مشکوٰة شر یف

توکل اور صبر کا بیان

توکل اور صبر کا بیان

معروف اصل میں  معرفت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پہچاننا، حقیقت کو پالینا اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں جن کو شریعت کے ذریعہ پہچانا گیا ہے اور جن کو اختیار کرنے کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ معروف کے مقابلہ پر منکر ہے یعنی وہ چیزیں جن کا شریعت سے کوئی واسطہ نہ ہو اور ان کو اختیار کرنے سے شریعت نے باز رکھا ہو۔

 واضح رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، تعلیمات اسلامی کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دینا، اور برائیوں سے روکنا۔ چنانچہ اس باب میں اسی مضمون سے متعلق احادیث نقل ہوں گی۔

خلاف شرع امور کی سرکوبی کا حکم

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے (یعنی جس چیز کو شریعت کے خلاف جانے) تو اس کو چاہئے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے (یعنی طاقت کے ذریعہ اس چیز کو نیست و نابود کر دے مثلاً باجوں گاجوں اور آلات لہو و لعب کو توڑ پھوڑ دے، نشہ آور مشروبات کو ضائع کر دے اور ہڑپ کی ہوئی چیز کو اس کے مالک کے سپرد کرا دے وغیرہ وغیرہ) اور اگر وہ خلاف شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی خلاف شرع امور کے بارے میں وعید کی آیتیں اور احادیث کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی اس کو دل سے برا جانے قلبی کڑھن رکھے اور عزم و ارادہ پر قائم رہے کہ جب بھی ہاتھ یا زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت حاصل ہو گی تو اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے گا، نیز اس خلاف شرع امر کے مرتکب کو بھی برا جانے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرے) اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ، ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے اور اس کے مرتکب کے خلاف قلب میں عداوت و نفرت کے جذبات رکھے جائیں، اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہل ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لئے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ ایمان کے لئے سب سے کمزور زمانہ ہے کہ اگر اہل ایمان طاقتور ہوتے تو وہ کسی برائی کو اپنی قولی و فعلی طاقت کے ذریعہ مٹانے کی بجائے محض قلبی نفرت پر اکتفا نہ کرتے۔ یا، وذالک اضعف الایمان، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے بلکہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہترین جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت(ولا یخافون لومۃ لائم) اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا۔

 بعض علما نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہل ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کریں دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علما کی ذات سے ہے۔ یعنی یہ اہل علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں اور تیسرے حکم (یعنی برائیوں اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلاف شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں۔

 بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کر لینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے کیونکہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز کو دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے اور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہے گا بلکہ کافر ہو جائے گا۔

 اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہو گا اور اگر وہ چیز مستحب ہو گی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہو گا، اسی طرح اگر کوئی خلاف شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہو گا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہو گا۔ اسی کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف و نہی  عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو مثلاً اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ اٹھ کھڑا ہو گا یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج اور زیادہ فتنہ و فساد کی صورت میں نکلیں گے تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی قطعاً ضروری نہیں ہو گی۔ اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو قبول کیے جانے کا گمان بھی ہو، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ جس شخص کو نیک کام کرنے کی تلقین کی جائے گی یا اس کو کسی برے کام سے روکا جائے گا تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو اس نیک کام کا حکم کرنا یا برے کام سے روکنا واجب نہیں ہو گا البتہ مستحسن ضرور رہے گا تاکہ شعار اسلام کا اظہار ہو جائے۔ امام نووی رحمۃ اللہ نے اس کے خلاف نقل کیا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

 حدیث کے الفاظ من رای منکم منکرا میں لفظ من کے ذریعہ مذکورہ حکم کا مخاطب جن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے ان میں ملت کا ہر فرد شامل ہے، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ آزاد ہو یا غلام یہاں تک کہ فاسق بھی اس امر کا ذمہ دار ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امر بالمعروف کے لئے شرط نہیں ہے کہ جو شخص کسی نیکی کا حکم کرنے والا ہو وہ پہلے خود بھی اس نیکی پر عامل ہو اور بغیر اپنے عمل کے امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینا اس کے لئے درست نہ ہو کیونکہ جس طرح خود اپنے نفس کو کسی نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ایک واجب چیز ہے اسی طرح ایک واجب امر یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کی جائے، لہٰذا اگر ان میں سے کوئی ایک واجب ترک ہوتا تو اس کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہو گا، یہ الگ بات ہے کہ جس واجب کا ترک ہو گا اس کا گناہ بہر صورت لازم آئے گا۔ لہٰذا قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ۔ آیت(لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف:2)۔ (یعنی تم اس چیز کو کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) تو اس آیت کریمہ کا محمول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس آیت کی مراد ترک عمل سے روکنا اور اس پر زجر و تنبیہ ہے نہ کہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے سے منع کرنا مراد ہے، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ جو شخص بھلائیوں کی تلقین کرتا ہے اور دوسروں سے نیک عمل اختیار کرنے کو کہتا ہے لیکن وہ خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتا تو یہ آیت کریمہ ایسے شخص کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تم دوسروں کو بھلائی اور نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہو لیکن یہ نہایت غیر موزوں بات ہے کہ تم خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا آیت یہ بات قطعاً ثابت نہیں کرتی کہ جو شخص خود نیک عمل اختیار نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیک عمل اختیار کرنے کی تلقین نہیں کر سکتا، تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکی کی تلقین کرنے والا اگر خود بھی نیکی کو اختیار کرے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ جو شخص خود عمل نہیں کرتا، اس کی تلقین و نصیحت دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

 امام نووی رحمۃ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی جو ترتیب ذکر کی گئی ہے وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے ذریعہ واجب ہے اس بارہ میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ روافض کا اس سے اختلاف ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے مذکورہ ترتیب کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا اور مخاطب نے اس کو قبول کر لیا تو سبحان اللہ اور اگر قبول نہ کیا تو وہ شخص اپنی ذمہ داری سے بہرحال سبکدوش ہو جائے گا، اس کے بعد اب اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہو گی۔ نیز علما نے کہا ہے کہ اس امر (یعنی بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے) کی فرضیت بطریق کفایہ ہے اور جو شخص اس فریضہ کی ادائیگی کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود اس ذمہ داری کو بلا کسی عذر کے پورا نہ کرے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ امر فرض عین بھی ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی برائی کسی ایسی جگہ رونما ہو رہی ہو کہ ایک شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا یا اس کے ازالہ کی قدرت اس کے علاوہ کوئی اور نہیں رکھتا جیسے اپنی بیوی یا بیٹی کسی برائی کا ارتکاب کرے تو اس برائی کو ختم کرنے کی ذمہ داری خاص طور سے اسی شخص پر عائد ہو گی۔

 امام نووی رحمۃ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ عدم قبولیت کا گمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کو ساقط نہیں کرتا، لہٰذا اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ فلاں شخص کے سامنے بھلائی کی تلقین کرنا یا اس کو برے کام سے روکنا بےکار ہے کیونکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قبول نہیں کرے گا تو اس صورت میں بھی اس پر واجب ہو گا کہ وہ اس شخص کو نیک کام کرنے کا حکم دے اور برائی کے راستہ سے روکے اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کرے کہ اس کی بات مانی جائے گی یا نہیں کیونکہ موعظت و نصیحت اول تو بذات خود بڑے فائدے رکھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں اور کبھی نہ کبھی ضرور اثر کرتی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ آیت(فان الذکری تنفع المومنین)۔ دوسرے یہ کہ محض اس گمان کی بنا پر کہ مخاطب تلقین و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لے گا اپنی ذمہ داری سے اعراض نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر بھلائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد میں مصروف رہنا چاہئے کہ لوگوں نے تو رسولوں تک کو جھٹلایا ہے اور پیغمبروں تک کی موعظت و نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے تو کیا ان رسولوں اور پیغمبروں نے حق بات پہچاننے کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ قرآن نے جو بات رسول و پیغمبر کے بارے میں فرمائی ہے وہ ہر شخص پر صادق آتی ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے یعنی آیت(وما علی الرسول الاّ البلاغ المبین)(یعنی رسول کا کام بس یہ ہے کہ) خدا کے احکام) صاف صاف پہنچا دے (ان احکام کا ماننا یا نہ ماننا دوسروں کا کام ہے۔

 واضح رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ صرف حاکم اور مقتدر مسلمانوں ہی پر عائد نہیں ہوتا اور نہ یہ ضروری ہے کہ اس امر کی انجام دہی کے لئے حاکم اپنی طرف سے احکام جاری کر دے، بلکہ اس کا حق عام لوگوں کو بھی پہنچتا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام کو انجام دیں، بلکہ ایسے زمانہ میں جب کہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمان اس فریضہ سے بالکل لاپرواہی برتتے ہیں۔ خصوصیت سے عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں اور تمام مسلمانوں میں بھی زیادہ ذمہ داری علما و مشائخ پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنا مخاطب صرف عام مسلمانوں ہی کو نہیں ماننا چاہئے بلکہ خواص جیسے حاکموں وغیرہ کو بھی مناسب انداز میں بھلائیوں کی تلقین کرنی چاہئے اور وہ جن برائیوں میں مبتلا ہوں ان سے ان کو روکنا چاہئے، چنانچہ پچھلے زمانوں کے بزرگ صرف عوام الناس کو بھلائیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے اور ان کو برائیوں سے روکنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ بادشاہوں حاکموں اور مقتدر مسلمانوں کے سامنے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسی شخص کو کرنا چاہئے جو یہ علم رکھتا ہو کہ وہ جس چیز کا حکم دے رہا ہے یا جس چیز سے روک رہا ہے شریعت کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت و اہمیت ہے، چنانچہ جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جن کا فرض و واجب ہونا یا جن کا حرام ہونا اس طرح ظاہر ہے کہ تمام مسلمان ان کو جانتے ہیں، جیسے نماز اور روزہ وغیرہ یا زنا اور شراب وغیرہ، تو ان چیزوں کے بارے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عام مسلمان بھی شوق سے کر سکتے ہیں لیکن جو چیزیں کہ خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی، ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں عام مسلمانوں کو کوئی علم نہیں ہوتا جو اجتہاد سے تعلق رکھتی ہیں تو عوام کو ان طرح کی چیزوں میں سے صرف اسی چیز کو اختیار کرنے سے منع کرنا چاہئے جن کی ممانعت متفق علیہ ہو مختلف فیہ امور میں منع نہیں کرنا چاہئے خصوصاً ان حضرات کے مسلک کے مطابق کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔

