أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، قال: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنِالْوَلِيدِ بْنِ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھروں میں نماز پڑھو، انہیں قبرستان نہ بناؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۸۵۲۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة ۵۲ (۴۳۲)، التھجد ۳۷ (۱۱۸۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۷۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۵ (۱۰۴۳)، ۳۴۶ (۱۴۴۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۴ (۴۵۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۶ (۱۳۷۷)، مسند احمد ۲/۶، ۱۶، ۱۲۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: نماز سے مراد نوافل اور سنتیں ہیں۔ "انہیں قبرستان نہ بناؤ" یعنی اس سے معلوم ہوا کہ جن گھروں میں نوافل کی ادائیگی کا اہتمام نہیں ہوتا وہ قبرستان کی طرح ہوتے ہیں، جس طرح قبریں عمل اور عبادت سے خالی ہوتی ہیں اسی طرح ایسے گھر بھی عمل اور عبادت سے محروم ہوتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، قال: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قال: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ عُقْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ، ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً فَظَنُّوا أَنَّهُ نَائِمٌ، فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: "مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صُنْعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ".
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں چٹائی سے گھیر کر ایک کمرہ بنایا، تو آپ نے اس میں کئی راتیں نمازیں پڑھیں یہاں تک کہ لوگ آپ کے پاس جمع ہونے لگے، پھر ان لوگوں نے ایک رات آپ کی آواز نہیں سنی، وہ سمجھے کہ آپ سو گئے ہیں، تو ان میں سے کچھ لوگ کھکھارنے لگے، تاکہ آپ ان کی طرف نکلیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تمہیں اس کام میں برابر لگا دیکھا تو ڈرا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ کر دی جائے، اور اگر وہ تم پر فرض کر دی گئی تو تم اسے ادا نہیں کر سکو گے، تو لوگو! تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو، کیونکہ آدمی کی سب سے افضل (بہترین) نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۱ (۷۳۱)، الأدب ۷۵ (۶۱۱۳)، الإعتصام ۳ (۷۲۹۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۹ (۷۸۱)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۵ (۱۰۴۴)، ۳۴۶ (۱۴۴۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۴ (۴۵۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۹۸)، موطا امام مالک/الجماعة ۱ (۴)، مسند احمد ۵/۱۸۲، ۱۸۳، ۱۸۶، ۱۸۷، سنن الدارمی/الصلاة ۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حکم تمام نفلی نمازوں کو شامل ہے، البتہ اس حکم سے وہ نمازوں مستثنیٰ ہیں جو شعائر اسلام میں شمار کی جاتی ہیں مثلاً عیدین، استسقاء اور کسوف و خسوف :(چاند اور سورج گرہن ) کی نمازوں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْفِطْرِيُّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قال: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، فَلَمَّا صَلَّى قَامَ نَاسٌ يَتَنَفَّلُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الصَّلَاةِ فِي الْبُيُوتِ".
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز قبیلہ بنی عبدالاشہل کی مسجد میں پڑھی، جب آپ پڑھ چکے تو کچھ لوگ کھڑے ہو کر سنت پڑھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس (سنت) نماز کو گھروں میں پڑھنے کی پابندی کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۴ (۱۳۰۰)، سنن الترمذی/فیہ ۳۰۷ (الجمعة ۷۱) (۶۰۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۰۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْرِ، فَقَالَ: "أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عَائِشَةُ، ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ: مَنْ هَذَا مَعَكَ ؟ قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ ؟ قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرًا، قَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: "فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ، أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنِ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ.
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ملے تو ان سے وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اہل زمین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ سعد نے کہا: کیوں نہیں (ضرور بتائیے) تو انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان کے پاس جاؤ، اور ان سے سوال کرو، پھر میرے پاس لوٹ کر آؤ، اور وہ تمہیں جو جواب دیں اسے مجھے بتاؤ، چنانچہ میں حکیم بن افلح کے پاس آیا، اور ان سے میں نے اپنے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلنے کے لیے کہا، تو انہوں نے انکار کیا، اور کہنے لگے: میں ان سے نہیں مل سکتا، میں نے انہیں ان دو گروہوں ۱؎ کے متعلق کچھ بولنے سے منع کیا تھا، مگر وہ بولے بغیر نہ رہیں، تو میں نے حکیم بن افلح کو قسم دلائی، تو وہ میرے ساتھ آئے، چنانچہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، تو انہوں نے حکیم سے کہا: تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا: سعد بن ہشام ہیں، تو انہوں نے کہا: کون ہشام؟ میں نے کہا: عامر کے لڑکے، تو انہوں نے ان (عامر) کے لیے رحم کی دعا کی، اور کہا: عامر کتنے اچھے آدمی تھے۔ سعد نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سراپا قرآن تھے، پھر میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق پوچھنے کا خیال آیا، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق بتائیے، انہوں نے کہا: کیا تم سورۃ «يا أيها المزمل» نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھتا ہوں، تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے شروع میں قیام اللیل کو فرض قرار دیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایک سال تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم سوج گئے، اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی آخر کی آیتوں کو بارہ مہینے تک روکے رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی، اور رات کا قیام اس کے بعد کہ وہ فرض تھا نفل ہو گیا، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا، تو میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے متعلق بھی پوچھ لوں، تو میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بھی بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مسواک اور وضو کا پانی رکھ دیتے، تو اللہ تعالیٰ رات میں آپ کو جب اٹھانا چاہتا اٹھا دیتا تو آپ مسواک کرتے، اور وضو کرتے، اور آٹھ رکعتیں پڑھتے ۲؎ جن میں آپ صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے، ذکر الٰہی کرتے، دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جو ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے تو اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا تو وتر کی سات رکعتیں پڑھنے لگے، اور سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، تو میرے بیٹے! اس طرح کل نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ کو یہ پسند ہوتا کہ اس پر مداومت کریں، اور جب آپ نیند، بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے رات کا قیام نہیں کر پاتے تو آپ (اس کے بدلہ میں) دن میں بارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور میں نہیں جانتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، اور نہ ہی آپ پوری رات صبح تک قیام ہی کرتے، اور نہ ہی کسی مہینے کے پورے روزے رکھتے، سوائے رمضان کے، پھر میں ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آیا، اور میں نے ان سے ان کی یہ حدیث بیان کی، تو انہوں نے کہا: عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا، رہا میں تو اگر میں ان کے یہاں جاتا ہوتا تو میں ان کے پاس ضرور جاتا یہاں تک کہ وہ مجھ سے براہ راست بالمشافہ یہ حدیث بیان کرتیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اسی طرح میری کتاب میں ہے، اور میں نہیں جانتا کہ کس شخص سے آپ کی وتر کی جگہ کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۸ (۷۴۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۶ (۱۳۴۲، ۱۳۴۳، ۱۳۴۴، ۱۳۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۰۴)، مسند احمد ۶/۵۳، ۹۴، ۱۰۹، ۱۶۳، ۱۶۸، ۲۳۶، ۲۵۸، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۵ (۱۵۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی معاویہ اور علی رضی اللہ عنہم کے درمیان میں۔ ۲؎: کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، صحیح " نو رکعتیں " ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، آٹھ رکعتیں لگاتار پڑھتے، اور آٹھویں رکعت پر بیٹھ کر نویں رکعت کے لیے اٹھتے۔ ۳؎: وتر کی جگہ میں غلطی اس طرح ہوئی ہے کہ اس حدیث میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی دونوں رکعتوں کو اس وتر کی رکعت پر مقدم کر دیا گیا جسے آپ آٹھویں کے بعد پڑھتے تھے، صحیح یہ ہے کہ آپ ان دونوں رکعتوں کو بیٹھ کر وتر کے بعد پڑھتے تھے جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے گناہ جو پہلے ہو چکے ہوں بخش دیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۲۷ (۳۷)، الصوم ۶ (۱۸۹۸)، التراویح ۱ (۲۰۰۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۵ (۷۵۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۷۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم ۱ (۶۸۳)، ۸۳ (۸۰۸)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۳ (۱۳۲۶)، موطا امام مالک/رمضان ۱ (۲)، مسند احمد ۲/۲۴۱، ۲۸۱، ۲۸۹، ۴۰۸، ۴۲۳، ۴۷۳، ۴۸۶، ۵۰۳، ۲۹، سنن الدارمی/الصوم ۵۴ (۱۸۱۷)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۲۲۰۱، ۲۲۰۲، ۲۲۰۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ أَبُو بَكْرٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، قال: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، قال: قَالَ الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے (رات کا) قیام کرے گا، تو اس کے اگلے گناہ بخش دیے جائیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۷۷، ۱۵۲۴۸)، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم: ۵۰۲۸، ۵۰۲۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ وَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: "قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ"وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ کی نماز کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ نے آنے والی رات میں بھی نماز پڑھی اور لوگ بڑھ گئے تھے، پھر تیسری یا چوتھی رات میں لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے ہی نہیں، پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: "تم نے جو دلچسپی دکھائی اسے میں نے دیکھا، تو تمہاری طرف نکلنے سے مجھے صرف اس چیز نے روک دیا کہ میں ڈرا کہ کہیں وہ تمہارے اوپر فرض نہ کر دی جائے"، یہ رمضان کا واقعہ تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۸۰ (۷۲۹)، الجمعة ۲۹ (۹۲۴)، التھجد ۵ (۱۱۲۹)، التراویح ۱ (۲۰۱۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۵ (۷۶۱)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۹۴)، موطا امام مالک/رمضان ۱ (۱)، مسند احمد ۶/۱۶۹، ۱۷۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد یہ اندیشہ باقی نہیں رہا اس لیے تراویح کی نماز جماعت سے پڑھنے میں اب کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ مشروع ہے، رہا یہ مسئلہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں راتوں میں تراویح کی کتنی رکعتیں پڑھیں، تو دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ آپ نے ان راتوں میں اور بقیہ قیام اللیل میں آٹھ رکعتیں پڑھیں اور وتر کی رکعتوں کو ملا کر اکثر گیارہ اور کبھی تیرہ رکعت تک پڑھنا ثابت ہے، یہی صحابہ سے اور خلفاء راشدین سے منقول ہے، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس رکعتیں پڑھیں لیکن یہ روایت منکر اور ضعیف ہے، لائق استناد نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْجُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قال: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، فَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ، قَالَ: "إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ قِيَامَ لَيْلَةٍ"، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا وَلَمْ يَقُمْ حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَجَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ حَتَّى تَخَوَّفْنَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ ؟ قَالَ: "السُّحُورُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں روزے رکھے، تو آپ ہمارے ساتھ (تراویح کے لیے) کھڑے نہیں ہوئے یہاں تک کہ مہینے کی سات راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات کو قیام نہیں کیا، پھر پچیسویں رات کو قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ ہماری اس رات کے باقی حصہ میں بھی اسی طرح نفلی نماز پڑھاتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کے حق میں پوری رات کے قیام(کا ثواب) لکھے گا"، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، اور نہ آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ مہینے کی تین راتیں باقی رہ گئیں، تو آپ نے ستائیسویں رات میں ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی جمع کیا یہاں تک کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ کہنے لگے: سحری ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۳۶۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قال: أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قال: حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ، قال: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ، يَقُولُ: "قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَا نُدْرِكَ الْفَلَاحَ وَكَانُوا يُسَمُّونَهُ السُّحُورَ".
نعیم بن زیاد ابوطلحہ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بشیر رضی اللہ عنہم کو حمص میں منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے میں تیئسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچسویں رات کو آدھی رات تک قیام کیا، پھر ستائیسویں رات کو ہم نے آپ کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ ہم فلاح نہیں پا سکیں گے، وہ لوگ سحری کو فلاح کا نام دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۴۲)، مسند احمد ۴/۲۷۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا نَامَ أَحَدُكُمْ عَقَدَ الشَّيْطَانُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ عُقَدٍ يَضْرِبُ عَلَى كُلِّ عُقْدَةٍ لَيْلًا طَوِيلًا أَيِ ارْقُدْ، فَإِنِ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ، فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ أُخْرَى، فَإِنْ صَلَّى انْحَلَّتِ الْعُقَدُ كُلُّهَا فَيُصْبِحُ طَيِّبَ النَّفْسِ نَشِيطًا وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے، اور ہر گرہ پر تھپکی دے کر کہتا ہے: ابھی رات بہت لمبی ہے، پس سوئے رہ، تو اگر وہ بیدار ہو جاتا ہے، اور اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر وہ وضو بھی کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے، پھر اگر اس نے نماز پڑھی تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں، اور وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاس بشاس اور خوش دل ہوتا ہے، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ بد دل اور سست ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۲ (۱۱۴۲)، بدء الخلق ۱۱ (۳۲۶۹)، موطا امام مالک/المسافرین ۲۸ (۷۷۶)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۸۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۷ (۱۳۰۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۴ (۱۳۲۹)، موطا امام مالک/ صلاة السفر ۲۵ (۹۵)، مسند احمد ۲/۲۴۳، ۲۵۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: "ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنَيْهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کیا گیا جو رات بھر سوتا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا:"یہ ایسا آدمی ہے جس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۳ (۱۱۴۴)، بدء الخلق ۱۱ (۳۲۷۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۸ (۷۷۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۴ (۱۳۳۰)، (تحفة الأشراف: ۹۲۹۷)، مسند احمد ۱/۳۷۵، ۴۲۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بعض لوگوں نے کہا کہ کان میں شیطان کا پیشاب کرنا حقیقت ہے گرچہ ہمیں اس کا ادراک نہیں ہوتا، اور بعضوں کے نزدیک یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ جو شخص سویا رہتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا تو شیطان اس کے لیے اللہ کی یاد میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قال: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلًا، قال: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا نَامَ عَنِ الصَّلَاةِ الْبَارِحَةَ حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ: "ذَاكَ شَيْطَانٌ بَالَ فِي أُذُنَيْهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فلاں شخص کل کی رات نماز سے سویا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، تو آپ نے فرمایا: "اس کے کانوں میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۰۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، قال: حَدَّثَنِي الْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى ثُمَّ أَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، وَرَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ ثُمَّ أَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَصَلَّى، فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ(بھی) نماز پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۷ (۱۳۰۸)، ۳۴۸ (۱۴۵۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۵ (۱۳۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۶۰)، مسند احمد ۲/۲۵۰، ۴۳۶ (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ پانی کے چھینٹے مارنے سے وہ جاگ جائے گا، اور نماز پڑھے گا تو وہ بھی اس کی مستحق ہو گی۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيّ حَدَّثَهُ، عَنْعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ، فَقَالَ: "أَلَا تُصَلُّونَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهَا بَعَثَهَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قُلْتُ لَهُ ذَلِكَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ فَخِذَهُ، وَيَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: "کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟" تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا»"انسان بہت حجتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۵ (۱۱۲۷)، تفسیر الکھف ۱ (۴۷۲۴)، الاعتصام ۱۸ (۷۳۴۷)، التوحید ۳۱ (۷۴۶۵)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۸ (۷۷۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۷۰)، مسند احمد ۱/۱۱۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا عَمِّي، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قال: حَدَّثَنِيحَكِيمُ بْنُ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قال: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى فَاطِمَةَ مِنَ اللَّيْلِ فَأَيْقَظَنَا لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ فَصَلَّى هَوِيًّا مِنَ اللَّيْلِ فَلَمْ يَسْمَعْ لَنَا حِسًّا، فَرَجَعَ إِلَيْنَا فَأَيْقَظَنَا، فَقَالَ: "قُومَا فَصَلِّيَا"، قَالَ: فَجَلَسْتُ وَأَنَا أَعْرُكُ عَيْنِي وَأَقُولُ: إِنَّا وَاللَّهِ مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِنْ شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، قَالَ: فَوَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ وَيَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ: "مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں میرے اور فاطمہ کے پاس آئے، اور آپ نے ہمیں نماز کے لیے بیدار کیا، پھر آپ اپنے گھر لوٹ گئے، اور جا کر دیر رات تک نماز پڑھتے رہے، جب آپ نے ہماری کوئی آہٹ نہیں سنی تو آپ دوبارہ ہمارے پاس آئے، اور ہمیں بیدار کیا، اور فرمایا:"تم دونوں اٹھو، اور نماز پڑھو"، تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں اپنی آنکھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا: "قسم اللہ کی، ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تو بیدار کر دے گا" تو یہ سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹھ پھیر کر جانے لگے، آپ اپنے ہاتھ سے اپنی ران پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: "ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ۱؎ انسان بہت ہی حجتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۱۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ علی رضی اللہ عنہ کی بات تھی جسے آپ بطور تعجب دہرا رہے تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رمضان کے مہینے کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں ۱؎، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۳۸ (۱۱۶۳)، سنن ابی داود/الصیام ۵۵ (۲۴۲۹)، سنن الترمذی/الصل ا۲۰۸ (۴۳۸) الصوم ۴۰ (۷۴۰)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۴۳ (۱۷۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۲۹۲)، مسند احمد ۲/۳۰۳، ۳۲۹، ۳۴۲، ۳۴۴، ۵۳۵، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۶ (۱۵۱۷)، الصوم ۴۵ (۱۷۹۸، ۱۷۹۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اللہ کی طرف اس مہینے کی نسبت شرف و فضل کی علامت کے طور پر ہے، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ تراکیب ہیں، محرم حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، اسی مہینے سے ہجری سن کا آغاز ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ قِيَامُ اللَّيْلِ، وَأَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ الْمُحَرَّمُ"أَرْسَلَهُ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ.
