صحیح مسلم

توبہ کا بیان

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6952

حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرُنِي، وَاللَّهِ لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَّتَهُ بِالْفَلَاةِ، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَيَّ يَمْشِي أَقْبَلْتُ إِلَيْهِ أُهَرْوِلُ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوں (علم سے) جہاں وہ میری یاد کرے اور البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے تم میں سے کوئی خالی زمین میں اپنا گمشدہ جانور پائے اور جو شخص میری طرف ایک بالشت نزدیک ہو میں اس کی طرف ایک ہاتھ نزدیک ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ نزدیک ہو تو میں ایک «باع» (دونوں ہاتھوں کا پھیلاؤ) نزدیک ہوتا ہوں اور جب وہ میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تو میں دوڑتا ہوا اس کی طرف آتا ہوں (اس حدیث کی شرح اوپر گزر چکی)۔“

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6953

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا "،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ تم میں سے جب کوئی توبہ کرے تو اس سے زیادہ خوش ہے جتنا کوئی تم میں سے اپنا گمشدہ جانور پانے سے خوش ہوتا ہے۔“

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6954

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ حدیث کے ہم معنی روایت کرتے ہیں۔

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6955

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ أَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَحَدَّثَنَا بِحَدِيثَيْنِ حَدِيثًا عَنْ نَفْسِهِ، وَحَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ مِنْ رَجُلٍ فِي أَرْضٍ دَوِّيَّةٍ مَهْلِكَةٍ مَعَهُ رَاحِلَتُهُ عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَنَامَ فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ، فَطَلَبَهَا حَتَّى أَدْرَكَهُ الْعَطَشُ، ثُمَّ قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِيَ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ، فَأَنَامُ حَتَّى أَمُوتَ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى سَاعِدِهِ لِيَمُوتَ، فَاسْتَيْقَظَ وَعِنْدَهُ رَاحِلَتُهُ وَعَلَيْهَا زَادُهُ وَطَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَاللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ الْمُؤْمِنِ مِنْ هَذَا بِرَاحِلَتِهِ " وَزَادِهِ،

سیدنا حارث بن سوید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں عبداللہ کے پاس گیا ان کی تیمارداری کو وہ بیمار تھے، انہوں نے مجھ سے دو حدیثیں بیان کیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ انہوں نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ مومن کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ایک پٹ پر میدان میں (جہاں نہ سایہ ہو نہ پانی) جو ہلاک کرنے والا ہو سو جائے اور اس کے ساتھ اس کا اونٹ ہو جس پر اس کا کھانا اور پانی ہو جب وہ جاگے تو اپنا اونٹ نہ پائے، پھر اس کو ڈھونڈے یہاں تک کہ پیاسا ہو جائے، پھر کہے میں لوٹ جاؤں جہاں تھا اور سوتے سوتے مر جاؤں، پھر اپنا سر اپنے بازو پر رکھے مرنے کے لیے پھر جو جاگے تو اپنا اونٹ اپنے پاس پائے اس پر اس کا توشہ ہو کھانا بھی اور پانی بھی، تو اللہ تعالیٰ کو مومن بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس شخص کو اپنے اونٹ اور توشہ ملنے سے ہوتی ہے۔“

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6956

وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: مِنْ رَجُلٍ بِدَاوِيَّةٍ مِنَ الْأَرْضِ،

اس سند سے بھی یہ حدیث اسی طرح مروی ہے۔ البتہ اس میں یہ ہے کہ آدمی جنگل کی زمین میں ہو۔

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6957

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَارِثَ بْنَ سُوَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ ، حَدِيثَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ الْمُؤْمِنِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ جَرِيرٍ.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6958

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: خَطَبَ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ ، فَقَالَ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ حَمَلَ زَادَهُ وَمَزَادَهُ عَلَى بَعِيرٍ، ثُمَّ سَارَ حَتَّى كَانَ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَأَدْرَكَتْهُ الْقَائِلَةُ فَنَزَلَ، فَقَالَ: تَحْتَ شَجَرَةٍ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ وَانْسَلَّ بَعِيرُهُ، فَاسْتَيْقَظَ فَسَعَى شَرَفًا، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَانِيًا، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا ثُمَّ سَعَى شَرَفًا ثَالِثًا، فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَأَقْبَلَ حَتَّى أَتَى مَكَانَهُ الَّذِي قَالَ فِيهِ فَبَيْنَمَا هُوَ قَاعِدٌ إِذْ جَاءَهُ بَعِيرُهُ يَمْشِي حَتَّى وَضَعَ خِطَامَهُ فِي يَدِهِ، فَلَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ الْعَبْدِ مِنْ هَذَا حِينَ وَجَدَ بَعِيرَهُ عَلَى حَالِهِ "، قَالَ سِمَاكٌ: فَزَعَمَ الشَّعْبِيُّ أَنَّ النُّعْمَانَ رَفَعَ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَمْ أَسْمَعْهُ.

سماک سے روایت ہے، سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا تو کہا: البتہ اللہ کو اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کا توشہ اور توشہ دان ایک اونٹ پر ہو، پھر وہ چلے اور ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں کھانا اور پانی نہ ہو اور دوپہر کا وقت ہو جائے وہ اترے اور ایک درخت کے تلے سو جائے، اس کی آنکھ لگ جائے اور اونٹ چل دے جب جاگے اور ایک اونچائی پر چڑھے تو اونٹ نہ پائے، پھر دوسری اونچائی پر چڑھے کچھ نہ دیکھے، پھر تیسری اونچائی پر چڑھے کچھ نہ دیکھے، پھر لوٹ کر اپنی اسی جگہ میں آئے جہاں سویا تھا اور وہ بیٹھا ہوا اتنے میں اس کا اونٹ چلتا ہوا آئے یہاں تک کہ اپنی نکیل اس کے ہاتھ میں دے دے، البتہ اللہ تعالیٰ کو بندہ کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنا اونٹ اسی طرح پاتا ہے۔ سماک نے کہا: شعبی نے کہا: نعمان نے یہ حدیث مرفوع کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لیکن میں نے تو نعمان سے مرفوع کرتے نہیں سنا۔

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6959

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَجَعْفَرُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ جَعْفَرٌ: حَدَّثَنَا، وقَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ ، عَنْ إِيَادٍ ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهُ تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَيْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ،؟ وَعَلَيْهَا لَهُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَهَا حَتَّى شَقَّ عَلَيْهِ ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ، فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَةً بِهِ؟ "، قُلْنَا: شَدِيدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا وَاللَّهِ لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهِ "، قَالَ جَعْفَرٌ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادٍ، عَنْ أَبِيهِ.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم کیا کہتے ہو اس شخص کو کتنی خوشی ہو گی جس کا اونٹ بھاگ جائے اپنی نکیل کھینچتا ہوا ایسے پٹ پر میدان میں جہاں نہ کھانا ہو، نہ پانی اور اس کا کھانا اور پانی سب اسی اونٹ پر ہو، پھر وہ اس کو ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے تھک جائے۔ آخر وہ اونٹ ایک درخت کی جڑ پر گزرے اور اس کی نکیل اس جڑ سے اٹک جائے، پھر وہ شخص اس اونٹ کو اس درخت سے اٹکا ہوا پائے۔“ ہم لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس شخص کو بہت خوشی ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار ہو جاؤ البتہ اللہ کی قسم! اللہ کو اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔“

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6960

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَهُوَ عَمُّهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ، فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ، فَأَيِسَ مِنْهَا، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا "، ثُمَّ قَالَ: " مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ ".

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ خوشی ہوتی ہے اپنے بندہ کی توبہ سے جب وہ توبہ کرتا ہے تم میں سے اس شخص سے جو اپنے اونٹ پر سوار ہو ایک صاف بےآب و دانہ جنگل میں، پھر وہ اونٹ نکل بھاگے اسی پر اس کا کھانا اور پانی ہو۔ آخر وہ اس سے ناامید ہو کر ایک درخت تلے آ کر لیٹ رہے اس کے سایہ میں اور اونٹ سے بالکل ناامید ہو گیا ہو، وہ اسی حال میں ہو کہ یکایک اونٹ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو جا‎ئے اور وہ اس کی نکیل تھام لے، پھر خوشی کے مارے بھول کر غلطی سے کہنے لگے: یااللہ! تو میرا بندہ ہے میں تیرا رب ہوں خوشی کے سبب سے ایسی غلطی کرے۔“ (یعنی یوں کہنا تھا یااللہ! تو میرا رب ہے میں تیرا بندا ہوں پر خوشی سے زبان میں الٹا نکل جائے)۔

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6961

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَلَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ إِذَا اسْتَيْقَظَ عَلَى بَعِيرِهِ قَدْ أَضَلَّهُ بِأَرْضِ فَلَاةٍ "،

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے اپنے بندہ کی توبہ سے بہ نسبت اس شخص کے تم میں سے جو جاگتے ہی اپنا اونٹ دیکھے جو گم ہو گیا ہو ایک خشک جنگل میں۔“

توبہ کی ترغیب دینے اور توبہ کرنے پر خوش ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6962

وحَدَّثَنِيهِ أَحْمَدُ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ باب: استغفار اور توبہ سے گناہوں کے ساقط ہونے کے بیان میں

توبہ استغفار کرنے سے گناہ جھڑ جاتے ہیں

حد یث نمبر - 6963

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ قَاصِّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، أَنَّهُ قَالَ: حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ كُنْتُ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْلَا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللَّهُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ يَغْفِرُ لَهُمْ ".

سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب ان کی وفات قریب ہوئی تو انہوں نے کہا: میں نے ایک حدیث کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے میں نے سنی تھی تم سے چھپایا تھا (مصلحت سے کہ لوگ اس پر تکیہ نہ کریں اور گناہ سے بے ڈر نہ ہو جائیں) میں نے سنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر تم گناہ نہ کر البتہ اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا کرے جو گناہ کریں (پھر بخشش مانگیں) اللہ تعالیٰ ان کو بخشے۔“

توبہ استغفار کرنے سے گناہ جھڑ جاتے ہیں

حد یث نمبر - 6964

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْفِهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَوْ أَنَّكُمْ لَمْ تَكُنْ لَكُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا اللَّهُ لَكُمْ لَجَاءَ اللَّهُ بِقَوْمٍ لَهُمْ ذُنُوبٌ يَغْفِرُهَا لَهُمْ ".