 آخر میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دیں ان کو چاہئے کہ وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں خوش خلقی، نرمی اور تہذیب و متانت کا رویہ اختیار کریں اور وہ اس امر کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر انجام دیں نہ کہ کسی دنیاوی غرض و مقصد اور نفس کی خاطر، اس صورت میں مخاطب پر بات اثر بھی کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ثواب بھی عطا فرماتا ہے اسی طرح جب کسی شخص کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو لوگوں کی موجودگی میں نہ کی جائے بلکہ تنہائی میں اور پوشیدہ طور پر اس کو نصیحت کرنی چاہئے کیونکہ لوگوں کی موجودگی میں کسی کو نصیحت کرنا، نصیحت نہیں بلکہ فضیحت ہے۔

مداہنت کرنے والے کی مثال

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  خدا کی مقرر کردہ حدود میں غفلت و سستی کرنے والے اور ان حدود میں گر پڑنے والے یعنی گناہ کا ارتکاب کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو قرعہ ڈال کر کشتی میں بیٹھے ہوں (جیسے کسی سواری میں ایک ساتھ سفر کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ قرعہ وغیرہ کی صورت میں ہر شخص کی جگہ متعین کر دی جاتی ہے اور جس شخص کی جو جگہ متعین ہوتی ہے وہ اسی جگہ پر بیٹھتا ہے) چنانچہ ان میں سے بعض لوگ کشتی کے نیچے کے حصے میں ہوں اور بعض لوگ اس کے اوپر کے حصے میں پھر جو لوگ کشتی کے نیچے کے حصے میں ہوں وہ جب پانی لینے کے لئے اوپر کے حصے میں آئیں تو اس حصے میں بیٹھے ہوئے لوگ اس شخص کے آنے جانے کی وجہ سے تکلیف محسوس کرنے لگیں (جو پانی لانے کے لئے اوپر جائے اور وہاں کے لوگوں کے درمیان سے گزرے) لہٰذا نیچے کے حصہ والوں میں ایک شخص (اوپر والوں کی تکلیف و ناگواری کو دیکھ کر) یہ کرے کہ کلہارا لے کر کشتی کی سطح کو توڑنا شروع کر دے، اور پھر اوپر کے لوگ اس کے پاس آئیں اور کہیں کہ یہ تمہیں کیا ہوا ہے (یعنی یہ تم کیسا بے تکا کام کر رہے ہو کہ کشتی کی سطح کو توڑ رہے ہو اور تمام کشتی والوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہو؟) اس پر وہ شخص یہ جواب دے کہ جب میں (پانی لینے کے لئے) اوپر جاتا ہوں اور تم لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوں تو تم تکلیف و ناگواری محسوس کرتے ہو اور میں پانی حاصل کرنے پر مجبور ہوں (خواہ اس کے لئے مجھے کشتی کی سطح ہی کو کیوں نہ توڑ کر پانی کی جگہ نکالنی پڑے) ایسی حالت میں (دو ہی صورتیں سامنے ہو سکتی ہیں) یا تو لوگ اس شخص کے ہاتھ کو روکیں (یعنی اس کو کشتی کی سطح نہ توڑنے دیں) تاکہ اس کو بھی اور خود اپنے آپ کو بھی (غرقابی اور ہلاکت سے) بچائیں یا اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں (یعنی کشتی کی سطح توڑنے سے اس کو نہ روکیں) اور پھر اس کو بھی ہلاکت میں ڈالیں اور خود بھی ہلاک ہو جائیں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حدیث میں جو لفظ، مدہن، ذکر کیا گیا ہے اس کے معنی ہیں مداہنت کرنے والا اور مداہنت کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص طاقت و قدرت رکھنے کے باوجود کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اس کو مٹانے و ختم کرنے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہے اور یہ باز رہنا خواہ شرم حضوری کی وجہ سے ہو یا دینی بے حمیتی کی بنا پر اور خواہ کسی کی جانب داری اور کسی غرض و لالچ کی وجہ سے ہو یا دین کی پرواہ نہ ہونے کی وجہ سے۔ واضح رہے کہ لغت میں، مداہنت اور مدارت کے کے ایک ہی معنی ہیں، لیکن شریعت میں مدارت کی اجازت ہے بلکہ بعض مواقع پر اس کو مستحسن قرار دیا گیا ہے جب کہ مداہنت کی صریح ممانعت ہے، چنانچہ شرع نقطہ نظر سے مدارت اور مداہنت کے درمیان فرق یہ ہے کہ مدارت کی بنیاد، دین کی حفاظت مصالح وقت کی رعایت اور ظالموں کے ظلم کو دور کرنے پر ہوتی ہے اور مداہنت کی بنیاد اپنے نفس کے تحفظ اور اس کی خواہشات کی تکمیل، لوگوں سے منفعت و مفاد حاصل کرنے اور دین سے لاپرواہی پر ہوتی ہے۔

  خدا کی حدود میں غفلت و سستی کرنے  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی جو حد (سزائیں) مقرر کی ہیں (جیسے شرابی کو کوڑے مارنے وغیرہ) ان کو طاقت و قدرت کے باوجود قائم و جاری کرنے میں لاپرواہی و غفلت کرنا۔ یا اللہ تعالیٰ نے جن گناہوں کو موجب حد قرار دیا ہے (جیسے زنا اور شراب نوشی وغیرہ) ان کے مرتکبین کو ان گناہوں سے روکنے میں غفلت کرنا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے سے باز رہنا۔ پس حضور نے فرمایا کہ جس طرح کشتی میں سوار کوئی شخص کشتی کی سطح کو توڑنے لگے اور کشتی میں سوار دوسرے لوگ اس کو اس کی حرکت سے باز رکھیں تو کشتی ڈوبنے سے بچ جائے گی اور تمام مسافر محفوظ و سلامت رہیں گے اور اگر دوسرے مسافر اس شخص کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ صرف وہی شخص بلکہ دوسرے تمام مسافر بھی اس شخص کی اس حرکت کی وجہ سے غرقاب و ہلاک ہو جائیں گے اسی طرح اگر لوگ کسی فاسق و بدکار کو اس کے فسق و بدکاری سے روکیں اور برائیوں کے راستہ سے باز رکھیں تو وہ اس فاسق و بدکار کی نجات و فلاح کا بھی باعث بنیں گے اور خود کو بھی عذاب خداوندی سے محفوظ رکھ پائیں گے اور اگر لوگ اس فاسق و بدکار کو اس حالت پر چھوڑ دیں کہ وہ اسی طرح فسق و بدکاری میں مبتلا رہے تو پھر نہ صرف وہ فاسق و بدکار ہی تباہ و برباد ہو گا بلکہ وہ لوگ اپنے آپ کو بھی ہلاکت و تباہی میں مبتلا کریں گے کیونکہ جب دنیا والوں کی بد اعمالیوں اور بد کاریوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس کی تباہ کاریوں میں کسی نہ کسی حیثیت سے سب ہی لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت(واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصہ)۔ یعنی تم لوگ اپنے آپ کو اس فتنہ سے بچاؤ جو خاص طور پر ان ہی لوگوں کو مبتلا نہیں کرے گا جنہوں نے ظلم کیا ہے، بلکہ تمہاری مداہنت کی وجہ سے تمہیں بھی مبتلا کرے گا۔

  جو قرعہ ڈال کر کشتی میں بیٹھے ہوں  کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے کشتی کو درجات میں تقسیم کر لیا ہو جن میں سے ایک درجہ تو کشتی کے اوپر کے حصہ میں واقع ہو اور دوسرا درجہ کشتی کے نیچے کے حصہ میں ہو اور ان دونوں درجات میں بیٹھنے کے لئے قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا گیا ہو کہ جس شخص کا نام قرعہ میں جس درجہ کے لئے نکلے وہ شخص اسی درجہ میں بیٹھے گا۔ واضح رہے کہ یہ قرعہ والی بات محض ایک قید اتفاقی کے طور پر ہے ورنہ عام طور سے کشتی میں بیٹھنے کا یہ طریقہ رائج نہیں ہے بلکہ نشست اور درجات کی تقسیم کشتی کے مالک و منتظم کی صوابدید پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کرایہ و ٹکٹ کی حیثیت اور ترتیب کے مطابق جس شخص کو جہاں چاہتا ہے جگہ دیتا ہے یا جس شخص کو جہاں جگہ مل جاتی ہے، وہاں بیٹھ جاتا ہے، ہاں اگر کشتی کسی ایک شخص کی ملکیت ہونے کے بجائے مشترکہ طور پر چند اشخاص کی یکساں طور پر ملکیت ہوتی ہے اور وہ اشخاص ایک ساتھ اس کشتی میں چاہیں تو اس صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب اپنی اپنی نشست کے لئے قرعہ ڈال لیں اور جس شخص کا نام جس درجہ اور جس جگہ کے لئے نکلے وہ وہاں بیٹھ جائے۔

 فکان الذی فی اسفلہا الخ میں لفظ الذی استعمال کرنا ماسبق میں ذکر کیے گئے لفظ بعض کی مناسبت سے ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اس حصے میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں میں سے صرف ایک شخص بھی ایسا کرے (یعنی کشتی کی سطح کو توڑنے لگے) تو اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہوتا ہے۔

  وہ جب پانی لینے کے لئے اوپر کے حصہ میں آئیں میں لفظ  پانی سے مراد شارحین کے نزدیک وہی عام پانی ہے جو پینے وغیرہ کے استعمال میں آتا ہے، اور بعض شارحین کہتے ہیں کہ یہاں  پانی  سے مراد پیشاب پاخانہ ہے جو نیچے کے حصے میں کوئی شخص کسی برتن وغیرہ میں کرے اور پھر اس کو دریا میں ڈالنے کے لئے اوپر کے حصے میں آئے اور وہاں کے لوگوں کے درمیان سے گزرے، اس صورت میں اس شخص کی وجہ سے اوپر کے حصہ والوں کا تکلیف و ناگواری کو دیکھ کر کشتی کے نیچے کی سطح توڑنے لگے تاکہ اس جگہ سے پانی حاصل کرے یا غلاظت وغیرہ پھینک دیا کرے الخ۔

 ایک شارح رحمۃ اللہ نے حدیث کی تشریح میں یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کریم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں غفلت و سستی کرنے والے کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کشتی کے اوپر کے درجہ میں ہو اور حدود میں گر پڑنے والے یعنی گناہ و معصیت میں مبتلا ہونے والے کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی جو کشتی کے نیچے کے درجہ میں ہو اور اس کے انہماک یعنی ان حدود (گناہوں) میں مشغول و متفرق رہنے اور ان کو ترک نہ کرنے کو کشتی کے نیچے کی سطح کو توڑنے کے عمل کے ساتھ تشبیہ دی، اور گناہوں کے مرتکب کو ان گناہوں سے روکنے کو کشتی کی سطح توڑنے والے کا ہاتھ پکڑنے اور اس کو کشتی توڑنے سے منع کرنے سے تعبیر کیا، اور گناہوں سے روکنے و منع کرنے کے فائدہ کو ان سب لوگوں کی فلاح و نجات سے تعبیر کیا جو پانی لینے کے لئے اوپر آنے والوں کو منع کریں یا جو پانی کے لئے اوپر جائیں اور ان کو اوپر آنے سے روکا جائے اور گناہوں سے منع نہ کرنے والوں کو ان لوگوں سے تعبیر کیا جو کشتی توڑنے والے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں یعنی اس کو کشتی توڑنے سے باز رکھیں اور مدافعت کرنے والوں یعنی لوگوں کو گناہوں سے نہ روکنے والوں کے گناہ اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والے کے انجام کو اس امر سے تعبیر کیا کہ اگر کشتی کے اوپر والے کشتی کو توڑنے والے کو منع نہ کریں تو وہ اپنے آپ کو بھی اور کشتی توڑنے والے کو بھی ہلاکت و تباہی میں ڈال دیں گے۔ نیز اسلام کو گویا کشتی سے تعبیر فرمایا جو دونوں قسم کے لوگوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔