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل (تہجد) ہے، اور رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم کے روزے ہیں"۔ شعبہ بن حجاج نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح بما قبلہ) (یہ مرسل ہے لیکن پچھلی روایت متصل ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قال: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا، عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، رَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ، فَتَخَلَّفَهُمْ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَانْهَزَمُوا فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین شخص سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے: ایک وہ شخص جو کسی قوم کے پاس آیا، اور اس نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا، آپ سی قرابت کا واسطہ دے کر نہیں مانگا، تو انہوں نے اسے نہیں دیا، پھر انہی میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے سے آیا، اور چھپا کر چپکے سے اسے دیا، اور اس کے اس صدقہ دینے کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس شخص کے جس کو اس نے دیا ہے کوئی نہیں جانتا، اور دوسرا آدمی وہ ہے جس کے ساتھ کے لوگ رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب نیند انہیں بھلی معلوم ہونے لگی تو وہ اترے اور سو رہے، لیکن وہ خود کھڑا ہو کر اللہ کے سامنے عاجزی کرتا رہا، اور اس کی آیتیں تلاوت کرتا رہا، اور تیسرا وہ شخص ہے جو ایک لشکر میں تھا، دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی، تو وہ ہار گئے (جس کی وجہ سے بھاگنے لگے) لیکن وہ سینہ سپر رہا یہاں تک کہ وہ مارا جائے، یا اللہ اسے فتح دے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/صفة الجنة ۲۵ (۲۵۶۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۱۳)، مسند احمد ۵/۱۵۳، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۵۷۱ (کلھم بسیاق فیہ زیادة) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ زیدبن ظبیان ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَصْرِيُّ، عَنْ بِشْرٍ هُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قال: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: "أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ: الدَّائِمُ، قُلْتُ: فَأَيُّ اللَّيْلِ كَانَ يَقُومُ ؟ قَالَتْ: إِذَا سَمِعَ الصَّارِخَ".
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون سا عمل تھا؟ تو انہوں نے کہا: جس عمل پر مداومت ہو، میں نے پوچھا: رات میں آپ کب اٹھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: جب مرغ کی بانگ سنتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۷ (۱۱۳۲)، الرقاق ۱۸ (۶۴۶۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۴۱)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۲ (۱۳۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۵۹)، مسند احمد ۶/۹۴، ۱۱۰، ۱۴۷، ۲۰۳، ۲۷۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ عام معمول کی بات ہو گی، ورنہ خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ رات کے ہر حصے میں سوتے یا نماز پڑھتے پائے گئے۔
أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، قال: حَدَّثَنَا الْأَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْعَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ، قال: سَأَلْتُ عَائِشَةَ بِمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ قِيَامَ اللَّيْلِ ؟ قَالَتْ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيُهَلِّلُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عاصم بن حمید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے قیام کی شروعات کس سے کرتے تھے؟ تو وہ کہنے لگیں، تو نے مجھ سے ایک ایسی چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس بار «اللہ اکبر»، دس بار «الحمد للہ»، دس بار «سبحان اللہ» اور دس بار «لا الٰہ الا اللہ» اور دس بار «استغفر اللہ» کہتے تھے، اور «اللہم اغفر لي واهدني وارزقني وعافني أعوذ باللہ من ضيق المقام يوم القيامة» "اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھے راہ دکھا، مجھے رزق عطا فرما، اور میری حفاظت فرما، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں قیامت کے روز جگہ کی تنگی سے" کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۱۲۱ (۷۶۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۰ (۱۳۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۶۶) مسند احمد ۶/۱۴۳، ویأتي ہذا الحدیث عند المؤلف برقم: ۵۵۳۷ (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَعْمَرٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْرَبِيعَةَ بْنِ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيِّ، قال: كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، يَقُولُ: "سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الْهَوِيَّ"ثُمَّ يَقُولُ: "سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ الْهَوِيَّ".
ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمرے کے پاس رات گزارتا تھا، تو میں آپ کو سنتا جب آپ رات میں اٹھتے، تو دیر تک «سبحان اللہ رب العالمين» کہتے، پھر «سبحان اللہ وبحمده» دیر تک کہتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۳۶۰۳) وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الصلاة ۴۳ (۴۸۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۲ (۱۳۲۰)، سنن الترمذی/الدعوات ۲۷ (۳۴۱۶)، سنن ابن ماجہ/ الدعاء ۲ (۳۸۷۹)، مسند احمد ۴/۵۷، ۵۸، ۵۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَحْوَلِ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ، قَالَ: "اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ حَقٌّ وَوَعْدُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، لَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِكَ آمَنْتُ، ثُمَّ ذَكَرَ قُتَيْبَةُ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو کہتے: «اللہم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت قيام السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت ملك السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت حق ووعدك حق والجنة حق والنار حق والساعة حق والنبيون حق ومحمد حق لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت» "اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا روشن کرنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین کا اور جو ان میں ہیں سب کا قائم و برقرار رکھنے والا ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو آسمانوں اور زمین اور جوان میں ہیں سب کا بادشاہ ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، جنت حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں، اور محمد حق ہیں، میں نے تیری ہی فرمانبرداری کی، اور تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، اور تجھی پر ایمان لایا"، پھر قتیبہ نے ایک بات ذکر کی اس کا مفہوم ہے (کہ آپ یہ بھی کہتے:) «وبك خاصمت وإليك حاكمت اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت ولا حول ولا قوة إلا باللہ»"اور تیرے ہی لیے میں نے جھگڑا کیا، تیری ہی طرف میں فیصلہ کے لیے آیا، بخش دے میرے اگلے پچھلے، چھپے اور کھلے گناہ، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، نہیں ہے کوئی حقیقی معبود مگر تو ہی، اور نہ ہی کسی میں زور و طاقت ہے سوائے اللہ کے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱ (۱۱۲۰)، الدعوات ۱۰ (۶۳۱۷)، التوحید ۸ (۷۳۸۵)، ۲۴ (۷۴۴۲)، ۳۵ (۷۴۹۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۶۹)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۰ (۱۳۵۵)، (تحفة الأشراف: ۵۷۰۲)، مسند احمد ۱/۲۹۸، ۳۰۸، ۳۵۸، ۳۶۶، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۹ (۱۵۲۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ وَهِيَ خَالَتُهُ، فَاضْطَجَعَ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ قَلِيلًا أَوْ بَعْدَهُ قَلِيلًا"اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِيمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری (وہ ان کی خالہ تھیں) تو وہ تکیہ کے چوڑان میں لیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ دونوں اس کی لمبان میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، چہرہ سے نیند بھگانے کے لیے اپنے ہاتھ سے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے، پھر آپ نے سورۃ "آل عمران" کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف بڑھے، اور اس سے وضو کیا تو خوب اچھی طرح سے وضو کیا، پھر آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے آپ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر آپ نے وتر پڑھی ۱؎ پھر آپ لیٹے یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ نے پھر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۶۸۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک رکعت وتر پڑھی، اگر تین رکعتیں پڑھی ہوتیں تو پھر یہ کل پندرہ رکعتیں ہو جائیں گی، اور آپ کی تہجد کی نماز کے سلسلے میں یہ کسی کے نزدیک ثابت نہیں ہے، صحیح بخاری کی ایک روایت میں "تیرہ رکعتوں" کی صراحت موجود ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، وَحُصَيْنٍ، عَنْأَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں اٹھتے تو مسواک سے اپنا منہ ملتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲ (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، قال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْحُذَيْفَةَ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں اٹھتے تو مسواک سے اپنا منہ ملتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قال: "كُنَّا نُؤْمَرُ بِالسِّوَاكِ إِذَا قُمْنَا مِنَ اللَّيْلِ".
ابوسنان ابوحصین سے وہ ابووائل شقیق بن سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم رات میں بیدار ہوتے تو ہمیں مسواک کرنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر حدیث رقم: ۲ (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: اس میں اختلاف ہے کہ اوروں نے اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے طور پر روایت کیا ہے، جب کہ ابوحصین عثمان نے اس کو اس سند سے جو حکماً مرفوع ہے قول رسول کے طور پر روایت کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قال: أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ شَقِيقٍ، قال: "كُنَّا نُؤْمَرُ إِذَا قُمْنَا مِنَ اللَّيْلِ أَنْ نَشُوصَ أَفْوَاهَنَا بِالسِّوَاكِ".
اسرائیل ابوحصین سے روایت کرتے ہیں کہ ابووائل شقیق نے کہا: جب ہم رات کو بیدار ہوتے تھے تو ہمیں مسواک سے اپنا منہ ملنے کا حکم دیا جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲ (صحیح الإسناد) وذکرہ المزي موصولاً بذکر حذیفة کالسابق۔
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قال: أَنْبَأَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، قال: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: سَأَلْتُ عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ، قَالَ: "اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ، وَمِيكَائِيلَ، وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اللَّهُمَّ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی شروعات کس چیز سے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ جب رات میں اٹھ کر اپنی نماز شروع کرتے تو کہتے: «اللہم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون اللہم اهدني لما اختلف فيه من الحق إنك تهدي من تشاء إلى صراط مستقيم» "اے اللہ! اے جبرائیل و میکائیل و اسرافیل کے رب، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غائب اور حاضر کے جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ جھگڑتے تھے، اے اللہ! جس میں اختلاف کیا گیا ہے اس میں تو میری رہنمائی فرما، تو جس کی چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی فرماتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۷۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۲۱ (۷۶۷)، سنن الترمذی/الدعوات ۳۱ (۳۴۲۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۰ (۱۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۷۹)، مسند احمد ۶/۱۵۶ (حسن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قال: حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُلْتُ وَأَنَا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَاللَّهِ لَأَرْقُبَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةٍ حَتَّى أَرَى فِعْلَهُ، "فَلَمَّا صَلَّى صَلَاةَ الْعِشَاءِ وَهِيَ الْعَتَمَةُ اضْطَجَعَ هَوِيًّا مِنَ اللَّيْلِ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَنَظَرَ فِي الْأُفُقِ، فَقَالَ: "رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا حَتَّى بَلَغَ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ سورة آل عمران آية 191 - 194"، ثُمَّ أَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فِرَاشِهِ فَاسْتَلَّ مِنْهُ سِوَاكًا، ثُمَّ أَفْرَغَ فِي قَدَحٍ مِنْ إِدَاوَةٍ عِنْدَهُ مَاءً فَاسْتَنَّ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى حَتَّى قُلْتُ قَدْ صَلَّى قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى، قُلْتُ: قَدْ نَامَ قَدْرَ مَا صَلَّى ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَفَعَلَ كَمَا فَعَلَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، وَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ فَفَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَبْلَ الْفَجْرِ".
حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں نے اپنے جی میں کہا کہ اللہ کی قسم! میں نماز کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ آپ کے عمل کو دیکھ لوں، تو جب آپ نے عشاء کی نماز پڑھی، اور یہی عتمہ تھی، تو بڑی رات تک سوئے رہے، پھر آپ بیدار ہوئے توافق کی جانب نگاہ اٹھائی، اور فرمایا: «ربنا ما خلقت هذا باطلا» "اے ہمارے رب! تو نے اسے بیکار پیدا نہیں کیا ہے" (آل عمران: ۱۹۱) یہاں تک کہ آپ «إنك لا تخلف الميعاد» "بلاشبہ تو وعدہ خلافی نہیں کرتا" (آل عمران: ۱۹۴) تک پہنچے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف جھکے، اور آپ نے اس میں سے ایک مسواک نکالی، پھر ڈول سے جو آپ کے پاس تھا ایک پیالے میں پانی انڈیلا، اور مسواک کی، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور نماز پڑھی یہاں تک کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا: آپ جتنی دیر تک سوئے تھے اتنی ہی دیر تک آپ نے نماز پڑھی ہے، پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ میں نے (اپنے دل میں) کہا: آپ اتنی ہی دیر تک سوئے ہیں جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی، پھر آپ بیدار ہوئے تو آپ نے اسی طرح کیا جس طرح آپ نے پہلی مرتبہ کیا تھا، اور اسی طرح کہا جس طرح پہلے کہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر سے پہلے تین مرتبہ (اسی طرح) کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۵۲) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، قال: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "مَا كُنَّا نَشَاءُ أَنْ نَرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلِ مُصَلِّيًا، إِلَّا رَأَيْنَاهُ وَلَا نَشَاءُ أَنْ نَرَاهُ نَائِمًا إِلَّا رَأَيْنَاهُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں نماز (تہجد) پڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو دیکھ لیتے، اور آپ کو سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو دیکھ لیتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۸۱۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۱ (۱۱۴۱)، الصیام ۵۳ (۱۹۷۲، ۱۹۷۳)، سنن الترمذی/الصیام ۵۷ (۷۶۹)، مسند احمد ۳/۱۰۴، ۱۱۴، ۱۸۲، ۲۳۶، ۲۶۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آپ رات میں سوتے بھی تھے، اور نماز بھی پڑھتے تھے، نہ ساری رات جاگتے ہی تھے، اور نہ ساری رات سوتے ہی تھے۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قال: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ يَعْلَى بْنَ مَمْلَكٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: "كَانَ يُصَلِّي الْعَتَمَةَ ثُمَّ يُسَبِّحُ ثُمَّ يُصَلِّي بَعْدَهَا مَا شَاءَ اللَّهُ مِنَ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَرْقُدُ مِثْلَ مَا صَلَّى، ثُمَّ يَسْتَيْقِظُ مِنْ نَوْمِهِ ذَلِكَ فَيُصَلِّي مِثْلَ مَا نَامَ، وَصَلَاتُهُ تِلْكَ الْآخِرَةُ تَكُونُ إِلَى الصُّبْحِ".
