کے واسطے ایک دروازہ دوزخ کی طرف کھول دو آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ دوزخ سے اس کے پاس گرم ہوائیں اور لوئیں آتی ہیں ، اور فرمایا اور اس کی قبر اس کے لیے تنگ کر دی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی پسلیاں ادھر نکل آتی ہیں، پھر اس پر ایک اندھا اور بہرا فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے جس کے پاس لوہے کا ایسا گرز ہوتا ہے کہ اس کو اگر پہاڑ پر مارا جائے تو پیھاڑ مٹی ہو جائے اور وہ فرشتہ اس کو اس گرز سے اس طرح مارتا ہے کہ (اس کے چیخنے چلانے کی آواز مشرق سے مغرب تک تمام مخلوقات سنتی ہے مگر جن و انسان نہیں سنتے اور اس مارنے سے وہ مردہ مٹی ہو جاتا ہے اس کے بعد پھر اس کے اندر روح ڈالی جاتی ہے۔  (مسند احمد بن حنبل و ابوداؤد)

فائدہ

 ہاہ ہاہ ایک لفظ ہے جو عربی میں دہشت زدہ اور متحیر آدمی بولتا ہے جیسے اردو میں حیرت و دہشت کے وقت آہ، ہائے اور وائے وائے بولا جاتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ اس وقت کافر اتنا خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ اس کی زبان سے ہیبت ناکی سے خوف و حسرت کے الفاظ نکلتے ہیں اور وہ صحیح جواب نہیں دے پاتا اور وہ کہتا ہے کہ  میں نہیں جانتا  اس کے اس جواب پر ندائے غیب سے اس کو جھوٹا قرار دیا جاتا ہے ، اس لیے کہ دین اسلام کی آواز مشرق سے لے کر مغرب تک پہنچی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا مشن چار دانگ عالم میں پھیلایا اور تمام دنیا اس آفاقی و آسمانی مذہب سے باخبر تھی، اس کے باوجود اس کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں جانتا یا مجھے کچھ معلوم نہیں ہوا، سراسر کذب اور جھوٹ ہے۔

قبر میں عذاب کے جو فرشتے مقرر کئے جاتے ہیں وہ اندھے اور بہرے ہوتے ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ وہ نہ تو مردہ کے چیخنے چلانے کی آواز سن سکیں اور نہ اس کے حال کو دیکھ سکیں تاکہ رحم نہ آ سکے۔

نیز اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ معذب مردہ کے جسم میں بار بار روح ڈالی جاتی ہے تاکہ اس پر عذاب شدید سے شدید ہو سکے اور یہ اس چیز کا انجام ہے کہ وہ دنیا میں عذاب قبر کا انکار کیا کرتا تھا اور اس کو جھٹلایا کرتا تھا۔ (نعوذ با اللہ)۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ جب وہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو (خوف خدا سے) اس قدر روتے کہ ان کی ڈاڑھی (آنسوؤں) سے تر ہو جاتی، ان سے کہا گیا کہ آپ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور اس جگہ کھڑے ہو کر روتے ہیں (اس کے جواب میں) انہوں نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے ، آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے لہٰذا جس نے اس منزل سے نجات پائی اس کو اس کے بعد آسانی ہے اور جس نے اس منزل سے نجات نہیں پائی اس کو اس کے بعد سخت دشواری ہے  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ میں نے کبھی کوئی منظر قبر سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، اور جامع ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

فائدہ

 یعنی قبر پر کھڑے ہو کر انسان عیش و عشرت کو بھول جاتا ہے اور دنیا کی بے ثباتی پر اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف خدا سے اپنے قلب کو لرزاں پاتا ہے اور آخرت سے لگاؤ محسوس کرتا ہے نیز قبر عیش و عشرت سے متنفر کرتی ہے اور محنت و مشقت اور یاد الہٰی میں مصروف رکھتی ہے۔ اسی کو فرمایا گیا ہے سب سے زیادہ سخت جگہ قبر ہے۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر کے پاس کھڑے ہو کر (لوگوں سے) فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے ثابت قدم رہنے کی دعا مانگو، یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت اس کو ثابت قدم رکھے اس لیے کہ اس وقت اس سے سوال کیا جاتا ہے۔(ابوداؤد)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

فائدہ

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زندوں کی طرف سے مردہ کے لیے دعائے استغفار کارآمد اور مفید ہے چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے۔