 آخر میں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ حدیث میں منع کرنے والوں کے طبقہ کو جمع کے صیغہ کے ساتھ ذکر فرمایا جس کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس شخص کی حسب قدرت پوری مدد کریں جو لوگوں کو گناہوں اور برائیوں سے باز رکھنے کا فریضہ انجام دے اور اسی طرح گناہ کرنے والے کا ذکر مفرد کے صیغہ کے ساتھ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ کے مرتکب اپنی حیثیت کے اعتبار سے ناقص ہیں خواہ وہ تعداد میں کتنے ہی ہوں۔

بے عمل واعظ و ناصح کا انجام

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن (امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مقدمات کے فیصلہ کے وقت) ایک شخص کو لایا جائے گا جس کو مستوجب عذاب قرار دے کر آگ میں ڈال دیا جائے گا اور آگ میں پہنچتے ہی ان کی انتڑیاں فوراً باہر نکل پڑیں گی اور وہ انتڑیوں کو اس طرح پیسے گا جس طرح خراس کا گدھا اپنی چکی کے ذریعہ آٹے کو پیستا ہے (یعنی جس طرح چکی میں چلنے والا گدھا اپنی چکی کے گرد چلتا رہتا ہے، اسی طرح وہ شخص اپنی ان انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا اور ان کو پیروں تلے روندتا رہے گا) چنانچہ (اس شخص کو اس حالت میں دیکھ کر) دوزخی (یعنی اس کے زمانہ کے فاسق و فاجر لوگ) اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ اے فلاں شخص! تمہارا یہ کیا حال ہے؟ تم تو ہمیں نیک کام کی تلقین و نصیحت کیا کرتے تھے اور برے کام سے منع کرتے تھے وہ شخص جواب دے گا کہ بے شک میں تمہیں نیک کام کی تلقین کیا کرتا تھا مگر خود اس نیک کام کو نہیں کرتا تھا اور تمہیں برے کام سے منع کرتا تھا مگر خود اس برے کام سے باز نہیں رہتا تھا۔۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، اس شخص کو یہ سزا، عمل نہ کرنے کی وجہ سے ملے گی، نہ کہ اس وجہ سے ملے گی کہ وہ جب خود عمل نہیں کرتا تھا تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کیوں انجام دیتا تھا، چنانچہ اگر وہ اس فریضہ کو بھی ترک کرتا تو وہ مذکورہ عذاب سے بھی سخت عذاب کا مستوجب ہوتا کیونکہ اس صورت میں اس پر دو واجب کے ترک کا گناہ ہوتا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ نہ انجام دینے پر عذاب خداوندی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یقیناً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دو گے یا عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کرے گا پھر تم اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں باتوں میں سے ایک بات ضروری ہو گی یا تو تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو گے اور یا اگر تم اس فریضہ کی انجام دہی سے غافل رہے تو اللہ تعالیٰ مختلف طرح کی سختیوں اور مصائب کی صورت میں تم پر اپنا عذاب نازل کرے گا اور اس وقت تم ان سختیوں اور مصائب کے دفعیہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو تمہاری دعا قبول نہیں کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسرے عذاب اور مصائب دعا کی برکت سے ٹلنے کا احتمال رکھتے ہیں لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک پر خدا کی طرف سے جو آفات و بلائیں نازل ہوتی ہیں وہ دعا کے ذریعہ بھی ٹلنے کا احتمال نہیں رکھتیں کیونکہ ان کے دفعیہ کے لئے کی جانے والی دعا قبول نہیں ہوتی۔

بزار رحمۃ اللہ نے اور طبرانی رحمۃ اللہ نے کتاب اوسط میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  دو باتوں میں سے ایک بات کا ہونا ضروری ہے یعنی یا تو) تم یقیناً امر بالمعروف بھی کرو گے اور یقیناً نہی عن المنکر کا فریضہ بھی انجام دو گے، یا ان دونوں فریضوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے برے لوگوں کو مسلط کر دے گا اور پھر جو تمہارے نیک لوگ (ان برے لوگوں کے فتنہ و فساد اور ظلم و جور کے دفعیہ کے لیے) دعا کریں گے، مگر ان کی دعا قبول نہیں کی جائے گی۔

گناہ کو گناہ سمجھو

حضرت عرس بن عمیرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب زمین پر گناہ کیے جائیں تو جو شخص ان گناہوں کر برا جانے وہ اس شخص کی مانند ہے جو وہاں موجود نہ ہو (اور ان گناہوں کے وقوع کو نہ جانتا ہو) اور جو شخص وہاں موجود نہ ہو لیکن وہ ان گناہوں کے وقوع کو جانتا ہو) اور وہ ان گناہوں کو برا نہ جانے تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جو وہاں موجود ہو (اور ان گناہوں کو برا خیال نہ کرے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ گناہ کو ہر حال میں گناہ سمجھو، اور اس کو برا خیال کرو۔ اگر تمہاری آنکھوں کے سامنے کسی گناہ کا ارتکاب ہو رہا ہو تو اول اس کو ہاتھ اور زبان کے ذریعہ مٹانے اور ختم کرنے کی کو شش کرو اور اگر ان دونوں میں سے کسی کی بھی طاقت وقدرت نہیں رکھتے ہو تو پھر جو آخری درجہ ہے اس کو اختیار کرو یعنی اس گناہ کو برا خیال کرو اور دل میں اس کے خلاف نفرت کا جذبہ رکھو۔ اس صورت میں تمہارا شمار گویا ان لوگوں کے زمرہ میں ہو گا جو وہاں موجود ہی نہ ہو، اور جن کی آنکھوں کے سامنے اس گناہ کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ حقیقی موجودگی و غیر موجودگی کا تعلق دل سے ہے نہ کہ جسم و بدن سے، چنانچہ جس شخص نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے گناہ کو برا خیال کیا اور دل میں بھی اس کے خلاف نفرت رکھی تو گویا حقیقت میں وہ اس جگہ موجود نہیں جہاں وہ گناہ کیا جا رہا ہے، اگرچہ ظاہری طور پر وہاں موجود ہے اور اگر کسی شخص نے گناہ کو گناہ نہیں سمجھا یعنی اس گناہ کو اور اس گناہ کے مرتکب کو دل میں برا خیال نہیں کیا تو گویا وہ حقیقت میں اس جگہ موجود ہے جہاں وہ گناہ کیا جا رہا ہے اگرچہ ظاہری طور پر وہاں موجود نہیں ہے۔

برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد نہ کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے

'حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) انہوں نے فرمایا  لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو۔ آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ) 5۔ المائدہ:105) یعنی اے مومنو! تم اپنے نفسوں کو لازم پکڑ لو جو شخص گمراہ ہو گیا ہے وہ تم کو ضرر نہیں پہنچائے گا جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو (لہٰذا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو اور اس کے معنی کو عموم و اطلاق پر محمول کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہو کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے حالانکہ تمہارا یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ کسی خلاف شرع امر کو دیکھیں اور اس کی اصلاح و سرکوبی کے لئے کوشش نہ کریں اور لوگوں کو اس سے باز نہ رکھیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔ اس روایت کو ابن ماجہ رحمۃ اللہ اور ترمذی رحمۃ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ نیز ابو داؤد رحمۃ اللہ کی روایت میں یوں ہے کہ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) جب لوگ کسی کو ظلم کرتے دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی اس کو ظلم کرنے سے نہ روکیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ اور ابو داؤد ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا)۔ جس قوم میں گناہ و معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور اس قوم کے لوگ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ ان کی اصلاح و سرکوبی کی قدرت رکھتے ہوں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی اصلاح و سرکوبی کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔ ابو داؤد ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) جس قوم میں گناہ و معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور اس قوم میں ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جو گناہ و معاصی کا ارتکاب نہیں کرتے (لیکن اس کے باوجود وہ اپنے میں کے گناہ گار لوگوں کو گناہوں سے باز نہ رکھیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کرے گا ۔

 

تشریح

 

 آخری روایت کے الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ جب برے لوگوں کے مقابلہ میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو اور وہ اچھے لوگ اپنی کثرت کے باوجود ان لوگوں پر قابو نہ پائیں اور ان کو گناہ و معاصی کے راستہ سے نہ روکیں تو وہ یقیناً عذاب خدا کے مستوجب قرار پائیں گے کیونکہ ان کا اکثریت میں ہونا، برائیوں کو مٹانے پر قدرت رکھنے کے مترادف ہے۔ اور قدرت رکھنے کے باوجود برائیوں کی بیخ کنی کی جدوجہد اور سعی نہ کرنا ایک ایسی غفلت و تقصیر ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے۔

 مذکورہ آیت کے بارے میں یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ یہ آیت اپنے حکم کے اعتبار سے عام و مطلق نہیں ہے بلکہ اس امر کے ساتھ مخصوص و مقید ہے کہ جو لوگ وعظ و نصیحت اور تنبیہ و تہدید کے باوجود برائی کا راستہ ترک نہ کریں، ان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی اثر نہ ہو اور وہ اپنے اختیار کیے ہوئے راستہ پر مطمئن و خوش ہوں، جیسا کہ قرب قیامت میں لوگوں کا یہی حال ہو گا تو ایسے لوگوں کے بارے میں مذکورہ آیت کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کی برائیوں کا وبال ان بندگان خدا کو کوئی نقصان و ضرر نہیں پہنچا سکتا، جن کو خدا نے ہدایت یافتہ بنایا ہے اور جو برائیوں کے راستہ سے دور رہتے ہیں، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ اس آیت کو لوگوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پڑھا (اور اس کا مطلب جاننا چاہا) تو انہوں نے فرمایا کہ تم جس زمانہ میں ہو وہ زمانہ اس آیت کا محمول نہیں ہے کیونکہ تمہارے زمانہ کے لوگ تو اچھی باتوں کو سنتے ہیں اور ان کا اثر قبول کرتے ہیں، البتہ آخر میں ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب بندگان خدا امر با معروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے تو لوگ ان کی باتوں کو نہیں سنیں گے، چنانچہ یہ آیت اس آنے والے زمانہ کے بارے میں آگاہ کر رہی ہے اسی طرح حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی روایت جو آگے آ رہی ہے اس پر دلالت کرتی ہے۔

 بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھو، اگر تم نے گناہوں اور برائیوں سے خود کی حفاظت کر لی اور اس طرح ہدایت یافتہ بن گئے، نیز کسی وجہ سے تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے عاجز رہے تو پھر تمہیں ان لوگوں کی گمراہی کا وبال کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو خلاف شرع امور اور برائیوں کا ارتکاب کر کے گمراہ ہو گئے ہوں۔

برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد نہ کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ  جس قوم کا کوئی شخص گناہ و معاصی کا ارتکاب کرتا ہو اور اس قوم کے لوگ اس پر قدرت رکھتے ہوں کہ (ہاتھ یا زبان کے ذریعہ) اس گناہ کی اصلاح و سرکوبی کریں اور اس شخص پر قابو پائیں لیکن اس کے باوجود وہ اس کی اصلاح نہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر اپنی طرف سے عذاب نازل کرتا ہے قبل اس کے کہ وہ مریں۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب اسی دنیا میں نازل ہوتا ہے۔ خواہ اس کی صورت کچھ ہی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک کی وجہ سے دنیا میں بھی عذاب پہنچتا ہے اور آخرت کا عذاب باقی رہتا ہے جو وہاں پہنچے گا، اس کے برخلاف اور گناہوں کے مرتکبین پر اس دنیا میں عذاب ہونا ضروری نہیں ہے۔

آخر زمانہ میں دین پر عمل کرنے کی فضیلت و اہمیت

حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد۔ (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ) 5۔ المائدہ:105)۔ کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا جان لو خدا کی قسم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا (کہ کیا میں اس آیت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے باز رہوں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (کہ ہر گز نہیں) تم اس فریضہ کی ادائیگی سے باز نہ رہو) بلکہ نیکیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب تم بخل کو دیکھو کہ لوگ اس کی اتباع کرنے لگے ہیں، جب تم خواہشات نفس کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کے غلام بن گئے ہیں، جب دنیا کو دیکھو کہ لوگ اس کو آخرت پر ترجیح دینے لگے ہیں، جب تم دیکھو کہ ہر عقل مند اور کسی مسلک کا پیرو اپنی ہی عقل اور اپنے ہی مسلک کو سب سے اچھا اور پسندیدہ سمجھنے لگا ہے (کہ نہ تو وہ کتاب و سنت اور اجماع امت اور قیاس کی طرف نظر کرتا ہے اور نہ علما اور اہل حق کی طرف رجوع کرتا ہے بلکہ محض اپنے نفس ہی کو سب سے بڑا حاکم اوعر مفتی سمجھنے لگا ہے) اور جب تم کسی ایسی چیز کو دیکھو کہ جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو تو (ان سب صورتوں میں) اپنے آپ کو لازم پکڑ لو (یعنی اپنی ذات کو گناہوں سے محفوظ رکھو) اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو (بلکہ ان سے گوشہ نشینی اختیار کرو) کیونکہ تمہارے سامنے آخر زمانہ میں ایسے دن آنے والے ہیں جن میں صبر کرنا ضروری ہو گا (اور ان ایام کی ابتدا خلفا راشدین کے بعد ہی ہو گئی ہے اور تا حال ان کا سلسلہ جاری ہے) لہٰذا جس شخص نے ان دنوں میں صبر کر لیا (یعنی اس سخت زمانہ میں دین پر عمل پیرا رہنے کی کلفت و مشقت کو برداشت کر لیا) اس کی حالت یہ ہو گی کہ گویا ان سے اپنے ہاتھ میں انگارا لے لیا ہے اور ان دنوں میں جو شخص دین و شریعت کے احکام پر عمل کرے گا اس کو ان پچاس لوگوں کے عمل کے برابر ثواب ملے گا جو اس شخص جیسے عمل کریں (اور ان کا تعلق نہ ان سخت ایام سے ہو اور نہ ان کو دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں وہ تکالیف و مصائب برداشت کرنا پڑے جو اس شخص کو برداشت کرنا پڑیں گے)۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے (یہ سن کر) عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا ان پچاس لوگوں کے عمل کا اعتبار ہو گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے پچاس آدمیوں کا اجر و ثواب۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 وریت امر الابدلک(اور جب تم ایسی چیز دیکھو جس کے علاوہ چارہ کار نہو) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسی برائی کا دور دورہ ہو کہ جس کی طرف خواہش نفس کا میلان ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان آنے اور ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جبلت طبعی کی بنا پر بے اختیار اس برائی میں مبتلا ہو جانے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لینا لازم ہے تاکہ اس برائی کا ارتکاب نہ ہو۔ اور بعض حواشی میں یہ مطلب لکھا ہے لابدلک سے مراد اپنے عجز کے سبب نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے معذور رہنا ہے۔ یعنی اگر تم کسی ایسی برائی کو دیکھو جس سے لوگوں کو روکنے اور منع کی طاقت تم نہ رکھتے ہو اور اس وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے سے سکوت و اعراض کرتے ہو تو اس صورت میں تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو جو اس برائی میں مبتلا ہیں۔ یہ معنی کتاب کے ان نسخوں کی روایت کے مطابق ہیں جن میں لابدلک (جس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی چارہ کار نہ ہو) کے بجائے لایدلک (بمعنی لاقدرۃ لک علیہ یعنی جس سے روکنے اور منع کرنے کی طاقت و قدرت تمہیں حاصل نہ ہو) کے الفاظ ہیں۔ یا مذکورہ جملہ کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر تمہیں کوئی ایسا امر درپیش ہو جو تمہارے لئے نہایت ضروری ہو اور سخت اہمیت کا حامل ہو اور اس کی وجہ سے تم نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکتے ہو بایں طور کہ اگر تم اپنی توجہ اور اپنے وقت کو اس فریضہ کی انجام دہی میں لگاتے ہو تو تمہارے وہ ضروری امر فوت ہو جاتا، ہو تو اس صورت میں تم ان لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر لو، جو برائیوں میں مبتلا ہیں اور جن کو ان برائیوں سے روکنے سے تم معذور ہو۔

  اور عوام کے معاملات سے کوئی تعلق نہ رکھو کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کچھ لوگوں کو دیکھو کہ وہ گناہ کرتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا ہیں مگر تم طاقت قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے ان لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنے اور برائی سے روکنے سے سکوت و اعراض کرنا ضروری سمجھتے ہو تو اس صورت میں تمہیں چاہئے کہ بس اپنی ذات کی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے بجائے خود اپنے آپ کو گناہوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے اور نیک کاموں کو اختیار کرنے میں مشغول رہو، نیز لوگوں کے معاملات و حالات اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو، وہ اگر چاہے تو اپنے فضل و کرم سے خود ہی ان کو راہ راست پر لے آئے گا ورنہ ان کو سخت سزا دے گا۔ اس حکم کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو بس اسی قدر ذمہ دار قرار دیتا ہے، جتنی ذمہ داری اٹھانے کی وہ طاقت و قدرت نہ رکھتا ہو۔

  گویا اس نے اپنے ہاتھ میں انگارہ لے لیا ہے یہ جملہ دراصل مشقت و کلفت برداشت کرنے سے کنایہ ہے یعنی اس زمانہ میں دین پر چلنا اور دنیا سے بے رغبتی رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا بلکہ یہ کام اتنا سخت اور اس قدر مصائب اور کلفتوں سے بھرپور ہو گا کہ جیسے کوئی شخص اپنے ہاتھ پر دہکتا ہوا انگارہ رکھ لے اور پھر اس کی تکلیف و اذیت کو برداشت کر لے۔

 حدیث کے آخری جزء سے مذکورہ صفت (یعنی دین پر عمل پیرا ہونے کی کلفت و مشقت برداشت کرنے اور اس پر صابر و شاکر رہنے) میں صحابہ رضی اللہ عنہم پر آخر زمانہ کے دیندار لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جزوی فضیلت، کلی فضیلت کے منافی نہیں ہو سکتی، چنانچہ اوب عمرو بن عبدالبر نے، جو مشاہیر محدثین میں سے ہیں، اپنی کتاب استیعاب میں اس مسئلہ پر بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اس امت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو کسی صحابہ رضی اللہ عنہم کے مرتبہ جیسی فضیلت رکھا تو بلکہ صحابی سے زیادہ فضیلت کا حامل ہو۔ انہوں نے اپنے اس قول کی دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن سے یہ بات مفہوم ہوتی ہے، لیکن علما کا مختار قول اس کے خلاف ہے تاہم واضح رہے کہ یہ اختلاف اقوال بس ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی حد تک ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر ایمان لائے اور واپس اپنے وطن چلے گئے، اس سے زیادہ صحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو حاصل نہ رہی، ورنہ جہاں تک ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات کا تعلق ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طویل صحبت و رفاقت کا شرف حاصل رہا ہے اور جو شب و روز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر رہے اور انہوں نے آثار و انوار صحبت جمع کیے ان کی ذات اس اختلاف اقوال سے ماور ا ہے کہ ان کے بارے میں کسی بھی عالم کا یہ قول نہیں ہے کہ اس امت کوئی بھی فرد ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے رتبہ کے بقدر یا اس سے زائد فضیلت رکھ سکتا ہے، بلکہ ہم تو جمہور علما کے قول کے مطابق بلا استثنا تما ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ شرف صحابیت کا مرتبہ ہر ایک صحابی کو حاصل ہے خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دست مبارک پر ایمان لر کر اپنے وطن چلے گئے ہوں اور خواہ تمام عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت و رفاقت میں رہے ہوں، اور یہ شرف بذات خود اس درجہ کا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی فرد اس مرتبہ میں ان کا شریک نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس امت کا کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی بلا استثنا کسی بھی صحابی رضی اللہ کے مرتبہ جیسی فضیلت نہیں رکھ سکتا۔ قوب القلوب میں کیا خوب لکھا ہے کہ جمال مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پڑنے والی ایک ہی نظر سے وہ حقائق آشکارا ہو جاتے ہیں اور وہ مقام و مقصد حاصل ہو جاتا ہے جو دوسروں کو سالہا سال کے چلوں اور قرنہا قرن کی ریاضت و مجاہدہ سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک جامع خطبہ کا ذکر