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: آپ عتمہ (عشاء کی نماز) پڑھتے تھے پھر سنتیں پڑھتے، پھر اس کے بعد رات میں جتنا اللہ چاہتا پڑھتے، پھر آپ واپس جا کر جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر سوتے، پھر آپ اپنی اس نیند سے بیدار ہوتے تو جتنی دیر تک سوئے تھے اسی کے بقدر نماز پڑھتے، اور آپ کی یہ دوسری مرتبہ والی نماز صبح (فجر) تک جاری رہتی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۰۲۳ (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قِرَاءَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ صَلَاتِهِ، فَقَالَتْ: "مَا لَكُمْ وَصَلَاتَهُ كَانَ يُصَلِّي ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى، ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ نَعَتَتْ لَهُ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا".
یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت اور آپ کی نماز کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے کہا: تمہیں آپ کی نماز سے کیا سروکار؟ ۱؎ آپ نماز پڑھتے تھے، پھر جتنی دیر تک آپ نے نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر آپ سوتے، پھر جتنی دیر تک سوئے تھے اسی کے بقدر آپ اٹھ کر نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر تک نماز پڑھی تھی اسی کے بقدر آپ سوتے یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے ان سے آپ کی قرآت کی کیفیت بیان کی، تو وہ ایک ایک حرف واضح کر کے بیان کر رہی تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۰۲۳ (ضعیف) (سند میں یعلی بن مملک لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی تمہارا اسے پوچھنا بےسود ہے کیونکہ تم ویسی نماز نہیں پڑھ سکتے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نماز داود علیہ السلام کی نماز ہے، وہ آدھی رات تک سوتے تھے، پھر تہائی رات تک نماز پڑھتے، پھر چھٹے حصہ میں سو جاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۷ (۱۱۳۱)، أحادیث الأنبیاء ۳۸ (۳۴۲۰)، صحیح مسلم/الصیام ۳۵ (۱۱۵۹)، سنن ابی داود/الصیام ۶۷ (۲۴۴۸)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۱ (۱۷۱۲)، (تحفة الأشراف: ۸۸۹۷)، مسند احمد ۲/۱۶۰، ۱۶۴، ۲۰۶، ویأتی عند المؤلف فی الصوم ۱۹ (برقم: ۲۳۴۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ خَالِدٍ، قال: أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
حماد بن سلمہ سلیمان تیمی سے، سلیمان تیمی ثابت سے اور ثابت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس رات مجھے معراج ہوئی میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سرخ ٹیلے کے پاس آیا، اور وہ کھڑے اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۴۰۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قال: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَوْلَى بِالصَّوَابِ عِنْدَنَا مِنْ حَدِيثِ مُعَاذِ بْنِ خَالِدٍ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
سلیمان تیمی اور ثابت دونوں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں «الكثيب الأحمر» "سرخ ٹیلے" کے پاس موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ ۱؎ ہمارے نزدیک معاذ بن خالد کی حدیث سے زیادہ درست ہے، واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الفضائل ۴۲ (۲۳۷۵)، (تحفة الأشراف: ۸۸۲)، مسند احمد ۳/۱۲۰، ۱۴۸، ۲۴۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس سند کا «عن سلیمان وثابت» حرف عطف کے ساتھ ہونا «عن سلیمان عن ثابت» ہونے کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے۔
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: أَنْبَأَنَا ثَابِتٌ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْأَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَرَرْتُ عَلَى قَبْرِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
حماد بن سلمہ کہتے ہیں ہمیں ثابت اور سلیمان تیمی نے خبر دی ہے وہ دونوں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۳۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قال: حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
سلیمان تیمی روایت کرتے ہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں معراج کی رات میں موسیٰ وضاحت پر سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۳۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ"مَرَّ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
معتمر بن سلیمان اپنے والد سے اور ان کے والد انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام پر سے گزرے اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قال: سَمِعْتُ أَبِي، قال: سَمِعْتُ أَنَسًا، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ"مَرَّ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
معتمر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات میں موسیٰ علیہ السلام پر سے گزرے، اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۳)، مسند احمد ۵/۵۹، ۳۶۲، ۳۶۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى وَهُوَ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ".
سلیمان انس رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معراج کی رات میں میں موسیٰ کے پاس سے گزرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، وَبَقِيَّةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَمْزَةَ، قال: حَدَّثَنِيالزُّهْرِيُّ، قال: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ رَاقَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ كُلَّهَا حَتَّى كَانَ مَعَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ جَاءَهُ خَبَّابٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَقَدْ صَلَّيْتَ اللَّيْلَةَ صَلَاةً مَا رَأَيْتُكَ صَلَّيْتَ نَحْوَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغَبٍ وَرَهَبٍ سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا ثَلَاثَ خِصَالٍ فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُهْلِكَنَا بِمَا أَهْلَكَ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُظْهِرَ عَلَيْنَا عَدُوًّا مِنْ غَيْرِنَا فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يَلْبِسَنَا شِيَعًا فَمَنَعَنِيهَا".
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (وہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری رات نماز پڑھتے دیکھا یہاں تک کہ فجر ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز سے سلام پھیرا، تو خباب رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے آج رات ایسی نماز پڑھی کہ اس طرح میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں یہ رغبت اور خوف کی نماز تھی، میں نے اپنے رب سے اس میں تین باتوں کی درخواست کی، تو اس نے دو مجھے دے دیں اور ایک نہیں دی، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اس چیز کے ذریعہ ہلاک نہ کرے جس کے ذریعہ اس نے ہم سے پہلے کی امتوں کو ہلاک کیا، تو اس نے یہ مجھے دے دی، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ کسی دشمن کو جو ہم میں سے نہ ہو ہم پر غالب نہ کرے، تو اسے بھی اس نے مجھے دے دیا، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہم میں پھوٹ نہ ڈالے، اور ہم گروہ در گروہ نہ ہوں، تو اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۱۴ (۲۱۷۵)، (تحفة الأشراف: ۳۵۱۶)، مسند احمد ۵/۱۰۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قال: قَالَتْعَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا"كَانَ إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ أَحْيَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ وَشَدَّ الْمِئْزَرَ".
مسروق کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب (رمضان کا آخری) عشرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، اور اپنے اہل و عیال کو بیدار کرتے، اور (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/لیلة القدر ۵ (۲۰۲۴)، صحیح مسلم/الاعتکاف ۳ (۱۱۷۴)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۸ (۱۳۷۶)، سنن ابن ماجہ/الصوم ۵۷ (۱۷۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۷)، مسند احمد ۶/۴۰، ۴۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: أَتَيْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ وَكَانَ لِي أَخًا صَدِيقًا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَمْرٍو حَدِّثْنِي مَا حَدَّثَتْكَ بِهِ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَتْ: "كَانَ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ وَيُحْيِي آخِرَهُ".
ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس آیا، وہ میرے بھائی اور دوست تھے، تو میں نے کہا: اے ابوعمرو! مجھ سے وہ باتیں بیان کریں جن کو ام المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بیان کیا ہے، تو انہوں نے کہا: وہ کہتی ہیں کہ آپ شروع رات میں سوتے تھے، اور اس کے آخر کو زندہ رکھتے تھے۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین۱۷ (۷۳۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۵ (۱۱۴۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۲ (۱۳۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۲۰)، مسند احمد ۶/۱۰۲، ۲۵۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی رات کے آخری حصہ میں جاگ کر عبادت کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "لَا أَعْلَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن ایک رات میں پڑھا ہو، یا رات بھر صبح تک عبادت کی ہو، یا پورے مہینے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإقامة ۱۷۸ (۱۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۰۸)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۲۱۸۴، ۲۳۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ ؟ قَالَتْ: فُلَانَةُ، لَا تَنَامُ فَذَكَرَتْ مِنْ صَلَاتِهَا، فَقَالَ: "مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَلَكِنَّ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ان کے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی تو آپ نے پوچھا:"یہ کون ہے؟" انہوں نے کہا: فلاں (عورت) ہے جو سوتی نہیں ہے، پھر انہوں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چپ رہو، تم اتنا ہی کرو جتنے کی تمہیں طاقت ہو، قسم اللہ کی، اللہ نہیں تھکتا ہے یہاں تک کہ تم تھک جاؤ، پسندیدہ دین (عمل) اس کے نزدیک وہی ہے جس پر آدمی مداومت کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۲ (۴۳)، التھجد ۱۸ (۱۱۵۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۳۲ (۷۸۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزھد ۲۸ (۴۲۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۰۷)، مسند احمد ۶/۵۱، ویأتی عند المؤلف فی الإیمان ۲۹ برقم: ۵۰۳۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى حَبْلًا مَمْدُودًا بَيْنَ سَارِيَتَيْنِ، فَقَالَ: "مَا هَذَا الْحَبْلُ ؟"، فَقَالُوا: لِزَيْنَبَ تُصَلِّي، فَإِذَا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "حُلُّوهُ لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے دو ستونوں کے درمیان میں ایک لمبی رسی دیکھی، تو آپ نے پوچھا: "یہ رسی کیسی ہے؟" تو لوگوں نے عرض کیا: زینب (زینب بنت جحش) کی ہے وہ نماز پڑھتی ہیں، جب کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹک جاتی ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھولو اسے، تم میں سے کوئی بھی ہو جب تک اس کا دل لگے نماز پڑھے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۸ (۱۱۵۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۳۱ (۷۸۴)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۸ (۱۳۱۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۴ (۱۳۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۳)، مسند احمد ۳/۱۰۱، ۱۸۴، ۲۰۴، ۲۵۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قال: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يَقُولُ: "قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَهُ: قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ: "أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، تو آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: "کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۶ (۱۱۳۰)، تفسیر الفتح ۲ (۴۸۳۶)، الرقاق ۲۰ (۶۴۷۱)، صحیح مسلم/المنافقین ۱۸ (۲۸۱۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۸۸ (۴۱۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۰۰ (۱۴۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۹۸)، مسند احمد ۴/۲۵۱، ۲۵۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِهْرَانَ وَكَانَ ثِقَةً، قال: حَدَّثَنَا النُّعْمَانُ بْنُ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَتَّى تَزْلَعَ يَعْنِي تَشَقَّقُ قَدَمَاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں پھٹ جاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۹۹)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۲۰۰ (۱۴۲۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ بُدَيْلٍ، وَأَيُّوبُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا صَلَّى قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا".
بدیل اور ایوب دونوں عبداللہ بن شفیق سے روایت کرتے ہیں، اور وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں کافی دیر تک نماز پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو کھڑے کھڑے ہی رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو بیٹھ کر رکوع کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۷۹ (۹۵۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۹ (۳۷۵)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۰ (۱۲۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۰۱)، ۱۶۲۰۳)، مسند احمد ۶/۱۰۰، ۲۲۷، ۲۶۱، ۲۶۲، ۲۶۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قال: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَائِمًا وَقَاعِدًا، فَإِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَائِمًا رَكَعَ قَائِمًا، وَإِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَاعِدًا رَكَعَ قَاعِدًا".
ابن سیرین عبداللہ بن شفیق سے اور عبداللہ بن شقیق ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کھڑے ہو کر اور کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے، تو جب آپ کھڑے ہو کر نماز شروع کرتے تو کھڑے کھڑے رکوع کرتے، اور جب بیٹھ کر شروع کرتے تو بیٹھے بیٹھے ہی رکوع کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۲۲)، مسند احمد ۶/۱۱۲، ۱۱۳، ۱۶۶، ۲۰۴، ۲۲۷، ۲۲۸، ۲۶۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، وَأَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرَ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور بیٹھے ہوتے، اور قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، پھر جب آپ کی قرآت میں تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر باقی رہ جاتی تو کھڑے ہو جاتے، اور کھڑے ہو کر قرآت کرتے، پھر رکوع کرتے، پھر سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں (بھی) ایسے ہی کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۲۰ (۱۱۱۹)، التھجد ۱۶ (۱۱۴۸)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۷۹ (۹۵۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۹ (۳۷۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۰ (۱۲۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۰۹)، موطا امام مالک/الجماعة ۷ (۲۳)، مسند احمد ۶/۱۷۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى جَالِسًا حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ يَقْرَأُ، فَإِذَا غَبَرَ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ بِهَا ثُمَّ رَكَعَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہو گئے، تو (جب آپ بوڑھے ہو گئے) تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھ کر قرآت کرتے، پھر جب سورۃ میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو ان کی قرآت کھڑے ہو کر کرتے، پھر رکوع کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۷۱۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ إِنْسَانٌ أَرْبَعِينَ آيَةً".