یہ دعا نیز مردہ کی استقامت و اثبات کے لیے دعا، تلقین میت کے علاوہ ہیں جو دفن کرنے کے بعد کرتے ہیں تلقین میت کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تلقین اکثر حنفیہ کے یہاں ثابت نہیں ہے لیکن اکثر شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک مستحب ہے ، چنانچہ دفن کرنے کے بعد تلقین میت کے سلسلے میں ایک حدیث ابوامامہ صحابی سے وارد ہوئی ہے جسے علامہ سیوطی نے جمع الجوامع میں طبرانی سے ذکر کیا ہے اور ابن نجار، ابن عساکر اور دیلمی نے بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی انتقال کر جائے اور اسے دفن کر چکو تو ایک آدمی قبر کے سرہانے کھڑا ہو اور کہے  اے فلاں ابن فلاں مردہ یہ الفاظ سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا، وہ آدمی پھر کہے اے فلاں ابن فلاں اس مرتبہ مردہ کہتا ہے اللہ آپ رحم کرے ، ارشاد فرمائیے ، لیکن تم اسے نہیں سنتے۔ اس کے بعد اس آدمی کو کہنا چاہئے ، اے فلاں! اس کلمہ کو یاد کرو جس پر تم اس دنیا سے سدھارے اور وہ لا الہ الا اللہ وان محمد اعبدہ ورسول کی شہادت ہے نیز تم اس پر راضی ہوئے کہ اللہ تمہارا پروردگار ہے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے ساتھی پیغمبر ہیں، اسلام تمہارا دین ہے اور قرآن تمہارا راہبر امام ہے جب یہ کہا جاتا ہے تو منکر و نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ چلو اس بندہ کے سامنے باہر نکلو! اس سے ہمیں کیا سروکار کیونکہ حق تعالیٰ کی جانب سے اس کو تلقین کی جار ہی ہے۔

ایک صحابی نے عرض کیا ! یا رسول اللہ اگر ہم میت کی ماں کا نام نہ جانتے ہوں تو کیا کہیں اور اس کی نسبت کس طرف کریں؟ رسول اللہ نے فرمایا، حوا کی طرف نسبت کرو اس لیے کہ وہ سب کی ماں ہیں۔

نیز تلقین میت کے سلسلہ میں اس کے علاوہ قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر سورہ بقرہ کا  مفلحون اور آمن الرسول سے آخر سورت تک پڑھنا بھی منقول ہے اور اگر قرآن شریف پورا پڑھا جائے تو یہ سب سے افضل و بہتر ہے بعض علماء نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر وہاں کسی بھی مسئلہ کا ذکر کیا جائے تو یہ بھی فضیلت کا باعث اور رحمت خداوندی کے نزول کا سبب ہو گا۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، کافر کے اوپر اس کی قبر میں ننانوے اژدھا مسلّط کئے جاتے ہیں جو اس کو قیامت تک کاٹتے اور ڈستے ہیں اور وہ اژدھا ایسے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک اژدہا زمین پر پھنکار مارے تو زمین سبزہ اگانے سے محروم ہو جائے ، دارمی اور جامع ترمذی سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے لیکن اس میں بجائے ننانوے کے ستّر کا عدد ہے۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کر دی گئی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تسبیح (یعنی سبحان اللہ) پڑھتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کر دیا۔  (مسند احمد بن حنبل)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

فائدہ

 تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

چنانچہ اسی لیے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب خداوندی سے دور ہوتا ہو جائے گا۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سعد ابن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) وہ آدمی ہیں جن کے لیے عرش نے حرکت کی (یعنی ان کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا) اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ان کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے اور ان کی قبر تنگ کی گئی۔ پھر یہ تنگی دور ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے ان کی قبر کشادہ ہو گئی۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت اسماء بنت ابی بکر راوی ہیں کہ ایک دن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور قبر کے فتنہ کا ذکر فرمایا جس میں انسانوں کو مبتلا کیا جاتا ہے چنانچہ اس ذکر سے مسلمان (خوف زدہ ہو کر روتے) اور چلاتے رہے ، یہ روایت صحیح البخاری کی ہے اور سنن نسائی نے اتنا اور زیادہ بیان کیا ہے کہ (خوف و دہشت کی وجہ سے) مسلمانوں کے چیخنے اور چلانے کے سبب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کو نہ سن سکی، جب یہ چیخنا چلانا بند ہوا تو میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے پوچھا، اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارے علم و حلم میں زیادتی ہو، آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا؟) اس آدمی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھ پر یہ وحی آئی ہے کہ تم قبروں کے اندر فتنہ میں ڈالے جاؤ گے یعنی تم کو آزمایا جائے گا اور یہ آزمائش و امتحان فتنہ دجال کے قریب قریب ہو گا۔ 

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

فائدہ

 مطلب یہ ہے کہ جس طرح فتنہ دجال اپنی تباہی و بربادی اور نقصان و خسران کی بناء پر سخت ہلاکت آفریں اور تباہ کن ہو گا، اسی طرح فتنہ قبر بھی ہول و دہشت اور اپنی شدت و سختی کی بنا پر بہت زیادہ خوفناک ہو گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ ایسے سخت و نازک وقت میں اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور اس امتحان و آزمائش میں ثابت قدم رکھے۔