حضور ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) عصر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (متعلقات دین میں سے) ایسی کوئی ضروری بات نہیں چھوڑی جو قیامت تک پیش آسکتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان باتوں کو ذکر فرمایا، اور یاد رکھنے والے نے ان کو یاد رکھا اور بھولنے والا اس کو بھول گیا، (یعنی وہ باتیں اتنی تفصیل اور ہمہ گیری کے ساتھ بیان ہوئی کہ بعض لوگوں کو تو یاد رہیں اور بعض لوگوں کے حافظہ نے ان کو فراموش کر دیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت جو کچھ فرمایا اس میں یہ بھی تھا کہ  دنیا بڑی شیریں اور ہری بھری ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا وہ دیکھتا ہے کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔ پس خبردار! تم دنیا سے بچنا اور عورتوں سے دور رہنا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ  قیامت کے دن ہر عہد شکن کے لئے ایک نشان (علامتی جھنڈا) کھڑا کیا جائے گاجو دنیا میں اس کی عہد شکنی کے بقدر ہو گا (یعنی جس شخص نے دنیا میں) جتنی زیادہ عہد شکنی کی ہو گی اس کا وہ نشان اسی قدر بلند و نمایاں ہو گا تاکہ میدان حشر میں اس کو عام طور پر پہچان لیا جائے کہ یہ عہد شکنی کا مرتکب ہے اور اس نے کتنی زیادہ عہد شکنی کی ہے اور اس طرح کا علامتی نشان ہر باعث حق و باطل کے لئے ہو گا تاکہ ایک دوسرے سے امتیاز کر کے پہچانا جا سکے جیسے اس دنیا میں امرا اور مقتدرین اپنے ساتھ کوئی علامتی نشان رکھتے ہیں اور ان کی عہد شکنی امیر عامہ کی عہد شکنی سے زیادہ بڑی نہیں چنانچہ اس کا نشان اس کی مقعد کے قریب کھڑا کیا جائے گا (تاکہ اس کی زیادہ فضیحت و رسوائی ہو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ  تم میں سے کسی کو بھی کوئی خوف و ہیبت حق بات کہنے سے باز نہ رکھے، جب کہ وہ حق بات سے واقف ہو (یعنی کوئی شخص کلمہ حق کہنے میں کسی کا کوئی خوف و لحاظ نہ کرے بلکہ اس کو برملا کہے) ہاں اس کی وجہ سے جان جانے کا خوف ہو تو معذوری ہے اگرچہ اس صورت میں بھی اس سے باز رہنا اولی ہو گا) ایک اور روایت میں اس جگہ ولا یمنعن احدا منکم ہیبۃ الناس ان یقول بحق کے بجائے) یہ ہے کہ  جب تم میں سے کوئی شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے تو لوگوں کا کوئی خوف وہیبت اس کو خلاف شرع امر کی اصلاح وسرکوبی سے باز نہ رکھے۔ (یہ بیان کر کے) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روپڑے اور کہنے لگے کہ ہم نے خلاف شرع امر کو (اپنی آنکھ سے) دیکھا اور لوگوں کے خوف سے ہم اس کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکے۔ (اس کے بعد حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا  جان لو کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو مختلف جماعتوں اور متضاد اقسام ومراتب کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے چنانچہ ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے، جو (سن تمیز سے لے کر آخر عمر تک گویا ساری عمر) ایمان کی حالت میں زندہ رہتے ہیں اور ایمان ہی پر ان کا خاتمہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے، جو کفر ہی کی حالت میں (ساری عمر) زندہ رہتے ہیں اور کفر ہی پر ان کاخاتمہ ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہی ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے وہ ایمان ہی کی حالت میں (ساری عمر) رہتے ہیں لیکن ان کا خاتمہ کفر پر ہوتا ہے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کفر ہی کی حالت میں (ساری عمر) گزارتے ہیں لیکن ان کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (اس موقع پر) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غضب وغصہ کی قسموں کو بھی ذکر کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بعض آدمی بہت جلد غضب ناک ہو جاتے ہیں لیکن ان کا غضب وغصہ جلد ہی ختم بھی ہو جاتا ہے (یعنی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ذرا سی بات پر جلد ہی غصہ آ جاتا ہے لیکن ان کا غصہ جتنی تیزی کے ساتھ ہے اسی تیزی کے ساتھ فرو بھی ہو جاتا ہے) چنانچہ ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا بدل بن جاتا ہے (یعنی جلد غصہ آنا بری خصلت ہے اور غصہ کا جلد جاتے رہنا اچھی خصلت ہے، لہٰذا جس شخص میں یہ دونوں خصلتیں ہوں تو ان میں سے جو خصلت اچھی ہے وہ بری خصلت کی مکافات کر دیتی ہے، اس طرح اس بارے میں وہ شخص نہ تو مدح وتحسین کا مستحق ہوتا ہے اور نہ برائی کا مستوجب، بلکہ دونوں خصلتوں کا حامل ہونے کی وجہ سے بین بین رہتا ہے، بایں اعتبار اس کے متعلق نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں میں بہتر شخص ہے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ لوگوں میں بد تر شخص ہے) اور بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کو غصہ دیر میں آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے (ایسا شخص بھی ایک اچھی خصلت رکھتا ہے اور ایک بری خصلت کہ اگرچہ غصہ کا دیر میں آنا اچھا ہے لیکن اس کا دیر سے جانا برا ہے۔چنانچہ ایسا شخص بھی بین بین ہوتا ہے کہ اس کو ایک بہترین شخص کہا جاتا سکتا ہے اور نہ بدترین شخص، لہٰذا تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جن کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد فرو ہو جاتا ہے جب کہ تم میں بد ترین شخص وہ ہے جس کو جلد غصہ آئے اور دیر میں غصہ جائے۔ (اس کے بعد) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم غصہ سے بچو (یعنی ایسا کام نہ کرو جس سے غصہ آئے یا یہ مطلب ہے کہ غصہ سے خدا کی پناہ مانگو اور اس کے درجہ اس خصلت سے بچو (کیونکہ وہ غصہ ابن آدم کے قلب پر ایک دہکتا ہوا انگارہ ہے (یعنی غصہ آگ کے انگارہ کی طرح حرارت غریزیہ اور حدت جبلیہ رکھتا ہے جو نفس کی انگیٹھی میں دبا ہوا ہے، اور جب خواہش نفس اس کو بھڑکاتی ہے تو اس کی حرارت اور تیزی قلب پر غالب آ جاتی ہے اور عقل اپنا تصرف کرنے سے عاجز رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا شخص اپنے غصہ کی آگ میں دوسروں کو تو جلاتا ہے لیکن خود کو بھی جلا ڈالتا ہے) کیا تم نہیں دیکھتے کہ (جب کوئی شخص غضب ناک ہوتا ہے تو) اس کی گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں اور آنکھوں سرخ ہو جاتی ہیں (یعنی یہ چیزیں دراصل اسی غصہ کی حرارت عزیزیہ اور ابخرات غلیظہ کے اٹھنے کا اثر ہوتی ہیں، اس طرح غضب ناک شخص کا ظاہر گویا اس کے باطن کا غماز ہوتا ہے) لہٰذا جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اب غصہ آیا ہی چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ فوراً پہلو پر لیٹ جائے اور زمین سے چمٹ جائے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرض کا بھی ذکر کیا (یعنی قرض قرضدار اور قرض خواہ کے احوال و اقسام کو بھی بیان کیا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  تم میں سے بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ (قرض کی) ادائیگی میں تو اچھا رہتا ہے لیکن اپنا قرض وصول کرنے میں سختی کرتا ہے (یعنی اگر اس پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو اس کو ادا کرنے میں صفائی معاملہ اور خوبی کا ثبوت دیتا ہے، لیکن جب اس کا قرض کسی پر ہوتا ہے تو اس کو قرض دار سے وصول کرنے میں سختی کرتا ہے بایں طور کہ مطالبہ و تقاضا کے وقت اس قرض دار کا کوئی ادب و لحاظ نہیں کرتا اور سختی و بدکلامی کے ذریعہ اس کو ایذا پہنچاتا ہے اس طرح اس میں قرض کو خوبی کے ساتھ ادا کرنے کی بھی خصلت ہوتی ہے اور اصولی قرض میں برائی اختیار کرنے کی بھی خصلت چنانچہ اس کی دونوں خصلتوں میں سے ہر ایک دوسری کا بدل ہو جاتی ہے، لہٰذا تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو کسی کا قرض ادا کرنے میں بھی اچھے ہوں اور کسی سے اپنا قرض وصول کرنے میں بھی اچھے ہوں اور تم میں بدترین لوگ وہ ہیں جو کسی کا قرض ادا کرنے میں بھی برے ہوں اور کسی سے اپنا قرض وصول کرنے میں بھی برے ہوں۔

 (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے خطبہ میں یہ نصیحتیں فرمائیں) یہاں تک کہ جب سورج کا اثر صرف کھجوروں کی چوٹیوں اور دیواروں کے کناروں پر رہ گیا (یعنی جب دن آخر ہو گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا۔  یاد رکھو! اس دنیا کا جو زمانہ گزر چکا ہے اس کی بہ نسبت اب صرف اتنا زمانہ باقی رہ گیا ہے جتنا کہ آج کے دن کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت یہ آخری وقت۔ (یعنی جس طرح آج کے دن کا قریب قریب پورا حصہ گزر چکا ہے اب بہت قلیل عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  یہ دنیا بڑی شیریں اور ہری بھری ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے متعلقات کے ساتھ بظاہر اس قدر لذت آمیز اور خوش نما ہے کہ محض ظاہر حالت پر ریجھنے والے لوگوں کو طبعی طور پر اس سے بہت مناسبت اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے اور ان کی آنکھوں میں اس کی حقیقت نہایت دلکش اور سرسبز و شاداب معلوم ہوتی ہے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں اہل عرب کے نزدیک جو چیز نرم و نازک ہوتی ہے اور اپنی ناپائیداری کی وجہ سے زیادہ مدت نہیں ٹھہرتی بلکہ جلد جاتی رہتی ہے اس کو وہ لوگ خضراوات یعنی سبزیوں اور ترکاریوں سے مشابہت دیتے ہوئے  خضرا  کہتے ہیں۔ بہرحال حدیث کے اس جملہ میں دراصل اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا مکر و تصنع اور ظاہر حسن و لذات سے بھری ہوئی ہے کہ لوگوں کو اپنے ظاہری ٹیپ ٹاپ رکھنے والے حسن و  جمال پر فریفتہ کرتی ہے اور اپنی جھوٹی لذات و خواہشات کی طرف مائل کرتی ہے حالانکہ اس کی تمام تر دلکشی اور رنگینی اور خواہشات و لذات بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔

  اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنایا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں تمہیں جو مال و دولت حاصل ہے اس کے بارے میں تم اس حقیقت کو جان لو کہ اس مال و دولت کے تم حقیقی مالک نہیں ہو بلکہ حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے اور تم صرف اس کے خرچ و تصرف میں خلیفہ اور وکیل کی حیثیت رکھتے ہو۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان لوگوں کا خلیفہ قرار دیا ہے جو تم سے پہلے اس دنیا میں تھے اور ان کے اموال و جائیداد کو تمہاری سپردگی میں دے دیا ہے، لہٰذا وہ یہ دیکھتا ہے کہ تم اپنے اموال و املاک کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کرتے ہو اور اس میں کس طرح تصرف کرتے ہو یا کہ تم گزرے ہوئے لوگوں کے احوال و انجام سے کس طرح عبرت پکڑتے ہو اور ان کے چھوڑے ہوئے اموال و جائیداد میں کس طرح تصرف کرتے ہو۔

   تم دنیا سے بچو کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے دنیا کی حقیقت جان لی کہ وہ فنا ہو جانے والی چیز ہے اور اس کی کسی بھی شے کو کوئی استحکام و دوام نہیں ہے تو پھر اس کے پیچھے پڑنا نہایت نازیبا اور غیر دانش مندی کی بات ہے، لہٰذا تم دنیا کو اس قدر حاصل کرنے کی خواہش و کوشش نہ کرو جو ضرورت و حاجت سے زیادہ ہو اور ضرورت و حاجت بھی وہ کہ جس سے آبرومندانہ زندگی کی بقا دین کی مدد اور آخرت میں نفع حاصل ہو۔ اسی طرح  عورتوں سے بچو کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے حسن و جمال اور ناز و ادا کے مکر و فریب اور ان کی ناروا محبت و شیفتگی کے جال سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ مبادا یہ چیز مال و دولت جمع کرنے کی حرص اور دنیا کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے استغراق میں مبتلا کر دے جس کی وجہ سے تم علم و عمل کی راہ سے دور ہو جاؤ۔

  امیر عامہ سے مراد متغلبی ہے یعنی وہ شخص جو مسلمانوں کے معاملات اور ان کے ملک و شہر پر غالب و حکمران ہو گیا ہو اور عام لوگوں نے ارباب حل و عقد یعنی علما اور دانشوران زمانہ کی رائے و مشورہ کے بغیر اس شخص کو امیر و حاکم تسلیم کر لیا ہو اور اس کے حامی و مدد گار ہوں۔

 اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا رونا اس احساس کی بنا پر تھا کہ ہم نے کلمہ حق کہنے کے سلسلہ میں اس مرتبہ کو ترک کر دیا جو اولی ہے، اور وہ یہ کہ ہر حال میں حق بات کہی جائے خواہ اس کی پاداش میں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ظاہر ہے کہ ان کا یہ احساس محض ان کے کمال ایمان اور دین کے تئیں شدت احتیاط پر مبنی تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس مرتبہ کو ترک کرنا اسلامی تعلیمات کے قطعاً خلاف نہیں تھا بلکہ ان احادیث پر عمل کرنے کی بنا پر تھا جن سے واضح ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے ضعف و اضمحلال کے زمانہ میں اور عجز و بے بسی کی صورت میں کلمہ حق کہنے سے سکوت اختیار کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کی وجہ سے جان و مال اور آبرو کی ہلاکت و نقصان کا خوف ہو۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ جب اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے عظیم انسان کو جو دین کے بارے میں انتہائی سخت و مضبوط تھے اور جو یقین و معرفت کی دولت سے پوری طرح مالا مال تھے اگر وہ اس وصف و مرتبہ کے باوجود، اہل باطل جیسے یزید و حجاج سفاک وغیرہ کے خوف سے اظہار حق کی قدرت نہیں رکھتے تھے تو ہم جیسے مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو اہل ایمان کے انتہائی ضعف و اضمحلال کا زمانہ پائے ہوئے ہیں جن میں با عمل علما اور ایمانی جرات و ایثار رکھنے والے راہبر کم ہیں جو ریا کار مشائخ وصوفیا کی کثرت رکھتے ہیں اور جن پر اکثر ظالم امرا و حکما مسلط ہیں۔ لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زمانہ صبر و تحمل، رضا بقضا اور سکوت و یکسوئی اختیار کرنے اور بقدر بقا زندگی معاشی ضروریات کے حصول پر قناعت کرنے کا ہے۔

  بعض وہ ہیں جن کو مومن پیدا کیا جاتا ہے یعنی ان کی پیدائش مومن ماں باپ کے یہاں یا مسلم آبادی یا شہر میں ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ان کو مومن کہا جاتا ہے، یہ وضاحت اس لئے کی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص پیدا ہوتا ہے تو سن تمیز کو پہنچنے سے قبل اس کی طرف ایمان کی نسبت نہیں کی جاتی، یہ اور بات ہے کہ علم الٰہی کے اعتبار سے یا اس سے آئندہ زمانہ کی حالت کے اعتبار سے اس کی طرف ایمان کی نسبت کر دی جائے۔ اسی طرح  بعض وہ ہیں جن کو کافر پیدا کیا جاتا ہے سے مراد وہ لوگ ہیں جو کافر ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں یا جن کی پیدائش کافروں کی آبادی اور ان کے شہر میں ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے حدیث کا یہ جملہ اس حدیث کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ کل مولود یولد علی الفطرۃ کیونکہ اس ارشاد گرامی (کل مولود الخ) کی مراد یہ بتانا ہے کہ کہ جو بھی شخص اس دنیا میں آتا ہے وہ فطری طور پر ہدایت و راستی قبول کرنے کی استعداد و صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسا مانع پیش نہ آئے جو اس کو گمراہی کے راستہ پر دال دے جیسا کہ خود اسی حدیث کے بعد کے الفاظ فابواہ یہودانہ الخ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی میں لوگوں کی جو قسمیں بیان کی گئی ہیں وہ غالب و اکثریت کے اعتبار سے ہیں، ورنہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مومن پیدا ہوتے ہیں، کفر کی حالت پر زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کا خاتمہ ایمان ہی کی حالت پر ہوتا ہے، اسی طرح بعض وہ ہیں جو کافر پیدا ہوتے ہیں، ایمان کی حالت پر زندگی گزارتے ہیں، لیکن ان کا خاتمہ کفر کی حالت پر ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں قسمیں اس لئے ذکر نہ فرمائی گئی ہوں کہ یہاں حقیقی مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ ہدایت و گمراہی میں اصل اعتبار خاتمہ کی حالت کا ہے، اور یہ بات مذکورہ قسمیں بیان کرنے سے بھی اجمالی طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے۔

  پہلو پر لیٹ جائے اور زمین سے چمٹ جائے غصہ آنے کے وقت اس حالت کو اختیار کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ حالت نفسیاتی طور پر غصہ کو فرو کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ غصہ کے وقت زمین سے لگ کر پہلو پر لیٹ جانا فوری طور پر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ جب میری حقیقت بس اتنی ہے کہ میں مٹی سے پیدا ہوا اور آخرکار مٹی ہی میں مل جاؤں گا تو مجھ کو تکبر نہ کرنا چاہئے بلکہ تحمل اور انکساری کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔

گناہ کی زیادتی موجب ہلاکت ہے

حضرت ابو البختری، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  لوگ اس وقت تک ہرگز ہلاک و برباد نہیں ہوں گے جب تک کہ ان سے بہت زیادہ گناہ اور برائیاں صادر ہونے لگیں گے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 لفظ  یعذروا  یا کے پیش، عین کے جزم اور ذال کے زیر کے ساتھ اعذار سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ  اعذار  کے معنی ہیں بہت گناہ گار اور با عیب ہونا۔ اس طرح قاموس میں لکھا ہے کہ اعذر فلان ای کثرت ذنوبہ وعیوبہ (یعنی جب اہل عرب یہ کہتے ہیں کہ  اعذر فلان  یعنی فلاں شخص نے اعذار کیا تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص سے بکثرت گناہ اور عیوب صادر ہوئے) مفہوم کے اعتبار سے حدیث کے اس جملہ میں اعذار کا لفظ گویا سلب عذر کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جب کسی شخص کے گناہ اور عیوب بکثرت ہو جائیں تو پھر اس پر حق تعالیٰ کے عذاب کے نازل ہونے اور لوگوں کی طرف سے ان کو ان گناہ و عیوب سے روکنے اور منع کرنے میں کوئی عذر حائل نہیں رہ جاتا، لہٰذا اس شخص نے اپنے گناہوں اور عیوب کی کثرت کے سبب گویا اس عذر کو ختم کر دیا جو اس کو عذاب الٰہی سے محفوظ رکھتا۔

 اعذار کا لفظ صاحب عذر یعنی عذر کرنے والے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور یہ معنی بھی حدیث کے مفہوم سے مطابقت رکھتے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت و بربادی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے اور اپنی برائیوں کے بارے میں دور دراز کی تاویلیں اور ناروا عذر و معذرت کرنے کا رویہ اختیار نہ کریں۔

 بعض روایتوں میں یہ لفظ یعذروا (یا کے زبر کے ساتھ) منقول ہے جس کا مادہ اشتقاق عذر (عین کے زبر کے ساتھ) ہے اور اس کے معنی ہیں معذور رکھنا۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ لوگ اس وقت تک ہلاکت و تباہی میں مبتلا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگوں کو اس طرح معذور و مجبور نہ کر دیں کہ وہ ان کو کثرت گناہ اور برائیوں میں مبتلا دیکھ کر ان کو ان گناہوں اور برائیوں سے نہ روک سکیں اور نہ ان پر ملامت کر سکیں۔

 بہر حال تینوں صورتوں میں حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو دنیا کے مصائب و آفات اور ہلاکت و تباہی میں صرف اسی وقت مبتلا کرتا ہے جب کہ وہ گناہوں اور خلاف شرع امور کے ارتکاب میں منہمک ہو جاتے ہیں، احکام الٰہی کی نافرمانی کثرت سے کرنے لگتے ہیں، اور جب خدا کے نیک بندے ان کو گناہوں اور برائیوں سے روکتے ہیں تو ان کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے بلکہ نہایت بے حسی اور لاپرواہی کے ساتھ اپنی اختیار کی ہوئی راہ پر چلتے رہتے ہیں۔

عام عذاب کب نازل ہوتا ہے

حضرت عدی بن عدی کندی کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارے ایک آزاد کردہ غلام نے بیان کیا کہ اس نے میرے دادا (حضرت عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ) سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے بعض افراد کے اعمال بد کے سبب اس کے اکثر افراد کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا (یعنی اگر اس کی قوم کے کچھ افراد بد عملیوں اور احکام خداوندی کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوں تو ان کی پاداش میں اور لوگوں کو عذاب میں مبتلا نہیں کیا جاتا) ہاں اگر اس قوم کے لوگ یہ دیکھیں کہ ان کے درمیان بعض افراد کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب ہو رہا ہے اور وہ ان خلاف شرع امور کی اصلاح و سرکوبی نہ کریں بشرطیکہ وہ اس اصلاح و سرکوبی کی قدرت رکھتے ہوں اور اس صورت حال(یعنی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود سکوت و مداہنت اختیار کرنے) میں قوم کے اکثر لوگ مبتلا ہو جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ عام و خاص سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ کا حاصل یہ ہے کہ قوم کے ان بعض افراد کو تو ان کی بد عملیوں اور احکام خداوندی کی نافرمانیوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے اور باقی افراد کو اس لئے عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے قدرت و طاقت کے باوجود ان بعض افراد کو بد عملیوں سے باز کیوں نہیں رکھا اور برائیوں کو مٹانے کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیا۔