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔

توبہ استغفار کرنے سے گناہ جھڑ جاتے ہیں

حد یث نمبر - 6965

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ جَعْفَرٍ الْجَزَرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللَّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ فَيَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو، البتہ اللہ تعالیٰ تم کو فنا کر دے اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے جو گناہ کریں، پھر اس سے بخشش مانگیں اور اللہ تعالیٰ بخشے ان کو۔“ (سبحان اللہ! مالک کے سامنے قصور کا اقرار کرنا اور معذرت کرنا اور توبہ کرنا اور معافی چاہنا کیسی عمدہ بات ہے اور مالک کو کیسے پسند ہے۔ کسی بزرگ نے کہا کہ وہ گناہ مبارک ہے جس کے بعد عذر ہو اور وہ عبادت منحوس ہے جس سے غرور پیدا ہو۔) باب: ہمیشہ ذکر کرنے کی فضیلت اور اس کا ترک جا‎ئز ہونے کا بیان

ذکر کے دوام اور امور آخرت میں غور و فکر کی فضیلت، اور بعض اوقات اس کو چھوڑنے، اور دنیا کے ساتھ مشغول ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6966

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّيْمِيُّ ، وَقَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ ، قَالَ: وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَنْتَ يَا حَنْظَلَةُ؟، قَالَ: قُلْتُ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ مَا تَقُولُ؟، قَالَ: قُلْتُ: نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ عَيْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ، فَنَسِينَا كَثِيرًا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَلْقَى مِثْلَ هَذَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا ذَاكَ؟ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ حَتَّى كَأَنَّا رَأْيُ عَيْنٍ، فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالْأَوْلَادَ وَالضَّيْعَاتِ نَسِينَا كَثِيرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَى مَا تَكُونُونَ عِنْدِي، وَفِي الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى فُرُشِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ، وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ".

سیدنا حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ محرروں میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے کہا: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور پوچھا: کیسا ہے تو اے حنظلہ! میں نے کہا: حنظلہ تو منافق ہو گیا (یعنی بے ایمان)۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سبحان اللہ! تو کیا کہتا ہے؟ میں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو یاد دلاتے ہیں دوزخ اور جنت کی گویا دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں، پھر جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو بیبیوں، اولاد اور کاروبار میں مصروف ہو جاتے ہیں تو بہت بھول جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ہمارا بھی یہی حال ہے، پھر میں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس پہنچے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حنطلہ منافق ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا کیا مطلب ہے؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہم کو یاد دلاتے ہیں دوزخ اور جنت کی گویا دونوں ہماری آنکھ کے سامنے ہیں، پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو بیبیوں، بچوں اور کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں اور بہت باتیں بھول جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم سدا بنے رہو اسی حال پر جس طرح میرے پاس رہتے ہو اور یاد الہٰی میں رہو البتہ فرشتے تم سے مصافحہ کریں تمہارے بستروں پر اور تمہاری راہوں میں۔ لیکن اے حنطلہ! ایک ساعت دنیا کا کاروبار اور ایک ساعت یاد پروردگار۔“ تین بار یہ فرمایا۔

ذکر کے دوام اور امور آخرت میں غور و فکر کی فضیلت، اور بعض اوقات اس کو چھوڑنے، اور دنیا کے ساتھ مشغول ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6967

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ حَنْظَلَةَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَعَظَنَا فَذَكَّرَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَضَاحَكْتُ الصِّبْيَانَ وَلَاعَبْتُ الْمَرْأَةَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا تَذْكُرُ، فَلَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَافَقَ حَنْظَلَةُ، فَقَالَ: مَهْ فَحَدَّثْتُهُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا فَعَلَ، فَقَالَ يَا حَنْظَلَةُ: " سَاعَةً وَسَاعَةً وَلَوْ كَانَتْ تَكُونُ قُلُوبُكُمْ كَمَا تَكُونُ عِنْدَ الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُسَلِّمَ عَلَيْكُمْ فِي الطُّرُقِ "،

سیدنا حنطلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کی اور دوزخ کا ذکر کیا پھر میں گھر میں آیا اور بچوں سے ہنسا اور بیوی سے کھیلا۔ پھر میں نکلا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے، میں نے ان سے بیان کیا: انہوں نے کہا: میں نے بھی ایسا ہی کہا: پھر ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! حنظلہ تو منافق ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کہتا ہے۔“ میں نے سارا حال بیان کیا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بھی حنظلہ کی طرح کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حنطلہ! ایک ساعت یاد کی ہے اور ایک ساعت غفلت کی۔ اگر تمہارے دل اسی طرح رہیں جیسے وعظ کے وقت ہوتے ہیں تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں یہاں تک کہ راستوں میں تم کو سلام کریں۔“

ذکر کے دوام اور امور آخرت میں غور و فکر کی فضیلت، اور بعض اوقات اس کو چھوڑنے، اور دنیا کے ساتھ مشغول ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 6968

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ حَنْظَلَةَ التَّمِيمِيِّ الْأُسَيِّدِيِّ الْكَاتِبِ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَّرَنَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِهِمَا.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ باب: اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کا بیان اور رحمت غصہ سے زیادہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6969

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ يَعْنِي الْحِزَامِيَّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بنایا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ کتاب اس کے پاس ہے عرش کے اوپر کہ میری رحمت غضب پر غالب ہو گی۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6970

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری رحمت میرے غصہ سے آگے بڑھ گئی ہے۔“(یعنی رحمت زیادہ ہے)۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6971

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا قَضَى اللَّهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِي كِتَابِهِ عَلَى نَفْسِهِ، فَهُوَ مَوْضُوعٌ عِنْدَهُ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کو بنا چکا تو اپنی کتاب میں لکھا اپنے اوپر، وہ کتاب اس کے پاس رکھی ہے کہ میری رحمت غالب ہو گی میرے غصہ پر۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6972

حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " جَعَلَ اللَّهُ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ تَتَرَاحَمُ الْخَلَائِقُ حَتَّى تَرْفَعَ الدَّابَّةُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے کیے ہیں تو ننانوے حصے تو اپنے پاس رکھے اور زمین میں ایک حصہ اتارا اسی حصہ سے خلقت ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک کہ جانور اپنا کھر اٹھا لیتا ہے کہ بچے کو نہ لگ جائے۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6973

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنُونُ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَلَقَ اللَّهُ مِائَةَ رَحْمَةٍ فَوَضَعَ وَاحِدَةً بَيْنَ خَلْقِهِ وَخَبَأَ عِنْدَهُ مِائَةً إِلَّا وَاحِدَةً ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کیں تو ایک ان میں سے اپنی مخلوقات کو دی اور ایک کم سو اپنے پاس چھپا رکھیں۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6974

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ أَنْزَلَ مِنْهَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالْبَهَائِمِ وَالْهَوَامِّ، فَبِهَا يَتَعَاطَفُونَ، وَبِهَا يَتَرَاحَمُونَ، وَبِهَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَى وَلَدِهَا وَأَخَّرَ اللَّهُ تِسْعًا وَتِسْعِينَ رَحْمَةً يَرْحَمُ بِهَا عِبَادَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں ان میں سے ایک رحمت اتاری جنوں، آدمیوں، جانوروں اور کیڑوں میں۔ اسی ایک رحمت کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کی وجہ سے جانور وحشی اپنے بچے سے محبت کرتا ہے اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھیں جو اپنے بندوں پر کرے گا قیامت کے دن۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6975

حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مِائَةَ رَحْمَةٍ، فَمِنْهَا رَحْمَةٌ بِهَا يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ بَيْنَهُمْ، وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ "،

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی سو رحمتیں ہیں تو ایک رحمت کی وجہ سے خلق اللہ آپس میں رحم کرتے ہیں اور باقی رحمتیں قیامت کے لیے ہیں۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6976

وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.

معتمر اپنے باپ سے اسی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6977

حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِائَةَ رَحْمَةٍ، كُلُّ رَحْمَةٍ طِبَاقَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَعَلَ مِنْهَا فِي الْأَرْضِ رَحْمَةً، فَبِهَا تَعْطِفُ الْوَالِدَةُ عَلَى وَلَدِهَا وَالْوَحْشُ وَالطَّيْرُ بَعْضُهَا عَلَى بَعْضٍ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَكْمَلَهَا بِهَذِهِ الرَّحْمَةِ ".

سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جس دن آسمان اور زمین بنائے اس دن سو رحمتیں پیدا کیں۔ ہر ایک رحمت اتنی بڑی ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین میں ہے تو ان میں سے ایک رحمت زمین میں کی جس کی وجہ سے ماں بچے سے محبت کرتی ہے اور وحشی جانور اور پرندے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، پھر قیامت کا دن ہو گا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے گا اس رحمت سے۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6978

حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ وَاللَّفْظُ لِحَسَنٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْيٍ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنَ السَّبْيِ تَبْتَغِي إِذَا وَجَدَتْ صَبِيًّا فِي السَّبْيِ أَخَذَتْهُ، فَأَلْصَقَتْهُ بِبَطْنِهَا وَأَرْضَعَتْهُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَرَوْنَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ؟ "، قُلْنَا " لَا وَاللَّهِ وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى أَنْ لَا تَطْرَحَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا ".

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے، ایک عورت ان میں سے کسی کو ڈھونڈھتی تھی، جب اس نے ایک بچے کو پایا ان قیدیوں میں سے تو اس کو اٹھایا اور پیٹ سے لگایا اور دودھ پلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم فرمایا: ”کیا سمجھتے ہو یہ عورت اپنے بچے کو انگار میں ڈال دے گی؟“ ہم نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم وہ کبھی ڈال نہ سکے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”البتہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر زیادہ مہربان ہے اس سے جتنی یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6979

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ جَمِيعًا، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ مَا قَنَطَ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مومن کو معلوم ہو جو اللہ کے پاس عذاب ہے البتہ جنت کی طمع کوئی نہ کرے اور کافر کو اگر معلوم ہو جو اللہ کے پاس رحمت ہے البتہ اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہو۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6980

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقِ بْنِ بِنْتِ مَهْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ رَجُلٌ: لَمْ يَعْمَلْ حَسَنَةً قَطُّ لِأَهْلِهِ إِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ ثُمَّ اذْرُوا نِصْفَهُ فِي الْبَرِّ، وَنِصْفَهُ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لَا يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ، فَلَمَّا مَاتَ الرَّجُلُ فَعَلُوا مَا أَمَرَهُمْ، فَأَمَرَ اللَّهُ الْبَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، وَأَمَرَ الْبَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ يَا رَبِّ وَأَنْتَ أَعْلَمُ فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، وہ جو مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا: مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں، کیونکہ اللہ کی قسم! اگر اللہ مجھ کو پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرنے کا۔ جب وہ شخص مر گیا اس کے لوگوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا اس نے سب راکھ اکھٹی کر دی پھر سمندر کو حکم دیا اس نے بھی اکٹھی کر دی، پھر پروردگار نے اس شخص سے فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا: تیرے ڈر سے اے پروردگار اور تو خوب جانتا ہے، پروردگار نے اس کو بخشش دیا۔“

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6981

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، قَالَ: قَالَ لِي الزُّهْرِيُّ : أَلَا أُحَدِّثُكَ بِحَدِيثَيْنِ عَجِيبَيْنِ؟، قَالَ الزُّهْرِيُّ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْرَفَ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْصَى بَنِيهِ، فَقَالَ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِي ثُمَّ اسْحَقُونِي ثُمَّ اذْرُونِي فِي الرِّيحِ فِي الْبَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَيُعَذِّبُنِي عَذَابًا مَا عَذَّبَهُ بِهِ أَحَدًا، قَالَ: فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ، فَقَالَ لِلْأَرْضِ: أَدِّي مَا أَخَذْتِ، فَإِذَا هُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ لَهُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ؟، فَقَالَ: خَشْيَتُكَ يَا رَبِّ أَوَ قَالَ مَخَافَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ بِذَلِكَ " ,