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے اور بیٹھے ہوتے، تو جب آپ رکوع کرنا چاہتے تو آدمی کے چالیس آیتیں پڑھنے کے بقدر(باقی رہنے پر) کھڑے ہو جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۰ (۱۲۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۵۰)، مسند احمد ۶/۲۱۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قال: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ أَنْتَ ؟ قُلْتُ: أَنَا سَعْدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَاكَ، قُلْتُ: أَخْبِرِينِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ وَكَانَ، قُلْتُ: أَجَلْ، قَالَتْ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ فَيَنَامُ، فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى حَاجَتِهِ وَإِلَى طَهُورِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَاءَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ فَرُبَّمَا جَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ وَرُبَّمَا يُغْفِي وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَوْ لَمْ يُغْفِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ، فَكَانَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسَنَّ وَلُحِمَ، فَذَكَرَتْ مِنْ لَحْمِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ ثُمَّ يَأْوِي إِلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا كَانَ جَوْفُ اللَّيْلِ قَامَ إِلَى طَهُورِهِ وَإِلَى حَاجَتِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي سِتَّ رَكَعَاتٍ يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُ يُسَوِّي بَيْنَهُنَّ فِي الْقِرَاءَةِ وَالرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، ثُمَّ يَضَعُ جَنْبَهُ وَرُبَّمَا جَاءَ بِلَالٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُغْفِيَ وَرُبَّمَا أَغْفَى وَرُبَّمَا شَكَكْتُ أَغْفَى أَمْ لَا حَتَّى يُؤْذِنَهُ بِالصَّلَاةِ، قَالَتْ: فَمَا زَالَتْ تِلْكَ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں میں مدینہ آیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعد بن ہشام بن عامر ہوں، انہوں نے کہا: اللہ تمہارے باپ پر رحم کرے، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق کچھ بتائیے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ایسا کرتے تھے، میں نے کہا: اچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں عشاء کی نماز پڑھتے تھے، پھر آپ اپنے بچھونے کی طرف آتے اور سو جاتے، پھر جب آدھی رات ہوتی، تو قضائے حاجت کے لیے اٹھتے اور وضو کے پانی کے پاس آتے، اور وضو کرتے، پھر مسجد آتے اور آٹھ رکعتیں پڑھتے، تو پھر ایسا محسوس ہوتا کہ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے سب برابر برابر ہیں، اور ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر آپ اپنے پہلو کے بل لیٹ جاتے، تو کبھی اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھ لگے بلال رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آپ کی آنکھ لگ جاتی، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ سوئے یا نہیں سوئے یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی، یہاں تک کہ آپ عمردراز ہو گئے، اور جسم پر گوشت چڑھ گیا، پھر انہوں نے آپ کے جسم پر گوشت چڑھنے کا حال بیان کیا جو اللہ نے چاہا، وہ کہتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے، پھر اپنے بچھونے کی طرف آتے، تو جب آدھی رات ہو جاتی تو آپ اپنی پاکی اور حاجت کے لیے اٹھ کر جاتے، پھر وضو کرتے، پھر مسجد آتے تو چھ رکعتیں پڑھتے، ایسا محسوس ہوتا کہ آپ ان میں قرآت، رکوع اور سجدے میں برابری رکھتے ہیں، پھر آپ ایک رکعت وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، پھر اپنے پہلو کے بل لیٹتے تو کبھی بلال رضی اللہ عنہ آپ کی آنکھ لگنے سے پہلے ہی آ کر نماز کی اطلاع دیتے، اور کبھی آنکھ لگ جانے پر آتے، اور کبھی مجھے شک ہوتا کہ آپ کی آنکھ لگی یا نہیں یہاں تک کہ وہ آپ کو نماز کی خبر دیتے، وہ کہتی ہیں: تو برابر یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رہی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۶ (۱۳۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۹۶)، مسند احمد ۶/۹۱، ۹۷، ۱۶۸، ۲۱۶، ۲۲۷، ۲۳۵، ویأتي عند المؤلف بأرقام: ۱۷۲۳، ۱۷۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ، قال: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَنِعُ مِنْ وَجْهِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَمَا مَاتَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا، ثُمَّ ذَكَرَتْ كَلِمَةً مَعْنَاهَا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَامَ عَلَيْهِ الْإِنْسَانُ وَإِنْ كَانَ يَسِيرًا"، خَالَفَهُ يُونُسُ، رَوَاهُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرے چہرے سے نہیں بچتے تھے ۱؎ اور آپ کی وفات نہیں ہوئی یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے، اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل آپ کے نزدیک وہ تھا جس پر آدمی مداومت کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ یونس نے عمر بن ابی زائدہ کی مخالفت کی ہے یونس نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے اسود سے اور اسود نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۳۲)، مسند احمد ۶/۱۱۳، ۲۵۰ (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی روزے کی حالت میں بوسہ وغیرہ لینے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْبَلْخِيُّ، قال: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قال: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "مَا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ جَالِسًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ"، خَالَفَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ، وَقَالَا: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے۔ شعبہ اور سفیان نے یونس بن شریک کی مخالفت کی ہے، ان دونوں نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ام سلمہ سے روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۴۵)، مسند احمد ۶/۲۹۷، وانظر مایأتی (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قال: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْفَرِيضَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ وَإِنْ قَلَّ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی اکثر و بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں، سوائے فرض نماز کے اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۰ (۱۲۲۵)، الزھد ۲۸ (۴۲۳۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۳۶)، مسند احمد ۶/۳۰۴، ۳۰۵، ۳۱۹، ۳۲۰، ۳۲۱، ۳۲۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ قَاعِدًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ"، خَالَفَهُ عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ فَرَوَاهُ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے، اور آپ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔ عثمان بن ابی سلیمان نے ابواسحاق کی مخالفت کی ہے انہوں نے اسے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مخالفت اس طرح ہے کہ عثمان نے ام سلمہ کی جگہ عائشہ کا ذکر کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّعَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَمْ يَمُتْ حَتَّى كَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ جَالِسٌ".
ابن جریج سے روایت ہے کہ مجھے عثمان بن ابی سلیمان نے خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابوسلمہ نے انہیں خبر دی ہے وہ کہتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ اپنی بیشتر نمازیں بیٹھ کر پڑھنے لگے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، سنن الترمذی/الشمائل ۳۹ (۲۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۳۴)، مسند احمد ۶/۱۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، قال: أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قال: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ قَاعِدٌ ؟ قَالَتْ: "نَعَمْ، بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ".
عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، اس کے بعد کہ لوگوں نے آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر آپ کو کمزور کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۱۷۹ (۹۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۱۴)، مسند احمد ۶/۱۷۱، ۲۱۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: "مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَكَانَ يُصَلِّي قَاعِدًا يَقْرَأُ بِالسُّورَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نفل پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ اپنی وفات سے ایک سال قبل آپ بیٹھ کر نماز پڑھنے لگے تھے، آپ سورت پڑھتے تو اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ طویل سے طویل تر ہو جاتی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۹ (۳۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۱۲)، موطا امام مالک/الجماعة ۷ (۲۱)، مسند احمد ۶/۲۸۵، سنن الدارمی/الصلاة ۱۰۹ (۱۴۲۵، ۱۴۲۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قال: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي جَالِسًا، فَقُلْتُ: حُدِّثْتُ أَنَّكَ قُلْتَ: "إِنَّ صَلَاةَ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ"، وَأَنْتَ تُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ: "أَجَلْ، وَلَكِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا تو میں نے عرض کیا کہ مجھ سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کے آدھی ہوتی ہے، اور آپ خود بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں لیکن میں تم لوگوں کی طرح نہیں ہوں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۶ (۷۳۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۷۹ (۹۵۰)، (تحفة الأشراف: ۸۹۳۷)، مسند احمد ۲/۱۶۲، ۱۹۲، ۲۰۱، ۲۰۳، سنن الدارمی/الصلاة ۱۰۸ (۱۴۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: میرا معاملہ تم لوگوں سے جداگانہ ہے، میں خواہ بیٹھ کر پڑھوں یا کھڑے ہو کر میری نماز میں کوئی کمی نہیں رہتی، بیٹھ کر پڑھنے میں بھی مجھے پورا ثواب ملتا ہے۔
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قال: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الَّذِي يُصَلِّي قَاعِدًا، قَالَ: "مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ، وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: "جس نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی وہ سب سے افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اسے کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نماز کا آدھا ثواب ملے گا، اور جس نے لیٹ کر نماز پڑھی تو اسے بیٹھ کر پڑھنے والے کے آدھا ملے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة ۱۷ (۱۱۱۵)، ۱۸ (۱۱۱۶)، ۱۹ (۱۱۱۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۱۷۹ (۹۵۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۵۸ (۳۷۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۱ (۱۲۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۳۱)، مسند احمد ۴/۴۲۶، ۴۳۳، ۴۳۵، ۴۲ ۴، ۴۴۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے تندرست آدمی نہیں بلکہ مریض مراد ہے کیونکہ انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس آئے جو بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: " بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے والے کے آدھا ہے "۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مُتَرَبِّعًا"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ أَبِي دَاوُدَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَلَا أَحْسِبُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا خَطَأً وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پالتی مار کر بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ ابوداؤد حفری کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابوداؤد ثقہ ہیں اس کے باوجود میں اس حدیث کو غلط ہی سمجھتا ہوں، واللہ اعلم ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۰۶)، انظر صحیح ابن خزیمة ۹۷۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: علم حدیث کے قواعد کے مطابق اس کے صحیح ہونے میں کوئی چیز مانع نہیں، امام ابن خزیمہ نے بھی اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ، قال: سَأَلْتُ عَائِشَةَ"كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ يَجْهَرُ أَمْ يُسِرُّ ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ، قَدْ كَانَ يَفْعَلُ رُبَّمَا جَهَرَ وَرُبَّمَا أَسَرَّ".
عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں کس طرح قرآت کرتے تھے، جہری یا سری؟ تو انہوں نے کہا: آپ ہر طرح سے پڑھتے، کبھی جہراً پڑھتے، اور کبھی سرّاً پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۸۶) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۳ (۱۴۳۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۲۳ (۴۴۹)، مسند احمد ۶/۱۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سُمَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ وَاقِدٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ حَدَّثَهُمْ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الَّذِي يَجْهَرُ بِالْقُرْآنِ كَالَّذِي يَجْهَرُ بِالصَّدَقَةِ، وَالَّذِي يُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالَّذِي يُسِرُّ بِالصَّدَقَةِ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو جہر سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اعلان کر کے صدقہ کرتا ہے، اور جو آہستہ قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو چھپا کر چپکے سے صدقہ کرتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۵ (۱۳۳۳)، سنن الترمذی/فضائل القرآن ۲۰ (۲۹۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۹۴۹)، مسند احمد ۴/۱۵۱، ۱۵۸، ۲۰۱، ویأتی عند المؤلف برقم: ۲۵۶۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ صرف نفلی نماز ہے، ورنہ مغرب، عشاء، فجر اور جمعہ کی نماز میں جہر کرنا واجب ہے، جس طرح فرض و نفل صدقہ کا معاملہ ہے۔
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قال: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قال: "صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَتَيْنِ فَمَضَى فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ فَمَضَى، فَافْتَتَحَ النِّسَاءَ فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَكَانَ قِيَامُهُ قَرِيبًا مِنْ رُكُوعِهِ، ثُمَّ سَجَدَ فَجَعَلَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ رُكُوعِهِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ بڑھ گئے تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ دو سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ اس سے بھی آگے بڑھ گئے، تو میں نے اپنے جی میں کہا: آپ ایک ہی رکعت میں پوری سورۃ پڑھ ڈالیں گے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور سورۃ نساء شروع کر دی، اور اسے پڑھ چکنے کے بعد سورۃ آل عمران شروع کر دی، اور پوری پڑھ ڈالی، آپ نے یہ پوری قرآت آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر کی، اس طرح کہ جب آپ کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح (پاکی) کا ذکر ہوتا تو آپ اس کی پاکی بیان کرتے، اور جب کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے، اور جب کسی پناہ کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے، پھر آپ نے رکوع کیا، اور « سبحان ربي العظيم» "پاک ہے میرا رب جو عظیم ہے" کہا، آپ کا رکوع تقریباً آپ کے قیام کے برابر تھا، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع اللہ لمن حمده» کہا، آپ کا قیام تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» "پاک ہے میرا رب جو اعلیٰ ہے" پڑھ رہے تھے، اور آپ کا سجدہ تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۰۰۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ثِقَةٌ، قال: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ"صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَرَكَعَ فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ جَلَسَ، يَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِي رَبِّ اغْفِرْ لِي مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، فَمَا صَلَّى إِلَّا أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ حَتَّى جَاءَ بِلَالٌ إِلَى الْغَدَاةِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي مُرْسَلٌ وَطَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ لَا أَعْلَمُهُ سَمِعَ مِنْ حُذَيْفَةَ شَيْئًا، وَغَيْرُ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ.
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور «سبحان ربي الأعلى» کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے بلانے آ گئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع)ہے، میں نہیں جانتا کہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا: «عن طلحۃ، عن رجل، عن حذیفۃ»۔
تخریج دارالدعوہ: انظر الأرقام: ۱۰۰۹، ۱۰۱۰، ۱۰۷۰، ۱۱۴۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا الْأَزْدِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى"، قال أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي خَطَأٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے" ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: میرے خیال میں اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۲ (۱۲۹۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۳۰۱ (الجمعة ۶۵) (۵۹۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۲ (۱۳۲۲)، (تحفة الأشراف: ۷۳۴۹)، مسند احمد ۲/۲۶، ۵۱، سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۴ (۱۴۹۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوافل دن ہو یا رات دو دو کر کے پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ ۲؎: اس سے ان کی مراد «والنہار» کی زیادتی میں غلطی ہے، کچھ لوگوں نے اس زیادتی کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ یہ زیادتی علی البارقی الازدی کے طریق سے مروی ہے، اور یہ ابن معین کے نزدیک ضعیف ہیں، لیکن ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کے رواۃ ثقہ ہیں اور مسلم نے علی البارقی سے حجت پکڑی ہے، اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، علامہ البانی نے بھی سلسلۃ الصحیحۃ میں اس کی تصحیح کی ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قال: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَوَاحِدَةٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: "دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۸۴ (۴۷۳)، الوتر ۱ (۹۹۰، ۹۹۱، ۹۹۳)، التھجد ۱۰ (۱۱۳۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۴ (۱۳۲۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۷ (۴۳۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۱ (۱۳۲۰)، (تحفة الأشراف: ۷۰۹۹)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۳)، مسند احمد ۲/۳۰، ۱۱۳، ۱۴۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تاکہ سب وتر یعنی طاق ہو جائیں۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ صَدَقَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تجھے صبح ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر یعنی طاق کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۹۳۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يُسْأَلُ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِرَكْعَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے منبر پر فرماتے سنا: آپ سے رات کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا: "وہ دو دو رکعت ہے، لیکن جب تمہیں صبح ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو تو ایک رکعت سے وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۱ (۱۳۲۰)، (تحفة الأشراف: ۸۵۸۵)، مسند احمد ۳/۱۰، ۷۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قال: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحُرِّ، قال: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُمْ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، قَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، فَإِنْ خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ فَلْيُوتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: "دو دو رکعت ہے، لیکن اگر تم میں سے کوئی صبح ہو جانے کا خطرہ محسوس کرے، تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۶۴۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۷ (۴۳۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۱ (۱۳۱۹)، (تحفة الأشراف: ۸۲۸۸)، مسند احمد ۲/۱۱۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قال: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قال: سَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ ؟ فَقَالَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: رات کی نماز کیسے پڑھی جائے؟ تو آپ نے فرمایا:"رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پس جب تمہیں صبح ہو جانے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۱۰ (۱۱۳۷)، (تحفة الأشراف: ۶۸۴۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قال: أَخْبَرَنِيحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح کا ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، (تحفة الأشراف: ۶۷۱۰)، مسند احمد ۲/۱۳۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْهَيْثَمِ، قال: حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، وَحُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَاهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قال: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا: اللہ کے رسول! رات کی نماز کیسے پڑھی جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور جب تمہیں صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۷۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ وَهُوَ ابْنُ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قال: أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: "يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی، پھر فرمایا: "اے اہل قرآن! وتر پڑھو ۱؎ کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر ہے، اور وتر کو محبوب رکھتا ہے"۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۳۶ (۱۴۱۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۶ (الوتر ۲) (۴۵۳، ۴۵۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۴ (۱۱۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۳۵)، مسند احمد ۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۰، ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۴۳، ۱۴۴، ۱۴۸، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۲۰) (صحیح) (سند میں ابو اسحاق سبیعی مختلط ہیں، اور عاصم میں قدرے کلام ہے، مگر متابعات اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تراجع الالبانی ۴۸۲)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو اہل قرآن کہا گیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث کو نہیں مانتے تھے بلکہ یہاں اہل قرآن کا مطلب شریعت اسلامیہ کے پیروکار ہیں، اور شریعت قرآن و حدیث دونوں کے مجموعہ کا نام ہے نہ کہ حدیث کے بغیر صرف قرآن کا۔ ۲؎: طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وتر سے مراد قیام اللیل ہے، کیونکہ وتر کا اطلاق قیام اللیل پر بھی ہوتا ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قال: "الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَهَيْئَةِ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ سَنَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وتر فرض نماز کی طرح کوئی حتمی و واجبی چیز نہیں ہے، البتہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۶ (الوتر ۲) (۵۵۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۴، حم۱/۸۶، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۱۵، ۱۴۴، ۱۴۵، ۱۴۸، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۸ (۱۶۲۰) (صحیح) (دیکھئے پچھلی حدیث پر کلام)
وضاحت: ۱؎: یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ وتر واجب نہیں جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے۔
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُمَيْلٍ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي شِمْرٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: "أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: النَّوْمِ عَلَى وِتْرٍ، وَصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے: وتر پڑھ کر سونے کی، ہر مہینہ تین دن کے روزے رکھنے کی، اور چاشت کی دونوں رکعتیں پڑھنے کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۳۳ (۱۱۷۸)، الصیام ۶۰ (۱۹۸۱)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۳ (۷۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۶۱۸)، مسند احمد ۲/۴۵۹، سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۱ (۱۴۹۵)، الصوم ۳۸ (۱۷۸۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی تیرھویں چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا، عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، قال: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: "أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: الْوِتْرِ أَوَّلَ اللَّيْلِ، وَرَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، وَصَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی نصیحت کی: شروع رات میں وتر پڑھنے کی، فجر کی رکعت سنت پڑھنے کی ۱؎، اور ہر مہینہ تین دن کے روزے رکھنے کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: صحاح کی اکثر روایات میں چاشت کی رکعتیں ہیں۔
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ مُلَازِمِ بْنِ عَمْرٍو، قال: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، قال: زَارَنَا أَبِيطَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَأَمْسَى بِنَا وَقَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا، ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدٍ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ، ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلًا، فَقَالَ لَهُ: أَوْتِرْ بِهِمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ".