برائیوں کے مٹانے کی پوری جدوجہد کرو

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بنی اسرائیل جب (زنا، ہفتہ کے دن شکار کرنے اور ان کے علاوہ دوسرے) گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علما نے ان کو روکا اور جب وہ باز نہ آئے (یعنی انہوں نے اپنے علما کی بات نہیں مانی اور ممنوع چیزوں کو ترک نہیں کیا) تو ان کے وہ علما بھی ان کی مجلسوں کے ہم نشین بن گئے اور ان کے ہم نوالہ وہم پیالہ ہو گئے (یعنی ان کے علما نے پہلے تو ان بد عملی اور گناہ گار لوگوں کو بد عملی اور گناہ کی راہ اختیار کرنے سے منع کیا لیکن جب وہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور برائی کی راہ پر جمے رہے تو پھر وہ علما بھی ان بد عمل اور گناہگار لوگوں کے ساتھ خلط ملط ہو گئے اور سکوت و مداہنت کی راہ پر لگ گئے) اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خلط ملط کر دیا اور ان کے دلوں کو آپس میں ایک دوسرے کے دل کے ساتھ ملا دیا، پھر اللہ تعالیٰ ان(بنی اسرائیل کے گناہ گار لوگوں کے ساتھ مصاحبت و مجالست رکھنے والوں اور ان کے تئیں مداہنت اختیار کرنے والوں) پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی زبان کے ذریعہ لعنت فرمائی اور یہ لعنت اس لئے کی گئی تھی کہ ان لوگوں نے گناہ کیے اور حد سے تجاوز کیا تھا (یعنی انہوں نے محض گناہ کرنے اور مداہنت اختیار کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حد سے تجاوز کر کے کفر تک پہنچ گئے تھے بایں طور کہ خلاف شرع امور کو حلال و جائز جاننے لگے، گناہوں سے رضامندی ظاہر کرنے لگے اور گناہ گاروں کو اچھا سمجھنے لگے تھے) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو اس وقت (اپنے پہلو یا پشت سے) تکیہ لگائے بیٹھے تھے مذکورہ بالا باتیں ارشاد فرمانے کے بعد) سیدھے بیٹھ گئے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکیہ چھوڑ دیا اور اس طرح بیٹھ گئے جیسے کوئی اہم بات فرمانے کا ارادہ ہو) چنانچہ فرمایا  اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس وقت تک عذاب الٰہی سے نجات نہیں پاسکو گے جب تک کہ ظالموں کو ان کے ظلم سے اور فاسقوں کو ان کے گناہوں سے نہیں روکو گے  (ترمذی، ابو داؤد) اور ابو داؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تمہارا یہ گمان ہے کہ سکوت و مداہنت کے باوجود تمہیں عذاب الٰہی سے نجات مل جائے گی تو) ایسا ہر گز نہیں ہے، بلکہ خدا کی قسم، تمہارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو نیکی کی راہ اختیار کرنے کا حکم دو اور ان کو برائی کی راہ سے روکو، ظالم کا ہاتھ پکڑو، اس کو حق کی طرف مائل کرو اور اس کو حق و انصاف کی راہ پر قائم کرو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہگاروں اور ان سے سکوت و مداہنت کرنے والوں کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے دل کے ساتھ خلط ملط کر دے گا اور پھر تم پر لعنت فرمائے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر (ان کے گناہوں کی وجہ سے) لعنت فرمائی تھی۔

بے عمل عالم و واعظ کے بارے میں وعید

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے ہیں میں نے پوچھا کہ جبرائیل ! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی امت کے وہ علما و واعظ اور مشائخ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کی تلقین کرتے تھے مگر خود اپنی ذات کو فراموش کر دیتے تھے، یعنی خود تو عمل نہیں کرتے تھے لیکن اوروں کو عمل کی تلقین و نصیحت کرتے تھے اس روایت کو بغوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرح السنۃ میں اور بیہقی رحمۃ اللہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور بیہقی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا  یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی امت کے وہ واعظ و خطیب ہیں جو اس چیز کو کہتے تھے جس کو خود نہیں کرتے تھے جو کتاب اللہ کو پڑھتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔

 

تشریح

 

 یہ سزا بے عمل علما و واعظین اور مشائخ کو ان کی بے عملی کی وجہ سے ملے گی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا۔ اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم، الایۃ۔ (کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور خود کو بھی بھول جاتے ہو)

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ویل للجاہل مرۃ و ویل للعالم سبع مرات، جاہل کے لئے ایک بار خرابی اور بے عمل عالم کے لئے سات بار خرابی ہے اور ایک حدیث مشہور میں یوں فرمایا گیا ہے۔ اشدا الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلم۔ (قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب کا مستوجب وہ عالم ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے فائدہ نہیں پہنچایا ہو گا ۔

نعمت خداوندی میں خیانت کی سزا

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر) آسمان سے روٹی اور گوشت کا خوان اتارا گیا اور ان کو حکم دیا گیا کہ نہ تو وہ اس میں خیانت کریں اور نہ آنے والے دن کے لئے ذخیرہ کریں (یعنی اس نعمت الٰہی کے بارے میں ان کو خاص طور پر دو حکم دئیے گئے) ایک تو یہ کہ کوئی شخص خیانت کا ارتکاب نہ کرے یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ خوان جس کے قبضہ میں آئے وہ خود تو اچھا اچھا کھا لے یا دوسروں سے زیادہ کھا لے اور دوسرے لوگوں کو خراب یا کم کھانے کو ملے اور دوسرا حکم یہ تھا کہ جو خوان اترے اس کو بچا کر دوسرے دن کے لئے نہ اٹھا رکھیں، لیکن انہوں نے خیانت کا ارتکاب بھی کیا اور ذخیرہ بھی کیا کہ آنے والے دن کے لئے اٹھا رکھا، چنانچہ ان کو بندر اور سور کی صورتوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ بوڑھے تھے ان کو تو بندروں کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا اور جو لوگ جوان تھے ان کی صورتوں کو سوروں جیسی بنا دیا۔

ظالم حکمرانوں کے زمانے میں نجات کی راہ

حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  میری امت کو آخری زمانہ میں اپنے حکمرانوں کی طرف سے (دینی یا دنیاوی) سختیاں اور بلائیں جھیلنا پڑیں گی اور اس وقت ان بلاؤں اور سختیوں سے نجات کی راہ پانے والا ایک شخص تو وہ ہو گا جو خدا کے دین کو سمجھے گا (یعنی اپنے اندر علم و عمل کو یکجا کرے گا، معرفت و یقین کی دولت کے ذریعہ خود بھی کمال کے درجہ کو پہنچے گا اور دوسروں کو بھی کامل کرے گا، اور اس طرح پہلے تو وہ خدا کے دین سے بھی تفصیل اصول جزئیات اچھی طرح واقف و آگاہ ہو گا اور پھر اس علم کے مطابق اپنے نفس کو عمل کے سانچے میں ڈھالے گا اور صرف مشروع چیزوں کو اختیار کرے گا جس کی وجہ سے اس کے اندر ظلم و ناانصافی کے خلاف سعی اور جدو جہد کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا ہو گا) چنانچہ وہ شخص خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لئے اپنی زبان اپنے ہاتھ اور اپنے دل کے ذریعہ جہاد کرے گا (یعنی بطریق وعظ و نصیحت زبان کے ذریعہ بھی ظلم و برائی کے خلاف جدوجہد کرے گا اور اگر اس کو طاقت و قوت میسر نہیں ہو گی تو مجبوراً دل میں اس ظلم و برائی کے خلاف نفرت و عداوت رکھنے پر اکتفا کر لے گا) پس یہ وہ شخص ہو گا جو کمال ایمان، ثواب اور دنیا و آخرت کی سعادتوں تک پہلے پہنچے گا اور ایک شخص وہ ہو گا جو خدا کے دین کو سمجھے گا (مگر پہلے شخص سے ایک درجہ کم) چنانچہ وہ شخص دین کی تصدیق کرے گا اور اس کو اچھا جانے گا (یعنی وہ شخص ظلم و برائی کے خلاف صرف دل اور زبان کے ذریعہ جہاد کرے گا، ہاتھ کی قوت سے کام نہٰ لے گا، یہ مطلب اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے بارہ میں تصدیق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ تصدیق کا تعلق دل سے ہوتا ہے جس کی ترجمانی زبان کرتی ہے) اور ایک شخص وہ ہو گا جو خدا کے دین کو (تھوڑا) بہت سمجھے گا چنانچہ وہ شخص سکونت اختیار کرے گا (اور صرف قلب کے ذریعہ جہاد کرے گا یعنی ظلم و برائی کو محض دل سے برا سمجھنے پر اکتفا کرے گا) چنانچہ اس شخص کی حالت یہ ہو گی کہ وہ جب کسی کو نیک کام کرتے دیکھے تو اس کو دوست رکھے گا اور کسی کو غلط کام کرتے دیکھے گا تو اس سے نفرت کرے گا اور وہ شخص بھی پوشیدہ طور پر نیکی بھلائی کے تئیں محبت اور گناہ و برائی کے تئیں نفرت رکھنے کے سبب نجات پائے گا ۔