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے گناہ کیے تھے جب مرنے لگا تو اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد مجھ کو جلانا، پھر میری راکھ باریک پیسنا، پھر دریا میں، ہوا میں اڑا دینا کیونکہ اللہ کی قسم! اگر پروردگار نے تنگ پکرا مجھ کو تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب کسی کو نہ کیا ہو گا، اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے زمین سے فرمایا: جو تو نے اس کی خاک لی ہے وہ اکھٹی کر دے، پھر وہ پورا ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا: تیرے ڈر سے اے پروردگار، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6982

قَالَ الزُّهْرِيُّ، وَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا، فَلَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا هِيَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ هَزْلًا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: ذَلِكَ لِئَلَّا يَتَّكِلَ رَجُلٌ وَلَا يَيْأَسَ رَجُلٌ،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب سے جس کو اس نے باندھ دیا تھا پھر نہ کھانا دیا اس کو، نہ چھوڑا اس کو کہ وہ زمین کے کیڑے کھاتی، یہاں تک کہ وہ مر گئی۔“ زہری رحمہ اللہ نے کہا: ان دونوں حدیثوں سے یہ نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے نیک اعمال پر مغرور نہ ہونا چاہیے، نہ برائیوں کی وجہ سے مایوس ہونا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6983

حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ : حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: أَسْرَفَ عَبْدٌ عَلَى نَفْسِهِ، بِنَحْوِ حَدِيثِ مَعْمَرٍ إِلَى قَوْلِهِ: فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ الْمَرْأَةِ فِي قِصَّةِ الْهِرَّةِ، وَفِي حَدِيثِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لِكُلِّ شَيْءٍ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا أَدِّ مَا أَخَذْتَ مِنْهُ.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس روایت میں بلی کا قصہ نہیں اور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک سے کہا: جو تو نے اس کی راکھ کا حصہ لیا ہے وہ داخل کر۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6984

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَاشَهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا، فَقَالَ لِوَلَدِهِ: لَتَفْعَلُنَّ مَا آمُرُكُمْ بِهِ أَوْ لَأُوَلِّيَنَّ مِيرَاثِي غَيْرَكُمْ إِذَا أَنَا مُتُّ، فَأَحْرِقُونِي وَأَكْثَرُ عِلْمِي، أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ اسْحَقُونِي وَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ، فَإِنِّي لَمْ أَبْتَهِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، وَإِنَّ اللَّهَ يَقْدِرُ عَلَيَّ أَنْ يُعَذِّبَنِي، قَالَ: فَأَخَذَ مِنْهُمْ مِيثَاقًا، فَفَعَلُوا ذَلِكَ بِهِ وَرَبِّي، فَقَالَ اللَّهُ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ؟، فَقَالَ مَخَافَتُكَ، قَالَ: فَمَا تَلَافَاهُ غَيْرُهَا "،

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ حدیث بیان کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ تم سے پہلے ایک شخص تھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد دیا تھا۔ اس نے اپنی اولاد سے کہا: تم وہ کام کرنا جو میں حکم دیتا ہوں ورنہ میں اپنے مال کا وارث اور کسی کو کر دوں گا، جب میں مر جاؤں تو مجھ کو جلانا اور مجھ کو بہت یاد ہے کہ یہ بھی کہا: پھر پیسنا اور ہوا میں اڑا دینا کیونکہ میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی آگے نہیں بھیجی اور اللہ مجھ پر قدرت پائے گا، تو مجھ کو عذاب کرے گا، پھر اس نے اس بات کا اقرار اپنی اولاد سے لیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا (جب وہ مر گیا) میرے رب کی قسم! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا: تیرے ڈر سے، اللہ تعالیٰ نے اس کو اور کچھ عذاب نہ دیا۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے

حد یث نمبر - 6985

وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: قَالَ لِي أَبِي ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَاأَبُو عَوَانَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ ذَكَرُوا جَمِيعًا بِإِسْنَادِ شُعْبَةَ نَحْوَ حَدِيثِهِ، وَفِي حَدِيثِ شَيْبَانَ، وَأَبِي عَوَانَةَ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ النَّاسِ رَغَسَهُ اللَّهُ مَالًا وَوَلَدًا، وَفِي حَدِيثِ التَّيْمِيِّ، فَإِنَّهُ لَمْ يَبْتَئِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، قَالَ: فَسَّرَهَا قَتَادَةُ لَمْ يَدَّخِرْ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا، وَفِي حَدِيثِ شَيْبَانَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا ابْتَأَرَ عِنْدَ اللَّهِ خَيْرًا وَفِي حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ، مَا امْتَأَرَ بِالْمِيمِ.

قتادہ سے دوسری رویت ایسی ہی ہے اس میں بجائے «راشه الله» کے «رغسه الله» یعنی دیا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے اور «لم ابتھر» کے بدلے لم «يبتئر» ہے یعنی کوئی نیکہ نہیں جمع کی اور «ما ابتار» اور «ما امتار» اور معنی وہی ہے جو اوپر گزرا۔ باب: بار بار گناہ کرے اور باربار توبہ تو بھی قبول ہو گی

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حد یث نمبر - 6986

حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: " أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ، وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ، فَأَذْنَبَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: عَبْدِي أَذْنَبَ ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ، ثُمَّ عَادَ، فَأَذْنَبَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا، فَعَلِمَ أَنَّ لَهُ رَبًّا يَغْفِرُ الذَّنْبَ، وَيَأْخُذُ بِالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَكَ، قَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى: لَا أَدْرِي، أَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ اعْمَلْ مَا شِئْتَ "،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے روایت کیا کہ ”ایک بندے نے گناہ کیا اور کہا کہ یا اللہ! میرا گناہ بخش دے۔ پروردگار نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک مالک ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مواخذہ کرتا ہے، پھر اس نے گناہ کیا اور کہا: اسے مالک میرے! میرا گناہ بخش دے۔ پروردگار نے فرمایا: میرے بندے نے ایک گناہ کیا اور وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مواخذہ کرتا ہے، پھر اس نے گناہ کیا: اور کہا: اے پالنے والے میرے! میرا گناہ بخش دے۔ پروردگا نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور وہ یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار جو گناہ بخشتا اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ اے بندے! اب تو جو چاہے عمل کر میں نے تجھے بخش دیا۔“ عبدالاعلیٰ نے کہا: جو راوی ہے اس حدیث کا مجھے یاد نہیں تیسری بار یا چوتھی بار یہ فرمایا: ”اب جو چاہے عمل کر۔“

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حد یث نمبر - 6987

قَالَ أَبُو أَحْمَدَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجُويَةَ الْقُرَشِيُّ الْقُشَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ النَّرْسِيُّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ،

عبدالاعلی بن حماد نرسی سے اس سند کے ساتھ مروی ہے۔

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حد یث نمبر - 6988

حَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، قَالَ: كَانَ بِالْمَدِينَةِ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّ عَبْدًا أَذْنَبَ ذَنْبًا بِمَعْنَى حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَذَكَرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَذْنَبَ ذَنْبًا وَفِي الثَّالِثَةِ قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي، فَلْيَعْمَلْ مَا شَاءَ.

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ میں نے بخشش دیا اپنے بندے کو اب وہ جو چاہے عمل کرے۔

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حد یث نمبر - 6989

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا "،

سیدنا ابو موسٰی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ عزت اور بزرگی والا اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے رات کو تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرے اور ہاتھ پھیلاتا ہے دن کو تاکہ رات کا گنہگار توبہ کرے یہاں تک کہ آفتاب نکلے پچھم سے۔“

گناہوں کی توبہ کا قبول ہونا خواہ گناہ اور توبہ بار بار ہوں

حد یث نمبر - 6990

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.

شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔ باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6991

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ ".

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو تعریف کرنا اتنا پسند نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے (کیونکہ وہ لائق ہے تعریف کے اور سب میں عیب موجود ہیں تو تعریف کے لائق نہیں ہیں) اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی خود تعریف کی اور کوئی اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں ہے اسی وجہ سے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا چھپی ہوں یا کھلی۔“

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6992

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ ".

مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6993

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: قُلْتُ لَهُ: آنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟، قَالَ: نَعَمْ وَرَفَعَهُ أَنَّهُ قَالَ: " لَا أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ ".

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے ظاہری اور باطنی ہر قسم کے فواحش کو حرام کیا ہے اور نہ ہی کوئی اللہ سے بڑھ کر تعریف کو پسند کرنے والا ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6994

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَنْزَلَ الْكِتَابَ وَأَرْسَلَ الرُّسُلَ ".

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں اتنا زیادہ ہے اللہ سے زیادہ کسی کو عذر کرنا پسند نہیں ہے (یعنی اللہ کو یہ بہت پسند ہے کہ گناہ گار بندے اس کے سامنے عذر پیش کریں اپنے گناہ کی معافی چاہیں) اسی واسطے اس نے کتاب اتاری اور پیغمبروں کو بھیجا اور توبہ کی تعلیم کی۔

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6995

حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ عُلَيَّةَ ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْهِ ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے اور اللہ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا۔“

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6996

(حديث مرفوع) قَالَ يَحْيَى ، وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَيْسَ شَيْءٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ "،

سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شے اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند نہیں۔“ (بخاری کی روایت میں شخص ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شے اور شخص کا اطلاق پروردگار پر درست ہے)۔

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6997

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ رِوَايَةِ حَجَّاجٍ، حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ خَاصَّةً، وَلَمْ يَذْكُرْ حَدِيثَ أَسْمَاءَ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایسے ہی روایت ہے جیسے اوپر گزری اس میں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ذکر نہیں۔

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6998

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا شَيْءَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی چیز غیرت مند نہیں ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 6999

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُؤْمِنُ يَغَارُ وَاللَّهُ أَشَدُّ غَيْرًا "،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن غیرت کرتا ہے مومن کے لیے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت ہے۔“

اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت

حد یث نمبر - 7000

وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَاشُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.

علاء سے اس سند کے ساتھ مروی ہے۔ باب: نیکیوں سے برائیاں مٹنے کا بیان

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7001

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ كلاهما، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي كَامِلٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، " أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: " فَنَزَلَتْ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 "، قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: أَلِيَ هَذِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي "،

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت سے، ایک شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تب یہ آیت اتری «(أَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ) قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ أَلِىَ هَذِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ «‏‏‏‏لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِى» یعنی ”قائم کر نماز کو دن کے دونوں طرف اور رات کی ساعت میں۔ بے شک نیکیاں دور کر دیتی ہیں برائیوں کو، یہ نصیحت ہے قبول کرنے والوں کے لیے ہے۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! یہ اسی شخص کے لیے خاص ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں جو کوئی عمل کرے میری امت میں سے۔“ (تو نیکیوں سے مراد اس آیت میں نماز ہے اور مجاہد نے کہا: وہ یہ کلمہ ہے «سبحان الله والحمدلله ولا اله الا الله والله اكبر»)

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7002

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ إِمَّا قُبْلَةً أَوْ مَسًّا بِيَدٍ أَوْ شَيْئًا كَأَنَّهُ يَسْأَلُ عَنْ كَفَّارَتِهَا، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَزِيدَ،

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ اس شخص نے اس عورت کا بوسہ لیا تھا یا ہاتھ سے مساس کیا تھا یا کچھ اور کیا تھا اور اس نے اس کا کفارہ پوچھا، تب یہ آیت اتری۔

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7003

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: أَصَابَ رَجُلٌ مِنَ امْرَأَةٍ شَيْئًا دُونَ الْفَاحِشَةِ، فَأَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَعَظَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَعَظَّمَ عَلَيْهِ ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَزِيدَ وَالْمُعْتَمِرِ.