قیس بن طلق کہتے ہیں ہمارے والد طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں ایک دن ہماری زیارت کی اور ہمارے ساتھ انہوں نے رات گزاری، ہمارے ساتھ اس رات نماز تہجد ادا کی، اور وتر بھی پڑھی، پھر وہ ایک مسجد میں گئے، اور اس مسجد والوں کو انہوں نے نماز پڑھائی یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئی، تو انہوں نے ایک شخص کو آگے بڑھایا، اور اس سے کہا: انہیں وتر پڑھاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "ایک رات میں دو وتر نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۴ (۱۴۳۹)، سنن الترمذی/فیہ ۲۲۷ (الوتر ۱۳) (۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۵۰۲۴)، مسند احمد ۴/۲۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قال: سَأَلْتُعَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: "كَانَ يَنَامُ أَوَّلَ اللَّيْلِ ثُمَّ يَقُومُ، فَإِذَا كَانَ مِنَ السَّحَرِ أَوْتَرَ، ثُمَّ أَتَى فِرَاشَهُ فَإِذَا كَانَ لَهُ حَاجَةٌ أَلَمَّ بِأَهْلِهِ فَإِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ وَثَبَ، فَإِنْ كَانَ جُنُبًا أَفَاضَ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ وَإِلَّا تَوَضَّأَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ".
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ شروع رات میں سو جاتے، پھر اٹھتے اگر سحر (صبح) ہونے کو ہوتی تو وتر پڑھتے، پھر اپنے بستر پر آتے، اور اگر آپ کو خواہش ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس آتے، پھر جب اذان سنتے تو جھٹ سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے، اگر جنبی ہوتے تو (اپنے اوپر پانی ڈالتے) یعنی غسل فرماتے، ورنہ وضو کرتے پھر نماز کو چلے جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۵ (۱۱۴۶)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۹)، سنن الترمذی/الشمائل ۳۹ (رقم: ۲۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۲۹)، مسند احمد ۶/۱۰۲، ۱۷۶، ۲۱۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ وَأَوْسَطِهِ وَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع، اخیر اور بیچ رات سب میں وتر کی نماز پڑھی ہے، اور آخری عمر میں آپ کا وتر سحر(صبح) تک پہنچ گیا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: خ /الوتر ۲ (۹۹۶)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۴۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۳ (۱۴۳۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۸ (الوتر ۴) (۴۵۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۱ (۱۱۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۵۳)، مسند احمد ۶/۴۶، ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۲۹، ۲۰۴، ۲۰۵، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۱ (۱۶۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عمر میں وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھنے لگے تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قال: "مَنْ صَلَّى مِنَ اللَّيْلِ فَلْيَجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِهِ وِتْرًا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِذَلِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جو رات کو نماز پڑھے تو وہ اپنی آخری نماز وتر کو بنائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کا حکم دیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۵۱)، (تحفة الأشراف: ۸۲۹۷)، مسند احمد ۲/۳۹، ۱۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو نَضْرَةَ الْعَوَقِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: "أَوْتِرُوا قَبْلَ الصُّبْحِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: "وتر صبح ہونے (فجر نکلنے) سے پہلے پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۵۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۶ (الوتر ۱۲) (۴۶۸)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۲ (۱۱۸۹)، (تحفة الأشراف: ۴۳۸۴)، مسند احمد ۳/۴، ۱۳، ۳۵، ۳۷، ۷۱، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۱ (۱۶۲۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ الْقَنَّادُ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَوْتِرُوا قَبْلَ الْفَجْرِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وتر فجر نکلنے سے پہلے پڑھ لو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عِديٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ فِي مَسْجِدِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَجَعَلُوا يَنْتَظِرُونَهُ، فَجَاءَ فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أُوتِرُ، قَالَ: وَسُئِلَعَبْدُ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ الْأَذَانِ وِتْرٌ ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَبَعْدَ الْإِقَامَةِ، وَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ: "نَامَ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى".
محمد بن منتشر کہتے ہیں کہ وہ عمرو بن شرحبیل کی مسجد میں تھے، کہ اتنے میں اقامت ہو گئی، تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، وہ آئے اور کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، اور کہا: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے پوچھا گیا: کیا اذان کے بعد وتر ہے، تو کہا: ہاں، اور اقامت کے بعد بھی ہے، اور انہوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سوئے رہ گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، پھر آپ نے (اٹھ کر) نماز پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۶۱۳ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ عَلَى الرَّاحِلَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر وتر پڑھ لیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۷۹۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحُرِّ، عَنْنَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ: "كَانَ يُوتِرُ عَلَى بَعِيرِهِ، وَيَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ".
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم اپنے اونٹ پر وتر پڑھتے تھے، اور ذکر کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۶۴۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْسَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، قال: قَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: "يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ".
سعید بن یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۵ (۹۹۹) مطولاً، صحیح مسلم/المسافرین ۴ (۷۰۰) مطولاً، سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۸ (۴۷۲) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۷ (۱۲۰۰)، (تحفة الأشراف: ۷۰۸۵)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۵)، مسند احمد ۲/۷، ۵۷، ۱۱۳، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۳ (۱۶۳۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۵۲، ۷۵۳)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۳۸ (۱۴۲۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۶ (۱۱۷۵)، (تحفة الأشراف: ۸۵۵۸)، مسند احمد ۱/۳۱۱، ۳۶۱، ۲/۴۳، ۵۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَمُحَمَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَفَّانَ، قال: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ قَالَ: "مَثْنَى مَثْنَى، وَالْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ دیہات والوں میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو آپ نے فرمایا: "دو دو رکعت ہے، اور وتر رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۳۸ (۱۴۲۱)، (تحفة الأشراف: ۷۲۶۷)، مسند احمد ۲/۴۰، ۵۸، ۷۱، ۷۶، ۷۹، ۱۰۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ بِوَاحِدَةٍ تُوتِرُ لَكَ مَا قَدْ صَلَّيْتَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم ختم کرنے کا ارادہ کرو تو ایک رکعت اور پڑھ لو، یہ جو تم نے پڑھی ہے سب کو (طاق) کر دے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۱ (۹۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۳۷۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَالْوِتْرُ رَكْعَةٌ وَاحِدَةٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور وتر ایک رکعت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۶۵۷) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، اور تم میں سے کسی کو جب صبح ہو جانے کا خدشہ ہو تو وہ ایک رکعت اور پڑھ لے یہ جو اس نے پڑھی ہے سب کو وتر(طاق) کر دے گی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوتر ۱ (۹۹۰)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۰ (۷۴۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۴ (۱۳۲۶)، (تحفة الأشراف: ۷۲۲۵)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۳ (۱۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَنَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: "صَلَاةُ اللَّيْلِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فَإِذَا خِفْتُمُ الصُّبْحَ فَأَوْتِرُوا بِوَاحِدَةٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت ہے، تو جب تمہیں صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتر کر لو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۷۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵ (۶۲۶)، الوتر ۱ (۹۹۴)، التھجد ۳ (۱۱۲۳)، ۲۳ (۱۱۶۰)، الدعوات ۵ (۶۳۱۰) صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۶ (۱۳۳۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۹ (۴۴۱)، الشمائل ۳۹ (۲۵۸)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۶ (۱۱۹۸)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۲ (۸)، مسند احمد ۶/۳۵، ۱۸۲، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۹۳)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۵ (۱۵۱۴)، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۷۲۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ قَالَتْ: "مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا"قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ قَالَ: "يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنِي تَنَامُ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان میں کسی میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعت پڑھتے تو ان کا حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو ۱؎، پھر چار رکعت پڑھتے تو تم ان کا (بھی) حسن اور ان کی طوالت نہ پوچھو، پھر تین رکعت پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، لیکن میرا دل نہیں سوتا" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۶ (۱۱۴۷)، التراویح ۱ (۲۰۱۳)، المناقب ۲۴ (۳۵۶۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۶ (۱۳۴۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۹ (۴۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۱۹) موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۲ (۹)، مسند احمد ۶/۳۶، ۷۳، ۱۰۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہاں نہی مقصود نہیں بلکہ مقصود نماز کی تعریف کرنا ہے۔ ۲؎: یعنی میرا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے، اس وجہ سے سونے سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا، میرا وضو اس سے نہیں ٹوٹتا، واضح رہے کہ یہ بات آپ کی خصوصیات میں سے تھی۔
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ لَا يُسَلِّمُ فِي رَكْعَتَيِ الْوِتْرِ".
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی تینوں رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ، كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ، فَإِذَا فَرَغَ قَالَ عِنْدَ فَرَاغِهِ: سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يُطِيلُ فِي آخِرِهِنَّ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر تین رکعت پڑھتے تھے، پہلی رکعت میں «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری رکعت میں«قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے، اور دعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، پھر جب (وتر سے) فارغ ہو جاتے تو فراغت کے وقت تین بار: «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور ان کے آخر میں کھینچتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۳۹ (۱۴۲۳) (وعندہ ’’قل للذین کفروا‘‘ و ’’اللہ الواحد الصمد‘‘)، ۳۴۱ (۱۴۳۰) سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۵ (۱۱۷۱)، (تحفة الأشراف: ۵۴، ۵۵)، مسند احمد ۵/۱۲۳، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۷۰۱، ۱۷۰۲، ۱۷۳۰، ۱۷۳۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنَ الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری رکعت میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَلَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، وَيَقُولُ: يَعْنِي بَعْدَ التَّسْلِيمِ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں (پہلی رکعت میں) «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری رکعت میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے، اور ان کے بالکل آخر ہی میں سلام پھیرتے، اور تین بار: «سبحان الملك القدوس» کہتے(یعنی سلام پھیرنے کے بعد)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۰۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، قال: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قال: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ"، أَوْقَفَهُ زُهَيْرٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے، پہلی میں «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو اللہ أحد» پڑھتے۔ زہیر نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے، (ان کی روایت اس کے بعد آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۳ (الوتر ۹) (۴۶۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۵ (۱۱۷۲)، (تحفة الأشراف: ۵۵۸۷)، مسند احمد ۱/۲۹۹، ۳۰۰، ۳۱۶، ۳۷۲، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۰ (۱۶۲۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قال: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ"كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ وہ وتر کی تینوں رکعتوں میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَنَّهُ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَاسْتَنَّ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَاسْتَنَّ ثُمَّ تَوَضَّأَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ حَتَّى صَلَّى سِتًّا، ثُمَّ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور مسواک کی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، پھر سو گئے، (دوبارہ) آپ پھر اٹھے، اور مسواک کی، پھر وضو کیا، اور دو رکعت نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ نے چھ رکعتیں پڑھیں، پھر تین رکعتیں وتر کی اور دو رکعتیں (فجر کی) پڑھیں۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم ۴۱ (۱۱۷)، الأذان ۵۷ (۶۹۷)، صحیح مسلم/المسافرین ۲۶ (۷۶۳)، سنن ابی داود/الطھارة ۳۰ (۵۸)، الصلاة ۳۱۶ (۱۳۵۳)، (تحفة الأشراف: ۶۲۸۷)، مسند احمد ۱/۳۵۰، ۳۷۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قال: "كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَاكَ وَهُوَ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ سورة آل عمران آية 190، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ عَادَ فَنَامَ حَتَّى سَمِعْتُ نَفْخَهُ، ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَاكَ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَاكَ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَأَوْتَرَ بِثَلَاثٍ"،
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، آپ نیند سے بیدار ہوئے، آپ نے وضو کیا، مسواک کی، آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے: «إن في خلق السموات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب» "آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں" (آل عمران: ۱۹۰) یہاں تک کہ آپ اس سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ واپس آئے، اور سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ اٹھے، اور وضو کیا، مسواک کی، پھر دو رکعت نماز پڑھی، اور تین رکعت وتر پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَبَلَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ مَخْلَدٍ ثِقَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ نے مسواک کی، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۴۴۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلَاثٍ وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ"، خَالَفَهُ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ فَرَوَاهُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو آٹھ رکعتیں پڑھتے، اور تین رکعت وتر پڑھتے، اور دو رکعت فجر کی نماز سے پہلے پڑھتے۔ عمرو بن مرہ نے حبیب کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے یحییٰ بن الجزار سے اور یحییٰ جزار نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے، اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، (یعنی اس کو مسند ابن عباس رضی اللہ عنہم کے بجائے مسند ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں سے قرار دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۵۴۷)، مسند احمد ۱/۲۹۹، ۳۰۱، ۳۲۶ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِتِسْعٍ"خَالَفَهُ عُمَارَةُ بْنُ عُمَيْرٍ فَرَوَاهُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تو آپ نو رکعت وتر پڑھنے لگے۔ عمارہ بن عمیر نے عمرو کی مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے یحییٰ بن جزار سے اور یحییٰ بن جزار نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے۔ (یعنی عمارہ بن عمیر نے اس کو مسند ام سلمہ کی بجائے مسند عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے قرار دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۹ (الوتر ۵) (۴۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۲۵)، مسند احمد ۶/۳۲۲، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۷۲۸ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعًا، فَلَمَّا أَسَنَّ وَثَقُلَ صَلَّى سَبْعًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے، جب آپ بوڑھے اور (گوشت چڑھ جانے کی وجہ سے) بھاری بھر کم ہو گئے تو (صرف) سات رکعتیں پڑھنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۸۱)، مسند احمد ۶/۳۲، ۲۲۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قال: حَدَّثَنِي ضُبَارَةُ بْنُ أَبِي السَّلِيلِ، قال: حَدَّثَنِي دُوَيْدُ بْنُ نَافِعٍ، قال: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قال: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ، وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ".