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب مردہ (مومن) کو قبر کے اندر دفن کر دیا جاتا ہے تو اس کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کیا جاتا ہے ، چنانچہ وہ مردہ ہاتھوں سے آنکھوں کو ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑ دو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

فائدہ

 با عمل مومن مردہ جس وقت قبر میں دفن کیا جاتا ہے تو وہ جس طرح دنیا میں ایمان و اسلام پر قائم رہا اور فرائض اسلام کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ رہا، اسی طرح قبر میں بھی اسے سب سے پہلے نماز ہی یاد آتی ہے چنانچہ جب منکر و نکیر اس کے پاس قبر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہ سوال و جواب سے پہلے نماز ادا کرنے کے لیے کہتا ہے کہ پہلے نماز پڑھ لوں اس کے بعد تمہیں جو کچھ کہنا سننا ہو کہو سنو یا سوال و جواب کے بعد وہ یہ الفاظ کہتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے درمیان بیٹھا ہوں، اس کے شعور و احساس میں سب سے پہلے نماز ہی آتی ہے۔ یہ حالت اس کی رعایت حال پر دلالت کرتی ہے کہ گویا وہ ہنوز دنیا میں ہی ہے اور سو کر ابھی اٹھا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو بندہ دنیا میں پکا نمازی ہو گا، اور جس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی ہو گی، قبر میں بھی حسب عادت اسے پہلے نماز ہی یاد آئے گی۔

دفن کے بعد مردہ کے سامنے غروب آفتاب کا وقت پیش کرنا اس کی حالت مسافر اور تنہائی کی مناسبت کی وجہ سے ہے چنانچہ جب کوئی مسافر کسی شہر میں شام کو پہنچتا ہے تو وہ حیرانی و پریشانی کے عالم میں چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کہاں جاؤں اور کیا کروں؟ جیسا کہ شام غریباں مشہور ہے۔

تو زلف راکشا دی و تاریک شد جہاں

اکنوں فتاد شام غریباں کجا روند

اور

نماز شام غریباں چوگریہ آغازم

بہائے ہائے غریبانہ گر بہ پردازم

 

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

٭٭حضرت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب مردہ قبر کے اندر پہنچتا ہے (یعنی اسے دفن کر دیا جاتا ہے) تو (نیک) بندہ قبر کے اندر اس طرح اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے کہ نہ تو وہ لمحہ بھر خوفزدہ ہوتا اور نہ گھبرایا ہوا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کہ  تم کس دین میں تھے؟ وہ کہتا ہے میں دین اسلام میں تھا! پھر اس سے پوچھا جاتا ہے  یہ آدمی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کون ہیں؟ وہ کہتا ہے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں جو اللہ کے پاس سے ہمارے لیے کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آئے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا تم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ کو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا! اس کے بعد اس کے لیے ایک روشن دان دوزخ کی طرف کھولا جاتا ہے اور وہ ادھر دیکھتا ہے اور آگ کے شعلوں کو اس طرح بھڑکتا ہوا پاتا ہے گویا اس کی لپیٹیں ایک دوسرے کو کھا رہی ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے ، اس چیز کو دیکھو جس سے اللہ نے تجھے بچایا ہے ، پھر اس کے لیے ایک کھڑکی جنت کی طرف کھول دی جاتی ہے ، وہ جنت کی تر و تازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے ، یہ تمہارا ٹھکانہ ہے کیونکہ (تمہارا اعتقاد مضبوط اور اس پر) تمہیں کامل یقین تھا اور اسی (یقین و اعتماد) کی حالت میں تمہاری وفات ہوئی اور اسی حالت میں تمہیں (قیامت کے دن) اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور بدکار بندہ اپنی قبر میں خوف زدہ اور گھبرایا ہوا اٹھ کر بیٹھتا ہے پس اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین میں تھا؟ وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا، پھر اس سے پوچھا جاتا ہے یہ آدمی (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کون تھے  وہ کہتا ہے میں لوگوں کو جو کچھ کہتے سنتا تھا وہی میں کہتا تھا، اس کے بعد اس کے لیے بہشت کی طرف ایک روشن دان کھولا جاتا ہے جس سے وہ بہشت کی تر و تازگی اور اس کی چیزوں کو دیکھتا ہے پھر اس سے کہا جاتا ہے ، اس چیز کی طرف دیکھ جسے اللہ نے تجھ سے پھر لیا ہے پھر اس کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ آگ کے تیز شعلے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ اور اس سے کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس شک کے سبب جس میں تو مبتلا تھا اور جس پر تو مرا اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ (سنن ابن ماجہ)