سلیمان تیمی سے روایت ہے وہی جو اوپر مذکور ہوئی اس میں یہ ہے کہ ایک شخص ایک عورت سے مرتکب ہوا سب باتوں کا سوائے زنا کے، وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کو یہ کام بڑا معلوم ہوا، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، ان کو بھی بڑا معلوم ہوا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا پھر بیان کیا ویسا ہی جیسے اوپر گزرا۔

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7004

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ  وَالْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَالَجْتُ امْرَأَةً فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ، وَإِنِّي أَصَبْتُ مِنْهَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّهَا، فَأَنَا هَذَا فَاقْضِ فِيَّ مَا شِئْتَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَكَ اللَّهُ لَوْ سَتَرْتَ نَفْسَكَ، قَالَ: فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَانْطَلَقَ فَأَتْبَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا دَعَاهُ، وَتَلَا عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَذَا لَهُ خَاصَّةً؟، قَالَ: بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً "،

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ایک عورت سے مزہ اٹھایا مدینہ کے کنارے اور میں نے سب باتیں کیں سوائے جما‎‎ع کے۔ اب میں حاضر ہوں جو چاہیے میرے باب میں حکم دیجئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ ڈھانپا تو بھی اگر ڈھانپتا تو بہتر ہوتا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا، تب وہ شخص کھڑا ہوا اور چلا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا اور بلایا اور یہ آیت پڑھی «(أَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ» ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! کیا یہ حکم خاص اس کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں سب لوگوں کے لیے ہے۔“

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7005

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ عَنْ خَالِهِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ مُعَاذٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا لِهَذَا خَاصَّةً أَوْ لَنَا عَامَّةً، قَالَ: بَلْ لَكُمْ عَامَّةً.

سیدنا عبداللہ نبی سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ اس میں ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ حکم خاص اسی کے لیے ہے یا ہمارے سب کے واسطے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں سب کے لیے ہے۔“

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7006

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ: هَلْ حَضَرْتَ الصَّلَاةَ مَعَنَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " قَدْ غُفِرَ لَكَ ".

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حد کا کام کیا تو مجھ پر حد قائم کیجئیے اور نماز کا وقت آ گیا تھا، پھر اس نے نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، جب نماز پڑھ چکا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حد کا کام کیا اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق مجھے حد لگائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نماز میں ہمارے ساتھ تھا“ وہ بولا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے بخش دیا تجھ کو۔“

اللہ تعالی کا فرمان: ”نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں“

حد یث نمبر - 7007

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَةَ ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، وَنَحْنُ قُعُودٌ مَعَهُ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَعَادَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَسَكَتَ عَنْهُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: فَاتَّبَعَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ انْصَرَفَ، وَاتَّبَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْظُرُ مَا يَرُدُّ عَلَى الرَّجُلِ، فَلَحِقَ الرَّجُلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَأَيْتَ حِينَ خَرَجْتَ مِنْ بَيْتِكَ أَلَيْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ، فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوءَ؟ "، قَالَ: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " ثُمَّ شَهِدْتَ الصَّلَاةَ مَعَنَا؟ "، فَقَالَ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ أَوَ قَالَ ذَنْبَكَ ".

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور ہم لوگ بھی بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! مجھ سے حد کا کام ہوا ہے تو حد لگائیے مجھ کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم یہ سن کر چپ ہو رہے، اس نے پھر کہا: یا رسول اللہ! میں نے حد کا کام کیا تو حد لگائیے مجھ پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، اس نے تیسری بار بھی ایسا ہی کہا: اتنے میں نماز کھڑی ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا، جب آپ فارغ ہوئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا یہ دیکھنے کو کہ آپ کیا جواب دیتے ہیں اس شخص کو، پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے حد کا کام کیا تو مجھ پر حد لگائیے۔ ابوامامہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس وقت تو اپنے گھر سے نکلا تھا تو نے اچھی طرح سے وضو نہیں کیا؟“ وہ بولا: کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”پھر تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟“ وہ بولا: ہاں یا رسول اللہ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ نے بخش دیا تیری حد کو یا تیرے گناہ کو۔“باب: خون کرنے والے کی توبہ قبول ہو گی

قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں

حد یث نمبر - 7008

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ، وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ، فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ، فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ "، قَالَ قَتَادَةُ: فَقَالَ الْحَسَنُ: ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ.

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون کیے تھے، اس نے دریافت کیا کہ زمین کے لوگوں میں سب سے زیادہ عالم کون ہے؟ لوگوں نے ایک راہب کو بتایا (راہب نصاریٰ کے پادری) وہ بولا: میں نے ننانوے خون کیے ہیں میری توبہ قبول ہو گی یا نہیں۔ راہب نے کہا: تیری توبہ قبول نہ ہو گی اس نے اس راہب کو بھی مار ڈالا اور سو خون پورے کر لیے، پھر اس نے لوگوں سے پوچھا: سب سے زیادہ زمین میں کون عالم ہے؟ لوگوں نے ایک عالم کا بتایا وہ اس کے پاس گیا اور بولا: میں نے سو خون کیے ہیں میری توبہ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ وہ بولا: ہاں ہو سکتی ہے اور توبہ کرنے سے کون سی چیز مانع ہے تو فلاں ملک میں جا وہاں کچھ لوگ ہیں جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو بھی جا کر ان کے ساتھ عبادت کر اور اپنے ملک میں مت جا وہ برا ملک ہے، پھر وہ آدمی چلا اس ملک کو جب آدھی دور پہنچا تو اس کو موت آئی اب عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ توبہ کر کے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آ رہا تھا۔ عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کوئی نیکی نہیں کی آخر ایک فرشتہ آدمی کی صورت بن کر آیا اور انہوں نے اس کو مقرر کیا اس جھگڑا میں فیصلہ کرنے کے لیے۔ اس نے کہا: دونوں ملکوں تک ناپو اور جس ملک کے قریب ہو وہ وہیں کا ہے۔ ناپا تو وہ اس ملک کے قریب تھا جہاں کا ارادہ رکھتا تھا، آخر رحمت کے فرشتے اس کو لے گئے۔“ قتادہ نے کہا: حسن نے کہا: ہم سے بیان کیا لوگوں نے کہ جب وہ مرنے لگا تو اپنے سینہ کے بل بڑھا (تاکہ اس ملک سے نزدیک ہو جائے)

قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں

حد یث نمبر - 7009

حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِيَّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَجَعَلَ يَسْأَلُ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَيْسَتْ لَكَ تَوْبَةٌ، فَقَتَلَ الرَّاهِبَ، ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَى قَرْيَةٍ فِيهَا قَوْمٌ صَالِحُونَ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَنَأَى بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا "،

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو مارا، پھر پوچھنے لگا: میری توبہ صحیح ہو سکتی ہے؟ اور ایک راہب کے پاس آیا اس سے پوچھا: وہ بولا: تیری توبہ صحیح نہیں۔ اس نے راہب کو بھی مار ڈالا۔ پھر لگا پوچھنے: اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف چلا جہاں نیک لوگ رہتے تھے راستہ میں اس کو موت آئی تو اپنا سینہ آگے بڑھایا اور مر گیا، پھر جھگڑا کیا اس میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں نے لیکن وہ اچھے گاؤں کی طرف نزدیک نکلا تو انہی لوگوں میں کیا گیا۔“

قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں

حد یث نمبر - 7010

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ مُعَاذٍ، وَزَادَ فِيهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي وَإِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي.

قتادہ نے اسی سند کے ساتھ معاذ کی حدیث کی طرح بیان کیا ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہ کی زمین کی طرف حکم بھیجا کہ دور ہو جا اور عبادت کی زمین کو حکم ہوا کہ تو قریب ہو جا۔ باب: مسلمانوں کا فدیہ کافر ہوں گے

مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ

حد یث نمبر - 7011

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ دَفَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى كُلِّ مُسْلِمٍ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا، فَيَقُولُ: هَذَا فِكَاكُكَ مِنَ النَّارِ ".

سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا نصرانی دے گا اور فرما دے گا: یہ تیرا چھٹکارا ہے جہنم سے۔“

مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ

حد یث نمبر - 7012

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، أَنَّ عَوْنًا  وَسَعِيدَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ حَدَّثَاهُ أَنَّهُمَا شَهِدَا أَبَا بُرْدَةَ يُحَدِّثُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَمُوتُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا أَدْخَلَ اللَّهُ مَكَانَهُ النَّارَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا "، قَالَ: فَاسْتَحْلَفَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَحَلَفَ لَهُ، قَالَ: فَلَمْ يُحَدِّثْنِي سَعِيدٌ أَنَّهُ اسْتَحْلَفَهُ، وَلَمْ يُنْكِرْ عَلَى عَوْنٍ قَوْلَهُ،

سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایتے ہے، عون اور سعید بن ابی بردہ اس وقت موجود تھے جب ابوبردہ نے عمر بن عبدالعزیز سے حدیث بیان کی اپنے باپ(سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے سن کر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مسلمان نہیں مرے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر ایک یہودی یا نصرانی کو جہنم میں داخل کرے گا۔“ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبردہ کو قسم دی کہ کیا تیرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تجھے بیان کیا ہے؟ انہوں نے قسم اٹھائی۔ (عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوبردہ کو قسم دی مزید اطمینان کے لیے کیونکہ اس حدیث میں بشارت عظیم ہے مومنوں کے لیے۔ شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے مسلمانوں کو بڑی امید ہے)۔

مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ

حد یث نمبر - 7013

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى جميعا، عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ، وَقَالَ عَوْنُ بْنُ عُتْبَةَ.

ابوقتادہ سے اس سند کے ساتھ عفان کی روایت کی طرح مروی ہے۔

مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ

حد یث نمبر - 7014

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَبَلَةَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ بِذُنُوبٍ أَمْثَالِ الْجِبَالِ، فَيَغْفِرُهَا اللَّهُ لَهُمْ، وَيَضَعُهَا عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فِيمَا أَحْسِبُ أَنَا "، قَالَ أَبُو رَوْحٍ: لَا أَدْرِي مِمَّنْ الشَّكُّ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَقَالَ: أَبُوكَ حَدَّثَكَ هَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ.

سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ (سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن مسلمانوں میں سے کچھ لوگ پہاڑوں کے برابر گناہ لے کر آئیں گے اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان گناہوں کو یہود اور نصاریٰ پر ڈال دے گا۔“

مومنوں پر اللہ کی رحمت کی وسعت اور دوزخ سے نجات کے لیے ہر مسلمان کے عوض ایک کافر کا فدیہ

حد یث نمبر - 7015

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتَوَائِيِّ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ : كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟، قَالَ: سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " يُدْنَى الْمُؤْمِنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، فَيَقُولُ: هَلْ تَعْرِفُ؟، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَعْرِفُ، قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَإِنِّي أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، فَيُعْطَى صَحِيفَةَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْكُفَّارُ وَالْمُنَافِقُونَ، فَيُنَادَى بِهِمْ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ ".

صفواں بن محرز سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے سرگوشی کے باب میں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ جو قیامت کے دن اپنے بندہ سے سرگوشی کرے گا)انہوں نے کہا: میں نے آپ سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مؤمن قیامت کے دن اپنے مالک کے پاس لایا جائے گا یہاں تک کہ مالک اپنا پردہ اس پر رکھ دے گا اور اس سے اقرار کروائے گا اس کے گناہوں کا اور کہے گا: ”تو پہچانتا ہے اپنے گناہوں کو؟“ وہ کہے گا: اے رب میں پہچانتا ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: ”تو میں نے چھپا دیا ان گناہوں کو تجھ پر دنیا میں اور اب میں بخش دیتا ہوں ان کو آج کے دن تیرے لیے۔“ پھر وہ نیکیوں کی کتاب دیا جائے گا اور کافر اور منافقوں کے لیے تو مخلوقات کے سامنے منادی ہو گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے جھوٹ بولا: اللہ تعالیٰ پر۔“

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ کا بیان

حد یث نمبر - 7016

حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ مَوْلَى بَنِي أُمَيَّةَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: " ثُمَّ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ وَهُوَ يُرِيدُ الرُّومَ وَنَصَارَى الْعَرَبِ بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ كَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي قَدْ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهُ، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ يُرِيدُونَ عِيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَاثَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا، وَكَانَ مِنْ خَبَرِي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ حَتَّى جَمَعْتُهُمَا فِي تِلْكَ الْغَزْوَةِ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُمْ لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ غَزْوِهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِمُ الَّذِي يُرِيدُ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ وَلَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ يُرِيدُ بِذَلِكَ الدِّيوَانَ، قَالَ كَعْبٌ: فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ يَظُنُّ أَنَّ ذَلِكَ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتِ الثِّمَارُ وَالظِّلَالُ، فَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ فَتَجَهَّزَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُمْ، فَأَرْجِعُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا وَأَقُولُ فِي: نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى اسْتَمَرَّ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَادِيًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا ثُمَّ غَدَوْتُ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى أَسْرَعُوا وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ فَيَا لَيْتَنِي فَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِي، فَطَفِقْتُ إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْزُنُنِي أَنِّي لَا أَرَى لِي أُسْوَةً إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِي النِّفَاقِ أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ مِنَ الضُّعَفَاءِ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ، فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ: مَا فَعَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ؟، قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَبَسَهُ بُرْدَاهُ وَالنَّظَرُ فِي عِطْفَيْهِ، فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَ مَا قُلْتَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ رَأَى رَجُلًا مُبَيِّضًا يَزُولُ بِهِ السَّرَابُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْ أَبَا خَيْثَمَةَ، فَإِذَا هُوَ أَبُو خَيْثَمَةَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ الَّذِي تَصَدَّقَ بِصَاعِ التَّمْرِ حِينَ لَمَزَهُ الْمُنَافِقُونَ، فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلًا مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِي بَثِّي، فَطَفِقْتُ أَتَذَكَّرُ الْكَذِبَ وَأَقُولُ: بِمَ أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا وَأَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ لِي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ، حَتَّى عَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَيْءٍ أَبَدًا، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ حَتَّى جِئْتُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ: تَعَالَ، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي: مَا خَلَّفَكَ أَلَمْ تَكُنْ قَدِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا، وَلَكِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يُسْخِطَكَ عَلَيَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عُقْبَى اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي عُذْرٌ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ، فَقُمْتُ وَثَارَ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، لَقَدْ عَجَزْتَ فِي أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ إِلَيْهِ الْمُخَلَّفُونَ، فَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ ذَنْبَكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونَنِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُكَذِّبَ نَفْسِي قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي مِنْ أَحَدٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلَانِ، قَالَا: مِثْلَ مَا قُلْتَ؟ فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلَ مَا قِيلَ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هُمَا؟، قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعَةَ الْعَامِرِيُّ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ، قَالَ: فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا فِيهِمَا أُسْوَةٌ، قَالَ: فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي، قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، قَالَ: فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، وَقَالَ: تَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِي فِي نَفْسِيَ الْأَرْضُ، فَمَا هِيَ بِالْأَرْضِ الَّتِي أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ، فَاسْتَكَانَا وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ، وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، فَكُنْتُ أَخْرُجُ فَأَشْهَدُ الصَّلَاةَ وَأَطُوفُ فِي الْأَسْوَاقِ، وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا، ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ وَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي نَظَرَ إِلَيَّ، وَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ عَنِّي حَتَّى إِذَا طَالَ ذَلِكَ عَلَيَّ مِنْ جَفْوَةِ الْمُسْلِمِينَ مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ جِدَارَ حَائِطِ أَبِي قَتَادَةَ وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا قَتَادَةَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَنَّ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟، قَالَ: فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ فَسَكَتَ فَعُدْتُ فَنَاشَدْتُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَفَاضَتْ عَيْنَايَ وَتَوَلَّيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ، فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي فِي سُوقِ الْمَدِينَةِ إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ نَبَطِ أَهْلِ الشَّامِ مِمَّنْ قَدِمَ بِالطَّعَامِ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ، يَقُولُ: مَنْ يَدُلُّ عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ؟، قَالَ: فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَيَّ حَتَّى جَاءَنِي، فَدَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ، وَكُنْتُ كَاتِبًا فَقَرَأْتُهُ، فَإِذَا فِيهِ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: حِينَ قَرَأْتُهَا وَهَذِهِ أَيْضَا مِنَ الْبَلَاءِ، فَتَيَامَمْتُ بِهَا التَّنُّورَ، فَسَجَرْتُهَا بِهَا حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ مِنَ الْخَمْسِينَ وَاسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟، قَالَ: لَا بَلِ اعْتَزِلْهَا، فَلَا تَقْرَبَنَّهَا، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ: فَجَاءَتْ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ شَيْخٌ ضَائِعٌ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ؟، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لَا يَقْرَبَنَّكِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ وَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَبْكِي مُنْذُ كَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا، قَالَ: فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي: لَوِ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ، فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يُدْرِينِي مَاذَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ فِيهَا وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، قَالَ: فَلَبِثْتُ بِذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ، فَكَمُلَ لَنَا خَمْسُونَ لَيْلَةً مِنْ حِينَ نُهِيَ عَنْ كَلَامِنَا، قَالَ: ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَّا قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَي عَلَى سَلْعٍ، يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ، قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ، قَالَ: فَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ يُبَشِّرُونَنَا، فَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ مُبَشِّرُونَ وَرَكَضَ رَجُلٌ إِلَيَّ فَرَسًا وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ قِبَلِي، وَأَوْفَى الْجَبَلَ، فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي، فَنَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ، وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَلَقَّانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِي بِالتَّوْبَةِ، وَيَقُولُونَ: لِتَهْنِئْكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي، وَاللَّهِ مَا قَامَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرُهُ، قَالَ: فَكَانَ كَعْبٌ لَا يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ، قَالَ كَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ، وَيَقُولُ: أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ؟، فَقَالَ: لَا بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّ وَجْهَهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ، قَالَ: وَكُنَّا نَعْرِفُ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ: وَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ إِنَّمَا أَنْجَانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي اللَّهُ بِهِ، وَاللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ { 117 } وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ سورة التوبة آية 116-117 حَتَّى بَلَغَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 119، قَالَ كَعْبٌ: وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ، فَأَهْلِكَ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا، إِنَّ اللَّهَ قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أَنْزَلَ الْوَحْيَ شَرَّ مَا قَالَ لِأَحَدٍ: وَقَالَ اللَّهُ: سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ { 95 } يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ { 96 } سورة التوبة آية 95-96، قَالَ كَعْبٌ: كُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا لَهُ، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى فِيهِ، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مِمَّا خُلِّفْنَا تَخَلُّفَنَا عَنِ الْغَزْوِ، وَإِنَّمَا هُوَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُ "،