دوید بن نافع نے زہری سے، اور زہری نے عطاء بن یزید سے اور عطاء بن یزید نے ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وتر حق ہے، جو چاہے سات رکعت پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۳۸ (۱۴۲۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۳ (۱۱۹۰)، (تحفة الأشراف: ۳۴۸۰)، مسند احمد ۵/۴۱۸، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۰ (۱۶۲۳، ۱۶۲۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبِي، قال: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قال: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قال: حَدَّثَنَاعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ".
اوزاعی نے زہری سے اور زہری نے عطاء بن یزید سے اور عطاء نے ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وتر حق ہے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے اور جو چاہے ایک پڑھے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قال: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو مُعَيْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: "الْوِتْرُ حَقٌّ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسِ رَكَعَاتٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ".
ابومعید نے زہری سے اور زہری نے عطاء بن یزید سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: وتر حق ہے، جو پانچ رکعت پڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھے، اور جو ایک پڑھنا چاہے ایک پڑھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۱۱ (صحیح)
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قال: "مَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِخَمْسٍ، وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِثَلَاثٍ، وَمَنْ شَاءَ أَوْتَرَ بِوَاحِدَةٍ، وَمَنْ شَاءَ أَوْمَأَ إِيمَاءً".
سفیان زھری سے روایت کرتے ہیں، اور زہری عطاء بن یزید سے، اور عطاء ابوایوب سے، ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو چاہے وتر سات رکعت پڑھے، جو چاہے پانچ پڑھے، جو چاہے تین پڑھے، اور جو چاہے ایک پڑھے، اور جو اشارے سے پڑھنا چاہے اشارے سے پڑھے (یعنی بیمار آدمی)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۱۱ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِخَمْسٍ وَبِسَبْعٍ، لَا يَفْصِلُ بَيْنَهَا بِسَلَامٍ وَلَا بِكَلَامٍ".
منصور روایت کرتے ہیں حکم سے، اور وہ مقسم سے اور مقسم ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ یا سات رکعت وتر پڑھتے، اور ان کے درمیان آپ سلام کے ذریعہ فصل نہیں کرتے تھے اور نہ کلام کے ذریعہ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۲۳ (۱۱۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۱۴)، مسند احمد ۶/۲۹۰، ۳۱۰، ۳۲۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قال: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِسَبْعٍ أَوْ بِخَمْسٍ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ".
منصور حکم سے روایت کرتے ہیں، اور وہ مقسم سے اور مقسم ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اور ابن عباس رضی اللہ عنہم ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سات یا پانچ رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان کے درمیان سلام کے ذریعہ فصل نہیں کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۸۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، قال: "الْوِتْرُ سَبْعٌ فَلَا أَقَلَّ مِنْ خَمْسٍ"فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: عَمَّنْ ذَكَرَهُ ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِي قَالَ الْحَكَمُ: فَحَجَجْتُ فَلَقِيتُ مِقْسَمًا، فَقُلْتُ لَهُ: عَمَّنْ ؟ قَالَ: عَنِ الثِّقَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ مَيْمُونَةَ.
سفیان بن الحسین حکم سے روایت کرتے ہیں، اور وہ مقسم سے، مقسم کہتے ہیں کہ وتر سات رکعت ہے اور پانچ سے کم نہیں، میں نے یہ بات ابراہیم سے ذکر کی، تو انہوں نے کہا: انہوں نے اسے کس کے واسطہ سے ذکر کیا ہے؟ تو میں نے کہا: مجھے نہیں معلوم، حکم کہتے ہیں: پھر میں حج کو گیا تو میں نے مقسم سے ملاقات کی، اور ان سے پوچھا کہ یہ بات آپ نے کس سے سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک ثقہ شخص سے ۱؎، اور اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا اور میمونہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۱۸)، مسند احمد ۶/۳۳۵ (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: غالباً ثقہ شخص سے مراد ابن عباس رضی اللہ عنہم ہیں کیونکہ مقسم برابر انہیں سے چمٹے رہتے تھے، اور انہوں نے ولاء کی نسبت بھی انہیں کی طرف کی ہے، یا عن عائشہ وعن میمونہ "عن الثقۃ " سے بدل ہے ایسی صورت میں ترجمہ ہو گا ثقہ سے سنی ہے یعنی عائشہ اور میمونہ سے سنی ہے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِخَمْسٍ، وَلَا يَجْلِسُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر پڑھتے تھے، اور ان کے آخر ہی میں بیٹھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۲۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۷)، مسند احمد ۶/۱۲۳، ۱۶۱، ۲۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "لَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ صَلَّى سَبْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَقْعُدُ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا"مُخْتَصَرٌ خَالَفَهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہو گئے، اور بدن پر گوشت چڑھ گیا، تو آپ سات رکعت پڑھنے لگے، اور صرف ان کے آخر میں قعدہ کرتے تھے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت اور پڑھتے تو میرے بیٹے یہ نو رکعتیں ہوئیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی صلاۃ پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں، (یہ حدیث مختصر ہے)۔ ہشام دستوائی نے شعبہ کی مخالفت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۱۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوْتَرَ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ فَيَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ لَا يَقْعُدُ إِلَّا فِي السَّادِسَةِ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ فَيُصَلِّي السَّابِعَةَ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نو رکعت وتر پڑھتے تو صرف آٹھویں رکعت میں قعدہ کرتے، اللہ کی حمد کرتے، اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر کھڑے ہو جاتے، اور سلام نہیں پھیرتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ عزوجل کا ذکر کرتے، دعا کرتے، پھر ایک سلام پھیرتے جو ہمیں سناتے، پھر بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے، پھر جب آپ بوڑھے اور کمزور ہو گئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے، صرف چھٹی میں قعدہ کرتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے، اور ساتویں رکعت پڑھتے، پھر ایک سلام پھیرتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۱۳، ۱۶۱۱۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَسْتَاكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، وَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدْعُو بَيْنَهُنَّ وَلَا يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ وَيَقْعُدُ، وَذَكَرَ كَلِمَةً نَحْوَهَا، وَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیا کرتے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا تورات میں آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے (پھر) وضو کرتے اور نو رکعتیں پڑھتے، ان میں صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اور اللہ کی حمد کرتے، اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور ان کے درمیان دعائیں کرتے، اور کوئی سلام نہ پھیرتے، پھر نویں رکعات پڑھتے اور قعدہ کرتے، راوی نے اس طرح کی کوئی بات ذکر کی کہ آپ اللہ کی حمد کرتے، اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز (درود و رحمت) بھیجتے، اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۳۱۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ لَمَّا أَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا أَخْبَرَنَا، أَنَّهُ أَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ أَوْ أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ: مَنْ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَأَتَيْنَاهَا فَسَلَّمْنَا عَلَيْهَا وَدَخَلْنَا فَسَأَلْنَاهَا، فَقُلْتُ: أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَقْعُدُ فِيهِنَّ إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ فَيَجْلِسُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ فَتِلْكَ تِسْعًا أَيْ بُنَيَّ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا".
سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں اس ہستی کو نہ بتاؤں یا اس ہستی کی خبر نہ دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کو زمین والوں میں سب سے زیادہ جانتی ہے؟ میں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، تو ہم ان کے پاس آئے، اور ہم نے انہیں سلام کیا، اور ہم اندر گئے، اور اس بارے میں میں نے ان سے پوچھا، میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے لیے آپ کی مسواک اور آپ کے وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے، پھر رات کو جب اللہ تعالیٰ کو جگانا منظور ہوتا آپ کو جگا دیتا، آپ مسواک کرتے اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، سوائے آٹھویں کے ان میں سے کسی میں قعدہ نہیں کرتے، اللہ کی حمد کرتے اس کا ذکر کرتے، اور دعا مانگتے، پھر بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جاتے، پھر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے تو اللہ کی حمد اور اس کا ذکر کرتے اور دعا کرتے، پھر سلام پھیرتے جسے آپ ہمیں سناتے، پھر بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، میرے بیٹے! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوتی تھیں، لیکن جب آپ بوڑھے ہو گئے اور آپ کے جسم پر گوشت چڑھ گیا تو آپ وتر سات رکعت پڑھنے لگے، پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے، اس طرح میرے بیٹے! یہ کل نو رکعتیں ہوتی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز پڑھتے تو چاہتے کہ اس پر مداومت کریں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۳۱۶، ۱۶۰۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، قال: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُ سَمِعَهَا تَقُولُ: "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِتِسْعِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَلَمَّا ضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعِ رَكَعَاتٍ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، تو جب آپ کمزور ہو گئے تو سات رکعت وتر پڑھنے لگے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۵۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِتِسْعٍ وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت وتر پڑھتے تھے، اور دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۹۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخَلَنْجِيُّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ يَعْنِي مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قال: حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نَافِعٍ، قال: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّهُ وَفَدَ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، فَسَأَلَهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: "كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَيُوتِرُ بِالتَّاسِعَةِ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ"مُخْتَصَرٌ.
سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور انہوں نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بتایا: آپ رات کو آٹھ رکعتیں پڑھتے، اور نویں رکعت کے ذریعہ اسے وتر کر لیتے، پھر آپ بیٹھ کر دو رکعت پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۵۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ أُرَاهُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۱ (۴۴۳، ۴۴۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۸۱ (۱۳۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۵۱)، مسند احمد ۶/۱۰۰، ۲۵۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ، ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے، اور آپ ایک کے ذریعہ اسے وتر کر لیتے، پھر آپ اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۹۷ (صحیح) (وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹتے تھے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِتِسْعٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت وتر پڑھتے تھے، پھر جب آپ بوڑھے اور ضعیف ہو گئے تو نو رکعت پڑھنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۰۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى كَانَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَةً أَوْتَرَ بِهَا، فَقَرَأَ فِيهَا بِمِائَةِ آيَةٍ مِنَ النِّسَاءِ، ثُمّ قَالَ: مَا أَلَوْتُ أَنْ أَضَعَ قَدَمَيَّ حَيْثُ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَمَيْهِ وَأَنَا أَقْرَأُ بِمَا قَرَأَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابومجلز سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری مکہ اور مدینے کے درمیان تھے، کہ انہوں نے عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک رکعت وتر پڑھی، اس میں انہوں نے سورۃ نساء کی سو آیتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے اپنے دونوں قدموں کو اس جگہ رکھنے میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھے تھے، اور ان آیتوں کے پڑھنے میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۳)، مسند احمد ۴/۴۱۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِشْكَابَ النَّسَائِيُّ، قال: أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِالْأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا سَلَّمَ، قَالَ: سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے، پھر جب آپ سلام پھیرتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم ۱۷۰۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِالْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ، وَطَلْحَةَ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ"، خَالَفَهُمَا حُصَيْنٌ فَرَوَاهُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ ان دونوں کی یعنی زبید اور طلحہ کی حصین نے مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ذر سے، ذر نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے انہوں نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۰۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ نُمَيْرٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور«قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۹۶۸۳)، مسند احمد ۳/۴۰۶، ۴۰۷، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۷۳۳- ۱۷۳۷، ۱۷۴۰- ۱۷۴۳، ۱۷۵۱- ۱۷۵۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ، وَزُبَيْدٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَكَانَ يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالثَّالِثَةِ".
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور«قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے تھے، تو «سبحان الملك القدوس» تین بار کہتے، اور تیسری بار اپنی آواز بلند کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: أَخْبَرَنِي سَلَمَةُ، وَزُبَيْدٌ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، ثُمَّ يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ، وَيَرْفَعُ بِسُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ صَوْتَهُ بِالثَّالِثَةِ"، رَوَاهُ مَنْصُورٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَرًّا.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور«قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے، تو «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور تیسری بار «سبحان الملك القدوس» کہتے وقت اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ منصور نے اسے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَكَانَ إِذَا سَلَّمَ وَفَرَغَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا طَوَّلَ فِي الثَّالِثَةِ"، وَرَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَرًّا.
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیر کر فارغ ہو جاتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور تیسری بار کھینچ کر کہتے تھے۔ نیز اسے عبدالملک بن ابی سلیمان نے زبید سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے بھی ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْسَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَرًّا.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔ نیز محمد بن جحادہ نے اسے زبید سے روایت کیا ہے، اور انہوں نے بھی ذر کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے، اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ،
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد»پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى، مُرْسَلٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ.
اس سند سے (سعید بن عبدالرحمٰن) بن ابزیٰ نے یہ حدیث مرسلاً (یعنی سند میں انقطاع کے ساتھ) روایت کی ہے، لیکن اسے عطا بن سائب نے سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے متصلاً روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: وانظر أیضا حدیث رقم: ۱۷۳۲ (مرسل صحیح بماقبلہ وبمابعدہ)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَزْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا فَرَغَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا".
سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے پھر جب فارغ ہو جاتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا فَرَغَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا"وَيَمُدُّ فِي الثَّالِثَةِ".
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب فارغ ہو جاتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور تیسری مرتبہ کھینچ کر کہتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى"، خَالَفَهُمَا شَبَابَةُ فَرَوَاهُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھتے تھے۔ شبابہ نے ان دونوں کی یعنی محمد کی اور ابوداؤد کی مخالفت کی ہے ۱؎ انہوں نے اسے شعبہ سے، شعبہ نے قتادہ سے، قتادہ نے زرارہ بن اوفی سے، اور زرارہ نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شبابہ نے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ کی جگہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کا ذکر کیا ہے، ان کی روایت آگے آ رہی ہے۔
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَوْتَرَ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ شَبَابَةَ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ، خَالَفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے اس حدیث میں شبابہ کی متابعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے ان کی مخالفت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۲۶) (صحیح بما قبلہ) (عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح ہے، واقعہ وہ ہے جس کا تذکرہ اگلی روایت میں آ رہا ہے، ایسے وتر میں مذکورہ سورت کا پڑھنا دیگر روایات سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: یہ مخالفت متن حدیث میں ہے جیسا کہ اگلی روایت سے ظاہر ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَقَرَأَ رَجُلٌ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ: مَنْ قَرَأَ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ؟ قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: "قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَهُمْ خَالَجَنِيهَا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، تو ایک شخص نے سورۃ «سبح اسم ربك الأعلى» پڑھی، تو جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ نے پوچھا: " «سبح اسم ربك الأعلى» کس نے پڑھی ہے؟" تو ایک شخص نے عرض کیا: میں نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ایسا لگا کہ تم میں سے کسی نے مجھے خلجان میں ڈال دیا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۹۱۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ دونوں الگ الگ حدیثیں ہیں گو دونوں کی سند ایک ہے، اس طرح کی مخالفت ضرر رساں نہیں واللہ اعلم۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ، قَالَ: قَالَ الْحَسَنُ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَاتٍ أَقُولُهُنَّ فِي الْوِتْرِ فِي الْقُنُوتِ: "اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ".