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طرف تو اس زمانہ کے بارے میں پیشگوئی فرمائی ہے جب امت مرحومہ پر ظالم اور بدکار حکمرانوں کی حکومت ہو اور ان سخت حالات سے نجات کی راہ کو بھی واضح فرما دیا گیا ہے اور وہ راہ ہے خدا کے دین کا علم حاصل کرنا یقین و معرفت اور عزم و استقامت اختیار کرنا، بھلائی کو پھیلانا اور برائی کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا، چنانچہ اس راہ کو اختیار کرنے والے لوگوں کو تین قسموں میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی قسم تو گویا ان لوگوں کی ہوئی جو خدا کے دین کو پوری طرح جانیں گے اور سمجھیں گے اور دین کے بارے میں نہایت سختی اور پختگی کا رویہ اختیار کریں گے، ایسے لوگ نہ صرف برائی کو دل سے برا جانیں گے اور زبان کے ذریعہ تلقین و نصیحت کا فریضہ انجام دیں گے بلکہ طاقت و قوت میسر ہونے پر ہاتھ کے ذریعہ بھی جہاد کریں گے اور ظلم و برائی کو مٹانے کے لئے کماحقہ جدوجہد کریں گے، دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دین کو جاننے اور سمجھنے اور معرفت و یقین کے مرتبہ کے اعتبار سے پہلی قسم کے لوگوں سے کچھ کم تر ہوں گے ایسے لوگ بھلائی کو پھیلانے اور برائی کو ختم کرنے کے لئے محض زبان اور دل کو ذریعہ بنانے پر اکتفا کریں گے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دین کا علم بہت معمولی سا رکھیں گے اور برائیوں کے خلاف زبان کو بھی خاموش رکھیں گے اور خلاف شرع امور کو صرف دل میں برا سمجھنے پر اکتفا کریں گے بلکہ وہ قلبی نفرت و عداوت کے معاملہ میں بھی اس قدر سخت اور حساس نہیں ہوں گے جتنا ان کے ایمان کا تقاضا ہو گا، اسی لئے ان لوگوں کو ایک دوسری حدیث کے الفاظ، ذالک اضعف الایمان، کے ذریعہ سب سے کمزور ایمان کا حامل بتایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا تین قسمیں ان لوگوں کی ہیں جن کو عارف اور دیندار کہا جا سکتا ہے البتہ ان قسموں کے لوگ اپنے اپنے مرتبہ اور اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت و برتری رکھتے ہیں اور ان کے درجات میں تفاوت ہے، چنانچہ قرآن کریم کی ایک آیت کی روشنی میں ان کے درجات کو اس طرح متعین کیا گیا ہے کہ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو  سابق دوسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو  مقتصد یعنی متوسط اور تیسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو ظالم سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ آیت یہ ہے۔ (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَيْرٰتِ) 35۔فاطر:32) پھر یہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھ میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے تمام دنیا کے بندوں میں سے پسند فرمایا پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے نیکیوں کے ساتھ آگے نکل جانے والے ہیں۔

 واضح رہے کہ تیسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو  ظالم اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ دین کی زیادہ معرفت نہ رکھنے اور دین کے تئیں زیادہ محتاط و حساس نہ ہونے کی وجہ سے تقصیرات اور لغزشوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اس طرح اپنی تقصیرات کے ذریعہ گویا اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، نیز مذکورہ آیت کے ابتدائی الفاظ سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ ان تینوں قسموں کے لوگ اگرچہ اپنے مراتب و درجات میں تفاوت رکھتے ہیں مگر ایک بات میں سب کے سب مشترک ہیں کہ ان سب کو بارگاہ رب العزت میں برگزیدہ بندہ قرار دیا گیا ہے۔

 لفظ  سوابق اصل میں سابق کی جمع ہے اور سابقہ اس خصلت کو کہتے ہیں جو اولیت اور امتیازی حیثیت رکھتی ہو، جیسا کہ کہا جاتا ہے، لہ سابقۃ فی ہذا الامر یعنی اس کو اس معاملہ میں اولیت حاصل ہے، یا وہ شخص اس معاملہ میں لوگوں پر سبقت لے گیا ہے، لہٰذا حدیث کے اس جملہ وذالک الذی سبقت لہ اسوابق کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شخص سابقین بالخیرات میں سے ہو گا بایں طور کہ وہ دین و دنیا کی سعادتوں، اجرو ثواب کی بشارتوں اور طاعات و عبادات کی توفیق کے حصول میں دوسرے لوگوں پر سبقت لے جائے گا۔ گویا اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد السابقون السابقون کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کمال و تکمیل کے مراتب، علم و عمل کے درجات اور تعلیم و تعلم کی خصوصیات کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے اور اس اعتبار سے ان کے حق میں یہ بشارت ہے کہ اولئک المقربون یعنی یہ ہی لوگ بارگاہ خداوندی میں مقرب و مقبول ہیں۔

بروں کے ساتھ، اچھے بھی عذاب میں کیوں مبتلا کیے جاتے ہیں؟

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں شہر کو جہاں کے حالات اس اس طرح کے ہیں، باشندوں سمیت الٹ دو، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا  میرے پروردگار! اس شہر میں تیرا وہ فلاں بندہ بھی ہے جس نے ایک لمحہ کے لئے کبھی تیری نافرمانی نہیں کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ (جب جبرائیل علیہ السلام نے یہ کہا تو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس شہر کو سارے باشندوں پر بھی اور اس شخص پر بھی الٹ دو کیونکہ میری خوشنودی اور میرے دین کی محبت میں اس شخص کے چہرہ کا رنگ (شہر والوں کے گناہوں کو دیکھ) ایک ساعت کے لئے بھی نہیں بدلا ۔

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا حاصل تھا کہ بے شک میرے اس بندے نے کبھی بھی میری نافرمانی نہیں کی اور وہ ایک لمحہ بھی برائی کی راہ پر نہ چلا مگر اس کا یہ جرم ہی کیا کم ہے کہ لوگ اس کے سامنے گناہ کرتے رہے اور وہ اطمینان کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا برائی پھیلتی رہی اور لوگ خدا کی نافرمانی کرتے رہے مگر ان برائیوں اور نافرمانی کرنے والوں کو دیکھ کر اس کے چہرہ پر کبھی بھی اس طرح کے آثار پیدا نہیں ہوئے جن سے یہ معلوم ہو کہ اس کے دل میں برائیوں اور برائیوں کے مرتکبین کے خلاف غیظ و غضب اور نفرت و عداوت کا کوئی جذبہ ہے، لہٰذا شہر کے اور باشندوں کے ساتھ وہ شخص بھی ہلاکت و بربادی کا مستوجب ہے۔  ایک ساعت کے الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اگر وہ شخص اپنی پوری زندگی میں ایک مرتبہ بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے برائیوں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف غصہ و نفرت کا اظہار کر دیتا ہے تو اس کی زندگی کے باقی حصے میں اس کی اس تقصیر سے درگزر کر دیا جاتا۔

تقصیر کی معذرت

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ بزرگ و برتر قیامت کے دن بندہ سے سوال کرتے ہوئے فرمائے گا کہ تجھ کو کیا ہوا تھا کہ جب تو نے کسی خلاف شرع کام کو دیکھا تو (زبان و ہاتھ کے ذریعہ) اس کی بیخ کنی کا فریضہ انجام نہیں دیا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ (اگر اللہ تعالیٰ اس بندہ کو معاف کرنے کا ارادہ فرمائے تو سوال کے ساتھ ہی) اس کو وہ تاویل و دلیل سکھائی جائے گی (جس کے ذریعہ وہ اس فریضہ کو ترک کرنے کی معذرت کر سکے) چنانچہ وہ عرض کرے گا کہ  میرے پروردگار! میں لوگوں کے ظلم و زیادتی سے ڈرتا تھا اور تیری طرف سے عفو درگزر اور مغفرت و بخشش کی امید رکھتا تھا تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 اس بندہ کی طرف سے مذکورہ جواب میں گویا اپنی تقصیر کا اقرار، اپنے عجز کا اظہار اور رب کریم کے فضل و کرم پر اپنے یقین و اعتماد کا بیان ہو گا۔ اور جیسا کہ بیہقی نے کہا ہے، یہ احتمال بھی ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہو جو خلاف شرع امور کا ارتکاب کرنے والوں کے غلبہ و دبدبہ سے ڈرتا ہو اور ان کی طرف سے پہنچائے جانے والے کسی بھی طرح کے نقصان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے طاقت و قدرت نہ رکھتا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر لوگوں کے رعب و دبدبا کی وجہ سے کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دے سکے تو وہ مستوجب مواخذہ نہیں ہو گا اور حق تعالیٰ کی طرف سے اس کے حق میں عفو و درگزر کی امید رکھی جا سکتی ہے، لیکن اس صورت میں یہ اشکال یقیناً پیدا ہو گا کہ ایسا شخص شریعت کی نظر میں معذور ہے، لہٰذا قیامت کے دن نہ تو اس سے مواخذہ ہو گا اور نہ اس کو معذرت کے لئے کسی تاویل و دلیل کے سکھانے کی ضرورت ہو گی؟ اس اشکال کو دور کرنے کے لئے یہ کہنا زیادہ موزوں ہے کہ اس حدیث کا تعلق دراصل اس شخص سے ہے جس نے کسی عذر و مانع کے بغیر مذکورہ فریضہ کی انجام دہی میں کچھ تقصیر کی ہو گی اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی اس جزوی تقصیر کو معاف کرنا چاہے گا تو اس کو مذکورہ تاویل و دلیل کا الہام کرے گا تاکہ وہ معذرت کر سکے۔

عمل خیر اور عمل بد قیامت کے دن متشکل ہو کر سامنے آئیں گے

حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے قیامت کے دن مشروع عمل اور غیر مشروع عمل کو (آدمیوں کی شکل و صورت میں) پیدا کیا جائے گا اور ان کو (ان) لوگوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا (جنہوں نے ان اعمال کو دنیا میں اختیار کیا ہو گا) چنانچہ مشروع عمل اپنے لوگوں کو خوشخبری سنائے گا اور انجام کی بھلائی کا وعدہ دے گا، جب کہ غیر مشروع عمل اپنے لوگوں سے) کہے گا کہ مجھ سے دور ہو جاؤ لیکن وہ لوگ اس سے جدا ہو جانے کی طاقت نہیں رکھیں گے بلکہ اس سے چمٹے رہیں گے۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان دنیا میں جو نیک اور اچھے اعمال کرے گا وہ اس کے مرنے کے بعد قبر میں بھی اچھی و پاکیزہ اور عطر بیز صورتوں میں ظاہر ہوں گے اور قیامت کے دن بھی بہترین شکل و صورت اختیار کر کے اس شخص کے سامنے آئیں گے اور اس کو آخرت کی لازوال سعادتوں اور حسن انجام کی خوشخبری سنائیں گے، اس کے برخلاف اگر کوئی شخص برے اعمال اختیار کرے گا تو وہ اعمال قبر میں بھی خراب اور ڈراؤنی صورتوں میں آ کر پریشان کریں گے اور قیامت کے دن بھی بری شکل و صورت کے ساتھ اس کے سامنے آئیں گے اور اس کو اس کے برے انجام سے ڈراتے ہوئے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے دور ہٹ جا، مگر وہ شخص اس سے دور ہٹنے پر قادر نہیں ہو گا یعنی ان برے اعمال پر جو سزا ملنے والی ہو گی اس سے وہ شخص بھاگ نہیں پائے گا۔ لفظ  تنصبان مجہول ہونے کی وجہ سے مونث کا صیغہ ہے لیکن مشکوٰۃ کے ایک نسخے میں یہ لفظ بہ صیغہ مذکر منقول ہے اور یہی زیادہ موزوں ہے کیونکہ لفظ  خلیقہ میں حرف تا تانیث کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہار (مبالغہ کے لئے ہے اور اس لفظ کے معنی یہ ہیں کہ یہ دونوں یعنی عمل خیر اور عمل بد مخلوقات میں سے ایک نوع ہیں جو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے شکل و صورت اختیار کر کے ظاہر ہوں گے۔