ابن شہاب سے روایت ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کیا تبوک کا (تبوک ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے پندرہ منزل پر شام کے راستہ میں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا روم اور عرب کے نصارٰی کو دھمکانے کا شام میں۔ ابن شہاب رحمہ اللہ نے کہا: مجھ سے بیان کیا عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے ان سے بیان کیا عبداللہ بن کعب نے جو کعب کو پکڑ کر چلایا کرتے تھے، ان کے بیٹوں میں سے جب کعب اندھے ہو گئے تھے، انہوں نے کہا: میں نے سنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ اپنا حال بیان کرتے تھے، جب پیچھے رہ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کسی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے، البتہ بدر میں پیچھے رہا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر غصہ نہیں کیا جو پیچھے رہ گیا تھا اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لیے نکلے تھے لیکن اللہ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا) بے وقت اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا لیلتہ العقبہ میں (لیلتہ العقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی تھی اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر اور یہ بیعت جمرہ عقبہ کے پاس جو منٰی میں ہے دو بارہ ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا گو جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں) اور میرا قصہ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے کا یہ ہے کہ جب یہ غزوہ ہوا تو میں سب سے زیادہ طاقتور اور مالدار تھا۔ اللہ کی قسم اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی نہیں ہوئیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنییاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لیے چلے سخت گرمی کے دنوں میں اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دواز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا) اور مقابلہ تھا بہت دشمنوں سے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے واضح طور پر فرما دیا کہ ”میں اس لڑائی کو جاتا ہوں۔“ (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ صاف صاف نہ فرماتے مصلحت سے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ پھر ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف ان کو جانا پڑے گا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی دفتر نہ تھا، جس میں ان کے نام لکھے ہوتے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ایسے شخص کم تھے جو غائب رہنا چاہتے اور گمان کرتے کہ یہ امر پوشیدہ رہے گا جب تک اللہ پاک کی طرف سے کوئی وحی نہ اترے اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا، اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی میں نے بھی صبح کو نکلنا شروع کیا اس ارادہ سے کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں لیکن ہر روز میں لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں یہ کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں، (کیونکہ سامان سفر کا میرے پاس موجود تھا) یوں ہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ لوگ برابر کوشش کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح کے وقت نکلے اور مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور میں نے کوئی تیاری نہیں کی۔ پھر صبح کو میں نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کیا، یہی حال رہا یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے، اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں تو کاش! میں ایسا کرتا لیکن میری تقدیر میں نہ تھا بعد اس کے جب باہر نکلتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے جانے کے بعد تو مجھ کو رنج ہوتا کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور، ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے، خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ میں میری یاد کہیں نہ کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلملوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت فرمایا: ”کعب بن مالک کہاں گیا؟“ ایک شخص بولا: بنی سلمہ میں سے یا رسول اللہ! اس کی چادروں نے اس کو روک رکھا، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: تو نے بری بات کہی، اللہ کی قسم یا رسول اللہ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور ریتے کو اڑا رہا تھا (چلنے کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ابوخیثمہ ہے۔“ پھر وہ ابوخیثمہ ہی تھا اور ابوخیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی جب منافقوں نے اس پر طعنہ کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے لوٹے مدینہ کی طرف تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ مٹ جائے کل کے روز اور اس امر کے لیے میں نے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی اپنے گھر والوں میں سے یعنی ان سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بتاؤں) جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمقریب آ پہنچے اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب کوئی جھوٹ بنا کر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پانے کا، آخر میں نے نیت کر لی سچ بولنے کی، اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کیے اور قسمیں کھانے لگے ایسے اسی (۸۰) سے زیادہ چند آدمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر کی بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لیے دعا کی مغفرت کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کیا، یہاں تک کہ میں بھی آیا جب میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کیا لیکن وہ تبسم جیسے غصہ کی حالت میں کرتے ہیں، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آ!۔“ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے سامنے بیٹھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیوں پیچھے رہ گیا تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آپ کے سوا کسی اور شخص کے پاس دنیا کے لوگوں میں سے بیٹھتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں) لیکن قسم اللہ کی میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ سے کہہ دوں اور آپ خوش ہو جائیں مجھ سے تو قریب ہے اللہ تعالیٰ آپ کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلا دے گا کہ میرا عذر غلط اور جھوٹ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہوں گا تو بے شک آپ غصہ ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم! میں کبھی نہ اتنا طاقتور تھا، نہ اتنا مالدار تھا جتنا اس وقت تھا جب آپ سے پیچھے رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کعب نے سچ کہا .“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا جا یہاں تک کہ اللہ حکم دے تیرے باب میں۔“ میں کھڑا ہوا اور چند لوگ بنی سلمہ کے دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے تم کو تن نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، تو تم عاجز کیوں ہو گئے اور کوئی عذر کیوں نہ کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جیسے اور لوگوں نے جو پیچھے رہ گئے تھے عذر بیان کیے اور تیرا گناہ مٹانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی تھا، اللہ کی قسم! وہ لوگ مجھ کو ملامت کرنے لگے یہاں تک کہ میں نے قصد کیا پھر لوٹوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس اور اپنے تئیں جھوٹا کروں اور کوئی عذر بیان کروں، پھر میں نے ان لوگوں سے کہا: کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں دو شخص اور ہیں، انہوں نے بھی وہی کہا: جو تو نے کہا: اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا: وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا: مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کا نام لیا جو نیک تھے اور بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے جب ان لوگوں نے ان دونوں شخصوں کا نام لیا تو میں چلا گیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو منع کر دیا تھا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے، ان لوگوں میں سے جو پیچھے رہ گئے تھے تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں بیٹھ رہے روتے ہوئے لیکن میں تو سب لوگوں میں کم سن اور زور دار تھا، میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لیے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا پر کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ بیٹھے ہوتے نماز کے بعد اور دل میں یہ کہتا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو ہلایا، اسلام کا جواب دینے کے لیے یا نہیں ہلایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور دزدیدہ نظر سے(کنکھیوں سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا، تو جب میں نماز ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے یہاں تک کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابوقتادہ کے باغ کی دیواد پر چڑھا۔ ابوقتادہ میرے چچا زاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ محبت مجھے ان سے تھی، ان کو سلام کیا، تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا(سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی مروت بھی نہیں کرتے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہیے اور حدیث پر چلنا چاہیے) میں نے ان سے کہا: اے ابوقتادہ! میں تم کو قسم دیتا ہوں اللہ کی تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں، وہ خاموش رہے، پھر سہ بارہ قسم دی تو بولے: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا تو ایک کسان شام کے کسانوں میں سے جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لیے آیا تھا، کہنے لگا: کعب بن مالک کا گھر مجھ کو کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو اشارہ شروع کیا یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے ایک خط دیا غسان کے بادشاہ کا، میں منشی تھا، میں نے اس کو پڑھا، اس میں یہ لکھا تھا، بعد حمد و نعت کے کعب کو معلوم ہو کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب نے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جفا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو ذلت کے گھر میں نہیں کیا نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو تو تم ہم سے مل جاؤ ہم تمہاری خاطر داری کریں گے۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا: یہ بھی ایک بلا ہے اور اس خط کو میں نے چولھے میں جلا دیا۔ جب پچاس دن میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم کرتے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ رہو میں نے کہا: میں اس کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ وہ بولا: نہیں طلاق مت دو صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو اور میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیام گیا۔ میں نے اپنی بی بی سے کہا: تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس باب میں کوئی حکم دے۔ ہلال بن امیہ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا بیکار شخص ہے اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ برا سمجھتے ہیں اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا، لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔“ وہ بولی: اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا: کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی جازت دی۔ میں نے کہا: میں کبھی اجازت نہ لوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بی بی کے لیے اور معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما دیں گے، اگر میں اجازت لوں اپنی بیوی کے لیے اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر دس راتوں تک میں اسی حال میں رہا یہاں تک کہ پچاس راتیں پوری ہوئیں، اس تاریخ سے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا ہم سے بات کرنے سے پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے نماز پڑھی اپنے گھر کی چھت پر۔ میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا تھا اور زمین مجھ پر تنگ ہو گئی تھی باوجود یہ کہ اتنی کشادہ ہے۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو سلع پر چڑھا (سلع ایک پہاڑ ہے مدینہ میں) اور بلند آواز سے پکارا: اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ خوشی آئی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خبر کی کہ اللہ نے ہم کو معاف کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ چکے۔ لوگ چلے ہم کو خوشخبری دینے کے لیے تو میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا دوڑا اسلم کے قبیلے سے میری طرف اور اس کی آواز گھوڑے سے جلد مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی خوشخبری کی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس کو پہنا دئیے، اس کی خوشخبری کے صلہ میں۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے ادھار لیے اور ان کو پہنا اور چلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے۔ لوگ مجھ سے ملتے جاتے تھے گروہ گروہ اور مجھ کو مبارک باد دیتے جاتے تھے معافی کی اور کہتے تھے: مبارک ہو تم کو اللہ کی معافی کی تمہارے لیے یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تھے۔ طلحہ بن عبید اللہ مجھ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوئے اور دوڑے یہاں تک کہ مصافحہ کیا مجھ سے اور مجھ کو مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا، تو کعب طلحہ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک دمک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”خوش ہو جا آج کا دن جو تیرے لیے بہتر دن ہے، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ معافی آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جلالہ کی طرف سے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتا گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات کو پہچان لیتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کو) جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری معافی کی خوشی میں میں اپنے مال کو صدقہ کر دوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”تھوڑا مال اپنا رکھ لے۔“ میں نے عرض کیا: تو میں اپنا حصہ خیبر کا رکھ لیتا ہوں اور میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آخر سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر ایسا احسان کیا ہو سچ بولنے میں جب سے میں نے یہ ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسا عمدہ انداز سے مجھ پر احسان کیا، اللہ کی قسم! میں نے اس وقت سے کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا: جب سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھ کو جھوٹ سے بچائے گا۔ کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں «لَّقَد تَّابَ اللَّـهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (١١٧) وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (١١٨) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (١١٩)» ‏‏‏‏ (التوبة: ۱۱۷-۱۱۹) یعنی ”بے شک اللہ تعالیٰ نے معاف کیا نبی اور مہاجرین اور انصار کو جنہوں نے ساتھ دیا نبی کا مفلسی کے وقت۔“ یہاں تک کہ فرمایا: ”وہ مہربان ہے رحم والا۔ اور اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ان تین شخصوں کو جو پیچھے ڈالے گئے یہاں تک کہ جب زمین ان پر تنگ ہو گئی باوجود کشادگی کے اور ان کے جی بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب کوئی بچاؤ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف پھر اللہ نے معاف کیا ان کو تاکہ وہ توبہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! ڈرو اللہ تعالیٰ سے اور ساتھ رہو سچوں کے۔“ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑھ کر کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا بعد اسلام کے جو اتنا بڑا ہو میرے نزدیک اس بات سے کہ میں نے سچ بول دیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی کی کہ کسی کی نہ کی تو فرمایا: «سَيَحْلِفُونَ بِاللَّـهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (٩٥) يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ (٩٦)» ‏‏‏‏ (التوبة: ۹۵-۹۶) ”جب تم لوٹ کر آئے تو قسمیں کھانے لگے تاکہ تم کچھ نہ بولو ان سے، سو نہ بولو ان سے وہ ناپاک ہیں، ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا قسمیں کھاتے ہیں تم سے کہ تم خوش ہو جاؤ ان سے۔ سو اگر تم خوش ہو جاؤ ان سے تب بھی اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہو گا بدکاروں سے۔“سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پیچھے ڈالے گئے تینوں آدمی ان لوگوں سے جن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا جب انہوں نے قسم کھائی تو بیعت کی ان سے اور استغفار کیا ان کے لیے اور ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ ڈال رکھا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا، اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے رہ گئے اور اس لفظ سے (یعنی «خُلِّفُوْا» سے) یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے بلکہ مراد وہی ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور ڈال رکھنا آپصلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا ان کے عذر کو۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ کا بیان

حد یث نمبر - 7017

وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِإِسْنَادِ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،

زہری رحمہ اللہ سے بھی مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ کا بیان

حد یث نمبر - 7018

وحَدَّثَنِي عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَزَادَ فِيهِ عَلَى يُونُسَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَلَّمَا يُرِيدُ غَزْوَةً إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزْوَةُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ أَبَا خَيْثَمَةَ، وَلُحُوقَهُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،

ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جب کسی جہاد پر جاتے تو اور جگہ جانا ظاہر کرتے (جو جھوٹ بھی نہ ہوتا اور مصلحت سے ایسا فرماتے) پر اس لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے صاف فرما دیا۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ کا بیان

حد یث نمبر - 7019

وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ حِينَ أُصِيبَ بَصَرُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ قَوْمِهِ وَأَوْعَاهُمْ لِأَحَادِيثِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ يُحَدِّثُ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ: وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَاسٍ كَثِيرٍ يَزِيدُونَ عَلَى عَشْرَةِ آلَافٍ وَلَا يَجْمَعُهُمْ دِيوَانُ حَافِظٍ.

عبیداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور سب سے زیادہ ان کو حدیثیں یاد تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ان تینوں شخصوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معاف کیا۔ وہ حدیثیں بیان کرتے تھے کہ وہ نہیں پیچھے رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی لڑائی میں سوا دو لڑائیوں کے، پھر بیان کیا وہی قصہ۔ اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے آدمیوں کے ساتھ جہاد کیا جن کی تعداد دس (۱۰) ہزار سے زیادہ تھی اور کسی دفتر میں ان کا نام نہ تھا۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت ہوئی تھی اس کا بیان

حد یث نمبر - 7020

حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، وَالسِّيَاقُ حَدِيثُ مَعْمَرٍ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدٍ وَابْنِ رَافِعٍ، قَالَ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ جميعا عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَالَ لَهَا: " أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا فَبَرَّأَهَا اللَّهُ مِمَّا قَالُوا، وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ، وَأَثْبَتَ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي، وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا ذَكَرُوا، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا، فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ، فَأَنَا أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ مَسِيرَنَا، حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوِهِ وَقَفَلَ وَدَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ، فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ، فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ مِنْ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى الرَّحْلِ، فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ، فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي، فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يَرْحَلُونَ لِي فَحَمَلُوا هَوْدَجِي، فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِيَ الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ، قَالَتْ: وَكَانَتِ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يُهَبَّلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ ثِقَلَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَحَلُوهُ وَرَفَعُوهُ، وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ، فَبَعَثُوا الْجَمَلَ وَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ، فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ، فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ فِيهِ وَظَنَنْتُ أَنَّ الْقَوْمَ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي، فَنِمْتُ وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ قَدْ عَرَّسَ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ، فَادَّلَجَ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَقَدْ كَانَ يَرَانِي قَبْلَ أَنْ يُضْرَبَ الْحِجَابُ عَلَيَّ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي َ وَاللَّهِ مَا يُكَلِّمُنِي كَلِمَةً وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا، فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِيَ الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ بَعْدَ مَا نَزَلُوا مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ فِي شَأْنِي وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ وَلَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ، وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي، إِنَّمَا يَدْخُلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُولُ: كَيْفَ تِيكُمْ، فَذَاكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ بَعْدَ مَا نَقَهْتُ وَخَرَجَتْ مَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَهُوَ مُتَبَرَّزُنَا وَلَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي التَّنَزُّهِ، وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ بِنْتُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا ابْنَةُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ، فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَبِنْتُ أَبِي رُهْمٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ، فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: بِئْسَ مَا قُلْتِ أَتَسُبِّينَ رَجُلًا قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، قَالَتْ: أَيْ هَنْتَاهْ أَوْ لَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ؟، قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، قَالَتْ: فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ فَازْدَدْتُ مَرَضًا إِلَى مَرَضِي، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تِيكُمْ، قُلْتُ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ، قَالَتْ: وَأَنَا حِينَئِذٍ أُرِيدُ أَنْ أَتَيَقَّنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا، فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَبَوَيَّ، فَقُلْتُ لِأُمِّي يَا أُمَّتَاهْ: مَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ؟، فَقَالَتْ يَا بُنَيَّةُ: هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا، قَالَتْ: قُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي، وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، قَالَتْ: فَأَمَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ فِي نَفْسِهِ لَهُمْ مِنَ الْوُدِّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُمْ أَهْلُكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ، وَإِنْ تَسْأَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ، قَالَتْ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ، فَقَالَ أَيْ بَرِيرَةُ: هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ مِنْ عَائِشَةَ؟، قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ عَلَيْهَا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ، قَالَتْ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ ابْنِ سَلُولَ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَ أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا، وَمَا كَانَ يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَنَا أَعْذِرُكَ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْنَا عُنُقَهُ، وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا، فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ، قَالَتْ: فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا، وَلَكِنْ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ، فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ، فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ، قَالَتْ: وَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ، ثُمَّ بَكَيْتُ لَيْلَتِي الْمُقْبِلَةَ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ وَأَبَوَايَ يَظُنَّانِ أَنَّ الْبُكَاءَ، فَالِقٌ كَبِدِي فَبَيْنَمَا هُمَا جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي اسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي، قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، قَالَتْ: وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ لِي مَا قِيلَ، وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ، قَالَتْ: فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ، ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ: فَإِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ، وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ، فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبٍ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً، فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْ عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا، قَالَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِي عَنِّي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ: لَا أَقْرَأُ كَثِيرًا مِنَ الْقُرْآنِ إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّكُمْ قَدْ سَمِعْتُمْ بِهَذَا حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي نُفُوسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ، فَإِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي بِذَلِكَ، وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ لَتُصَدِّقُونَنِي، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا كَمَا، قَالَ أَبُو يُوسُفَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18، قَالَتْ: ثُمَّ تَحَوَّلْتُ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي، قَالَتْ: وَأَنَا وَاللَّهِ حِينَئِذٍ أَعْلَمُ أَنِّي بَرِيئَةٌ، وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي، وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ يُنْزَلَ فِي شَأْنِي وَحْيٌ يُتْلَى، وَلَشَأْنِي كَانَ أَحْقَرَ فِي نَفْسِي مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى، وَلَكِنِّي كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ أَحَدٌ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ عِنْدَ الْوَحْيِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِي الْيَوْمِ الشَّاتِ مِنْ ثِقَلِ، الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ، فَكَانَ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ، قَالَ: أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ، فَقَدْ بَرَّأَكِ، فَقَالَتْ لِي أُمِّي: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 عَشْرَ آيَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ بَرَاءَتِي، قَالَتْ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ: وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَيْهِ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي، قَالَ لِعَائِشَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى إِلَى قَوْلِهِ أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ سورة النور آية 22، قَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: هَذِهِ أَرْجَى آيَةٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي، فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرِي مَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَيْتِ؟، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَهَا، فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَهَذَا مَا انْتَهَى إِلَيْنَا مِنْ أَمْرِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ، وقَالَ فِي حَدِيثِ يُونُسَ: احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ،