حسن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر کی کی قنوت میں کہتا ہوں، وہ یہ ہیں: «اللہم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» "اے اللہ! مجھے ہدایت دے، ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے ہدایت دی ہے، عافیت دے ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے عافیت دی ہے، میری نگہبانی فرمان لوگوں میں شامل کر کے جن کی تو نے نگہبانی فرمائی، اور جو تو نے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت عطا فرما، اور جس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کی برائی سے مجھے بچا، اس لیے کہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، اور تو جس سے دوستی کرے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اے ہمارے رب! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۰ (۱۴۲۵، ۱۴۲۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۲۴ (الوتر ۱۰) (۴۶۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۷ (۱۱۷۸)، (تحفة الأشراف: ۳۴۰۴)، مسند احمد ۱/۱۹۹، ۲۰۰، سنن الدارمی/الصلاة ۲۱۴ (۱۶۳۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي الْوِتْرِ، قَالَ: قُلْ"اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ، وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ".
حسن بن علی رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے یہ کلمات سکھائے، آپ نے فرمایا: کہو: «اللہم اهدني فيمن هديت وبارك لي فيما أعطيت وتولني فيمن توليت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت وصلى اللہ على النبي محمد»۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح) (لیکن ’’وصلی اللہ …کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے، اس کے راوی ’’عبداللہ بن علی زین العابدین‘‘ لین الحدیث ہیں، اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَهِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وتر کے آخر میں یہ کلمات کہتے تھے: «اللہم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك» "اے اللہ! میں تیری خوشی کی تیرے غصے سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے بچاؤ کی تیری پکڑ سے پناہ مانگتا ہوں، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تجھ سے، میں تیری تعریف نہیں کر سکتا تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف کی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۴۰ (۱۴۲۷)، سنن الترمذی/الدعوات ۱۱۳ (۳۵۶۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱۷ (۱۱۷۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۰۷)، مسند احمد ۱/۹۶، ۱۱۸، ۱۵۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ"، قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لِثَابِتٍ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ أَنَسٍ ؟، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، قُلْتُ: سَمِعْتَهُ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ استسقاء کے علاوہ کسی دعا میں نہیں اٹھاتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے ثابت سے پوچھا: آپ نے اسے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: سبحان اللہ، میں نے کہا: آپ نے اسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الاستسقاء ۱ (۸۹۵)، (تحفة الأشراف: ۴۴۴)، مسند احمد ۳/۱۸۴، ۲۰۹، ۲۱۶، ۲۵۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ کہنا ان کا بطور تعجب تھا، مطلب یہ ہے کہ سنا کیوں نہیں ہے اگر نہیں سنا ہوتا تو بیان کیسے کرتا، اور یہ مؤلف کا قیاسی استنباط ہے، یہاں نہ اٹھانے سے مراد یہ ہے کہ اٹھانے میں مبالغہ نہیں کرتے تھے، نہ یہ کہ سرے سے اٹھاتے ہی نہیں تھے کیونکہ قنوت میں اور دوسرے موقعوں پر بھی آپ کا ہاتھ اٹھانا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى الْفَجْرِ بِاللَّيْلِ سِوَى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، وَيَسْجُدُ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں عشاء کی نماز سے فارغ ہونے سے لے کر فجر ہونے تک فجر کی دو رکعتوں کے علاوہ گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے، اور اتنا لمبا سجدہ کرتے کہ تم میں سے کوئی پچاس آیتوں کے بقدر پڑھ لے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۶۸) (صحیح)
وضاحت: مؤلف نے اس سجدہ سے تہجد :(مع وتر ) کے سجدوں کے علاوہ سلام کے بعد ایک مستقل سجدہ سمجھا ہے، حالانکہ اس سے مراد تہجد کے سجدے ہیں، آپ یہ سجدے پچاس آیتیں پڑھنے کے بقدر لمبا کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَاسِمٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَيَقُولُ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور سلام پھیرنے کے بعد «سبحان الملك القدوس» تین بار کہتے، اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، وَيَقُولُ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ، خَالَفَهُمَا أَبُو نُعَيْمٍ فَرَوَاهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدٍ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور سلام پھیرنے کے بعد «سبحان الملك القدوس» تین بار کہتے، اور اس کے ذریعہ اپنی آواز بلند کرتے۔ ابونعیم نے ان دونوں کی یعنی قاسم اور محمد بن عبید کی مخالفت کی ہے، چنانچہ انہوں نے اسے سفیان سے، اور سفیان نے زبید سے، زبید نے ذر سے، اور ذر نے سعید بن عبدالرحمٰن ابزیٰ سے روایت کیا ہے، (یعنی سند میں ایک راوی "ذر" کا اضافہ کیا ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثًا"يَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو نُعَيْمٍ أَثْبَتُ عِنْدَنَا مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ وَمِنْ قَاسِمِ بْنِ يَزِيدَ، وَأَثْبَتُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، ثُمَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثُمَّ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، ثُمَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، ثُمَّ أَبُو نُعَيْمٍ، ثُمَّ الْأَسْوَدُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، فَقَالَ: يَمُدُّ صَوْتَهُ فِي الثَّالِثَةِ وَيَرْفَعُ.
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب واپس ہونے کا ارادہ کرتے تو «سبحان الملك القدوس» تین مرتبہ کہتے، اور اس کے ذریعہ اپنی آواز بلند کرتے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: ابونعیم ہمارے نزدیک محمد بن عبید اور قاسم بن یزید سے زیادہ ثقہ ہیں، اور ہمارے نزدیک سفیان ثوری کے تلامذہ میں سب سے زیادہ معتبر یحییٰ بن سعید قطان ہیں، پھر عبداللہ بن مبارک، پھر وکیع بن جراح، پھر عبدالرحمٰن بن مہدی، پھر ابونعیم، پھر اسود ہیں، واللہ اعلم، نیز اسے جریر بن حازم نے زبید سے روایت کیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ تیسری بار میں اپنی آواز کھینچتے اور بلند کرتے تھے، (جریر کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا حَرَمِيُّ بْنُ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْسَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَإِذَا سَلَّمَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ"يَمُدُّ صَوْتَهُ فِي الثَّالِثَةِ ثُمَّ يَرْفَعُ".
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب سلام پھیرتے تو تین بار «سبحان الملك القدوس» کہتے، اور تیسری بار میں آواز کھینچتے اور بلند کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْسَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى و يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ و هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَإِذَا فَرَغَ، قَالَ: "سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ"، أَرْسَلَهُ هِشَامٌ،
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد» پڑھتے تھے، اور جب فارغ ہوتے تو «سبحان الملك القدوس» کہتے۔ ہشام نے اسے مرسلاً روایت کیا، ان کی روایت آگے آ رہی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی انہوں نے «عن أبیہ» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
سعید بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے تھے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۳۹ (صحیح) (سند میں ارسال ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر گزرا)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ الصُّورِيَّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَتْ: "كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، تِسْعَ رَكَعَاتٍ قَائِمًا يُوتِرُ فِيهَا وَرَكْعَتَيْنِ جَالِسًا، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ وَسَجَدَ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ بَعْدَ الْوِتْرِ، فَإِذَا سَمِعَ نِدَاءَ الصُّبْحِ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
یحییٰ بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ رکعت پڑھتے تھے، نو رکعت کھڑے ہو کر، اس میں وتر بھی ہوتی اور دو رکعت بیٹھ کر، تو جب آپ رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے، اور رکوع اور سجدہ کرتے، اور ایسا آپ وتر کے بعد کرتے تھے، پھر جب آپ فجر کی اذان سنتے تو کھڑے ہوتے، اور دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۲ (۶۱۹)، صحیح مسلم/المسافرین ۱۷ (۷۳۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۶ (۱۳۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۸۱)، مسند احمد ۶/۵۲، ۵۳، ۸۱، ۱۲۸، ۱۳۸، ۱۷۸، ۱۸۲، ۱۸۹، ۲۱۳، ۲۲۲، ۲۳۰، ۲۳۹، ۲۴۹، ۲۷۹، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۵ (۱۵۱۵)، ویأتی عند المؤلف بأرقام۱۷۸۱، ۱۷۸۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْمَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ"، خَالَفَهُ عَامَّةُ أَصْحَابِ شُعْبَةَ مِمَّنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمْ يَذْكُرُوا مَسْرُوقًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔ شعبہ کے جن تلامذہ نے اس حدیث کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر نے عثمان بن عمر کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے مسروق کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۳۳) (صحیح)
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الصَّوَابُ عِنْدَنَا، وَحَدِيثُ عُثْمَانَ بْنِ عُمَرَ خَطَأٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
ابراہیم بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو بیان کرتے سنا کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں، اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔ ابو عبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہمارے نزدیک صحیح یہی ہے، اور عثمان بن عمر کی(پچھلی) روایت غلط ہے، واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۳۴ (۱۱۸۲)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۹۰ (۱۲۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۹۹)، مسند احمد ۶/۶۳، ۱۴۸، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۴ (۱۴۷۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْعَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فجر کی دونوں رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۴ (۷۲۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۹۱ (۴۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۰۶)، مسند احمد ۶/۵۰، ۱۴۹، ۲۶۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد فجر کی دونوں سنتیں ہیں کیونکہ عام طور پر اس لفظ سے یہی مراد لیا جاتا ہے، اور یہ ممکن ہے کہ یہاں مراد فرض ہو کیونکہ لفظ اس کا بھی محتمل ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ"إِذَا نُودِيَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ إِلَى الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب صبح کی نماز کی اذان دی جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے کہ نماز کھڑی ہو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَضَاءَ لَهُ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر روشن ہو جاتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ بِالْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ بَعْدَ أَنْ يَتَبَيَّنَ الْفَجْرُ، ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مؤذن فجر کی پہلی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، اور فجر نمودار ہونے کے بعد فجر کی نماز سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے، پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۵ (۶۲۶)، والتھجد ۲۳ (۱۱۶۰)، ۲۴ (۱۱۶۱)، والدعوات ۵ (۶۳۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۴۶۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کیا گیا ہے، اور ابوداؤد اور ترمذی کی ایک روایت میں جو صحیح سندوں سے مروی ہے اس کا حکم بھی آیا ہے جس سے مخالفین کی تاویل باطل ہو جاتی ہے، اور اس کے سنت ہونے میں کوئی کلام نہیں رہ جاتا ہے۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ، كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فلاں کی طرح مت ہو جانا، وہ رات میں قیام کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا)، پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۱۹ (۱۱۵۲)، صحیح مسلم/الصیام ۳۵ (۱۱۵۹)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۴ (۱۳۳۱)، (تحفة الأشراف: ۸۹۶۱)، مسند احمد ۲/۱۷۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْعُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَكُنْ يَا عَبْدَ اللَّهِ مِثْلَ فُلَانٍ، كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے عبداللہ! فلاں کی طرح مت ہو جانا، پہلے وہ قیام اللیل کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا)، پھر اس نے چھوڑ دیا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ صَفِيَّةَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ"كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ہلکی پڑھنے کا مطلب ہے کہ آپ فجر کی ان دونوں سنتوں میں قیام و قرأت اور رکوع و سجود وغیرہ میں اختصار سے کام لیتے تھے کیونکہ اس کے بعد آپ کو فجر کی نماز پڑھانی ہوتی تھی جس میں قرات لمبی کی جاتی ہے۔
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: كِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدَنَا خَطَأٌ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک غلط ہیں ۱؎ واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: پہلی روایت «نافع عن صفیۃ عن حفصہ» کے طریق سے مروی ہے، صحیح «عن نافع عن ابن عمر عن حفصہ» ہے، اور دوسری روایت کی سند میں «انبأنا شعیب قال حدثنا الاوزاعی» ہے، صحیح «انبأنا یحییٰ قال حدثنا الاوزاعی» ہے، یہ بات اس صورت میں ہے جب ترجمۃ الباب میں «علی» کو «فی» کے معنی میں لیا جائے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالصَّلَاةِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور نماز کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: هُوَ وَنَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِينَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ حَفْصَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: حَدَّثَنَا، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْفُرَاتِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا نُودِيَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب فجر کی اذان کہہ دی جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے دو سجدے کرتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن خاموش ہو جاتا تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ حَفْصَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنَ الْأَذَانِ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ وَبَدَا الصُّبْحُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مؤذن صبح کی نماز کی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا، اور صبح نمودار ہو جاتی، تو نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُخْتِي حَفْصَةُ، أَنَّهُ"كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ فجر سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر طلوع ہو جاتی تو دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر طلوع ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے دو ہلکی رکعتوں کے کچھ اور نہیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ"كَانَ إِذَا نُودِيَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ إِلَى الصَّلَاةِ"، وَرَوَى سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ.
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی اذان دے دی جاتی تو نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ اور سالم نے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہم سے، اور انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا يَطْلُعُ الْفَجْرُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور یہ فجر طلوع ہو جانے کے بعد پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِيحَفْصَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا أَضَاءَ لَهُ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر روشن ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۵۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۵۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ سَأَلَعَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، قَالَتْ: "كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَرَكَعَ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ".
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا: آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے، پہلے آٹھ رکعتیں پڑھتے، پھر (ایک رکعت) وتر پڑھتے، پھر دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے، اور جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو جاتے، اور رکوع کرتے، اور دو رکعتیں صبح کی نماز کی اذان اور اقامت کے درمیان پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۵۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ابوسلمہ سے مراد ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ہیں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ وَيُخَفِّفُهُمَا"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سنتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۵۴۸۴) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: نکارت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اس مشہور روایت کے مخالف ہے جس میں ہے کہ آپ جب مؤذن اذان سے فارغ ہو جاتا اور صبح نمودار ہو جاتی تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے منکر کے بجائے شاذ کہا جائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متن ابن عباس رضی اللہ عنہم سے محفوظ نہیں ہے کیونکہ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں «عروۃ عن عائشہ» کے طریق سے روایت کی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سن لیتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے، اور احتمال اس کا بھی ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے جو محفوظ روایت ہے وہ اس متن کے علاوہ ہے، واللہ اعلم۔
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ شُرَيْحًا الْحَضْرَمِيَّ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ذَاكَ رَجُلٌ لَا يَتَوَسَّدُ الْقُرْآنَ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شریح حضرمی کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "وہ قرآن کو تکیہ نہیں بناتے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۳۸۰۲)، مسند احمد ۳/۴۴۹ (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎: قرآن کو تکیہ بنانے کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ رات کو سوتے نہیں بلکہ رات بھر عبادت کرتے ہیں، دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ قرآن کو یاد نہیں رکھتے، اور اس کی قرات پر مداومت نہیں کرتے، پہلے معنی میں شریح کی تعریف ہے، اور دوسرے میں ان کی مذمت ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ عِنْدَهُ رِضًا أَخْبَرَهُ، أَنَّعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَا مِنَ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلَاةٌ بِلَيْلٍ فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَجْرَ صَلَاتِهِ، وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ".
سعید بن جبیر ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک پسندیدہ ہے اس نے انہیں خبر دی کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی آدمی رات کو تہجد پڑھا کرتا ہو، پھر کسی دن نیند کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھ دیتا ہے، اور اس کی نیند اس پر صدقہ ہوتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۰ (۱۳۱۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۰۷)، موطا امام مالک/ صلاة اللیل ۱ (۱)، مسند احمد ۶/۶۳، ۷۲، ۱۸۰ (صحیح) (مبہم راوی کا نام آگے آ رہا ہے)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ صَلَاةٌ صَلَّاهَا مِنَ اللَّيْلِ فَنَامَ عَنْهَا كَانَ ذَلِكَ صَدَقَةً تَصَدَّقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ وَكَتَبَ لَهُ أَجْرَ صَلَاتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی رات میں کسی نماز کا عادی ہو، اور کسی رات وہ نیند کی وجہ سے اسے نہ پڑھ سکے، تو یہ اس پر اللہ کی طرف سے کیا ہوا صدقہ ہو گا، اور وہ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس روایت کی سند میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ گذشتہ سند میں سعید بن جبیر کے نزدیک پسندیدہ شخص کا نام اسود بن یزید ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابو جعفر رازی حدیث میں قوی نہیں ہیں، (اسی لیے سند میں سے ایک راوی "اسود" کو ساقط کر دیا ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۸۵ (صحیح) (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْعَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ حَتَّى أَصْبَحَ كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، خَالَفَهُ سُفْيَانُ.