سعید بن المسیب اور عروہ بن زبیر اور علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے روایت ہے، ان سب لوگوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث روایت کی جب ان پر تہمت کی تہمت کرنے والوں نے اور کہا: جو کہا، پھر اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ان کو ان کی تہمت سے۔ زہری نے کہا: ان سب لوگوں نے ایک ایک ٹکڑا اس حدیث کا مجھ سے روایت کیا اور بعض ان میں سے زیادہ یاد رکھنے والے تھے اس حدیث کو بعض سے اور زیادہ حافظ تھے اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اس کو اور میں نے یاد رکھی ہر ایک سے جو روایت سنی اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو قرعہ ڈالتے اپنی عورتوں پر اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا، اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرعہ ڈالا ایک جہاد کے سفر میں اس میں میرا نام نکلا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئی اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب اترتی تو بھی اسی ہودج میں رہتی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے فارغ ہوئے اور لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو کوچ کا حکم دیا، میں کھڑی ہوئی جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی اور چلی، یہاں تک کہ لشکر کے آگے بڑھ گئی، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا، معلوم ہوا کہ میرا ہار ظفار کے نگینوں کا گر گیا ہے (ظفار ایک گاؤں ہے یمن میں) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈنے لگی۔ اس کے ڈھونڈننے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودج اٹھاتے تھے، انہوں نے وہ اٹھایا اور میرے اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودج میں ہوں۔ اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) تھیں نہ سنڈھی تھیں نہ موٹی کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں، اس لیے ان کو ہودج کا بوجھ عادت کے خلاف معلوم نہ ہوا، جب انہوں نے اس کو اونٹ پر لادا اور اٹھایا، اور میں ایک کم سن لڑکی بھی تھی، آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا، اور چل دیئے اور میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا، میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز ہے، نہ کوئی آواز سننے والا ہے، میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں یہ سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے، تو یہیں لوٹ کر آئیں گے، تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی، اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانی ایک شخص تھا، وہ آرام کے لیے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرا تھا، جب وہ روانہ ہوا تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچا، اس کو ایک آدمی کا جثہ معلوم ہوا، جو سو رہا ہے، وہ میرے پاس آیا اور مجھ کو پہچان لیا دیکھتے ہی، اس لیے کہ میں پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس کے سامنے ہوا کرتی۔ میں جاگ اٹھی، اس کی آواز سن کر جب اس نے «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» پڑھا مجھ کو پہچان کر۔ میں نے اپنا منہ ڈھانپ لیا اپنی اوڑھنی سے۔ اللہ کی قسم! اس نے کوئی بات مجھ سے نہیں کی، نہ میں نے اس کی کوئی بات سنی سوائے «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» کہنے کے۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اپنا ہاتھ میرے چڑھنے کے لیے بچھا دیا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ پیدل چلا اونٹ کو کھینچتا ہوا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ اتر چکے تھے سخت دوپہر کی گرمی میں، تو میرے مقدمے میں تباہ ہوئے، جو لوگ تباہ ہوئے (یعنی جنھوں نے بدگمانی کی) اور قرآن میں جس کی نسبت «تَوَلَّى كِبْرَهُ» آیا ہے یعنی بانی مبانی اس تہمت کا وہ عبداللہ بن ابی بن سلول (منافق) تھا۔ آخر ہم مدینہ میں آئے اور میں جب مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان کرنے والوں کی باتوں میں غور کرتے اور مجھے ان کی کسی بات کی خبر نہ تھی۔ صرف مجھ کو اس امر سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ شفقت نہ دیکھی تھی، جو پہلے میرے حال پر ہوتی۔ جب میں بیمار ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اندر آتے اور سلام کرتے پھر فرماتے: ”یہ عورت کیسی ہے .“ سو اس امر سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں دبلی ہو گئی بیماری جانے کے بعد تو میں نکلی اور میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی نکلی مناصع کی طرف (مناصع جگہ تھی مدینہ کے باہر) اور وہ پائخانے کی جگہ تھی ہم لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے) ہم لوگ رات ہی کو نکلا کرتے اور رات ہی کو چلے آتے اور یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں کے نزدیک پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم پہلے عربوں کی طرح جنگل میں جایا کرتے(پائخانے کے لیے) اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے، تو میں چلی اور ام مسطح میرے ساتھ تھی وہ بیٹی تھی ابورہم بن مطلب بن عبد مناف کی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو خالہ تھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی (اس کا نام سلمیٰ تھا) اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا، غرض میں اور ام مسطح دونوں جب اپنے کام سے فارغ ہو چکیں تو واپس اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں، اتنے میں ام مسطح کا پاؤں الجھا اپنی چادر میں اور بولی: ہلاک ہوا مسطح۔ میں نے کہا: تو نے بری بات کہی۔ تو برا کہتی ہے اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا۔ وہ بولی: اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا۔ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا: کیا کہا: اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان لگانے والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری دو چند ہو گئی، ایک اور بیماری بڑھی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا: ”اب اس عورت کا کیا حال ہے؟“میں نے کہا: آپ مجھ کو اجازت دیتے ہیں اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی۔ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تحقیق کروں۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: اماں! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں۔ وہ بولی: بیٹا! تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ اللہ کی قسم ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی۔ صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے، اور نہ نیند آئی صبح کو بھی میں رو رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مشورہ لیا مجھ کو جدا کرنے کے لیے (یعنی طلاق دینے کے لیے) سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے تو وہی رائے دی جو وہ جانتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کے حال کو اور اس کی عصمت کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی محبت کو اس کے ساتھ۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! عائشہ آپ کی زوجہ ہیں اور ہم تو سوا بہتری کے اور کوئی بات اس کی نہیں جانتے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپ لونڈی سے پوچھیے تو وہ آپ سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی تھی)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا: ”اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھ کو اس کی پاکدامنی میں شک پڑے؟“ بریرہ نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی کبھی تو میں عیب بیان کرتی۔ اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے، آٹا چھوڑ کر گھر کا سو جاتی ہے، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو آپ پوچھتے ہیں نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑ کی اور کم عمری کی وجہ سے گھر کا بندوبست نہیں کر سکتی) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی سلول سے بدلا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منبر پر: ”اے مسلمان لوگو! کون بدلہ لے گا میرا اس شخص سے جس کی سخت بات ایذاء دینے والی میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی۔ اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو) نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص سے یہ لوگ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل سے) اس کو بھی نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر میں نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔“ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! میں آپ کا بدلہ لیتا ہوں۔ اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہے تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے بھائیوں خزرج میں سے ہے تو آپ حکم کیجئیے ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے) یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور وہ خزرج قبیلہ کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی حمایت آ گئی اور کہنے لگے: اے سعد بن معاذ! قسم اللہ کی بقا کی، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کرے گا، نہ کر سکے گا۔ یہ سن کر اسید بن حضیر جو سعد بن معاذ کے چچا زاد بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ سے کہنے لگے: تو نے غلط کہا: قسم اللہ کی بقا کی! ہم اس کو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جب تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزرج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ کشت و خون شروع ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تھے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ فرو کر رہے تھے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو رہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی کہ میرے آنسو نہ تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی، پھر دوسری رات بھی روتی رہی کہ نہ انسو تھمتے تھے، نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیتھے تھے اور میں رو رہی تھی، اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی، پھر ہم اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کیا اور بیٹھے۔ اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی اس روز سے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزرا تھا میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد پڑھا بیٹھتے ہی اور فرمایا: ”اما بعد۔ اے عائشہ! مجھ کو تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور بخشش مانگ اللہ سے اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے اللہ اس کو بخش دیتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بات تمام کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے باپ سے کہا: آپ جواب دیں میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مقدمہ میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرے باپ بولے: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کیا میں جواب دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سبحان اللہ باپ تو محب رسول تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دم نہ مارا باوجودت زمن آواز نیا مدکہ منم)۔ میں نے اپنی ماں سے کہا: تم جواب دو میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ وہ بولی: اللہ کی قسم میں نہیں جانتی کیا جواب دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کم سن لڑکی تھی میں نے قرآن نہیں پڑھا ہے لیکن میں قسم اللہ کی یہ جانتی ہوں کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا کہ تمہارے دل میں جم گئی اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا (یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے غصے سے فرمایا، ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا، بجز تہمت کرنے والوں کے) پھر اگر تم سے کہوں میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں تو بھی تم مجھ کو سچا نہیں سمجھبنے کے، اور اگر میں ایک گناہ کا اقرار کر لوں جس کو میں نے نہیں کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں تو تم مجھ کو سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثل سوائے اس کے کوئی نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے باپ کی تھی (یعقوب علیہ السلام کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا یوسف علیہ السلام کا باپ کہا) جب انہوں نے کہا:«فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ» یعنی اب صبر بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے، پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی اور میں اللہ کی قسم اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اور اللہ تعالیٰ ضرور میری پاکی ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو پڑھا جائے گا (قیامت تک) کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے اور کلام بھی ایسا جو پڑھا جائے البتہ مجھ کو یہ امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں کوئی ایسا مضمون ایسا دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکی ظاہر کر دے گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بھیجی اور اتارا قرآن کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر سے موتی کی طرح پسنیے کے قطرے ٹپکنے لگے، جاڑوں کے دنوں میں اس کلام کی سختی سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا (اس لیے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا) جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ منہ سے نکالا۔ فرمایا: ”اے عائشہ! خوش ہو جا اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بے گناہ اور پاک فرمایا۔“ میری ماں نے کہا: اٹھ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کر اور شکر کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کا بوسہ لے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوائے اللہ تعالیٰ کے اسی نے میری پاکی اتاری۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ نے «إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ» ‏‏‏‏ (۲۴-النور: ۱۱) آخر تک دس آیتوں کو تو اللہ جل جلالہ نے ان آیتوں کو میری پاکی کے لیے اتارا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو مسطح سے عزیز داری کی وجہ سے سلوک کیا کرتے تھے یہ کہا: کہ اللہ کی قسم! اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا کیونکہ اس نے عائشہ کی نسبت ایسا کہا تو اللہ نے یہ آیت اتاری «وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِى الْقُرْبَى» سے «أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ» آخر تک۔ حبان بن موسٰی نے کہا: عبداللہ بن مبارک نے کہا: یہ آیت بڑی امید کی ہے اللہ کی کتاب میں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ناتے داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھ کو بخشے، پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا: میں کبھی بند نہ کروں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اور رسول اللہ نے ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے میرے باب میں پوچھا: جو وہ جانتی ہوں یا انہوں نے دیکھا ہو۔ انہوں نے کہا: (حالانکہ وہ سوکن تھیں) یا رسول اللہ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات سنی ہے نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی کہتی ہوں) میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: زینب رضی اللہ عنہا ہی ایک زوجہ تھیں جو میرے مقابل کی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس تہمت سے بچایا ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اور ان کی بہن حمنہ بنت حجش نے ان کے لیے تعصب کیا اور ان کے لیے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں) زہری نے کہا: تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم کو پہنچا۔ 

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت ہوئی تھی اس کا بیان

حد یث نمبر - 7021

وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، وَمَعْمَرٍ بِإِسْنَادِهِمَا، وَفِي حَدِيثِ فُلَيْحٍ اجْتَهَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ، كَمَا قَالَ مَعْمَرٌ: وَفِي حَدِيثِ صَالِحٍ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ كَقَوْلِ يُونُسَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ، قَالَ عُرْوَةُ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ، وَتَقُولُ: فَإِنَّهُ قَالَ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ، وَزَادَ أَيْضًا، قَالَ عُرْوَةُ قَالَتْ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ مَا قِيلَ، لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ: ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ مُوعِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، وقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مُوغِرِينَ قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّزَّاقِ: مَا قَوْلُهُ مُوغِرِينَ؟، قَالَ: الْوَغْرَةُ شِدَّةُ الْحَرِّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ: أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ، إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَفِيهِ، وَلَقَدْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ جَارِيَتِي، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ، فَتَأْكُلَ عَجِينَهَا، أَوْ قَالَتْ: خَمِيرَهَا، شَكَّ هِشَامٌ فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَقَدْ بَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ عَنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفِيهِ أَيْضًا مِنَ الزِّيَادَةِ، وَكَانَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا بِهِ مِسْطَحٌ وَحَمْنَةُ وَحَسَّانُ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ وَحَمْنَةُ.

ترجمہ وہی جو گزرا اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا برا جانتی تھیں حسان کی برائی کو۔ وہ کہتی تھیں: یہ شعر حسان کا ہے «أَبِى وَوَالِدَهُ وَعِرْضِى * لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ» یعنی حسان کافروں سے کہتے ہیں: میر ے باپ اور میری عزت یہ سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے لیے ڈھال ہیں(مطلب یہ ہے کہ حسان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مداح اور ثناء خواں تھے اس میں کچھ شک نہیں، گو ان سے ایک قصور ہو گیا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تہمت میں شریک تھے پر اس کی سزا دنیا میں ان کو مل گئی)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: (قول اس کا جس سے تہمت لگائی جاتی تھی کہ) اللہ کی قسم! میں نے کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا اور بعد اس کے اللہ کی راہ میں شہید مارا گیا۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت ہوئی تھی اس کا بیان

حد یث نمبر - 7022

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ "، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ ".

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب لوگوں نے میری نسبت بیان کیا جو بیان کیا اور مجھے خبر نہ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور تشہد پڑھا اللہ کی تعریف کی اور اس کی صفت بیان کی جیسی اس کے لائق ہے پھر کہا: ”امابعد! مشورہ دو مجھ کو ان لوگوں کے بارے میں جنہوں نے تہمت لگائی میرے گھر والوں کو، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی پر کوئی برائی کبھی نہیں جانی اور جس شخص سے انہوں نے تہمت لگائی اس کی بھی کوئی برائی میں نے کبھی نہیں دیکھی اور نہ وہ کبھی میرے گھر میں آیا مگر اسی وقت جب میں موجود تھا اور جب میں سفر میں گیا وہ بھی میرے ساتھ گیا“ اور بیان کیا سارا قصہ حدیث کا اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں آئے اور میری لونڈی سے حال پوچھا: اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے عائشہ کا کوئی عیب نہیں دیکھا البتہ یہ عیب تو ہے کہ وہ سو جاتی ہیں پھر بکری آتی ہے اور ان کا آٹا کھا لیتی ہے یا خمیر کھا لیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے اسے جھڑکا اور کہا سچ کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک کہ صاف کہہ دیا اس سے (یہ واقعہ تہمت کا یا سخت سست کہا اس کو) وہ کہنے لگی: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسا جانتی ہوں جیسے سنار خالص سرخ سونے کی ڈلی کو جانتا ہے (یعنی بے عیب) یہ خبر اس مرد کو پہنچی جس سے تہمت کرتے تھے۔ وہ بولا: سبحان اللہ، اللہ کی قسم! میں نے کسی عورت کا کپڑا کبھی نہیں کھولا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ مرد اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تہمت کرنے والوں میں مسطح تھا اور حمنہ تھی اور حسان تھا اور منافق عبداللہ بن ابی وہ تو کھود کھود کر اس بات کو نکالتا پھر اس کو اکٹھا کرتا اور وہی بانی مبانی تھا اور حمنہ (بنت حجش)۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی کی برأت اور عصمت کا بیان

حد یث نمبر - 7023

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ "، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ ".

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص سے لوگ تہمت لگاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد لونڈی کو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:”جا اور اس شخص کی گردن مار .“ (شاید وہ منافق ہو گا یا کسی اور وجہ سے قتل کے لائق ہو گا) سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے۔ دیکھا تو وہ ٹھنڈک کے لیے ایک کنویں میں غسل کر رہا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: نکل۔ اس نے اپنا ہاتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا، انہوں نے اس کو باہر نکالا۔ دیکھا تو اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کو نہ مارا۔ پھر رسول اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو مجبوب ہے (یعنی ذکر کٹا ہوا) اس کا ذکر ہی نہیں ہے (تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے خیال سے اس کے قتل کا حکم دیا اس واسطے انہوں نے قتل نہ کیا اور شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ قتل نہ کیا جائے گا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا حکم دیا تاکہ اس کا حال کھل جائے اور لوگ اپنی تہمت پر نادم ہوں اور جھوٹ ان کا واضح ہو جائے)۔