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بستر پر آئے، اور وہ رات میں قیام کی نیت رکھتا ہو، پھر اس کی دونوں آنکھیں اس پر غالب آ جائیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے تو اس کے لیے اس کی نیت کا ثواب لکھا جائے گا، اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی جانب سے اس پر صدقہ ہو گی"۔ سفیان ثوری نے حبیب بن ابی ثابت کی مخالفت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۷ (۱۳۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۳۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ، عَنْأَبِي ذَرٍّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ مَوْقُوفًا.
اور سفیان ثوری (کی حبیب بن ابی ثابت سے مخالفت یہ ہے کہ انہوں) نے اس سند سے یہ حدیث ابوذر اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہم سے موقوفاً روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ مِنَ اللَّيْلِ مَنَعَهُ مِنْ ذَلِكَ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز نہیں پڑھ پاتے خواہ نیند نے آپ کو اس سے روکا ہو یا کسی تکلیف نے تو دن کو آپ بارہ رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۸ (۷۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۱۰ (۴۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۰۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ الْقَارِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ فَقَرَأَهُ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی رات کو اپنے وظیفہ سے، یا اس کی کسی چیز سے سو جائے، پھر وہ اسے فجر سے لے کر ظہر تک کے درمیان پڑھ لے، تو اس کے لیے یہی لکھا جائے گا کہ گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۸ (۷۴۷)، سنن ابی داود/الصلاة ۳۰۹ (۱۳۱۳)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۹۱ (الجمعة ۵۶) (۵۸۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۷۷ (۱۳۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۹۲)، موطا امام مالک/القرآن ۳ (۳)، مسند احمد ۱/۳۲، ۵۳، سنن الدارمی/الصلاة ۱۶۷ (۱۵۱۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ أَوْ قَالَ: جُزْئِهِ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الصُّبْحِ إِلَى صَلَاةِ الظُّهْرِ فَكَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو کوئی رات کو اپنا وظیفہ پڑھے بغیر سو جائے، پھر وہ صبح سے ظہر تک کے درمیان کسی بھی وقت اسے پڑھ لے، تو گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: "مَنْ فَاتَهُ حِزْبُهُ مِنَ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ إِلَى صَلَاةِ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ لَمْ يَفُتْهُ أَوْ كَأَنَّهُ أَدْرَكَهُ"، رَوَاهُ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مَوْقُوفًا.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس کا رات کا وظیفہ چھوٹ جائے، اور وہ سورج ڈھلنے سے لے کر نماز ظہر تک کسی بھی وقت اسے پڑھ لے، تو اس کا وظیفہ نہیں چھوٹا، یا گویا اس نے اپنا وظیفہ پا لیا۔ اسے حمید بن عبدالرحمٰن نے موقوفاً (یعنی: مقطوعا) روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۹۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: "مَنْ فَاتَهُ وِرْدُهُ مِنَ اللَّيْلِ فَلْيَقْرَأْهُ فِي صَلَاةٍ قَبْلَ الظُّهْرِ فَإِنَّهَا تَعْدِلُ صَلَاةَ اللَّيْلِ".
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں جس کا رات کا وظیفہ چھوٹ جائے، تو اسے چاہیئے کہ وہ ظہر سے پہلے کسی نماز میں اسے پڑھ لے، کیونکہ یہ رات کی نماز کے برابر ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۷۹۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورِ بْنِ جَعْفَرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ ثَابَرَ عَلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو دن رات میں بارہ رکعتوں پر مداومت کرے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۹۰ (۴۱۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: فرض نماز سے پہلے یا اس کے بعد جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں، ایک قسم وہ ہے جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت فرمائی ہے بعض روایتوں میں ان کی تعداد دس بیان کی گئی ہے، اور بعض میں بارہ، اور بعض میں چودہ، انہیں سنن مؤکدہ یا سنن رواتب کہا جاتا ہے، دوسری قسم وہ ہے جس پر آپ نے مداومت نہیں کی ہے انہیں نوافل یا غیر موکدہ کہا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے مزید تقرب کے لیے نوافل یا غیر مؤکدہ سنتوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ ثَابَرَ عَلَى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص پابندی سے بارہ رکعتوں پر مداومت کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد، اور دو رکعتیں فجر سے پہلے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ، أَنَّأُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ رَكَعَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمِهِ وَلَيْلَتِهِ سِوَى الْمَكْتُوبَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بِهَا بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے فرض کے علاوہ دن رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۷۳)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۵ (۷۲۹)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۹۰ (۱۲۵۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۹۰ (۴۱۵)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۱)، مسند احمد ۶/۳۲۶، ۳۲۷، ۴۲۶، سنن الدارمی/ ال صلاة ۱۴۴ (۱۴۷۸) (صحیح)
أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تَرْكَعُ قَبْلَ الْجُمُعَةِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَا بَلَغَكَ فِي ذَلِكَ، قَالَ: أُخْبِرْتُ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ حَدَّثَتْ عَنْبَسَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ رَكَعَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ سِوَى الْمَكْتُوبَةِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جمعہ سے پہلے بارہ رکعتیں پڑھتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کو کیا معلوم ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عنبسہ بن ابی سفیان سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس نے رات دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۹)، مسند احمد ۶/۳۲۶ (صحیح) (اس سند میں انقطاع ہے، لیکن پچھلی سند سے یہ روایت بھی صحیح ہے، مگر عطاء کی یہ سمجھ خطا ہے کہ ایک ہی وقت میں بارہ رکعتیں پڑھ لیں تو وہی ثواب ہے)
أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حِبَّانَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْعَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عَطَاءٌ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ عَنْبَسَةَ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ عزوجل اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عطا نے اسے عنبسہ سے نہیں سنا ہے (اس کی دلیل آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الطَّائِفَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَزَعًا، فَقُلْتُ: إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ، فَقَالَ: أَخْبَرَتْنِي أُخْتِي أُمُّ حَبِيبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالنَّهَارِ أَوْ بِاللَّيْلِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"، خَالَفَهُمْ أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ.
یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں طائف آیا، تو عنبسہ بن ابی سفیان کے پاس گیا، اور وہ مرنے کے قریب تھے، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں، میں نے کہا: آپ تو اچھے آدمی ہیں، اس پر انہوں نے کہا مجھے میری بہن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دن یا رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا"۔ ابویونس قشیری نے ان لوگوں کی جنہوں نے اسے عطا سے روایت کی ہے مخالفت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۵) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حِبَّانُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ، قَالَا: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ الْقُشَيْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَتْ: "مَنْ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ فَصَلَّى قَبْلَ الظُّهْرِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہم کہتی ہیں کہ جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں ظہر سے پہلے پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۲) (صحیح) (اس کے راوی ’’شہر‘‘ ضعیف ہیں، لیکن پچھلی روایت سے تقویت پاکر یہ بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اثْنَتَا عَشْرَةَ رَكْعَةً مَنْ صَلَّاهُنَّ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بارہ رکعتیں ہیں، جو انہیں پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں ظہر کے بعد، دو رکعتیں عصر سے پہلے، دو رکعتیں مغرب کے بعد، اور دو رکعتیں نماز فجر سے پہلے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۱۵ (۷۲۸) مختصراً، سنن ابی داود/الصلاة ۲۹۰ (۱۲۵۰) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۰)، مسند احمد ۶/۳۲۷، ۴۲۶، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۴ (۱۴۷۸) (ضعیف الإسناد) (ابو اسحاق کے مدلس اور مختلط ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے)
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں :(اور اس کے بعد دونوں روایتوں میں جو دراصل ایک ہی روایت ہے ) عشاء کے بعد دو رکعت کے بجائے عصر سے پہلے دو رکعت کا ذکر ہے، جو سنداً ضعیف ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَزْهَرِ أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَاثْنَتَيْنِ بَعْدَهَا وَاثْنَتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، وَاثْنَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَاثْنَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے بارہ رکعتیں پڑھیں، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو اس کے بعد، دو عصر سے پہلے، دو مغرب کے بعد اور دو صبح سے پہلے"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: فلیح بن سلیمان زیادہ قوی نہیں ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱۸۹ (۴۱۵)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۱) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۲)، مسند احمد ۶/۳۲۶ (ضعیف الإسناد) (ابو اسحاق مدلس مختلط اور فُلَیْح کثیر الخطا راوی ہیں)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْعَنْبَسَةَ أَخِي أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: "مَنْ صَلَّى فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْمَكْتُوبَةِ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ، أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَثِنْتَيْنِ قَبْلَ الْعَصْرِ، وَثِنْتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَثِنْتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس نے دن اور رات میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار ظہر سے پہلے، اور دو رکعتیں اس کے بعد، دو عصر سے پہلے، دو مغرب کے بعد، اور دو فجر سے پہلے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۸۰۳ (ضعیف)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۸۰۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: "مَنْ صَلَّى فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْمَكْتُوبَةِ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے رات اور دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۸۰۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ، وَحِبَّانُ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: "مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْمَكْتُوبَةِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"، لَمْ يَرْفَعْهُ حُصَيْنٌ وَأَدْخَلَ بَيْنَ عَنْبَسَةَ وَبَيْنَ الْمُسَيَّبِ ذَكْوَانَ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے دن اور رات میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ حصین نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، اور عنبسہ اور مسیب کے درمیان انہوں نے ذکوان کو داخل کر دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ذَكْوَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنْبَسَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهُ"مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ".
ابوصالح ذکوان کہتے ہیں کہ عنبسہ بن ابی سفیان نے مجھ سے بیان کیا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا ہے: جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْفَرِيضَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ أَوْ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایک دن میں فرض کے علاوہ بارہ رکعتیں پڑھیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا، یا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۴۹)، مسند احمد ۶/۳۲۶، ۴۲۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنِي حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: "مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں پڑھیں، اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۸۰۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْفَرِيضَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ ضَعِيفٌ هُوَ ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أَوْجُهٍ سِوَى هَذَا الْوَجْهِ بِغَيْرِ اللَّفْظِ الَّذِي تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ایک دن میں بارہ رکعتیں فرض کے علاوہ پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے، محمد بن سلیمان ضعیف ہیں، وہ اصبہانی کے بیٹے ہیں، نیز یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی ان الفاظ کے علاوہ کے ساتھ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے روایت کی گئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۰ (۱۱۴۲) مطولاً، حم۲/۴۹۸، (تحفة الأشراف: ۱۲۷۴۷) (صحیح بما قبلہ) (اس کے راوی ’’ محمد بن سلیمان‘‘ حافظہ کے کمزور ہیں، ان سے غلطیاں ہو جایا کرتی تھیں، مگر شواہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الْعَطَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، قَالَ: لَمَّا نُزِلَ بِعَنْبَسَةَ جَعَلَ يَتَضَوَّرُ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ رَكَعَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَحْمَهُ عَلَى النَّارِ"، فَمَا تَرَكْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ.
حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ جب عنبسہ کی موت کا وقت آیا تو وہ تکلیف سے پیچ و تاب کھانے لگے تو ان سے کچھ پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: سنو! میں نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سنا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے بیان کر رہی تھیں کہ آپ نے فرمایا ہے: "جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اس کا گوشت جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا، تو جب سے میں نے انہیں سنا ہے میں نے انہیں چھوڑا نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۶)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۹۶ (۱۲۶۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۱ (۴۲۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۸ (۱۱۶۰)، مسند احمد ۶/۳۲۵، ۴۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِيأَيُّوبُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنِ الْقَاسِمِ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أُخْتِي أُمُّ حَبِيبَةَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ حَبِيبَهَا أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهَا، قَالَ: "مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الظُّهْرِ فَتَمَسُّ وَجْهَهُ النَّارُ أَبَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
عنبسہ بن ابی سفیان کہتے ہیں کہ میری بہن ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ ان کے محبوب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا: جو بھی مومن بندہ ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھے گا، تو جہنم کی آگ اس کے چہرے کو کبھی نہیں چھوئے گی، اگر اللہ عزوجل نے چاہا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۰ (۴۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۱) (صحیح) (اس کے رواة ’’ہلال‘‘ اور ’’ایوب شامی‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَاصِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْمَكْحُولٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: "مَنْ صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى النَّارِ".
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں، تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۹۶ (۱۲۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۳)، مسند احمد ۶/۳۲۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْمَكْحُولٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَال مَرْوَانُ: وَكَانَ سَعِيدٌ إِذَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَرَّ بِذَلِكَ وَلَمْ يُنْكِرْهُ، وَإِذَا حَدَّثَنَا بِهِ هُوَ لَمْ يَرْفَعْهُ، قَالَتْ: "مَنْ رَكَعَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَكْحُولٌ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَنْبَسَةَ شَيْئًا.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، مروان بن محمد کہتے ہیں: اور سعید بن عبدالعزیز پر جب پڑھا گیا کہ ام حبیبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں تو انہوں نے اس کا اقرار کیا، اور انکار نہیں کیا حالانکہ جب انہوں نے اسے ہم سے بیان کیا تو انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا، وہ کہتی ہیں: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں، اور اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: مکحول نے عنبسہ سے کچھ نہیں سنا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ مُوسَى يُحَدِّثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ أَخَذَهُ أَمْرٌ شَدِيدٌ، فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أُخْتِي أُمُّ حَبِيبَةَبِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى النَّارِ".
محمد بن ابی سفیان کہتے ہیں کہ جب ان کی موت کا وقت قریب ہوا تو ان کی حالت شدید ہو گئی تو انہوں نے کہا: مجھ سے میری بہن ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتوں، اور اس کے بعد کی چار رکعتوں کی محافظت کی، تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ مَرْوَانَ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار پڑھیں، اسے آگ نہیں چھوئے گی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۱؎، صحیح مروان کی حدیث ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۰۱ (۴۲۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۸ (۱۱۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۵۸)، مسند احمد ۶/۴۲۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اشارہ اس سے پہلے والی حدیث کی طرف ہے اس لیے بہتر یہ تھا کہ امام نسائی کا یہ قول حدیث رقم:۱۸۱۷ کے بعد ذکر کیا جاتا، نیز یہ بھی احتمال ہے کہ مراد عبداللہ شعیشی کے طریق سے وارد حدیث ہو ایسی صورت میں یہ کلام اپنے محل ہی میں ہو گا۔ ۲؎: یعنی حدیث رقم:۱۸۱۶، جسے وہ سعید بن عبدالعزیز سے روایت کر رہے ہیں، اس میں عنبسہ بن ابی سفیان ہیں جب کہ اس میں محمد بن ابی سفیان ہیں جو غلط ہے۔